اللہ تعالی غافل نہیں (انیسواں باب)

اللہ تعالی غافل نہیں کے عنوان سے انیسویں باب میں  حکمت نمبر 173 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اللہ سبحانہ تعالی غافل نہیں ہے کہ اس کو یاد دہانی کی جائے ۔۔ بلکہ وہ تمہارے پوشیدہ معاملات سے بھی خوب آگاہ ہے۔ لہذا جو کچھ تمہارے لئے مقدر ہو چکا ہے وہ تم کو ضرور ملے گا۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
173) إِنَّمَا يُذَكَّرُ مَنْ يَجُوزُ عَلَيْهِ الإِغْفَالُ ، وَإِنَّمَا يُنَبَّهُ مَنْ يُمْكِنُ مِنْهُ الإِهْمَالُ .
حقیقت یہ ہے کہ یاد اس کو دلایا جاتا ہے جس کے لئے غفلت جائز ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اور اللہ تعالی تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
اليسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اللہ تعالی اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔
اور اللہ تعالی کسی تنبیہ کامحتاج نہیں ہے۔ کیونکہ جو کچھ تمہاری قسمت میں ہے ۔ اس کے دینے میں وہ تم کو چھوڑ نہیں دے گا۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
وَإِنَّمَا يُنَبَّهُ مَنْ يُمْكِنُ مِنْهُ الإِهْمَالُ .اور تنبیہ اس کو کی جاتی ہے جس کے لئے چھوڑ دینا جائز ہو ۔
اور اللہ تعالی کے لئے اس کی قدرت کا کامل ہونے اور اس کے علم کے ہرشے کا احاطہ کرنے کی وجہ سے چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس کی حکمت ، اسباب و ذرائع کا تعلق اور اشیاء کا مقدم اور مؤخر ( آگے ، پیچھے ) ہونا چاہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَكُلٌّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہرشے ایک اندازے کے ساتھ ہے۔
لہذا جس شخص کا ایمان کامل ہوتا ہے۔ وہ اپنی تدبیر سے اللہ تعالی کی تدبیر کو کافی سمجھتا ہے۔ اور اللہ تعالی کے علم کو کافی سمجھ کر اپنی جلد بازی کو ترک کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالی کے افعال کے الٹ پھیر پر راضی رہتا ہے۔ پس وہ خالص ابرا ہیمی ہو جاتا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ جو شخص حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر قائم ہوتا ہے۔ وہ ان کی پیروی ضرور کرتا ہے۔ اور جس وقت وہ آگ میں پھینکے گئے وہ آسمان اور زمین کے درمیان اس دنیا میں تھے ۔ لیکن وہ اللہ تعالی کے علم کو کافی سمجھ کر اپنے سوال سے بے نیاز تھے ۔ پس اس وقت حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کی حالت یہ تھی ۔ کہ وہ حقیقت میں مستغرق ( ڈوبے ہوئے ) تھے۔ پھر جب وہ شریعت کی طرف لوٹا دیئے گئے ۔ ۔ تو انہوں نے یہ دعا کی :-
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ اے میرے رب ! مجھ کو اور میرے والدین اور مومنین کو بخشد ے۔
ربِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ اے میرے رب مجھ کوحکم عطا فرما اور مجھ کو صالحین کے گروہ میں شامل کرے۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے شریعت کی تعلیم دینے اور ان محتا جیوں کے ظاہر کرنیکے لئے جو حج اور عیدوں کی خوشی کی طرح ہے۔ کثرت سے دعائیں فرمائی ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں