اللہ پوشیدہ اور ظاہر بھی ہے (باب اول)

اللہ پوشیدہ اور ظاہر بھی ہے حکمت نمبر16

اللہ پوشیدہ اور ظاہر بھی ہے کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر16 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

اللہ تعالیٰ پوشیدہ ہونے کے باوجود ظاہر ہے اس پر دس دلائل

پہلی دلیل

پہلی دلیل :۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی:۔
16) كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ الَّذِي أَظْهَرَ كُلَّ شَيءٍ!

کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شے چھپا سکتی ہے جب کہ اس نے ہرشے کوظاہر فرمایا ہے ۔
اور باطن ہی ظاہر ہے کیونکہ جوشے عالم غیب میں پوشیدہ ہے۔ وہی عالم شہادت میں ظاہر ہوئی ۔
پس جبروت کے تالاب سے ملکوت کے انوار اچھلتے ہیں۔ میرا جمال ہرانسان میں عیاں دیکھو۔ پانی بہہ کر درختوں کی جڑوں میں سرایت کرتا ہے۔ تو پانی کو تم ایک دیکھتے ہو۔ لیکن پھول مختلف رنگ کے پیدا ہوتے ہیں۔ تعجب ہے کہ جس ذات کے ذریعے معارف پہچانے گئے ۔ تو معارف اس ذات کے پہچاننے کا ذریعہ کسی طرح ہو سکتے ہیں ؟
اس شخص پر تعجب ہے جو تیری ذات کے لئے گواہ تلاش کرتا ہے حالانکہ تو نے کل چیزوں کو گواہ بنا کر اس کے سامنے موجود کر دیا ہے۔

دوسری دلیل

دوسری دلیل :۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی:
! كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ الَّذِي ظَهَرَ بِكُلِّ شَيءٍ!
کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے۔ جب کہ وہ ہرشے کے ساتھ ظاہر ہے؟
یعنی ہرشے میں اللہ تعالیٰ کی تجلی ظاہر ہے۔ پس اس کے وجود کے ساتھ کسی شے کاوجود نہیں ہے۔ یعنی کوئی شے موجود نہیں ہے۔
عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
تجلَّيْتَ فِي الْأَشْيَاءِ حِيْنَ خَلَقْتَهَا فَهَا هِيَ مِیْطَتْ عَنْكَ فِيهَا الْبَرَاقِعُ
توکل اشیاء میں اسی وقت جلوہ گر ہوا جس وقت تو نے انہیں پیدا کیا ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ ان اشیاءمیں تجھ سے حجابات دور ہو چکے ہیں۔
لہذا کل اشیاء وجود میں آنے کے ساتھ ہی تجھ کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس لئے تو چھپ نہیں سکتاہے۔

تیسری دلیل

تیسری دلیل :۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی
كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ الَّذِي ظَهَرَ فِي كُلِّ شَيءٍ
کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے۔ جب کہ وہ ہرشے میں ظاہر ہے ؟
یعنی وہ اپنی قدرت اور حکمت کے ساتھ ہرشے میں ظاہر ہے۔ قدرت پوشیدہ ہے اور حکمت ظاہر ہے۔ لہذا کل مخلوقات قدرت اور حکمت اور فرق وجمع کے درمیان ہیں۔
اور بعض عارفین کا یہ کلام پہلے گزر چکا ہے:۔ ہم نے جب کسی شے کو دیکھا، تو اس میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ یعنی اس کی قدرت اور حکمت کے ساتھ دیکھا۔ پس اگر صفات کے انوارظا ہر نہ ہوتے تو ذات نہ پہچانی جاتی۔ اور اگر محسوس نہ ہوتا تو حقیقت تک رسائی نہ ہوتی ۔ اور اگر کثیف نہ ہوتا، تو لطیف کی پہچان نہ ہوتی۔
حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
محبوبى قدعم الوُجُودُ، وَقَدْ ظَهَرَ فِى بِيضِ وَسُودُ، وَ فِي النَّصَاریَ مَعَ الْيَهُودُ وَفِي الْخَنَازِيرِ مَعَ الْقُرُودُ ، وَفِي الْحُرُوفِ مَعَ النُّقَط ، أَفهَمَنِي قَطُ افْهَمَنِى قط
میرا محبوب کل وجود میں عام ہے۔ وہ ہر سیاہ وسفید میں، اور نصاری و یہود میں ، اور سوروں اور بندروں میں، اور حروف و نقطوں میں ظاہر ہے۔ اس نے مجھے سمجھا دیا اور بس۔ اس نے مجھے سمجھادیا اور بس۔
عَرَفْتُهُ طُولَ الزَّمَانِ، ظَهَرَلِي فِي كُلِّ آوَانٍ، وَفِي الْمِیَاءِ وَالدَّلْوَانِ، وَفِي الطلوع وَفی الْهُبوطِ أَفهَمَنِي قَطُ افْهَمَنِى قط.
میں نے اس کو زمانہ دراز سے پہچانا ہوا ہے۔ وہ میرے سامنے ہر ظرف (شکل ) پانی اور ڈول میں، اور طلوع ونزول میں ظاہر ہوا۔ اس نے مجھے سمجھا دیا اور بس۔ اس نے مجھے سمجھا دیا، اوراور بس۔

