الرحيق المختوم شیخ شہاب الدین عمر سہروردی

الرحيق المختوم

مقدمہ

از حضرت شیخ الشیوخ( شہاب الدین  عمرسہروردی ) رضی اللہ عنہ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا ‌رَشَدًا

شروع اللہ کے نام سے جو نہایت رحم والا مہربان ہے ۔ اے اللہ مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا میرے ہر کام میں رشد و ہدایت نصیب فرما ۔

سب حمد و ثنا  اس اللہ کے لئے ہے جس کاوجو دسب اشیاءسے پہلے کا ہے اور جس کاجو دو کرم سب اشیاء پرعام ہے ۔ایسی حمد جو اس نے اپنی ذات کے لئے پسند فرمائی اور جو اس کی قدوسیت کی عزت کا تقاضا ہے

اور درود بھیجے ا للہ ہمارے سردار حضرت محمد مصطفے پر جو مخلوق میں سب سے بہتراور فضیلت میں سب سے بڑھ کرہیں اور آپ اللہ تعالی کوپانے کا قریب ترین وسیلہ ہیں اور آپ کی آل پر جو دین کے ستارے ہیں اور آپ کی پاک صفات بیبیوں پرجو مومنوں کی مائیں ہیں۔ ایسا درو دجس  کا سلسلہ منقطع نہ ہواور  جس کاخاتمہ کبھی نہ ہو۔

اما بعد واضح ہوکہ بعض لوگوں نے جو میری صحبت میں رہے اور نہیں صدق دل سے میری طرف میلان ہے مجھ سے فرمائش کی کہ میں ان کے لئے اس علم کے جوپوشیدہ ہے کچھ رموز اوراس بھید کے جو محفوظ ہے کچھ اشارے لکھادوں۔ ایسے رموز واشارے جو نیک عمل اور حکمت کے پھل ہیں اور صرف انہیں کو حاصل ہوتے ہیں جو مجاہدوں کے سمندر میں غوطے لگاتے رہتے ہیں، اور سوائے ان کے جو انوار مشاہدات سے نوازے جاتے ہیں۔کسی اور کو نصیب نہیں ہوتے۔ یہ د لوں کے وہ پوشیدہ اسرار میں جو سوائے ریاضت کے  اورکسی طرح ظاہر نہیں ہوتے۔ اور ایسے انوار ہیں جن کی چمک عالم غیب سے آتی ہے اور سوائے ریاضت کرنے والوں کے قلوب کے اور کسی پرمنکشف نہیں ہوتے ۔

پس ایسے لوگ  جو اللہ تعالیٰ  کی قدرت وشان کے بارے میں کسی دھوکے میں  ہیں۔ وہی اس سے انکار کرتے اور پیچھے ہٹتے ہیں (اس کی سندمیں یہ حدیث شریف ہے )

ہمیں حافظ ابوجعفرنے خبر دی، ان سے ابوصالح احمد بن عبدالکریم نے حدیث کی۔ انہوں نے محمد بن حسین سے سنی، اس نے ابوحامد عبداللہ ہروی سےسنی۔ ان نے نصر بن حارث سے ۔ انہوں نے حضرت  عبد السلام  بن صالح سے ۔ انہوں نے ابوسفیان بن عینیہ سے ۔ان نے ابن جریج سے اور انہوں نے حضرت عطاء سے سنی اوران سے روایت کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا ۔

” علم میں  ایک شے ایسی ہے  جس کی ہیئت سیپ میں چھپے ہوئے موتی کی طرح ہوتی ہے جسے سوائے اللہ تعالی کے خاص علماء کے کوئی اور نہیں جانتا جب وہ اسے گفتگومیں لاتے ہیں تو اس سے سوائے ایسے شخصوں کے جو اللہ تعالی کی طرف سے ہی دھوکے اور بے خبری میں پڑے ہو ئےہیں کوئی اور انکار نہیں کرتا ۔

پس یہی وجہ تھی جو میں نے درخواست کرنے والوں کی استدعاقبول کر لی اور اللہ تعالی سے درستی دصواب پر رہنے کی توفیق چاہتا ہوں ۔

( شیخ الشیوخ )شہاب الدین عمربن محمد سہروردی ( بانی سلسلہ عالیہ سہروردیہ)

فصل نمبر 1 عنایت ازلی

جان لوکہ عنایت از لی” ولایت” کے لئے واجب و لازم ہے یعنی ولایت کا ملنا سراسر اس عنایت ربانی پر منحصر ہے جوازل سے کسی کے حصہ میں آئی ہے۔

اگر عنایت از لی نہ  ہو تی تو نہ حضرت آدم علیہ السلام  کو قرب نصیب ہوتا اور نہ ہی ابلیس پرلعنت پڑتی اور اگر یہ نہ ہوتی تو حضرت موسی علیہ السلام  آگ لینے کے بہانے جاتے اور نہ” اصطفاء”یعنی پسندیدگی و بزرگی کے مقام پر فائز ہوتے

‌جحودي ‌لك ‌تقديس                   وعقلي فيك تهويس

فمن آدم إلاك             ومن في البين إبليس

اے  اللہ میراانکار کہ میں تجھے  نہ جان سکا عین  تیری تقدیس ہے اور تیرے بارے میں میری عقل کی سعی عین مکرو فریب ہے۔ اسے رب اگرتوہی نہ ہوتا  تو نہ  آدم ہوتا اور نہ ہی ابلیس بیچ میں پڑنا) ۔

پس  اللہ اور اسکے بندوں  کے درمیان سوائے اس کے کرم  کے کوئی نسبت ہی نہیں ہے اورنہ  ہی  اس کی حکمت سوا اور کوئی سبب ہے ۔

ازل ہی سے اللہ پاک ایک قوم سے راضی ہو گیا پس اس قوم سے اہل رضا کے سے اعمال صادر ہوئے پھر ان کے رب نے انہیں  برگزیدہ فرمایا اور عفو کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوا اور  انہیں ہدایت بخشی  اور اسی طرح ازل سے ہی ایک قوم سے ناراض ہو ا لہذا اس قوم سے ناپسندیدہ لوگوں کے سے اعمال سرزد ہوئے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی خود ارشاد فرماتا ہے وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ ‌فَثَبَّطَهُمْ لیکن اللہ تعالی نے  ان کے کاموں اور حرکتوں  کو پسند نہیں فرمایا اورا نہیں پست ہمت اور سست ارادہ کر دیا

‌كَيْفَ ‌السَّبِيْلُ ‌إِلَى ‌مَرْضَاةِ مَنْ غَضِبَا مِنْ غَيْرِ جُرْمٍ وَلَمْ أَعْرِفْ لَهُ سَبَبَا

ایسے روٹھے ہوئےکوبھلاکیسےمنایاجائے جوبلاجرم وخطا ہی خفا ہوجائے اور ہم اس کی خفگی کا سبب بھی نہ جانتے ہوں ۔

یہ حدیث شریف میں شیخ حداد ابو نعیم سے پہنچی ہے اور انہیں سنائی ابو الحسن محمد بن کیسان نے اوران کو اطلاع دی ابو اسماعیل  بن اسحاق نے انہیں بتایا شیخ  اسرائیل نے انہیں روایت پہنچی حضرت  ابی اسحاق  سے اور انہیں حضرت براء رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایاکہ غزوہ خندق کے دن میں نے حضرت رسول  اللہ ﷺ کودیکھا کہ ہمارے ساتھ مٹی اٹھاا ٹھاکرپھینکتے جاتے تھے اور یہ ارشادفرماتے جاتے تھے ۔

وَاَللهِ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا          وَلَا ‌تَصَدّقْنَا ‌وَلَا ‌صَلّيْنَا

فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا                    وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا

وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا       إِذَا يَقُولُوا اكْفُرُوا أَبَيْنَا

خدا کی قسم اگر اللہ نہ  چاہتاتونہ تو ہم ہدایت ہی پاتے اور نہ صدقہ خیرات کرتے اور نمازیں پڑھ سکتے۔ پس اے اللہ ہم پر اطمینان (سکینہ )نازل فرما اورہمیں دشمن کے مقابل ثابت قدم رکھ مشرک لوگ ہم پہ بغاوت کر کے چڑھ آئے ہیں اور وہ فتنہ وفساد پھیلا ناچاہیں گے تو ہم انہیں ایسا نہ کرنے دیں گے)

بلعم باعور سے لباس عصمت چھین لیاگیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو ابتداء سے ہی رشد ہدایت نصیب ہوئی پس یہی اصل ہے اور اس کے سوا باقی سب فصل ہے۔

‌مَا ‌حيلتي ‌تفعل الأقدار مَا أمرت          وَالنَّاس مَا بَين ذِي غي وَذي رشد

جب کہ تقدیر میں لکھے  حکم کے مطابق ہی  عمل میں آتا ہے  تو پھر میں کیا تدبیر کروں   تقدیر ہی کے سبب لوگ گمراہی پکڑتے ہیں اور تقدیرہی سے ہدایت پاتے ہیں )

فصل  نمبر 2حجاب وشہود

تمہارے اپنے وجود کے سوا اور کوئی حجاب نہیں اور تمہارے اپنے شہود کے سوا اور کوئی غیبت نہیں پس اپنے شہود سے غائب ہوجاؤ تب تم حاضر ہو گے اور اپنے وجود سے فنا ہو جاؤ تب تم واصل |  ہوگے۔

اگردلوں کے آئینے زنگ آلود نہ ہو چکے ہوتے  تو تم ان میں عجائبات کا نظارہ کرتے اگر دلوں کی بینائیاں ہی  گم نہ ہو چکی ہوتی تو عاقبت کی امور ان پر ظاہر ہوجاتے لیکن ان پر گناہوں کا رنگ چڑھ گیا اس لیے وہ اس غیبب کے مطالعہ سے محجوب ہوگئے اور نفسانی خواہشات کی کثافتوں  انہیں تاریک  کردیا (تاریکیوں نے انہیں کثیف کر دیا)اور شہوات کے حجاب اورجھکے  اورحجابات کی یہ پردے جلد جلدی کرتے گئے پس نہ میرے ذکر سے اب اسے فائدہ ہوگا اور نہ کسی نصیحت سے وہ  فلاح پائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

أَفَلَا ‌يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ یہ  لوگ آخر قرآن پاک میں تدبرکیوں نہیں کرتے

أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا کیا ان کے دلوں قفل ہی پڑ گئے ہیں ؟

لَهُمْ قُلُوبٌ ‌لَا ‌يَفْقَهُونَ بِهَا ان کے دل ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

فصل نمبر 3 اصول اور وصول

جب تک اصول کی حفاظت نہ کی جائے اور نفس کو اخلاق ذمیمہ اور خراب اور قابل مذمت باتوں سے پاک نہ کیا جائےاور حیوانی، درندانی اور شیطانی خصلتوں کوفرشتوں کی سی صفات اور اچھی پسندیدہ عادات سے نہ بدل دیا جائے اس وقت تک کوئی ” واصل” بحق ومعرفت نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ ایک  مقام سے دوسرے مقام پر ترقی صرف اس فضیلت و خوبی کی کرامت سے حاصل ہوسکتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے  بنی آدم کو عنایت فرمائی ہے اور اس فضیلت سے ممکن ہے جو اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو دوسری مخلوقات  پر اپنے  ہم جنسوں پرعطافرمائی ہے ۔

اللہ پاک اپنے “محبوب و مراد “اشخاص کی پرورش  جس طرح چاہتا ہے فرماتا ہے   اور جیسے چاہتا ہے ان کی تربیت فرماتا ہے ۔” بساط انس” پرایسے اشخاص نعمتوں سے مالا مال ہیں اور بارگاہ قدس میں مرتبہ قرب پر فائز ہیں جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ سے حضرت معروف کرخی  رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا    گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا :۔

انہیں رحمان کی گود میں رحمان کے گھر سے گندم کی روٹی کے ساتھ مکھن عطا فرمایا گیا ہے  یعنی اللہ کریم  نے انہیں اپنے قرب میں لاڈ اور پیار اور نہایت ناز و نعمت سے پالا ہے

بنو حقّ قضوا بالحقّ ‌صرفا         ‌فنعت الخلق فيهم مستعار

وہ خالص حق و صداقت کی غذا میں پلے ہوئے اہل حق ہیں حق نے اپنی صفات انہیں مستعار عنایت فرما رکھی ہیں۔

اور مرید و محب اشخاص کا  یہ حال ہے کہ کبھی اللہ عز و جل  ان پر جلال کے ساتھ تجلی فرماتا ہے۔ تو ایسے عاشق قلق و اضطراب میں پڑجاتے ہیں اور کبھی اللہ  کریم جمال کے ساتھ  تجلی  فرماتا ہے وہ تازگی اور فرحت و انبساط میں آجاتے ہیں پس وہ خوف اوررجاء (امید)کے درمیان بدلتے رہتے ہیں (یعنی کبھی ان پرخوف کی حالت طاری رہتی ہے اورکبھی امید غالب آجاتی ہے) کبھی ان کے قدم پیچھے ہٹتے ہیں ڈر اور خوف کی حالت میں اور کبھی وہ (امیداوربھروسہ پر) قدم آگے بڑھاتے ہیں اور اپنے رب کو خوت وطمع (یعنی ڈر کے ساتھ امید بخشش و عنایت بھی رکھتے ہیں) کے ساتھ پکارتے جاتے ہیں۔ رب کریم ان کوعزت کے ساتھ تربیت فرماتا ہے اورلطف وکرم کے ساتھ ان کی ہدایت و رہنمائی فرماتا ہے ۔

‌أدَّبْتَني بانصرافِ الطَّرْفِ يا ثِقَتي           فانظُرْ إليَّ فقد أحسَنْتَ ‌تأديبي

ائے میری آرز و تو نے کیسے متوجہ ہوکر مجھے سلیقہ سکھایا ہے  پس اب میری  طرف نظر فرما  اور دیکھ کہ تونے مجھے کیا ہی اچھا ادب سکھایا ہے ۔

فصل نمبر 4۔دین اسلام

اسلام یہ ہے کہ امرالہی کی اطاعت   کرنا ظاہرمیں اور اس کے حکم کے سامنے سر جھکانا باطن میں

فَلَمَّا ‌أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِپس حضرت ابراہیم      علیہ السلام نے اس کو تسلیم کیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام  کو ماتھے کے بل پچھاڑا۔( قرآن کی یہ آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی اللہ پاک کے حضورمیں اپنے بیٹے حضرت اسمعیل  علیہ السلام  کرنے اور اس کا اسکو برضا و رغبت قبول کرنے کے واقعہ کی طرف نہایت بلیغ اشارہ ہے اور بلاغت کلام کی جان ہے ؟)

یہ نفس کو مجاہدہ کی تلوار سے ذبح کرنے کا ثمرہ ہے اور اس کا نتیجہ  وہ خوشی ومسرت ہے جو حق کے ظاہر ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔

هَلْ أَنْتِ إِلَّا ‌إِصْبَعٌ ‌دَمِيتِ            وَفِي سَبِيلِ اللهِ مَا لَقِيتِ

تو ہے کیا بس ایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور مجھ پر جوبیتی وہ اللہ کی راہ میں بیتی۔( یہ حدیث مبارکہ ہے جب ایک مرتبہ جہاد میں  حضرت رسول اللہ ﷺ کی انگلی زخمی ہو گئی  اور اس سے خون بہہ نکلا تو آپ نے انگلی کو مخاطب کرکے یہ ارشاد فرما یا)

اور اس مسئلے کی اصل اللہ بزرگ و برتر کا یہ ارشاد مبارک ہے :۔

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ ‌أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے پرور دگارنے ارشاد فرمایا کہ میری ہی فرماں برداری کرد توانہوں نے جواب میں عرض کیا کہ میں رب العالمین کا فرماں بردار ہوا ) نیز اس (مسئلے) کی اصل حضرت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی  بھی ہے جب کہ آپ نے روم کے بادشاہ ہرقل کو مندرجہ ذیل مکتوب مقدس تحریرفرمایا

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، ‌فَإِنِّي ‌أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ  الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَينِ . الخ –

بسم الله الرحمن الرحيم محمداللہ کے بندے اوراس کے رسول کی طرف سے ہرقل بادشاہ روم کے نام ہدایت الہی پہ چلنے والوں پر سلام (سلامتی) اور اللہ پاک کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ امابعد( اسے بادشاہ روم) میں تجھے دین اسلام (اختیار کرنے )کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آ، سلامتی پائے گا ۔(دنیا اور آخرت )میں اللہ پاک  تجھے دو گنا اجر عطا فرمائے گا ۔

فصل نمبر 5ایمان

ایمان یہ ہے کہ طمانیت قلبی حاصل ہو جا ئے  کہ اللہ تعالیٰ  بندوں کی کل حاجات کا کفیل اور ضامن ہے اور اس بارے میں تمام شک وشبہ مٹ جائے اور یہ بات مخبر صادق حضرت رسول اللہ ﷺ پر اعلی ور جےکاحسن اعتقاد رکھنے کاثمر(انعام) اور اللہ تعالی کی طرف  پوری طرح متوجہ ہوکر اس کے اسم پاک کے ذکرمیں لذت حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

( حاصل یہ کہ جب تک طمانیت قلبی حاصل نہ ہو اس وقت تک ایمان کمل نہیں اور یہ حضرت رسول اللہ ﷺپرانتہائی  حسن اعتقا در کھنے کے انعام میںملتا ہے جب کہ بندہ پر مقامات لذت کھل جاتا ہے اور وہ ذکرالہی میں ناقابل بیان لذت  محسوس  کرنے لگتا  جس کے نتیجہ میں سالک ہمہ تن  متوجہ ہو کر  ذکر و مراقبہ میں مشغول  ہو جاتا ہے۔)

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ ‌تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اوراللہ تعالی کے ذکر سے ان کے قلوب کواطمینان نصیب ہوا۔ سن لو   اللہ تعالی کا ذکردلوں کو اطمینان بخشتا ہے ۔

إِذَا أُمَّ طِفْلٍ رَاعَهَا ‌جُوعُ ‌طِفْلِهَا                         دَعَتْهُ باسم الفضل فاعتصم الطِّفْلُ

جب کہ بچے کی ماں کو اس کے بیٹے کی بھوک بے قرار کرتی ہے تو وہ اس کا نام لے لے کر اس کے بدن کو پوری پوری غذا پہنچاتی ہے۔

فصل نمبر 6 درجہ احسان

درجہ احسان یہ ہے کہ اللہ تعالی کا ذکرہرسانس کے ساتھ بحضوری قلب کیا جائے اوریہ کیفیت دوامی حیثیت حاصل کرلے اورہمہ وقت بندہ  یہ یقین رکھے (عملا) کہ اللہ جل شانہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور یہ اس بات کے علم ویقین کاثمرہ (ا نعام) ہے کہ اللہ  تعالی قیوم ہے  (یعنی ہر  چیز کاقائم رکھنے والا ہے۔) وہی پیداکرتا ہے اور وہی اس کی پرورش و نگہداشت کرتا ہے اور تمام اشیاء اللہ تعالی کی محتاج ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندے میں حیاء کا ایک شعور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ خود پر و فا(یعنی امر ونہی کی مکمل پابندی) لازم کرلیتا ہے ۔

‌كَأَنَّ ‌رَقِيْبًا ‌مِنْكَ ‌يَرْعَى ‌خَوَاطِرِي                    وَآخَرَ يَرْعَى نَاظِرِي وَلِسَانِي

فَمَا رَمَقَتْ عَيْنَايَ بَعْدَكَ مَنْظَرًا                  يَسُؤُكَ إِلَّا قُلْتُ قَدْ رَمَقَانِي

وَلا بَدَرَت مِن فِيّ بَعدَكَ لَفظَةٌ                        لِغَيرِكَ إِلَاّ قُلتُ قَد سَمِعَانِي

وَلا خَطَرَت مِن ذِكرِ غَيرِكَ خَطرَةٌ                  عَلَى القَلبِ إِلَاّ عَرَّجَا بِعَنَاني

وإخوان صدق قد سئمت لقاءهم                وغضضتُ طرفي عنهم ولساني

وما الزهد أسلي عنهم غير أننى                    وجدتك مشهودى بكل مكانى

وانی لاستحیک والبعد بیننا                         کما کنت  استحیی وانت ترانی

تیری طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے جو میرے خطرات باطن کی دیکھ بھال کرتا ہے، اور ایک دو سراہے جومیری آنکھ  و زبان کی نگرانی کرتا ہے۔ میری آنکھوں نے تیری مثل کوئی شے ایسی نہیں دیکھی جو تجھے بری معلوم ہومگر میں نے کہاکہ دونوں نگہبانوں مجھے دیکھ لیا اور میرے منہ سے کبھی مزاح کے طور پر بھی کوئی کلمہ ایسا نہیں نکلا جوتری ناخوشی کا باعث ہو مگر میں نے کہا کہ ان دونوں نگہبانوں نے میری بات سن لی۔ اور میرے دل میں کسی ایسے کھٹکے کا گذر بھی نہیں ہوا جو تیرے ماسوا کا ہو(یعنی  میرے دل میں کبھی شرک کا کھٹکا نہیں ہوا)مگران دونوں نے مجھے روک دیا اورمیری با گ پکڑلی۔

نیز ایسے بہت سے برادران صدق وصفاہیں جن کی باتیں میں نے سنی ہیں مگران لوگوں پر میں نےاپنی نظروں اور زبان  کو بند ہی رکھا (یعنی ان سے کوئی تعلق قائم نہیں کیا)۔

اور ان سے ترک تعلق پر مجھے اس کے سوا کسی اور بات نےآمادہ نہیں کیا میں نے ہرجگہ تیری ہی قدرت کا مشاہدہ کیا اور تجھ کوہی مشہو د(حاضر )پایا۔

جب ہم میں جدائی اور بعد ہوتا ہے تب بھی میں تجھ سے  اسی  طرح حیا کرتا ہوں جس طرح کہ  میں  اس وقت حیا کرتا ہوں جب کہ تو مجھے دیکھ رہا ہوتا ہے( اور بعد نہیں ہوتا)

