امتحان کی زنجیریں (باب ہفتم)

امتحان کی زنجیریں کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر63 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو عزت دینا چاہتا ہے۔ اور اس بلند مقام پر پہنچانا چاہتا ہے تو اس سے وہم اور بیقراری کے باگ ڈور کو کاٹ دیتا ہے۔ اور اس کو طمع کی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ پھر اس کو اپنی طرف احسانات کی مہربانیوں ، یا امتحانات کی زنجیروں کے ذریعہ کھینچتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں اس طرف اشارہ فرمایا:
63) مَنْ لَمْ يُقْبِلْ عَلى اللهِ بِمُلاطَفاتِ الإحْسانِ قِيدَ إلَيْهِ بِسَلاسِلِ الامْتِحانِ.
جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف احسان کی مہربانیوں سے نہیں بڑھتا ہے۔ وہ اس کی طرف امتحان کی زنجیروں سے کھینچا جاتا ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تین قسم میں تقسیم کیا ہے: اہل شمال ۔ اہل یمین۔سابقون
اہل شمال ۔ (بائیں بازو والے ): ان کے بارے میں کچھ کلام نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بالکل نہیں بڑھنا ہے
اہل یمین ۔ (دائیں بازو والے): ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف کچھ تو جہ ہے۔ لیکن ان کے لئے خصوصیت نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ظاہر شریعت پر قناعت کر لیا ہے۔ اور طریقت کے سلوک اورحقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ اور دلیل و برہان کے ساتھ ٹھہر گئے۔ اور مشاہدہ وعیاں کی طرف پہنچنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے ۔ تو ان کے بارے میں بھی کچھ کلام نہیں ہے۔
سابقون۔ (آگے بڑھنے والے) : یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف ، اس کی طرف متوجہ ہو کر اور اس کی معرفت کے طالب ہو کر ، بڑھے ۔ اور ان لوگوں کی دو قسمیں ہیں ۔
ایک قسم وہ لوگ ہیں : جو اللہ کی طرف اس کے انعام اور احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے بڑھے۔ یہ لوگ مقام شکر والے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں: جو مصیبتوں اورسختیوں کے ذریعہ امتحان کی زنجیروں میں گرفتار ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے ۔ یہ لوگ مقام صبر والے ہیں۔ پہلے مقام والے: اللہ تعالیٰ کی طرف رضا مندی اور خوشی سے بڑھے ۔ اور دوسرے مقام والے اللہ تعالیٰ کی طرف مجبور بڑھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَاللَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضِ طَوعاً وَ كَرُها جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ خوشی سے اور مجبوری سے اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔
حضرت ابو مدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کا مقررہ قاعدہ یہ ہے کہ وہ بندوں کو اپنی طاعت کے لئے روزی کی کشائش، اور ہمیشہ معاف کرنے کے ذریعہ بلاتا ہے تا کہ وہ لوگ اس کی طرف اس کی نعمت کے ذریعہ رجوع کریں۔ لیکن اگر نعمتیں پانے کے باوجود اس کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔ تو وہ ان لوگوں کو بد حالی میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقصد خوشی سے یا مجبوری سے بندوں کو اپنی طرف رجوع کرانا ہے۔ پس ایک گروہ ایسا ہے:۔ جن پر اللہ تعالیٰ نعمتوں کو وسیع کر دیتا ہے ۔ اور ان سے مصیبتوں اور زحمتوں کو پھیرتا ہے۔ اور ان کو تندرستی عطا کرتا ہے۔ اور مال و عافیت سے ان کی مدد کرتا ہے۔ تو وہ لوگ ان نعمتوں کا حق ادا کرتے اور اس کے شکر کے ساتھ قائم ہوتے ہیں۔ اور منعم حقیقی اللہ تعالیٰ کی معرفت کے مشتاق ہوتے ہیں تو یہ نعمتیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کی سواریاں ، اور اس کی طرف آنے کے لئے معاون ہوتی ہیں۔ اور وہ لوگ ان نعمتوں کو اپنے قلب سے باہر کر کے اپنےہاتھوں میں رکھتے ہیں۔ اور ایسے لوگ کم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ) میرے بندوں میں شکر گزار کم ہیں۔ اور اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں حدیث شریف وارد ہوئی ہے۔
نِعْمَتِ الدُّنْيَا مَطِيَّةُ الْمُؤْمِنِ ، عَلَيْهَا يَبْلُغَ الْخَيْرَ، وَبِهَا يَنجُوا مِنَ الشَّرِ دنیا کی نعمت مومن کی سواری ہے۔ اس پر سوار ہو کر وہ بھلائی تک پہنچتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ وہ برائی سے نجات پاتا ہے۔
یا جیسا نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ہمارے بعض اصحاب نے فرمایا : حضرت نبی کریم ﷺ نے دنیا کو مومن کو لے جانے والی سواری بنایا۔ مومن کو دنیا کے لئے سواری نہیں بنایا کہ وہ اس کو اٹھانے اور لے جانے کی تکلیف گوارہ کرے۔ یہ اس کی دلیل ہے کہ دنیا مومن کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے کے لئے اس سے مدد حاصل کرتا ہے۔ اس کے قلب میں نہیں ہے کہ وہ اس کی طلب میں زحمت اور مشقت کا مرتکب ہو۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور دوسرا گر وہ ایسا ہے: اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے ان کی مدد کی۔ ان کے لئے مال اور عافیت کو وسیع کیا۔ اور ان سے زحمتوں کو دور کیا ۔ تو ان نعمتوں نے ان کو اپنے میں مشغول کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے سے باز رکھا۔ اور اس کے حضور کی طرف سیر کرنے سے روک دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں ان سے چھین لیں ۔ اور ان کو مصیبتوں اور سختیوں میں مبتلا کیا۔ تو وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف امتحان کی زنجیروں میں بندھ کر بڑھے۔
عَجِبَ رَبُّكَ مِنْ قَوْمٍ يَسَاقُونَ إِلَى الْجَنَّةِ بِالسَّلَاسِلِ
ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے تعجب کیا۔ جو زنجیروں میں باندھ کر جنت میں لے جائے جاتےہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے شکر گزار دولتمند اور صابر فقیر کی ایک ہی قسم کے لفظ سے تعریف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حق میں فرمایا:
وَوَهَبۡنَا لِدَاوُۥدَ سُلَيۡمَٰنَۚ نِعۡمَ ٱلۡعَبۡدُ إِنَّهُۥٓ ‌أَوَّابٌ اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو سلیمان علیہ السلام عطا فرمایا۔ وہ بہترین بندہ ہے۔ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑار جوع کرنے والا ہے۔
اور حضرت ایوب علیہ السلام کے حق میں فرمایا :۔
إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ .ہم نے ایوب علیہ السلام کو صابر پایا۔ وہ بہترین بندہ ہے۔ بے شک وہ اللہ کی طرف بڑا رجوع کرنے والا ہے ۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: اگر مجھے نعمت عطا کی جائے اور میں شکر ادا کروں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ مجھے مصیبت میں مبتلا کیا جائے اور میں صبر کروں ۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ شاکر غنی کو صابر فقیر پر ترجیح دیتے تھے اور یہی حضرت ابن عطا اور ابو عبداللہ ترمذی حکیم رضی اللہ عنہا کا مذہب ہے۔ وہ فرماتے ہیں، شکر، اہل جنت کی صفت ہے۔ اور فقر، ایسا نہیں ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں اس کو بیان فرمایا ہے۔ اور تحقیق یہ ہے فقیر صابر ہی غنی شاکر ہے۔ اور اس کے برعکس اس لئے کہ غنا در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ تو جب قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مستغنی ہو گیا تو ایسا قلب رکھنے والا ہی شاکرغنی ہے۔ اور ہاتھ میں جو کچھ ہے اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ کیونکہ کبھی ہاتھ بھر پور ہوتا ہے ۔ لیکن قلب فقیر ہوتا ہے۔ اور کبھی قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنی ہوتا ہے لیکن ہاتھ فقیر ہوتا ہے۔ اور کبھی ہاتھ بھی بھر پور ہوتا ہے اور قلب بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ماسوا سےغنی ہوتا ہے۔
ایک بزرگ نے بیان کیا ہے:۔ ایک شخص دنیا میں زاہد، اور اعمال میں مجاہد مغرب میں رہتے تھے۔ وہ سمندر سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے ۔ یہی ان کا ذریعہ معاش تھا ۔ اور جو کچھ وہ شکار کرتے تھے۔ اس میں سے کچھ صدقہ کر دیتے تھے اور کچھ خود کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے اصحاب میں سے ایک شخص نے ملک مغرب کے کسی شہر کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ تو اس سے زاہد نے فرمایا: جب تم فلاں شہر میں پہنچو۔ تو میرے فلاں بھائی کے پاس جاؤ۔ اور ان کو میری طرف سے سلام عرض کرو۔ اور ان سے دعا طلب کرو ۔ کیونکہ بے شک وہ اولیاء اللہ میں سے ایک ولی ہیں ۔ اس شخص نے بیان کیا ہے: ۔ میں نے سفر کیا۔ جب اس شہر میں پہنچا۔ تو میں نے ان کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا۔ تو لوگوں نے میری رہنمائی ایک عالیشان گھر کی طرف کی۔ جو بادشاہوں کے رہنے کے حق تھا۔ میں نے اس پر تعجب کیا۔ پھر میں نے ان کو تلاش کیا۔ تو مجھ کو بتایا گیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گئے ہیں۔ میرا تعجب اور زیادہ ہوا۔ پھر کچھ دیر کے بعد وہ اس شان سے تشریف لائے:۔ نہایت شاندار گھوڑے پر سوار ، بہترین لباس پہنے ہوئے ۔ گویا کہ اپنی سواری پر وہ بادشاہ معلوم ہوتے ہیں ۔ تو میرا تعجب پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ میں نے لوٹ جانے ، اور ان کے پاس نہ پھیرنے کا ارادہ کیا ۔ پھر میں نے سوچا کہ میرے لئے شیخ کی مخالفت ممکن نہیں ہے۔ لہذا میں نے ان سے ملاقات کی اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دی۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو غلاموں ، خادموں اور اعلی قسم کے ساز و سامان کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہو گیا۔ پھر میں نے ان سے کہا: آپ کے فلاں بھائی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم ان کے پاس سے آئے ہو؟ میں نے کہا ہاں تو انہوں نے کہا: جب تم ان کے پاس واپس جانا تو ان سے کہنا ۔ تم کب تک دنیا میں مشغول رہو گے ؟ اور کب تک اس کی طرف متوجہ رہو گے؟ اور کب تک تم دنیا سے اپنی رغبت کو منقطع نہ کرو گے؟ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم ! یہ تو پہلے سے بھی زیادہ تعجب کی بات ہے۔ تو جب میں سفر سے واپس آیا۔ تو شیخ نے دریافت فرمایا : کیا تم نے میرے فلاں بھائی سے ملاقات کی؟ میں نے کہا: ہاں شیخ نے دریافت کیا:۔ انہوں نے تم سے کیا فرمایا؟ میں نے کہا: کچھ نہیں۔ شیخ نے کہا: جو کچھ انہوں نے فرمایا ۔ وہ تم کو مجھ ضرو، کہنا ہوگا۔ تو جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا۔ میں نے شیخ کے سامنے بیان کر دیا۔ شیخ وہ باتیں سن کر بہت روئے ۔ پھر فرمایا : میرے فلاں بھائی نے سچ کہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب کو دھو کر دنیا سے پاک کر دیا ہے۔ اور دنیا کو ان کے ہاتھ میں اور ان کے ظاہر پر رکھ دیا ہے۔ اور میں اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہوں۔ اور اس کی طرف میری کچھ توجہ باقی ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ واقعہ اپنی کتاب لطائف المنن میں بیان کیا ہے۔ پس اولیاء کے احوال نہ فقر کے ساتھ ضبط کئے جا سکتے ہیں نہ غنا کے ساتھ ۔ اس لئے کہ ولایت قلبی امر ہے۔ اس کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ مگر وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ وباللہ التوفیق۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں