اللہ کے ہاں قدر و منزلت کے عنوان سے باب ہشتم میں حکمت نمبر73 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اعمال کی قدرو منزلت کا میزان بیان کیا۔ تو لوگوں کی قدرو منزلت کا میزان بھی بیان کیا۔ یا تم اس طرح کہو ۔ جب مردود عمل سے مقبول کا میزان بیان کیا ۔ تو مردود عامل سے محبوب عامل کا میزان بھی بیان کیا۔ چنانچہ فرمایا:
73) إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْرِفَ قَدْرَكَ عِنْدَهُ فَانْظُرْ فِى مَاذَا يُقِيمُكَ.
اگر تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدر و منزلت کو جاننا چاہتے ہو تو غور کرو کہ اس نے تم کو کس حال میں قائم کیا ہے؟ ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اپنی مخلوق کی دوقسم بنائی ۔ بد بخت، اور نیک بخت اور نیک بختوں کی بھی دوقسم بنائی ہے۔ اہل قرب، اور اہل بعد۔ یا تم اس طرح کہو۔ اہل یمین ، اور مقربین یعنی سابقون۔
پس اگر تم اپنے متعلق یہ جاننا چاہتے ہو کیا تم بدبختوں میں ہو یا نیک بختوں میں؟ پس اپنے قلب میں غور کرو۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق کرتے ہو۔ اور اس کو اس کی بادشاہت میں ایک مانتے ہو۔ اور جس کی اُس نے تمہیں پہچان کرائی یعنی اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام، ان کے تم مطیع و فرماں بردار ہو۔ تو تم ان لوگوں میں سے ہو جن کے لئے نیکی پہلے ہی مقدر ہو چکی ہے اور اگر تم اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو۔ یا اس کے وجود میں شک کرتے ہو یا اس کے ساتھ اس کے غیر کے شریک ہونے کا اعتقاد کرتے ہو یا تم اس کے رسول پر یقین نہیں کرتے تو تم بدبختوں میں سے ہو۔ پھر اگر تم نے اپنے کو نیک بختوں میں پایا اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہو، کیا تم اہل قرب میں سے ہو، یا اہل بعد میں سے؟ تو غور کرو۔ پس اگر تم ان لوگوں میں ہو، جو اس کی حقوق سے اس پر استدلال کرتے ہیں تو تم اہل بعد یعنی اصحاب یمین میں سے ہو۔ اور اگر تم ان لوگوں میں ہو ، جواللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے غیر پر استدلال کرتے ہیں۔ تو تم اہل قرب یعنی مقر بین میں سے ہو۔ پھر اگر تم نے یہ معلوم کر لیا ۔ کہ تم اصحاب یمین میں ہے ہو ۔ اور تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدر ومنزلت جاننا چا ہتے ہو کیا تم مکرمین یعنی عزت والوں میں ہو ، یا مہانین، یعنی ذلت والوں میں؟ تو غور کرو ۔ پس اگر تم اس کے حکم کی تعمیل، اور اس کے منع سے پر ہیز کرتے ہو۔ اور اس کے پسندیدہ کاموں میں سبقت کرتے ، اور اس کے اولیاء سے محبت کرتے ہو۔ تو تم مکر مین میں سے ہو ۔ اور اگر اس کے حکم کی تعمیل میں غفلت، اور اس کے منع میں سستی و لا پرواہی کرتے ہو۔ اور اس کی طاعت میں کاہلی ، اور اس کی حرمتوں کی رسوائی و تو ہین، اور اس کے اولیاء سے دشمنی کرتے ہو۔ تو خدا کی قسم تم محروم و مردود، اور ذلیل ورسوا ہونے والوں میں سے ہو۔ مگر یہ کہ اللہ رب العالمین کی عنایت اور مہربانی تمہارے شامل حال ہو جائے ۔ اور اگر تم کو یقینی طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ تم اہل قرب میں سے ہو۔ اور تم مقام شہود میں پہنچ گئے ہو۔ اور تم اس کے ساتھ اس کے غیر پر استدلال کرتے ہو۔ تو اس کے ماسوی کو نہ دیکھو۔ پس اگر تم واسطہ کا اقرار کرتے ہو، اور حکمت کو ثابت کرتے ہو، اور ہر حق والے کو اس کا حق دیتے ہو۔ تو تم مقربین کاملین میں سے ہو۔ اور اگر تم حکمت سے انکار کرتے ہو۔ اور واسطہ سے غائب ہو، تو اگر تم مجذوب مغلوب ہو، تو تم اس مقام میں ناقص ہو۔ اور اگر تم ہوش و عقل میں ہو۔ تو تم ساقط یعنی پستی میں گرنے والے ہو۔ مگر یہ کہ تمہا ر ہا تھ کوئی شیخ واصل باللہ یا عارف کامل پکڑ لے۔
یہاں ایک دوسری میزان بھی ہے جس کے ذریعے تم اپنے متعلق معلوم کر سکتے ہو کہ تم قرب میں ہو یا بعد میں ۔ پس اگر تم نے کسی تربیت کرنے والے شیخ کو پایا۔ تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اپنے انوارکو ظاہر کیا۔ اور اپنے اسرار کی خصوصیتوں پر تم کو آگاہ کیا۔ پس تم قطعی ویقینی با لفعل یا بالا مکان اہل قرب میں سے ہو۔ شیخ رضی اللہ عنہ کے اس قول کے مطابق: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے اولیاء کے پہچانے کی کوئی ایسی دلیل نہیں بنائی۔ جو ان کے پہچان کی حقیقی اور یقینی دلیل کی حیثیت رکھتا ہو۔ وہ جس شخص کو اپنے پاس پہنچانا چاہتا ہے صرف اس کو اپنے اولیاء کے پاس پہنچا دیتا ہے۔ اور اگر تم نے تربیت کرنے والے شیخ کو نہیں پایا اور کہنے والوں کے اس قول نے تم کو قریب میں رکھا۔ اولیاء کا وجود ختم ہو گیا تو تم قطعی عام مسلمانوں میں اہل یمین سے ہو۔ اور اکثر ایسے ہی لوگ ہیں۔ اور ان کے لئے کوئی حکم نہیں ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
حدیث شریف میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، خَلَقْتُ الْخَيْرَ وَ الشَّرَّ ، فَطُوبَى لِمَنْ خَلَقْتُهُ لِلْخَيْرِ وَ أَجْرَبْتُ الْخَيْرَ عَلَى يَدِهِ، وَوَيْلٌ لِمَنْ خَلَقْتُهُ لِلشَّرِّ وَاجْرَيْتُ الشَّرِّ عَلَى يَدِهِ
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: بے شک میں ہی اللہ ہوں ۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں نے بھلائی اور برائی کو پیدا کیا۔ تو اس کے لئے خوشخبری ہے۔ جس کو میں نے بھلائی کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھ پر بھلائی کو جاری کیا۔ اور افسوس ہے اس شخص کے لئے جس کو میں نے برائی کے لئے پیدا کیا۔ اور اس کے ہاتھ پر برائی کو جاری کیا۔
اور دوسری حدیث میں ہے:۔ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَعْلَمَ مَا لَهُ عِنْدَ اللَّهِ فَلِيَنظُرُ مَا لِلَّهِ عِنْدَہُ
جو شخص یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالی کے پاس کیا ہے تو اس کو یہ غور کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے پاس کیا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے
مَنْ أَرَادَ أَنْ يُعْلَمَ منْزِلَتَهُ عِنْدَ اللَّهِ فَلِيَنْظُرُ كَيْفَ مَنْزِلَهُ اللهِ تَعَالَى مِنْ قَلْبِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُنْزِلُ الْعَبْدَ حَيْثُ أَنزَلَهُ الْعَبْدُ مِنْ نَفسہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدرو منزلت معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اس کو یہ غور کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت اس کے دل میں کیسی اور کتنی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کو اسی حیثیت سے جگہ دیتا ہے، جس حیثیت سے بندے نے اللہ تعالیٰ کو اپنے نفس میں جگہ دی ہے ۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: فَأَمَّا مَنۡ أَعۡطَىٰ وَٱتَّقَىٰ وَصَدَّقَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلۡيُسۡرَىٰجس شخص نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا۔ اور تقویٰ اختیار کیا۔ اور دین کی تصدیق کی ۔ تو ہم اس کے آرام کی جگہ تک پہنچنے کے لئے آسانی پیدا کریں گے ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی