المختصر فی علوم الدین
تاليف
الشيخ محی الدين ابی محمد عبد القادر الجيلانی الحسنى الحسينى قدس سرہ
بِسم الله الرَّحْمَن الرحيم
علم الطریقہ
علم طریقت مغزکی طرح ہے اور یہ مقصود ہے۔ علم شریعت چھلکے کی طرح ہے یہ مقصود کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ لوگوں کے لیے دین کے تمام راستے باطل ہیں سوائے اس راستے کے جس میں حضور نبی مکرم ﷺکے فرمان کی پیروی کی جائے ۔
حضرت ابو سعید الخراز نے فرمایا کہ ہر باطنی علم جو ظاہری علم کی مخالفت کرے وہ باطل ہے۔
حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ علم کی دوقسمیں ہیں۔ علم عبودیت اور علم ربوبیت۔ ان علوم کے علاوہ باقی تمام علوم نفس کی ہوس ہیں ۔ علم عبودیت شریعت کا علم ہے اور وہ ظاہر کر دیا گیا ہے۔ علم ربو بیت طریقت کاعلم ہے۔ اس کتاب میں علم طریقت کو سات ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔
پہلا باب
دنیا کو ترک کرنے اور آخرت کو اختیار کرنے کے بیان میں
یہ باب دنیا کو چھوڑنے اور آخرت کو اختیار کرنے کے بارے میں ہے۔ بیشک آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے یہ نعمتوں اور راحتوں کا گھر ہے۔ دنیا آزمائشوں اور مصیبتوں کا گھر ہے یہ آگ ہے۔ اور اس کے قریب جانے میں ہلاکت اور خسارہ ہے۔ یہ دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں۔
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ لَمْ يَخْلُقْ خَلْقًا هُوَ أَبْغَضُ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا، وَإِنَّهُ مُنْذُ خَلَقَهَا لَمْ يَنْظُرْ إِلَيْهَا(شعب الایمان: )
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے دنیا سے زیادہ ناپسندیدہ مخلوق پیدا نہیں کی اور جب سے دنیا کو پیدا فرمایا ہے اسکی طرف پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا ۔
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا كَمِثْلِ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ فِي الْيَمِّ، فَلْيَنْظُرْ بِمَا يَرْجِعُ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ(صحیح مسلم كتاب الجنة، وصفة نعيمها وأهلها)
دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسے ہے کہ جیسے تم میں سے کوئی شخص دریا میں اپنی انگلی ڈالے پھر دیکھے کہ کتنا پانی انگلی پر لگا ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بہترین انجام پر ہیز گاری اور مال کو چھوڑنے میں ہے۔ اور بلند مرتبے کا طالب غافلوں میں سے ہے۔ اکثر لوگ دنیاوی معاملے میں کمزور ہوتے ہیں اور انجام پر نظر نہیں رکھتے یعنی کسی بھی کام کے نتیجے کو مد نظر نہیں رکھتے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ
يَعۡلَمُونَ ظَٰهِرٗا مِّنَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَهُمۡ عَنِ ٱلۡأٓخِرَةِ هُمۡ غَٰفِلُونَ(الروم :7)
یہ تو دنیا کی ظاہر کی زندگی کو جانتے ہیں اور آخرت ( کی زندگی ) سے غافل ہیں۔
اللہ تعالی نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
مَن كَانَ يُرِيدُ حَرۡثَ ٱلۡأٓخِرَةِ نَزِدۡ لَهُۥ فِي حَرۡثِهِۦۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرۡثَ ٱلدُّنۡيَا نُؤۡتِهِۦ مِنۡهَا وَمَا لَهُۥ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ (شوریٰ :20)
جب جوکوئی آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہے ہم اس کے لئے اس کھیتی کو زیادہ کر دیتے ہے اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے ہم اس کے لیے اس کھیتی میں سے حصہ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔
إِذا أَرَادَ الله عز وَجل بِعَبْد خيرا جعل فِيهِ ثَلَاث خِصَال فقهه فِي الدّين وزهده فِي الدُّنْيَا وبصره عيوبه(الفردوس بمأثور الخطاب:935)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جب اللہ تعالی کسی بندہ کے لئے بھلائی چاہتا ہے تو اس کو دنیا کی طرف سے بے رغبت کر دیتا ہے اور اس کی رغبت آخرت کی طرف کر دیتا ہے اور اس پر اپنے نفس کے عیوب ظاہر کر دیتا ہے۔
حضور نبی مکرم ﷺ حدیث کا مفہوم ہے کہ
الدُّنْيَا حرَام على أهل الْآخِرَة وَالْآخِرَة حرَام على أهل الدُّنْيَا وَالدُّنْيَا وَالْآخِرَة حرَام على أهل الله عز وَجل (الفردوس بمأثور الخطاب:3110)
دنیا آخرت والوں پر حرام ہے اور آخرت دنیا والوں پر حرام ہے اور دنیا اور آخرت دونوں اللہ والوں پر حرام ہیں۔
اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مشغول رہنا بد بختی کی علامت ہے۔ عقلمند کے مناسب یہ ہے کہ وہ دنیا کو چھوڑ دے اور آخرت کی طلب رکھے۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قناعت اختیار کرے اور تھوڑے رزق پر گزارہ کرے اور باقی مال ایسے کاموں پر خرچ کرے جو اسے قیامت کے دن نفع دے۔ زندگی گزارنے کے لیے خود کھائے اور رزق کے لیے ذلیل نہ ہو کیونکہ ہر روز اسکو رزق ملتا ہی ہے۔ خالق اپنی مخلوق کا خود کفیل ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام رزق کے لئے کسب اختیار کرتے تھے۔
حضور نبی مکرم ﷺ لوگوں کو کسب اختیار کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ
الكاسب حبيب الله(تفسیر روح المعانی)
کسب اختیار کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔
کسب کرنا تو کل کے منافی نہیں ہے لیکن کسب کو چھوڑ نا حکمت کے منافی ہے۔ حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ
كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ۔ (الترمذي:ابواب الزهد)
دنیا میں ایسے زندگی گذارو جیسے تم مسافر ہو۔
اے انسان ) تو جان لے کہ موت قریب ہے۔ موت آنے سے پہلے اسکی تیاری کرنی چاہیے۔ قبر میں جانے سے پہلے اسے آباد کرنا چاہیے اور اپنے رب سے ملاقات سے پہلے اپنے آپکو آراستہ کرنا چاہیئے۔ جہنم میں داخل ہونے سے پہلے اس سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ہم اللہ تعالی سے اسکی رحمت کا سوال کرتے ہیں پھر دعا کرتے ہیں کہ ہماری رغبت آخرت کی طرف کردے اور ہمیں اپنے فضل سے جنت میں داخل فرمادے۔ آمین
دوسرا باب
قلب کی اصلاح کے بیان میں
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وهي القلب(صحيح البخاری کتاب الایمان)
بنی آدم کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو
سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ سن لو وہ ٹکڑادل ہے ۔
اس حدیث میں واضح بیان ہے کہ انسانی جسم کی اصل اس کا دل ہے۔ اور دو حاکم ہے اور باقی سارا جسم اسکے ماتحت ہے۔ انسانی جسم میں دوقسم کے لشکر ہیں ۔ ایک وہ لشکر ہے جس کا مشاہدہ ظاہری آنکھوں سے کیا جاتا ہے۔ وہ جسم کے اعضاء ہیں۔ دوسرا لشکر وہ ہے جس کا مشاہدہ باطن کی آنکھ سے کیا جاتا ہے اور قلب کی صفات ہیں ۔ جب قلب برے اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے تووہ اچھے اوصاف میں بدل جاتا ہے اور جسم کے اعضاء سے افعال حمیدہ ظاہر ہوتے ہیں۔
جب قلب بُرے اخلاق کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے تو اس پر شیطانی لشکر کا غلبہ ہو جاتا ہے اور قلب پر بری صفات ظاہر ہونے لگتی ہیں اور جب لمبے عرصے تک قلب پر شیطان کا غلبہ رہتا ہے اور اس شیطانی لشکر کو شکست دینے کے لیے قلب کی مددنہیں کی جاتی تو سارا جسم شیطان کے ہاتھ میں مغلوب ہو جاتا ہے پھر اس شیطانی لشکر کی وجہ سے قلب اتنا تباہ ہو جاتا ہے کہ اس پر مہر لگا دی جاتی ہے پھر کبھی بھی اس بندے کو ہدایت نہیں مل سکتی ۔ (ہم اللہ سے اسکی پناہ چاہتے ہیں) انسان کی اصل فطرت میں اس پر کچھ صفات غالب رہتی ہیں جو کہ چار طرح کی ہیں۔
صفات بہیمیہ (جانوروں جیسی صفات)
صفات سبعیہ(درندوں جیسی صفات)
صفات شیطانیہ (شیطانی صفات)
صفات ربانیہ (ربانی صفات)
صفات بہیمیہ سے مراد جانوروں کی صفات ہیں۔ اگر کسی انسان پر شہوات کا اتنا غلبہ ہو کہ وہ ہر وقت اپنی شہوت پوری کرنے میں لگار ہے تو اس پر صفات بہیمیہ کا غلبہ ہے۔
صفات سبعیہ سے مراد در ندوں کی صفات ہیں ۔ اگر کسی انسان پر ہر وقت غصہ غالب ہو یا وہ ہر کسی سے ناراض رہے یا وہ کسی سے انتقام کا ارادہ رکھتا ہو تو اس پرصفات سبعیہ کا غلبہ ہے۔
شیطانی صفات سے مراد ہے کہ اگر کسی انسان پر دھو کہ فریب مکرو حیلہ کا غلبہ ہو تو اس پر شیطانی صفات کا غلبہ ہے ۔
صفات ربانیہ سے مراد ہے کہ انسان کے نفس پر امر ربانی کا غلبہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ:
قُلِ ٱلرُّوحُ مِنۡ أَمۡرِ رَبِّي (الاسراء:85)
آپ ﷺ بیان فرمادیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔
امر ربی سے مراد ہے کہ انسان پر ربانی اور بلندی عطا کرنے والی صفات کا غلبہ ہو۔ اور وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنا چھوڑ دے۔ اس لیے ان صفات کا غلبہ نہ مجا ہدہ سے ہے اور نہ نیک وصالح ہونے سے اور نہ اچھے اخلاق کو اپنانے سے اور نہ اللہ تعالٰی سے مدد مانگنے سے ہوتا ہے بلکہ اللہ حی (زندہ) وحمد کی پناہ میں رہنے سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
قَدۡ أَفۡلَحَ مَن زَكَّىٰهَا وَقَدۡ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا (الشمس:9،10)
تحقیق با مراد ہوا وہ جس کا نفس پاک ہوا اور نامراد ہوا وہ جس نے نفس کو خاک میں ملا دیا۔
أَتَدْرُونَ أَكْثَرَ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ؟ تَقْوَى اللهِ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ(مسند الإمام أحمد بن حنبل مسند ابو ھریرۃ)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جنت میں نہیں داخل ہوگا سوائے اچھے اخلاق والے کے۔
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ میری امت قیامت کے دن مختلف اقسام میں جمع کی جائے گی ان میں سے بعض کے چیرے چاند کی طرح نورانی ہوں گے اور بعض کے چہرے سورج کی طرح روشن ہوں گے اور بعض کی صورتیں کتے اور سانپ جیسی ہوں گی ۔ (9)
اس حدیث سے مراد ہے کہ ہر کوئی اس دن اپنی معنوی صورت پر جمع ہو گا۔ ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں جو عنایت کرنے والا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو ہدایت کے نور سے روشن کر دے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما دے جن کے چہرے قیامت کے دن روشن ہوں گے۔
تیسرا باب
اخلاص نیت کے بیان میں
کسی عمل میں دکھلاوے اور لوگوں سے تحسین کے جذبے سے محفوظ ہونا ہی اخلاص کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعۡبُدُواْ ٱللَّهَ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ(البینہ:5)
اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کر ہیں۔
حضور نبی مکرم ﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے اور یہ راز اس قلب میں ظاہر ہوتا ہے جس میں محبت ہو۔ (المغني عن حمل الأسفار في الأسفار) حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ شرک اصغر کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ریا کاری ! اللہ تعالی جب قیامت کے دن لوگوں کو بدلہ دے گا تو ریا کاروں سے کہے گا کہ ان لوگوں کی طرف چلے جاؤ جن کے لیے دنیا میں ریا کاری کرتے تھے اور دیکھو کہ ان کے پاس کوئی بدلہ ہے۔ (مسند احمد)
حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ نہیں ہے نجات سوائے اخلاص کے اور نہیں ہے اخلاص سوائے لوگوں سے ہٹ کر رہنے میں ۔ اس لیے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اعمال خالص نیت کے ساتھ کرے کیونکہ نیت صحیح نہ ہو تو اس کا عمل بھی صحیح نہیں ہوتا ۔جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاری)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اور نہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جسکی اس نے نیت کی ۔ (صحیح البخاری)اس لیے اگر آدمی اپنی نیت ٹھیک رکھے گا تو اس کے کھانے سونے اور دوسرے امور سرانجام دینے کے تمام اوقات اور تمام حرکات وسکنات اللہ تعالی کی اطاعت میں گذریں گے۔ انسانوں اور جانوروں میں نیت کا فرق ہے کیونکہ جانور کسی بھی حالت میں نیت اور ارادہ نہیں کرتے ۔
حضور نبی مکرم ﷺکی حدیث کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن مقام حساب پر ایک آدمی حاضر ہو گا تو اس کو اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا پھر وہ دیکھے گا کہ اس کے اعمال نامہ میں بہت زیادہ نیکیاں درج ہیں تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب یہ میرا اعمال نامہ نہیں ہے میں نے یہ اعمال نہیں کیے پھر اس کو کہا جائے گا کہ خطا اور نسیان کا مقام نہیں ہے یہ تیرا ہی اعمال نامہ ہے کیا کہ تم نے دنیا میں نیت کی تھی کہ اگر مجھ میں حالت ہوئی تو میں یہ اعمال کروں گا اس لیے یہ اعمال تیری نیت کی وجہ سے ہیں ۔ (صحیح مسلم)
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی بندے کو اس کے عمل پر اجر نہیں دیتا بلکہ انکی نیت پر اس کواجر دیتا ہے کیونکہ نیت کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل میں ریا ءنہیں ہوتی ۔
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (الطبرانی الکبیر)
اے بندے تو جان لے کہ نیت سے مراد نفس کو کسی کام پر آمادہ کر نا اورنفس پر اس کام کا غلبہ کرنا ہے نہ کہ نفس کو اس کام کی خبر دینا ہے اور نفس کو ایک حکم سے دوسرے حکم کی طرف منتقل کرنا ہے جیسا کہ جب کسی شخص پر شہوت کا غلبہ ہو تو وہ نکاح کا ارادہ کرتا ہے پھر وہ اس نکاح میں حضور ﷺ کی سنت کی نیت کرتا ہے اور نیک اولاد کی نیت کرتا ہے مگر اس کے باطن میں یہ باتیں محال ہیں کیونکہ اس کے باطن میں شہوت کا غلبہ ہے اس لیے باطن میں نیت کرنا اس کا گمان ہے۔
متاخرین بزرگوں نے نیت کے بارے میں بعض مثالیں اس کے خلاف نقل کی ہیں کیونکہ ان کا فرمان ہے کہ جتنا عمل مضبوط ہوگا اتنی ہی نیت مضبوط ہو گی ۔
ہم اللہ عز وجل سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت میں ایسا خالص کر دے کہ نہ ہم غیر کے آگے جھکیں اور نہ گناہ کا ارتکاب کریں اور ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم صرف تیرے لیے ہی عمل کریں۔
چوتھا باب
گوشہ نشینی کے فوائد کے بیان میں
خلوت اور گوشہ نشینی کے دو فائدے ہیں ۔
پہلا فائدہ:۔عبادت کے لیے فارغ ہونا اور اللہ تعالی کے ساتھ مانوس ہونا ہے اس لیے حضور نبی مکرم ﷺ ابتداء میں ہر چیز سے ہٹ کر غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت مالک بن دینار نے فرمایا کہ جو مخلوق سے گفتگو کر تا رہتا ہے اور اللہ تعالٰی کے ساتھ گفتگو کر کے مانوس نہیں ہوتا اس کے اعمال میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ اس کا دل اندھا ہو جاتا ہے اور اس کی عمر ضائع ہو جاتی ہے۔ بعض بزرگوں سے پوچھا گیا کہ آپ تنہائی کیوں اختیار کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تنہائی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی مجلس میں بیٹھنا ہے۔ فرمایا کہ جب کوئی اللہ تعالی سے سرگوشی کرنا چاہتا ہے تو قرآن پاک کی تلاوت کرے اور اگر کوئی اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنا چاہتا ہے تو وہ نماز پڑھے۔
دوسرا فائدہ:۔ ایسے گناہوں سے نجات پانا جن کا ارتکاب لوگوں کے ساتھ میل جول سے ہوتا ہے جیسے جھوٹ ، چغلی، غیبت ، زنا وغیرہ۔ لوگوں کے بُرے اخلاق کی وجہ سے طبیعت کا برائی کی طرف مائل ہونا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ انسانی طبیعت فطری طور پر جب کسی کی طرف مائل ہوتی ہے تو وواس جیسا بننا چاہتی ہے اور اس کی اقتداء کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے جب کوئی آدمی کسی سے ملتا ہے تو اس کی طبیعت دوسرے کی طرف ایسے مائل ہوتی ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ اس لیے دنیا کے حریص کے پاس بیٹھنے سے دنیا کی حرص و ہوس بڑھتی ہے اور زاہد کے پاس بیٹھنے سے زاہد بننے کو دل کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَأَعۡرِضۡ عَنِ ٱلۡجَٰهِلِينَ اور جاہلوں سے کنارہ کر لو ۔ (الا عراف :199)
دوسری جگہ قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے کہ:نیکوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (اس تحریر کا مفہوم قرآن پاک کی اس آیت سے لیا ہے ۔ : اور ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکیوں کاروں میں سے ہو جائیں گے۔ (التوبہ:75 )
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ تنہائی بری مجلس سے بہتر ہے اور نیک لوگوں کی مجلس تنہائی سے بہتر ہے ۔ (مستدرک حاکم)
حضور نبی مکرمﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے دوست کو دیکھے ۔ (مستدرک حاکم)
بعض عارفین کا قول ہے کہ لوگوں کی صحبت آگ کی طرح ہے۔ اس سے بچو گے نہیں تو یہ تمہیں جلا دے گی ۔
حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا جس کا کوئی دوست (رہبر ) نہیں ہے جو اس کی اصلاح کرے اس کی کبھی بھی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس لیے جو سلوک کے راستے کو آخری مقام تک طے کرنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے ساتھی (مرشد )کو تلاش کرے جو سلوک کا راستہ طے کروانے کا اہل ہو۔ پھر وہ چار چیزوں سے نجات حاصل کرے۔
(1)مال (2) حب جاه (3) تقلید (4) گناه
پھر جب وہ ان چیزوں سے نجات حاصل کرلے تو وہ ایسا ہو جائے گا جیسے اس نے وضو کیا ہے اور اس کے اندر نماز ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے۔ پھر یہاں پرمرشد کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخری مقام تک اپنے نفس کے ساتھ مرید کو راستہ طے کروائے۔ یہاں تک کے مرید مرشد کی اتباع کرتار ہے۔ یہاں پر مرید مرشد کے ساتھ ایسے ہونا چاہیے جیسے میت غسل دینے والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کہ میت خود بخود حرکت نہیں کر سکتی پھر مر شد مرید کو چار چیزوں کا حکم کرے۔
(1)خاموشی (2) بھوکا رہنا (3) رات کو بیدار رہنا (4) خلوت اختیار کرنا۔
کیونکہ سلوک کے راستے کو طے کرنے کا دارو مدار ان چار چیزوں پر ہے اور یہ سعادت ابدی اور سلامتی کا وسیلہ ہیں۔ پھر مرشد اسکواذ کار میں سے کوئی ذکر متعین کرے۔
مرید کے لیے لازم ہے کہ مرشد سے بھی جدانہ ہو پھر عنقریب ا سے ایسی تونگری عطا ہو گی کہ وہ صاحب اختیار ہو جائے گا۔ اور اس کو جاگتے اور سوتے میں اشیاء کی وہ حقیقتیں ظاہر ہوں گی جو لوح محفوظ میں لکھی ہیں۔ اور اس پر حق کے انوار ظاہر ہوں گے اور پوشیدہ طور پر اس پر مہربانی کی جائے گی ۔ اس مقام پر رنگوں کے وہ انوار نظام ہونگے جو غیر حق ہیں۔ اس کو چاہیے کہ اس کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ وہ دن رات اعلیٰ مقام کی طرف ترقی کی طلب کرتا رہے۔ بے شک راہ سلوک میں نور کے نوے حجاب ہیں جو ان حجابات میں کسی بھی حجاب میں ٹھہر گیا وہ دھوکے میں ہے۔ جس کے اندر محبوب کے وصل کی پیاس ہوتی ہے وہ اس کے عشق کی آگ میں جل جاتا ہے پھر عشق کی میٹھی شراب کے ساتھ اسکی پرورش ہوتی ہے پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ واصل باللہ ہو جاتا ہے۔
پانچواں باب
خاموش رہنے کے فضائل کے بیان میں
اے سالک تو جان لے کہ زبان چھوٹے بڑے گناہ کرتی رہتی ہے اس لیے زبان کے خطرے سے نجات خاموش رہنے میں ہے۔ جیسے کہ حضورنبی کریم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔ (جامع الترمذی)
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور نبی مکرمﷺنے فرمایا کہ بلائیں زبان کے ساتھ نازل ہوتی ہیں ۔ (مسند الشھاب)
حضورنبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔(صحیح البخاری)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حد یث پاک کا مفہوم ہے کہ عبادت کے دس حصے ہیں نو حصے خاموشی میں ہیں اور ایک حصہ لوگوں سے دور رہنے میں ہے۔ (احیاء العلوم)
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہے سعادت مندی ہے اس شخص کے لیے جو کسی سے زیادہ بات نہ کرے اور اپنے مال کو زیادہ خرچ کرے۔ (سنن البیہقی)
حضور نبی مکرم ﷺکی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جس نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور دنیا سے بے رغبت ہے تو اس کے پاس جاؤ کیونکہ ، وصاحب حکمت ہے۔ (حلیۃ الاولیاء)
حضور نبی مکرم ﷺکی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو پیدا فرمایا تو اس کے جسم میں سب سے اچھا عضو زبان بنایا جس کی وجہ سے وہ جنت یا دوزخ میں داخل ہو گا ۔ (کتاب الزھد)
پس زبان کی خرابی سے بچنا چاہیئے کیونکہ زبان کی خرابی جہنم میں لے جاتی ہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ لوگ اپنی زبان کی کارستانیوں کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ ڈالیں جائیں گے اور تم ( الزام تراشی اور فضول باتوں کے سوا کچھ نہیں کہتے ۔ (جامع الترمذی)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی مکرم ﷺسے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی نصیحت فرما ئیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور ہر وقت موت کو یاد کرو۔ اور میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں جس پر ہر چیز کا دارو مدار ہے پھر آپ ﷺ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ (مطلب کہ اسکوقا بو میں رکھو) (مسند الشاشی)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے منہ میں پتھر رکھتے تھے تا کہ اپنے آپ کو بات کرنے سے روکیں۔ اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کی وجہ سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ۔ بعض حکماء کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی نے دو کان اور ایک زبان پیدا کی ہے تا کہ آدمی زیادہ سنے اور بات کم کرے۔ اور کہا جاتا ہے کہ جس کی عقل کم ہے وہ زیادہ اتباع کرے۔ انسان کی سلامتی زبان کی حفاظت میں ہے انسان کا مقام زبان کی وجہ سے ہے۔ جس نے زبان کو قابو میں رکھا اس کا مقام بڑھ جاتا ہے۔
چھٹا باب
بھوکے رہنے کے فضائل کے بیان میں
حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اپنے نفس سے بھوک اور پیاس کے ساتھ جہاد کرو جیسے تم اپنے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو۔ بے شک اس جہاد میں اتنا ہی اجر ہے جتنا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے ہے۔ اور اللہ کے نزدیک بھو کے اور پیاسے رہنے سے زیادہ پسند یدہ عمل کوئی نہیں ہے۔ (الطبرانی الکبیر)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اس شخص کے بارے میں جو دنیا میں کم کھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو میرے اس بندے کی طرف جس نے کھانے اور پینے کے معاملے میں اپنے آپ کو آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔ اس نے میری وجہ سے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ اے میرے فرشتو تم گو اہ ر ہنا کہ جو کھانا پینا اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ میں ہی صرف اس کا بدلہ ہوں تو اس کے لیے جنت میں اعلیٰ درجات ہیں۔(الکامل ابن عدی)
حضور نبی مکرم ﷺکی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ شیطان بنی آدم کے رگ رگ میں خون کی طرح دوڑتا ہے جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو شیطان کو تنگی محسوس ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری)
حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ جس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا یا وہ صرف گناہ میں ہی مبتلا ہوگا یا گناہ کی طرف مائل ہو گا۔ اس لیے بھوکا رہنا جنت کا دروازہ کھٹکھٹانا اور نعمتوں کا گھر بنانا ہے کیونکہ بھوک انسان کو اطاعت کی طرف لے جاتی ہے اور شہوت کو روکتی ہے۔ بھوکا رہنے سے انسان کا دل نرم ہوجاتا ہے اور انسان پر حکمت کی بارش ہوتی ہے۔ بھوک بدن کو خاموشی کی طرف مائل کرتی ہے۔ پیٹ بھر کر کھانے سے انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب کو بھول جاتا ہے۔ اس کا بدن بیمار ہو جاتا ہے۔ دنیا کی طلب پیدا جاتی ہے اور انسان لمبی امید باندھ لیتا ہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ پیٹ بھر کر کھانے والا آسمان کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوگا ۔ (مسند الفردوس)
حضور نبی مکرمﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ انصاف سے کھاؤ۔ انصاف سے پیو اور انصاف سے پہنو کیونکہ یہ نبوت کے اجزاء میں سے ہے۔ (مسند الفردوس)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل وہ ہے جو لمبے عرصہ تک بھوکا رہتا ہے اور غور وفکر کرتا ہے۔ اور نا پسند ید وہ ہے جو زیادہ کھانا اور سوتا ہے۔ (شعب الایمان)
حضرت سری سقطی کو کسی نے دیکھا کہ آپ ستو پھانک رہے تھے تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ ستو کیوں پھانک رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حساب لگایا ہے کہ روٹی کی بجائے اگر میں ستو پھانکوں تو ستر مرتبہ اللہ کا نام زیادہ بار لیتا ہوں ۔ اس لیے میں نے چالیس سال سے روٹی نہیں کھائی ۔ اے بھائی تو جان لے کہ جس کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ نفس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے تو وہ اپنے نفس کی خوبیوں پر فخر نہیں کرتا۔
ساتواں باب
بیداری اور خوابوں کے علم کے فضائل میں
اے انسان تو جان لے کہ بیدار رہنا دل کو نرم کرتا ہے۔ عقل کو مضبوط کرتا ہے۔ چہرہ کو روشن کرتا ہے۔ عمر میں برکت دیتا ہے اور نیندان کے مخالف کام کرتی ہے۔
حضرت ابراہیم ادھم فرماتے ہیں کہ میں لبنان کے پہاڑوں میں رجال الغیب کی صحبت میں تھا۔ انہوں نے مجھے چار باتوں کی وصیت کی۔
(1) جس نے زیادہ کھا یا اس کی عبادت میں لذت ختم ہو جاتی ہے۔
(2) جو زیادہ سوتا ہے اسکی عمر میں برکت ختم ہو جاتی ہے۔
(3) جولوگوں کی رضا تلاش کرتا ہے وہ اپنے رب کی رضا سے محروم ہو جاتاہے۔
(4) جو کثرت سے اور فضول کلام کرتا ہے وہ بھی امن میں نہیں رہتا اور دونوں جہانوں میں بلا میں مبتلا رہتا ہے۔
اس لیے حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی زیادہ کھانے اور سونے والے کو پسند نہیں کرتا ۔ (الطبرانی الکبیر)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کرو ۔ اور رات کو دیر تک سجدے کرو اور اس کی پاکی بیان کرو۔ (الدھر:25،26)
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ رات کا قیام ضروری ہے چاہے بھیڑ کو دوہنے کے اوقات ) کے بقدر ہی ہو ۔ (مستدرک حاکم)
ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقِيلَ: مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ، مَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: (بَالَ الشيطان في أذنه) (صحیح بخاری اذا نام و لم یصل)
حضور نبی مکرم ﷺ کی مجلس میں ایک آدمی کا ذکر ہوا کہ وہ ساری رات سویا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کر دیا تھا۔
سالک کے لیے مناسب ہے کہ جب تک نیند نہ آئے تمام رات لا الہ الا اللہ الحی القیوم کے ذکر میں مشغول رہے۔ جب نیند کا غلبہ ہو جائے تو اس کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیند پوری نہ کرے گا تو تہجد کی نماز چھوٹ جائے گی۔ باوضو ہو کر عبادت اور اپنے نفس کا حق ادا کرنے کی نیت سے سوئے ۔ اور وہ اس حال میں سوئے کہ اس کا دل حاضر ہو اور وہ اپنے رب کو دیکھ رہا ہو ۔ اور اپنے رب سے شرم محسوس کر رہا ہو ۔ اپنے دونوں پیروں اور ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے آپ کو ایسا بنالے جیسے اسکوموت آگئی ہو اور اس کی روح اللہ کی طرف چلی گئی ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بارے میں خیال کرے کہ :
قُمِ ٱلَّيۡلَ إِلَّا قَلِيلٗا( المزمل :2) رات کو قیام کر دیگر تھوڑا سا۔
اور پھر یہ دعا پڑھے۔
اَللَّهُمَّ بِكَ آمَنْتُ وَ عَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَبِاسْمِكَ وَضَعْتُ جَنَبِى وَ بِاسْمِكَ أَرْفَعَهُ وَأَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ أَنْ تَوْقَطِى فِى اَحَبَّ الْأَوْقَاتِ إِلَيْكَ وَتَشْعَلْنِي فِيهِ بِطَاعَتِكَ.( صحیح البخاری)
پھر جب نیند سے بیدار ہو تو مناسب یہ ہے کہ کھڑا ہو کر یہ دعا پڑھے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ. (مسند احمد حنبل:حدیث البراء بن عازب)
پھر اپنے خواب کے بارے میں غور و فکر کرے کیونکہ خواب احوال کے مطابق آتے ہیں اس لیے کہ قلب آئینہ کی طرح ہے ۔ جب قلب سے دینوی اشغال کے پردے اور نفسانی کدورت کی ظلمت ختم ہو جاتی ہے تو وہ حقائق پرمبنی وہ امور دیکھتا ہے جو لوح محفوظ پر نقش ہیں اور جب تمام حجاب ظلمت ختم نہیں ہوتے تو وہ لوح محفوظ کو نیند میں تو دیکھتا ہے کیونکہ حجاب ظلمت حواس کے کاموں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں لیکن خیال کی حرکات و سکنات میں رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ اس لیے لوح محفوظ سے قلب پر جو کچھ واقع ہوتا ہے اس میں خیال حائل ہو جاتا ہے اور خیال لوح محفوظ کے امور کے مشابہ کوئی اور امراپنی طرف سے بنا لیتا ہے۔ کیونکہ یہ خیال حکایت جیسا ہوتا ہے یعنی اس خیال کا کوئی نہ کوئی مطلب ہوتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ خوابوں کی پانچ اقسام ہیں۔
(1) انفسی خواب : ایسے خواب جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
(2) آفاقی خواب : ایسے خواب جو تبدیل نہیں ہوتے۔
(3) شہوانی خواب ایسے خواب جس میں نیند کے دوران احتلام ہو جائے۔
(4) فاسد خواب ایسے خواب جو بیماری اور غم کی وجہ سے آتے ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
(5) اخلاطیہ ایسے خواب جن میں اخلاط میں سے کسی ایک خط کا غلبہ ہو۔( حکماء کے نزدیک جسم انسانی میں چار خلط ہوتے ہیں۔ (1) خون (2) بلغم (3) صفراء (4) سودا۔انہی کی کمی بیشی سے جسم بیمار ہوتا ہے اور انہی کے اعتدال کا نام صحت ہے۔)
مناسب یہ ہے کہ خواب کسی کے سامنے بیان نہ کیا جائے خاص طور پر نا پسندیدہ خواب سوائے اس شخص کے جو خواب کی تعبیر کا علم رکھتا ہو۔
حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ:
الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعْبَرْ(سنن أبي داودباب في الرْؤياء)
خواب پرندے کے پاؤں پر ہوتے ہیں۔
اور کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ سچے خواب سحری کے وقت یا دن کی روشنی میں (چاشت کے وقت ) یا باوضو ہوکر سونے سے آتے ہیں۔ حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ
إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ تَكْذِبُ، وَأَصْدَقُكُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُكُمْ حَدِيثًا، (صحيح مسلم کتاب الرویاء)
تم میں سے جو بات کرنے میں سچا ہو گا ۔ اتنا ہی اس کا خواب بھی سچا ہوگا ۔
حضور نبی مکرم ﷺکی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ
مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يتخيَّل بِي(صحيح البخاري کتاب التعبیر)
جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا۔
جاننا چاہیے کہ خواب کی تعبیر خواب کو سمجھنے کے بعد کی جائے ۔ خواب دیکھنے والے کے حالات کو دیکھنا چاہیے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ خواب دیکھنے والا کس مرتبے کا ہے۔ تعبیر خواب کے تین مراتب ہیں۔
(1) عوام کا مرتبہ۔ (2) خواص کا مرتبہ۔ (3) اخص الخواص کا مرتبہ۔
مثال کے طور پر جس نے خواب میں دیکھا کہ وہ سمندر میں ہے اور کشتی چلا رہا ہے تو اگر وہ عوام میں سے ہے تو سمندر سے مراد دنیا ہے۔ اور کشتی سے مراد اس کا جسم ہے اور کشتی چلانے سے مراد اس کی عمر ہے یا اس کا شریعت پر چلنا ہے ۔ اگر وہ خواص میں سے ہے تو سمندر سے مراد معرفت ہے۔ اور کشتی چلانے سے مراد سلوک کا راستہ ہے۔ اگر اخص الخواص میں سے ہے تو سمندر سے مراد محبت ہے اور کشتی چلانے سے مراد حقیقت کی طرف سفر ہے۔
خواب کی تعبیر بیان کرنے میں اصول یہ ہے کہ خواب دیکھنے والے نے خواب میں کسی انسان کو یا کسی حیوان کو یا ان دونوں کے علاوہ کسی اور چیز کو دیکھا ہے۔ اور اس پر کس صفت کا غلبہ ہے اور اس کے حال کو کس کے ساتھ مناسبت ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا گدھے کو دیکھے تو اس پر شرمگاہ کی شہوت کا غلبہ ہے اور اس کی قوت اور ضعف کے حساب سے اس پر شہوت کے غالب یا مغلوب ہونے کا اعتبار کیا جائے گا۔
اگر خواب دیکھنے والا بکری کو دیکھے تو اس پر پیٹ کی شہوت کا غلبہ ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا کالے کتے یا ریچھ یا ایسی بھڑکتی ہوئی آگ کی چنگاری کو دیکھے جو روشن نہیں ہے تو اس پر غصہ کی حالت کا غلبہ ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا مینڈک یا چھپکلی کو دیکھے تو اس پر نفرت یا نا پسندیدگی کی حالت کا غلبہ ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا سرخ بھڑ کو دیکھے تو اس پر شیطانی خطرات کا غلبہ ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا لومڑی کو دیکھے تو اس پر مکر وفریب اور جھوٹ کا غلبہ ہے۔ اگر خواب دیکھنے ولا بندر یا یا ابلق رنگ کے کتے کو دیکھے تو اس پر شر کا غلبہ ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا سانپ کو دیکھے تو اس پر عداوت کی حالت غالب ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا بچھو کو دیکھے تو یہ لوگوں کو زبان کے ساتھ تکلیف دینے والا ہوگا۔
اگر خواب دیکھنے والا اونٹ کو اس حال میں دیکھے کہ وہ اونٹ سے خوف کھارہا ہے تو اس پر کینہ کی حالت کا غلبہ ہے ۔ اور اگر اونٹ نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے اور مطیع ہے تو اگر خواب دیکھنے والا طریقت کے راستے پر چل رہا ہے تو اس پر تحمل اور عاجزی کا غلبہ ہے اور اس نے اپنے آپ کو اپنے شیخ کے حوالے کیا ہوا ہے۔ اگر خواب دیکھنے والے نے اونٹ کو آواز دی اور اونٹ اس کے ساتھ مانوس ہے تو اس پر وجد اور شوق کی حالت کا غلبہ ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا بھیڑ ئیے کو دیکھے تو اس پر حسد کا غلبہ ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا چیتے کو دیکھے تو اس پر شدید غصےے کا غلبہ ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا تیندوے (چھوٹے چیتے ) کو دیکھے تو اس پر تکبرکا م غلبہ ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا شیر کو دیکھے تو یہ اس کے بلند ہونے کی علامت ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا بیل کو دیکھے یا وہ اپنے آپ کو کثرت سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی ترجیح دیتا ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا خر گوش کو دیکھے تو یہ غفلت کی علامت ہے۔
اگر خواب دیکھنے والا چیونٹی کو دیکھے تو یہ حرص کی علامت ہے۔ اگر اس نے یہ دیکھا کہ کسی نے چیونٹی کو روند دیا ہے یا اس کا رستہ روک دیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس نے برائی سے نجات حاصل کرلی۔
اگر خواب دیکھنے والا چوہے کو دیکھے تو یہ بخل کی علامت ہے۔ اگر یہ دیکھے کہ چوہا تکلیف پہنچا رہا ہے یا چوہا چھوٹا ہے، بڑا ہے، کمزور ہے ، یا مرا ہوا ہے تو اس حساب سے اس کی حالت کے غالب یا مغلوب ہونے کا اعتبار کیا جائے گا۔
اگر کوئی عام آدمی خواب میں کسی عورت کو کمزور یا بد شکل دیکھے یا کسی عورت کوبہت بوڑھی حالت میں دیکھے یا کسی عورت کو خدمت کرتے ہوئے دیکھے تو اس پر دنیا کا غلبہ ہے۔ اسی طرح جب کوئی تارک الد نیا سالک خواب میں ایسی عورت کو دیکھے جو معشوق کی صورت میں اسے دھوکے سے اپنی طرف بلا رہی ہے اور اس کی اطاعت گزار ہے تو اس پر بھی دنیا کا غلبہ ہے۔
اگر کوئی سالک خواب میں نجاست کو دیکھے کہ وہ اس کے ہاتھ یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے تو جان لے کہ یہ دنیا کا مال ہے۔ اگر کوئی عام آدمی خواب میں دیکھے کہ وہ جنت میں داخل ہوا ہے تو اس سے مراد حصول علم ہے اور اگر کوئی سالک یہ خواب دیکھے تو اس سے مراد ہے کہ وہ عالم قلب میں داخل ہو گیا ہے اور اگر کوئی منتہی یہ خواب دیکھے تو اس سے یہ مرادہے کہ وہ فرق بعد الجمع کے مقام میں داخل ہو گیا ہے۔
اگر کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ دوزخ میں داخل ہو رہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خواہشات نفس کے تابع ہے۔ اگر کسی نے دیکھا کہ وہ بازار میں داخل ہور ہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی طبیعت کے تقاضے کے مطابق عمل کرتا ہے۔
اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ اسے نزع کے وقت تنگی اور وحشت محسوس ہورہی ہے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا قلب صاف ہو چکا ہے۔ اور اگر اضطراب کی حالت میں سخت عذاب میں جاتا دیکھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی غم میں مبتلا ہے۔
اگر کوئی خواب میں اس گھر کو دیکھے جہاں وہ پیدا ہوا ہے اور اس کی پرورش ہوئی ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی طبیعت پر پرانے حالات کا غلبہ ہے۔ اور گھر کو آراستہ دیکھے تو یہ اس کے اچھے حالات کی دلیل ہے۔ اگر وہ گھر کو بوسیدہ اور خراب حالت میں نہ دیکھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کر رہا اور اگر وہ گھر میں پانی جمع ہوا دیکھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ علم پرعمل پیر اہے۔
اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ کسی باغ میں داخل ہوا ہے اور اس نے وہاں پھل دار درخت دیکھے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے قلب کی اصلاح ہوگئی ہے ۔ اگر وہ پکے ہوئے خوبصورت پھل دار درخت دیکھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے قلب کی اصلاح شروع ہوگئی ہے۔ اگر وہ بغیر پھلوں کے درخت دیکھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت میں کابلی اورسستی کا غلبہ ہے اور وہ ہر وقت رخصت پر عمل کرتا ہے۔
اگر کوئی خواب میں حجاز ( مکہ ومدینہ) کا سفر کر رہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی توجہ اللہ تعالی کی طرف ہے۔ اگر کوئی خواب دیکھے کہ وہ بیت المقدس کا سفر کر رہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے حال کی اصلاح ہو گئی ہے اور وہ نفس کی موجودہ حالت سے نکل گیا ہے۔
اگر کوئی خواب میں کسی گاؤں کو دیکھے تو یہ جمیعت قلب کی حالت ہے۔
اگر کوئی خواب میں پہاڑ کو دیکھے تو تمکین قلب کی حالت ہے۔
اگر کوئی خواب میں ستاروں سے بھرا آسمان دیکھے تو یہ قلب کے روشن ہونے کی حالت ہے۔
اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ بلندی سے نیچے گرا ہے تو اس سے مراد کفر اور ضلالت کی حالت ہے اور اس کے برعکس اگر پستی سے بلندی کی طرف گیا ہے تو اس سے مراد ایمان اور ہدایت کی حالت ہے۔
اگر کوئی خواب میں سورج کو دیکھے تو اس سے مراد روح ہے۔ اگر کوئی خواب میں چاند کو دیکھے تو اس سے مراد قلب ہے۔ اگر چاند روشن ہے تو اس سے مراد قلب کا صاف ہونا ہے اور اگر چاند روشن نہیں ہے تو اس سے مراد ہے کہ قلب کی ابھی صفائی نہیں ہوئی ہے۔ اگر کوئی خواب میں کسی نبی علیہ السلام کو دیکھے تو یہ اس کے اچھی فطرت پر پیدا
ہونے کی دلیل ہے۔
اگر خواب میں حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھے تو یہ بزرگی کی صورت ہے۔ اگر خواب میں حضرت ایوب علیہ السلام کو دیکھے تو یہ اس کے صبر کی حالت ہے۔ اگر خواب میں حضرت یحی علیہ السلام کو دیکھے تو اس سے مراد تجرد کی حالت ہے۔ اگر خواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھے تو اس سے مراد اس کی روحانی صورت ہے۔
اگر حضور نبی مکرم ﷺ کو دیکھے تو اس سے مراد شریعت ہے اور آپ ﷺکے شمائل میں کمی بیشی کے لحاظ سے اس کا شریعت پر عمل پیرا ہونے کا اختیار کیا جائے گا۔
اگر خواب میں کسی کتاب کو دیکھے تو اس کے موضوع کے حساب سے اس کی تعبیر کی جائے گی۔
اگر کسی نے کوئی صحیفہ یا حدیث کی کتاب دیکھی ہے تو اس سے مراد اس کے دین کی حالت ہے۔
اگر فقہ کی کتاب دیکھی ہے تو اس سے مراد شریعت کی صورت ہے۔
اگر کوئی وراثت کی کتاب دیکھتا ہے تو اس سے مراد میراث ہے۔
اگر کوئی خواب میں مسنون دعاؤں کی کتاب کو دیکھے تو اس سے مراد خیر ہے۔
اگر کوئی خواب میں قلم دیکھے تو اس سے مراد اس کی زبان ہے۔
اگر کوئی خواب میں روشنائی دیکھے تو اس سے مراد معرفت ہے۔
اگر کوئی خواب میں کا غذدیکھے تو اس سے مراد اس کا قلب ہے۔
اگر کوئی خواب میں کسی عالم کو دیکھے تو اس سے مراد بھی معرفت ہے۔
اگر کوئی خواب میں کسی امیر یا قاضی کو دیکھے تو اس سے مراد اس کی قوت عاقلہ ہے۔
اگر کوئی خواب میں کسی غلام یا اپنے پڑوسی کو دیکھے تو اس سے مراد اس کا خدمت میں مضبوط ہونا ہے یا اس سے مراد دنیا ہے۔
اگر کوئی خواب میں اپنی بیوی یا ماں اور اس کے فوت شدہ رشتے داروں کو دیکھیے تو اس سے مراد قوت نفسانی ہے۔
اگر کوئی خواب میں اپنے باپ کو یا اس کے فوت شدہ رشتہ داروں کو دیکھے یا کوئی عورت اپنے شوہر کو دیکھے تو اس سے مراد ہے کہ ان پر روزی کے معاملے میں مہربانی ہوگی۔
اگر کسی نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا تو اس سے مراد ہے کہ اس نے اپنے شیح کو دیکھتا ہے۔
اگر کسی نے خوبصورت امرد ( کمسن لڑکے ) کو دیکھا تو اس سے مراد ہے کہ اس نے اپنی روح کو دیکھا ہے۔
اگر کسی نے خواب میں نوزائیدہ ( دودھ پیتے بچے) کو جنم دیا تو اس سے مراد ہےکہ اس نے اپنے قلب کو دیکھا ہے یا پھر اپنی فطرت اصلی کو دیکھا ہے۔
اگر کسی نے خواب میں کسی لونڈی کو یا بہت خوبصورت چیز کو لطافت کی حالت میں دیکھا تو اس سے مراد ہے کہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔
اگر کسی نے خواب میں خصیوں کو بغیر شہوت کے دیکھا تو اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر روحانیت کا غلبہ ہے۔
اگر کسی نے خواب میں نمک دیکھا تو یہ اس کا حال درست ہونے کی علامت ہے ۔
اگر کوئی خواب میں کھانے والی چیز دیکھے تو ہر کھانے والی چیز سے مراد معنوی غذا ہے جو قلب کو مضبوط کرتی ہے پھر کھانے والی چیزوں کے عمدہ اور عیب دار ہونے کے حساب سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ عمدہ چیزوں میں روٹی ، دودھ، شہد اور پکا ہوا گوشت شامل ہیں۔ پکے ہوئے گوشت سے مراد ہے کہ اس پر بشریت کا غلبہ ہے۔ دودھ کو دیکھے تو اس سے مراد ہے کہ وہ اپنی فطرت اصلیہ پر ہے۔ شہد کو دیکھے تو اس سے مراد علم لدنی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پھل دیکھے تو اس سے تقوی کی کوئی نہ کوئی قسم مراد ہے۔
اگر کوئی خواب میں پاک اور صاف لباس دیکھے تو یہ اس کے قلب اور نفس کے حال کی صفائی کی دلیل ہے اور اگر میلا اور گندا الباس دیکھے تو اس سے مراد اس کا الٹ ہے ۔ اور لباس سے مراد تقویٰ بھی ہے۔
اگر کوئی سالک اپنے خواب میں اپنے آپ کو ننگا دیکھے تو اس سے مراد تجرید کی حالت ہے۔ اور اگر وہ متقی نہیں ہے تو اس خواب سے مراد اس کے ایمان کی کمی ہے اور ان دونوں حالتوں میں فرق اس کی ظاہری حالت کے مطابق کیا جائے گا۔
اگر کوئی خواب میں کسی کو ننگے پاؤں دیکھے یعنی اس نے جوتا نہیں پہنا تو اس سے مراد ہے کہ اس پر دیوانگی کی حالت کا غلبہ ہے۔
اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ کیچڑ میں ہے تو یہ اس کے حال کے فاسد ہونے کی دلیل ہے۔
اگر کسی نے خواب میں خرقہ دیکھا اور یہ دیکھا کہ وہ خرقہ ضائع ہو گیا ہے یا چوری ہو گیا ہے تو مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے حال کی اصلاح کرے اگر اسے شہوت پوری کرنے کی وجہ سے یہ مصیبت پہنچی ہے تو اس پر شیطان کا غلبہ ہے۔
اگر کسی نے خواب میں کوئی مریض دیکھا ہے تو وہ یہ جان لے کہ یہ اس کا قلب ہے اور بیماری کا آنا اس کی ایسی بری خصلتوں کی وجہ سے ہوتا ہے جن خصلتوں کا اس پر غلبہ ہے۔
اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ مر گیا ہے یاوہ کسی چیز کے نیچے آکر مرا ہے تو وہ سمجھ لے کے اس کا نفس مغلوب ہو گیا ہے اور اگر وہ کسی اور کو مرا ہوا دیکھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس صفت کا اس کے نفس پر غلبہ تھا وہ غلبہ ختم ہو گیا ہے۔
(صفت اخلاطیہ کا خواب میں دیکھنے کے بارے میں ) تم جان لو کہ اگر کوئی بچپن کی عمر میں ہو یا بہار کے موسم میں ہو تو وہ اگر خواب میں سرخ چیزوں کو دیکھے یا وہ ہوا کو دیکھے یا وہ اپنے آپ کو ہوا میں اڑتا ہوا دیکھے تو اس سے مراد ہے کہ اس شخص پر خون کے خلط کا غلبہ ہے اور یہ خواب اس کی علامت ہے۔
ہر کوئی جو بوڑھا ہو یا موسم گرما میں ہو تو اگر کسی کو خواب میں چیزیں چھوٹی ہو کر نظر آئیں اور چیزوں کو روشن دیکھے یا صاف ہوا کو دیکھے تو اس پر صفراء کا غلبہ ہے اور یہ خواب اس کی علامت ہے۔
ہر کوئی جوادھیڑ عمر میں پہنچ گیا ہو یا خزاں کے موسم میں ہو جب وہ خواب میں سیاہ رنگ کی چیزیں دیکھے یا وہ یہ دیکھے کہ وہ ڈر رہا ہے یا وہ موت کو دیکھے یاوہ دنیا کی سیرکر رہا ہے تو اس پر سوداء کا غلبہ ہے اور یہ خواب اس کی علامت ہے ۔
ہر کوئی جو سفر میں ہو یا موسم سرما میں ہو جب وہ خواب میں سفید رنگ کی اشیاء یا تھوڑا پانی دیکھے یا سردی محسوس کرے تو اس پر بلغم کا غلبہ ہے اور یہ خواب اس کی علامت ہے۔
اس لیے ہر کوئی جس پر ذکر کا نور سرایت کر جائے اس پر ان عناصر کا غلبہ ہوتا ہے پھر وہ خواب میں ان عناصر کے اختلاف کی وجہ سے دیکھتا ہے کہ وہ ہوا میں اڑ رہا ہے یا آگ میں داخل ہو رہا ہے یا کسی چیز کے گرد گھوم رہا ہے یا دنیا کی سیر کر رہا ہے یا سمندر میں تیر رہا ہے۔ اس لیے سالک کو چاہیے کہ وہ ان قیمتی باتوں سے فائدہ اٹھائے اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ اسے ان باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے بے پناہ نعمتیں عطا کرے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان باتوں پر ثابت قدم رکھے۔ سالک کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دے کیونکہ اللہ ہی کافی ہے کہ اس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ اس بات کو زیادہ جانتا ہے کہ اگر سالک اس کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتا ہے تو وہ فقر ، غناء اور اپنے رب کی اطاعت کا کتنا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی سیدھے راستے کی رہنمائی کر نیوالا ہے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور اسی کی طرف انسان کا ٹھکانہ ہے۔