اهل تصوف،اہل السنۃ اور اہل بدعت فصل 23

 اصل تصوف کے بارہ فرقے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ صرف اسی گروہ کے افعال اور اقوال شریعت اور طریقت کے موافق ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ بلا حساب و کتاب جنت میں جائیں گے اور کچھ ایسے ہیں کہ جنہیں معمولی عذاب کے بعد جنت میں جانے کی اجازت ہو گی۔ اس(اہل السنت) گروہ کے علاوہ باقی گیارہ فرقے اہل بدعت کے ہیں۔ ان فرقوں کے نام یہ ہیں۔ 

خلولیہ

 ان کا نظریہ ہے کہ خوبصورت عورت یاامرد( بے ریش بچے) کو دیکھنا حلال ہے۔ ایسے خوبصورت چہرے میں حق کی صفت پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ(عورتوں اور امردوں کے ساتھ) رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، تقبیل (بوسہ)و معانقہ (گلے لگنا) کو جائزسمجھتے ہیں۔ اور یہ سب چیزیں کفر ہیں۔ 

حالیہ

ان کے عقیدے میں رقص و سرود جائز ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ پر ایک ایسی حالت بھی طاری ہوتی ہے جس کی تعبیر شریعت نہیں دے سکتی۔ یہ نظر یہ بدعت ہے اس میں حضور ﷺکی سنت کی موافقت نہیں ہے۔ 

اولیائہ

 یہ گروہ اس نظرئیے کا قائل ہے کہ اولیاء اللہ کیلئے شریعت کی پابندی ضروری نہیں کیونکہ وہ جب ولایت کے مرتبے کو پہنچ گئے تو شریعت کے مکلف نہیں رہے۔ ان کے نزدیک ولی،نبی سے افضل ہے کیونکہ نبی علیہ الصلو ۃو السلام کو جبریل امین کی وساطت سے علم ملا لیکن ولی کا علم جبریل کے واسطے سے نہیں۔ یہ تاویل محض غلطی ہے۔ یہ گروہ اسی نظریئے کی وجہ سے ہلاک ہو ایسا عقیدہ کفر ہے۔

 شمر انیہ

یہ گروہ کہتا ہے کہ صحبت قدیم ہے اسی لیے امر و نہی کی پابندی ضروری نہیں ہے شمر انیہ گانے بجانے اور دوسری مناہی(حرام) کو شرعا حلال جانتے ہیں۔ پہلے گھر سے عورت کی بچی خاوند کے لیے حلال بتاتے ہیں۔ یہ لوگ کافر ہیں اور ان کاقتل مباح ہے۔

 حبيہ :۔

 ان کے نظرئیے کے مطابق جب انسان اللہ کے ہاں درجہ محبت تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے شریعت کی ساری پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے سے جسم کے مخصوص حصے (شرمگاہ) نہیں چھپاتے۔

 حوریہ :۔

 ان کے نظریات فرقہ حالیہ سے ملتے جلتے ہیں۔ جب یہ لوگ و جد و حال سے افاقہ حاصل کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے حور سے مباشرت کی ہے۔ افاقہ کے بعد غسل کرتے ہیں۔ یہ گروہ پرلے درجے کا جھوٹا ہے اور اسی جھوٹ کی وجہ سے ذلیل و خوار ہیں۔ 

اباحيہ :۔

 یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قائل نہیں ۔ حرام کو حلال سمجھتے ہیں اور عورتوں سے (بلا قيد ( اکٹھے ہو نا حلال بتاتے ہیں۔ 

متكاسلہ :۔ 

یہ لوگ کسب کے قائل نہیں۔ گھر گھر جا کر مانگتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ہم نے دنیا ترک کر دی ہے۔ اس نظرئیے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہیں۔

متجاہلہ :۔

یہ لوگ فاسقوں جیسا لباس پہنتے ہیں۔ اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ بہ باطن اللہ والے ہیں۔ یہ بھی اسی عقیدہ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (هود:113( اور مت جھکو ان کی طرف جنہوں نے ظلم کیا ورنہ چھوئے گی تمہیں بھی آگ ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے جس نے کسی قوم کی مشابہت کی انہی میں سے ہے۔

واقفیہ :۔

 ان کے خیالات میں کوئی شخص اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا۔ ان لوگوں نے طلب معرفت کی راہ کو ترک کر دیا ہے اور یہ ان کےہلاک ہونے کی وجہ ہے۔

الہامیہ :۔

 یہ علم کے قائل نہیں۔ تدریس سے روکتے ہیں اور حکماء کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن حجاب ہے۔ اشعار طریقت کا قرآن ہیں۔ اس لیے وہ قرآن کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ اپنے بچوں کو بھی اشعار کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے میں کوئی وردو وظیفہ جائز نہیں۔ اسی اعتقاد نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ ان باطل نظریات کے باوجود اپنے آپ کو اہل السنت بتاتے ہیں۔ 

یہ تمام فر تے اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کیو نکہ اصل السنت والجماعت کا تو یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺکی صحبت سے عشق کا جذبہ حاصل کیا۔ پھر یہ جذبہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد مختلف مشائخ تک پہنچا۔ ان سے کئی سلسلے رو پذیر ہوئے حتی کہ وہ جذبہ ماند پڑ گیا کئی اصل راہ سے ہٹ گئے اور صرف رسوم بلا معنی کی تقلید کرنے لگے پھر انہیں ظاہری رسوم کے حامل مشائخ کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ سنت کو چھوڑ کر بد عت کی راہ اپنالی۔ کوئی قلندری ہے تو کوئی حیدری۔ کوئی ادہمی کہلائے تو کوئی کسی اور نام سے منسوب ہوئے۔ ان کے بارے تفصیلی گفتگو بہت طوالت کا باعث ہو گی۔ موجودہ دور میں صاحبان طریقت و معرفت اور اہل ارشاد بہت ہی قلیل ہیں۔

 اہل حق کی دو نشانیاں ہیں۔ ایک نشانی ظاہر کی ہے اور دوسری باطنی۔

 ظاہری علامت :۔ 

ظاہر کی علامت تو یہ ہے کہ وہ شریعت کے اوامر و نواہی کی پابندی کرتے ہیں۔ مشاہدہ کرنے والے یعنی فقہا ءان کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر حق پر تصور کرتے ہیں۔

باطنی علا مت :۔

: جبکہ باطنی علا مت یہ ہے کہ ان کا سلوک مشاہدہ بصیرت(وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں) پر ہے صاحبان بصیرت پاک و صاف باطن کے باعث انہیں پہچانتے ہیں اور ان کو دیکھ کر اسوۂ حسنہ کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالی اور نبی کریم ﷺکی روحانیت کے درمیان واسطہ ہیں۔ اور اپنی جگہ جسمانیت کے لیے بھی واسطہ ہیں۔ شیطان ان لوگوں کی مثالی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالی کی راہ دکھانے والے ہوتے ہیں اور اپنے مریدوں کے لیے راہ حقیقت کا نشان منزل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اندھی تقلید کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کی اور بھی بہت سی علامات ہیں جنہیں صرف چند لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ132 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں