امامت کی بحث اور اہل سنت و جماعت مکتوب نمبر 36دفتر دوم

 امامت کی بحث اور مذہب اہل سنت و جماعت اور مخالفوں کے مذہب کی حقیقت اور اس بیان میں کہ اہل سنت و جماعت افراط وتفریط کے درمیان جن کو رافضیوں اور خارجیوں نے اختیار کیا ہے۔ توسط اور اعتدال پر ہیں اور اہل بیت کی تعریف میں خواجہ محمدتقی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حمدوصلوة اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ درویشوں کی محبت اور ان کے ساتھ الفت و ارتباط رکھنا اور اس طائفہ  علیا کی باتوں کو سننا اور ان کے اوضاع و اطوار کی خواہش رکھناحق تعالی کی اعلے نعمت اور بڑی دولت ہے۔ 

حضرت مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تو المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی  اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی ۔ پس ان کا محب ان کے ساتھ ہے اور قرب کی بلند بارگاہ میں ان کاطفیلی ہے۔ 

توفیق آثار سعادت اطوار فرزندی خواجہ شرف الدین حسین نے بیان کیا ہے کہ باوجود مختلف تعلقات کے یہ تمام اوصاف حمیدہ آپ میں جمع ہیں اور با وجود بیہودہ گرفتاریوں کے یہ معافی پسندیدہ آپ میں موجود ہیں۔ اللہ تعالی کا حمد اور اس کا احسان ہے۔ آپ کی بہتری بہت کی خلقت کی بہتری کا موجب ہے اور آپ کی فلاح و بہبود پر بہت مخلوق کی فلاح و بہبود موقوف ہے۔ 

. مشارالیہ (خواجہ شرف الدین حسین)نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ اس فقیر کی باتوں سے آشنا ہے اور فقیر کے علوم کے سننے کی رغبت رکھتے ہیں۔ اگر چند کلمے آپ کی خدمت میں لکھے جائیں تو بہتر ہوگا۔ ان کے التماس کوقبول کر کے چند کلے لکھے جاتے ہیں۔ 

چونکہ اس زمانہ میں امامت کی بحث بہت ہورہی ہے اور ہر ایک اس بارہ میں اپنے ظن و تخمین کے بموجب گفتگو کرتا ہے۔ اس لیے اس بحث کے متعلق چند سطریں لکھی جاتی ہیں اور اہل سنت و جماعت اور مخالفوں کے مذہب کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔ 

اے شرافت و نجابت کے نشان والےشیخین کی فضیلت اور ختنین کی محبت اہل سنت و جماعت کی علامتوں میں سے ہےیعنی شیخین(حضرت ابوبکر و عمر) کی فضیلت جب ختنین (عثمان و علی)کی محبت کے ساتھ جمع ہو جائے تو یہ امر اہل سنت و جماعت کے خاصوں میں سے ہے۔ شیخین کی فضیلت صحابہ اور تابعین کے اجتماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو اکابر آئمہ نے کہ ان میں سے ایک امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ ہیں نقل کیا ہے اور شیخ ابواالحسن اشعری فرماتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی فضیلت باقی امت پر قطعی ہے اور حضرت امیر(علی) رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ اپنی خلافت اور مملکت کے زمانہ میں جم غفیر یعنی بڑی کثیر جماعت کے سامنے فر مایا کرتے تھے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس امت میں سب سے بہتر ہیں۔ جیسے کہ امام ذہبی نے کہا ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے بعد تمام لوگوں سے بہتر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی  عنہ پھر ایک اور آدمی ۔ پس ان کے بیٹےمحمد  بن حنفیہ نے کہا کہ پھر آپ ۔ فرمایا کہ میں تو ایک مسلمان آدمی  ہوں۔ 

غرض شیخین کی فضیلت ثقہ اور معتبر راویوں کی کثرت کے باعث شہرت اور تواتر کی حد تک چکی ہے۔ اس کا انکار کرنا سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ 

عبدالرزاق نے جو اکابر شیعہ میں سے ہے، جب انکار کی مجال نہ دیکھی تو بے اختیار شیخین کی فضیلت کا قائل ہو گیا اور کہنے لگا کہ جب حضرت علی شیخین کو اپنے اوپرفضیلت دیتے ہیں تو میں بھی حضرت علی کے فرمانے کے بموجب شیخین کو حضرت علی پرفضیلت دیتا ہوں۔ اگر وہ فضیلت نہ دیتے تو میں بھی نہ  دیتا۔ یہ بڑا گناہ ہے کہ میں حضرت علی کی محبت کا دعوی  کروں اور پھر ان کی مخالفت کروں۔ چونکہ حضرت ختنین کی خلافت کے زمانہ میں لوگوں کے درمیان بہت فتنے اور فساد برپا ہوگیا تھا اور لوگوں کے دلوں میں کدورت پیدا ہوگئی تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں عداوت   وکینہ غالب آ گیا تھا، اس لئے ختنین کی محبت کو بھی اہل سنت و جماعت کے شرائط میں سے شمار کیا گیا تا کہ کوئی جاہل اس سبب سے حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب پر بدظنی نہ کرے اور پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے جانشینوں کے ساتھ بغض و عداوت حاصل نہ کرے۔ پس حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی محبت اہل سنت و جماعت کی شرط ہے اور جو شخص یہ محبت نہیں رکھتا، اہلسنت سے خارج ہے۔ اس کا نام خارجی ہے اور جس شخص نے حضرت امیر کی محبت میں افراط کی طرف کو اختیار کیا ہے اور جس قدر کہ محبت مناسب ہے۔ اس سے زیادہ اس سے وقوع میں آتی ہے اور محبت میں غلو کرتا ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کوسب وطعن کرتا ہے اور صحابہ اور تابعین اور سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریق کے برخلاف چلتا ہے، وہ رافضی ہے۔ 

پس حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت میں افراط و تفریط کے درمیان جن کو رافضیوں اور خارجیوں نے اختیار کیا ہے، اہل سنت و جماعت متوسط ہیں اور شک نہیں کہ حق وسط میں ہے اور افراط و تفریط دونوں مذموم ہیں۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ حضرت پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ  اے علی تجھ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال ہے جس کو یہودیوں نے یہاں تک دشمن سمجھا کہ اس کی ماں پر بہتان لگایا اور نصاری نے اسے قدر دوست رکھا کہ اس کو اس مرتبہ تک لے گئے جس کے وہ لائق نہیں تھا یعنی ابن اللہ کہا۔ 

پس حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ دو شخص میرے حق میں ہلاک ہوں گے۔ ایک وہ جو میری محبت میں افراط کرے گا اور جو کچھ مجھ میں نہیں، میرے لیے ثابت کرے گا اور دوسرا وہ شخص جو میرے ساتھ دشمنی کرے گا اور عداوت سے مجھ پر بہتان لگائے گا۔ 

پس خارجیوں کا حال یہودیوں کے حال کے موافق ہے اور رافضیوں کا حال نصاری کے حال کے موافق کہ دونوں حق وسط سے برطرف جا پڑتے ہیں۔ وہ شخص بہت ہی جاہل ہے جو اہلسنت و جماعت کو حضرت امیر رضی الله تعالی عنہ کےمحبوں سے نہیں جانتا اور حضرت امیر رضی الله تعالی عنہ کی محبت کو رافضیوں کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ حضرت امیر رضی الله تعالی عنہ کی محبت رفض نہیں ہے بلکہ خلفاء ثلاثہ  سے تبری اور بیزاری رفض ہے اور اصحاب کرام سے بیزار ہونا مذموم اور ملامت کے لائق ہے۔ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ بیت 

إِنْ ‌كَانَ ‌رَفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ … فَلْيشْهِدِ الثَّقَلَانِ أَنِّي رَافِضِي

ترجمہ: اگرمحبت آل محمدی ہے رفض ہےتو جن دانس گواہ ہیں  کے رافضی ہوں میں یعنی آل محمد کی محبت رفض نہیں ہے۔ جیسے کہ جاہل لوگ گمان کرتے ہیں۔ اگر اس محبت کو رفض کہتے تو پھررفض مذموم نہیں کیونکہ رفض کی مذمت دوسروں کے تبری کے باعث ہوتی ہے۔ نہ کہ ان کی محبت کے باعث۔ 

پس رسول علیہ الصلوة والسلام کے اہل بیت کے محبت اہل سنت و جماعت ہیں اور حقیقت میں اہل بیت کا گروہ بھی یہی لوگ ہیں۔ نہ کہ شیعہ جو اہل بیت رسول اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گروہ اہل بیت کا خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ یعنی شیعہ اہلبیت کی محبت پر کفایت کریں اور دوسروں سے تبری نہ کریں اور پیغمبر علیہ الصلوة والسلام  کے تمام اصحاب کی عزت و توقیر بجالائیں اور ان کے لڑائی جھگڑوں کو نیک وجہ پرمحمول کریں تو اہل سنت و جماعت میں داخل ہوں گے اور خارجیوں اور رافضیوں سے باہر ہو جائیں گے کیونکہ اہلبیت کی محبت اور تمام اصحاب کرام کی تعظیم وتو قیرتسنین یعنی اہلسنت و جماعت بنا ہے۔ 

غرض خروج ورفض کی بنا ء پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کے بغض پر ہے اور تسنین کی بنیادآنحضرت ﷺ کے اصحاب کی محبت پر ہے۔ عاقل منصف ہرگز اصحاب کے بغض کو ان کی محبت پر اختیار نہیں کرے گا بلکہ پیمبر علیہ الصلوة والسلام کی دوستی کے باعث سب کو ووست رکھے گا۔ 

رسول علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے۔ فَمَنْ ‌أَحَبَّهُمْ، فَبِحُبِّي ‌أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ، فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْجس نے ان کو دوست رکھا، اس نے میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا، اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا۔ 

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اہل بیت کی محبت کا نہ ہونا اہلسنت کے ن میں کس طرح گمان کیا جاتا ہے جب کہ یہ محبت ان بزرگواروں کے نزدیک ایمان کی جزو ہے اور خاتمہ کی سلامتی اس محبت کے راسخ(مضبوط) ہونے پر وابستہ ہے۔ اس فقیر کے والد بزرگوار جو ظاہری باطنی عالم تھے، اکثر اوقات اہلبیت کی محبت پر ترغیب فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس محبت کو خاتمہ کی سلامتی میں بڑا دخل ہے۔ اس کی بڑی رعایت کرنی چاہیئے۔ ان کی مرض موت میں فقیر حاضر تھا۔ جب ان کا معاملہ آخر تک پہنچا اور اس جہان کا شعور کم ہو گیا تو اس وقت فقیر نے ان کی بات کو انہیں یاد دلایا اور محبت کی نسبت پوچھا تو اس بیخودی میں آپ نے فرمایا کہ میں اہل بیت کی محبت میں غرق ہوں ۔ اس وقت اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ 

اہلبیت کی محبت اہلسنت و جماعت کا سرمایہ ہے۔ مخالف لوگ اس معنی سے غافل اوران کی محبت متوسط سے جاہل ہیں۔ مخالفوں نے اپنی افراط کی جانب اختیار کیا ہے اور افراط کے ماسوا کوتفریط خیال کر کے خروج کا حکم دیا ہے اور خوارج کامذہب سمجھا ہے۔ نہیں جانتے کہ افراط وتفریط کے درمیان حد وسط ہے جوحق کا مرکز اور صدق کا متوطن ہے جو اہلسنت و جماعت شکر اللہ تعالی سعیہم کو نصیب ہوا ہے۔ 

تعجب ہے کہ خوارج کو اہلسنت ہی نے قتل کیا ہے اورا ہلبیت کے دشمنوں کو جڑ سے اکھیڑا  ہے۔ اس وقت رافضیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اگر تھا بھی تو عدم کا علم رکھتا تھا۔ شاید اپنے گمان فاسد ہیں کہ اہلبیت کےمحبوں کو رافضی تصور کرتے ہیں اور اہلسنت کور وافض کہتے ہیں۔ 

عجب معاملہ ہے۔ کبھی اہلسنت کو خارجیوں سے گنتے ہیں۔ اس لیے کہ افراط محبت نہیں رکھتے۔ کبھی نفس محبت کو ان سے محسوس کر کے ان کو رافضی جانتے ہیں۔ اسی واسطے یہ لوگ اپنی جہالت کے باعث اہلسنت کے اولیاء عظام کو جو اہل بیت کی محبت کا دم مارتے ہیں اور آل محمد علیہ الصلوة والسلام کی حب کا اظہار کرتے ہیں ۔ رافضی خیال کرتے ہیں اور اہلسنت و جماعت کے بہت سے علماء کو جو اس محبت کی افراط سےمنع کرتے ہیں اور حضرات خلفاء ثلاثہ کی تعظیم و توقیر میں کوشش کرتے ہیں، خارجی جانتے ہیں۔ ان لوگوں کی ان نامناسب جراتوں پر ہزار ہا افسوس ہے۔ اعاذنا الله سبحانہ من افراط تلك المحبة وتفريطها (اللہ تعالی اس محبت کی افراط وتفریط سے ہم کو بچانے) یہ افراط محبت ہی کا باعث ہے کہ اصحاب ثلاثہ وغیرہ کے تبری کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی محبت کی شرط جانتے ہیں۔ 

انصاف کرنا چاہیئے کہ یہ کونسی محبت ہے کہ جس کا حاصل ہونا پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے جانشینوں کی بیزاری اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کے سب و طعن پر موقوف ہو۔ اہلسنت کا گناہ یہی ہے کہ اہل بیت کی محبت کے ساتھ آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے تمام اصحاب کی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں اور با وجود لڑائی جھگڑوں کے جوان کے درمیان واقع ہوئی، ان میں سے کسی کو برائی سے یاد نہیں کرتے اور پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کی تعظیم اور اس عزت و تکریم کے باعث جو نبی علیہ اپنے اصحاب کی کیا کرتے تھے، سب کو ہوا و تعصب سے دور جانتے ہیں اور اس کے علاوہ اہل حق کو حق پر اور اہل باطل کو باطل پر کہتے ہیں لیکن اس کے بطلان کو ہو او ہوس سے دور سمجھتے ہیں اور رائے واجتہاد کے حوالہ کرتے ہیں۔ 

رافضی ا س وقت اہل سنت سے خوش ہوں گے جب کہ اہل سنت بھی ان کی طرح دوسرے اصحاب کرام سے تبری کریں اور ان دین کے بزرگواروں کے حق میں بدظن ہو جائیں۔ جس طرح خارجیوں کی خوشنودی اہل بیت کی عداوت اور آل نبی کے بغض پر وابستہ ہے۔ 

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (اے اللہ تو ہدایت دے کر پھر ہمارے دلوں کوٹیڑھانہ کر اور اپنی جناب سے ہم پر رحمت  نازل فرما۔ تو بڑاہی بخشنے والا ہے۔)اہل سنت شکر اللہ تعالی عنہم کے بزرگواروں کے نزدیک پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب ایک دوسرے کی لڑائی جھگڑوں کے وقت تین گروہ تھے۔ ایک گروہ نے دلیل و اجتہاد کے ساتھ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی جانب کی حقیقت کو معلوم کر لیا تھا اور دوسرے گروہ نے بھی دلیل واجتہاد کے ساتھ دوسری طرف حقیقت کو دریافت کر لیا تھا اور تیسرا گروہ متوقف رہا اور کسی طرف کو دلیل کے ساتھ ترجیح نہ دی۔ پس پہلے گروہ نے اپنے اجتہاد کے موافق حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی مدد کی اور دوسرے گروہ نے اپنے اجتہاد کے باعث جانب مخالف کی امداد کی اور تیسرا گروہ توقف میں رہا۔ اس نے ایک کو دوسرے پر ترجیح  دینا خطا سمجھا۔ پس تینوں گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد کے موافق عمل کیا اور جو کچھ ان پر واجب لازم تھا، بجالائے۔ پھر ملامت کی کیا گنجائش ہے اورطعن کی کیا مناسبت ہے۔ 

امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ تلک د ماه طهرالله عنها ایدینا فلنطھر عنها السنتنا یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو الله تعالی نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایک کوحق پر اور دوسرے کو خطا پر بھی نہ کہنا چاہیئے اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیئے۔ 

اسی طرح حدیث نبوی میں آیا ہے۔ وَإِذَا ذُكِرَ ‌أَصْحَابِي ‌فَأَمْسِكُواکہ جب میرے اصحاب کا ذکر ہو اور ان کی لڑائی جھگڑوں کا تذکرہ آجائے تو تم اپنے آپ کو سنبھال کر رکھو اور . ایک کو دوسرے پر اختیار نہ کرو۔ 

” لیکن جمہور اہلسنت اس دلیل سے جوان پر ظاہر ہوئی ہوگی، اس بات پر ہیں کہ حضرت امیر رضی الله عنه حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر لیکن یہ خطا خطاء اجتہادی کی طرح طعن و ملامت سے دور اور تشنیع وتحقیر سے مبراو پاک ہے۔ 

حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے بھائی ہمارے باغی ہو گئے۔ یہ لوگ نہ کافر ہیں نہ فاسق کیونکہ ان کے پاس تاویل ہے جو کفر وفسق سے روکتی ہے۔ اہل سنت و رافضی دونوں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والوں کو خظاء پر  سمجھتے ہیں اور دونوں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی حقیقت کے قائل ہیں لیکن اہلسنت حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے محاربین کے حق میں لفظ خطا سے جوتاویل سے پیدا ہے، زیادہ اور کچھ اطلاق پسند نہیں کرتے اور زبان کو ان کے طعن وتشنیع سے نگاہ رکھتے ہیں اور حضرت خیرالبشر علیہ الصلوة والسلام کے حق صحبت کی محافظت کرتے ہیں۔ 

 آنحضرت علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا ‌تَتَّخِذُوهُمْ ‌غَرَضًا  یعنی میرے اصحاب کےحق میں اللہ تعالی سے ڈرو۔ تاکید کے واسطے اس کلمہ کو دو بار فرمایا ہے اور میرے اصحاب کو اپنی ملامت کے تیر کا نشانہ نہ بناؤ۔ 

اور نیز فرماتا ہے۔ أَصْحَابِي ‌كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْمیرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کی پیروی کرو گے، ہدایت پاؤ گے اور بھی بہت حدیثیں تمام اصحاب کی تعظیم وتوقیر کے بارے میں آئی ہیں۔ پس سب کو معزز ومکرم جاننا چاہیئے اور ان کی لغزشوں کو نیک وجہ پر محمول کرنا چاہیئے۔ اس مسئلہ میں اہل سنت کا مذہب یہی ہے۔ رافضی اس بارہ میں غلو کرتے ہیں اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے محاربوں کی تکفیر کرتے ہیں اور ہر طرح کے طعن اور ہرقسم کی گالیوں سے اپنی زبان کو آلودہ کرتے ہیں۔ اگر ان کا مقصودحضرت امیر رضی اللہ عنہ کی جانب کی حقیقت اور ان کے محاربوں کا خطاء کا اظہار ہے تو جو کچھ اہلسنت نے اختیار کیا ہے۔ کافی اور حد اعتدال پر ہے اور دین کے بزرگواروں پر طعن لگانا جورافضیوں نے اختیار کیا ہے اور پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کو گالی نکالنا اپنا دین و ایمان تصور کیا ہے۔ دیانت و دینداری سے دور ہے۔ یہ عجب دین ہے جس کا جزو اعظم پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے جانشینوں کو گالی نکالنا ہے۔ تمام بدعتی گروہوں میں سے جو باتیں اختیار کر کے اہلسنت سے جدا ہو گئے ہیں۔ رافضیوں اور خارجیوں کے فرق اصل معاملہ اورحق سے دور جا پڑے ہیں۔ بھلا یہ لوگ جو دین کے بزرگواروں کے سب و طعن کو اپنے دین کا جزو اعظم تصور 

کرتے ہیں۔ حق ان کے نصیب کیا ہوگا۔ رافضیوں کے بارہ فرقے ہیں۔ سب کے سب اصحاب پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو کافر کہتے ہیں اور خلفاء راشدین کو گالیاں نکالنا عبادت جانتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اوپر لفظ فض کے اطلاق کرنے سے کنارہ کرتے ہیں اور اپنے سوا اور لوگوں کو رافضی جانتے ہیں کیونکہ احادیث میں رافضیوں کے حق میں بہت وعید آئی ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر یہ لوگ رفض کے معنی سے بھی اجتناب کرتے اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہ سے تبری اختیار نہ کرتے۔ 

ہندوستان کے ہندو بھی اپنے آپ کو ہندو کہلواتے ہیں اور لفظ کفر کے اطلاق سے کنارہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کافر نہیں جانتے بلکہ دار حرب کے رہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ دونوں کافر ہیں اور کفر کی حقیقت سے محقق ہیں۔ ان لوگوں نے شاید پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اہلبیت کو اپنی طرح تصور کیا ہے اور ان کو بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دشمن خیال کیا ہے۔ ان لوگوں نے تقیہ کے باعث جو خود کیا کرتے ہیں، اہلبیت کے بزرگواروں کو منافق اور مکار خیال کیا ہے اورحکم کیا ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ  تقیہ کے طور پر خلفاء ثلاثہ کے ساتھ تیس سال تک منافقانہ صحبت رکھتے رہے اور ناحق ان کی تعظیم و تکریم کرتے رہے۔ 

عجب معاملہ ہے اگر رسول اللہ کے اہل بیت کی محبت رسول اللہ کی محبت کے باعث ہے تو چاہیئے کہ رسول اللہ کے دشمنوں کو بھی دشمن جانیں اور اہل بیت کے دشمنوں کی نسبت ان کو زیادہ سب ولعن کریں۔ ابوجہل جو رسول اللہ کا دشمن ہے، جس نے طرح طرح کی اذیتیں اورتکلیفیں رسول الله کو پہنچائی ہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ اس گروہ میں سے کسی نے اس کو سب وطعن کیا ہو یا اس کو برا کہا ہو۔ 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو رسول الله کے نزدیک سب مردوں سے پیارے ہیں۔ اپنے خیال فاسدین میں اہلبیت کا دشمن تصور کر کے ان کے سب ولعن میں زبان دراز کرتے ہیں اور نامناسب امور کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ کوئی دیانت اور دینداری ہے۔ خدا تعالی نہ کرے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنه وعمر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام رسول الله کے اہلبیت سے دشمنی کریں اور نبیﷺ کی آل کے ساتھ بغض و عداوت رکھیں ۔ کیا اچھا ہوتا اگر یہ لوگ اہلبیت کے دشمنوں کو سب کرتے اور اصحاب کرام کے نام مقرر نہ کرتے اور بزرگان دین پر بدظن نہ ہوتے تا کہ ان کی مخالفت جو اہلسنت کے ساتھ ہے، دور ہو جاتی کیونکہ اہلسنت کی خوبی ہے کہ شخص معین کو جو طرح طرح کے کفر میں مبتلا ہو، اسلام و توبہ کے احتمال پرجہنمی نہیں کہتے اوران کا اطلاق اس پر نہیں کرتے۔ عام 

طور پر کافروں پر لعنت کرتے ہیں لیکن کافر معین پر بھی لعنت پسند نہیں کرتے جب تک اس کے خاتمہ کی برائی قطعی دلیل سے معلوم نہ ہو لیکن رافضی بے تحاشا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہا کولعنت اور اکابر صحابہ کو سب وطعن کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کو سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ 

اس بحث میں دو مقام ہیں جن میں اہلسنت اور مخالفوں کے درمیان بڑا اختلاف ہے۔ مقام اول یہ کہ اہلسنت خلفاء اربعہ کی خلافت کی حقیقت کے قائل ہیں اور چاروں کو برحق خلیفے جانتے ہیں کیونکہ حدیث صحیح جن میں مغیبات یعنی امور غائبانہ کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ آیا ہے کہ الْخِلَافَةُ بَعْدِي ‌ثَلَاثُونَ ‌سَنَةً» خلافت میرے بعد تیس برس تک ہے اور یہ مدت حضرت امیر کرم اللہ وجہ کی خلافت پر تمام ہو جاتی ہے۔ (حضرت حسن کی خلافت بھی اس میں شامل ہے۔ پس اس حدیث کے مصداق چاروں خلیفے ہیں اور خلافت اور خلافت کی ترتیب برحق ہے اور مخالف لوگ خلفاء ثلاثہ کی خلافت کی حقیقت  کا انکار کرتے ہیں اور ان کی خلافت کو تعصب اور تغلب کی طرف منسوب کرتے ہیں اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے سوا امام برحق کسی کو نہیں جانتے اور اس بیعت کو جو حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے خلفاء ثلاثہ کے ہاتھ پر واقع ہوئی تھی، تقیہ پر عمل کرتے ہیں اور اصحاب کرام کے درمیان منافقانہ صحبت خیال کرتے ہیں اور مدارات میں ایک دوسرے کو مکار تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کے زعم میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے موافق لوگ ان کے مخالفوں کے ساتھ تقیہ کے طور پر منافقانہ صحبت رکھتے تھے اور جو کچھ ان کے دلوں میں ہوتا تھا، اس کے بر خلاف اپنی زبان پر ظاہر کرتے تھے اور مخالف بھی چونکہ ان کے زعم میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوستوں کے دشمن تھے، اس لیے ان کے ساتھ منافقانہ محبت کرتے تھے اور دشمنی کو دوستی کے لباس میں ظاہر کرتے تھے۔ پس ان کے خیال میں پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام اصحاب منافق اور مکار تھے اور جو ان کے باطن میں ہوتا تھا، اس کے برخلاف ظاہر کرتے تھے۔ پس چاہیئے کہ ان کے نزدیک اس امت میں سے بدترین اصحاب کرام ہوں اور تمام صحبتوں میں سے بدتر صحبت حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت ہو جہاں سے یہ اخلاق ذمیمه پیدا ہوئے ہیں اور تمام قرنوں میں سے برا اصحاب کرام کا قرن ہو جو نفاق وعداوت وبغض و کینہ سے پر تھا۔ حالانکہ حق تعالی اپنی کلام مجید میں ان کو  رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ فرماتا ہے۔ اعاذنا الله سبحانه عن معتقداتهم السوء (اللہ تعالی ہم کو ان کے برے عقائد سے بچانے)۔

یہ لوگ جب اس امت کے سابقین کو اس قسم  کے اخلاق ذمیمه سے موصول کرتے ہیں تو لواحقین میں کیا خیر یت پائیں گے۔ ان لوگوں نے شائدان آیات قرآنی اور ان احادیث نبوی کو جو حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی محبت کی فضیلت اور اصحاب کرام کی فضیلت اور اس امت کی خیریت کے بارہ میں وارد ہوئی ہیں، نہیں دیکھا یا دیکھا ہے مگر ان کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے۔ قرآن و احادیث اصحاب کرام کی تبلیغ سے ہم تک پہنچا ہے۔ جب اصحاب مطعون ہوں گے تو وہ دین جو ان کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ نیز مطعون ہوگا۔ نعوذ بالله من ذلک . ان لوگوں کا مقصود دین کا ابطال اور شریعت غرا کا انکار ہے۔ ظاہر میں اہل بیت رسول کی محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر حقیقت میں رسول علیہ الصلوة والسلام کی شریعت کا انکار کرتے ہیں۔ کاش کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوستوں کو مسلم رکھتے اور تقیہ کے ساتھ جو اہل مکر اور نفاق کی صفت ہے، متصف نہ کرتے۔ وہ لوگ جو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے دوست ہوں یا دشمن، جب تیس سال تک ایک دوسرے کے ساتھ نفاق و مکر و فریب کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ہوں تو ان میں کیا خیر یت ہوگی اور وہ کسی طرح اعتماد کے  لائق ہوں گے۔ 

. . حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو طعن کرتے ہیں نہیں جانتے کہ اس ضمن میں نصف احکام شریعہ پرطعن آتا ہے کیونکہ علماء مجتہد ین نے فرمایا ہے کہ احکام والی تین ہزار حدیث وارد ہوئی ہے یعنی تین ہزار احکام شرعیہ ان احادیث سے ثابت ہوئے ہیں جن میں سے ایک ہزار پانچ سو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوئی ہیں۔ پس اس کا طعن نصف . احکام شرعیہ کا طعن ہے اور امام بخاری کہتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے راوی آٹھ سو صحابہ کرام اور تابعین سے زیادہ ہیں جن میں سے ایک ابن عباس ہے اور ابن عمر بھی اس سے روایت کرتا ہے اور جابر بن عبد اللہ اور انس بن مالک بھی اسی کے راویوں میں سے ہیں اور وہ حدیث جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے طعن سے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں۔ وہ جھوٹی حدیث ہے جیسے کہ علماء نے اس کی تحقیق کی ہے اور وہ حدیث کہ جس میں حضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حق میں فہم کے لیے دعا کی ہے۔ علماء میں مشہور و معروف ہے۔ 

حَضَرْت ‌مَجْلِسًا لِرَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ مَنْ يَبْسُطُ مِنْكُمْ رِدَاءَهُ حَتَّى أُفِيضَ فِيهِ مَقَالَتِي فَيَضُمُّهَا إلَيْهِ ثُمَّ لَا يَنْسَاهَا فَبَسَطْت بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيَّ فَأَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – فِيهَا مَقَالَتَهُ ‌فَضَمَمْتُهَا إلَى صَدْرِي فَمَا نَسِيتُ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْئًاحضرت ابو ہریرہ رضی الله فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی مجلس میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنی چادر بچھائے تا کہ میں اس میں اپنی کلام گراؤں اور پھر وہ اس کو اپنے بدن سے لگائے تو اس کو کوئی چیز نہ بھولے گی۔ پس میں نے اپنی چادر کو بچھا دیا اور رسول اللہ نے اپنی کلام اس میں گرائی اور میں نے چادر کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے بعد مجھے کچھ نہ بھولا۔ 

پس صرف اپنے ظن ہی سے دین کے ایک بزرگ شخص کو حضرت امیر رضی الله عن کا دشمن جاننا اور اس کے حق میں سب وطعن ولعن جائز رکھنا انصاف سے دور ہے۔ یہ سب افراط محبت کی باتیں ہیں جن سے ایمان کے دور ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ 

اگر بالفرض حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے حق میں تقیہ جائز بھی سمجھا جائے تو حضرت امیر کے ان اقوال میں کیا کہیں گے جو بطریق تواتر شیخین کی افضلیت میں منقول ہیں اور ایسے ہی حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ان کلمات قدسیہ کا کیا جواب دیں گے جو ان کی خلافت و مملکت کے وقت خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے حق ہونے میں صادر ہوئے ہیں کیونکہ تقیہ اسی قدر ہے کہ اپنی خلافت کی حقیقت کو چھپانے اور خلفاء ثلا ثہ کی خلافت کا باطل ہونا ظاہر نہ کرے لیکن خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے حق ہونے کا اظہار کرنا اورشیخین کی افضیلت کا بیان کرنا اس تقیہ کے سوا ایک علیحدہ امر ہے جوصدق وثواب کے سوا کوئی تاویل نہیں رکھتا اور تقیہ کے ساتھ اس کا دور کرناناممکن ہے۔ 

نیز وہ سی حدیثیں حد شہرت کو پہنچ چکی ہیں بلکہ متواتر المعنی ہوگئی ہیں جو حضرات خلفاء ثلاثہ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں اکثر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ان حدیثوں کا جواب کیا کہیں گے کیونکہ تقیہ پیمبر علیہ الصلوة والسلام کےحق میں جائز نہیں۔ اس  لئےتبلیغ پیمبروں پر لازم ہے۔ 

 نیز وہ آیات قرآنی جو اس بارہ میں نازل ہوئی ہیں، ان میں بھی تقیہ تصور نہیں۔ اللہ تعالی ان کو انصاف دے۔ 

دانا لوگ جانتے ہیں کہ تقیہ جبانت یعنی بزدلی اور نامردی کی صفت ہے۔ اسد اللہ کے ساتھ اس کو نسبت دینا نا مناسب ہے۔ شریعت کی رو سے ایک ساعت یا دو ساعت یا ایک یا دو دن کے لیے اگر تقیہ جائز سمجھا جائے تو ہو سکتا ہے۔ اسد اللہ میں تیس سال تک اس بزرگی کی صفت کا ثابت کرنا اور تقیہ پر مصر سمجھنا بہت برا ہے اور جب صغیرہ پر اصرار کرنا کبیرہ ہے تو پھر بھلا دشمنوں اور منافقوں کی صفات میں سے کسی صفت پر اصرار کرنا کیسا ہو گا ۔ کاش کہ یہ لوگ اس امر کی برائی سمجھتے شیخین رضی اللہ عنہما کی تقدیم تعظیم سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ اس میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی اہانت ہے اور تقیہ اختیار کر لیا ہے۔ اگر تقیہ کی برائی جوار باب نفاق کی صفت ہے، سمجھتے تو ہرگز تقیہ کو جائز قرار نہ دیتے اور دو بلاؤں میں سے آسان کو اختیار کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ شیخین کی تقدیم و تعظیم میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی کچھ اہانت نہیں ۔ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی حقیقت بھی بجائے خود ہے اور ان کی ولایت کا درجہ اور ہدایت و ارشاد کا رتبہ بھی اپنے حال پر ہے اور تقیہ کے ثابت کرنے میں نقص و تو ہین لازم ہے کیونکہ یہ  صفت  ارباب نفاق کے خاصوں اور مکاروں اور فریبیوں کے لوازم سے ہے۔ 

مقام دوم یہ کہ اہلسنت و جماعت شکر اللہ تعالی سعیہم حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کی لڑائی جھگڑوں کو نیک وجہ پرمحمول کرتے ہیں اور ہوا وتعصب سے دور جانتے ہیں کیونکہ ان کے نفوس حضرت خیر البشر ﷺ کی صحبت میں پاک ہو چکے تھے اور ان کے روشن سینے عداوت و کینہ سے صاف ہو گئے تھے۔ حاصل کلام یہ کہ جب ہر ایک صاحب رائے اور صاحب اجتہاد تھا اور ہر مجتہد کو اپنی رائے کے موافق عمل کرنا واجب ہے۔ اس لیے بعض امور میں راوں کے اختلاف کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت و منازعت واقع ہوئی اور ہر ایک کے لیے اپنی رائے کی تقلید بہتر تھی۔ پس ان کی مخالفت موافقت کی طرح حق کے لیے تھی، نہ کہ نفس امارہ  کی ہواو ہوس کے لیے۔ 

اہلسنت کے مخالف لوگ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑنے والوں کو کافر کہتے ہیں اور طرح طرح کے طعن وتشنیع ان کے حق میں جائز سمجھتے ہیں۔ جب اصحاب کرام بعض امور اجتہادیہ میں حضرت علی کے ساتھ مخالفت کرلیا کرتے تھے اور حضرت علی کی رائے کے بر خلاف حکم کیا کرتے تھے اور ان کا یہ اختلاف مذموم اور قابل ملامت نہ ہوتا تھا اور با وجود نزول وحی کے ممنوع نہ سمجھا جاتا تھا تو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بعض امور اجتہادی میں مخالفت کرنا کیوں کفر ہو اور ان کے مخالف کیوں اسلام سے خارج اور مطعون ہوں ۔ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے مسلمان ایک جم غفیر ہیں جو سب کے سب اصحاب کبار ہیں۔ جن میں سے بعض کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ان کو کافر اور برا کہنا آسان نہیں۔ ‌كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ  (چھوٹا منہ بڑی بات قريبا نصف دین اور شریعت کو انہی نے تبلیغ کیا ہے۔ اگر ان پر طعن آیا تو نصف دین سے اعتماد دور ہو جاتا ہے۔ یہ بزرگوار کس طرح قابل طعن ہو سکتے ہیں جب کہ ان میں سے کسی کی روایت کو کسی امیر اور وزیر نے ردنہیں کیا۔صحیح بخاری جو کتاب اللہ کے بعد تمام کتابوں سے صحیح ہے اورشیعہ بھی اس کو مانتے ہیں۔ 

فقیر نے احمد تبتی کی نسبت جوا کا بر شیعہ میں سے تھا، سنا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ کتاب بخاری کتاب اللہ کے بعد اصح  کتاب ہے) اس میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے دوستوں کی بھی روایتیں ہیں اور مخالفوں کی بھی اور موافقت و مخالفت کے باعث کسی کو راجح ومرجوح نہیں جانا۔ جس طرح حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی۔ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اس کی روایت میں کسی قسم کا طعن ہوتا تو ہرگز اس کی روایت اپنی کتاب میں درج نہ کرتا۔ اسی طرح سلف میں جو حدیث کے نقاد اور صراف گزرے ہیں، کسی نے اس وجہ سے حدیث کی روایت میں فرق نہیں کیا اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کو طعن کا باعث نہیں بنایا۔ 

جاننا چاہیئے کہ یہ بات ضروری نہیں کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ تمام امور خلافیہ میں حق پر ہوں اور ان کے مخالف خطا پر۔ اگرچہ محار بہ میں حق بجانب امیر تھا کیونکہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ صدر اول کے احکام خلافیہ میں علماء و تابعین اور ائمہ مجتہدین نے حضرت امیر کے غیر کا مذہب اختیار کیا ہے اور ان کے مذہب پرحکم نہیں کیا۔ اگر حضرت امیر کی جانب ہی حق مقرر ہوتا توان کے برخلاف حکم نہ کرتے۔ قاضی شریح نے جو تابعین میں سے ہے اور صاحب اجتہاد ہوا ہے۔ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے مذہب پر حکم نہیں کیا اور حضرت امام حسن علیہ الرضوان کی شہادت کو نسبت بنوت یعنی فرزندی نسبت کے باعث منظورنہیں کیا اور مجتہدین نے قاضی شریح کے قول پر عمل کیا اور باپ کے واسطے بیٹے کی شہادت جائز نہیں سمجھتے۔ 

 اس قسم کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں  جن میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کےاقوال جو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مخالف ہیں، اختیار کیے گئے ہیں جو منصف تابعدار پرمخفی نہیں ہیں۔ ان کی تفصیل دراز ہے پس حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی مخالفت پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں اور ان کے مخالف طعن وملامت کے لائق نہیں ہیں۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنها جو حبیب رب العالمین کی محبوبہ تھیں اورلب گور تک حضرت علیہ الصلوة والسلام کی مقبول و منظور ہ ہیں اور مرض موت کے ایام بھی انہی کےحجرے میں بسر کیے اور انہی کی گود میں جان دی اور انہی کے پاک حجرے میں مدفون ہوئے۔ اس شرف وفضیلت کے علاوہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا مجتہدہ بھی تھیں ۔ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے آدھا دین ان کے حوالے کیا تھا اور اصحاب کرام مشکلات میں ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے اور ان سے مشکلات کا حل طلب کیا کرتے تھے۔ اس قسم کی صدیقہ مجتہدہ کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کے باعث طعن کرنا اور ناشائستہ حرکات کو ان کی طرف منسوب کرنا بہت نا مناسب اور پیغمبر علیہ الصلوة والسلام پر ایمان لانے سے دور ہے۔ حضرت امیر اگر پیغمبر علیہ السلام کے داماد اور چچا کے بیٹے ہیں تو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علیہ الصلوة والسلام کی زوجہ مطہرہ اور جو محبوبہ مقبولہ ہیں۔ 

اس سے چند سال پہل فقیر کا طریق تھا کہ اگر طعام پکاتا تھا تو اہل عباء کی ارواح پاک کو بخش دیا کرتا تھا اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت امیر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حضرت امامین رضی الله عنهما کو ملا لیتا تھا۔ ایک رات فقیر نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺتشریف فرما ہیں ۔ فقیر نے سلام عرض کی۔ فقیر کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور فقیر کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ پھر فقیر کو فرمایا کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے گھر میں کھانا کھاتا ہوں۔ جس کسی نے مجھے طعام بھیجنا ہو، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے گھر میں بھیج دیا کرے ۔ اس وقت فقیر نے معلوم کیا کہ حضور علیہ السلام کی توجہ شریف نہ فرمانے کا باعث یہ ہے کہ فقیر اس  طعام میں حضرت صدیقہ کو شریک نہ کرتا تھا۔ بعد ازاں حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلکہ تمام ازواج مطہرات کو جوسب اہلبیت میں شریک کر لیا کرتا تھا اور تمام اہلبیت کو اپناوسیلہ بناتا تھا۔ 

پس وہ آزارو ایذا جو حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو حضرت صدیقہ رضی الله عنہا کے سبب سے ہوتی ہے۔ وہ اس آزار و ایذا سے زیادہ ہے جو حضرت امیر رضی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ منصف عقلمندوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے لیکن یہ بات اس صورت میں ہے جب کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی محبت اور تعظیم پیغمبر علیہ السلام کی محبت وتعظیم اور قرابت کے باعث ہو اور اگر کوئی حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی محبت کو مستقل طور پر اختیار کرے اور حضرت پیغمبر علیہ السلام کی محبت کو اس میں دخل نہ دے تو ایسا شخص محبت سے خارج ہے اور گفتگو کے لائق نہیں۔ اس کی غرض دین کا باطل کرنا اور شریعت کا گرانا ہے۔ ایساشخص چاہتا ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے واسطہ کے بغیر کوئی اور راستہ اختیار کرے اور حضرت محمد ﷺ کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف آجائے، یہ سراسر کفر اور زندقہ ہے۔ حضرت علی اس سے بیزار اور اس کے کردار سے آزار میں ہیں ۔ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب ( اصہار و سسر) اورختنین(دامادوں) کی دوستی بعینہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی دوستی ہے اور ان کی عزت وتکریم پیغمبرﷺکی تعظیم وتکریم کے باعث ہے۔ 

رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے فَمَنْ ‌أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا) ایسے ہی جو ان کا دشمن ہے، وہ پیغمبر کی دشمنی کے باعث ان کو دشمن جانتا ہے۔ جیسے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے۔ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا) یعنی وہ محبت جو میرے اصحاب سے متعلق ہے، وہ وہی محبت ہے جو مجھ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح ان کا بغض بھی بعینہ میرا بغض ہے۔ 

حضرات طلحہ و زبیر رضی الله تعالی عنها اصحاب کبار اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ ان پر طعن تشنیع کرنا نامناسب ہے اور ان کی لعن وطر ولعنت کرنے والے پرلوٹ آتی ہے۔ طلحہ  و زبیر رضی الله عنهماوہ صحابہ ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلافت کو چھ شخصوں کے مشورہ پر چھوڑا اور ان میں حضرت طلحہ و زبیر رضی الله عنهما کو داخل کیا اور ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل واضح نہ پائی تو طلحہ وز بیر نے اپنے اختیار سے خلافت کا حصہ چھوڑ دیا اور ہر ایک نے ترکت  حظی (میں نے اپنا حصہ ترک کیا کہہ دیا اور یہ وہی طلحہ ہے جس نے اپنے باپ کو اس بے ادبی کے باعث جوآنحضرت ﷺکی نسبت اس سے صادر ہوئی تھی قتل کر کے اس کے سر کو آنحضرت ﷺکی خدمت میں لے آیا تھا۔ قرآن مجید میں اس فعل پر اس کی تعریف و ثناء بیان کی گئی ہے اور یہ وہی زبیر ہے جس کے قاتل کے لیے مخبر صادق علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام نے دوزخ کی وعید فرمائی ہے اور یوں فرمایا ہے۔ قاتل زبير في النار کہ زبیر کا قاتل دوزخ میں ہے۔ حضرت زبیر پرلعن وطعن کرنے والے قاتل سے کم نہیں ہیں ۔ پس اکا بر دین اور بزرگواران اسلام کی طعن و مذمت سے ڈرنا چاہیئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کے بول بالا کرنے اور حضرت سید الا نام علی الصلوة والسلام کی امداد میں سرتوڑ کوششیں کی ہیں اور رات دن ظاہر و باطن میں دین کی تائید میں مال و جان کی پروا نہیں کی اور رسول الله ﷺکی محبت میں اپنے خویش و اقارب اور مال و اولاده گھر بار ، وطن کھیتی باڑی، باغ و درخت ونہروں کو چھوڑ دیا اور رسول اللہ ﷺکی جان کو اپنی جانوں پر اور رسول اللہ کی محبت کو اپنے اموال و اولاد اور اپنی جانوں کی محبت پر اختیار کیا۔ 

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شرف صحبت حاصل کیا اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں برکات نبوت سے مالا مال ہوئے ۔ وحی کا مشاہدہ کیا اور فرشتہ کے حضور سے مشرف ہوئے اور خوارق و جذات  کو دیکھا۔ حتی کہ ان کا غیب شہادت اور ان کا علم عین ہو گیا اور ان کو اس قسم کا يقين نصیب ہوا جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوا حتی کہ دوسروں کا احد جتنا سونا اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنا ان کے ایک آدھ مد جو خرچ کرنے کے برابر نہیں ہوتا۔ 

یہ وہ لوگ ہیں جن کی اللہ تعالی قرآن مجید میں بایں الفاظ تعریف کرتا ہے۔ ‌رَضِيَ ‌اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ  یہ لوگ اللہ تعالی سے راضی ہیں اور اللہ تعالی ان سے راضی ہے) 

ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ (توریت اور انجیل میں ان کی مثال اس بیج کی طرح ہے جس کی بے شمار شاخیں نکل کر مضبوط ہو جائیں اور اس کے تنے خوب موٹے ٹکڑے مضبوط ہو جائیں جن کو دیکھ کر زراعت کرنے والے خوش ہوں اور کفار غیظ و غضب میں آئیں) ان پر غصہ اور غضب کرنے والوں کو کفار فرمایا ہے۔ پس جس طرح کفر سے ڈرتے ہیں، اس طرح ان کے غیظ وغضب سے بھی ڈرنا چاہے والله سبحانه الموفق۔ 

وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ سے اس قسم کی نسبت درست کی ہو اور رسول اللہ ﷺکے منظور اور مقبول ہوں تو اگر بعض امور میں ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت اور لڑائی جھگڑا کریں اور اپنی اپنی رائے و اجتہاد کے موافق عمل کریں تو طعن و اعتراض کی مجال نہیں بلکہ اس وقت اختلاف اور اپنی رائے کے سوا غیر کی تقلید نہ کرنا ہی حق وصواب ہے۔ 

امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کے لیے درجه اجتہاد تک پہنچنے کے بعد امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تقلید خطا ہے۔ اس کے لیے بہتری اپنی رائے کی تقلید میں ہے۔ 

حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کسی اصحابی کے قول کو خواہ صدیق رضی اللہ عنہ خواہ امیر رضی الله عنہ اپنی رائے پر مقدم نہیں کرتے اور اپنی رائے کے موافق اگر چہ قول صحابی کے مخالف ہر عمل کرنا بہت جانتے ہیں۔ 

جب امت کے مجتہد اصحاب کی آرا کی مخالفت کر سکتے ہیں تو اگر اصحاب ایک دوسرے کی مخالفت کریں تو کیوں مطعون ہوں ۔ حالانکہ اصحاب کرام نے امور اجتہادیہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ خلاف کیا ہے اور حضرت ﷺکی رائے کے برخلاف حکم کیا ہے اور باوجود نزول وحی کے ان کے خلاف پرمذمت نہیں آئی اور ان کے اختلاف پرمنع وارد نہیں ہوا جیسے کہ گزر چکا۔ اگر یہ اختلاف حق تعالی کے نزدیک نا پسند اور نا مقبول ہوتا تو البته منع ہوتا اور اختلاف کرنے والوں پروعید نازل ہوتی۔ 

کیا نہیں جانتے کہ وہ لوگ جو آ نحضر ت ﷺکے ساتھ گفتگو کرنے میں بلند آواز کیا کرتے تھے ۔ ان کے اس آواز ے کہ کس طرح منع کیا گیا اور اس پرکیسی وعید مترتب ہوئی ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ے ایمان والو، اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز پر بلند نہ کرو اور ان کو بلند آواز سے اس طرح نہ پکارو جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور تمہارے اعمال نیست و نابود ہو جائیں گے اور تم کو معلوم نہ ہوگا۔) بدر کے قیدیوں کے بارے میں اختلاف عظیم پڑ گیا تھا۔ حضرت فاروق اور سعد بن معاذ نے ان قیدیوں کوقتل کرنے کا مشورہ دیا تھا اور دوسروں نے ان کو چھوڑ دینے اور فدیہ لینے کا مشورہ دیا تھا اور حضرت ﷺ کے نزدیک بھی یہی رائے مقبول تھی کہ ان کو چھوڑ دیا جائے اور فدیہ لے لیا جائے۔ اس قسم کے اختلاف کے مقام اور بھی بہت سے ہیں اور وہ اختلاف بھی اس قسم  کا تھا جو کاغذ کے لانے میں کیا گیا تھا۔ حضرت علی نے مرض موت میں کاغذ طلب فرمایا تھا تا کہ ان کے لیے کچھ لکھیں۔ بعض نے کہا کہ کاغذ لا نا چاہیئے اور بعض نے کاغذ لانے سے منع کیا۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے جو کاغذ نہ لانے میں راضی نہ تھے۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا حَسْبُنَا ‌كِتَابُ اللَّهِ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس سبب سے طعن لگانے والوں نے حضرت فاروق پرعیب لگایا ہے اور طعن و تشنیع کے ساتھ زبان دراز کی ہے۔ حالانکہ درحقیقت کوئی محل طعن نہیں کیونکہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ  نے معلوم کر لیا تھا کہ وحی کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور آسمانی احکام تمام ہو چکے ہیں اور احکام کے ثبوت میں رائے و اجتہاد کے سوا کسی امر کی گنجائش نہیں رہی۔ اب آنحضرت ﷺ جو کچھ لکھیں گے، امور اجتہادیہ میں سے ہوگا جس میں دوسرے بھی شریک ہیں۔ ‌فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ داناؤں کوعبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ 

پس بہتری اس بات میں دیکھی کہ اس قوم کے سخت درد میں حضور علیہ الصلوة والسلام کو تکلیف نہ دینی چاہیئے اور دوسروں کی رائے و اجتہاد پر کفایت کرنی چاہیئے۔حَسْبُنَا ‌كِتَابُ اللَّهِ یعنی قرآن مجید جو قیاس و اجتہاد کا ماخذ ہے۔ احکام کے نکالنے والوں کے لیے کافی ہے۔ احکام وہاں سے نکال لیں گے۔ کتاب اللہ کے ذکر کی خصوصیت اسی واسطے ہوسکتی ہے جب کہ قرآن سے معلوم کیا ہو کہ یہ احکام جن کے لکھنے کے درپے ہیں۔ ان کا ماخذ کتاب میں ہے نہ کی سنت میں تا کہ سنت کا ذکر کیا جاتا۔ 

پس حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا منع کرنا شفقت و مہربانی کا باعث تھا نا کہ آنحضرت ﷺشدت درد میں کسی امر کی تکلیف نہ اٹھائیں جس طرح کہ آنحضرت ﷺ کا کاغذ لانے کے لیے فر مانا بھی احسان کے لئے تھانہ کے وجوب کے لیے تا کہ دوسرے لوگ استنباط کے رنج سے آسودہ ہو جائیں اور اگر امر ايْتُونِي وجوب کے لیے ہوتا تو اس کی تبلیغ میں مبالغہ فرماتے اور صرف اختلاف ہی سے اس سے روگردانی نہ کرتے۔

 سوال: حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت کہا تھا۔ أَهَجَرَاسْتَفْهِمُوهُ اس سے کیا مراد ہے۔

 جواب: حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے شائد اس وقت سمجھا ہو کہ یہ کلام آپ سے درد کے باعث بلا قصد و اختیار نکل گیا ہے جیسے کہ أَكْتُبْ سے مفهوم ہوتا ہے کیونکہ آنحضرتﷺنے کبھی کچھ نہیں لکھا تھا اور نیز آپ نے فرمایا لَنْ ‌تَضِلُّوا بَعْدیتم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے)جب دین کامل ہو چکا تھا اور نعمت پوری ہوئی تھی اور رضاء مولی حاصل ہو چکی تھی تو پھر گمراہی کے کیا معنی اور ایک ساعت میں کیا لکھیں گے جو گمراہی کو دور کرے گا۔ کیا جو کچھ تئیس سال کے عرصہ میں لکھا گیا، کافی نہیں اور وہ گمراہی کو دور نہیں کر سکتا اور جو ایک ساعت میں باوجود شدت درد کے لکھیں گے، وہ گمراہی کو دور کرے گا۔ اسی سبب سے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے جان لیا ہوگا کہ یہ کلام آپ سے بشریت کے لحاظ سے بلاقصد نکل گئی ہے۔ اس بات کی تحقیق کرو اور ازسرنو دریافت کرو۔ اسی اثناء میں مختلف باتیں شروع ہو گئیں۔ حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ اٹھ جاؤ اور مخالفت نہ کرو کیونکہ پیغمبر ﷺکے حضور میں نزاع و جھگڑا اچھا نہیں۔ پھر اس امر کی نسبت کوئی کلام نہ کی اور نہ دوات و کاغذ کو یاد کیا۔ 

جاننا چاہیئے کہ وہ اختلاف جو اصحاب کرام امور اجتہادیہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اگر اس میں نعوذباللہ ہوا وتعصب کی بو ہوتی تو یہ اختلاف سب کو مرتدوں میں داخل کر دیتا اور اسلام سے باہر نکال دیتا کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بے ادبی اور بدمعاملگی کرنا کفر ہے۔ اعاذنا الله سبحانه الله تعالی ہم کو اس سے بچائے) بلکہ یہ اختلاف امر ۔ ‌فَاعْتَبِرُوا  کے بجالانے کے باعث ہوا ہے کیونکہ وہ شخص جو اجتہادکا درجہ حاصل کر چکا ہو۔ احکام اجتہادی میں اس کے لیے دوسروں کی رائے اجتہاد کی تقلید کرنا خطاء اورمنہی عنہ ہے۔ ہاں احکام منزلہ میں کہ جن میں اجتہاد کو دخل نہیں ہے، تقلید کے سوا کچھ گنجائش نہیں۔ ان پر ایمان لانا اور ان کی فرمانبرداری کرنا واجب ہے۔ 

حاصل کلام یہ کہ قرن اول کے اصحاب تکلفات سے بری اور عبارتوں کی آرائش سے  مستغنی تھے۔ ان کی کوشش ہمہ تن باطن کے درست کرنے میں ہوتی تھی اور ظاہر کی طرف سے نظر ہٹا رکھی تھی۔ اس زمانہ میں حقیقت و معنی کے طور آداب بجا لاتے تھے۔ نہ فقط صورت و لفظ کے اعتبار پر۔ رسول اللہ ﷺ کے امر کا بجا لانا ان کا کام اور آنحضرت ﷺکی مخالفت سےبچنا ان کا معاملہ تھا۔ ان لوگوں نے اپنے ماں باپ اور اولاد و ازدواج کو رسول الله ﷺپرفدا کر دیا تھا اور کمال اعتقاد و اخلاص کے باعث آنحضرت ﷺکی لعاب مبارک کو زمین  پرنہ گرنے دیتے تھے بلکہ آب حیات کی طرح اس کو پی جاتے تھے اور فصد کے بعد حضور علیہ الصلوة والسلام کے خون مبارک کو کمال اخلاص سے پی جانا مشہور و معروف ہے۔ اگر اس قسم کی عبادت جو اس زمانہ کے لوگوں کے نزدیک کہ کذب ومکر سے پر ہے، بے ادبی کا موجب ہو۔ ان بزرگواروں سے آنحضرت ﷺ کی نسبت صادر ہوئی ہو تو اس پر نیک ظن کرنا چاہیئے اور عبارت کے مطلب کو دیکھنا چاہیئے اور الفاظ خواہ کسی قسم کے ہوں ان سے قطع نظر کرنی چاہیئے۔ سلامتی کا طریقہ ہے۔

سوال: جب احکام اجتہادی میں خطا کا احتمال ہے تو ان تمام احکام شرعیہ میں جو آنحضرت ﷺسے منقول ہیں ۔ کس طرح وثوق و اعتبار کیا جائے۔

 جواب:اکام اجتهادی ثانی الحال میں امام منزلہ آسمانی کی طرح ہو گئے ہیں کیونکہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو خطا پر برقرار رکھنا جائز نہیں۔ پس احکام اجتہادیہ میں مجتہدوں کے اجتہاد اور ان کی آراء کے اختلاف کے ثابت ہونے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے حکم نازل ہو جاتا ہے جو صواب کو خطا سے اور حق کو باطل سے جدا کر دیتا ہے۔ پس احکام اجتہادی بھی آنحضرت ﷺکے زمانہ میں نزول وحی کے بعد کہ صواب و خطا میں تمیز ہو چکی تھی ۔ قطعی الثبوت ہو گئے تھے اور ان میں خطا کا احتمال نہ رہ گیا تھا۔ پس تمام احکام جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ثابت ہو چکے تھے قطعی ہیں اور خطا کے احوال سے محفوظ ہیں کیونکہ ابتداء وانتہا میں وحی قطعی سے ثابت ہوئے ہیں ۔ ان احکام کے اجتہاد اور استنباط سے مقصود یہ تھا کہ مجتہدین اور مستنبطین کے لیے حق تعالی کی طرف سے حکم نازل ہو جو صواب کو خطا سے جدا کر دے ۔اور درجات و کرامت کی امتیاز حاصل ہو اور مخطى (خطا کرنے والا) اور مصیب (صواب کو پہنچنے والا )اور اپنے اپنے درجوں کے موافق ثواب پا ئیں۔ پس احکام اجتہادیہ میں مجاہدین کے درجے  بلند ہو گئے اور نزول وحی کے بعد ان کی قطعیت بھی ثابت ہوگئی۔ 

ہاں زمانہ نبوت کے ختم ہو جانے کے بعد احکام اجتہادیہ ظنی ہیں جو مفید عمل ہیں۔ نہ کہ مثبت اعتقاد کہ ان کا منکر کافر ہو مگر جب ان احکام پر مجتہدوں کا اجماع منعقد ہو جائے تو اس صورت میں وہ احکام مثبت اعتقادبھی ہوں گے۔ 

ہم اس مکتوب کو ایک عمده خاتمہ پر کرتے ہیں جس میں رسول الله ﷺکے اہلبیت کے فضائل درج ہیں۔ ابن عبداللہ المعروف بابن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا ہے۔ ‌من ‌أحب ‌عليا فقد أحبني. ومن أبغض عليا فقد أبغضني، ومن آذى عليا فقد ‌آذاني، ومن ‌آذاني فقد آذى اللهجس نے علی کو دوست رکھا، اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے اس سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے علی کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالی کو ایذادی) اور ترمذی اور حاکم نے بیان کیا ہے اور بریدہ نے اس کو یہ کہا ہے۔ بریدہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے۔إِنَّ اللهَ أَمَرَنِي ‌بِحُبِّ ‌أَرْبَعَةٍ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ‌سَمِّهِمْ لَنَا، قَالَ: عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثًا وَأَبُو ذَرٍّ وَالْمِقْدَادُ وَسَلْمَانُ (اللہ تعالی نے مجھے چار آدمیوں کے ساتھ محبت کرنے کا امر کیا ہے اور یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالی خود بھی ان سے محبت رکھتا ہے۔ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ ان کے نام کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سے علی ہے، اس بات کو تین بار کہا۔ دوسرے ابوذر تیسرے مقداد اور چوتھے سلمان ہیں اور طبرانی اور حاکم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا۔ ‌النَّظَرُ إِلَى وَجْهِ عَلِيٍّ ‌عِبَادَةٌعلی کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔ 

اورشیخین نے براء سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا کہ امام حسن رضی الله عنہ آپ کے کندھوں پر ہیں اور آپ فرما رہے ہیں۔ اللَّهُمُّ ‌إِنِّي ‌أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُيااللہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ۔

اور بخاری نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ  نے کہا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺمنبر پر تھے اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے اورکبھی آپ لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی اس کی طرف اور فرماتے۔ إِنَّ ابْنِي هَذَا لَسَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ ‌أَنْ ‌يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (یہ میرا بیٹا سردار ہے۔ یقینا اللہ تعالی اس کے سبب مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کر دے گا)

اور ترمذی نے اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے کہ اسامہ بن زید نے کہا کہ میں نے رسول الله ﷺکو دیکھا کہ امام حسن و حسین رضی الله عنهما آپ کی ران پر ہیں اور فرما رہے ہیں۔ هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِي، اللَّهُمَّ إِنِّي ‌أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا (یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں یا اللہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔ تو ان کو دوست رکھ اور جو لوگ ان سے محبت میں ان کو بھی دوست رکھ۔)

اور ترمذی نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ اہلبیت میں سے کون کون آپ کو زیادہ عزیز ہیں تو آپ نے فرمایا کہ الحَسَنُ ‌وَالحُسَيْنُ رضى الله تعالى عنهما اور مسور بن مخرمہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا إِنَّمَا فَاطِمَةُ ‌بَضْعَةٌ ‌مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي وفي رواية ‌يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا وَيَرِيبُنِي مَا أَرَابَهَافاطمہ میرا جگر گوشہ ہے جس نے اس سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور ایک روایت میں ہے کہ جو چیز اس کو متردد کرے، وہ مجھے بھی متردد کرتی ہے اور جس  چیز سے  ان کو ایذا پہنچے مجھےپہنچتی ہے۔)

اور حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا هِيَ أحب إِلَيّ مِنْك وَأَنت أعز عَليّ مِنْهَافاطمہ مجھے تجھ سے زیادہ پیاری ہے اور تو میرے نزدیک اس سے زیادہ عزیز ہے)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ لوگ حضرت عائشہ کے دن اپنے تحائف و ہدایہ لے آتے تھے اور اس سبب سے رسول الله ﷺکی رضامندی طلب کرتے تھے۔ 

اور حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺکے ازواج  دو گروہ تھیں۔ ایک وہ گروہ تھا جس میں حضرت عائشہ وحفصہ دسودہ صفیہ رضی الله تعالی عنہن تھیں اور دوسرے گروہ میں حضرت ام سلمہ اور باقی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن تو ام سلمہ والے گروہ نے ام سلمہ کو کہا کہ تو رسول اللہ ﷺکو کہہ د ے کہ وہ لوگوں کو کہہ دیں کہ جہاں میں ہوا کروں، وہیں تحائف لایا کریں۔ پس ام سلمہ نے رسول الله ﷺسے یہ بات کہہ دی تو رسول علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا، اے ام سلمہ اس بارے میں مجھے ایذانہ دے کیونکہ عائشہ کے کپڑے کے سوا اور کسی عورت کے کپڑے میں میرے پاس وحی نہیں آئی۔ 

ام سلمہ نے اس بات کو سن کر عرض کیا کہ یا رسول الله ﷺمیں اس بات سے توبہ کرتی ہوں۔ پھر ام سلمہ کے گروہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بلایا اور رسول الله ﷺ کی خدمت میں بھیجا تا کہ وہ یہی بات رسول الله ﷺ کوکہیں۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تو رسول الله ﷺنے فرمایا، اے میری بیٹی۔ کیا تو اس چیز کو دوست نہیں رکھتی جس کو میں دوست رکھتا ہوں۔ عرض کیا کہ کیوں نہیں، پھر فرمایا کہ اس کو یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو دوست رکھ۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے رسول الله ﷺکی عورتوں میں سے کسی پر اتنی غیرت نہیں کی جتنی کہ خدیجہ رضی الله عنها پرکی۔ حالانکہ میں نے اس کو دیکھا نہیں لیکن رسول الله ﷺان کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے اور بسا اوقات بکری ذبح کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھیج دیا کرتے تھے اور جب بھی میں کہتی کہ کیا خد یجہ جیسی عورت دنیا میں نہیں ہوئی ؟ تو رسول الله ﷺفرماتے کہ دہ تھی جیسی کہ تھی اور اسی سے میری اولادتھی۔ 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ إِنَّ ‌الْعَبَّاسَ ‌مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ عباس میرا ہے اور میں عباس کا ہوں) اور دیلمی نے ابوسعید سے روایت کیا ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا اشْتَدَّ ‌غضبُ ‌الله ‌على ‌من ‌آذاني ‌في ‌عِتْرَتي(الله تعالی اس شخص پر سخت غضب فرماتا ہے جس نے میری اولاد کے میں ایذادی۔)

اور حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا  ‌خَيْرُكُمْ ‌خَيْرُكُمْ ‌لِأَهْلِي ‌مِنْ ‌بَعْدِي (تم میں سے اچھا شخص ہے جو میرے بعد میرے اہل بیت کے ساتھ بھلائی کرے)

اور ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ من ‌صنع الى أحد من أهل ‌بَيْتِي يدا كافأته عَلَيْهَا يَوْم الْقِيَامَةجس نے میرے اہل بیت کے ساتھ احسان کیا، میں اس کو قیامت کے دن اس کا بدلہ دوں گا۔ 

اور ابن عدی اور دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اثبتکم على الصراط أشدکم اهل بيت ولا صحابی تم میں سے پل صراط پردہ شخص زیادہ ثابت قدم ہوگا جس کی میرے اہل بیت اور اصحاب کے ساتھ زیادہ محبت ہوگی۔ 

خدایا بحق بنی فاطمہ کہ برقول ایماں کنی خاتمہ 

اگردعوتم رد کنی ور قبول من دوست و دامان آل رسول

 ترجمہ: خدایا بحق بنی فاطمه کہ ایمان پر ہو میرا خاتمہ دعا کو میری رد کر یا قبول مجھے بس ہے دامان آل رسول

 وصلى الله تعالى عليہ و عليهم وعلى جميع إخوانه من الأنبياء والممسلين والملائكة المقربين وعلی سائر عباد الله الصالحين أجمعين. امين. 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ102ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں