اللہ تعالیٰ کی معرفت میں رکاوٹ حکمت نمبر33
اللہ تعالیٰ کی معرفت میں رکاوٹ کے عنوان سے باب سوم میں حکمت نمبر33 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور جب تخلیہ کا ذکر کیا، تو اس کے نتیجے کا بھی ذکر کیا، اور وہ تحلیہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت سے اپنے کو آراستہ کرنا کیونکہ نفس یا قلب یا روح کا اپنے وہمی لذتوں اور حصوں کی طرف توجہ اور ان کیلئے کوشش کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت کیلئے رکاوٹ ہے، چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ارشاد فرمایا:
33) الْحَقُّ لَيْسَ بِمَحْجُوبٍ، وَإِنَّمَا الْمَحْجُوْبُ أَنْتَ عَنِ الْنَّظَرِ إِلَيْهِ، إِذْ لَوْ حَجَبَهُ شَيْءٌ – لَسَتَرَهُ ماحَجَبَهُ، وَلَوْ كَانَ لَهُ سَاتِرٌ – لَكَانَ لِوُجُوْدِهِ حَاصِرٌ، وَكُلُّ حَاصِرٍ لِشَيْءٍ – فَهُوَ لَهُ قَاهِرٌ {وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ}.
حق سبحانہ تعالیٰ تم سے حجاب میں نہیں ہے بلکہ اس کی طرف دیکھنے سے حجاب میں تم ہو کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کیلئے حجاب ہوگی ، وہ اس کو ڈھانپ لے گی اور جب کسی چیز نے اس کو ڈھانپ لیا تو اس نے اس کو گھیر لیا، اور جو چیز کسی چیز کو گھیرتی ہے ، وہ اس پر غالب ہوتی ہے اور حق سبحانہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے۔
حجاب حق تعالیٰ کے حق میں محال
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ حجاب حق تعالیٰ کے حق میں محال ہے کیونکہ اس کو کوئی چیز نہیں چھپا سکتی ہے، وہ ہرشے کے ساتھ اور ہرشے کے قبل اور ہرشے کے بعد ظاہر ہے، تو نہ اس کے ساتھ کچھ ظاہر ہے نہ اس کے سوا کچھ موجود ہے۔ پس وہ تم سے حجاب میں نہیں ہے، بلکہ تم اس کی طرف دیکھنے سے حجاب میں ہو کیونکہ غیر کی موجودگی کا اعتقاد ر کھتے ہو، اور تمہارا قلب محسوس یعنی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے ۔ تو اگر تمہارے قلب کا تعلق اللہ تعالیٰ کی طلب میں ہو جائے ، اور اس کے ماسوا کے دیکھنے سے اس کی توجہ بالکل پھر جائے تو تم اللہ تعالیٰ کے انوار کو موجودات کے مظہروں میں جلوہ گر دیکھو گے اور جو تمہارے و ہم کی وجہ سے تم سے محجوب ہے وہ شہود اور عیاں کے درجے میں ہو جائے گا یعنی تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے گا ایک عارف نے بہت خوب اشعار کہے ہیں۔
لَقَدْ تَجَلَّى مَا كَانَ مُخبَّى وَالْكَوْنُ كُلَّهُ طَوَيْتُ طَى
در حقیقت جو پوشید ہ تھاوہ جلوہ گر ہوا اور میں نے کل موجود کو بخوبی لپیٹ لیا یعنی چھپا لیا ۔
مِنِى عَلَيَّ دَارَتْ كُؤُوسِي مِنْ بَعْدِ مَوتی تَرَانِي حَى
میرے شراب محبت کے جام کا دور میری طرف سے میرے اوپر چلا میری موت یعنی فنا کے بعد تم مجھے زندو د یکھتے ہو۔
پس تمام آدمی دیکھتے ہیں لیکن پہنچانتے نہیں اور سب سمندر میں ہیں لیکن سمجھتے نہیں ۔ میں نے اپنے شیخ کو کہتے ہوئے سنا : اللہ کی قسم، انسانوں کو اللہ تعالیٰ سے وہم نے حجاب میں کیا ہے اور وہم کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، وہ صرف خیال ہے اور عنقریب اس سلسلے میں شیخ کا یہ کلام آئے گا۔
وہم ہی حجاب ہے
تم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود کسی چیز نے حجاب میں نہیں کیا ہے کیونکہ اس کے ساتھ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ موجودات کے وہم نے تم کو حجاب میں کیا ہے۔ اس لئے کہ اگر کوئی محسوس اللہ تعالیٰ کیلئے حجاب بنے تو وہ حجاب اس کو ڈھانپنے والا ہوگا ۔ اور اگر کوئی محسوس ڈھانپنے والا ہو گا۔ تو وہ اس کے وجود کو گھیر نے والا ہو گا ۔ اور یہ محال ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو پوری طرح ڈھانپ لے اور اس کو گھیر لے کیونکہ کسی چیز کو گھیر نے والا اس پر غالب ہوتا ہے۔ اور یہ کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوقَ عِبَادِه اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے۔
یعنی اس وجہ سے کہ وہ سب اس کے قبضے میں ہیں اور اس کی قدرت کے اختیار میں ہیں اور اس کے ارادے اور مشیت کے تابع ہیں۔
اور فوقیت ۔ سے مراد مرتبہ اور جلال کی بلندی ہے۔ جگہ کی بلندی نہیں جیسا کہ کہا جاتاہے۔ بادشاہ وزیر کے اوپر ہے اور سردار اپنے نظام کے اوپر ہے اور مالک مملوک کے اوپر ہے۔ اور اس کے علاوہ صفات، جو کبریائی یعنی بڑائی کو ثابت کرتی ہیں اور حادث ہونے کی نشانیوں کی نفی کرتی ہیں۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