چوتھی دلیل

چوتھی دلیل: ۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی:۔
!كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ الَّذِي ظَهَرَ لِكُلِّ شَيءٍ
کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے۔ جب کہ وہ ہرشے کے سامنے ظاہر ہے؟ یعنی اپنے ذات کے اسرار، اور اپنی صفات کے انوار کے ساتھ ہرشے کے سامنے جلوہ گر ہے۔
پس جب وہ ہرشے کے سامنے جلوہ گر ہے۔ اور ہرشے باطن میں اس کو پہچانتی ہے۔ اور ہرشے اس کے حمد کی تسبیح پڑھتی ہے۔ تو کوئی شے اس کے لئے حجاب نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :۔
وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ ہرشے اس کے حمد کی تسبیح پڑھتی ہے۔
یعنی اپنی زبان حال سے کہتی ہے:۔ وہ ذات پاک ہے جو ہرشے کے سامنے جلوہ گر ، اور ہرشے کے ساتھ ظاہر ہے۔
عارفین اس کو سمجھتے ہیں ۔ اور غافلین اس سے جاہل ہیں۔

پانچویں دلیل

پانچویں دلیل: ۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی:
! كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ الظّاهِرُ قَبْلَ وُجودِ كُلِّ شَيءٍ!
کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ ہرشے کے وجود سے قبل ظاہر ہے۔ لہذا جوشے ظاہر ہوئی ، وہ اسی سے ہے اور اس کی طرف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ازل میں بذات خود ظاہر تھا ۔ پھر اس نے اپنی ہی ذات کے سامنے بذات خودتجلی کی ۔ لہذاوہ اپنے غیر کے ساتھ ظاہرہونے سے بذات خود بے نیاز ہے۔ یا اپنے غیر کے ذریعے پہچاننے والے شخص کی حاجت سے بے نیاز ہے۔ لہذا کل موجودات ایک ہیں۔ اور ہمارے نزدیک غیر کا وجود نہیں ہے۔

چھٹی دلیل

چھٹی دلیل:۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی :
كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ أَظْهَرُ مِنْ كُلِّ شَيءٍ! کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شے چھپا سکتی ہے جب کہ وہ ہرشے سے زیادہ ظاہر ہے؟
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ کسی شے کا وجود نہیں ہے اور اس کے ظہور کے ساتھ کسی شے کا ظہور نہیں ہے اور اگر کوئی شے کا ہو بھی، تو بذات خود اس کا وجود اور ظہور نہیں ہے۔ لہذا اگر اشیاء میں اللہ تعالیٰ کا ظہور نہ ہو تو وہ آنکھوں سے دیکھی نہیں جاسکتی ہیں :۔
مَنْ لَا وُجُودُ لِذَاتِهِ مِنْ ذَاتِهِ فَوُجُودُهُ لَوْلَاهُ عَيْن مَحَالٍ
جس شمی کا وجود بذات خود نہیں ہے ۔ تو اگر اللہ تعالیٰ نہ ہوتا تو اس کا وجود محال ہوتا ۔
لہذا جب بندہ حجاب کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے نزدیک اپنے نفس کا وجو دضروری ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا وجود خیالی ہوتا ہے۔ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے اور اپنے نفس سے فنا ہو جاتا ہے اور نفس کی فناء کے ساتھ ثابت اور قائم ہو جاتا ہے تو اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ اور اپنے نفس کا وجود خیالی بلکہ محال ضروری ہو جاتا ہے۔
حضرت ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ بے شک ہم اللہ تعالیٰ کی طرف ایمان اور یقین کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ہم کو دلیل و برہان سے بے نیاز کر دیا اور ہم مخلوقات میں سے کوئی شے بھی نہیں دیکھتے ہیں ۔ پس کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کوئی شے موجود ہے؟ ۔ اور اگرکوئی شے موجود ہے اور اس کا موجود ہونا ضروری ہے تو وہ ہوا میں اڑتے ہوئے اس خیالی غبار کی طرح ہے جو کسی سوراخ سے آتے ہوئے دھوپ کی طرف نظر کرنے سے اڑ تا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن اگر تم اس کو تلاش کرو تو کچھ نہ پاؤ گے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ سب تعجب خیز باتوں سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ موجودات اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے ہوں اور کاش مجھے یہ معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجودات کا بھی وجود ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ یا ان کے لئے واضح اور ظاہر ہونے کی صفت ذاتی ہے جو اللہ کے لئے نہیں ہے۔ لہذاوہ اللہ تعالیٰ کے ظاہر کرنے والے ہیں ۔ یا اس کے لئے مظہر ہیں۔ اور اگر موجودات اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں۔ تو یہ صفت ان کے لئے اپنی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو پہنچانے کا مرتبہ عطا فر مایا۔ تو وہ اس مرتبے پر پہنچے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ تک اس کی الوہیت کے سوا کوئی بھی نہیں پہنچ سکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ حکیم مطلق ہے۔ وہ اپنی حکمت کا علم سے اسباب پیدا کرتا ہے اور وہ بھی ان کے لئے جو اچانک ٹھہر جاتے ہیں اور اس کی قدرت تک جو عین حجاب ہے نہیں پہنچتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے لئے ظاہر ہونا ، کل مخلوقات سے زیادہ ظاہر ہے۔ کیونکہ وہی مخلوقات کے
ظاہر ہونے کا سبب ہے۔ اور اپنے زیادہ ظاہر ہونے کی وجہ سے ہی وہ پوشیدہ ہے۔
وَمِنْ شِدَّةِ الظهورِ الْخَفَاء اور ظہور کی شدت کی وجہ سے پوشیدگی ہے
حضرت رفاعی رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔
يَا مَنْ تَعَاظَمَ حَتَّى رَقَ مَعْنَاهُ وَلَا تَرَدُّى رِدَاءَ الْكِبرِ إِلَّا هُوَ
اے وہ ذات جو اتنی عظمت والی ہے کہ عظمت کی وجہ سے اس کی حقیقت چھپ گئی ۔ اورکبریائی (بڑائی) کی چادر اس کے سوا کوئی نہیں اوڑھ سکتا ہے ۔ یعنی اے وہ مقدس ذات جو عظمت اور کبریائی کے ظہور میں اتنی زیادہ ہوئی کہ اس کی حقیقت چھپ گئی۔

ساتویں دلیل

ساتویں دلیل:۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی:
كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ الواحِدُ الَّذِي لَيْسَ مَعَهُ شَيءٌ کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے جب کہ وہ ایسا واحد (اکیلا)ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شے نہیں ہے؟” اس لئے کہ اس کی وحدانیت ازلی و ابدی ہے۔
كَانَ اللهُ وَلَا شَيءٌ مَعَهُ وَهُوَ الْآنَ عَلَى مَا عَلَيْهِ كَانَ
اللہ تعالیٰ تھا۔ اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی ۔ اور وہ اب بھی اسی حال پر ہے۔ جس حال پر تھا۔
االہ مَّعَ اللَّهِ – تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟
اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے جو لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کے وجود میں کچھ شک ہے؟ حالانکہ جتنی اشیاء ظاہر ہیں۔ سب اللہ تعالیٰ کی مظاہر ہیں ، عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ت
تَجَلَّى حَبِيبِي فِي مَرَائى جَمَالِهِ فَفِي كُلِّ مَرْءٍ لِلْحَبِيبِ طَلَائِعُ
میرا حبیب اپنے جمال کے دونوں آئینوں ( ظاہر و باطن ) میں جلوہ گر ہوا۔ لہذا ہر آئینے میں محبوب کی تجلی ہے ۔
فَلَمَّا تَجَلَّى حُسْنہ متنوعًا تُسَمَّى بِأَسْمَاءٍ فَهُنَّ مَطَالِعُ
پس جب اس کا مختلف شکلوں میں ظاہر ہوا ۔ تو اس کا مختلف نام رکھا گیا۔ پس وہی اس کے طلوع ہونے کی جگہیں ہیں ۔ لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی ذات ، اور اپنی صفات ، اور اپنے افعال میں واحد و یکتا ہے۔ نہ اس کے پہلے کوئی شے تھی۔ نہ اس کے بعد کوئی شے ہوگی ۔ نہ اس کے ساتھ کوئی شے ہے۔

آٹھویں دلیل

آٹھویں دلیل: اپنے اس قول میں بیان فرمائی ۔
! كَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَهُوَ أَقْرَبُ إلَيْكَ مِنْ كُلِّ شَيءٍ! کس طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شے چھپا سکتی ہے جب کہ وہ ہرشے سے زیادہ تمہا رے قریب ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسُوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور البتہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا نفس اس کے دل میں جو وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ ہم اس کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی گردن کی رگ (شہ رگ) سے زیادہ قریب ہیں۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا: وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلكِنْ لا تُبْصِرُونَ ہم تم لوگوں سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔ لیکن تم لوگ نہیں دیکھتے ہو ۔
اور تیسرے مقام پر فرمایا:۔ وَكَانَ اللهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيباً اور اللہ تعالیٰ ہرشے پر نگران ہے ۔
اور چوتھے مقام پر فرمايا: وإِنْ تَجْهَرُ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السّرَّ وَأخْفى اور اگر تو بلند آواز سے بات کرے تو اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور دل کی بات جانتا ہے ۔
قرب کا معنی
اور اللہ تعالیٰ کا قرب :۔ علم اور احاطہ اور شہود کا قرب ہے۔ مسافت (جگہ کا فاصلہ )کا قرب نہیں ہے۔ کیونکہ تیرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کچھ مسافت نہیں ہے۔
اور اس سے پہلے حدیث میں بیان کیا جاچکا ہے: وَإِنَّ اللَّهَ مَا حَلَّ فِي شَيْءٍ وَلَا غَابَ عَنْ شَيْءٍ اور بے شک اللہ تعالیٰ نہ کسی شے میں حلول کئے ہوئے ہیں نہ کسی شے سے غائب ہے ۔
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی شے سے ہے، نہ کسی شے میں ہے، نہ کسی شے کے اوپر ہے، نہ کسی شے کے نیچے ہے۔ اس لئے کہ اگر وہ کسی شے سے ہوتو وہ مخلوق ہے۔
اور اگر وہ کسی شے میں ہو تو وہ گھرا ہوا محدود ہے۔ اور اگر وہ کسی شے کے او پر ہوتو وہ اٹھایا ہوا یعنی دوسری شے کے اٹھانے کا محتاج ہے۔ اور اگر وہ کسی شے کے نیچے ہوتو وہ مغلوب ہے ۔ پھر ان سے دریافت کیا گیا۔ اے رسول اللہ ﷺ کےچچازاد بھائی ! ہمارا رب کہاں ہے؟ یا کیا اس کے لئے کوئی جگہ ہے؟ تو ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اور وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر فرمایا تمہارا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے۔ اس سے تمہارا مطلب اللہ تعالیٰ کی جگہ دریافت کرنی ہے۔ لہذا اسنو! اللہ تعالیٰ تھا۔ لیکن مکان نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمان و مکان کو پیدا کیا۔ اور اللہ تعالیٰ اب بھی اسی حال پر ہے۔ جس حال پر وہ پہلے تھا۔ یعنی زمان ومکان سے پاک ہے۔
حضرت ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مجھ کوحکم دیا گیا ہے کہ میری ہی بات کہو ۔ اور میری ہی طرف رہنمائی کرو۔ اور میں ہی سب کچھ ہوں ۔ یہ قول بخاری شریف کی اس حدیث کے مطابق ہے:
يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : يَسُبُّ إِبْنُ ادَمَ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ ، بِيَدِى اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ آدمی زمانے کو برا کہتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ۔ رات اور دن میرے ہی قبضے میں ہیں ۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الدَّهْرُ تم لوگ زمانے کو برا نہ کہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے ۔
اور اسکی تفسیر پہلی حدیث میں ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔

نویں دلیل

ویں دلیل: اپنے اس قول میں بیان فرمائی:
وكَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنْ يَحْجُبَهُ شَيءٌ وَلولاهُ ما كانَ وُجودُ كُلِّ شَيءٍ! طرح یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے۔ جب کہ اگر اللہ تعالیٰ نہ ہوتا تو کسی شے کا وجود کا ہر گز نہ ہوتا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا اور اللہ تعالیٰ نے ہرشے کو پیدا کیا اور اس کے لئے ایک اندازہ مقرر کیا۔
اور دوسری جگہ فرمایا:۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَر ه بے شک ہم نے ہرشے کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا۔ پس جوشی عالم شہادت میں ظاہر ہوئی ، وہ عالم غیب سے نکل کر ظاہر ہوئی۔ اور جو کچھ عالم ملکوت میں ظاہر ہوا ، وہ جبروت کے سمندر سے اچھل کر ظاہر ہوا۔ لہذا کل اشیاء کا وجود اسی سے ہے۔ اور اس کے ساتھ قائم ہے۔ اور اس کے ساتھ کسی شے کی کوئی نسبت نہیں ہے ۔ کیونکہ کل اشیاء خالص عدم ہیں۔ اور اگر ان کے وجود کا وہم کر لیا جائے تو وہ سب حادث ہیں ۔ فنا ہو جانے والی ہیں ۔ اور عدم کو وجود کے ساتھ اور حادث کو قدیم کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے۔ اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دونوں کے ایک ساتھ جمع ہونے پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے دسویں دلیل بیان فرمائی:۔

دسویں دلیل

دسویں دلیل:۔ اپنے اس قول میں بیان فرمائی:۔
يا عَجَباً كَيْفَ يَظْهَرُ الوُجودُ في العَدَمِ! أَمْ كَيْفَ يَثْبُتُ الحادِثُ مَعَ مَنْ لَهُ وَصْفُ القِدَمِ
تعجب ہے، وجود عدم کے اندر کس طرح ظاہر ہو سکتا ہے؟ یا حادث قدیم کے ساتھ کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: وجود عدم دونوں ضد ہیں۔ اور حادث وقدیم دونوں منافی (ایک دوسرے کی نفی کرنے والی) ہیں۔ لہذا دونوں ایک ساتھ نہیں پائے جاسکتے ہیں۔ اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ اور اس کے سوا کل اشیاء عدم ہیں ۔ لہذا جب وجود ظاہر ہوگا تو اس کی ضد عدم فنا ہو جائے گا۔ پس یہ تصور کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ جوشے عدم ہے وہ اللہ تعالیٰ کو چھپا سکتی ہے؟ لہذ احق سبحانہ تعالیٰ کو باطل نہیں چھپا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
فَذَالِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ، فَمَاذَا بَعْدَ الْحَق إِلَّا الضَّلل پس یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔ اور حق سے منہ پھیرنے کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے ۔
لہذا اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ اشیاء کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لہذا حلول کا خیال باطل ہو گیا۔ کیونکہ حلول تقاضا ہے۔ دوسرے وجود کا ہونا۔ تا کہ ربوبیت کی حقیقت اس میں حلول کرے یعنی گھسے۔ اور فرض یہ کیا گیا ہے کہ غیر، خالص عدم ہے۔ لہذا حلول کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عینیہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
وَنَزَهُهُ فِي حُكْمِ الْحُلُولِ فَمَا لَهُ سوى وَإِلَى تَوْحِيدِهِ الْأَمْرُ رَاجِعُ
حلول کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھ کیونکہ اس کا غیر نہیں ہے۔ اور کل امور اس کی توحید کی طرف لوٹتے ہیں ۔ لہذا قدیم اور حادث دونوں مل نہیں سکتے ہیں کیونکہ جب حادث قدیم کے قریب ہو گا تو حادث فنا ہو جائے گا اور قدیم باقی رہ جائے گا۔ ایک شخص نے حضرت جنید رضی اللہ عنہ کے سامنے کہا:- الحمد اللہ اور رب العالمین نہیں کہا۔ حضرت جنید نے فرمایا: اے بر ادر اس کو پورا پڑھو۔ اس نے کہا:- عالمین کا کیا درجہ ہے جو اس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا جائے؟ حضرت جنید نے فرمایا: اے برادر! اس کو پورا پڑھو۔ کیونکہ حادث جب قدیم کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تو حادث مٹ جاتا ہے اور قدیم باقی رہتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ کل اشیاء عدم کے مقام میں ہیں ۔ اس لئے کہ حادث قدیم کے ساتھ قائم نہیں رہتا ہے۔ لہذا اتحاد کا قول باطل ہو گیا ۔ اس لئے کہ اتحاد کے معنی ، قدیم کا حادث کے قریب ہونا ہے۔ تا کہ دونوں مل کر ایک ہو جائیں اور یہ محال ہے کیونکہ اس کی بنیاد غیر کے وجود پر ہے۔ اور غیر کا وجودہی نہیں ہے۔ اور عارفین جو کبھی وحدت کے لئے اتحاد کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابن فارض کا کلام ہے:
وَهَا مَتْ بِهَا رُوحِي بِحَيْثُ تَمَازَجَا اتْحَادًا وَلَا جِرْمٌ تَخَلَّلَهُ جِرمٌ
میری روح اپنی اصل پر عاشق ہوئی ۔ اس حیثیت سے کہ دونوں متحد ہو کر مل گئے ۔ نہ یہ کوئی جرم ہے جس کو دوسرے جرم نے خلل پہنچایا ہو۔
لہذا حاصل یہ ہوا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے ملک میں واحد ہے۔ قدیم ازلی ، باقی ابدی ہے۔ حلول و اتحاد سے، اور شریک وضد سے پاک ہے۔ وہ تھا اور مکان نہیں تھا ۔ اور اب بھی اسی حال پر ہے جس حال پر وہ تھا۔ وہ بلا مکان تھا۔ اور بلا مکان ہے۔ اس حقیقت کے بارے میں مندرجہ ذیل اشعار جو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منسوب ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اشعار
رَأَيْتُ رَبِّي ‌بِعَيْنِ ‌قَلْبِي فَقُلْتُ لَا شَکَّ أَنْتَ أَنْتَ
میں نے اپنے رب کو اپنے قلب کی آنکھ سے دیکھا۔ تو میں نے کہا: کچھ شک نہیں کہ تو ہی تو ہے۔
أَنتَ الَّذي حُزتَ كُلَّ أَينٍ بِحَيْثُ لا أَينَ ثَمّ أَنْتَ
تو وہ ہے جس نے کل مکان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس حیثیت سے کہ کوئی مکان نہیں ہے۔ پھر بھی توہے۔
فَلَيْسَ لِلایْنَ مِنْكَ أَيْن فَيَعْلَمُ الْایْنُ أَينَ أَنتَ
پس کوئی مکان تیار تیرے لئے مکان نہیں ہے۔ تا کہ مکان یہ معلوم کرے کہ تو کہاں ہے ۔
وَلَيْسَ لِلْوَهْمِ عَنْكَ كَيْفٌ فَيَعْلَمُ الْوَهْمُ أَيْنَ أَنْتَ
اور وہم تیرے بارے میں وہم نہیں کر سکتا ہے۔ تاکہ وہم یہ معلوم کرے کہ تو کیسا ہے ۔
أحَطتَ عِلْماً بِكُلِّ شَيْءٍ فَكُلُّ شَىئ آرَاہ أَنْتَ
تو نے علم سے ہرشے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ پس جوشے بھی میں دیکھتا ہوں تجھی کو دیکھتا ہوں ۔
وَفِي فَنَانِي فَنَا فَنَائِي وَفِي فَنَائِي وَجَدْتُ أَنتَ
اور میری فنا میں میری فنا ہوگئی۔ اور اپنی فنا میں میں نے تجھ کو پایا۔
قاضی علی بن ثور کا سوال اور حضرت ابوالحسن نوری کے جوابات حضرت ابوالحسن نوری سے قاضی علی بن ثور نے دریافت کیا :۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات سےکہاں ہے؟ حضرت نوری نے جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ تھا ، اور کوئی مکان نہیں تھا۔ اورمخلوقات عدم میں تھیں ۔ اور وہ اب بھی ویسے ہی عدم ہے جیسا کہ تھی اور اللہ تعالیٰ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ تھا۔ اس لئے کہ نہ کوئی جگہ ہے نہ مکان ۔ پھر قاضی علی نے سوال کیا، تو یہ مکان اور مخلوقات جو ظاہر ہیں۔ یہ کیا ہیں؟
حضرت نوری نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ غالب اور ظاہر ہے۔ اور قاہر بادشاہ ہے۔ اور مخلوقات اس کے ساتھ ظاہر ہیں اس سے صادر ہیں نہ اس سے متصل ہیں نہ اس سے جدا ہیں وہ کل اشیاء سے فارغ ہے اور کوئی بھی اس سے فارغ نہیں ہے کیونکہ کل اشیاء اس کی محتاج ہیں۔ اور وہ کسی شے کا محتاج نہیں ہے۔ قاضی علی نے کہا: آپ نے سچ فرمایا: ۔ لیکن آپ مجھے یہ بتائیے کہ مخلوقات کے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا ارادہ کیا ہے؟ حضرت نوری نے جواب دیا۔ اپنے غلبے اور اختیار اور بادشاہت کا ظاہر کرنا قاضی علی نے کہا آپ نے سچ فرمایا تو مجھ یہ بتاکہ مخلوقات کے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا مقصد کیا ہے؟ حضرت نوری نے جواب دیا مقصد وہی ہے جو اس نے ارادہ کیا ہے ۔ قاضی علی نے سوال کیا تو کیا وہ کافروں سے کفر چاہتا ہے؟ حضرت نوری نے جواب دیا: لوگ کفر کرتے ہیں اور وہ اس کو نا پسند کرتا ہے۔ پھر قاضی نے سوال کیا: آپ مجھے یہ بتائیں کہ جماعتوں اور فرقوں کے اختلاف اور مذہبوں کی تفریق سے اللہ تعالیٰ کا کیا ارادہ ہے۔ حضرت نوری نے جواب دیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پہچاننے ، اور اپنی حکمت بیان کرنے ، اور اپنی مہربانی مقرر کرنے ، اور اپنا انصاف اور احسان ظاہر کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیاں تین قسم کی ہیں ۔

تجلیات خداوندی کی تین اقسام

ایک قسم وہ ہے جو اس نے اس لئے ظاہر کی ہوئی ہے تا کہ عبادت اور احسان والے لوگوں میں اپنی بخشش اور احسان ظاہر کرے۔
دوسری قسم وہ ہے جو اس نے اس لئے ظاہر کیا ہے تا کہ مومن گناہگاروں میں اپنی معافی اور برداشت ظاہر کرے۔
تیسری قسم وہ ہے ۔ جو اس نے اس لئے ظاہر کی ہے۔ تا کہ کافروں اور سرکشوں میں اپنا قہر و غضب ظاہر کرے۔ پس یہ سب اللہ تعالیٰ کی تجلی کے راز ہیں ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
یہاں پہلا باب ختم ہوا
باب اول کا خلاصہ تین امور ہیں
اور اس باب کا حاصل :- تین امور ہیں :۔
شریعت کا عمل ۔ طریقت کا عمل ۔ حقیقت کا عمل یا تم اس طرح کہو :- اسلام کا عمل۔ ایمان کا عمل ۔ احسان کا عمل ۔ اورہ ابتداء اور درمیان اورانتہا ہے۔ اور انتہا میں کامیابی کی علامت ، ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ پس مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس باب میں سات باتوں کی ہدایت فرمائی ہے:۔
پہلی: اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے ، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے ، اور عمل کرنے کے باوجود عمل پر بھروسہ نہ کرنے کا حکم دیا۔
دوسری تجرید اور اسباب کے حال میں اللہ تعالیٰ کے ادب کا لحاظ رکھنے کی طرف تمہاری رہنمائی کی۔
تیسری: سیر کی حالت میں تدبیر کی محنت اور کوشش میں اپنے باطن کو مشغول کرنے سے تم کو منع کیا۔ کیونکہ یہ باطن کی کدورت کا سبب ہے۔
چوتھی جو اعمال تم سے اللہ تعالیٰ نے طلب کئے ہیں۔ یعنی جن اعمال کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے۔ ان کے لئے کوشش کرنے ، اور تمہاری زندگی کی جن ضرریات کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ ان کے لئے کوشش میں کمی اور بے توجہی کے لئے تم کو آمادہ کیا۔ تا کہ تمہاری بصیرت کے کھلنے کا سبب ہو۔
پانچویں:۔ تمہارے لئے جن اشیاء کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ ان میں سے جو شے تم اپنی دعا کے ذریعے طلب کرو۔ تو جس شے کے ہونے کے وقت میں ابھی دیر ہے۔ اس کے مقررہ وقت سے پہلے، اس کے جلدی حاصل ہونے کی تمنا تم نہ کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔
چھٹی۔ جب تم سے کسی شے کے لئے وعدہ کیا جائے ۔ تو تم اس میں شک نہ کرو۔
ساتویں : اللہ تعالیٰ کے تعرفات قہریہ سے جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہو۔ تم اس میں اللہ تعالیٰ پر تہمت نہ رکھو ۔ یہ اعمال مذکورہ ابتدائی درجہ والوں کیلئے ہیں۔ اور ان کے احوال کے اختلاف کے مطابق ان اعمال کی نوعیت میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ پس مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے قول عمل پر اعتماد کی علامت سے ان کے قول اعمال قائم ہونے والی صورتیں ہیں تک سب شریعت کا عمل ہے۔ اور یہ اسلام کا مقام ہے۔ اور ان کے قول اعمال قائم ہونے والی صورتیں ہیں سے ان کے قول کل مخلوقات تاریکی ہیں تک طریقت کا عمل ہے اور یہ ایمان کا مقام ہے۔ اور چونکہ ان دونوں کا انحصار باطن کی صفائی اور درستی پر ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تم کو اخلاص اور صدق کا حکم دیا۔ اور صدق اخلاص کا راز ہے۔ اور گمنامی کا حکم دیا۔ کیونکہ وہ اخلاص کے پیدا ہونے کا مقام اور مظہر ہے۔ اور تنہائی کا حکم دیا تا کہ تم فکر میں مضبوطی سے قائم ہو جاؤ ۔ اور مخلوقات کی صورتوں سے قلب کے آئینے کو صاف کرنے کا حکم دیا۔ تا کہ عرفان کا آفتاب طلوع ہونے کے لئے تم تیار ہو جاؤ ۔ پھر تمہارے لئے دروازہ کھول دیا۔ اور تمہارے او پر حجاب دور کر دیا۔ اور فرمایا: لو ، اب تم ہو۔ اور تمہارا رب ہے ۔ اور یہ مضمون ان کے قول کل مخلوقات تاریکی ہیں سے آخر باب تک ہے۔ اور ہر طریقے سے تمہارے لئے حجاب کا وہم دور کر دیا ۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کو اس کے لئے جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کو اپنے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رضی اللہ عنہم کے ساتھ اپنی رضامندی سے فیضیاب کرے اور ہم کو اور ہمارےاحباب کو ان کے مسلک میں شامل کرے۔ آمین اور جب کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تم کو بارگاہ الہٰی تک پہنچایا۔ تو اس بارگاہ کے آداب دوسرے باب میں بیان فرمایا:


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں