اللہ تعالیٰ کے علم پر قناعت کے عنوان سےچوبیسویں باب میں حکمت نمبر 234 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے دیکھنے کو کافی سمجھنے کا بیان مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے۔
234) مَتَى آلمَكَ عَدَمُ إِقْبَاِلِ النَّاسِ عَلَيْكَ ، أَوْ تَوَجُّهُهُمْ بِالذَّمِّ إِلَيْكَ ، فَارْجِعْ إِلَى عِلْمِ اللهِ فِيكَ فَإنْ كَانَ لا يُقْنِعُكَ عِلْمُهُ فِيكَ بك فَمُصيبَتُكَ بِعَدَمِ قَنَاعَتِكَ بِعِلْمِهِ أَشَدُّ مِنْ مُصِيبَتِكَ بِوُجُودِ الأَذَى مِنْهُم .
لوگوں کا تمہاری طرف متوجہ نہ ہونا ، یا ان کا تمہاری بد گوئی کرتے ہوئے تمہاری طرف متوجہ ہونا ، جب تم کو تکلیف اور غم پہنچائے۔ تو تم اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف رجوع کرو۔ پھر اگر اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم تم کو قناعت نہیں عطا کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے علم پر قناعت نہ کرنے کی وجہ سے تمہاری مصیبت اس مصیبت سے زیادہ سخت ہے، جو لوگوں کی ایذارسانی سے تم کو پہنچی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : – جب اللہ تعالیٰ تمہارے او پر اپنی مخلوق کو اس لئے مسلط کرے کہ تم کو آزمائے : کیا تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنی ہو یا اس کی مخلوق کے ساتھ ؟ لہذا جب لوگ تمہاری طرف سے منہ پھیر لیں ، یا تم کو برا کہنے اور گالی دینے میں مشغول ہو جا ئیں۔ اور اس سے تم کو تکلیف پہنچے ۔ تو تم اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی آگاہی کی طرف رجوع کرو ۔ اس لئے کہ تمہارا کوئی معاملہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر اگر تمہارے لئے یہ کافی ہو گیا اور تم کو اس پر قناعت ہو گئی اور تم اس کے ذکر یا اس کے شہود سے مانوس ہو گئے ۔ تو تمہارے نزدیک ان کی بدگوئی اور مدح خوانی اور ان کا متوجہ ہونا اور منہ پھیر لینا برابر ہو جائے گا ۔ بلکہ اکثر اوقات تم ان کے منہ پھیرنے کو تر جیح دو گے۔ اس لئے کہ ان کی روگردانی میں تمہاری راحت اور اپنے قلب کو اپنے رب کے ساتھ فارغ کر لینا ہے۔ (یعنی لوگوں کی ملاقات سے تم فرصت پا کر فراغت اور حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہو گے ) لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کے علم پر قناعت نہیں کرتے ہو اور اس کے دیکھنے کو کافی نہیں سمجھتے ہو اور لوگوں کی روگردانی پر افسوس کرتے ہو اور ان کی ایذا رسانی سے رنجیدہ ہوتے ہو۔ تو تمہاری مصیبت تمہارے ایمان کی کمزوری اور تمہارے یقین کے ختم ہو جانے کے سبب لوگوں کی بدگوئی اور تمہاری طرف سے روگردانی کی مصیبت سے زیادہ سخت ہے۔ اس لئے کہ ایمان کا کمزور ہونا ، اور یقین کا ختم ہو جانا، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب اور اس کی محبت کی نظر سے تمہارے گر جانے کا سبب ہے۔ لیکن مخلوق کی ایذا رسانی اور ان کی تم سے دوری تو یہ تمہارے لئے رحمت ہے۔ اور نیز یہ کہ جب لوگ تمہاری بد گوئی اور تم کو نقصان پہنچانے میں مشغول ہوں۔ تو تم اپنے رب کے ساتھ اپنا مقام دیکھو ۔ اگر تم اپنے رب کے ساتھ مخلص ہو تو نہ کوئی شے تم کوفریب دے سکتی ہے۔ نہ کوئی شے تم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-
النَّاسُ قَالُوا لِي بِدْعِيٌّ و انا طَرِيقِي مَنْجُوراً
لوگ مجھ کو بدعتی کہتے ہیں۔ لیکن میں تو میرا طریقہ کنویں کی چرخی کی طرح ہے۔
إِذَا صَفَيْتُ مَعَ رَبِّي الْعَبُدُ مَا مِنْهُ ضَرُورًا
جب میں اپنے رب کے ساتھ خالص ہوں ۔ تو بندے سے مجھ کو کیا ضروریات ہے۔
حضرت ابراهیم تیمی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض مریدین سے دریافت فرمایا :- میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا : لوگ آپ کو ریا کار کہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ۔ اب زندگی خوشگوار ہوگئی ۔ حضرت بشر حافی رضی اللہ عنہ کو حضرت تیمی کی یہ بات معلوم ہوئی ۔ تو انہوں نے فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ، ابراھیم تیمی نے اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھا۔ کیونکہ انہوں نے یہ نہیں پسند کیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ غیر اللہ کاعلم شامل ہو جائے۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا:- اپنی تعریف سے سکون قلب حاصل ہونا :- گناہوں سے بھی زیادہ سخت مصیبت ہے۔
حضرت ابو حواری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ جو شخص چاہتا ہے کہ وہ کسی نیکی کے ساتھ پہچانا جائے ۔ یا اس کا ذکر اس نیکی کیساتھ کیا جائے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی عبادت میں شریک ٹھہر اتا ہے۔ اس لئے کہ جو شخص محبت سے کوئی عمل کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا ہے ۔ کہ اس کا عمل اس کے محبوب کے سوا کوئی دوسرا دیکھے۔ حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-
تم اپنے علم کی نشر و اشاعت اس لئے نہ کرو، کہ لوگ تمہارے عالم ہونے کی تصدیق کریں۔ بلکہ تم اپنے علم کی اشاعت اس لئے کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے علم کی تصدیق کرے اور اگر چہ علت کا لام موجود ہے۔ لیکن جو علت تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس حیثیت سے ہے کہ اس نے تم حکم دیا ہے۔ اس علت سے بہتر ہے، جو تمہارے اور انسان کے درمیان اس حیثیت سے ہے۔ کہ اس نے تم کو منع کیا اور ایسی علت جو تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف لائے ، اس علت سے بہتر ہے ، جو تم کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دے۔ اسی لئے اولیائے کرام رضی اللہ عنہ نے ثواب کے لئے عمل نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے سوا نہ کسی شے سے خوف کرتے ہیں نہ کسی شے کی امید رکھتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ صادق و مصدق اور عالم و معلم اورہادی و نصیر اور ولی کی حیثیت سے کافی ہے۔ وہ ایسا ہادی ہے جو تم کو ہدایت دیتا ہے۔ اور تمہارے ذریعے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔ اور تمہاری طرف لوگوں کی ہدایت یعنی رہنمائی کرتا ہے۔ اور ایسا مددگار ہے، جو تمہاری مدد کرتا ہے۔ اور تمہارے ذریعے دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ اور تمہارے مقابلے میں دوسروں کی مدد نہیں کرتا ہے وہ ایسا ولی یعنی سر پرست ہے جو تمہاری سر پرستی کرتا ہے اور تمہارے ذریعے دوسروں کی سر پرستی کرتا ہے۔ اور تمہارے مقابلے میں دوسروں کی سر پرستی نہیں کرتا ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی