اس بیان میں کہ انسانی مدنی الطبع پیدا کیا گیا ہے اور تمدن اور گزارہ میں اپنے بنی نوع کامحتاج ہے اور اسی احتیاط میں انسان کی خوبی ہے۔ خانخاناں کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کے لیے حمدہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔)فقیر دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ظاہری باطنی ترقیاں عطا فرمائے کیونکہ آپ کی خیریت و بہتری میں عام مسلمانوں کی جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا) اور آرام ہے اور آپ کے لیے دعا کرنا گویا تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرنا ہے۔ سلمكم الله تعالى عما لا يليق بحنابكم بحرمة سيد المرسلين عليه وعلى اله من الصلوۃ افضلها ومن التسلیمات اکملها (الله تعالیٰ آپ کو ان باتوں سے جو آپ کی جناب کے لائق نہیں سلامت رکھے۔ بحرمت سید المرسلین ﷺ۔
فقیر کو چونکہ معلوم ہے کہ آپ کی محبت و ارادت و اخلاص کی نسبت سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگواروں کے ساتھ کامل اور پورے طور پر ہے، اس لیے تکلیف دیتا ہے۔
میرے مخدوم و مکرم اس سلسلہ عالیہ کے لوگ اس ملک میں بہت غریب ہیں اور ملک کے رہنے والوں کو بدعتوں کے پھیلنے کے باعث ان بزرگواروں کے طریقہ کے ساتھ جس میں سنت کا التزام ہے، بہت کم مناسبت ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس سلسلہ والے لوگوں میں سے بعض نے قصورنظر کے باعث اس طریقہ عالیہ میں بھی بدعتیں جاری کی ہیں اور اس عمل کو اپنے خیال میں اس طریقہ عالیہ کی تکمیل گمان کرتے ہیں۔ حاشا و کلا بلکہ یہ لوگ اس طریقہ کے خراب و برباد کرنے میں کوشش کررہے ہیں۔ ان کو اس طریقہ کا اصل معاملہ معلوم ہی نہیں۔ ھداهم الله سبحانه إلى سواء الصراط. اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستے کی ہدایت ہے۔
چونکہ اس ملک(ہندوستان) میں اس سلسلہ عالیہ کے لوگ عزيز الوجود اور کم یاب ہیں، اس لیے اس سلسلہ کے مریدوں اور محبوبوں پر واجب ہے کہ اس سلسلہ کے بزرگوں اور طالبوں کی امداد و اعانت کریں کیونکہ آدمی مدنی الطبع پیدا کیا گیا ہے اور تمدن اور بود و باش میں اپنے بنی نوع(دوسرے انسان) کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اے نبی تجھے اللہ اور تابعدار مومن کافی ہیں) جب حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے ضروری امور کی کفایت میں مومنوں کو داخل دیا گیا تو پھر اوروں کی ضروریات میں کیا مضائقہ ہے۔ اکثر اس زمانہ کے دولت مند لوگ درویشی اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی حاجت نہ ہو۔ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے۔ احتیاج انسان کی تمام ممکنات کا ذاتی خاصا (احتیاج)ہے اور اسی احتیاط میں انسان کی خوبی ہے اور ذلت و بندگی اسی احتیاج سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ اگر بالفرض انسان سے احتیاج زائد ہو جائے اور استغنی پیدا ہو جائے تو سوائے طغیان و سرکشی اور عصیان و سرکشی اور عصیان و نافرمانی کے اس سے کچھ صادر نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (انسان جب اپنے آپ میں استغنا پاتا ہے تو نافرمانی کرتا ہے)
حاصل کلام یہ ہے کہ وہ فقراءجو ماسوی کی گرفتاری سے آزاد ہیں، اپنے اسباب کی احتیاج کو مسبب الاسباب کے حوالہ کرتے ہیں اور عام پھیلی ہوئی دولت کو اس کی نعمتوں کے دسترخوانوں سے جانتے ہیں اورمعطی (دینے والا )ور مانع( نہ دینے والا) در حقیقت حق تعالیٰ ہی کا تصور کرتے ہیں لیکن چونکہ (کارکنان قضا قدرنے) حکمتوں اور مصلحتوں کے لیے اسباب کو پیدا کیا گیا ہے اور خوبی اور برائی اسباب ہی کی طرف منسوب کی گئی ہے، اس لیے یہ بزرگوار بھی شکر و شکایت کو اسباب کی طرف راجع کرتے ہیں اور نیک کو بد کو بظاہر انہی سے جانتے ہیں کیونکہ اگر اسباب کو دخل نہ دیں تو کار خانہ عظیم باطل ہو جاتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ یارب تو نے یہ سب کچھ باطل نہیں بنایا تو پاک ہے۔
سیادت پناه حقائق ومعارف آگاه برادر عزیز میرمحمدنعمان کا وجود شریف ان اطراف میں غنیمت ہے۔ ان کی دعا وتوجہ کبریت احمر( اکسیر) کا کام دیتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی دولت کا قوام(کفیل) و قیام انہی کے فیض اور توجہ کی برکت سے ہے۔ میں حضور و غیبت میں ان کو آپ کا ممد و معاون پاتا ہوں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ انہوں نے آپ کی خوبیاں غائبانہ اس فقیر کی طرف لکھی تھیں اور آپ کا محبت و اخلاص جوفقراء کے ساتھ ہے، وہ بھی لکھا تھا اور ظاہر کیا تھا – کہ یہاں کی صوبہ داری کسی اور کے حوالہ کی ہے۔ اب توجہ اوردستگیری کا وقت ہے۔
فقیر کو اس خط کے مطالعہ کے وقت توجہ حاصل ہوئی اور آپ کو اس وقت رفع القدر اور بلند مرتبہ معلوم کیا۔ ظاہراً اسی وقت ایک شخص جانے والا تھا۔ اس کے جواب میں یہ عبارت لکھی تھی کہ خان خاناں در نظر رفیع القدر می در آید( خانخاناں میری نظر میں رفیع القدرنظر آتا ہے)۔ والأمر عند الله سبحانه سب کام الله تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ224ناشر ادارہ مجددیہ کراچی