نصیحتوں کے بارہ میں فتح خان افغان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَكَفَى وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِي اصْطَفَى تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پرسلام ہو۔
آپ کا مکتوب شريف جوفقرا کی کمال محبت و اخلاص پرمشتمل تھا۔ پہنچاحق تعالیٰ فقرا کی محبت پر آپ کو استقامت بخشے۔
سب سے اعلی نصیحت جو دوستان سعادتمند کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ سنت سنیہ علی صاحبها الصلوة والتسلیم کی متابعت کریں اور بدعت ناپسندیدہ سے بچیں۔ جو شخص سنتوں میں سے کسی سنت کو جو متروک العمل ہو چکی ہو زندہ کرے تو اس کے لیے سو شہید کا ثواب ہے تو پھر معلوم کرنا چاہیئے کہ جب کوئی فرض یا واجب کوزندہ کرے گا تو اس کو کس قدر ثواب ملے گا۔ نماز میں ارکان کا تعدیل کرنا جو اکثر علماء حنفیہ کے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسف اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے بعض علماء حنفیہ کے نزدیک سنت۔ اکثر لوگوں نے اس امر کو ترک کردیا ہوا ہے اس ایک عمل کا زندہ اور جاری کرنا سوشہید فی سبیل اللہ کے ثواب سے زیادہ ہوگا۔ باقی احکام شرعیہ یعنی حلال و حرام ومکروہ کا بھی یہی حال ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ نیم دانگ( آدھی دمڑی) اس شخص کو واپس دے دینا جس سے خلاف شرع ظلم سے لیا ہو۔ دو سو درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص کے نیک عمل پیغمبر کے نیک عملوں کی طرح ہوں اور اس پر نیم دانگ جتنا کسی کا حق باقی رہا ہو تو اس شخص کو بہشت میں نہ لے جائیں گے جب تک اس نیم دانگ کو ادانہ کرے گا۔
غرض ظاہر کو احکام شرعیہ سے آراستہ کر کے باطن کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے تاکہ غفلت کے ساتھ آلودہ نہ رہے کیونکہ باطن کی امداد کے بغیر احکام شرعی سے آراستہ ہونا مشکل ہے۔ علماء صرف فتوی دیتے ہیں اور اہل اللہ کام کرتے ہیں۔ باطن میں کوشش کرنا ظاہر کی کوشش کو مستلزم ہے اور جو کوئی باطن ہی کی درستی میں لگا رہے اور ظاہر کی پروا نہ کرے وہ ملحد ہے اور اس کے دہ باطنی احوال استدراج ہیں۔ باطنی حالات کے درست ہونے کی علامت ظاہر کو احکام شرعیہ سے آراستہ کرنا ہے۔ استقامت کا طریق یہی ہے وَالله سُبْحَانَهُ الْمُوَفِّقُ (اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے)۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ288ناشر ادارہ مجددیہ کراچی