فصل  نمبر 7مناز ل نفس اور مناہل قلب

نفس کے لئے منزلیں(یعنی نفس کی تربیت منازل میں ہوتی ہے اور قلب کو دوران تربیت فیوض وانوار سے سیراب کیا جاتا ہے ۔) ہیں اور قلب کے لئےچشموں کے پنگھٹ(کنویں نہر یا دریا کے کنارے پانی لینے یا بھرنے کے لیے بنی ہوئی جگہ، پانی بھرنے کی جگہ جو گھاٹ پر ہوتی ہے) اور جب نفس مجاہدہ سے  رک کر کسی منزل ٹھہرتا ہے تو مشاہدہ کے ذریعہ پنگھٹ تک پہنچ جاتا ہے۔( اس طرح نفس بھی فیوض و انوار سے حصہ پاتا ہے اور بالآخر  نفس مطمئنہ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے ۔) اور جب نفس کو کسی جگہ چادرمل باقی ہے تو قلب بھی لباس پہن لیتا ہے اورجب نفس کسی تہذیب سے مزین ہوتا ہے تو قلب بھی قرب کا شر ف پاتا ہے۔( جب تک  نفس را ہ ہدایت پر قائم رہتا ہے تو قلب ونفس میں  ہم آہنگی قائم ہوجاتی ہے اور ایک کی اصلاح دوسرے کی معاون بنتی ہے اور راہ ہدایت آسان سے آسان تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔) اور اس کی دلیل حضرت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جو آپ آپ اللہ عزوجل  کی طرف سے یوں بیان فرماتے ہیں :

وَمَنْ تَقَرَّبَ ‌مِنِّي ‌شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا، وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي ‌أَتَيْتُهُ ‌هَرْوَلَةً

جوکوئی مجھ سے ایک بالشت بھر قریب ہوتا  ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ  بھر قریب ہوجاتا ہوں ۔ جو کوئی مجھ سے ایک باتھ قریب ہوتا ہے تومیں اس سے دو ہاتھ قریب تر ہو جاتا ہوں۔ اورجو کوئی میرےپاس آہستہ رفتارسے بھی آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں)

فصل نمبر 8 نفس کی پہلی منزل  اراده

پہلی منزل   جس پرنفس مجاہدے کے ذریعے اترتا ہے ارادہ ہے اور یہ نفس کی بیداری ہے کہ وہ غیراللہ  سے آرام سکون پانے سے پرہیز کرنے لگتاہے اور غیر اللہ سے مکمل خلاصی حاصل کرناچاہتاہے یہ ارادہ  ثمرہ  ہے  علم کا  اور اس کے ساتھ فرقہ صوفیہ کی بیعت کرنے کا اور نتیجہ ہوتا ہے مقدور بھر سعی و مجاہدہ کرنے کا اور حسب طاقت استغراق پیدا کرنے کا نیز اس کے ساتھ اختیار کے متعلق شکوہ ترک کرنے اور تقدیر کو بے چون و چرا تسلیم کرنے کا۔

 اوریہ حقیقت ہے لوگوں سے  لا تعلقی   اختیار کرنے اور حق تعالیٰ  کی طرف  رجوع  ہونے کی اس طور  جیسا  کہ سیر سلوک( تصوف) کے آداب میں ہے نیز صبر وتحمل کواختیار کرے اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہر سانس کے ساتھ ذکر الہی جاری رہے اور لوگوں سے قطع تعلق کر لیا جائے ۔

إِذَا شَامَ الْفَتَى ‌بَرَقَ ‌الْمَعَالِي        فَأَهْوَنُ فَائِتٍ طِيبُ الرُّقَادِ

جب کوئی جوانمر وکسی بڑے کام کاارادہ کرتا ہےتوسب  سے کمتر  چیز  جو اسے کھونی پڑتی ہے وہ چین سے سوناہے ۔

فصل نمبر 9  قلب کی پہلی پنگھٹ دیدار

قلب کی پہلی پنگھٹ دیدار اور جب نفس اس منزل پر آجاتا ہے توقلب پہلی  پنگھٹ  پر وارد ہوتاہے جہاں وہ دیدارکے چشمے سے سیراب ہوتاہے اور مشاہدات انوار الہی کی بارش صوفی کے قلب پر ہوتی ہے۔ اور یہ  یوں ہے کہ ازل ہی  حبیب (اللہ )کے لطف نے قلب پراپنی نظر ڈالی ہوئی ہے پس اللہ جل شانہ اسے قریب کرلیتا ہے۔ اور زیب و زینت  سے اسے آراستہ  کر لیتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے

فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ یعنی حضرت یوسف  علیہ السلام   کو جب زنان مصر نے دیکھا تو دیدار ہوتے ہی ان کے حسن سے مبہوت ہو گئیں اور پھلوں کے بدلے خود ہی اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور درد تک محسوس نہیں  کیا اور کہنے لگیں : حاشاللہ  یہ آدمی نہیں بلکہ ایک بزرگ فرشتہ ہیں ۔

سقياً لمعهدك الذي لو لم يكن                    ‌ما ‌كان ‌قلبي ‌للصبابة معهدا

اے میرے پیرومرشد آپ کا عہدسیراب ر ہے۔ اگر یہ نہ  ہوتا تو میرا قلب  کبھی  محبت کی جائے قرار نہ بنتا ۔( سبحان اللہ پیرومرشد کا واسطہ اور ذریعہ کتنا مبارک ومقدس ہے جومرید کے درون قلب کو صاف کر کے اس میں عشق الہی کی جوت جگا دیتا ہے۔ الف اللہ چنبے دی بوٹی  مرشد من میرے وچہ  لائی ہو۔

 کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اللہ پاک  نعمت سے نوازتا ہے اور بیعت مرشد سے مشرف ہوتے ہیں۔ )

 یہ قلب کی  اپنے رب کی طرف سیر کی ابتدا ہے  اور یہ حق تعالی کا  بندے  کو اپنے انوار  میں جذب کرنے کا ثمرہ  ہے جوکہ اس کے جمال کی چمک سے پیدا ہوتا ہے اس کا  نتیجہ  یہ ہوتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ  کی محبت قلب میں  جاں گزیں ہو جاتی ہے اور بندے کو اپنی طرف متوجہ کر کے ماسواء سے فارغ اور لا تعلق کر دیتی ہے ۔ اور اسے کامل جلوت کی خلعت عطا ہوتی ہے جسے پہن  کہ وہ دیدار الہی سے مشرف ہوتاہے۔

أَتَانِى هَوَاهَا قَبْلَ أَنْ أَعْرِفَ الْهَوى                ‌فَصَادَفَ ‌قَلْباً ‌خَالِياً ‌فَتَمَكّنَا

قبل اس کے کہ  میں محبت کو  پہچانوں  وہ خود میری طرف آئے اور میر اقلب میل کچیل سے پاک وصاف کرکے وہاں اپنے لئے جگہ بنائے۔

فصل نمبر 10نفس کی دوسری منزل توبہ

پھراس کے بعدنفس توبہ کی منزل میں اترتا ہے توبہ کے معنے ہیں پلٹ جانا  پس توبہ سے مراد  یہ ہے کہ نفس کو ان تمام مالوفات سے باز رکھناجو خواہشات اور آر زوؤں کی پیروی کرنے سے پیدا ہوجاتی ہیں اور جسے نفس پسند کرتاتھا تاہم اس منزل پر آ کر قلب غفلت کی نیند سے بیدار ہوجاتا ہے اورزندگی کے گذشتہ زمانے میں تقرب الہی کے حصول میں جو غفلت برتی اور نتیجہ کے طورجوعصیاں سرزد ہوئے اور جو حسنات اسکے اعمال میں داخل نہ ہوسکیں ان سب پر ہندہ ندامت کا اظہار  کرتا ہے۔ اور اس کا  نتیجہ  یہ ہوتا ہے کہ آئیندہ زمانے میں جو  کچھ پیش آنے والا ہے اس کی حفاظت پر دل و جان سے بصدخلوص آمادہ ہوجاتا ہے اور اچھے اوقات جوہاتھ سے نکل گئے ہیں اس پر افسوس و ندامت کا اظہار کرتا ہے ۔

‌وَأَذْكُرُ ‌أَيَّامَ ‌الْحِمَى ثُمَّ أَنْطَوِي    عَلَى كَبِدٍ مِنْ خَشْيَةٍ أَنْ تَتَصَدَّعَا

میں گرمجوشی کے زمانہ کو  یاد کرتاہوں۔ مگراس ڈر سے کہ کہیں میرے جگر کے ٹکڑے  نہ ہو جائیں  اس کی نگہداشت کی طرف توجہ  کرتا ہوں۔

فصل نمبر 11قلب کی دوسری پنگھٹ ” ذوق

جب نفس اس منزل پر اترتا ہے توقلب ذوق ولذت کے پنگھٹ پر وارد ہوتا ہے اور یہاں اسے محبت کی خوشگوار ہوا اور  قرب  کی ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے ۔ لہذاب اسے نعمتوں کے حصول میں جن مصائب کا سامناکرنا پڑتا ہے ان میں اسے مزا آنے  لگتا ہے یعنی  صوفی کواس مقام پر پہنچ کر ریاضت و مجاہدے ایسی لذت ملنے لگتی ہے کہ وہ اس کے لئےعین راحت بن جاتی ہے اور وہ اس ریاضت و مجاہدے کے ذریعے  اللہ پاک کا قرب حاصل کر لیتا ہے ۔ اللہ جل شانہ (ہماری زبان میں) ارشاد فرماتا ہے:۔

وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا ‌لَمُنْقَلِبُونَ “ ہم سب ایک نہ ایک دن اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔

یہ در حبیب پرٹھہر جانےکا پھل ہے اور اس کے نتیجہ میں  کامیابی کی ٹھنڈی ٹھنڈی  نسیم سحری  کیلئے  پردے اٹھ جاتے ہیں اور فلاح کی بجلی چمکنے لگتی ہے ۔

‌وَلَقَدْ ‌تَنَسَّمْتُ ‌الريَاحَ لَعَلَّني      أَرْتَاحُ أَنْ يبعثن منك نسيما

 میری حاجت روائی کے لیے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور اس وقت تمہاری ہتھیلیوں کی خوشبو میں میری کامیابی ہے۔

 اس سب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تجھ میں  نیکی کرنے کی حرص  پیدا  ہو جاتی ہے اور خواہشات نفسانی کی طلب  میں قدم اٹھنے سے بیکارہوجاتے ہیں ( رک جاتے ہیں) اوراللہ کے سوادوسروں سے تعلق قائم نہیں رہتا بس  محبوب (اللہ  پاک) جو چاہتااور پسند  کرتاہے یا اس کے حصول کے لئے اس کے گرد چکر کاٹنے لگ جاتاہے ۔

أَبَى القَلْبُ إِلَّا امَّ عَمْرٍ وفَأَصْبَحَتْ                     صَفِيَّتُهُ إِنْ زَارَهَا أوْ تَجَنَّبَا

‌عدُوّ ‌لِمَنْ ‌عَادَتْ وَسِلْم لِسِلْمهَا                     وَمَنْ قَرَّنت لَيْلَى أَحَبَّ وَقَرَّبَا

 شاعر کہتا ہے، سوائے ام عمر  کے اورکسی طرف دل مائل نہیں ہوتا اور وصل وفراق دونوں صورتوں اس کی دوستی قائم رہتی ہے۔ اس کا دشمن  میرا دشمن اور اس کا دوست میرا دوست ہوتا ہے۔ اور جس  سے  لیلی کو قرب ہوتا ہے وہی زیادہ محبوب ہوتا ہے۔

فصل نمبر 12 نفس کی تیسری منز ل ورع

پھر اس کے بعدنفس ورع یعنی پرہیزگاری کی منزل پر اترتا ہے ۔

ورع  سے مراد ہے نفس  کو اس گندگی  سے سختی کے ساتھ بچانا  جو  لوگوں سے میل جول اوران کی  پیروی سے پیدا ہوتی ہے اورحق کی طلب کرنا یہ اس  بات کا ثمرہ  ہوتا ہے کہ صوفی  حجابات  کے وقوع پذیر ہوجانے  اور فیض و معرفت کے منقطع ہوجانے سے خود کو محفوظ رکھتا ہے ۔ اس کےنتیجہ میں  غفلت کی گھاٹیوں میں گر پڑنے  میں تامل اور توقف  و تاخیر کرنا   اور جن نیک اور کھلی کھلی باتوں  کی طرف دل اشارہ کرتا ہے  انہیں تسلیم کرنا اور اپنے ہاتھ پیر کو  احکام الہی کی  تعمیل کا پابند کرنا نیز  جن نیک  باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنایابچے رہنے کی کوشش میں لاپرواہی نہ  کرنا اور یری باتوںمیں پڑ جانے یا خدمت خلق میں کمی کرنے سے بچے رہنا ہے۔

مستوفزون على رجل كأنهمو                        ‌يريدون ‌أن ‌يمضوا ‌ويرتحلوا

وہ لوگوں کے حقوق اس طرح اداکرتے ہیں گویا کہ ان کا  چل چلا ؤہے اور وہ اپنا سامان باندھ رہے ہیں۔

فصل نمبر 13قلب کی تیسری پنگھٹ ” شوق و ولولہ

حب نفس اس منزل پر آیا توقلب شوق وولولہ کی پنگھٹ پراپنی پیاس بجھانے آتا ہے۔ اور یہ  ولولہ و شوق دل کی وہ بے چینی ہے جو محبوب کی طرف گامزن ہونے میں پیدا ہوتی ہے۔ اور باطن کی وہ راحت و رضا ہے جو قرب محبوب میں نصیب ہوتی ہے ۔ اور وہ  ثمرہ ہے نسیم دصال کے ہلکے  ہلکے چلنے کا اور نتیجہ اسکا وہ  عجلت وجلدی ہے جو خدائے عزوجل کے پسندیدہ اور مرضی مبارک کے موافق امور کے طلب میں ہوتی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں حضرت موسی علیہ السلام کا یہ بیان درج ہے ۔

‌وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى اے میرے پروردگار میں نے تیری طرف آنے میں جلدی اس لئے کی کہ تو راضی ہوجائے )

اشتیاق و لولہ  کاتقا ضاخوداشتیاق ہے ۔ اور مشتاق کوبڑی عجلت ہوتی ہے چنانچہ  وہ نہ کسی اور  اچھی چیز کی طرف  مائل ہوتا ہے اور نہ کبھی کسی طرف جھکتا ہے ۔

وحدَّثْتَنِي يا سعدُ عنها فزِدْتَنِي                  ‌جنونًا ‌فزِدْني ‌مِن ‌حديثِكَ ‌يا ‌سعدُ

اے سعدتو نے اس کاذکر کیا  چھیڑا کہ میرا جنوں بڑھا دیا   ایسی باتیں اورزیادہ نہ کر اے سعد

مشتاقوں کے درجے ہوتے ہیں۔ ایک درجہ تویہ ہے کہ مشتاق کوشش کرتا ہے اور قدم آگے بڑھاتا ہے ۔ تو لوگوں کی ملامت بھی ساتھ ساتھ قدم اٹھاتی اور ہمراہ رہتی ہے ۔ وہ معذرت کے قدم کی مد دسے وادی توبہ میں تیز گام ہوتاہے اور اس کا مقصد یہ  ہوتاہے کہ اس کی توبہ  قبول فرمائی جائے۔ پس وہ قبول ہوتی ہے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ مشتاق اافتقار وناداری کے مرکب پرسوار ہوکر مجاہدے کے ساتھ وادئ غبت میں قدم دھرتا ہے۔ اس کا مقصدعطابخشش ہوتی ہے جو وہ پالیتا ہے ۔ تیسرادر جہ  یہ ہے کو مشتاق ق تہذیب و شائستگی کے قدم سے خشوع وخضوع کی سواری پر وادئی رحم کرم میں چلتا ہے۔ اس کا مقصدامان ہوتا ہے جو اسے ملتا ہے ۔

 چوتھے درد میں مشتاق اخلاص کے قدم سے نجات کی سواری پر رجوع الی اللہ اور نیابت کی وادی میں آتا ہے۔اس میں مشتاق کا مقصد اکرام واعزاز ہوتا ہے جو  عطا کیا جاتا ہے۔ پانچواں درجہ یہ ہے کہ مشتاق محبت کے قدم سے شوق کے مرکب پر سوار ہوکر دادی ہیمان  یعنی شدت  عشق کی وادی میں گامزن ہوتا ہے ۔اب اس کا مقصد خود محبوب کی ذات ہوتی ہے

أَشْتَاقُهُ فَإِذَا بَدَا ‌أَطْرَقْتُ ‌مِنْ ‌إِجْلَالِهِ        لَا خِيفَةً بَلْ هَيْبَةً وَصِيَانَةً لِجَمَالِهِ

اس نے مشتاق کیا جب اس نے جلوہ فرمایا تواسکے جلال سے میں سر نگوں ہو گیا۔ خوف سے نہیں بلکہ ہیبت سے اور اس نظر سے کہ اس کے جمال کی صیانت وحفاظت ہوسکے۔

فصل  نمبر 14 نفس کی چوتھی  منز ل – زہد

اس کے بعد  نفس کا زہد کے مقام پر منزل کرنا ہے  زہد سے مراد  دنیا کی طرف التفات اٹھا دینا  ہے اور اس کی طرف توجہ  نہ کرنا ہے۔ اس لئے کہ اس  (دنیا  میں) فائدے کم ہیں اور بلائیں بہت ہیں۔ اور یہ  منزل اس بات کے ثمرے میں ملتی ہے    کہ دیر سے آنے والی شے یعنی دنیا سے نفس بیزار ہوجائے ۔ دنیا کی طرف کم متوجہ ہونا اور اس سے علیحدگی اختیارکرنا اس کا نتیجہ ہے۔ ایسے شخص کواس بات کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ کس طرح دنیا ترک کی۔ اور اس نے جو کچھ ترک کر دیا  وہ مستحق نے لے لیا با غیرمستحق نے یہاں تک اس میں کمی کره دی کے سونا اور پتھر دونوں اس کے نزدیک مساوی ہوجا تے ہیں۔

دنیاکی محبت میں ہمیشہ سے تکلیفیں اور  بڑی بلائیں چلی آئیں چنانچہ دنیا  کی بلائیں یہ ہیں۔ جو روک ٹوک رفیق کی موافقت میں ہو وہ دنیا ہے۔

سلوک جواسی تعلق سے پیدا ہوجائے اور شیطان کے ہاتھ میں گرفتار ہوجانے کی خواہش یہ سب دنیا ہے  زھدا سے کہتے ہیں کہ دنیا اور اس کے ذکرسے  بیگانگی ہو۔ اور آنکھ اس پر( دنیا پر) پڑے اورنہ  زبان پراس ذکر آئے ۔

‌إِذَا ‌انْصَرَفَتْ ‌نَفْسِي عَنِ الشَّيْءِ لَمْ تَكَدْ

إِلَيْهِ بِوَجْهٍ، آخِرَ الدَّهْرِ، تُقْبِلُ

جب میں نے اپنے آپ کو ایک چیز کی طرف سےہٹالیاتوپھر اب میں نہ کبھی اس کےسامنے آؤں گا اورنہ ہی وہ میرے سامنے آئے گی۔

فصل نمبر 15قلب کی چوتھی پنگھٹ عطش (پیاس )

جب نفس اس منزل  پر اتراتو دل  کی عطش( پیاس) بجھانے کے لئے پنگھٹ پر پہنچ گیا۔ قلب میں راحت و وصال کا شوق پیداہوناہی عطش( پیاس )ہے۔ بپھر فراق کی بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ اور اس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ ارادوں  میں صدق اورپختگی پیدا ہوجاتی ہے اور وجد و حال کا  غلبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ سہ در حال نمر و از

انی شربت بكاس من محبتہ                                                فبالغ الشرب في مكنون احشائي

اس کی شراب محبت کا جام لے کرمیں نے پیا ۔ چنانچہ اس کے پینے کا اثرمیری  پوشیدہ انتڑیوں تک جاپہنچا۔

پھراس کے نتیجے میں صوفی اپنے وجود سے گریز اور موجودات سے قطع تعلق کرتا ہے۔سر باطن میں برقی تجلی کے شرارہ کوناخن سے کھرچتا ہے اور نفحات کشف کی ہرروز بھینی بھینی ہوائیں چلنے لگتی ہیں ۔

أَظَلَّتْ عَلَيْنَا مِنْكَ يَوْمًا غَمَامَةٌ                                            أَضَاءَ لَهَا بَرْقٌ وَأَبْطَأَ رَشَاشُهَا

‌فَلَا ‌غَيْمُهَا يَجْلُو فَيَيَأَسُ طَامِعٌ                                                 وَلَا غَيْثَهَا يَأْتِي فَيَرْوَى عِطَاشُهَا

 ایک روز آپ کے بادل نے ہم پر سایہ کیا ۔ اس کی بجلی نے ہمارے لئے روشنی کردی اور اس کی بارش دیرتک رکی رہی ۔ اس کے بادل نہیں برسے حتی کہ امیدوار مایوس ہو گئے اور نہ بارش ہی  ہوئی کہ پیاسے کی پیاس بجھتی۔

تشنگی کے بھی مندرجہ ذیل کئی مراتب ہوتے ہیں ۔

عطش ارادہ :اور ایک عزم  و ارادے  کی پیاس ہے  جو علم سے پیدا ہوتی ہے  اس درجے کے صوفی کو  عازم  کہاجاتا ہے ۔

عطش طلب:، اور ایک طلب وجستجو کی پیاس ہے جو معرفت سے پیدا ہوتی ہے اور صوفی جب اس درجےمیں ہوتا ہے تو اس کو سائر“ کہاجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے سلوک میں  سیرکرنے والا ہوتا ہے۔

عطش شوق نیز ایک شوق کی پیاس ہے جو محبت سے پیداہوتی ہے اور اس درجہ کاصاحب محبت واصل ہوتا ہے اور اس کے اور حق کے درمیان مغائرت و حجاب باقی نہیں رہتا

وَأَعْظَمُ مَا يَكُونُ الشَّوْقُ يَوْمًا     إِذَا ‌دَنَتِ ‌الْخِيَامُ ‌مِنَ ‌الْخِيَامِ

اس روز شوق و ولولہ  بہت زیادہ ہوتا ہے جس دن ان کے خیمہ سے خیمہ قریب ہوتا ہے۔

فصل نمبر 16نفس کے پانچویں منزل فقر

اس کے بعد نفس  منزل فقرپر آتا ہے اور فقریہ ہے کہ کون یعنی  خلق کے مقابلہ میں مُکَوِّنْ یعنی خالق پر اکتفا کیاجائے۔ اور ان دونوں کے درمیان اپنے اختیار و مرضی کو ترک کر دیا جائے ۔ اور یہ نفس کی حقیقت پہچان لینے کاپھل ہے اس لئےفقر یعنی خود کسی شئے کا مالک نہ ہو نا نفس کی ذاتی صفت ہے اور کبھی اس سے جدا نہیں ہوتی جس طرح کی غنی یعنی  خود کسی شے کا مالک ہونا پروردگار  بزرگ و برتر کی ذاتی صفت ہے اور کبھی اس سے جدا نہیں ہوتی اور ازلی وابدی ہے۔

اس منزل پر آنے کا نتیجہ  یہ ہوتا ہے کہ ایسے صوفی کو کسی  چیز میں لذت  نہیں ملتی۔ حق تعالی کی شان یہ ہے کہ سب اس کے سامنے عاجز ومحتاج ہیں اور وہ خود  غیرکا محتاج نہیں ہے۔

‌تَسَتَّرْتُ ‌من ‌دَهْرِي بِظلِّ جَنَاحِه                  فَصِرْتُ أرَى دَهْرِي وَلَيْسَ يَرَانِي

فَلَوْ تَسَلِ الأَيَّامُ مَا اسْمِيَ لما دَرَتْ          وَأَيْنَ مَكَاني مَا عَرَفْنَ مكانِي

میں اس کے بازؤں کے سایہ میں اہل زمانہ سے پوشیدہ رہا ۔ میری آنکھ تو زمانہ واہل زمانہ کو دیکھتی رہی مگروہ مجھے نہ دیکھ سکے۔ اگر تم اہل زمانہ سے میرا نام پوچھو گے تو اسے معلوم نہ ہوگا ۔ اور اگرمیرامکان پوچھو گے تو یہ بھی اس کو معلوم نہ ہو گا )

فصل  نمبر 17قلب کی پانچویں پنگھٹ ” استغراق“

اور جب نفس اس منزل پر اتر آتا ہے تو قلب غرق یعنی فنافی اللہ کے پنگھٹ پرورود کرتا ہے ۔ اور اس سے مراد ہے دل کے التفات و توجیہ  کے تمام راستوں  کا غلبہ انوار کی  وجہ سے بند ہونا۔ اور جیسا کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے

قَدْ ‌شَغَفَهَا حُبًّا” یعنی عشق کے غلبہ نے اسے بے خود کردیا ۔

چنانچہ حضرت زلیخا  رضی اللہ  عنہا حضرت یوسف علیہ السلام   کی محبت میںفناکے درجہ میں پہنچی ہوئی تھی اور اس کو اس کے سوا نام  وناموس اور بدنامی کسی بھی بات کا ہوش ہی نہیں ر ہاتھا۔

‌لَا ‌يَهتَدِي ‌قَلبي إِلَى غَيركُم           كَأَنَّمَا سُدَّ عَلَيهِ الطَّرِيق

میرادل  تمہارے سوا اور کسی غیر کی طرف راستہ ہی نہیں پاتا۔ کیونکہ اورتما م طرف کے راستے اس پر بند کردئیے گئے ہیں۔ اور یہ ثمرہ ہوتا ہے دل کے ہر ایک گوشے کامحبوب سے پر ہوجانے اوردل کا اسی طرف ہمہ وقت مائل و مشغول رہے کا  چنانچہ اس کانتیجہ  یہ ہوتا ہے  کہ سالک علوم کی مدد سے  اپنے احوال کو پختہ  اور قوی کرتا  ہے اور عام رسوم ظاہرہ  مضمحل ہوکر رہ جاتے ہیں ۔

فلمَّا ‌استبانَ ‌الصُّبحُ أَدْرَجَ ضوءُه                 بإسفاره أنوارَ ضوءِ الكواكب

  جب پو پھٹی اور سپیدہ صبح  نمودار ہوا تو اس کے ساتھ ہی تاروں کی ضیاء بھی جاتی رہی ہے

فنا اور اہل فنا کے حسب ذیل مراتب ہوتے ہیں ۔

اول  بیداری والے ہیں جو اس کی عظمت وعزت کے سمندروں میں غوطے لگارہے ہیں۔ دوئم تو بہ والے ہیں یہ انس کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔

سوئم  محبت (حب ) والے ہیں جومشاہدے کے سمندروں میں غوطے لگاتے رہتے ہیں۔

 اور مکاشفہ کی آگ سے جل بھن گئے ہیں پس یہی ہیں وہ لوگ جن کی کشتیاں ٹوٹ گئیں اور موجوں نے انہیں نگل لیا۔ پھر  نہ ان کا کوئی نشان باقی رہااور نہ  کہیں سے ان کی کوئی  خبرآئی۔ اس لئے کہ ان کے سوا جو لوگ تھے انہیں موجوں نے کنارے پر پھینک دیا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں (حق کی مچھلی )نے نگل لیا اوران کی کوئی چیز باقی نہ رہی

راحَتْ مُشرِّقةً ‌ورُحتُ ‌مُغَرِّباً  شتَّانَ بينَ مُشَرِّقٍ ومُغَرِّبِ

وہ مشرق کی طرف  گئی اور میں مغرب کی طرف گیا۔ مشرق کی طرف جانے والوں اور مغرب کی طرف جانے والوں میں بڑا فرق ہے۔

فصل  نمبر 18نفس کی  چھٹی منزل صبر

 پھر اس کے بعد نفس منزل صبرپراتر آتا ہے ۔ اور صبر سے مرادہے نفس کو مجاری وارد ت قضا و قدر  کے مقابلہ  میں قابو میں رکھنا  کہ وہ کسی  قسم کاشکوه د شکایت نہ کرے بلکہ امتحانوں اوربلاوؤں سے لذت اندوزہو۔

 یہ ثمرہ  ہے اس بات کا احکام الہی عین  دل کے اتر جائیں اوران کی عزت وجلال قلب پرچھاجائے اور حق تعالی کے احکام تمام افعال میں جاری وساری ہوجائیں کہ محبوب (حق تعالی) کی صولت و رعب سالک کو عزیز اور اس کی سطوبت و قہر سے مانوس طبع ہو مگر اس طرح پر کسی قسم کاخوف اور ڈر ساتھ نہ ہو

‌جور ‌الهوى أحسن من عدله  وبخله أظرف من بذله

محبوب کا جو رو جفا اس کے عدل و انصاف سے زیادہ  بہترہے۔ اور اس کا بخل اس کی فیاضی سے اچھا ہے ۔

 اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محنت مشقت میں ڈالنے والے کی صورت دیکھنے کے بعد تکلیف میں مزا آنے لگتا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :۔  وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ ‌بِأَعْيُنِنَا “ یعنی اپنے رب کے حکم کوصبر تحمل سے برداشت کردہ تم ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہو ۔پس اس حالت کو چھوڑ کر بندہ دوسری حال میں منتقل ہونا نہیں چاہتا بلکہ اس کے دل میں اس بات کا خطرہ ہی نہیں آتا

‌وَقَفَ ‌الْهَوَى ‌بِي ‌حَيْثُ أَنْتِ فَلَيْسَ لِي            مُتَأَخَّرٌ عَنْهُ وَلَا مُتَقَدَّمُ

‌وَأَهَنْتِنِي فَأَهَنْتُ نَفْسِي طَائِعًا                                                 مَا مَنْ يَهُونُ عَلَيْكِ مِمَّنْ يُكْرَمُ

جیسے کہ تم ہو اسی صورت پرمحبت قائم ہوگئی ۔بس اب نہ  پیچھے ہٹ سکتاہوں اور نہ آگے قدم بڑھا سکتا ہوں ۔ تم نے مجھے حقیرسمجھا پس میں نے بھی اپنے نفس کو حقیر سمجھا ۔ جوتمہاری نظرمیں حقیر ہے وہ مجھےمکرم عزیزنہیں ہوسکتا

  فصل نمبر19قلب کی چھٹی پنگھٹ سکر

 جب نفس اس منزل پر آتا ہے توقلب سکر کے پنگھٹ پرو رودکرتا ہے۔ اورسکر سے مراد ہے صفات  کا تبدیل ہونا اور اوصاف کا جڑ سے بدل جانا اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان  میں طاقت اور قلب  میں کشادگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی آہ میں بھی لذت ملتی ہے ۔

ومُقعَدٍ قومٍ قد مضى من شرابِنا               وأعمى سقَيْناهُ ثلاثاً فأبصرا

وأخرسَ ‌لم ‌ينطِقْ ‌ثلاثينَ حجّةً                       أدَرْنا عليهِ الكأسَ يوماً فهَمَّرا

لوگوں کے ایک گروہ نے ہماری شراب پی لی تو کام کے ہو گئے اور بہت سے اندھےتھے  جنہیں اپنے  برتن میں  ہم نے پلائی  تو وہ بینا ہو گئے۔ اور بہت سے گونگے بہرے تھے جنہوں نے تیس سال سے کلام نہیں کیا تھا جب ایک روز ان پر ہمارے جام کا دور چلا تو وہ بات کرنے لگے ۔

اور اس کی علامت یہ ہے کہ صاحب سکر بھیدوں  کو برملاظاہر کرتا ہے اورکسی بات کے ظاہر کرنے اور پوشیدہ ر کھنے میں امتیاز نہیں کرتا اس کی زبان دل کے  بھید کی غمازی کرتی ہے اورجو شے غیب کے بھی پرے ہےاس کی خبریں دیتی ہے ۔

حَيْثُمَا دَارَتِ الزُّجَاجَةُ دُرْنَا     ‌يَحْسَبُ ‌الْجَاهِلُونَ أَنَا جُنِنَّا

جہاں کہیں  شیشہ و جام کا دور چلا وہیں  ہم نے بھی گردش کی جاہل یہ سمجھتے  ہیں کہ ہم نے ناواقیت سے کام لیا

 اس کی (صوفی کی) ذات فنا ہوگئی ہے اور اس کی صفات اپنی جگہ باقی نہیں رہیں۔ قہوہ جمال نے اسے نشہ میں بے خو داور دبدبہ  جلال نے اسے مغلوب کردیا  پس اس منزل  میں پہنچ کر صوفی کا ہر ایک  فعل من  جانب اللہ تعالی ہوجاتا ہے اور جیسا کہ اﷲ تعالی حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے :۔

فبي ينطق ‌وبي ‌يسمع وبي يبصر وبی یاتی وبی یبطشو ہ بنده میری ہی ( اللہ پاک) زبان سے کلام کرتا ہے اور میرے ہی کان سے سنتا ہے اورمیری ہی آنکھ سے دیکھتا ہے اور میری ہی مدد سے آتا ہے اور میری ہی قوت سے پکڑتا ہے۔

مستهلكون بقهر الحق قد ‌همدوا            ‌واستنطقوا ‌بعد افتنائهم بتوحيد

 غلبہ حب میں ہلاک ہونے والے فنا تو  ہوگئے ہیں لیکن توحید میں فنا ہونے کے بعدہی کلام کرتے ہیں ۔

فصل نمبر20 نفس کی ساتویں منزل توکل“

 اس کے بعد نفس منزل توکل پر آکراترتا ہے۔ توکل سے مراد خداوند تعالی کے علم کی طرف رجوع کرنا اوراس کے احکام کو  پسند کرنا اوراس پرراضی رہنا ہے۔ یہ اللہ تعالی کے لطف کی طرف نظر رکھنے کا ثمرہ  ہے اور اس یقین محکم کہ اللہ کریم ازل ہی  سے اس (مخلوق پر) بہت مہربان ہے۔ اس کا نتیجہ حسب ذیل ہوتا ہے ۔

اس منزل پر آکراوقات  و زمانہ  کو بھول جانا

تمام حالات میں اللہ تعالی   کی نظر لطف کے لئے مراقبہ کرنا

اللہ تعالی  کے  علم کامل  اوراس کی قدرت بالغہ  کو ہر شے میں دیکھنا۔

 تمام اشیا کے قیام و بقا  میں جو  اس کی مرضی مبارک ہوا س پر راضی رہنا۔

ان تمام نتائج کے وقوع پذیر ہو جانے کی علامت اور نشانی یہ ہوتی ہے کہ

وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ ‌بِمِقْدَارٍہر چیز اللہ تعالی کے نزدیک مقدار کے ساتھ ہے یعنی اللہ تعالی نے ہر ایک چیز کی تقدیر مقرر فرما رکھی ہے ۔

إذا شئت ‌أن ‌أرضى ‌وترضى وتملكى              زمامى- ما عشنا معا- وعنانى

إذن فارمقى الدنيا بعيني واسمعي        بأذنى وانطقى بلساني

(اگر تو چاہتی ہے کہ میں راضی رہوں اور تو بھی راضی رہے اور میرے مال و دولت کی توہی مالک رہے۔ اور جب تک ہم دونوں ایک ساتھ زندگی بسر کریں اور میری لگام تیرے ہی ہاتھ میں رہے تو یادرکھ کے دنیا کومیری آنکھ سے دیکھنا اور میرے کان سے سننا اور میری ہی زبان سے بات چیت کرنا )

فصل نمبر 21 قلب کی ساتویں پنگھٹ “صحو“

 جب نفس اس منزل پر آتا ہے تو قلب صحو کے پنگھٹ پرورووکرتا ہے۔صحو سے مراد ہے نسیم قلب سے راحت پانا اور وصل کی ٹھنڈک سے سکون حاصل کرنا  جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کا ارشادگرامی ہے فَوضع يَده بَين كتفى فَوجدت بردهَا فى ثديى ‌فَعلمت ‌علم ‌الاولين والآخرين

 پھر اللہ تعالیٰ  نے میرے شانوں کے درمیان  اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے انگلیوں  کی ٹھنڈک اپنے سینہ میں محسوس کی ۔۔۔۔ پس اولین و آخرین سب کا علم مجھے سکھایا گیا ۔

 یہ حبیب کی ملاطفت و نوازش اور اس کی پناہ گاہ میں پناہ لینے کا ثمرہ ہے اور اس کا نتیجہ ہے ایک  جگہ قیام  و قرار حاصل کرنا اور تغیر  و تلون کاجاتارہنا۔ چنانچہ اللہ پاک نے قرآن میں ” مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى اس وقت بھی پیغمبرﷺکی نظر نہ بہکی  اور نہ جگہ سے اچٹی

فرماکراسی کیفیت کا اظہار فرمایا ہے ۔ نیز اس کے کمال سے بہرہ مند ہونا اور اس کے جمال کا جرعہ خوار ہونا بھی اس ثمر کانتیجہ ہے ۔

وَبِتْنَا عَلَى ‌رَغْمِ ‌الحَسُوْدِ وَبَيْنَنَا                     حَدِيْثٌ كَرِيْحِ المِسْكِ شِيْبَ بِهِ ‌الخَمْرُ

حَدِيْثٌ لَوْ أَنَّ المَيْتَ نُوْدِي بِبَعْضِهِ                لأَصْبَحَ حَيًّا بَعْدَ مَا ضَمَّهُ القَبْرُ

تَوَسَّدَتْهُ كَفِّي وَبِتُّ ضَجِيْعَهُ      وَقُلْتُ لِلَيْلِي طُلْ فَقَدْ رَقَدَ البَدْرُ

حاسدوں کے باوجو ہم نے رات باہم بسر کی اور ہم  میں باہم ایسی باتیں ہوتی رہیں جن میں مشک ملی ہوئی شراب کی سی مہک تھی یہ باتیں ایسی تھیں کہ کوئی مردہ بھی ان میں سے کچھ  سن پائے تو اگرچہ قبر نے اسے دبوچ لیا ہے مگر پھر بھی وہ جی اٹھے میں نے اپنی ہتھیلی کا اس کے لئے تکیہ بنادیا اور رات بھر ساتھ لیٹارہا اور میں نے اپنی رات سے کہا کہ تو لمبی ہو جا کیونکہ چودھویں کا چاند ابھی آرام فرما رہا ہے۔

فصل  نمبر 22نفس کی آٹھویں اور آخری منزل رضا –

پھر اس کے بعد  نفس منزل رضا میں تنزل کرتا ہے ۔ رضاسے مراد ہے وہ اطمینان و سکون قلب جو قدر کے ستونوں تلے نصیب ہوحتی کہ نہ کسی شکست و ریخت کی آواز سنائی دے اور نہ ہی بلندی  وپستی کا اس پر کوئی اثر ہو۔

یہ ثمرہ  ہے حبیب کی اطاعت  کا ۔ اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا  جیسا کہ قرآن  مجید میں اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :۔ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ ‌أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

یعنی جب حضرت ابراہیم سے ان کے پروردگار نے کہا کہ ہماری ہی فرمان برداری کرو توانہوں نے جواب میں عرض کیا کہ میں سارے جہان کے پروردگار کا یعنی اے رب تیراہی فرماں بردار ہوا۔

‌خليلىّ ‌لو ‌دارت على رأسى الرّحى                من الذّلّ لم أجزع ولم أتكلّم

اے دوست اگرمیرے سرپر  ذلت و خواری کی چکی  بھی  چل جائے تو بھی میں نہ  کچھ جزع فزع کرونگا اور نہ منہ  سے کچھ بولوں گا ۔

منزل رضا کا نتیجہ  یہ ہوتا ہے کہ سالک رنج ومحنت  سے مغموم و پریشان ہونے کی بجائے فرحت وخوشی محسوس کرتا ہے۔ مگر یہ ایسی فرحت و خوشی اور شکر نہیں ہوتے جو نعمت و آسودگی کے ملنے پر ہوتے ہیں ۔

 جب نفس اس منزل  پر پہنچتاہے  تو مطمئن  ہوجاتا ہے اور ایک  جگہ قائم ہو جاتا ہے چنانچہ  وہ اب اور سفرنہیں کرتا  اور یہیں ٹھہرجاتا ہے اوراس کے بعد کہیں دوسری منزل پر نقل مکانی نہیں کرتا ۔ اب اس منزل پر آکر قلب نفس سے الگ اور تنہا ہو کراپنے مناہل (پنگھٹوں) پرمنازل سلوک طے کرتا ہے۔

فصل نمبر 23قلب کی آٹھویں پنگھٹ (ہیمان) سرگشتگی وشیفتگی

 اس کے بعدقلب کا  پنگھٹ پر وارد ہوتا ہے جیسےہیمان کہتے ہیں اورہیمان سے مراد ہے وہ سرگشتگی وشیفتگی جو نظارۂ جمال اورلمعان جلال سے پیدا ہوتی ہے اور جیساکہ اللہ پاک قرآن حکیم  میں ارشادفرماتاہے :۔ ” فِي كُلِّ وَادٍ ‌يَهِيمُونَ یعنی انسان  ہر وادی میں سرگشتہ وشیفتہ مارا ماراپھرتاہے ۔ یہ ثمرہ ہوتا ہے طبیعت کے بسط  و کشادکااور ضبط کے ختم ہونےکا اور اس کا  نتیجہ ہے صبر وسکون کے لباس سےعاری ہونا اور زینت کے لباس اورجلوہ دکھانے سے خالی ہو جانا اس لئے کہ وہ ایک ایسے شغل میں

 ہوتا ہے  جوخوداس سے تعلق دنسبت رکھتا ہے ۔

يرنحني إليك الشوق حتى           أميل من اليمين إلى الشمال

وتأخذني لذكركم ارتياح          كما ‌نشط ‌الأسير من العقال

تیرے شوق  و عشق نے میراسریہاں تک چکرادیا کہ دائیں طرف سے بائیں طرف جھک جھک پڑتا ہوں اور تیرے ذکر سے مجھے ایسی راحت و خوشی ہوتی ہے جیسی کہ اس قیدی کو جس کی رسی ڈھیلی کر دی گئی ہو ۔

فصل نمبر 24 قلب کی نویں پنگھٹ ۔ تلف (فنا )

اس کے بعد قلب تلف کی پنگھٹ پروار دہوتا ہے۔ تلف سے مراد ہے عزت و جلال الہی کے صدمات تلے اور غیرت الہی کی ربودگیوں(غفلتوں) اور انوار کبریاوقدوس کی چمک دمک سے بالکل محو وفنا ہو جانا ۔جیساکہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشادفرماتا ہے وَلَئِنْ ‌مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ. « وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ ‌مُتُّمْ یعنی اپنی موت سےمرویا مارے جاؤ اور اگر تم اللہ کے راستے میں مارے جا ؤیااس کے راستے میں اپنی موت سے مرجا ؤ توخدا کی  بخشش ومہربانی تم پر ہوگی جواس سے کہیں بہتر ہے جوکہ لوگ جمع کر لیتے ہیں۔

اور وہ ثمر ہ ہے غیب پر اطلاع پانے کا اور اسرار ازل کے گرداگردمنڈ لانے کا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے ، مَن كان في اللَّه تعالى ‌تلفُهُ فالحقُّ سبحانه ‌خَلَفُه جس کی ہلاکت اللہ تعالی کے کام اور خوشنودی میں ہوجائے تو اللہ خود اس کا جانشین وکفیل بن جاتا ہے۔

ويظهر في الهوى عزّ الموالي            ‌فيلزمنى ‌له ذلّ العبيد

نیچے اتر آنے میں تواضع سے غلاموں کی عزت ورفعت ہے ۔ پس میرے لئے  لازم ہے کہ بندوں جیسی ذلت اختیار کروں ۔

 جب اللہ تعالی بندے کا جانشین ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ  یہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنے وجود سے فناہو جاتا ہے او حق تعالی کی قیومیت میں اپناقیام حاصل کرلیتا ہے  

يا منية المتمنّي        شغلتني بك عنّي

‌عجبتُ ‌منك ‌ومني  أفنيتُك مني عني

أدنيتني منك حتى  ظننت انك أني

 اے تمنا کرنے والے کی مراد و تمنا مجھے تجھ پر اورخود تعجب ہے تونے اپنے لئے مجھے خود مسیری ہستی سے محو کر دیا اور اپنے سے مجھے اتناقریب کردیا کہ میں گمان کرنے لگا کہ تو میں ہی ہوں۔

فصل نمبر 25″قلب کی دسویں پنگھٹ محبت

 پھرقلب  محبت کی پنگھٹ پر آتا ہے۔ اور محبت فناکی وادیوں میں سے پہلی وادی ہوتی ہے ۔ اور وہ ایک پہاڑی راستہ ہے جہاں سے نیچے اتر کر جمع کے تمام راستے  مل جاتے ہیں یہاں آکر قلب محبت سے پہلے کی تمام پنگھٹوں سے بیزار ہوجاتا ہے۔ یہ صفت بندہ کے ساتھ مخصوص ہے اور پروردگار کی طرف اس میں سے کوئی چیز منسوب نہیں کی جاسکتی پس جب بندہ محبت کی پنگھٹ پر پہنجا توعین الجمع(وحدت الوجود) کا نظارہ ہونے لگا ۔

 ارشاد خداوندی ہے: يُحِبُّهُمْ ‌وَيُحِبُّونَهُ یعنی اللہ پاک ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اوروہ اللہ  پاک  سے محبت کرتے ہیں۔

 اوریہ ایک مبارک گھاٹی اور مقدس وادی ہے بندہ کو چاہئے کہ اس مقام پر پہنچ کر  کمر ہمت ازسرنو باندھے اور اس میں تفرقہ کی جڑ کو بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دے اورجتنی منزلیں اور پنگھٹ اس کے علاوہ ہیں ان سب سے الگ اور آزادہو جائے اور ایسے احرام بند شخص کی طرح لبیک کہے جو محبوب کامحب ومطلوب کا طالب ہے ۔

‌لَسْتُ ‌مِنْ ‌جُمْلَةِ ‌الْمُحِبِّينَ إِنْ لَمْ                     أَدَعِ الْقَلْبَ بَيْتَهُ وَالْمَقَامَا

وَطَوَافِي إِجَالَةُ السِّرِّ فِيهِ                  وَهُوَ رُكْنِي إِذَا أَرَدْتُ اسْتِلامَا

میں محبت کرنے والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہوں اگر میں قلب کو اس کا (محبوب) گھر اور قیام گاہ نہ  بناؤں اور میر ا طواف  ہے جو بھید اس کے اندر ہے اس کے اندر ہے  اسئ کے گردطواف کروں، اورجب میں نے اس کو بوسہ دینے کا ارادہ کیاتو و ہی میرارکن قرار پایا۔

 محبت ایک ایسی حالت   ہے  جو آگ کی طرح جلاکربھسم کردیتی ہے اور یکایک بھڑک اٹھتی ہے اوراسی طرح غائب بھی ہو جاتی ہے ۔

إنَّ ‌المَحَبَّةَ ‌أمْرُها عَجَبُ                 تُلْقى عَلَيْكَ وَمَا لَها سَبَبُ

 محبت کا عجب معاملہ ہے میں تجھ پرگرویدہ ہوں لیکن سبب معلوم نہیں۔

 محبت میں آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور حیرت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کا درخت درایت و معرفت | ہے۔ ایسا درخت ہے جس کی جڑیں نیچے پھیلتی چلی گئی ہیں اور پتے بکثرت ہیں ۔ اس کا پھل صاف ستھرا اور خوبصورت ہوتا ہے اوراس میں کئی مقامات ہیں۔

 پہلا مقام تفتیش و طلب میں تحقیق و باریک بینی کا شوق دلانا اوراس پر آمادہ کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ سلام نے اپنے بیٹوں سے ارشادفرمایا :

اذْهَبُوا ‌فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ ، جاؤ اور یوسف کی کھوج لگاؤ ۔

دوسرا مقام فکراور دھیان سے الفت کرنا اور ذکر واذکار سے محبت پیدا کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ سلام کے فرزندوں نے ان سے کہا ت

تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ بخدا آپ توسدا یوسف ہی  کی یادمیں لگے رہیں گے اورکبھی اس ذکر کو چھوڑیں گے ہی نہیں ۔

 تیسرا مقام وہ ہے جہاں اللہ  کے ذکر میں لذت حاصل ہوتی ہے(لہذا اس لذت کی بدولت بندہ ہمہ وقت ہمہ تن  ہو کر ذکرمیں مشغول رہتاہے اور اس کو اسکے سوا اورکوئی بات بھاتی ہی نہیں) اور یہی وہ مقام تھاجب حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزندوں کے پاس سے اٹھ کر الگ جا بیٹھے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو یادکر کے فرمانے لگے اسے افسوس یوسف

وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَاأَسَفَا عَلَى يُوسُفَ

 اور چوتھا مقام یہ ہے کہ وصال کانمو دار ہونا اور ملاقات کا امیدوارہونا( اور حضرت یعقوب علیہ السلام اسی مقام پر تھے جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا ع

عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا یعنی مجھ کو تو امید ہے کہ اللہ میرے سب لڑکوں کو ملا میرے پاس لاکر جمع کرے گا۔

پانچویں مقام پر راحت قرب کی ٹھنڈی ہوا کا چلنا ہےجب حبیب کی مہک آنے لگتی ہے جیسا کہ اللہ  تعالی کے اس ارشاد گرامی سے پتہ چلتا ہے۔ .

فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ قال إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ” اور خوشخبری سنانے والا پہنچا تو حضرت یعقوب علیہ السلام  نے فرمایا : مجھ کو تو  یوسف کی مہک آرہی ہے۔

چھٹا مقام وہ ہے جہاں دہشت دیدار سے واسطہ پڑتا ہے ۔

فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ.یعنی پھرجب (حضرت زلیخا کی سہیلیوں نے )حضرت یوسف علیہ السلام  کو دیکھا تو ا نہیں اکبر جان کر رعب  حسن وجمال سے دھک سی ہوکر رہ گئیں اور مارے دہشت کے اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھیں ۔

 ساتواں مقام شعاع جمال سے آنکھوں کا خیرہ ہوجانا ہے جس کی مثال یہ ہے ۔

 وَخَرُّوا ‌لَهُ ‌سُجَّدًا ” اور سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے ۔

فما الحُبُّ حتى تنزفَ العينُ بالبكا           ‌وتخرسَ ‌حتى ‌لا ‌تجيب ‌المناديا

إِذَا مَا شَكَوْتُ الحُبَّ قَالَتْ كَذَبتَنِي         أَلَسْتُ أَرَى مِنْكَ ‌العِظَامَ ‌كَوَاسِيَا

عشق تویہی ہے کہ روتی ہوئی آنکھوں سے آنسو خشک نہ ہو جائیں اور آدمی گونگا بہرہ ہو جائے حتی کہ کسی صدا کا جواب  نہ دے سکے۔

جب میں نے عشق میں شکوہ و شکایت سے کام لیاتوحبیب نے جو ابا کہا تمہاری اس بات سے مجھے تکلیف پہنچی۔

عشق میں تو انسان سوکھ  کر کانٹا ہوجاتا ہے پھر  میں  تمہاری ہڈیوں پر بھرابھرا گوشت کیوں دیکھ رہا ہوں ؟ ۔

فصل نمبر26قلب کی گیارھویں پنگھٹ توحید

 پھراس کے بعد قلب توحید کی پنگھٹ پر وارد ہوتا ہے اورتوحید ایک طیب دطا ہر شر اب ہےجو میل کچیل کو صاف کر دیتی ہے اور فضولیات کو دور کردیتی ہے ۔ ہم کو ثابت بن ہردی نے خبر دی۔ ان کو علی بن ا حمد موذن نے ان کومحمد بن الحسن الحسینی بن موسی  نے  ان کو محمد  بن علی طالقانی نے ان کو ابوعلی عبدالمنعم بن حاتم نے ان کو احمد بن عبداللہ نے ان کو حضرت ابو حذیفہ نے ان کو حضرت مقاتل نے ان کو حضرت عمر وبن شعب نے اور ان سے روایت کی ان کے والد گرامی نے اور انہوں نے اپنے جد بزرگوار سے یہ روایت سنی کہ حضرت رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ

 ماران با ملاسل مرور آن ” سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ‌ساق عرش پر لکھا ہوا ہے۔ اور ‌تَبَارَكَ ‌اسْمُكَ جنت کے دروازے پرمکتوب ہے اور وَتَعَالَى جَدُّكَعرش کے پردے پرتحریر ہے اور وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ اللہ تقدس وتعالی کی توحید ہے ۔

پس جس نے اللہ تعالی کو ایک جانا اور اسے ایک کہا اس کو اللہ  تعالی جنت میں داخل کرے گا۔ توحید سے مراد ہے اللہ تعالی کو مخلوق سے الگ کر کے ایک سمجھنا اور آثار بشری کا محوہوتا اورالوہیت کی تجرید کرنا یعنی  یہ جاننا کرو ہی اللہ  و معبودہے اور یہ ثمرہ  ہے رسوم وعادات انسانی کےتنگنائے  سے باہر نکل کر سرمدی دابدی میدان کی کشادہ اورپھیلی ہوئی فضامیں قدم رکھنے کا۔

 اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر اللہ کو اس طور پر دیکھنا گویا کہ غیر اللہ کا وجود ہی نہیں ہے اور اللہ جبار کی رؤیت ایسی ہوگو یا کہ وہ کبھی زائل نہیں ہو گی ۔

قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ ‌يَلْعَبُونَ “ یعنی جیسا کہ اﷲ تعالی قرآن پاک میں ارشاد   فرماتاہے کہ اللہ تعالی نے یہ کتاب اتاری پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بک بک میں پڑے کھیلا کریں ۔

اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مساعدت ومعادنت الہی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا۔ پس جب حق تعالی کی نظر قلب  کی طرف ہمیشہ رہے گی تو قلب استعداد قبول کے ساتھ قائم ہوجائے گا۔ پس اگر قلب ایک لمحہ کے لئے بھی اس حالت سے محجوب ہو جائے توفراق کے الم سے ٹکڑےٹکڑے ہو جائے گا  اور صدق اصل میں مالک مقتدر سے جاملے گا ۔

خَيَالُكَ ‌فِي ‌عَيْنَيْ ‌وَذِكْرُكَ ‌فِي ‌فَمِيْ                       وَمَثْوَاكَ فِي قَلْبِيْ فَكَيفَ تَغِيْبُ

 تیری تصویر میری آنکھ میں ہے اور تیرا ذکر میرے منہ میں اور تیری محبت میرے دل میں  ہے تو پھر مجھ سے تو کیسےاوجھل ہو سکتا ہے۔

 مراتب توحید اور توحید کے کئی مراتب ہیں

توحیدا قراری

توحیدا قراری  سے مراد حضرت نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد  مبارک کامفہوم ہے ۔ أُمِرْتُ ‌أَنْ ‌أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

 مجھے اس وقت تک جنگ کرنے  حکم ہوا ہے  حتی کہ لوگ لا الہ الا اللہ  کہنے لگیں

توحید علمی

 دوسرا درجہ  توحید علمی ہے جو اللہ تعالی کے اس ارشاد  مبارک کے مطابق ہے : ‌فَاعْلَمْ ‌أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

پس  جان لو کہ  سوائے اللہ تعالی کے اور کوئی معبود  نہیں ہے

توحید وجودی

توحید وجودی سے مراد وہ ہے جو اللہ  تعالی کےمندرجہ اقوال مبارک میں ہے ۔

ألم ‌تعلم ‌بأن ‌الله ‌يرى

‌وَهُوَ ‌مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ

کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ  دیکھ رہا ہے  جہاں کہیں  اور  جس حال میں  میں بھی تم  ہو  وہ یعنی اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے۔

توحید شہودی

ایک او ر مرتبہ توحید شہودی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل قول میں اس طرف اشارہ ہے ۔

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا ‌بِالْقِسْطِ ذ“. خود اللہ تعالی نے اس بات کی گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کے فرشتوں نے اور صاحب علم بندوں نے بھی یہی گواہی دی  نیز اس بات کی گواہی دی کہ اللہ تعالی عدل و انصاف کے ساتھ عالم کو سنبھالے ہوئے ہے ۔

پس توحید اقرار سننے اور معجزے دیکھنے کا ثمرہ ہے ا ور اس کا ننتیجہ ا سلام ہے اور توحید علمی ہدایت کا پھل ہے اور ایمان اس کا نتیجہ ہے اور توحید وجودی اس کی  عنائیت کا ثمر ہے اور احسان اس کا  نتیجہ ہے اور توحید شہودی معرفت کا ثمر ہ ہے اورمحبت اس کا نتیجہ ہے ۔(حدیث احسان اس کی تائید کرتی ہے )

 پس موحد قائل یعنی جو زبان سےاقرار توحید کرتاہے آگے پیچھے  ہوتا ہے مگرسنتا  ہے اگراس کاشبہ رفع ہو گیا تو بات مان لیتا ہے اور پیروی کرتا ہے۔

اور  موحد  عالم یعنی  جو  بذریعہ  علم اقرار توحید کرتا ہے وہ ارادت رکھتا ہے یعنی مر ید ہے ۔ ایسا شخص مرفوع حدیثیں بیان کرتا ہے اور اخباری حدیثوں کی چھان بین کرتا ہے۔ دوستوں کو آگاہ کرتا ہےاور طلب کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور اگر الحاح (عجزو انکساری)سے کا م لیتا ہے تو اندر داخل ہو سکتا ہے ۔

اور موحدواجد اندر داخل ہونے والے کو کہتے ہیں جو وجدو عشق میں گرفتا را وراپنے حبیب  سے مل جانے والا ہوتا ہے اگر اس نے بھید کی محافظت کی توضروراپنے محبوب حقیقی سے قریب تراو رواصل ہوگا ۔

پھرموحدمشاہدہ ہے جو نظام تربیت اور طریقت کے مسلک میں داخل ہونے کے لئے تیزی سے آیا۔ اور وصل اور اتحاد کے پانی میں غرق ہو گیا۔ اس پرتحیت و سلام ہو۔

رام فھام و كات فبـان عار الحق فامسك لــديه

 اس نے ارادہ کیا پس محبت میں گرفتار ہوگیا اور وجود میں تھامگراب خوب کھل کر ظاہر ہوا۔ حق جارہا تھا اس نے پکڑ کرخود چپٹالیا ۔

أَوْلِيَائِي ‌تَحْتَ ‌قِبَائِي لَا يَعْرِفُهُمْ غَيْرِي یعنی جیسا کہ اللہ تعالی اس حدیث قدسی میں ارشادفرتا ہے، میرے اولیاء (دوست )میرے دامن تلے ہیں میرے سوا انہیں کوئی نہیں پہچانتا ۔

 اگر قدرت حق کے نفوذ نے ان کو شدت وسختی میں ڈالا تو اس کی عزت و رفعت نے انہیں جذب بھی کرلیا۔ اوراگر قدر کےوارد اور جاری ہونے نے انہیں صدمہ پہنچایاتو اس کی تلخی نے بشری صفت ہونے پر فخر کیا۔

حدیث قدسی ہے   ” مَرِضْتُ ‌فَلَمْ ‌تَعُدْنِي میں بیمار پڑا تم میری عیادت کو نہ آئے۔

یعنی اولیاء اللہ کی زیارت کو جانا ایسا ہے گویا خود خدا وند کریم کی زیارت کرنا ۔ اور اگر کسی جنگ نے انہیں دکھ دیا تو پروردگار خود اس کا قائم مقام بن گیا ۔

 نیز اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

وَمَا ‌رَمَيْتَ إِذْ ‌رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى یعنی اے پیغمبر ﷺ تم نے جو مٹھی بھر خاک  پھینکی  تھی وہ حقیقت تم نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالی نے خودپھینکی تھی اور اگر کسی نے اسے ایذادی تو اللہ تعالی اس کی طرف سے کافی ہوگیا۔

مَنْ ‌آذَى ‌لِي ‌وَلِيًّا ‌فَقَدْ ‌بَارَزَنِي ‌بِالْمُحَارَبَةِ ” حدیث قدسی)

جس نے میرے دلی کو ایذادی اس نے گویا مجھ سے لڑائی کے لئے مبارزت طلب کی ۔

پس یہ بندہ ہے جوعشق میں مبتلا ہوا اورجل بھن گیا اور صاف کیا گیا تونکھر گیا اور علوم اس کی تعریف سے  عاجز ہیںاور وہ ایسا فنا ہوا  کہ اس کے پیچھے جتنی علامتیں اور نشانیاں ہو سکتی تھیں سب مٹ گئیں۔

‌طوارق ‌أنوار تلوح إذا بدت     فتظهر كتمانا وتخبر عن جمع

 انوارجب یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتے ہیں تو چمکنے لگتے ہیں۔ اور پوشیدہ شئے کو ظاہر کر دیتے ہیں اور سب کی خبر دیتے ہیں ۔

اگر کسی سے اس کا حال پوچھو گے تو وہ چپ رہے گا اور جاہل لوگ گمان کریں گے کہ وہ مبہوت ہو گیاہے۔مگر حقیقت حال یہ ہے کہ تعظیم احترام نے اسے خاموش کردیا اور فنائے تام نے اسے چپ کردیا ہے۔

‌لا ‌تُنكري ‌جحدي هواك، فإنَّما                      ذاك الجحودُ عليه سِتْرٌ مسبَلُ

اگر میں تمہاری محبت سے انکار کروں توبرامت ماننا کیونکہ یہ انکار تو ایک پردہ ہے جو تمہارے اوپر ڈال دیا گیا ہے۔

فصل نمبر 27 پسندیدہ خصائل

اور اب میں اس کتاب کوبعض پسندیدہ خصائل بیان کر کے ختم کرتا ہوں ۔ پس چاہئے کہ تمہاری فکر کا اول و آخرحق تعالی ہی ہو۔ اور وہی تمہارے ذکر کا باطن اور وہی تمہارے ذکر کا ظاہر ہو۔ تمہاری عقل کی آنکھ میں اس کی طرف ہی نظر لگائے رکھنے والا سرمہ لگا رہے اور تمہارے قلب کا قصداور عزم صمیم اسی کے حضور میں ادب سے کھڑے رہنے کار ہے ۔ ملکوت اعلی اور اس میں جو کچھ بڑی بڑی نشانیاں ہیں ان کی طرف تم سفر کرتے رہو۔ اگرتم اس سے نیچے کی مقر کی طرف افق سے ان کو بھی اللہ تعالی ہی کی طرف  نظر رکھو  کہ اس کی  کیاکیانشانیاں ہیں کیونکہ وہی اپنی تمام عزت و رفعت کے ساتھ باطن ہے اور وہی اپنی تمام حکمت کے ساتھ ظاہر ہے ۔ اور اس کی ہویت کا غلبہ اس کے بندوں پر تجلی فرماتا رہتا ہے ۔

‌فَفِي ‌كُلِّ شَيْءٍ آيَةٌ        تَدُلُّ عَلَى ‌أَنَّهُ ‌وَاحِدٌ

ہرایک شے میں اس کی کوئی  نہ کوئی نشانی ایسی موجود ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ باری تعالی کی ذات واحد ہے پس جب تجھ پر یہ حالت طاری ہوجائے اور یہ فضیات تجھ پرغلبہ کرے تو ملکوتی نفوس تیرے نفس پر پرت در پرت جم جائیں گے اور تیرے آئینہ قلب پر قدس لاہوتی اپنی تجلی کرے گا اور اس کوچمکادے گا اورتجھے اعلی سے اعلی حلاوت نصیب ہوگی اور تو بہت بڑا مزہ چکھے گا۔ اور جو شے تیرے لئے سب سے اولی اور بہتر ہے وہ تو اپنی ذات کے لئے حاصل کرے گا۔ اور اس عالم قرب پر تجھے آگاہی ہوئی اور جوکچھ کہ اس میں بلند تر و بزرگ تر ہے اس طرف تومائل ہوا۔ اس طور پر کہ اہل دنیا کا مزاحم راہ ہوتا ہوا اور حقیقت دنیا سے ان کی ناواقفیت پرانہیں حقیر جانتا ہوا۔ دنیا کے بارکو اٹھانے کا مستحق مگر دنیاوی عقل کو حقیر جانتا ہو ااور اس میں مبتلا نہیں بلکہ اس کے صرف کنارے کنارے لگا ہوا۔ اور تو نے اپنے نفس پرجب غور کیا تو اس کو ایسا پایاکہ وہ خود اپنے لئے ایک حجت ہے اور اس کی خوبی میں یہی ایک حسن ہے ۔

پس نفس اور اہل علم ادنی پر تو نے تعجب کیا اور انہیں پسندیدگی کی نظر سے  نہ دیکھا اور اہل عالم بھی ایسے شخص پر تعجب کرتے ہوں گے ۔ درآں حالیکہ نفس کو اس نے خیر باد کہہ دی تھی مگر درحقیقت وہ اس کے ساتھ بھی تھا اور نہیں بھی تھا۔

 اورجان لو کہ تمہارے چل پھر کرنے والے کاموں میں سب سے افضل اور تمہارے بیٹھ کرکرنے کے کاموں میں سب سے زیادہ مستحسن نماز وروزہ ہے اور جس  نیکی  کی بازگشت سب سے زیادہ ہے وہ خیرخیرات ہے اور اس راہ میں سب سے اعلی اور خیر کی چال دوسروں کا بوجھ اٹھانا ہے ۔ اور سب سے زیادہ باطل چال نمائش اور دکھاواہے ، اورا عمال میں بہتر عمل وہ ہے جو خلوص نیت سے ہو۔ اوراچھی نیت وہ ہے جو علم اورحلم کی بارگاہ سے نمودار ہو۔

   اور جان لو کہ حکمت و دانائی تمام فضیلتوں    اور بزرگیوں کا سرچشمہ ہے اور اللہ تعالی  کی معرفت سب سے  پہلے جاننے والی باتوں میں مقدم تر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

إِلَيْهِ ‌يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یعنی اس کی طرف پاکیزہ  اورستھرا کلام عروج کر تاہے اور اس کی جناب میں  پیش ہوتا ہے۔ اور نیک کام اس کو ابھارتے ہیں ۔

 یہ بیان میرے نزدیک ہے اور میں اللہ غفور الرحیم سے اس کی رحمت بخشش کو مدنظر رکھ کر اپنے لئے تمہارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے مغفرت اور  عفو چاہتا ہوں ، وہی بخشنے والا اور وہی رحم فرمانے والا ہے تَمِّمْ ‌بِالْخَيْرِ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں