بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
احناف کی مکمّل نماز کو احادیثِ کی روشنی میں پیش کیا گیا
ہر حنفی کی ضرورت ہے
تالیف وترتیب مولانا محمد فیض اللہ خان
فاضل دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف
دِیْبَاچَہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَکَفٰی وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الرُّسُلِ وَخَیْرِ الْاَنْبِیَآءِ۔
اسلام ایک جامع اور اکمل دین ہے جو زندگی کے تما م شعبوں پر مکمل رہنمائی فرماتا ہے اور اسلام کی بنیاد ایک طرف ایسی جامع آسمانی کتاب قرآن مجید پر رکھی گئی ہے جو تمام اصول و معارف اور احکامات وتعلیمات پر مشتمل ہے اور دوسری طرف اسلامی احکامات و تعلیمات کو ایسے افضل ترین رسول اللہ ﷺ کی ذات اور سیرت سے جوڑدیا گیا ہے جس کی مبارک زندگی کا ہر لمحہ اور ہر حرکت خدائی حفاظت و نگرانی میں رہی جس نے جملہ احکامات ِ ربانی کی عملی تفسیر و تصویر پیش کی۔
اسلام میں عبادت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور زندگی کے تمام شعبے اِسی بندگی سے روشنی پاتے ہیں۔اور بندگی کا اعلیٰ ترین انداز اسلام نے نماز کو قرار دیا ہے اور نماز تمام تر مخلوقات کے اندازِ بندگی کی جامع ہے۔ اور نمازکے بغیر اسلام کی عمارت قائم نہیں رہتی اور نماز کے بغیر ایمان و اسلام کا دعوی بھی بے جان رہ جاتا ہے ۔ چونکہ نماز کو اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اس لئے نماز کی مکمل ترتیب و تشکیل اور اس کے جملہ چھوٹے بڑے مسائل سے خود رسول ِ اسلام ﷺنے پوری طرح آگاہ کر دیا ہے اور فرما دیاکہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتا دیکھتے ہو ۔بحمدا للہ آج تک اُمت مسلمہ وہی نماز ادا کر رہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائی مگر چند مٹھی بھر لوگوں کو اعتراض ہوا کہ شاید احناف وہ نماز نہیں پڑھتے جو رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائی بلکہ وہ نماز پڑھتے ہیں جو امام اعظم ابو حنیفہ ؒ نے تعلیم فرمائی ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ حضور علیہ السلام کے ادنیٰ غلاموں میں سے ہیں اور عین وہی نماز تعلیم فرماتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائی۔ اسی غلط فہمی کا تدارک کرنے کے لئے یہ چند اوراق تحریر کیے جن سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ قرآن و حدیث کی رہنمائی سے سرِ مُو نہ امام ابو حنیفہ اور نہ ہی احناف ہٹے۔
وَاللّٰہ ُ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَیْہِ التَّوَکَّلُ ۔
چند ابتدائی اصول
کتاب میں داخل ہونے سے قبل چند ابتدائی اصول ذہن نشین فرما لیں۔
1۔ ضروری نہیں کہ کتاب کی ہر بات آپ کی رائے کے عین مطابق ہولہٰذا اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
2۔ کسی بھی حدیث پر ایسی رائے کبھی نہ دیں اور ایسے الفاظ کسی بھی روایت بارے استعمال نہ کریں جس سے گستاخی رسولﷺ کا احتمال ہو ۔
3۔ کوئی روایت کسی ایک یا دو محدثین یا ائمہ کی جرح کی وجہ سے ضعیف نہیں ہوتی کہ دوسرے اس کو ثقہ کہنے والے بھی ہوتے ہیں۔
4۔ روایت میں ضُعف کے لئے اتنا کافی نہیں کہ امام بخاری ؒ فرمائیں کہ اس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے کیونکہ لازمی نہیں کہ جس راوی کو امام بخاریؒ نہیں جانتے وہ لازمًا بُرا ہی ہو کیونکہ اسلام میں حسنِ ظن کی تعلیم موجود ہے لہذا مجہول بارے حُسنِ ظن ہی قائم کیا جائے۔
5۔ کوئی بھی روایت اگر امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی کے بعد ضعیف ہوتی ہے تو اسے امام صاحب کے خلاف دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔ لہذا جب بھی روایت کو سند میں کسی راوی کی وجہ سے ضعیف کہا جائے تو فورًا معلوم کرو کہ اس راوی کا زمانہ کیا ۱۵۰ ہجری سے پہلے والا ہے یا بعد۔
6۔ جہاں ایک روایت پر کچھ جرح و تنقید کرتے ہیں وہاں تائید بھی کرنے والے ہوتے ہیں۔
7۔ احادیث میں ایسی تطبیق دینے کی کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ یا پھر تمام بظاہر مُتعارض روایات اپنی اپنی جگہ پر درست ثابت ہوں۔
8۔ کسی بھی روایت کا موقع و محل ضرور معلوم کریں کہ مفہوم اِسی سے مُتعین ہوتا ہے مثلًا نماز میں آہستہ آہستہ پابندی اور سکون لازم کیا گیاجو نماز میں آسانی کی روایت لا رہا ہے کیا اس کا تعلق اُس زمانے سے تو نہیں جب نماز کو ابھی باقاعدہ ہی نہ کیا گیا تھا۔
9۔ امام بخاری ؒ ہوں یا کوئی مُحدّث ان کا کام صرف روایات کو جمع کرکے پیش کرنا ہے جیسے ایک پنساری ہر قسم کی جڑی بوٹیاں جمع رکھتا ہے مگر جہا ں تک جمع شدہ روایات سے مسائل کا اخراج ہے یہ محدثین کی نہ ذمہ داری ہے اور نہ یہ کام انہوں نے کیا ۔ جس طرح پنسار ی جڑی بوٹیاں تو رکھتا ہے مگر کسی مریض کے لئے کچھ تجویز کرنا ماہر طبیب کا کام ہے عین اسی طرح محدثین کی جمع شدہ روایات سے مسائل کا استدلال محدثین کا گراونڈ نہیں بلکہ ائمہ فقہ کا کام ہے ۔
10۔ جو چیز آپ کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کی جا رہی ہے آپ یقین کریں کہ آیا یہ باقاعدہ سند کے ساتھ حدیث ہے کہ باب کے شروع میں ترجمۃُ الباب کے طور پر امام بخاری ؒ کا قول ۔
11۔ یہ بھی یاد رہے کہ امام بخاری ؒ جب باب کے شروع میں ترجمۃ الباب قائم کرے اور اس کے عین مطابق نیچے حدیث نہ لائے تو اس کا اشارہ اس طرف ہوتا ہے کہ یہ قول قابل حجت نہیں کہ اس پر حدیث نہیں ملی مثلًا جیسے امام بخاری ؒ اٰمین بالجہر کا باب تو قائم فرماتے ہیں مگر ایک روایت بھی اٰمین بالجہر کی نہیں لاتے جس سے اٰمین بالجہر کو ناقابل ِ حجت ہونے کا باریک اشارہ کر جاتے ہیں۔
12۔ کسی بھی شاذ یا عذر کی وجہ سے کیے گئے عمل کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا جیسا کہ جنگ ِ خندق کے موقع پر حضور ﷺ کی چار نمازیں قضا ہو گئیں اب دلیل بنائیں کہ نماز قضا کرنا جائز ہے دیکھیں حضور ﷺ نے بھی تو قضا کی ۔ ایک دوسرے موقع پر دورانِ سفر رات کو حضور ﷺ تمام شرکاء ِ سفر سمیت سوئے رہ گئے اور جس کی ڈیوٹی تھی وہ حضرت بلال ؓ بھی سو گئے اب دلیل بنالیں کہ صبح کی نماز کے لئے اٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ حضور ﷺ بھی سوئے رہ گئے ۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔
13۔ جس طرح ہر شعبہء زندگی میں اس کے ماہرین کی رائے معتبر ہوتی ہے ایسے ہی شریعت کے مسائل میں بھی ماہرین کی رائے معتبر ہے اور وہ ماہرین ائمہ فقہ ہیں جن پر امت کا اجماع عملی ہو چکا ہے ورنہ شریعت کی حکمت اور روایات کا تعارض اس قدر شدید ہے کہ ہر کوئی اس سے استدلال کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
14۔ جن روایات کو بے دھڑک ضعیف کہہ دیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ ان روایات کو چودہ سو سال تک محدثین نے اپنی تصانیف کا حصہ کیوں بنائے رکھا ؟ ظاہر ہے کہ ضعیف حدیث موضوع کی طرح بالکل بے کار نہیں ہوتی ۔ اصلًا وہ حدیث ہی ہوتی ہے مگر کسی راوی کے ضُعف کی وجہ سے پایۂِ صحت سے گر جاتی ہے۔
15۔ وہ ضعیف حدیث جس کے معنی و مفہوم کو دوسری صحیح یا حسن احادیث ثابت کر رہی ہوں اس کو بھی ضعیف کہہ کررد کرنا لغو ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ جب وہ مفہومًا ثابت ہے تو ضُعف کا کیا مطلب ۔
16۔ ائمہءِ فقہ از خود شریعت میں کچھ بھی کمی بیشی کے روا دار نہیں وہ صرف موجود روایات کی تطبیق اور ان سے ایک جامع و بامقصد مسئلہ سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے علم و کالت تو بہت وسیع ہے مگر کسی بھی پیش آوردہ کیس پر ماہر وکیل مختلف قوانین کی جزئیات ملا کر ایک مفہوم سامنے لاتا ہے۔
17۔ جہاں کوئی واضح قانون نظر نہ آئے وہاں جس طرح سپریم کورٹ کا فیصلہ از خود قانون کی حیثیت رکھتا ہے ایسے ہی جہاں قرآن و حدیث کی واضح رہنمائی نہ ہو تو ائمہ فقہ کی رائے قانونِ شرعی کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور یہی اجتہاد کہلاتا ہے ۔ جس کی رائے یہ ہو کہ اجتہادی مسائل میں ہر کسی کو رائے دینے کا حق ہے اور ہر کسی کی رائے وزنی بھی ہے اُسے چاہیے کہ ہر مریض کے بارے ماہر ڈاکٹروں کی رائے کی بجائے عام لوگوں کے مشورہ پر عمل کرے ۔ اور جنگی صورت حال میں ماہرین جنگ کی رائے کو خاطر میں نہ لائے اور امور سیاست میں صرف اسمبلی ممبران کی رائے ہی قانون نہ بنے بلکہ گلی کوچوں میں جو بھی پھر رہا ہو اس کی رائے کا اتنا ہی وزن دے جتنا اسمبلی ممبران کی اجتماعی رائے کو دیا جاتا ہے ۔
18۔ مسلمان اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور راہِ اعتدال اختیار کریں۔
19۔ خاص کر عبادات میں نئی نئی باتیں اور طریقے ایجاد کرنے سے گریز کریں کہ امّت کے اختلاف کا باعث نہ بنیں ۔
20۔ آپ کی رائے کوئی بھی ہو مگر آپ اپنی رائے اور عمل سے قصدًا دوسروں کو تنگ کرنے کی نیّت نہ کریں کہ بد نیتی سے آپ کا عمل نیک عمل نہیں رہے گا بلکہ برائی بن جائے گی ۔
21۔ جب آپ کے سامنے کوئی دلیل لائے تو آپ یقین کریں کہ کیا یہ حدیث ہے یا صحابی ؓ کا ذاتی قول و عمل ۔اس لئے کہ حدیث کی اتفاقی تعریف یہ ہے کہ جس میں حضور ﷺ کا قول ، فعل اور تقریر ہو یعنی صحابی کا قول فعل اور تقریر حدیث نہیں ہوتی جب تک صحابی اپنے قول و فعل اور تقریر کو حضور ﷺ کی طرف منسوب نہ کرے ۔ ہاں خلفائے راشدین ؓ کا معاملہ الگ ہے کہ صحیح حدیث سے حضور ﷺ نے ان کے قول و فعل اور تقریر کو بھی لازم قرار دیا ہے ۔
22۔ باہم اختلاف رائے رکھنے والے احباب دلوں سے بغض و نفرت کو نکال کر اعتماد اور حسنِ ظن کی طرف آئیں اور اپنی تقریر و تحریر میں احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑ کر رکھیں کہ کسی مسلمان بھائی کو غیر مسلم قرار دینا کارِ خیر نہیں بلکہ غیر مسلم کو مسلم بنا لینا یہ کارِ خیر ہے ۔
23۔ ہر گروہ اپنی اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر نظر رکھیں اور اس کی اصلاح کریں ۔ ہم اپنی اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے ۔
24۔ ہر کلمہ گو مسلمان کو اپنے سے بہتر مسلمان گمان کریں کہ ایمان کا تعلق باطن سے ہے اور باطن کا حال رب ہی بہتر جانتا ہے ہم نہیں ۔
اذان کا بیان
اِقامت نماز و جماعت چونکہ بالعموم اذان کے جواب میں کھڑی ہوتی ہے اس لئے نماز سے پہلے اذان کا بیان لایا گیا ۔ اذان کے فضائل و مسائل سے آگاہی لازم ہے ،تاکہ اس عظیم کام کو محض رسم و رواج کے طور پر ادا نہ کیا جائے بلکہ اجر و ثواب کی نیّت سے ادا کیا جائے۔
اذان کے لئے قرآنی آیات:۔
۱۔ وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّ لَعِبًاط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّایَعْقِلُوْن(مائدہ۔۵۸)
اور جب تم بلاتے ہو نماز کی طرف (اذان دیتے ہو ) تو وہ اسے مذاق تماشہ بنا دیتے ہیں اس لئے کہ وہ بے عقل قوم ہیں ۔
۲۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃ ِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(جمعہ ۔۹)
اے ایمان والو ! جب تمہیں بلایا جائے (اذان دی جائے ) نماز کی طرف جمعہ کے دن تو دوڑ کر جاؤ اللہ کے ذکر کی طرف اور چھوڑ دو خرید و فروخت یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو ) جانتے ہو۔
۳۔ وَ مَنْ اَحْسَنُ قوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صٰلِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ (حم السجدہ ۔۳۳)
اور اُس شخص سے بہتر کس کا کلام ہے جس نے دعوت دی اللہ کی طرف اور نیک عمل کئے اور کہا کہ میں تو (رب کے ) فرمانبردار بندوں میں سے ہوں ۔
سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں :۔ میرا خیال ہے کہ یہ آیت مُؤذِّنین کے حق میں نازل ہوئی ۔
۴۔ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجْ ۔(الحج۔۲۷)
اور اعلان ِ عام کرو لوگوں میں حج کا۔
جس طرح سیدنا ابراہیم ؑ نے حج کے لئے اعلان عام کر کے لوگوں کو بیت اللہ شریف کی طرف بلایا ،عین اسی طرح مؤذن اذان دیکر لوگو ں کو نماز کی طرف بلاتا ہے جس طرح ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلان ِ عام فرمایا اسی طرح مؤذن اذان بھی از خود نہیں بلکہ اللہ و رسول کے حکم سے لوگوں کو نماز کی طرف بلاتا ہے ، لہذا بظاہر تو مؤذن اعلان کرکے بلا رہا ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی بلا رہے ہوتے ہیں ، لہذا اذان کو اللہ کی طرف سے بُلاوا یقین کرتے ہوئے ضرور نماز کے لئے حاضر ہو جانا چاہیے ۔ وہ رب کا کیسا بندہ ہے جس کو رب بلائے اور وہ حاضر نہ ہو۔
اذان کے مروّج و معروف کلمات طیّبات کس طرح ترتیب پائے ؟
اذان مدینہ منورہ میں شروع ہوئی کیونکہ مکّی زندگی میں ایک طرف صحابہ کی تعداد بہت کم ہونے کی وجہ سے جماعت کی نوبت نہ آئی پھر پانچ نمازیں بھی معراج میں فرض کی گئیں جو ۱۰ نبوی کا واقعہ ہے دوسرا یہ کہ مکہ کے حالات بھی جماعت کی اجازت نہ دے رہے تھے لہذا جب جماعت کا انتظام نہ ہوا تو اذان کی ضرورت کیونکر پیش آتی مگر جب مدینہ میں حالات موافق ہوئے تو اذان کی بھی ضرورت پیش آئی لہذا اذان مدینہ میں شروع ہوئی ۔
اذان کی پہلی شکل :۔
مدینہ منورہ میں بھی کچھ ابتدائی زمانہ میں جماعت بغیر اذان کے یوں ہوتی تھی کہ نمازی اندازے سے جمع ہو جاتے تھے اور جماعت ہو جاتی مگر اذان کی ضرورت تو ظاہر ہے محسوس کی جارہی تھی ایک دن حضور ﷺ نے صحابہ کے ساتھ اس بارے مشورہ فرمایا تو یہ آراء سامنے آئیں۔
۱۔ آگ جلا کر اطلاع دی جائے ۔ ۲۔ عیسائیوں کی طرح ناقوس بجایا جائے ۔ ۳۔ یہودیوں کی طرح سِنکھ بنا کر بجایا جائے مگر رسول ِاسلام ﷺ کی دُور بین نظر و فکر نے ملّت ِ اسلامیہ کا تشخص برقرار رکھنے کے لئے ایسی کسی تجویز کو قبول نہ فرمایا جب حضرت عمر ؓ نے رائے دی کہ کسی کو مقرر کیا جائے جو جماعت کے لئے اعلان کر دیا کرے تو حضور ﷺ نے فرمایا ‘‘اے بلال اٹھو اور نماز کے لئے اعلان کرو ۔ یہ صرف اعلانِ نماز تھا نہ کہ موجودہ کلمات طیبات سے اذان۔
عَنْ عَبْدُ اللّٰہِ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَقُوْلُ کَانَ المُسْلِمُونَ حِینَ قَدِمُوا المَدِینَۃَ یَجْتَمِعُونَ فَیَتَحَیَّنُونَ الصَّلاَۃَ لَیْسَ یُنَادَی لَہَا، فَتَکَلَّمُوا یَوْمًا فِی ذَلِکَ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَی، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ الیَہُودِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلًا یُنَادِی بِالصَّلاَۃِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَۃِ(بخاری کتاب الأذان باب: بدء الأذان )
ترجمہ :۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جب مسلمان مدینہ تشریف لائے تو اذان نہ تھی بلکہ لوگ اندازے سے جمع ہوتے اور نماز کا اہتمام فرماتے تو ایک دن اس پر مشورہ ہوا تو کچھ نے کہا نصارٰی کی طرح ناقوس بجایا جائے کچھ بولے یہود کی طرح سنکھ بنالیا جائے تو حضرت عمرؓ بولے کہ کسی آدمی کو ہی مقرر کیوں نہ کیا جائے جو نماز کی اطلاع کر دیا کرے تو حضور ﷺ نے فرمایا اے بلال اٹھو اور لوگوں میں نماز کا اعلان کرو ۔
اذان کی دوسری شکل:۔
بعد ازاں حضور ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو اذان کے کچھ کلمات تعلیم فرما کر حکم دیا۔
عَنْ اَنَسٍ ؓ قَالَ اُمِرَبِلَالٌ اَنْ یَّشْفَعَ الْاَذَان۔(بخاری کتاب الاذان۔باب الاذان مثنٰی مثنٰی)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ کو اذان کے کلمات دو دو مرتبہ بولنے کا حکم دیا۔
اذان میں ترجیع نہیں:۔
ترجیع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شہادتین کو دو دو مرتبہ آہستہ آہستہ آواز سے کہا جائے پھر دودو مرتبہ بلند آواز سے جبکہ اذان میں ترجیع نہیں ۔ موجودہ مسجد نبوی کی اذان تواترِ عمل سے رہی ہے جو حضرت بلال ؓ حضور ﷺ کے سامنے دیا کرتے تھے۔
عَنْ اِبْرَاہِیْمَ ابْنَ اِسْمَاعِیْل ابن عبد الملک ابن ابی محذورۃ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّیَ عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ أَبِی مَحْذُورَۃَ، یَذْکُرُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا مَحْذُورَۃَ، یَقُولُ: أَلْقَی عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ حَرْفًا حَرْفًا اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الٰی آخرہٖ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ولم یَذکُر فیہ ترجیعًا) ۔(طبرانی معجم اوسط )
ترجمہ :۔ حضرت ابو محذورہ ؓکے پوتے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دادا سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ابو محذورہ فرماتے کہ مجھے حضور ﷺ نے اذان کے کلمات حرفًا حرفًا اللہ اکبر سے آخر اذان تک تعلیم فرمائے اور اس میں ترجیع کا کوئی ذکر تک نہ کیا ۔
الغرض حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کو صحیح روایت کے مطابق جو اذان خواب میں سکھائی گئی اور جو حضرت بلالؓ ساری زندگی مسجد نبوی میں آپ ﷺ کے سامنے دیتے تھے صحیح احادیث سے ان میں ترجیع ثابت نہیں ۔اب رہے حضرت ابو محذورہ ؓ جو بیت اللہ شریف کے مؤذن مقرر کیے گئے تھے یہ شوال ۸ھجری میں مسلما ن ہوئے ۔ انہوں نے مؤذّن کی اذان حالت کفر میں سن کر بلند آواز سے مذاقًااذان دی حضور ﷺ نے بلاکر اذان کی تعلیم دی اور چونکہ یہ غیر مسلم تھے تو تعلیم و تفہیم کے لئے آپ ﷺ نے شہادتین چار مرتبہ کہلوائے کہ توحید و رسالت دل و دماغ میں اتر جائے پھردعا دی تو یہ عاشق اسی تعلیم کے انداز سے اذان دیتے تھے ۔ پوری تفصیل معارف الحدیث ج ۳ ص ۱۵۱ پر ہے۔
اقامت کے جملے بھی مثلِ اذان دو دو مرتبہ دھرائے جائیں:۔
ترمذی اور ابن ابی شیبہ ؓ نے حضرت ابن ابی لیلیؓ تابعی سے روایت کیا ۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ زَیْدٍ الْأَنْصَارِیُّ، مُؤَذِّنُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْفَعُ الْأَذَانَ وَالْإِقَامَۃَ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلٰوۃ باب من کان یشفع الاقامۃ)
ترجمہ: ابن ابی لیلی تابعیؒ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زید ؓ مُؤذن ِ رسول ﷺ اذان اور اقامت دونوں کے جملوں کو دودو دفعہ دہراتے تھے ۔
چونکہ یہاں الاذان و الاقامۃ آپس میں معطوف علیہ اور معطوف ہیں لہذا یشفع دونوں کو شامل ہے ۔
عَنْ عَلِیٍّ اِنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ الْاَذَانُ مَثْنٰی مَثْنٰی وَالْاِقَامَۃُ مَثْنٰی مَثْنٰی وَمَرَّ بِرِجْلٍ یُقِیْمُ مَرَّۃً مَرَّۃً فَقَالَ اِجْعَلْھَا مَثْنٰی مَثْنٰی لَا اُمّ لَکَ ۔
(رواہ بیہقی فی کتاب الاذان )
ترجمہ: حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ کہ اذان بھی دو دو بار ہے اور اقامت بھی دو دو بار ۔ حضرت علی ؓ ایک آدمی کے پاس سے گزر ے جو اقامت ایک ایک بار کہہ رہا تھا تو آپ ؓ نے فرمایا تیری ماں مرے اسے دو دو بار کہہ ۔
گزارش ہے کہ اقامت کو دو دو بار کہہ کر حضرت علی ؓ کی بد دعا سے ضرور بچیں اور اپنی ماؤں کی خیر منائیں ۔ اللہ تعالیٰ سلامت رکھے،
اذان و اقامت کی تیسری شکل:۔
اذان و اقامت کے مکمل کلمات فرشتے نے عبد اللہ بن زید انصاری ؓ کو خواب میں تعلیم فرمائے جب یہ خواب حضور ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا عبد اللہ یہ کلمات بلال کو سکھا دو پھر یہی اذان و اقامت ہی رائج ہو گئی ۔۔
قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ” أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ زَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ جَاء َ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَأَنَّ رَجُلًا قَامَ وَعَلَیْہِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ عَلَی جِذْمَۃِ حَائِطٍ، فَأَذَّنَ مَثْنَی، وَأَقَامَ مَثْنَی۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ باب ما جاء فی الاذان ،رواہ ابو داوٗد ، بیھقی)
ترجمہ: حضرت عبد الرحمن ابن ابی لیلیؓ سے روایت ہے کہ مجھے بہت سے اصحاب ِ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ عبد اللہ ابن زید انصاریؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرد کھڑا ہوا جس پر دو سبز چادریں تھیں پھر وہ دیوار پر کھڑا ہوا اور اذان و اقامت دو دو بار پڑھا۔
اقامت میں قد قامت الصلوٰۃ کا جملہ بھی احادیث ہی سے ثابت ہے ۔ (بخاری کتاب الاذان )
اذان کی چوتھی اور آخری شکل :۔
حضرت بلال ؓ صبح کی اذان کے بعد کاشانہء نبوت پر حاضر ہو کر حضور ﷺ کو جماعت کے لئے بلاتے ایک دن جب آپ ؓ نے الصلوٰۃ ُ خیر ٌ من النّوم کے الفاظ سے رسو ل اللہ ﷺ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نے فرمایا بلال ان کلمات کو اذان ِ صبح میں شامل کر لو ۔ بس اسی دن سے آج تک وہی اذان واقامت مروّج ہے ۔ اگر مزید تحقیق و روایات کی ضرورت پیش آئے تو مولانا احمد یار خان گجراتی ؒ کی تالیف جاء الحق کے حصّہ دوم کی طرف رجوع فرمائیں۔
اذان خوب بلند آواز سے دی جائے :۔
چونکہ اذان سے مقصود اطلاعِ عام ہے لہذا جس قدر آواز بلند ہو گی تو اذان دُور تک جائے گی اور اطلاع زیادہ ہو گی اور یہ آوازکی بلندی دورانِ لاؤڈ سپیکر پر بھی ملحوظ رکھی جائے اور اقامت بھی صرف پاس کھڑے امام یا پہلی صف والوں کو ہی نہ سنائی جائے بلکہ اتنا بلند آواز سے اقامت کہی جائے کہ مسجد کے آخری حدود تک چلی جائے تاکہ کہیں کوئی مصروف ِ تلاوت ہے یا محوِ ذکر ہے یا وضو کر رہا ہے تو اس کو اطلاع ہو جائے کہ جماعت کھڑی ہو گئی ہے حیرت ہے ان لوگوں پر جو نہایت مہذّب اور شرمیلے بن کر انتہائی آہستہ آواز سے اقامت کہتے ہیں ۔ اس وجہ سے کہ وہ اقامت کی غرض سے بے خبر ہیں۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ لَہُ: إِنِّی أَرَاکَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِیَۃَ، فَإِذَا کُنْتَ فِی غَنَمِکَ، أَوْ بَادِیَتِکَ، فَأَذَّنْتَ بِالصَّلاَۃِ فَارْفَعْ صَوْتَکَ بِالنِّدَاء ِ، فَإِنَّہُ: لاَ یَسْمَعُ مَدَی صَوْتِ المُؤَذِّنِ، جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ وَلاَ شَیْء ٌ، إِلَّا شَہِدَ لَہُ یَوْمَ القِیَامَۃِ ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(بخاری کتاب الاذان باب رفع الصوت بالندآء )۔
ترجمہ:۔ حضرت عبد اللہ بن عبد الرحمٰن روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو سعید خدری ؓ نے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہو ں کہ تم بکریوں اور جنگل کو پسند کرتے ہو جب تم بکریوں کے پاس یا جنگل میں ہوتے ہو اور نماز کے لئے اذان کہو تو اپنی آواز بلند رکھو کیونکہ مؤذن کی آواز کو جو بھی جن و انس یا کوئی دوسری چیز سُنے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گا ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں ،کہ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
نوٹ۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اذان صرف مسجد میں اور صرف جماعت کے لئے ہی کہی جائے جبکہ یہ خیال درست نہیں بلکہ مسجد کے علاوہ کہیں جماعت ہو یا منفرد نمازی ، کسی پہاڑی ، جنگل یا صحرا ء وغیرہ میں جب بھی کوئی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے اذان دینی چاہیے تاکہ توحید و رسالت کا اعلان اور نماز کے لئے دعوت ہر جگہ گونج جائے ۔
اذان شِعارِ اسلام ہے:۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا غَزَا بِنَا قَوْمًا، لَمْ یَکُنْ یَغْزُو بِنَا حَتَّی یُصْبِحَ وَیَنْظُرَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا کَفَّ عَنْہُمْ، وَإِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَیْہِمْ۔
(بخاری کتاب الاذان باب مایُحقنُ بالاذان من الدِّمَآءِ )
ترجمہ:۔ حضرت انس ؓ حضور ﷺ کے بارے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ ہمارے ساتھ جنگ میں کسی قوم پر حملہ کرتے تو صبح کا انتظار فرماتے اگر صبح کی اذان اس قوم سے سن لیتے تو حملہ سے رُک جاتے اور اگر ان سے اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کر دیتے ۔
نوٹ:۔ گویا اذان مسلمان قوم ہونے کا شعار ہے جو قوم اذان دیتی ہو اس کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے جائیں گے اور اختلاف رائے کے باوجود ان کو مسلمان تصور کیا جائے گا سوائے مرزائیوں کے کہ وہ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے گویا رسالت کے منکر ہیں اور انکار ِرسالت کے بعد کسی تاویل سے بھی وہ مسلمان ثابت نہیں کیے جا سکتے ۔
اذان کی فضیلت اور شیطان کی چکّر بازی :۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا نُودِیَ لِلصَّلاَۃِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ، وَلَہُ ضُرَاطٌ، حَتَّی لاَ یَسْمَعَ التَّأْذِینَ، فَإِذَا قَضَی النِّدَاء َ أَقْبَلَ، حَتَّی إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاَۃِ أَدْبَرَ، حَتَّی إِذَا قَضَی التَّثْوِیبَ أَقْبَلَ، حَتَّی یَخْطِرَ بَیْنَ المَرْء ِ وَنَفْسِہِ، یَقُولُ: اذْکُرْ کَذَا، اذْکُرْ کَذَا، لِمَا لَمْ یَکُنْ یَذْکُرُ حَتَّی یَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ یَدْرِی کَمْ صَلَّی۔
(بخاری کتاب الاذان باب فضل التأذین)
ترجمہ:۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پاد مارتا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے اتنا کہ اذان نہیں سنتا ۔ بعد اذان واپس آجاتا ہے پھر اقامت سن کر پہلے کی طرح بھاگ جاتا ہے اقامت کے بعد واپس آکر انسانی دل میں وسوسہ ڈال کر کہتا ہے فلاں یاد کر فلاں یاد کر یہاں تک کہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنی رکعتیں نماز ادا کی ہیں ۔ العیاذ ُ بِااللہ ِ
اذان کا جواب دینا :۔
اذان سننے والے خاموشی سے اذان سنیں ۔ اگر تلاوت کر رہے ہیں تو بھی روک دیں اور اذان سن کر وہی کلمات ساتھ ساتھ دہرائیں۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاء َ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ المُؤَذِّن۔
ُ(بخاری کتاب الاذان باب مایقول اذسمع المنادی)
ترجمہ:۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم اذان سنو تو وہی کلماتِ اذان کہو جو مؤذن کہتا ہے۔
عَنْ عِیْسٰی بْن طَلْحَۃ انّہ سمع مُعاویۃ یَومًا فَقال بِمثلہ الی قولہٖ وَاشھدُ انّ محمدًا رّسولُ اللّٰہقَالَ یَحْیَی وَحَدَّثَنِی بَعْضُ إِخْوَانِنَا، أَنَّہُ قَالَ لَمَّا قَالَ حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ، قَالَ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ ، وَقَالَ: ہَکَذَا سَمِعْنَا نَبِیَّکُمْ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُول۔ (بخاری کتاب الاذان ایضًا )
ترجمہ:۔ حضرت عیسٰی بن طلحہ ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کو سنا کہ انہوں نے ایک دن مؤذن کے ساتھ ‘‘ اشھد انّ محمد رسول اللہ ’’ تک وہی کلمات جواب میں پڑھے ۔ حضرت یحییٰ ؓ کہتے ہیں مجھے بعض بھائیوں نے بتایا کہ حضرت معاویہ ؓ نے ‘‘ حیّ علی الصلوۃ ’’ کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الا باللہ ’’ پڑھا اور کہا میں نے تمہارے نبی ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے ۔
حضرت سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم بھی یہی کہو جب وہ ا شھد ان لا الہ الّا اللہ کہے تو تم بھی ایسا کہو جب وہ اشھد انّ محمد ًا رّسول اللہ کہے تو تم بھی یہی کہو اور جب وہ حیّ علی الصلوۃ اور حیّ علی الفلاح کہے تو تم لا حول ولا قوۃ االّا باللہ کہو پھر جب وہ اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم بھی ایسا ہی کہو جب لا الہ الّا اللہ کہے تو تم دل سے (اخلاص سے ) لا الہ الا اللہ کہو جو اس طرح اذان کا جواب دے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ (روایت کیا صحیح مسلم نے کتاب الصلوۃ باب استحباب القول مثل قول المؤذن )
امام مسلم ؒ کے باب استحباب القول کے استعمال سے ظاہر ہے کہ اذان کا جواب دینا مستحب ہے واجب نہیں ۔
اذان کے بعد دعاء :۔
اذان دینے والے اور سننے والوں کو چاہیے کہ دعاء پڑھیں اور دعا سے پہلے درود شریف بھی پڑھ لیں کہ حدیث مسلم سے یہی ثابت ہے ۔ ایک صاحب نے لکھا کہ اذان کے بعد درود کا حکم حضور ﷺ نے سننے والوں کو دیا ہے خود اذان دینے والے کے لئے نہیں حیرت ہوئی اس خیال اور درود شریف بارے اس قدر بخل پر کیونکہ اذان دینے والے اور جواب دینے والوں نے اذان میں رسول محترم کا نام لیا ہے ۔لہذا دونوں درود پڑھیں ۔ مؤذن اصل ہے اور سامع فرع ۔ فرع پر درود پڑھنا لازم ہو اور اصل پر نہیں یہ کیا معقولیت ہوئی ؟ پھر حضور ﷺ کا حکم درود تو سب کو شامل ہے آپ ﷺ نے یہ کب فرمایا کہ ثم صلّو ا علی الّا المؤذن کہ بعد از اذان باقی دردو پڑھیں اور خود مؤذن اس سعادت سے محروم رہے ۔ہاں علمآء دیوبند نے اس جگہ درودشریف پڑھنے کا ذکر پوری دیانت سے کیا ہے ۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کوئی بعد از اذان سِرًّا درود پڑھے تو وہ بھی درود ہی ہے کہ درود پڑھنے کے لئے جہر ہی لازم نہیں ۔ اللہ کریم اختلاف سے امت کو بچائے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جب نمازکے لیے اذان دی جاتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے ۔ (رواہ مسنداحمد )
اذان کے بعد مشہور و معروف دعاء حدیث رسول ﷺ سے :۔
عَنْ جَابِرِ بنْ عَبْدُ اللّٰہِ انَّ رسول اللّٰہ ﷺ قال من قال حین یسمعُ النِّدآءَ اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقآئِمَۃِ اٰتِ (سَیِّدَنَا )مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَوَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدَنِ ِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ حلّت لہٗ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔(بخاری کتاب الاذان باب الدعآء عند الندآء )
ترجمہ:۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو اذان سن کر یہ دعا پڑھے کہ اے اللہ ! اے اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے رب محمد ﷺ کو وسیلہ و فضیلت اور وہ مقامِ محمود عطا فرما جس کا آپ نے اس سے وعدہ کیا ہے تو اس کے لیے بروز قیامت میری شفاعت حاصل ہو گئی ۔
اذان کے دوران کانوں میں اُنگلیاں ڈالنا اور بغیر وضو کے اذان دینا :۔
امام بخاری ؒ کتاب الاذان ج 1 میں کانوں میں انگلیاں ڈالنے اور نہ ڈالنے کے بارے میں صحابہ کا عمل ذکر کرتے ہیں اور پھر اذان کے لئے باوضو ہونے اور نہ ہونے کی بات کرکے بغیر فیصلہ دئیے اور کسی طرف ترجیح دئیے آگے گزر جاتے ہیں کہ مسائل کا اخراج احادیث سے اس کا منصب نہیں یہ ائمہ فقہ کا منصب ہے لہذا ملا حظہ ہو فقہ حنفی کی عبارت ۔
وینبغی أن یؤذن ویقیم علی طہرٍ، فإن أذن علی غیر وضوء ٍ جاز، ویکرہ أن یقیم علی غیر وضوء ٍ أو یؤذن وہو جنبٌ۔
(قدوری باب الاذان )
ترجمہ :۔ چاہیے کہ اذان و اقامت باوضو ہو کر دی جائے ہاں اگر اذان بغیر وضو کے دی تو جائز ہے مگر اقامت بغیر وضو کے مکروہ ہے ۔ یا اذان دینا حالت ِ جنابت میں بھی مکروہ ہے ۔ (واضح رہے کہ مکروہ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمل جائز ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ایسا کرنا پسندیدہ عمل نہیں جواز میں کوئی شک نہیں ۔)
اذان مندرجہ ذیل عقائد و نظریات کا اظہار و اعلان اور دعوت ہے:۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی و بڑائی ۔۲۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی
۳۔ حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی ۔۴۔ نماز کی دعوت
۵۔ فلاح و کامرانی کے راستہ کی دعوت ۶۔ نماز کی نیند وغیرہ سے فضیلت
۷۔ آخر اذان میں پھر اللہ تعالیٰ کی کبریائی و بڑائی اور اس کی الوہیت کی وحدانیت کا اعادہ ۔
یہ پیغام ہمہ وقت چوبیس گھنٹے مسلسل کائنات میں گونج رہا ہے جب کسی ایک شہر میں اذانوں کا وقت ختم ہوتا ہے تو دوسرے شہر میں شروع ہوتا ہے اور یہ عمل اسی طرح مسلسل چلتا رہتا ہے کبھی رکتا نہیں پھر یہ بھی ممکن ہے کہ جب کسی ایک ملک میں یہ پیغام گونج رہا ہو عین اسی وقت کسی دوسرے دور دراز ملک میں کسی اور نماز کا وقت ہو اور وہاں بھی اذانین گونج رہی ہوں ۔ حق بھی یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا ایک اکیلا خالق ، مالک اور رازق ہے اس کی تعریف اور اس کی بندگی کا اعلان جہان میں ہمہ وقت ہوتا رہے اور ورفعنالک ذکرک کے تحت اس کے محبوب ﷺ کا ذکر بھی اذان و اقامت و دعاء و نماز میں ساتھ ساتھ چلتا رہے ۔
جو ذکر ِ خدا کرے ذکر مصطفی نہ کرے ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
(سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ)
مُروّج دُعاء کے آخری کلمات وَرزَقنَا شفاعتہ یوم القیامۃ :۔
حضور ﷺ سے اکثر مقاماتِ دعاء میں کئی کئی دعائیں احادیث کی زینت ہیں جبکہ ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے کسی ایک کو ہی یاد کر پاتے ہیں جیسے نماز میں تکبیر تحریمہ کے بعد یا پھر آخری قعدہ میں درود شریف کے بعد یا ایسے نما ز جنازہ کے موقع پر کئی دعائیں ملتی ہیں ۔ اب جو دعا بعد از اذان عوام میں مروج ہے یہ بخاری سے لی گئی ہے اور اس میں ورزقنا شفاعتہٗ یوم القیامۃکے الفاظ بظاہر تو نہیں ہیں لیکن اس جگہ حلّت لہ شفاعتی یوم القیامۃ کے الفاظ ہیں جو ورزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ پر دلالت کر رہے ہیں پھر بھی اگر آپ الفاظ کی تلاش کریں تو الفاظ یہ ہیں ۔
وَاجْعَلْنَا فِیْ شَفَاعَتِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔
یہ الفاظ حضور ﷺ کی دعا کے آخری الفاظ ہیں جو آپؐ فرمایا کرتے تھے ۔
یہ پوری دعا ان الفاظ سمیت آپ کو مجمع الزوائد ج۔۲ رقم 1879,1878 ص 94 پر ملے گی ۔
اذان کے اوّل و آخر میں جہرًا مخصوص الفاظ سے درود کا لزوم :۔
ہم ایک ایسے دَور سے گزر رہے ہیں جہا ں شریعت کا اتباع کم اور تعصّب کا دَور دورہ ہے اکثر علماء جانبداری میں بات کرتے نظر آتے ہیں اور اکثر ایسے بھی ہیں جو کسی مسئلہ کو گہرائی سے جانتے تک نہیں مگر دلائل پر دلائل دیتے چلے جاتے ہیں ۔ کچھ وہ بھی ہیں جو حق کو سمجھتے تو ہیں مگر خوفِ مخالفت میں حق بولنے کی جراء ت نہیں کرتے ۔
جہاں تک مطلق درود شریف کی بات ہے تو نہ اس کی فضیلت سے انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی بھی وقت پڑھنے سے۔ مسئلہ صرف تب پیدا ہوتا ہے جب ایک مطلق اور غیر لازم عمل کو مخصوص الفاظ اور مخصوص وقت سے یوں لازم کر دیا جائے کہ اس پر عمل نہ کرنے والے کو بُرا بھلا بھی کہا جائے اور فرض کو تو کبھی مجبورًا چھوڑ دیا جائے مگر اپنے جاری کردہ عمل کو ہر حال میں جاری رکھا جائے ۔ پھر یہ کہ ایک عمل جائز تو ہو مگر اس کو جہر سے یوں لازم تصور کیا جائے کہ سرًا پڑھنے کو جائز ہی نہ سمجھا جائے ۔ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے وہ یہ کہ اذان کو اللہ جل شانہ کے مبارک نام سے شروع کیا جائے اور اسی کے عظیم اور بابرکت نام پر ختم کیا جائے ۔ جہاں تک اول و آخر مخصوص الفاظ سے درود کی بات ہے تو اس بارے میں شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی ؒ کی شرح صحیح مسلم کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہ ہو گا جہاں تک مجھے یاد ہے آپ فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ درود شریف کو اذان کے اول و آخر میں جہری پڑھنا یہ خیر القرون میں نہ تھا بعد میں ملایا گیا ہے ۔ یعنی حضور ﷺ کے مبارک زمانہ میں اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں صرف اذان ہی جہرًا کہی جاتی تھی ۔ اب رہا درود شریف کا مسئلہ تو اذان سے پہلے کسی حدیث میں نہیں، عموم سے ثابت ہے مگر عموم سے تو اور بھی بہت کچھ ثابت ہوتا ہے کیا ہم وہ سب کرتے ہیں ـ؟ مثلًا عموم سے رات بھر یا دن بھرتلاوت کرنا یا نوافل پڑھنا ثابت ہے کیا ہم کرتے ہیں ۔ جو چیز عموم سے ثابت ہو اس کو عموم پر رکھا جائے نہ کہ خاص کر لیا جائے یہی وجہ ہے کہ حضور ضیاء الامت ؒ نے اپنے مُؤذن کو پابند کیا ہوا تھا کہ وہ اذان کے شروع میں درود و سلام نہ پڑھے اور بعد اذان بھی کچھ وقفہ دے کر پڑھے اور اختتام رب کریم کی حمد پر یوں کرے الصلوۃ والسلام علیک یا رحمۃً للعٰلمین و الحمد للہ رب العالمین چونکہ بعد از اذان حدیث مسلم سے ثابت ہے مگر درود وہی ثابت ہے جہر کا لزوم ثابت نہیں۔
اذان کے بعد درود شریف پر اپنا عمل اس طرح ہے کہ بعد از اذان دعاء سے پہلے اس کو سرًا پڑھ کر ساتھ ہی دعا پڑھ لیتا ہوں کہ یہ درود شریف اذان کے بعد بھی ہو جائے اور دعا کی قبولیت کے لئے اس کے شروع میں بھی ہو جائے یہ سارا عمل سرًّاکر لیا جاتا ہے گویا ہرکسی کو اصلاح کی ضرورت ہے اللہ ہمیں فہم وسعتِ نظری اور اپنی اپنی اصلاح کی تو فیق عطا فرمائے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسلِّمْ عَلَیْہِ۔
اذان و اقامت کے چند عمومی مسائل :۔
۱۔ اذان صرف نماز پنج گانہ اور جمعہ کے لئے سنت ہے باقی کسی نماز کے لئے نہ اذان دینا سنت ہے اور نہ ہی اقامت جیسے نماز وتر ، نماز تراویح ، عیدین ، نماز کسوف و خسوف یا نماز استسقاء وغیرہ کسی کے لئے اذان دینا سنت نہیں ۔
۲۔ اذان کھڑے ہو کر دی جائے اگر کسی عذر سے بیٹھ کر دے تو جائز ہے کہ عذر سے خود نماز بھی بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے ۔
۳۔ اذان کے دوران سر پر کپڑا ہونا ادب تو ہے مگر مسئلہ نہیں کیونکہ اذان نماز نہیں بلکہ ذکر ہے اور اذکار کے لئے نہ وضو شرط ہے نہ قبلہ رو ہونا شرط ہے نہ کپڑے کا سر پر ہونا شرط ہے ۔
۴۔ اذان کو ترسیل سے پڑھا جائے یعنی کلمات کو الگ الگ کرکے پڑھا جائے مگر اذان میں گانے کی طرح غنا ء منع ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کو ایک شخص نے کہا میں آپ کو اللہ کے لئے محبوب رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا میں آپ کو اللہ کے لئے ناپسند کرتا ہوں اس نے کہا ایسا کیوں تو آپ نے فرمایا کہ تو اذان کو گاتا ہوا پڑھتا ہے ایسے ایک دوسرے آدمی کی اذان کو حضرت عمر بن عبد العزیز ؒنے سُنا تو فرمایا ٹھیک طریقہ سے اذان دے یا پھر ہٹ جا کوئی اور دے دے گا۔
۵۔ اقامت یعنی تکبیر میں ترّسل کی بجائے حدر کی جائے یعنی جلدی جلدی جملے کہے جائیں۔
۶۔ اذان میں حیّ علی الصلٰوۃ اور حیّ علی الفلاح پر اب دائیں بائیں چہرہ پھیرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ اب سپیکر ہے دائیں بائیں منہ پھیرنے سے آواز کی بلندی میں فرق آتا ہے اگر آپ کہیں کہ حضرت بلال ؓ نے ایسا کیا تو پھر آپ کو سپیکر بھی چھوڑنا ہو گا مسجد سے بھی باہر آنا ہو گا اور کسی اونچی جگہ پر اذان دینی ہو گی پھر دائیں بائیں چہرہ بھی پھیرلینا ۔
۷۔ اگر ایک جماعت کی نماز قضا ہو جائے تو اسے ادا کرنے کے لئے اذان و اقامت دونوں سنت ہیں کہ حضور ﷺ نے ایسا ہی کیا ۔
۸۔ کسی بھی اذان کو وقتِ نماز کے داخل ہونے سے پہلے نہ کہا جائے ۔ اگر کہہ دی گئی تو وقت پر اس کا اعادہ کرے ۔ ہاں فجر کی اذان امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک صبح صادق سے پہلے جائز ہے مگر اس سے بھی وہ اذان مراد ہے جو حضرت بلال ؓ تہجد کے لئے دیا کرتے تھے اور بعد میں نماز کے لئے پھر سے اذان دی جاتی تھی ۔ (ملاحظہ ہو بخاری کتاب الاذان )
۹۔ اقامت خود امام صاحب بھی پڑھ سکتا ہے یہ رواج ہے کہ وہ نہیں پڑھتا مسئلہ نہیں ۔ حضور ﷺ نے ایک دن خود اذان پڑھی خود ہی اقامت پڑھی اور خود ہی نماز پڑھائی ۔
۱۰۔ اقامت صرف پہلی صف پر امام کے پیچھے ہی نہیں بلکہ کسی بھی صف اور مسجد کے کسی بھی کونے سے پڑھنی جائز ہے ۔
فضائل نماز
دین ِ اسلام میں کلمہ طیبہ پڑھ لینے اور اس کا دل سے اقرار کرلینے کے بعد جس عنوان اور حکم کو بنیادی و مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ نماز ہے جو بندگی کی کامل ترین صورت ہے اور کثیر عبادات کا مجموعہ ہے ۔ یہ تحفہء معراج ہے فرشتوں کی جملہ عبادات کو شامل ہے ۔ بندے اور رب کے درمیان رابطے اور کلام کا عمدہ ترین طریقہ ہے۔ اللہ و رسول کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے فکر و قلب کی اصلاح اور ظاہری و باطنی صفائی اور صحت و تندرستی کے لئے اکسِیر ہے ۔ علامتِ ایمان اور دلیلِ مسلمانی ہے قرآن مجید کی ہزاروں اٰیات بیّنات کی بجا آوری ہے جن اٰیات کا تعلق اقامتِ صلٰوۃ ، ذکر ِ خداوندی ، تسبیح و حمد ِباری تعالیٰ سے ہے۔
نماز دراصل بوجھ نہیں بلکہ رب کا بندوں پر احسان ہے کہ اللہ جل شانہ نے اپنے در پر حاضری اپنے دسترخوان ِ کرم سے مانگنے اور اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کیا کہ انسان رب کی ذات والا صفات سے کٹ کر نفس وابلیس اور متاعِ دنیا کے دھوکے میں گرفتار ہو کر ابدی بدبخت اور خائب و خاسر نہ ہو جائے ۔
اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی نماز تیری دید کا اِک بہانہ بنی
فضائل نماز احادیث کی روشنی میں :۔
چونکہ زیرِ نظر کتاب کی تحریر و تالیف سے اصل مقصود یہ ہے کہ احناف کی نماز کو احادیث کی روشنی میں پیش کیا جائے لہذا فقہی مسائل سے اجتناب کرتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ احادیث مبارکہ پیش ِخدمت ہیں۔
(۱) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ، وَرَمَضَانُ إِلَی رَمَضَانَ، مُکَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَہُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِر۔
َ( مسلم کتاب الطہارت باب الصلوات الخمس)
ترجمہ:۔ ابوھریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے پانچوں نمازیں ، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک درمیانی عرصہ کے لئے کفّارہءِ سیّاٰت ہیں جبکہ کبائر سے بچا جائے ۔
(۲) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَہَرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ ذَلِکَ یُبْقِی مِنْ دَرَنِہِ قَالُوا لاَ یُبْقِی مِنْ دَرَنِہِ شَیْئًا، قَالَ فَذَلِکَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، یَمْحُو اللَّہُ بِہِ الخَطَایَا۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوٰت الخمس،مسلم )
ترجمہ:۔ ابوھریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تمہارا کیا خیال ہے اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ دن میں پانچ دفعہ اس میں غسل کرے تو اس کے بدن پر کوئی میل باقی رہ جائے گی ؟ گزارش کی جناب کوئی مَیل باقی نہیں رہے گی تو جناب نے فرمایا بس پانچ نمازیں ادا کر لینا بھی ایسے ہی ہے کہ اللہ ان کی ادائیگی سے تمام خطائیں مٹا دیتا ہے ۔
(۳) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَۃٍ قُبْلَۃً، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَہُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: (أَقِمِ الصَّلاَۃَ (ص:112) طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ، إِنَّ الحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ) (ہود: 114) فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ أَلِی ہَذَا؟ قَالَ: لِجَمِیعِ أُمَّتِی کُلِّہِمْ وفی روایۃ لمن عمل بھا مِنْ اُمَّتی ۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلات کفارۃ۔مسلم )
ترجمہ:۔ عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ کسی آدمی نے کسی عورت کا بوسہ لے لیا تو رسول اللہ ﷺ کو آ کر خبر دی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ قائم کریں نماز دن کے دونوں سِروں پر اور کچھ رات کے حصّوں میں بے شک نیکیاں مٹادیتی ہیں برائیوں کو تو اس آدمی نے گزارش کی یا رسول اللہ ﷺ کیایہ کرمِ خداوندی صرف میرے لئے خاص ہے ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا نہیں یہ میری ساری امّت کے لئے ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میری امت میں سے جو اس پر عمل کرے ۔
(۴) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَاء َہُ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْہُ عَلَیَّ، قَالَ: وَلَمْ یَسْأَلْہُ عَنْہُ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلاَۃُ، فَصَلَّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلاَۃَ، قَامَ إِلَیْہِ الرَّجُلُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْ فِیَّ کِتَابَ اللَّہِ، قَالَ: أَلَیْسَ قَدْ صَلَّیْتَ مَعَنَا قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ” فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ ذَنْبَکَ، أَوْ قَالَ: حَدَّکَ۔
(بخاری کتاب المحاربین من أہل الکفر والردۃباب إذا أقر بالحد ولم یبین ہل للإمام أن یستر علیہ،مسلم )
ترجمہ:۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے ایک شخص حضور ﷺ سے آکر گزارش کرتا ہے میں نے قابل ِ حد جرم کردیا ہے مجھ پر حد قائم فرمائیں (جرم کی سزا جاری ) آپ نے فرمایا تو اس بارے تونے کسی سے پوچھا نہیں ؟ اتنے میں نماز کھڑی ہوئی تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی بعد از نماز کھڑا ہو کر پھر کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے قابل حد جرم کر لیا مجھ پر حد بطور سزا جاری فرمائیں حضور ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ تو اس نے کہا جی پڑھی ہے تو جناب نے فرمایا پھر اللہ نے یقینًا تیراگناہ یا تیری حد بخش دی ۔
نوٹ ۔ ربِ کریم نے کرم کی انتہا کر دی مگر عین ممکن ہے اس بخشش کا دار و مدار حضور ﷺ کی صحبت و اقتداء کے ساتھ ہو ۔ جبکہ اَلَیْس قد صلّیت معنا کے الفاظ اسی طرف اشارہ بھی کررہے ہیں۔
(۵) عن عَبْد اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَیُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الصَّلاَۃُ عَلَی مِیقَاتِہَا ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الوَالِدَیْنِ ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: الجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَسَکَتُّ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب فضل الصلٰوۃ ،مسلم)
ترجمہ:۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اللہ کے ہاں کونسا عمل زیادہ محبوب ہے تو سرور عالم ﷺ نے فرمایا نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا ،میں نے کہا جناب نماز کے بعد کونسا عمل زیادہ محبوب ہے تو فرمایا والدین سے نیکی کرنا میں نے کہا پھر ؟ تو جناب نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ ابن مسعود ؓ نے کہا میں خاموش رہا اوراگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ ﷺ مزید فرماتے ۔
(۶) عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاء ِ وَالْوَرَقُ یَتَہَافَتُ ، فَأَخَذَ بِغُصْنَیْنِ مِنْ شَجَرَۃٍ، قَالَ: فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ یَتَہَافَتُ، قَالَ: فَقَالَ: یَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ: لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ. قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّی الصَّلَاۃَ یُرِیدُ بِہَا وَجْہَ اللَّہِ، فَتَہَافَتُ عَنْہُ ذُنُوبُہُ کَمَا یَتَہَافَتُ ہَذَا الْوَرَقُ عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ۔
(رواہ احمد بن حنبل ؒ )
ترجمہ :۔ ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سردیوں کے زمانے باہر تشریف لے گئے جبکہ پت جھڑ کا موسم تھا جناب نے ایک درخت کی ٹہنیوں کو پکڑا تو اس کے پتے گرنے لگے تو آپ ﷺ نے ابو ذر سے فرمایا اے ابو ذر تو میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ ِ مُسلم محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے جھڑ گئے ۔
(۷) عن عُبادۃبن الصامت قال أَشْہَدُ أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَہُنَّ اللَّہُ تَعَالَی مَنْ أَحْسَنَ وُضُوء َہُنَّ وَصَلَّاہُنَّ لِوَقْتِہِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوعَہُنَّ وَخُشُوعَہُنَّ کَانَ لَہُ عَلَی اللَّہِ عَہْدٌ أَنْ یَغْفِرَ لَہُ، وَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ فَلَیْسَ لَہُ عَلَی اللَّہِ عَہْدٌ، إِنْ شَاء َ غَفَرَ لَہُ وَإِنْ شَاء َ عَذَّبَہُ۔
(رواہ احمد، ابوداوٗد کتاب الطہارۃ باب المحافظۃ علی الصلوات ،مالک والنسائی )
ترجمہ :۔ عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض فرمائیں جو خوب اچھی طرح سے ان کے لئے وضو کرے اور ان کو وقت پر اداکرے اور ان کے رکوع کو پوری طرح ادا کرے اور ان میں خشوع سے کام لے تو اس کا اللہ کے ہاں ذمّہ کرم ہے کہ اس کو بخش دے اور جو ایسا نہ کرے اس کے لئے اللہ کے ذمہ کچھ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔
نوٹ :۔ حدیث بالا سے ظاہر ہے کہ جو ان نمازوں کو ادا نہ کرے وہ قابل مغفرت ہے جبکہ قابل مغفرت کے لئے ایمان لازمی ہے تو ظاہر ہے کہ ترک نماز گناہ کبیرا ہے کفر نہیں جن احادیث سے کفر کا اظہار ہوتا ہے ان کی بھی ایسی ہی تاویل کی جائے گی جس سے حدیث ھذا کا رد لازم نہ آئے ۔ ایک دوسری حدیث اس طرح ہے کہ ایک جوان صحابی نے شادی کی بیوی نے حضور ﷺ کو شکایت کی کہ صبح کی نماز کا تارک ہے حضور ﷺ نے بلا کر پوچھا تو اس نے جوانی اور نئی نئی شادی کا عذر پیش کیا کریم نبی ﷺ نے اس پر کفر کا فتوی نہ لگایا بلکہ فرمایا اچھا جب بھی صبح بیدار ہوتے ہو تو پڑھ لیا کرو ۔ یعنی قضا کر لیا کرو ۔
(۸) قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” فَفَرَضَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی أُمَّتِی خَمْسِینَ صَلاَۃً، فَرَجَعْتُ بِذَلِکَ، حَتَّی مَرَرْتُ عَلَی مُوسَی، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللَّہُ لَکَ عَلَی أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِینَ صَلاَۃً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لاَ تُطِیقُ ذَلِکَ، فَرَاجَعْتُ، فَوَضَعَ شَطْرَہَا، فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی ، قُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَہَا، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لاَ تُطِیقُ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَہَا، فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ، فَقَالَ: ارْجِعْ ربَّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لاَ تُطِیقُ ذَلِکَ، فَرَاجَعْتُہُ، فَقَالَ: ہِیَ خَمْسٌ وھی خمسون لا یبّدلُ القول لدیَّ فرجعتُ الی موسیٰ ؑ فقال راجعٌ ربک فقلتُ استحییت ُ من رّبّی۔
(بخاری کتاب الصلوۃ کیف فرضت الصلوات فی الإسراء )
یہ کتاب الصلوۃ کی پہلی حدیث ہے جس میں معراج کا تفصیلی ذکر ہے اس حدیث سے متعلقہ حصّہ پیش کیا گیا ہے۔
ترجمہ:۔ حضور ﷺ نے فرمایا معراج کی رات اللہ نے میری امت پر پچاس (۵۰) نمازیں فرض فرمائیں تو میں لیکر واپس ہوا ،پر جب موسیٰ ؑ کے پاس سے گزر ا تو انہوں نے کہا اللہ نے آپ کی اُمت پر کیا فرض فرمایا میں نے کہا پچاس نمازیں تو بولے اپنے رب کے پاس واپس جاؤ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی تو میں واپس گیا تو اللہ نے ایک حصہ کم کر دیں پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو بتایا کہ ایک حصہّ کم ہو گئیں تو انہوں نے کہا رب کے پاس واپس جاؤ آپ کی امت ان کی بھی طاقت نہیں رکھتی تو میں واپس گیا ایک حصّہ کم ہو گیا پھر موسٰی ؑ کے پاس آیا تو بولے رب کے پاس واپس جاؤ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی تو میں اللہ کے پاس واپس گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب یہ پانچ ہیں مگر یہ اجر میں پچاس ہیں کہ میرے پاس قول بدلتے نہیں تو میں موسٰیؑ کے پاس واپس پلٹا تو انہوں نے کہا رب کے پاس پھر جاؤ تو میں نے کہا اب مجھے اپنے رب سے شرم آتا ہے۔
سبحان اللہ ! کیا عجیب منظر حدیث میں پیش کیا گیا رب نے ایک ملاقات کے لئے بلایا تھا نماز کے طفیل اور موسٰیؑ کی مداخلت سے کئی باربار گاہ ایزدی میں شرف ملاقات نصیب ہوتا رہا ۔ کریم رسول بار بار جاتا رہا کریم رب نے ایک مرتبہ بھی خالی نہیں موڑا یہی اس کو زیبا بھی ہے ۔ کہ آخر میں حضور ﷺ جانے سے حیا کی وجہ سے رک گئے اگر جاتے تو خالی نہ آتے ۔ یوں کہیں کہ بندہ مانگتے مانگتے بس کر گیا دینے والے نے دینے سے انکار نہ کیا ۔مزید کرم یہ فرمایا کہ پڑھیں پانچ نمازیں اور اجر پچاس نمازوں کا پائیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ رب نے تو پچاس نمازیں عطا فرمائیں پچاس سے پانچ کس کے واسطہ سے ہوئیں ؟ یہ واسطہ حضرت موسیٰ ؑ اور جناب سید الانبیآء بنے اب اگر واسطہ کا انکار کریں تو پچاس ادا کرنا پڑتی ہیں لہذا واسطہ کو تسلیم کر لیتے ہیں ۔ میرے ذوق کی خاص بات یہ ہے کہ حضور ﷺ پچاس لیکر چلے تھے آپ کے ذوق بندگی میں یہ بالکل زیادہ نہ تھیں اور حضرت موسٰی ؑ نے بھی امت کی بات کی کہ وہ ادا نہ کر سکیں گے صرف امت کی خاطر بار بار جانا پڑا مگر حیرت ہے امت پر کہ بڑی لاپرواہی سے اس عظیم تحفہء خداوندی کو ترک کرکے ناشکری کا مظاہر ہ کرتی ہے ۔ حضور ﷺ کو حیاء اس وجہ سے آئی کہ رب کریم فرمائیں گے پچاس سے پانچ کر دیں اب ان کی ادائیگی کے لئے بھی تیار نہیں ۔ وہاں حضور ﷺ کو حیاآگئی آج ہم کو حیا نہیں آتی کہ دعوی بھی مسلمان ہونیکا، رب کا بندہ اور نبی کا غلام ہونے کا کریں اور ہمارا سر بارگا ہ ایزدی میں جھکنے سے محروم ہو ۔ ایسے حرماں نصیبوں کے لئے خدائی اور قرآنی جلال ملاحظہ ہو ۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُوْنَ o (سورۃ المرسلٰت اٰیہ ۴۸)
ترجمہ:۔ اور آج جب ان سے کہا جاتاہے کہ اپنے رب کے سامنے جھکو تو نہیں جھکتے ۔
ایسے لوگ بے نمازوں کا کل قیامت کا منظر اور ذلّت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلیٰ السُّجُوْد۔فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌط (سورۃ القلم ۔ ۴۲)
ترجمہ:۔ جس روز پردہ اٹھایا جائے گا ایک پنڈلی سے تو ان کو سجدہ کی دعوت دی جائے گی تو وہ سجدہ نہ کر سکیں گے ندامت سے جھکی ہونگی ان کی آنکھیں ان پر ذلّت چھا رہی ہو گی ۔
اے اللہ تعا لیٰ ہمیں نماز کی سعادت سے کبھی محروم نہ فرما اور ہماری نسلوں کو بھی توفیق عطا فرما ۔
(۹) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَا صَلَّی یُنَاجِی رَبَّہُ، فَلاَ یَتْفِلَنَّ عَنْ یَمِینِہِ، وَلَکِنْ تَحْتَ قَدَمِہِ الیُسْرَی ۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ حدیث باب باب المصلی یناجی ربّہٗ )
ترجمہ:۔ سید نا انس ؓ سے روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے تم میں سے جو کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے لہذا اس کو اپنیدائیں نہیں تھوکنا چاہیے ہاں لیکن اپنے بائیں قدم کے نیچے ۔
(۱۰) عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا فَقَالَ: مَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا، کَانَتْ لَہُ نُورًا، وَبُرْہَانًا، وَنَجَاۃً مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْہَا، لَمْ تَکُنْ لَہُ نُورًا، وَلَا نَجَاۃً، وَلَا بُرْہَانًا، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامَانَ، وَأُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ۔
(رواہ احمد والدارمی والبیھقی فی شعب الایمان)
ترجمہ :۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک روز نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا جو نماز کی حفاظت کرے گا تو نماز اس کے لئے نور ،حجت اور نجات کا باعث ہو گی کل قیامت کے دن ۔ اور جو اس کی حفاظت نہ کرے اس کے لئے نہ نور ہو گا نہ حجت اور نہ قیامت کے روز نجات ہو گی اس روز وہ قارون ،فرعون ، ھامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا ۔
نماز سے محرومی احادیث کی روشنی میں:۔
نماز اسلامی تعلیمات کا وہ بنیادی حکم ہے جس پر پوری اسلامی عمارت قائم ہے جس طرح اللہ جل شانہ نے ہر ذی روح کی زندگی کا مدار پانی پر رکھا عین اسی طرح ہر مومن کے ایمان وعمل ، اخلاق و کردار اور اصلاحِ ظاہر و باطن کا دارو مدار نماز پر ہے ۔ نماز تمام انبیاء کی تعلیمات اور جملہ شریعتوں کی مرکزی تعلیم ہے نماز کے بغیر اسلام کا تصور کرنا ناممکن ہے جب حضور ﷺ سے گزارش کی گئی کہ ہم اسلام کو قبول کرتے ہیں مگر اس شرط پر کہ نماز نہیں پڑھیں گے تو حضور ﷺ نے فرمایا وہ کونسا دین ہوا جس میں نماز نہ ہو ۔ ترکِ نماز کی برائی پر چند احادیث پیش ِ خدمت ہیں۔
۱۔ عن جَابِرٍ قالَ: قالَ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: “بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصّلاَۃِ
(ترمذی کتاب الإیمان عن رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب ما جَاء َ فی تَرْکِ الصّلاۃ )
ترجمہ:۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا ہی فاصلہ ہے۔
۲۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ ؓ قَال قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: العَہْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمُ الصَّلَاۃُ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ۔
(ترمذی کتاب الإیمان عن رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب ما جَاء َ فی تَرْکِ الصّلاۃ،رواہ ابن ماجہ والنسائی)
ترجمہ:۔ حضرت بُرَیدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارے اور اسلام قبول کرنے والے عام لوگوں کے درمیان نماز کا عہد و میثاق ہے وہ ہے نماز کا نہ چھوڑنا پس جس نے نماز چھوڑدی تو اس نے عہد کا انکار کر دیا جو ہمارے ساتھ کیا تھا۔
۳۔ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ، قَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ: لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ شَیْئًا، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلَا تَتْرُکْ صَلَاۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا، فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ، وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ، فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ ۔
( ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء )
ترجمہ:۔ حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھے وصِیْت فرمائی کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تیرے ٹکڑے کر دیئے جائیں اور آگ میں جلا دیا جائے اور فرض نماز نہ چھوڑنا جان بُوجھ کر بس جو دانستہ فرض نماز کو چھوڑدے تو میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں اور شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے ۔
۴ فَمَنْ تَرکَھَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ ۔
(مجمع الزوائد کتاب الوصایاباب وصیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
ترجمہ:۔ پس جس نے عمدًا نماز کو ترک کر دیا وہ ملّت سے خارج ہو گیا۔
نوٹ:۔ ایسی ہی چند دیگر احادیث کی بنیاد پر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے نماز کو معیار قرار دیتے ہوئے ہر اس انسان کو ملّتِ اسلامی سے خارج تصور نہیں کیا جو اہل ِقبلہ یعنی نمازی ہو لہذا مقلدین امام پر لازم ہے کہ وہ توحید باری کا اقرار کرنے والے ہمارے قبلہ کو قبلہ یقین کرنے والے اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھنے والے پر کفر کے فتوے سے اجتناب کریں ورنہ ایک حدیث کی روشنی میں جو کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگائے وہ خود کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ کمال یہ نہیں کہ توحید و رسالت کے قائل کو کافر ثابت کیا جائے بلکہ کمال یہ ہے کہ کسی غیر مسلم پر محنت کرکے اس کو دائرہِ اسلام میں شامل کیا جائے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
نِشہ پلاکے گِرانا تو سب کو آتا ہے مزاتو تب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقیؔ
۵۔ جلیل القدر تابعی عبد اللہ بن شقیق العقیلی نے حضرات صحابہ کرام کے بارے فرمایا ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَقِیقٍ العُقَیْلِیِّ، قَالَ کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَرَوْنَ شَیْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْکُہُ کُفْرٌ غَیْرَ الصَّلَاۃِ ۔
( الترمذی أبواب الإیمان، عن رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم باب ما جاء فی ترک الصلاۃ)
ترجمہ:۔ اصحاب رسول ﷺ اعمال اسلامی میں سے سوائے نماز کے کسی عمل کے ترک کو کفر خیال نہیں کرتے تھے ۔
ان مذکورہ احادیث سے امام احمد بن حنبل ؒ اور بعض دوسرے اکابِر امت نے یہ سمجھا کہ جو قصدًا بلا وجہ نماز ترک کرے وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور وہ ملت اسلامیہ کافر د باقی نہیں رہتا مگر دیگر ائمہ اور جمہور علماء کے نزدیک اگرچہ بلا عذر قصدًا ترک ِ نماز جرمِ شنیع ہے مگر وہ کافر اس لئے نہیں ہوا کہ ترکِ نماز جرم عملی ہے نہ کہ اس نے نماز کی فرضیت سے انکار کیاہے ۔ صرف کلمہ طیبہ کی بنیاد جن لوگوں کی نجات ہو گی وہ احادیث اسی نظریہ کی تائید کرتی ہیں کہ ترکِ نماز گو شدید جرم ہے مگر کفر نہیں۔ ہاں اگر کوئی تارکِ نماز ہے اور نماز کی فرضیت کا بھی قولًا و اعتقادًا انکار کرے تو اس کے کفر میں کوئی شک باقی نہیں رہتا ۔
پانچ نمازوں کے اوقات احادیث کی روشنی میں :۔
اللہ کریم نے نمازوں کے اوقات کو اجمالًا و صراحۃ قرآن مجید میں بھی اوقات ِ نماز کی تعلیم فرمائی پھر جبریل ؑ کو حکم دیا وہ آئے اور دو دن نمازوں کی امامت یوں فرمائی کہ پہلے دن ہر نماز کو اس کے بالکل شروع وقت میں پڑھایا جبکہ دوسرے دن ہر نماز کو اس کے بالکل آخری وقت میں پڑھایا اور کہا بس انہی کے درمیان پڑھتے رہو ۔ پھر حضور ﷺ نے قول و فعل اور تعلیم سے ان اوقات کو واضح فرمایا۔
(۱) عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقْتُ الظُّہْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُولِہِ، مَا لَمْ یَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ یَغِبِ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعِشَاء ِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ الْأَوْسَطِ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَأَمْسِکْ عَنِ الصَّلَاۃِ، فَإِنَّہَا تَطْلُعْ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ۔
( مسلم کتاب الصلٰوۃ باب اوقات الصلوۃ )
ترجمہ:۔ عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کا وقت جب سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کی لمبائی برابر ہو جائے جب تک عصر کا وقت نہ ہو جائے ، نماز عصر کا وقت ہے جب تک سورج زرد نہ ہو جائے ، اورمغرب کا وقت رہتا ہے جب تک شفق غائب نہ ہو جائے اور عشاء کا وقت نصف لیل اوسط تک ہے ۔ اور صبح کی نماز کا وقت طلوعِ فجر (صادق) سے سورج نکلنے سے پہلے تک ہے پھر جب سورج طلوع ہورہا ہو تو نماز سے رُک جاؤ کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے ۔
نوٹ :۔ اوقات نماز کے حوالے سے مسلم شریف کی یہ حدیث بہت مختصر ، واضح اور صاف ہے پھر اس میں خود رسول اللہ ﷺ کا بیان ہے۔
(۲) عَنْ بُرَیْدَۃَ ؓ قَالَ اِنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَنْ وَّقْتِ الصَّلوٰۃِ فَقَالَ لَہٗ صَلِّ مَعَنَا ھٰذَیْنِ یَعْنِی الْیَوْمَیْنِ فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ اَمَرَبِلَالًا فَاَذَّنَ ثُمَّ اَمَرَہٗ فَاَقَامَ الظُّہْرَ ثُمَّ اَمَرَہٗ فَاَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَیْضَاء نَقِیَّۃٌ ثُمَّ اَمَرَہٗ فَاَقَامَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ اَمَرَہٗ فَاَقَامَ الْعِشَآءَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ اَمَرَہٗ فَاَقَامَ الْفَجْرَ حِیْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا اَنْ کَانَ الْیَوْمُ الثَّانِیْ اَمَرَہٗ فَاَبْرِدْ بِالظُّہْرِ فَاَبْرَدَبِھَا فَاَنْعَمَ اَنْ یُّبْرِدَبِھَا وَصَلی الْعَصْرَ وَ الشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ اَخَّرَھَا فَوْقَ الَّذِیْ کَانَ وَ صَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ اَنْ یَّغِیْبَ الشَّفَقُ وَصَلَّی الْعِشَآء بَعْدَمَاذَھَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ وَصَلَّی الْفَجْرَ فَاَسْفَرَ بِھَا ثُمَّ قَالَ اَیْنَ السَّآئِلُ عَنْ وَّقْتِ الصَّلوٰۃِ فَقَالَ الرَّجُلُ اَنَا یَارَسُوْل اللّٰہِ ﷺ قَالَ وَقْتُ صَلوٰتِکُمْ بَیْنَ مَارَأَیْتُمْ ۔عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: جَاء َ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَہُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ، فَقَالَ: صَلِّ مَعَنَا ہَذَیْنِ الْیَوْمَیْنِ فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ، أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الظُّہْرَ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَیْضَاء ُ نَقِیَّۃٌ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِینَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الْعِشَاء َ حِینَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِینَ طَلَعَ الْفَجْرُ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْیَوْمِ الثَّانِی أَمَرَہُ فَأَذَّنَ الظُّہْرَ، فَأَبْرَدَ بِہَا، وَأَنْعَمَ أَنْ یُبْرِدَ بِہَا، ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ، أَخَّرَہَا فَوْقَ الَّذِی کَانَ، فَصَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ یَغِیبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی الْعِشَاء َ بَعْدَ مَا ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، وَصَلَّی الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِہَا ” ثُمَّ قَالَ: أَیْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ: وَقْتُ صَلَاتِکُمْ بَیْنَ مَا رَأَیْتُمْ ( مُسْلِمٌ کتاب الصلٰوۃ ۔باب اوقات الصلوات )
ترجمہ:۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے حضور ﷺ سے نماز کے اوقات بارے سوال کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا دو دن ہمارے ساتھ نماز پڑھ ۔ پھر جب سورج ڈھلا تو آپ ﷺ نے حضرت بلال کو فرمایا اس نے اذان دی پھر اقامت کا فرمایا اور ظہرادا فرمائی پھر بعد ازاں بلال کو اذان کا حکم اس وقت دیا جب ابھی سورج بلند تھا بالکل صاف چمک رھا تھا تو عصر ادا فرمائی پھر حکم ِاذان دیا اور مغرب ادا فرمائی جبکہ سورج غائب ہو گیا پھر حکم فرمایا اور عشاء شفق کے غروب ہونے کے بعد ادا فرمائی ۔پھر حکم فرمایا اور فجر طلوع فجر کے وقت ادافرمائی پھر جب دوسرا دن آیا تو حکم دیا کہ ظہر کو خوب ٹھنڈا ہونے دو تب ظہر ادا فرمائی ۔ پھر حکم دیا اور عصر ادا فرمائی جبکہ سورج ابھی بلند تو تھا مگر پہلے دن سے تاخیر فرمائی اور شام غروب شفق سے قبل مگر اس کے قریب ادا فرمائی اور عشاء جب رات کا تیسرا حصّہ گزر چکا ادا فرمائی ۔ اور فجر خوب روشن کرکے ادا فرمائی پھر فرمایا سوالی کہاں ہے ؟ جس نے اوقات نماز بارے سوال کیا تھا اس نے کہا میں ہوں یَا رسول اللہ ﷺ تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری نمازوں کے اوقات بس اسی کے درمیان ہیں جو تم نے دو دن مجھے کرتے دیکھا ۔
(۳) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَّنِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام عِنْدَ الْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ، فَصَلَّی بِیَ الظُّہْرَ حِینَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاکِ، وَصَلَّی بِیَ الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، وَصَلَّی بِیَ یَعْنِی الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاء َ حِینَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ حِینَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الصَّائِمِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ صَلَّی بِیَ الظُّہْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، وَصَلَّی بِی الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَیْہِ، وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاء َ إِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ، وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، ہَذَا وَقْتُ الْأَنْبِیَاء ِ مِنْ قَبْلِکَ، وَالْوَقْتُ مَا بَیْنَ ہَذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ۔
( رَوَاہُ اَبُوْدَاوٗد۔کتاب الطہارۃ باب فی المواقیتَ و التِّرْمِذِیُّ )
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کی جبرئیل ؑ نے مجھے دودن بیت اللہ شریف میں امامت کرائی تو ظہر اس وقت پڑھی جب سورج زائل ہو گیا۔ عصر اس وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا ، شام اس وقت جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ،اور عشاء اس وقت جب شفق غائب ہو گئی اور فجر اس وقت جب روزہ دار پر سحری کو کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے پھر دوسرے دن ظہر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہو گیا عصر جب دو مثل سایہ ہوا ، مغرب جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے عشاء رات کا جب تیسرا حصّہ گزر گیا اور فجر پڑھائی اور اس کو روشن کیا پھر میری طرف توجہ کرتے ہوئے کہا اے محمد ﷺ یہ آپ سے قبل انبیآء کی نمازوں کے اوقات تھے اب ہر نماز کا وقت انہی دو کے درمیان میں ہے ۔
نوٹ:۔ اس حدیث کے متن میں ایک تردد نظر آتا ہے وہ یہ کہ آپ حدیث ِ جبرئیل ؑ پر غور فرمائیں تو آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ جبرئیل ؑ نے پہلے دن عصر کی نماز تب پڑھائی جب حین صار ظل کُل شَیْءٍ مثلہٗ اور دوسرے دن ظہر کی نماز بھی تب پڑھائی جب حین کان ظلہٗ مثلہٗ ہوا تو اس عبارت سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جبرئیلؑ نے پہلے دن عصر کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جس وقت میں دوسرے دن ظہر پڑھائی جبکہ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ کسی ایک نماز کا وقت دوسری نماز کے وقت میں داخل نہیں بلکہ ہر نماز کا ایک الگ مستقل وقت ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ جبرئیلؑ نے پہلے دن عصر سایہ ایک مثل ہونے کے بعد اور ظہر سایہ ایک مثل ہونے سے پہلے پڑھائی ہو اور اس عمل کو الفاظ کی ادائیگی میں کچھ فرق آیا ہو یا بظاہر محسوس ہوتا ہو ۔ جبکہ ظاہری الفاظ میں تردد واضح ہے جبکہ اس سے قبل احادیث میں کوئی تردد نہیں واللہ ورسولہ اعلم ۔
یہی وجہ ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے نماز میں تاخیر کے اعتراض میں یہی حدیث پیش کی گئی تو آپ نے اس کو رد کر دیا اوقات کے حوالے سے ملاحظہ ہو ۔ ( بخاری شریف ج۔۱۔کتاب مواقیت الصلوۃ ومسلم شریف و مشکوٰۃ )
احادیث سے حاصل شدہ نمازوں کے اوقات یوں ترتیب پائے
۱۔ وقت نماز فجر :۔
صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر (صادق) سے لیکر قبل طلوعِ شمس تک ہے ۔اب رہی یہ بحث کہ اس دوران کونسا وقت نماز فجر کے لئے افضل ہے ۔ پہلی اور لازمی بات تو یہ ہے نماز فجر کے وقت میں اصلًا احناف اور اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں بلکہ دونوں ہی طلوع فجر صادق سے قبل طلوعِ شمس صبح کی نماز کا وقت قرار دیتے ہیں اب رہی بات افضیلت کی تو یہ بات باعثِ نزاع نہیں اس لئے کہ ہر نماز کا وسیع وقت دیا ہی تب گیا کہ لوگوں کو سہولت اور آسانی دی جا سکے ۔ اگر ہم اوقات میں ایسی قیود لگانا شروع کر دیں جس سے دین کی فراہم کردہ سہولت سے ہی محروم ہو جائیں تو یہ طرز یہو دیوں کی ہے ہماری نہیں ۔ اگر کوئی اپنی ضرورت و آسانی کے لئے فجر صادق کے بعد سخت اندھیرے میں نماز ادا کرے تو چونکہ اس کی نماز بالاتفاق اپنے وقتِ نماز کے اندر ہے لہذا اعتراض جہالت پر مبنی ہو گا ایسے ہی اگر کوئی سہولت کے پیشِ نظر فجر کو خوب روشن کرکے قبل از طلوعِ آفتاب ادا کرے تو بھی اعتراض کا حق نہیں کہ نماز کو اس کے وقت کے اندر ہی ادا کررہا ہے ۔ جہاں تک مختلف احادیث کے مطالعہ سے غیر جانبدارانہ طور پر سامنے آیا وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ اذانِ فجر کے اتنی دیر بعد جماعت کرواتے کہ لوگ اذان سن کر تیار ہو کر آسکیں اگر غسل کی ضرورت ہو تو کرلیں ورنہ خوب وضو کریں اور فجر کی سنتیں ادا کر لیں اتنی دیر بعد آپ فجر کی جماعت کرواتے اور لمبی تلاوت فرماتے جس کی وجہ سے یقینًا خوب روشنی بھی ہوجاتی تھی ۔ اب جس نے حضور ﷺ کی صبح کی نماز کی ابتداء پر نظر کی اس نے اندھیرے کی بات کی اور جس نے نمازِ فجر کے اختتام کو نظر میں رکھا اس نے اسفار یعنی روشنی کی بات کی ۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح احادیث میں غلس اور اسفار دونوں الفاظ ملتے ہیں اور ان میں مندرجہ بالا تاویل و توجیہ کی بنیاد پر کوئی تعارض نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ہماری تلاوت فجر کی نماز میں چونکہ زیادہ لمبی نہیں ہم اگر زیادہ جلدی نماز فجر ادا کریں گے تو جلدی نماز ختم ہوجائے گی اور یا تو نمازی جماعت سے رہ جائیں گے یا ان کو جلدی اٹھنے کی تکلیف دی جائے گی لہذا جب شریعت میں اور وقت فجر میں گنجائش موجود ہے تو دیر سے نماز ادا کریں کہ غافل نمازی بھی آسانی سے شریک ِجماعت ہو سکیں اور جماعت میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو کہ جماعت کامقصود ہی لوگوں کو وقت کے اندر اندر جمع کرنا ہے اور یہی آج احناف کا معمول ہے اور خود حضور ﷺ کے عمل سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ کبھی فجر کی نماز اتنی تاخیر سے کروائی کہ صحابہ کو طلوعِ آفتاب کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا ۔ الغرض نماز فجر بہت جلدی کروانے میں لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنا اور جماعت میں نمازیوں کی تعداد کو کم کرنا لازم آتا ہے جبکہ تاخیر میں نمازیوں کے لئے ہر طرح کی آسانی اور جماعت میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کا قوی امکان ہے ۔
نماز ظہر کا وقت :۔
نماز ظہر کا وقت زوالِ آفتاب سے لیکر سوائے سایہ اصلی کے کسی بھی چیز کا سایہ اس کے ایک مثل تک ہے اسی پر احناف کا فتویٰ ہے اور امام محمد ؒ کا یہی مسلک ہے ۔یہ وہ وقت ہے جس پر سب کا اتفاق ہے جبکہ سراج الائمہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ظہر کا آخری وقت سوائے سایہ اصلی کے دومثل تک ہے ۔ اب رہی یہ بات کہ امام صاحب کی رائے کی تائید پر کوئی صحیح حدیث نہیں تو عرض ہے کہ یہ بات بالکل حقیقت کے خلاف ہے کہ امام صاحب کا موقف احادیث سے ثابت نہیں حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب کا موقف ثابت ہے آپ میں حدیث کی عبارت کو سمجھنے کی وہ صلاحیت نہیں جو حضرت میں موجود تھی ۔ حدیث پیش ِ خدمت ہے جب بھی اس کے متن یا سند پر اعتراض ہو تو رابطہ ضرور کرنا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ مرفوعًا نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔
وَقْتُ الظُّہْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُولِہِ، مَا لَمْ یَحْضُرِ الْعَصْر۔
ُ ( مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب أوقات الصلوات الخمس )
ان الفاظ پر غور فرمائیں یہاں وقت ظہر کی ابتداء اور انتہا دونوں بیان کی گئی ہیں ۔
‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا وقت ظہر وہ ہے کہ جب سورج زائل ہو جائے اور آدمی کا سایہ اس کی لمبائی برابر یعنی ایک مثل ہو جائے یہاں سے ظہر کا پہلا مناسب و مستحب وقت ذکر ہوا اور ظہر کا آخری وقت ‘‘ما لم یحضر العصر’’ یعنی عصر کے ہونے سے قبل تک ذکر ہوا اور یہ بعد از سایہ مثل اول ہے یہی امام صاحب کی رائے اور دلیل بھی ہے ۔ اگر آپ کہیں کہ ظہر مثل ِ اول پر ختم ہو جاتی ہے تو مالم یحضر العصر میں جووقت ذکر ہو رہا ہے اور ظہر ہی کا ہو رہا ہے یہ جناب کی نظر میں کونسا وقت ہے ؟ دوسرا یہ کہ گرمی میں ٹھنڈا کر کے ظہر پڑھنے کی حدیث آپ بھی تسلیم کرتے ہیں اگر ظہر کا وقت سایہ ایک مثل سے زیادہ ہے ہی نہیں تو ظہر گرمی میں ٹھنڈا کرنے والی حدیث پر عمل کرکے دکھائیں اور مجھے بھی سمجھا دیں کہ ٹھنڈک کے لئے بالکل معمولی ٹھنڈک تو ماننا پڑھے گا کہ حدیث پر عمل ہو جائے ۔ جب تک آپ دو مثل کو وقت ظہر میں تسلیم نہیں کر لیتے ظہر کے ٹھنڈا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا ثابت ہو ا کہ سوائے سایہ اصلی کے دومثل تک ظہر ہے ۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ سفر میں ہیں مؤذن نے اذان دینا چاہی آپ نے فرمایا ٹھنڈا کرو آپ نے دو تین مرتبہ یہی فرمایا ۔ اب ظاہر ہے کہ ظہر کا عمومی وقت تو وہ تھا جب صحابی ؓ نے اذان کی پہلی مرتبہ اجازت مانگی بعد میں تو آپ سفر کرتے اور صحابیؓ کو اذان سے برابر روکتے رہے ٹائم گزرتا رہا ۔ مثل اول تو پہلے ہی ظاہر ہے کہ تھا یہ بعد میں جو تاخیر حضور ﷺ نے فرمائی یہ کیا ہے ؟ اب بھی دومثل نہیں ہو ا ؟ اگر نہیں ثابت ہو ا تو میں بخاری سے بالکل واضح حدیث لاتا ہوں جس سے بالکل صاف ظاہر ہے کہ نماز ظہر کا وقت نماز عصر سے زیادہ ہے زیادہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ امام صاحب کی دو مثل کی رائے کو اختیار کیا جائے ورنہ اس حدیث کی آپ کوئی تاویل پیش نہیں کر سکتے ۔
امام بخاری ؒ اپنی کتاب میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک مرفوع حدیث لائے ہیں حضور ﷺ نے اپنی امت کی مثال یہود و نصاری کے مقابلہ میں اس طرح بیان فرمائی کہ کوئی شخص کسی مزدور کو صبح سے ظہر تک کام پر لگائے اور اس کو مزدوری ایک قیراط دے جبکہ دوسرے مزدور کو دوپہر سے عصر تک لگائے اس کو بھی مزدوری ایک قیراط دے تیسرے کو عصر سے سورج ڈوبنے تک لگائے اس کومزدوری کی اجرت دوقیراط دے ۔ اب یہاں پہلا مزدور یہودی دوسرا عیسائی اور تیسرا امت ِ رسول ﷺ ہیں ۔ اس مثال سے حضور ﷺ یہ ظاہر فرمانا چاہتے ہیں کہ یہود و نصاری کی مزدوری کا وقت زیادہ ہے اجر کم ہے جبکہ امت محمدیہ ﷺ کا ٹائم کم اور اجر زیادہ ہے تو اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ ظہر کا وقت عصر سے زیادہ ہے جبکہ جو وقت اہل حدیث ظہر و عصر کا بتا رہے ہیں اس میں ظہر عصر کے مقابلہ میں بہت کم اور عصر بہت لمبی بتا رہے ہیں جس پر حضور ﷺ کی دی گئی مثال پوری ہی نہیں اترتی اور جس امام اعظم ؒ کو برا بھلا کہنے کو باعث ثواب تصور کرتے ہو انہوں نے دومثل کی رائے قائم کرکے حضور ﷺ کی مثال کو سچا ثابت کر دیا یہی غلام کی خوبی بھی ہونی چاہیے ۔ حدیث کے چند الفاظ یہ ہیں۔
اَلَافَاَنْتُمُ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ مِن صلوٰۃ ِ الْعَصرِ اِلٰی مَغْرب الشّمس اَلَا لکم الاجْرُ مَرّتَیْنِ۔
(بخاری کتاب الإجارۃ – باب الإجارۃ إلی نصف النہار)
خبر دار تم (امت محمدیہ ) وہ ہو جو عصر سے غروب شمس تک کام کرتے ہو اور اجر دوگنا پاتے ہو ۔
یہ حدیث در حقیقت بہت طویل ہے جس کا ایک حصّہ پیش کیا دیکھنی ہو تو بخاری (کتاب الإجارۃ – باب الإجارۃ إلی نصف النہار)ملاحظہ فرمائیں ۔
دوسری حدیث ملاحظہ ہو ۔
عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ: کَانَتْ قَدْرُ صَلَاۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّیْفِ ثَلَاثَۃَ أَقْدَامٍ إِلَی خَمْسَۃِ أَقْدَامٍ، وَفِی الشِّتَاء ِ خَمْسَۃَ أَقْدَامٍ إِلَی سَبْعَۃِ أَقْدَامٍ۔
( ابو داوٗدکتاب الصلاۃ باب فی وقت صلاۃ الظہر )
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ظہر گرمیوں میں تب ہوتی جب تین سے پانچ قدم سایہ ہوتا اور سردیوں میں آپ ظہر پانچ سے سات قدم تک پڑھتے تھے ۔
توجہ :۔ حدیث کے پہلے حصّہ میں تین قدم اور آخری حصہ میں سات کی بات ہے جو پہلے کو دوگنا بھی کر دو اس سے زیادہ ہے اور یہ ظہر ہی ہے تو معلوم ہوا کہ کبھی اگر مثل اوّل میں نماز ہوتی تو کبھی ثانی میں ہوتی ورنہ تین اور سات قدم سایہ کی کیا تاویل ہو سکتی ہے۔
احناف کے لئے گزارش ہے کہ مثل اول میں نماز ظہر ادا کریں مگر عصر کو مثل ثانی کے بعد ادا کریں اور اگر کسی وجہ سے کسی کی نماز میں تاخیر ہو جائے تو سوائے سایہ اصلی کے دومثل سائے تک نماز ظہر ادا کر سکتا ہے۔
اگر وقت ظہر بارے مزید تحقیق مطلوب ہو تو ملاظہ فرمائیں مولانا احمد یار خان نعیمی ؒ کی تالیف جاء الحق حصہ دوم ۔ مولانا نے اکثر اہل حدیث سے اختلافی مسائل دلائل کثیرہ کے ساتھ بیان فرمائے جزاہ اللہ تعالیٰ ۔
اگر ظہر کا وقت مثل ثانی تک تسلیم کیا جائے تو تمام احادیث کی تطبیق ہو جاتی ہے اور تمام پر عمل بھی ہو جاتا ہے بصورت دیگر کچھ احادیث کا ترک لازم آتا ہے جو کہ مناسب طرز فکر نہیں۔
وقتِ نماز عصر :۔
وقت نماز عصر احناف کے نزدیک سوائے سایہ اصلی کے کسی بھی چیز کا سایہ دومثل ہونے سے شروع ہو کر غروب آفتاب سے متصل پہلے تک ہے یعنی جب تک سورج نظر آرہا ہے وقت عصر رہے گا اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک رکعت عصر کی یوں پڑھے کہ ابھی سورج باقی ہو بعد ازاں اگر غروب بھی ہو جائے تو نماز عصر کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی۔اسی بات کو اکثر علماء یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر دورکعت عصر کی نماز سے اداکیں بعد میں سورج غروب ہو جائے یعنی بعد والی دورکعت سورج چھپ جانے پر ادا کیں تو نماز عصر بالکراہت ادا ہو جائے گی ۔
سُورج کے زرد پڑجانے سے کیا مراد ہے :۔
عام طور پر عصر کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بوقتِ عصر جب دھوپ زرد پڑ جائے تو نماز عصر کا مکروہ وقت شرو ع ہو جاتا ہے جوکہ غروب آفتاب سے متصل پہلے تک رہتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عصر کا مکروہ وقت دھوپ کے زرد پڑ جانے سے نہیں بلکہ از خود سورج کے زرد پڑ جانے سے شروع ہوتا ہے جوکہ سورج کے غروب کے بالکل قریب ہوتا ہے ۔ ملا حظہ ہو حدیث رسول ﷺ
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّہُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ، فَقَالَ وَقْتُ صَلَاۃِ الْفَجْرِ مَا لَمْ یَطْلُعْ قَرْنُ الشَّمْسِ الْأَوَّلُ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الظُّہْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسِ عَنْ بَطْنِ السَّمَاء ِ، مَا لَمْ یَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَیَسْقُطْ قَرْنُہَا الْأَوَّلُ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، مَا لَمْ یَسْقُطِ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعِشَاء ِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ۔
(بخاری ومسلم کتاب الصلٰوۃ۔باب اوقات الصلوٰۃ )
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اوقات نمازکے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا وقت فجر رہتا ہے جب تک سورج کا پہلا کنارہ نکل نہ آئے اور ظہر کا وقت جب آفتاب بیچ آسمان سے مغرب کی جانب ڈھل جائے سے لیکر وقتِ عصر تک رہتا ہے اور عصر کا وقت ہے جب تک سورج زرد نہ پڑجائے اور اس کا پہلا کنارہ ڈوبنے نہ لگے مغرب کی نماز وقت غروب آفتاب سے لیکر شفق کے غائب ہوئے تک ہے اور عشاء آدھی رات تک ۔
اس حدیث میں نمازوں کے اوقات پر بھی استدلال ہوتا ہے اور سورج کے زرد ہو نے کا مطلب بھی یہ حدیث خوب واضح کرتی ہے کہ دھوپ زرد ہونے کا اعتبار نہیں کہ وہ بہت جلد پھیکی پڑجاتی ہے خاص کر سردیوں میں بلکہ سورج کے زرد ہونے کا اعتبارہے اور سورج کے زرد ہونے کی وضاحت بھی حضور ﷺ کی حدیث کے الفاظ و یسقط قرنھا الاول خوب کر رہے ہیں دراصل اس کا عطف تصفر الشمس پر ہے جس کا صحیح ترجمہ یہی ہے کہ جب تک سورج زرد ہو کر ڈوبنے نہ لگے جس سے ظاہر ہے کہ اس زردی سے مراد سورج کی ٹکیا کا زرد ہونا ہے جو کہ غروب آفتاب کے بالکل قریب ہے ۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، أَنَّہَا قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ تَعْجِیلًا لِلظُّہْرِ مِنْکُمْ، وَأَنْتُمْ أَشَدُّ تَعْجِیلًا لِلْعَصْرِ مِنْہُ۔
( الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃبَابُ مَا جَاء َ فی تَأْخِیرِ صَلاۃِ العَصرِ)
سیدہ ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہرکی نماز میں تم سے زیادہ جلدی پڑھتے تھے اور تم عصر کی نماز میں ان سے زیادہ جلدی کرتے ہو۔ ۔عصر میں بہت جلدی کرنے والے اس حدیث پر غور ضرور فرمائیں۔
وقت نماز مغرب:۔
نماز مغرب کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہو کر شفق کے غروب ہونے تک رہتا ہے جس پر صریح احادیث شہادت دے رہی ہیں جو پہلے مذکور ہیں ۔ ہاں اتنا واضح رہے کہ حضور ﷺ نے عین سورج کے نکلنے اور عین غروب آفتاب کے وقتنماز سے منع فرمایا ہے لہذا نماز نام کی کسی شئی سے ان دو اوقات میں اجتناب فرمائیں سجدہ تلاوت سے بھی ان دو اقات میں اجتناب فرمائیں باقی کسی وقت بھی سجدہ تلاوت جائز ہے ان اوقات کے ساتھ تیسرا وقت زوال معروف ہے جبکہ حقیقت میں وہ زوال سے پہلے کا وقت ہے جب سورج عین سر پر ہوتا ہے جس کو علمآء نے‘‘ نِصفُ النہارِ ’’حقیقی سے تعبیر فرمایا اِس میں بھی کوئی نماز نہیں پڑھتے ۔
شفق سے کیا مُراد ہے ؟
شفق کا لفظ اختتامِ وقت نماز مغرب کے لئے تمام احادیث میں استعمال ہو رہا ہے جس کی کسی حدیث میں کوئی لفظی وضاحت نہیں کہ شفق سے کونسی سرخی یا سفیدی مراد ہے لہذا اس سے عام دیگر ائمہ فقہ غروب آفتاب کے بعد سرخی مراد لیتے ہیں امام ابو یوسف ؒ و امام محمد ؒ بھی اسی کے قائل ہیں اور احناف کا فتویٰ بھی سُرخی پر ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ شفق سے وہ سفیدی مراد لیتے ہیں جو سرخی کے بعد اُفقِ مغرب پر رہتی ہے جو قریبًا غروب شمس سے ڈیڑہ گھنٹہ بعد غائب ہوتی ہے ۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی دلیل یہ حدیث شریف ہے ۔
وَاٰخرُ وقتِ المغرب اذا اسود الشفق ۔ (رواہ نصب الرایہ ج ۱ ۔۲۳۰)
وقت مغرب کا اخیر وقت یہ ہے کہ شفق سیاہ ہو جائے یعنی مکمل اندھیرہ چھا جائے ۔
اس سلسلہ میں مسند عبدالرزاق اور بیہقی میں ایک اثر موجود ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ شفق سے مراد سرخی ہے مگر مذکورہ بالا حدیث کے مقابلہ میں اثر قابلِ التفات نہیں ہوتا ۔جہا ں تک شفق کے لغوی معنی کی بات ہے تو اکثر شریعت میں احکام و مفاہیم اصطلاحی ہیں لغوی نہیں لہذا لغت کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ورنہ اذان لغت میں مطلق اطلاع کو کہتے ہیں کیا شریعت میں ا س لغوی معنی کو کافی سمجھا جائے ؟ ہر گز نہیں ایسے شریعت کی دیگر اصلاحات لغوی معنی کے لحاظ سے تعبیر نہیں کی جاتیں ۔ ہاں اس بات سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں مدد لی جاتی ہے کہ اگر شفق احمر کے بعد والی سفیدی اگر رات کے ساتھ شامل تصور کی جائے تو کیا سفیدی اور بعد والی اندھیری رات میں ایک واضح فرق نہیں ؟ شاید اس بات کو یوں آسانی سے سمجھاسکوں کی صبح صادق کی روشنی کو رات میں شمار نہیں کیا گیا تو شفق احمر کے بعد شفق ابیض کو اُسی پر قیاس کریں تو یہ بھی مکمل اندھیری رات کا حصّہ محسوس نہیں ہوتی پھر یہ کہ شفق سے مراد اگر سرخی لی جائے تو شام کی نماز کا وقت بہت ہی تنگ رہ جاتا ہے اور کسی بھی نماز کے واقت کی انتہائی تنگی ضرر و تکلیف اور حرج سے خالی نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
مَاجَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ من حَرج ۔
تمہارے دین میں تنگی نہیں ۔ ملاحظہ ہو مرفوع حدیث حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ ایک سائل نے رسول اللہ ﷺ سے اوقات نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا دو دن ہمارے پاس رہو اور آنکھوں سے ملاحظہ کرو یہ حدیث طویل ہے اس کا مطلوبہ حصّہ پیشِ خدمت ہے تو حضور ﷺ نے پہلے دن مغرب کی نماز سورج غروب ہوتے ہی ادا فرمائی جبکہ دوسرے دن
(ثمّ اَخّر المغربَ حتّٰی کان عند سقوط الشفق )
آپ نے مغرب کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھی کہ شفق غروب ہو چکی تھی ۔ اب اگر شفق احمر غائب ہو چکی تھی تو پھر اہل ِ حدیث کے نزدیک شام کی نماز کا وقت ہی نکل چکا تھا۔ تو کیااس دن حضور ﷺ نے نماز مغرب اس کے اصل وقت سے ہٹ کر تاخیر سے وقت عشاء میں پڑھائی ؟ہرگز نہیں بلکہ اس سے تو یہ واضح ہورہا ہے شفق (احمر ) کے غائب ہونے تک آپ نے نماز مغرب کو مُؤخّر فرمایا اور شفق ابیض کے اندر ہی نماز مغرب ادا فرمائی یہی ہمارا بھی مسلک ہے اگر آپ کو حدیث کے الفاظ کے ترجمہ پر شک ہو تو انہی لفظوں کا ترجمہ جو اہل حدیث نے کیا وہ ملاحظہ ہو ۔ (پھر مغرب کو شفق (یعنی سرخی ) غائب ہونے تک لیٹ کیا ) بحوالہ نماز کی کتاب ص نمبر ۴۹ تالیف حافظ عمران ایوب لاہوری ۔ یہی ترجمہ میں نے پیش کیا ۔ پیش کردہ حدیث مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب اوقات الصلوات الخمس ،نسائی ، ابوداوٗد ، احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ابو وانہ ، ابن خزیمہ ، دار قطنی اور بیہقی میں موجود ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۷۹ میں وقت نماز عشاء کے لئے غسق للّیل (رات کی تاریکی ) کا لفظ ہے جو شفق ِ ابیض کے بعد ہوتا ہے ۔
نماز عشاء کا وقت :۔
نماز عشاء کا وقت شفق کے غروب ہونے پر شروع ہوتا ہے اور آدھی رات تک بلاکراہت ہے جبکہ اس کے بعد صبح صادق سے پہلے تک کراہت کے ساتھ عشاء کا وقت ہوتا ہے ۔ صریح احادیث میں رات کے تیسرے حصہ اور آدھی رات تک ذکر ہے جبکہ بعض دوسری احادیث سے کراہت کے ساتھ صبح صادق تک معلوم ہوتا ہے ۔ عشاء کا وقت بخاری و مسلم دونوں نے نصف رات تک کی حدیث کو روایت کیا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے سوال کرنے والے کے جواب میں پانچوں اوقات بیان فرماتے ہوئے فرمایا ۔
وَوَقْتُ صلوٰۃِ الْعِشَآءِ اِلٰی نصف اللّیل ۔ (متفق علیہ )
عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے ۔
پانچوں نمازوں کے مستحب اوقات
اکثر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جن اوقات کو مستحب بتایا جاتا ہے وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ باقی اوقات سارے ہی مکروہ ہیں ایسا ہرگز نہیں ایک عصر بالکل آفتاب کے غروب کے قریب اور عشاء آدھی رات کے بعد مکروہ ہے باقی پانچوں اوقات نماز میں مکروہ کوئی نہیں ۔ اگر ایک وقت کو مستحب کہا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ دوسرا وقت لازمی مکروہ ہو ۔ احناف کے نزدیک فجر کو خوب روشن کرکے پڑھنا مستحب ہے مگر یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صبح یقینی طور پر ہونے کے بعد اندھیرے میں مکروہ ہو اور ظہر سردیوں میں جلدی اور گرمیوں میں خُوب ٹھنڈی کرنا مستحب ہے ۔ اس سلسلہ میں کثیر احادیث ہیں خوف طوالت سے پیش نہیں کی گئیں صرف ایک حدیث جو پہلے پیش کی گئی ہے اس کا ایک حصّہ پیش ِ خدمت ہے ۔ حضرت بُریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ سے اوقات نماز کے بارے سوال کیا تو آپ ﷺ نے اس کو مشاہدہ کروانے کے لئے دودن اپنے پاس رکھا پہلے دن آپ نے ہر نماز کو اس کے شروع وقت میں ادا فرمایا ۔ جبکہ دوسرے دن آپ ﷺ نے ہر نماز کو اس کے بالکل آخری وقت میں ادا فرمایا جس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اول و آخر میں کوئی بھی مکروہ نہیں کہ آپ ﷺ نے دونو ں اوقات میں نماز پڑھ کر ثابت فرمایا ۔اسی طویل حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا ۔
فَأَبْرَدَ بِالظُّہْرِ، فَأَبْرَدَ بِہَا، فَأَنْعَمَ أَنْ یُبْرِدَ بِہَا
(رواہُ مُسْلِمٌ ۔باب اوقات الصلوات )۔نسائی مواقیت الصلوۃ۔ترمذی باب ما جاء فی مواقیت الصلوٰۃ۔ابن ماجہ) ۔
آپ نے ظہر کو بھی ٹھنڈے وقت پر پڑھا اور بہت ہی ٹھنڈے وقت میں ۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ خوب ٹھنڈی گرمیوں میں ظہر کی نماز مثل اول میں تو یقینًا نہیں ہو سکتی جبکہ حدیث میں صاف الفاظ ہیں کہ خوب ٹھنڈا فرمایا جس سے مثل ثانی کا اظہار ہو رہا ہے ۔ اکثر محدثین نے گرمیوں کی ظہر ٹھنڈی کرکے پڑھنے کی روایات کو نقل کیا امام بخاری ں نے بخاری ج ۱ کتاب مواقیت الصلٰوۃ میں ایک مستقل باب یوں تحریر کیا ۔ (باب الایراد بالظہر فی شدۃ الحر )
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَۃِ، فَإِنَّ شِدَّۃَ الحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ. باب الایراد بالظہر فی شدۃ الحر )
جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ظہر کو خوب ٹھنڈا کرو کہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس کی لپیٹ سے ہوتی ہے۔
نماز عصر کو اس وقت پڑھ لینامستحب ہے کہ سورج ابھی بلند اور صاف و شفاف چمک رہاہو اور بارش و بادل کے دن عصر میں زیادہ جلدی مستحب ہے جبکہ نماز مغرب کو اول وقت میں پڑھ لینا مستحب ہے مگر عشاء میں جتنی تاخیر ممکن ہو مستحب ہے ۔ باقی جو اوقات ہم نے اپنی اپنی مساجد میں گھڑیوں پر مقرر کر رکھے ہیں یہ ہماری ایجاد اور کسی قدر ضرورت و مجبوری بھی ہے باقی یہ اوقات چونکہ ہم نے خود مقرر کیے ہوتے ہیں لہذا ان میں ضرورت کے وقت تقدیم و تاخیر ممکن ہے ۔ یہ تصور رکھنا کہ جس نماز کے لئے ہم نے ٹائم مقرر کر دیا وہ اگر پانچ منٹ تاخیر سے ہو جائے تو نماز کا اجر و ثواب ہی ختم ہوجائے یہ جاہلوں کا خیا ل ہے علماء خوب جانتے ہیں کہ جب اوقات نماز میں شرعًا وسعت ہے تو تقدیم و تاخیر سے اجر کیوں کم ہو ۔ ایسے ہی اگر آپ نے نماز جمعہ کے لئے ایک ٹائم مقرر کیا ہے اگر کسی دن کسی بھی وجہ سے اس کو مؤخر کیا جائے جبکہ ظہر کے وقت کے اندر ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ۔ جن معاملات و مسائل میں شریعت نے وسعت رکھی ہو ان میں شدّت سے کام لینا غُلُوّ فی الدّین ہے جس کی اجازت نہیں اور شدّت پسندانہ مزاج رکھنا بھی خلاف شرع ہے سنت ِ نبوی ﷺ کانمونہ پیش کریں ۔ اگر غلطی سے کسی کا موبائل بول جائے اس کو سرِعام اتنا شرمندہ کرنا کہ نماز بلکہ مسجد سے ہی اس کا دل اُٹھ جائے یہ کہاں کی شرافت ہے ۔ امام مسجد کو سراپا رأفت و شفقت ہو نا چاہیے کہ نمازی اس کے طرز زندگی اور اخلاق سے سبق حاصل کریں۔
تین اوقات میں نماز و تدفین سے ممانعت
(۱) حضرت عقبہ بن عامر جہنی ؓ فرماتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں کہ حضور پُر نور ﷺ ہمیں ان میں نماز پڑھنے سے یا اپنے مُردوں کو ان میں دفن کرنے سے منع فرماتے تھے ۔
۱۔جب سورج طلوع ہو رہا ہو ۲۔ جب سورج دوپہر کو عین سر پر ہو ۔
حین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس
یعنی جب آفتاب عین سر پر کھڑا ہو جب تک کہ مغرب کو ڈھل نہ جائے ۔ ۳۔ اور کن سورک غرون ہو رہا ہو ۔
(صحیح مسلم ، سنن ابی داوٗد ، نسائی ، بیہقی ، دارمی وغیرہ )
(۲) حضرت عمرو بن عبسہؓ سے طویل حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھو پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج طلوع کرے اور قدرے بلند ہو جائے اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے اور اُس وقت سورج پرست سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔
ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَشْہُودَۃٌ مَحْضُورَۃٌ حَتَّی یَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ، فَإِنَّ حِینَئِذٍ تُسْجَرُ جَہَنَّمُ، فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَیْء ُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَشْہُودَۃٌ مَحْضُورَۃٌ حَتَّی تُصَلِّیَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّہَا تَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَہَا الْکُفَّارُ۔
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا)
پھر نماز پڑہو کہ وہ مشہودہ محضورہ ہے یعنی اس میں فرشتے شاھد و حاضر ہوتے ہیں۔ یہ نماز اس وقت تک پڑہو کہ سایہ نیزے کے ساتھ سیدھا قرار پکڑے پھر نماز سے رک جاؤ کہ اس وقت جہنم کوبھڑکایا جاتا ہے ۔ جس وقت سایہ ڈھلے تو پھر نمازپڑھو کہ وہ مشہودہ محضورہ ہے یہاں تک کہ عصر ہو جائے ۔ پھر جب عصر کی نماز پڑھو توپھر نماز سے رُک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے اس لئے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اس وقت اس کے پُجاری اس کو سجدہ کرتے ہیں (مسلم جلد ۱ ۔ص ۲۷۶ ۔ سنن بیہقی جلد ۲۔ص ۴۵۵)
یعنی طلوع و غروبِ آفتاب کے وقت نماز اس لئے منع ہے کہ آفتاب شیطان کے سینگوں کے درمیان ہوتا ہے اور پجاری اس کی پوجا بھی کر رہے ہوتے ہیں تو لازم ہے کہ اُن کی مُشابہت سے بچا جائے جبکہ تیسرا وقت دوپہر کا یعنی جب آفتاب عین سر پر ہو اس وقت اس لئے نماز سے روک دیا گیا کہ اس وقت جہنم کوبھڑکایا جاتا ہے ۔
بخاری کی وہ روایت کہ گرمیوں میں ظہر کو ٹھنڈا کرو کہ اس وقت جہنم سانس لیتی ہے ا بھی اسی کی تائید ہے ۔ اس کی مکمل تحقیق و تعارف مطلوب ہو تو شیخ الحدیث فقیہ اعظم مولانا محمد نور اللہ نعیمی ؒ کی تالیف فتاوٰی نوریہ جلد اول ص ۱۵۴ کا مطالعہ فرمائیں جہاں کثیر عبارات عربیہ اور تحقیقات علماء پیش کی گئیں ہیں۔
(۳) حضرت صفوان بن مُعطل ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی پھر سوال کیا کہ رات دن میں کوئی ایسا وقت ہے جس میں نماز مکروہ ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب صبح کی نماز پڑھ لو تو سورج کے طلوع ہونے تک نماز نہ پڑھو کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے ۔ پھر فرمایا
فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَحْضُورَۃٌ مُتَقَبَّلَۃٌ حَتَّی تَعْتَدِلَ عَلَی رَأْسِکَ مِثْلَ الرُّمْحِ فَإِذَا اعْتَدَلْتَ عَلَی رَأْسِکَ فَإِنَّ تِلْکَ السَّاعَۃَ تُسْجَرُ فِیہَا جَہَنَّمُ وَتُفْتَحُ فِیہَا أَبْوَابُہَا حَتَّی تَزُولَ عَنْ حَاجِبِکَ الْأَیْمَنِ
(مجمع الزوائد ،کتاب الصلاۃ باب النہی عن الصلاۃ بعد العصر، وغیر ذلک)
پھر بعد ازں نماز پڑھو کہ وہ نماز محضورہ متقبلہ ہے حتی کہ سورج تمہارے سر پر نیزے کی طرح برابر ہوجائے پھر جب سورج سر پر نیزے کی طرح برابر ہو جائے تو نماز سے رُکو کہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے ۔ اور اس کے دروازے کھولے جاتے ہیں یہاں تک نماز سے رُکے رہو کہ سورج ڈھل کر تمارے دائیں ابروسے ہٹ جائے ۔ پھر جب ابرو سے ڈھل جائے تو پھر نماز پڑھو کہ اس وقت کی نماز محضورہ متقبلہ ہے ۔ یہاں تک کہ نمازِ عصر پڑھ لو پھر نمازِ عصر کے بعد نماز پڑھنا چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے ۔
(ابن ماجہ ، مستدرکِ حاکم ، سنن بیہقی ۔ حاکم نے اس حدیث کے بارے فرمایا ۔ ھذا الحدیث صحیح الاسناد اور علامّہ ذھبی نے فرمایا صحیح ، مسند احمد ، مجمع الزوائد ،کتاب الصلاۃ باب النہی عن الصلاۃ بعد العصر، وغیر ذلک۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر و رجالہٗ موثقون )۔
(۴) حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا
‘‘ کنّا ننہی عن الصلوٰۃ عند طلوع الشمس و عند غروبھا و نصف النّھارِ ’’
رواہ الطّحاوی فی شرح معانی الاثار ص ۹۰ جلد ۱۔ مطبع رحیمیہ ، مجمع الزوائد والطّبرانی فی الکبیر وقال اسنادہٗ حسن ۔ طبراء نے کبیر میں اس روایت کو ذکر کرکے فرمایا اس کی اسناد حسن ہے ۔امام مالک ؒ اور امام محمد ؒ نے اپنے اپنے مؤطا میں، بیہقی نے سنن بیہقی میں، امام شافعی ؒ نے کتاب الاُ م میں نیز مسند امام احمد اور ابن ماجہ نے ۔
ان احادیث سے بخوبی ثابت ہو ا کہ آفتاب کے طلوع و غروب اور سر پر ہونے کے وقت کوئی نماز نہیں ۔ اب بھی اگر کوئی جمعہ یا عیدین کو صرف انہی ممنوعہ لمحات میں ادا کرنے کی ضد کرے تو وہ اپنا شوق ضرور پورا کرے ۔
نماز جمعہ کا وقت :۔
جمعہ کے دن نماز جمعہ نماز ظہر کا بدل ہے اور اس کا وقت وہی ہے جو نماز ظہر کا ہے یعنی زوالِ آفتاب سے عصر تک ۔ ہاں اس کا مستحب وقت احادیث سے اول ہی ثابت ہے مگر اول وقت میں اتنا غلوّ کرنا کہ نصف النہارِ حقیقی یعنی جب سورج ابھی عین سر پر ہو اور جمعہ پڑھ لیا جائے یہ احادیث کی روشنی میں صحیح نہیں ۔ نماز جمعہ کو وقت نماز ظہر میں پڑھنے سے کسی نے اختلاف نہیں کیا لہذا نماز کے لئے ایسے وقت کا انتخاب ہی بہتر ہے جس پر سب متفق ہوں ۔ ہاں کچھ لوگوں نے یہاں بھی اختلاف کی راہ نکالنے کی کوشش کی اور جمعہ کو عین نصفُ النہار میں پڑھنے کا قول کر دیا ۔ جبکہ ہم اوقات ممنوعہ پر احادیث پیش کر چکے ۔
وقتِ نماز جمعہ میں ائمہ کی آراء :۔
۱) حضرت امام ابو حنیفہ ؒ امام شافعی ؒ اور جمہور ائمہ و محدثین و علماء کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا ہے ۔ اور وہ بعد از زوال ِ آفتاب ہے ۔ یعنی جب آفتاب وسطِ آسمان سے مغرب کو زائل ہو جائے ۔
۲) امام مالک ؒ خطبہء جمعہ کو زوالِ آفتاب سے قبل جائز بتاتے ہیں جبکہ امام احمد ؒ نماز جمعہ کو بھی زوال سے قبل جائز بتاتے ہیں ۔ علامہ ابن حزم اورعبد الرحمن مبارکپوری ؒ زوال کے بعد ہی وقت جمعہ کے قائل ہیں ۔ اہل حدیث حضرات میں سے علامہ شوکانی ؒ اور صدیق حسن خان ؒ امام احمد بن حنبل ؒ کی رائے رکھتے ہیں ۔
یہ تھیں چند مختلف آراء جو وقتِ نماز جمعہ کے حوالے سے پیش کیں ۔ اب میری گزارش اتنی ہے کہ رائے رکھنے کاہر کسی کو حق ہے اور کوئی اپنی رائے دوسرے پر جبرًا لازم بھی نہیں کر سکتا لہذا آپ جو رائے رکھیں یہ آپ کا اختیار ہے مگر میری عاجزانہ رائے بلکہ مشورہ یہ ہے کہ جمعہ کو اس وقت پر ہی ادا کیوں نہ کیا جائے جس پر کسی کا اختلاف نہ ہو ۔ یہ رائے صرف جمعہ کے حوالے سے نہیں بلکہ تمام اختلافات میں جہاں اجماعی و اتفاقی صورت پیدا ہوتی ہو تو اس کو اختیار کیا جائے کہ اسی میں اسلام اور مسلمانوں کا وقار ہے اور پر امن راستہ بھی یہی ہے ۔ اختلافات کی بجائے اُمت کو اتفاقات کی طرف بڑھنا چاہیے کہ امت کی طاقت اور وقار بڑھے ۔
نمازِ عیدین کا وقت :۔
جب سورج طلوع ہو کر ایک دو نیزہ برابر بلند ہو جائے اور خوب روشن ہو جائے تو وہاں سے لیکر سورج کے عین سر پر آنے سے قبل تک ہے اور مستحب و معروف ابتدائی وقت ہے ۔ عید اگر جمعہ کے دن آجائے تو جمعہ ساقط نہیں ہوتا کہ نماز عید جمعہ کی طرح فرض نہیں تو ایک کمزورشیء ایک طاقت ور شیء کا بدل کیسے بن گئی ۔ حضور ﷺ کا ایسا کوئی عمل نہیں کہ آپ نے عید کی وجہ سے جمعہ کو ترک کیا ہو پھر عید ایک الگ عمل ہے وہ جمعہ کے دن کے علاوہ بھی تو آتا ہے لہذا یہ ایک اضافی عمل ہے اس کا جمعہ سے اس طرح کا کوئی تعلق نہیں جس طرح کی جمعہ نماز ِ ظہر کو ساقط کر دیتاہے ۔ اور جمعہ نماز ظہر کو اس لئے ساقط کرتا ہے کہ جمعہ کا وقت عین وہی ہے جو ظہر کا ہے جبکہ نماز عیدین اور جمعہ کا ایسا کوئی تعلق نہیں اللہ تعالیٰ کے حکم
فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا البَیْعَ ۔(جمعہ ۔۹)
تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یعنی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے آؤ اس واضح حکم خداوندی کو کسی صحابی کا قول و فعل یا کوئی مُبہم مفہوم رکھنے والی حدیث کس طرح منسوخ و مخصوص کر سکتی ہے ؟ ۔
عید اگر جمعہ کے دن آئے تو جمعہ کو چھوڑ دینے کی دلیل کا رد:۔
اہل حدیث میں سے چند احباب کی رائے یہ ہے کہ اگر عید جمعہ کے دن آ جائے تو نماز عید ہی جمعہ کے لئے کفایت کرجائے گی لہذا بعد از عیدنماز جمعہ پڑھنا لازمی نہیں اور جب جمعہ معاف ہوا تو چونکہ جمعہ ظہر کے قائم مقام تھا لہذا ظہر کی نماز بھی لازم نہ رہی ۔ میں یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ضعیف تاویلات کر کے عبارت سے بھاگنے کی کیا وجہ ہے ؟ اس سلسلہ میں انہوں نے دو روایات پیش کیں جو حاضر ِ خدمت ہیں ۔
۱۔ حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے ۔
اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ۔۔۔۔۔صَلَّی الْعِیدَ، ثُمَّ رَخَّصَ فِی الْجُمُعَۃِ، فَقَالَ: مَنْ شَاء َ أَنْ یُصَلِّیَ، فَلْیُصَل۔
(ابو داؤدکتا ب الصلوٰۃ باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید ،مصنف ابن ابی شیبہ،مستدرک،سنن کبریٰ للبیہقی)
حضور ﷺ نے جمعہ کے دن نماز عید پڑھائی پھر فرمایا تمہیں جمعہ کی رخصت ہے جو پڑھنا چاہے وہ جمعہ پڑھ لے ۔
یہ حدیث صحیح ابی داوٗد کتا ب الصلوٰۃ باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید ، سے لی گئی ہے ۔
اس روایت کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے ۔
یہ حدیث بالکل یہ نہیں بتاتی کہ اس دن حضور ﷺ نے جمعہ نہیں پڑھا بلکہ اس پر دال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو پڑھنا چاہے وہ ہمارے ساتھ پڑھ لے کیونکہ جن کو پڑھنے کا اختیار دیا انہوں نے الگ الگ تو جمعہ نہیں پڑھا کہ جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے پھر اس حدیث میں یہ وضاحت بھی نہیں ہورہی کہ جب حضور ﷺ نے جمعہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں اختیار دیا تو صحابہ کرام ؓ کا اس پر رد عمل کیا آیا ۔ میں اپنے ذوق سے عرض کرتا ہوں کہ حضرات صحابہ کرامؓ عبادت سے بھاگنے والے نہ تھے کہ بھاگ گئے ہوں پھر حضور ﷺ کے ساتھ نماز کی ادائیگی حضرات صحابہ کرام ؓ کی خصوصی تمنا ہوا کرتی تھی تو گمان غالب یہی ہے کہ ایک بھی جمعہ پڑھے بغیر نہیں گیا ہو گا اور اگر یہ گمان کر بھی لیں کہ کچھ دور والے چلے گئے ہو ں تو اکثریت یقینًا موجود رہی ہو گی اور نماز جمعہ ادا کیا ہو گا جب نماز جمعہ ادا ہو گیا تو عملِ رسول ﷺ کو پکڑنے کی کوشش رہنی چاہیے اور اس کو ترکِ جمعہ کی دلیل بنانے سے گریز فرمائیں ۔
دوسری توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ جمعہ چونکہ ان دنوں ہر جگہ نہیں ہوتا تھا ویسے بھی جب رسول ﷺ خود خطیب و امام ہوں تو دور دراز سے صحابہ نے آپ کے پاس ہی آنا تھا پھر آج تو عید کا دن ہے اجتماع ِ عید جمعہ سے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ اس عید کی نماز کا موقع ہی سال بعد آتا ہے تو ممکن ہے دور سے آنے والو ں کو آپ نے اجازت دی ہو کہ چاہو تو رکے رہو اور جمعہ کا وقت ہونے پر ہمارے ساتھ جمعہ ادا کر کے جاؤ اور اگر چاہو تو جمعہ پڑھے بغیر چلے جاؤ مگر خیال رکھنا کہ نماز ظہر نہ پڑھنا۔تو حاصلِ بحث یہ ہے کہ نہ صحابہ نے جمعہ ترک کیا اور نہ ہی حضور ﷺ نے ترک کیا لہذا جمعہ کو ترک بھی نہیں کرنا چاہیے عید کی وجہ سے اور اس روایت سے مبھم استدلال بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اکثر استدلال احباب اہلِ حدیث کا مُبھم احادیث سے ہے۔
۲) حضرت ابوھریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ۔
قَدِ اجْتَمَعَ فِی یَوْمِکُمْ ہَذَا عِیدَانِ، فَمَنْ شَاء َ أَجْزَأَہُ مِنَ الْجُمُعَۃِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ ۔
(صحیح ابی داوٗد کتا ب الصلوٰۃ باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید)
یقینًا آج کے دن تمہارے لئے دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں پس جو چاہے اس کے لئے یہی نماز عید جمعہ کی بجائے کافی ہے مگر ہم جمعہ ضرور پڑھیں گے ۔
اس حدیث نے اوپر والی حدیث کی اس طرح وضاحت کر دی کہ حضور نے اگر کچھ صحابہ کو جمعہ پڑھنے نہ پڑھنے کا اختیار دیا تو اس دن آپ نے جمعہ ترک نہ فرمایا بلکہ و انّا مجمعون کے الفاظ صریحًا دلالت کر رہے ہیں کہ آپ نے جمعہ پڑھا اور یوں یہ حدیث حدیث ِ بالا کی تفسیر بھی بن گئی باقی اس حدیث پر وہی تبصرہ ہی کافی ہے جو پچھلی حدیث پر آپ پڑھ چکے ۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ حضور ﷺ نے یوم عید کو جمعہ ترک نہیں کیا تو پھر یہ دلیل لینا کہ ابن زبیر ؓ نے عید کے دن جمعہ نہیں پڑھا بالکل بوگس ہو کر رہ جاتی ہے اس لئے کہ ہمارا رسول ابن زبیر ؓ صحابی ہے یا خود نبی کریم ﷺ ۔ ہم نے رسول کی اتباع کرنی ہے اور جمعہ عید کے دن بھی پڑھنا ہے اور آپ صحابی کی تقلید کریں اور جمعہ کی بندگی سے جان چھڑالیں کیا عجب دعویٰ ہے ! کیا عجب انداز ِ فکر ہے ۔ العیاذ باللہ ! ۔
احناف کے نزدیک نوافل کے لئے دو مکروہ اوقات
تین اوقات یعنی عین طلوع وغروبِ آفتا ب اور جب آفتاب عین سر پر ہو یہ تو پہلے ذکر ہو چکے ان تین اوقات میں صرف نوافل ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی نماز یہاں تک کہ نماز ِ جنازہ اور سجدہ ِ تلاوت بھی منع ہے کہ سجدہ بھی رکنِ نماز ہے مگر اب ان دو اوقات کا مزید ذکر کیا جاتا ہے جن میں صرف نوافل مکروہ ہیں نہ کہ باقی نماز یں یا سجدہ تلاوت یاد رہے کہ جملہ سنتوں کو احناف نوافل میں ہی شمار کرتے ہیں لہذا جب نوافل مکروہ ہوئے تو گویا سنتیں بھی مکروہ ہوئیں ۔ وہ دواوقات جن میں صرف نوافل مکروہ ہیں وہ نماز فجر اور نماز عصر کی ادائیگی کے بعد ہیں اس پر احادیث درج ذیل ہیں ۔
(۱) عن ابی سعید الخدری ؓ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لاَ صَلاَۃَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، وَلاَ صَلاَۃَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّی تَغِیبَ الشَّمْسُ۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب لا تتحری الصلوٰۃ قبل غروب الشمس )۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ صبح اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ سورج کا طلوع و غروب ہو نہ جائے ۔
(۲) عن ابی ھُریرۃ قال نہی رسول اللّٰہ ﷺ عن صلوٰتین بعد الفجر حتی تطلع الشمس و بعد العصر حتی تغیب الشمس عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: ” نَہَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَتَیْنِ: بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ العَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔(مذکورہ بالا حوالہ )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا دو اوقات میں نماز سے ایک فجر کے بعد جب تک سورج نکل نہ آئے دوسرا عصر کے بعد جب تک غروب نہ ہو جائے ۔
(۳) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: شَہِدَ عِنْدِی رِجَالٌ مَرْضِیُّونَ وَأَرْضَاہُمْ عِنْدِی عُمَرُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنِ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَشْرُقَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ العَصْرِ حَتَّی تَغْرُب۔
َ( بخاری کتاب الصلٰوۃ باب مواقیت الصلوۃ )
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا :میرے پاس پسندیدہ حضرات نے گواہی دی اور میرے نزدیک اُن میں سب سے پسندیدہ حضرت عمر ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ سورج چمکنے لگے اور عصر کے بعد یہاں تک کہ غروب ہو جائے ۔
(۴) عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: أَنَّ نَاسًا طَافُوا بِالْبَیْتِ بَعْدَ صَلاَۃِ الصُّبْحِ، ثُمَّ قَعَدُوا إِلَی المُذَکِّرِ، حَتَّی إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامُوا یُصَلُّونَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: قَعَدُوا، حَتَّی إِذَا کَانَتِ السَّاعَۃُ الَّتِی تُکْرَہُ فِیہَا الصَّلاَۃُ، قَامُوا یُصَلُّونَ۔
(بخاری کتاب الحج باب: الطواف بعد الصبح والعصر)
جناب سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگو ں نے نماز صبح کے بعد طواف کیا پھر نصیحت کرنے والے کو سننے بیٹھ گئے جب سورج نکلا تو نوافلِ طواف اٹھ کر پڑھے ۔ پھر فرمایا لوگ بعد از طواف بیٹھ گئے جب نماز کے لئے مکروہ وقت گزر گیا تو اٹھ کر نوافل ِ طواف پڑھے ۔
جناب سیدہ عائشہ ؓ کی روایت میں (تکرہُ) کا صاف لفظ موجود ہے کہ آپ نے نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک نماز ِ نوافل کو مکروہ فرمایا ایسی ہی احادیث کی اتباع میں ہم بھی ان اوقات کو مکروہ ہی کہتے ہیں گویا احناف کی یہ اصطلاح خود ساختہ نہیں بلکہ حدیث سے ماخوذ ہے ۔ پیش کردہ احادیث کی بنیاد پر احناف کے نزدیک اگر نماز فجر کی سنتیں رہ جائیں اور فرض ادا کرلئے جائیں تو سنتیں بھی بعد فرائض فجر مکروہ ہی ہیں کہ وہ بھی نوافل ہیں نہ کہ فرائض ۔ اب ان صریح احادیث کے مقابلہ میں کسی صحابی کا قول و فعل بطور دلیل لایا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ صبح کی سنتوں کی ادائیگی جب طلوعِ آفتاب کے بعد ممکن ہے تو مذکورہ صریح احادیث کی مخالفت کیوں ہو ۔
اَللّٰھُم اِھْدِنَا
نماز عصر کی ادائیگی کے بعد دو نوافل :۔
امام بخاری ؒ نماز عصر کے بعد حضور ﷺ کے عمل سے دونوافل پڑھنے اور پھر نہ پڑھنے کی روایات لائے ہیں لیکن چونکہ امام بخاری ؒ احادیث کو جمع کرنے کے حوالے سے امام تسلیم کیے جاتے ہیں جبکہ اجتہاد ، مسائل شرعیہ کا احادیث سے استخراج و استنباط ان کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان کو اس میدان میں امام مانا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ فیصلہ دئیے بغیر احادیث متعارض لاتے ہیں اور گزرتے جاتے ہیں ۔ یوں کہیں کہ وہ میڈیکل سٹور تو وسیع رکھتے ہیں مگر خود ڈاکٹر نہیں کہ اپنے پاس موجود سٹور سے کسی مریض کے لئے کوئی دوائی تجویز کر سکیں یا مریض کے مرض کی تشخیص کر سکیں ۔ یہ کام امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے جن کے گلشنِ فیضان سے پوری آپ کے بعد والی امت کسی لحاظ سے خوشہ چین اور ممنونِ احسان ہے۔
اب جہاں تک عصر کے بعد دو نوافل پڑھنے کی روایت ہے اس کو امام بخاری ؒ کتاب مواقیت الصلوۃ جلد ۱ میں سیدہ عائشہ ؓ سے یوں لائے کہ روایت در حقیقت ایک ہے جس کو مختلف اسناد سے لاکر یوں ظاہر ہوا کہ شاید ان نوافل کے پڑھنے کے ثبوت میں کئی روایت ہیں مگر لطف کی بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کیا ہر عصر کے بعد ان کے پاس ہی ہوتے کہ آپ ہمیشہ کا عمل فرمارہی ہیں ؟ جبکہ نوافل کا ترک بھی کبھی حضور ﷺ سے ثابت ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو وجوب کا گمان نہ ہو ۔ پھر یہ کہ جو نوافل آپ نے پڑھتے دیکھا اس کی حضور ﷺ سے وجہ اسی بخاری کی اسی جلد ۱ کتاب السہوباب اذا کلّم وھویصلّی فاشار بیدہ میں ان الفاظ سے مذکور ہے ۔
شَغَلَنِی نَاسٌ مِنْ عَبْدِ القَیْسِ عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الظُّہْر ۔
کہ جب حضور ﷺ کو پڑھتے دیکھا گیا تو سوال ہوا کہ جناب تو عصر کے بعد نماز سے منع فرماتے ہیں اور خود پڑھ رہے ہیں تو جناب نے فرمایا یہ نوافل عام نہیں (نہ یہ میرا روزانہ کا معمول / بلکہ یہ تو قبیلہ عبد القیس کے لوگ میرے پاس بیٹھ گئے تھے ان کی مشغولیت کی وجہ سے بعد از فرائض ظہر کے دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا یہ وہی دو رکعتیں ہیں ۔ بخاری کی روایت تو الٹا اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آپ کا ایسا کوئی معمول نہ تھا صرف ایک دن دو سنت بعد از ظہر کو عصر کے بعد پڑھا۔ پھر دوسری روایت اسی کی تائید میں ملاحظہ ہو جو جلیل القدر صحابی جناب امیر معاویہ ؓ کے بارے ہے۔
عَنْ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ: إِنَّکُمْ لَتُصَلُّونَ صَلاَۃً لَقَدْ صَحِبْنَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَیْنَاہُ یُصَلِّیہَا، وَلَقَدْ نَہَی عَنْہُمَا ، یَعْنِی: الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ العَصْرِ ۔
(بخاری کتاب الصلٰوۃ کتاب مواقیت الصلوۃ)
حضرت امیر معاویہ ؓ نے کچھ لوگو ں (تابعین ) کو بعد از عصر نوافل پڑھتے دیکھا تو فرمایا تم ان نوافل کو پڑھتے ہو جبکہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں تو ہم رہے ہم نے تو رسول اللہ ﷺ کو یہ نوافل پڑھتے نہیں دیکھا بلکہ آپ نے تو ان سے منع فرمایا ہے ۔
حضرت امیر معاویہ ؓ کا بیان بالکل واضح ہے کہ حضور ﷺ خود بھی نہ پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی منع فرماتے تھے اصولِ حدیث یہ ہے کہ حضور ﷺ کا عمل اور حکم متعارض ہوں تو حکم کو ترجیح ہوتی ہے کہ عمل کی کوئی خاص وجہ ہو سکتی ہے اور وہ وجہ یہاں بیان بھی ہو چکی کہ ظہر کی دو سنتیں رہ گئی تھیں آپ وہ ادا فرما رہے تھے۔
ایک صاحب نے جناب سیدہ عائشہ ؓ کی روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ۔
عن عائشہ ؓ مَا تَرَکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّجْد َتَیْنِ بَعْدَ العَصْرِ عِنْدِی قَط ۔
جناب سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے میرے سامنے کبھی عصر کے بعد دوسجدوں کو ترک نہیں فرمایا ۔
(نماز کی کتاب تالیف حافظ عمران ایوب لاہوری )
اب اگر اس روایت کو معتبر ہی مان لیا جائے تو اس میں صرف دوسجدے کرنے کی بات ہے نہ نماز کی بات ہے اور نہ دو نوافل کی بات ۔ اگر آپ فرمائیں کہ سجدوں سے مراد دو رکعتیں ہیں تو کسی بھی لفظ کے حقیقی معنی کو بلاوجہ ترک نہیں کیا جاتا لہذا دوسجدوں کو دوسجدے کہنے میں جب کوئی وجہ ممانعت نہیں تو اصل معنی سے توجہ کیوں نہ کریں چلو مان لیا سجدوں سے مراد نوافل کے سجدے ہیں تو پھر چار سجدوں کی بات ہوتی کہ دوسجدے تو صرف ایک رکعت میں ہی آجاتے ہیں تو اس سے دونوافل کیسے ثابت ہوئے دو نوافل کو اگر سجدوں میں ہی بولیں تو چار سجدے بولیں گے جبکہ روایت میں دوسجدوں کے الفاظ ہیں ۔ اب اس کے عین مدّ مقابل سیدہ اُم سلمہ ؓ کا بیان پیش ِ خدمت ہے ۔ آپ فرماتی ہیں میرے گھر حضور ﷺ نے بعد از عصر صرف مرتبہ دو رکعتیں پڑھیں ( یہ وہی دو رکعتیں ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا کہ حضور ﷺ نے خود وضاحت فرمادی کہ بعد از ظہر کی رہ گئی تھیں ان کو اب بعد از عصر اداکیا ہے )جناب سیدہ ام سلمہ ؓ سے دوسری روایت یہ ہے ۔
عن ام سلمہ ؓ۔۔۔۔۔فَلَمْ أَرَہُ یُصَلِّیہِمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ
کہ میں نے اُسی ایک دن کے علاوہ جناب کو نہ اس سے پہلے اور نہ بعد یہ نوافل بعد از عصر پڑھتے دیکھا۔
(صحیح نسائی کتاب المواقیت باب الرخصۃ فی الصلوٰۃ الخر)
روایت بالکل واضح ہے اور روایت بھی صحیح ہے نہ کہ ضعیف تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ جناب سیدہ عائشہ ؓ کے بیان کے مطابق اگر آپ کا معمو ل تھا تو کبھی تو ام سلمہ ؓ بھی دیکھ لیتیں ۔
لہذامعلوم ہوا کہ عصر کے بعد نہ حضور ﷺ خود پڑھتے تھے نہ صحابہ کا عمل روایات میں آرہا ہے جو ایک روایت امیر معاویہ ؓ سے گزری کہ کچھ لوگوں کو پڑھتے دیکھا اس کے رد میں اتنا کافی ہے کہ امیر معاویہ ؓ کے بیان اور بتانے کو کسی نے رد نہ کیا کہ وہ لاجواب ہو گئے ۔ ہاں منع کی روایات بلا غُبار ہیں انہی پر عمل ہے ۔
نمازِ ظہر کے آخری وقت پر ایک واضح روایت :۔
۱) عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقْتُ الظُّہْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُولِہِ، مَا لَمْ یَحْضُرِ الْعَصْر ( مسلم کتاب الصلٰوۃ باب مواقیت الصلوۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وقت ظہر اس وقت شروع ہوتا ہے جب آفتاب ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ (ایک مثل ) اس کی لمبائی برابر ہو جائے جب تک عصر کا وقت نہ آجائے ۔
یہاں ظہر کا وقت مثل اول کے ہو جانے اور عصر سے پہلے تک بتایا گیا ۔ نہ کہ مثل اول کے اند اندر اس کو مُقیّد کیا پھر عصرکے وقت تک نہ آئے ظہر کا وقت ہی بتایا گیا ہے جبکہ بخاری سے ایک روایت ایسی پیش کر چکا ہوں جو ظہر کا وقت عصر کے پورے وقت سے زیادہ پر صاف دلالت کرتی ہے ایسی کوئی توجیہہ و تطبیق پیش نہیں کی جا سکتی کہ ظہر کا پورا وقت بھی صرف ایک مثل برابر رہے اور وقت عصر سے بھی ہو جائے ۔
۲) أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَتَبَ إِلَی عُمَّالِہِ إِنَّ أَہَمَّ أَمْرِکُمْ عِنْدِی الصَّلَاۃُ. فَمَنْ حَفِظَہَا وَحَافَظَ عَلَیْہَا، حَفِظَ دِینَہُ. وَمَنْ ضَیَّعَہَا فَہُوَ لِمَا سِوَاہَا أَضْیَعُ، ثُمَّ کَتَبَ: أَنْ صَلُّوا الظُّہْرَ، إِذَا کَانَ الْفَیْء ُ ذِرَاعًا، إِلَی أَنْ یَکُونَ ظِلُّ أَحَدِکُمْ مِثْلَہُ ۔
(موطا امام مالک باب وقوت الصلاۃ۔مصنف عبدالرزاق باب المواقیت)
حضرت عمر ؓ نے اپنے عمال کو لکھا کہ تمہارے امور میں سے اہم ترین نماز ہے جس نے اس کی حفاظت کی اس نے دین کی حفاظت کی جو اس کو ضائع کرے وہ اس کے سوا ہر امانت کو زیادہ ضائع کرے گا پھر لکھا کہ ظہر کو سایہ ایک ذراع ہونے سے لیکر ایک مثل ہونے تک پڑھ لیا کرو ۔
نماز کی اہمیت بارے عمدہ فرمان ہے خلیفہ رسول اللہ ﷺ کا ۔ ظہر بارے تیسری روایت :۔
۳۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَّنِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام عِنْدَ الْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ، فَصَلَّی بِیَ الظُّہْرَ حِینَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاکِ، وَصَلَّی بِیَ الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، وَصَلَّی بِیَ یَعْنِی الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاء َ حِینَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ حِینَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الصَّائِمِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ صَلَّی بِیَ الظُّہْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، وَصَلَّی بِی الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَیْہِ، وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاء َ إِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ، وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، ہَذَا وَقْتُ الْأَنْبِیَاء ِ مِنْ قَبْلِکَ، وَالْوَقْتُ مَا بَیْنَ ہَذَیْنِ الْوَقْتَیْن۔
( ابو داوٗد کتاب الصلٰوۃباب المواقیت و ترمذی کتاب الصلٰوۃ باب ما جاء فی مواقیت )
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو مرتبہ یعنی دودن جبرئیل ؑ نے نماز پڑھائی بیت اللہ کے پاس تو ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور تسمہ کے برابر تھا اور عصر پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا ۔ اور مغرب پڑھائی جب روزہ دار روزہ کھولتا ہے اورعشاء پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی اور فجر پڑھائی جب روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ۔پھر دوسرے دن ظہر پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا پھر عصر پڑھائی جب دومثل ہو گیا اور مغرب جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے پھر عشاء رات تیسرا حصّہ گزر نے پر پڑھائی اور فجر کو روشن کرکے پڑھایا پھر میری طرف متوجہ ہو ا اور کہا اے سراپا حُسن و زیبائی یہ آپ سے پہلے انبیآء ؑ کا وقت ہے اور وقت انہی دونوں اوقات کے درمیان ہے۔
۴) عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَأَرَادَ المُؤَذِّنُ أَنْ یُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَہُ: أَبْرِدْ ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَہُ: أَبْرِدْ ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَہُ: أَبْرِدْ حَتَّی سَاوَی الظِّلُّ التُّلُولَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّۃَ الحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّم۔
( بخاری کتاب الاذان باب الاذان للمسافر )
حضرت ابو ذر ٍؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر پر تھے کہ مؤذن نے اذان دینی چاہی تو جناب نے فرمایا ٹھنڈاہونے دو پھر دینی چاہی تو بھی یہ فرمایا تیسری بار دینی چاہی تو بھی فرمایا ٹھنڈا ہونے دو یہاں تک کہ ٹیلوں کا سایہ ایک مثل ہو گیا تو فرمایا گرمی کی شدت جھنم کے سانس لینے سے ہے ۔
الغرض ظہر و عصر کے وقت کو جملہ احادیث سامنے رکھ کر جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ایک طرف ظہر کا وقت معلوم کرنا ہے دوسری طرف عصر کا اس سے الگ کرنا ہے ۔ تو اکثر احادیث سے ان دواقات کا واضح تعین انتہائی مشکل ہے ہاں اتنی بات سمجھ سکا کہ ایک طرف ظہر ہے اس کو ان اوقات سے سمجھا جائے جو گرمی میں نماز کو ٹھنڈا کرنے کی تعلیم دیتی ہیں اور دوسری طرف عصر ہے جس کو سمجھنے کے لئے مختلف روایا ت اس سلسلہ میں مدد دیتی ہیں ۔ کہ عصر کو دھوپ زرد ہونے سے پہلے ہی ادا کر لیا جائے لہذا موجودہ نمازوں کا معمول ٹھیک احادیث کے مطابق ہے ۔
ظہر کا آخری وقت اور مختلف روایا ت :۔
حافظ عمران ایوب لاہوری کی تالیف (نماز کی کتاب ) زیر نظر ہے جو روایات انھوں نے پیش کیں وہ پیش خدمت ہیں ۔
۱۔ حضرت جبرائیل ؑ کی امامت والی حدیث میں ہے کہ
وصلی العصر فی الیوم الاول حین صار ظل کل شیءٍ مثلہٗ ۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل ؑ نے مجھے پہلے دن نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا ۔
تبصرہ :۔ کتنا عجیب ہے کہ ظہر کا آخری وقت ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے اس روایت کا سہارا لیا گیا جس کو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خوب رد کر چکے کہ یہ روایت اوقاتِ نماز کو ظاہر کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ العَزِیزِ أَخَّرَ العَصْرَ شَیْئًا، فَقَالَ لَہُ عُرْوَۃُ: أَمَا إِنَّ جِبْرِیلَ قَدْ نَزَلَ فَصَلَّی أَمَامَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ اعْلَمْ مَا تَقُولُ یَا عُرْوَۃُ قَالَ: سَمِعْتُ بَشِیرَ بْنَ أَبِی مَسْعُودٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: نَزَلَ جِبْرِیلُ فَأَمَّنِی، فَصَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ یَحْسُبُ بِأَصَابِعِہِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ ۔
(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکہ و مسلم )
ابن شہاب ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمربن عبد العزیز ؒ نے عصر کی نماز کچھ تاخیر سے ادا کی تو عروہ بولے کہ کیا جبرئیل ؑ نے آکر حضور ﷺ کو یوں یعنی اس وقت میں نماز نہیں پڑھائی تھی ؟ تو عمر بن عبد العزیز نے فرمایا اے عروہ ہوش کرو کیا بول رہے ہو پھر خود ہی حدیث جبرئیل ؑ یوں بولی کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود ؓ کو کہتے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ جبرئیل ؑ آئے اور میری نماز میں امامت کرائی تو میں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی ،پھر نماز پڑھی ، پھر نماز پڑھی ، پھر نماز پڑھی یوں پانچ نمازوں کو انگلیوں پر حساب کیا ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا میں نے بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث مرفوع پیش کی جس میں اوقات کا کوئی اشارہ تک نہیں پھر اسی روایت کو بخاری نے دوسری سند سے یوں ذکر کیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ نے عروہ سے کہا ذرا سمجھو اپنی بات کو تم کیا کہنا چاہتے ہو کہ جبرئیل نے نبی ﷺ کو نمازوں کے اوقات بتائے ؟ اب بالکل صاف ظاہر ہوا کہ اس روایت سے ظہر کے وقت کے تعین پر استدلال غلط ہے جہاں حدیثِ جبرئیل ؑ کو یوں پیش کیا گیا کہ اس سے اوقات ظاہر ہورہے ہیں۔ اس میں شدید اضطراب ہے وہ اس طرح کہ جبرئیل ؑ نے دوسرے دن ظہر اور پہلے دن عصر ٹھیک ایک وقت میں پڑھائی دوسرا اعتراض اس پر یہ ہے کہ دوسرے دن عصر دو مثل پر پڑھائی اگر واقعی یہ تعیّن اوقات کے لئے تھی تو کیا عصر کا آخری وقت دو مثل ہے یا قبل از غروب ِ آفتاب ؟ پوری روایت پیش کرتا ہوں غور فرمائیں او رمطلوبہ اعتراضات کو خط کشیدہ کر کے ظاہر کر دیتا ہوں کہ اعتراضات سمجھنے میں آسانی ہو پھر اس روایت کو بخاری ومسلم کی بجائے ترمذی و ابو داوٗد نے ذکر کیا ۔
حدیث جبرئیل ؑ یہ ہے جو اضطراب سے بھری ہوئی ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَّنِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام عِنْدَ الْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ، فَصَلَّی بِیَ الظُّہْرَ حِینَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاکِ، وَصَلَّی بِیَ الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، وَصَلَّی بِیَ یَعْنِی الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاء َ حِینَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ حِینَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الصَّائِمِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ صَلَّی بِیَ الظُّہْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، وَصَلَّی بِی الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّہُ مِثْلَیْہِ، وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاء َ إِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ، وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، ہَذَا وَقْتُ الْأَنْبِیَاء ِ مِنْ قَبْلِکَ، وَالْوَقْتُ مَا بَیْنَ ہَذَیْنِ الْوَقْتَیْن۔
( ابو داوٗد کتاب الصلٰوۃباب المواقیت و ترمذی باب ما جاء فی مواقیت )
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو مرتبہ یعنی دودن جبرئیل ؑ نے نماز پڑھائی بیت اللہ کے پاس تو ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور تسمہ کے برابر تھا اور عصر پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا ۔ اور مغرب پڑھائی جب روزہ دار روزہ کھولتا ہے اورعشاء پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی اور فجر پڑھائی جب روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ۔پھر دوسرے دن ظہر پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا پھر عصر پڑھائی جب دومثل ہو گیا اور مغرب جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے پھر عشاء رات تیسرا حصّہ گزر نے پر پڑھائی اور فجر کو روشن کرکے پڑھایا پھر میری طرف متوجہ ہو ا اور کہا اے سراپا حُسن و زیبائی یہ آپ سے پہلے انبیآء ؑ کا وقت ہے اور وقت انہی دونوں اوقات کے درمیان ہے۔
یہاں ظہر و عصر کو ایک ہی وقت میں پڑھا ۔ پھر دونوں دن مغرب کو بھی ایک ہی وقت میں پڑھا اور صائم کا سہارا لیا جو خود غیر واضح ہے پھر عصر کو دوسرے دن دومثل سایہ پر پڑھا اور وقت مابین ھذین الوقتین سے پابند کر دیا کہ عصر مثلین سے آگے نہیں جبکہ عصر دومثل سایہ تک اخیر نہیں بلکہ غروب آفتاب کے متصل پہلے تک اتفاق سے ہے ۔
اس روایت پر مزید اعتراضات ہیں خوفِ طوالت سے ترک کرتا ہوں یہ حدیث قابل ِ استدلال تو کیا قابلِ التفات نہیں۔
۲۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔
وقتُ صلٰوۃ ِ الظّہر مالم یحضر العصر ۔
نماز ظہر کا وقت نماز عصر تک رہتا ہے ۔
یہ روایت از خود ظہر کے وقت کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا وقت عصر کے وقت تک رہتا ہے جبکہ اصل حل طلب بات ہی یہی ہے کہ عصر کا شروع وقت کیا ہے ۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ عصر کا شروع وقت کیا ہے تو بحث ہی ختم ہو جاتی ہے اور اس سے پہلے ظاہر ہے کہ ظہر ہے اگر عصر کا پہلا وقت حدیث ِ جبرئیل ؑ سے ہی لینا ہے تو اس میں شدید اضطراب ہے قابلِ استدلال نہیں ۔
۳۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی تو بنو سلمہ قبیلے کا ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ہم اونٹ نحر کرنا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں آپ نے دعوت قبول فرمائی پھر آپ ﷺ اور ہم چلے ۔ آپ ؐ نے اونٹ کو دیکھا کہ اس کو ابھی نحر نہیں کیا گیا پھر بعد ازاں نحر کیا گیا کاٹا گیا پھر کچھ اس سے پکایا گیا پھر ہم نے اسے غروب سے پہلے کھالیا ۔ اس کو مسلم نے روایت کیا کتاب المساجد میں ۔
تبصرہ :۔
اس روایت سے یہ ثابت کرنے کی کشش کی گئی کہ حضور ﷺ نے عصر مثل اول کے ہوتے ہی پڑھ لی تب یہ جانا، ذبحہ کرنا ،کاٹنا ، پکانا اور کھانا ثابت ہوا ۔ تو گزارش ہے کہ اگر اس روایت سے وقت ِ عصر کا تعین ہو رہا ہے تو مناسب اس لئے نہیں کہ اس میں ایسے واقعے کو دلیل بنایا گیا کہ جس سے وقت واضح طور پر ظاہر ہرگز نہیں ہوتا اس لئے کہ ایک ہی کام دو طرح کے لوگ دو الگ الگ وقت میں کرتے ہیں اس کا مشاہدہ قربانی کے دن ہر سال ہوتا ہے مختلف پارٹیاں اپنا اپنا بڑا جانور تیار کرتی ہیں وقت سب کا الگ الگ ہو تا ہے لہذا یہاں اندازہ لگانے والی بات ہے جو اختلاف کا باعث بن سکتی ہے پھر یہ کہ اس روایت میں یہ ذکر نہیں کہ کام کرنے والوں کی تعداد کیا ہے ۔ ہاں اشارۃ ً معلوم ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ تھے جس میں حضور ﷺ کی شرکت کو برائے محبت بطور برکت لازمی سمجھا گیا اور دعوت دی گئی پھر اونٹ عربوں کے ہاں عام تھا اسی کی اکثر قربانی ہو تی عرب جفاکش لوگ تھے اور اونٹ ذبح کرنا ان کا معمول تھا جبکہ آج کے لوگوں سے اگر یہی کام لینا ہو تو ممکن ہے کہ حضور ﷺ عصر کو سورج نکلتے ہی صبح صبح پڑھ کر جائیں اور شام کو کھائے بغیر آجائیں ۔ لہذا عربوں کو اپنے پر یہاں گمان وقیاس کرنا درست نہیں ۔
اصل بات جو اس حدیث میں محسوس ہوئی وہ یہ کہ اونٹ ذبح بھی ہو ا جو عربوں کے لئے بہت آسان تھا پھر کاٹا بھی گیا جب لوگ ہی زیادہ تھے تو ایک ایک ٹکڑا پکڑ کر بہت جلد تیار کرلیا پھر یہ کہ پک کر کھا کر آئے تو اصل میں یہ بات ہے جس سے سارا مسئلہ سمجھنا آسان ہو جا تا ہے اس طرح کہ ذبح شدہ جانور سے اگر کچھ حصّہ پکانا بھی ہو تو عمومًا ذبح ہوتے ہی دل کلیجی وغیرہ پہلے لے کر پکاتے ہیں چونکہ یہ حصّے بہت نرم ہیں تو جلد تیار ہو جاتے ہیں اور اگر ان کو پکانے کی بجائے بھون لیا جائے تو وقت ہی نہیں لگتا جانور کا باقی گوشت کاٹنے سے پہلے یہ تیار ہو جاتا ہے ۔ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس سے ہم نے کچھ کھایا نہ کہ سارا اونٹ پکا کر کھاگئے اور یہ بھی حدیث سے ظاہر نہیں کہ جو حصّہ پکایا گیا وہ کیا تھا اور کیا اس کو پورا گوشت تیار کرنے کے بعد پکانا شروع کیا حدیث اس کی تائید نہیں کرتی لہذا اس روایت سے قیاس کرکے وقت ظہر کو تنگ ثابت کرنا مناسب نہیں ہاں عصر کا اول وقت یعنی مثل ثانی کے بعد میں پڑھنا اس سے ظاہر ہے ۔ کہ اس دن حضور ﷺ کو جب دعوت تھی تو آپ وقت کے اندر اندر جماعت میں تقدیم و تاخیر فرماتے تھے ۔اس دن دعوت اور پھر وہ بھی اونٹ کی تو ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اس دن عصر اول وقت ہی میں پڑھی اور جلدی تشریف لے گئے اور جناب کی حاضری سے یہبھی عین ممکن ہے کہ کام میں برکت ہو گئی ہو کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے تشریف لے جاکر اونٹ کو ایک نظر دیکھا اور آپ کا دیکھنا آپ ہی کا دیکھنا ہے جو برکت سے خالی نہیں پھر کام کرنے والوں کو یہ بھی جلدی تھی کہ حضور ﷺ کو دعوت دی ہے ایسا نہ ہو کہ آپ تناول فرمائے بغیر مغرب پڑھانے چلے جائیں لہذا انہوں نے یہ کام انتہائی جلدی کیا ۔
۴۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ
یَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَی رَحْلِہِ فِی أَقْصَی المَدِینَۃ وَالشَّمْسُ حَیَّۃ ٌ(بخاری باب وقت العصر)
ہم میں سے کوئی مدینہ کی آخری حد تک جاتا تو پھر بھی ابھی سورج پوری طرح روشن ہی ہوتا ۔
تبصرہ :۔
اس روایت کو بھی احناف کے خلاف پیش نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہمارے نقطہء نظر کے باکل خلاف نہیں اس لئے کہ آپ اس سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ حضور ﷺ مدینہ کے اندر بہت پہلے عصر ادا فرمالیتے جبکہ یہ بھی آپ کا اندازہ ہے ، لہذا اس کے جواب میں ہم بھی اندازہ ہی پیش کرتے ہیں کہ گرمیوں میں دن لمبا ہوتا ہے اگر عصر کو سایہ دومثل ہونے پر اول وقت میں اد اکر لیاجائے تو کوئی مدینہ کے آخری حصّے تک جائے اور سورج ابھی روشن ہو تو یہ عین ممکن ہے اس طرح کہ مدینہ شہر اس وقت کوئی کراچی لاہو ر جیسا بڑا شہر نہ تھا کہ آخری سرے تک زیادہ وقت درکار ہو ،بلکہ اتنا شہر تھا کہ مسجد نبوی سے کسی طرف مدینے کے آخری حصّے تک بہت دیر لگے تو صرف آدھا گھنٹہ لگے اور ہماری عصر کی نماز گرمیوں میں اس وقت ہوتی ہے کہ ابھی مغرب کو ڈیڑہ گھنٹہ باقی ہوتا ہے جب آدھا گھنٹہ اس سے مدینہ کے آخری حصّے تک جانے کا نکال لیں توغروب آفتاب کے لئے اب بھی ایک گھنٹہ باقی ہے تو آفتاب غروب سے ایک گھنٹہ قبل پوری طرح صاف شفاف اور خوب روشن ہوتا ہے اور جب سورج کی روشنی سفیدی و زردی اور کمزوری میں بدلتی ہے وہ سورج کے بالکل غروب کے قریب پندرہ سے بیس منٹ ہیں ۔ پہلے نہیں تو آج غروب آفتاب کامشاھدہ فرمانا پوری بات سمجھ آجائے گی ۔ یہ تھیں وہ روایات جن کو برادر محترم عمران ایوب لاہوری نے اپنی تالیف نماز کی کتاب میں ظہر کا آخری اور انتہائی تنگ وقت ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ،جبکہ اس کے مقابل ہم وہ روایات پیش کیا کرتے ہیں جن میں ظہر کو گرمیوں میں خوب ٹھنڈا کرکے پڑھنے کی بات ہے خاص کر ہماری دلیل بخاری جلد ۱ کتاب المواقیت الصلٰوۃ کی وہ روایت ہے جس میں یہود و نصاریٰ کے وقتِ عمل کو فجر سے ظہر اور ظہر سے عصر تک تشبیہ دی گئی ، تو انہوں نے اعتراض کیا وقت ہمارا زیادہ اور اجر امت رسول ﷺ کا زیادہ جن کا وقت ہم سے کم عصر سے شام تک ہے تو جناب جو ظہر آپ ثابت کرتے ہیں اس میں تو وقت ظہر وقتِ عصر کے برابر بلکہ بعض موسم میں ظہر عصر سے کم رہ جاتی ہے تو پھر ان کا اعتراض کیسا کہ وقتِ عمل ہمارا زیادہ اور اجر امت محمدیہ کا زیادہ، واضح ہوکہ ان کا اعتراض بنتا ہی تب ہے کہ ظہر کا کل وقت عصر کے کل وقت سے زیادہ ہو اور در حقیقت ایسا ہی ہے ۔ باقی ظہر کا ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی تمام روایات کو ایک نظر دیکھنے کے لئے جآء الحق حصّہ دوم کی طرف رجوع فرمائیں ۔
دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنا :۔
احناف کے نزدیک سوائے حج کے کبھی بھی سفروحضر میں دو نمازوں کو اس طرح جمع کرنا کہ کسی ایک نماز کے وقت کے اندر دونوں کو پڑھ لیا ہرگز جا ئز نہیں۔اگر کسی نے ایک نماز کو وقت سے مؤخر کرکے دوسری نماز کے وقت کے اندر پڑھا تو ہم مؤخر کی جانے والی کو قضا اور ایسا کرنے والے کو خطا کاربتائیں گے اور اگر اس نے دو نمازوں کو یوں جمع کیاکہ پہلی نماز کے وقت میں دونوں کو ادا کیا جبکہ دوسری کا ابھی وقت ہی نہیں داخل ہوا مثلاًزوالِ آفتاب کے فوراً بعدظہروعصر کو ملا کر پڑھ لیا تو ہم پہلی کو ادا کہیں گے کہ وقت پر ادا ہوئی اور دوسری کو لغو کہیں گے کہ جسں نماز کا ابھی وقت داخل ہی نہیں ہوا وہ کیسے ادا ہو۔
اس سلسلے میں جتنی روایات ملتی ہیں کہ حضورﷺنے مدینہ شریف میں یا دورانِ سفر نمازوں کو جمع فرما یا تو سوائے حج کے باقی تمام جمع ہو نے والی نمازوں کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ حضورﷺ نے دو نمازوں کو شکلاً اور صورۃًجمع فرمایاکہ ایک کو اس کے آخری اور دوسری کو اس کے پہلے وقت میں ادا کرکے بظاہر جمع کیا جبکہ حقیقتاً اپنے اپنے اوقات میں ہی تھیں۔ایسی جمع احناف کے نزدیک کبھی بھی جائز ہے کہ ظہر کومؤخر کر کے آخری وقت ظہر میں اور عصر کو عصر کے شروع وقت میں ادا کرے تو جائز ہے مگر یہ معمول نہ ہو کہ حضورﷺ نے ظہروعصر اور مغرب وعشاء کو بظاہر جمع فرمایا جبکہ حقیقت میں اپنے اپنے اوقات میں تھیں مگر یہ زیادہ تر سفر میں ہوا اور مدینہ شریف میں بھی ایک واقعہ ایسا ہی پیش آیا شاید سفر کا ارادہ ہو یا بارش کا دن ہوکہ بخاری جلد۱میں ہے کہ مدینہ میں نمازوں کے جمع کرنے کی روایت ایک صحابی نے دوسرے کو بتائی تو وہ کہنے لگا کیا ایسا حضورﷺ نے بارش کے دن کیا؟ تو راوی بولا کہ شاید ایسا ہی تھا۔ یہ واضح رہے کہ ظہر وعصر کے درمیان کو ئی وقت بالکل فارغ نہیں کہ وہ نماز ظہر کا بھی نہ ہو اور عصر کا بھی نہ ہوبلکہ ظہر کا وقت چلتا ہے جب تک عصر داخل نہ ہو جائے اورایسا ہی معاملہ مغرب وعشاء کا ہے کہ دونوں کے درمیاں کوئی خالی وقت نہیں بلکہ جو نہی مغرب کا وقت ختم ہوتا ہے تو عشاء کا شروع ہوجاتا ہے جبکہ عصر و مغرب کے درمیان غروبِ آفتاب حائل ہے۔
جب بھی حضور ﷺ نے نمازوں کو جمع فرمایا تو صرف ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع فرمایا اور حج کے دوران جہاں حضور ﷺ نے نمازوں کو ایک نماز کے وقت میں جمع فرما یا اس کی وجہ یہ کہ اس دن نمازوں کے وقت ہی بدل کر وہی کر دئیے جا تے ہیں جن میں حضورﷺ نے نمازوں کو جمع فرمایا بخاری سے روایت پیشِ خدمت ہے۔
ہُمَا صَلاَتَانِ تُحَوَّلاَنِ عَنْ وَقْتِہِمَا۔ (بخاری کتاب المناسک )
اس دن دونوں نمازوں کا وقت ہی اپنے اوقات سے بدل دیا گیایعنی ان کی ادائیگی کا وقت اپنے اصل وقت سے بدل کروہی کیا گیا جسں وقت میں آپ ﷺنے ادا فرما ئیں۔
لہذا دورانِ حج جن دو نمازوں کو اپنے حقیقی وقت سے بد ل کر دوسری دو نمازوں کے ساتھ ملایاگیا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ نہ صرف نماز بدلی بلکہ ان کے اوقات ہی بدل کراس دن کے لیے یہی کر دیے گئے۔ عقل کا تقاضا اور قیاس بھی یہی بتاتا ہے حج مسلمانوں کا بہت بڑا سالانہ اجتماع ہے وہاں بہت ہی جم ِغفیر ہوتا ہے ۔ لہذا نمازوں کو اپنے اوقات سے بدل کر درمیانی وقت کوحج کے اعمال کے ادا کرنے کے لئے فارغ کیا گیا جبکہ حج بھی امر الہٰی کی تکمیل ہے لہذا احسان فرمایا اس اللہ نے پوری ملت اسلامیہ پر جس رب نے نمازوں کو پچاس سے پانچ کر دیا اور اجر پچاس کا رکھا تو آج اس نے نمازوں کے اوقات میں مناسب رد و بدل دیکر احسان فرمایا اور اجر بھی وہی ہے جو وقت پر ادا ہوتیں اس کرم خداوندی کا اظہار حضور ﷺ نے عملًا نمازوں کو ان کے اصلی اوقات سے بدل کر فرما دیا جبکہ حج کے علاوہ نہ ایسا کرنے کی شدید حاجت پیش آتی ہے نہ ہی شریعت اس کو برداشت کرتی ہے کہ جس رب نے نمازوں کے اوقات مقرر کیے اور پھر پانچوں نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرتے رہنے کا حکم دیا اس کے حکم کے خلاف کیوں کیا جائے اور حضور ﷺ کے بارے بھی یہ گمان کیوں ہو کہ جناب جب چاہتے حکم خداوندی کے خلاف اپنی مرضی کرتے ایسا کچھ نہیں صرف بات اتنی ہے کہ جب احادیث کو لا علم لوگ پڑھتے ہیں تو اپنی لاعلمی اور کم فکری کی بنیاد پر احادیث سے حیرت انگیز غلط مفہوم اخذ کر لیتے ہیں اسی فکر کو روکنے کے لئے حضور ﷺ کے مبارک زمانے سے آج تک اُمت کی بھاری اکثر یت ائمہ دین شرعِ متین کے افکار کی اتباع کرتے نظر آتے ہیں ۔
نمازیں اپنے اپنے اوقات میں فرض کی گئی ہیں قرآن کی روشنی میں
۱) اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا o (سورۃ النسآء آیت ۔۱۰۳)
بے شک نماز مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے اپنے اپنے مُقرر وقت پر ۔
۲) وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ o ( ھود آیت ۔۱۱۴)
اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات کے حصوں میں ۔بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے ۔
۳) اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْہُوْدًاoوَ مِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o (سورۃ بنی اسرائیل ۔ ۷۸،۷۹)
نماز اداکیا کریں سورج ڈھلنے کے بعد رات کے تاریک ہونے تک اور ادا کریں صبح کی نماز بلاشبہ نماز ِ صبح کا مشاھدہ کیا جاتا ہے اور رات کے بعض حصّہ میں (اُٹھو ) اور نماز تہجد ادا کرو تلاوتِ قرآن کے ساتھ ۔ یہ نماز زائد ہے آپ کے لئے یقینًا فائز فرمائے گا آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر ۔
۴) فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ o (سورۃ الماعون۔ ۴،۵)
پس خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں کو (وقت پر ) ادائیگی سے غافل ہیں۔
۵) فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ o وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْہِرُوْنَ o (سورۃ الروم۔۱۷،۱۸)
سو پاکی بیان کرو اللہ تعالیٰ کی جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو اور اسی کے لئے ساری تعریف ہیں آسمانوں اور زمین میں اور(پاکی بیان کرو)سہ پہر کو اور جب تم دوپہرکرتے ہو ۔
۶) اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَہُوَ خٰدِعُہُمْ وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآء ُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِیْلًا o(سورۃ النسآء ۔۱۴۲)
بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ کو فریب دیناچاہتے ہیں اور جب نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو (بے وقت ) سُست بن کر اٹھتے ہیں وہ بھی لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ کا ذکر بھی بہت کم کرتے ہیں۔
اقامتِ صلوٰۃ میں بھی وقت پر نماز قائم کرنے کا شعور موجود ہے ان آیات سے واضح ہو ا کہ نمازوں کو اوقات مقررہ میں فرض کیا گیا ہے ۔ لہذا انسان کو یہ حق نہیں کہ بغیر کسی عذر معقول کے حکم خداوندی کی مخالفت کرے ۔
نوٹ:۔ لفظ غسق اللیل نے شفق کا مسئلہ بھی واضح کر دیا کہ عشاء شفق ِ ابیض کے بعد غسق اللیل پر ہوتی ہے ۔
نمازوں کے مقررہ اوقات کے حوالے سے چند احادیث
۱) قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَیُّ العَمَل أَفْضَلُ الصَّلاَۃُ عَلَی مِیقَاتِہَا ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الوَالِدَیْنِ ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ الجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَسَکَتُّ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی۔
(مسلم و بخاری باب فضل الجہاد والسیر ۔عن ابن مسعود ؓ )
عبد اللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ کونسا عمل اللہ کے ہاں سب سے محبوب ہے تو فرمایا نماز اس کے مقرر وقت پر پڑھنا عرض کی پھر کونسا عمل تو فرمایا ماں باپ سے نیکی کرنا ، عرض کیا پھر تو فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، جناب عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے کہا حضور ﷺ نے مجھے یہ باتیں فرمائیں اور اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ زیادہ فرماتے ۔
۲) عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ: ” یَا عَلِیُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْہَا: الصَّلَاۃُ إِذَا آنَتْ، وَالجَنَازَۃُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالأَیِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَہَا کُفْئًا ۔
( الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃِ. بَابُ مَا جَاء َ فی الوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الفَضْلِ.)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے فرمایا نبی ﷺ نے اے علی ؓ ! تین چیزوں کو کبھی مُؤخر نہ کرنا ۔ نماز جب اس کا وقت آجائے ، جنازہ جب حاضر ہو اور لڑکی جب اس کا جوڑ مل جائے ۔ (اس روایت سے ظاہر ہے کہ بالغہ کی شادی سرپرست کے ذمّہ ہے )
۳) عن ابن صامت قال قال رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَہُنَّ اللَّہُ تَعَالَی مَنْ أَحْسَنَ وُضُوء َہُنَّ وَصَلَّاہُنَّ لِوَقْتِہِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوعَہُنَّ وَخُشُوعَہُنَّ کَانَ لَہُ عَلَی اللَّہِ عَہْدٌ أَنْ یَغْفِرَ لَہ۔۔۔۔ الخ
(وداوٗدکتاب الصلاۃ باب المحافظۃ علی الصلوات )
ابن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض فرمائیں جس نے ان کے لئے خوب اچھی طرح وضو کیا اور انکو ان کے مقرر وقت پر ادا کیا اور اس کے رکوع و خشوع کو پوری طرح ادا کیا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کو بخش دے گا ۔
۴) عن انسٍ قال قال رسول اللّٰہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمتِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِ، یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّی إِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَہَا أَرْبَعًا، لَا یَذْکُرُ اللہَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا ۔
(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃباب استحباب التبکیر بالعصر)
حضرت انسٍ ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا تاڑتا رھتا ہے حتیٰ کہ سورج زرد پڑجاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے تو اٹھ کر چار چونچیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے ۔
یہ حدیث اس مذکورہ بالا آیت کی تفسیر بھی ہے جو منافقین کے نمازوں کے بے وقت انداز کو بیان کرتی ہے ۔
مزید یہ کہ نماز کو اگر وقتِ مستحب سے بلاوجہ مؤخر کرنے والا منافق ہے تو ظالم بالکل ایک نماز کا وقت چھوڑ کر دوسری نماز کے وقت میں پڑھے اس کے بارے کیا خیال ہے ۔
دو دو نمازیں جمع کرنے کی روایات اور ان کا مفہوم :۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ صَلاَۃِ الظُّہْرِ وَالعَصْرِ، إِذَا کَانَ عَلَی ظَہْرِ سَیْرٍ وَیَجْمَعُ بَیْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاء ِ۔
(بخاریأبواب تقصیر الصلاۃباب الجمع فی السفر بین المغرب والعشاء)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر ظہر و عصر اور نمازِ مغرب و عشآء جمع فرماتے تھے ۔
نمازوں کو اس طرح جمع کر نا کہ ایک کو اُس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اس کے اول وقت میں جمع کیا جائے کہ ہر نماز اپنے ہی وقت میں رہے اور بظاہر جمع بھی ہوں ۔اس کو احناف جائز بتاتے ہیں ۔ وہ تمام روایات جن میں خواہ مدینہ شریف میں ہو یا دورانِ سفر حضور ﷺ جب جمع فرماتے ہیں تو صرف جمع کا لفظ تو ہے مگر یہ لفظ کہ آپ کسی ایک وقت نماز میں دونوں کو ہی ادا فرمالیتے ۔ سوائے حج کے کوئی ذکر نہیں اور حج کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ جس کی وجہ پہلے مذکور ہو چکی ۔ حضور ﷺ نے جب بھی جمع فرمائیں تو ظہر و عصر اور مغرب و عشآء کو جمع فرمایا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان نمازوں کوجمع کرنا ممکن ہے کہ دونوں کے اوقات مُتصل ہیں اور ان کو اس طرح ملانا ممکن ہے کہ ایک کو آخری دوسری کو اول وقت میں ادا کریں تو اپنے اپنے وقت میں ہو کر جمع ہو جاتیں ہیں ۔ اگر حضور ﷺ ایک ہی وقت میں دونوں کو ادا فرماتے تو ہمیشہ انہی نمازوں یعنی ظہر و عصر پھر مغرب و عشاء ہی کو جمع کیوں فرمایا عشاء و فجر اور فجر و ظہر کو کیوں نہ جمع فرمایا ؟ اس لئے کہ ان کے اوقات آپس میں ملتے نہیں درمیان میں فاصلہ ہے ان کو عملًا ملاناممکن نہیں مگر تب جب ہر نماز کے اپنے وقت کا خیال رکھا جائے اور اگر وقت کا خیال رکھنا اور وقت کی فرضیت دورانَ سفر ختم ہو جاتی ہے پھر تو بہت مناسب ہوتا کہ سفر کے دن جلدی اٹھ کر صبح پانچوں نمازیں ادا فرمالیں اور دوران سفر بے فکر سفر کرتے چلے جائیں ۔ جن روایات میں جمع کرنے کی بات ہے اگر سمجھ نہیں آتیں تو مدینہ شریف کے اندر نہ سفر ہے نہ بارش وہاں حضور ﷺ نے جمع فرمائیں اگر جمع سے مطلب ایک وقت میں دو نمازوں کا پڑھنا ہے تو جو آیات و احادیث نمازوں کے اوقات کی فرضیت بارے ذکر کر چکا ہوں ان کا کیا مطلب باقی رہ جاتا ہے ۔ لہذا معلوم ہوا کہ بات کو بگاڑنے آیات و احادیث کی مخالفت کی بجائے آسان مفہوم کی طرف آئیں کہ حضور ﷺ نے نمازوں کو صورۃً ملایا نہ کہ حقیقۃً یہی قرآن و حدیث کے مطابق بھی ہے ۔
عقل کا تقاضا بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نمازوں کو اپنے اپنے اوقات میں ہی فرض کیا تو حضور ﷺ سے حکم خداوندی کی صریحًا خلاف ورزی ناقابل فہم ہے ۔ دوسری روایت ملاحظہ ہو ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاء ِ بِالْمَدِینَۃِ، فِی غَیْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ ۔
(مسلمکتاب صلاۃ المسافرین وقصرہاباب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو مدینہ شریف میں بھی بغیر کسی خوف اور بارش ہونے کے جمع فرمایا ۔
اس روایت میں بھی پچھلی روایت کی طرح جمع کی بات تو ہے مگر یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے ان کو کسی ایک نماز کے وقت میں جمع فرمایا پھر جب مدینہ میں بھی جمع فرمایا جبکہ نہ دوران سفر ہیں اور نہ ہی بارش کا مسئلہ ہے تو بلاوجہ دو نمازوں کو ایک وقت میں کس وجہ سے جمع فرمایا ۔ یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ جس طرح حالت ِ اقامت میں جمع فرمایا یعنی صورۃً اسی طرح دوران سفر بھی جمع فرمایا اور اس طرح جمع کرنا کہ ایک نما ز کو آخری ٹائم تک مؤخر کریں اور دوسری کو شروع میں تو اس طرح بخاری اور دیگر محدثین نے روایات جمع کیں کہ سفر جاری رکھا جب شفق غروب ہونے کے قریب ہوئی تو اترے پہلے مغرب پڑھی پھر عشاء کا وقت ساتھ ہی ہو گیا تو وہ بھی پڑھ لی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ و غیرہ صحابہ بھی دوران سفر ایسا کرتے تھے ۔ حضور ﷺ کا مدینہ شریف یا دوران سفر ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرنے میں یہ حکمت صاف ظاہر ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ نمازوں کو ہمیشہ اوقات مستحبہ میں ہی ادا کرنا لازمی نہیں بلکہ ہر نماز کے پور ے وقت کا ہر جزو اس قابل ہے کہ اس میں نماز بلا اختلاف اور بلا شک و شبہ جائز اور درست ہے ۔
۳) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ ثَمَانِیًا وَسَبْعًا، الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاء
( ابو داوٗد کتاب الصلاۃ باب الجمع بین الصلاتین )
حضور ﷺ نے مدینہ شریف میں پہلے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر سات رکعتیں یعنی ظہر عصر اور مغرب و عشاء کی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ صرف سفر میں ہی نہیں حضر میں بھی کبھی نمازیں جمع فرماتے تو ظاہر ہے کہ ایسے ہی جمع فرماتے کہ بظاہر جمع ہوں اور حقیقت میں اپنے اپنے وقت پر ہوں ۔ اگر اس سے مراد ایک نماز کے وقت دوسری کو جمع کرنا ہے تو کیا ہمارے لئے حضر میں ایسا جائز ہے کہ روافض کی طرح ایک وقت میں جمع کر لیا کریں ۔شاید روافض بھی صورۃً جمع ظہرین و مغربین کرتے ہیں نہ کہ حقیقت میں کہ ایک نماز کا آخری اور دوسری کا شروع وقت ہو تا ہے تو روافض پڑھتے ہیں ۔ روافض سے اتنا التماس ہے کہ یہ تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں بلکہ حضور ﷺ کی سنت ہے کہ نمازوں کو صورۃً جمع فرمایا لیکن گزارش صرف اتنی ہے کہ کیا حضور ﷺ کی زندگی کا یہی معمول رھا ؟ ہر گز نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ آپ پانچ نمازوں کو اپنے اپنے اوقات میں ہی پڑھتے اور صرف دوران سفر اور ایک دو مرتبہ ثبوت جواز کے اظہار کے لئے حضر میں جمع فرمائیں ہمیشہ کا یہ معمول مبارک نہ تھا ۔ نہیں معلوم علماء روافض ا س طرف توجہ کیوں نہیں فرماتے ۔ اب مذکورہ روایت کی طرف آتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ نے مدینہ میں آٹھ اور پھر سات رکعتیں پڑھائیں تو وہ اس طرح کہ ظہر کے آخری اور بعد ازاں عصر کے شروع وقت میں چار ظہر کی پھر چار عصر کی پڑھائیں یہ آٹھ ہو ئیں اور پھر روایت کے الفاظ پر غور فرمائیں ثمانیًا کے بعد واو لگا کر سبعًا کا لفظ لایا گیا جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ ساری پندرہ رکعتیں ایک ساتھ نہیں بلکہ ظہر و عصر کی کل آٹھ رکعتوں کے بعد پھر مغرب و عشاء کے ایسے درمیانی وقت میں کہ مغرب کا آخری ہو پھر عشاء کا اول وقت داخل ہو جائے تو اس وقت آپ نے تین مغرب اور چار عشاء کے فرائض پڑھائے یوں کل سات رکعتیں ہوئیں اور اب روایت بالکل ٹھیک طرح سے سمجھ میں آ گئی ۔
ایک علمی نکتہ :۔
جہاں کان یجمع کا لفظ آئے تو اس سے باربار کا معمول ظاہر ہو رہا ہوتا ہے جس کا اردو ترجمہ یوں ہو گا کہ آپ جمع فرماتے رہتے تھے اور اگر کان شروع میں نہ ہو اور روایت یوں ہو کہ جَمَع رسول اللہ ﷺ وہاں پر معمول ثابت نہیں ہو تا بلکہ صرف وہی عمل ایک مرتبہ ثابت ہو رہا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کہنا کہ حضور ﷺ ایسا کرتے رھتے تھے یہ الگ بات ہے اور یہ دوسری بات ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیا ۔ یہ بات کان کے ہونے نہ ہونے سے آسانی سے سمجھ آجاتی ہے پھر یہ بھی واضح رہے کہ کبھی کبھار کا عمل جواز کو ثابت کرتا ہے مستقل اور معمول کو ثابت نہیں کرتا اور سنت وہ عمل ہے جس پر حضور ﷺ نے استمرار و دوام فرمایا کہ سنت وہ راستہ ہے جس پر باربار چلا جائے ۔
مندرجہ ذیل روایات جمع بین الصلوٰتین کا صحیح طریقہ واضح کرتی ہیں :۔
یہاں چند ایسی روایات لائی جارہی ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ حضور ﷺ یا صحابہ کرام جب ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع فرماتے تو اس کا طریقہ کیا تھا کیا ایک وقت میں دو نماز یں پڑھتے یا الگ الگ اپنے اپنے نمازوں کے اوقات میں ۔
(۱) عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاء ِ، وَیُؤَخِّرُ ہَذِہِ فِی آخِرِ وَقْتِہَا، وَیَجْعَلُ ہَذِہِ فِی أَوَّلِ وَقْتِہَا۔ (رواہ الطبرانی )
رسول اللہ ﷺ مغرب و عشاء کو اس طرح جمع فرماتے کہ مغرب کو اس کے آخری وقت مُؤخّر کر دیتے اور عشاء کو اس کے شروع وقت میں جمع فرمالیتے ۔
یعنی مغرب اپنے وقت میں رہتی مگر بالکل آخری وقت ہو تا اور عشاء کو اس کے اول وقت میں پڑھ کر یوں جمع فرماتے تھے ۔
(۲) وَکَانَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُہُ إِذَا أَعْجَلَہُ السَّیْرُ وَیُقِیمُ المَغْرِبَ، فَیُصَلِّیہَا ثَلاَثًا، ثُمَّ یُسَلِّمُ، ثُمَّ قَلَّمَا یَلْبَثُ حَتَّی یُقِیمَ العِشَاء َ، فَیُصَلِّیہَا رَکْعَتَیْن۔
(بخاری أبواب تقصیر الصلاۃ باب ہل یؤذن أو یقیم، إذا جمع بین المغرب والعشاء )
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکو جب سفر کی جلدی ہوتی تو آپ اقامت فرماتے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھ لیتے پھر سلام پھیر کر کچھ دیر رک جاتے پھر اقامت ( تکبیر ) فرما کر عشاء کے دو رکعت پڑھتے ۔
بخاری عن سالم ؓ ؓ ۔ یہ طویل حدیث کا مطلوبہ حصہ ہے ۔ یہ وہی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں جو اتباع ِ رسول ﷺ میں خاص شہرت رکھتے ہیں ۔ بخاری میں انہی کے بارے ہے کہ مدینہ سے مکہ شریف سفر کے دوران ایک جگہ اترے جہا ں اب مسجد بھی تیار ہو چکی تھی مگر آپ نے مسجد کے قریب اس جگہ جا کر نماز ادا کی جہاں حضور ﷺ نے دوران سفر نماز ادا فرمائی تھی ۔
جہاں جہاں سے وہ گزرے جہاں جہاں ٹھہرے وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے
عاشقوں کاکل سر وساماں محمد مصطفٰی ﷺ دیں محمد مصطفٰی ﷺ ایماں محمد مصطفٰی ﷺ
(۳) عَنْ نَافِعٍ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَکَّۃَ، فَلَمَّا کَانَ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ سَارَ بِنَا حَتَّی أَمْسَیْنَا، فَظَنَنَّا أَنَّہُ نَسِیَ الصَّلَاۃَ فَقُلْنَا لَہُ: الصَّلَاۃَ فَسَکَتَ وَسَارَ حَتَّی کَادَ الشَّفَقُ أَنْ یَغِیبَ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی، وَغَابَ الشَّفَقُ فَصَلَّی الْعِشَاء . ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا فَقَالَ: ہَکَذَا کُنَّا نَصْنَعُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْر۔
(النسائی کتاب المواقیت. الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء )
حضرت نافع ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ مکہ سے واپس آئے تو جب رات ہوئی تو آپ چلتے رہے کہ شام ہو گئی ہم سمجھے کہ حضرت عبد اللہ ؓ شاید نماز بھول گئے تو ہم نے آپ سے کہا کہ نماز مگر آپ پھر بھی چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہوئی تو اترے مغرب پڑھی پھر شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے جب سفر کی جلدی ہوتی ۔
یہاں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ خود اپنے عمل سے بھی ثابت کیا اور حضور ﷺ کابھی یہی عمل بتایا اور خوب واضح کہا کہ حضور ﷺ مغرب و عشاء کو اس طرح جمع فرماتے کہ مغرب کو آخری اور عشاء کو اس کے اوّل وقت میں پڑھتے ۔
یہی بات حکم قرآنی کے بھی مطابق ہے ۔
(۴) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِیغَ الشَّمْسُ، أَخَّرَ الظُّہْرَ إِلَی وَقْتِ العَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا۔
(أبواب تقصیر الصلاۃ باب: إذا ارتحل بعد ما زاغت الشمس صلی الظہر ثم رکب)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں جب حضور ﷺ سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو ظہر کو عصر کے قریب تک مؤخر فرماتے پھر دونوں کا اکٹھے جمع کرکے پڑھ لیتے ۔ (بخاری سے ایک روایت کا مطلوبہ حصّہ ہے ۔ )
اس روایت کو پچھلی مذکورہ روایات کی روشنی میں سمجھنا آسان ہے کہ آپ ظہر کو اس کے آخری وقت تک مؤخر فرماتے پھر دونوں کو یوں پڑھ لیتے کہ ظہر اپنے آخری وقت میں اور عصر اپنے اول وقت میں ہوتی ۔ یہاں ‘‘ اخّر الظہر الی وقت العصر ’’سے مراد ہے کہا ‘‘اخّر الظہر الی قریب ِ وقت العصر۔یہاں لفظ ِ الیٰ حرفِ غایت ہے اور یہاں غایت مُغیَّا میں داخل نہیں ۔یعنی مراد یہ ہے کہ ظہر کو اتنا مؤخر فرماتے کہ جب ظہر پڑھتے تو پھر عصر کا وقت شروع ہو جاتا۔ اگر آپ پھر بھی یہ کہیں کہ حضورﷺ نے ظہر وعصرکو وقت عصر میں جمع کر کے پڑھا تو ‘‘ اخّر الظہر الی وقت العصر’’ فرمانے کی ضرورت ہی نہ تھی پھر روایت کے الفاظ یوں ہوتے ‘‘ اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس صلی الظہر و العصر فی وقت ِ العصر جمعًا ’’ جبکہ الفاظ وعبادت یہ نہیں اور آپ شاید یہی مراد لے رہے ہیں۔
طحاوی سے ایک روایت کا بعض حصہ یہ ہے۔
حَتَّی إِذَا کَانَ عِنْدَ غَیْبُوبَۃِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا وَقَال رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ہَکَذَا إِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْر۔
ُ( شرح معانی الآثارباب جمع بین الصلاتین)
سفر جا ری رکھا یہاں تک کہ شفق کے غروب ہونے کے قریب اترے اور مغرب وعشاء دونوں کو اکھٹے پڑھ لیا اور کہا میں نے رسولﷺ کو بھی ایسے ہی جمع کرتے دیکھا جب جنابﷺکو سفر کی جلدی ہوتی۔
یہاں عند کا لفظ صاف کر رہا ہے کہ مغرب کے آخری وقت شفق کے غائب ہونے کے قریب اترے اور شفق غائب ہونے سے قبل مغرب پڑھی پھر شفق غائب ہوئی تو ساتھ ہی عشاء بھی مغرب سے ملا کر ادا کی کیونکہ اگرعند سے مراد ‘‘ غیبوبۃ الشفق ’’کے بعد ہوتا تو عبارت یوں ہوتی۔ ‘‘ حتی اذا کان بعد غیبوبۃ الشفق ’’
خلاصۂ کلام :۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ دو نمازوں کو ایک نماز کے وقت میں جمع کرنا قرآن کے صریح احکامات کی خلاف ورزی ہے کہ قرآن اوقات نماز کا حکم دیتا ہے۔ جہاں حضورﷺ حضر میں نمازوں کو جمع فرماتے ہیں تو یہ اظہار،جواز کے لیے ہے اور جب سفر میں جمع فرماتے ہیں تو ضرورتِ سفر کے لیے ہے سفر وحضر میں جب بھی جمع فرمایا تو صرف ظہر وعصراور مغرب وعشاء کو جمع فرمایا اور آپﷺ نے ہمیشہ نمازوں کو صورت کے لحاظ سے جمع فرمایا کہ دونوں کو ایک ساتھ ادا فرمایا حقیقت میں جمع نہیں فرمایا کہ دو نمازوں کو ایک ہی نماز کے وقت کے اندر پڑھا ہو۔
دوران ِحج کی اِستثنائی صورت :۔
دوران ِحج ظہر وعصر اور پھر مغرب وعشاء کو حقیقت میں جمع فرمایا اور شدید ضرورت کے پیشِ نظر ایسا کیا کہ بہت بڑا اجتماع ہے اور وقت نکالنے کی ضرورت ہے صرف اسی جمع پر یہ الفاظ بخاری کے ہیں ۔
ہُمَا صَلاَتَانِ تُحَوَّلاَنِ عَنْ وَقْتِہِمَا۔(بخاری کتاب الحج باب من اذن و اقام)
یہ الفاظ سوائے دورانِ حج کے کسی دوسری جگہ نہیں ملتے یہ اللہ کا خصوص کرم ہے۔
نمازِعصر کی خصوصی تاکید اور اس کا آخری وقت:۔
نمازِعصرچونکہ بالعموم ایسے وقت میں ہے جب لوگ مشاغلِ زندگی اور کاروبارِحیات میں پوری طرح مگن اور مصروف ہوتے ہیں دوسری طرف دن بھی اختتام پزیر ہو رہا ہوتا ہے۔اور ہر کام کرنے والے کی کو شش ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام رات آنے سے قبل مکمل کرے تواس نماز میں سستی کے مواقع عموماًپائے جاتے ہیں اس لیے رب کریم نے ا س کی خصوصی حفاظت پر زور دیتے ہوئے فرمایا
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَo (البقرہ۔۲۳۸)
نمازوں کی حفاظت کرو با لخصوص درمیانی نماز کی ۔ تمام نمازوں کی حفاظت اہل ِایمان کا شیوہ ہے۔
وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ o (المؤمنون۔۹)
وہ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔
یہاں ربِ کائنات نے پہلے تمام پانچوں نمازوں کی حفاظت کا حکم دیا پھر درمیانی نماز کا خصوصیت سے ذکر فرماکر اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دلائی اور یہ مشاہدہ ہے کہ اس نمازکی عملی حفاظت مشکل ہو جاتی ہے اور لوگوں سے مشاغل کی وجہ سے رہ جاتی ہے ۔‘‘صلوۃ وُسطیٰ ’’ یعنی درمیانی نمازکے بارے علماء کے سترہ کے قریب اقوال ہیں جمہور کے نزدیک اس سے مراد نمازِ عصر ہے اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہے حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے جنگ ِاحزاب کے دن فرمایا اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو اورگھروں کو آگ سے بھردے جنہوں نے مجھے صلوۃ وسطٰی(درمیانی نماز) سے مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیاروایت کیا اس کو بخاری نے کتاب الجہاد والسیر باب الدعاء علیٰ المشرکین بالھزیمۃ والزلزلۃ۔
بخاری میں حضرت ابو ھریرہؓ سے مروی ہے فرمایا رسول ﷺنے کہ رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے تمھارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں فجر وعصر کی نمازوں میں آنے اورجانے والے دونوں گروہ شامل ہوتے ہیں جب اللہ کے ہاں جاتے ہیں تو پوچھتاہے حالانکہ خود بہتر جانتا ہے کہ میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا تو گزارش کرتے ہیں کہ جاتے ہوئے بھی نماز اور واپس آتے ہوئے بھی ان کو نماز میں پایا۔
نمازِ عصر کا آخری وقت غروب آفتاب سے متصل پہلے تک رہتاہے۔ حدیث جبرائیل اس سلسلہ میں معتبر نہیں بلکہ وہ روایت معتبر ہے جسے مسلم نے کتاب المساجد۔۔۔ باب من ادرک رکعۃ من الصلوۃ فقد اَدرک تلک الصلوۃ ۔
.پھر تر مذی،نسائی، ابوداؤد،ابن ماجہ اور امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اس کو روایت کیا کہ
‘‘ وَمَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَ الْعَصْرَ۔
(نسائی کتاب المواقیت باب من ادرک رکعتین )
جس نے سورج غروب ہونے سے قبل ایک رکعت بھی پڑھ لی تو اس نے یقینا پوری نماز عصر پا لی۔
البتہ یہ ضرورہے کہ جب دھوپ زرد پڑجائے تو اسے منافق کی سی نماز کہا گیا ہے اسی وجہ سے علماء نے سورج کے زرد پڑ جانے کے بعد غروب تک کے وقت کو وقتِ عصر ہی تسلیم کیا ۔مگر اس کہ مکروہ کہا۔حضورﷺ نے فرمایا
‘‘ وقت صلوٰۃ العصر مالم تصفر الشمس ۔’’
مسلم کتاب المساجد۔یعنی مستحب وقتِ عصر کا سورج زرد ہونے تک ہے۔بخاری کتاب المواقیت الصلوٰۃ میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ سوائے طلوع و غروب آفتاب کے میں تو کسی کو نماز سے نہیں روکتا جو چاہے پڑھے اور نصف النہار کی ممانعت دیگر احادیث سے ثابت ہو چکی کہ تمام روایات اس پر متفق ہیں کہ حضورﷺظہر زوالِ آفتاب کے بعد پڑھتے تھے۔
طہارت وپاکیزگی کا بیان:۔
جب ہمیں کسی قدر نماز کی فضیلت و اہمیت کا شعور حاصل ہو گیا اور اچھی طرح پانچوں نمازوں کے صیح اوقات کا اِدراک بھی حاصل ہو گیا تو اب ہم نماز کی ادائیگی کی طرف بڑھتے ہیں اور نماز چونکہ پاکیزہ ذات کی بارگاہ میں جسمانی وروحانی لحاظ سے حاضری کا نام ہے تو طہارت پاکیزگی لازم ہے کہ پاک ذات کے حضورحاضر ہونے کے قابل ہوں۔ نماز کے لیے پاکیزگی بنیادی طور پر دو طرح سے یعنی باطنی پاکیزگی اور ظاہری پاکیزگی، باطنی پاکیزگی توبہ ، رجوع الی اللہ اور ان اذکار وادعیہ سے حاصل ہوتی ہے جو نماز شروع کرنے سے قبل یادورانِ وضوہم پڑھتے ہیں ۔یہاں پر حضرت علی ہجویری المروف داتا صاحب ؒکا بیان فائدہ سے خالی نہ ہوگا آپ اپنی مشہور زمانہ تالیف کشف المحجوب میں کشف حجاب پنجم ۔نماز .میں فرماتے ہیں کہ نماز لغت کے اعتبار سے ذکر وانقیادکا نام ہے جبکہ شرعی اصطلاع میں نماز عبادتِ مخصوصہ ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو پانچ نمازیں ہیں پانچ اوقات میں ۔
نماز میں داخل ہونے کی شرائط یہ ہیں ۔ اول طہارت یعنی نجاست ِ ظاہری و باطنی سے پاک ہو نا ۔دوسرا کپڑوں کا پاک ہونا نجاست ظاہری سے اور نجاست باطنی یعنی حرام سے ۔ تیسرا جگہ کا پاک ہونا ظاہرًا نجاستِ ظاہری سے اور باطنی طور پر فسادوگناہ سے ۔ چوتھے قبلہ رو ہونا ظاہرء طور پر کعبہ شریف کی طرف اور باطنی طور پر عرش الہیٰ کی طرف ۔ الغرض نماز پڑھنے سے قبل جن چیزوں کا ہونا ضروری ہے ان میں سے جگہ کا پاک ہونا کپڑوں کا پاک ہونا اور جسم انسانی کا نجاست حقیقہ و حکمیہ سے پاک ہونا ضروری ہے ۔ جگہ کی پاکی یہ ہے کہ وہ جگہ بظاہر ناپاک نہ ہو جہاں نماز ادا کرنا چاہتا ہے پھر وہ مغصوبہ یعنی غصب کی گئی نہ ہو کہ وہاں نماز کی ادائیگی مکروہ ۔
پُوری مساجد ہی مغصوبہ ہیں:۔
ایسی کئی مساجد ہیں کہ ان کی جگہ کی ملکیت حاصل نہیں کی گئی وہ سب غصب شدہ زمیں پر بنائی گئی ہیں وھاں نماز مکروہ اور جگہ غصب کرنا حرام ہے جیسے قبرستان کی زمین ، سرکاری املاک سے بلا اجازت زمین دبا لینا یا سرکاری سڑک کا کنارہ دبا لینا ایسی تمام مساجد کاروباری اڈے ہیں خانہ خدا نہیں اور ایسی جگہوں میں نماز کی ادائیگی مکروہ ہے ۔
ایسی جگہوں پر نماز کی ادائیگی بھی مناسب نہیں جو خطاکاری و بدکاری کے لئے شہرت رکھتی ہوں یا مغضوب علیہ ہو ں ۔ حدیث میں ہے حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ دوران سفر سوئے رہے اور نماز فجر گزر گئی جب بیدار ہوئے تو آپ ﷺ نے نماز کی بجائے اُس جگہ کو چھوڑنے کا حکم دیا اور فرمایا اس جگہ ایک قوم کو عذاب دیا گیا تھا جس کی نحوست کی وجہ سے ہماری نماز رہ گئی پھر جگہ کی پاکیزگی کے ساتھ کپڑوں کا پاک ہو نا بھی ضروری ہے جو کپڑے پہن کر نماز پڑھنی ہے ۔ ہر نمازی کے لئے اتنا علم کسی بھی طریقہ سے حاصل کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے وہ جگہ کی پاکیزگی ، کپڑوں کی پاکیزگی اور جسم کی پاکیزگی کو جان سکے ۔
طہارت وپاکیزگی قرآنی اٰیات کی روشنی میں:۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآء َ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآء َ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآء ً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا o (نساء۔۴۳)
اے ایمان والو ! نہ قریب جاؤں نماز کے جب تم نِشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ تم زبان کیا پڑھ رہے ہو اور نہ ہی جنابت کی حالت میں نماز کے قریب جاؤ مگر یہ کہ تم سفر کر رہے ہو جب تک کہ غسل نہ کر لو ہاں اگر تم بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حالت سے آئے یا ہاتھ لگایا ہو تم نے اپنی عورتوں کو پھر نہ پاؤ پانی تو تیمم کر لو پاک مٹی سے اس طرح کہ مٹی بھرا ہاتھ اپنے چہروں اور بازؤں پر پھیرو ۔ بے شک اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا بڑا بخشنے والا ہے ۔
آیتِ بالا سے حاصل شدہ مسائل:۔
۱۔ اگر کوئی نشہ آور چیز استعمال کی جس کی وجہ سے پوری طرح ہوش ہی باقی نہیں رھا تو جب تک ہو ش مکمل آنہ جائے نماز نہ پڑھے کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کو یہ سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ میں کیا کہہ رھا ہوں ۔ آیت کے اس حصّہ سے ظاہر ہو تا ہے کہ ہر نمازی کو یوں بے توجہی اور لا علمی میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے کہ اس کو سمجھ ہی نہ ہو کہ میں کیا بول رہا ہوں ۔یہاں سے نماز کے ترجمہ کو جاننے کی اہمیت بھی واضح ہوئی تاکہ وہ شعور و آگہی سے نماز پڑھے ۔
۲۔ جُنبی مُقیم :۔
جس آدمی کا بدن ناپاک ہو گیا عورت سے ہم بستر ہونے یا احتلام و انزال وغیر ہ سے اور وہ مسافر یا مریض بھی نہ ہو تو جب تک غسل نہ کرلے نماز نہ پڑھے ۔ اگر مریض نہیں تو پانی استعمال کرے ورنہ تیمم کرے ۔
۳۔ جُنبی مسافر یا جُنبی مریض:۔
اگرپورا بدن ناپاک ہو جائے اور اس پر غسل کرنا لازم آئے تو پھر دیکھنا ہو گا کہ آیا مسافر یا مریض ہے پھر اگر مریض ہے اور پانی کا استعمال اس کے لئے یقینًا نقصان دے گا تو تیمم کرے اگر گھر اور حضر میں ہو اور اگر مسافر ہے بدن ناپاک ہو ا تو اگر پانی سے غسل ممکن ہو تو مسافر بھی پانی سے غسل کرے اور اگر سفری وجوہات سے پانی کے استعمال ممکن نہ تو وہ بھی تیمم کرے ۔
۴۔ قضائے حاجت یعنی پیشاب پاخانہ کیا یا عورت سے ہم بستر ہوا تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پانی ہے اور استعمال پر ہر لحاظ سے قدرت بھی رکھتا ہے تو پانی کا استعمال کرے وگرنہ تیمم کرے اگرچہ وضو کی نیت و غرض سے حصولِ وضو کے لئے یا جنابت ِ بدن سے پاکیزگی کے لئے غسل کی نیت سے ہو تو دونوں کے لئے تیمم کفایت کرتا ہے ۔
۵۔ تیمم :۔
تیمم کے لئے تین بنیادی باتوں کا ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔
۱۔ تیمم پاک مٹی کی جملہ اقسام اور پتھر کی جملہ اقسام پر جبکہ پاک ہو تو تیمم جائز ہے ۔
۲۔ پتھر یا مٹی پر ( ضرب لگا کر ) یعنی ہاتھ مار کر ۔۔۔۔۔یامٹی سے مس کیے دونوں ہاتھوں کو پورے چہرے پر پھیرنا ۔
۳۔ ہر ایک ہاتھ کودوسرے ہاتھ پر کہنیوں تک پھیرنا ۔
کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ کُہنی تک ہاتھ پھیرنا لازمی نہیں بلکہ صرف ہتھیلیوں کی پست پر پھیر دینا کا فی ہے مگر قرآنی لفظ‘‘ و اَیْدِیْکُم’’ اس رائے کی حمایت نہیں کرتا لہذا پورے ہاتھ کو کُہنیوں تک پھیرے ۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُء ُ وْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآء َ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآء َ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآء ً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ مَایُرِیْدُ اللہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (مائدہ۔۶)
اے ایمان والو ! جب تم نماز کیلئے اٹھو تو پہلے دھولیا کرو اپنے چہروں کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک اور مسح کر و اپنے سروں پر او ر دھو لو اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک اگر ہو تم جنبی تو (سارا بدن خوب دھو لو اور اور اگر تم مریض ہو یا حاجت سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آئے یا عورتوں سے صحبت کرے پھر پانی نہ پائے تو تیمم کرو پاک مٹی سے اور مسح کرو چہروں اور ہاتھو ں کا اس مٹی سے ۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی رکھے بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ خوب پاک کرے تمہیں اور پوری کرے اپنی نعمت تم پر تاکہ تم شکر گزار ہو ۔
مسائل :۔
باقی مسائل پچھلی آیت کے تحت ذکر کر دئیے گئے مگر یہاں وضو کے ارکان کا اضافہ کیا گیاہے جس کے چار فرائض یو ں ذکر ہو ئے ۔
۱۔ پورے چہرے کو ایک مرتبہ دھونا فرض ا ور تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔
۲۔ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت ایک مرتبہ دھونا فرض جبکہ تین مرتبہ سنت ہے ۔
۳۔ سرکے چوتھائی حصّے کا مسح کرنا جبکہ پورے سر کا مسح سنت ہے اور پورے سرہی کا مسح کر لینا چاہیے ۔
۴۔ دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا ایک مرتبہ فرض جبکہ تین مرتبہ سنت ہے ۔
حضرت علی ؓ سے بھی ٹھیک یہی وضو کا طریقہ ملتا ہے ملاحظہ ہو اسی آیت کے تحت ضیاء القرآن جلد اول ۔
ایک علمی نکتہ:۔
مذکورہ دونوں اٰیات میں جب تیمم کا ذکر کیا گیا تو صرف فرمایا ‘‘ و ایدیکم’’ مگر جب وضو کا بیان ہوا تو فرمایا ‘‘و ایدیکم الی المرافق ’’ جس سے ان لوگوں کی رائے کو تقویت ملتی ہے جو تیمم میں پورے ہاتھ پر کہنیوں تک مسح لازم تصور نہیں کرتے بلکہ صرف ہتھیلیوں یا کلائیوں پر مسح کو کافی تصور کرتے ہیں ۔
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوّٰبِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَo (البقرہ۔ ۲۲۲)
بے شک اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے باربار توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرا رہنے والوں کو ۔
دوران نماز لباس اور اس کی پاکیزگی شرط ہے :۔
لباس کی اہمیت وپاکیزگی مندرجہ ذیل آیات مبارکہ سے عیاں ہے ۔
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوٰرِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ o (الاعراف۔ ۲۶)
اے اولادِ آدم ؑ ! بے شک اتارا ہم نے تم پر لباس جو ڈھانپتا ہے تمہاری شرمگاہوں کو اور باعثِ زینت ہے اور پرہیز گاری کا لباس وہ سب سے بہتر ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصحت قبول کریں ۔
اس آیت میں جب تن ڈھانپنا کپڑے سے عام اوقات میں ثابت ہوا تو بوقت حضوررءِ رب بدرجہ اولیٰ ثابت ہوا اور پھر لباس ِ تقویٰ کو بہترین قرار دیا تو لباس تقوٰی وہ ہر گز نہیں جو شرمگاہ کو نہ ڈھانپ رہا ہو یا وہ انتہائی باریک ہو کہ اندر سے شرمگاہ نظر آئے یا وہ ناپاک اور بہت ہی گندا ہو ۔
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ۔ (الاعراف۔ ۳۱)
اے اولاد آدم ؑ ! پہن لیا کرو اپنا لباس ہر نماز کے وقت ۔
یہاں زینت کا ترجمہ لباس سے اس لئے کیا گیا کہ پچھلی آیت میں بتایا جا چکا ہے کہ لباس زینت جسم ہے اور یہاں فرمایا کہ بوقت نماز اُس زینت یعنی لباس کو زیب تن فرمالیا کرو۔پچھلی آیت میں شرمگاہوں کے ڈھانپنے کا حکم عمومی اور تمام اوقات میں تھا یہا ں بوقت ِ نماز خصوصیت سے ذکر کیا کہ اگر باقی اوقات میں بے پردگی کا جرم کر بھی رہے ہو تو کم از کم بارگاہِ ربانی میں حاضری کے وقت اس جرم بے پردگی سے باز رہو اورتن ڈھانپ ہو ۔ خاص کر شرمگاہیں ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں شرمگاہوں کو ڈھانپ لینا اگر تقاضائے ادب ہے تو پاک ذات کے سامنے پاک لباس پہن کر حاضر ہونا بھی تقاضائے ادب ہے ۔
یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ o وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o (مدثر ۔ ۱تا۴)
اے چادر لپیٹنے والے اُٹھیے اور (لوگو ں ) ڈرائیے اور اپنے پردردگار کی بڑائی بیان کیجیئے اور اپنا لباس پاک رکھیے ۔
یہاں لباس کا شعور بھی دیا گیااور پاک رکھنے کا حکم بھی دیا گیا۔ پھر یہ بھی تعلیم ہے کہ لوگوں کو پیغام حق دیتے ہوئے اور رب کی بڑائی (نماز ) بیان کرتے ہوئے لباس اور اس کی پاکیزگی لازم ہے ۔
طہارت و شعور ِ طہارت پر ایک آیت پیش خدمت ہے :۔
وَ یَسْـَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآء َ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوّٰبِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَo (البقرہ۔۲۲۲)
ترجمہ:۔ اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے حیض کے متعلق فرمائیے وہ تکلیف دِہ ہے پس الگ رہا کرو عورتوں سے حیض کی حالت میں اور نہ نزدیک جایا کرو ان کے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو جاؤ ان کے پاس جیسے حکم دیا ہے تمہیں اللہ نے ۔ بے شک اللہ دوست رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرا رہنے والوں کو ۔
یہاں جو رب یہ پسند نہیں کرتا کہ خاوند اپنی ناپاک عورتوں کے قریب جائیں وہ یہ کہاں پسند کرے گاکہ کوئی ناپاک اللہ کے حضور حاضری دے ۔ یہی وجہ ہے کہ حیض والی ناپاک عورتیں اسی آیت کی تعلیم سے نہ قرآن کو ہاتھ لگائیں نہ قرآن کو پڑھیں اور نہ ہی مسجد میں قدم رکھیں اور نہ ہی نماز روزہ کریں جب تک پاک نہیں ہو جاتیں ۔
عورت کے خون ماہواری کے جملہ مسائل کی بنیاد یہی آیت مقدسہ ہے ۔
طہارتِ جسمانی کی اقسام ــ:۔
شریعت ِ اسلامیہ نے طہارت جسمانی کو مندرجہ ذیل عنوانات پیش کیا ۔
۱۔ استنجاء ۲۔ وضو یا تیمم ۳۔ غسلِ جنابت ۔
۱۔ استنجاء :۔
استنجاء سے مراد و مطلوب بَول و براز یعنی پیشاب پاخانے سے آئی گندگی و ناپاکی سے نجات و پاکیزگی حاصل کرنا ہے ۔ چونکہ استنجاء پیشاب پاخانے سے تعلق رکھتا ہے لہذا پیشاب پاخانے کا بیان بھی اسی کے تحت کر دیا جاتا ہے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا أَنَا لَکُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ لِوَلَدِہِ، أُعَلِّمُکُمْ، إِذَا أَتَیْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ، وَلَا تَسْتَدْبِرُوہَا. وَأَمَرَ بِثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ. وَنَہَی عَنِ الرَّوْثِ، وَالرِّمَّۃِ. وَنَہَی أنْ یَسْتَطِیبَ الرَّجلُ بِیَمِینِہِ ۔
( ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب الاستنجاء بالحجارۃ والنہی عَن الروث والرمۃ۔ الدارمی )
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ فرمایا رسولﷺ نے میری مثال تمہارے لیے ایسے ہے جیسے کسی باپ کی اپنے بیٹے کے لیے ہوتی ہے ایسے ہی میں بطور باپ کے تمہیں سکھاتا ہوں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ تو( دورانِ قضائے حاجت) نہ قبلہ کی طرف منہ کرکے قضائے حاجت کرو اور نہ اس کی طرف پشت کرکے اور آپﷺ نے استنجاء کے لیے تین پتھروں کا حکم فرمایا اور منع فرمایا پتھروں کی بجائے لِید اور ہڈی کے استعمال سے اور منع فرمایا دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے سے ۔
اخذ شدہ مسائل:۔ (۱) آپ ﷺ امت کے ہر فرد کے لیے بحیثیت باپ کے ہیں ۔(۲) پیشاب پاخانہ کرتے یا پانی سے استنجاء کرنے کے لیے قبلہ کی طرف نہ منہ ہو اور نہ ہی پشت۔(۳) بعد ازپاخانہ تین پتھروں سے صفائی کی جائے مگر گوبراور ہڈی سے نہیں۔
(۴) استنجاء صرف بائیں ہاتھ سے کیا جائے۔ عذر کے احکامات الگ ہیں۔
بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دعا :۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الخَلاَء َ قَالَ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الخُبُثِ وَالخَبَائِثِ (بخاری کتاب الوضو باب مایقول عند الخلآء )
حضرت انس ؓفرما تے ہیں کہ رسول ﷺ جب بیت الخلا تشریف لے جا تے تو یہ دعا پڑھتے ۔ ‘‘ اللھمّ انّی اعوذبک مِنَ الخُبثِ والخَبَآئث ’’ اے اللہ میں ناپاک چیزوں اور ناپا کیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
پانی سے استنجاء کرنا:۔
عن انس یَقُولُ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِہِ، أَجِیء ُ أَنَا وَغُلاَمٌ، مَعَنَا إِدَاوَۃٌ مِنْ مَاء ٍ، یَعْنِی یَسْتَنْجِی بِہِ
(رواہ البخاری کتاب الوضو باب الاستنجاء من الماء)
حضرت انسؓفرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا ڈول ساتھ کے جاتے اور جناب رسولﷺ اس پانی سے استنجاء فرماتے۔
استنجاء کے بعد وضو کے لیے الگ پانی استعمال کیا جائے:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَی الْخَلَاء َ، أَتَیْتُہُ بِمَاء ٍ فِی تَوْرٍ أَوْ رَکْوَۃٍ فَاسْتَنْجَی ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: فِی حَدِیثِ وَکِیعٍ: ثُمَّ مَسَحَ یَدَہُ عَلَی الْأَرْضِ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ بِإِنَاء ٍ آخَرَ فَتَوَضَّأَ ( ابو داوٗد کتاب الطہارۃ باب الرجل یدلک یدہ بالأرض إذا استنجی)
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب بیت الخلا کو جاتے تو میں برتن میں آپ کے لیے پانی لاتا جس سے آپ استنجاء فرماتے پھر زمین پر ہاتھ ملتے یعنی مٹی لگا کر دھوتے جیسے صابن سے دھوئے جاتے ہیں پھر دوسرا بر تن لاتا جس سے وضو فرماتے ۔
یعنی استنجاء اور وضو کا نہ تو پانی ایک ہو اور نہ ہی برتن۔ ایک ہی لو ٹے سے استنجاء اور پھر اسی لوٹے کے باقی پانی سے وضو کرنا مندرجہ بالا حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔
استنجاء مین ڈھیلوں کے استعمال کے بعد پانی کااستعمال افضل ہے:۔
عن أَبُی أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیُّ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، أَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ (فِیہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَہَّرُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِینَ) (التوبۃ: 108) قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، إِنَّ اللَّہَ قَدْ أَثْنَی عَلَیْکُمْ فِی الطُّہُورِ، فَمَا طُہُورُکُمْ؟ قَالُوا: نَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاۃِ، وَنَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ، وَنَسْتَنْجِی بِالْمَاء ِ. قَالَ: فَہُوَ ذَاکَ، فَعَلَیْکُمُوہ۔
( سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب الاستنجاء بالَمْاء )
حضرت ابو ایوب،جابر وانس ؓ فرماتے ہیں کہ مسجد قبا والوں کے بارے میں سورۃ توبہ کی جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اس مسجدمیں ایسے لوگ ہیں جو بہت پاکیزگی پسند ہیں اور اللہ ایسے پاکیزگی پسندوں کو محبوب رکھتا ہے تو رسولﷺ نے انہیں فرمایا ‘‘اے گروہ انصار بے شک اللہ نے صفائی کی وجہ سے آپ کی تعریف فرمائی ہے’’۔تمہاری پاکیزگی کیا ہے؟تو انہوں نے کہا ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں جنابت سے غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجاء کرتے ہیں۔توآپﷺنے فرمایا‘‘بس یہی چیز ہے اس کو لازم کر لو اپنے پر۔
لوگوں کی گزر گاہ یعنی راستے اور لوگوں کے سائے کی جگہوں پر قضائے حاجت نہ کرے:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَیْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: الَّذِی یَتَخَلَّی فِی طَرِیقِ النَّاسِ، أَوْ فِی ظِلِّہِمْ۔
( مسلم کتاب الطہارۃ باب النہی عن التخلی فی الطرق والظلال)
حضرت ابو ہریرہؓنے کہا کہ فرمایا رسولﷺنے‘‘دولعنت کا سبب بننے والے کاموں سے بچو’’۔صحابہ نے پوچھا ‘‘جناب وہ دو باعث لعنت کیا کام ہیں’’۔توفرمایا کہ لوگوں کے راستوں اور سایوں میں قضائے حاجت کرنا۔
قضائے حاجت کے دوران بے پردگی اور نا پاکی سے بچا جائے:۔
عن اَبی موسٰیؓ قال إِنِّی کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فَأَرَادَ أَنْ یَبُولَ، فَأَتَی دَمِثًا فِی أَصْلِ جِدَارٍ فَبَالَ، ثُمَّ قَالَ: صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یَبُولَ فَلْیَرْتَدْ لِبَوْلِہِ مَوْضِعًا۔( ابو داوٗد کتاب الطہارۃ باب الرجل یتبوّأ لبولہ)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضورﷺ کے ساتھ تھاتو آپﷺ نے پیشاب کرنا چاہا تو آپ دیوار کے نیچے نرم اور نشیبی جگہ کی طرف آئے اور پیشاب کیا۔پھر فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنا چاہے تو اس کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے۔مناسب جگہ سے مراد یہاں نرم اور نشیبی جگہ دیوار کی اوٹ ہے۔ نرم اس لیے کہ سخت جگہ سے پیشاب کے چھینٹے اڑ کر بدن اور کپڑوں کو ناپاک کر دیتے ہیں جو باعث عذاب ِقبر بھی ہیں اور کپڑے نماز کے قابل بھی نہیں رہتے اور نشیبی جگہ اور پھر دیوار کی اوٹ سے مرادلوگوں کی نظر سے ممکن حد تک پردہ داری بھی ہے۔دوسری احادیث میں ذکر ہوا کہ راستوں،سایوں اور پانیوں میں پیشاب نہ کیا جائے ایسے ہی کسی سوراخ میں بھی کہ حشرات الارض کو تکلیف بھی ہو گی اور اچانک نکل کر آپ کو بھی نقصان دے سکتی ہیں۔
کچے غسل خانے میں غسل سے قبل پیشاب سے اجتناب کیا جائے:۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” لَا یَبُولَنَّ أَحَدُکُمْ فِی مُسْتَحَمِّہِ ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیہِ قَالَ أَحْمَدُ: ثُمَّ یَتَوَضَّأُ فِیہِ فَإِنَّ عَامَّۃَ الْوَسْوَاسِ مِنْہُ ( ابو داوٗد کتاب الطہارۃ باب فی البول فی المستحم)
عبداللہ بن مفصلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔تم میں سے کوئی اپنے غسل خانہ میں پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں غسل یا وضو کرنا ہو کہ عام طور پر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔
وضاحت:۔
جہاں پیشاب کیا جائے وہیں اگر غسل یا وضو بھی کیا جائے تو ظاہر ہے کہ پہلے اگر وہیں پر پیشاب کر دیں بعد ازں غسل یا وضو کریں تو پیشاب کی جگہ کے چھینٹے آپ پر پڑیں گے جو ناپاکی کا وسواس پیدا کر دیں گے۔خاص کر کچی جگہوں پر کیونکہ پکے غسل خانے میں پیشاب کے بعد اگر اچھی طرح پانی بہا دیا جائے تو شاید ناپاکی کا وسوسہ باقی نہ رہے۔
قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا:۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: ” کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاء قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الّذِی اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذیٰ وَعاَفَانِیْ ۔ (ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب مَا یَقُوْلُ إِذَا خرج من الخلاء )
حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے سب تعریف اس اللہ کوزیبا ہے جس نے میری تکلیف دور فرمائی اور مجھے عافیت دی۔
وضو کا بیان
ہر دفعہ پیشاب پاخانہ کے بعدپانی سے استنجاء کرنایا استنجاء کے بعد لازمی وضو کرنا احادیث سے ثابت نہیں البتہ اگر نماز کا ارادہ ہو تواستنجاء پانی سے کرنا افضل اور استنجاء کے بعد وضو لازمی ہے اس لئے اب وضو پر احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
وضو کا مل کیا جائے:۔
عَنْ شَبِیبٍ أَبِی رَوْحٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ صَلَّی صَلَاۃَ الصُّبْحِ، فَقَرَأَ الرُّومَ فَالْتَبَسَ عَلَیْہِ، فَلَمَّا صَلَّی قَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ یُصَلُّونَ مَعَنَا لَا یُحْسِنُونَ الطُّہُورَ، فَإِنَّمَا یَلْبِسُ عَلَیْنَا الْقُرْآنَ أُولَئِکَ ۔ ( النسائی کتاب الافتتاح القراء ۃ فی الصبح بالروم )
حضرت شعیب بن ابیؓ نے کسی صحابی سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز میں سورہ روم پڑھی تو آپ کو اشتباہ ہو گیا جب نماز پڑھ لی تو فرمایا‘‘لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور طہارت اچھی طرح نہیں کرتے بس یہی لوگ ہمارے قرآن کی تلاوت میں خلل کا با عث بنتے ہیں۔
تشریح:۔
اس حدیث میں چونکہ لفظِ طہور ہے جو کپڑوں اور بدن کی نجاست، غسل ،وضو اور استنجاء میں نقصان پر دلالت کرتا ہے لہذا ہر قسم کی نجاست سے مکمل طہارت نماز کے لئے لازمی ہے ورنہ ناپاکی نماز پر برے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی نماز جنازہ میں جلدی سے آئے اور بغیر وضو یا تیمم کے شریک ِ جماعت ہو جائے تو اس کی شرکت بے طہارت دوسروں کی نماز کو خلل انداز کر کے میت کی مغفرت کو مخدوش کر دے گی لہذا اجتناب کیا جائے ۔
عن اَبی ھُریرۃؓ قال قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاۃُ أَحَدِکُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّی یَتَوَضَّأَ۔ (بخاری کتاب الوضوء باب: لا تقبل صلاۃ بغیر طہور.مسلم )
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کی فرمایا نبی پاکﷺ نے ‘‘کہ جس کا وضو نہ ہو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔یہاں تک کہ وضو نہ کرے’’۔
عن ابن عمر ؓ قال قال رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاۃٌ بِغَیْرِ طُہُورٍ وَلَا صَدَقَۃٌ مِنْ غُلُولٍٍ ۔(مسلم کتاب الطہارۃ باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ ‘طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ صدقہ نا جائز مال سے۔
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّہُورُ، وَتَحْرِیمُہَا التَّکْبِیرُ، وَتَحْلِیلُہَا التَّسْلِیمُ( ابو داوٗد کتاب الطہارۃ باب فرض الوضوء . و الترمذی والدارمی وابن ماجہ عن ابی سعید ؓ)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہﷺ نے‘‘ نماز کی چابی طہارت ،تکبیر اس کی تحریم اور سلام اس کی تحلیل ہے’’۔
تشریح:۔
یعنی وضو نماز کی چابی ہے جس کو لگا کر ہی نماز کا قفل کھولا جا سکتا ہے ورنہ نہیں ۔جبکہ پہلی تکبیر ‘‘تکبیر تحریمہ’’ہے کہ جس سے سوائے نماز کے سب کچھ حرام ہو جاتا ہے اور آخری ‘‘السلام علیکم و رحمۃ اللہ’’ سے پھر انسان نماز سے باہر آ جاتا ہے اور وہ سب کچھ جو پہلی تکبیر سے حرام ہو گیا تھا اب وہ سب کچھ پھر سے حلال ہو جاتا ہے۔
وضو کا سنت طریقہ اور اس کی فضیلت:۔
عن عثمان انّہتَوَضَّأَ، فَأَفْرَغَ عَلَی یَدَیْہِ ثَلَاثًا فَغَسَلَہُمَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ یَدَیْہِ الْیُمْنَی إِلَی الْمِرْفَقِ ثَلَاثًا، ثُمَّ الْیُسْرَی مِثْلَ ذَلِکَ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہِ، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَہُ الْیُمْنَی ثَلَاثًا ثُمَّ الْیُسْرَی مِثْلَ ذَلِکَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِی، ثُمَّ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِی ہَذَا، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ لَا یُحَدِّثُ نَفْسَہُ فِیہِمَا بِشَیْء ٍ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔(نسائی کتاب الطہارۃ.المضمضۃ والاستنشاق، مسلم وبخاری کتاب الوضوء باب الوضوء ثلاثًا ثلاثًا)
حضرت عثمان بن عفانؓ نے وضو فرمایا تو پہلے دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈال کر دھویا، پھرمنہ میں پھر ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا پھر تین مرتبہ پورا چہرہ دھویا ، پھر دائیں ہاتھ اور پھر بائیں ہاتھ کو کہنی تک تین تین مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا ۔پھ دائیں پاؤں اور پھر بائیں پاؤں کو تین تین مرتبہ دھویا پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو میرے اس وضو کی طرح وضو کرتے دیکھا اور بعدوضو کے جناب ﷺ نے فرمایا کہ جو میرے وضو کی طرح وضو کرے پھر دو رکعتیں اس طرح پڑھے کہ حدیث ِ نفس (دِلی خیالات )سے خالی ہوں تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
وضاحت:۔
حدیثِ ھذا میں مکمل وضو کا طریقہ اس کی فضیلت اور بعد از وضو دو رکعت پڑھنے یعنی تحیۃ الوضو بھی بیان کر دیا ہے ۔ دیگر بخاری و مسلم کی روایات میں اسی مفہوم کو کچھ معمولی الفاظ کے اختلاف سے بیان کیا گیا ہے ۔ ترمذی اور نسائی میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو فرمایا تو پہلے خوب اچھی طرح ہاتھ دھوئے پھر تین تین مرتبہ منہ اور ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا پھر تین مرتبہ چہرہ پھر دونوں کلائیاں تین مرتبہ یعنی کہنیوں تک دونوں ہاتھ دھوئے پھر ایک مرتبہ سر کا مسح فرمایا پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے ثم کھڑے ہو کر وضو کے بچے پانی سے پیا پھر فرمایا میں چاہتا تھا کہ میں تمھیں دکھاؤں کہ حضور ﷺ کا وضو کس طرح تھا وضو میں جن اعضآء کو تین تین مرتبہ دھونے کی بات ہے ۔بخاری میں ان اعضاء کو ایک ایک مرتبہ اور دو دو مرتبہ دھونے کی بھی روایات ہیں جس وجہ سے ہم ایسے وضو کو نماز کے لئے کافی سمجھتے ہیں مگر تین تین مرتبہ دھونے کو فرض نہیں سنت قرار دیتے ہیں ہاں جو تین مرتبہ سے بھی اضافہ کرے تو حضور ﷺ نے فرمایا ۔
‘‘ فَمَنْ زَادَ عَلَی ہَذَا فَقَدْ أَسَاء َ، أَوْ تَعَدَّی، أَوْ ظَلَم ’’(ابن ماجہ 1-کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب مَا جَاء َ فِیْ القصر وکراہیۃ التعدّی فیہ)
کہ جو میرے اس تین مرتبہ دھونے والے وضو کے طریقہ میں مزید اضافہ کرے تو اس نے غلط کیا ، زیادتی کی اور ظلم کیا ۔
دورانِ وضو ایڑیوں کے دھونے پر خاص توجہ :۔
عن ابی ھریرۃ قَالَ: أَسْبِغُوا الوُضُوْء َ، فَإِنَّ أَبَا القَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ
(بخاری کتاب الوضوء باب غسل الأعقاب )
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خوب اچھی طرح وضو کرو بیشک ابُو القاسم ﷺ نے فرمایا تباہی ہے ایڑیوں کے لئے دوزخ کی آگ ۔
پہلے انبیآء کرام کا وضو :۔
عن ابن عمرؓ قال قال رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ تَوَضّأ وَاحِدۃً فَتِلْکَ وَظِیْفَۃُ الْوضُوْءِ الّتِیْ لَابُدّ مِنْھَا وَمَنْ تَوَضّأ اثْنَیْنِ فَلَہٗ کِفْلَیْنِ ومَنْ تَوَضّأ ثَلٰثًا فَذٰالِکَ وضُوْئی وضُوْءُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ ۔(رواہ احمد فی مسندہٖ )
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو وضو کرے اور اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھوئے تو یہ وہ وضو کا طریقہ ہے جس کے بغیر چارہ نہیں (یعنی وضونہیں ہوتا ) جو اعضاء وضو دو دو مرتبہ دھوئے تو اس کا اجر و ثواب دوگنا ہ ہے اور جو تین تین مرتبہ دھوئے تو یہ میرا اور مجھ سے پہلے انبیآء ؑ کا طریقہ ہے ۔
وضو کے سُنن و آداب:۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا وُضُوء َ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہ
(ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب مَا جَاء َ فِیْ التسمیۃ فِیْ الوضوء ، ترمذی )
حضرت سعید بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کا نام لئے بغیر وضو کیا اُس کا کوئی وضو نہیں۔
عن ابی ھریرۃ و ابن مسعودٍ وابن عمر ؓانّ النبی ﷺ قال مَنْ تَوَضَّأَ وَذَکَرَ اسْمَ اللَّہِ تَطَہَّرَ جَسَدُہُ کُلُّہُ , وَمَنْ تَوَضَّأَ وَلَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللَّہِ لَمْ یَتَطَہَّرْ إِلَّا مَوْضِعُ الْوُضُوء ِِ ۔ (دار قطنی کتاب الوضوء)
حضرت ابوہریرہ ؓ ، ابن مسعود ؓ اور ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو وضو کرتے ہوئے بسم اللہ شریف پڑھ لے تو یہ وضواس کے سارے جسم کو پاک کر دیتا ہے اور جو کوئی اللہ کا ذکر کیے بغیر وضو کرے تو صرف اس کے اعضاء ِ وضو ہی پاک ہوتے ہیں۔
فقہ حنفی :۔
حدیثِ بالا کی کامل اتباع میں فقہ حنفی کی عبارت یہ ہے ۔
وَتَسمیۃُ اللّٰہ تعالیٰ فی ابتداءِ الوضوءِ ۔ (قدوری کتاب الطہارت )
وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لی جائے ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا لَبِسْتُمْ، وَإِذَا تَوَضَّأْتُمْ، فَابْدَء ُوا بِأَیَامِنِکُم ۔
( ابو داوٗد کتاب اللباس باب فی الانتعال)
عن لّقیط بن صَبِرَۃَ قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَخْبِرْنِی عَنِ الوُضُوء ِ؟ قَالَ: أَسْبِغِ الوُضُوء َ، وَخَلِّلْ بَیْنَ الأَصَابِعِ، وَبَالِغْ فِی الِاسْتِنْشَاقِ، إِلَّا أَنْ تَکُونَ صَائِمًا
(رواہ نسائی کتاب الطہارۃالمبالغۃ فی الاستنشاق و ترمذی أَبواب الصوم عن رَسُولِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بابُ ما جاء َ فی کَراہیۃِ مُبَالَغَۃِ الاستِنشَاقِ للصَّائِمِ وابوداوٗد کتاب الطہارۃ باب فی الاستنثار)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب تم کپڑے پہنو اور جب وضو کرو تو اپنے دائیں سے شروع کرو ۔ لقیط بن صبرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں گزارش کی کہ مجھے وضو بارے بتلائیے تو جناب نے فرمایا خوب اچھی طرح کامل وضو کر اور ہاتھ پاؤں کی انگلیوں میں خلال کر اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھا کر صاف کر الّا یہ کہ روزہ سے ہو ۔
عَنْ أَنَسٍ یَعْنِی ابْنَ مَالِکٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا تَوَضَّأَ، أَخَذَ کَفًّا مِنْ مَاء ٍ فَأَدْخَلَہُ تَحْتَ حَنَکِہِ فَخَلَّلَ بِہِ لِحْیَتَہُ ، وَقَالَ: ہَکَذَا أَمَرَنِی رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ۔(ابو داوٗدکتاب الطہارۃ باب تخلیل اللحیۃ )
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو فرماتے تو ہاتھ میں پانی لیکر ٹھوڑی کے نیچے ریش مبارک کے اندر داخل کر کے خلال فرماتے اور فرماتے میرے رب نے یہی حکم دیا ہے ۔
عن ابن عباس ؓانّ النبی ﷺ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہِ وَأُذُنَیْہِ بَاطِنِہِمَا بِالسَّبَّاحَتَیْنِ وَظَاہِرِہِمَا بَإِبْہَامَیْہِ
( النسائی کتاب الطہارۃ باب مسح الأذنین مع الرأس وما یستدل بہ علی أنہما من الرأس )
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضومیں سر مبارک کا مسح فرمایا اور ساتھ ہی دونوں کانوں کا بھی اس طرح مسح فرمایا کہ کانو ں کا اندرونی مسح انگوٹھوں کے ساتھ والی انگلیوں سے اور بیرونی کانوں کا انگوٹھوں سے مسح فرمایا ۔
دورانِ وضو انگوٹھی اور زیور وغیرہ کو حرکت دینا :۔
عَنْ أَبِی رَافِعٍ , قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ وُضُوء َہُ لِلصَّلَاۃِ حَرَّکَ خَاتَمَہُ فِی إِصْبَعِہ۔
(دارقطنی باب تثلیث المسح وابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا باب تخلیل الاصابع)
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے وضو فرماتے تو انگلی میں پہنی انگوٹھی کو بھی حر کت دیتے تھے۔
وضو میں پانی کا غیر ضروری استعمال نہ کیا جائے:۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ، وَہُوَ یَتَوَضَّأُ، فَقَالَ: مَا ہَذَا السَّرَفُ فَقَالَ: أَفِی الْوُضُوء ِ إِسْرَافٌ، قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ کُنْتَ عَلَی نَہَرٍ جَارٍ ۔
( ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب مَا جَاء َ فِیْ القصر وکراہیۃ التعدّی فیہ و احمد )
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعدؓ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ وضو میں کافی پانی استعمال کر رہے تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا اے سعد! یہ کیا فضول خرچی ہے وضو میں،اور فرمایا اگر تو نہر جاری پر بھی وضو کرے تو پانی کو فضول خرچ نہ کرنا۔
وضو کے بعدکپڑے سے خشک کرنا:۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ مَسَحَ وَجْہَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہِ
(الترمذی أبواب الطہارۃ بَابُ مَا جَاء َ فی الْتَّمَنْدُلِ بَعْدَ الْوُضُوء )
حضرت معاذبن جبلؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ جب وضو فرما لیتے تو چہرۂ اقدس کو اپنے کپڑے کے کونے سے پونچھ لیتے تھے۔
حضور ﷺ کے وضو کے غسالہ کی برکت:۔
عن جابرٍ ؓ یَقُولُ جَاء َ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُنِی، وَأَنَا مَرِیضٌ لاَ أَعْقِلُ، فَتَوَضَّأَ وَصَبَّ عَلَیَّ مِنْ وَضُوئِہِ، فَعَقَلْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ لِمَنِ المِیرَاثُ؟ إِنَّمَا یَرِثُنِی کَلاَلَۃٌ، فَنَزَلَتْ آیَۃُ الفَرَائِضِ ۔
(بخاری کتاب الوضوء باب صب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضوء ہ علی المغمی علیہ )
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں میں بیمار ہو کر بے ہوش تھا کہ رسول اللہﷺ میری عیادت کو تشریف لائے۔آپﷺ نے وضو فرمایا اور اپنے وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا تو میں فوراً ہوش میں آ گیا تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میری میراث کس کو ملے گی جبکہ میری ایک کلالہ ہے بس اسی وقت ذوی الفرائض کی آیت نازل ہوئی۔
وضو کی فضیلت اور بروزِ قیامت اعضاءِ وضو کا روشن ہونا:۔
عن نعیم المجمر ؓ قال رقیتُ مع ابی ھُریرۃَ ؓ علی ظہر المسجد فتوضّأ فقال انی سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول انّ امّتی یُدعَون یومَ القِیٰمَۃِ غُرًّا مُحجَّلِینَ من اثارِ الوضُوءِ فمن استطاع منکم ان یُطیل غُرَّتَہٗ فلیفعل ۔
عَنْ نُعَیْمٍ المُجْمِرِ، قَالَ: رَقِیتُ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی ظَہْرِ المَسْجِدِ، فَتَوَضَّأَ، فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِنَّ أُمَّتِی یُدْعَوْنَ یَوْمَ القِیَامَۃِ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنْ آثَارِ الوُضُوء ِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یُطِیلَ غُرَّتَہُ فَلْیَفْعَلْ
(بخاری کتاب الوضوء باب: فضل الوضوء ، والغر المحجلون من آثار الوضوء)
نعیم مجمرؓ فرماتے ہیں میں ابو ہریرہؓ کیساتھ مسجد کی چھت پر تھا وہاں انہوں نے وضو کیا اور میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ میری امت کو قیامت کے روز غر ّ محجّلین (روشن اعضاء والے ) کہہ کر بلایا جائے گا بس تم میں سے جو اپنی چمک میں اضافہ چاہے وہ ایسا کرے یعنی خوب وضو کرے کہ خوب چمک ہو۔
وضو یقین سے ٹوٹتا ہے شک سے نہیں:۔
عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ، عَنْ عَمِّہِ، أَنَّہُ شَکَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِی یُخَیَّلُ إِلَیْہِ أَنَّہُ یَجِدُ الشَّیْء َ فِی الصَّلاَۃِ؟ فَقَالَ: لاَ یَنْفَتِلْ – أَوْ لاَ یَنْصَرِفْ – حَتَّی یَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ یَجِدَ رِیحًا ۔
(بخاری کتاب الوضوء باب لا یتوضأ من الشک حتی یستیقنَ )
عبا د بن تمیمؓ فرماتے ہیں کہ میرے چچا نے رسول اللہ ﷺ سے شکا یت کی کہ ایک شخص کو نماز میں شبہ ہوکہ کوئی چیز نکلی ہے تو آپ نے فرمایا‘‘وہ نماز نہ توڑے جب تک کہ ہوا نکلنے کی آواز نہ سن لے یا ہوا کی بو محسوس نہ کرے’’۔
تحیۃ الوضوء کی فضیلت:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلاَلٍ: عِنْدَ صَلاَۃِ الفَجْرِ یَا بِلاَلُ حَدِّثْنِی بِأَرْجَی عَمَلٍ عَمِلْتَہُ فِی الإِسْلاَمِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَیْکَ بَیْنَ یَدَیَّ فِی الجَنَّۃِ قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَی عِنْدِی: أَنِّی لَمْ أَتَطَہَّرْ طَہُورًا، فِی سَاعَۃِ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ، إِلَّا صَلَّیْتُ بِذَلِکَ الطُّہُورِ مَا کُتِبَ لِی أَنْ أُصَلِّیَ ۔
(بخاری أبواب التہجد باب فضل الطہور باللیل والنہار، وفضل الصلاۃ بعد الوضوء باللیل والنہار ومسلم )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے نماز فجر پر بلال ؓسے کہا کہ اسلام میں جس عمل پر تجھے زیادہ قبولیت کی امید ہے وہ بتا کیونکہ میں جنت میں اپنے سامنے تیرے جوتوں کی آواز سنی ہے تو بلال ؓ نے گزارش کی ایسا عمل تو کوئی بھی نہیں جس کی امید ہو البتہ میں دن رات میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو اس کے بعد جو میرے نصیب میں لکھی ہوئی ہو وہ نماز پڑھ لیتا ہوں ۔
سُبْحان اللّٰہ ! کیا سماعتِ رسول ﷺ :۔
حضرت بلال ؓکا عمل واقعی مقبول و محبوب ہے کہ جس کی برکت سے حضرت بلالؓ کے جوتوں کی آوازجنت تک پہنچ رہی ہے مگر حقیقت میں وہ ایسی آواز زور دار نہ تھی کہ ہر کوئی سنتا ورنہ تو مدینہ والے رات کو آرام بھی نہ کر سکتے تھے ۔ آواز عام معمول کے مطابق ہی تھی مگر کیا شان ہے ۔ سماعتِ رسول ﷺ کی کہ مدینہ میں چلنے والے شخص کے جوتوں کی آواز کو جنت کے اندر سن رہے ہیں اور سننی بھی چاہیے کہ جناب ﷺخود اپنی سماعت و بصارت کو امتیازی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنِّی أَرَی مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ۔
(ابن ماجہ کتاب الزہد باب الحزن والبکاء،ترمذی أبوابُ الزہدِ عن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلِیہِ وسَلَّم بَابُ مَا جَاء َ فی قولِ النَّبیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلِیہِ وسَلَّم لو تعلمونَ ما أعلمُ لضحکتُمْ قلیلاً )
میں وہ دیکھ لیتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے ۔ یہ آپ ﷺ کے اعزازات بنوت کی وجہ سے ہیں اور کشف سے کبھی کبھی تو اولیآء کاملین کے لئے بھی ایسا سب کے نزدیک مسلّم ہے ۔
وضو سے اعضاءِ وضو پاک ہونے کے ساتھ گناہوں سے صاف ہو جاتے ہیں :۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِن فَغَسَلَ وَجْہَہُ خَرَجَ مِنْ وَجْہِہِ کُلُّ خَطِیئَۃٍ نَظَرَ إِلَیْہَا بِعَیْنَیْہِ مَعَ الْمَاء ِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء ، فَإِذَا غَسَلَ یَدَیْہِ خَرَجَ مِنْ یَدَیْہِ کُلُّ خَطِیئَۃٍ کَانَ بَطَشَتْہَا یَدَاہُ مَعَ الْمَاء ِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء ِ ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَیْہِ خَرَجَتْ کُلُّ خَطِیئَۃٍ مَشَتْہَا رِجْلَاہُ مَعَ الْمَاء ِأَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء حَتَّی یَخْرُجَ نَقِیًّا مِنَ الذُّنُوب۔ِ
(ترمذی أبواب الطہارۃبَابُ مَا جَاء َ فیِ فَضْلِ الطُّہُورِ،مسلم کتاب الطہارۃ باب خروج الخطایا مع ماء الوضوء )
حضرت ابو ھریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا جب کوئی مسلم یا مؤمن وضو کرتا ہے اور چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں جو اس کی آنکھ نے کئے ہوتے ہیں جب ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں سے کیے گناہ دھل جاتے ہیں اور جب پاوُں دھوتا ہے تو پاوُں سے چل کر کئے گناہ بھی خارج ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وضو مکمل کرنے کیسا تھ وہ تمام اعضاء وضو سے کئے گناہوں سے بالکل صاف ہو جاتا ہے ۔
مسواک حضورﷺ کی محبوب تر ین سنت:۔
ٍحضورﷺ کے معمولات میں مسواک کا بطور خاص ذکر آیا ہے اوراس کے فضائل بھی کثیر ذکر کیے گیے جناب کا مسواک صرف وضو ہی کیساتھ خاص نہ تھا بلکہ اس کے علاوہ بھی ہر بیداری اور اور گھر میں داخلے پر مسواک فرماتے تھے صرف دو احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
عن عائشۃ ؓأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَرْقُدُ مِنْ لَیْلٍ وَلَا نَہَارٍ، فَیَسْتَیْقِظُ إِلَّا تَسَوَّکَ قَبْلَ أَنْ یَتَوَضَّأَ ۔
( ابو داوٗد کتاب الطہارۃ باب السواک لمن قام من اللیل و احمد فی مسندہ )
جناب سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ کا معمول مبارک تھا کہ جب آپﷺدن کو یا رات کو سو کر اٹھتے تو وضو سے پہلے مسواک ضرور فرماتے تھے ۔
مسواک کی فضیلت اور نماز پر اثر:۔
عن عائشۃ ؓ قالت قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَفْضُلُ الصَّلَاۃُ الَّتِی یُسْتَاکُ لَہَا عَلَی الصَّلَاۃِ الَّتِی لَا یُسْتَاکُ لَہَا سَبْعِینَ ضِعْفًا۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان )
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے اس کی فضیلت بغیر مسواک کیے نماز پر ستر گناہ زیادہ ہے ۔
وضو مکمل کر لینے پر کلمہ شہادت پڑھنے کی فضیلت :۔
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے ۔کہ حضور ﷺ نے فرمایا جوشخص وضو مکمل کرلینے پر یہ کلمہ پڑھے ۔
اَشھدُ ان لّا اِلٰہَ الّا اللّٰہُ وَحدَہٗ لاشریک لہٗ و اَشھدُ انّ مُحمّدًا عبدُہٗ ورسولہٗ ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ عزوجل کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے ۔
( انگلی کھڑی کرنا نظر سے نہیں گزرا )
(ابو داؤد کتاب الطہارۃ باب ما یقول الرجل إذا توضا)
غُسل کا بیان
چونکہ وضو کی حاجت اکثر پیش آتی ہے اور غسل کی ضرورت وضو کے مقابلے میں بہت کم اور کبھی کبھی پیش آتی ہے اس لئے وضو کے بیان کو غسل سے پہلے ذکر کیا گیا ۔ اب اس غسل کا بیان ہے جو کسی وجہ سے سارا بدن ناپاک ہو جانے پر کیا جاتاہے ۔ مثلًا ۔ جاگتے ہوئے منی کا اخراج یوں ہوا کہ عضوِ مخصوص ڈھیلا پڑ گیا یا کسی بھی شیء کا ایسا استعمال کیا جس کی وجہ سے مذکورہ طریقے سے منی خارج ہوئی یا مکمل دخول سے گو کہ منی ابھی خارج نہ ہوئی ہو یا سوتے میں احتلام ہوا یا حیض و نفاس کے اختتام پر وغیرہ ۔
جو غسل آ پ صرف سنت کی غرض سے کریں یا صفائی اور ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے کریں تو چونکہ آپ کا بدن پہلے ہی پاک ہے لہذا اس عمومی غسل میں زیادہ احتیاط کی ضرورت نہیں البتہ جب آپ ناپاک بدن ہو گئے کسی بھی شرعی و فطری وجہ سے تو اس غسل کو خاص شرعی طریقہ پر کریں تاکہ آپ کا بدن پاک ہو جائے ۔
غسل جنابت کا طریقہ:۔
عَنْ عَائِشَۃَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صلّی اللہ علیہ وسلم ” أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَۃِ، بَدَأَ فَغَسَلَ یَدَیْہِ، ثُمَّ یَتَوَضَّأُ کَمَا یَتَوَضَّأُ لِلصَّلاَۃِ، ثُمَّ یُدْخِلُ أَصَابِعَہُ فِی المَاء ِ، فَیُخَلِّلُ بِہَا أُصُولَ شَعَرِہِ، ثُمَّ یَصُبُّ عَلَی رَأْسِہِ ثَلاَثَ غُرَفٍ بِیَدَیْہِ، ثُمَّ یُفِیضُ المَاء َ عَلَی جِلْدِہِ کُلِّہِٖ ۔
(بخاری کتاب الغسل باب الوضوء قبل الغُسلِ )
حضرت سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ غسل جنابت فر ماتے تو شروع میں دونوں ہاتھ دھوتے پھر اس طرح وضو فرماتے جیسے نماز کے لیے وضو فرماتے پھر انگلیاں پانی میں ڈال کر تر کرکے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے پھر اپنے سر پر دونوں ہاتھوں سے چلو بھربھر پانی ڈالتے تین مرتبہ پھر سارے جسم پر پانی بہاتے تھے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَیْمُونَۃُ: وَضَعْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاء ً لِلْغُسْلِ، فَغَسَلَ یَدَیْہِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَی شِمَالِہِ، فَغَسَلَ مَذَاکِیرَہُ، ثُمَّ مَسَحَ یَدَہُ بِالأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْہَہُ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَی جَسَدِہِ، ثُمَّ تَحَوَّلَ مِنْ مَکَانِہِ فَغَسَلَ قَدَمَیْہِِ ۔
(بخاری کتاب الغسل باب الغسل مرہ واحدۃ )
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ میمونہؓ نے فرمایا میں نے حضورﷺ کے غسل کے لیے پانی رکھا تو آپ نے غسل فرماتے ہوئے اپنے ہاتھ دو تین بار دھوئے پھر بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرم گاہ کو دھویا پھر اس ہاتھ کو زمین پر رگڑا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا پھر چہرے اور دونوں ہاتھ دھوئے پھر سارے جسم پر پانی بہایا پھر اس جگہ سے تھوڑا ہٹ کردونوں پاوُں دھوئے۔
کیا جنبی آدمی کا سونا جائز ہے :۔
امام بخاری ؒچند روایات فقط اسی سلسلہ میں کتاب الفسل بخاری جلد اول میں لائے ہیں کہ آدمی اگر اول رات میں ہم بستری وغیرہ سے جنبی ہو جائے اور صبح غسل کرنا چاہیے تو استنجاء اور وضو کرکے سو جائے صبح غسل کرے۔
جنبی اور حائضہ قرآن پاک کی تلاوت نہ کرے:۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَقْرَأِ الحَائِضُ، وَلَا الجُنُبُ شَیْئًا مِنَ القُرْآنِ۔
( ترمذی أبواب الطہارۃبَابُ مَا جَاء َ فی الجُنُبِ وَالحَائِضَ: أَنَّہُمَا لا یَقْرَآنِ القُرْآنَ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا حائضہ عورت اور نہ ہی جنبی مرد قرآن میں سے کچھ پڑھے ۔
حائضہ عورت اور جنبی کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں:۔
عن عائشۃ ؓ قالت قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَوَجِّہُوا ہَذِہِ الْبُیُوتَ عَنِ الْمَسْجِدِ، فَإِنِّی لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُب۔ (ابوداوٗد کتاب الطہارۃ باب فی الجنب یدخل المسجد )
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان گھروں کے دروازے مسجد کی طرف سے دوسری طرف پھیر دو کیونکہ حائضہ عورت اور جنبی کا مسجد میں داخلہ جائز قرار نہیں دیتا۔
غسلِ جنابت میں بغیر عذرِ شرعی کے بال برابر جگہ خشک نہ رہے:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ تَحْتَ کُلِّ شَعَرَۃٍ جَنَابَۃً، فَاغْسِلُوا الشَّعَرَ، وَأَنْقُوا الْبَشَرَۃَ ۔(رواہ ابو داوٗد ، وابن ماجہ ، و التِرمذی أبواب الطہارۃبَابُ مَا جَاء َ أَنَّ تَحتَ کُلِّ شَعرَۃِ جَنَابَۃ)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے حضور ﷺ ْ نے فرمایا کہ ہر ہر بال کے نیچے جلد پر جنابت (نا پاکی )ہوتی ہے۔ لہذا غسلِ جنابت میں تمام جسم پر بالوں کو اچھی طرح دھو لیا کرو اور جلد کو اچھی طرح دھو لیا کرو۔
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَرَکَ مَوْضِعَ شَعْرَۃٍ مِنْ جَنَابَۃٍ لَمْ یَغْسِلْہَا فُعِلَ بِہَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ قَال عَلِیٌّ: فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی ثَلَاثًا ۔
( ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی الغسل من الجنابۃ،دارمی ،احمد فی مسندہِ )
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے‘‘ جس نے غسلِ جنابت میں بال برابر جگہ دھوئے بغیر چھوڑ دی اس کو جہنم کی آگ میں اتنا اور اس طرح عذاب دیا جائے گا۔ اب حضرت علی ؓ فرماتے ہیں میں حضور کے اس فرمان کی وجہ سے اپنے سر کے بالوں کا گویا دشمن ہو گیا ہوں کہ جب کچھ بال بڑھتے میں ان کو صاف کر دیتا ہوں، کاٹ دیتا ہوں ۔یہ جملہ آپ نے یعنی حضرت علی ؓنے تین مرتبہ دہرایا۔
مذی کے نکلنے سے غسلِ جنابت لازم نہیں:۔
منی خارج ہونے سے قبل رقیق پانی آلۂ تناسل سے نکلتا ہے جس کو مذی کہتے ہیں۔اگر صرف مذی خارج ہوئی اور منی خارج نہیں ہوئی تو غسل لازم نہیں۔
عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: کُنْتُ رَجُلًا مَذَّاء ً وَکُنْتُ أَسْتَحْیِی أَنْ أَسْأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمَکَانِ ابْنَتِہِ فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ فَسَأَلَہُ فَقَالَ: یَغْسِلُ ذَکَرَہُ وَیَتَوَضَّأُ (مسلم کتاب الحیض باب المذی )
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں مجھے مذی زیادہ آتی تھی اورمیں رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے سے شرماتا تھاکہ جناب کی بیٹی میرے پاس ہے ۔میں نے مقداد بن اسودؓسے کہا کہ آپﷺ سے پوچھے انہوں نے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا‘‘کہ بس وضو کر لو اور عضوِ مخصوص کو دھو لو کافی ہے’’۔
بغیر انزال کے صرف دخول سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے:۔
اگر مرد عورت سے ہم بستر ہو کر مجامعت اور دخول کرے تو غسل واجب ہے اگر چہ انزال(فارغ ہونا) نہ بھی ہوا ہو۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا جَلَسَ بَیْنَ شُعَبِہَا الأَرْبَعِ، ثُمَّ جَہَدَہَا فَقَدْ وَجَبَ الغَسْل ۔
(بخاری کتاب الغسل باب اذا التقی الختانان )
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں جب آدمی عورت کی چوکڑی پر بیٹھ کر زور لگائے(داخل کرے) تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔
غسلِ سنت:۔
ہر غسل غسلِ جنابت نہیں ہوتا بعض مواقع پر غسل کرنا سنت ہے۔سنت اس لئے کہ غسلِ فرض تو وہ ہے جس کے لئے قرآن نے جنبی ہونے کی شرط لگا دی اور جہاں جنبی نہ ہو گا وہاں غسل فرض بھی نہ ہو گا مگر چونکہ حضورﷺ نے ترغیب دی لہذا سنت ہوا۔
غسلِ جمعہ سنت ہے:۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا جَاء َ أَحَدُکُمُ الجُمُعَۃَ، فَلْیَغْتَسِل۔
(بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الغسل یوم الجمعۃ، وہل علی الصبی شہود یوم الجمعۃ، أو علی النساء ومسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ‘‘جب تم میں سے کوئی جمعہ کو آئے تو غسل کر کے آنا چاہیے۔
تشریح:۔
یہاں غسل کو نماز جمعہ کی شرکت کیساتھ مقید کیا گیاہے جس سے ظاہر ہے کہ فرض نہیں جمعہ کے دن غسل کرنا ورنہ جمعہ کی شرط کے بغیر ہر حال میں ہر کسی پر یوم ِجمعہ غسل لازم بتایا جاتا ۔
عن سَمُرۃ بن جُندُبٍ ؓ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من توضّأ یوم الجمعۃِ فبِھا و نعمَتْ ومن اغتسل فھو اَفضلُ ۔
عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الجُمُعَۃِ فَبِہَا وَنِعْمَتْ، وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسْلُ أَفْضَل
(ترمذی تتمۃ أَبوَابِ الجُمعَۃ بابٌ فی الوضوء ِ یومَ الجُمعَۃ،نسائی ،ابو داوٗد )
حضرت سمرہ بن جندب ؓسے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو جمعہ کے دن صرف وضو کرے تو بھی کافی ہے، اچھا ہے اور جو غسل کرے تو افضل ہے۔
اصلاح ِفکرونظر:۔
شریعت جن احکام و اعمال کو افضل قرار دیتی ہے عوام افضلیت کو لازم قرار دیتے ہیں اور مفضول کو نا جائز تصور کرتے ہیں یہ نقطۂ نظر غلط ہے ایک کے افضل ہونے سے دوسرا نا جائز قرار نہیں پاتا مثلاً حضورﷺ نے فرمایا افضلُ الذکر لا الہ الا اللہ کہ افضل ذکر کلمہ طیبہ ہے کیا حضورﷺکے کلمہ طیبہ کوافضل ذکر قرار دینے سے باقی اذکار سب نا جائز ہوئے؟ہر گز نہیں۔
عید کے دن غسل کرنا سنت ہے:۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ یَوْمَ الْفِطْرِ وَیَوْمَ الْأَضْحَی
(ابن ماجہ کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا باب ما جاء فی الاغتسال فی العیدین )
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ عید الفطر اور عید الضحیٰ کے دن غسل حضورﷺ کا معمول تھا۔
احرام با ندھنے سے قبل غسل کر لینا افضل ہے جبکہ وضو بھی کا فی ہے:۔
قدوری کتاب الحج میں ہے۔
وَإِذَا أَرَادَ الْإِحْرَامَ اغْتَسَلَ أَوْ تَوَضَّأَ وَالْغُسْلُ أَفْضَلُ) لِمَا رُوِیَ أَنَّہُ – عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ – اغْتَسَلَ لِإِحْرَامِہِ
جب احرام باندھنے کا ارادہ کرے تو غسل کرے یا پھر صرف وضو ہی کرے ہاں غسل کر لینا بہتر ہے،افضل ہے۔جیسا کہ روایت کیا ترمذی نے زید بن ثابت سے کہ حضورﷺ نے احرام کے لئے غسل فرمایا۔ چونکہ حضورﷺ نے غسل فرمایا اسی لئے صاحب قدوریؒ نے کتاب ا لطہارت میں احرام کے لئے غسل کو سنت فرمایا جبکہ وضوبھی کافی ہے۔
یومِ عرفہ سے قبل وقوفِ عرفہ غسل مستحب ہے:۔
یہاں میدانِ عرفات میں نویں ذوالحجہ کے دن وقوفِ عرفہ سے قبل غسل مستحب ہے لازمی سنت نہیں۔کیونکہ صاحب قدوری نے کتاب الحج میں فرمایا
و یستحبّ ان یّغتَسِلَ قبلَ الوقوف بعرفۃ۔
کہ وقوفِ عرفہ سے قبل غسل کر لینا مستحب ہے۔
حائضہ عورت طوافِ کعبہ کے علاوہ باقی اعمالِ حج ادا کرتی رہے:۔
حائضہ عورت ناپاکی کی وجہ سے بیت اللہ شریف میں داخل ہو کر طوافِ کعبہ نہیں کر سکتی باقی ارکان سعی،وقوفِ عرفہ اور قربانی اور کنکریاں وغیرہ جیسے اعمال کرتی رہے مگر نماز ادا نہیں کرے گی کہ حائضہ ہے۔بیت اللہ کا طواف غسل کر کے پاک ہو جانے کے بعد ادا کرے گی۔بخاری کتاب المناسک (جلد ۱) میں ہے کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں میں حضورﷺ کیساتھ حج پر تھی تو مجھے حیض شروع ہوا میں نے حضورﷺ سے اظہار کیا تو آپ نے فرمایا طوافِ کعبہ کے علاوہ باقی اعمالِ حج لوگوں کی طرح ساتھ ساتھ کرتی رہے اور طواف بعد میں بھائی کو ساتھ بھیج کر کروا دیا جب میں نے حیض سے صاف ہو کر غسل کر لیا۔
عورتوں کے لئے حیض (خونِ ماہواری ) کے مسائل:۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَضْحَی أَوْ فِطْرٍ إِلَی المُصَلَّی، فَمَرَّ عَلَی النِّسَاء ِ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ النِّسَاء ِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّی أُرِیتُکُنَّ أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ فَقُلْنَ: وَبِمَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَکْفُرْنَ العَشِیرَ، مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِینٍ أَذْہَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ ، قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِینِنَا وَعَقْلِنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: أَلَیْسَ شَہَادَۃُ المَرْأَۃِ مِثْلَ نِصْفِ شَہَادَۃِ الرَّجُلِ قُلْنَ: بَلَی، قَالَ: فَذَلِکِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِہَا، أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ: بَلَی، قَالَ: فَذَلِکِ مِنْ نُقْصَانِ دِینِہَا ۔ (بخاری کتاب الحیض باب ترک الحائض الصوم )
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید اضحی یا عید فطر کو عید گاہ کو نکلے تو عورتوں کے پاس گزر ہوا تو فرمایا ‘‘ اے عورتوں ! صدقہ خوب دیا کرو کیونکہ میں نے دوزخ میں تمہیں کثرت سے دیکھا ہے عورتوں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ کس وجہ سے تو فرمایا تم اکثر لعن طعن اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو میں نے تم سے زیادہ ناقص العقل وَ الدّین ( عقل ودین میں ناقص )کسی کو نہیں دیکھا باوجود اس کے عقل مند آدمی پر غالب آجاتی ہو ۔ بولیں یا رسول اللہ ﷺ ہمارے دین وعقل میں کیا نقص ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا عورت کی گواہی نصف مرد کے برابر نہیں ؟ بولیں ہاں فرمایا یہی ان کے عقل کی کمی کی دلیل ہے اور دیکھو جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے انہوں نے کہا ہاں تو فرمایا یہی ان کے دین کی کمی و نقصان ہے ۔حائضہ یعنی خون ماہواری ہیں۔
وقال عَطَآءٌ عن جابرٍ ؓ حَاضَتْ عائشۃُ فَنَسَکَتِ الْمَنَاسِکَ کُلّھَا غَیْرَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ وَلَا تُصلّی ۔
(بخاری کتاب الحیض باب: تقضی الحائض المناسک کلہا إلا الطواف بالبیت)
عطاء نے جابرؓ سے روایت کیا کہ سیدہ عائشہ ؓ حائضہ ہو گئیں تو تمام مناسکِ حج اداکیے سوائے طواف کعبہ اور نماز پڑھنے کے۔
خونِ استحاضہ پر غسل نہیں :۔
عورت کو تین طرح کا خون آتا ہے جو حیض ، نفاس اور استحاضہ کہلاتاہے۔ خون حیض ماہواری کا خون ہے جو عمومًا ہر ماہ آتا ہے جبکہ عورت حاملہ نہ ہو یا بہت ضعیف العمر نہ ہو ، دوسرا خونِ نفاس ہے جو صرف بچے کی پیدائش کے ساتھ آتا ہے ۔ حیض ونفاس میں عورت ناپاک ہوتی ہے نماز روزہ ، تلاوتِ قرآن یا کسی بھی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی خاوند سے مکمل مجامعت کر سکتی ہے ۔ باقی ایسی عورت اگر ہاتھ دھوے تو ان ہاتھوں سے گھر کے تمام کام کر سکتی ہے پاک پانی کو دھلے ہاتھ لگا سکتی ہے کھانے پکانے کے تمام کام کر سکتی ہے اور اس معذوری وناپاکی کے دنوں میں قرآن کو اس طرح سے ہاتھ لگا سکتی ہے کہ قرآن پر غلاف کپڑا وغیرہ لپیٹا ہوا ہواور اسی دوران خاوند سے ہم بستری بھی ہو سکتی ہے اور ملاعبت یعنی پیار بھی کر سکتی ہے مگر شلوار ہر گز نہ اتارے اور دخول سے سختی سے اجتناب کرے ، حضورﷺ اپنی ازواج مطہرات سے دورانِ ماہواری ہم بستری فرماتے تھے مگر نہ تہبند عورتوں کا اترتا اور نہ ہی دخول ہوتا تھا ۔ اظہارِ مسئلہ کے لئے اگر کوئی لفظ نامناسب استعمال ہو گیا ہو تو معذرت خواہ ہوں کہ
ادب گاہے ست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نَفَس گم کردہ می آید جُنیدُ و بایزید ایں جا علامہ اقبال ؒ
جہاں تک خونِ استحاضہ کا تعلق ہے تو یہ ایک تیسرا خون ہے جو نہ حیض اور نہ ہی نفاس ہے بلکہ یہ جسمانی بیماری کا خون ہے جو خود تو ناپاک ہے مگر اس خون کے چلنے سے عورت نہ تو ناپاک بدن ہو تی ہے اور نہ ہی نماز روزہ و تلاوت قرآن چھوڑتی ہے ، صرف اتنا ہے کہ ایسی معذور عورت ہر نماز کے لئے نیا وضو کرے اور خون والی جگہ سے شلوار کو اچھی طرح دھولے پھر نماز پڑھے دوران نماز اگر خون استحاضہ جاری رہتا ہے تو کوئی حرج نہیں کہ معذور ہے نماز ہو جائے گی ۔ حدیث ملاحظہ ہو ۔
عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ: قَالَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ أَبِی حُبَیْشٍ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنِّی لَا أَطْہُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلاَۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا ذَلِکِ عِرْقٌ وَلَیْسَ بِالحَیْضَۃِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الحَیْضَۃُ فَاتْرُکِی الصَّلاَۃَ، فَإِذَا ذَہَبَ قَدْرُہَا، فَاغْسِلِی عَنْکِ الدَّمَ وَصَلِّی۔
(بخاری کتاب الحیض باب الاستحاضہ )
حضرت سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے کہ فاطمہ بنت حُبیش نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں ہمیشہ ناپاک رہتی ہوں تو کیا نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ تو صرف رگ کا خون ہے حیض نہیں ہاں جب ماہواری کے دن ہوں تو نماز چھوڑ دے اور جب ایامِ ماہواری کی مقدار برابر دن گزر جائیں تو خون سے غسل کر اور نماز پڑھ (استحاضہ کی پرواہ نہ کر )
حیض کا خون کپڑے پر جہاں لگا ہو صرف وہی جگہ دھو لیں تو کپڑا پاک ہو جاتا ہے :۔
صرف خونِ حیض ہی کیا یاکوئی بھی ناپاکی و گندگی کپڑے ہر لگ کر صرف اسی حصّہ کو ناپاک کرتی ہے جہاں گندگی لگی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ ایام ماہواری عورت نے جو کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ ایام ماہواری کے اختتام پر اگر صرف کپڑے کی اسی جگہ کو دھولے جو ناپاک ہوا تھا تو باقی کپڑا پاک ہے اب اسی کپڑا میں نماز پڑھ سکتی ہے جبکہ کپڑے کی دوسری جگہوں پر ناپاکی نہ پہنچی ہو ۔
عَنْ أَسْمَاء َ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ أَنَّہَا قَالَتْ: سَأَلَتِ امْرَأَۃٌ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَرَأَیْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَہَا الدَّمُ مِنَ الحَیْضَۃِ کَیْفَ تَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنَ الحَیْضَۃِ فَلْتَقْرُصْہُ، ثُمَّ لِتَنْضَحْہُ بِمَاء ٍ، ثُمَّ لِتُصَلِّی فِیہِ۔(بخاری کتاب الحیض باب غسل الدم)
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ کسی عورت نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اگر عورتیں کپڑے پر حیض کا خون لگا دیکھیں تو کیا کریں ؟ تو جناب نے فرمایا اسے کُھرچے ،ملے اور پھر پانی سے اسی جگہ کو دھولے اور پھر اسی میں نماز پڑھے ۔ (کیونکہ کپڑے میں نجاست ایک جگہ سے دوسرے جگہ از خود سرایت نہیں کرتی جیسے بدنِ انسانی میں سرایت کرتی ہے ۔)
حائضہ یعنی خونِ ماہواری میں عورت اعتکاف بیٹھ سکتی ہے :۔
پہلے بخاری کے حوالہ سے گزر گیا کہ حضور ﷺ نے سیدہ عائشہ ؓکو فرمایا کہ خون ماہواری آگیا ہے تو سوائے نماز اورطواف بیت اللہ کے باقی اعمالِ حج کر تی رہے عین اسی طرح حائضہ نماز ،روزہ اور تلاوت قرآن تو نہ کرے گی صرف اعتکاف بیٹھ کر اذکار وادعیہ کر تی رہے اور گھر میں اعتکاف بیٹھ جائے تو جائز ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اعْتَکَفَ مَعَہُ بَعْضُ نِسَائِہِ وَہِیَ مُسْتَحَاضَۃٌ تَرَی الدَّم۔(بخاری فی کتاب الحیض باب الا عتکاف المستحاضۃ )
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺکے ساتھ آپ کی کسی زوجہ نے اعتکاف بھی کیا جبکہ وہ حائضہ تھی۔
یہاں سے معلوم ہوا لہذا اگر عورت گھر میں اعتکاف بیٹھی اور پھر بعد ازاں خون ماہواری شروع ہو گیا تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوا لہذانماز ،روزہ اور تلاوت قرآن چھوڑدے مگر اعتکاف بیٹھی رہے۔
کتے کا جھوٹا برتن کیسے پاک کیا جائے:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا شَرِبَ الکَلْبُ فِی إِنَاء ِ أَحَدِکُمْ فَلْیَغْسِلْہُ سَبْعًا۔
(بخاری کتاب الوضو باب اذاشرب الکلب فی الانآء )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب کتا تمھارے کسی برتن میں سے پانی پی لے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھو لو۔
تشریح:۔ مذکورہ حدیث کے مطابق جب کتے کا جھوٹا اس قدر شدید ہے کہ ہر ناپاک برتن زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ دھونے سے پاک ہو اور کتے کا استعمال شدہ برتن سات مرتبہ دھونا پڑے جو عام دھونے تین مرتبہ کے دو گنے سے بھی زیادہ ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ کتے کے لعاب میں کسی دوسری چیز کے لعاب کے دو گنا سے بھی زیادہ خطرہ و ناپاکی ہے تو وہ لوگ اپنے رویّے پر نظر ثانی فرمائیں جو بھری کائنات اور ہر طرح کی مخلوقات میں سے صرف کتّے سے پیار کرتے ہیں ہاتھوں میں اٹھاتے ہیں شاید جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت و قدر دانی سے محروم ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ایسی ہی سزا دیکر گندے کتے کی خدمت اور خاطر تواضع پر لگا دیتا ہے ۔ اے اللہ ہمیں اپنی اور اپنے محبوب کی سچی محبت و اطاعت نصیب فرما۔ آمین ۔
امام بخاری ؒ پر حیرت و تعجّب :۔
بلاشبہ امام بخاری ؒ نے جمع حدیث پر بہت کام کیا اور تلاش احادیث میں مُلکوں ملکوں پھیرا اور دور دراز کے سفر کیے اور کس قدر احادیث کا ایک صحیح مجموعہ امت کو تحفہ میں دیا اللہ تعالیٰ اس کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور جزائے خیر دے مگر انسان ہے خطا سے بری الذمّہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری میں کہیں حیرت و تعجب ہوتا ہے اس کی بات دیکھ کر کہ یہ کیا بتا رہے ہیں ۔بغیر ترجیح و تحقیق کے بڑی بات کہہ کر گزر جاتا ہے اور پڑھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے مثلًا یہی کتّے کی روایت اسی امام بخاری ؒ نے درج کی جس سے کتے کا جھوٹا شدید ترین ناپاک ثابت ہورہا ہے پھر یہی امام بخاری اس سے پچھلے باب میں یہ بھی روایت پیش کر رہا ہے ۔
وقال الزہری اذا وَلَغَ فی انآءِ لیس لہٗ وضُوءٌ غیرُہ یتوضّأ بہ ۔
کہ امام زہری نے کہا جب کتا کسی برتن میں منہ ڈال کر پانی پی لے اب اگر اور کوئی پانی نہ ہو تو اسی کتّے کے جھوٹے پانی سے وضو کرے۔پھر سفیان ثوریؒ کی انتہائی نامعقول بات کا حوالہ دیکر بات اور زیادہ خراب کر دی ۔ وہ امام بخاری ؒ جس کا کام حدیث پیش کرنا اور حدیث سے استدلال کرنا ہے اور یہی اس کا منصب بھی ہے تو ایسے اہم مسئلہ پر جبکہ صاف حدیث کتّے کے جھوٹے پر موجود ہے تو حدیث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے زھری و سفیان ثوری ؒ کے اقوال فاسدہ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی اور حدیث کے مقابلہ میں زھریؒو سفیان ثوری ؒ یا کسی اور کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ۔ کوفہ بہت بڑا علوم اسلامیہ کا مرکز تھا معلوم نہیں امام بخاری ؒجو ہر جگہ گیا کوفہ اس کی نظر سے کیوں اوجھل رہا ۔ اگر وہاں چلاجاتا تو امام بخاری ؒ ایسی کمزور بلا دلیل اور فضول باتوں سے یقینًا اجتناب کرتا ۔ بہر حال ہمارے لئے نہ زھری ؒ کی اپنی بات کا کوئی وزن ہے اور نہ ہی سفیان ثوریؒ یا خود امام بخاری کی ذاتی رائے کا کوئی وزن ہے کیونکہ ہم اس کو امام فقاہت تسلیم ہی نہیں کرتے اگر کسی کے پاس بہت بڑا میڈیکل سٹور ہو تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سٹور میں بہت بڑا ڈاکٹر بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اور امام بخاری کی خطاؤں کو معاف فرمائے اور قرآن و سنت کا اتباع نصیب فرمائے ۔ چونکہ اس وقت امام بخاری اور صحیح بخاری میرا موضوعِ تحریر نہیں اس لئے آگے گزرتا ہو ں ۔
کتّے کے جُھوٹے کے حوالے سے دوسری روایت :۔
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِذَا أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ المُعَلَّمَ فَقَتَلَ فَکُلْ، وَإِذَا أَکَلَ فَلاَ تَأْکُل ۔ ( بخاری کتاب الوضوء باب: الماء الذی یغسل بہ شعر الإنسان )
عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے شکاری کتے کے بارے مسئلہ پوچھا تو جناب ﷺ نے فرمایا جب تو شکار پر سکھلایا ہو ا کتّا چھوڑے وہ اس کو قتل کرکے لے آئے تو کھالے اور اگر وہ کتّا شکار کو پکڑ کر کھانا بھی شروع کر دے تو کتّے کے کھائے کو تو ہرگز نہ کھا ۔
وضاحت:۔
واضح ہے کہ شکاری کتّا شکار کو منہ میں صرف دبوچ کر پکڑ کر مالک کو لا دیتا ہے اس طرح اس کا لعاب شکار کے پردوں اور جلد تک محدود رہ جاتا ہے ۔ اور اگر کتّا شکار سے کھا بھی لے تو گویا اس کے دانت اور لعاب شکار کے جسم و گوشت میں بھی اُتر چکا لہذا اب نہ کھائے کہ ناپاک ہو چکا ۔ یہا ں اگر معمولی گنجائش بھی ہوتی تو شکار چونکہ کبھی کبھی ہاتھ آتا ہے تو حضور ﷺ کتّے کے کھائے شکار کو کھانے کی اجازت ضرور فرماتے مگر آپ کا اجازت نہ دینا کتے کے لعا ب اور جھوٹے سے بچنے کیلئے کافی دلیل ہے شایدا زھری و سفیان ثوری کتے کے کھائے باقی ماندہ شکار کو دھوپکا کر کھا جاتے ہوں جبکہ ایسا کرنا نبی ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے۔
بے غُسل اور بے وضو آدمی ہاتھ دھوکر پانی کے برتن میں ڈالے:۔
وضو کا لوٹا ہو یا غسل کے پانی کی بالٹی ناپاک ہاتھ اس کے اندر نہیں ڈالنے چاہیں بلکہ پہلے دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوے پھر پانی میں ڈالے خاص کر جب رات کو یا پھر دن کو سو کر اٹھے کہ کیا خبر نیند میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں لگا ۔ ممکن ہے گھر کے کتے نے چاٹا ہو تو صبح کے غسل و وضو میں خاص احتیاط سے پہلے ہاتھ تین مرتبہ دھوکر پاک کرے پھر پانی میں ڈالے ۔
عن یحیٰی قال کَانَ عَمِّی یُکْثِرُ مِنَ الوُضُوء ِ، قَالَ لِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ زَیْدٍ: أَخْبِرْنِیا کَیْفَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ؟ فَدَعَا بِتَوْرٍ مِنْ مَاء ٍ، فَکَفَأَ عَلَی یَدَیْہِ، فَغَسَلَہُمَا ثَلاَثَ مِرَارٍ، ثُمَّ أَدْخَلَ یَدَہُ فِی التَّوْرِ ۔۔۔
(بخاری کتاب الوضوء باب الوضوء من التورِ )
حضرت یحیٰی سے روایت ہے میرا چچا وضو میں پانی زیادہ استعمال کرتا تھا۔چچانے عبد اللہ بن زید سے کہا مجھے بتائیں کہ آپ نے حضور ﷺ کو کس طرح وضو کرتے دیکھا ہے ؟ تو عبد اللہ بن زید نے پانی بھرا برتن (لوٹا وغیرہ ) منگایا پھر اس برتن کو پہلے دونوں ہاتھوں پر انڈیل کر تین مرتبہ دھوئے پھر بعد ازاں ہاتھ پانی بھرے برتن میں ڈالا اور مکمل وضو کرکے دکھایا جس میں یہ بھی ہے کہ ہاتھوں کو پانی سے تازہ تر کرکے سر کا مسح اس طرح کیا کہ دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے پھیرے ۔
تیمم کا بیان
تیمم بحالت مجبوری شرعی شرائط کیساتھ چونکہ استنجاء ، وضو اور غسل تینوں کا بدل ہے اس لئے اصل سے فراغت کے بعد اب تیمم کا بیان پیش خدمت ہے ۔اسلامی احکامات و تعلیمات میں کہ خوبی موجود ہے کہ ہر مشکل کا حل اور ہر صورتِ حال سے واسطہ پڑھنے پر کوئی راہ ضرور نکلتی نظر آتی ہے ۔ خاص کرمجبوری ، عذر اور ضرورت کے لئے اسلام اپنے قوانین میں مناسب ترمیم کرکے انسان کے لئے آسانی پیدا کر دیتا ہے یہ اسلام کی خوبی بھی ہے اور عین دینِ فطرت ہونے کا ثبوت بھی ۔
جب انسان دوران سفر پانی نہ پائے یا ہو تو گھر میں اور پانی بھی وافر ہو مگر کسی بھی معقول عُذر کی بنا پر پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو اگرچہ عذر بیماری ہو یا جان لیوا سردی یا پانی سے دشمن روک رہا ہو اور پانی کے استعمال پر جان کا خطرہ ہو تو ایسی تمام صورتوں میں پاک بدن ہو کر نماز کی ادائیگی کے لئے اسلام نے تیمم کی تعلیم دی ہے جو استنجاء ، وضو ، غسل اور حیض نفاس والی عورت کے حیض و نفاس کے اختتام پر غسل کی بجائے تیمم ہی کافی ہے ۔ تیمم میں چند حکمتیں بالکل واضح ہیں ۔
۱۔ نماز سے بندے کو محروم نہ رکھا جائے ۔ ۲۔ صفائی و پاکیزگی کا شعور باقی رہے ۔
۳۔ چونکہ مٹی بھی ایک طرح پاکیزگی کا سبب ہے بحا لتِ مجبوری اسی سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے ۔ شریعت میں اس کے دلائل موجود ہیں کہ مٹی بھی پاک کرنے کی تاثیر رکھتی ہے ۔ مثلًا ایک عورت حضور ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کُناں ہوئی جناب میرا تہبند چلتے ہوئے زمین پر لگتا ہے کبھی ناپاک چیزوں سے بھی ٹکراتا ہے کیا میں ہر نماز کے لئے اس کو دھو یا کروں ؟انسانی فطرت اور مجبوریوں سے پوری طرح باخبر نبی ﷺ نے فرمایا جہاں کبھی ناپاک چیزوں سے ٹکرا تا ہے تو اکثر پاک مٹی سے رگڑ کھا کر پاک بھی ہوجاتا ہے لہذا دھونے کی ضرورت نہیں اور آیتِ تیمم میں پاک مٹی سے تیمم کرنے میں بھی یہی حکمت نظر آتی ہے کہ مٹی بھی پاکیزگی کی تاثیر رکھتی ہے پھر احادیث میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ قضائے حاجت کے بعد ہاتھ مبارک زمین پر رگڑ کر صاف فرماتے تھے تو معلوم ہوا کہ مٹی بھی کسی شی کو پاک کرنے کا ایک ذریعہ ہے مگر پانی کے بعد ۔ ہاں اگر پانی نہیں تو اسی کو استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ ویسے پانی میں اگر گندے جراثیم کو بہانے کی تاثیر ہے تو مٹی کے ذرات ایک طرف رگڑ سے گندگی کو دور بھی کردیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ مٹی کے ذرات کی تیزدھار نوکیں جراثیم کو قتل بھی کرتے ہیں ۔ تیمم در حقیقت صفائی کے حصول سے بڑھ کر صفائی کا احساس برقرار رکھنے کے لئے ہے جو سمجھ میں آتا ہے ۔حضور ﷺنے فرمایا
جُعلتْ لی الارضُ مَسجِدًا وطُھُورًا ۔
زمین میرے لئے جائے سجدہ اورباعثِ طہارت بنائی گئی ۔ بخاری کتاب التیمم۔
تیمم آل ابو بکر ؓ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی عطائے خاص ہے:۔
حضرت سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں ہم کسی سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے جب ہم بیدا یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہارگم ہو گیا رسول اللہ ﷺ تلاش کی غرض سے رُکے وہاں پانی نہ تھا کہ استعمال کیاجاتا تو لوگ حضرت ابوبکر ؓکے پاس گئے اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ اور دیگر لوگوں کو یہاں روک رکھا ہے ؟ جبکہ ان کو پانی کی تکلیف ہے تو ابوبکر ؓ میرے پاس آئے خوب برہم ہوئے اور مجھے گُھوسے بھی مارے مگر میرے زانو پر جناب رسول اللہ ﷺ آرام فرما تھے جس کی وجہ سے میں نے بالکل حرکت نہ کی اور مار برداشت کرلی صبح جب جناب ﷺ بیدار ہوئے پانی نہ تھا آیت تیمم نازل ہوئی تب اسید بن حصیر ؓ نے کہا اے آل ابو بکر ؓ یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں یعنی اس سے قبل بھی برکات آل ابوبکرؓ حاصل کر چکے ۔
جب قافلہ صبح روانہ ہونے لگا تو میرا اونٹ جب اٹھایا گیا تو میرا ہار اس کے نیچے پڑا مل گیا اور تیمم کی آیت اضافی ملی۔(بخاری جلد ۱ کتاب التیمم)جس آیت ِتیمم کے نزول کا یہاں ذکر ہوا وہ پہلے گزر چکی لہذا اِعادے کی ضرورت نہیں۔
عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الصَّعِیدَ الطَّیِّبَ طَہُورُ المُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ یَجِدِ المَاء َ عَشْرَ سِنِینَ، فَإِذَا وَجَدَ المَاء َ فَلْیُمِسَّہُ بَشَرَتَہُ، فَإِنَّ ذَلِکَ خَیْرٌ۔
(ترمذی أبواب الطہارۃبَابُ مَا جَاء َ فی التَیَمُّمِ للجُنُبِ إِذَا لَمْ یَجِدِ المَاء َ و ابو داوٗ وغیرہ )
ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘پاک مٹی مسلمان کا سامانِ طہارت ہے اگرچہ دس سال تک پا نی نہ ملے۔بس جب پانی پائے تو اسی سے طہارت حاصل کرے کیونکہ پانی کی مو جودگی میں پانی کا استعمال ہی بہتر طہارت ہے۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِی سَفَرٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ وَلَیْسَ مَعَہُمَا مَاء ٌ، فَتَیَمَّمَا صَعِیدًا طَیِّبًا فَصَلَّیَا، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاء َ فِی الْوَقْتِ، فَأَعَادَ أَحَدُہُمَا الصَّلَاۃَ وَالْوُضُوء َ وَلَمْ یُعِدِ الْآخَرُ، ثُمَّ أَتَیَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَا ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ لِلَّذِی لَمْ یُعِدْ: أَصَبْتَ السُّنَّۃَ، وَأَجْزَأَتْکَ صَلَاتُکَ . وَقَالَ لِلَّذِی تَوَضَّأَ وَأَعَادَ: لَکَ الْأَجْرُ مَرَّتَیْن ۔
( ابو داوٗدکتاب الطہارۃ باب المتیمم یجد الماء بعد ما یصلی فی الوقت و الدارمی )
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی سفر پر تھے نمازکا وقت ہوا مگر ان کے پاس پانی نہ تھا توانہوں نے پاک مٹی سے تیمم کر کے نمازپڑھ لی پھر وقتِ نماز کے اندر ہی پانی ملاتو ایک نے نماز نہ دھرائی جبکہ دوسرے نے وضو کر کے نماز دھرائی۔ جب حضورﷺ کے پاس آ کر اس کا ذکر کیا تو جس نے نہیں دھرائی تھی اس کو فرمایا تو نے سنت کو پا لیا اور تیری وہی نماز تیرے لئے کافی ہوئی اور جس نے وضو کر کے دوبارہ پڑھی تھی اس کو فرمایا کہ تیرے لئے دوبارہ پڑھنے کی وجہ سے دو گنا اجر ہے۔
تشریح:۔
بالکل واضح ہے کہ تیمم کر کے نماز پڑھیں اور بعد میں پانی مل بھی جائے تو نماز لو ٹانے کی ضرورت نہیں یہی فقہ بھی بتاتی ہے۔ہاں اگر کوئی اس صورت میں نماز کو دوبارہ پڑھ لے پانی مل جانے کی صورت میں وقت کے اندر تو اس کا اجر دو گنا اس لئے ہے کہ اجر اعمال پر مرتب ہوتا ہے تو چونکہ اس نے نماز پڑھنے کا عمل دو مرتبہ کیا اس لئے اس کا اجر بھی دو گنا ہے۔
فَقَالَ أَبُو الجُہَیْمِ الأَنْصَارِیُّ أَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِءْرِ جَمَلٍ فَلَقِیَہُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَقْبَلَ عَلَی الجِدَارِ، فَمَسَحَ بِوَجْہِہِ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلاَمَ ۔
(بخاری کتاب التیمم باب التیمم فی الحضر، إذا لم یجد الماء وخاف فوت الصلاۃِ)
ابو جھیم ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ جمل کنوئیں سے واپس تشریف لا رے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے جواب نہ دیا یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اس سے چہرے اور ہاتھوں کو مسح کیا پھر سلام کا جواب فرمایا ۔
فَضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَفَّیْہِ الأَرْضَ، وَنَفَخَ فِیہِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ وَکَفَّیْہِ
۔(بخاری کتاب التیمم باب المتیمم ہل ینفخ فیہما )
حضور ﷺ نے تیمم کا طریقہ یو ں تعلیم فرمایا کہ دو نوں ہاتھ زمین پر مار کر پھر ان پر پھونک ماری پھر چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا ۔
بخاری کتاب التیمم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ نفخ فیھما کی بجائے تَفَلَ فیھما ہیں یعنی جھاڑہ ہاتھوں کو ۔
اس سے مقصودیہ ہے کہ اگر کچی مٹی پر ہاتھ مارے جائیں تو وہ بہت زیادہ خاک آلودہو جاتے ہیں اگر جھاڑے یا پھونکے بغیر چہرے پر پھیرے جائیں تو چہرہ دیکھنے کے قابل ہی نہ رہے ۔لہذا ہاتھوں کو کچھ جھاڑنے کی تعلیم ہے کہ ہاتھوں پر لگی زیادہ مٹی جھڑ جائے ۔ بخاری ہی کی ایک اور روایت میں ہاتھوں کو جھاڑنے کیلئے تیسر ا لفظ نَغَضَ استعمال ہوا یہ تینوں الفاظ یعنی نفخ ، تَفَلَ اور نَغَضَ قریب المعنی و لمفہوم ہیں کہ ہاتھوں کو جھاڑا جائے ۔
تیمم سے وہ تمام اعمال کرنے جائز ہو جاتے ہیں جو وضو یا غسل کے کرنے سے جائز ہو جاتے ہیں اور تیمم کے قریبًا تمام احکام وہی ہیں جو وضو کے ہیں ہر اس شیء سے تیمم ناقض ہو جا تا ہے جس سے وضو ناقض ہو تا ہے البتہ ایک بات اضافی ہے کہ تیمم اگر پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کیا تھا ، اب پانی مل گیا تو پانی ملتے ہی تیمم ختم ہو جائے گا ۔ کہ عذر و مجبوری کیلئے تیمم کی اجازت دی تھی اب وہ عُذر و مجبوری باقی نہ رہی لہذا تیمم بھی باقی نہ رہا ۔
نجاست وناپاکی کو دور کرنے کے چند بنیادی مسائل :۔
ہم نے یہ تو جان لیا کہ مرد ہو یا عورت اس کا بدن کن کن صورتوں میں ناپاک و پلید ہوتا ہے اور ان کو نماز کے قابل ہونے کے لئے پاک بدن ہونے کے لئے کون کون سے شرعی طریقے ہیں اس سلسلہ میں ہم نے استنجاء ، وضو ، غسل ،تیمم اور عورت کے حیض و نفاس کے مسائل پر بات کی اب ہم چند مسائل ایسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن سے نمازی اپنے کپڑوں اور اس جگہ کو پاک رکھ سکے جہاں وہ نماز ادا کرنا چاہتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جو شریعت تیمم ناپاک مٹی سے جائز قرار نہیں دیتی جبکہ تیمم و طہارت نماز کے لئے ایک شرط ہے تو اس شریعت سے یہ توقع کیوں کی جائے کہ وہ اصل نماز جو مقصود ہے تیمم وضو او ر غسل وغیرہ سے ناپاک جگہ پر پڑھنے کی اجازت دے گی ۔ نماز کی جگہ تو کیا جائے نماز کے ماحول کو بھی شریعت ممکن حد تک صاف دیکھنا چاہتی ہے جیسا کہ بخاری میں ہے حضور ﷺ نے مسجد نبوی کی دیوار پر لگی بلغم دیکھی تو جناب ﷺ نے خود مبارک ہاتھوں سے صاف فرما کر شعور دیا کہ نماز کی جگہ کو صاف رکھا جائے ۔ ایک عمررسیدہ عورت مسجد نبوی کی صفائی کیا کرتی تھی آپ ﷺ کو اس کا عمل اس قدر محبوب تھا کہ جب وہ فوت ہوئیں اور حضور ﷺ اس کے جنازے میں شرکت نہ فرما سکے تو آپ نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ہر وقت اور ہر صورت میں غائبانہ جنازہ جائز ہوتا تو حضو ر ﷺ کواس کی قبر پر جانے کی کیا ضرورت تھی ۔
اشیاء کو پاک کرنے کے مختلف ذرائع :۔
(۱) پانی ۔ عام طور پر ناپاک بدن ، کپڑوں او ر برتنوں کو پانی سے ہی پاک کیا جاتا ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ وہ پانی پاک ہو جس کو استعمال میں لایا جارہاہے ۔
(۲) کُھرچنا۔ جسم رکھنے والی پلیدی و گندگی اگر خشک ہوجائے تو اس کو کھر چ کر بھی صاف کیا جاسکتا ہے ۔
جیسے منی اگر تر ہو تو پانی سے دھونا لازم ہے اور اگر خشک ہو جائے کپڑے وغیرہ پر تو اس کو اچھی طرح کُھرچ دینا بھی کافی ہے ۔ فقہاء فرماتے ہیں :۔
فاذا جفّ علی الثوبِ اجزاہ فیہ الفرک۔۔فَإِذَا جَفَّ عَلَی الثَّوْبِ أَجْزَأَ فِیہِ الْفَرْکُ) لِقَوْلِہِ – عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ – لِعَائِشَۃَ فَاغْسِلِیہِ إنْ کَانَ رَطْبًا وَافْرُکِیہِ إن کَانَ یَابِسًا(العنایہ شرح ہدایہ باب الانجاس وتطہیرہا)
یعنی اگر منی کپڑے پر خشک ہوجائے تو اس کو اچھی طرح کُھرچ دینا ہی کافی ہے اور احادیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے ۔
پلیدی اگر کپڑے کی بجائے ٹھوس اجسام پر ہو تو :۔
کپڑا چونکہ دھاگوں سے بُناہوتا ہے اور ناپاک شیء کے اجزاء کپڑے کے اندر آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں لہذا کپڑوں کو بالعموم پانی سے ہی پاک کیا جاتا ہے۔ جبکہ ایسی اشیاء جو ٹھوس جسم رکھتی ہیں اور نجاست ان کے اندر داخل نہیں ہوتی بلکہ صرف اوپر والی سطح پر ہوتی ہے تو ایسی چیزوں کو پُونچھ لینا یا زمین پر رگڑ دینا ہی ان کے پاک کرنے کے لئے کافی ہو تا ہے ۔مثلًا شیشہ ، تلوار ، دروازہ کھڑکی وغیرہ ۔
(۳) خشک ہونا۔ تیسرا طریقہ کسی ناپاک چیز کو پاک کرنے کا خشک ہونا ہے ۔ جیسے زمین پر نجاست گرے اور سورج کی دھوپ سے خشک ہو جائے تو زمین کو نماز کے قابل قرار دیا جائے گا ۔خاص کر جب خشک ہو کر نجاست کا اثر بھی زمیں پر باقی نہ رہا ہو۔ مگر احتیاط یہ ہے کہ ایسی زمیں پر تیمم کرنے کے بجائے کسی دوسری بالکل صاف زمیں پر سے تیمم کیا جا ئے کہ شبہ ہی نہ رہے۔
نجاست غلیظہ و خفیفہ:۔
نجاست دو طرح سے ہوتی ہے ایک نجاست غلیظہ یعنی سخت و شدید پلیدی و گندگی جیسے انسان اور حرام جانوروں کا پیشاب یاپاخانہ۔ نجاست غلیظہ اگر درھم تک مقدار میں کپڑے پر لگے تو ایسے کپڑے سے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اور اگر اس کو بھی دھو لے تویقینا زیادہ بہتر ہو گا۔دوسری نجاست خفیفہ یعنی غلیظہ سے کچھ ہلکی اور کم نجاست و گندگی ہے جیسے حلال جانوروں کا پیشاب اس سے نماز پڑھنا اس وقت تک جائز ہے جب تک کسی کپڑے کی1/4 )چوتھا ئی( سے کم حصے پر لگے اور اگر کپڑے کی چوتھائی تک نجاست تجاوزکر جائے تو ایسے کپڑے میں نماز جائز نہیں لہذا کپڑے کو دھو لیا جائے ۔
نجاست مرئیہ اور غیر مرئیہ:۔
نجاست کبھی تو از خود وجود رکھنے کی وجہ سے نظر آتی ہے جو مرئیہ (نظر آنے والی )کہلاتی ہے اور کبھی از خود نظر نہیں آتی بلکہ کسی دوسری شیء میں اس کا وجود ظاہر ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا ۔ نجاست مرئیہ جیسے پاخانہ جو کہ بالکل نظر آنے والی چیز ہے ایسی نجاست کو پاک کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دھو کر اس کا ظاہر ی نظر آنے والا وجود ختم کر دیا جائے ۔ اگرچہ اس کا کچھ اثر باقی رہے جس کا زائل کرنا آسان نہ ہو تو کپڑا پاک تصور کیا جائے گا اور دوسری قسم نجاست کی غیر مرئیہ ہے جس کا کپڑے پر ایسا وجود نہیں ہوتا کہ نظر بھی آئے جیسے پیشاب کسی کپڑے پر لگ کر خشک ہو جائے تو نظر تو نہیں آتا مگر کپڑا ناپاک ہی ہوتا ہے ایسی نجاست کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پانی سے اس طرح دھویا جائے کہ دھونے والے کو نجاست کے ختم ہو جانے کا غالب گمان ہو جائے ۔
قرآن و حدیث اور فقہ حنفی :۔
یہاں تک جن مسائل سے آپ گزرے آپ کو خوب اچھی طرح علم ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث کے علاوہ کسی چیز کانام نہیں بلکہ ائمہ فقہ کی ماہرانہ اور مدبّرانہ آراء جن کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے فقہ کہلاتی ہے ۔ قرآن واحادیث میں شریعت اسلامیہ کے احکامات بکھرے پڑے ہیں مگر عربی زبان سے نا آشنائی قرآن و احادیث میں جملہ احکامات کاایک جگہ نہ ہونا احکام کی علتوں ، حکمتوں اور اغراض و مقاصد کی نافہمی نے احکامات ِ اسلامیہ کو وہ حیثیت دے دی ہے جو وسیع سمندر میں پانی کی تہہ میں پڑے صدف بند موتی کی ہوتی ہے ۔ اب اگر ساحل سمندر پر ہر کھڑا آدمی یہ دعویٰ کرے کہ وہ سمندر کی تہہ سے موتی نکال باہر لانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو ہم اس کے اس دعویٰ کو قطعًا درست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ یہاں ایسے ماہر کی ضرورت ہے جو غوطہ زنی کا بھی ماہر ہو اور صدف کی پہچان اورموتیوں کی اقسام سے بھی اچھی طرح واقف ہو ورنہ دین کے بگڑنے کا قوی امکان موجود ہے ۔ آج تک جتنا نقصان اسلام اور عالم اسلام کو پہنچا اس میں ایک بنیادی عنصر ایسے رہبر و رہنما اور علماء و فضلا ہیں جو قرآن و سنت پر گہری نظر نہیں رکھتے مگر وہ بزعم خویش اپنی رائے کو صائب تصور کرتے ہیں ۔ جس سے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور عوام الناس کو غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگر ہر عالم و جاہل کو اپنی ہی رائے اور تحقیق پر آزاد چھوڑ دیا جائے تو فتنوں اور دین کے بگاڑ کا ایک ایسا راستہ کھلے گا جس کو کبھی بند نہیں کیا جاسکے گا لہذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کا فہم و ادرک کرنے کیلئے ایسے لوگوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھیں جن کے بارے میں ہمیں مکمل یقین واعتماد ہو کہ وہ واقعی قرآن و سنت کے ماہر ہیں۔بس ایسے ماہرین ِ دین کو ائمہ فقہ کہا جاتا ہے۔اور عوام الناس کو ان کی آراء کا پابند رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔فقہ کے جن مضامین سے ہم ابھی گزر ے ان تمام مضامین کو آپ نے پڑھ کر یہ یقین کر لیا ہو گاکہ فقہ کا ایک ایک باب ایک ایک مسئلہ اور ہر ایک بات قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔فقہی مسائل وآراء میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہونے پائے بلکہ ایسی رائے قائم کی جائے جو قرآن کی جملہ متعلقہ آیات اور جملہ متعلقہ احادیث کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہو۔انسانی تجسس و جستجو، محنت و کوشش اور تدبُر و تفکر اس سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں جس قدر کہ ائمہ فقہ نے تدوین و ترتیب فقہ میں اختیار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ فقہ نے امت پر احسانِ عظیم کر کے ان کے لئے قوا نین اسلام تک پہنچنا انتہائی آسان کر دیا ورنہ کون اتنا ماہر اور کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے لئے قرآن وحدیث کو اٹھائے اور تلاش بسیارکے بعد اپنے مسئلے تک رسائی حاصل کرے پھریہ بھی یقین نہ ہو کہ جو مسئلہ اس نے کوشش بسیارکے بعد قرآن وحدیث سے اخذ کیا ہے کیا واقعی اس نے درست اخذ کیا یا ٹھوکر کھائی ہے۔جبکہ دوسری طرف ایک معمولی علم رکھنے والا بڑی آسانی سے فقہ کی کتاب سے اپنا مطلوب حاصل کر لیتا ہے۔جس پر اسے مطلوبہ حد تک اعتماد بھی ہوتا ہے۔
سراپاخشوع و خضوع سے پوری یکسوئی سے نماز اور رَبّ ِ نماز کی طرف متوجہ ہوں:۔
نماز چونکہ بندگی کا اعلیٰ ترین نمونہ اور مقصد حیات ہے اس لئے نماز پڑھنے سے پہلے اس کی اہمیت کو پوری طرح ذہن نشین کر لیں، رکوع و سجود وغیرہ کو پورے آداب سے ادا کرنے کا قصد کر لیں اور بارگاہِ ایزدی میں پوری طرح یکسو ہو جائیں تاکہ نماز مردود ہونے کے بجائے مقبولِ بارگاہِ صمدیت ہو۔حقیقت یہ ہے کہ بندے کا عظیم بارگاہِ ربانی میں حاضری انتہائی اہم اور مشکل ترین کام ہے لہذا ذہن کو حاضر رکھیں پوری استعداد بروئے کار لائیں اور رب کے فضل کا دامن تھام کر نماز شروع کریں۔مذکورہ کیفیت پیدا کرنے کے لئے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
۱) عن انسٍ ؓ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ مَنْ صَلَّی الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا، وَأَسْبَغَ لَہَا وُضُوء َہَا، وَأَتَمَّ لَہَا قِیَامَہَا وَخُشُوعَہَا وَرُکُوعَہَا وَسُجُودَہَا خَرَجَتْ وَہِیَ بَیْضَاء ُ مُسْفِرَۃٌ، تَقُولُ: حَفِظَکَ اللَّہُ کَمَا حَفِظْتَنِی، وَمَنْ صَلَّی الصَّلَاۃَ لِغَیْرِ وَقْتِہَا فَلَمْ یُسْبِغْ لَہَا وُضُوء َہَا، وَلَمْ یُتِمَّ لَہَا خُشُوعَہَا وَلَا رُکُوعَہَا وَلَا سُجُودَہَا خَرَجَتْ وَہِیَ سَوْدَاء ُ مُظْلِمَۃٌ، تَقُولُ: ضَیَّعَکَ اللَّہُ کَمَا ضَیَّعْتَنِی، حَتَّی إِذَا کَانَتْ حَیْثُ شَاء َ اللَّہُ لُفَّتْ کَمَا یُلَفُّ الثَّوْبُ الْخَلَقُ، ثُمَّ ضُرِبَ بِہَا وَجْہُہُ۔ (المعجم الاوسط الطبرانی وغیرھم )
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جو نمازوں کو ان کے وقت پر پڑھے،وضو خوب اچھی طرح کرے پھر نماز کو اسطرح مکمل کرے کہ قیام،خشوع،رکوع اور اس کا سجود مکمل ہو تو نماز نہایت روشن و چمکدار بن جاتی ہے اور کہتی ہے کہ اے نمازی اللہ تعالیٰ تیری اسطرح حفاظت فرمائے جیسے تو نے میری حفاظت فرمائی اور جو نماز کو بے وقت پڑھے اس کے لئے وضو بھی اچھی طرح سے نہ کرے اور نماز کے خشوع ورکوع و سجود کو پوری طرح مکمل نہ کرے تو وہ نماز سیاہ رنگ اور اندھیرا بن کر کہتی ہے کہ نمازی اللہ تجھے ایسے ضائع کرے جیسے تو نے مجھے ضائع کر دیا جب تک اللہ چاہے۔ پھر وہ نماز ایک پرانے کپڑے کی صورت لپیٹ کر اس کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ العیاذُ باللہ ۔
۲) عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیَنْصَرِفُ وَمَا کُتِبَ لَہُ إِلَّا عُشْرُ صَلَاتِہِ تُسْعُہَا ثُمْنُہَا سُبْعُہَا سُدْسُہَا خُمْسُہَا رُبْعُہَا ثُلُثُہَا نِصْفُہَا ۔
(ابوداوٗد کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب ما جاء فی نقصان الصلاۃوالنسائی وابن حبان)
حضرت عمّار بن یاسر ؓروایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے لئے ثواب کا دسواں ، نواں ،آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھائی ، تہائی یا آدھا حصّہ ثواب لکھا جا تا ہے ۔
۳) عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَسْوَأَ النَّاسِ سَرِقَۃً الَّذِی یَسْرِقُ صَلَاتَہُ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ یَسْرِقُہَا؟ قَالَ: لَا یُتِمُّ رُکُوعَہَا وَلَا سُجُودَہَا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ باب فی الرجل ینقص صلاتہ)
عبد اللہ بن ابی قتادہ ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا سب سے بُرا چور نماز کا چور ہے پوچھا جناب وہ کیسے ؟ تو فرمایا کہ نہ وہ نماز کا رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود ۔
۴) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ھَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِیْ ھٰھُنا وَ اللّٰہِ مَایَخْفٰی عَلَیّ رُکُوعُکم وَلَاخُشُوْعُکُمْ وَ انِّیْ لَاَراکُمْ وَرَآءَ ظَہْرِیْ ۔( بخاری کتاب الاذان باب الخشوع فی الصلوٰۃ )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم دیکھتے ہو کہ (دورانِ نماز ) میرا منہ قبلہ کی طرف ہے ۔ خدا کی قسم مجھ سے تمہارا رکوع اور خشوع پوشیدہ نہیں ہوتا اور میں تو بے شک اپنی پیٹھ پیچھے سے بھی تم کو دیکھتا ہوں ۔
اسی روایت کی تائید میں وہ روایت بھی ہے جس میں حضور ﷺ فرماتے ہیں :
اِنّی اریٰ مالاترون انّی اَسمعُ مالاتسمعون ۔ (ریاض الصالحین ۔
میں بلاشبہ وہ کچھ دیکھتا ہو ں جو تم نہیں دیکھ پاتے اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سن پاتے ۔ اسی کی تائید میں وہ حدیث بھی ہے جس میں ایک دن صحابہ کرام ؓ کی موجودگی میں جناب کا چہرہ نبوت مُتغیّر ہوا اور فرمایا جب سے دنیا بنی ہے ایک پتھر جہنم میں لُڑھکا یا گیا تھا اور آج جا کر اس کی تہہ میں گِراہے ۔ اس کی تائید وہ مشہور حدیث بھی کرتی ہے جسے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ نے فضائل اعمال کے باب فضائل نماز میں نمبر 7 حدیث کی تشریح میں یوں لکھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے حق تعالیٰ شانہ کی بہترین صورت میں زیارت کی مجھ سے ارشاد ہو ا کہ محمد ﷺ مَلَاءِ اَعلٰی والے فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں میں نے عرض کیا مجھے تو علم نہیں تو حق تعالیٰ شانہ نے اپنا دستِ مبارک میرے سینہ پر رکھ دیا جس کی ٹھنڈک سینہ کے اندر تک محسوس ہوئی اور اِس کی برکت سے تمام عالم مجھ پر مُنکشف (ظاہر ) ہو کیا الخر ۔ اب گزارش ہے کہ اس حدیث سے یہ تو ثابت ہوا کہ اللہ کریم کے دستِ قدرت کی تاثیر سے جناب کا سینہ یوں منور ہوا کہ اس پر پور ا جہاں عیاں ہو گیا اب سوال یہ ہے ۔ کہ سارا جہان رب پر بھی عیاں ہے اور حضور ﷺ پر بھی عیاں ہو گیا تو کیا شرک فی العلم لازم آیا ؟ ہرگز نہیں کہ اللہ پر از خود عیاں تھا اور حضور ﷺ پر اللہ پاک کے دستِ قدرت و عطا سے ظاہر ہوا یہ کہ علم الٰہی کی حدود جہان تک محدود نہیں بلکہ لا محدود ہیں لہذا شرکِ صوری بھی لازم نہیں آیا دوسری گزارش یہ ہے کہ پورے جہان کا جناب ﷺ پر عیاں ہونا تو ثابت ہو گیا اب اس ثابت کردہ کونسی حدیث سے ثابت ہے ۔ کیا رب کی عطا اور ہاتھ کی قدرت کا اثر صرف چند لمحوں کیلئے تھا اور بعد میں جناب پر پھر اندھیرا چھا گیا ۔ہرگز نہیں حضور ﷺ کے ہاتھ مبارک کی کئی مثالیں احادیث میں ہیں کہ جناب کے ہاتھ کے مس کا اثر ہمیشہ رھا تو رب کے ہاتھ کی تاثیر بارے عقیدہ کمزور کیوں ہو ۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب فصل اوّل نُور محمدی کے بیان میں پانچویں روایت مشکوٰۃ اور بخاری کے حوالے سے بروایت عبد اللہ عمرو بن العاص ؓ لائے ہیں کہ تورات میں آپ کی یہ صفت لکھی ہے اے پیغمبر ہم نے تم کو بھیجا ہے اُمّت کے حال کا گواہ بنا کر : اب امت پورے جہان میں قیامت تک پھیلی ہے اس کے حال کے گواہ ظاہر ہے لاعلمی میں تو نہیں ہو سکتے تو ثابت ہوا کہ جملہ جہان میں پھیلی امت کے حال کی کل بھی خبر تھی آج بھی ہے اور یہ بات ناقابل فہم نہیں بلکہ اُسی دستِ قدرت کا فیض ہے جو اوپر حدیث میں ذکر ہوا ۔ اسی بنا پر حضور ﷺ فرماتے ہیں میرے لئے پوری روئے زمین ہاتھ پر رکھی چیز کی طرح عیاں ہے ۔
ایسا کشفِ کمال بعض اوقات اولیآء کے لئے بھی ثابت ہے پھر سید الانبیآء کے کشف کا کیا ہو گا ۔
۵) عَنْ أَسْمَاء َ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ، قَالَتْ: رَآنِی أَبُو بَکْرٍ أَتَمَیَّلُ فِی الصَّلَاۃِ فَزَجَرَنِی زَجْرَۃً کِدْتُ أَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاتِی. ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ فِی الصَّلَاۃِ فَلْیُسَکِّنْ أَطْرَافَہُ وَلَا یَتَمَیَّلُ تَمَیُّلَ الْیَہُودِ فَإِنَّ تَسْکِینَ الْأَطْرَافِ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ ۔(حلیۃ الاولیاء الجزء9ص304)
اُم رومان زوجہ ابوبکرؓ سے روایت کہ ابوبکر نے مجھے نماز میں ادھر ادھر جھکتے دیکھا تو مجھے اتنا شدید ڈانٹا کہ میں نماز توڑنے کے قریب ہو گئی پھر فرمایا میں رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ تم میں سے جب کوئی نماز میں کھڑا ہو تو اطرافِ بدن کو پوری طرح پر سکون رکھے اور یہود کی طرح ادھر ادھر نہ جُھکے کیونکہ اعضاءِ بدن کاپور سکون رکھنا نماز کی تکمیل سے تعلق رکھتا ہے ۔
۶) حَتَّی إِذَا قَضَی التَّثْوِیبَ أَقْبَلَ، حَتَّی یَخْطِرَ بَیْنَ المَرْء ِ وَنَفْسِہِ، یَقُولُ: اذْکُرْ کَذَا، اذْکُرْ کَذَا، لِمَا لَمْ یَکُنْ یَذْکُرُ حَتَّی یَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ یَدْرِی کَمْ صَلَّی۔ (بخاری کتاب الاذان باب فضل التاذین )
جب اقامت ختم ہو جاتی ہے اور نمازی نماز شروع کرتا ہے تو شیطان بندے اور اس کے نفس کے درمیان آکر اس کوکہتا ہے فلاں کام یاد کر ، فلاں بات یاد کر اور اس کو وہ کچھ یاد دلاتا ہے جو اس کو یاد نہیں ہوتا یہاں تک کہ نمازی اس کے زیر اثر اتنا آجاتا ہے کہ اس کو یہ تک یا د نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں۔
یہ ایک حدیث کا متعلقہ حصّہ ذکر کیا پوری حدیث اذان کے بیان میں پہلے گزر چکی ۔
اب نماز شروع کریں اللہ تعالیٰ آپ کو مقبول نماز پڑھنے کی تو فیق دے
جب آپ نماز کے صحیح وقت ، بدن کی پاکی ، کپڑوں اور جگہ کی پاکی کا یقین کر لیتے ہیں تو قبلہ رو کھڑے ہوتے ہیں۔
فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہ (بقرہ ۔۱۴۴)
اب پھیر لو اپنا چہرہ مسجدِ حرام کی طرف اور جہاں کہیں تم ہو تو پھیر لیا کرو اپنے مُنہ اس کی طرف ۔
وَ لِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا ۔(بقرہ۔ ۱۴۸)
اور قوم کے لئے ایک طرف مقرر ہے وہ اسی کی طرف منہ کرتی ہے۔
اذا قمتَ الی الصلوٰۃ فَاسبغ الوضوء ثمّ استقبل القبلۃ فکبِّر۔ (الحدیث ،مسلم نسائی،ابوداوٗد ، بخاری وغیرھم )
حضور ﷺ نے ایک صحابی کو تعلیم فرمائی کہ جب تو نماز کے لئے اُٹھے تو اچھی طرح وضو کر پھر قبلہ رُو ہوکر تکبیر تحریمہ پڑھ ۔
فصلّی مع النبی ﷺ رجلٌ ثمّ عرجَ بعدَ ماصلّی فحرّ علی قومٍ من الانصار فی صلوٰۃ العصر ِ یُصلّون نحو بیت المقدس ِ فقال ھو یشھد انّہ صلّی مع رسول اللّٰہ ﷺ وَانّہ توجّہ نحو القبلۃِ فتحرّف القوم حتّٰی توجّھُوا نحو الکعبۃِ ۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب التوجہ نحو القبلۃِ )
ایک صحابی ؓ نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر بعد از نماز اس کا گزر انصار پر ہوا جو نماز عصر بیت المقدس کی طرف منہ کیے پڑھ رہے تھے تو کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قبلہ (بیت اللہ )کی طرف منہ کیے نماز پڑھی ہے تو قومِ انصار کعبہ کی سمت مڑگئے ۔
دوموقعوں پر عذر کی بنا پر قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں :۔
۱۔ دوران سفر نوافل :۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی عَلَی رَاحِلَتِہِ، حَیْثُ تَوَجَّہَتْ فَإِذَا أَرَادَ الفَرِیضَۃَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَۃَ۔(بخاری أبواب القبلۃبابالتوجہ نحو القبلۃ حیث کان )
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنی سواری پر نماز (نوافل ) پڑھتے تھے اس کا رخ جدھر بھی ہوتا او ر جب فرائض پڑھنا چاہتے تو اُتر کر قبلہ رو ہو جاتے تھے ۔
۲۔ نماز خوف:۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ قَوْلِ مُجَاہِدٍ: إِذَا اخْتَلَطُوا قِیَامًا، وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَإِنْ کَانُوا أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ، فَلْیُصَلُّوا قِیَامًا وَرُکْبَانًا ۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ الخوف باب صلوٰۃ الخوف رجالا ورکبانًا )
عبد اللہ ابن عمر ؓ سے مجاھد کے قول کی طرح روایت ہے کہ جب دونوں لشکر آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں تو نماز کھڑے کھڑے ہی ادا کر لیں ابن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بھی روایت کیا کہ اگر کفار کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہو تو مسلمان کھڑے کھڑے اور سواری پر ہی اداکر لیں۔
نوٹ:۔
ظاہر ہے کہ عین جب جنگ جاری ہو اور دشمن کے مقابلہ میں تعداد بھی کم ہو تو باقاعدہ طور پر عام طریقہ سے نماز پڑھنا اور دشمن کی طرف پیٹھ کرنا اور قبلہ رخ ہونا خود کشی کے مترادف ہے جو اسلام کا حکم نہیں ہو سکتا پھر جب سواری پر بھی صلوٰۃ الخوف جائز ہوئی تو لازم نہیں کہ سواری قبلہ رُو ہی کھڑی رہے لہذا یہاں قبلہ کی شرط یوں ساقط ہوئی جیسے قیا م و سجود وغیرہ جیسے عام مریض کے لئے عذرِ مرض کی وجہ سے قیام ساقط ہو جاتا ہے جو کہ شرط ِ نماز ہے اسی طرح عذر کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو حالت جنگ میں صلوٰۃ الخوف کے دوران قبلہ کی شرط بھی ساقط ہوجاتی ہے ۔ کوشش رہے کہ ابتداء میں قبلہ رُو ہو ں ۔
حافظ عمران ایوب لاہوری کا تسامح :۔
مولانا حافظ عمران ایوب صاحب لاہوری نے اپنی تالیف ‘‘ نماز کی کتاب ’’ میں مُستقبلی القبلۃ وغیر مُستقبلیھا کے الفاظ کا اضافہ کیا اور بخاری کا مذکورہ بالا حوالہ دیا جبکہ بخاری کے مذکورہ بالا حوالہ پر یہ الفاظ نہیں ملتے ۔ جو ملتے ہیں وہ میں نے اوپر ذکر کر دئیے ممکن ہے کہیں دوسری جگہ سے لیے گئے ہوں بخاری میں یہ الفاظ نہیں ہیں ملاحظہ ہو مولانا کی تالیف ‘‘ نماز کی کتاب ’’ نماز کی شرائط کا بیان صفحہ نمبر 98 پر ۔ یہ مولانا اہل حدیث ہیں ۔
نماز کے شروع میں نیت کا مسئلہ :۔
جب آدمی کوئی کام شروع کرتا ہے تو پہلے اس کے دل پر ایک خیال ارادے کی شکل اختیار کرتا ہے کوئی کام بھی بغیر ارادے اور نیّت کے نہیں کرتا لہذا نمازی جب نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو لازمًا اس کے دل میں ایک نیّت از خود وجود پاتی ہے جب نیّت پائی گئی تو احناف نے اس کو ذکر کرنا لازم نہ سمجھا اور فقہ میں اس کو اتباعِ حدیث کی بنا پر ذکر نہیں کیا کیونکہ جتنی احادیث نماز کے حوالے سے آپ فرمارہے ہیں تمام میں کبّر یعنی تکبیر تحریمہ سے نماز شروع کرنے کی بات ہے کہیں ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں کہ حضور ﷺ نے خود نیّت کی یا کسی کو تعلیم فرمائی ۔ یہی حالت قرآنی آیات کی ہے کہ وضو ، غسل وغیرہ کی بات تو ہے مگر نیت کی نہیں ۔ اگر کسی کا دعوی ہو کہ نیّت شرط ہے تو وہ بلادلیل عمومی نیّت سے استدلال کرے گا خاص نماز کے لئے نیّت کا شرط ہونا حدیث میں نہیں ملتا ۔
طریقہ نماز
یہاں پہلے احناف کا طریقہءِ نماز اوّل تا آخر بیان کیا جائے گا ۔ اور پھر بعد ازاں اہلِ حدیث کا طریقہ نماز بھی بیان ہو گا تاکہ فرق واضح ہو ۔
نماز کا طریقہء اَحناف:۔
و اذا دَخلَ الرَّجُلُ فی صلوٰتہٖ کبّر ورفع یدیۃِ مع التکبیر حتّٰی یُحاذی بابھامَیہِ شَحمۃ اُذُنیہِ فانْ قال بدلًا من التکبیر اللّٰہُ اَجلّ او اَعظمَ او الرحمٰن اکبر اَجزأہٗ عند ابی حنیفۃ و محمدٍ رحمھما اللّٰہ تعالیٰ وقال ابو یوسف رحمہٗ اللّٰہ تعالیٰ لا یجوزُ الّا ان یقول اللّٰہ اکبر او اللّٰہ الاکبر اَو اللّٰہ الکبیر و یعتمد بیدہٖ الیُمنٰی علی الیُسرٰی و یَضَعُھما تحت السرّۃِ ثمّ یقول سُبحانک اللّٰھمّ و بحمدک و تبارک اسْمُک و تعالیٰ جدّک ولا الہ غیرک و یَسْتعیذُ باللّٰہِ من الشیطان الرجیم و یقرأ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرّحیم و یُسرّبھما ثمّ یقرأ فاتحۃَ الکتاب وسورۃ معھا او ثلٰث اٰیاتٍ من ایّ سورۃٍ شأ واذا قال الامام ولا الضالین قال اٰمین ویقولھاالمؤتم و یخفیھا ثمّ یکبّر و یرکع ویعتمد بیدیہ علی رُکبتیہ و یفرج اصابعہ و یبسط ظھرہٗ ولا یرفع رأسہٗ ولا ینکسہٗ ویقول فی رکوعہِ سبحان ربیّ العظیم ثلٰثًا و ذٰلک ادنأہُ ثمّ یَرفع رأسہٗ ویقول سمع اللّٰہ لمن حمدہٗ ویقول المؤتم ربنا لک الحمد فاذا استوٰی قائمًا کبّر و سجدَ واعتمد بیدیہ علی الارض ووضع وجھہ بین کفّیہِ و سجد علی انفہ وجبھتہِ فان اقتصر علی احدھما جاز عند ابی حنیفۃ رحمہٗ اللّٰہ تعالیٰ وقالا لایجوز الا قتصار علی الانف الا من عُذرٍ فان سجد علی کورعمامتہِ او علی فاضل ثوبہ جاز و یبدی ضبعیہ ویجافی بطنہ عن فخذیہ وَیُوجہ اصابع رجلیہ نحو القبلۃِ ویقول فی سجودہِ سبحان ربیّ الاعلیٰ ثلاثًا و ذٰلک ادنأہُ ثمّ یرفع رأسہٗ و یکبِّر واذا اطمأنّ جالسًا کبر وسجد فاذا اطمأنّ ساجدًا کبّر واستوٰی قائمًا علی صدورِ قدمَیہِ ولایقعد ولایعتمد بیدیہِ علی الارض ویفعل فی الرکعۃ الثانیۃِ مِثلَ ما فَعل فی الاولٰی الّا انّہ لا یستفتح ولا یتعوّذ ولا ولایرفع یدیہ الّا فی التکبیرۃ الاولٰی فاذا رفع رأسہٗ من السجدۃ الثانیۃ فی الرکعۃ الثانیۃ افترش رجلہ الیُسری مجلس علیھا و نصبَ الیمنٰی نصبًا و وجّہَ اصابعہٗ نحو القبلۃِ و وضع یدہِ علیٰ فخذیہ ویبسط اصابعہ ثمّ یتشھد و التشھدُ ان یقول اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرُسُوْلُہٗ ولایزید علی ھذا فی القعدۃ الاولٰی و یقرأ فی الرکعتین الاخریین بفاتحۃ الکتاب خاصۃ فاذا جلس فی اٰخر الصلٰوۃ جلس کما جلسَ فی الاولٰی وتشھد وصلی علی النبی ﷺ و دعا بماشآء ممایشبۃ الفاظ القرآن والادعیۃ الماثورۃ ولا یدعو بما یُشبہُ کلام الناس ثمّ یُسلِّمُ عن یمینہٖ ویقول السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ ویسلم عن یسارہِ مثل ذلک۔
(المُختصر القدوری مُؤلّفُہٗ الشیخ ابو الحُسین احمد بن محمد بن احمد بن جَعفر البغدادی المتوفّٰی 428 ھجری باب صفۃ الصلوٰۃ) ۔
ترجمہ طریقہ نماز ِ حنفی :۔
جب آدمی نماز میں داخل ہونا چاہے تو تکبیر تحریمہ کہے اور تکبیر کے ساتھ ہی دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے دونوں کانوں کے لَو (نچلا نرم حصّہ )کے برابر ہو جائیں پھر اگر اللہ اکبر کی بجائے اللہ اجل یا اللہ اعظم یا الرحمن اکبر کہہ دے تو بھی درست ہے (کہ معنی ایک ہے ) یہ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ہے جبکہ ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ صرف اللہ اکبر ، اللہ الاکبر اور اللہ الکبیر بھی جائز ہے ۔
پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھ لے پھر کہے سبحانک اللّھمّ یعنی اے اللہ تو پاک ہے تیری ہی حمد و تعریف ہے اور تیرا نام بابرکت ہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور پھر تعوذ اور تسمیہ پڑھے مگر دونو ں کا (مثلِ ثناء ) سِرًّا پڑے پھر فاتحہ الکتاب (سورہ فاتحہ ) پھر اس کے ساتھ ہی کوئی سُورت یا کسی بھی سورت سے تین اٰیات پڑھے اور جب امام ولا الضآلین پڑھے تو اٰمین بھی پڑھے اور مقتدی آہستہ سے اٰمین کہے پھر تکبیر کہتا ہوا رکوع کرے اور دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھے اور انگلیاں کھلی رکھے اور پیٹھ کو بچھا دے اور سر کو نہ پیٹھ سے اوپر رکھے اور نہ نیچے ( برابر رکھے ) اور رکوع میں سبحان ربیّ العظیم کم از کم تین مرتبہ پڑھے ۔ پھر سر اٹھائے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہے جبکہ مقتدی ربنالک الحمد کہے پھر جب سیدھا کھڑا ہوجائے تو تکبیر کہتا ہوا سجدے میں جائے اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور چہرے کو دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھے اور ناک اور پیشانی پر سجدہ کرے اگر دونوں میں سے کسی ایک پر اکتفاء کیا توبھی ابو حنیفہؒکے نزدیک جائز ہے اور امام محمد و ابو یوسف ؒ نے کہا کہ صرف ناک پر سجدہ جائز نہیں سوائے عذر کے ۔ پھر اگر اپنی دستار کے بل پر یا فاضل (اضافی ) کپڑے پر سجدہ کرے تو جائز ہے اور دونوں کہنیوں کو پہلوؤں سے باہر نکالے اور پیٹ کو رانوں سے الگ رکھے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ کرے اور سجدہ میں سبحان ربیّ الاعلی پڑھے تین مرتبہ کم ترین مقدار ہے۔
پھر سر اُٹھائے اور تکبیر کہتا ہو ا اطمینان سے بیٹھ جائے پھر تکبیر کہتا ہو اسجدے میں جائے جب اطمینان سے سجدے کرے تو تکبیر کہتا ہوا قدموں کے پنجوں کے بل بوتے پر سیدھا کھڑا ہوجائے اور اٹھتے ہوئے ہاتھ زمین پر نہ ٹیکے اب دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طر ح ادا کرے مگر دوسری رکعت میں نہ ثناء پڑھے اور نہ ہی تعوّذ اور نہ ہی پہلی تکبیر تحریمہ کے بعد پوری نماز میں ہاتھ کسی تکبیرپر بلند کرے پھر دوسری رکعت میں جب دوسرے سجدے سے سر اٹھائے تو اُلٹا پاؤں بچھادے اور اس پر بیٹھ جائے اور دائیں پاؤں کو بالکل سیدھا کھڑا رکھے اور اس کی انگلیاں قبلہ رخ رکھے اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھے او انگلیاں قدرے کھلی رکھے پھر تشھد پڑھے اور تشہد میں یوں پڑھے تمام تر قولی ،بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں ۔اور اے نبی آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہیں سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی لائق ِعبادت نہیں مگر اللہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
قعدہ اُولیٰ میں اس سے زیادہ کچھ نہ پڑھے ۔ اور آخری دورکعتوں میں فاتحہ پڑھے پھر جب آخری نماز میں بیٹھے تو اس طرح کہ جیسے قعدہ اُولٰی میں بیٹھا تھا پھر وہی تشہد پڑھے پھر نبی ﷺ پر درود پڑھے پھر قرآن وحدیث سے جو چاہے دعا پھڑھے عام لوگوں کی سی کوئی دعا نہ پڑھے دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتا ہو اسلام پھیر دے ۔
نماز کا مختصر طریقہ:۔(اہل حدیث)
انسان وضو کرے اپنے ستر کو ڈھانپے قبلہ رخ ہو کر کھڑا ہو جائے خالص اللہ کیلئے نماز کی نیت کرے دل میں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں کی لوتک اٹھاکے اللہ اکبر کہے اپنے ہاتھ سینے پر اس طرح باندھ لے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو اپنی نگاہیں سجدے کی جگہ پر رکھے ۔ پہلے ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ کے بعد سورہ فاتحہ پڑھے اور اس کے ساتھ کوئی سورت پڑھ لے ۔ پھر رفع الیدین کرتا ہو ا اللہ اکبر کہے اور رکوع میں چلا جائے ۔ دوران ِ رکوع کمر بالکل سیدھی ہو اور دونوں ہاتھ اس طرح گھٹنوں پر رکھے ہوئے ہوں کہ بازو بالکل سدھے ہوں ، رکوع میں سرکمر کے برابر ہونا چاہیے نہ زیادہ نیچے ہوں او ر نہ زیادہ اوپر ، رکوع کی تسبحات پڑھے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اور رفع یدین کرتے ہوئے سیدھا کھڑا ہوجائے پھر ربنا لک الحمد کہے اور اطمینان سے کھڑا ہو جائے پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اس طرح سجدہ ریز ہو کہ پہلے زمین پر ہاتھ اور گھٹنے رکھے سجدے میں سات اعضاء یعنی دونوں ہاتھ ، دونوں پاؤں ، دونوں گھٹنے اور چہرہ (پیشانی اور ناک ) زمین پرلگے ہونے چاہیں ۔ سجدے میں کہنیاں زمین سے بلند او پہلوؤں او رانوں سے الگ رہیں ۔ سجدے کی تسبیحات پڑھنے کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنے بائیں پاؤں کو بچھا کر اور دائیں کو اس طرح کھڑا کر کے کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں پورے اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائے اور ربّ اغفر لی یا دوسری دعا پڑھے پھر اللہ اکبر کہے اور اسی طرح دوسرا سجدہ کرے پھر اللہ اکبر کہہ کر اطمینان سے جلسہء استراحت کیلئے قدرے بیٹھے اور پھر اپنے ہاتھوں پر وزن ڈالتا ہوا دوسری رکعت کیلئے کھڑا ہوجائے ۔ دوسری رکعت اُسی طرح پڑھے ، دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد تشہد کیلئے اس طرح بیٹھے جیسے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا تھا اور التحیات پڑھے تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانا ضروری نہیں ، آخر تشہد میں اپنی پشت کو اس طرح زمین پر رکھ کر بیٹھے کہ بایاں پاؤں دائیں جانب سے کچھ باہر آجائے ، اس تشہد میں درود ابراہیمی اور اس کے بعد مسنون دعائیں بھی پڑھے مکمل تشہد میں اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے اشارہ کرتا رہے اور آخر میں دونوں طرف سلام پھیر دے اور یاد رہے کہ اگر صرف ایک طرف (یعنی دائیں طرف )ہی سلام پھیر دیا جائے تو کفایت کر جاتا ہے ۔ (نماز کی کتاب ، تالیف حافظ عمران ایوب لاہوری باب کیفیۃ الصلٰو ۃ صفحہ نمبر 119)
مختصر تبصرہ :۔
احناف اور اہل حدیث کا طریقہ نماز پیش کیا گیا امید ہے آپ نے بغور پڑھا ہو گا بحمد اللہ خاصی مناست ہے اور جہاں معمولی فرق ہے وہ دونوں کے نزدیک ایسا نہیں جس سے نماز فاسد ہوتی ہو ہاں دونوں کے باریک فرق میں چند چیزیں سامنے آئیں جو یہ ہیں ۔
۱) ایک ہاتھوں کو زیر ناف باندھتاہے جبکہ دوسرا سینے پر ۔ ۲) ایک رکوع جاتے آتے رفع الیدین نہیں کرتا دوسرا رفع الیدین کی بات کرتا ہے ۔ ۳) ایک نے دوسجدوں کے درمیان ربّ اغفرلی پڑھنے کی بات کی دوسرے نے نہیں ۔
۴) ایک نے جلسہء استراحت کی بات کی دوسرے نے نہیں کی ۔ ۵) ایک نے پاؤں کے پنجوں پر بغیر ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے اٹھنے کا طریقہ بتایا جبکہ دوسرے نے ہاتھوں کو ٹیک کر اٹھنے کی بات کی ۔ ۶) ایک انگشت شہادت کو پورے آخری تشہد میں حرکت کی بات کرتا ہے دوسرا نہیں ۔ایسا ہی کوئی معمولی فرق اور بھی ہو گا ، مگر احناف کے طریقے میں جماعت کے ساتھ نماز کا طریقہ بیان ہوا ۔ کیونکہ جماعت سے نماز پڑھنا عام ہے جبکہ دوسرے بھائی نے منفرد نمازی کا طریقہ بتایا ۔ پھر یہ کہ احناف نے تسبیحات رکوع و سجود کی وضاحت بھی کردی جبکہ اہل حدیث بھائی نے اجمال رکھا پھر فقہ حنفی نے شروع میں نیت کی بات نہیں کی جبکہ دوسرے بھائی نے نیت پر زور دیا ۔ دونوں کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی کہ اہل حدیث نے اس طریقہ کو بیان کرنے میں کسی طرح چند اختلافا ت لانے کے علاوہ فقہ حنفی کا اتباع کیا ہے کیونکہ کسی ایک حدیث میں یہ پورا طریقہ نظر نہیں آیا البتہ مختلف احادیث کے مجموعہ سے یہ طریقہ ترتیب پاتا ہے جو فقہاء احناف نے اختیار کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ فقہاء پوری طرح اتباعِ سنت پر کاربند ہیں یہی وجہ ہے کہ پورے طریقہ میں ایک لفظ بھی انہوں نے اپنی طرف سے نہیں لگایا بلکہ جو احادیث کے مجموعہ سے سمجھا پوری دیانت سے پیش کر دیا اور یہی ان کا منصب بھی ہے کہ وہ خود رسول نہیں بلکہ رسول کی تعلیمات عوام تک ٹھیک طور پر پہنچانے والے ہیں ۔مذکورہ معمولی اختلافات پر آگے چل کر ان شاء اللہ بات ہو گی ۔ اب احناف کے طریقے پر پوری نماز قرآن و احادیث کی روشنی میں پیش خدمت ہے ۔
(۱) تکبیر تحریمہ:۔
یہاں تین باتیں سمجھنا ہیں ۔ ۱۔تکبیر ۲۔تحریمہ ۳۔ہاتھوں کا بلند کرنا کانوں کی لوتک ۔
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّہُورُ، وَتَحْرِیمُہَا التَّکْبِیرُ، وَتَحْلِیلُہَا التَّسْلِیمُ۔ (ابوداوٗد کتاب الطہارۃ باب فرض الوضوء ، ترمذی ، ابن ماجہ ، اور دارمی نے اس کو روایت کیا )
حضرت علیؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کی کنجی طہارت (وضو ،غسل اور تیمم ) ہے اوراس کی تحریمہ اللہ اکبر ہے اور سلام پھیرنا بندشِ تکبیر کو کھولتا ہے حلال کرتا ہے ۔
تشریح:۔
اس حدیث پاک سے تکبیر اولی اور اس کو تحریمہ کہنا بھی ثابت ہوا اور تکبیر اولی سے جو حرمت ثابت ہوئی سلام سے وہ حرمت ختم ہوگئی اور پھر سے آزاد ہوگئے یعنی جو افعال تکبیر تحریمہ سے حرام ہوئے تھے سلام سے حلال ہو گئے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کیلئے طہارت ضروری ہے مگر نیت کا شروع نماز میں کسی حدیث میں کوئی لفظ نہیں کہ وہ از خود ہوجاتی ہے تو انسان نماز کیلئے اٹھتا ہے ۔ عمران ایوب صاحب نے جس عموم سے نیت کو ثابت ولازم ہونے کی بات کی ان میں صرف نماز کی کیا خصوصیت ، ہر اچھے کام کو خالص اللہ کی رضا کے ارادے سے کرنا چاہیے مثلًا نکاح کرو ، تب نیت تلاوت کرو، تب نیت اذان دو ، تب نیت زکوۃ دو ، تب نیت یہ عموم ہے خاص نماز کے لئے الگ سے نیت کی بات ، اگر اتنی ہی لازم تھی تو کئی تعلیمات ِ نماز کے حوالے سے احادیث سامنے ہیں کسی حدیث میں ایک چھوٹا سا لفظ تو ہوتا ۔
پھر یہ لکھ کر حیران کیا کہ دل سے تو نیت کرے مگر زبان سے بدعت ہے ۔ اب جو کا م دل سے تو کار ثواب ہو وہی اگر زبان پر آجائے اور کار ثواب کا اظہار ہو جائے تو کار عذاب کیوں ؟ شاید مزاج شریف میں بدعت بارے غلوّ پایا جاتا ہے ۔ بھائی جان صرف اس کام سے رکنا ہے جس سے رسول ِ ذیشان علیہ السلام منع فرما دیں ۔
وما اٰتٰکُمُ الرَّسولُ فخذوہُ ومانھٰکم عنہ فانتھُوا ۔
اور جو رسول (کریم ) تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں رک جاؤ ۔ تو کیا حضور ﷺ نے کہیں نیت ِنماز کو زبان سے بولنے سے منع فرمایا ہے ؟ ہرگز نہیں اپنی طرف سے شریعت بارے احکامات صادر نہیں کرنے چاہیں شریعت وہی کافی ہے جو حضور ﷺ عطا فرماگئے۔ وہ تمام اعمال جن کی منع شریعت میں نہ ہو اور کار خیر ہوں وہ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ کے تحت اچھا طریقہ ہیں بدعت نہیں۔
تکبیر بارے اٰیاتِ قرآنیہ :۔
۱) وربِّک فکبِّر ۔(المدثر ۔۳)
اور اپنے پرورد گار کی بڑائی بیان کر ۔
۲) و کَبِّرہُ تکبیرًا ۔(بنی اسرائیل ۔۱۱۱)
اور اس کی بڑائی بیان کرو کمال درجہ کی بڑائی ۔
۳) وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰیکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (البقرہ۔ 185)
اوراللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم (اس کی بے شمار نعمتوں پر )شکر گزاری کیا کرو۔
نماز کی ابتداء اور پھر اٹھتے بیٹھتے تکبیر کا تکرار انہی اٰیات میں موجود حکم کی بجا آوری ہے ۔
شروع نماز میں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک بلند کرنا:۔
۱) مالک ابن حویرثؓ کان النبی ﷺ اذا کبّر رفع یدیہ حتٰی یحاذی اُذنیہ وفی لفظٍ حتٰٰی یحاذی بھما فروعَ اُذنیہ۔ (مسلم ،طحاوی بحوالہ جاء الحق ،دارمی ، بیہقی وغیرھم )
مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب تکبیر فرماتے تو ہاتھوں کو کانوں کے برابر بلند فرماتے اور ایک لفظ یوں ہے کہ کانوں کی لو تک بلند فرماتے۔
۲) عَنِ الْبَرَاء ِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَی قَرِیبٍ مِنْ أُذُنَیْہِ، ثُمَّ لَا یَعُودُ.
( ابو داوٗد کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع )
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ جب نماز شروع فرماتے تو کانوں کے قریب تک دونوں ہاتھ مبارک اٹھاتے پھر (پوری نماز میں) نہ اٹھاتے۔
۳)۔عَنِ الْبَرَاء ِ , أَنَّہُ رَأَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی حَاذَی بِہِمَا أُذُنَیْہِ , ثُمَّ لَمْ یَعُدْ إِلَی شَیْء ٍ مِنْ ذَلِکَ حَتَّی فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ۔ (دارقطنی)
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو دیکھا جب آپ نے نماز شروع کی تو دونوں ہاتھ کانوں برابر بلند کیے پھر کسی جگہ رفع الیدین نہ کیا کہ نماز سے فارغ ہوگئے۔
نوٹ:۔ چونکہ روایت کا ندھوں اور کانوں تک متعارض ہیں تو کانوں تک بلند کرنے سے سب احادیث پر عمل ہو جاتا ہے۔
۴)۔ عن وائل بن حجرؓ انّہ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ حِینَ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ کَبَّرَ، – وَصَفَ ہَمَّامٌ حِیَالَ أُذُنَیْہِ – ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِہِ
( مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری بعد تکبیرہ الإحرام تحت صدرہ فوق سرتہ، ووضعہما فی السجود علی الأرض حذو منکبیہ )
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ہاتھ بلند فرمائے اور تکبیر کہی ایک راوی (ھمام)نے فرمایا کہ آپ نے کانوں برابر ہاتھ بلند کیے پھر چادر میں کر لئے ۔
۵)۔ ان النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی کَانَتَا بِحِیَالِ مَنْکِبَیْہِ وَحَاذَی بِإِبْہَامَیْہِ أُذُنَیْہِ، ثُمَّ کَبَّر
۔(ابو داوٗد کتاب الصلاۃ. باب رفع الیدین فی الصلاۃ، عن وائل بن حجرؓ)
نبی ﷺ نے ہاتھ بلند فرمائے تو ہاتھ کاندھوں برابر اور انگوٹھے کانوں برابر ہوگئے۔
یہ مسئلہ میرے نزدیک باعث ِنزاع نہیں کہ ہاتھوں کو کاندھوں برابر بھی اٹھائیں تو انگوٹھے کانوں برابر ہو جاتے ہیں پھر تھوڑا اوپر نیچے سے فرق بھی نہیں پڑتا اور کانوں کی لو تک مولانا عمران ایوب لاہوری نے بھی تسلیم کیا ہے ، مزید طلب ہو تو جاء الحق تنسیق النظام شرح مسند امام اعظمؒ حاشیہ نمبر ۷ صفحہ نمبر ۴۸ کی طرف رجوع کریں۔
شیخ الطائضہ حضرت عبدالقادر جیلانی ؒکی رائے ۔آپ فرماتے ہیں۔
ویَرفع یدَیہ الیٰ فروع اُذُنیہ ۔
ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھائے ۔ بحوالہ غنیۃ الطلبین فصل و ینبغی لکلّ مصلّی اب یقدّم الخر ۔صفحہ نمبر ۵۹۱)
ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا :۔
جب نمازی تکبیر تحریمہ نے فارغ ہو تو ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لے حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتے ہیں اور امام مالک ؒ وشافعی واحمد رحھم اللہ سے بھی ایک ایک قول ایسا ہی منقول ہے ۔ناف پر باندھنے میں یہ حکمتیں بھی نظر آتی ہیں کہ ایک تو فطرت کے مطابق ہے کہ ہاتھ اس سے نیچے تو باندھے ہی نہیں جا سکتے یہاں خود بخود ہاتھ رک جاتے ہیں روک کر رکھنا نہیں پڑتا جیسا کہ سینہ پر دوسرایہ کہ سینہ پر باندھنے سے کہینیاں ادھرادھر نکل کر جماعت میں ساتھ کھڑے نمازیوں کی تکلیف کا باعث بھی ہونگی اور نمازی اچھی طرح مل کر بھی کھڑے نہ ہوسکیں گے ۔ ممکن ہے جن روایات میں سینے پر باندھنے کی بات ہے وہ حضورﷺ کی انفرادی نماز ہو ناف پر ہاتھ باندھنے کے دلائل درج ذیل ہیں ۔
۱)۔ عن وائل بن حجر قال رأیت رسول اللّٰہ ﷺ وضع یمینہٗ علی شمالہٖ تحت السرّۃ ۔ (ابن ابی شیبہ )
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو ناف کے نیچے دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے دیکھا۔
ابن ابی شیبہ کی یہ روایت صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔
۲)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: أَخْذُ الْأَکُفِّ عَلَی الْأَکُفِّ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ ۔
(ابوداوٗد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ)
ابو وائل ؓ نے کہا کہنماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنی چاہیے ۔
جب ہتھیلی پر ہتھیلی رکھ کر ہاتھوں کوآزاد چھوریں تو زیز ِناف ہی رکھتے ہیں ۔
۳)۔ عن علیّ انّ من السنّۃ فی الصلوۃ وضع الکف و فی روایۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرّۃ ۔
(رواہ دارقطنی و ابوداوٗدکتاب الصلاۃ باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ )
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہنماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اور ایک روایت میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے ۔
نوٹ:۔ ایک روایت کو جب دوسری روایت تا ئید دے رہی ہو تو صنف ناقابل ِ سماعت ہے خاص کر جب عقیدہ نہیں ایک عمل ثابت کیا جارہا ہو ۔
۴)۔ عن ابن حزم ؓ عن انسٍ ؓ انہ قال من اخلاق النّبویۃِ وضع الیمین علی الشمال تحت السرّۃ ۔
(دارقطنی ، وابو داوٗد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ناف نیچے دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا اخلاق نبوت سے ہے ۔
۵)۔ عن سھل بن سعدؓ قال کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُونَ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ الیَدَ الیُمْنَی عَلَی ذِرَاعِہِ الیُسْرَی فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَبُو حَازِمٍ لاَ أَعْلَمُہُ إِلَّا یَنْمِی ذَلِکَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔(بخاری ج۱ کتاب الاذان باب وضع الیمنی علی الیسرٰی فی الصلوٰۃ )
حضرت سھل بن سعدؓسے روایت ہے کہ لوگو ں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلا ئی پر رکھیں اور ابو حاذم نے کہا مجھے معلوم ہے یہ بات نبی ﷺ سے منقول ہے ۔
بخاری میں اس روایت کے علاوہ اس مسئلہ پر کو ئی دو سری روایت نہیں جبکہ اس روایت میں سینہ یا ناف کا کو ئی تعین نہیں ہاں ہاتھ اگر ناف نیچے بھی باندھیں تو بھی ایک ہاتھ دوسرے کی کلائی پر آجاتا ہے کہ کلائی ہاتھ سے نیچے تک ہے احناف کے معمول میں زیرِ ناف ہاتھ کلائی پر ہی ہو تا ہے ۔ باقی حضورﷺ سے مشہور احادیث بخاری و مسلم و غیرہ میں نماز کے طر یقے بارے ہیں ان میں اس کا ذکر تک نہیں ۔ لہذا اس عمل پر طر فین کو شدت ظاہر کر نے کی قطعاً حاجت نہیں ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے پر امام شافعی ؒ بھی صحیح حدیث سے استدلال فرماتے ہیں جس پر احناف کا عمل اس طرح ہے کہ عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں۔ لہذا احناف کا عمل سینہ اور زیر ِ ناف دونوں احادیث پر ہے کہ مرد زیر ِ ناف اور عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھ کر عمل کر لیتی ہیں ۔
ثناء اور اس کا ثبوت:۔
چونکہ حضور ﷺ سے یہ عمل تواتر سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ تمام خطبوں کی ابتداء ثناء باری تعالیٰ سے فرماتے تھے جیسے خطبہ جمعہ و عیدین وغیرہ اور حق بھی یہی ہے کہ اللہ کریم کی حمد و ستائش اور تعریف و توصیف مقدم ہو جبکہ نماز در اصل ہے ہی بارگاہ رب العزّت میں حاضری تو یہاں بدرجہ اولٰی لازم ہے کہ پہلے حصّے میں ثناءِ باری تعالیٰ کی جائے اور یہی عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ۔
۱۔ عن ابی ھریرۃ ؓ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْکُتُ بَیْنَ التَّکْبِیرِ وَبَیْنَ القِرَاء َۃِ إِسْکَاتَۃً – قَالَ أَحْسِبُہُ قَالَ: ہُنَیَّۃً – فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِسْکَاتُکَ بَیْنَ التَّکْبِیرِ وَالقِرَاء َۃِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: ” أَقُولُ: اللَّہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ۔۔۔۔۔۔۔الخ (بخاری کتاب الاذان باب مایُقرأ بعد التکبیر )
حضرت ابو ھریرہؓ نے بتایا تھوڑا ساسکوت فرماتے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ قربان ہوں جناب پر آپ تکبیر و قرأۃ میں سکوت فرماتے ہیں اس دوران آپ کیا پڑھتے ہیں تو جناب نے فرمایا کہ میں یہ دعا پڑھتا ہوں ۔
اس سے ماقبل روایت بخاری میں ہے کہ ابو بکر و عمر ؓ اپنی نماز کا آغاز الحمد للہ رب العٰلمین سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابو بکر وعمر ؓ جہری تلاوت کا آغاز الحمد سے کرتے تھے اور یہی سنتِ نبوی ﷺ بھی ہے نہ یہ کہ وہ ثناء ہی نہ پڑھتے تھے ۔ امام بخاریؒ نے ان دونوں راویات کو ایک جگہ رکھ کر عام پڑھنے والے انسان کو تردد و شک میں تو ڈال دیا اور احادیث کے درمیان مناسب تطبیق اس لئے نہ دی کہ ان کا منصب صرف روایات لانا ہے تطبیق و مسائل کا اخراج نہیں ۔
۲۔ حضرت سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع میں نماز کے اندر یہ پڑھتے تھے ۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰـہَ غَیْرُکَ ۔(صحیح ابو داوٗد ،کتاب الصلوٰۃ باب من رأی الاستفتاح بِسُبحانک اللّھمّ و بحمدک۔۔۔ الخر ، ترمذی ،ابن ماجہ )
حضرت سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نماز میں اس طرح پڑھتے تھے ۔ اے اللہ تو (ہر عیب سے ) پاک ہے تیری ہی حمد و تعریف ہے تیرا نام برکت و شان والا ہے اور تیری شان ہی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود (قابلِ عبادت) نہیں ۔
نوٹ:۔ گو حضور ﷺ سے اس مقام ِدعا پر احادیث میں دوسری دعائیں بھی منقول ہیں مگر جناب سیدہ عائشہ ؓ کی طرح امام ابو حنیفہ ؒ اور آپ کے مقلدین مذکو رہ الفاظ ِثناء کو تر جیح دیتے ہیں اس لیے کہ ثناء کو دعا پر تقدم حاصل ہے پھر ثناء میں یہ الفاظ انتہائی آسان مگر جامع الثناء ہیں قرآن کی سینکڑوں آیات پر عمل بھی ہو جاتا ہے جو ثناء ربانی کے مطالبہ پر دلالت کرتی ہیں اور نماز سے مقصود بھی زیادہ فرمودات ِربانی کی تعمیل ہے اور شیخ الطائفہ عبدالقادر جیلانی ؒ بھی یہی فرماتے ہیں اپنی تصنیف غنیہ الطالبین ص۵۹۱ نمازکے اداب فصل ق ینبغی لکل مصلی۔۔ الخرمیں ہے کہ مذکورہ ثناء پڑھےَ۔
ایک اصولی بات :۔
اکثر نماز بارے مابین اختلافات کی حیثیت راحج مر جوح کی ہے جواز و عدم جواز کی نہیں ۔ لہذا اپنی رائے پر عمل کرتے ہوئے دوسری آراء کو خوش اسلوبی سے برداشت کریں کہ اس کا اصلًا انکار نہیں صرف ہمارے نزدیک جو راجح ہوتا ہے پیش کر دیتے ہیں ۔ زندگی بھر دوسری رائے سے آنے والی حدیث کو اتنا ہی احترام دیں جتنا آپ اپنی رائے پر پیش کی جانے والی حدیث کو دیتے ہیں اس لئے کہ یہ احترام صرف احادیث کا ہی نہیں بلکہ در حقیقت اُس نبی محترم ﷺ کا ہے جس کی یہ احادیث ہیں آپ نے اعمال کو مختلف انداز میں کرکے ہمارے لئے آسانی کا راستہ کھلا رکھا ہم نے اس آسانی سے غلط فائدہ اٹھاکر ان اعمال کو متعارض تصور کرتے ہوئے اختلافِ امت کا سبب بنا دیا ۔ العیاذ باللہ ۔
ثناء کے بارے میں علامہ شو کانی ؒ کی رائے :۔
علامہ شوکانی ؒ جو اہل حدیث طبقہ کے جیّد عالم دین ہیں وہ اپنی تالیف السیل الجرار میں فرماتے ہیں کہ بلا تردّد یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ پہلی تکبیر کے بعد دُعائے استفتاح پڑھتے تھے اور قرأۃ کی ابتداء سے پہلے تعوّذ بھی پڑھتے تھے ۔
ثناء بارے اٰیات مبارکہ :۔
(۱) دَعْوٰیہُمْ فِیْہَا سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰیہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (سورۃ یونس۔۱۰)
اہل جنت کی وہاں صدایہ ہو گی پاک ہے تو اے اللہ اور ان کی دُعا یہ ہو گی ‘‘ سلامتی ہو ’’ او ر ان کی آخری پکار یہ ہو گی کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو مرتبہ کمال تک پہنچانے والا ہے سارے جہانوں کو ۔
(۲) سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ o (سورۃ الصّفٰت۔۱۸۰)
پاک ہے آپ کا رب جو عزّت کا مالک ہے ان باتو ں سے جو وہ کیا کرتے ہیں ۔
(۳) قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo (سورۃ البقرہ۔۳۲)
عرض کیا فرشتوں نے:۔ہر عیب سے پاک(اے اللہ) تو ہی ہے۔کچھ علم نہیں ہمیں مگر جتنا تو نے ہمیں علم سکھادیا۔
(۴) فَسَبِّح بِحَمْدِِ رَبِّکَ ۔ (سورۃ النصر)
اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کیجئے۔
(۵) فَسُبْحٰنَ اللہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ o (سورۃ الروم۔۱۷)
سوپاکی بیان کرو اللہ تعالیٰ کی جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو۔
(۶) سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ ۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔۱)
(ہر عیب سے )پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے (خاص) بندے کو۔
چند مزید کتب کا حوالہ:۔
احادیث کی چند مزید کتب کا حوالہ پیشِ خدمت ہے جن میں مذکورہ مشہور ثناء کے الفاظ ہُو بہُو ملتے ہیں۔
(ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب مایقول عند افتتاح الصلوٰۃ حدیث نمبر ۲۴۰)
(مستدرک باب التّامین عن عائشۃ ؓ ۔تحفۃ الاحوذی باب مایقول عند افتتاحِ الصلوٰۃ حدیث نمبر ۲۴۱)
(نسائی عن ابی سعید خدری ؓ رقم ۸۹۴ ۔ ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب افتتاحِ الصلوٰۃ )
(کنزالعمال ، مجمع الزوائد معجم الطبرانی ابکیر عن حکم بن عمیر )
کوئی ڈیڑھ سو حوالوں سے ثناء کے بعینہ یہی الفاظ پچاس کتب احادیث کے متن میں ہے شرح اس کے علاوہ ہیں۔ حیرت ہے امام بخاریؒ پر جس پر تواتر سے عملِ امت جاری ہے۔ امام بخاریؒ نے نام تک نہیں لیا۔لہذا معلوم ہوا کہ بخاری میں کسی روایت کا نہ ہونا قطعاً معیوب نہیں۔
اللہ جل شانہ سب محدثین و فقہاء کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ابن تیمیہؒ نے بالحوالہ ابو بکرؓو عمرؓ وعثمانؓ و عبداللہؓ بن مسعودؓ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثناء کے مروجہ الفاظ نقل کر کے اسی کو حضور ﷺ کا عمومی اور راحج عمل قرار دیا ۔ (منتقیٰ تالیف ابن تیمیہ ؒ )
تعوّذ:۔یعنی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
پڑھنا ۔ نماز ی ثناء کے بابرکت کلمات پڑھنے کے بعد چونکہ اب نماز کے انتہائی اہم حصّہ تلاوتِ قرآن کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس عظیم کتاب قرآن مجید کی تلاوت کے آداب کے پیش نظر حکم خداوندی کے تحت اب تعوذ پڑھ کر شیطان مردود سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا محتاج ہے تاکہ شیطان وساوس ِ لغویہ سے نماز کے اس اہم ترین حصہ کو متاثر نہ کر سکے ۔ رب کریم نے حکم دیا۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ?? o (سورۃ النحل ۔۹۸)
تو جب تم قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو پناہ مانگو اللہ تعالیٰ سے اس شیطان (کی وسوسہ اندازیوں ) سے جو مردود ہے ۔ پھر فرمایا:۔
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ o (حم سجدہ۔۳۶)
‘‘( اے قرآن سننے والے ) اگر شیطان کی طرف سے تیرے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ ’’۔
حدیث سے ظاہر ہے اور تجربہ بھی گواہ ہے کہ جب انسان نمازشروع کر لیتا ہے تو شیطان اس کے دل کے پاس آکر وسوسہ اندازی کرتا ہے تو اس کو دفع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تعوّذ کا حکم دیا جس کی بجاوری کی یہی موزوں ترین جگہ ہے ۔ جو ایت کریمہ میں نے ابھی پیشِ خدمت کی انھی الفاظ سے یہ اٰیت سورۃ الاعراف ایت ۲۰۱ پر بھی موجود ہے اس جگہ پر اگلی ایت ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ o (الاعراف۔۲۰۱)
بے شک جو لوگ تقوٰی اختیار کرتے ہیں جب چُھوتا ہے انہیں کوئی خیال شیطان کی طرف سے تو وہ (اللہ کو ) یاد کرتے ہیں تو فورًا ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ یعنی شیطانی وسوسہ دفع ہو جاتا ہے ۔اور وہ ہوش میں آجاتے ہیں۔ یہ اٰیت تعوّذ کی اہمیت کے ساتھ تسمیہ کا بیان بھی ہے جو اعلیٰ ذکر الہی ہے ۔ یہ دونوں سرًّا پڑھیں ۔
تسمیہ :۔
تعوّذ کے بعد نمازی پڑھتا ہے ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔ اس کا نام تسمیہ ہے یہ ایک طرف سورۃ النمل کی ایت نمبر ۳۰ کا جُز ہے نہ کہ پوری آیت ۔ جناب سلیمان ؑ نے جب بلقیس کے نام نامہ مبارک تحریر فرمایا تو اس کے سر ورق تحریر فرمایا جس سے ظاہر ہے کہ تسمیہ نزولِ قرآن سے قبل بھی آسمانی کتابوں کا حصّہ تھا ۔ دوسری طرف یہ تسمیہ ہر سورۃ کا مقدمہ بھی ہے مگر سورۃ کے اندر نہیں باہر الگ سے ہر سورۃ کی ابتداء کی نیت بنتا ہے تو اب چونکہ نمازی سورۃ فاتحہ شروع کر رہا ہے تو اس کے ماتھے کا جھومر بھی یہی تسمیہ ہے اس لئے اسے پڑھے بغیر آگے نہیں جا سکتا ۔ مگر چونکہ تسمیہ فاتحہ کے اندر نہیں یہی وجہ ہے کہ باقی اذکاِر نماز کی طرح اس کو سرًّا ہی پڑھا جائے گا تاکہ جہری نمازوں میں جہرًا صرف اور صرف خالص فاتحہ اور پھر قرآن پڑھا جائے کہ اس کی امتیازی شان کو ظاہر کیا جائے ۔جب وہ تسمیہ جو سورۃ فاتحہ کے او پر شروع میں تحریر ہے اور سورہ نمل کا بھی جز ہے اس کو جب سرًّا پڑھنے پر سب متفق ہیں کہ صرف قرآن ہی اونچا پڑھا جائے تو وہ اٰمین جو فاتحہ کے آخر میں لکھے جانے کی سعادت سے بھی محروم ہے اس کو مثلِ قرآن اُونچا جہر سے پڑھنے کے بارے میں جناب کی رائے کیا ہے ۔ امید ہے بات پوری طرح سمجھ آگئی ہو گی باقی بات اپنے محل پرکی جائے گی ۔ ہاں تسمیہ کی فضیلت اور خیرات و برکات کثیر ہیں اس میں لفظ اللہ اسم جلالہ اور دواھم صفات رحمانیت جمع ہیں ہر نیک کام اسی کے پڑھنے سے افتتاح پاتا ہے ۔ یہاں جو لفظ خالص فاتحہ کا استعمال کیا اس سے مراد یہ ہے کہ تسمیہ فاتحہ کا جزو نہیں کہ وہ صرف سات اٰیات ہیں جن میں تسمیہ نہیں ۔اگر جناب کو میری رائے سے اختلاف ہو تو ملاحظہ ہو قرآن ۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ o (سورۃ الحجر ۔۸۷)
اور بے شک ہم نے عطا فرمائی ہیں آپ کو سات آیتیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور قرآن عظیم بھی ۔
یہاں یہ تصور نہ پیدا ہوکہ سورۃ فاتحہ قرآن عظیم کے علاوہ ہے اس لئے اس کا بیان الگ ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی شان پورے قرآن سے نرالی ہے اس لئے اس کا بیان شروع میں الگ کیا گیا جیسا کہ سورۃ النباء میں ہے ‘‘ یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ’’ کہ جس روز روح اور فرشتے صف بنائے کھڑے ہونگے ۔ یہاں روح الامین کو ملائکہ سے الگ شروع میں بیان کرنا اس کی خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہاں لفظِ صفًّا اور ایسے قرآن میں دوسری جگہ کے ایسے ہی الفاظ دوران جماعت صف بندی کی اصل ہیں مگر چونکہ یہ اس بیان کی جگہ نہیں اس لئے ساری اٰیات پیش نہیں کی جاتیں پھر سورۃ فاتحہ کو ایک تو الگ ذکر کرکے اس کی اہمیت کا ظاہر کیا دوسرا مثانی کا لفظ خوب بڑھایا گیا جس کا معنی ہے جو اٰیاتِ فاتحہ باربار پڑھی جاتی ہیں یہ صاف دلیل ہے اس بات کی کہ سورۃ فاتحہ کو ہر رکعت میں ہی پڑھا جاتا ہے فرائض ، وتر ، سنن ونوافل ، جمعہ وعیدین ہر جگہ فاتحہ تلاوت ہوتی ہے ۔ فرضوں کی پہلی دورکعتوں کے علاوہ قرأۃ باقی تو ساقط ہو جاتی ہے جبکہ فاتحہ وہاں بھی پڑھی جاتی ہے ۔ کچھ احباب تو صرف نماز جنازہ میں ایک بار پڑھ کر فارغ ہو جاتے ہیں ہم کئی دنوں تک بلکہ کئی مہینوں تک میت کے گھر والوں کے پاس جاکر یہی فاتحہ پڑھ کر باربار دھراتے ہیں کہ قرآن نے اسے مثانی باربار پڑھی جانے والی بتایا اب فرمائیں کہ فاتحہ کو زیادہ کون پڑھتا ہے آپ یا ہم احناف ۔ آپ تو صرف ‘‘ لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب ’’ کرتے ہیں ہم یہ بھی کرتے ہیں ۔اور ‘‘ لا دُعاءَ الّا بفاتحۃ الکتاب ’’ کرتے ہیں کہ ہر میّت کے گھر یہی فاتحہ ہی تو جا کے پڑھتے ہیں ۔ سورہ فاتحہ کی جامعیت اور بے انتہا برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ایسا ہی کرنے اور فاتحہ پڑھنے کی توفیق دے ۔
تسمیہ چونکہ فاتحہ کے شروع میں قرآن میں لکھی ہوئی ہے گو الگ سے لکھی گئی ہے اس لئے اس پر دلائل کی حاجت نہیں تعوّذ کی تائید قرآن کے ساتھ احادیث میں ملتی ہے ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ اور احمد و ابو داوٗد نے حضرت ابو سعید الخدری ؓ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ جب نماز کے لئے کھڑتے ہوتے تو پہلے دعا استفتاح یعنی ثناء وغیرہ پڑھتے پھر تعوّذ پڑھتے جس کے الفاظ کچھ مختلف ملتے ہیں مگر آسان اور مختصر یہی ہیں جو معروف ہیں اور یہ حدیث میں بھی اسی طرح ملتے ہیں ۔
تعوّذ اور تسمیہ کا نماز میں حکم :۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ ان تین ائمہ فقہ کے نزدیک اور امام حسن ، امام عطاء ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعی ، امام اسحاق اور امام ابن سیرین ؒ کے نزدیک نماز میں قرأت سے قبل تعوّذ کا پڑھنا سنتِ نبوی ﷺ ہے ۔ جبکہ امام مالک ؒ تعوّذ نہ پڑھنے کے قائل ہیں اہل حدیث کے دور حاضر کے معروف عالم دین شیخ ناصر الدین البانی ؒ ہر رکعت کے شروع میں اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ احناف پہلی مرتبہ پڑھنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں کہ مجلس ایک ہے لہذا جب تک سلام پھیر کر نئی مجلس نہ ہو ایک مجلس کی رکعتوں میں تکرار کی ضرورت نہیں کہ قرآن میں تعوّذ کا حکم ہے اور حکم تکرار کا تقاضانہیں کرتا جب پہلی رکعت میں تعوّذ پڑھ لیا تو امر کا تقاضا پورا ہو گیا ۔لہذا تکرار کی ضرورت نہیں ۔ امام عطاءؒ امام نخعی َ اورا مام ثوری ؒ کا بھی یہی موقف ہے ملاحظہ ہو المجموع جلد 3 صفحہ ۳۲۶ ۔
جبکہ بسم اللہ شریف تعوذ کے بعد پڑھنا امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک مستحب ہے ۔(تحفۃ الاحوذی ج2 ) امام شافعی ؒ اسے فاتحہ کی طرح واجب فرماتے ہیں اور امام مالک ؒ مکروہ بتاتے ہیں۔ بسم اللہ شریف کو علامہ صدیق حسن خان نے ‘‘ الروضۃ الندیۃ جلد ۱ میں ہر سورۃ کی اٰیت بتایا جبکہ حقیقت اس کے خلاف اسطرح ہے کہ فاتحہ کو قرآن نے خودسات اٰیات بتایا جو کہ بسم اللہ کے بغیر ہی پوری ہوجاتی ہیں الگ اسے ملائیں تو فاتحہ آٹھ اٰیات ہو جائے گی جو درست نہیں کہ قرآن وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا(سات) ہے الْمَثَانِیْ (آٹھ ) نہیں۔ دوسری دلیل یہ کہ بخاری کتاب الصلوٰۃ وغیرہ میں صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ابوبکر و عمر ؓ اور خود رسول اللہ ﷺ تلاوت کا آغاز (جہرًا ) الحمد للہ رب العالمین سے فرماتے تھے تو کیا حضور ﷺ فاتحہ کی پہلی ایت چُھپاجاتے ؟ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ؒ کی رائے اس بارے میں وزنی اور مبنی بر حق ہے کہ بسم اللہ ہر سورۃ کا جز نہیں اگر ہوتی تو سورۃ کے اندر لکھی بھی جاتی یہ سورۃ نمل کا جز ہے حدِّ فاصل کے طور پر لکھی جاتی ہے ۔ ہاں تعوّذ و تسمیہ کو سرًّا ہی پڑھا جائے گا کہ یہی احادیث سے ثابت ہو رہا ہے ۔
سُورۃِ فاتحہ کے فضائل:۔
تعوذ و تسمیہ کے بعد چونکہ نمازی سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے اس لئے اس کے فضائل ذکر کررہے ہیں کہ نمازی فاتحہ کی عظمت و فضیلت کو تصوّر میں لے کر اس کی تلاوت شروع کرے ۔
۱) اللہ کریم فرماتے ہیں کہ سورۃفاتحہ کی آدھی قرأۃ میرے لئے اور ادھی میرے بندے کے لئے ہے ۔ جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں میرے بندے نے میری تعریف کی جب بندہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری ثناء بیان کی اور جب بندہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کہتا ہے تو اللہ جل شأنہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان فرمائی جب بندہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کہتا ہے تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اورمیرے بندے کے حصّے میں وہی ہے جو وہ مجھ سے مانگے جب وہ اِھْدِ نَا الصِّرٰطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرٰطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ o کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مانگے اس کے لئے وہی ہے ۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قرأۃ الفاتحہ فی کل ریعۃٍ ۔
نوٹ:۔ جس طرح امام مسلم ؒ نے وجوب فاتحہ کا لفظ استعمال کیا عین اسی طرح احناف کے نزدیک سورۃ فاتحہ کا ہر رکعت میں پڑھنا واجب ہے ۔ فاتح خلف الامام پر بحث بعد میں آئے گی ۔
۲) حضرت سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جبرائیل ﷺ نبی کریم ﷺ کی بار گاہ میں حاضر تھے کہ انھوں نے اپنے سر پر آواز سُنی اُوپر دیکھا اور کہا یہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کھولا گیا پھر اس سے ایک فرشتہ نیچے اترا تو جبرائیل ؑ نے حضور ﷺ کی خدمت عالیہ میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ دونُوروں کی خوشخبری لیجئے جو صرف آپ کو ہی عطا ہوئے آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے ۔ وہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں ہیں ۔ آپ ﷺ ان دونوں میں سے جو بھی حرف پڑھیں گے تو اس حرف کے بدلے میں آپ پر عطائیں کی جائیں گی ۔
(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین باب فضل الفاتحۃ و خواتیم سورۃ بقرۃ) ۔
۳) سیدنا ابوھریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ سرور عالم ﷺ سیدنا ابی بن کعب ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہیں ایک ایسی سورت سکھاؤں جو نہ تورات میں نازل ہوئی نہ انجیل و زبُور میں اور نہ ہی اس طرح کی کوئی دوسری سورت خود قرآن میں نازل ہوئی ؟ عرض کیا ضرور فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم نماز میں کیا پڑھتے ہو ؟ تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر سنائی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے اس جیسی سورت نہ تورات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں اس جیسی کوئی دوسری سورت نازل ہوئی ۔ بے شک یہ سبع مثانی اور قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ۔ (ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجاء فی فضل فاتحہ الکتاب جلد ۴ رقم ۲۸۸۴ ) ۔
۴) حضرت انس ؓ سے روایت ہے حضور ﷺ دوران سفر ایک آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں تمہیں قرآن مجید کے افضل حصّے کے بارے میں نہ بتلاؤں ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتائیے تو آپ ؐ نے الحمد للہ رب العالمین کی تلاوت فرمائی ۔
(المستدرک کتاب فضائل القرآن باب شناء المجنون بقرأۃ فاتحہ الکتاب جلد ۲ رقم ۲۱۰۰) ۔
نوٹ۔ جو سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ کوئی اور اس سے افضل کلمات و اٰیات سے دم کرتا ہے وہ بات کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ سے جب افضل اٰیات کسی آسمانی کتاب میں نازل ہی نہیں ہوئیں تو وہ ایسا گمان کیوں کرے ۔ سوائے موت کے ہر ظاہری و باطنی روحانی وجسمانی بیماری کا حل سورۃ فاتحہ میں مُضمر ہے ۔ سورۃ فاتحہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور بندے کے حق میں دعاہے اس لئے اللہ کریم نے فرمایا کہ فاتحہ میرے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے کہ میری ثناء بھی اور بندے کیلئے دُعا بھی سورۃ فاتحہ کو باقی قرآن پر اس قدر امتیاز و اعزاز دیا گیا کہ ایک تو اس کو تمام سورتوں سے پہلے لایا گیا اور اس کو وہ حیثیت ملی جو بدن انسانی میں چہرہ کی ہوتی ہے دوسرا یہ امتیاز کہ سورۃ فاتحہ کو باقی قرآن کی طرح رکوع ہی شمار ہی نہیں کیا گیا ورنہ تو یہ درحقیقت پارہ اوّل کا پہلا رکوع ہے مگر شمار نہیں کیا بلکہ رکوع ِ اول سورۃ بقرہ سے شروع ہوا ۔ جیسے جبرائیل ؑ فرشتہ ہی ہے مگر الف سے ذکر ہوا ۔
نماز میں قرأتِ قرآن:۔
بعد از تعوذ و تسمیہ نمازی پہلے سورۃ فاتحہ اور پھر باقی قرآن میں سے کچھ مناسب تلاوت کم از کم اتنی ضرور کرتا ہے پہلی دورکعتوں میں جس کو قرأۃ قرآن کہا جاسکے جس کو ہمارے اسلاف نے ایک لمبی اٰیت یا تین چھوٹی اٰیات سے تعبیر کیا ہے ۔ رکعت میں مطلق قرآن کی تلاوت قیام و رکوع و سجود کی طرح ایک لازمی جزو اور فرائض نماز میں سے ہے جبکہ سورۃ فاتحہ کا باقی قرأت سے پہلے خصوصیت سے پڑھنا واجب بتایا کہ احادیث اس کی اہمیت و عظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور خود قرآن بھی ۔ پہلی دورکعتوں کے بعد تیسری ہو یا چوتھی رکعت اسمیں فاتحہ تو پڑھی جائے گی مگر قرأت باقی قرآن سے لازم نہیں ۔
۱۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِقِرَاء َۃٍ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَمَا أَعْلَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْلَنَّاہُ لَکُمْ، وَمَا أَخْفَاہُ أَخْفَیْنَاہُ لَکُمْ ۔
(مسلم کتاب الصلاۃباب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، وإنہ إذا لم یحسن الفاتحۃ ولا أمکنہ تعلمہا قرأ ما تیسر لہ من غیرہا )
حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن کی قرأت کے بغیر نماز نہیں ہوتی پھر ابو ھریرہ ؓ نے فرمایا جن نمازوں میں رسول اللہ ﷺ جہر سے تلاوت فرماتے ہم بھی جہر کرتے ہیں اور جن میں آپ ﷺ مخفی پڑھتے ہم بھی تم سے مخفی پڑھتے ہیں۔
جہری نمازوں میں جہرا و ر سرّی میں سرّ حضور ﷺ کا ذاتی عمل نہیں :۔
جن نمازوں میں حضور ﷺ جہر سے تلاوت فرماتے اور جن میں سرّ یعنی خاموشی سے تلاوت فرماتے یہ آپ کا اپنا انتخاب اور اجتہاد نہ تھا بلکہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہی ایسا تھا کہ جب آپ نماز میں جہر سے تلاوت فرماتے تو کفار و مشرکین شور مچاتے کہ کوئی اس کلام کو صحیح طرح سن نہ پائے پارہ ۲۴ میں ہے
وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ o (حم سجدہ۔۲۶)
اور کفّار نے کہا کہ مت سناکرو اس قرآن کو اور شور وغل مچایا کرواس کی تلاوت کے دوران تاکہ تم غالب آجاؤ ۔ کفار ومشرکین کی اس روش کی وجہ سے اونچے پڑھنے کا قصد چونکہ ختم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے سرّ کا حکم دیا سوائے فجر و مغرب و عشاء کے کہ ان تین اوقات میں فجر کے وقت سوئے ہوتے مغرب میں کھانے میں مصروف اور عشاء کورات کی محفلوں میں مگن تو یوں جہر وسر ترتیب پائے پھر اسی حکم خداوندی کو باقی رکھا گیا کہ نیا حکم تنسیخ نہ آیا جو پہلے حکم کو منسوخ کرتا از خود حکم خداوندی کو کوئی منسوخ نہیں کر سکتا ۔ حکم خداوندی یہ ہے۔
۲۔ عن ابن عباس ؓ قال قَرَأَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا أُمِرَ وَسَکَتَ فِیمَا أُمِرَ، (وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا) (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (بخاری کتاب الاذان باب الجھر بقرأۃ صلوٰۃ الفجر )
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جن نمازوں میں حضور ﷺ کو رب کی طرف سے جہر کاحکم ملا ان میں آپ نے جہر سے قرأت فرمائی اور جن میں خاموشی کا حکم ملا ان میں خاموشی یعنی آہستہ سے تلاوت فرماتے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں اور بلاشبہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات بہترین نمونہ ہے ۔
نوٹ:۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کو حکم تھا سری نمازوں میں سرّ اور جہری میں جہر فرمائیں پھر حدیث کا یہ حصّہ کہ رب تمہارا بھولنے والا نہیں یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ یہ جہر و سرّ کا حکم اللہ تعالیٰ دیکر آخر حیات ِ رسول تک بھول نہ گیا تھا کہ مدینہ میں اس کو تبدیل کیوں نہ کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کادیا ہوا حکم یاد تھا مگر پھر بھی اس کو تبدیل نہ کیا شاید اس وجہ سے کہ دن کو کفار و مشرکین کے علاوہ دنیاوی مشاغل کا شور خاص کر بازاروں میں اور غیر مسلم ممالک میں اب بھی خلل انداز ہوتا ہے اور یہ قرآن کے احترام کے زیادہ لائق ہے کہ ایسی خلل اندازی سے تلاوت کو بچایا جائے لہذایہی پہلا حکم ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے برقرار رکھا ۔ پھر حدیث کا آخری حصّہ کہ حضور تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں اس کا مطلب یہ کہ جب حضور ﷺ نے حکم خداوندی پر زندگی بھر عمل فرمایا تو آج تم بھی ذاتی اجتہاد اس بارے نہ کرو بلکہ اتباع کرو ۔
۳۔ عن عبادۃ بن الصامت ؓ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا صلوٰ ۃَ لمن لم یَقرأ بفاتحۃ الکتاب وفی روایۃ المسلم لمن لم یَقرأ بامّ القرآن فصاعدًا ۔ (بخاری و مسلم )
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اُس کی کوئی نماز نہیں اور مسلم کی ایک روایت اس طرح ہے کہ جو نماز میں فاتحہ اور کچھ مزید قرأۃ قرآن نہ کرے اس کی کوئی نماز نہیں ۔
تشریح:۔ اس حدیث سے ایک تو یہ بات معلو ہوئی کہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں دوسری یہ کہ فاتحہ کے بعد کچھ قرأت کے بغیر بھی نماز نہیں جبکہ قرأۃِ قرآن خود قرآن سے بھی ثابت ہے کہ فاقْرو ماتیّسر من القرآن کہ قرآن سے جو آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو ۔
۴۔ عن ابی ھریرۃ ؓ عن النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فقال إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلاَۃِ، فَکَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ القُرْآنِ ۔
(بخاری کتاب الاذان باب وجوب القرأۃ للا مام والماموم )
ابو ھریرہ ؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب تو نماز شروع کرے تو تکبیر تحریمہ کہہ پھر بعد ازاں جو تجھے قرآن سے یاد ہو پڑھ لے ۔
فرضوں کی تیسری یا چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد قرأت کا مسئلہ:۔
فرضوں کی تیسری یا تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورت کے ملانے اور نہ ملانے میں اختیار ہے ۔ابو ھریرہ ؓ سے روایت
وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَی أُمِّ القُرْآنِ أَجْزَأَتْ وَإِنْ زِدْتَ فَہُوَ خَیْرٌٌ ۔(بخاری کتاب الاذان باب القرأۃ فی الفجر )
حضرت ابو ھریرہ ؓ فرماتے ہیں فرضوں کی پہلی دورکعتوں کے بعد فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو تو کافی ہے اور اگر پڑھو تو خیر ہے ۔البتہ سجدہ سہو نہیں ۔
سورۃ فاتحہ کے بعد قرأت فرائض کی صرف پہلی دورکعتوں میں ہے :۔
عن ابی قتادۃ ؓ قال کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ مِنْ صَلاَۃِ الظُّہْرِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَاب وَسُورَتَیْن
۔(بخاری کتاب الاذان باب القرأۃ فی الظہر)
ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کامعمول مبارک تھا کہ ظہر کی صرف پہلی دورکعتوں میں فاتحہ اور سورتیں پڑھتے ۔
پہلی رکعت کو قدرے لمبا کرنا :۔
حدیث بالا کا اگلا حصّہ یوں ہے ۔
یُطَوِّلُ فِی الأُولَی، وَیُقَصِّرُ فِی الثَّانِیَۃِ وَیُسْمِعُ الآیَۃَ أَحْیَانًا، وَکَانَ یَقْرَأُ فِی العَصْرِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ وَسُورَتَیْنِ، وَکَانَ یُطَوِّلُ فِی الأُولَی، وَکَانَ یُطَوِّلُ فِی الرَّکْعَۃِ الأُولَی مِنْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ، وَیُقَصِّرُ فِی الثَّانِیَۃِ(بخاری کتابُ الاذان باب القرأۃ فی الظہر )
‘‘جناب رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں طول فرماتے دوسری میں قصر یہ نماز ظہر میں کرتے تھے اور کبھی ظہر کی تلاوت سے ایک آیت سنائی بھی (ہلکی سی) دی جاتی اور نماز عصر میں اسی طرح پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ دو سورتیں بھی تلاوت فرماتے اور عصر میں بھی پہلی رکعت کو دوسری سے کچھ لمبا فرماتے اور نماز فجر میں بھی پہلی رکعت کو کچھ لمبا اور دوسری کو مختصر فرماتے ’’ ۔
تشریح:۔ اس حدیث مبارکہ سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ ﷺ فرضوں کی صرف پہلی دورکعتوں میں فاتحہ کے بعد سورت پڑھتے تیسری یا چوتھی فرض رکعت میں صرف فاتحہ پڑھتے تھے ۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نماز میں پہلی رکعت کی تلاوت دوسری رکعت سے کچھ زیادہ فرماتے تھے یعنی پہلی رکعت میں قدرے لمبی اور دوسری میں قدرے مختصر سورت تلاوت فرماتے اور عقل بھی یہی تقاضاکرتی ہے کہ پہلی رکعت کو کچھ لمبا کرکے نمازیوں کو پہلی رکعت میں ملنے کی فضیلت اور موقع فراہم کیاجائے۔رہی فرضوں کی دوسری رکعتیں ان میں ایک تو فاتحہ کے ساتھ سورت نہیں دوسرا جب ان میں تلاوت و قرأۃ نہیں تو وہ پہلی دورکعتوں کے مقابلہ میں ظاہر ہے کہ مختصر ہی ہونگی ۔ پھر اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ حضور ﷺ جب سرّی یعنی خاموش تلاوت فرماتے تو ہونٹ بند کرکے صرف ذھن سے ہی نہ پڑھتے بلکہ کچھ خفا میں بول کرہی پڑھتے کہ کبھی کبھی جناب سے قریب والے کو کوئی آیت سنائی بھی دے جاتی اسی سلسلہ میں ملاحظہ ہو ۔
عن ابی مَعْمَر قال سَأَلْنَا خَبَّابًا أَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: بِأَیِّ شَیْء ٍ کُنْتُمْ تَعْرِفُونَ؟ قَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْیَتِہِ ۔ (بخاری کتاب الاذان باب القرأۃ فی الظہر )
حضرت ابومعمر ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے خباب ؓ سے پوچھا کیا حضور ﷺ ظہر و عصر (یعنی سری نمازوں ) میں تلاوت فرماتے تھے تو کہا ہاں پھر ہم نے پوچھا تم کس وجہ سے جانتے کہ قرأۃ فرماتے ہیں تو کہا کہ جناب کی ریش مبارک (داڑھی ) ہلتی تھی ۔
نماز میں تلاوت کی مختلف صورتیں:۔
ایک رکعت میں دوسورتیں ملا کر پڑھنا ، سورتوں کی آخری اٰیات صرف پڑھ لینا ، ایک سورت پڑھ لینے کے بعد اس سے پہلے والی سورت پڑھ لینا ، سورت کی صرف ابتدائی اٰیات پڑھ لینا عبد اللہ بن سائب ؓسے منقول ہے رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز میں سورت المؤمنون پڑھی جب موسی ؑ و ہارون ؑ کے تذکرہ پر پہنچے تو کھانسی آگئی اور وہیں رکوع کر دیا ۔
حضرت عمر ؓ نے پہلی رکعت میں البقرہ کی ایک سو بیس اٰیات اور دوسری میں مثانی سے کوئی سورت پڑھی اور احنف نے سورت الکہف پہلی رکعت میں اور دوسری میں اسی سے پہلے والی سورت یوسف یا یونس پڑھی اور کہا کہ حضرت عمرؓ نے بھی انہی سورتوں کے ساتھ نماز صبح پڑھی کہ پہلے ایک سورت پھر بعد ازاں ترتیب میں اس سے پہلے والی پڑھی اور عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے چالیس اٰیات سورہ انفال کی پہلی رکعت اور دوسری رکعت میں کوئی مفصّل سورت پڑھی ۔
حضرت قتادہ ؓ نے اس شخص کا بھی ذکر کیا جس نے ایک سورت کو (دو حصے کرکے ) دورکعتوں میں پڑھا یا ایک ہی سورت کو دونوں رکعتوں میں دھرایا اس طرح کہ پہلی رکعت میں جو سورت پڑھی دوسری میں بھی وہی پڑھی اور کہا سب اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے پھر عبید اللہ ؓ نے ثابت سے روایت کیا انھوں نے حضرت انسؓ سے ایک انصاری صحابی کا ذکرکیا کہ وہ مسجد قباء میں قوم کی امامت کرواتے تو وہ ہر رکعت میں پہلے سورہ اخلاص ضرور پڑھتے یعنی تمام رکعتوں میں سورۃ اخلاص کا تکرار ہوتا یہ حدیث طویل ہے ۔
(بخاری ج۱ کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین الخر)
سورۃ اخلاص ہی فرضوں کی پہلی دورکعتوں یا چاروں سنت میں پڑھنا:۔
کئی ان پڑھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے مشکل سے نماز میں صرف قل شریف ہی یاد کیا ہے اور ہر رکعت میں وہ اسے ہی دھرا کر نماز ادا کر لیتے ہیں تو مذکورہ بالا روایت کے مطابق ایک ہی سورت کو رکعتوں میں پڑھ لینے سے اصل نماز کے جواز میں کوئی شبہ نہ کیا جائے ہاں استحباب افضلیت الگ بات ہے ہر کسی کی استعداد ایک نہیں ہوتی اسلام نے استعداد کے مطابق ہی احکام صادر فرمائے اِسی بخاری ج۱ میں ہے کہ ایک صحابی ابھی ابھی مسلمان ہوا تو حضور ﷺ سے پوچھا جناب مجھے ابھی نماز تو نہیں آتی بوقتِ نماز میں کیا کروں تو شفیق رسول ﷺ نے فرمایا قیام و رکوع و سجود یعنی حرکات و سکنات اسی ترتیب سے نقل کرتے جاؤ اور مختلف مواقع پر سبحان اللہ الحمد اللہ جیسے آسان اور زباں زد عام کلماتِ ذکر بولتے رہو تیرے عذر کے دنوں کی یہی نماز ہے ۔ لہذا کوشش کریں کہ اپنی نمازوں پر محنت کرکے خوب سے خوب تر کریں اور چند مختصر سورتیں بھی یاد کرنے کی کوشش کریں ۔
جیسے مذکورہ روایت سے ظاہرہے کہ ایک رکعت میں سورہ الکہف پھر دوسری میں اس سے پچھلی یونس و یوسف کوئی پڑھی تو اصل نماز میں فرق نہیں آیا ہمارے فقہاء بھی یہ نہیں کہتے کہ یوں نماز ہی نہیں ہو گی وہ صرف اتنا بتاتے ہیں کہ بہتر ہے کہ قرآن کو مختلف رکعتوں میں ترتیب سے ہی پڑھا جائے ۔
حضور علیہ السلام کی بہترین قرآء ۃ اور حسن صوت :۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی اپنی پوری امت اور دورِ زمانہ میں خوبصورت اور خوش آواز ہوا ہے جبکہ میں ان تمام سے شکل و صورت اور حسنِ آواز میں بڑھ کر ہوں ۔ (بخاری ج۱ کتاب الاذان سے روایت پیش ِخدمت ہے ۔
عن البرآءَ قال سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ” یَقْرَأُ: وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ فِی العِشَاء ِ، وَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا مِنْہُ أَوْ قِرَاء َۃ ۔
( بخاری کتاب الاذان باب القرأۃِ فی العشآء) ۔
حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ کی نماز عشاء میں سورۃ التین کی قرأۃ سنی اور میں نے جناب سے زیادہ حسین آواز اور خوب قرأت کسی اور کو نہیں سنا ۔
خوب کہا حضرت حسّان بن ثابت ؓ نے و احسن منک لم ترقطُّ عینی
قرأت بارے روایات بہت کثیر ہیں اور پوری تفصیل ہے کہ کون کونسی نمازوں میں اکثر رسول اللہ ﷺ کون کونسی سورتیں تلاوت فرماتے تھے مگر خوف ِ طوالت سے انہی پر اکتفاء کرتا ہو ں ۔ حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے جس روایت میں قرأت کے بعد سکتہ ہے وہ روایت ہی ضعیف ہے ۔ (ابوداوٗد کتاب الصلوۃ باب السکتۃ عند الافتتاحِ )
سکتات کی حقیقت اور خلافِ حقیقت استدلال:۔
جو احباب امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے پر اسرار کرتے ہیں ان کو امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ فاتحہ پڑھنے سے قرآن و حدیث واضح طور پر روکتے ہیں تو وہ چور راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہی میں سے ایک راستہ یہ ہے کہ امام اگر جہرًا قرأت کر رہا ہے تو فاتحہ کو سکتات میں پڑھو جن سے ان کو مراد ثناء کا سکتہ پھر فاتحہ کی آیات کے دوران امام کے سانس لینے کا سکتہ اور امام کا آخر تلاوت میں سانس برابر کرنے کا سکتہ ۔ جبکہ یہ بات بھی بالکل نامعقول ہے اس طرح کہ پہلاسکتہ ثناء کا ہے فاتحہ کا نہیں اگر آپ واقعی اتباعِ حدیث کے حریص ہیں تو ابھی ابھی ابو ھریرہ ؓ کے حوالے سے بخاری کی حدیث گزری کہ جناب ابوھریرہ ؓ نے اس سے پہلے سکتے بارے خودنبی ﷺ سے سوال کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا میں سکتے میں پڑھتا ہو اللھمّ باعِدْ بینی و بین خطای کی جگہ عام مروج سبحانک اللھمّ ہے تو اس سکتہ میں حضور ﷺ فارغ نہیں بلکی کوئی دُعا ء پڑھتے ہیں ظاہر ہے ہم بھی دعا پڑھیں گے کہ امام سے الگ تو نہیں چلنا کہ سنت کے مطابق بھی یہ محل دعا ہے محلِ فاتحہ نہیں ۔ فاتحہ کیلئے اپنا محل موجود ہے ۔ اب وہی بات امام کی تلاوت کے وقفوں میں پڑھنا یوں عملًا اگر کیا تو تجربہ کر لینا نہ سماعت ِ قرآن صحیح ہو سکے گی جس کا حکم ہے اور نہ ہی تسلّی اور ترتیب و تفہیم سے فاتحہ ہو گی ۔ معلوم ہوا کہ آپ ترددّ کی بات کرتے ہیں اور اس کو آپ حدیث سے ثابت بھی نہیں کر سکتے او ر اگر آپ نے کسی صحابی کا عمل و قول پیش کیا تو وہ اثر کہلاتا ہے ۔حدیث تو صرف قول ، فعل اور تقریر رسول اللہ ﷺ ہی ہوتی ہے صحابہ کا قول فعل حدیث نہیں ہاں خلفاء راشدین کا معاملہ کچھ الگ ہے کہ ان کی اتباع کا حضور ﷺ نے خود حکم دیا اب تیسرا سکتہ امام کی تلاوت مکمل کرنے پر تو جناب یہاں کوئی سکتہ کسی مشہور و معروف حدیث میں نہیں ملا ہاں صرف اتنا ہے کہ امام تلاوت کے اختتام پر صرف سانس برابر کرے اور رکوع میں جائے اور جب امام رکوع میں جائے تو حکم ہے کہ بلا تاخیر تم بھی رکوع میں جاؤ کہ یہی اتباعِ امام اور اِسی کا حدیث میں حکم ِ رسول ﷺ بھی ہے ۔ پھر یہ کہ اگر آپ کا امام ہی حنفی ہو جو کہ اکثر ہوتا ہے کہ خیر سے احناف بہت زیادہ جو ہوئے تو حنفی امام تو اختتام ِتلاوت پرفٹ رکوع میں جائے گا آپ فاتحہ اب کس سکتہ میں پڑھیں گے ۔ واضح ہو ا کہ بالکل ناسمجھی کی وجہ سے یا امام پر اعتماد نہ کرنے کی وجہ سے یہ ساری پریشانی آرہی ہے ورنہ در حقیقت مسئلہ بالکل کوئی نہیں ۔ اگر رکوع جاتے بھی سکتہ تھا تو ابو ھریرہ ؓ نے جیسے پہلا سکتہ پوچھا اس بارے کیوں نہ پوچھا ؟ ۔
فاتحہ خلف الامام:۔
دیگرسینکڑوں مسائل کی طرح اس مسئلہ پر بھی شدید اختلاف رائے موجود ہے کہ آیا جب انسان امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو اُسے بھی فاتحہ پڑھنا چاہیے یا نہیں ۔ حضرت امام شافعیؒ اور اکثر اہل حدیث کی رائے یہ ہے کہ نمازی کو ہر حال میں فاتحہ پڑھنا چاہیے خواہ اکیلے نماز پڑھے خواہ امام کے ساتھ ہو خواہ جہری نماز ہو خواہ سرّی ، فاتحہ ہر حال میں لازم ہے ۔ جبکہ امام مالک ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ اور دیگر بہت سے ائمہ کی رائے یہ ہے کہ نمازی اگر مقتدی ہواور نماز جہری ہو تو امام کی قرأ مقتدی کے لئے کافی ہے ۔ اس حد تک امام ابو حنیفہ ؒ بھی امام مالک ؒ و احمد بن حنبل ؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے ساتھ متفق ہیں۔
جنکہ امام ابو حنیفہ ؒ کی پوری رائے اس طرح ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی کیلئے واجب ہے اگر ترک ہوئی تو سجدہ سہو کے بغیر نماز نہیں ہو گی مگر جب نمازی مقتدی ہو تو نمازِ جہری و سرّی دونوں میں وہ قرأت نہیں کرے گا اس لئے نہیں کہ فاتحہ پڑھنا لازم نہیں رہا بلکہ اس لئے کہ جب مقتدی کا نمائندہ ہے تو امام کی قرأتِ فاتحہ مقتدی کی فاتحہ تصور کی جائے گی ۔ اس سلسلہ میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کے دلائل حسب ذیل ہیں۔
۱۔ وَاِذَا قُرِیَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o (الاعراف۔۲۰۴)
اور جب پڑھا جائے قرآن تو کان لگا کر سنو اسے اور چُپ ہو جاؤ تاکہ تم پر رحمت کی جائے ۔
تفسیرابن عباس ؓ ، تفسیر مدارک اور تفسیر خازن وغیرہ نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی کہ جب نمازی امام کے پیچھے ہو تو خاموشی سے پوری تلاوت سننے کا پابند ہے ۔ اور خاموش رہنا اس پر لازم ہے تفسیر مدارک میں اسی آیت کے تحت ہے
و جمہور الصحابۃ علی انّہ فی السماعِ المؤتم ۔
کہ عام صحابہ کرام اس رائے پر تھے کہ یہ آیت مقتدی کی سماعت کے لئے ہے ۔ تفسیر خازن میں اسی جگہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے لوگوں کو امام کے ساتھ قرأت کرتے سنا تو بعد از نماز فرمایا کہ ابھی تک تم نے اس ایت کو نہیں سمجھا یعنی واذا قرئ القرآن علامہ بیضاوی ؒ نے بھی یہی فرمایا کہ اس آیت کی وجہ سے مقتدی پر امام کی قرأت سننا واجب ہے ۔لہذا واضح ہوا کہ یہ آیت خاص مقتدی پر سماعت کو لازم کرنے اور خاموش رہنے کے لئے نازل ہوئی باقی نماز کے علاوہ بھی احترام سے قرآن سننے کا استحباب اس آیت کے عموم سے ظاہر ہے۔ اس آیت کے تحت چند باتیں بالکل واضح ہیں۔
۱۔ جب قرآن پڑھا جائے تو قرآن کے لفظ کے عموم میں فاتحہ بھی داخل ہے لہذا امام فاتحہ بھی شروع کر دے تو سماعت خاموش سے چپ رہ کر کرنا ہر مقتدی پر بحکمِ خداوندی لازم ہے۔اگر امام ابو حنیفہؒ کی رائے پر اتفاق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی تو نہ کریں۔
۲۔ فاستمعوا لہ کا لفظ مقتدی پر لازم کرتا ہے کہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر قرآن کو سنے اور سمجھے اگر آپ نے اس کو فاتحہ پر لگا دیا تو کیا سماعت اور فہم مکمل ہو سکے گا ؟ یقینًا نہیں ۔
۳۔ و اَنصِتُو ا کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ قرآن کو سنیں اور چپ بھی رہیں ۔ اگر اپنی فاتحہ پڑھنے کی اس دوران کوشش کی تو چپ رہنے کے حکم کے خلاف ہوگا ۔
۴۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آخری لفظ لعلکم ترحمُون ہے کہ امام تلاوت کرے تم چپ رہ کر سنو تم پر رحم بھی کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ تلاوت امام نے کی رحم کے مستحق مقتدی کیسے بنے ۔ امام کے عمل کا اثر مقتدی پر کیسے ظاہر ہوا ؟ اس طرح کہ امام مقتدیوں کا نمائندہ ہے اس کی تلاوت در حقیقت مقتدی کی ہی تلاوت ہے خصوصًا جب مقتدی ہمہ تن گوش ہو کر سن رہاہے اس لئے وہ رحمت باری تعالیٰ کا مستحق ہوا اسمیں باریک اشارہ ہے کہ امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے اور اجر بھی پا رہا ہے ۔ دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ اگر مقتدی سماعت ِ فاتحہ کا اجر بھی پائے اور پھر خود پڑھنے کا اجر بھی پائے تو مقتدی امام سے اجر میں بڑھ جائے گا کہ امام تو صرف فاتحہ پڑھنے کا اجر پائے اور مقتد ی پڑھنے اور امام سے سننے کا دُھر ا اجر پائے یہ عقلًا محال ہے ۔ اگر فاتحہ و قرآن کی سماعت کے دوران پوری طرح خاموش رہ کر سننے کی بجائے کوئی گڑبڑ کی تو ‘‘ وقال الذین کفروا لاتسمعُوا لہذا القرآن و الْغوفیہ ’’ بھی ذھن میں کر لینا ۔ کہ دوران تلاوت پوری طرح سماعت نہ کرنا اور تلاوت میں کوئی مداخلت کرنا کفار کا شعار ہے اہل ایمان کا ہرگز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو کوشعارِ مسلمین کی توفیق دے ۔
قرأتِ امام سننے پر چند احادیث پیش ہیں:۔
۱۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَال قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ۔
(نسائی ، ابن ماجہ کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا، ابو داوٗد )
حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو خاموشی سے سنو ۔ یہا ں مطلق قرأت کا لفظ ہے جو فاتحہ پر بھی شامل ہے ۔
مذکورہ حدیث کی صحت اور امام مسلم ؒ :۔
امام مسلم ؒ نے اس مذکورہ حدیثِ ابو ہریرہؓ کی صحت ان لفظوں میں بیان فرمائی ۔
۱۔ فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ: فَحَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ؟ فَقَالَ: ہُوَ صَحِیحٌ یَعْنِی وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ: ہُوَ عِنْدِی صَحِیحٌ۔
(صحیح مسملم کتاب الصلوٰۃ باب التشہد )
حضرت ابوبکر ؓ نے سلمان ؓ سے کہا کہ ابو ھریرہؓ کی یہ حدیث کہ امام کی قرأت خاموشی سے سنو اور چپ رہو کیسی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا ہاں یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ یعنی چپ ہی رہنا چاہیے ۔
امام مسلم کی اس روایت اور سلمان ؓ کی اس حدیث بارے صحت کی گواہی کے باوجود مولانا صلاح الدین یوسف کو اب بھی اس حدیث کی صحت کے بارے میں شک ہی ہے ملاحظہ ہو ۔ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی پر حواشی ؟ فاتحہ مولانا صلاح الدین یوسف۔
۲۔ مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَلَمْ یُصَلِّ إِلَّا أَنْ یَکُونَ وَرَاء َ الإِمَام ھذا حدیث ٌ حسنٌ صحیح ۔
( الترمذی۔ عن جابر ۔۔۔أَبوابُ الصَّلاَۃبَابُ مَا جَاء َ فی تَرْکِ القِرَاء َۃَ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَہَرَ الإِمَامُ بالقِرَاء َۃِ)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ جس نے ایک رکعت بھی نماز پڑھی اور اس میں فاتحہ نہ پرھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی ہا ں اگر وہ امام کے پیچھے ھوتو( پھر فاتحے نہ پڑھے نماز ٹھیک ہے)
نوٹ:۔ترمذی کی یہ روایت جس کو خود امام ترمذیؒ نے صحیح بھی واضح کردیا اب کوئی اس کو ضیف بھی نہیں کہہ سکتا یہ امام صاحب کے قول پرصاف دلالت کر رہی ہے اسلیے کہ وراء الامام مطلق ہے جوجہری و سری دونوں حالتوں کو شامل ہے۔
۳۔ عن جابرٍ ؓ انّ النبی ﷺ قال من کان لہٗ امامٌ فقرأۃ ُ الامام لہٗ قرأۃٌ ۔(طحاوی شریف ،ابن ماجہ ۔یہ حدیث حسن ہے )
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو امام کے پیچھے نمازپڑھے اس کے لئے امام کی قرات یہ مقتدی کی قرات ہے نہ کہ لگ سے اپنی قرات ِفاتحہ کرے ۔
نوٹ:۔اس حدیث نے تمام شکوک ہی ختم کردئیے کہ مقتدی امام کیساتھ نماز پڑھے تو اپنی قرأت سری و جہری میں نہ کرے اس لئے کہ امام کی قرات ہی تصور ہوتی ہے ۔ یہ روایت امام صاحب کی مکمل تائید ہے ۔
۴۔ عن ابی الزبیرعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ کَانَ لَہُ إِمَامٌ، فَقِرَاء َۃُ الْإِمَامِ لَہُ قِرَاء َۃ۔
(ابن ماجہ کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا)
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَدَّادٍ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ کَانَ لَہُ إِمَامٌ فَقِرَاء َۃُ الْإِمَامِ لَہُ قِرَاء َۃٌ
ٌ ۔قال محمد ابن مُنیع وَابنُ الھُمام ھالاسناد صحیح ٌ علی شرطِ الشیخین ۔ (مُؤطّا امام مالک ؒ )
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرما یا جس کا امام ہو تو امام کی قرات ہی مقتدی کی قرات ہے امام محمد ؒ نے فرمایا کہ امام ابن منیع ابن الھمام نے اس حدیث کی سند کو شخین (بخاری ومسلم ) کی شرائط کے عین مطابق صحیح قرار دیا ۔ ترمذ کی مذکورہ بالاروایت بھی اس کی تائید ہی کر رہی ہے۔
۵۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ صَلَّی صَلَاۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِیَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَیْرُ تَمَامٍ
(مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، وإنہ إذا لم یحسن الفاتحۃ ولا أمکنہ تعلمہا قرأ ما تیسر لہ من غیرہا)
عن ابی ھریرۃ ؓ عن النبی ﷺ من صلّٰی صلوٰۃً لم یقرأ فیھا بامّ القرآن فھی خداجٌ ای غیر تمامٍ
توراوی ابو سائب ؓ نے ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا کہ امام کے پیچھے ہوں تو ؟ ابو ہریرہؓ نے فرمایا ‘‘ اقرأ بھا فی نفسک یا فارسی ۔( مسلم ، ترمذی ، نسائی ، احمد ، دار قطنی وغیرہ )
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جو نبی ﷺ نے فرمایا جو نماز پڑھے اس میں فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز نامکمل و ناقص ہے ابو سائب راوی حدیث نے ابو ہریرہؓ سے کہا کہ ہم کبھی تو امام کے پیچھے بھی نماز پڑھتے ہیں تو فاتحہ کا کیا کریں تو ابو ہریرہؓ نے فرمایا اے فارسی پھر فاتحہ کو صرف دل میں پڑھ ۔
ترمذی کی روایت کو ساتھ ملا کر ملاحظہ فرمائیں۔
نوٹ:۔ اس حدیث کی صحت پر کوئی اعراض نہیں بالکل صحیح حدیث ہے جو مذکورہ احادیث کی تصدیق کر رہی ہے کہ حضور ﷺ نے فاتحہ پر زور دیا اور فاتحہ کے بغیر نماز کو نامکمل قرار دیا مگر امام کے پیچھے اگر ہو تو پھر نہ جہرًا پڑھے نہ سرّا پڑھے اور جہری و سری دونوں حالتوں کو یہ حدیث شامل ہے ہاں دل میں پڑھے ۔ جب مقتدی غور سے سمجھ کر فاتحہ سن رھا ہوتا ہے ۔تو دل ساتھ ساتھ لازمًا پڑھتا ہے جس پر لعلّکم ترحمون کا اجر بھی مرتب ہوتا ہے یہ حدیث جملہ احادیث کی بہترین تطبیق ہے ۔ تعارض ختم ہو جاتا ہے اور بات قابل فہم اور قابل عمل بھی ہو جاتی ہے اور کسی حنفی کو بھی دل میں پڑھنے پر اعتراض نہیں ۔اگر اب بھی بات سمجھ نہ آئے اور علی نفسک کے لفظ سے خفی قرأت کو تراشنے کی کوشش کریں تو پہلی بات تو یہ ہے کہ قول سے خفی پڑھنے کو بھی اصل میں پڑھنا ہی کہتے ہیں جیسے عام سرّی نماز علی نفسک بغیر قول ِ سرّی کے صرف دل میں خیال سے پڑھنے کو ہی کہتے ہیں اگر آپ کو یہ تسلیم نہ ہو تو یہ حدیث بھی سن لیں بات سمجھ آجائے گی ۔
۶۔ عَنْ عَطَاء ِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاء َۃِ مَعَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: لَا، قِرَاء َۃَ مَعَ الْإِمَامِ فِی شَیْء ٍ ۔
( مسلم باب سجود التلاوۃ )
عطاء ابن بسیارؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زید بن ثابت ؓ امام کے پیچھے قرأت بارے پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ امام کے ساتھ کسی قسم کی قرأت بالکل نہیں ۔
نوٹ:۔ اس روایت میں لا قرأۃ میں لانفی جنس ہے جو ہر قسم کی قرأت ِ جہری و سرّی و فاتحہ و بعد ھا کی نماز جہری و سرّی میں نفی پر دلالت کرکے امام صاحب کی واضح اور مکمل تائید کر رہی ہے ۔ اگر آپ کہیں کہ یہ تو قول صحابی ہے تو گزارش ہے کہ اوپر والی روایت علی نفسک بھی صحابی ابو ہریرہ ؓ کے الفاظ میں حضور ﷺ کے نہیں دوسرا یہ وہی عطاء ہے کہ جس کو امام بخاری بغیر سند ذکر کیے اس کے قول کا حوالہ دیتا ہے ۔ یعنی امام بخاری کا معتمد علیہ راوی ہے ۔ یہ روایت نمبر 2 پر پیش کردہ روایت ِ ترمذی کے مفہومًا عین مطابق ہے لہذا اس روایت سے کسی طرح مَفَر نہیں ۔
۷۔ عَنْ أَنَسٍ، رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: ” صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْہِہِ فَقَالَ: أَتَقْرَء ُونَ وَالْإِمَامُ یَقْرَأُ فَسَکَتُوا فَسَأَلَہُمْ ثَلَاثًا فَقَالُوا إِنَّا لَنَفْعَلَ , قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوا۔(طحاوی باب القرأ ۃ خلف الامام)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے نماز پڑھائی تو رخِ زیبا لوگوں کی طرف فرمایا اور پوچھا کیا جب امام قرأت کرتا ہے تو تم بھی ساتھ کرتے ہو ؟ تین مرتبہ پوچھا تو صحابہ نے عرض کیا جی ہاں قرأت کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا نہ کیا کرو ۔
نوٹ:۔ یہ موقع تھا کہ آپ ﷺ فرماتے کہ سوائے فاتحہ کے باقی قرأت کیا کرو مگر ایسی کوئی صحیح روایت علم میں نہیں کہ حضور ﷺ نے مقتدی کو امام کے پیچھے قرأۃ سے منع کیا ہو اور فاتحہ کی اس سے استثناء کرکے پڑھنے کی اجازت دی ہو اور یہ ممکن بھی نہیں کہ ‘‘ واذا قرئ القرآن ۔۔الخر’’ کیآیت میں ایسی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں جاتی تو حضور ﷺ کو تو واضح حکم ربّانی ہے ‘‘ اتّبِع ما اُوحِیَ من ربّک ’’ آپ حکم ربانی کے مکمل پابند ہیں خلاف ِ آیت کیسے فاتحہ پڑھتے رہنے کی اجازت فرمائیں ہاں جن روایوں نے مذکورہ روایت کے لا تفعلوا پر الّا بفاتحۃ الکتاب وغیرہ کے الفاظ زیادہ کیے وہ روایات بالکل ضعیف ہیں جو صحیح احادیث کے مقابلہ میں قابلِ حجت نہیں ایسی ہی ایک ضعیف روایت ملاحظہ ہو جو اہل حدیث بھائی نے پیش کی ہے ۔اپنے دلائل میں (نماز کی کتاب ) تالیف عمران ایوب لاہوری ص نمبر ۱۲۹ پر اسی صفحہ پر دوسری روایت جو حضرت عبادہ بن صامت سے پیش کی گئی ہے ۔اس میں بھی یہی ضعف ہے کہ صحیح روایات کے خلاف بھی اور شاذ بھی ۔ جب مذکورہ بالا مولانا عمران ایوب لاہوری صاحب کو کوئی صحیح روایت امام کے پیچھے فاتحہ کے پڑھنے کی نہ ملی تو امام بخاری کا قول پیش کر دیا ۔ اپنی تالیف ‘‘ نماز کی کتاب ’’ کے ص نمبر ۱۲۸ مقتدی پر بھی فاتحہ پڑھنا واجب ہے کہ تحت نمبر ۲ پر سب سے پہلی دلیل ہی ان کی امام بخاری ؒکا قول ہے ۔حیرت ہوئی کہ اتنا بڑاشور ،،،خلف الامام پر اور سب سے بڑی دلیل ان کو قول بخاری ملا ۔امام بخاری ؒ نے باب تو باندھا اسی نام سے مگر اپنے الفاظ پر امام بخاری بھر پور احادیث لا نے سے قاصر رہے اور اس پورے باب
وجوب الامام و الماموم فی الصلوٰات کلھا فی الحضر و السفر وما یجھرُ فیھا وما یُخافَتْ۔
یہ ہے امام بخاری کا ایک باب کا نام جو بخاری ج۱ کتاب الاذان میں ہے اس باب میں کل تین حدیثیں ذکر کیں ایک حضرت جابر ؓ سے دوسری حضرت ابو ھریرہ سے ، حضرت جابر ؓ سے کوئی حدیث نہیں بلکہ صرف ایک طویل اثر پیش کیا جس میں فاتحہ تو قراء ۃ کا لفظ تک نہیں لہذا اس اثر کی اس باب میں کوئی مطابقت ہی نہیں بنتی اب رہے حضرت ابو ھریرہ ؓ ۔اس روایت میں قرائت کا لفظ تو ہے مگر افسوس سے فاتحہ کا کوئی نام نہیں الفاظ یہ ہیں ۔
فقال اذاقُمتَ الی الصلٰوۃ فکبّر ثمّ قرأ ماتیسّر معک من القرآن ۔
کہ حضور ﷺ نے ایک صحابی کو نماز کی ترتیب تعلیم فرماتے ہوئے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ پھر قرات جو بھی قرآن سے یا د ہو کر پھر رکوع کر ۔ اس حدیث میں فاتحہ کانام نہ لینا اور تکبیر تحریمہ اور پھر مطلق قراۃ اور پھر رکوع کی تعلیم سے ہی واضح ہوا کہ فاتحہ کی قرات خصوصیت کیساتھ کرنے کا مقام تکبیر تحریمہ،مطلق قراۃقرآن اور رکوع کے برابر نہیں۔ اسی بنیاد پر احناف مطلق قرات کو فرائض نماز میں شمار کرتے میں مگر فاتحہ کو فرائض میں شمار نہیں کرتے کہ اس حدیث میں اور اس طرح کی بیسیوں احادیث میں باقی فرائض نماز کا ذکر حضورﷺ فرماتے ہیں مگر فاتحہ کا مخصوص تعین سے ذکر نہیں فرماتے پھر اس احدیث میں رکوع جانے سے قبل سکتا کابھی نام نہ لیا اکثر احادیث کا یہی حال ہے پھر حضورﷺ نے اسے ‘‘ رفع الیدین عند الرکوٰع ’’ کی تعلیم بھی نہ دی اب صرف تیسری حدیث ذکر کی جو عبادہ بن صامت ؓ سے جس کے الفاظ صرف یہ ہیں‘‘ لا صلوٰۃ لمن یقرأ بفاتحۃ الکتاب ’’ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نمازنہیں۔ پورے باب میں یہی مختصر حدیث قراۃ فاتحہ کے بارے ہے جس پر میں آگے چل کر بات کروں گا ۔ اب امام بخاری ؒ جمع الحدیث کے امام تو ہیں مگر امام فقہ نہیں اور ہم اس کے مقلد بھی نہیں ۔ اگر کوئی امام بخاری ؒ کا مقلد ہے تو وہ شوق سے ان کے نام کے الفاظ کو دلیل بنائے مگر احناف سے یہ توقع عبث ہے کہ آپ بخاری ؒکا قول پیش کر یں اور احناف مان جائیں۔
مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کہاں کھڑے ہیں:۔
ابھی ابھی میں نے ذکر کیا کہ مولانا عمران ایوب لاہوری نے فاتحہ خلف الامام پر سب سے پہلی دلیل کے طور پر امام بخاری ؒ کے باب کا نام ذکر کر دیا جو حدیث نہیں اور جو حدیث پیش کی اس پر بعد میں بات کرنے کا وعدہ کر چکا ۔ اب ایک اور ماہر جو شاید امام اعظم ؒ سے اپنے آپ کو زیادہ ماہر اور قابل تصوّر کرتے ہوں ان کی قابلیت بھی ملاحظہ ہو ۔ یہ حضرت مولانا صلاح الدین یوسف صاحب ہیں جو قرآن مولانا محمد جونا گڑھی کے ترجمے والا سعودی حکومت حجاج کرام کو عطائے خاص کے طور پر دیکر ارسال کرتی ہے جس کا مقصد اشاعتِ قرآن نہیں کیونکہ قرآن کی پاکستان میں کیا کمی بلکہ درحقیقت ایک مخصوص سوچ کی اشاعت مقصود ہے۔ اس ترجمہ پر حواشی مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کے ہیں یہ صاحب فاتحہ کے حاشیہ میں قرأۃِ فاتحہ خلف الامام پر صرف ایک حدیث پیش کرتے ہیں ظاہر ہے ان کے مطالعہ میں یہی قرأۃ فاتحہ خلف الامام بارے ان کے ہاں سب سے بڑی دلیل ہے اور اس دلیل کی حقیقت صرف اتنی ہے ۔ آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ جس حدیث کو دلیل بنایا گیا ہے یہ حدیث خیر سے بالکل ضعیف ہے اس کو ضعیف میں نہیں کہہ رہا بلکہ حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب نے اپنی تالیف ‘‘ نماز کی کتاب ’’ کے صفحہ نمبر 129 پر ترمذی ، ابو داوٗد اور الجامع تین جگہ ضعیف ہی بتایا ہے ۔ اس کا ضُف جو مجھے نظر آیا وہ یہ کہ امام طحاوی ؒ نے یہی حدیث ان الفاظ سے حضرت انسؓ سے روایت کی :۔
عَنْ أَنَسٍ، رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: ” صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْہِہِ فَقَالَ: أَتَقْرَء ُونَ وَالْإِمَامُ یَقْرَأُ فَسَکَتُوا فَسَأَلَہُمْ ثَلَاثًا فَقَالُوا إِنَّا لَنَفْعَلَ , قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوا
یہاں ایک تو راوی عبادہ بن صامت ؓ سے زیادہ ثقہ ہیں دوسرا انہوں نے لا تفعلوا کے بعد جو اضافہ ذکر کیا یہ عام مشہور روایات کا حصّہ بھی نظر نہ آیا دیگر صحیح روایات جو ہم ذکر کر چکے ان کے بھی خلاف ہے اور خود علامہ ابن تیمیہ ؒ کا بھی اس حدیث پر نہ اعتماد ہے اور نہ ہی عمل ۔ ملاحظہ فرمائیں علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ سلف کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرأت سن رہا ہو تو اپنی فاتحہ نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ) اب انصاف سے بتائیں کہ عمومًا مساجد میں امام کی قرأت سننے والوں کی تعداد زیادہ ہو تی ہے یا نہ سننے والوں کی ۔ پھر یہ تو علامہ ابن تیمیہ ؒ نے اپنے زمانے میں کہا تھا آج اگر ہوتے تو چونکہ سپیکر استعمال ہو رہا ہے نہ سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو آج یہی کہتے کہ امام کی فاتحہ کے ساتھ اپنی فاتحہ نہ پڑھے ۔ دوسرا یہ کہ جو روایت امام بخاری ؒ نے پیش کی لا صلٰوۃ لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب یہ اسی مذکورہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ۔ کیونکہ وہاں بھی یہی راوی حضرت عبادہ بن صامتؓ ہیں یہاں بھی وہی ہیں تو ایک ہی راوی ایک ہی حدیث دو الگ الگ الفاظ سے کیسے روایت کرتا ہے ۔ امام بخاری ؒ کو اسی ضعیف ترمذی ضعیف ابو داوٗد اور ضعیف الجامع کا ایک حصّہ ملا اور لم یقرأ بھا کی بجائے لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب فرد یاکہ بھا کی ضمیر فاتحہ ء کتاب کی طرف راجع ہے ۔ تو جناب انتہہائی ادب سے یہ ہے آپ کی وق روایگ جس پر سارا سہارہ اور زور ہے مزید سنیے ۔
حضرت امام بخاری ؒ اور حدیثِ فاتحہ خلف الامم:۔
حضرت امام بخاری ؒ نے بخاری ج۱ کتاب الاذان باب وجوب القرأۃ الامام والماموم فی الصلوٰات کلھا ۔۔الخر میں صرف ایک حدیث حضر ت عبادۃ بن صامت ؓ سے یوں پیش فرمائی ۔ اَنّ رسول اللہ ﷺ قال لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب ۔ نقل فرمائی ۔ جبکہ یہی عبادہ بن صامت ؓ نہیں جن سے یہ روایت ہے لا صلٰوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب فصاعدًا ۔ اس کی کوئی نماز نہیں جو فاتحہ اور بعد ازاں جو باقی قرآن سے قرأت نہ کرے (صحیح ابو داوٗد 735 اور ابوداوٗد 822 نسائی 911کتاب الافتتاح باب ایجاب قرأۃ الفاتحۃ الکتاب فی الصلٰوۃ ۔اس حوالے سے معلوم ہو ا کہ حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی جس روایت سے جناب فاتحہ کا ہر صورت لزوم ثابت کررہے ہیں اسی روایت کے اگلے حصّہ سے فاتحہ کے بعد قرأت کا بھی روایت کے مطابق یہی حکم ہے کہ قرأت کے بغیر بھی لا صلٰوۃ یعنی کوئی نماز نہیں کیونکہ فاتحۃ الکتاب فصاعدًا آپس میں معطوف اور معطوف علیہ ہیں اور لا صلٰوۃ کی نفی دونوں کا شامل ہے اب آپ یہ فرق کس طرح کر رہے ہیں کہ فاتحہ تو امام کے پیچھے بھی بہر صورت پڑھی جائے اور قرأت میں امام پر ہی اکتفاء کیا جائے ۔ اگر امام کی قرأت مقتدی کی قرأت شمار کر لی جاتی ہے تو فاتحہ میں امام کی قرأت پر اعتماد کیوں نہیں ۔ یعنی وہ مقتدی کے لئے کافی کیوں نہیں امام بخاری ؒ نے پوری بخاری میں فاتحہ خلف الامام بارے اس کے سوا کچھ نہ لکھا اور جو ایک جملہ حدیث کا یہاں لکھا اس کی حقیقت بھی واضح ہوئی کہ اسی عبادہ بن صامت سے میں نے دو روایات پیش کیں جن سے ظاہر ہے کہ امام بخاری ؒ کو یا تو روایت کا ادھو را حصّہ مل سکا یا پھر پیش ہی اتنا کر دیا ۔ اب امام بخاری ؒ کی پیش کردہ صرف ایک مختصر روایت کو مزید تحقیق کی روشنی میں جانچتے ہیں ۔ اس روایت کے شروع میں بھی لا صلٰوۃ یعنی لائے نفی جنس موجود ہے جو بغیر فاتحہ کے ہر نماز کی نفی کررہا ہے اور ایک ایسی ہی صحیح حدیث میری طرف سے بھی پیش ِ خدمت ہے جو یہ ہے ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِقِرَاء َۃٍ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَمَا أَعْلَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْلَنَّاہُ لَکُمْ، وَمَا أَخْفَاہُ أَخْفَیْنَاہُ لَکُمْ ۔ ( مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، وإنہ إذا لم یحسن الفاتحۃ ولا أمکنہ تعلمہا قرأ ما تیسر لہ من غیرہا )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرأۃ کے بغیر کوئی نمان نہیں ۔ ابو ھریرہ ؓ نے فرمایا جو جو رسول اللہ ﷺ نے ظاہر کیا اس کو ہم نے بھی ظاہر کیا جن نمازوں میں آپ نے اخفآء فرمایا ہم بھی تمہارے سامنے اخفآء کرتے ہیں ۔
امام مسلم ؒ سے اس کی تائید میں دوسری روایت ۔
عن عبادۃَ بن الصامتِ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا صلٰوۃ لمن لم یقرأ باُمّ القرآن فصاعدًا ۔
(سنن کبریٰ للبیہقی۔صحیح ابن حبان۔مستخرج ابی عوانہ۔مسند امام احمد)
حضرت عبادۃ بن صامت نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو فاتحہ اور اس کے بعد کچھ قرآن نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ۔
نوٹ:۔ یہی پوری بات ہے امام بخاریؒ سے پوری حدیث ہی نقل نہیں جبکہ امام مسلم ؒ نے اس کو پورا بیان کیا جس کی تائید دیگر روایات بھی کر رہی ہیں مزید ملاحظہ ہو ۔
حضرت ابو ھریرہ ؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جاؤ ان الفاظ کا اعلان کر دو ۔ الفاظ یہ ہیں ۔
قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اخْرُجْ فَنَادِ فِی الْمَدِینَۃِ أَنَّہُ لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِقُرْآنٍ وَلَوْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَمَا زَاد۔
( ابو داوٗدکتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃباب من ترک القراء ۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب )
فاتحہ اور کچھ مزید قرأۃ قرآن کے بغیر کوئی نماز نہیں ۔
یہ روایت ابو ھریرہ ؓ سے مروی ہے جس میں فمازاد کے الفاظ ہیں اور عبادہ بن صامت سے مروی ابھی اوپر گزری جسمیں مصاعدًا کے الفاظ ہیں یہ دونوں روایات ایک دوسرے کی صحت اور مفہوم و الفاظ پر گواہ ہیں ان سے ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے صرف یہ ہی نہیں فرمایا کہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں بلکہ یہ بھی فرمایا کہ فاتحہ کے بعد قرأت کے بغیر بھی کوئی نماز نہیں جبکہ فرائض کی تیری اور چوتھی رکعت میں قرأۃ سوائے فاتحہ کے ہوتی ہی نہیں مگر پھر بھی نماز ٹھیک ہے ظاہر ہوا کہ لا صلٰوۃَ میں عموم مطلق نہیں دوسرا یہ کہ فاتحہ خلف الامام اگر اس حدیث سے ثابت ہے تو اسی حدیث سے قرأۃ بعد فاتحہ خلف الامام کیوں ثابت نہیں ۔ اگر اس راز پر ناچیز کو مطلع کر دیا تو شکر گزار ہوں گا ۔
لا صلٰوۃَ کااطلاق مخصوص ہے:۔
مامِن عامٍ الّا و قد خُصَّ ۔
کوئی مطلق ایسا ہے ہی نہیں جو کسی صورت میں خاص نہ ہو جاتا ہو یہ ہمارا فقہ کا مسلّم اصول ہے جس کو جُھٹلایا نہیں جا سکتا مثلًا قبلہ رو ہونے کا حکم مطلق و عام ہے مگر عذر کی بنا پر یا جہالت ولاعلمی کی بنا پر خاص ہو جاتا ہے ۔ وضو کا حکم مطلق ہے مگر پانی نہ ملنے کی صورت تیمم کی وجہ سے خاص ہو جاتا ہے ہر مطلق و عام کا یہی حال ہے سوائے ذات باری کے ۔ لہذا یہاں لا صلٰوۃ بھی عام نہیں بلکہ خاص ہے ۔ روایات یہ ہیں ۔
۱۔ حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے ایسا آدمی پیش ہوا جس کو نماز سے کچھ نہ آتا تھا تو اس نے پوچھا جناب میں نماز کے وقت کیا کروں تو جناب نے فرمایا اگر قرآن سے کچھ یاد ہے تو پڑھ لینا وگرنہ تلاوت و قرأت کی جگہا‘‘ الحمد للہ ، اللہ اکبر ، لاالہ الّا اللہ ’’ کہہ کر رکوع کر لیں ۔ اس روایت کو صحیح ترمذی ، ابو داوٗ د کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ ِ مَن لا یُقیم صلبُہٗ ، نسائی ، دارمی اور احمد وغیرہ نے روایت کیا اور یہ روایت بھی صحیح ہے ضعیف نہیں ۔
اب اس روایت میں بغیر سورۃ فاتحہ تلاوت کرنے کے عذر کی وجہ سے نماز درست ہوئی لہذا ‘‘لاصلوٰۃ ’’کا عموم ختم ہو گیا۔ اگر آپ کہیں کہ یہاں تو ہے تب فاتحہ کے بغیر نماز درست ہوئی تو عرض ہے کہ مقتدی کا امام پیچھے بھی عذر ہے کہ قرآن و حدیث نے سماع کو لازم اور چپ رہنے کا حکم دیا ہوا ہے اب کیا کر سکتے ہیں معذور ہیں۔
۲۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰی ؓ سے مروی ہے کہ ایک ایسے ہی آدمی نے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب مجھے تو قرآن سے کچھ بھی یاد نہیں ۔ مجھے کوئی وہ چیزسکھا دیں جو مجھے کفایت کرے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم ‘‘ سبحان اللہ ، الحمد للہ ، ال الہ الّا اللہ ، واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الّا باللہ ’’ ہی کہو ۔ یہ واقعہ بھی عام نہیں بلکہ نماز کے بارے میں ہے کیونکہ اس روایت کو ابو داوٗد نے کتاب الصلٰوۃ باب مایجزی الامی و الاعجمی من القرأۃ میں درج کیا ۔ نسائی ، دارقطنی وغیرہ یہ روایت حسن ہے ۔
۳۔ عن جابرٍ ؓ عن النبی ﷺ من کان لہ امامٌ فقرأۃ الامام لہٗ قرأۃ۔
( ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلٰوۃ و السنۃ فیھا باب اذاقرأ الامام فانصِتُوا ۔ دارقطنی ، شرح معانی الاثار ، ارداء الخلیل وغیرہ )
امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے ۔ یہ حدیث حسن ہے ۔
سفیان ثوری ؒ ، شریک ، جریر اور ابو الزُہیر نے اپنی اپنی اسانید صحیحہ میں اس کو مرفوعًاصحیح روایت کیا ۔
اس روایت کے مطابق بھی ‘‘لاصلٰوۃ ’’ والی روایت کا عموم خصوص میں بدل گیا ۔
لا صلٰوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتا ب اور جو رکوع میں شامل ہو :۔
ظاہر ہے کہ یہ تعیّن کیا جائے کہ مقتدی رکعت کی کونسی جگہ آکر ملے تو تب اس کی وہ رکعت شمار ہوگی ۔چونکہ یہ نماز کا مسئلہ ہے اور کثیر الوقوع لازم ہے کہ اس کی وضاحت ہو جائے ۔ ہمارے علمآء نے اس کی وضاحت احادیث کی روشنی میں کی ہے مگر وہ احباب جن کو فاتحہ بہر صورت ہر رکعت میں لازمی پڑھنا ہے ان کو جہاں اس رائے سے دیگر اشکالات پیدا ہوئے وہاں ان کو یہاں بھی شدید اشکال ہے اور پوری امت کے مقابلہ میں تنہا کھڑے نظر آئے ۔ اِس بارے میں مختلف آراء ملاحظہ ہوں ۔
۱۔ چاروں امام یعنی امام ابو حنیفہ ؒ امام شافعیؒ امام مالک ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی رائے ہے کہ جس نے رکوع پا لیا اُس نے رکعت پالی۔
۲۔ چاروں ائمہ کے علاوہ بھی جمہور (بھاری اکثریت ) کی رائے میں جس نے رکوع پایا اس نے رکعت پالی ۔
۳۔ علامہ عینی ؒ بھی فرماتے ہیں کہ جس نے رکوع پالیا اُس نے رکعت پالی ۔ عمدۃ القاری شرح بخاری ۔
۴۔ علامہ ابن قدامہ ؒ : جس نے رکوع پالیا اس نے رکعت بھی پالی ۔ المُغنی ج ۱ صفحہ 504 ۔
۵۔ خود اہل حدیث کے دور حاضر کے چوٹی کے عالم ناصر الدین البانی ؒبھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
۶۔ سعودی مجلس افتاء :۔ سعودی حکومت نے سرکاری سطح پر علماء کا ایک بورڈ تشکیل دے رکھا ہے جن کی ذمّہ داری مسائل کا شرعی حل پیش کرنا ہے انہوں نے یہی فتوی دیا ہے کہ جس نے رکوع پالیا اُس نے گویا رکعت پالی ۔ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج 6 صفحہ 404 ۔
۷۔ علّامہ ابن باز نے بھی یہی فتوی دیا ہے ۔ الفتاوی الاسلامیہ ج ۱ صفحہ 230 ۔
آپ نے خوب ملاحظہ فرمالیا کہ چاروں ائمہ فقہ ، سعودی مجلس ِ افتاء اور خود علامہ ناصر الدین البانی ؒ اہل حدیث کی متفقہ رائے ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا اس نے رکعت پالی ۔ چونکہ یہ صورت حال اکثر پیش آتی ہے اور حضور ﷺ کے زمانے میں صحابہ کو بھی بار بار آئی تو کیسے ممکن ہے کہ نہ تو حضور ﷺ مسئلہ واضح فرمایا ہو جبکہ آپ کا منصب رسالت تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی صحابہ نے پوچھا ہو جو کہ ہر چھوٹی بڑی چیز دین کے بارے میں پوچھنے میں حریص تھے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ دور نبوت میں تو یہ مسئلہ واضح تھا اب ہم کو سمجھ نہیں آرہی ۔
اس بارے حدیث پیش ِخدمت ہے ۔ جماعت ہو رہی ہے اور حضرت ابو بکرؓ ۃاس وقت پہنچے جب امام رکوع میں تھا تو آپ نے حصولِ رکوع کی خاطر جلدی سے صف میں پہنچنے سے پیچھے ہی رکوع کیا اور شاملِ رکعت ہو گئے تو فراغتِ نماز کے بعد حضور ﷺ نے جب اسے صفوں سے الگ دیکھا تو پوچھنے پر انہوں نے پوری بات بتائی تو آپ نے فرمایا ‘‘زادک اللہ حِرصًا ولا تعُد ’’ اللہ تیرے حصول ِ رکوع کے حرص کو اور زیادہ فرمائے آئندہ ایسے نہ کرنا ۔ ‘‘ اس روایت کو امام بخاری ؒ اور ابو داوٗد نے روایت کیا ’’
یعنی صحابی کی حرصِ شرکتِ رکوع کو تو زیادہ ہونے کی دعا فرما کر یہ طاہر فرمایا کہ رکوع میں شریک ہونے کا حرص تو اس سے زیادہ ہوناچاہیے مگر صف سے جو آپ الگ پیچھے ہی کھڑے ہو گئے ایسا پھر نہ کرنا ۔ مگر اس کی نماز کو رد بھی نہ فرمایا کہ صفوں کی ترتیب و تشکیل ارکان و فرائض سے نہیں بلکہ سنت ہے ۔
اب ظاہر ہے کہ اس صحابی نے رکوع میں شرکت کی اس قدر کوشش کی کہ صفوں کی تشکیل کو نظر انداز کیا تاکہ رکوع ملے اور میری یہ رکعت ہو جائے اگر رکوع پانے سے رکعت ہی نہ ہوتی ہو تو اس صحابی کو صفوں میں پہنچ کر نماز شروع کرنے میں کیا رکاوٹ تھی جبکہ صفوں کی ترتیب و تشکیل پر حضور ﷺ اکثر زور دیتے رہے ۔ اب اگر صحابی کا یہ خیال غلط تھا کہ جلدی سے رکوع ملوں تاکہ رکعت مل جائے تو حضور ﷺ پر لازم تھا کہ اس کو غلطی پر آگاہ کرتے ۔ جب یہ سمجھ آجائے کہ اس صحابی کی رکوع ملنے والی رکعت ہو گئی تو فرمائیں اس کا فاتحہ کہاں گیا ؟ گویا ظاہر ہوا کہ امام کا فاتحہ پڑھنا اسی کا فاتحہ شمار ہوا ۔ ہر رکوع میں ملنے والا بغیر فاتحہ کے ہی تو شامل ہو تا ہے ۔ (بخاری و ابوداوٗد )
دوسری حدیث:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا جِءْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا، وَلَا تَعُدُّوہَا شَیْئًا، وَمَنْ أَدْرَکَ الرَّکْعَۃَ، فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاۃَ ۔
(ابوداوٗد کتاب الصلاۃ باب تفریع أبواب الرکوع والسجودباب فی الرجل یدرک الإِمام ساجداً کیف یصنع، دارقطنی، حاکم ، ابن خزیمہ وغیرہ،صحیح بخاری ج۱ )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب تم نماز میں اس وقت آکر ملو جب ہم سجدہ میں ہوں تو شریک سجدہ ہو جاؤ مگر اس کو کوئی (رکعت ) شمار نہ کرو اور جس نے رکعت پالی اس نے نماز پالی ۔
مسائل:۔
۱۔ اگر کوئی آئے اور امام سجدہ میں ہو تو فوری سجدہ میں جائے فضول کھڑا امام کے اٹھنے کا انتظار نہ کرے کچھ لوگو ں کو دیکھا کہ وہ سجدہ میں شریک ہونے کی بجائے کھڑے رہتے ہیں جب امام اٹھتا ہے تو شریک ہو جاتے ہیں یہ بہت غلط سوچ ہے ۔ سجدہ اگر رکعت شمار نہیں بھی ہوتا تو کیا باعث ِ اجر و ثواب بھی نہیں ؟
۲۔ اسی حدیث کو تقاضاہے کہ اگر امام قیام سے رکوع میں چلا گیا تو آپ کھڑے فاتحہ ہی نہ پڑھتے رہیں بلکہ امام کے رکوع کے ساتھ ہی آپ کو بھی بلا تاخیر رکوع کرنے کا حکم ہے ۔
سیاق کلام:۔
سیاقِ کلام سے ظاہر ہے کہ اس حدیث میں حضور ﷺ یہی واضح فرمانا چاہتے ہیں کہ کوئی کس وقت ملے تو رکعت شمار ہو گی اور کس وقت شمار نہیں ہو گی ۔ تو یہاں سجدہ میں شرکت کو حضور ﷺ نے رکعت شمار نہ فرمایا اس کے مفہوم مخالف سے ظاہر ہے کہ سجدہ سے پہلے قریب تر رکنِ نماز رکوع ہے اس کی آپ نے نفی نہ فرمائی جس سے رکوع میں شرکت سے رکعت یا لینا ظاہر ہوا ۔ اب حدیث کے اگلے الفاظ بھی یہی اشارہ دے رہے ہیں کہ آپ نے فرمایا من اَدرک الرکعۃ فقد ادرک الصلٰوۃ یعنی جس نے رکوع پا لیا اس نے گویا رکعت پالی ۔ یہ مفہوم جملہ علماء بلا وجہ نہیں لیتے بلکہ محلِ کلام یہی ظاہر کرتا ہے کہ ایک طرف حضور ﷺ رکعت کے ایک حصّے سجدے کا ذکر فرما کر اس کو رکعت شمار نہ کرنا فرمایا اب کلام و محل کا تقاضا کہ آپ اس کے ساتھ ہی وہ رکعت کا حصّہ بھی بیان فرمائیں جس کو شرکت رکعت شمار ہو ۔ ہاں ظاہر بین کے لئے یہاں مشکل اب بھی موجود ہے کہ یہاں لفظ من ادرک الرکوعَ نہیں بلکہ ادرک الرکعۃَ ہے تو جناب رکوع کی وجہ سے ہی رکعت کو رکعت کہا جاتا ہے کہ رکوع اس قدر اہم ترین جزو رکعت ہے کہ پوری رکعت کو اسی کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ پھر یہ کہ رکوع اس لئے بھی رکعت ہونی چاہیے کہ حالت رکوع میں آدمی کو بیٹھا ہوا نہیں کہتے گویا کھڑا ہے لہذا رکوع چونکہ قیام ہی کی ایک شکل ہے تو قیام از خود اس میں پا یا گیا پھر یہ بھی کہ مقتدی جب شامل رکوع ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ حالت قیام میں تکبیر تحریمہ کہتا ہے اور اس کا قیام ثابت ہو جاتا ہے باقی امام کی قرأت مقتدی کی شمار کی جاتی ہے تو رکوع میں ملنا درست ہوا ۔ اگر آپ کی فاتحہ رہ گئی تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے اپنی رائے ہی درست کر لیں ۔ اگر علی بلاغت سے شناسائی ہو تو گزارش کروں کہ کبھی کُل بول کر جزء بول کر کُل مراد لیا جاتا ہے لہذا اس روایت سے رکعت بول کر رکوع ہی مراد ہے جو اس کا جزء لازم ہے اور جس کی وجہ سے ہی رکعت رکعت کہلاتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ رکوع کو عین رکعت کہ دیا جائے وہ اس طرح رَکع یَرکع سے رکوعًا و رکعۃً دونوں مصدر آتے ہیں اس طرح رکوع اور رکعت ایک ہی شی کے دو نام ہیں ۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم تو رکعت کو رکوع کہ رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے پوری نماز کو ہی رکوع فرمایا و ارکعُوا مع الرّٰکعین ۔ یہاں رکوع بول کو پوری نماز مراد ہے ورنہ لازم آئے گا کہ رکوع میں تو شرکت جماعت کے پابند ہو ں اور بعد رکوع چھوڑ کا چلے جائیں ۔
حدیث کا دوسرا حصّہ :۔
فقد ادرک الصلٰوۃ ۔یہاں بھی صلوٰۃ سے رکعت مراد ہے کہ کل بول کر جزء مراد لینا کلام عرب میں عام ہے ۔اور محل بھی یہی تقاضا کرتا ہے ک جناب ﷺ نے جب ایک طرف سجدہ میں شرکت کو عدم رکعت قرار دیا تو دوسری طرف کسی رکن کو رکعت بھی تو قرار دیں تو آپ نے سجدہ کے مقابل رکوع کو رکعت و نماز قرار دیا ۔ ورنہ جو مفہوم آپ نے ظاہری لیا دوسری روایات کی بنیاد پر تو سوال آپ سے یہ ہے کہ جس نے رکعت کو پالیا اس نے تو نماز پالی اور جو رکعت کے بعد رکوع سے لیکر قومہ ، قومے سے سجود اور سجود سے تہشد کے آخری قبل از سلام تک شاملِ جماعت ہو گا اس کو آپ کیا کہیں گے کہ یہ شامل نماز نہیں ہوا ؟ معلوم ہوا کہ یہاں محل کلام کچھ اور ہے جس کو سمجھنا چاہیے ۔
آپ کا شک :۔ آپ کا شک یوں سمجھ میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی دیگر احادیث ہیں جہاں آپ فرماتے ہیں کہ جس نے طلوعِ آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لی یا غروب شمس سے قبل پڑھ لی یا جمعہ سے ایک رکعت کو پالیا تو گویا پوری نماز پالی ۔ ان روایات سے آپ کو ہماری مذکورہ بالا حدیث کے سمجھنے میں دقّت پیش آئی مگر اتنا ہی عرض ہے کہ ہماری روایت کا محل اور ہے اور غروب شمس اور طلوعِ شمس کی روایات کا محل اور ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کلام کو محل سے سمجھا جاتا ہے ۔ مثلًا ایک جوان کے ہاتھ میں سانپ بھی اور رائفل بھی اور اس کے دوسرا پاس کھڑا سانپ بارے اس سے گفتگو کر رہا ہے اتنے میں ان کا ایک دشمن قریب سے گزرے تو سانپ والے کے پاس کھڑا محوِ گفتگو اپنی جاری گفتگو کے درمیان یہ کہ دے کہ اس کو قتل کردو تو اس کا کیا مطلب ہو گا کیا سانپ کو قتل کرنا مراد ہو گا یا دشمن کو ؟ تو محل ِ کلام سے ظاہر ہے کہ جو گفتگو پہلے سانپ بارے چل رہی تھی ‘‘اس کو قتل کردو ’’ اسی کلام کا حصّہ ہے اور سانپ قتل کرنا مراد ہے ۔عین اسی طرح ہماری گزارش اتنی ہے کہ مذکورہ روایت میں حضور ﷺ کسی رکن کے پانے سے رکعت کے ہونے نہ ہونے کی بات فرمارہے ہیں نماز کے ہونے نہ ہونے کی بات اپنے الگ موقع پر فرمائیں گے ۔ اس طرح اس روایت کو سمجھنا بالکل آسان ہو جاتا ہے اور یہی مراد بھی ہے ۔
جہری و سرّی دونوں نمازوں میں مقتدی کی قرأت کی قطعی ممانعت :۔
حضور ﷺ نے امام کے پیچھے مقتدی کو جہری و سرّی دونوں حالتوں میں قرأت ِسے روک دیا ہے اس لئے کہ قرأت ِ امام میں خلل واقع ہوتا ہے اور یہ ممانعت و خلل فاتھہ کو بھی شامل ہے ۔
روایت نمبر 1 :۔ جہری نماز میں ممانعت :۔
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک جہر ی نماز میں فراغت کے بعد صحابہ کرام کی طرف رخ کرکے پوچھا کیا تم میں سے میرے ساتھ ساتھ کوئی قرأۃ کر رہا تھا ؟ تو ایک صحابی نے اعتراف کیا جس پر آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘اِنّی اقولُ مَا لِی اُنازِ عُ القرآن ۔’’ میں بھی کہتا تھا کہ مجھے کیا ہو گیا کہ میں قرآن سے جھگڑ رہا ہوں پھر اسی روایت کے آخر میں ہے کہ ‘‘ فَانتھی النّاسُ عَنِ القرأۃِ مَعَ رسولِ اللّٰہ فیما جَھَرَ فیہ بالقرأۃِ ’’ کہ اس کے بعد جہری نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام قرأت سے باز آ گئے ۔
تشریح:۔ جہری نمازوں میں سب صحابہ قرأت نہیں کرتے تھے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بلکہ ایک صابی نے ایسا کیا تب تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ کس نے میرے پیچھے کھڑے قرأت کی اگر سب امام پیچھے قرأت کرتے تو سوال ہی کرنے کی حالت نہ تھی کہ کس نے کی ۔
دوسری بات یہ کہ حضور ﷺ کو خلل ہوا تو منع کر دیا اب سوال یہ ہے کہ امام پیچھے قرأت جہری میں کرنے کا تو کسی کا عمل نہیں کہ ممانعت موجود ہے لیکن اگر امام فاتحہ جہری میں تلاوت کر رھا ہو اور آپ بھی پیچھے سے تلاوت کریں تو کیا امام کو خلل نہیں ہو گا یقینًا جیسے حضور ﷺ سے ہوا ۔ ایسے اب بھی ہو گا لہذا امام پیچھے فاتحہ نہ پڑھی جائے ۔ (ابو داوٗد کتاب الصلٰوۃ )
ممانعتِ قرأتِ ِ خلف الامام کی دوسری روایت سرّی نماز میں :۔
حضرت عمران بن حصن ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ظہر کی (سرّی ) نماز پڑھائی تو ایک صحابی نے دوران قرأت حضور ﷺ کے پیچھے اپنی قرأت ‘‘ سبَح ا سم رَبّک الاعلیٰ ’’ فرمائی تو نماز سے فراغت پر حضور ص نے فرمایا میرے پیچھے کون قرأت کر رہاتھا تو پڑھنے والے نے بتایا جناب میں ! آپ نے فرمایا ‘‘ لقد ظَنَنْتُ ان بعضکم خالِجنیھا ’’ یقینًا میرا بھی یہی گمان تھا کہ تم سے مجھ سے کوئے خلل انداز ہو رہا ہے ۔ (مسلم کتاب الصلٰوۃ باب نھی الماموم عن جھرہٖ )
تشریح:۔ یہ روایت چونکہ ظہر بارے ہے جو کہ ایک سری ّ نماز ہے،اس میں بھی حضورﷺ کو پچھلے نمازی کی قرأت سے مسلسل خلل پڑا تو روک دیا۔اب ظاہر ہے کہ خلل وجہ ممانعت ہے اور خلل فاتحہ وغیرفاتحہ دونوں میں برابر پڑھتا ہے تو کہنا کہ فاتحہ کے بعد قرأت امام کے پیچھے نہ کر کے امام کو خلل سے بچایا جائے مگر فاتحہ کے دوران خلل انداز ہوتے رہیں اور امام کو برابر پریشان رکھیں کہ وہ اپنی تلاوت اور اس کے مفہوم پر دھیان ہی نہ دے سکے۔ کیا یہ بات معقول ہو گی؟
لہذا فاتحہ و غیر فاتحہ کی تفریق کیے بغیر دونوں صورتوں میں امام کو خلل سے بچانا اور نہ پڑھنا لازم آتا ہے۔ سری ّ نماز میں حضور ﷺ کا مقتدی کو قرأت سے روکنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے۔ اور یہی ہم احناف بھی کہتے ہیں۔
جہری نماز میں مقتدی کی قرأت کی ممانعت پر تیسری روایت:۔
حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم نمازِ فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے شریکِ نماز تھے اور آپ قرأت فرما رہے تھے تو قرأت آپ پر بوجھل ہو گئی(خلل پڑا) تو آپ نے بعد از نمازِ فراغت پوچھا لعلّکم تَقرء ون خلفَ امامِکم کہ شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے رہتے ہو تو ہم نے گزارش کی جی ہاں! تو آپ نے فرمایا لا تفعلوا ۔ ایسا نہ کیا کرو ۔
تشریح:۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے امام کے پیچھے قرأت سے صاف روک دیا مگر اس روایت کے آخری الفاظ :
إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَإِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا۔
یہ بھی اس روایت کا حصّہ ہیں اور اسی اضافے کی وجہ سے یہ روایت صعیف بھی ہے کیونکہ آپ اس سے پہلے دور وایا ت پڑھ چکے وہاں آپ نے مطلق مقتدی کو قرأت سے منع فرمایا اور فاتحہ کی اجازت بھی نہ دی یہاں فاتحہ کی اجازت ذکر ہے جو ضعیف ہے اہل حدیث نے اس روایت کو ضعیف تسلیم کیا ۔(نماز کی کتاب صفحہ 129 ملاحظ فرمائیں اہل حدیث عالم کی کتاب (نماز کی کتاب صفحہ ۹۲۱ حاشیہ نمبر ۱ ۔ یہ کتاب علامہ عمراب ایوب لاہوری کی تصنیف ہے ۔
ضعیف ہونے کی وجہ :۔
اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضرت انس ﷺ سے ایسی ہی روایت موجود ہے جس میں یہ اضافہ نہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ممانعت کی وجہ خلل اندازی ہے پھر یہ کیسے یقین کر لیں کہ فاتحہ سے خلل اندازی نہیں ہوتی باقی قرأت سے ہو تی ہے لہذا یہ خلاف ِ عقل و حقیقت ہے اور کسی حدیث کا خلافِ عقل ہو نا وجہ ِ ضُعف ہوتا ہے لہذا ضعیف ہے اور یہی احباب اہل حدیث کا آخری سہارا بھی ہے ۔ و اللہ اعلم ۔
خلاصۂ کلام:۔
جملہ احادیث کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہی حاصل کلام ہے کہ مقتدی سری و جہری دونوں حالتوں میں فاتحہ سمیت کوئی قرأت نہ کرے بلکہ خاموشی سے پوری توجہ سے امام کی سماعتِ فاتحہ اور اس کے بعد تلاوت کو سنے اور اگر نہیں سن رہا یا سرّی نماز ہے تو بھی خاموش رہے کہ قرآن وحدیث میں جہاں خاموش رھنے کا حکم ہے وہ سرّی و جہری دونوں کے لئے عام ہے اور پھر حدیث حسن سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام کی قرأت سرّی و جہری دونوں حالتوں میں مقتدی کی قرأت ہے اور ‘‘ لاصلٰوۃ لمن لم یقرأ الّا بفاتحۃ الکتاب ’’ کو جو روایات منفرد کے لئے خاص کرتی ہیں وہ بھی ذکر کر دیں ۔
پھر فاتحہ پڑھنے کی جگہ امام کے پیچھے اہل حدیث بھائی نامعقول بتا رہے ہیں اب یہ بھی روایات سنتے جائیں کہ جو رکوع میں شامل ہو اس کی رکعت بھی شمار ہو جاتی ہے جب رکوع میں شامل ہوا تو ظاہر ہے اس نے فاتحہ نہیں پڑھی مگر رکعت اس لئے ہو گئی کہ امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے اور یہ روایات اس روایت کی تائید کر رہی ہیں کہ جس میں ہے کہ جس کا امام ہو تو امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے ۔
۱۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ أَدْرَکَہَا قَبْلَ أَنْ یُقِیمَ الْإِمَامُ صُلْبَہُ۔
( دار قطنی باب من ادرک لامام قبلَ اقامۃ صُلبِہ ، سنن کبری للبیہقی باب ادراک الامام فی الرکوع ، جُزء القرأۃ للبخاری )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جس نے نماز کی رکعت کو (یوں ) پالیا اس نے نماز پالی کہ ابھی امام نے (رکوع سے ) پیٹھ سیدھی نہ کہ تھی۔
اب اس روایت نے وہ بحث بھی ختم کر دی کہ ‘‘ من ادرک رکعۃً سے من ادرک الرکوع ’’کیسے بنا لیا کہ اس روایت نے خود وضاحت کر دی کہ جو رکعت کو اس طرح پائے کہ رکوع میں امام ہوا بھی اس نے رکوع سے کمر سیدھی نہ کی ہو ۔ اگر آپ رکوع میں شامل ہونے کو رکعت نہیں مانتے تو آپ کو صحیح روایت سے ثابت کر نا ہوگا کہ مقتدی پھر کہاں شامل ہو تو رکعت ہو۔رکوع کے بغیر کوئی تعین آپ نہیں کر سکتے اگر کوئی کوشش کی تو خود کو بھی شکل میں ڈالو گے اور مقتدی کے لیے بھی مسائل کھڑے کرو گے جبکہ شریعت مسائل کھڑے نہیں کرتی بلکہ مسائل کا حل پیش کر تی ہے ۔
مسئلہ امین با لجہر:۔
امین دعا ہے اور دعا جہرًاکی بجائے سترًا ہی افضل ہے اور قرآن وحدیث کا تقاضا بھی لہذا احناف کے نزدیک جب امام ‘‘ ولا الضّآلین ’’ کہے تو مقتدی آہستہ امین کہیں جس کی امین فرشتوں سے مواقف ہو جائے اس کی پیچھے گناہوں ں کی بخشش کر دی جاتی ہو امام بخاری ؒ نے کتاب الاذان باب جھر الامام بالتّامین الخر بخاری ج ۱ میں اسی مفہوم کی تین احادیث ذکر فرمائیں ۔ اب احناف اٰمین کے آہستہ کے قائل جبکہ اہلِ حدیث اٰمین کے جہر کے قائل ہیں مگر اس مسئلہ میں بھی سوائے شرمندگی کے ان کو کچھ ہاتھ نہیں آیا۔جہاں تک اما م بخاری پر اہل حدیث نے اندھا اعتماد کیا ان کی حقیقت یہ ہے کہ پوری بخاری میں امام بخاری نے ایک بھی جہر کی حدیث ذکر نہ کی جس سے ظاہر ہے کہ بخاری کے علاوہ بھی اہل حدیث اگر جہر پر حدیث لاتے تو اس کی حیثیت امام بخاری کی نظر میں با لکل نہیں ورنہ مذکورہ حوالہ کتاب الاذان میں جہاں وہ اٰمین با لجہر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ امام بھی جہر سے اٰمین کہے پھر اسی جگہ اگلے باب کا نام جہر الماموم با لتا مین سے مقتدی کے اٰ مین با لجہر کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حیرت ہے کہ دونوں ابواب میں جہر کا دعویٰ تو ہے مگر اپنے دعویٰ پر امام بخاری ضعیف حدیث یا اثر بھی لانے سے قاصر رھا ۔ اب بھی اگر کوئی یہ مان کرے کی جہر کا لفظ تو پوری بخاری میں نہیں مگر فرشتوں سے موافقت یا اٰمین کا باعثِ بخشش ہونا یہ جہر کی دلیل ہے تو سنیے امام بخاری سے ہی ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: اللَّہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الحَمْدُ، فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ المَلاَئِکَۃِ، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ
(بخاری کتاب الاذان باب فضل اللّھم ربنا ولک الحمد )
حضرت ابوھریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللّھم ربنا ولک الحمد کہو جس کا اللّھم ربنا ولک الحمد فرشتوں کے موافق ہو جائے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔امام بخاری ؒ کا اٰمین بالجہر کے دعوی کا حوالہ (بخاری ج۱ کتاب الاذان باب جہر الامام بالتامین الخر )
تشریح:۔
اگر فرشتوں کی موافقت جہر سے ہے تو یہاں بھی فرشتوں کی موافقت اور اسی اجر کی بات ہے جو اٰمین پڑھے تو چاہیے کہ مقتدی صرف اٰمین ہی اونچی آواز سے نہ کہے بلکہ ا للّھم ربنا ولک الحمد بھی اونچا کہے جبکہ ایسا تو اہل حدیث بھی نہیں کرتے ۔ جب ا للّھم ربنا ولک الحمد آہستہ کہ کر باعث اجر و موافقِ ملائکہ ہو گیا تو اٰمین بھی آہستہ کہ کر باعث اجر و موافق ملائکہ ہو جاتا ہے ۔ دوسرا یہ مسئلہ بھی احناف کا اسی حدیث سے ظاہر ہو گیا کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی صرف اللّھم ربنا ولک الحمد کہیں ۔
اٰمین بالجہر پر اہل حدیث کی دلیل اور اُس کی حقیقت:۔
ان کی پہلی دلیل تو آپ پر واضح ہوئی کہ انہوں نے امام بخاری ؒ کے اپنے قول پر اعتماد کیا جبکہ امام بخاری کے پاس سوائے اپنے قول کے کوئی ضعیف حدیث بھی جہر پر نہیں جس کو وہ پیش کرتے اب رہی اہل حدیث کی دوسری دلیل۔
حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے غیر المغضوب علیھم ولا الضّآلّین پڑھا تو اٰمین کہی اور (ورفع بھا صوتہٗ ) اور آواز کو بلند فرمایا ۔ یہ کسی ایک نماز کا واقعہ ہے نہ کہ معمولِ رسول ﷺ اور نہ ہی حکم رسول ﷺ ۔ اگر یہ ہر نماز میں معمول ہوتا تو الفاظ یہ ہوتے ‘‘ و کان یرفع بھا صوتہٗ ’’ کہ جب آپ اٰمین فرماتے تومعمول تھا کہ آپ آواز کو بلند فرماتے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ پیش کردہ روایت دلیل کے لئے کافی نہیں جس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ یہ حدیث ترمذی ہی میں دو جگہ ذکر ہے ایک جگہ ورفع بھا صوتہٗ کے الفاظ کے ساتھ جبکہ دوسری جگہ وَمدّ بھا صوتہٗ سے ہے جبکہ آواز کو اونچا کرنا الگ بات ہے اور صرف لمبا کرنا نہ کہ اونچا کرنا یہ الگ بات ہے ۔ پھر وائل بن حجر ؓ ایک ہی راوی ہیں انہی سے یہ بھی روایت ہے ‘‘ وخفضَ بھا صوتہٗ ’’ یعنی جب حضور ﷺ نے اٰمین پڑھا تو آواز کو پَست یعنی مخفی کر لیا ۔ ترمذی کتاب الصلٰوۃ باب ماجاء فی التامین ، ابن ماجہ ، احمد بن حنبل ؒاور دار قطنی نے بھی وائل بن حجر ؓ سے وخفض بھا صوتہ ٗ کہ اٰمین آہستہ آواز سے کہی روایت کیا یہی ہماری دلیل بھی ہے ۔
اسی طرح ابو داوٗد ، طیاسی ،ابو یعلی موصلی طبرانی اور حاکم نے اور مستدرک نے بھی وائل بن حجرؓ سے آہستہ آواز سے اٰمین روایت کی ۔ طبرانی نے تہذیب الاثار اور طحاوی نے آثار السنن میں ایک اثر پیش کیا جو مذکورہ روایت کی تائید کرتا ہے ۔ہے وہ یہ ہے کہ
عن وائل بن حجرؓ قال لم یکن عمرؓ و علی ؓ یجھران ببسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم ولا باٰمین ۔۔
کہ حضرت عمر ؓ و علیؓ نہ تو بسم اللہ اونچی پڑھتے اور نہ ہی اٰمین اونچی پڑھتے تھے ۔ معلوم ہوا کہ اس روایت میں وائل بن حجر ؓ بالکل اکیلے ہیں یہ روایت شاذ ہوئی اور الفاظ کا تردد الگ ہے لہذا ہمارے خلاف قابلِ حجت نہیں بلکہ ہمارے حق میں ہے کہ زیادہ لوگوں نے وائل بن حجر ؓ سے اٰمین کے وقت آواز کو پست کرنا روایت کیا ۔اور حاکم نے آواز کو اٰمین پر پست کرنے کی روایت وائل بن حجر ؓسے ذکر کر کے فرمایا کہ اس روایت کی اسناد نہایت صحیح ہے تو معلوم ہوا کہ وائل بن حجر ؓ کی روایت میں اگر کچھ جان ہے تو خفا میں ہے جسے حاکم نے ظاہر کیا جہر کے لحاظ سے اس میں کوئی جان نہیں شاید راوی نے غلطی کھائی ہو کیونکہ ایک ہی وائل بن حجر ؓ دو باتیں متضاد کیسے بتا سکتے ہیں کہ جہر کی بھی بات کریں اور سِر کی بھی ۔
اب رہی اہل حدیث کی تیسری اور آخری دلیل وہ یہ کہ حضرت عبد اللہ ابن زبیر ؓ اور ان کے مقتدیوں نے اس قدر اونچی آواز سے امین کہی کہ مسجد گونج گئی ۔ اس کو عبد الرزاق نے اپنی سند میں اور ابن مُنذر نے الاوسط میں ذکر کیا ۔اس پر پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث نہیں کیونکہ حدیث کی تعریف جس پر سب متفق ہیں وہ قولِ رسول ، فعل رسول اور تقریر رسول ﷺ ہے یہاں ایسی کوئی چیز نہیں بلکہ اثر کہتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ امام ابو حنیفہ ؓ جیسے جلیل القدر اور عظیم المرتبت سے اختلا ف کی کوشش کررہے ہیں اور لوگوں کو بھی ان سے متنفّر کر رہے ہیں اور آپ کے پاس صرف اثر ہے اور اثر بھی وہ جس کو عام محدثین اپنی اپنی تالیفات میں جگہ ہی نہیں دے رہے ۔ اب رہی بات امام بخاری ؒ کی تو امام بخاری ج ۱ کتاب الاذن باب جہر الامام بالتامین میرے سامنے پڑی ہے جسمیں حدیث و اثر ذکر کیے بغیر بلا سند امام بخاری ؒ باب کی ابتداء میں یوں فرماتے ہیں ۔
وَقَالَ عَطَاء ٌ: آمِینَ دُعَاء ٌ أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَیْرِ: وَمَنْ وَرَاء َہُ حَتَّی إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّۃً۔۔۔ الخر۔
تو جناب یہ امام بخاری نے باب کا نام تو رکھا مگر نہ یہ حدیث ہے نہ اس کے تحت کوئی اٰمین بالجہر کی کوئی حدیث ہے صرف یہ الفاظ بلاسندکہناکہ عطاء نے یوں کہا اور ابن زبیر نے یوں کیا جب تک امام بخاری ؒ سند بیان نہ کریں تو ان کا اتنا کہہ دینا کسی کے لئے شاید حجت بلا دلیل ہو مگر احناف کے لئے ہر گز یہ دلیل نہیں ۔ معلوم ہوا کہ جو اثر آپ نے پیش کیا اگر واقعی اس اثر کا وزن امام بخاری ؒ کے ہاں ہوتا تو اس کو پوری سند سے بیان کرتے ۔ ہمارے ان پڑھ نمازیوں کو یوں ہی پاگل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔کہ بخاری میں لکھا ہے بھائی صاحب ساری بخاری قرآن نہیں کہ اس کی ہر بات ماننا لازم ہو اس میں امام بخاری ؒ کے اپنے اقوال بھی ہیں جو ابو اب کے شروع میں فرماتے ہیں جو حدیث نہیں اور اس میں تاریخی واقعات بھی ہیں ۔ جن کو حدیث کی حیثیت و مقام حاصل نہیں لہذا جب بخاری ؒ کو حوالہ دیا جائے تو کسی صاحب علم سے رجوع کرکے جاننے کی کوشش کریں کہ امام بخاریؒ کی اس بات کی کیا حیثیت ہے ۔ معذرت سے ہم امام بخاریؒ کی ہر بات کے مقلِّد نہیں ۔
عقلی دلیل:۔
عقل کا تقاضا بھی یہ ہے کہ امین دعا ہے اس میں خفا ہو پھر اونچے کہنے سے نمازیوں کی توجہ یقینًا اس طرف ہوتی ہے تو نماز میں خلل اندازی ہوئی جو حدیث کے مطابق فعلِ شیطان ہے ۔
مزید یہ کہ اٰمین کے لفظ کو سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن میں جگہ نہ دی گئی تو فاتحہ کے ساتھ قرأت میں اس کو جگہ کیوں دی جائے پھر یہ کہ امام جہر صرف تلاوتِ قرآن میں کرتا ہے باقی پوری نماز میں سرّ ہے سوائے تکبیرات و سلام کے کہ وہ اطلاعِ انتقالِ حالت کے لئے ہے ۔ جب صرت قرآن کی تلاوت جہر سے ہے تو اٰمین کو جہر سے بول کر قرآن کے ساتھ مشابہت کیوں دی جائے ۔ اسی بنیادی پر فاتحہ کے شروع میں تسمیہ کو جہر سے پڑھنے کی اجازت نہیں جو فاتحہ کے اوپر قرآن میں تحریر ہے تاکہ فاتحہ ممتاز رہے تو وہ اٰمین جو تحریر ہی نہیں قرآن میں فاتحہ کے ساتھ اس کو جہر کا مقام مثلِ فاتحہ کیوں ہو ۔ اللہ تعالیٰ فہم و دراک اور شرحِ صدر عطا فرمائے۔
یہاں بھی اہل حدیث کا تردد:۔
مقتدی اس وقت شاملِ رکعت ہوا کہ امام نے ولا الضامین کہا تو لازم ہے کہ حدیث کے مطابق یہ اٰمین کہے گا اور اسی امین کی موافقت کے لئے تاخیر سے آنے والاتلاوت کے سکتوں میں فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا کیونکہ ایسا نہ ہوکہ امام ولاالضامین پر پہنچ کر امین کا تقاضا کرے اور مقتدی ابھی درمیان فاتحہ میں ہو تو کیا درمیان فاتحہ میں امین کہے اور جب فاتحہ پوری کرے تو پھر امین کہے؟ اور اگر مقتدی فاتحہ امام کی قرات کے بعد پڑھے گا تو آخر میں امین بھی کہے گا یوں ایک امین مقتدی نے آتے ہوئے امام کیساتھ پڑھی دوسری اپنی فاتحہ کے آخر میں پڑھی جو فاتحہ کہ مقتدی نے امام کی مکمل قرات کے بعد پڑی تو جناب یہ فرمائیں کہ ایک رکعت میں کتنی مرتبہ امین ہوئی؟ دو مرتبہ ۔یہ تردر بھی آپ کو فاتحہ کے غلط طرح سمجھنے سے ہوا ورنہ یہی روایت یہ بتارہی ہے کہ جب امام ولاالضامین کہے تو تم امین کہو جس سے ظاہر ہے کہ آپ کی فاتحہ امام کے پڑھ دی اور آپ بالکل فارغ کھڑے ہیں تب آپکو فقولو امین کا حکم دیا نہ کہ آپ فاتحہ کے درمیان ہیں اور آپ کو امین کاحکم ہوا کیونکہ فاتحہ امین سے یقینا افضل ہے کہ امین صرف دعا ہے لفظ قرآن نہیں۔
امام کے رکوع جانے سے قبل فاتحہ کی ناکام کوشش:۔
اہل حدیث حضرات فاتحہ بارے روایت کا غلط مفہوم لے کر جس مشکل میں پھنس گئے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ شروع رکعت میں ثناء کی جگہ فاتحہ پڑھ لیں جو بالکل نامعقول ہے اس لئے کہ امام ثناء پڑھ رہا ہے تو آپ اتناع امام کے پابند ہیں آپ بھی اتباع میں ثناء ہی پڑھیں گے کیونکہ یہ حدیث مجبور کر رہی ہے۔
إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا۔
(بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلٰوۃ فی السطوح و المنبرِ )
یعنی امام تو بنایا یہ اسی لئے جاتا ہے کہ اس کی اقتداء واتباع کی جائے لہذا جب وہ تکبیر کہے اور جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے توتم تب سجدہ کرو۔
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ پیچھے ساتھ ساتھ رہے بالکل پیچھے رہ نہ جائے۔ اسی سے فقہاء یہ مسئلہ اخذ کر تے ہیں کہ جب امام سلام پھیرے تو تم بھی اتباع میں سلام پھیردو اگرچہ تمہارا تشہدا بھی مکمل بھی نہ ہوا ہو وغیرہ۔لہذا امام کی اتباع میں شروع رکعت میں تو آپ ثنا ہ وغیرہ پڑھنے کا پابند تھے آپ اتباعِ امام کی بجائے فاتحہ میں مشغول ہو کر اتباع سے محروم ہوئے پھر دوسرا یہ کہ جب امام ابھی فاتحہ نہیں پڑھ رہا تو آپ نے امام سے پہلے فاتحہ پڑھ کر یوں غلطی کی جیسا کہ امام سے پہلے رکوع یا سجدہ کر دیا جائے ۔ یہ صورت تو پہلی رکعت میں تھی اب باقی رکعتوں کے شروع میں ثناء نہیں امام فورًا فاتحہ شروع کرتا ہے لہذا سکتہ ہی نہیں اب آپ رکوع سے پہلے سکتے میں فاتحہ پڑھنے کی بات کرتے ہیں مگر کیسے ؟ آپ فاتحہ کی تلاوت میں مشغول ہوئے اور حنفی امام رکوع میں چلا گیا تو آپ مذکورہ حدیث کی رو سے امام کے ساتھ رکوع کے پابند ہیں نہ کہ فاتحہ پڑھ کر رکوع میں ملنے کے ۔ ویسے بھی جماعت کا انداز یہ تقاضا کرتا ہے کہ تمام نمازی امام کے ساتھ ساتھ ایک حرکت اور ایک شکل رہیں ورنہ جماعت تو نہ ہوئی ۔ پھر آپ یہاں فاتحہ پڑھیں تو آپ کی اٰمین بھی دوسری آئے گی ۔اور آپ کا عمل امام کے خلاف ہو جائے گا ۔ خدا را احناف کو کیا اپنے آپ کو کیوں ں پریشانی میں اُس پتّے کی طرح ڈال دیا جو اپنی شاخ سے الگ ہو کر گلی کوچوں میں ہوا کے جھونکے کی نظر ہوتا رھتا ہے ۔جہاں تک امام کی قرأت فاتحہ کے اندر آپ اٰیات کے درمیان کوئی لمبے چوڑے سکتوں کا گمان رکھتے ہیں تو یہ بھی جناب کا گمان ہے حدیث میں بات صرف اتنی ہے کہ حضور ﷺ فاتحہ کو ایک ہی سانس میں نہ پڑھتے بلکہ آپ کی تلاوت ایک ایک آیت کرنے کی تھی جس میں زیادہ گنجائش آپ کو نہیں مل سکتی ۔
رکوع:۔
اب نمازی قیام کو مکمل کرنے کے بعد رکوع میں جاتا ہے او ررکوع کا معنی جھکنا ہے اور پوری طرح جھکنے کا طریقہ حدیث میں یوں بتایا گیا ہے۔
۱۔ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْبَدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تُجْزِءُ صَلَاۃُ الرَّجُلِ حَتَّی یُقِیمَ ظَہْرَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ۔
( ابوداوٗد کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود و الترمذی و ابن ماجہ )
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کی نماز اس وقت تک کافی نہیں جب تک وہ رکوع و سجود میں پیٹھ کو بالکل سیدھا نہ کرے ۔
رکوع میں پیٹھ کو سیدھا تب ہی رکھا جاسکتا ہے کہ پیٹھ کو مکمل بچھادے اور سیدھا برابر کر دے اور اپنے سر کو بھی پیٹھ کے بالکل برابر رکھے نہ سر اوپر اٹھا کر رکھے اور نہ نیچے جھکائے امام بخاری ؒ نے بخاری ج ۱ کتاب الاذان باب استواءِ الظھرِ فی الرکوع میں روایت کیا ۔ ‘‘ رکع النبی ﷺ ثمّ ھَصَرَ ظَہرَہٗ ’’ کہ جب نبی ﷺ نے رکوع فرمایا تو اپنی پیٹھ مبارک کو بالکل جھکا دیا ۔ دوران رکوع ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے ۔ ‘‘امام بخاری ؒ نے بخاری ج ۱ کتاب الاذان باب وضع الاکُفِّ علی الرُّکب فی الرکوع ’’ میں مصعب بن سَعد سے روایت کیا کہ ‘‘ واُمرْنا ان نَّضَعَ ایدینا علی الرُّکبِ ۔’’ کہ نبی ﷺ نے ہمیں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے کا حکم دیا اور ہاتھ صرف گھٹنوں پر رکھت ہی نہیں بلکہ گھٹنوں کو مَضبوطی سے پکڑے جیسے اسی باب میں امام بخاری ؒ نے ابو حمید سے روایت کیا کہ ‘‘ امکن النبی ﷺ یدیہ من رُکبتیہِ ۔’’ کہ جناب ﷺ نے دونوں گھٹنوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑا لیا ۔
رکوع جاتے ہوئے تکبیر کہنا :۔
نماز میں انتقالِ حال کے لئے تکبیر کہنے کی روایت ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّہُ کَانَ یُصَلِّی بِہِمْ، فَیُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ، وَرَفَعَ ، فَإِذَا انْصَرَفَ، قَالَ: إِنِّی لَأَشْبَہُکُمْ صَلاَۃً بِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ باب إتمام التکبیر فی الرکوع)
حضرت ابو ھریرہ ؓ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو اٹھتے بیٹھتے نماز میں تکبیر فرماتے اور کہتے کہ میں تم سب سے زیادہ رسولﷺ کے مشابہ نماز پڑھتاہوں۔
عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ، فَکَانَ إِذَا سَجَدَ کَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ کَبَّرَ وَإِذَا نَہَضَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ کَبَّرَ ، فَلَمَّا قَضَی الصَّلاَۃَ أَخَذَ بِیَدِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ، فَقَالَ: قَدْ ذَکَّرَنِی ہَذَا صَلاَۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ – أَوْ قَالَ: لَقَدْ صَلَّی بِنَا صَلاَۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
( بخاری کتاب صفۃ الصلاۃباب یکبر وہو ینہض من السجدتین)
مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں اور عمران بن حصینؓنے حضرت علی ؓ کیساتھ نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے جب رکعتوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے جب نماز ختم ہو ئی تو عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا کہ اس نے مجھے رسول ﷺ کی نماز یاد دلادی۔
تعدیلِ ارکانــ:۔
یعنی رکوع سجود اور قومہ وجلسہ کو پورے اطمینان سے ادا کرنا۔
أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّی، ثُمَّ جَاء َ، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صلّی اللہ علیہ وسلم فَرَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ السَّلاَمَ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ، فَصَلَّی، ثُمَّ جَاء َ، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ثَلاَثًا، فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالحَقِّ، فَمَا أُحْسِنُ غَیْرَہُ، فَعَلِّمْنِی، قَالَ: إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلاَۃِ، فَکَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْکَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِکَ فِی صَلاَتِکَ کُلِّہَا ۔
(بخاری کتاب الاذان باب اَمر النبی ﷺ لایتم رکوعہ بالاعادۃ )
ٓ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺمسجد تشریف لائے تو ایک آدمی مسجد میں آیا نماز پڑھی اور پھر حضور ﷺ کو سلام کیا جناب نے سلام کا جواب فرمایا اور فرمایاکہ جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی وہ گیا نمازپڑھی پھر آکر حضورﷺ کو سلام کیا تو حضورﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا جاؤ نمازپڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی تو اس نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کیساتھ بھیجاکہ میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا لہذا آپ مجھے سکھائیں تو آپﷺ نے فرمایا جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر (تحریمہ) کہہ پھر جو قرآن سے یاد ہو پڑھ پھر رکوع کر یہاں تک کہ اطمینان کرلے پھر رکوع سے کھڑا ہو یہاں تک کہ پوری طرح کھڑا ہو کر اعتدال پر آجائے پھر سجدہ کر یہا ں تک کہ اطمینان کرے پھر اٹھ کر اطمینان سے بیٹھ جا پھر دوسراسجدہ اطمینان سے کر پھر پوری نماز اسی طرح مکمل کر۔
اس حدیث نے بالکل واضح کر دیا کہ جوحضرات نماز میں رکوع و سجود و قومہ وجلسہ پورے اطمینان وتعدیل سے نہیں کرتے ان کی نماز مکمل نہیں لہذا پوری نماز کے ہر رکن کو پوری طرح تسلی اور اطمینان سے آرام سے ادا کر نے کی عادت بنالی جائے تاکہ وہ نماز ادا ہو سکے جو رسولﷺ کی نظر میں بھی نماز ہو ۔ اگر آپ نے اپنی نماز میں ٹھہراؤ پیدا کر لیا تو سارا معاملہ تب ہی درست ہوگا۔ بھاگے بھاگے نماز پڑھناکیا نماز ہو ئی ۔ حاضری رب کے حضور ہو اور آدمی تسلی سے حاضری نہ دے تو اس کے سوا اس عالم رنگ وبو میں رکھا ہی کیا ہے۔
رکوع و سجود کی تسبیحات:۔
رکوع و سجود میں تلاوت ِقرآن سے تو منع کر دیا گیا ہے ہے البتہ یہ دونوں جگہیں اذکار اور دعاؤں کی ہیں یہاں حضورﷺ سے مختلف اذکار و ادعیہ منقول ہیں مگر عام آدمی کو آسانی کے لئے سہل ترین عمل بتا دیا گیا ہے جو پڑھنے اور یا د کرنے میں آسان ہو اور اگر وہ مشاغلِ زندگی میں مصروف ہے تو مختصر بھی ہو۔ زیادہ اذکاروادعیہ کاجہاں رکوع وسجود میں تذکرہ ہے وہ حضور ﷺ کی انفرادی اور رات کی بندگی کے حوالے سے ہے ۔عام لوگوں کی سہولت کے لئے یہ تعلیم ہے۔
عن عُقبۃ بن عامرٍ ؓ لمّا نزلتْ فَسَبحْ باسمِ ربِّک العظیم قال رسول اللّہ ﷺ اجعلُوھا فی رکوعکم فلمّا نزلتْ سبّح اسم ربِّک الاعلٰی قال رسول اللّٰہ ﷺ اجعلوُھا فی سجودکم ۔
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ) ، قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اجْعَلُوہَا فِی رُکُوعِکُمْ ، فَلَمَّا نَزَلَتْ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) ، قَالَ: اجْعَلُوہَا فِی سُجُودِکُم۔
(ابوداوٗد کتاب الصلاۃ باب تفریع أبواب الرکوع والسجود باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ،ابن ماجہ )
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ جب‘‘ فسبّح باسم ربِّک العظیم ’’ والی آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے رکوع میں رکھ لو اور جب‘‘سبّح اسم ربِّک العلیٰ ’’نازل ہوئی تو فرمایا اسے سجدہ میں رکھ لو۔
گویا انہی دو آیات کی بنیاد پر رکوع میں ‘‘سبحان ربی الاعظیم ’’ اور سجود میں ‘سبحان ربی الاعلٰی ’’کی تسبیحات ہی پڑھی جاتی ہیں۔
رکوع وسجدہ میں تسبیحات کی مقدارـ:۔
تین تسبیحات سے لیکر دس تسبیحات تک احادیث میں ملتی ہیں لہذا یہ مستحب مقدار ہے ۔ زیادتی باعث ِاجر ہوگی۔ روایت یہ ہے ۔
عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا رَکَعَ أَحَدُکُمْ، فَقَالَ فِی رُکُوعِہِ: سُبْحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ رُکُوعُہُ، وَذَلِکَ أَدْنَاہُ، وَإِذَا سَجَدَ، فَقَالَ فِی سُجُودِہِ: سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ سُجُودُہُ، وَذَلِکَ أَدْنَاہُ
(رواہ الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃِبَابُ مَا جَاء َ فی التَّسْبِیحِ فی الرُّکُوعِ وَالسُّجُود، ابوداوٗد، ابن ماجہ )
حضرت عون بن عبداللہ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو وہ رکوع میں‘سبحان ربی الاعظیم ’’کم از کم تین مرتبہ کہے تو اس کا رکوع مکمل ہو جائے گا اور جوسجودکرے تو اس میں کم از کم تین مرتبہ‘‘سبحان ربی الاعلٰی’’پڑھے توسجود مکمل ہونگے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں حضورﷺ نے رکوع وسجودکے مکمل ہونے کے لئے کم از کم تین ،تین تسبیحات پڑھنے کی تعلیم فرمائی ۔ اب اگر یاد ہو تو جہاں میں نے قدوری کی عبارت سے نماز حنفی پیش کی وہاں جاکرملاحظہ فرمائیں تو جوالفاظ ‘‘ ثلاث مرات وذالک ادناہ ’’ حدیث میں استعمال ہوئے فقہاء نے عین یہی الفاظ استعمال فرمائے یہی حالت باقی الفاظ کی بھی ہے پھر انصاف سے بتائیں کیا نمازِحنفی احادیث کے عین مطابق ہے یاخلاف؟۔
قومہ:۔
رکوع سے سیدھا کھڑا ہونے کو قومہ اور دو سجدوں کے درمیان سیدھااطمینان سے بیٹھ جانے کو جلسہ کہتے ہیں۔ کیونکہ قومہ کا معنی کھڑا ہونا اور جلسہ کامعنی بیٹھناہے ۔لہذا جب مقتدی الگ سے نماز پڑھ رہا تو رکوع سے اٹھتے ہوئے ‘‘ سمع اللہ لمن حمدہٗ ’’ اور پھر ‘‘ربنالک الحمد ’’ کہے اور اگر امام کیساتھ ہو تو عمومی احادیث سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ امام صرف ‘‘ سمع اللہ لمن حمدہٗ ’’کہے اور مقتدی ‘‘ربنالک الحمد ’’پڑھیں۔
منفرد کی رویت:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: ” کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، قَالَ: اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ، وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا رَکَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ یُکَبِّرُ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَیْنِ، قَالَ: اللَّہُ أَکْبَرُ (بخاری کتاب الاذان باب مایقول الامام ومن خلفہٖ اذا رفع رأسہ من الرکوع )
حضرت ابو ھریرہ ؓنے فرمایا کہ نبی ﷺ جب ‘‘ سمع اللہ لمن حمدہٗ ’’پڑھتے تو پھر ‘‘اللّٰھمّ ربناولک الحمد ’’پڑھتے اور جب رکوع جاتے آتے تو تکبیر پڑھتے اور جب سجدوں سے سراٹھاتے تو فرماتے اللہ اکبر۔
یہ حضورﷺ کی منفرد نماز کاذکر ہے یہاں حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے جماعت میں یوں پڑھنا ثابت ہو ۔ہا ں شاید امام بخاری ؓ نے اسے جماعت پر محمول سمجھا اس لئے جماعت کے باب میں اس کو ذکر کر دیا جبکہ امام بخاری ؒکے اس گمان سے اتفاق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے مقلدہیں۔
جماعت کی روایت:۔
جب جمعت میں ہوں تو امام ‘‘سمع اللہ لمن حمدہ ’’اور مقتدی‘‘ ربناولک الحمد’’ پڑھے ۔
عن ابی ھریرۃؓ انّ رسول اللّٰہ ﷺ اذا قال الامام سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولُوا اللّٰھمّ ربنا ولک الحمد فانّہ من وافق قولہٗ قول الملائکۃِ غفرلہ ماتقدم من ذنبہٖ ۔(بخاری کتاب الاذان باب فضل اللّٰھمّ ربناولک الحمد )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے تو تم اللّٰھمّ ربنا ولک الحمد کہو پس جس کی فرشتوں سے موافقت ہو گئی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔
یہ روایت اپنے مفہوم پر دلالت کرنے کے لئے بالکل واضح ہے اور اس میں امام کا واضح لفظ موجود ہے تو صاف صاف بتایا گیا کہ امام نے کیا کہنا ہے اور مقتدی کا کیا حصّہ ہے ۔ اس حوالے سے جتنی روایات بخاری ؒ نے ذکر کیں یا دیگر محدثین نے ان تمام میں صرف یہی انداز و الفاظ استعمال ہوئے کہ اذا قال الامام سمع اللہ لمن حمدہ فقولُوا ربنا و لک الحمد جس سے صاف ظاہر ہے کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہیں ۔
دوسری روایت:۔
عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَحْیَی بْنِ خَلَّادٍ الزُّرَقِیِّ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِیِّ، قَالَ: ” کُنَّا یَوْمًا نُصَلِّی وَرَاء َ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرَّکْعَۃِ قَالَ: سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ “، قَالَ رَجُلٌ وَرَاء َہُ: رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: مَنِ المُتَکَلِّمُ قَالَ: أَنَا، قَالَ: رَأَیْتُ بِضْعَۃً وَثَلاَثِینَ مَلَکًا یَبْتَدِرُونَہَا أَیُّہُمْ یَکْتُبُہَا أَوَّلُ ۔(بخاری کتاب الاذان )
حضرت رفایہ بن رافع زُرقی سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے شریک نماز تھے جب آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا سمع اللہ لمن حمدہ اور پیچھے سے ایک آدمی نے ربنا لک الحمد حمدًا کثیرًا طیبًا مبارکًا فیہ پڑھا جب حضور نماز پڑھ کر پیچھے پھرے تو پوچھا یہ کلام کس کا تھا ؟ تو اس نے کہا جناب میرا ۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا میں نے ۳۰ سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے کہ ان مبارک کلمات کو وہ باقی فرشتوں سے پہلے لکھ لے۔
(یہاں حضور ﷺ نے رکعت بول کر رکوع مراد لیا ہم بھی من ادرک الرکعۃ سے رکوع مراد لیتے ہیں )
تشریح:۔
یہاں ایک تو یہ واضح ہوا کہ حضور ﷺ نے صرف سمع اللہ لمن حمدہ پڑھا نہ کہ ربنا ولک الحمد بھی دوسرا یہ واضح ہوا کہ مقتدی نے ربنا ولک الحمد حمدًا کثیرًا مبارکًا فیہ پڑھا ۔
جہاں اس روایت سے کلمات طیبات کی فضیلت ظاہر ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہ عمل صحابی نے خود کیا پہلے عام تعلیم میں نہ تھا جس سے ظاہر ہے کہ عمل ِ خیر کے لئے پہلے سے موجود ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی ورنہ اس صحابی نے یہ کلمات از خود کیوں پڑھے ۔ من سنّ فی الاسلام سنّۃ حسنۃً کی صحیح حدیث اور ماراہُ المؤمنون حسنًا فھو عند اللہ حسنٌ بھی اسی کی تائید کرتی ہیں ۔ ماراہُ المؤمنون حسنًا والی روایت بھی حسن ہے ملاحظہ فرماہیں مشکوٰاۃ سے ۔ ہاں جاہل اور مُتعصِّب علمآء اسے اپنے نادان شاکردوں کو یہ روایت ضعیف بتاتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ۔
ہم نے مَن ادرک الرکعۃ کا معنی من ادرک الرکوع کیسے سمجھا ؟۔
جب احناف رکوع میں ملنے والے کی رکعت کو رکعت قرار دیتے ہیں اور استدلال من ادرک الرکعۃ الخر سے کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ لوگوں نے رکعت سے رکوع کیسے بنالیا ؟ تو ان حضرات کو چیلنج ہے کہ جو روایت میں ابھی ابھی اوپر بخاری کے حوالے سے پیش کی ہے اس پر غور فرمائیں الفاظ یہ ہیں ۔ ‘‘فلمّا رفع رأسہٗ من الرکعۃِ ۔ جب حضور ﷺ نے رکوع سے سر مبارک اٹھایا ۔ یہاں صاف ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے رکوع کو رکعت فرمادیا ۔ اگر ترجمہ اور الفاظ کچھ اور ہوں تو ناچیز حاضر ہے اور اگر بخاری کے الفاظ بھی یہی ہوں اور معنی بھی یہی تو ظاہر ہوا کہ حضور ﷺ نے رکعت بول کر رکوع مراد لیا ۔ یہی بات میں پہلے کر چکاہوں کہ رکوع اور رکعت دونوں رکع یرکع سے ہیں اور رکوع اتنا اہم حصّہ ہے کہ اسی رکوع کی وجہ سے رکعت کو رکعت کہا جاتا ہے لہذا جو شاملِ رکوع ہو وہ گویا شامل رکعت ہو گیا ۔ علامہ ابن قدامہ انتہائی معتبر آدمی ہے اس نے المُغنی میں ابو داوٗد کے حوالہ سے روایت کیا من ادرک الرکوع فقد ادرک الرکعۃ ۔ تو اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں ممکن ہے ابن قدامہ کے دَور میں ابو داوٗد میں یہ عبارت ان لفظوں سے موجود تھی بعد میں نکلا لی گئی ہو اوراب ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مجھے ابو داوٗد سے نہ مل سکی کہ اب خارج کر دی گئی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ علامہ ابن قدامہؒ یہ جانتے تھے کہ رکعۃ سے مراد رکوع ہے تو انہوں نے من ادرک الرکعۃ کو من ادرک الرکوع سے روایت کر دیا اور من ادرک الرکعۃ تو اب بھی ابو داوٗد اور دیگر محدثین نے روایت کیا ۔ممکن ہے کہ اس لفظ رکعت میں بھی کسی نے رد وبدل کرنے کی کوشش کر دی ہو اور آپ جب بخاری کتاب الاذان باب بے نام نمبر ۵۱۷ پر حدیث نمبر ۷۶۰ پر جائیں تو وہاں لفظ رکعۃ کی بجائے رکوع نظر آئے تو پریشانی ہو لہذا ذکر کیے دیتا ہوں کہ میرے سامنے وہ بخاری ہے جو فرید بک سٹال اردو بازار لاہور والوں نے نشر کی جس پر ترجمہ عبد الحکیم خان کا ہے مطبع حامد اینڈ کمپنی اور سن طباعت 1982 ء ہے یہ روایت ابو داوٗد میں بھی اسی لفظ سے موجود ہے ۔
مَسئلہ رفع الیدین :۔
احناف رکوع جاتے آتے رفع یدین نہیں کرتے کہ عام احادیث میں ان کا ذکر نہیں آرھا جبکہ اہل حدیث حضرات رکوع جاتے اور پھر واپس اٹھتے وقت ہاتھوں کو تکبیر تحریمہ کی طرح رفع یدین کرکے تکبیر تحریمہ کے امتیاز کو ختم کر دیتے ہیں ۔تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا سمجھ آتا ہے کہ اگر کوئی نابینا مقتدی شریک نماز جماعت ہو تو اللہ اکبر کانوں سے سن کر تکبیر کہ کر شریک جماعت ہواور اگر کوئی بہرہ مقتدی ہے جو تکبیر تحریمہ سن ہی نہیں سکتا تو وہ ہاتھوں کی بلند ی کو دیکھ کر سمجھ جائے کہ امام نے نماز شروع کر دی جبکہ رکوع جاتے آتے تکبیر تو سمجھ آتی ہے باقی پوراجسم جھکتا اٹھتا نظر آجاتا ہے جو اندھے یا بہرے دونوں کے لئے کافی ہے مگر یہاں ہاتھوں کو بلند کرنے کا مقصد نظر نہیں آیا جبکہ حدیث نماز کو پر سکون طریقے سے ادا کرنے کی تعلیم دیتی ہے اور سکون غیر ضروری ہاتھوں کو بلند نہ کرنے میں ہے نہ کہ بلند کرنے میں ۔ احناف کا عمل رفع یدین نہ کرنے کا ان روایات کی بنا پر ہے ۔
۱۔ عَنْ عَلْقَمَۃَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ: أَلَا أُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّی، فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ إِلَّا فِی أَوَّلِ مَرَّۃٍ۔۔۔۔۔۔۔۔قال أبو عیسی: حَدِیثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ، وَبِہِ یَقُولُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِینَ۔
(ترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃبَابُ رَفْعُ الیَدینِ عِندَ الرُّکُوعِ و ابوداوٗد کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ونسائی کتاب الافتتاح الرخصۃ فی ترک ذلک وابن ابی شیبہ )
حضرت علقمہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمیں عبد اللہ ابن مسعودٍ ؓ نے کہا کہ کیا میں تم کو رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟ پس انہوں نے نماز پڑھی مگر سوائے ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے ہاتھوں کو بلند نہ کیا اور امام ترمذی نے کہا یہ روایت حسن ہے اسی کی بنیاد پر بہیت سے عالم اصحاب نبی ﷺ اور علماء ِ تابعین بھی یہی بات کہتے تھے ۔
تشریح:۔
یہ روایت صاف بتا رہی ہے کہ حضور ﷺ کے خدمت گار اور انتہائی قریب رہنے والے عبد اللہ ابن مسعود ؓ رفع یدین نہ کرتے تھے اور بغیر رفع یدین کے صحابہ و تابعین کو جماعت کرواتے کوئی اعتراض نہ کرتا گویا پوری جماعت کا عمل ترکِ رفع یدین کا ثابت ہو گیا اور اکثر اہل علم صحابہ و تابعین کا بھی یہی عمل تھا اور یہی ہمارا بھی عمل ہے ۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے رفع یدین نہ کرکے اس کو صلٰوۃِ رسول بتایا آج اگر ہم اس کی اتباع میں رفع یدین نہ کریں تو ہماری صلٰوۃ صلٰوۃ ِ رسول ﷺ کیوں نہ ہو ۔ اس سے تو ظاہر ہے کہ صلٰوۃ ِ رسول بغیر رفع یدین کے ہے نہ کہ رفع یدین کرنے میں ۔
۲۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ، ثُمَّ لَا یَرْفَعُہُمَا حَتَّی یَفْرُغَ
( ابن شیبہ کتاب الصلٰوۃ باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود )
حضرت براء بن عاذبؓ سے رویت ہے کہ حضور ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ شروع نماز میں ہاتھ بلند فرماتے پھر ساری نماز میں ہاتھ بلند نہ فرماتے تھے ۔
یہاں کان کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک دن کا عمل نہیں بلکہ معمول مبارک ہی یہی تھا اور یہی معمول ہمارا ہے کیا ہمارا معمول حضور ﷺ کے عین مطابق نہیں ؟۔
۳۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ حِینَ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، ثُمَّ لَمْ یَرْفَعْہُمَا حَتَّی انْصَرَفَُ ۔ (ابو داوٗد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع )
حضرت براء ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز کے شروع میں ہاتھ بلند کرتے دیکھا پھر بعد ازاں آپ نے ہاتھ بلند نہ فرماتے یہا ں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے ۔
۴۔ عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” أَنَّہُ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ، ثُمَّ لَا یَعُودُ۔( طحاوی)
حضرت عبد اللہ ابن مسعودٍؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کا معمول تھا کہ آپ صرف پہلی تکبیر (تحریمہ ) پر ہاتھ بلند فرماتے پھر نہ فرماتے ۔
۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: تُرْفَعُ الْأَیْدِی فِی سَبْعِ مَوَاطِنَ , فِی افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ , وَعِنْدَ الْبَیْتِ , وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ , وَبِعَرَفَاتٍ وَبِالْمُزْدَلِفَۃِ , وَعِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ۔
(طحاوی باب رفع الیدین عند رؤیۃ البیت،مجمع الزوائد باب التکبیر،مصنف ابن ابی شیبہ )
فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سات جگہوں پر ہاتھ بلند کیے جائیں نماز شروع کرتے وقت ، کعبہ شریف کے سامنے آتے وقت ، صفا مروہ پر دوموقف پر (منٰی و مُزدلْفہ ) اور دوجمروں کے سامنے ۔
بعض دیگر روایات میں عیدین میں بھی ہاتھ بلند کرنے کا ذکر موجود ہے۔ اس روایت کو بخاری نے کتاب المفرد میں روایت کیا پھر بزار نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے ابن ابی شیبہ نے عبداللہ ابن عباس ؓ بیہقی نے عبداللہ ابن عباس ؓ اور طبرانی نے بھی معمولی الفاظ کے فرق سے دس روایت کو محفوظ کیا۔
۶۔ امام طحاوی نے حضرت مغیر ہ سے روایت کیا کہ میں نے ابراہیم نخعی سے عرض کیا کہ حضرت وائل بن حجرنے حضورﷺ کو دیکھا کہ آپ شروع نماز میں اور رکوع جاتے آتے ہاتھ بلند فرماتے تھے تو ابراہیم نخعی سے جواباً فرمایا
إِنْ کَانَ وَائِلٌ رَآہُ مَرَّۃً، فَقَدْ رَآہُ عَبْدُ اللہِ خَمْسِینَ مَرَّۃً لَا یَفْعَلُ ذَلِکَ۔(طحاوی باب التکبیرللرکوع)
کہ اگر وائل نے ایک مرتبہ حضورﷺ کو رکوع کے وقت رفع یدین کرتے دیکھا تو ( ہر وقت پاس رہنے والے) عبداللہ ابن مسعودؓ نے پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے حضورﷺ کو دیکھا۔
ظاہر ہے کہ وائل بن حجر کی صحبت ِ رسول ﷺ عبد اللہ ابن مسعود ؓ کے مقا بلہ میں بہت کم ہے لہذا اس کا قول زیادہ قوی ہے جو صحابی زیادہ عرصہ حضور ﷺ کی خدمت میں رہا۔ اور زیادہ فقیہہ بھی ہیں۔
۷ عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فَلَمْ یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ إِلَّا فِی التَّکْبِیرَۃِ الْأُولَی مِنَ الصَّلَاۃِ ۔ (طحاوی باب التکبیرللرکوع وابن ابی شیبہ عن مجاھدٍؓ )
حضرت مجاہد روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پیچھے نماز پڑ ھی تو انہوں نے پہلی تکبیر کے علاوہ نماز میں کوئی رفع یدین نہ کیا۔
۸۔ عن عبد اللّٰہ ابن زبیرؓ انّہٗ رأی رجُلًا یرفع یدیہ فی الصلٰوۃ عند الرکوع و عند رفع رأسِہٖ من الرکوعِ فقال لہٗ لا تفعل فانّہ شیءٌ فعلہٗ رسول اللّٰہ ﷺ ثم ترکہٗ۔
(عمدۃ القاری باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولیٰ مع الافتتاح سواء)
علامہ عینی شارح بخاری نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رکوع جاتے آتے ایک نمازی کو رفع یدین کرتے دیکھاتو آپ نے اس کو منع کر دیا اور فرمایا یہ وہ عمل ہے جو رسولﷺنے کیامگر بعد میں ایسا کرنا چھوڑ دیا۔
شاہد یہی وہ روایت ہے جو رفع یدین پر فیصلہ کن ہے کہ حضورﷺ نے یہ عمل پہلے ضرور فرمایا تبھی روایات میں اس کا ذکر ہے مگر بعد میں چھوڑ دیا تب ہی رفع یدین نہ کرنے کی روایات موجود ہیں اور اگر حضور ﷺکی حیات ِظاہری کے بعد کوئی رفع یدین کرتا ہے تو ا س کے عمل کو لاعلمی پر محمول کیا جائے گا کہ حضورﷺ کے رفع یدین کوچھوڑ دینے کااس کو علم نہ ہو سکا اور یہ اصول مسلم ہے کہ حضور ﷺ کے دو متضاد اعمال میں سے آخری عمل کو ہی لیا جاتا ہے۔ اس کی تائید میں رواہت بخاری سے پیش خدمت ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ فَرَسًا، فَصُرِعَ عَنْہُ فَجُحِشَ شِقُّہُ الأَیْمَنُ، فَصَلَّی صَلاَۃً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَہُوَ قَاعِدٌ، فَصَلَّیْنَا وَرَاء َہُ قُعُودًا، فَلَمَّا انْصَرَفَإِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ، فَإِذَا صَلَّی قَائِمًا، فَصَلُّوا قِیَامًا، فَإِذَا رَکَعَ، فَارْکَعُوا وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ، وَإِذَا صَلَّی قَائِمًا، فَصَلُّوا قِیَامًا، وَإِذَا صَلَّی جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ ” قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ: قَالَ الحُمَیْدِیُّ: قَوْلُہُ: إِذَا صَلَّی جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا بہُوَ فِی مَرَضِہِ القَدِیمِ، ثُمَّ صَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، وَالنَّاسُ خَلْفَہُ قِیَامًا، لَمْ یَأْمُرْہُمْ بِالقُعُودِ، وَإِنَّمَا یُؤْخَذُ بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ، مِنْ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔(بخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیؤتم الخر )
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ گھوڑے سے گرے تو جناب کا دایاں پہلو زخمی ہوگیا پھر اسی حالت میں کوئی ایک نماز پڑھائی جبکہ آپ بھی بیٹھ کر پڑھ رہے تھے اور ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہو کر پھر ے تو فرمایا امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ۔ بس جب وہ کھڑے ہو کر تم بھی اس کے پیچھے کھڑے ہوکر پڑھو جب رکوع کرے تم بھی رکوع کرو جب وہ اٹھے تم اٹھو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے توتم ربّنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کرنماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو امام بخاری فرماتے ہیں کہ مجھے حمیدی نے بتایا کہ حضور ﷺ کا یہ فرمایا کہ جب امام بیٹھ کر پڑھے تو تم بھی بیٹھ کرپڑھو یہ آپ کی کسی پہلی پرانی بیماری کا واقعہ ہے جبکہ بعد میں حضورﷺ نے بیٹھ کر (مرض میں) نمازپڑھائی اور لوگوں نے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھی اور رسول ﷺ نے ان کو بیٹھنے کاحکم نہیں فرمایا اور حضور ﷺ کا آخری عمل ہی لیا جاتاہے۔
استدلال مسائل:۔
۱۔امام بخاری ؒ کی اس روایت سے خط کشیدہ الفاظ سے ثابت ہوا کہ حضورﷺ اگر کسی معاملہ میں دو طرح سے عمل فرمائیں تو آپ کاپہلا عمل چھوڑ دیاجاتاہے اور آخری کو لیاجاتاہے ایسے ہی رفع یدین کاعمل اگر پہلے تھا تو بعد ازاں اس کو چھوڑ دیا گیاجس پر روایت گزر چکی لہذا اب ترک ِرفع یدین کو لیاجائے گا نہ کہ پہلے رفع یدین کے عمل کو ۔ عین ممکن ہے جب نماز آہستہ آہستہ موجود حالت میں ڈھلی اور سکون کاحکم ملا تو اس وقت رفع یدین کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہو ۔ قرینِ قیاس ہے۔
۲۔ جب امام معذوری یا بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی چونکہ معذور نہیں وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔
۳۔ سمع اللہ لمن حمدہ امام کہے اور ربّنا لک الحمد مقتدی کاحصہ ہے۔
۴۔ اس روایت میں ربّنا لک الحمد کے عین وہی الفاظ ہیں جو آج بھی عام نمازیوں کی نماز کاحصہ ہیں۔
۵۔ ہر عمل میں امام کی یوں پیروی کی جائے کہ نہ اس سے پیچھے رہیں اور نہ اس سے کسی عمل میں آگے نکلیں۔
۶۔ اہل حدیث بھائی بھی توجہ رکھیں کہ اگر فاتحہ ثناء کی جگہ پرامام سے پہلے ہی پڑھ کر فارغ ہو جائیں یافاتحہ پہلے پڑھی اور امین بھی لازماًپہلے ہو جائے گاتو مقتدی کا امین امام کی امین سے پہلے ہوجائے گا جبکہ جوفاتحہ امام پڑھ رہا ہے جماعت میں حدیث کے مطابق امام کی ولاالضّآلّین پر فقولُو اٰمین کاحکم ہے توکیا اہل حدیث امین ایک ہی رکعت میں باربارپڑھتے ہیں اور کیافاتحہ اورامین امام سے پہلے پڑھ لینے سے امام کی پیروی میں فرق نہیں آئے گااور اگر فاتحہ امام کی مکمل قراۃ کے بعد قبل ازارکوع سکتہ میں پڑھیں جیسے بعض اہل حدیث کاگمان ہے تو کیا اس فاتحہ کے آخر میں مقتدی امین بھی توپڑھے گا جبکہ یہی مقتدی حدیث کے مطابق امام کی فاتحہ پر بھی امین کہ چکا ہے۔ کیا امین دومرتبہ نہ ہوا؟ یہ کیا معاملہ ہے جی ؟ سید ھی سی بات ہے کہ امام کی فاتحہ وباقی تلاوت اگر مقتدی کی فاتحہ وتلاوت نہیں تو اس کوخاص کر جہری نمازوں میں سرًاہی پڑھ لیا کرے۔برادر محترم امام آپ کا نمائندہ ہے اور نمائندہ کی تلاوت آپ کی تلاوت ہے عین ایسے جیسے ایک وفد کسی سے بات چیت کرے تو لازمی نہیں کہ سب بولیں بلکہ جس کی نمائندگی پر وفد کو اعتماد ہو بات صرف وہی کرتاہے مگر وہ بات صرف نمائندہ کی نہیں بلکہ وفد میں شامل ہر فرد کی طرف سے تصور کی جاتی ہے یہی دستور جہاں اور یہی انداز ِجماعت ہے۔ اللہ تعالٰی فہم عطافرمائے۔
۷۔امام کی پیروی سے ظاہر ہوتاہے کہ کوئی مقتدی نہ امام سے پہلے رکوع میں جاسکتا ہے نہ سجدہ میں اور نہ امام سے قبل سجدہ سے سراٹھاسکتا ہے وغیرہ اور نہ ہی اس کے برعکس امام سے پیچھے رہ سکتا ہے کہ امام تکبیر کہتا ہوارکوع میں جانے کا اعلان کرے اور مقتدی امام کا اعلان اور اس کی پیروی کرنے کی بجائے کھڑافاتحہ مکمل کرتا رہے اور نہ ہی جب امام سلام پھیرے تو مقتدی بیٹھا تشھد پڑھتا رہے بلکہ امام کیساتھ سلام پھیرنے کاپابندہے۔
۸۔ یہاں سے یہ مسئلہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امام آخری تشہد میں ہے جبکہ آپ مسبوق یعنی آپ کی کوئی رکعت ابھی باقی ہے جو اٹھ کر آپ نے پڑھنی ہے توآپ امام کی اتباع میں آخری تشہد ابیٹھ گئے جبکہ آپ کا یہ آخری تشہد نہیں تو آپ کوچاہئے کہ آپ امام کی اتباع میں پوراتشہد آخر تک پڑھیں کیونکہ عبدہ ور سولہ تک تھی بعد میں اس کی اتباع بھی کریں کہ سلام امام تک آپ اس کی اتباع میں ہیں اور مکمل اتباع کرکے پیروی امام کاحق ادا کریں کہ حضورﷺ نے حکم فرمایا ہوا ہے۔
۹۔ ترک رفع یدین پر نویں روایت :۔
أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ مِنَ الصَّلَاۃِ , ثُمَّ لَا یَرْفَعُ بَعْدُ۔
(طحاوی باب التکبیر للرکوع،نصب الرایہ باب صفۃ الصلٰوۃ)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلی تکبیر پر نماز میں ہاتھ اٹھاتے تھے پھر کسی جگہ نماز میں رفع یدین نہ فرماتے تھے۔
دین کی سمجھ حضرت علی ؓ سے زیادہ کس کو ہو سکتی ہے ۔ اب ظاہر ہوا کہ نمازحنفی دراصل نماز رسول ہے یا کسی اور کی۔
۱۰۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، بِإِسْنَادِہِ بِہَذَا قَالَ: فَرَفَعَ یَدَیْہِ فِی أَوَّلِ مَرَّۃٍ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: مَرَّۃً وَاحِدَۃً۔
(کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع)
حضرت سفیان اسی سند سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے پہلی بار ہی ہاتھ بلند کیے یا بعض کے نزدیک ایک مرتبہ بلند کیے پھر نہیں بلند کیے۔
۱۱۔ عَنِ الْبَرَاء ِ , أَنَّہُ رَأَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی حَاذَی بِہِمَا أُذُنَیْہِ , ثُمَّ لَمْ یَعُدْ إِلَی شَیْء ٍ مِنْ ذَلِکَ حَتَّی فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ۔
(دار قطنی باب ذکرالتکبیرورفع الیدین عند الافتتاح ،ابوداوٗد ،الترمذی فی الباب عن البرأءِ)
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو نماز شروع کرتے ہوئے دیکھا کہ رسول ﷺ نے شروع نماز میں ہاتھ کانوں برابر بلند فرمائے پھر آپ نے پوری نماز میں کہیں ہاتھ بلند نہ فرمائے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوگئے۔
رفع یدین نہ کرنے پر کثیر روایات موجود ہیں جن میں سے صرف گیارہ پیش کر دیں۔اگر آپ کے نزدیک ان میں سے کوئی ایک موضوع ہو تو ضرور بتائیں اور اگر آپ کی نظر میں یہ سب ضعیف بھی ہوں تو گزارش ہے کہ یہ قرآن کا اصول ہے کہ دو عورتوں کی ضعیف شہادت جبکہ ایک مرد کی قوی شہادت کے برابر ہو جاتی ہے اگر آپ اس قرآنی اصول کو مانتے ہیں کہ دو ضعیف ملکر ایک قوی شہادت بن گئی توہماری دس روایات آپ کی رائے سے ضعیف بھی ہوں تو دس ضعیف پانچ قوی شہادتوں کے برابر تو ہوہی جاتی ہیں جبکہ قوی شہادت تو ایک ہی کافی ہے کیونکہ آپ کے پاس بھی رفع یدین پر کوئی قرآنی آیت تو ہر گز نہیں آپ بھی روایت ہی پیش کریں گے اگر آپ نے ہماری دس روایات پر بات کی تو کیا آپ کی روا یت پر بات کرنے کے لئے ہمارے منہ میں زبان نہیں کیا آپ کاعلم حدیث سے زیادہ ہے ؟ہرگزنہیں۔حضورﷺ کی عمومی تعلیم نماز کے حوالے سے جتنی احادیث زیرِ نظر ہیں وہاں کسی روایت میں حضور ﷺ نہ امین بالجہرکاحکم دیتے نظر آتے ہیں نہ رفع یدین کاحکم فرماتے ہیں اور نہ ہی فاتحہ کوالگ بیان فرماتے جس سے ظاہر ہے کہ یہ چیز یں یقینا نماز کا ایسا لازمی حصہ نہیں جس کے بغیر نمازنہ ہوتی ہو ورنہ آپ لازما جہاں رکوع کے اطمینان سجدہ وقومہ وجلسہ میں اطمینان کی تعلیم دیتے ہیں وہاں ان کر بھی ذکر کرتے ۔ذکرنہ کرناظاہر کرتا ہے کہ ان چیزوں کی وہ حیثیت نماز میں نہیں ہاں انفرادی نماز میں فاتحہ کا اورامام کے لئے فاتحہ لازما پڑھنے کی تعلیم احادیث میں موجود ہے جس کی اتباع سب کرتے ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور امام اوزعیؒ کا رفع یدین پر مکالمہ:۔
امام بخاری محدث ؒ نے سفیان بن عیینہ سے امام اعظم ابو حنیفہ ؒاور امام اوزاعیؒکے مابین مکہ شریف میں دارالحناطین کے مقام پر ایک دلچسپ کالمہ رفع یدین بارے نقل کیااور خود مسند اماماعظمؒ میں بھی کتاب الصلٰوۃ میں یہ مکالمہ اسی سفیان بن عیینہ کی سند د سے یوں موجود ہے کہ کسی دن امام اعظمؒاور امام اوزعی ؒکی آپس میں دارلحناطین مکہ شریف میں ملاقات ہوئی تو یہ مکالمہ ہوا۔
امام اوزعیؒ :۔ا ے ابو حنیفہ آپ لوگوں کو کیا ہوا کہ آپ رکوع جاتے آتے رفع یدین نہیں کرتے؟
امام ابوحنیفہؒ :۔ اس لئے کہ اس حوالے سے رسولﷺ سے کوئی صحیح روایت ثابت نہیں۔
امام اوزعیؒ :۔کیسے صحیح روایت سے ثابت نہیں جبکہ ہم کو زھری نے اس کو سالم نے اس کو اس کے باپ نے بتایا کہ رسولﷺ تکبیر تحریمہ اور رکوع جاتے آتے رفع یدین فرماتے تھے۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ:۔ہم کو حماد نے اس کو ابراہیم اس کو علقمہ اور اسودنے ان کوعبداللہ ابن مسعود ؓ نے بیان کیاکہ رسول ﷺ صرف شروع نما ز میں تکبیر تحریمہ کے لئے ہاتھ بلند فرماتے پھر بعد میں کسی جگہ نماز میں رفع یدین نہ فرماتے ۔
امام اوزاعیؒ:۔ ہم کو زہری عن سالم عن ابیہ نے بتایا تو آپ حماد کی سند بولتے ہیں اس کو ہماری سند پر آخر کیا فوقیت ہے ؟ ۔
امام اعظم ؒ :۔ حماد زھری سے ابراہیم نخفی سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور عبد اللہ بن عمر ؓ سے حضرت علقمہ فقہ میں کم نہیں اس لئے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو آگر صحبت ِ رسول ﷺ حاصل ہوئی توحضرت علقمہ ؓ کو بھی صحبتِ رسول ﷺ کی فضیلت حاصل ہے اور جناب اسود ؓ کو تقوی اور فقاہت اور صحبت ِ رسول ﷺ جیسے کثیرفضائل حاصل ہیں بلکہ جناب عبداللہ بن مسعودؓ کی فضیلت وصحبت وخدمت ِ رسول ﷺ کی تو بات ہی نرالی ہے ۔یہ سن کرامام اوزاعی خاموش ہو گئے۔
تبصرہ:۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وقت کے اہم امام اوزعی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کو بات کرنے کے لئے اس وجہ سے متخب فرمایا کہ امام ابوحنیفہ ؒ کو مر کزی حیثیت حاصل تھی پھت امام اوزعی ؒ نے جب رفع یدین پر اپنی سند پیش فرمائی تو اس کے جواب میں امام اعظمؒ نے قیاس پیش نہ فرمایا بلکہ اس سے ا فضل سند بطور ِ دلیل پیش فرمائی اور ایک ایک راوی کا خوب تقابل کیا اور اپنی سند کو یوں برتر و افضل ثابت کیا کہ امام اوزعی ؒ کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی راہ باقی نہ تھی اور اس سے یہ بھی ظاہر ہو اکہ امام اعظم ؒ کی نظر نہ صرف احا دیث ہر تھی بلکہ ایک ذمہ دار محدث کی طرح حدیث کے راوی بھی زبانی یاد تھے اور امام اوزعی کی سند کے رایوں سے بھی پوری طرح باخبر تھے یہی علمی وسعت جناب امام اعظمؒ کا طرۂ امتیاز ہے ۔ جس کے سامنے امام اوزعی ؒ جیسے انسان کو خاموش ہونا پڑایہاں پر امام ابن الہمام کی رائے بھی سن لیجیئے آپ فرماتے ہیں‘‘ فرجح الامام (اعظم )بفقہِ الرواۃ کما رجح الاوزاعی بِعُلّوِ الاسناد وھو المذھب المنصور عندنا ’’۔ابن ہمام ؒ نے فرمایا کہ اگر امام اوزعی علوِاسناد میں ترجیح رکھتے ہیں تو راویوں کی فقاہت بارے امام اعظم ؒ زیادہ راحج ہیں۔
رفع یدین عند الرکوع کے قائل حضرات کے دلائل اور ان کارد:۔
جو حضرات رفع یدین کے قائل ہیں وہ رکوع جاتے اور اٹھتے ہوئے رکوع سے رفع یدین کرتے ہیں اور تیری رکعت کے لئے اٹھتے ہوئے بھی رفع یدین کرتے ہیں یہ آ ج تک معلوم نہیں ہوا کہ رفع یدین اگر تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت کرتے ہیں تو تیسری رکعت کی کیا خصوصیت ہر رکعت کے لئے اٹھتے وقت کرنا چاہیے۔اب ان کے پیش کردہ دلائل حسب ذیل ہیں ۔
۱۔حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ میں نے رسولﷺ کو دیکھا وہ رکوع جاتے آتے رفع یدین کرتے تھے ہم مانتے ہیں کہ حضور ﷺ نے رفع یدین فرمایا پھر چھوڑدیا تو یہ روایت ٹھیک ہی بتا رہی ہے کہ مالک بن حویر ث نے حضور ﷺ کو ر فع یدین کرتے دیکھا مگر یہ کہاں کہ ہمیشہ دیکھا اور وصال شریف تک دیکھا۔ جب ہم مالک بن حویرث سے زیادہ فقیہ صحابی اور خدمت گار صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے صحیح روایت پیش کرتے ہیں کہ:
أَلَا أُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَصَلَّی فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ إِلَّا مَرَّۃً۔
(ابو داود کتاب الصلوۃ باب سن لم یذکر الرفع عندالرکوع)
فرمایا کہ میں تم کو رسولﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں تو آپ نے صحابہ و تابعین کو نمازپڑھائی اور رفع یدین نہ کیا ۔
یہ حدیث بالکل صحیح ہے صحیح ابو داود کتاب الصلوۃ باب سن لم یذکر الرفع عندالرکوع ، ترمذی ، رحمد ، نسائی ، شرح معانی الاثار نے اس کو روایت کیا۔التعلیق علی اکترمذی میں شیخ احمد شاکر نے اس روا یت کو صحیح کہا اس روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ۔ تو اب کہاں ہیں صحیح حدیث یہ عمل کرنے والے وہ اپنی رائے اس کے مطابق کیوں نہیں کر لیتے ۔ابن حزم نے بھی اس کو صحیح بتایا اور صاحب ابی داود نے تو اس حدیث کے لئے ایک مستقل باب قائم فرمایا جس سے ان کی نظر میں حدیث کی اہمیت واضح ہے اور یہی حدیث اختلاف ِ رفع یدین ہر فیصلہ کن بھی ہے اس کو امام ابو حنیفہؒ نے اپنی رائے کی بنیاد بنایا مسند امام اعظم میں آج بھی یہ روایت کتاب الصلوۃ کے آخر میں موجو د ہے یہی وہ روایت ہے جیسے پیش کرکے امام اعظم ؒ نے امام اوزعیؒ کوخاموش کر دیا تھا۔
۲۔حضرت نافع ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓرکوع جاتے آتے رفع یدین کرتے تھے ۔بخاری اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک صحابی کا اپنا عمل ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں ان سے فقہ کے لحاظ سے بہتر صحابی اور صحبت رسولﷺ میں زیادہ رہنے والا صحابی عبداللہ بن مسعود رفع یدین نہیں کر رہا اور اس کو صرف اپنا عمل نہیں حضورﷺکی نماز فرمارہا ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ زیادہ فقیہ ہیں یا عبداللہ بن مسعود یہ بات تو آپ امام اعظم ؒاور امام اوزعی کے مکالمہ میں سمجھ چکے ہیں۔
۳۔امام بخاری ؒ کا یہ فرماناکہ رفع یدین عندالرکوع کی حدیث کو۷۰سے زیا دہ صحابہ نے روایت کیا۔ اس بارے عرض ہے کہ امام بخاری ؒ نے دعوی بلا دلیل کیا آپ لوگ تسلیم کر لو ہم ان کے قعلہ نہیں کہ بلا دلیل کیا مانو گے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے شروع میں رفع یدین کیا ا س کو ۷۰ سے زائد صحابی بھی روایت کر سکتے مگر ان کی روایت یہ تو نہیں کہتی کہ بعد میں رفع یدین کو حضور ﷺ نے ترک نہیں فرمایا ۔
۴۔ امام بخاری ؒ نے ایک مستقل رسالہ جزء رفع یدین لکھا وہاں دعویٰ کیاکہ تمام صحابہ رفع یدین کر تے تھے اس سے ایک کو بھی مستثنی نہیں کیا،اگر یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ رفع یدین کیا کرتے تھے تو بالکل تمام صحابہ ہی رفع یدین کرتے ہونگے کہ اتباع رسول لازم ہے اور اگر اس بات کو حضور ﷺ کے رفع یدین کے ترک کے بعد پھر محمول کیا جائے تو امام بخاری کا دعوی اور روایت انتہائی کمزورہے اس لئے اگر تمام صحابہ رفع یدین کرتے تھے تو جو صحیح حدیث ہم نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے پیش کی کیا عبداللہ بن مسعو د ؓ صحابی نہیں اور جن کو عبداللہ بن مسعود ؓ نے جماعت کروائی اور رفع یدین نہ کیا وہ جماعت میں شریک ہزاروں نمازی کون تھے؟لہذا امام بخاری کی بخاری کے علاوہ جزء رفع یدین یاجزء قراۃخلف الامام کی کوئی حیثیت نہیں اس لئے کہ علماء نے صرف اس کی صحیح بخاری کو بالعموم تسلیم کیا ہے تمام تصانیف کو نہیں۔یہ جزء رفع یدین اور جزء قراۃ خلف الامام جیسی کتابیں بخاری کے علاوہ ہیں جو تسلیم نہیں احناف علماء وعوام اس نکتہ پر لگاہ رکھیں کہ اہل حدیث صحیح بخاری سے پیش کر رہا ہے یا صرف امام بخاری سے نہ کہ صحیح بخاری سے جو روایات ہم نے ترک ِرفع یدین میں پیش کیں ان میں کتنے جلیل القدر صحابہ کے نام گزرے جو رفع یدین خود بھی نہ کرتے اور منع بھی کرتے تھے تو امام بخاری جزء رفع یدین میں کیسے دعوی کر سکتا ہے کہ صحا بہ رفع یدین کرتے تھے حضرت علی ؓ جلیل القدر صحابی بلکہ خلیفہ المسلمین ہیں کوفہ میں ہیں نماز روزانہ کا کا م اورمسجد کا لوگوں کے سامنے دن میں پانچ مرتبہ پھر ہرنماز کی ہر رکعت میں یہ عمل کیا جاتا ہے اگر حضرت علی ؓ رفع یدین کر تے تھے تو پورے کوفہ میں ترکِ رفع یدین کو رواج کب کس نے کیسے دیا۔لہذا امام بخاری کا دعوی حقیقت پر مبنی نہیں۔
۵۔ جب دلائل امام بخاری کی ایک دوبے بنیاد حوالوں اور دعوؤں کے سوا نہ رہے تو صاحب نے لکھا کہ جمہورصحابہ و تابعین کے نز دیک رکوع جاتے آتے وقت رفع یدین شروع ہے ۔ جب امام بخاری نے تمام صحابہ کا دعوی کیا تو جمہور کہاں سے آگیا پھر کل صحابہ کادعوی کرو ہم رد ثابت کریں گے۔
احناف کے پیش کردہ دلائل کا غیر حقیقت پسندانہ رد۔
نماز کی کتاب کے مؤلف نے اپنی تالیف کے صفحہ ۱۴۴ پر غیر حقیقت پسندانہ جواب دئیے جو پیش خدمت ہیں۔
احناف کی دلیل:۔ حضرت جابر بن سمرۃ ؓسے مروی ہے کہ رسولﷺ ہمارے پاس آئے اور فرمایا ‘‘ما لی اراکم رافعی ایکدیکم کا نّھا اذناب خیل شمس اسکنو فی الصلٰوۃ ’’کیا ہے مجھے کہ میں تمھیں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا تمھارے ہاتھ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں نماز کے اندر سکون سے رہا کرو ۔ (مسلم کتاب الصلٰوۃ باب الامر بالسکون فی الصلوۃ )
اہل حدیث کارد:۔ اس حدیث میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ ممانعت رکوع والے رفع الیدین کے بارے میں ہے ۔
الرد علی الرد:۔جناب رکوع والے رفع یدین کے بارے میں اگر یہ حدیث نہیں تو اس کے علاوہ کونسا رفع یدین ہے جس کو حضورﷺ نے منع فرمایا کیا نعوذبااللہ صحابہ نماز میں ڈانس کرتے تھے جس کو منع فرمایا؟ یہی رفع الیدین عند الرکوع یہ تھا جس کو منع کردیا گیا۔
اہل حدیث کا دوسرا رد:۔ اس حدیث کے ورود کا ایک خاص سبب ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی یہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت جابر ؓ مروی ہے کہ جب ہم سلام پھیرتے اپنے ہاتھوں کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کرتے لہذا اس کو حضور نے منع فرمایا۔
الرد علی الرد :۔ یہ روایت اور پہلی روایت دونوں الگ الگ ہیں ایک بنانے کی کو شش کی گئی ہے اس لئے کہ پہلی روایت کے آخر میں‘‘ اسکنو فی الصلٰوۃ ’’ کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ نماز کے اندر ہاتھ کی حرکت تھی جس کو حضورﷺنے منع فرمایا اور آپ جس شاذروایت سے جواب دے رہے ہیں یہ نماز کے اندر نہیں بلکہ سلام پھیرنے کی بات کر رہے ہیں جب سلام پھر گیا تو نمازکا اندر کہاں رہا اور ہاتھوں سے اشارے سلام کے وقت جب حضور ﷺ نے کبھی تعلیم نہ فرمایا تو کوئی ایک دو اشارہ کرتے جس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی سب نے یہ عمل کیسے شروع کردیا تھا پھر اس روایت سے آپ نے اتنا تو تسلیم کیاکہ نماز میں سکون کاحکم ہے اور ہاتھوں کو حرکت دیناسکون کے خلاف ہے ہم بھی یہی بتارہے ہیں کہ رفع یدین نہ کرو سکون سے نماز پڑھو پر سکون کیسے نصیب ہو کہ خود امام بن گئے امام شریعت کا انکار کردیا اب آخر تک نمازمیں بے سکونی ہے۔شروع میں یہ بے سکونی کہ فاتحہ کو فیٹ بھی کرنا ہے امام نے قرات بھی شروع کر دی اب کیا کریں پھر رفع یدین عندالرکوع بعد الرکوع کی بے سکونی پھر تیسری رکعت کے لئے اٹھتے ہوئے بھی رفع یدین کو ذہن میں رکھنا ہوگاکہ رکن نمازرہ نہ جائے وہ بے سکونی اور آخری تشہد میں جو بیٹھے تو کسی نے ایک شاذ سے روایت بتادیا کہ برابر انگلی کر حرکت دیتے رہیں کہ نماز میں کہیں سکون نہ ہو اور دھیان رب کی طرف جم نہ سکے تو یوں اول تاآخر بے سکون رہے جبکہ نماز میں سکون کاحکم ہے۔
وتر میں احناف کے رفع یدین پر اعتراض اور اس کا جواب:۔
شاہد دوست نے احناف کو اپنی طرح نے بنیاد تصور کر لیا اور ہمارے وتروں کی تیسری رکعت میں رفع الیدین پر اعتراض کردیا جبکہ ہمارے رفع یدین میں بہت فرق ہے ۔ایک تو اس طرح کہ وہ پر نماز کی پر رکعت کے رکوع میں دو مرتبہ اور پھر تیسری رکعت کے لئے بھی یعنی صرف چار فرضوں میں ۹ مرتبہ اور پوری نماز اور پھر پانچوں نمازوں میں کتنی مرتبہ کرتے ہیں تو کیا ہماری بے سکونی آپ کی ہمہ وقت بے سکونی کے برابر ہے؟
دوسری گزارش یہ ہے کہ آپ کے رفع یدین کی معقولیت کبھی تھے جو ختم ہوئی توحضو رﷺ نے اس بے مقصد عمل ہی کو ختم کر دیا کہ آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت صحیح ہے جو ترکِ رفع یدین پر ہے جبکہ ہمارے وتروں کے رفع یدین میں آج بھی وہی معقولیت ہے جو تکبیر تحریمہ کے رفع یدین میں ہے وہ اس طرح کہ تکبیر تحریمہ میں اب بھی رفع یدین کو باقی رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر امام ہاتھ نہ اٹھائے صرف اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دے تو بہرے مقتدی کو کیسے معلوم ہو کہ امام نے نماز شروع کر دی اب مجھے بھی شروع کرنا چاہیے۔عین اسی طرح وتر کا رفع یدین بھی ہے کہ رمضان میں وتروں کو با لجماعت پڑھتے ہیں اگر امام تیری رکعت میں ہاتھ بلند نہ کرے صرف اللہ اکبر کہہ دے تو بہرے مقتدی کو یا جو دور کھڑا ہے جہاں تک امام کی آواز نہیں جا رہی اس کو کیسے معلوم ہو کہ اب امام دعائے قنوت پڑھ رہا ہے لہذا میں بھی پڑھوں تو ثابت ہوا کہ آپ کے سارا دن تمام نمازوں کی تمام رکعتوں میں کوئی معقولیت نہیں جبکہ ہم صرف ایک مرتبہ وتر میں رفع یدین کرتے ہیں اس میں بھی معقولیت بر قرار ہے۔جی جناب آپ سمجھ گئے کہ احناف پر آپ کا رفع یدین کا اعتراض فضول ثابت ہوا۔
اہل حدیث کا تیسرا رد:۔ حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺحضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے ساتھ پڑھی تو انہوں نے رفع یدین کبھی نہ کیا۔اس روایت کو آپ نے موضوع اور کبھی مرسل اور کبھی ضعیف اور کبھی موقوف کہا۔
الرد علی الرد:۔اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اپنی تالیف (نماز کی کتاب) کے صفحہ ۱۴۵پر عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے جس میں الفاظ ہیں کہ ‘‘ الا اُصلّی بکم صلوۃ رسول اللہ ’’کہ میں آپ کو نبی جیسی نماز یا رسول اللہ ﷺ والی نماز نہ پڑھاؤں پھر نماز پڑھائی اور رفع یدین نہ کے جب حدیث صحیح مان لی تو اس سے ثابت ہوا کہ رسول والی نماز بغیر رفع یدین کے تھی جب رسول کی نماز بغیر رفع یدین کے تھی تو حضرت ابو بکرو عمرؓ کی نمازیں رسول کے خلاف کیسے ہو سکتی ہیں لہذا حضرت علقمہ نے اسی عبداللہ بن مسعودؓ سے یہ بات ٹھیک روایت کی اس میں کیا قباحت ہے کہ کبھی موضوع کبھی ضعیف کبھی مرسل اور کبھی موقوف بتا رہے ہو۔ بیان کا تضاد کمزوری کو ظاہر کرتا ہے جو حدیث موضوع ہو وہ حدیث ہوتی ہی نہیں من گھڑت بات ہوتی ہے پھراسی کو مرسل ضعیف موقوف کیسے بتا رہے ہو اور یاد رہے کہ جب آپ نے ایک قول سے اس روایت کو مرسل ہمارے نزدیک قابلِ حجت ہے آپ کے نزدیک اگر معتبرنہیں تو آپ آزاد ہیں۔مگر یہ روایت مفہو ماً مذکورہ صحیح حدیث کے مطابق ہے لہذا خیال رکھنا حدیث کی بے حرمتی نہ ہو کہ حدیث کی بے حرمتی رسول کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔
عمران ایوب لاہوری صاحب پر تعجب:۔
خود ہی اپنی تالیف کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر جس حدیث ِ عبد اللہ ابن مسعود ؓ کو صحیح بتا رہے ہیں اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر کے خلاف ہے اور پھر لکھا کہ یہ عمل صحابی ہے ۔دونوں باتیں حیران کن ہیں کہ یہ تو حدیث فہمی نہیں بلکہ حدیث دشمنی ہے ۔ اس لئے کہ وہ کونسی متعدد صحیح و متواتر احادیث ہیں جن کے یہ خلاف ہے جو روایات آپ نے یہاں پیش کیں ان کا تو ایک ایک کر کے جواب دے دیا ہے باقی متواتر و متعدد کہاں چھپا رکھی ہیں سامنے لے آئیں ۔ پھر آپ کا یہ کہنا کہ یہ صحابی کا عمل ہے جبکہ یہ غلط بات ہے ۔ صحابی کو عمل تب ہوتا جب عبد اللہ ابن مسعودؓ صرف اپنی نماز پڑھتے اور اس میں رفع یدین کرتے تو آپ کی بات ٹھیک تھی کہ چاہیں تو صحابی کے عمل کو نظر انداز کر دیں اور چاہیں تو امام بخاری ؒ کے بے بنیاد بے سند قول کو دلیل بنا کر پیش کر دیں۔
الرّد علی الرّد ۔ جناب یہ صحابی کو اپنا عمل نہیں بلکہ وہ تو فرمارہے ہیں ‘‘لا اُصلّی بکم صلٰوۃ رسول اللہ ’’ کہ میں تم کو رسول اللہ کی نماز پڑھاؤں یعنی رسول کا عمل ِ نماز اپنے عمل نماز سے پیش کیا پھر صحابی کا عمل کسیے ہوا صحابی کا عمل تو آپ نے پیش کیا تھا کہ جب ایک صحابی نے نماز پڑھائی تو لوگوں نے پیچھے سے اونچے اٰمین کہ کر پوری مسجد کو سر پر اٹھا لیا تھا اس روایت میں سوائے عمل صحابی کے صلٰوۃَ رسولُ اللہ جیسا کوئی لفظ نہیں وہاں آپ نے صحابی کے عمل کو حدیث بنا کر پیش کیا جبکہ صحابی کا عمل حدیث کی تعریف میں شامل نہیں ہوتا وہ صرف اثر ہی کہلاتا ہے حدیث تو قول رسول فعلِ رسول اور تقریرِ رسول کا نا م ہے اور جس حدیث کو آپ عملِ صحابی بتا رہے ہیں اس میں فعل رسول کو صحابی اپنے فعل سے بھی ظاہر کر رہا ہے اور زبان سے بھی بول رہا ہے کہ میں تم کو رسول کے عمل والی نماز پڑھا رہا ہوں ۔
امام اعظم ؒ کی عظمت:۔
امام اعظم ؒ نے جو روایت امام اوزاعی ؒ کے سامنے پیش کی تھی قیامت تک رفع یدین کے مسئلہ پر اس کا جواب کسی سے نہیں بن سکتا کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے اور ایسے افضل صحابی سے ہے کہ اس کے مقابلہ میں ان سے عظیم کسی صحابی سے اس کو رد منقول ہی نہیں ۔ لہذا امام اعظم ؒ کی پیش کردہ حدیث نے نہ صرف امام اوزاعی ؒ کوچپ کروادیا تھا بلکہ قیامت تک امام اوزاعی ؒ جیسی رائے رکھنے والوں کے لئے بھی امام اعظم ؒکی پیش کردہ صحیح حدیث کافی ہے ۔
سجدہ:۔
جو احادیث پہلے پیش کر چکا ہوں وہ رکوع سے قو مہ تک مکمل رہنمائی دے رہی ہیں اس لئے اب سجدہ کے بارے میں قرآن و حدیث پیش ِخدمت ہیں ۔
ویسے تو نماز کی ہر ہر حرکت اور ہر رکن بڑی اہمیت کا حامل ہے مگر پوری نماز کی حرکات میں رکوع و سجود زیادہ اہمیت اور تونہ کے مستحق ہیں یہی وجہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے سب سے بُرا چور نماز کے چور کو بتلایا تو آپ نے فرمایا کہ جو نماز کے رکوع و سجود کو مکمل نہ کرے اور اللہ تعالیٰ نے بھی رکوع بول کر پوری نماز مراد لیا جیسے ‘‘وارکعوا مع الرکعین ’’ اور سجدہ کے بارے فرمایا ‘‘ واسجُد و اقترب ’’ پھر فرمایا ‘‘ یا ایّھا الذین اٰمنوا ارْکَعُوا و اسجُدوا واعبُدُوا ربّکم ۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور (یوں ) اپنے رب کی بندگی کرو۔
پھر فرمایا :
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُودِ فَلَا یَسْتَطِیعُونَ o (القلم 42.)
ترجمہ:۔ جس روز پر وہ اُٹھائے جائے گے ایک ساق سے تو ان (نابکاروں )کو سجدہ کی دعوت دی جائے گی تو اُس وقت وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے ۔
ان اٰیات سے سجدہ کی اہمیت واضح ہوئی اب احادیث پیش خدمت ہیں جن سے سجدہ کا پورا طریقہ سامنے آجاتا ہے ۔
۱۔ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْبَدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تُجْزِءُ صَلَاۃُ الرَّجُلِ حَتَّی یُقِیمَ ظَہْرَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ۔
( ابوداوٗد کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃباب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود)
حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی نماز اُس وقت تک کافی نہیں ہوتی جب تک وہ رکوع اور سجدہ میں اپنی پیٹھ کو سیدھا برابر نہ کرے ۔
۲۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اعْتَدِلُوا فِی السُّجُودِ، وَلاَ یَبْسُطْ أَحَدُکُمْ ذِرَاعَیْہِ انْبِسَاطَ الکَلْبِ
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ باب لا یفترش ذراعیہ فی السجود،مسلم کتاب الصلاۃ باب الاعتدال فی السجود، ووضع الکفین علی الأرض، ورفع المرفقین عن الجنبین، ورفع البطن عن الفخذین فی السجود )
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ سجدہ اعتدال کے ساتھ کرو اور کوئی اپنی باہیں سجدے میں اس طرح نہ بچھائے جیسے کتّا زمین پر باہیں بچھا دیتا ہے ۔ یعنی باہوں کو زمین سے الگ اُٹھا کر رکھے ۔
۳۔ عَنِ الْبَرَاء ِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَجَدْتَ، فَضَعْ کَفَّیْکَ وَارْفَعْ مِرْفَقَیْکَ ۔
( مسلم کتاب الصلاۃ باب الاعتدال فی السجود، ووضع الکفین علی الأرض، ورفع المرفقین عن الجنبین، ورفع البطن عن الفخذین فی السجود )
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب سجدہ کرو تو ہتھیلیاں زمیں پر رکھو اور کہنیاں اُوپر اُٹھاؤ ۔
۴۔ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَالِکٍ ابْنِ بُحَیْنَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا صَلَّی فَرَّجَ بَیْنَ یَدَیْہِ حَتَّی یَبْدُوَ بَیَاضُ إِبْطَیْہِ ۔ (بخاری أبواب الصلاۃ فی الثیابباب یبدی ضبعیۃ ویجافی فی السجود،مسلم )
حضرت عبد اللہ بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب سجدہ میں جاتے تو ہاتھوں کو کھول کر پہلوؤں سے یوں الگ فرمالیتے کہ آ پ کی بغلوں کی سفیدی نظرتی تھی ۔
۵۔ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، وَإِذَا نَہَضَ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ۔
(ابو داوٗد کتاب الصلاۃ أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ؟)
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو ہاتھوں سے پہلے گُھٹنے زمین پر رکھے اور جب سجدہ سے اُٹھے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا ۔
سجدہ سات اعضاء پر کیا جائے :۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ عَلَی الجَبْہَۃِ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ عَلَی أَنْفِہِ وَالیَدَیْنِ وَالرُّکْبَتَیْنِ، وَأَطْرَافِ القَدَمَیْنِ وَلاَ نَکْفِتَ الثِّیَابَ وَالشَّعَرَ۔
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ باب: السجود علی الأنف ،مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مجھے سات اعضار پر سجدہ کرنے کا حکم مِلا ہے ۱۔ پیشانی ۳۔ دونوں ہاتھ ۵۔ دونوں گھٹنے ۷۔ اور دونوں پاؤں کے کنارے اور یہ بھی حکم ملائکہ (دوران نماز ) اپنے کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹوں ۔
اِستخراجِ مسائل :۔
۱۔ دوران ِ سجدہ ان مذکورہ سات اعضاء کو زمین پر رکھنے کو یقینی بنائے ہاں اگر عذر ہو تو وہ الگ معاملہ ہے۔
۲۔ دوران سجدہ پاؤں کو زمین پر ٹکائے رکھے نہ کہ ہوا میں بلند کر دے ۔
۳۔ چونکہ حدیث میں پیشانی کا لفظ ہے لہذا اگر ناک زمین سے اٹھ بھی جائے تو سجدہ ہوجائے گا مگر کوشش رہے کہ ناک بھی سجدہ کی سعادت حاصل کرے جبکہ صرف ناک سجدہ میں زمین پر رکھنااور ماتھے کو اٹھا کر رکھنا یہ سجدہ کافی نہیں کہ حدیث میں پیشانی کا ذکر موجود ہے ۔
۴۔ دوران نماز اپنے کپڑوں اور بالوں کو نہ درست کرتا رہے ۔
عام لوگوں کا غلط عمل :۔
جب حضور ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث میں واضح فرمادیا کہ مجھے حکم ربّانی ہے کہ نماز میں بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں تو اس کے بعد کسی کو کیا حق ہے کہ وہ کبھی داڑھی پر باربار ہاتھ پھیر کر اس کو نماز کے اندر درست کرے یا سجدہ کو جاتے آتے اپنے کپڑوں کو درست کرتا رہے ۔ جب آپ بار گاہِ ایزدی میں حاضر ہیں تو اپنے کپڑوں اور بالوں کی بٹاوٹ سے بالکل بے نیاز ہو جائیں کیونکہ نماز اور تکبّر یہ دونوں کام نہیں ہوسکتے ۔ کپڑے کو جانے دو جہاں جاتا ہے ۔ ہاں اگر شدید سردی یا شدید گرمی سے بچاؤ کے لئے سر پر کپڑے کے پہلوکو پیشانی کے نیچے کر لیا تو حرج نہیں کہ حدیث میں یہ بات ملتی ہے ۔
زندہ بزرگوں یا کسی کی قبر پر سجدہ کرنا :۔
چونکہ سجدہ عبادت ہی کا ایک اہم رکن ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا جائز ہے لہذا سجدہ کسی زندہ یا مُردہ کو بلکہ سوائے ذات ِ باری تعالیٰ کے کسی کو جائز نہیں ۔ سجدہ تعظیمی پچھلی شریعتوں میں جائز رہا مگر ہماری شریعتِ محمدی میں اس کو بھی منع کر دیا گیا ہے لہذا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو سجدہ کرنے کی گنجائش ہر گز نہیں ۔ ہاں اگر پھر بھی کوئی سجدہ غیر کو کرنے پر بضد ہو تو اگر وہ صرف تعظیم کے لئے سجدہ کرتا ہے اور مسجود کو الہ تصور نہیں کرتا تو یہ سجدہ حرام ہے کہ منع کیا گیا ہے اور اگر مسجود کو الہ اور معبود سمجھ کر سجدہ کرتا ہے تو یہ عبادت غیر ہے جو شرک ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے ہی سامنے جھکنے کی سعادت دے ۔
مولانا الیاس صاحب قادری اور مولانا احمد یار خان مرحوم دونوں نے لکھا کہ کسی زندہ بزرگ کو حدّ رکوع تک جھک کر ملنا حرام اور حدِّ رکوع سے کم جُھکنا مکروہ ہے ۔ بزرگانِ دین کی کبھی خواہش نہیں رہی کہ لوگ ہم کو جھک کر ملیں بلکہ وہ تو ہمیشہ لوگوں کو اللہ کریم کے سامنے جھکنے کی تعلیم دیتے ہیں اور جو بزرگ یہ خواہش رکھے کہ مجھے ہر ملنے والا جُھک کر ہی ملے وہ بزرگ نہیں بزرگ کے لباس میں کچھ اور ہے اُس سے دُور رہو ۔
تشہد:۔
درمیانی تشہد میں عبدہ ورسولہٗ تک اور آخری تشہد میں درود شریف اور آخر میں دعا پڑھی جاتی ہے ان میں ایک ایک چیز کا ذکر کیے دیتے ہیں ۔
قعدہ کا مسنون طریقہ:۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا جَلَسَ فِی الصَّلَاۃِ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی رُکْبَتَیْہِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَہُ الْیُمْنَی الَّتِی تَلِی الْإِبْہَامَ، فَدَعَا بِہَا وَیَدَہُ الْیُسْرَی عَلَی رُکْبَتِہِ بَاسِطَہَا عَلَیْہَا۔
( مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ، وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین)
حضرت عبدا للہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی کو اٹھا کر اشارہ فرماتے اور اس وقت بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر دراز ہوتا تھا۔
تشریح:۔ یہاں حضور ﷺکے ہاتھ رکھنے اور اشارہ کی بات کی گئی ہے یہاں ہے کہ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے جبکہ ایک روایت میں رانوں پر رکھنے کے الفاظ ہیں لہذا دونوں ہاتھوں کو رانوں پر اسطرح رکھے کہ ہاتھوں کی انگلیاں عین گھٹنوں کے اوپر ہوں مگرسیدھی قبلہ رخ بھی ہوں اسطرح رانوں اور گھٹنوں والی دونوں روایات پر عمل بھی ہو جائے گا اور انگلیاں قبلہ رخ بھی ہو جائیں گی۔
انگلی سے اشارہ کرنا:۔
جو بات اس حدیث سے ہم کو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ اشارہ بلا شبہ حضورﷺ سے دیگر روایات سے بھی ثابت ہے مگر ہمہ وقت پورے تشہد میں برابر حرکت دیتے رہنا اور اپنی توجہ کو نماز پر مرکوز کرنے کی بجائے ادھر مرکوز رکھنا جبکہ ہمہ وقت مسلسل حرکت دینے کی کو ئی بظاہر حکمت بھی نظر نہیں آ رہی اور حدیث کے الفاظ بھی اس کے متحمل نہیں کیونکہ یہاں صرف اتنا ہے ‘‘ورفع اصبعہٗ ۔۔۔فدعابھا ۔اس سے ایک مرتبہ اشارہ تو ثابت ہے تسلسل ظاہر نہیں ہو رہا اس لئے ہمارے علماء نے اس کو اللہ کی وحدانیت کی شہادت کیساتھ خاص بتایا ہے یعنی جب نمازی منہ سے بولے‘‘اشھد ان لا الہ الّا اللہ ’’کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں تو یہاں لفظِ لا پر انگلی کے اشارے سے بھی اس کی تائید یعنی غیر خدا کی نفی کر دے اور یہ بات سمجھ بھی آتی ہے
اِسی اشارے کی اہمیت ایک روایت میں یوں بیان کی گئی ہے۔لَھِیَ اَشَدُّ علٰی الشیطان من الحدید ۔(مشکوٰۃ بحوالہ مسند احمد ) یہ اشارہ شیطان پر لوہے سے بھی زیادہ بھاری ہے کلمہ شہادت پر اشارے کی دوسری روایت جو اس کی تائید کر تی ہے وہ شہادتِ۔۔ ‘‘ ان لا الہ الّااللہ و عقد بیدہٖ ھکذا بخاری ج ۱ کتاب الزکوۃ باب وجوب الزکوۃ ۔ اس سلسلہ میں حضور ﷺ کا حکم نظر سے نہیں گزرا ہاں ایسی روایت لائے جس میں آخری تشہد میں مسلسل انگلی کو حرکت دیتے رہنے کی بات ہو تو وہ شاذ ہو گی کہ عام نماز سے متعلق احادیث میں یہ عمل نہیں اور عمل ثابت بھی ہو تو جب تک امرِ رسول نہ ہو لازم ثابت نہیں ہوتا۔
قعدہ بیٹھنے کا طریقہ اور قدموں کی حالت:۔
فقال ابو حمید الساعدی انا کنتُ احفظکم لِصلٰوۃِ رسول اللّٰہ ﷺ رأیتُہٗ و اسْتَقبَلَ باطراف اصابعٍ رجلیہِ القِبلَۃَ فاذا جَلَسَ فی الرکعتینِ جلس علی رجلہٖ الیُسرٰی و نصب الیُمنٰی ۔
فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ السَّاعِدِیُّ: أَنَا کُنْتُ أَحْفَظَکُمْ لِصَلاَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَیْتُہُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَیْہِ القِبْلَۃَ، فَإِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ جَلَسَ عَلَی رِجْلِہِ الیُسْرَی، وَنَصَبَ الیُمْنَی۔
(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب سُنّۃالجلوس فی التشھد ِ)
ابوحمید ساعدی سے روایت ہے کہ میں تم سے زیادہ نمازِ رسول اللہﷺ کو یاد رکھنے والا ہوں میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا ہوا تھا اور جب آپ دو رکعت پڑھ کر (درمیانی قعدہ) بیٹھے تو آپ بائیں پاؤں پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھا۔
تشہد کی عبارت:۔
عَنْ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: کُنَّا إِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: السَّلاَمُ عَلَی جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ السَّلاَمُ عَلَی فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ” إِنَّ اللَّہَ ہُوَ السَّلاَمُ، فَإِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَلْیَقُلْ: التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ، فَإِنَّکُمْ إِذَا قُلْتُمُوہَا أَصَابَتْ کُلَّ عَبْدٍ لِلَّہِ صَالِحٍ فِی السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔ (بخاری کتاب الصلوۃ باب التشہد فی الاٰخِرۃِ )
شقیق بن سلمہؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے کہا کہ ہم نے جب رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو ہم نے سلام ہو جبریل و میکائیل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر کہا تو جب حضورﷺ نماز کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا اللہ ہی سلام ہے جب تم سے کوئی نماز پڑھے تو یوں کہے ۔ ساری قولی ، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لئے ہیں اے نبی آپ ﷺ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں ، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر ( پھر جب تم یہ کہتے ہو تو یہ سلام آسمان وزمین میں ہر نیک بندے کو پہنچ جاتا ہے )میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
تشریح طلب نکات:۔
یہاں حدیثِ بخاری میں بعینہٖ وہی تشھدکے الفاظ موجود ہیں جو ہماری روزمرہ نمازوں کا حصہ ہے۔ البتہ اس حدیث میں درمیانِ بیان حضورﷺ ایک تشریح فرما دی جو تشہد کا حصہ نہیں وہ یہ کہ حضورﷺ نے بطورِو ضاحت فرمایا کہ جب تم مجھ پر پھر تما م صالحین پر سلام پیش کرتے ہو تو وہ سلام تمام نیک بندوں کو پہنچ جاتا ہے ۔
سلام حضور ﷺ کو پہنچتا ہے :۔
امام بخاری ؒ کی اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ جب ہم حضور ﷺ کو نماز میں السلام علیک ایھا النبی سے سلام پیش کرتے ہیں تو حضورﷺ کو بھی پہنچتا ہے اور جب سب صالحین کو سلام پیش کرتے ہیں تو آسمان و زمین کے کونے میں جہاں کوئی نیک بندہ فرشتہ ہو یاانسان ، دور ہو یا نزدیک اس کو یہ سلام پہنچ جاتا ہے ۔ ایک تو یہ واضح ہوا کہ اس یقین سے نمازی سلام پیش کرے کہ میرا سلام بارگاہ رسالت ماٰب میں پہنچ رہا ہے اور ساتھ یہ بھی واضح ہوا کہ انشآء و حکایت کی کہانی یہاں بے سود ہے کہ سلام ابھی ابھی تازہ تازہ پہنچ رہا ہے جب نماز کے اندر سلام جس نیٹ ورک سے پہنچ جاتا ہے نماز کے باہر بھی اسی نیٹ ورک سے سلام پہنچتا ہے ۔ لوگوں کو یہ فکر تھی کہ ہمارا سلا م فخر المر سلین کو بھی پہنچتاہے کہ نہیں حدیث نے واضح کیا کہ یہ سلام عام نیک بندوں کو بھی آسمان و زمین کے کونے کونے میں پہنچ جاتاہے۔جب عام بندوں کوسلام پہنچتاہے وہاں فخرانسانیت کے لئے تومسئلہ ہی نہیں۔
علمآء دیو بند کی رائے:۔
مذکورہ بالا حدیث کے باوجود علمآءِ دیو بندکی رائے یہ ہے کہ دور سے سلام حضورﷺ کو نہیں پہنچتاہاں فرشتے پہنچاتے ہیں اور اگر حضورﷺ کی قبر ِ ِ انور پر سلام پیش کیا جائے تو نہ صرف آپ سنتے ہیں بلکہ جواب بھی ارشاد فرماتے ہیں اور کچھ خوش نصیبوں نے حضورﷺ کا جوابی سلام سنا بھی ہے ملاحظہ فر مائیں مولانا ذکریا صاحب کی تالیفِ فضائلِ درود شریف۔ قبر کے پاس سلام حضورﷺ آخر کیسے سنتے ہیں جبکہ قبر حائل ہے سماعت ممکن نہیں کہ آواز ہوا کے دوش پر جاتی ہے اور وہاں ہوا کا گزر نہیں تو جناب فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ سنا رہاہے تو گزارش ہے کہ جو اللہ قبر کے پاس والی آواز کو سنانے پر قادرہے وہ قبر سے دور والی آواز کو سنانے پر قادر نہیں؟ اگر آپ کہیں کہ شرک لازم آتا ہے تو جناب مذ کو رہ حدیث میں نیک بندے آسمان و ز مین میں ہر جگہ ہر نمازی کا سلام سنتے ہیں کیا یہ شرک ہے؟ محترم آپ کو شرک کا شائبہ اس لئے ہوا کہ آپ نے رب کی سماعت کو بھی آسمان و ز مین یعنی حدودِ کا ئنات تک محدود تصور کیا ہے جبکہ رب کی تمام صفات کائنات یا کسی بھی حدود سے آشنا نہیں۔ رب کے سامنے یہ پورا جہاں بہت محدود اور چھوٹی چیز ہے اور رب کی سماعت کی حد نہیں حضور ﷺ کی سماعت کائنات تک محدود پھر رب کی جملہ صفات کمالیہ ذاتی حضﷺکی عطائی ہیں یہ واضح فرق ہے جو شرک کو مانع ہے رب کی صفات قیدیمی و ابدی جبکہ مخلوق کی صفات حادث ہیں۔
حضور ﷺ کی بشریت :۔
حضور ﷺ کی بشریت پر کوئی دورائے نہیں ہیں سب کو تسلیم ہے کہ حضور ﷺ باقی انبیآء کی طرح نسلِ انسانی میں سے انسان ہیں اور آپ فخر انسانیت ہیں یعنی انسانوں کو بجا طور پر یہ فخر ہے کہ ہم میں سے ایک ایسا عظیم الشان انسان بھی ہے جس کے سامنے معزز ملائکہ بھی دم بخود ہیں اور حضور ﷺ کا جسد عنصری صریح اٰیات و احادیث کی روشنی میں صرف مٹی سے ڈھالا گیا جو مکہ شریف کی مبارک سرزمین سے لی گئی ہے سیرت ِ رسول عربی میں نور بخش توکلیؒ نے یہی بات واضح فرمائی ۔ علامہ امجد علی صاحب قادری ؒنے بہار شریعت میں اسی حقیقت کا اقرار کیا اور نور انیت کا کہیں دعوی نہ کیا مولانا احمد رضاخان بریلویؒ نے بہارشریعت پر تقریظ لکھ کر مہر ِ تصدیق ثبت کی اور پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ نے فتاوٰی مہریہ میں اسی عقیدہ کا اظہار و اعتراف فرمایا ، مولانا غلام رسول سعیدی ؒ نے شرح صحیح مسلم میں حضور ﷺ کی شریعت کو خوب واضح فرمایا اور جہاں سے لوگوں کو غلط فہمی ہو سکتی تھی اس کا جواب بھی تحریر کہ دیا ۔ یہ کہنا کہ حضور ﷺ صرف دیکھنے میں انسان ہیں جیسے جبرائیل ؑ نور ہو کر انسانی میں بار بار تشریف لایا یہ نادان لوگوں کا گمان ہے اور نادانوں کا گمان تو نعوذ باللہ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نہ صرف نور ہیں بلکہ نُورٌ من نورِ اللہ یعنی اللہ کے نور کاجز ہیں ۔جو تجزّی اور حصّے بکھرے ہونے کو قبول بھی نہیں کرتا اور اگر بالفرض و المحال نُورِ خدا سے ایک جُز نکال کر کسی مخلوق کو پیدا کیا جائے تو وہ مخلوق بھی تو پھر خدا ہی ہوگی کہ اس کا اصل نور خدا ہے ۔ ایسی باتیں اور تصورات انتہائی خطر ناک ہیں ایمان کی سلامتی کے لئے لازم ہے کہ ایسی باتوں سے محتاط رہیں اور حضور ﷺ کو افضل البشراور سیّد البشر ہونے کا یقین کر لیں ۔ جہاں تک مختلف احادیث کا تعلق ہے جہاں حضور ﷺ کے لئے نور کا لفظ استعمال ہوا تو وہ سب اعزاز و اعجاز رسول ﷺ ہے جیسے حضرت موسٰی ؑ ہاتھ مبارک کو بغل میں دبا کر نکالتے تو نور ظاہر ہوتا ۔ نور کی جملہ احادیث اسی مفہوم پر ہیں ۔
حضرت علامہ جلال الدین رومی ؒ کا عقیدہ پیشِ خدمت ہے ۔
مُحمّدٌ بشرٌ لا کالْبشر کالیا قوت حجرٌ لا کالحجر
حضور ﷺ بشر ہیں مگر کمالاتِ و فضائل میں بشر جیسے نہیں ، جیسے یاقوت پتھر ہی ہے مگر عام پتھر جیسا نہیں ۔
اللہ پاک حضور ﷺ کا اد ب و احترام نصیف فرمائے اور آپ کی حقیقی محبت نصیب فرمائے جو جانِ ایمان ہے اور جملہ مخلوقات ِ خداوندی پر آپ ﷺ کی عظمت و فضیلت یقین کرنے کی توفیق بخشے ۔
سبحانک اللّھمّ و بحمدک اشھد ان لاالہ الّا انت استغفرک و اتوب الیک ، اللّھمّ صلّ علی محمد وعلی آل محمد ٍ و بارک و سلم علیہ۔
نماز اور تعلیم ِ توحید ِ باری تعالیٰ:۔
بالعموم اگر دیکھاجائے تو نماز ‘‘ اللہ اکبر ’’ تکبیر تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ پر ختم ہوتی ہے جس طرح میں نے اذان کے باب میں ذکر کیا کہ لفظ اللہ سے شروع ہو کر اذان لفظ اللہ اسم جلالہ پرختم ہوتی ہے اسی طرح نماز کا بھی لفظ اللہ اور سب سے آخری لفظ بھی اللہ ہے اور نماز کا لفظ لفظ توحید باری تعالیٰ پر دلالت کرتا ہے جبکہ نماز کی ایک ترتیب یہ بھی ہے کہ نماز توحید ، رسالت اور دعا سے عبارت ہے ویسے تو توحید باری تعالیٰ کے ثبوت کے لئے لفظ اللہ ہی کافی ہے مگر نادانوں کو کیا سمجھ اللہ تعالیٰ نے کلماتِ تشھد میں پوری وضاحت سے بیان کر دیا وہ یوں کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے نیکی کرتا ہے یا عبادت کرتا ہے تو اس کے صرف تین ذرائع ہیں ۔ (۱) زبان و قول (۲) جسم کا استعمال (۳) مال کا استعمال ۔ اس کے علاوہ چوتھی کوئی صورت عبادت و عمل کی نہیں تو تشہد میں التحیات للہ والصلٰوات و الطیبات کی تعلیم دیکر واضح کر دیا کہ عبادت کی تینوں صورتیں صرف اللہ کے لئے ہیں جب قولی بدنی اور مالی عبادتیں صرف اللہ کو زیبا ہیں تو اس کے علاوہ کوئی عبادت باقی نہیں رہ جاتی جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے ہو اور شرک لازم آئے ۔ یہاں سے نمازی کو پختہ یقین بنا لینا چاہیے کہ میرا ہر عمل جو نیکی اور عبادت کی صورت میں ہواسے صرف اور صرف اللہ کریم کی ذات کے پیش نظر ہی ہونا چاہیے اور یہی حق ہے ۔
نماز میں حضور ﷺ اور پھر ابراہیم ؑ کی تخصیص کیوں:۔
اس کی ایک وجہ تو وہی آیت ہے جس میں حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی پر صلٰوۃ و سلام پیش کرنے کا حکم ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ روایات گواہ ہیں کہ جب حضور ﷺ کا وقتِ وصال قریب آّیا تو آپ نے پاس بیٹھنے والوں کو قیامت تک آنے والے اُمتیوں کے لئے سلام پہنچانے کا حکم دیا گویا حضور ﷺ نے ہم کو سلام کہا جس کے جواب میں ہم بھی سلام پیش کرتے ہیں ۔
اب رہی بات سیدنا ابراہیم ؑ کی کہ تشہد میں باقی انبیآء میں سے ان کو کیوں خاص کیا گیا تو اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضور ﷺ اولادِ اسماعیل و ابراہیم ؑ سے ہیں پھر ابراہیم ؑ نے کعبہ تعمیر کیا اور آپ کے لئے دعاکی آپ ﷺ فرماتے تھے ‘‘ ان دعوۃ ابی ابراہیم ؑ ’’ میں اپنے جدّ امجد ابراہیم کی دعا ہوں پھر شریعت ِ محمدیہ میں سیدنا ابراہیم ؑ کا اتنا زیادہ عمل دخل ہے کہ پورا حج اور اعمال حج ان کے اور ان کی فیملی کے گرد گھومتا ہے ۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی خصوصیت باقی انبیآء سے اس ایت سے بھی ظاہر ہے ۔
قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم ۔ الممتحنہ پارہ ۲۸ ۔
یعنی جس طرح حضور ﷺ کی ذات ستُودہ صفات کو ہمارے لئے نمونہ قرار دیا گیا ابراہیم ؑ کی ذات کو بھی نمونہ قرار دیا گیا ۔ مزید یہ کہ جب آپ ﷺ نے کعبہ کی تعمیر مکمل کی تو یہ فرمایا ۔ کہ تمام اہلِ خانہ کو جمع فرمایا تاکہ تکمل ِ کعبہ پر اجتماعی دعا میں سب کو شریک کیا جاسکے تو آپ نے جمع فرمایا اور روتے گڑ گڑاتے ہوئے ۔
یوں دعا فرمائی :۔
اللّھمّ مَن حج البیتَ ھذا مِن شیوخِ اُمّتِ مُحمدٍ ﷺ فَہبْہُ منّی السلام ۔ فقال اَہلَہٗ اٰمین ثمّ قال اسحق ؑ اللّھمّ مَن حجّ ھذا البیت من کُہولِ اُمّۃ، محمدٍ فَہِبْہُ مِنّی السلام فقالُوا اٰمین ثمّ قال اسمٰعیل ؑ اللّھمّ مَن حجّ ھذا البیت من نِسوانِ اُمّۃِ محمدٍ ﷺ فَہبھا منّی السّلام فقالُوا اٰمین ثمّ دعتْ ھاجِرَۃُ ؓ فقالت اللّھمّ من حجّ ھذا البیت من موالی الموالات مِن اُمّۃ محمّدٍ ﷺ فَہبْہُ منّی السّلام فقالُوا اٰمین (قدوری حاشیہ علی باب شروط الصلوٰۃ)
ترجمہ:۔ ابراہیم ؑ نے گھر والوں کو جمع کر کے دعا فرمائی اے اللہ امت محمد ٍ ﷺ سے بوڑھا اس گھر کا حج کرے اس کو میرا سلام پہنچا تو گھر والوں نے اٰمین کہا ، پھر اسماعیل ؑ نے دعا کی اے امتِ محمدٍ ﷺ سے جو جوان اس گھر کا حج کرے اس کو میرا سلام عطا فرما، پھراسحق ؑ نے شادی شدہ کے لئے دعا فرمائی اور سلام بھیجا ، پھر جناب سائرہ ؑ نے عورتوں کے لئے دعا کی اور سلام بھیجا ، پھر جناب ھاجرہ ؑ نے لونڈیوں کے لئے دعا کی اور سلام بھیجا جس پر سب نے اٰمین کہی تو التحیات میں ان کی دعاؤں کے جواب میں احسان کا بدلہ احسان سے چکانے کے لئے حضور ﷺ نے سیدنا ابراہیم ؑ اور آل ابراہیم ؑ پر سلام کا حکم فرمایا اور ایک وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ شب معراج سب انبیآء سے حضور ﷺ کا سلام و دعا ہوا مگر ابراہیم ؑ نے حضور ﷺ کو امت کے نام بھی سلام ارسال فرمایا لہذا اب بطور جزاءِ احسان امت قیامت تک نمازوں میں ان پر سلام پیش کرتی رہے گی ۔
توحید و رسالت کی شہادت:۔
نمازی تشھد کے پیش کردہ الفاظ میں ایک طرف اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کی عبدیت و رسالت کی گواہی دیتا ہے ۔ عبدیت کی گواہی اس لئے لازم کر دی کہ یہود و نصاری کی طرح اُمت محمدیہ عقیدت و احترام اور محبت میں حضور ﷺ کو مقام عبدیت سے نکال کر مقامِ اُلوہیت میں نہ لے جا سکیں جیسا کہ یہود و نصاری گمراہ ہوئے اب جو عبد ہے وہ تمام تر فضائل وکمالات کے باوجود معبود نہیں بلکہ مخلوق اور سید البشر ہے جس کے الٰہ ہونے کا کوئی شبہ باقی نہیں رہا اور ایک طرف آپ کی عبدیت کا اقرار کرواکر الوہیت کا راستہ روک دیا تو دوسری طرف رسالت کا اقرار کرواکر بحیثیتِ رسول آپ کے جملہ فضائل و کمالات کا اعتراف کروادیا ۔ یہ دونوں باتیں انتہائی اہم ہیں کہ ایک طرف حدِّ الُوہیت میں نہ جائیں تو دوسری طرف جناب حضور ﷺ کو مقامِ رسالت سے نیچے گرا کر عام لوگوں کی سطح پر تصوّر نہ کرلیا جائے ۔ اسی میں ہماری نجات ہے ۔
قعدہ اولٰی کہا ں تک پڑ ھا جائے:۔
جیسا کہ معروف ہے کہ قعدہ اْولٰی عبدہ ورسولہ تک پڑھا جاتا ہے ۔ احادیث سے یہی ظاہر ہے کہ حضور ﷺ قعدہ اْولٰی کو قعدہ اخیرہ جتنا لمبا نہ فرماتے بلکہ جلد ہی کھڑے ہو جاتے تو ظاہر ہے کہ عبدۃ ورسولہ، کے بعد درود شریف اور دعا کو کسی نے نماز کا فرضی اور لازمی حصہ قرار نہ دیا تو حضورﷺ درمیانی قعدہ میں درود اور آخری دعا نہ پڑھتے بلکہ عبدہ ورسولہ تک پڑ ھ کر فوری کھڑے ہو جاتے تھے روایت یہ ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ قال کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ کَأَنَّہُ عَلَی الرَّضْفِ ، قَالَ شُعْبَۃُ: ثُمَّ حَرَّکَ سَعْدٌ شَفَتَیْہِ بِشَیْء ٍ، فَأَقُولُ: حَتَّی یَقُومَ؟، فَیَقُولُ: حَتَّی یَقُومَ۔
( الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃبَابُ مَا جَاء َ فی مقْدَارِ القُعودِ فی الرکعَتینِ الأُولَیَیْنِ و النسائی )
حضرت عبداللہ ابن مسعوود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھتے ( تو اتنی جلدی فرماتے ) جیسے آپ گرم پتھروں پر بیٹھے ہوں اور(جلدی ) کھڑے ہو جاتے ۔
یہاں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ درمیانی تشہد آخر تک نہ پڑھتے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ ہر دو رکعتوں پر تشہد ضرور بیٹھتے تھے۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ فرما تے ہیں حضور ﷺ نے مجھے تشہد کے یہ معروف الفاظ میرا ہاتھ پکڑ یوں تعلیم فرمائے جیسے آپ قرآن کی کوئی سورت تعلیم فرماتے اور مجھے پوری طرح تعلیم فرمانے کے بعد حکم بھی فرمایا کہ میں باقی لوگوں کو یہی تعلیم دوں۔
تشہد کی مذ کورہ عبارت پر شارحین حدیث کی رائے:۔
بعض شارحین کی رائے یہ ہے کہ شب معراج بار گاہ صمدیث میں جو مکالمہ ہو ا وہ یہی الفاظ تھے اور ا س طرح مکالمہ ہوا کہ بارگاہ قدر و سیت میں حضور ﷺ کو شرفِ حضوری نصیب ہو ا تو آپ ﷺ نے نذرانہ عقیدت و عبودیت اس طرح پیش کیا گویا ان الفاظ سے سلامی دی ۔ التحیات اللہ و الصّلٰوات والطیّباتُ۔
تو اﷲتعالٰی کی طرف سے ارشادہوا ۔ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔
آپ ﷺ نے اس فیضانِ ربی کو عام کر نے کیلئے عرض کیا۔ السلام علینا و علی عباداللہ الصالحین ۔
تو بعد ازاں تجدید عہد کے طور پر یوں عرض کیا ۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انّ محمدًا عبدہ و رسولہ ۔
اگر شارحین کی رائے درست ہو تو گویا وہ مخصوص ملاقات اور اس میں انتہائی اہم جملوں کو نمازی کے نماز کا حصہ بنا کر اس کو بھی اس میں ایک گونہ شامل کر لیا گیا۔سبحان اللہ کیابخت ہے نمازی کا ۔ اب بھی بد بخت کہتے ہیں کہ نماز میں کیا ملتا ہے اور نماز میں کیا رکھا ہے ۔معراج کے کلام کو شامل کر کے معراج تو کر وادی اور فرمادیا کہ ‘‘ الصلٰوۃ معراج الالمؤمنین ’’ نماز اہل ایمان کے لئے معراج سے کم نہیں۔
کیا اب وصال شریف کے بعد بھی السلام عیلک ایھا النبی ’’ہی پڑھا جائے:۔
بہت کم عوامی حیثیت کے لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک حضورﷺ حیات تھے تو السلام عیلک ایھا النبی ’’کہنا درست تھا کہ اس میں حضورﷺ کو براہ راست مخاطب کیا جارہا ہے لہذا مخاطب کا زندہ ہونا ضروری ہے اور جب حضورﷺ نے وصال فرمایا تو اس کے بعد خطاب نہ کیا جائے بلکہ السلام علی النبی ’’پڑھ دیا جائے جبکہ یہ خیال ایک صحابی کا ہے مگر یہ صحابی کی ذاتی رائے ہے جس کو نہ تو صحابہ نے قبول کیا اور نہ ہی یہ قابلِ قبول ہے جس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب حضور ﷺ ظاہری زندگی سے حیات تھے تو کیا تمام صحابہ ساری زندگی ساری نمازیں آپ کی موجودگی میں آ پ کے پاس ہی پڑھتے تھے جس کی وجہ سے خطاب ٹھیک تھا؟ ہرگز ایسا نہیں صحابہ کرام بھی سفر جاتے حضورﷺ بھی تشریف لے جاتے مدینہ میں عورتوں اور کچھ مردوں کو چھوڑ جاتے اور کچھ مکہ تشریف حج کی سعادت پاتے حضور ﷺ مدینہ میں تشریف فرماتے تو کیا جب حضورﷺ مدینہ میں ہوتے اور صحابی مکہ میں نماز پڑھتے تو کیا صیفۂ خطاب ترک کرتے تھے؟ ہرگز نہیں۔صحابہ دور دراز اور گھروں کے اندر نماز پڑھتے تو اور التحیات تو پڑ ھا ہی خفیہ جاتا ہے نہ کہ جہراً کہ پاس بیٹھے آدمی کو سنائی نہیں دیتا مگر ساری زندگی کسی ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں کہ کسی ایک صحابی کو اس بارے کوئی سوال پیدا ہو ورنہ وہ حضورﷺسے ضرور پوچھتے اور حضور ﷺ نے بھی یہ نہ فرمایا کہ یہ الفاظ خطاب میریوصال کے بعد بدل لینا لہذا اس قسم کی رائے سے کوئی اتفاق نہیں باقی رہی بات خطاب کی تو حضور ﷺ کی سماعت اور روحانی طور پر آپ کی موجودگی اور جناب کا کشف یہ وہ مسائل ہیں جس کوعام آدمی نہیں سمجھ سکتا لہذا ان کے بارے میں کوئی قطعی رائے سے اجتناب کریں۔ سیدنا ابراہیم ؑ مکہ کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اعلان ِ حج کریں اور اللہ انسانیت کو ان کی پیدائش سے بھی قبل آباء و اجداد کے پشتوں اور رحموں میں سنا دے تو یہاں کیا مشکل کہ اُمتی کا سلام جناب تک پہنچ جائے جبکہ میں بخاری کے حوالے سے حدیث پیش کر چکا ہوں لہذا بلا شک و شبہ وہی الفاظ اُمت نے اجتماعی عمل سے آج تک بر قرار رکھے جو حضور ﷺ نے تعلیم فرمائے تھے۔
قعدہ اخیرہ میں درود شریف کی تعلیم:۔
پوری قوم اپنے اپنے نبی کی احسان مند ہوتی ہے کہ نبی کی وجہ سے ان کو خدا ملتا ہے دولتِ ایمان اور نعمتِ دین نصیب ہوتی ہے تو پوری اُمت اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے اپنے انبیاء کے ان بے شمار احسانات کا بدلہ یوں چکاتی ہے کہ جہاں رب کے احسانات کا بدلہ بندگی سے دینے کی کوشش کرتی ہے وہاں انبیاء کا ممنونِ احسان ہونے کے لئے ان پر درود وسلام پیش کرتی ہے جو در حقیقت ایک بندے کی بارگاہ ِ الٰہی میں دوسرے بندے یعنی نبی کے حق میں دعا ہوتی ہے تو نمازی حضور ﷺ کے بے شمار احسانات کا ممنونِ احسان ہونے کے لئے نماز کے آخری تشہد میں درود و سلام کی صورت میں دعا گو ہوتا ہے حضورﷺ کی خدمتِ اقدس میں درودو سلام پیش کرنا اللہ کریم کا حکم بھی ہے اور نمازی اس کی بجا آوری نماز میں کرتا ہے کہ یہ قبولیت کے خاص لمحات ہیں اور دوسری طرف درود و سلام کی برکات بھی اس قدر ہیں کہ نمازی اپنی پوری نماز کی قبولیت کے لئے بھی درود شریف کا سہارا لیتا ہے کہ درودو سلام کا عمل کبھی رد نہیں ہوتا اور اللہ کریم کے کرم سے یہ بعید ہے کہ اس کی بارگاہ میں نماز کا عمل پہنچے تو اس سے درودکو قبول کرے اور باقی کو رد کر دے۔خالص اللہ کی بندگی کرتے ہو ئے رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ درودو سلام کے حوالے سے نماز کے اندر آنا یہ حضور ﷺ کے مقام رفیع اور اللہ کریم کے ہاں آپﷺ کے مقام ِ محبوبیت کا بھی پتہ دیتا ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب اظہارِخیال فرمایا:۔
جو ذکر خدا کرے ذکرے مصطفی نہ کرے ہمارے منہ میں ہو ایسی زُباں خدا نہ کرے
عں کعب بن عُجرۃَؓ قال سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ الصَّلاَۃُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ البَیْتِ، فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ عَلَیْکُمْ؟ قَالَ قُولُوا: اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ (بخاری کتاب الانبیآء)
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم آپ پر اور آپ کے اہل ِ بیت عظام پر صلوٰۃ کیسے پڑھیں جبکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھا دیا کہ آپ پر ہم نے سلام کیسے پیش کرنا ہے تو حضور ﷺ نے فر مایا کہو! اے اللہ اپنی خاص عنایت و رحمت نازل فرمائی سیدنا ابرا ہیم ؑ اور ان کے تمام گھر والوں پر، بے شک تو حمدو ستایش کا سزاوار اور عظمت و بندگی والا ہے۔ اے اللہ ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمدﷺ اور آپ کے گھر والوں پر جیسے آپ نے خاص برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے گھر والوں پر ،بے شک تو ہی حمدو ستائش کے لا ئق ہے اور عظمت و بز رگی والا ہے۔
اس حدیث میں گو یہ ذکر الفاظ میں تو نہیں کہ یہ نماز کے اندر صلوٰۃ بارے پو چھا گیا مگر اندازِ کلام اور قرائن سے یہی ظاہر ہے کہ نماز کے درود کے بارے ہی سوال ہو رہا ہے ورنہ سوال کی حالت نہ تھی اور ایک دوسری روایت میں یہ صراحت بھی مو جود ہے کہ اس روایت کا تعلق نماز کے درود سے ہے ،اور محدثین نے بھی اس کو کتاب الصلوٰۃ میں اسی وجہ سے ذکر کیا۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:۔
کیف نصلّی علیک اذا نحن صلّینا علیک فی صلٰوتنا ۔(خزیمہ،ابن حبان،حاکم )
حضرت ! ہم جب نماز میں آپ پر صلوٰۃ پڑھیں تو جناب پر کن لفظوں سے صلوٰۃ پڑھیں۔
آخری تشہد میں درود اور بعدازاں اپنے لئے دعا کا ثبوت:۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ یتشھّدُ الرجُلُ ثمّ یصلّی علی النبّی ثُمّ یدعُوا لِنَفسہٖ۔
(مستدرک کتاب الصلاۃباب التأمین )
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب آدمی تشہد پڑھے تو پھر نبی ﷺ پر درود پڑ ھے اور پھر اپنے لئے دعا کرے۔
اٰ ل محمد ﷺ و اٰلِ ابراہیم ؑ:۔
گو لفظِ اٰل میں لٖٖغوی اعتبار سے کافی وسعت وعمومیت موجود ہے اور قرآن و حدیث کے عمومی محاورے میں کسی شخص کے اٰل ان تمام کو کہا جاتا ہے جو اس کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے خاص نسبت وتعلق خونی ہو نسلی ہو نظریاتی ہو یاقومی وغیرہ مگر یہاں نماز چونکہ عام موقع نہیں تو یہاں عام وابسگان کی گنجا ئش بھی نہیں یہاں صرف حضورﷺ اور سیدنا ابراہیم ؑ کا خاص گھرانہ اور افراد ِخانہ ہی مراد ہیں اور اس میں بھی کوئی شک باقی نہیں کہ جو مقام واحترام اور عزت و ناموس حضورﷺ کے اہل بیت اور ابراہیم ؑ کے اہل بیت کرام کاہے وہ انہی کاخاص حصہ ہے جس پر قرآن واحادیث گواہ ہے ۔ان حضرات کاخاص خونی، گھریلو،محبت،صحبت اور خدمت کاتعلق ہے جوان کاطرۂ امتیاز ہے۔ حدیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ یہاں اٰٰل سے مراد خاص افرادِخانہ ہیں نہ کہ عام پیروکار۔حدیث یہ ہے۔
عن ابی حُمیدٍ الساعدیؓ قال قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ کَیْفَ نُصَلِّی عَلَیْکَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” قُولُوا: اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
(مسلم کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشہد وبخاری کتاب الأنبیاء )
حضرت ابو حمید الساعدیؓسے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں تو جناب ﷺ نے فرمایا :اے اللہ حضرت محمد ﷺ اور آپ کی بیویوں اور آپ کی اولاد پر رحمت وعنایت فرماجیسے آپ نے ابراہیم ؑواٰلِ ابراہیم ؑ پر عنایت ورحمت فرمائی اور اے اللہ حضرت محمد ﷺ اورآپ کی گھروالیوں اور آپ کی نسل پر برکتیں نازل فرماجیسے سیدنا ابراہیم اور ان کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں بے شک تو حمد وستائش کے لائق ہے اور عظمت وبزرگی والاہے۔
حضور ﷺ کے اہل بیتِ عظام کامقام حضرات صحابہ کرام سے بلند ہے اس لئے کہ صحابہ کو صحبت کی وجہ سے مقام ملا اوراہل بیت صحبت کے ساتھ ساتھ گھریلو اور خونی تعلق بھی رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام علماء یوں کہتے ہیں ‘‘ وعلی آلہٖ واصحابہٖ ’’یعنی اہل بیت کاذکر صحابہسے پہلے کرتے ہیں۔
صرف نماز میں درود کے لئے مخصوص الفاظ:۔
سابقہ احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ درود ِ ابراہیمی کے مخصوص الفاظ صرف نماز کے اندر کے لئے تعلیم فرمائے گئے اور اسی کی اتباع میں نماز کے اندر ہر کوئی صرف درود ابراہیمی ہی پڑھتا ہے کوئی دوسرا درود پڑھنے کا حق نہیں رکھتا ورنہ وہ سنت سے ہٹ جائے گا مگر یہ گمان کرنا کہ نماز سے باہر بھی یہی افضل ہے تو جناب نماز کے باہر افضل تو کیا یہ درود ابراہیمی سورہ احزاب کی آیت درود و سلام پھر پورا ہی نہیں اترتا اور یہ نماز کے باہر نامکمل درود ہے وہ اس طرح کہ یہ درود نماز کے اندر کے لئے تعلیم ہوا وہاں حدیث میں صاف الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو السالام علیک ایھا النبی سے سلام کو طریقہ تو معلوم ہو چکا اب درود کا طریقہ بھی فرمادیں تو آپ نے درود ابراہیمی تعلیم فرمایا ۔ لہذا نمازی جب نماز کے اندر ہو تا ہے تو ‘‘سلام السلام علیک ایھا النبی ’’کے الفاظ میں پیش کر چکا ہوتا ہے اور بعد ازاں درود ابراہیمی سے صلٰوۃ بھی پیش کرکے سورہ احزاب میں موجود حکم ربانی کے صلٰوۃ و سلام پیش کرنے پر عمل مکمل کر لیتا ہے نماز کے باہر اگر درود ابراہیمی کو پڑھ لیا جائے تو اس سے صلٰوۃ تو ادا ہو جائے گا مگر سلام اس میں نہیں ہے لہذا آیت احزاب میں حکم خداوند ی پر عمل ہی نہیں ہو گا۔ غور فرمائیں ‘‘ یا ایھا الذین اٰمنُو صلّو علیہ و سلّمُوا تسلیمًا ’’یہاں صلٰوۃ اور سلام دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور درودِ ابراہیمی صرف صلٰوۃ ہے سلام نہیں لہذا نماز کے اندر تو یہ درست ہے کہ پہلے السلام علیک ایھا النبی سے سلام پیش کیا جا چکا ہے مگر نماز کے باہر صلٰوۃ کے لئے تو درود ابراہیمی کافی ہے مگر سلام کے لئے کافی نہیں کہ اس میں سلام کا لفظ پایا ہی نہیں جاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز سے باہر بے شمار صیغوں اور الفاظ سے درود ملتا ہے اور ہر کتاب کا مصنف شروع میں اپنے الفاظ سے درود و سلام پیش کرتا ہے ۔ بس ثابت ہو ا کہ نماز کے باہر درود ابراہیمی کی پا بندی بھی ضروری نہیں اور نماز سے الگ یہ نامکمل بھی ہے ۔ و اللہ و رسولہ اعلم ۔
اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ۔
(مسلم کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشہد وبخاری کتاب الأنبیاء )
آخری تشہد میں بعد از درود دعا کرنا :۔
جب نمازی نے دوران نماز خوب اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش ، تعریف و توصیف اور ذکر و تسبیح کر لی تو پورے دھیان اور محبت و شوق سے بارگاہِ رسالت میں صلٰوۃ و سلام کا نذرانہ بھی پیش کر دیتا ہے تو سوالی کا حق ہے کہ اپنے لئے بارگاہِ ایزدی میں جھولی پھیلائے اور اللہ کے فضل و کرم کو لوٹ لے کہ دنیا مصائب کا گھر اور انسانی زندگی مسلسل آزمائش ہے اور مصائب و آرام اور اندوۃ و غم نِت نئے انداز سے وارد ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی بات ‘‘ وَنَبلُوکم بالشّرِ والخیر فِتنۃٌ ’’ کا عمل جاری ہے اور القدرِ خیرہٖ و شرِّہٖ من اللہ تعالیٰ کو نگاہ میں رکھے اور یہ یقین کرے کہ میر ی زندگی اور اس کے جملہ مسائل و معملات خاص اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اگر وہ مجھے کسی مُصیبت میں مبتلا کرے تو دنیا کی کوئی طاقت جبرًا مجھے مصیبت سے چھٹکارہ نہیں دے سکتی ۔اور اگر اللہ کسی معاملہ میں احسان فرمائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے احسان کو روک نہیں سکتی پھر یہ بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ بے انتہا کریم ہے اور سخی ہے اور میری حاجت کو سننے اور پور ی کرنے والی سب سے بڑی ذات خود اللہ کریم کی ہے جس کے خزانوں کا یہ عالم ہے ۔کہ فرماتا ہے اگر آسمان وزمین کی تمام مخلوقات مجھ سے اپنی اپنی ضاجات بارے سوال کریں اور میں سب کو ان کی ضروریات کے مطابق دے دوں تو میرے خزانوں میں صرف اتنا فرق پڑھے جتنا سُوئی کو سمندد میں ڈبو کر نکال لیا جائے تو سمندر کے پانی میں سوئی پر لگنے والے پانی سے فرق پڑتا ہے ۔ دعامؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے لہذا پورے یقین توجہ الی اللہ اور آرام سے لمبی دعا کرنے کی کوشش کریں جبکہ آپ الگ سے دعامانگ رہے ہوں اور ائمہ حضرات دعاؤں میں جھومنے اور طرزیں لگانے کی ڈرامہ بازی نہ کریں دعا انتہائی خلوص سے اور عمومًا مخفی دعا کا انداز اختیار کریں کہ ریاکاری سے پاک اور قبول ہو سکے ۔
بعد ازدرود دعاء کا ثبوت:۔
اسی سلسلہ میں ایک روایت پہلے بھی گزر چکی ہے ۔اب دوسری روایت دعا کے ثبوت میں پیش خدمت ہے
ثُمَّ لِیَتَخَیَّرْ أَحَدُکُمْ مِنَ الدُّعَاء ِ أَعْجَبَہُ إِلَیْہِ فَیَدْعُوَ بِہِ۔
(ابوداؤدکتاب الصلاۃ تفریع أبواب التشہدباب التشہد )
یعنی بعد از درود پھر جو دعا اس کو اچھی معلوم ہو اس کا انتخاب کرے اور اللہ تعالیٰ سے وہی دعا مانگے ۔
اس جگہ پر دعا حضور ﷺ نے تعلیم بھی فرمائی اور عمل سے بھی ثابت کیا اور یہاں چونکہ موقعِ دعاہے تو یہاں حضور ﷺ سے کئی دعائیں منقول ہیں جو پسند ہو کوئی ایک پڑھ لیں ۔
۱۔ عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسول اللّٰہ ﷺإِذَا فَرَغَ أَحَدُکُمْ مِنَ التَّشَہُّدِ الْأَخِیرِ، فَلْیَتَعَوَّذْ بِاللَّہِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ۔
(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب ما یستعاذ منہ فی صلاۃ۔ابن ماجہ کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا باب ما یقال فی التشہد والصلاۃ علی النَّبِی صَلَی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ)
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم تشہدِ اخیرہ سے فارغ ہو جاؤ تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگو ۔ عذاب جھنّم سے ، عذاب قبر سے ، موت و حیات کی آز مائشوں سے اور دجال کے فتنہ کے شر سے ۔
یہی دعا ایک اہل حدیث عالم جنازہ میں بھی جہرًا پڑھ رہا تھا جب وہ من شرّ المسیح الدجال پر پہنچا تو فورًا میرے ذھن میں خیا ل آیا کہ استاد کے بغیر تعلیم اور امام ِ فقہ کی تقلید کے بغیر حال یقینًا یہی ہو گا کہ جب میت دنیا سے ہی فارغ ہو گیا اب کیا قبر کے اندر اس کو دجال سے واسطہ پڑے گا جس کے لئے وہ میت پر دجال کے فتنہ سے بچنے کی دعا کررہا ہے ۔ یہ تو حضور ﷺ نے نماز کے آخر میں تعلیم فرمائی کہ زندوں کو دجال سے واسطہ پڑ سکتا ہے نہ کہ یہ جنازہ میں پڑھنے کی دعا ہے اور اگر آپ کہیں کہ اپنے لئے پڑھی ہے تو جناب جس کا جنازہ پڑھ رہے ہیں زیادہ مناسب ہے کہ اس کے حق میں جانے والی دعا کو ترجیح دیں ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُعَلِّمُہُمْ ہَذَا الدُّعَاء َ کَمَا یُعَلِّمُہُمُ السُّورَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ یَقُولُ قُولُوا: اللہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ ۔(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب ما یستعاذ منہ فی صلاۃ )
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ یہ دعا یوں کوشش سے تعلیم فرماتے جیسے کوئی قرآن کی سورت پوری اہمیت سے تعلیم فرماتے اور فرماتے کہ کہو : اے اللہ میں تجھ سے عذاب جھنم کی پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے عذاب قبر کی پنا ہ چاہتا ہوں اور تیری پناہ چاہتا ہو ں مسیں دجال سے او ر پناہ چاہتا ہو ں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے ۔
یہاں عذاب قبر کا ثبوت بھی آگیا جس سے بچنے کے لئے باربار اللہ کی پناہ کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔
عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّہُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِی دُعَاء ً أَدْعُو بِہِ فِی صَلاَتِی، قَالَ قُل اللَّہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا، وَلاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ۔
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃباب الدعاء قبل السلام و مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفارباب استحباب خفض الصوت بالذکر)
حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا جناب مجھے ایسی دعا تعلیم فرمائیں جسے میں نماز میں پڑھا کروں تو آپ نے فرمایا کہو : اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ہی ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی نہیں جو میرے گناہوں کو بخشے پس مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما تو ہی بخشنے والا مہربان ہے ۔
نماز میں خاص دعاؤں کا محل یہی ہے جبکہ پہلے بھی مواقع گزر چکے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد پھر فاتحہ خود دعا ہے پھر رکوع و سجود وغیرہ مگر یہاں دعا کا خاص موقع ایک حدیث سے ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے صحابی نے دعا مانگی تو براہِ راست فورًا مانگنا شروع کرے پھر درود شریف پڑھے اور پھر جو مانگنا ہو مانگے اب چونکہ نمازی حمد و ثناء بھی کر چکا اور درود شریف بھی پڑھ چکا لہذا اب خاص موقعِ دعاء ہے ۔
دونوں طرف سلام سے خاتمہءِ نماز :۔
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّہُورُ، وَتَحْرِیمُہَا التَّکْبِیرُ، وَتَحْلِیلُہَا التَّسْلِیمُ۔
( الترمذی و ابو داوٗد کتاب الطہارۃ باب فرض الوضوء و ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا بَاب مفتاح الصلاۃ الطہور )
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کی کنجی طھارت (وُضُو وغیرہ ) ہے اور اس کی تحریمہ اللہ اکبر کہنا ہے اور نماز کی بندش کو کھولینے کا ذریعہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ ہے ۔
یہ حدیث نماز سے قبل طہارت اور پھر تکبیر ِ تحریمہ اور آخر نماز میں سلام پھیرنے کا واضح ثبوت ہے ۔
۲۔ عن سعد بن ابی وقاص ؓ قال کُنْتُ أَرَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِینِہِ، وَعَنْ یَسَارِہِ، حَتَّی أَرَی بَیَاضَ خَدِّہٖ ۔
( مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب السلام للتحلیل من الصلاۃ عند فراغہا، وکیفیتہ)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے اتنا رُخ مبارک پھیرتے کہ مٰ رخسار مبارک کی سفیدی دیکھ لیتا تھا ۔
نماز کے اختتام پر سلام پھیرنے کے بعد دعاء:۔
انسان جس قدر مجبور اور مسائل ِ زندگی میں گھر ا رہتا ہے اُسی قدر اللہ کریم نے اس کو باربار دعاء کا موقع فراہم کیا ۔ جیسا کہ آپ نے پوری نماز میں ملاحظہ فرمایا کہ ہر حصّے میں دعا کی صورت موجود ہے اسی طرح نماز مکمل کر لینے اور سلام پھیرنے کے بعد بھی خاص دعا کا موقع بتایا گیا ہے اور دعا سے محروم بدبخت ہی رہ سکتا ہے ۔جس طرح گو نماز خود سراپا ذکر الٰہی ہے مگر بعد از نماز حضور ﷺ سے کئی اذکار منقول ہیں اسی طرح دعابھی ہے ۔
۱۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِیَدِہِ، وَقَالَ: یَا مُعَاذُ، وَاللَّہِ إِنِّی لَأُحِبُّکَ، وَاللَّہِ إِنِّی لَأُحِبُّکَ ، فَقَالَ: ” أُوصِیکَ یَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ تَقُولُ: اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی ذِکْرِکَ، وَشُکْرِکَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ
( ابو داوٗد باب فی الاستغفار و النسائی کتاب السہونوع آخر من الدعاء )
حضرت معاذ بن جبل ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا معاذ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں تو میں نے بھی کہا یا رسول اللہ ﷺ میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں توجناب نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد اس دُعاء کو ہرگز نہ چھوڑنا ۔ اے میرے رب اپنے ذکر کرنے ، اپنا شکر بجالانے اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما ۔
۲۔ عن ابی اُمامۃَ ؓ قال قِیل یارسول اللّٰہ صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّم أَیُّ الدُّعَاء ِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّیْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَکْتُوبَاتِ۔
( الترمذی أبواب الدعوات عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلیْہِ وسَلَّم )
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی دُعاء زیادہ سنی(قبول )جاتی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایاآخری رات کے درمیان اور فرضی نمازوں کے آّخر میں ۔ یعنی بعد میں ۔
یہاں دُبر کا لفظ استعمال ہو ا عربی محاورہ میں جب ایک کام مکمل اور ختم ہو جائے تو وہاں یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ جوظاہر کرتا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد حضور ﷺ نے خاص موقع ِ دُعاء فرمایا ۔
۳۔ عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: اللہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔
( مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، وبیان صفۃ)
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہو کر مُڑتے تو تین مرتبہ اَستغفِر اللہ فرماتے اور پھر فرماتے اے اللہ تو ہی سلام (سالم ومحفوظ ازہر بلا ومصیبت و عیب و نقص ) ہے اور تیری ہی طرف سے ہر کسی کی سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے بزُرْگی اور تعظیم و اکرام والے ۔
اس روایت نے بالکل واضح کیا کہ نماز کے سلام کے بعد دُعا کرنا موقعِ دُعاء اور سنتِ نبوی ﷺ ہے ۔
۴۔ عن مُغیرۃِ ابن شُعبۃأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ إِذَا سَلَّمَ: لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ المُلْکُ، وَلَہُ الحَمْدُ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ، اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْکَ الجَدُّ۔
(البخاری تاب صفۃ الصلاۃ باب من لم یر رد السلام علی الإمام، واکتفی بتسلیم الصلاۃ و مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، وبیان صفۃ)
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر فرض نماز کے بعد پڑھتے تھے ‘‘سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں وہ اکیلا (رب ) ہے اس کا (اقتدار میں ) کوئی شریک نہیں اسی کے قبضہ میں حکومت ِ کائنات ہے وہی حمد و ستائش کا مستحق ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اے اللہ تو جس کو کچھ دے تو کوئی روکنے والا نہیں،اور اگر تو کسی کو کچھ نہ دے تو کوئی اس کو دے نہیں سکتا ، اور کسی سرمایہ دار کو اس کا سرمایہ تیرے کرم کے بغیر کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ یعنی بڑے سے بڑا صاحب ِجاہ و عظمت تیرے ہی کرم کا محتاج ہے ۔
نماز کے بعد تسبیح پڑھنا:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَبَّحَ اللہَ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ، وَحَمِدَ اللہَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ، وَکَبَّرَ اللہَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ، فَتْلِکَ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ، وَقَالَ: تَمَامَ الْمِائَۃِ: لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ غُفِرَتْ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْر۔
( مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، وبیان صفۃ )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تنتیس مرتبہ الحمد للہ اور تنتیس مرتبہ اللہ اکبر کی تسبیح کرے تو ننانوے ۹۹ ہو ئے اور فرمایا پھر اس کو سو پورا کردے اس کلمہ سے لا الہَ الّا اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہٗ الحمد وھو علی کلِّ شیءٍ قَدیرٌ تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ برابر ہی ہوں ۔
سلام پھیرنے کے بعد امام لوگوں کی طرف رخ کرے :۔
حضور ﷺ کا معمول پچھلی کئی احادیث سے ظاہر ہو ا کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کی طرف رخ فرمالیتے ، لہذا امام قبلہ رُخ سلام کے بعد نہ بیٹھے بلکہ لوگوں کی طرف رخ کرلے ۔ ایک صریح حدیث پیش ِ خدمت ہے ۔
عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی صَلاَۃً أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ
(بخاری کتاب الصلوۃ باب یستقبلُ الامامُ النّاسَ اذا سلّمَ )
حضر ت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف چہرہ مبارک پھیرلیتے تھے ۔
سلام کے بعد امام دائیں یا بائیں دونوں طرف سے پھر سکتا ہے :۔
لا علمی کی وجہ سے کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ صرف دائیں طرف سے ہی پھرنا اور یہی سنت ہے یہ بات مطالعہ کی کمی کی وجہ سے ہے دائیں یا بائیں دونوں طرف سے پھرنا جائز اور سنت ہے کسی ایک طرف کو خاص کرنا مناسب نہیں ۔ اس حوالے سے ایک روایت پیش ِ خدمت ہے ۔
عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: لاَ یَجْعَلْ أَحَدُکُمْ لِلشَّیْطَانِ شَیْئًا مِنْ صَلاَتِہِ یَرَی أَنَّ حَقًّا عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ یَمِینِہِ لَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَثِیرًا یَنْصَرِفُ عَنْ یَسَارِہِ
ِ (بخاری کتاب الصلوۃ باب الانتقال والانصراف عن الیمین والشمال وکام انس بن مالک یَنتَقل عن یمینہٖ وعن یسارہٖ ویُعِیبُ علی من یتوخّیی او مَن تعمّدَ الانتقالُ عن یمینِہٖ )
حضرت اسود ؓ نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے کہ وہ یہ گمان کرے کہ مجھ پر صرف دائیں سے مڑ کر بیٹھنا ہی لازم ہے۔ میں نے بہت دفعہ نبیﷺ کو بائیں سے مڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بخاری نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کیا کہ وہ دونوں طرف سے مڑتے تھے اور جو صرف دائیں طرف سے مڑنے پر اعتماد کرتا اس کو معیوب جانتے۔
سلام پھیرنے کے بعد صحابہ کرام کب کھڑے ہوتے:۔
أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْہَا: أَنَّ النِّسَاء َ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُنَّ إِذَا سَلَّمْنَ مِنَ المَکْتُوبَۃِ، قُمْنَ وَثَبَتَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ صَلَّی مِنَ الرِّجَالِ مَا شَاء َ اللَّہُ، فَإِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَامَ الرِّجَالُ۔
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ انتظار الناس قیام الإمام العالم،نسائی کتاب السہوباب جلسۃ الإمام بین التسلیم والانصراف)
ام المومنین سیدہ ام سلمہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ اور آپ کیساتھ شریکِ نماز سارے مرد بعد از نماز کے رہتے جتنی دیر اللہ چاہتا اور جب رسول اللہﷺ اٹھ کھڑے ہوتے تو تب تمام مرد بھی اٹھ جاتے۔
سلام کے فوراً بعد حضورﷺ کا اٹھنا مگر پھر واپس آنا:۔
عَنْ عُقْبَۃَ، قَالَ: صَلَّیْتُ وَرَاء َ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ العَصْرَ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا، فَتَخَطَّی رِقَابَ النَّاسِ إِلَی بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِہِ، فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِہِ، فَخَرَجَ عَلَیْہِمْ، فَرَأَی أَنَّہُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِہِ، فَقَالَ: ذَکَرْتُ شَیْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا، فَکَرِہْتُ أَنْ یَحْبِسَنِی، فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِہِ۔
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ باب: من صلی بالناس، فذکر حاجۃ فتخطاہم،نسائی کتاب السہوباب الرخصۃ للامام فی تخطی رقاب الناس)
حضرت عقبہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ شریف میں عصر کی نماز حضورﷺ کے پیچھے پڑھی تو حضورﷺ سلام پھیرتے ہی فوراً اٹھے اور تیزی سے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے کسی بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے جبکہ لوگ آپ کی تیزی سے گھبرا گئے تو حضورﷺ لوگوں کے پاس جب واپس تشریف لائے اور لوگوں کو متعجب پایا تو فرمایا کہ مجھ کو کچھ سونا پڑا یاد آیا آ گیا تھے جو ہمارے پاس تھا تو میں نے نا پسند جانا کہ وہ مجھے یادِ خدا سے روکے تو میں نے جا کر اسے تقسیم کر دیا۔
اس روایت سے با لکل عیاں ہوا کہ سلا م پھیرتے ہی اٹھ کر چلے جانا حضورﷺ کا معمول مبارک ہر گز نہ تھا ورنہ صحابہ کی گھبراہٹ اور تعجب کی کوئی وجہ نہ تھی اور پھر حضورﷺ واپس انہی صحابہ میں فوراً پلٹ آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ سلام کے فوراً بعد نہ چلے جاتے اور جب مجبوری سے گئے تو فوراً واپس بھی آ گئے آخر کیوں؟ یہ ابھی ذکر کرتا ہوں۔میں نے گزشتہ احادیث کو اس ترتیب سے جمع کیا جس سے سلا م کے بعد کا پورا نقشہ ذہن میں آ جائے اور آپ کے لئے یہ سمجھنا آسان ہو جائے کہ فرضوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا سنت سے ثابت ہے۔
فرضوں کے بعد اجتماعی دعا کا مسئلہ:۔
شاید کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ احناف فرضوں کا سلام پھیرنے کے بعد اجتماعی دعا کرتے ہیں یہ احادیث سے ثابت نہیں تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ پچھلی پیش کردہ احادیث سے حضورﷺ کا سلام کے بعد لوگوں کی طرف منہ کرنا، ٹھہرنا، دعا کرنا ،جب ثابت ہو گیا تو باقی کیا ثبوت چاہیے۔حضورﷺ فوراً سلام کے بعد دائیں یا بائیں سے مڑ کر لو گوں کی طرف رخ کرتے ہیں اور پھر اس موقع پر آپ سے کئی چھوٹی بڑی دعائیں منقول ہیں اور یہ بھی روایت میں پیش کر چکا کہ جب تک حضورﷺ بعد از نماز اٹھ کر چلے نہ جاتے صحابہ نہ اٹھتے تھے بلکہ آپ کے ساتھ ہی اٹھتے تھے اب یہ تصور کرنا کہ وہ صحابہ جو حضورﷺ کی اتباع اور دعاؤں میں شرکت کی شدید خواہش رکھتے تھے ان سے کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ کے ہاتھ مبارک دعا کے لئے اٹھیں اور صحابہ شریکِ دعا نہ ہوں۔ ہاتھ اٹھانے کی روایت لانا چاہتا ہوں:۔
عن أَنَس بْنَ مَالِکٍ، قَالَ: أَتَی رَجُلٌ أَعْرَابِیٌّ مِنْ أَہْلِ البَدْوِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الجُمُعَۃِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، ہَلَکَتِ المَاشِیَۃُ، ہَلَکَ العِیَالُ ہَلَکَ النَّاسُ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَیْہِ، یَدْعُو، وَرَفَعَ النَّاسُ أَیْدِیَہُمْ مَعَہُ یَدْعُونَ۔
(بخاری کتاب الاستسقاء باب رفع الناس أیدیہم مع الإمام فی الاستسقاء ،السنن الکبریٰ للبیہقی ایضا)
حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ عین جمعہ کے وقت مسجدِ نبوی میں ایک شخص آیا اور بارش کے لئے دعا ء کی التجا کی تو رسول اللہﷺنے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور تمام لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔
اب یہ اصول واضح ہے کہ جو چیز ایک مرتبہ سنت سے ثابت ہو جائے اور اس کا کوئی مانع اور مُخصّص بھی موجود نہ ہو تو اس سے عام استدلال کرنا جائز ہے جب بارش کی دعا اجتماعی ہاتھ اٹھا کر مانگنا ثابت ہو ئی تو بعد از نمازِ فرائض ممانعت کی کوئی ضعیف روایت ہی پیش کریں جس سے اجتماعی دعا یا ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ثابت ہو سکے ورنہ یہ کہنا آپ کا غلط ہے کہ صرف نمازِ استسقاء کے بعد ہی اجتماعی دعا ہاتھ اٹھا کر ما نگنا ثابت ہے کیو نکہ جو روایت میں نے پیش کی یہ جمعہ کا موقع ہے ، مسجدِ نبوی ہے نماز استسقاء نہیں ہے صرف بغیر نماز استسقاء کے صرف دعا اجتماعی ہاتھ اٹھا کر مانگی گئی ۔مزید احدیث پیش کرتا ہوں۔
مسلم شریف میں ایک طویل حدیث ہے جسے عبد اللہ بن عمرو بن عاص روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے امت کے بارے میں دعا فر مائی تو پہلے ابراہیم ؑ ، پھر عیسیٰ ؑ کے دعائیہ کلمات پڑھے پھر رونے لگے اور اُمّتی اُ مّتی فرمانے لگے ۔جبرائیلؑ نے پیغامِ خدا وندی ان لفظوں میں بیان کیا۔
إِنَّا سَنُرْضِیکَ فِی أُمَّتِکَ، وَلَا نَسُوء ُکَ۔(مسلم کتاب الإیمان باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لأمتہ وبکاۂ شفقۃ علیہم)
کہ اے حبیب ہم آپ کو امت کے بارے میں عنقریب راضی کریں گے اس بارے پریشان نہیں ہونے دیں گے یہاں حضور ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ہے۔
اہل حدیث کی غلط فہمی:۔
اہل حدیث بھائیوں کو ہاتھ اٹھا نے کے بارے میں جس حدیث سے غلط فہمی ہوئی وہ بخاری (جلد ۱ ) ابواب الاستسقاء باب رفع الامام یدہ فی الاستسقاء کی حدیث ہے جس کا مطلب وہ یہ سمجھے کہ شاید سوائے استسقاء کے کسی دعا کے لئے حضور ﷺ ہاتھ بلند نہ کرتے تھے جبکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنا زیادہ استسقاء کے لئے ہاتھ اوپر لے جاتے اتنا باقی دعاؤں میں ہاتھوں کو زیادہ اوپر نہ لے جاتے تھے۔
وہ روایت جو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے لئے بنیاد کے حیثیت رکھتی ہے:۔
عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبَّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالَی حَیِیٌّ کَرِیمٌ، یَسْتَحْیِی مِنْ عَبْدِہِ إِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَیْہِ، أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا۔
(ابوداؤد کتاب سجود القرآن أبواب فضائل القرآن باب الدعاء،ترمذی أبواب الدعوات عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلیْہِ وسَلَّم)
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ‘‘ بے شک تمہارا رب بہت حیا والا اور کرم فرما ہے جب کوئی اس کا بندہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے تو اس کو حیا آتا ہے کہ وہ اٹھے ہاتھوں کو خالی واپس کرے۔
اب ظاہر ہوا کہ ہاتھ اٹھانادعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے اب بھی اگر ہاتھ اٹھانے سے آپ شرماتے ہیں تو میں کیا سوچوں کہ اس لئے ہاتھ نہیں اٹھاتے کہ خدا کو شرمندہ نہ ہونا پڑے یا اس لئے کہ شرماکر کچھ عطاء کر نہ دے۔
دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے پر دوسری روایت:۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، یَقُولُ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ الوَحْیُ سُمِعَ عِنْدَ وَجْہِہِ کَدَوِیِّ النَّحْلِ فَأُنْزِلَ عَلَیْہِ یَوْمًا فَمَکَثْنَا سَاعَۃً فَسُرِّیَ عَنْہُ فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَۃَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ وَقَالَ: اللَّہُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا۔۔۔۔الخ ۔
(ترمذی(تابع: أبواب تفسیر القرآن، عن رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم ،مصنف عبد الرزاق،المستدرک،الدعوات الکبیر،مسند البزار،مسند احمد)
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ پر جب بھی وحی نازل ہوتی تو شہد کی مکھیوں جیسی بھنبھناہٹ آپ کے چہرہ کے پاس سنائی دیتی ایسے عالم میں حضورﷺ قبلہ رخ ہوئے اور دونوں ہاتھ بلند کر کے یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ اس کو ہمارے لئے اور زیادہ فرما کم نہ فرما۔
تیسری روایت :۔
عَنْ مَالِکِ بْنِ یَسَارٍ السَّکُونِیِّ ثُمَّ الْعَوْفِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّہَ فَاسْأَلُوہُ بِبُطُونِ أَکُفِّکُمْ، وَلَا تَسْأَلُوہُ بِظُہُورِہَا۔
(ابوداؤد کتاب سجود القرآن أبواب فضائل القرآن باب الدعاء )
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے تم سیدھے ہاتھوں سے یعنی ہتھیلیوں کا اندرون سامنے کر کے دعا کیا کر و ہاتھوں کی پشتوں سے الٹے ہاتھ دعا نہ کیا کروجب دعا کر چکو تو دونوں ہاتھوں کو اپنے چہروں پر پھیر لیا کرو۔
چوتھی روا یت:۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ یَدَیْہِ، مَسَحَ وَجْہَہُ بِیَدَیْہِ۔
(ابوداؤد کتاب سجود القرآن أبواب فضائل القرآن باب الدعاء)
حضرت سائب بن یزید ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی دعا فرماتے تو ہاتھ بلند فرماتے اور پھر آخر میں دونوں ہاتھ چہرہ پر پھیر لیتے۔
چونکہ حدیث میں لفظ کان استعمال ہوا جو استمرارِعمل کا تقاضا کر تے ہے اس لئے ترجمہ معمول مبارک سے کیا۔ اب تو کوئی شک نہیں ہو نا چاہیے کہ حضورﷺنماز کے بعد دعا ہاتھ اٹھا کر کرتے تھے آپ کو اگر اب بھی شک ہے تو ہاتھ نہ اٹھا نے پر ضعیف روایت ہی پیش کر دیں۔
نوٹ:۔ یعنی حضور ﷺ کی کئی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ دعا کے لئے ہاتھ بلند فرماتے مگر جب بارش کے لئے دعا کرتے تو ہاتھوں کو عام معمول سے زیادہ اتنا بلند کرتے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔اب مختلف روایات میں تعارض نہ رہا۔
دعا کا باقاعدہ طریقہ سنت سے:۔
اکثر آئمہ مساجد کو دیکھا گیا وہ درود شریف سے دعا مانگنا شروع کرتے ہیں وہ اس حدیث سے سبق لیں۔
عن فُضالۃَ بن عُبیدٍ قال سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَدْعُو فِی صَلَاتِہِ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عَجِلَ ہَذَا ، ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ لَہُ أَوْ لِغَیْرِہِ: إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیدِ اللَّہِ وَالثَّنَاء ِ عَلَیْہِ، ثُمَّ لْیُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لْیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاء َ ۔
( الترمذی أبواب الدعوات عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلیْہِ وسَلَّم )
حضرت فضالہ بن عبید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ نماز کے موقع پر دعا مانگ رہا ہے مگر نہ اس نے دعا سے قبل حمد کی اور نہ نبی ﷺپر درود پڑھا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اس نے جلدی کی ہے پھر اسی کو بلایا یا کسی دوسرے کو بلا کر تعلیم دی کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ لے تو دعا کرنا چاہے تو پہلے اللہ کی حمد بیان کرے پھر نبیﷺ پر درود پڑھے اور پھر جو چاہے دعا مانگے۔
دعا کو اٰمین پر ختم کرے:۔
لا علمی کی وجہ سے کچھ آئمہ مساجد دعا کو اجمعین پر ختم کر دیتے ہیں جبکہ دعا کے آخر میں لفظ ِاٰمین ضرور کہنا چاہیے جس کا مطلب ہے اے اللہ میں نے جو دعا مانگی اس کو قبول فرمالے حدیث کی تعلیم بھی ہے۔
عن اَبی زُھیر النّمیری قال خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَأَتَیْنَا عَلَی رَجُلٍ قَدْ أَلَحَّ فِی الْمَسْأَلَۃِ، فَوَقَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَسْتَمِعُ مِنْہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَوْجَبَ إِنْ خَتَمَ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: بِأَیِّ شَیْء ٍ یَخْتِمُ؟ قَالَ: بِآمِینَ، فَإِنَّہُ إِنْ خَتَمَ بِآمِینَ فَقَدْ أَوْجَبَ۔
(سنن ابی داود کتاب الصلاۃ تفریع أبواب العمل فی الصلاۃ باب التأمین وراء الإِمام )
ابو زُہیر نمیریؓ سے روایت ہے کہ ہم کسی رات رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلے تو ایک آدمی اِلحاح سے دعا کر رہا تھا تو رسول اللہﷺ سن کر رک گئے اور فرمایا اس نے قبولیت لازم کر وا لی اگر یہ ختم ٹھیک کر دے ۔قوم کے کسی فرد نے پوچھا جناب کیسے ختم کرے تو آپ ﷺ نے فرمایا اٰمین پر ختم کرے تو قبولیت لازم ہو گی۔
فرضوں کے بعد دعا سے بھاگ کر غضبِ خدا وندی کو دعوت نہ دیں:۔
۱۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّہُ مَنْ لَمْ یَسْأَلِ اللَّہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ۔
(الترمذی أبواب الدعوات عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلیْہِ وسَلَّم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ‘‘جو اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔
۲۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال الدُّعَاء ُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ۔
( ابو داوٗد کتاب سجود القرآن جماع أبواب فضائل القرآن باب الدعاء )
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ دعا عبادت ہے۔
تو عبادت سے بھاگ کر اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو دعوت کیوں دی جائے۔جن علماء نے لکھا کہ نماز کے بعد دعا کا ثبوت نہیں یا بدعت ہے اس سے فرضوں کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد والی دعا نہیں بلکہ اس سے مراد پوری نماز یعنی سنن و نوافل وغیرہ پڑھنے کے بعد والی اختتا می دعا ہے جس کا ثبوت سنت میں اس لئے نہیں کہ حضورﷺفرائض کے بعد گھر تشریف لے جاتے اور باقی سنن وہاں پڑھتے تو اجتماعی اختتامی دعا کو کیسے سنت سے ثابت کیا جائے۔ہاں یہ لوگوں کا رواج ضرور ہے مگر علماء اس سے با خبر ہیں۔حضور ضیاء الامت پیر کرم شاہ صاحب الازھریؒ کے معمول میں آخری اجتماعی دعا نہ تھی آپ اکثر فرائض کے بعد اجتماعی دعا کے بعد تشریف لے جاتے اور بقیہ سنن و نوافل کمرے ہی میں ادا فرماتے اور یہی سنتِ نبوی ہے۔جہاں پوری نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا سنت نہیں وہاں پوری نماز لازماً مسجد ہی میں ادا کرنا بھی سنت نہیں۔ہاں آج رواج ضرور ہے کہ پوری نماز مسجد ہی میں ادا کی جاتی ہے بہتر اور موافق ِسنت سے تو یہ معلوم ہوا کہ کبھی کبھی اگر پوری نماز مسجد میں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن زیادہ معمول فرضوں کے بعد باقی نماز کا گھر میں پڑھنے کا بنایا جائے۔
دعا پر اختتامی کلمات:۔
جب احادیث سے فرضوں کے بعد دعا ثابت ہے، حضورﷺ کا صحابہ کی طرف رخ کر کے دعا ثابت ہے، ٹھرنا بھی ثابت ہے ،اسی موقع پر دعا کو مستحباب بھی حدیث میں کہا گیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو باعثِ قبولیت بھی بتایا گیا ہاتھ اٹھانے کی روایات بھی پیش کیں جبکہ آپ کے پاس کوئی ایک روایت بھی نہیں جس سے دعا نہ کرنا ثابت ہو تو پھر آپ اپنی رائے پر رہ کر ہی چلیں۔ ہم تو گمان بھی نہیں کر سکتے کہ صحابہ بھی دعائے رسولﷺ کے طالب ہوں اور رسولﷺبھی دعائیں دینے کے لئے بے تاب ہوں۔نمازپڑھ کر بیٹھے بھی دعا کے لئے ہوں پھر دعا نہ کرنے اور مل کر نہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔قرآن مجید سے اپنے احناف بھائیوں کی تسلی کے لئے آیات پیش ہیں۔
۱۔ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ۔(التوبہ ۔۹۹)
وہ مال اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب و خوشنودی اور رسول اللہﷺ کی دعائیں لیں۔گویا صحابہ دعائے رسول ﷺ کے شدید طالب تھے۔
۲۔ دوسری آیت یوں ہے۔
وَ صَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صلٰوتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ ۔ (التوبۃ ۔ ۱۰۳)
اے حبیب ان صحابہ کے لئے دعا کریں اس لئے کہ آپ کی دعا بے شک ان کے لئے باعثِ تسکینِ جان ہے۔جب صحابہ بھی دعا کے طالب، حضورﷺ کو بھی دعائیں دینے کا حکمِ ربانی ،تو اب نماز کے بعد صحابہ و رسولﷺ اگر یہ کام مل کر یعنی اجتماعی دعا کرتے ہیں تو رکاوٹ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ فہم و ادراک دے تو افسوس ہے ان لوگوں کے فکر و تدبر اور حدیث فہمی پر جنہوں نے اجتماعی دعا کو بدعت ہی کہہ دیا اس لئے کہ صلوٰۃ استسقاء کے بعد تو آپ بھی اجتماعی دعا بارش کے لئے حدیث سے تسلیم کرتے ہیں تو جو عمل ایک موقع پر حدیث سے ثابت ہو گیا عین وہی عمل بدعت بلا دلیل کیسے بن گیا۔ہاں بات سمجھ آتی ہے کہ امام کی تقلید کی شاگردی تسلیم کرنے سے تکبر کرتے ہوں تو متکبرین کو اتنی پریشانی ضرور ہونی چاہیے اور دعاؤں کی سعادت سے محرومی بھی ہونی چاہیے۔دعا سے محرومی در حقیقت فضلِ خدا وندی کے حصول سے محرومی ہے۔
حضورﷺ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کا نقطہ نظر:۔
یہاں ایک ایسی روایت پیش کر رہا ہوں جس سے کئی معاملات و مسائل پر رہنمائی لی جا سکتی ہے۔حضورﷺ کے خادمِ خاص جناب انس بن مالکؓفرماتے ہیں کہ ہم مغرب کی نماز سے پہلے دو نوافل پڑھتے تھے جب ان سے پو چھا گیا کہ کیا حضور ﷺ نے ان کے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔تو فرمایا کہ حضورﷺ نے نہ تواِن کے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ہمیں پڑھتے دیکھ کر منع فرمایا ہے۔ اسے روایت کیا مسلم نے کتاب الصلوٰۃ میں۔اس سے ظاہر ہوا کہ جب تک حضورﷺ کسی بات کا حکم نہ فرمائیں تو از خود وہ لازم نہیں ہو جاتی اور جب تک آقائے دو عالم ﷺ منع نہ فرمائیں۔ تو علامہ ابن تیمیہ کے بدعت کہنے سے منع بھی نہیں ہو جاتی۔علامہ انور شاہ صاحب کشمیری ؒکی طرف یہ بات منسوب کرنا خیانت ہے۔حافظ عمران ایوب لاہوری نے اپنی تالیف ‘‘نماز کی کتاب’’ص نمبر۱۷۱ پر یہ دعویٰ کیا جو بے بنیاد ہے اس لئے کہ وہ بات کر رہے ہیں فرضوں کے فوراً بعد اجتماعی دعا کی اور انور شاہ صاحب جو بات کر رہے ہیں وہ پوری نماز کے اختتام پر اجتماعی دعا کی بات کر رہے ہیں لہذا کشمیری شاہ صاحب مرحوم کا غلط حوالہ دیا گیا۔عین ممکن ہے کہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم ؒکی مراد بھی اسی آخری اجتماعی دعا سے ہو کیو نکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ فرضوں کے بعد مطلق دعا حضورﷺ سے تواتر سے ثابت ہے تو اس پر علامہ ابن تیمیہ یا علامہ ابن قیمؒ جرح کیسے کریں۔ انور شاہ صاحب تو ساری زندگی فرضوں کے فوراً بعد اجتماعی دعا کرتے تھے۔
کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھنا:۔
کپڑا لٹکانے کی جملہ روایات کو ریاض الصالحین حصہ اول میں جمع کر دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کپڑا لٹکانے میں تکبر کی شرط ہے اگر تکبر کی نیت نہ ہو تو حرج نہیں کہ اسی جگہ ریاض الصالحین میں روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے گزارش کی جناب کپڑا تو میرا بھی لٹک جاتا ہے تو حضورﷺ نے ان کو فرمایا کہ تیرا کپڑا لٹکانا مراد نہیں کیونکہ تو تکبر کے ارادے سے نہیں لٹکاتا۔عورتوں کو بھی کپڑا لٹکانے کی پردہ داری کی غرض سے اجازت ہے نہ کہ تکبر کے لئے۔کپڑا ٹخنوں اور نصف پنڈلی کے درمیان کسی جگہ بھی ہو ٹھیک ہے یہ صرف نماز کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ہمہ وقت تکبر سے لٹکانا ممنوع ہے البتہ نماز میں خاص خیال رکھا جائے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جو تکبر سے کپڑا لٹکائے اور جس حدیث میں مطلق کپڑا لٹکانے کی بات ہے وہاں بھی تکبر ہی وجہ ممانعت ہے کہ دیگر روایات میں تکبر کا ذکر موجود ہے اور پھر صرف تکبر سے کپڑا یعنی شلوار لٹکانا ہی ممنوع نہیں بلکہ قمیض،عمامہ، آستین اور کوئی اوپر کی ہوئی چادر یا تکبر سے لمبے بال چھوڑنا ان تمام کا ایک ہی حکم ہے کہ علت تکبر ہے جو سب میں مشترک ہے اور ریاض الصالحین حصہ اول میں باب بھی انہی الفاظ سے ہے کہ اِسبال القمیص و الازارِو العمامہ۔
نماز میں جلسۂ استراحت:۔
جلسۂ استراحت سے مراد یہ ہے کہ سجود سے رکعت کی طرف اٹھتے ہوئے کچھ معمولی دیر بیٹھے اور پھر اٹھے۔ اہل حدیث بھائیوں کا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ایک چیز کو ایک حدیث میں دیکھتے ہیں اور پھر بغیر سوچے اس کو عام کر دیتے ہیں حالانکہ وہ چیز عام نہیں ہوتی۔اگر احادیث سے ایسی کوئی چیز واضح طور پر ثابت ہوتی تو کیا وجہ ہے کہ صرف حنفی ہی نہیں بلکہ مالکی اور حنبلی بھی جلسۂ استراحت کو سنت قرار نہیں دیتے۔
جہاں تک احباب کے دلائل کا تعلق ہے انتہائی کمزور ہیں۔ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ انہوں نے رسولﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
(فَإِذَا کَانَ فِی وِتْرٍ مِنْ صَلاَتِہِ لَمْ یَنْہَضْ حَتَّی یَسْتَوِیَ قَاعِدًا )
(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃباب من استوی قاعدا فی وتر من صلاتہ، ثم نہض)
یعنی وتروں میں پہلے بیٹھے اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔تو جناب یہاں ٹھہرے رہنے کی کوئی بات نہیں ایک تویہ وترو ں کی بات ہے ،رات کی نماز کی بات ہے جب انسان پر نیند کا اثر ہوتا ہے اور عمومی طور پر بدن سست پڑ جاتا ہے ،پھر حضور ﷺ کو بڑھاپا بھی ہے اور یہ حضورﷺ کے اٹھنے کا سلیقہ تو ہو سکتا ہے مگر با قاعدہ سنت اس لئے نہیں کہ نہ اس کو آپ نے بیان کیا اور نہ کبھی صحابہ نے اس کو بیان کیا جو مالک بن حویرث اس عمل کی بات کرتے ہیں بخاری نے انہی کے بارے میں روایت دی۔کتب الاذان میں ‘‘ وَکَانَ شَیْخًا، یَجْلِسُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ السُّجُودِ، قَبْلَ أَنْ یَنْہَضَ فِی الرَّکْعَۃِ الأُولَی ۔
کہ بوڑھا جب اٹھتا تھا تو اٹھنے سے پہلے بیٹھتا اور پھر اٹھتا تھا تو بوڑھا آدمی بڑھاپے کی وجہ سے ظاہر ہے جوانوں کی طرح نہیں اٹھ سکتا۔مگر مالک بن حویرث نے یہاں اپنا عمل تو دکھایا مگر قول نہ دیا۔ اگر صرف عمل کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے تو حضورﷺ سے ثابت ہے کہ آپ تشھد میں بیٹھتے ہوئے دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے ،مگر جب گھوڑے سے گرے تو ان دنوں عذر کی وجہ سے بیٹھ کر بھی نماز پڑھائی اور دونوں قدم مبارک ایک طرف نکال کر چوتڑوں کے سہارے بیٹھے اب ‘‘ صلّوا کما رأیتمونی اُصلّی ’’ پر اگر عمل کریں کہ جو دیکھا وہی کرنا ہے تو نماز کیا ہمیشہ بیٹھ کر ہی پڑھیں اور کیا ہمیشہ پاؤں کو ایک طرف نکال کر ہی بیٹھیں کہ حکم ہے کہ میری طرح نماز پڑھو۔ ایک خاص عمل ایک خاص وجہ اور خاص موقع پر جو ہوتا ہے وہ عام نہیں ہوتا۔
لہذا جلسۂ استراحت کوئی باقاعدہ سنت نہیں ہاں اگر کوئی بوڑھا سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا تو وہ آج بھی جیسے آسانی سے اٹھ سکے ،اٹھے کہ دین نے آسانیاں دے رکھی ہیں اور معذور کو ہر طرح رخصت ہے۔جس مالک بن حویرث سے جلسۂ استراحت ثابت ہے خود اُس کی نماز پر اعتراض ہے کہ وہ نماز میں ایک ایسا عمل کرتے تھے جو باقی کوئی نمازی نہ کرتا تھا وہ خود تفرد کا شِکارتھے نہ کہ باقی سب غلط نماز پڑھتے تھے ملاحظہ فرمائیں بخاری ج ۱ کتاب الصلٰوۃ باب المکث بین مسجد تین (قال ایوب کان یَفعل شیئًا لم اَرَھم یَفعلُونہ ) ایوب نے کہا کہ مالک بن حویرث نماز میں وہ کا م کرتے تھے جو ہم نے کسی اور کوکرتے نہیں دیکھا ۔
مقتدی امام سے پیچھے رہے آگے نہ جائے :۔
عن براء بن عازب ؓ قال کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، لَمْ یَحْنِ أَحَدٌ مِنَّا ظَہْرَہُ، حَتَّی یَقَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا، ثُمَّ نَقَعُ سُجُودًا بَعْدَہُ۔۔(بخاری کتاب الاذان باب متی یسجد من خلف الامام )
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سمع اللہ لمن حمدہ فرمالیتے اور بعد ازاں آپ سجدہ میں تشریف لے جاتے تو ہم میں سے کوئی اپنی پیٹھ سجدہ جانے کے لئے نہ جھکاتا جب تک آپ ﷺ سجدہ میں نہ چلے جاتے پھر بعد میں ہم سجدہ میں جاتے ۔
مقتدی امام سے پہلے سر سجدہ سے نہ اٹھائے :۔
عن ابی ھریرۃ ؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا یَخْشَی أَحَدُکُمْ أَولاَ یَخْشَی أَحَدُکُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلَ الإِمَامِ، أَنْ یَجْعَلَ اللَّہُ رَأْسَہُ رَأْسَ حِمَارٍ، أَوْ یَجْعَلَ اللَّہُ صُورَتَہُ صُورَۃَ حِمَارٍ۔(بخاری کتاب الاذان باب اِثم ِمَن رفع رأسہٗ قبل الامام )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم میں کوئی ایک اس بات سے نہیں ڈرتا کہ وہ امام سے پہلے سر اٹھائے تو اللہ اس کے سر کو گدھے جیسا بنا دے یا اس کی صورت گدھے کی سی بنا دے ۔
امام بخاری ؒ کا بلا حوالہ قول:۔
امام بخاری ؒ کبھی کبھی باب کے شروع میں اپنی طرف سے رائے دے جاتے ہیں جس کی کوئی سند ذکر نہیں کرتے اور اس کا کوئی موقع و محل بھی ذکر نہیں کرتے اور اسی باب کے تحت ایسی کوئی روایت بھی نہیں لاتے جو ان کے ترجمۃُ الباب کی تائید کرے ۔ جب تک وہ سند ذکر نہ کریں تو یہ ان کا ذاتی قول اور رائے ہے ہم ان کی ذاتی رائے اور اقوال کے ہرگز پابند نہیں ہاں اہل حدیث بھائیوں کو یہیں سے مُغالطہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی بے وقوف بناتے ہوئے کہتے ہیں جی بخاری میں یوں لکھا ہوا ہے ۔ کیا کتاب بخاری سب قرآن کی طرح ہے کہ اس کے اندر لکھا ہوا ہر حرف ہی تسلیم کرلیا جائے ؟ ہرگز نہیں ملاحظہ ہو ایسی ہی ایک عبارت ۔
‘‘ اِمامۃُ العبدِ والمولٰی وَکَانَتْ عَائِشَۃُ: یَؤُمُّہَا عَبْدُہَا ذَکْوَانُ مِنَ المُصْحَفِ وَوَلَدِ البَغِیِّ وَالأَعْرَابِیِّ، وَالغُلاَمِ الَّذِی لَمْ یَحْتَلِمْ ” لِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَؤُمُّہُمْ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللَّہِ ولایمنع العبدُ من الجماعۃ بغیرِ علّۃٍ ’’۔
یہ پوری عبارت بغیر کسی سند کے انھوں نے کتاب الاذان میں ترجمۃ الباب کے طور پر ذ کر دی اور اس سے مندرجہ ذیل مسائل ظاہر کیے ۔ غلام امامت کروا سکتا ہے اگرچہ ابھی نابالغ ہی کیوں نہ ہو ۔ سیدہ عائشہؓ کو ایک غلام ہاتھ میں قرآن لیکر امامت کرواتا تھا اور ولد الزنا بھی اور دیہاتی گنوار بھی امامت کرا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ شکر ہے امام بخاریؒ نے یہ نہیں لکھ دیا کہ مسجد میں پیشاب کرنا جائز ہے کیونکہ ایک صحابی دیہاتی گنوار نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا اور شکر ہے یہ نہیں کہا کہ ننگے نماز پڑھنا پڑھانا جائز ہے کہ ایک بچہ نماز پڑھاتا تھا اور جب سجدے میں جاتا تو اس کے چوتڑے ننگے ہو جاتے تھے ۔ یہ سب باتیں احادیث میں ہی تو موجود ہیں۔مگردیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس عمل کا محل کیا ہے وجہ کیا ہے اور کب ایسا ہوا ۔ایک خاص وجہ اور خاص موقع و محل کی بات کو عام لینا کونسی دانش مندی ہے ۔ عذر کی وجہ سے دوران جنگ نماز کھڑے کھڑے یا سواری پر چلتے پھرتے یا بغیر قبلہ منہ کیے پڑھی جاتی ہے کیا اس کو عام حکم تسلیم کر لیا جائے ۔
امام بخاری ؒ بھی یہی کررہے ہیں ۔سیدہ عائشہؓ عام طور پر مسجد میں شریک ِ جماعت ہوتیں ۔ کسی وقت مجبوری سے اگر کوئی غلام قرآن ہاتھ میں لیکر امامت کروا بھی دے تو اس کو مجبوری اور عذر پر ہی محمول کیا جائے گا۔ اور اگر اس کو عام کر دیا کہ نادان بچے ّ بلاوجہ نماز کی امامت کر سکتے ہیں تو نماز بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا۔ جبکہ حضور ﷺ نے اِجعلوا امامکم خیر کم ’’ اپنے میں بہترین آدمی کو امام بناؤ ۔ تو جناب اگر آپ کے بچے آپ سے زیادہ دانا اور اچھے ہیں اور آپ بالکل بے وقوف ہیں تو ضرور بچوں کو امام بنالیں ۔
امام بخاری ؒ کی دوسری غلط فہمی:۔
امام بخاری ؒ کو ایک روایت ملی کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ حضور ﷺ کے ساتھ نمازِ عشاء پڑھ لیتے پھر جا کر اپنی قوم کی اسی نماز میں امامت بھی کرتے لہذا ثابت ہو ا کہ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے فرض پڑھے جا سکتے ہیں ۔ اس روایت کے ہمارے علماء نے کئی جواب دئیے اور اس روایت کو امام بخاری ؒ بار بار لاتے ہیں ۔ حالانکہ نہ یہ ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے ان کو ایسا کرنے کے لئے فرمایا تھا اور نہ یہ ذکر ہے کہ جو نماز حضور ﷺ کے ساتھ پڑھتے تھے کیا وہ نفل کی نیت سے یا فرض کی نیت سے پڑھتے تھے ۔ جو بھی ہو یہ حضور ﷺ کا کوئی قول فعل اور تقریر نہیں بلکہ صحابی کی اپنی ذاتی غلطی ہے جس کو امام بخاری ؒ لے اُڑے ۔ اب سنئے اسی معاذ ؓ کے اس عمل کی شکایت حضور ﷺ سے جب کی گئی تو حضور ﷺ نے کیا فرمایا ملاحظہ ہو ۔
عن سلیم سلمٰی ؓ انّہ أَتَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ یَأْتِینَا بَعْدَمَا نَنَامُ، وَنَکُونُ فِی أَعْمَالِنَا بِالنَّہَارِ، فَیُنَادِی بِالصَّلَاۃِ، فَنَخْرُجُ إِلَیْہِ فَیُطَوِّلُ عَلَیْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، لَا تَکُنْ فَتَّانًا، إِمَّا أَنْ تُصَلِّیَ مَعِی، وَإِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ عَلَی قَوْمِکَ۔(مسند احمد بن حنبل ؒ ،صحیح ابن خزیمہ،شرح معانی الآثار)
حضرت سلیم سلمیٰ ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کی جناب معاذ بن جبل ؓ ہمارے پاس اس وقت آتے ہیں جب ہم سو چکے ہوتے ہیں کیونکہ دن بھر کام میں لگے رہتے ہیں تو جلدی سوتے ہیں یہ آکر اذان دیتے ہیں پھر بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا اے معاذ ؓ فتنہ باز نہ بنو یا صرف میرے ساتھ نماز پڑھو یا پھر صرف قوم کو نماز پڑھاؤ مگر ہلکی نماز پڑھاؤ ۔
اب امام احمد بن حنبل ؒ کی اس روایت نے امام بخاری ؒ کی روایت کی حقیقت دو طرح سے کھول دی ایک تو اس طرح کہ یہ معاذ کا اپنا عمل تھا جس کو حضور ﷺ نے صاف لفظوں میں غلط قرار دیا اور معاذ کو فتنہ باز بننے سے روک دیا لیکن ہمارے آج کے اسی فتنہ باز کوکون روکے کہ پھر بھی نفل والے کے پیچھے فرضوں کی جماعت کو جائز قرار دیتا ہے ۔ جب معاذ بن جبل کو حضور ﷺ نے صاف صاف بتادیا کہ یا صرف میرے ساتھ نماز پڑھ یا پھر قوم کو ہلکی نماز پڑھا یعنی دو مرتبہ پڑھانے سے صاف منع فرمایا ۔ اور معاذ کے عمل کو غلط قرار دیا اسی غلط عمل سے امام بخاری استدلال کرتاہے پھر بخاری کا استدلال غلط نہیں تو اور کیا ہے ؟ ۔
اس روایت نے بخاری ؒکی آنکھ یوں بھی کھول دی کہ معاذ نماز عشاء کے بعد قوم کو فرض نماز پڑھاتے ہی نہ تھے نفل پڑھاتے تھے کیونکہ روایت پر غور کریں یہ صراحت موجود ہے کہ ہم دن بھر کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے تھکے ہارے ہوتے ہیں ہم سو جاتے ہیں تو یہ آکر اذان دیتا ہے تو جناب جو قوم سو گئی تھی یہ فرض نماز پڑھے بغیر سوتی تھی ؟ ایسا نہیں بلکہ وہ قوم اوّل وقت ِ عشاء میں نماز پڑھ کر سو جاتے معاذ ؓ بعد میں جا کر اذان دیتے اور نفل نماز پڑھاتے تھے جس سے حضور ﷺ نے واضح منع کر دیا مگر حیرت ہے امام بخاریؒ پر کہ اس روایت سے لا علمی کی وجہ سے معاذؓ کی روایت کو باربار بخاری میں پیش کرتے ہیں اور امام کی تقلید سے محروم لوگوں کو پریشان کررہے ہیں۔ یہ زیادتی امام بخاری ؒ کی نہیں در اصل یہ کمزوری انہی لوگوں کی ہے جن کے ہاتھ میں کسی مُعتبر امام کا دامن نہیں ۔
نماز اور مسائل ِ نماز میں اختلافات کی نوعیت:۔
شروع نماز سے آخر ِنماز تک جن اختلافات سے آپ گزرے یقین کرلیں کہ ان تما م مسائل میں کوئی ایسا اختلاف ہر گز نہیں کہ جس کی بنیاد پر کسی کو بے دین یا کافر جیسے غلیظ الفاظ کا استعمال تو کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔میں نے نمازِ حنفی اور اہلِ حدیث کی نماز کا بغور جائزہ لیا دونوں کا فرائض و واجبات پر نقطہ نظر ایک ہے ہاں اتنا فرق ہو سکتا ہے کہ ایک واجب کہے اور دوسرااس کو سنت کہہ دے یا ایک فرض بتائے اور دوسرا واجب کا لفظ استعمال کرے دونوں کی نماز میں کوئی خاص ایسا اختلاف نہیں کہ ایک دوسرے کی نماز کو فاسد قرار دیتے ہوں مثلاً ایک رفع یدین نہیں کرتا دوسرا کرتا ہے تو دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جیسے رفع یدین کرنے سے نماز پر فرق نہیں پڑتا ایسے ہی رفع یدین نہ کرنے سے بھی فرق نہیں پڑتا ان کا زیادہ تر اختلاف افضل وغیرافضل، اَولیٰ اور خلاف اَولیٰ کا ہے لہذا اختلاف کی شدت کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے اور باہم ایک دوسرے کے بارے میں حسن ِظن سے کام لیں تاکہ اختلافِ رائے صرف اختلافِ رائے ہی رہے ،مخالفت و فساد تک بات نہ جائے اور اُمت کے تصورِ وحدت کو نقصان نہ پہنچے۔ہمارے مسائل میں ہزاروں اختلافات سہی مگر ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا رب ایک ،قرآن ایک، دین اسلام ایک، قبلہ و کعبہ ایک اور احادیث کی کتب ایک،کلمہ ایک،وطن اور قوم ایک ہے ہمیں ان باہم مشترکات کو ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہیے اور امت کے ہر فرد کو اس سے بھی بخوبی آگاہ اورہوشیار رہنا چاہیے کہ اسلام دشمن قوتیں ہم کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لہذا ہمیں اپنی صفوں میں اختلافات کو ہوا دیکر دشمن کا کام آسان نہیں کرنا چاہیے اور پوری ہمت،قوت اور وحدت سے اسلام کا پرچم سب مل کر سر بلند رکھیں اسی میں سب کا بھلا ہے۔اختلاف رائے روز اول سے رہا ہے اور قیامت تک رہے گا ہمیں اسی میں سے راہِ وحدت و اخوت کو تلاش کرنا ہے اور وہ یہی ہے کہ آپ اپنی اپنی رائے پر قائم رہیں اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں اور ممکن حد تک اختلافات پر بحث کرنے اور ان کو طول دینے سے اجتناب فرمائیں۔ ہم میں سے ہر ایک گروہ اتنا ہی دین کے لئے مخلص ہے جتنا کوئی دوسرہ گروہ۔مسلمانوں کی باہمی کشیدگی کا حل مسلمانوں کو خود ہی تلاش کرنا ہے۔ باہم اعتماد و احترام کی فضا پیدا کریں ایک دوسرے کی آراء کو پورے خلوص سے سنیں اور باہم راہِ اعتدال تلاش کریں تاکہ ملتِ اسلامیہ دشمنانِ اسلام کے سامنے تماشا ئے عالم بن کر نہ رہ جائے۔اللہ پاک سب کو شرحِ صدر اور اخلاق فاضلہ کی توفیق بخشے جہاں تک اختلافِ امت کے بارے میں احناف کی رائے ہے اس میں بہت وسعت ہے خود امام ابو حنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ ‘‘لا نُکفِّرُ احَدً من اَھلِ القبلَۃِ ’’ ہم اہل قبلہ میں سے کسی ایک کو بھی کافر نہیں کہتے۔ہاں دورِحاضر میں مرزائیوں کا معاملہ الگ ہے اِس سلسلہ میں دور حاضر کی فقہ حنفی کی معتبر کتاب دُر مختار سے دو عبارات پیشِ خدمت ہیں:۔
۱۔ وَاعْلَمْأَنَّہُ لَا یُفْتَی بِکُفْرِ مُسْلِمٍ أَمْکَنَ حَمْلُ کَلَامِہِ عَلَی مَحْمَلٍ حَسَنٍ۔(در مختار باب المرتد)
جان لے کہ کسی مسلمان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا اگر اُس کے کلام کو کسی اچھے اور قابلِ قبول محمل و مُراد پر محمول کیا جاسکتا ہو۔ دوسری عبارت :
‘‘إذَا کَانَ فِی الْمَسْأَلَۃِ وُجُوہٌ تُوجِبُ الْکُفْرَ وَوَاحِدٌ یَمْنَعُہُ فَعَلَی الْمُفْتِی الْمَیْلُ لِمَا یَمْنَعُہُ ’’(در مختار باب المرتد)
اگر کسی مسئلہ میں متعدد وجوہ مُوجبِ کفر ہوں اور ایک وجہ کفر کو مانع ہو تو مُفتی پر لازم ہے کہ وہ وجہِ مانعِ کفر کا اعتبار کرے یعنی کفر کا فتویٰ صادر نہ کرے۔
نمازوں میں فرض رکعتوں کی تعداد اور ان کی حکمت
اللہ تعالیٰ جب نماز کا حکم دیتا ہے تو اُس سے مراد تمام نمازوں کی فرض رکعتیں ہی ہیں باقی سنن و نوافل تمام کو فقہاء نوافل کے باب میں ذکر کرتے ہیں ۔ جس سے ظاہر ہے نوافل (زائد از حکم ) اصل نماز کا حکمی حصّہ نہیں بلکہ اجر و ثواب کے لئے حضور ﷺ نے ادا فرمائے اور ہم حصول اجر و ثواب اور فرائض میں کمی کوتاہی کو پورا کرنے اور اتباع ِرسول ﷺ میں ادا کرتے ہیں ۔ لہذا اگر کوئی آدمی کسی نماز کے فرض ہی ادا کرے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے نماز نہیں پڑھی اور فرائض کی رکعتوں پر بات کرتا ہوں ایک رکعت قیام اور رکوع سے ہوتے ہوئے دوسجدوں پر مکمل ہو جاتی ہے اس مرتب صورت کا نام رکعت ہے ۔
اور ہمارے ہاں ایک رکعت کوئی نماز نہیں بلکہ کم از کم دو رکعتیں اور زیادہ سے زیادہ فرائض میں چار رکعتیں ہیں۔ دو صبح ، چار ظہر ، چار عصر ، تین مغرب ، اور چار نمازعشاء کی فرض رکعتیں ہیں ۔ دو رکعت سے کوئی فرض نماز کم نہ رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ ایک رکعت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ پوری توجہ ، دھیان اور رابطہ قلب و ذھن کا اللہ کریم سے جُڑہی نہیں پاتا ۔ اور چار سے زیادہ اس لئے نہیں رکھی کہ مصروفیات و مشاغلِ زندگی کو پیش ِ نظر رکھا گیا بھی بھاگ دوڑ میں ان کے لئے وقت بھی مشکل سے بھی نکلتا ہے ۔ دوسری وجہ بھی ہے کہ مکی دور نبوت میں چونکہ حالات مناسب نہ تھے چھپ چھپا کر بھی نماز ادا کرنی پڑتی تھی مناسب تھا کہ مختصر نماز ہو جو کم وقت میں ادا ہوجائے لہذا شروع میں مکی دور میں جب نماز فرض ہوئی تو تمام پانچوں نمازیں دو دو رکعت تھی کوئی بھی چار رکعت فرض نہ تھے مگر جب مدنی دور شروع ہوا اب کافی اطمینان تھا تو ظہر ، عصر اور عشاء کو چار چار رکعتیں کر دیا گیا اور فجر میں وہی سابقہ یادگار کو باقی رکھا گیا اور مغرب کی تین رکعتیں رکھی گئیں جس کی وجہ آگے آرہی ہے ۔ لیکن مسافر کے لئے مدنی دور میں بھی وہی دو دو رکعتیں اس لئے باقی رکھی گئیں کہ جس حکمت کے تحت مکہ میں دو دو رکعتیں تھیں وہی علّت و حکمت دورانِ سفر پیش آتی ہے ۔سفر کی مشکلات اور وقت کی قلّت تقاضا کرتی تھی کہ مسافر کے لئے دو دو رکعتیں ہی فرض رہیں تو یہی ہوا اس گفتگو سے ظاہر ہوا کہ اطمینان اور عدم اطمینان کی وجہ سے رکعتوں میں کمی بیشی ہوئی ہے ۔ جب کہ مغرب و فجر کی رکعتیں سفر میں بھی وہی باقی رکھیں جو حضر یعنی حالت اقامت میں تھیں اس لئے کہ ان کی تخفیف مسافر کے لئے ممکن اس لئے نہ تھی کہ فجر کی دو کو اگر ایک رکعت کریں تو یہ کوئی نماز ہی نہیں جب کہ مغرب کی تین کو اگر نصف کریں تو ڈیڑہ رکعت ہوتی ہے اور یہ بھی کوئی مکمل نماز نہیں مکمل تو کم از کم دو رکعتیں ہیں ۔
اب سوال یہ باقی رہا کہ جب حالت اقامت میں ہیں سفر میں نہیں تو فجر کی دو کس لئے چار کیوں نہیں اور مغرب کی تین کو چار کیوں نہ کیا گیا اس سوال کو جواب امّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓنے یہ دیا کہ مغرب کی تین اس لئے ہیں کہ یہ دن کے وتر ہیں اور وتر تین ہی ہو سکتے ہیں کہ ایک رکعت نماز نہیں اور اگر دو ہوں تو وہ وتر نہیں لہذا وتر کا قریب ترین عدد تین ہے اور یہ دن کے وتر ہیں اور صبح کو دو رکعت اس لئے رہنے دیا کہ ان میں قرأت کو لمبا کرکے کمی کو پورا کر دیا گیااور نماز کا اصل مقصد قرأت ِ قرآن کروانا ہے لہذا فجرکی دوہی بر قرار رکھی ہیں یہ روایت سیدہ عائشہ ؓ سے مسند احمد بن حنبل میں ملے گی ۔
مغرب میں تین رکعت رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلم میں حدیث سے ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے تین اوقات میں نماز سے منع فرمایا اور ان میں سے طلوع و غروب کے وقت ممانعت کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ مشرکین اس قوت میں آفتاب پرستی کرتے ہیں لہذا ان کے امتیاز دینے کے لئے عین غروب سے بچتے ہوئے فورًا بعد یہ نماز رکھی اور اس میں رکعتوں کی تعداد بھی ایسی رکھ دی جو سورج پرستوں کا رد اور توحید باری کو ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کی ذات وتر ہے اور اس کے اظہار کے لئے ایک رکعت تو ناکافی نماز ہے اور دو کا عدد وتر نہیں اور تین کا عدد قریب ترین وتر عدد ہے اسی کو مغرب کی رکعتوں کی تعداد قرار دیکر وحدانیت ِ ربانی کی تعلیم دی گئی او یہی حکمت عشاء کے بعد وتروں میں بھی ہے اور جمعہ و عیدین میں دو دو رکعتیں اس لئے ہیں کہ وہاں خطبہ کو لازم کر دیا گیا لہذا چارکی بجائے رکعتیں دو دو رکھی گئیں ۔نماز مغرب کی رکعتیں وتر اور عشاء کے بعد وتروں پر یہ حدیث بھی پڑھتے جائیں۔
‘‘ یَا أَہْلَ الْقُرْآنِ، أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّہَ وِتْرٌ، یُحِبُّ الْوِتْرََ ۔
( ابو داوٗد باب تفریع أبواب الوتر کتاب الوترباب استحباب الوتر )
اے اھل قرآن بے شک وتر پڑھا کرو کہ اللہ بھی وتر (طاق ) ہے اور وہ وتر (طاق ) کو پسند فرماتا ہے ۔
اس روایت میں مسلمانوں کو اہل قرآن کہہ کر تو مخاطب کیا گیا ، کیا کسی روایت میں اہل حدیث کہہ کر بھی پکارا گیا یا یہ خود ساختہ لفظ ہے ؟ قرآن نے ہمیں مسلمان کہا ہمیں صرف مسلمان ہونے پر فخر کرنا چاہیے باقی سب نسبتیں عارضی و تعارف کے لئے ہیں اور علماء نے اپنی اپنی تنظیموں اور پارٹیوں کے نام رکھے ہیں جبکہ وہی نام مسلمان کہلانے بھی بہتر ہے جو اللہ رسول نے ہمارا رکھا ہے ۔ اور صبح کو دو رکعتوں کی بات ہو چکی کہ صبح کا وقت انتہائی پر کیف وقت ہے ابھی سوکر دل و دماغ کو تازہ کرکے اٹھے اور انّ قرآن الفجر کان مشہُودًا سے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ یہ فرشتوں کی حاضری کا بھی وقت ہے لہذا یہاں خوب قرأت کرو اس لئے صبح میں رکعتوں کی تعداد کم رکھ کر تلاوتِ قرآن کو زیادہ وقت دیا گیا کہ یہ وقت ِ مشہود ہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ عمومًا فجر کی نماز میں زیادہ لمبی تلاوت یعنی ساٹھ سے سو اٰیات تلاوت فرماتے اور رکوع و سجود کی کیفیت بھی ایسے ہی نرالی ہوتی تھی ۔ دیکھیں مسلم کتاب الصلوٰۃ باب القرأۃ ۔
نماز سنن و نوافل کا بیان:۔
پانچ نمازوں کی فرض رکعتوں کے اول یا آخر میں بھی ہم کچھ رکعتیں ادا کرتے ہیں اب جو فرائض ہیں وہ تو گویا اسلام کا رکن ِرکین اور لازمہء ایمان ہیں جبکہ فرض کے علاوہ جو ہم پڑھتے ہیں وہ وہی نوافل ہیں جن کو حضور ﷺ نے از خود پڑھا حکمِ ربّانی نہ تھا اب جن رکعتوں کی حضور ﷺ نے قول و عمل سے زیادہ تاکید فرمائی ان کو سنتِ موکدہ نام دیا گیا اور جن کی کم تاکید فرمائی انکو سنتِ غیر مؤکدہ کہا گیا اور خود پڑھیں اور حکم نہ دیا یا بہت کم پڑھیں ان کو نوافل کہہ دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں سب نوافل ہی ہیں ۔
احادیث میں فرض رکعتوں کو فرض یا صلوٰۃِ مکتوبہ (لازمی نماز )کہا جاتا ہے اور باقی سب کو تطوع اور نوافل کے نام سے بولا جاتا ہے
فرائض کے اول یا آخر کچھ رکعتیں نوافل پڑھنے میں کیا حکمت ہو سکتی ہے:۔
جو سنن و نوافل فرائض سے پہلے ادا کیے جاتے ہیں ان میں ظاہر ی حکمت یہ ہے کہ انسان مشاغلِ دنیوی میں مُنہمک ہو چکا تھا اب فوری طور پر اگر بارگاہِ ربانی میں فرائض کی ادائیگی کی صورت میں حاضری دے تو عین ممکن ہے کہ پورا دھیان بارگاہِ ربی میں نہ دے سکے لہذا کچھ رکعتیں پہلے پڑھ کر توجّہ کو مرکوز کرے اور دل ع دماغ کع مانوس ِ بندگی کرے تاکہ فرضوں کی اہم حاضری سے پورا فائدہ حاصل کرسکے اور پوری طرح تبتّل ، خشوع اور قنوت سے حاضر ہو اور اخلاص و ذوق سے اُس نمازکے پڑھنے کے قابل ہو جائے جس بارے حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ نماز سے فراغت کے بعد گناہوں سے یو ں صاف ہو جاتا ہے گویا اس کی ماں نے اُس کو ابھی جنا ہے ۔
اور جو رکعتیں فرائض کے بعد ادا کی جاتی ہیں ان میں ظاہری حکمت یہ نظر آتی ہے کہ فرضوں کی صورت میں بارگاہِ خداوندی میں حاضری کے اداب میں جو کمی باقی رہ گئی ان کا تدارک کیا جاسکے ۔اگر بروز قیامت فرائض حساب میں کم پڑگئے تو اللہ کریم انہی نوافل سے ہی حساب پورا فرماے گا اور پھر یہ بھی کہ جب وقت نکالا وضو کیا اب مکمل تیاری ہو گئی تو اس تیاری سے کچھ مزید فائدہ اٹھایا جائے اور حق تو یہ ہے کہ حضور ﷺ کو فرضوں کی ادائیگی سے بار گاہِ ربانی میں حاضری سے اتنا سرورو سکون آ جاتا کہ اُسی کی طلب میں کچھ رکعتیں مزید پڑھتے تھے ۔اور ان سنن ونوافل کو اکثر آپ گھر میں ادا فرماتھے اور اسی کی ترغیب بھی فرماتے کہ گھر ذکر ِ خداوندی سے منوّر و بابرکت بھی ہو اور گھر کے تمام افراد کو نماز کی عملی تعلیم بھی ہو سکے ۔ افسوس کہ آج ہم نے ان نوافل کو مساجد ہی میں ادا کرنا افضل گمان کر لیا ہے جبکہ یہ افضل تو کیا مطابق سنتِ عمومی بھی نہیں کوشش کریں کہ مسجد میں صرف فرائض ادا ہو ں کہ فرائض کی اہمیت بھی واضح رہے اور آپ کا عمل بھی سنت کے مطابق ہو اور گھر کو بھی بندگی سے کچھ حصہ ملے ہاں اگر کبھی عذرہو تو مسجد میں پڑھ لینے کی ممانعت ہرگز نہیں مگر یہ معمولِ رسول ﷺ بھی نہیں احادیث آرہی ہیں ۔
دن رات کی پانچوں نمازوں میں موکدہ سنّتیں:۔
عَنْ أُمِّ حَبِیبَۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی فِی یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِی الجَنَّۃِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَہَا، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ العِشَاء ِ، وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلَاۃِ الْفَجْرِِ ۔
(الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃ بَابُ مَا جَاء َ فی مَنْ صَلَّی فی یَوْمٍ وَلَیلَۃٍ ثِنْتَیْ عشرۃَ رَکعَۃً منَ السُّنَۃِ مَا لَہُ مِنَ الفَضْل )
حضرت امّ حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے رات دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا یعنی چار ظہر کے فرائض سے پہلے دو بعد اور دو مغرب اور دو عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر کے فرضوں سے پہلے ۔
سنن نسائی اور صحیح دونوں میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ ظہر سے پہلے گھر میں چار رکعت سنت پڑھتے تھے اس کے بعد جاکر مسجد میں ظہر ادا کرتے پھر گھر تشریف لاکر 2 رکعتیں پڑھتے تھے۔ عشاء کی فرض نماز پڑھانے کے بعدبھی گھر تشریف لاتے اوردو رکعتیں پڑھتے تھے ۔ اورجب صبح صادق ہو جاتی تو فجر کی جماعت سے قبل دو رکعتیں گھر میں ادا فرماتے تھے ۔
ظہر سے پہلے دو رکعت سنت یا چار رکعت :۔
فرضِ ظہر سے قبل دو رکعت سنت بھی روایت ہے اور چار رکعت سنت کی بھی۔چونکہ حضور علیہ اسلام سنّتیں گھر میں ادا فرماتے لہذا کسی صحابی کی روایت کے مقابلہ میں امّ المؤمنین عائشہؓکی شہادت و روایت زیادہ معتبر ہے اور دوسری وجہ یہ کہ اگر دونوں معمول بھی رہے ہوں تو چار والا عمل اس لئے افضل ہے کہ اس میں عبادت زیادہ اور ظاہر ہے اجر بھی زیادہ ہو گا یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ کا آخری عمل چار رکعت پڑھنے کا ہوا اور آخری عمل ہی لیا جاتا ہے اس پر امام بخاری کی رائے میں پہلے دے چکا ہوں ۔یہ ظاہر ہے کہ دو رکعت پڑھنے کا عمل پہلے ہو گا کہ جوں جوں اطمینان بڑھا عمر بڑھی اور ذوق بندگی بھی ساتھ ساتھ پروان چڑھا اس کے برعکس ناممکن ہیکہ آپ پہلے تو چار رکعت پڑھتے ہوں اور بعد میں آخری عمر میں عبادت بڑھانے کی بجائے کم کر دی ہو۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اگر دو رکعتیں پڑھیں تو چار کا عمل رہ جائے گا۔ جبکہ چار پڑھیں تو دورکعت اس کے اندر آجاتی ہیں ۔ لہذادونو ں روایات پر عمل ہو جاتا ہے اور ہماری یہی رائے اور یہی دلائل اس وقت بھی ہیں جب وتر کی ایک رکعت اور تین رکعت کی روایات آتی ہیں یا جمعہ کے بعد جب دورکعت اور چار رکعت کی روایات برابر آتی ہیں تو ہم زیادہ کی طرف جاتے ہیں کہ اجر بھی زیادہ ہو اور کم والی روایات پر عمل اس کے اندر آجائے ۔مثلًا مجھے کوئی کہے کہ مجھے پچاس روپیہ دو پھر کہے کہ سو روپیہ دو ۔ جب میں سو روپیہ دے دوں گا تو اس کا پچاس والا مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا کہ وہ سو کے اندر ہی تو ہے ۔
فجر کی سنتوں کی فضیلت:۔
عَنْ عَائِشَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَکْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔
(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہاباب استحباب رکعتی سنۃ الفجر، والحث علیہما وتخفیفہما والمحافظۃ علیہما. وبیان ما یستحب أن یقرأ فیہما)
حضرت عائشۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فجر کی دو رکعتیں دنیا و ما فیھا سے بہتر ہیں ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدَعُوہُمَا، وَإِنْ طَرَدَتْکُمُ الْخَیْلَُ ۔
(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ الخوف)
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دورکعتیں صبح کی نہ چھوڑو اگرچہ تمہیں گھوڑے ہی کچل دیں ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، قَالَت لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی شَیْء ٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْہُ تَعَاہُدًا عَلَی رَکْعَتَیِ الفَجْرِ۔
(بخاری أبواب التطوع باب: تعاہد رکعتی الفجر، ومن سماہما تطوعا)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نوافل میں سے کسی کا بھی اتنا اہتمام نہ فرماتے جتنا شدید صبح کی دو سنتوں کا اہتمام فرماتے تھے ۔
اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھے:۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَمْ یُصَلِّ رَکْعَتَیِ الفَجْرِ فَلْیُصَلِّہِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ۔
( الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃ بَابُ مَا جَاء َ فی إِعَادَتِہِمَا بعدَ طُلُوعِ الشَّمسِ )
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو فجر کی دو سنتیں نہ پڑھ سکے وہ پھر طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھے ۔
مسلم میں اسی حوالے سے روایت ہے کہ میں حضور ﷺ کو صبح کی جماعت کے لئے بلانے گیا تو سیدہ عائشہ ؓ نے مجھ سے کوئی بات شروع کر دی اور حضور ﷺ کو اطلاع کرنے میں کچھ دیر ہوئی جس سے صبح بہت ہی روشن ہو گئی
جب حضورﷺ مسجد تشریف لائے تو صحابہؓ نے عرض کیا جناب صبح تو بہت روشن ہو گئی تو حضووﷺ نے فرمایا اگر اس سے بھی زیادہ روشن ہو جاتی تو میں صبح کی دو سنت تو ضرور پڑھتا ۔ (مسلم )
فجر کی سنتوں کی انہی تاکیدات کی بنیاد پر احناف صبح کی سنتوں کو بہر صورت پڑھنے پر زور دیتے ہیں ۔ مگرسنتیں مسجد کے اُس کمرے میں ہرگز نہ پڑھیں جہاں جماعت ہورہی ہے بہتر ہے آپ سنت کے مطابق گھر سے پڑھ کر آئیں کہ اختلاف ہی نہ پڑھے باقی رہی بات جماعت کی وہ ہمارے نزدیک سنت ہے واجب نہیں ۔ بخاری میں ایک روایت اس طرح کہ ایک صحابی لمبی قرأت کی وجہ سے جماعت سے نماز توڑ کر چلاگیا اور ایک دوسری روایت ہے کہ صحابی امام کی لمبی قرأت کی وجہ سے شریک ہی نہ ہوتا تھا مگر حضور صرف امام کو ناراض ہوئے کہ لوگوں کو دین سے نفرت دلانے والے نہ بنو جماعت چھوڑنے والوں پر گرفت نہ فرمائی ۔ اور ہم یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں کہ جو جماعت سے ایک رکعت بھی سنتیں ادا کرنے کے بعد پالے تو اس نے گویا پوری نماز پالی۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الصَّلَاۃِ رَکْعَۃً فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاۃَ۔
(ترمذی تتمۃ أَبوَابِ الجُمعَۃِ بابٌ فِیمَنْ یُدرکُ مِنَ الجُمعَۃِ رکعۃً)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ایک رکعت بھی نماز سے پالے تو اس نے گویا پوری نماز پالی ۔
نوٹ:۔ صبح کی سنتوں پر شاید زیادہ زور اس لئے دیا گیا کہ یہاں فرض رکعتیں صرف دو ہیں ۔ جو پانچوں نمازوں میں سب سے کم ترین تعداد ا ہے لہذا سنتوں پر زور دیا گیا کہ کمی کا تدارک ہو سکے ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔
جماعت سے پہلے نماز کا انتظار بھی نماز ہی کا اجر رکھتا ہے :۔
قال النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَإِنَّکُمْ لَمْ تَزَالُوا فِی صَلاَۃٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَۃ۔
(کتاب مواقیت الصلاۃ باب: السمر فی الفقہ والخیر بعد العشاء )
حضور ﷺ نے فرمایا کہ بے شک جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے وہ بھی گویا (اجر کے لحاظ سے )تم نماز میں رہے ہو۔
نماز کے بعد جائے نماز پر رکنا اور فرشتوں کی دعائیں لینا:۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ الملائکۃُ تصلّی علی احدکم ما دام فی مُصلّاہُ مالم یُحدثْ اَللّٰھُمّ اغْفِرْ لہٗ اللّٰھم ارحَمْہُ لا یزال احدکم فی صلوٰۃٍ ما کانت الصلوٰۃ تحبِسہٗ لایمنعُہٗ ان ینقَلبَ الی اھلہٖ الّا الصلوٰۃ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ المَلاَئِکَۃُ تُصَلِّی عَلَی أَحَدِکُمْ مَا دَامَ فِی مُصَلَّاہُ، مَا لَمْ یُحْدِثْ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ، اللَّہُمَّ ارْحَمْہُ، لاَ یَزَالُ أَحَدُکُمْ فِی صَلاَۃٍ مَا دَامَتِ الصَّلاَۃُ تَحْبِسُہ، لاَ یَمْنَعُہُ أَنْ یَنْقَلِبَ إِلَی أَہْلِہِ إِلَّا الصَّلاَۃُ۔
(بخاری کتاب الجماعۃ والإمامۃ من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ، وفضل المساجد)
حضور ﷺ نے فرمایا تم پر فرشتے اس وقت تک درود رحمت کی (دعاکرنا ) پڑھتے ہیں جب تک اپنی جائے نماز پر رہتے ہو ، جب تک کہ وضو نہ ٹوٹے فرشتے یو ں دعا کرتے رہتے ہیں اے اللہ اس کی مغفرت فرما اس پر رحم فرما جب تک نماز تمہیں مصروف رکھتی ہے اور صرف نماز ہی تمہارا مقصد رکھنے کا ہوتا ہے جب کہ گھر واپس نہ آجاؤ۔
اس روایت سے ظاہر ہے۔اور امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے بھی یہی مُترشح ہو رہاہے کہ جب نمازی صرف خالص نماز کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے واپس گھر آنے تک وہ فرشتوں کی دعاؤں کا مُوجب بنتا رھتا ہے اگرچہ جماعت سے پہلے انتظار کرے یا بعد جماعت نمازہی کی وجہ سے رُکا ہوا ہو ۔ سبحان اللہ ۔
ظہر سے قبل چار سنتوں کی فضیلت :۔
عَنْ أَبِی أَیُّوبَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّہْرِ لَیْسَ فِیہِنَّ تَسْلِیمٌ، تُفْتَحُ لَہُنَّ أَبْوَابُ السَّمَاء ۔
( سنن ابی داوٗد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ الخوف باب الأربع قبل الظہر وبعدہا )
حضرت ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ظہر سے قبل چار سنتیں ایک سلام سے جو پڑھتا ہے تو ان کیلئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
آسمانوں کے دروازے کھلنا قبولیت اور نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے ۔
اگر ظہر سے پہلے سنتیں رہ جائیں تو بعد میں ضرور پڑھے :۔
عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا لَمْ یُصَلِّ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ صَلَّاہُنَّ بَعْدَہَا۔
(ترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃ بَابٌ آخَر)
سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ اگر ظہر سے پہلے حضور ﷺ کی سنتیں رہ جاتیں تو بعد میں ادا فرماتے تھے ۔
ابن ماجہ میں یہ تصریح بھی ہے کہ اگر سنتیں قبل ظہررہ جاتیں تو ان کو حضور ﷺ ظہر کے بعد والی دوسنتوں کے بعد ادا فرماتے ۔ شاید اس لئے کہ چار سنتیں تو ویسے ہی معمول سے ہٹ گئیں ظہر کے بعد والی دو سنتیں تو معمول پر رہیں۔
چار سنتیں ظہر سے پہلے اور چار ظہر کے بعد :۔
عن اُمّ حَبیبۃَؓ قالت سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ حَافَظَ عَلَی أَرْبَعِ رَکَعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَہَا حَرَّمَہُ اللَّہُ عَلَی النَّارِ ۔
(الترمذی ترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃ بَابٌ آخَر ، ابن ماجہ و نسائی وغیرہم )
اُم حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سنا جس نے ظہر سے قبل چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی برابر حفاظت کی یعنی ادا کرتا رہا تو اُس شخص کو اللہ جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے ۔
ایک روایت کے مطابق حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو ظہر سے پہلے چار سنتیں نہ پڑھے گا وہ میری شفاعت سے محروم رہے گا ۔ جناب کی شفاعت کی ہر کلمہ گو کو امید ہے اللہ تعالیٰ کرے سب کو نصیب ہو مگر پیارے نبی ﷺ کی اِتباع سے بھی دور اور محروم نہ رہیں۔
اللّٰھمّ ارزقنا شفاعۃ سیدنا محمدٍ ﷺ ۔
یا ربِّ بالمُصطفٰی بلِّغْ مَقَاصِد نَا واغْفِرْ لنا ما مَضٰی یا واسعَ الکَرمِ
ھو الحبیب الذی تُرجٰی شفاعتُہٗ لِکلِّ حولٍ مّن الاحوال مُقتَھِمٖ
دافعٍ البلآءِ والوبآءِ والقَحطِ والمرضِ و الالم بھی اسی مفہوم سے ہیں۔
عصر سے قبل چَار غیر مؤکّدہ سنتیں:۔
عن عبد اللّٰہ بن عمر ؓ قا ل قال رسول اللّٰہ ﷺ رَحِمَ اللّٰہ اِمْرَأً صلّٰی قبل العصرِ اربعًا ۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَحِمَ اللَّہُ امْرَأً صَلَّی قَبْلَ العَصْرِ أَرْبَعًا۔
( الترمذی أَبوابُ الصَّلاَۃبَابُ مَا جَاء َ فی الأَربَعِ قَبلَ العَصْرِ و ابوداوٗد و احمد )
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اُس پر جو عصر سے قبل چار رکعتیں پڑھے ۔
اگر وقت ہو تو عصر سے قبل چار رکعتیں ضرور پڑھیں وقت کم ہو تو دو ہی پڑھیں اور حضور ﷺ کی دعا ضرور لیں کہ باعثِ تسکینِ جان ہے ۔
(إِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ) (التوبۃ: 103)
آپ ﷺ کی دعا غلاموں کے لئے باعثِ تسکین ہے ۔
فرائض مغرب کے بعد چھ نوافل اور فضیلت:۔
عن محمد بن عمّار بن یاسر ؓقال رَأَیْتُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ، صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ، فَقُلْتُ: یَا أَبَہْ، مَا ہَذِہِ الصَّلَاۃُ؟ قَالَ: رَأَیْتُ حَبِیبِی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ، وَقَالَ: مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ غُفِرَتْ لَہُ ذُنُوبُہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِِ ۔(المعجم اوسط للطبرانی باب من اسمہ محمد )
جناب عمار بن یاسر ؓ کے بیٹے محمد انہی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے محبوب ﷺ کو یہ پڑھتے دیکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا جو چھ رکعت بعد مغرب پڑھے گا اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ برابر ہوں ۔
تشریح:۔ عام روایات میں چونکہ بعد مغرب دو سنتوں کا ذکر ہے جیسا کہ احادیث گزر چکیں مگر اس روایت میں چھ کا ذکر ہے ۔ لہذا بعد مغرب دو سنت ، دو نفل اورمزید دو نفل پڑھ لیں تو اس سعادت کے حصول کی امید ہے اپنا یہی عمل ہے۔
عشاء کے بعد چار یا چھ نوافل کی روایت:۔
عن عائشۃ ؓ قالت مَا صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَاء َ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَیَّ إِلَّا صَلَّی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ، أَوْ سِتَّ رَکَعَاتٍ
( ابو داوٗد کتاب الصلاۃباب صلاۃ الخوف باب الصلاۃ بعد العشاء )
سید ہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی عشاء پڑھ کے میرے پاس تشریف لائے تو آپ نے چار یا چھ رکعتیں پرھیں ۔
تشریح :۔
آج بھی احناف عشاء کے بعد دو سنت پھر دونفل اور پھر تین وتر کے بعد دو نفل پڑھتے ہیں ان چھ رکعتوں کی یہی روایت بنیاد ہے ۔
نماز وتر کی اہمیت
عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ حُذَافَۃَ، أَنَّہُ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَدَّکُمْ بِصَلَاۃٍ ہِیَ خَیْرٌ لَکُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ: الوِتْرُ، جَعَلَہُ اللَّہُ لَکُمْ فِیمَا بَیْنَ صَلَاۃِ العِشَاء ِ إِلَی أَنْ یَطْلُعَ الفَجْرُ۔
(ابو داوٗ دکتاب سجود القرآن (المعجم) باب تفریع أبواب الوتر کتاب الوتر باب استحباب الوتر و الترمذی أَبْوَابُ الوِترِ بَابُ مَا جَاء َ فی فَضْلِ الوِتر )
حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نماز سے تمہاری مدد فرمائی جو تمہارے لئے شُرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے وہ وتر نماز ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارے واسطے نماز عشاء کے بعد سے طلوع ِ صبح صادق کے پہلے تک مُقرر فرمایا ہے یعنی یہ اس کا سارا وقت ہے
تشریح:۔
یہ انداز اور یہ تاکید و اہمیت حضور ﷺ نے کسی سنت نماز پر اختیار نہیں فرمایا اور واضح کیا کہ یہ نماز اللہ نے دی اور اللہ نے ہی اس کا وقت بھی مقرر کیا نہ کہ یہ میری ذاتی رائے یا نفلی عبادت ہے اسی بنیاد پر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نہ تو اس کو فرائض میں شامل کرتے ہیں کہ فرائض کی احادیث پہلے گزریں ان میں اس کا ذکر نہیں اور نہ ہی اس کا وقت وہ ہے جو ان پانچ فرض نمازوں کا ہے اور نہ ہی امام صاحب اس کو سنن و نوافل میں شمار کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے خود اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف دو مرتبہ منسوب کیا اس لئے امام صاحب اس کو واجب بتاتے ہیں کہ فرض سے کم اور سنن سے اعلیٰ ہے اور سفر میں بھی برقرار رہتی ہے ۔
ابو داوٗد میں حضرت بُریدہ ؓ کے حوالے سے ایک حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ۔
الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ یُوتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا۔
کہ وتر حق (لازم ) ہے جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں یہ جملہ آپ ﷺ نے تین مرتبہ دھرایا ۔ بخاری میں بھی اتنا ہے کہ حضور ﷺ نماز تہجد پڑھتے رہتے تھے اور گھر والوں کو نہ جگاتے مگر جب آپ وتر پڑھتے تو گھر والوں کو بھی جگا کر پڑھنے کا حکم فرماتے ۔
نماز وتر کی قضا بھی ہے :۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَامَ عَنِ الوِتْرِ أَوْ نَسِیَہُ فَلْیُصَلِّ إِذَا ذَکَرَ وَإِذَا اسْتَیْقَظَ۔
( الترمذی أَبْوَابُ الوِتر بَابُ مَا جَاء َ فی الرَّجُلِ یَنَامُ عَن الوِتْرِ أَوْ یَنْسَی و ابن ماجہ و ابو داوٗد )
حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ فرمایارسول اللہ ﷺ نے جو وتر سے سو گیا یا بُھول گیا تو جب بھی اس کا یاد آئے یا جب بھی جاگے تو ضرور پڑھے ۔
نماز ِوتر کو نماز عشاء کے بعد ساتھ پڑھ لینا :۔
پہلے روایت گزر چکی ہے کہ نماز وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد سے شروع ہو کر صبح صادق تک رہتا ہے اور اس سارے وقت میں کسی بھی وقت وتر پڑھنا جائز ہے ہاں افضل وقت آخر رات یعنی نماز تہجد کاصبح صادق سے پہلے کا وقت ہے کہ اس وقت کی نماز میں ملائکہءِ رحمت نازل ہوتے ہیں انہی کے نزول کی وجہ سے وہ وقت افضلیت کا ہے مگر صبح جاگنے کا معمول نہ ہو توفورًا عشاء کے بعد وتر پڑھ لینا جائز ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ خَافَ أَنْ لَا یَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوتِرْ أَوَّلَہُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَقُومَ آخِرَہُ فَلْیُوتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ، فَإِنَّ صَلَاۃَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْہُودَۃٌ، وَذَلِکَ أَفْضَلُ ۔
(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا باب من خاف أن لا یقوم من آخر اللیل فلیوتر أولہ)
حضرت جابرٍ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس کو خوف ہر کہ وہ آخر رات میں بیدار نہ ہو سکے گا وہ وتر اوّل ہی وقت (بعد عشاء ) پڑھ لے اور جس کو اُمید ہو کہ وہ آخر رات میں اُٹھ جائے گا تو اسے وتر آخر رات میں پڑھنے چاہیں کیونکہ آخر رات میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں لہذا وہ افضل وقت ہے ۔
نماز وتر اور نوافل تہجد کے رکعتوں کی تعداد:۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی قَیْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: بِکَمْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوتِرُ؟ قَالَتْ: کَانَ یُوتِرُ بِأَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ، وَسِتٍّ وَثَلَاثٍ، وَثَمَانٍ وَثَلَاثٍ، وَعَشْرٍ وَثَلَاثٍ، وَلَمْ یَکُنْ یُوتِرُ بِأَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ، وَلَا بِأَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ۔
(ابو داوٗدکتاب الصلاۃ أبواب قیام اللیلباب فی صلاۃ اللیل )
حضرت عبد اللہ بن ابی قبیس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا کہ حضور ﷺ کتنے وتر پڑھتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ چارا ور تین ، چھ اور تین ، آٹھ اور تین ، دس اور تین اور کبھی کبھی سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ نہ ہوتے تھے ۔
تشریح :۔
یہاں سیدہ عائشہؓ نے حضور ﷺ کے تہجد اور وتر کے رکعتوں کی تعداد بیان فرمائی چونکہ حضور ﷺ کا معمول مبارک نوافل تہجد کے ساتھ وتر پڑھنے کا تھا اس لئے ان تمام رکعتوں کو وتر بول دیا جاتا ہے ۔جناب سیدہ عائشہ ؓ کے بیان سے بالکل صاف ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نوافل تہجد کبھی چار ، کبھی آٹھ اور کبھی دس پڑھتے اور وتر ہمیشہ تین ہی پڑھتے تھے اور یہ کل تعداد سات(4 نفل 3 وتر ) سے کم اور تیرہ (دس نفل 3وتر )سے زیادہ نہ ہوتی تھی ۔ جبکہ ابن عباس ؓ سے 12نوافل تہجد کی روایت بھی بخاری ج ۱ ابواب التہجد باب استعانۃ ۔۔۔ فی الصلٰوۃ حدیث 1119پر وتر سنتِ فجر ان کے علاوہ ہیں ۔
مسلم شریف میں ایک روایت سے ظاہر ہے کہ سید ہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے انتہائی حسین و جمیل اور لمبی چار چار نوافل تہجد کی رکعتیں پڑھیں فصلّی ثلاثًا اور آخر میں تین رکعتیں ادا فرمائیں اور یہ بھی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے وتر کی پہلی رکعت میں فلاں دوسری میں فلاں اور تیسری میں فلاں سورۃ تلاوت فرمائی جس سے ان کا تین عدد ہونا ظاہر ہے ۔ چونکہ یہ عمل کثیر ہے اور اس کو حضور ﷺ نے اختیار بھی زیادہ فرمایا اور بیان بھی سیدہ عائشہ ؓ کا ہے کہ آپ یہ نوافل و وتر انہی کی موجودگی میں گھر ہی پڑھتے تھے اسی بنیاد پر احناف عمل بھی تین و تروں کا ہے اور اس روایت سے یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی کہ حضور ﷺ نوافل تہجد ہمیشہ آٹھ ہی پڑھتے تھے لہذا انہی کو معمول بنا کر ہمیشہ آٹھ رکعت ہی آٹھ رکعت ہی تراویح پڑھنی اس لئے کہ نہ تو ہمیشہ آٹھ کا معمول ہے کیونکہ معمول رسول ﷺ تو تہجد بارے چار سے دس تک تبدیل ہو رہا ہے پھر آٹھ پر دوام کیسا ؟ جس روایت میں پہلی دوسری اور تیسری رکعت وت اور ان میں سورتوں کا تعین کیا گیا ہے وہ روایت یہ ہے ۔
عَنْ عَبْدِ العَزِیزِ بْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَائِشَۃَ، بِأَیِّ شَیْء ٍ کَانَ یُوتِرُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: ” کَانَ یَقْرَأُ فِی الأُولَی: بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی، وَفِی الثَّانِیَۃِ بِقُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ، وَفِی الثَّالِثَۃِ بِقُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ، وَالمُعَوِّذَتَیْنِ۔
(الترمذی أَبْوَابُ الوِترِبَابُ مَا جَاء َ مَا یُقْرَأُ فی الوِتْر )
حضرت عبد العزیز بن خُریج ؓسے روایت ہے کہ ہم نے سید ہ عائشہ ؓ سے پُوچھا کہ حضور ﷺ وتر میں کونسی سورتیں پڑھتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا پہلی رکعت میں سبح اسم ربّک الاعلٰی ، دوسری میں قل یایھا الکٰفرون اور تیسری میں سورہ اخلاص اور معوّذتین تلاوت فرماتے ۔
اس سے ظاہر ہوا کہ وتر تین پڑھتے اور ایک سلام سے پڑھتے ۔ جہاں معاملہ گھر کے اندر کا ہو تو سیدہ عائشہ ؓ یا کسی بھی گھر والی کی گواہی زیادہ معتبر ہے بجائے کسی صحابی کے جو آپ کے گھر نہیں رہتا ہے ۔
اقامت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھنا :۔
احناف فجر میں اگر اقامت ہو بھی جائے تو پیچھے الگ کسی جگہ سنتِ فجر ادا کرکے شریک جماعت ہوتے ہیں اس بارے مسلم شریف کی ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ
‘‘ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوبَۃُ۔
(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا باب کراہۃ الشروع فی نافلۃ بعد شروع المؤذن)
کہ جب اقامت ہو جائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی دوسری نماز پڑھنا جائز نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث قابلِ حجّت نہیں ۔ اس لئے کہ امام بخاری ؒ کی نظر میں اس روایت کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اس کو کتاب الاذان باب اذا اُقیمتِ الصلوٰۃ میں اس کو ترجمۃ الباب تو بنایا مگر اس باب میں اس روایت کو ذکر نہ کرکے اس کے ناقابلِ حجت ہونے کا اشارہ بھی دے دیا ورنہ باب میں اس روایت کو سند کے ساتھ ضرور لکھتے پھر دوسرا اشارہ یہ دیا اس باب میں ان کے پاس صرف ایک ہی صحیح حدیث تھی جس پر انہوں نے اعتماد کیا اور وہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ جماعت کھڑی ہو جائے تو سنتیں جائز نہیں بلکہ اس روایت سے ثابت ہے کہ اقامت کے بعد حضور ﷺ نے ایک صحابی کو نماز پڑھتے دیکھا مگر اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا ۔ روایت یہ ہے ۔
عن مالکٍ ابن بحینۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلًا وَقَدْ أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ یُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِہِ النَّاسُ، وَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا۔
( بخاری کتاب الاذان باب اذا اقیمت الصلوٰۃ )
اس روایت میں ایسا کوئی لفظ نہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہو تو نے ایسا کیوں کیا آئندہ نہ کرنا ۔ بلکہ یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ فجر میں صرف دو سنت اور دو فرض یعنی کل چار رکعتیں ہیں ۔ اس سے زائد نوافل اس وقت میں نہ پڑھے جائیں ۔
جماعت کی اہمیت بھی امام بخاری ؒ سے سنتے جائیں ۔
عن عائشہ ؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: إِذَا وُضِعَ العَشَاء ُ وَأُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ، فَابْدَء ُوا بِالعَشَاء۔
(بخاری کتاب الاذان باب اذا حضر الطعام و اُقیمت الصلوٰۃ )
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب شام کا کھانا چُن دیا جائے اور اُدھر اقامت ہو جائے تو نماز کی بجائے پہلے کھانا کھا لو ۔ بعد میں نماز پڑھ لینا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا اس سلسلہ میں عمل :۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بھی مذکورہ بالا روایت فرماتے ہیں کہ جب کھانا لگ جائے اور نماز بھی کھڑی ہو جائے تو پہلے تسلّی سے کھانا کھالو اور فارغ ہو کر پھر نماز پڑھو اب ان کا اس پر عمل ان الفاظ سے ہے ۔
وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ: یُوضَعُ لَہُ الطَّعَامُ، وَتُقَامُ الصَّلاَۃُ، فَلاَ یَأْتِیہَا حَتَّی یَفْرُغَ، وَإِنَّہُ لَیَسْمَعُ قِرَاء َۃَ الإِمَامِ۔
(بخاری کتاب الاذان باب اذا حضر الطعام و اُقیمت الصلوٰۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکے سامنے کھانا اگر رکھا جاتا اور ساتھ جماعت کھڑی ہو جاتی تو آپ نماز کو نہ آتے جب تک کھانے سے فارغ نہ ہو جاتے اور کھانے کے دوران امام کی تلاوت سنتے رہتے اور کھانا کھاتے رہتے ۔
تشریح:۔
جب یہ ثابت ہوا کہ اگر جماعت کھڑی ہو جائے اور کھانا تیار ہو تو پہلے کھانا کھا لینا جائز ہے جب جماعت کے وقت کھانا کھاتے رہنا جائز ہے تو وہ فجر کی دوسنتیں جن کو حضور ﷺ نے دنیا و مافیھا سے افضل قرار دیا ان کا پڑھنا کیوں جائز نہ ہو ۔ پھر وہ نمازی جو فجر کی سنتیں ابھی پڑھ رہے ہیں اور اقامت ہو گئی ان کی سنتوں کا کیا بنے گا جو اڑوس پڑوس میں گھروں میں نوافل پڑھے جا رہے ہیں ان کا کیا حکم ہے ۔
وتر کے بعد دونوافل پڑھنا :۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی بَعْدَ الوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔
(أَبْوَابُ الوِتر بَابُ مَا جَاء َ لا وِترَانِ فی لَیلَۃٍ، ابن ماجہ ، زاد ابن ماجہ حفیفین وہو جالس)
حضرت امّ سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔ ابن ماجہ نے یہ زیادہ کیا کہ بیٹھ کر بہت ہلکی پڑھتے تھے ۔ یہ بلکہ پڑھنے کی بات بخاری میں بھی ہے ۔
کیا وتر کے بعد دو نوافل بیٹھ کر ہی پڑھے جائیں؟ :۔
جناب امّ سلمہ ؓ کے علاوہ سید ہ عائشہ ؓ اور ابو امامہ ؓ سے بھی یہی روایت کیا گیا کہ یہ نوافل حضور ﷺ بیٹھ کر پڑھتے تھے جس سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو بیٹھ کر ہی پڑھنا ا فضل ہے جبکہ حقیقت یہ نہیں ۔ حضور ﷺ واقعی بیٹھ کرہی پڑھتے تھے مگر اس کو افضل تصور کرنے والے اس روایت کو سمجھیں عبد اللہ بن عمر ؓ سے صحیح مسلم میں روایت ہے ۔ کہ انہوں نے جب حضور ﷺ کو یہ نوافل بیٹھ کر پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ جناب مجھے تو آپ کے حوالے سے کسی نے بتایا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے مقابلہ میں آدھا ثواب ملتا ہے اور آپ بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں؟ توآپ نے فرمایا ہاں بات تو یہی ہے مگر میں اس معاملہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔
تشریح:۔
یعنی یہ بات درست ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو آدھا ثواب ملتا ہے مگر میرا معاملہ تم سے الگ ہے اور مجھے بیٹھ بھی پورا ثواب ملتا ہے اور میرے سوا جو بھی ان کو بیٹھ کر پڑھے اس کو آدھا اجر ملتا ہے الہذا معلو م ہوا کہ آدھا اجر لینا ہو تو ان نوافل کو بیٹھ کر اور اگر پورا ثواب لینا ہو تو کھڑے ہو کر پڑھیں۔
‘‘میں تمھاری طرح نہیں ’’کا مطلب:۔
حضور ﷺ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں تمھاری طرح انسان اور بشر ہی ہوں اور یہ بھی فرما تے ہیں کہ ‘‘اَیّکُم مثلی ، انّی لستُ کھیتِکم ’’ میری مثل تم سے کون ہے اور میں تمھاری طرح نہیں ۔ محمد بن اسحاق نے ثوربن یزید سے مرفوعاًنقل کیا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ ان دو سفید پوش افراد میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ان کو ان کی امت کے دس آدمیوں سے وزن کرو ،وزن کیا تو میں بھاری نکلا ، پھر کہاسو آدمیوں سے وزن کرو پھربھی میں بھاری نکلا ، ایسے ہی ہزار سے وزن کیا تو بھی بھاری نکلا ،پھر کہا کہ بس کرو اگرو اللہ ان کو تمام امت سے وزن کرو گے تو یہی وزنی نکلیں گے ۔روایت کیا اس کو علامہ اشرف علی صاحب تھانویؒ نے نشر الطیب میں آٹھویں فصل کی روایت نمبر پانچ پر اور سیرت ابن ہشام کا حوالہ بھی دیا ۔ بخاری ج اکتاب الغسل باب اذا جامع ثم عاد و من دار علی نساء ہٖ فی غسلٍ واحدٍ میں۔ روایت ہے کہ حضور ﷺ ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج کے پاس دورہ (مجامعت) ایک ہی رات دن میں فرمالیتے جب اس حدیث کے راوی قتادہ ؓنے حضرت انس ؓ سے پوچھا کہ کیا آ پکے اندر اتنی طاقت تھی ؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں آپﷺ میں تیس مردوں کی طاقت تھی ان دنوں ازواج کی تعداد گیارہ یا نو تھی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب حضور ﷺفرماتے ہیں کہ میں بھی تمھاری طرح بشر ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نفسِ بشریت وآدمیت اور کچھ عوارضاتِ بشریت میں مماثلت کا اظہار فرمارہے ہیں نہ کہ مقام ِنبوت کی برابری کا اور جب آپ اپنا امتیاز ذکر فرماتے ہیں تو اس سے مراد نفس ِبشریت کی نفی نہیں بلکہ کمالات و ٖفضائل میں آپ دوسروں سے امتیاز بیان فرماتے ہیں ،لہذا نہ تو حضورﷺ کی بشریت کا انکار ممکن ہے اور نہ ہی آپ کے امتیازی فضائل کا جہاں خاص فرشتوں اور انبیاء کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ۔ و اللہ اعلم ۔
کیا مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ؟:۔
نما زکا عمومی حکم اور پھر حضورﷺ کا عمل سے پڑھ کر دکھانا اور پھر فرمانا کہ اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے یہ عام بات ہے اس کے باوجود مرد و عورت کی نماز میں معمولی فرق ہے بنیادی شرائط قریباً ایک ہی ہیں اور احناف عورتوں کو نماز میں معمولی مردوں سے تبدیلی کی بات کرتے ہیں جبکہ عمران ایوب لاہوری صاحب نے اپنی تصنیف نمازکی کتاب میں ۱۷۱ پر دعویٰ کیا کہ مرد وعورت میں نماز میں کوئی فرق نہیں ۔ اب فرق ملاحظ ہو ۔
۱:۔ سترِ عورت مرد وعورت کا بالکل الگ ہے اور نما زمیں بھی عورت مردوں سے زیادہ سترِ عورت رکھتی ہے اسی ستر عورتکے اضافی ہونے کی وجہ سے ہی معمولی فرق آتا ہے ۔مرد اگر ناف سے گھٹنے تک کپڑا رکھتا ہوتو نماز پڑھ سکتا ہے جبکہ عورت کا سوائے چہرے ،ہتھلیوں اور قدموں کے کچھ بھی ننگانہ ہواسی امتیاز کی وجہ سے اس کو تعلیم دیتے ہیں کہتبیر تحریمہ کت بعد ہاتھ اپنی اوڑھنی کے نیچے با پردہ کرکے باند ھ لے ۔ اسی ستر ِ عورت کی غرض سے اس کو سینہ پر ہاتھ باندھنے کا بتاتے ہیں اور یہ عمل خود حضور ﷺ سے ثابت ہے جس پر اعتراض ممکن نہیں اور حضور ﷺکی مختلف سنتیں بھی زندہ رہیں کہکچھپر مردوں اور کچھ پر عورتوں نے عمل کر لیا دوسرا بڑا فرق بیٹھنے کا ہے کہ وہ بائیں قدم پر بیٹھنے کی بجائے پاؤں ایک طرف نکال دے اور چو تڑ پر بیٹھے یہ عمل بھی حضور ﷺ سے بوقت ِ علالت اور عبداللہ بن عمر ؓ سے بڑ ھاپے میں ثابت ہے لہذا یہ بھی ‘‘ صلّو کما رَاَیتُمونی اُصلّی ’’کے عموم میں داخل ہے کہ حضور ﷺ نے یہ کب فرمایا کہ میری عذروالی نماز کی نقل نہ کرنا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو جب کسی نے اعتراض کیا کہ یہ کس طرح بیٹھے ہو توفرما یا میں بوڑھا ہوں قدموں پر نہیں بیٹھ سکتا عورت صنف ِ نازک ہے اگر اس طرح بیٹھ جائے تو کیا اعتراض۔
۲:۔ عورت کے لیے اوڑھنی لازم مرد کے لیے نہیں ۔
۳:۔ مردوں کے لیے اگلی صفیں عورتوں کیلیے پچھلی ۔ مردوں کی پہلی صف افضل عورتوں کی سب سے پچھلی افضل عورتیں مردوں کی اقتداء میں نماز پڑھتی ہیں مرد عورتوں کی اقتداء میں نہیں ۔
۴:۔ مرد نمازمین سبحا ن اللہ سے اشارہ دیتا ہے عورت صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر۔ابن ماجہ نے نا فع سے انہوں نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ‘‘ التسبیح للرجال والتصفیق للنسآء ’’ امام بخاری اور ابوداو’د اغیرہ نے ابو ھریرہ ؓ سے روایت ان الفاظ سے روایت کی ‘‘ التصفیق للنسآء التسبیح للرجال ’’کہ مرد نماز میں سبحا ن اللہ کہنے سے اور عورت ہاتھ مارنے سے اطلاع کرے ۔اگر اس روایت کو صحیح مانتے ہو تو ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک بھی اور احادیث میں کچھ فرق تو ہے ۔پھر عورت کا کاندھوں تک ہاتھ اٹھا نا یہ سنت ِ نبوی سے بھی ثابت ہے کہ حضور ﷺ کاندھوں برابر ہاتھ اٹھا ئے جب احناف کی عورتیں سنت پر عمل کر رہی ہیں تو اعتراض فضول بن جاتا ہے اور عورت کی پر دہ داری بھی اسی میں ہے کہ وہ تحریمہ کے وقت ہاتھ زیادہ بلند نہ کرے کہ ستر ِ عورت میں خلل آ سکتا ہے اوریوں کہ احناف کے مرد کانوں برابر اور عورتیں کاندھوں برابر ہاتھ بلند کرتی ہیں اس طر ح حضور ﷺ کی اس حولے تمام احادیث پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ بخاری میں ہے کہ جب عورتیں حضور ﷺ کیسا تھ شریک جماعت ہوتیں تو سلام کے بعد مردوں کو اس وقت تک اٹھنے کی اجازت نہ ہوئی جب تک عورتیں چلی نہ جاتیں یہ بھی ان کی ستر پورشی ہے یہی مدعا ہمارا ہے اب اگر آپ کو پسند نہ ہو تو جو چاہو کرو آپ کو کون پابند کر سکتا ہے ۔ یہ بھی فرق ہی ہے کہ مردوں کا اما مالگ کھڑا ہوتا ہے عور ت اگر عورتوں کی امامت کرے توصف ِ اول کے اندر ہو گی کہ الگ کھڑی پر شیطانی نظر الگ سے پڑسکتی ہے ۔ ثابت ہوا کہ شریعت عورت کو محفوظ بنانا چاہتی ہے یہی ہماری رائے ہے جو شریعت سے ہے ۔اگر احناف کی عورت کاندھوں کی بجائے کانوں تک ہاتھ بلند کتے یا سینہ کی بجائے ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جبکہ سینہ پر معقول ہے کہ چھاتی دو پٹے کے نیچے سے اوبھری ہوئی نظر نہ آئے یا اگرمردوں کی طرح نماز میں بیٹھ جائے تو احناف نے کب کہا کہ اس کی نما زنہیں ہوگی لیکن آپ تنگ نظر ہیں آپ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اگر عورت اہلِ حدیث کی ہو اور احنا ف کی عورتوں کی طرز پر نماز پڑھے تو ہوجائے گی اگر تنگ نظر نہیں ہو تو اعلان کرو کہ احنا ف عورتوں کی نماز بھی ٹھیک ہی ہے ۔
بیس رکعت تراویح کا بیان:۔
یہاں بھی اہل حدیث بھائی شدید غلط فہمی کا شکار ہیں وہ اس طرح کہ ان کے خیال میں رمضان میں کوئی اضافی نوافل حضور ﷺ سے ثابت نہیں جبکہ رمضان کے فضائل اضافی عبادت کا تقاضا کرتے ہیں اور خود حضور ﷺ کے قول و عمل سے بھی اضا فی تر غیب ثابت ہے اگر وہی معمول کے نوافل تھے تو کمر بستہ ہونے کی رمضان میں کیا ضرورت ؟پھر اہل حدیث ایک حدیث سے غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں وہ یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہرمضان اور غیر رمضان میں آٹھ نوافل تہجد اور تین وتر کل گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے اس بارے حدیث وتر کے باب میں گزر چکی کہ حضور ﷺ سے دس نوافل سوائے وتر کے بھی ثابت ہیں دوسرا یہ کہ ہمیں یہ روایت تسلیم ہے کہ حضور ﷺ رمضان وغیر امضان میں نوافل تہجد اتنے پڑ ھتے تھے کیو نکہ یہ روایت حضورﷺکے نوافل تہجد بارے ہے اور صاف بتا رہی ہے کہ اس کا رمضان سے کو ئی واسطہ اور خصوصیت نہیں یہ تو عام معمول ِ تہجد ہے رمضان اور غیر رمضان میں اس پر تو محترم بحث نہیں ۔ہماری بحث اس کے علاوہ رمضان میں معمول سے اضافی نوافل سے ہے اور ہمارے پاس اس کی دلیل ہے اور آپ کے پا س اپنے عمل کی دلیل نہیں کہ حضور ﷺ ہمیشہ ہر رات لازماً آٹھ ہی نوافل پڑ ھتے ہوں اور پورا مہینہ جماعت سے پڑھتے ہوں ۔ اگر آپ کے پورا مہینہ آٹھ ر کعت با جماعت با قاعدگی سے تراویح نوافل کی نیت سے پڑ ھنے کی دلیل تو انتظار رہے گا اب ہمارے دلائل پیش ِ خدمت ہیں ۔
۱: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً سِوَی الْوِتْرِ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی باب من اسمہ احمد، ابن ابی شیبہ و و البیہقی زاد البیہقی فی غیرِ جماعۃ )
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں سوائے وتروں کے بیس رکعت پڑھتے تھے بیہقی نے زیادہ کیا کہ بغیر جماعت کے پڑھتے تھے۔
جن روایت میں ہے تین دن جماعت کیساتھ پڑھیں ان سے مراد یہ نہیں کہ بغیر جماعت کے پڑھی ہی نہیں ۔پھر جس روایت سیدہ عائشہ ؓ سے آپ چپکے ہوئے ہیں اس میں تو جماعت کا نام ہی نہیں اور ہو نا بھی نہیں چاہیے کہ وہ معاملہ ہی الگ ہے اوربا جماعت تین کی بات تو اما بخاری ؒ بھی تسلیم کرتے ہیں تو جب ایک عمل سنت سے ثا بت ہو گیا اسی کو اگرصحابہ معمول بنا لیں تو کیا اعتراض ؟اور جب یہ وضاحت کی حدیث میں مو جود ہے کہ آپ نے تین دن جماعت سے پڑھنے کے بعد یہ وجہ بھی بتائی کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے عمل کی وجہ سے تم پر فرض ہو جائے جب حضور ﷺ وصال فرما گئے تو فرض ہونے کا خوف جاتا رھا باقی کوئی وجہ نہ پڑھنے کی تھی نہیں تو صحابہ نے اس کو ٹھیک معمول بنایا صحا بہ کا عمل ملاحظہ فرما ئیں۔
۲:۔ عن یزید ابن رومانؓ کان الناسُ یقومون فی زمنِ عُمر الخطاب فی رمضان بثلثٍ وعشرین رکعۃ ۔
عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّہُ قَالَ: کَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِی رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً
(مؤطا امام مالک(تحقیق محمد فواد عبد الباقی بیروت لبنان) باب ما جاء فی قیام رمضان)
روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب ؓ کے زمانہ میں رمضان میں تیئیس ۲۳ رکعتیں یعنی بیس تراویح تین وتر پڑھتے تھے۔ کیا صرف چند سالوں میں صحابہ سنت سے ہٹ گئے تھے جبکہ حضرت عمرجیسا انسان ابھی موجودہے جنا ب عثمان و علی ؓ ابھی موجود ہیں اس روا یت سے بیس تراویح پر صحا بہ کا عملی اجماع ثابت ہو رہا ہے اور وہ بیس رکعت تراویح پڑ ھ رہے ہیں ممکن ہے صحابہ سے زیادہ آپ شریعت کے رموز اور احادیث کے مفاہیم جانتے ہوں ۔
خود امام مالک ؒ مدنی ہیں اور مسجد نبوی کا تواتر سے عمل انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو آج تک حرمین شریفین میں وہی تواتر چلتا آرہا ہے کیو نکہ حرمین کے تواتر کو بدلنا آسان نہیں ۔
۳: عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ: کُنَّا نَقُومُ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِعِشْرِینَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرِ۔
(السنن الصغیرللبیہقی بابقیام شہر رمضان )
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ ہم عمر کے زمانہ میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔
۴:۔ عن اُبیّ ابن کعب ؓ قال انّ عُمر ابن الخطاب ؓ اَمَرَہٗ ان تصلّی باللّیل فی رمضان قال انّ الناس یصُومون النہار ولا یحسِنون ان یَقرأُوا فلو قرأتَ علیھم باللیل یا امیر المؤمنین ھذا شیءٌ لم یکن فقال فقد عَلِمتُ ولکنّہٗ حسنٌ فصلَّی بھم عشرین رکعۃ ۔
عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَیًّا أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ فِی رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ یَصُومُونَ النَّہَار وَلَا یحسنون أَن (یقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَیْہِمْ بِاللَّیْلِ فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ہَذَا (شَیْء ٌ) لَمْ یَکُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَکِنَّہُ أَحْسَنُ فَصَلَّی بِہِمْ عِشْرِینَ رَکْعَۃ ۔
(رواہ ابن مُنیع فی صحیحہٖ،الأحادیث المختارۃ أو المستخرج من الأحادیث، کنز العمال المجلد الثامن صلاۃ التراویح رقم 23471)
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ عمر فاروق ؓ نے رمضان میں لوگوں کو تراویح کا حکم دیا اور فرمایا چونکہ لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور قرآن کو اچھی طرح نہیں پڑ ھ سکتے ۔بہتر ہے کہ تم اس پر قرآن پڑھا کرو تو جس ابی بن کرب کو حکم دیا جارہا تھا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا میں بھی جانتا ہوں کہ پہلے نہ تھا مگر یہ اچھا کام تو ابی بن کعب نے لوگوں کو بیس رکعت پڑھائیں ۔
تشریح:۔ معلوم ہوا سابقہ روایات سے کہ پڑھتے تو پہلے بھی تھے مگر جماعت کا قیام تراویح کیلیے حضرت عمر ؓ کے زمانے سے انہی کے حکم پر ہوا اور سوال کے باوجود انہوں نے اس کو اچھا کیا اور تمام صحابہ نے اس پر عمل کیا کسی کا اختلاف کرنا معلوم نہیں ہوا ۔ پھر یہ حدیث بھی صحیح ہے کہ ‘‘ علیکم بسنّتی و سُنّت الخلفاء الراشدین المھدین ’’ کہ ہم پر حضور ﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے اسی پر آج تک حرمین شریفین میں عمل ہے ۔یہاں یہ مغالطہ دینا کہ خلفاء کی وہ سنت ہم پر لازم ہے جونبی کی سنت ہو یہ درست اس لیے نہیں کہ پھر اس حدیث کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا کہ حضورﷺ کی سنت تواس حدیث کے بیان سے پہلے بھی لازم تھی پھر اس کی کیا ضرورت ۔ دوسری وجہ یہ کہ اگر خلفاء کی وہی سنت لازم ہے جو پہلے سے سنتِ رسولﷺ ہو تو اس حدیث میں خلفاء کی کیا خصوصیت ۔ سنتِ رسولﷺ تو ہر کسی کیلئے قابل عمل ہے ۔ جبکہ سنتِ رسولﷺ کے علاوہ یہ ان کا خصوصی مقام ہے اور خلفاء راشدین نے اس سے مناسب فائدہ اٹھایا جیسے عثمان ؓ نے ایک قرائت پر قرآن کو جمع کرکے باقی سب نسخے جلا دیئے اور جمعہ کے لیے دوسری اذان جاری کی ایسے ہی عمر فاروق ؓ نے بیس تراویح کی جماعت جاری کی ان اعمال کو جملہ صحابہ نے قبول کیا ۔اگر آپ کا پھر بھی اصرار ہو کہ صرف سنتِ نبوی میں خلفاء ِراشدین کی اتباٍع ہے تو اس حدیث کاکیا مطلب ہے ۔
‘‘مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً، فَلَہُ أَجْرُہَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہ۔۔۔ الخر ’’
(کتاب الزکاۃ باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ أو کلمۃ طیبۃ، وأنہا حجاب من النار)
کیا اس سے مراد بھی ۰سنتِ نبوی ﷺ کا اجراء ہے ؟ یہ حدیث مسلم کی ہے اور صحیح ہے ایسے ہی تیسری حدیث ملاحظہ ہو ‘‘ ماراہُ المؤمنون حسنًا فھو عند اللہ حَسَنٌ ’’یہ حدیث بھی حسن ہے دیکھیں مشکوٰۃ سے۔ جناب کی خدمت عالیہ میں التماس ہے کہ احادیث سے بھاگنے کی بجائے سمجھیں اور عمل کریں یاد رہے اگر ایک حدیث کوکسی نے جان بوجھ کر بغیر کسی معقول وجہ کے رد کیا تو یہ در حقیقت گستاخی رسول ﷺ ہے اس سے کم ازکم بچیں ۔زندگی ہمیشہ نہ رہے گی کل شفاعت کیسے ہو گی؟
۵: عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: ” دَعَا الْقُرَّاء َ فِی رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْہُمْ رَجُلًا یُصَلِّی بِالنَّاسِ عِشْرِینَ رَکْعَۃً۔
( البیہقی باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان )
حضرت علی ؓ نے قاریوں کو بلاکر ایک کو حکم فرمایا کہ رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت پڑھائیں۔
بیہقی نے اسی روایت کو عبدالرحمن سلمی سے بھی روایت کیا اور دوسری مرتبہ حضرت ابوالحسناء سے بھی روایت کیا ۔
امام ترمذی ؒ کی شہادت بھی پیش ِ خدمت ہے۔
تر مذی شریف میں باب القیام فی شھرِرمضان میں ہے
وَأَکْثَرُ أَہْلِ العِلْمِ عَلَی مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِیٍّ، وَغَیْرِہِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ، وَابْنِ المُبَارَکِ، وَالشَّافِعِیِّ ” وقَالَ الشَّافِعِیُّ: وَہَکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً۔
(أَبواب الصوم عن رَسُولِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بابُ ما جاء َ فی قِیَامِ شَہرِ رَمضَانَ)
اکثر اہلِ علم صحابہ جیسے علی ؓ وعمر ؓ وغیرہما سے بیس رکعت تراویح ہی روایت کی گئی ہے سفیان ثوری ،اْبن المبارک اورامام شافعی ؒ سے بھی بیس رکعتیں ہی روایت ہوئیں امام شافعیؒنے مزید فرمایا کہ میں نے مکہ والوں کو بھی بیس تراویح پڑھتے پایا۔ جو آج بھی الحمداللہ پڑھ رہے ہیں۔
امام ترمذی ؒنے بات کو پوری وضاحت سے بیان کیا اور ہماری پچھلی تمام پیش کردہ روایات کی تائید کر دی اور امام شافعی ؒ نے بھی مکہ والوں کا عمل اپنے مشاہدہ سے بیان کر دیا اب کیا شک باقی رہا؟
جمہور علماء کاقول:۔
عمدہ القاری شرح بخاری جلد پنجم پر رقم طراز ہیں کہ
وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وَہُوَ قَول جُمْہُور الْعلمَاء ، وَبِہ قَالَ الْکُوفِیُّونَ وَالشَّافِعِیّ وَأکْثر الْفُقَہَاء ، وَہُوَ الصَّحِیح عَن أبی بن کَعْب من غیر خلاف من الصَّحَابَۃ۔
( عمدۃ القاری شرح بخاری باب فضل من قام رمضان)
ابن عبد البرؓ نے کہا اور یہی جمہور علماء اور کو فیوں اور امام شافعی ؒ اور اکثر فقہاء کا قول ہے یہی صحیح ہے ابی بن کعب سے اور صحابہ سے کسی نے اس میں اختلاف نہ کیا ۔
اور امام بیہقی ؒ نے اسناد صحیح کیساتھ صحابہ کا بیس تراویح پر اجماع نقل کیا کہ دور ِفاروقی اور علی ؓ اور عثمان ؓ کے دور میں بیس تراویح پڑھتے تھے جس میں کسی صحابی کا کوئی اختلاف نہ تھا۔
سائب بن یزید کی روایت کا جواب :۔
میں نے امام مالک ؒ سے یزید بن رومان کے حوالے سے بیس رکعت پر حضرت عمر ؓ کے دور ِ مبارک میں روایت پیش کی اور اسی موطاء امام مالک میں اسی یزید بن رومان کے بیٹے سائب بن یزیدکی سند سے حضرت عمر ؓ کے حکم سے گیارہ رکعت کی روایت بھی موجود ہے جس کے دو جواب ہیں۔ایک یہ کہ اس روایت میں ایک راوی محمد ابن یوسف ہیں جن کی روایات میں شدید اضطراب ہے وہ اس طرح کہ اما م مالکؒ نے یہاں ان سے گیارہ رکعت روایت کیں جبکہ محمد ابن نصر مروزی نے انہی سے تیرہ رکعتیں روایت کیں اور محدث عبدالرزاق نے انہی سے اکیس رکعتیں فرمائیں یہ تمام کچھ فتح الباری شرح بخاری ج۴ ص۱۸ مطبوعہ خیر یہ مصر میں ملاحظہ فرمائیں ،لہذا ان کی روایت کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس حوالے سے حضور ﷺ کے معمولا ت ہی الگ الگ رہے ہیں کبھی گیارہ کبھی اس سے کم اور کبھی تیرہ یہ روایت میں وتر کے باب میں ذکر کر چکا تو مختلف معمولات نبوی ﷺ کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ شروع میں گیارہ کا عمل پھر تیرہ اور پھر بیس کا اختیار فرمالیا ہو کہ موطاامام مالک ؒ ہی میں ہے کہ۔
وَکَانَ الْقَاریءُ یَقْرَأُ سُورَۃَ الْبَقَرَۃِ فِی ثَمَانِ رَکَعَاتٍ فَإِذَا قَامَ بِہَا فِی اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً رَأَی النَّاسُ أَنَّہُ قَدْ خَفَّفَ۔
(موطا امام مالک بابُ ما جاء َ فی قِیَامِ شَہرِ رَمضَان)
کہ پہلے قاری آٹھ رکعت میں پوری سورۃ بقرہ پڑھتے تھے پھر جب اس قاری نے سورۃ بقرہ بارہ رکعتوں میں پڑھی تولوگوں نے اسے آسانی محسوس کیا۔ ایسی آسانی کے پیش ِ نظر جناب عمرفاوق ؓ نے پھر بیس رکعت کا معمول اختیار کیا جس کا حوالہ دے چکا ہوں ایسی ہی توجیہ وتطبیق ِ ملا ء علی قاریؒ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃمیں ان مختلف روایات کو دی ہے جو سمجھ آتی ہے جہاں تک سیدہ عائشہ ؓ کی رمضان وغیررمضان بارے روایت کا تعلق ہے اس پر بات گزر چکی کہ وہ خاص تہجد کے حوالے سے ہے تبھی اس میں رمضان وغیررمضان کی بات ہے کہ تراویح غیر رمضان میں تو نہیں ہو تی گویا وہ روایت ہی الگ عمل کے بارے میں ہے اور بخاری میں اسی روایت کے آخر میں صراحت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے پو چھا جناب آ پ وتر سے پہلے سو کیوں جاتے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا میری صرف آنکھیں سوتی ہیں جبکہ دل بیدار رہتا ہے یعنی وضو کے ٹوٹنے سے باخبر رہتا ہوں اور وتر آپ آخری رات ہی پڑھتے جبکہ نوافل تراویح تو اول رات میں ادا ہوتی ہے دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب دورِفاروقی میں جملہ صحابہ بیس تراویح پڑھنے لگے تو اگر مائی صاحبہ کا مذکورہ روایت سے مراد گیارہ تراویح ہوتیں تو اعتراض کیوں نہ کیا ۔ یہ بھی بات سمجھنے کی ہے کہ صحابہ کبار بھی تو حضورﷺ کے جملہ احکامات و معمولات سے باخبر تھے پھر جناب عمر و عثمان وعلی ؓ کے دور خلافت میں بیس رکعت کیسے پڑھیں۔معلوم ہو اکہ آج چودہ سو سال بعد مسئلہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا صحابہ اور بالخصوص خلفاء کو تو سمجھ آہی گیا تھا ۔یہ کیسے تسلیم کریں پاس زندگی بسر کرنے والے جلیل القدر صحابہ کو ایک بات سمجھ نہ آئے آج چودہ سو سال بعد ہم کو سمجھ آجائے ۔ یہ ہماری سمجھ کی نادانی ہے صحابہ کرام کا عمل گردوغبار سے پاک ہے ۔
نماز جنازہ کا بیان
نماز جنازہ کی اہمیت و ضرورت:۔
اسلام کی نظر میں انسان انتہائی مُعزز و محترم مخلوق ہے۔جس کے پیش نظر اسلام انسانی تکریم و احترام کی ہمہ وقت تعلیم دیتا ہے اور اسلام کی ساری تعلیمات سے مقصود انسان کی خیر خواہی اور بھلائی سے یہی وجہ ہے کہ اسلام کہ اسلام انسان کو اُس وقت سے تحفّظ فراہم کرتا ہے جب اِسسان ماں کے پیٹ میں ایک بے جان گوشت کا لوتھڑہ ہوتا ہے اسر جب پیدا ہوتا ہے تو اس کو پاک صاف کر کے اس کے کان میں اذان کے بامقصد و پاکیزہ کلمات کہنے کی تعلیم دیتا ہے اور پھر اس کی پیدا ئش پر صدقہ و قُربانی کی ترغیب دیتا ہے در حقیقت یہ اسلا م کا استقبال ہے جو ہر آنے والے انسان کا کرتا ہے ۔ پھر ساری زندگی اس کے مال جان اور آبرو کو تحفظ دیکر اس کو امن و سکون اور راحت و آرام پہنچاتا ہے اور اس کو اتنا تحفظ دیتا ہے کہ ساری زندگی اس کی غیر موجودگی میں ایسا ایک لفظ بھی بولنے کی اجازت نہیں دیتا جس سے اس کی عزّت مجروح ہو ایسے ہی جب انسان حیات مُستعار کا مقرر وقت پورا کرکے جہان ِ فانی سے کوچ کرتا ہے تو تب بھی اسلام اس کو ایسی تکریم و تعظیم سے خاک کے حوالے کرتا ہے کہ اس سے کوئی خوبصورت و احسن انداز ہو ہی نہیں سکتا ۔ اور پھر اس کی قبر کا تحفظ بھی کرتا ہے کہ اس کو مٹانے کی اجازت دیتا ہے نہ اس پر مکان تعمیر کرنے اور اس پر بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے ۔ جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسلام فورًا اس کے ہاتھ پاؤں درست کرنے اور آنکھیں بند کرنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کھلی آنکھیں نازیبا نظر نہ آئیں اور وقت ِ مرگ کلمہ کی تلقین اور سورہ یسین و رعد کی تلاوت کی تعلیم بھی اُسی کے مفاد میں کہ اس کا آخری کلام کلمہ طیبہ ہو اور جان کُنی میں آسانی ہو پھر اس کو باقاعدہ انتہائی باپردہ غسل اور پھر خوشبو سمیت نیا لباس کفن کی شکل میں پہنا دیتا ہے اور پھر اس کونماز جنازہ کی صورت میں آخری سلامی پیش کرتا ہے اور اہلِ ایمان کی نیک دعاؤں کا تحفہ اس کے ساتھ بیھجتا ہے کہ لمبے اور مشکل سفرِ آخرت میں زادِ راہ بن سکے اور تمام قریبی مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ اس کی آخری سلامی یعنی جنازہ میں شرکت کریں اور اس کے جنازہ کو کاندھا دینے پر اجر عطافرماتا ہے کہ مسلمان بڑھ چڑھ کر اس کو کاندھا میں ایسے ہی جنازہ میں شرکت اور پھر تدفین میں شرکت پر اجر عطا فرماتا ہے تاکہ انتہائی اعزاز سے اِس مسافر کو خاک کے حوالے کیا جا سکے ۔
سچ کہا کسی شاعر نے :۔
آتے ہوئے اذاں جاتے ہوئے نماز اتنے ہی قلیل وقت میں آئے اورچلے گئے۔
نماز جنازہ فقہ حنفی کی روشنی میں:۔
‘‘ وَیقوم المصلّی بِحذاء صدر المیت والصلوٰۃُ ان یُکَبِّرَ تکبیرۃً یَحمِدُ اللّٰہ تعالٰی عَقِیْبَھَا ثُمَّ یُکَبِّر تکبِیْرۃً وَیُصلّی علی النّبی ﷺ ثُم یُکَبِّر تکبیرۃ ً ثالثۃً یَدْعُوْ فِیْھَا لِنَفْسہٖ و للمیتِ وَ للمسلمینَ ثُمّ یُکَبِّر تکبیرۃً رابِعَۃً ویُسلّمُ وَلا یَرْفع یدیہِ الّا فی التکبیرۃِ الاُولٰی ’’۔
(المختصر القَدوری باب الجنائز )
ترجمہ:۔ امام میّت کے سینے کے برابر کھڑا ہو اور یُوں نماز پڑھے کہ تکبیر کہے بعد از تکبیر حمد باری تعالیٰ کرے پھر تکبیر کہے اور نبی ﷺ پر درود پڑھے پھر تکبیر کہے اور دُعا کرے اپنے لئے اور میّت کے لئے اور عام مسلمین کے لئے پھر چوتھی تکبیر کے اور سلام پھیر دے اور ہاتھ صرف پہلی تکبیر پر بلند کرے ۔
تشریح:۔ اس سے ظاہر ہوا کہ احناف کے نزدیک جنازہ بصورتِ نماز صف در صف کھڑے قبلہ رو جماعت کے ساتھ حمد باری تعالیٰ درود شریف اور دعاؤں کا نام ہے۔ اس کی تائید میں حدیث پیش ہے ۔
إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیدِ اللَّہِ وَالثَّنَاء ِ عَلَیْہِ، ثُمَّ لْیُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لْیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاء َ۔
( الترمذی أبواب الدعوات عَن رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلیْہِ وسَلَّم )
ترجمہ:۔ یعنی جب تم میں سے کوئی دُعا کرے تو حمد و ثناءِ رب سے شروع کرے ۔پھر درود شریف پڑھے اور پھر جو چاہے دعا مانگے ۔
اسی فقہی عبارت اور حدیث کی روشنی میں احناف پہلی تکبیر کے بعد حمد باری تعالیٰ پر مشتمل کوئی بھی عبارت پڑھ سکتے ہیں یہی احناف کی ظاہر روایت ہے ۔ ملاحظہ ہو المختصر القدوری شرح المختصر القدوری باب الجنائز حاشیہ نمبر ۱۰ پر ۔ جبکہ بعض احناف نے کہا کہ پہلی تکبیر کے بعد وہی ثناء پڑھے جوعام نمازوں کے افتتاح میں پڑھتے ہیں یہ بات امام حسن ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ سے روایت کی اور اسی روایت نے ظاہر کیا کہ ثناء میں وجلّ ثناءُ ک کا لفظ زیادہ نہ کیا جائے اس لئے کہ یہ لفظ روایت میں غیر محفوظ ہے ۔ یہ عبارت بھی میں نے مذکورہ حوالہ سے نقل کی ۔
اس سے یہ اختلاف بھی ختم ہواکہ جنازہ میں وجلّ ثناء ک پڑھنا چاہیے یا نہیں ۔ ہاں اگر اس لفظ کی تلاش ہو تو جامع الفردوس میں ملے گا مگر ضعیف ۔ لہذا صاف بات یہ ہے کہ احناف عام نمازوں میں معمُول ثناء پر ہی اکتفاء کریں ۔
دوسری تکبیر کے بعد درود شریف کے الفاظ :۔
جیساکہ مذکورہ فقہی عبارت سے ظاہر ہے کہ دوسری تکبیر کے بعدنبی ﷺ پر درود پڑھے اور درود شریف کے الفاظ بھی عین وہی ہیں جو عام پنجگانہ نمازوں میں پڑھا جاتا ہے۔ ہاں یاد رہے کہ نماز ِجنازہ میں درود شریف اتنا ہی کافی ہے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد ۔
لیکن اگر آگے بھی پڑھے تب بھی درست ہے
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد ۔ (المختصر الضروری شرح المختصر القدوری باب الجنائز )
جبکہ امام محی الدین یحیی شرف النوری ؒ نے ریاض الصالحین میں باب مایُقراء فی صلوٰۃ الجنازۃِ میں درود شریف صرف پہلے انّک حمید مجید تک فرمایا ہے ۔ ثابت ہو اکہ جن الفاظ سے درود شریف عام نمازوں کی چھوٹی کتابوں میں ملتا ہے لازم نہیں کہ ان الفاظ سے پڑھا جائے بلکہ یہی درود افضل ہے جو حضور ﷺ نے عام نمازوں میں تعلیم فرمایا ہے ۔
تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھے :۔
تیری تکبیر کے بعد اپنے لئے میّت کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے دُعا کا محل ہے ۔اپنے لئے دعا مانگنا یہ قرآ ن کی کئی آیات سے ثابت ہے کہ جہاں دوسروں کے لئے آپ دُعا کرتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو رحمت الہی کی حاجت ہونی چاہیے لہذا اپنے لئے پہلے دُعا کریں ، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی اپنے حق میں دُعا اور استغفار قبول ہو گا ۔تو آپ کی زبان اس قابل ہوگی کہ میّت کے لئے دُعا کریں اور وہ بھی قبول ہو ۔
چند اٰیات بطور مثال پیش ہیں:۔
ربّنا اغفر لنا و لاخواننا الذین سبقُونا بالایمان ، ربّنا اغفرلی ولوالدَیَّ و للمؤمنین ، ربّنا اغفرلی ولوالدیّ و لمن دخل بیتیَ مؤمنًا ۔۔، ربّنا اغفرلی و لاخی ۔
تیسری تکبیر کے بعد چونکہ موقعِ دُعا ہے تو یہاں کوئی دُعا مخصوص نہیں ۔ احادیث میں دعائیں جہاں ملتی ہیں کہ کسی جنازہ پر حضور ﷺ نے کوئی دعا پڑھی اور کسی پر کوئی دوسری دعا ۔
ہمارے فقہاء نے بھی ان تمام دُعاؤں کو ذکر کیا ہے ملاحظہ ہو بہارِ شریعت مولانا امجد علی مرحوم سے ۔اور احادیث کے مطالعہ سے ہی یہ بھی بات نظر آئی کہ احادیث میں موجود چند دُعائیں کسی ایک جنازہ پر سب پڑھ دینا حضور ﷺ کی سنت نہیں بلکہ کوئی سی ایک دعا پڑھنا معمول تھا ۔ انہی مختلف دُعاؤں میں سے جو عام معمول و مروج ہے وہ یہ ہے ۔
عن أبی ہریرۃ وأبی قَتادۃ وأبی إبراہیم الأشہلی عن أبیہ، وأبوہ صحابی رَضِیَ اللَّہُ عَنہُم عن النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّم أنہ صلی علی جنازۃ فقالاللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا، وَمَیِّتِنَا، وَشَاہِدِنَا، وَغَائِبِنَا، وَصَغِیرِنَا، وَکَبِیرِنَا، وَذَکَرِنَا، وَأُنْثَانَا، اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیہِ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الْإِیمَانِ، اللَّہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہ۔
(ریاض الصلحین کتاب عیادۃ المریض وتشییع المیت والصلاۃ علیہ وحضور دفنہ والمکث عند قبرہ بعد دفنہباب ما یقرأ فی صلاۃ الجنازۃ)
روایت کیا اس دعاکو ترمذی نے حضرت ابو ھریرہ ؓ اور ابراہیم الاشہلی کی روایت سے اور روایت کیا اسی کو ابوداوٗد نے ابوھریرہ ؓ اوراور ابو قتادہ ؓ کی سند سے ۔ حاکم نے کہا کہ یہ حدیث ابوھریرہ ؓ بخاری و مسلم دونوں کی شرط پر صحیح ہے ۔ اور امام الترمذی ؒ نے فرمایا کہ امام بخاریؒ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت سب سے زیادہ ابراہیم الاشہلی ؒکی روایت سے صحیح ہے ۔ امام نووی ؒ نے ریاض الصالحین باب یُقراء فی صلوٰۃِ الجنازۃ میں جنازہ سے متعلق اور اس میں دعاؤں کو جمع فرمایا اور کسی حدیث کی سند پر اتنی بحث نہ کی جس قدر اس مذکورہ دُعا بارے روایت پر بحث کرکے اس کو ثقہ بتایا جس سے احناف میں معروف ومعمول دُعاکی امتیازیت ظاہر ہوتی ہے۔
اسی دعاکے الفاظ نے ہمائی فقہ حنفی کی عبارت کہ مقامِ دعا پر اپنے لئے میت کے لئے اور عام مسلمین کے لئے دعا کی جائے کی خوب مکمل تائیدکر دی کہ اس دعا میں اپنے لئے پھر میت کے لئے پھر تمام مسلمانوں کے لئے دعاکی گئی ہے جبکہ باقی دعاؤں میں یہ جامع انداز نظر نہیں آیا ۔ امام نووی ؒ بھی ہماری تائید میں فرماتے ہیں کہ
ثُمَّ یُکَبِّرُ الثالثۃَ وَیَدْعُوا للمیّت و للمسلمین ۔
(ریاض الصلحین کتاب عیادۃ المریض وتشییع المیت والصلاۃ علیہ وحضور دفنہ والمکث عند قبرہ بعد دفنہباب ما یقرأ فی صلاۃ الجنازۃ)
کہ تیسری تکبیر کے بعد میّت کے لئے اور مسلمین کے لئے دُعا کی جائے ۔ ریاض الصالحین ۔
چوتھی تکبیر کے بعد کیا کرے :۔
جیسا کہ ہماری فقہی عبارت سے ظاہر ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد کچھ نہ پڑھے بلکہ دائیں بائیں سلام پھیر دے ۔ یہی ہمارا احناف کا ظاہر ُ المذھب ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد کچھ نہ پڑھے سلام پھیر دے ۔ جبکہ ہمارے بعض مشائخ نے اس بات کو مُستَحسَنْ جانا کہ چوتھی تکبیر کے بعد
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخَرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار۔ پڑھے اور بعض نے
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا الی الخر
پڑھنی بتائی اور بعض نے
سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ o وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o
تک مگر یہ احناف کا ظاہر مذھب نہیں ۔
جنازہ میں تکبیر تحریمہ کے بعد تکبیرات پر ہاتھ بلند نہ کرے :۔
احناف پہلی تکبیر کے علاوہ باقی تکبیراتِ جنازہ پر ہاتھ بلند کر کے رفع یدین نہیں کرتے حدیث کی بنیاد پر جو یہ ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ عَلَی الْجِنَازَۃِ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ ثُمَّ لَا یَعُودُ
(دار قطنی کتاب الجنائز باب وضع الیمنی علی الیسری ورفع الایدی عند التکبیر)
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کامعمول مبارک یہ تھا کہ جنازہ پر پہلی تکبیر پر ہاتھ بلند فرماتے پھر نہ فرماتے ۔
چوتھی تکبیر کے بعد دعا کا مسئلہ :۔
ہم تو چوتھی تکبیر کے بعد فورًا سلام پھیر نے کی بات کرتے ہیں دعا کی نہیں جبکہ امام نوویؒ نے چوتھی تکبیر کے بعد دعا کی بات تو ضرور کی مگر تمام دعائیں تیسری تکبیر کے بعد بیان کیں چوتھی تکبیر کے بعد ان کے پاس کوئی روایت نہ تھی اور نہ ہی ذکر کی اور جو ایک روایت بیان بھی کی وہ ہماری تائید کر رہی ہے جبکہ امام نووی ؒ کے حدیث کے مطالعہ اور شرح میں اپنا ایک خاص مقام ہے جب ان کے پاس یہاں کچھ نہیں تو کسی اور کے پاس کیا ہو گا ۔ جو روایت انہوں نے پیش کی وہ یہ ہے۔
عن عبد اللَّہ بن أبی أوفی رَضِیَ اللَّہُ عَنہُ: أنہ کبر علی جنازۃ ابنۃ لہ أربع تکبیراتٍ فَقَامَ بَعْدَ التَّکْبِیرَۃِ الرَّابِعَۃِ بِقَدْرِ مَا بَیْنَ التَّکْبِیرَتَیْنِ یَسْتَغْفِرُ لَہَا وَیَدْعُو، ثُمَّ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ہَکَذَا۔
(ریاض الصالحین کتاب عیادۃ المریض وتشییع المیت والصلاۃ علیہ وحضور دفنہ والمکث عند قبرہ بعد دفنہ باب ما یقرأ فی صلاۃ الجنازۃ)
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ نے اپنی بچی کے جنازہ پر چار تکبیر یں پڑھیں چوتھی کے بعد دو تکبیروں کے مابین کی مقدار کھڑے استغفار اور دعا کرتے رہے پھر فرمایا حضور ﷺ ایسا ہی کرتے تھے ۔
اس روایت کو خود ہی اگلی روایت سے ضعیف ثابت کر دیتے ہیں اس سے آگے فرماتے ہیں۔
وفی روایۃ،کبر أربعاً فمکث ساعۃ حتی ظننت أنہ سیکبر خمساً ثم سلم عن یمینہ وعن شمالہ، فلما انصرف قلنا لہ: ما ہذا؟ فقال: إنی لا أزید علی ما رأیت رَسُول اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّم یصنع، أو ہکذا صنع رَسُول اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّم۔
(رواہ حاکم و قال حدیث حسن صحیح ۔ریاض الصالحین کتاب عیادۃ المریض وتشییع المیت والصلاۃ علیہ وحضور دفنہ والمکث عند قبرہ بعد دفنہ باب ما یقرأ فی صلاۃ الجنازۃ)
ایک روایت کہ مطابق عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ نے چوتھی تکبیر کہی تو رُکے رہے کچھ دیر یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ یہ ابھی پانچویں تکبیر کہیں گے مگر انہوں نے دائیں بائیں سلام پھیر ا اور ہماری طرف پھر کر فرمایا کہ جو کچھ میں نے حضورﷺ کو کرتے دیکھا تھا اس سے کچھ زیادہ نہ کیا اس کو امام حاکم ؒنے روایت کیا اور حدیث حسن صحیح کہا جس سے ثابت ہوا کہ ایک تو جنازہ کی تکبیرات صرف چار ہیں۔ جس پر بخاری میں کئی روایات ہیں دوسرا یہ معلوم ہوا کہ چوتھی کے بعد کھڑے تو لمحہ بھر ہوئے مگر پڑھا کچھ نہیں ۔ اس روایت کو حاکم ؒنے صحیح کہا جس سے ظاہر ہے کہ اوپر والی صحیح نہیں کہ وہ اس کے خلاف ہے اور وہ محفوظ بھی نہیں کہ اس میں بات ہی نامکمل ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد دعا کا ذکر ہے مگر سلام کا ذکر کیے بغیر بات شروع کی گئی ہے۔ پھر جنازہ سے فراغت کے بعد دونوں روایات میں ان کی وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ان کا تفرّد ہے معمول نہیں ورنہ وضاحت کرنے یا مقتدیوں کو حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
جآء الحق کی پیش کردہ روایت کی حقیقت :۔
مولانا احمد یار خان گجراتیؒ نے جاء الحق حصّہ اول باب دعا بعد از نماز جنازہ کی تحقیق ۔ میں عبد اللہ بن ابی اوفیٰؓ کی روایت کا پہلا انداز بیان کرنے کی کوشش فرمائی مگر روایت کے الفاظ عربی عبارت میں نامکمل رہے جبکہ ترجمہ میں ان کو ذکر کر دیا گیا ہے عین ممکن ہے کہ کاتب سے یہ الفاظ درج کرنا بھول گئے ہوں۔ البتہ جو الفاظ انہوں نے جاء الحق میں ذکر کیے ان کا ترجمہ یہ نہیں جو مولانا نے کیا ہے ۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہاں عبد اللہ بن ابی اوفیٰ سے دو راوی روایت کرتے ہیں پہلا ضعیف اور دوسرا قوی ہے امام حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بات بھی اس نے مکمل اور محفوظ کی جبکہ مولانا احمد یار گجراتی ؒ نے ثقہ روایت کو چھوڑ کر ضعیف اور نامکمل روایت سے استدلال کیا اور جو استدلال کیا وہ بھی قبول اس لئے نہیں کہ انہوں نے اس روایت سے نماز ِ جنازہ کا سلام پھرجانے کے بعد دعا ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ یہ بات سلام کے بعد کی نہیں بلکہ چوتھی تکبیر کے بعد اور سلام سے پہلے کی ہے ۔ لہذا ان مذکورہ وجوہات سے ان کا استدلال مناسب نہیں ۔
جنازہ کیا نماز ہے یا دعاء ؟ :۔
اس بارے انصاف کی بات یہ ہے کہ جنازہ من وجہ نماز ہے کہ اس کے لئے طہارت ، قیام ِ جماعت ، قبلہ رُو ہونا ، کپڑوں کی طہارت ، صف بندی اور تکبیرات و سلام اس میں موجود ہیں لہذا مطلق نماز ہونے کا انکار مناسب نہیں جبکہ دوسری نظر سے اگر دیکھاجائے تو کئی وجوہات سے یہ باقاعدہ عمومی نمازوں کی طرح ہرگز نماز نہیں بلکہ یہ ایک طرح کی اندازِ نماز سے دُعا ہے ۔ اس لئے کہ تمام نمازوں کے اوقات مقرر ہیں اس کا کوئی وقت نہیں سوائے اوقاتِ مکروھہ کے رات ہو یا دن جنازہ جائز ہے پھر اس میں قرأت ، اذان و اقامت ، رکوع ، سجود ،تشہد قومہ و جلسہ وغیرہ کچھ نہیں اور یہ فرض نمازوں کی طرح سب پر فرض بھی نہیں اور نہ ہی اس کے آخر میں سجدہ سہو جیسی کوئی چیز ہے ۔ پھر اس کی میّت سامنے رکھ کر پڑھنا اور قبر پر پڑھنا بھی ثابت ہے جبکہ باقی نمازیں نہ قبروں پر ہوتی ہیں نہ میّت کے برابر ہوتی ہیں لہذا اس کے دُعا کا پہلوغالب نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ امام بخاری نے صلوۃ الجنازہ کا باب قائم کیا اور نہ ہی ہمارے فقہاء نے اس کو صلوۃ الجنازہ کہا بلکہ امام بخاریؒ نے کتاب الجنائز کا لفظ استعمال کیا اور ہمارے فقہاء نے باب الجنائز بتایاحالانکہ یہاں نماز کے حوالے سے صلوٰۃ الکسوف ، صلوٰۃ الاستسقاء اور صلوٰۃ الخوف پیچھے سے چل رہے ہیں تو یہا ں صلوٰۃ الجنازہ کا لفظ استعمال ہوتا مگر ایسا نہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عوام میں نماز جنازہ کیوں مشہور ہے ۔
تو عرض ہے کہ عوامی الفاظ کا شرع میں کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ۔ عوام صرف اس لئے نماز کہہ رہے ہیں کہ امام ہے جماعت ہے اور صف بندی ہے باقی عوام کیا جائیں ۔ اور علماء تو بخوبی جانتے ہیں صلوٰۃ صرف نماز کو ہی نہیں کہتے بلکہ دُعا کو بھی عربی میں صلوٰۃ ہی کہتے ہیں جس کا اُردو ترجمہ دُعا یا نماز دونوں کرلئے جاتے ہیں مگر مناسبت کا لحاظ رکھا جاتا ہے یہاں صلوٰۃ کا ترجمہ دُعا کرنا ہی مناسب ہے نہ کہ نماز کیونکہ یہی لفظ قرآن میں بھی استعمال ہو رہا ہے پیش ِ خدمت ہے ۔
سورہ نور میں ہے ۔
کُلٌّ قَدْعَلِمَ صَلٰوتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ ۔(نور41:)
ہر چیز اپنی دُعا اور تسبیح کرنا خوب جانتی ہے ۔ یہاں صلوٰۃ ترجمہ دُعا ہے کہ نماز تو ظاہر ہے ہر چیز نہیں پڑھتی ۔ پھر خاص کر جب صلوٰۃ کا صلہ علیٰ ہو تو خاص معنی دُعا ہی ہوتا ہے ۔ جیسے
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتُہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًْا۔ (سورۃاحزاب )
یہاں دونوں جگہ معنی نماز نہیں کہ اللہ اور ملائکہ بھی نماز پڑھتے ہیں حضور ﷺ کی اور اے ایمان والوں تم بھی حضور ﷺ کی نماز پڑھو بلکہ یہاں معنی نزولِ رحمت اللہ تعالیٰ کے لئے اور ملائکہ اور اہل ایمان انسانوں کی طرف سے دُعا ہے ۔ جو حضور ﷺ کے حق میں نزول رحمت کے لئے کی جاتی ہے ۔اسی سورہ احزاب میں میں ہے ۔
ہُوَالَّذِیْ یُصَلِیْ عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہٗ ۔
وہی اللہ ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے حق میں نزولِ رحمت کی دُعا کرتے ہیں نہ کہ یہ معنی ہے کہ اللہ بھی تمہاری نماز پڑھتا ہے اور اس کے فرشتے بھی ۔ سورۃ التوبہ ایت ۱۰۳ میں ہے ۔
وَصلّ علیھم انّ صلوٰتَکَ سکنٌ لھم ۔
اے رسول ﷺ آپ دُعا کریں اِن کے لئے بے شک آپ کی دُعا ان کے لئے باعث تسکین ہے ۔ یہاں دونوں جگہ صلوٰۃ کا معنی دعا ہے نہ کہ نماز اس لئے کہ جب صلوٰۃ کا صلہ علٰی ہو تو معنی دعا ہی کیا جاسکتا ہے اور نماز جنازہ کاصلہ بھی علیٰ ہے جیسے
ولا تُصلِّ عَلٰٓی احدٍ منھم مات ابدًا ولا تقُمْ عَلیٰ قبرہٖ ۔( سورہ توبہ آیت ۸۴)
اورنہ پڑھیے جنازہ کسی پر ان منافقین میں سے جو مر جائے کبھی بھی اور نہ ان کی قبر پر کبھی کھڑے ہوں ۔ اسی آیت کے مفہوم مخالف سے جنازہ ثابت ہے ۔
نمازوں کی نسبت اللہ کی طرف جبکہ جنازہ کی نسبت میت کی طرف ہوتی ہے:۔
ملاحظہ فرمائیں جب نمازوں کی بات ہوئی تو فرمایا ۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (الانعام ۔۱۶۳)
یعنی نماز اللہ رب العالمین کے لئے ہے پھر فرمایا
اَقِمْ الصلوٰۃ لِذکرِیْ ۔
نماز میرے ذکر کے لئے قائم کرو ۔ جبکہ جنازہ ذکرِ خداوندی کی غرض سے نہیں بلکہ دُعا ء للمیّت کی غرض سے ہوتا ہے اور ذکر الہیٰ تبرّکًا شامل دُعا ہوتا ہے ۔اور جنازہ پر دعا کی نسبت اللہ کی بجائے میت کی طرف ہوتی ہے جیسے زید عمرو بکر کا جنازہ نہ کہ اللہ تعالیٰ کا جنازہ ۔ احادیث سے بھی جنازہ کا دعا ہونے کا پہلو غالب نظر آتا ہے ملاحظہ ہو ۔
۱۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ: إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوا لَہُ الدُّعَاء ۔
(ابو داوٗد کتاب الجنائزباب الدعاء للمیت وغیرہ)
جب تم میت پر نماز پڑھو تو خاص اُسی کے لئے دعا کرو ۔ یہاں بھی صلّی کاصلہ علی ہے جو دعا کو ظاہر کرتا ہے ۔جس کا ترجمہ یوں بھی ہے کہ جب تم میت پر دعا کرو تو پورے خلوص ِ دل سے اس کے لئے دعا کرو۔
۲۔ ابو ہریرہ ؓ سے ہی اسی ابو داوٗد میں روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک جنازہ پر دعا پڑھی جس کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔
جِءْنَاکَ شُفَعَاء َ فَاغْفِرْ لَہُ ۔(ابوداؤد کتاب الجنائزباب الدعاء للمیت)
کہ ہم سارے جنازہ کی صورت میں تیرے حضور حاضر ہی اس مقصد کیلئے ہوئے کہ ہم میّت کی سفارش کریں لہذا اس کی بخشش فرما ۔ ان دونو ں احادیث نے جنازہ کی دعا ہونے کے پہلو کا واضح کر دیا ۔چونکہ جنازہ میں نماز کی بجائے دعا کا پہلو غالب ہے اسی لئے جنازہ میں تلاوتِ قرآن نہیں جبکہ نمازوں سے اصل مقصود تو تلاوت قرآن ہی ہوتا ہے باقی اس کے توابع ہوتے ہیں ملاحظہ ہو ۔
أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ لاَ یَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ۔
(موطا امام مالک باب ما یقول المصلی علی الجنازۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ جنازہ میں تلاوتِ قرآن نہ کرتے تھے ۔
اس حوالے سے عینی شرح بخاری ج۲ باب قرأۃ الفاتحہ علی الجنازہ ایک عبارت ملاحظہ ہو ۔
وَمِمَّنْ کَانَ لَا یقْرَأ فِی الصَّلَاۃ علی الْجِنَازَۃ وینکر: عمر بن الْخطاب وَعلی بن أبی طَالب وَابْن عمر وَأَبُو ہُرَیْرَۃ، وَمن التَّابِعین: عَطاء وطاووس وَسَعِید بن الْمسیب وَابْن سِیرِین وَسَعِید بن جُبَیر وَالشعْبِیّ وَالْحکم، وَقَالَ ابْن الْمُنْذر: وَبِہ قَالَ مُجَاہِد وَحَمَّاد وَالثَّوْری، وَقَالَ مَالک: قِرَاء َۃ الْفَاتِحَۃ لَیست مَعْمُولا بہَا فِی بلدنا فِی صَلَاۃ الْجِنَازَۃ۔
(عمدۃ القاری شرح بخاری باب قرأۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ)
جو حضرات جنازہ میں قرأت ِ قرآن سے انکار کرتے تھے ان میں سے یہ حضرات بھی ہیں ۔ عمربن خطاب ، علی ابن ابی طالب وعبداللہ بن عمر وابو ھریرۃ ؓ اور تابعین سے عطاء اور طاؤس اور سعید بن مسیّب اور ابن سیرین اور سعید بن جبیر ؓ اور شعبی اور حاکم ، ابن منذر ، مجاھد ، ثوری اور امام مالک ؒ نے کہا کہ جنازہ میں فاتحہ پڑھنا ہمارے شہر (مدینہ ) میں معمول ہی نہ تھا جب مدینہ کے جنازوں میں فاتحہ معمول نہ تھا تو معمولات ِ نبوی ﷺ تو مدینہ کی سر زمین سے پُھوٹے ۔ اگر فاتحہ جنازوں میں حضور ﷺ کا عام معمول ہوتا تو اہل مدینہ کا لازمی معمول ہوتا ۔ امام مالکؒ کا یہ فرمانا واضح کر دیتا ہے۔کہ فاتحہ جنازہ میں نہیں ۔ اسی موطاء میں امام مالک ؒ نے ابو ھریرہ ؓسے یہ بھی روایت کیا ۔
عمنّ سُئِلَ ابا ھریرۃ کَیْفَ یُصَلَّی عَلَی الْجَنَازَۃِ؟فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: أَنَا، لَعَمْرُ اللہِ، أُخْبِرُکَ. أَتَّبِعُہَا مِنْ أَہْلِہَا. فَإِذَا وُضِعَتْ کَبَّرْتُ. وَحَمِدْتُ اللہ وَصَلَّیْتُ عَلَی نَبِیِّہِ. ثُمَّ أَقُولُ: اللَّہُمَّ عَبْدُکَ، وَابْنُ عَبْدِکَ، وَابْنُ أَمَتِکَ. کَانَ یَشْہَدُ۔
(موطا امام مالک باب ما یقول المصلی علی الجنازۃ)
جب ابوہریرہ ؓ سے سوال ہوا کہ آپ جنازہ پر کیا پڑھتے ہیں ؟ تو فرمایا تیری عمر کی قسم میں تجھے خبر دیتا ہوں کہ میں گھر سے ہی جنازہ کے ساتھ چلتا جب جنازہ رکھاجاتا تو میں تکبیر کہتا اور اللہ کی حمد پڑھتا اور اس کے نبی ﷺ پر درود پڑھتا پھر یہ دعا پڑھتا اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے بندے کا بیٹا ہے اور تیری بندی کا بیٹا ہے اور یہ تو حید و رسالت کی گواہی دیتا تھا لہذا اس کی مغفرت فرما۔
یہاں جو ترتیب امام مالک ؒ نے ابو ھریرہ ؓ سے بیان کی یہی ترتیب یعنی حمد پھر درود پھر دعائیں فقہ حنفی سے بیان کر چکا جبکہ ابوھریرہ ؓ ہی سب سے زیادہ احادیث کا علم رکھتے تھے اب واضح ہوا کہ احناف کی ترتیب عین حدیث کے مطابق ہے ۔
جنازہ میں فاتحہ پڑھنا:۔
امام مالک ؒ کے حوالے سے ذکر کرچکا کہ مدینہ میں ان کے مبارک زمانہ میں جنازہ میں فاتحہ کامعمول نہ تھا اور یہی مدنی معمول ہمارا بھی ہے کہ جنازہ میں فاتحہ نہیں ۔ امام بخاری ؒ نے بخاری ج ۱۔ کتاب الجنائز میں باب قرأۃ فاتحہ الکتاب باندھا مگر اس میں کوئی حدیث لانے کی بجائے حضرت حسن بصری تابعی ؒ کا قول ذکر کیا کہ۔
وَقَالَ الحَسَنُ: ” یَقْرَأُ عَلَی الطِّفْلِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ وَیَقُولُ: اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَسَلَفًا وَأَجْرًا ۔
(بخاری کتاب الجنائز باب قرأۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ)
کہ حسن بصری ؒ بچوں کے جنازہ پر فاتحہ پڑھتے اور اللّٰھم اجعلہ لنا فرطًا الخر ۔ پڑھتے یہی دعا احناف بھی بچوں کے جنازوں پر آج بھی پڑھتے ہیں ۔ حسن بصریؒ کے قول سے معلوم ہوا کہ فاتحہ بچے کے جنازے پر پڑھی جائے ۔ اسی باب کے تحت امام بخاری اگلی روایت یوں لاتے ہیں ۔
عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَلَی جَنَازَۃٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ قَالَ: لِیَعْلَمُوا أَنَّہَا سُنَّۃٌ۔
(بخاری کتاب الجنائز باب قرأۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ)
حضرت طلحہ ابن عبد اللہؓ نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ کے پیچھے جنازہ پڑھا تو انہوں نے فاتحۃ الکتاب پڑھی اور فرمایا تاکہ یہ لوگ جان جائیں کہ یہ بھی سنت طریقہ ہے ۔ عین ممکن ہے یہ بھی کسی بچے کا جنازہ ہو کیونکہ ایسے ہی باب میں امام بخاری نے اس کو محفوظ کیا پھر یہ اثر بھی ہے نہ کہ مرفوع حدیث ۔ پھر اس روایت کے آخری الفاظ کہ یہ لوگ جان جائیں کہ یہ بھی ایک سنت ہے بچے کے جنازے میں ۔ ان الفاظ سے بالکل عیاں ہے کہ فاتحہ ہر جنازے کا لازمی حصّہ نہ تھا ورنہ ابن عباسؓ کویہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ بھی سنت ہے کیونکہ عام معمول کو تو سب جانتے ہیں بتانے کی کیا ضرور ت ؟ واضح ہوا کہ فاتحہ معمول نہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی روایت بھی فاتحہ کی جنازہ میں نہیں ۔
اور نہ ہی ابن عباس ؓ کے علاوہ کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت ہے کہ جنازہ میں فاتحہ پڑھی جائے ہاں ایک روایت مشکوٰۃ ، ترمذی ، ابوداوٗد اور ابن ماجہ میں انہی عبد اللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ عَلَی الجَنَازَۃِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ ۔
(ترمذی أبوابُ الجنائزِ عن رسولِ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّم بابُ ما جاء َ فی القراء ۃِ علی الجنازۃِ بفاتحۃِ الکتابِ)
کہ حضور ﷺ نے کسی جنازہ پر فاتحہ پڑھی مگر یہ بھی ممکن ہے کہ بچے کا جنازہ ہو کیونکہ اس روایت میں اجمال ہے معلوم نہیں کہ بچے کا جنازہ تھا یا بڑے کا دوسرا یہ کہ یہ حدیث ہی انتہائی ضعیف ہے چنانچہ ترمذی میں اسی روایت بارے ہے کہ
حَدِیثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِیثٌ لَیْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاکَ الْقَوِیِّ، إِبْرَاہِیمُ بْنُ عُثْمَانَ ہُوَ أَبُو شَیْبَۃَ الوَاسِطِیُّ مُنْکَرُ الحَدِیثِ۔
ابو عیسیٰ ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ حدیث ِ ابن عباس ؓ کی اسناد قوی نہیں اس لئے کہ اس میں ابراہیم بن عثمان ہے جو شیبۃ کا ابّو ہے وہ منکر الحدیث ہے یعنی جس کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ اور جہاں تک
لا صلوٰۃ لمن لم یقرأُ بفاتحۃ الکتاب
والی روایت کا تعلق ہے اس بارے پہلے بحث ہو چکی ہے ۔ مزید عرض ہے کہ یہ روایت اکیلے نماز پڑھنے والے کے لئے ہے جماعت کے نہیں اور جنازہ جماعت سے ہی ادا ہوتا ہے نہ کہ الگ ۔ ملاحظ ہو ابو داوٗد شریف میں کتا ب صلوٰۃ میں جہاں یہ حدیث لاصلوٰۃ لمن یقرا بفاتحۃ الکتاب درج ہے وہاں ساتھ یہ بھی ہے ۔وقال ابو سفیان الثوری ؒ لواحدٍ ۔ یعنی اس روایت میں جس فاتحہ کو نماز میں لازم قرار دیا گیا ہے ۔وہ انفرادی نماز پڑھنے والے کے لئے ہے جماعت والے کے لئے نہیں کیونکہ جماعت میں امام پڑھ لیتا ہے ۔پھر یہ حدیث کمالِ نماز کی نفی پر محمول ہے مطلق نماز کی نفی پر محمول نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر فاتحہ پہلی رکعتوں میں رہ جائے تو چونکہ ترکِ واجب ہو ا لہذا سجدہ سہو سے نماز ہو جائے گی ۔ ایسے ہی ‘‘ لا صلوٰۃ فی جوارِ المسجد الاّ فی المسجد ’’ اور پھر ‘‘ لا وضوءَ لمَن لّم یَذکرِ اسمَ اللہ عَلَیہِ ’’ (ابن ماجہ ، ترمذی ) میں بھی مطلق صلوٰۃ یا وضو کی نفی نہیں بلکہ کمالِ صلوٰۃ اور کمالِ وضو کی نفی ہے اس بات کی تائید دار قطنی کتاب الوضو ء کی اس روایت سے ہوتی ہے ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ تَوَضَّأَ وَذَکَرَ اسْمَ اللہِ تَطَہَّرَ جَسَدُہُ کُلُّہُ، وَمَنْ تَوَضَّأَ وَلَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللہِ لَمْ یَتَطَہَّرْ إِلَّا مَوْضِعُ الْوُضُوء ِ۔
(سنن دار قطنی کتاب الطہارۃ باب التسمیۃ علی الوضوء،السنن الکبریٰ ایضا)
حضور ﷺ نے فرمایا جو وضو میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کا سارا بدن وضو سے پاک ہوجاتاہے اور جو وضو میں اللہ کا نام نہ لے تو اس کے صرف وضو کے اعضاء ہی پاک ہوتے ہیں یعنی اس کا وضو تو ہو جاتا ہے مگر اس طرح کامل نہیں جیسے وہ اللہ کا نام لیتا تو مکمل ہوتا ۔
لہذا امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ جنازہ میں فاتحہ کے قائل نہیں جبکہ امام احمد بن حنبل ؒ اور امام شافعی ؒ جنازہ میں فاتحہ کے قائل ہیں امام شافعی ؒ فرماتے ہیں چونکہ جنازہ من وجہ نماز ہے اور نماز بغیر فاتحہ کے نہیں ہو سکتی تو ہماری گزارش ہے کہ اگر یہی دلیل ہے تو جناب کوئی نماز اگر فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی تو فاتحہ کے علاوہ باقی تلاوت ِ قرآن کے بغیر بھی کوئی نماز نہیں ۔ آخر وہ کونسی نماز ہے جس میں فاتحہ ہو اور باقی تلاوتِ قرآن نہ ہو ؟ ۔ فرائض مکتوبہ پنچگانہ ، جمعہ و عیدین ،کسوف و خوف وغیرھم کوئی ایک بھی بغیر قرأت کے نہیں ۔ لہذا اگر عام نمازوں پر قیاس سے فاتحہ لازم ہے تو پھر صرف فاتحہ نہیں قرأت بھی لازم ہے جو فاتحہ کے علاوہ ہو ۔
اگر قرأت علاوہ فاتحہ کے بغیر نماز جنازہ ہو جاتا ہے تو فاتحہ کے بغیر کیوں نہ ہو ؟ ۔ یہ تو اس طرح ہے کہ نماز جنازہ چونکہ نماز ہی ہے اور حکم قرآنی ہے ‘‘ و اقیمُوا الصلوٰۃ ’’ جو مردوں عورتوں سب کو حکم ہے لہذا عورتیں بھی شامل جنازہ ہوں کہ نماز ہے جب اللہ نے عورتو ں کو جنازہ میں شامل ہونے کا حکم دیا تو انکو کون روک سکتا ہے ؟جبکہ ایسا نہیں کہ عورتوں کی شرکت کو حضور ﷺ نے جنازہ سے روک دیا ہے ۔
کیا جنازہ کی جملہ دعائیں سراّپڑھی جائیں یا جہرًا:۔
چونکہ ہماری نظر میں جنازہ دعا ہی ہے اور حمد و ثنا ء اور درود اس دُعا کے توابع ہیں لہذا دُعا میں سرّ اولیٰ ہے کہ حکم ربانی ہے ۔
۱۔ اُدعُوا ربکم تضرّعًا وّ خُفْیۃ ۔ (سورہ الاعراف آیت ۵۵)
۲۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ ۔(سورہ الاعراف آیت ۲۰۵)
۳۔ اِذْ نَادٰی رَبَّہ نِدَآء ً خَفِیًّا ۔( سورہ مریم آیت ۳)۔
ان تینوں آیات کا تقاضاہے کہ دُعا آہستہ پڑھی جائے ۔ اِسی وجہ سے جنازہ کی دعائیں ہم آہستہ پڑھتے ہیں ہاں اگر کوئی جہرًا دعائیں پڑھ دے تو ممانعت بھی نہیں اور حضور ﷺ نے تعلیم اور اظہارِ جواز کے لئے جنازہ کی دُعاؤں کا جہرًا بھی پڑھا اور صحابہ نے سن کر یاد بھی کیں اور روایت بھی فرمائیں ۔ مگر جب امام جہرًا پڑھے گا تو مقتدی صرف سماعت کریں گے ورنہ جہر سے پڑھنے کا امام کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا ۔
احناف کے نزدیک جنازہ میں میّت کا سامنے ہو نا شرط ہے :۔
چونکہ حضور ﷺ سے عمومی روایات سے یہی ثابت ہے کہ آپ ﷺ میّت سامنے رکھ کر جنازہ پڑھتے تھے اور اگر میّت دفن ہو چکی بعد میں حضور ﷺ کو علم ہوا تو بخاری میں اس حوالے سے تین روایات ہیں کہ حضور ﷺ نے ان کی قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھی ۔ اگر حضور ِمیّت شرط نہ تھا تو حضور ﷺ قبر پر تشریف نہ لے جاتے اور بغیر میّت کے جنازہ پڑھ لیتے مگر ایسا نہ فرمایا ۔ ساری زندگی یہی معمول رھا سوائے ایک نجاشی ؒکے جنازہ کے ۔ اس کی وجہ حضور ﷺ کی خصوصیت بھی ہو سکتی ہے اور جیسے بعد از معراج بیت المقدس سامنے کر دیا گیا ممکن ہے نجاشی ؒ کا جنازہ سامنے کر دیا گیا ہو اور اصل وجہ میری ذاتی نظر میں یہ ہے کہ نجاشیؒ عیسائیوں کا بادشاہ ہونے کی وجہ سے نہ تو اس کی میت کو حاضر کیا جا سکتا تھا اور نہ وہاں کوئی چند مسلمان تھے جو اس کا جنازہ پڑھتے لہذا عذر کی بنا پر آپ ﷺ نے پڑھا جس سے اتنی بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ اگر آج کوئی مسلمان ایسے غیر مسلم علاقے میں فوت ہو جس پر نہ وہاں کوئی جنازہ پڑھیں اور نہ ہی میت ہمارے حوالے کریں تو عذر کی بنا پر غائبانہ جنازہ جائز ہو نا چاہیے جس طرح پرندے کو گردن پر سے ذبح کرنا ہوتا ہے مگر شکاری پرندہ چونکہ ہاتھ میں نہیں لہذا عذر کی بنا پر جہاں سے بھی زخمی ہو کر مرے تو حلال ہے ۔ جانور کو گلے سے ذبح کرنا لازم ہے مگر کنوئیں میں گر جائے اور گلے سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو عذر کی بنا پر اوپر سے تیز دھار آلے سے زخمی کر دیں عذر کا یہی ذبح ہے ۔ ایسے ہی اگر حضور ِ میّت ممکن نہ ہوا ور وہاں اس پر کوئی جنازہ بھی پڑھنے والا نہ ہو تو عذر کی وجہ سے غائبانہ جنازہ ہو گا ۔ اس کے علاوہ نہ کبھی سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی یہ قرینِ قیاس ہے کہ جنازہ پڑھنے نہ جاؤ گھر میں ہی غائبانہ ادا کرو ۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی آپ ﷺ تمام جنازوں میں تو شریک نہ ہو ئے مگر کسی کا بھی سوائے نجاشیؒ کے غائبانہ جنازہ تو آپ ﷺ نے نہیں پڑھا اور نجاشیؒ کی وجہ میں نے ذکر کر دی ایسا ہی ایک اور جنازہ ہو ا وہاں بھی میّت کو شہد کی مکھیوں نے اسطرح گھیر رکھا تھا کہ قریب جانا ممکن نہ رہا تو عذر کی وجہ سے غائبانہ پڑھا گیا۔ اب روزانہ کا معمول وہ عمل نہیں بنایا جاتا جو عمل آپ ﷺ نے زندگی میں ایک مرتبہ کیا ہو بلکہ اس کو معمول بنایا جاتا ہے جس کو حضور ﷺ نے معمول بنا رکھا ہو اور بار بار کیا ہو ۔ یہ کیا معقولیت ہے کہ ہزاروں جنازے میت کو سامنے رکھ کر پڑھے وہ معمول نہ بنائیں اورایک جو بغیر مّیت کے پڑھا اس کو روزانہ کا معمول بنا لیں ۔ پھر میّت سامنے نہ ہو تو اس کو جنازہ کون کہتا ہے کیونکہ جنازہ تو کہتے ہی میّت کے چارپائی پر ہونے کو ہیں ۔ جب میّت نہیں تو جنازہ کس کو کہیں گے ؟ ۔
اگر فاتحہ جنازے میں پڑھا جائے تو احناف اس پر کیا حکم لگاتے ہیں :۔
احناف نے پہلی تکبیر کے بعدحمدباری تعالی کی بات کی ہے اگر فاتحہ کو حمد کی نیت سے پڑھے تو کوئی حرج نہیں ایسے ہی فاتحہ چونکہ حمدوثناء کیساتھ دعا بھی ہے لہذا اگر اس کو دعا کے مقام پر پڑھا جائے دعا کی نیت سے تب بھی جائز ہے کہ فاتحہ کے دعا ہونے سے بھی انکار نہیں ہاں اگر فاتحہ کو حمدوثناء یا دعا کی نیت سے نہیں بلکہ قرأت وتلاوت ِ قرآن کی نیت سے پڑھا تو مکروہ ہو گا کہ سنت سے ثابت نہیں۔ملاحظہ ہو احناف کی عبادت
وَفِی الْخَزَانَۃِ لَا بَأسَ بِقِرَأْۃِ الْفَاتِحَۃِ بِنِیَّۃِ الثَّنَآءِ وَاِنْ قَرَأَھَا بِنِیّۃِ الْقرَأۃِ کَرِہَ ۔
خزانہ فقہ حنفی کی کتاب ہے اس میں ہے کہ فاتحہ جنازہ میں اگر حمدوثناء کی نیت سے پڑھی تو کوئی حرج نہیں اور اگر قرأت کی نیت سے پڑھی تو مکروہ ہے۔ظاہر ہے مکروہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جنازہ ہی نہ ہو۔
یہ عبارت المختصر الضروری شرح المختصر القدوری باب الجنائز حاشیہ یحمد اللہ تعالیٰ نمبر ۱۰ پر موجود ہے۔
جنازہ کا سلام پھیرنے کے بعد دعا کا کیا حکم ہے:۔
چونکہ جنازہ از خود سراسر دعا ہے یہی وجہ ہے کہ جنازہ کے بعد دعا احادیث سے ثابت نہیں اور فقہاء سے بھی ثابت نہیں بلکہ کراہت ثابت ہے۔اس کراہت کا حکم مکروہ تنزیہی کا ہے اس لیے کہ مکروہ تحریمی وہ ہے جس کی حرمت خبرِ واحد یا قولِ صحابی سے ثابت ہوچونکہ دعابعداز نمازجنازہ کی حرمت خبرِ واحد یا قولِ صحابی سے ثابت نہیں لہذا یہ مکروہ تحریمی نہیں بلکہ مکروہ تنزیہی ہے اورمکروہ تنزیہی کا حکم توضیح تلویح میں باب الکراہیت میں یہ لکھا ہے کہ مکروہ تنزیہی وہ عمل ہے جس کا کر لینا جائز اور نہ کرنا بہتر ہو۔لہذا دعا بعد از نماز جنازہ کر لینا جائز عمل ہے اور نہ کرنا بہتر ہے۔ہاں ایک وجہ سے اس کی یہ کراہت بھی ختم ہو جاتی ہے کہ جنازہ کے فوراً بعد نہ مانگی جائے بلکہ فاتحہ وقل شریف پڑھنے کا وقفہ دے کر یا صدقہ وغیرہ کا وقفہ دیکر جیسے کچھ علاقوں میں معمول ہے اب اگر معمولی وقفہ سے دعا کی جائے تو کراہت بھی ختم ہو جاتی ہے کہ جب جنازہ سے متصل نہ ہوئی تو بعد میں تو عمومی آیاتِ دعا سے مطلقاً ثابت ہے لہذا مکروہ نہ ہوئی افغانستان ،سرحد اور چندسال پہلے تک پورے برصغیر میں اسی انداز ومفہوم سے مروج تھی ۔
عام معمولِ مسلمین بن جانے سے بھی کراہت ختم ہو جاتی ہے جیسے اوجھڑی کھانا مکروہ ہے مگر عام مسلمانوں میں ہر جگہ معمول ہے لہذا کراہت ختم ہو گئی۔ اوجھڑی چٹ کر جانا اور دعا پر سیخ پا ہونا یہ کیا معقولیت ہوئی ؟ اوجھڑی اگر آپ کے پیٹ کا مسئلہ ہے تو دعا میت کے حق میں اس کا مسئلہ ہے لہذا میت کے حق کو پیٹ سے مقدم رکھیں کہ معذور و حاجت مندہے۔ اور اس عنوان پر آخری گزارش یہ ہے کہ اس دعا کی متصل کراہت یوں بھی ختم ہو جا تی ہے کہ جنازہ کے اندر دعائیں عربی میں ہیں ہمارے نمازیوں کو آتی نہیں اگر عر بی دعا آتی ہے تو مفہوم سے بے خبر ہیں لہذا انہوں نے جنازہ تو پڑھ لیا ،مگر دل سے میت کے لیے دعا کر نے سے محروم رہے لہذا آخر میں اپنی زبان میں شعوری دعا کھل کر مانگیں کہ مجبورمیت کا فائدہ ہو سکے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جسطرح دعا بعداز جنازہ اگر مکروہ تنز یہی ہے تو جناب عربی خطبہ جمعہ سے پہلے جناب کا اپنی زبان میں تقریر وبیان بھی مکروہ ہے کہ حدیث سے یہاں ثابت ہے اور نہ فقہاء سے مگر چونکہ ہم معذور ہیں عربی خطبہ سمجھتے نہیں اس لیے غیر عربی بیان کی بد عت نکال لی اور عذر کی وجہ سے یہ بیان نہ مکروہ رہااور نہ بدعت بلکہ بد عت ِحسنہ کی خوبصورت مثال بن گیا عین اسی طرح دعا بعداز جنازہ فاتحہ وقل شریف پڑھوا کر دعا کریں تو میت کو ایصالِ ثواب بھی خوب ہوگا اور اب یہ دعا تلاوت پر ہوگی نہ جنازہ کے بعد پر اس طرح کراہت کا شبہ بھی نہیں رہتا کہ ایک نئے عملِ تلاوت پر دعا ہوگئی۔
جنازہ سے متعلق چند ضروری مسائل:۔
مسئلہ:۔ نمازِجنازہ مسجد جماعت مین نہ پڑھا جائے بلکہ جنازہ گاہ، عید گاہ یا کسی بھی کھلی جگہ پڑھا جائے کہ یہی سنت سے ثابت ہے ۔ ایک دفعہ حضورﷺ نے مسجد میں پڑھا مگر اس کا کوئی عذر تھا کہ جناب اعتکاف میں تھے یا بارش تھی۔ہاں اگر بارش ہو اور کوئی دوسری جگہ محفوظ نہ ہو تو اب بھی عذر سے مسجدمیں جنازہ پڑھا جاسکتا ہے۔ جنازہ کو مسجد جماعت میں نہ پڑھنے کی حکمت عام نمازوں کی حکمت عام نمازوں کی جماعت کو امتیاز دینا ہے اور نوافل کی جماعت کی کراہت میں بھی یہی حکمت وعلت پنہاں ہے۔مسجد جماعت سے میری مراد وہ مسجد ہے جہاں نماز پنجگانہ کی جماعت ہوتی ہو ورنہ تو جنازہ گاہ اور عید گاہ کو بھی عرف میں مسجد کہا جاتا ہے احناف کی عبارت اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو ۔
وَلَا یُصَلَّی عَلَی مَیِّتٍ فِی مَسْجِدٍ جَمَاعَۃً) لِقَوْلِہِ – عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَا أَجْرَ لَہُ۔
(العنایہ شرح الہدایہ باب الجنائز فصل فی الصلوٰۃ علی المیت)
یعنی میت پر جنازہ مسجدِجماعت میں نہ پڑھا جائے۔
مسئلہ:۔ جب میت کو چار پائی پراٹھائیں تو چاروں پایوں سے ایک ایک آدمی کم ازکم اٹھائے نہ کہ دو آدمی اٹھائیں۔چاروں طرف سے چارپائی پکڑنے میں میت کے گرنے سے تحفظ بھی مقصود ہے اور تکریم میت بھی۔
مسئلہ:۔ میت کو لیکر جلدی چلیں مگر ایسی دنکی چال نہ ہو جس سے میت کو جھٹکے لگیں کہ گرنے کا بھی خطرہ ہے اور تکریم و وقار کے بھی خلاف ہے ۔
مسئلہ:۔ جب میت کو لیکر جنازہ گاہ پہنچیں تو جنازہ کو زمین پر رکھنے سے پہلے لوگوں کا بیٹھ جانا مکروہ ہے ۔
مسئلہ:۔ اگر جنازہ میں مردوعورت وبچے وغیرہ ہوں تو امام کے قریب پہلے مرد میت پھر بچے اور پھر عورت کا جنازہ ترتیب پائے۔ اگر سب مرد ہیں تو جو افضل ہوں ان کو امام کے قریب رکھا جائے۔
مسئلہ:۔ قبر کو عام آدمی کے سینے برابر گہرا کریں اور اگراس سے زیادہ گہری ہو تو افضل ہے اور میت کی حفاظت ہے۔
مسئلہ:۔ میت کو قبر میں قبلہ کی طرف سے رکھا جائے اور رکھتے وقت پڑھے بِسْمِ اللَّہِ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِاورمیت کا رخ قبلہ رْو کر دے اور کفن پر لگائی گرہیں اب کھول دے کہ حاجت ختم ہوگئی۔
مسئلہ:۔ قبر کی تعمیر میں سادگی اختیار کرتے ہوئے سادہ چیزوں یعنی کچی اینٹوں اور پتھروں کا استعمال کیا جائے کہ یہ جائے فخر ومبا حات اور مقام زینت نہیں مقامِِ بلاوعبرت ہے ۔یہ کہنا غلط ہے کہ جس چیز کو آگ نے چھواہو استعمال نہ کی جائے کیونکہ خود کفن کی تیاری بھی آگ کے بغیر نہیں اور گرم پانی سے غسل کروایا دھاں بھی آگ کا اثر تو ہوا۔
مسئلہ:۔ اگر بچے کی پیدائش کے وقت زندہ ہونے کے آثار پائے گئے اور ساتھ ہی فوت ہو گیا تو نام بھی رکھیں غسل دیں اور جنازہ پڑھیں اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوا تو نہ نام رکھیں نہ جنازہ بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں۔
مسئلہ:۔ خود کشی کرنے والے کا جنازہ بھی پڑھاجائے گا۔ باغی اور ڈاکو کا جنازہ نہ پڑھا جائے اگر دورانِ بغاوت یا دورانِ ڈاکہ مارے جائیں۔
مسئلہ:۔ اگر میت کا جسم کسی بھی وجہ سے پورا نہیں مل سکا کہ سامنے رکھکر جنازہ پڑھیں تو پھر اگر نصف جسم ہے اور سر کا حصہ ہے اور سر بھی موجود ہے تو سامنے رکھا جائے۔ اگر جسم کابہت ہی کم یا کچھ حصہ ملا توسامنے رکھنے کی ضرورت نہیں ۔ مسئلہ :۔ اگر نمازِ جنازہ شروع ہو گیا اور کوئی بعد میں آیا تو جہاں بھی آکر ملے شامل ضرور ہو اور اپنی ترتیب رکھ کے پہلے ثناء پھر تکبیر کے بعد درود اور پھر تکبیر کے بعد دعا ۔ ہاں یہ یاد رکھے کہ ایک تکبیر اس کی وہ شمار ہوگئی جو شامل ہوتے ہوئے کہی بعد ازاں امام کیسا تھ اپنی تکبیر یں گنتا جائے اور اگر امام سلام پھیردے تو یہ سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی کل تکبیریں پہلی تکبیر سمیت چار پوری کرے اور بعد ازاں سلام پھیر دے۔
مسئلہ:۔ میت کی فو تگی سے تین دن تک گھر والے تعزیت کریں ۔ دعا وتلاوت وغیرہ کرتے رہیں اور عام لوگ انہی ابتدائی تین دنوں کے اندر ہی ممکن ہو تو تعزیت کر لیں اور تیسرے دن اجتماعی دعا میت کے حق میں کرکے تعزیت ختم کردیں ۔ اسی تعزیت کی اختتامی دعا کو برِ صغیر کے عرف کے حق میں قلِ شریف سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ یہ کوئی الگ مستقل شرعی حکم نہیں اور تلاوت وذکروصدقہ وخیرات واعمالِ خیر سے ایصالِ ثواب کسی بھی وقت جائز ہے ہاں اگر کسی دن کو باعث ِ خیروبرکت تصور کرتے ہوئے تلاوت وصدقہ وخیرات کے لیے خاص کیا تو جا ئز ہے مگر اس کو تعین انسان یقین کرے تعین شریعت تصور نہ کرے کہ شریعت نے ایصالِ ثواب کو مطلق رکھا کسی خاص دن سے متعین نہ کیا ۔ جب تعینِ عبد سمجھاجائے تو پھر تیجہ و چا لیسواں بھی سمجھ آجائے گا کہ تیجہ تو ہے ہی تعزیت کا دراصل اختتام اور چالیسواں بھی مطلق ایصالِ ثواب کو بندے نے اپنے لیے یوں متعین کیا جیسے بندہ نوافل کی کوئی تعداد یا ان کے لئے کوئی وقت مقرر کرلے یا نفلی روزوں کے لئے کوئی دن اپنے طور پر مقرر کرے یا سفر کیلئے یا حج پر جانے کے لئے یا بچہ کی شادی کے لئے دن مقرر کرتا ہے ۔ تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں جب تک وہ اس کو تعیّن ِ شرع تصور نہ کرے ۔ اگر کسی لا علم کو سمجھ نہ ہو تو سمجھانا چاہیے نہ کہ فتویٰ لگا دینا چاہیے ۔ چونکہ تعیّن عبد شرع میں موجود ہے اور چالیسواں وغیرہ اُسی کی مثال ہے یہی وجہ ہے کہ تیجہ و چالیسواں کا ثبوت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور شیخ احمد سرہندی وغیرھم کی عبارات و تصنیفات میں آج بھی موجود ہے ۔ شریعت میں از خود شدّت پسندانہ روش اختیار کرنا قابلِ ستائش نہیں ۔
حیلۃُ الاسقاط :۔
جب انسان اپنی حیاتِ مُستعار پوری کرکے دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو لازمی طور پر اس کی نماز یں اور روزے پورے نہیں ہوتے جبکہ کوشش رہے کہ پُورے کرتا رہے لیکن یہ تلقین زندہ انسان کو تو مفید ہے مگر جو فوت ہو گیا اب اس کو ایسی تلقین بے سود ہے بلکہ اس کا مفاد اب اس میں ہے کہ اس کی قضا شدہ نمازوں کے بدلے نوافل پڑھ کر اس کو ایصالِ ثواب کیے جائیں اور روزوں کی جگہ نفلی روزے ایصالِ ثواب کیے جائیں اور ہمارے فقہاء احناف نے میّت کی بہتری اور خیر خواہی کے لئے حیلہء اسقاط کا طریقہ بتایا ہے کہ اگر میّت اپنی نمازوں اور روزوں بارے حیلہء اسقاط کی وصیت کر جائے تو ورثاء پر حیلہ اسقاط واجب ہے اور اگر وہ وصیت نہ کرے تب بھی جائز ہے کہ ورثاء میّت کی بھلائی میں اپنے مال سے نہ کہ یتیم ورثاء کی وراثت سے ۔حیلہء اسقاط کا معنی ہے میّت کے ذمّہ لازم و فرض نمازوں اور روزوں کو اس کے ذمّہ سے گرانے اور ختم کرنے کے لئے حیلہ و صورت اختیار کرنا اس اسقاط کا تذکرہ قدیم فقہی کتابوں اور فتاوی جات میں بھی موجود ہے اور آج بھی نور الایضاح سے لیکر ھدایہ تک اور فتاوی دارالعلوم دیوبند اور علماء بریلوی کی کتابوں جیسے جاء الحق وغیرہ میں آج بھی موجود ہے اور چند سال قبل تک پورے صوبہ سرحد ،بلوجستان اور افغانستان میں موجود تھا اور اب بھی کچھ علاقوں میں برقرار ہے مگر افسوس کہ اس ثابت شدہ طریقہ ِ ایصال ثواب پربھی طرح طرح کے فتوے لگا کر روک دیا گیا اور شادی بیاہ سے لیکر جنازہ تک دولت کا رخ صرف اپنے برائے نام دینی اداروں کی طرف کرکے علماء سوء مدرسہ سے ۴۰۰۰ روپے تنخواہ لیکر اس میں بیوی بچوں کو بھی پالتے ہیں اور گاڑیاں بھی خرید لیتے ہیں ۔
سبحان اللہ ! کیا کراہت ہے علماء سوء کی ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار ۔
زیارتِ قبور :۔
زیارتِ قبور سنت ہے ۔حضور ﷺ نے اس کا حکم بھی فرمایا اور اس کی حکمت بھی بیان فرمائی کہ اس سے آخرت یاد آتی ہے لہذا مطلقًا زیارتِ قبور سے بھاگنا سنت سے بھاگنا ہے ۔ اوردوسری طرف زیارت قبور کرنے والے اپنی جہالت علمی کی وجہ سے ہزاروں غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہین ۔ ان کو شرعی طریقہ سے زیارت قبور کرنی چاہیے ۔
زیارت ِقبور میں کیاکیا خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں:۔
ہم ایسی قوم ہیں کہ ایک جائز اور نیک کام کو اپنی جہالت اور شریعت سے دوری کی وجہ سے خاب کر دیتے ہیں۔ چند خرابیوں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
درباروں پر میلوں کا انعقاد:۔
کئی بڑے بڑے لا وارث دربار ایسے ہیں جن پر بالکل شریعت سے آزاد غیر شرعی طریقوں پر مشتمل میلے منعقد کیے جاتے ہیں ۔ اولیا ٓء وصالحین کے عقیدت منداں سے التماس ہے کہ ان غیر شرعی میلوں کو روکنے کے مختلف طریقے استعمال کریں ۔ مثلًا بیان وتقریر میں ان کا ردکرنا۔اجتماعی اشہارات جومفتیانِ اسلام ٍکے فتادٰی سے مزین ہوں ان کی تشہیر کریں۔ میڈیا کو استعمال کریں اور اجتماعی کو شش کرکے حکومت سے بھی قانون پاس کروایا جاسکتا ہے کہ صالحین کی قبوراورمزارات کو میلوں اور چرسی بھنگی لوگوں سے واگزار کر وایا جائے۔
قبورصالحین پر سجدوں کی جہالت :۔
صالحین نے لو گوں کو رب کے سامنے جھکنے اور سجدہ کی تر غیب و تعلیم دی اور آج ظالم و جاہل لوگوں نے رب کو سجدہ کرنے کی بجائے جسمی سجدہ تو کیا قبر کو ہاتھ لگانے اور اس کے قریب جانے سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے مزارات پر مدارس کا قیام اور دعوتِ دین کو جاری کیا جائے تو جملہ خرابیوں از خود تم توڑجائیں گی اور مزارات سے نورِ اسلام کی کرنیں بھی پھوٹ کر مخلوقِ ا لٰہی کے قلوب کو منور کر یں گی۔
کسی بھی قبر پرجاکر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور پھر صاحبِ قبر و مزار کے لیے دعا کریں اور ہوسکے تو کچھ پڑھ کر ان کی ارواح کو ایصالِ ثواب کریں۔
کیا مزاراتِ صالحین سے سوال کیا جائے؟
روئے زمین پر سب سے بڑا مزار پُرانوار تو خود رسولﷺ کا ہے وہاں پر جاکر کیا کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رہنمائی فرما دی ہے ۔
فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا o (النسآء۔۶۴)
کہ وہاں سب سے پہلے رب العالمین کے سامنے دامن طلب پھیلاکر سوالی بن کر مغفرت طلب کریں پھر حضورﷺ کی بار گاہِ عالی میں گزارش کریں کہ وہ بھی آپ کے لیے مغفرت کی سفارش فرمائیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا اور نہایت مہربانی ورحیم پاؤ گے۔جب روئے زمین پر سب سے بڑے دربار کا یہ عالم ہو وہاں کسی غیر سے سوال کرنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسی بات اور عقیدہ کو اجاگر کیا مولانا احمد رضا خان ؒ نے اپنی تصنیف عرفانِ شریف میں کہ کب جناب سے یہی سوال ہوا کہ کیا یہی سوال ہوا کہ کیا مزارات پر جا کر ان سے سوال کیا جائے تو حضرت ؒ نے فرمایا جب اور جہاں مانگا جائے تو رب کی ذات سے مانگا جائے اسی بات کی تو ثیق فرمائی جگر گوشۂ پیر مہر علی شاہ ؒ پیر نصیر الدین نصیرؒ نے جس پر حقیقت ناشناس لوگوں نے بلا جواز و او یلا بھی کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطافرمائے میاں محمد بخش عارف کھڑی شریف ؒ نے بھی یہی تعلیم فرمائی کہ
ما نگت کو لوں منگنڑ والا رہے ہمیشہ خالی
اس کی ہے دین محمد جہیڑا آپ سوالی
صاحب مزار سے مانگنا تو بعد کی بات ہے خود انبیآئے کرام سے ان کی حیاتِ ظاہری میں جس نے جب بھی مانگا تو اس کا مُدّعا بھی یہی ہوتا تھا کہ نبی اس مسئلہ میں ہمارے حق میں دعا فرمائیں اور انبیاء بھی اس راز سے خوب واقف تھے کہ تمام خزانوں کا اصل حقیقی مالک ہی اللہ تعالیٰ ہے لہذا جب اُمتی گزارش کرتے تو انبیاء دعا ہی فرماتے جیساکہ اُدْعُ لنا سے ظاہر ہے کہ قوم بنی اسرائیل کو جب حاجت ہوتی تو حضرت موسیٰ ؑ سے نہ مانگا بلکہ گزارش کی کہ آپ ہمارے حق میں دعا کریں یعنی رب سے مانگ کر دیں ۔
۱۔ قالُوا اُدعُ لنا ربّک یُبیّن لنا مالونُھا ۔
۲۔ قالُوا اُدعُ لنا ربّک یُبیّن لنا ماھی ۔
اِن الفاظ سے دو مرتبہ دُعا کی التماس کی ۔
۳۔ فادعُ لنا ربّک یخرج لنا ممّا تُنبتُ الارض ۔
۴۔ وَاذاسْتسقٰی موسیٰ لقومہٖ ۔
یہاں پانی کا مطالبہ اور ضرورت قوم کو پیش تھی۔
۵۔ ایسے ہی جب حضور ﷺ خطبہء جمعہ ارشاد فرما رہے تھے تو صحابہ نے قحط سالی کا شکوہ کیا تو جناب ﷺ نے فورًا بارگاہِ ربانی میں ہاتھ مبارک بلند فرمائے اور فورًا شاد کام ہوئے ۔
۶۔ ربّنا انزِل عَلینا مآئدۃً من السمآءِ ۔ (مائدہ ۔۱۱۴)
یہاں بھی اس آیت سے ماقبل آیات میں حواریوں نے حضرت عیسٰی ؑ سے التماس کی کہ کیا آپ کا رب یہ کر سکتا ہے کہ ہمارے پاس آسمان سے خوان نازل کرے ؟ تو جناب نے دعا فرمائی ۔ اور جہاں کسی نبی نے کوئی کام دعا کی بجائے معجزہ سے کیا اور مشکل حل کر دی ۔تو اس معجزہ کو بھی رب کریم کی طرف منسوب کیا جیسا کہ عیسیٰ ؑ نے اپنے معجزات ِ خمسہ کو رب کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ۔
اَنِّیْ قد جئتکم باٰیۃٍ من ربّکم ۔ (عمران ۔۴۹)
میں تمہارے پاس رب کی طرف سے معجزہ لایا ہوں ۔ پورے قرآن میں یہی انداز اختیار کیا گیا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور احناف شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی نظر میں :۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی ؒ پانچویں صدی ہجری میں گزرے جن کی علمیت و بزرگی اور زھد و تقوی کا نہ صرف ایک زمانہ مُعترف ہے بلکہ آپ نے قابلِ قدر تصانیف چھوڑیں اور ایسے خلفآء چھوڑے جنہوں نے نورِ اسلام سے جہان کو روشن کیا اور ایسی خدمتِ اسلام جناب کے حصّے میں آئی کہ آپ بجا طور پر مُحی الدّین (دین کو نئی تازگی اور حیات بخشنے والے ) کہلائے ۔ آپ ؒ سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں ۔اور فقہ میں آپ امام احمد بن حنبل ؒ کے پیروکار ہونے کی وجہ سے حنبلی ہیں ۔ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ امام اعظم ؒ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں جناب کی تصنیف غنیۃ الطالبین فصل و ھذ التکبیرالذی ذکرنا ہ فی عید الاضحی الخر ، میں فرماتے ہیں
‘‘ وقال الامام ابو حنیفہ ؒ لیس فی الفطر تکبیر ٌ مسنونٌوقال مالکٌ یکبّرُ ۔۔۔۔ وقال الشافعی ؒ یکبّرُ ’’
یہ عبارت اس اصل غنیۃ الطالبین سے پیش خدمت ہے ۔ جو عربی میں سے نہ کہ کسی ترجمہ شدہ غنیۃ سے ۔
یہاں آپ غور فرمائیں کہ شیخ صاحب نے دیگر ائمہ کی رائے پیش کرنا چاہی تو سب سے پہلے امام ابوحنیفہ ؒ کا ذکر فرمایا دوسرا یہ کہ امام کا لفظ صرف ابو حنیفہ ؒکے ساتھ ذکر کیا ۔مالک ؒو شافعی ؒ کے ساتھ لفظ امام ذکر نہ فرمایا ۔اور تیسرا امتیاز یہ لکھا کہ صرف امام ابو حنیفہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا دوسرے ائمہ کے ساتھ نہیں لکھا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ جناب کی نظر میں امام ابو حنیفہؓ کی قدر و منزلت باقی ائمہ سے سوا ہے ۔ غنیہ الطالبین (عربی) سے دوسری عبارت ملاحظہ ہو ۔
وھو مذھب اِمَامِنا احمد بن حنبل ؒ ۔۔۔۔وھو مذھبُ الامام الاَعظمِ ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ۔ (غنیۃ الطالبین عربی)فصل وَأختُلِفَ فی قدرِ التکبیر فی ھذہِ الامام۔
یہاں شیخ الطائفہ الشیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے احمد بن حنبلؒ کو اپنا فقہی امام ظاہر فرمایا اور دوسرا یہ کہ ان کے نام پر رحمۃ اللہ تعالیٰ لکھا جبکہ حضرت ابو حنیفہ ؓکے لئے الامام الاعظم (تمام اماموں سے بڑا امام ) لکھا اور جناب کے اسم گرامی کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اعزازی لفظ لکھ کر خوب ظاہر کیا کہ میری نظر میں ان کی قدر و قیمت کیا ہے ۔ یہاں سے ظاہر ہوا کہ ابوحنیفہ ؓ کو آج صرف احناف ہی امام اعظم نہیں کہتے بلکہ پانچویں ہجری میں بھی شیخ عبدالقادر حنبلیؒ جیسے بزرگوں نے بھی آپ کو امام اعظم ہی بتایا ۔
کیاحضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے احناف کو گمراہ فرقوں میں شمار کیا :؟
بے جا بہتان طرازی جن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ شیخ صاحب نے امام ابو حنیفہؓ کے مُقلِّدین یعنی احناف کو گمراہ فرقوں میں شمار کیا ۔ اس جھوٹ کی حقیقت جاننے کے لئے غنیۃ الطالبین سے متعلقہ عبارت حاضرِ خدمت ہے ۔
‘‘ وَاَمَّا الْحنفیۃُ فھم بعضُ اصحابِ ابی حنیفۃُ النعمان بن ثابت زعموا انّ الایمان ھُو المعرفۃُ وَالاِقرارُ بااللّٰہِ ورسُولہِ وبما جاء من عندہِ جُملۃً علی ماذکرہٗ البرھُوتی فی کِتابِ الشّجَرَۃِ ’’
تو یہ ہے وہ عبارت جس کو جناب نے مختلف فرقوں کا ذکرکرتے ہوئے برہوتی کی کتاب الشجرۃ کے حوالے سے لکھا اس کے علاوہ کوئی ایک لفظ بھی ثابت ہو تو ذمّہ دار ہیں ۔ترجمہ یہ ہے ۔
‘‘ اور جہاں تک حنفیہ کی بات ہے تو ان میں سے بعض اصحاب ابی حنیفہ نعمان بن ثابت نے گمان کیا کہ ایمان نام ہے اللہ و رسول کی پہچان کرنے اور اقرار کرنے کا اور وہ تمام کچھ جو رسولِ محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے اس کی معرفت اور اقرار کا جیسا کہ برہوتی نے اپنی کتاب الشجرۃ کے اندر لکھا ۔
تشریح:۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ یہ برہوتی کی رائے ہے جو الشجرہ میں لکھی گئی ہے اور پھر آپ نے بعض اصحاب حنیفہ کی بات یہاں بعض کا نکرہ لفظ ذکر کرنا اور کسی کانام نہ لینا اور پھر اصحاب حنیفہ کی بات کرنا نہ کہ مقلدین کی بات کرنا ۔ یہاں اس عبارت کو تمام احناف پر چسپاں کرنا کہاں کی شرافت ہے یہ تو اصحاب حنیفہ میں سے بعض کی بات کی جو نامعلوم ہیں اور پھر جو بات بعض اصحاب حنیفہ کے بارے منسوب کی اس میں گمراہی کا لفظ آخر کونسا ہے ؟ ایمان کی تعریف تو ہے یہی کہ اللہ رسول اور شریعت جو رسول اللہ کی طرف سے لائے اس کی کامل پہچان حاصل کرنا اور دل و زبان سے اس کا اقرار کرنا تو اس عبارت میں تو ایسی کوئی چیز آپ نے بعض اصحاب حنیفہ کی طرف منسوب ہی نہیں کی جو غلط ہو اور نہ ہی اس عبارت کے اوّل و آخر میں ان کو گمراہ بتایا ۔ ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ یہ عبارت من جملہ گمراہ فرقوں کے باب میں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن انتہائی مقدس و پاکیزہ کلام ربانی ہے مگر باوجود اس کے اس کے اندر کتّے ، خنزیر ، فرعون اور ابلیس کا ذکر ہے تو کیا مقدس کلام میں ان چیزوں کے ذکر سے یہ چیزیں مقدس ہو گئیں ؟ ہر گز نہیں ۔ ایسے ہی گمراہ فرقوں کے اندر اگر آپ نے برہوتی کی عبارت ذکر کر دی اور عبارت بھی وہ جو بالکل صحیح مفہوم رکھتی ہے تو اعتراض بلاجواز ہے ۔
شیخ عبد القاد جیلانی ؒ کا فقہی مسلک حنبلی ہے۔
احناف پر واضح رہے کہ عبد القادر جیلانی ؒ کا فقہی مسلک چونکہ حنبلی ہے لہذا وہ ہر فقہی اختلاف ائمہ میں امام احمد بن محمد بن حنبل ؒ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور تقلید کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب آپ حنبلی ہیں تو وہی رائے دیں جو امام احمد بن حنبل ؒ کی ہے نہ کہ وہ جو امام اعظم ؓ کی ہے ۔ہاں اگر شیخ صاحب کی رائے کو کوئی احناف کے خلاف دلیل بنائے تو اسے اتنا ہی عرض ہے کہ ہم چاروں ائمہ فقہ اور ان کے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں مگر تقلید ہم امام ابو حنیفہؒ کی کرتے ہیں نہ کہ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی اور دوسری بات یہ ہے کہ جہاں شیخ صاحب کی کوئی ایک رائے اپنے حق میں استعمال کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ آپ کی تمام آراء کو قبول کرے وہ اس طرح کہ شیخ صاحب مُقلِّد بھی ہیں ، شیخ صاحب بیس ترایح کے بھی قائل ہیں شیخ صاحب اہل سنت و جماعت کو نجات پانے والا گروہ بتاتے ہیں ۔ شیخ صاحب دم اور تعویذات کے بھی قائل ہیں بیعتِ مرشد اور تصوّف کے بھی قائل ہیں ۔ قبر رسول کی طرف منہ اور قبلہ کو پیٹھ کرکے روضہ رسول پر سلام و دعا کے بھی قائل ہیں ۔ اور منبر رسول کے مَس کرنے کو متبرک فرماتے ہیں اور حضور ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنے کے بھی قائل ہیں۔ یہ باتیں آپ کو غنیۃ الطالبین فصل فاذا منّ اللہ تعالیٰ بالعافیّۃِ و قدم المدینۃ میں ملیں گی ۔
یہاں جناب شیخ صاحب پانچویں صدی ہجری میں ہونے کے باوجود حضور ﷺ کو واسطہ دعا بناتے ہیں اور باربار بناتے ہیں اور جناب رسول اللہ ﷺ کی محبت کا سوال کرتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ آج سے ہزار سال قبل پانچویں صدی ہجری میں تو یہ ساری
باتیں صرف جُہلاء نہیں بلکہ صوفیاء و علماء کے اعتقادات کا حصّہ تھیں آج یہ تمام باتیں کیسے شرک اور باطل ہو سکتی ہیں ۔ تو یہ ہیں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ جن کو احناف کے خلاف استعمال اور پیش کیا جاتا ہے ۔اگر اب بھی مجھے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ صاحب کو احناف کے خلاف غلط استعمال کیا جارہا ہے تو اگلی مرتبہ حضرت کی تمام تصانیف سے آپ کے جملہ نظریات و تعلیماب و اعتقادات جمع کر کے ایک مسبوط کتاب پیش کردوں گا ۔ ان شآء اللہ تعالیٰ ۔
احناف اور خدمتِ اسلام تاریخ کی روشنی میں
پہلی صدی ہجری کے آخر تک جب اکثرصحابہ کرام وصال فرما چکے تھے تو ضرورت تھی ایک مرد درویش کی جو اسلام اور اسلامی احکامات و تعلیمات کو امت تک منتقل کرنے کی ذمّہ داری قبول کرے ۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے امام الائمہ سراج الامّہ جناب نعمان بن ثابت ؓ کو عین کوفہ میں 80 ہجری میں وجود بخشا جبکہ آپ کے علاوہ کوئی معروف امام پہلی صدی ہجری میں صحابہ کرام ؓ کے علاوہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ امام مالک ؒ دوسری صدی ہجری میں گزرے اور باقی ائمہء فقہ و حدیث سب تیسری صدی ہجری کی پیداوار ہیں ۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کو حصولِ علم کے لئے وہ اعلیٰ و ارفع ماحول نصیب ہوا جہاں جناب علی کرم اللہ وجہ کا فقر و دانش ،حضرت عبد اللہ ابن مسعود خادم رسول کا تبحّرِ علمی اور امام محمد باقر و امام حضرت جعفر صادق کے علوم و معرفت کے انوار جگمگا رہے تھے ۔ ائمہ فقہ و حدیث میں تابعی ہونے کی سعادت بھی جناب کو نصیب ہوئی اور آپ نے خانوادہِ رسالت مآب اور خادم رسول ﷺ جناب عبد اللہ ابن مسعود ؓ کے علوم کو یوں سمویا اور پھر یہ نور یوں ظاہر ہو ا کہ رہتی دنیا تک جہان کو روشن کر گیا ۔ آج صحاح ستہ کی کوئی کم ہی ایسی روایت ہو کہ جس کی سند میں کوئی کوفی نہ ہو اور جناب کے فیضِ علم و معرفت سے بڑے بڑے امام ِزمانہ ہوئے جیسے امام ابو یوسف ؒامام محمد ؓ اور امام زفر بصری وغیرہ یہی وجہ ہے کہ دوسری صدی ہجری سے لیکر چودھویں صدی ہجری کے وسط تک تقریبًا بارہ صدیاں حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز احناف کو ہی حاصل رہا اور احناف ہی سلاطین و قضاۃ و مُدّرسین و ائمہ ء مساجد اور خادم اسلام رہے ۔ آج وہاں حنبلی مذھب رائج ہے ۔
جبکہ پہلا اہل حدیث کا مدرسہ کل کلاں مدرسہ دار الحدیث محمدیہ کے نام سے ۱۲ ربیع الاول ۱۳۵۲ ھ کو قائم ہوا ۔ اس مدرسہ کا بانی عبد الحق نوناری عجمی پاکستانی احمد پور شرقیہ ہے۔
سلاطین ِعباسیہ ، سلجوقی ، خوارزمی اور خلافت عثمانیہ یہ سب احناف تھے اور یہی حالت عوام کی بھی تھی۔ اسی وجہ سے امام ابو یوسف ؒ قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس سپریم کورٹ مقرر ہوئے ۔ دوسری طرف پہلی صدی ہجری کے آخر میں 92 ہجری کو محمد بن قاسم ثقفی ؒ اسلامی فوج لیکر سندھ پر حملہ آور ہوا اور صرف تین سال میں سندھ فتح ہو چکا تھا یہ فوج بھی بصرہ سے آئی تھی جہاں امام اعظم ؒ کا فیض امام زفر ؒ کے نام سے بصرہ کی عوام و خواص کو زیرِ اثر کر چکا تھا اس طرح بصرہ سے آنے والے احناف مجاہدوں کی صورت میں مسلک ِاحناف ہندوستان پہنچا اور آج تک افغانستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں اسلام کی خدمت کا سہرا بجا طور پر احناف کے سر ہے ۔ 392 ھ میں سلطان محمود غزنوی ؒ نے ہندوستان کو فتح کیا یہاں اسلامی حکومت قائم کی ۔سلطان محمود غزنوی خود حنفی اور بعد میں تمام اسلامی سربراہان احناف ہی تھے ۔جن میں خاندانِ غلاماں ، غوری ، خلجی ، سادات ، تُغلق ، سوری اور خاندان مغلیہ تھے یہ سب احناف ہی تھے ۔ گویا اسلام کا سہرہ ہندوستان میں پہلی صدی سے آج تک حنفی مسلک کے سر ہے ۔
پورا ترکی اور خود بلخ و بخارا میں بھی احناف کا راج ہے محدثین نہ صاحب مذھب فقہ ہیں نہ پوری اسلامی دنیا میں کسی علاقے سے ایسی مثال دے سکتے ہیں جہاں ائمہ فقہ کی بجائے ائمہ حدیث یا اہل ِ حدیث کا مسلک رائج و غالب ہو ۔
جس کا اعتراف نواب صدیق حسن خان ؒ نے بھی ترجمانِ وہابیہ ص ۱۰ پر کیا ہے اور ہندوستان اور گرد و نواح میں صدیوں پر محیط دَورِ احناف میں جلیل القدر ا ن گنت صوفیائے اسلام اور عظیم المرتبت علماء و محدثین کی نہ ختم ہونے والی ایک تاریخ رقم ہو چکی ہے ۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے بجا فرمایا کہ
‘‘ در جمیع بلدان و جمیع اقالیم بادشاہاں حنفی اند و قضاۃ و اکثر مُدّرساں و اکثر عوام حنفی اند (کلماتِ طیبات ص۔177 )
کہ تمام شہروں اور تمام ملکوں میں بادشاہان حنفی تھے اور قاضی ، اکثر مُدّرسین اور اکثر عوام بھی حنفی تھی ۔ اور آج بھی ہے ۔ یہ سارا فیض اور خدمت ِ دین کا اعزاز امام ابو حنیفہؒ کو حاصل ہوا اور اجر بھی حاصل ہو رہا ہے کہ حدیث گواہ ہے جس نے اسلام میں اچھی روش اختیار کی وہ اس کا بھی اجر پائے گا اور جو اس اچھی روش پر چلے گا اُس کا بھی اجر پائے گا ۔
ایں سعادت بزور ِ بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ ۔
دوران تحریر زیر مطالعہ رہنے والی کتب :۔
۱۔ قرآن مجید ترجمہ جمال القرآن از حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری مرحوم
۲۔ بخاری شریف محمد بن اسماعیل بخاری ؒ
۳۔ مشکوٰۃ شریف
۴۔ معارف الحدیث از مولانا محمدمنظور نعمانی ؒ
۵۔ جنت میں لے جانے والے اعمال از حافظ محمد شرف الدین عبد المؤمن بن خلف دمیاطی ؒ
۶۔ ریاض الصالحین امام نووی ؒ
۷۔ سیرۃ النبی علامہ شبلی نعمانی ؒ
۸۔ المختصر القدوری الشیخ ابو الحسین احمد بن محمد البغدادی ؒ مُتوفٰی 428 ھ
۹۔ نماز کی کتاب حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب
۱۰۔ جآء الحق مفتی احمد یار خان مرحوم گجراتی
۱۱۔ مسند الامام الاعظم ؒ سراج الامہ نعمان بن ثابت ؒ المعروف امام ابو حنیفہ ؒ
۱۲۔ تنسِیقُ النّظام شرح مسند امام اعظم ؒ
۱۳۔ تجلیاتِ صفدر مولانا محمد امین اکاڑویؒ
۱۴۔ فتاوی نوریہ مولانا ابو الخیر محمد نور اللہ بصیر پوریؒ
۱۵۔ کشف المحجوب حضرت علی ہجویری ؒ
۱۶۔ غنیۃ الطالبین عربی شیخ عبد القادر جیلانی ؒ
۱۷۔ شرح صحیح مسلم غلام رسول سعیدی مرحوم یکم ربیع الثانی 1438 = 1جنوری 2017 ء
عرب شیوخ کی پاکستان میں ناجائز دخل اندازی
پاکستان کے طول و عرض میں ایک ایسا نیٹ ورک کام کررہا ہے جن کی پُشت پر عرب ممالک کے شیوخ ہیں جو باقاعدہ فنڈز جمع کرتے ہیں اور پاکستان میں ذاتی مذھبی و سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اُس فنڈ کو پاکستان میں پھیلے نیٹ ورک کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اِس نیٹ ورک کی ذمّہ داریہ ہے کہ جگہ جگہ مساجد و مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے اور مخصوص لٹریچر چھپواکر عام کیا جائے ۔ جس گاؤں یا گلی محلّے میں ان کے ہم خیال ایک دو افراد بھی ہوں تو ان کے بہانے وھاں باقاعدہ کام شروع کر دیا جاتا ہے ایسی تمام مساجد و مدارس کو ہر قسم کا مالی تعاون باہر سے ہو رہاہے ۔ ایسے لوگوں کے مسلک پاکستان کے طول و عرض میں دفاتر موجود ہیں جو اس نیٹ ورک کو باقاعدہ چلا رہے ہیں اور لوگوں میں اضطراب ،کشیدگی اور اختلاف کی خلیج کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو رہی ہے ۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ یہ نیٹ ورک کیا اسلام کی اشاعت چاہتا ہے یا مخصوص نظریات کی ؟ اگر عرب شیوخ واقعی نیک نیّتی سے کارِ خیر میں مصروف عمل ہیں تو ان کا یہ طریقہ پاکستان کے لئے ہرگز مناسب نہیں۔ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جس سے مسائل پاکستان ہی کے لئے پیدا ہونے کا قوی امکان موجود ہے ۔ لہذا ایک طرف ارباب حکومت و سیاست اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں اور ایسے کسی بھی نیٹ ورک کو پاکستان میں پھیلنے سے روکیں جو آگے چل کر ہمارے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے اور فرقہ واریت پروان چڑھ سکتی ہے ۔ اگر واقعی عرب شیوخ کسی خاص مقصد کے لئے نہیں بلکہ خدمت ِ اسلام کے لئے رقم خرچ کرنا فاہتے ہیں تو وہ عوام میں براہ راست اپنی نمائندگی پیدانہ کریں بلکہ حکومت ِپاکستان کو رقم فراہم کریں اور حکومت پاکستان اُس سرمائے کو مختلف مدارس و مساجد اور مختلف اسلامی کتب کی تشہیر و اشاعت پر کام میں لائے تاکہ عرب شیوخ کا کار خیر بھی ہوتا رہے اور حکومت ِ پاکستان کے لئے مسائل بھی پیدانہ ہوں ۔ لیکن عرب شیوخ کا ایک مخصوص طبقے کو پروان چڑھانے سے ان کی بد نیتی بالکل عیاں ہے اور یہ ہرگز خدمتِ اسلام بھی نہیں بلکہ در حقیقت خدمت گروہ اور فرقہ ہے جبکہ پاکستان میں پہلے بھی گروہ بندی کا عذاب زوروں پر ہے اور یہ نیٹ ورک جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔
لہذا ان کو اور ایسے تمام اداروں اور ممالک کو سرکاری سطح پر انتہائی سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ پاکستانی سرکار کے ہاتھوں بغیر ہرگز کسی کو فنڈز جاری نہ کریں اور پاکستانی معاشرے کے حال پر رحم کرتے ہوئے ہمارے لئے مسائل پیدا نہ کریں کہ کل یہ مسائل پاکستانی حکومت ہی کے لئے مسئلہ بنائیں گے اس وقت یہ عربی شیوخ ذمّہ داری قبول نہیں کریں گے ۔
آخری گزارش :۔
معذرت خواہ ہوں کہ نماز کے کچھ اہم مسائل بیان نہ کر سکا دیگر کتب کی طرف رجوع فرمائیں ۔ اگر تمام مسائل نماز ذکر کرتا تو کتاب بہت طویل ہو
جاتی اور میرا مقصد اس سے لکھنے کا فوت ہو جاتا ۔ لکھنا ایک اہم اور مشکل ترین ذمہ داری ہے مجھے اعتراف ہے کہ کافی غلطیاں ہو چکی ہونگی علماء کی مثبت آراء کا منتظر رہوں گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ مزید غلطیاں کتابت میں بھی ہو ں ۔ جہاں آپ
ایسی عبارت سے گزریں کہ آپ کو اس سے اختلاف ہو تو اسے اختلاف رائے تصور کرتے ہوئے صرفِ نظر فرمائیں اور جہاں ممکن ہو میری رہنمائی ضرور فرمائیں ۔ اگر کسی جگہ کوئی قابل ِ اعتراض لفظ نکل گیا ہو جس سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ اللہ کریم اس ادنی کوشش کو حبیب علیہ السلام کے طفیل شرفِ قبولیت بخشے ۔ آمین۔