اوصاف الہی سے ناسمجھی (باب  دہم)

اوصاف الہی سے ناسمجھی کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 92 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اسکی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے
92)مَنْ عَبَدَه لِشَيْءٍ يَرْجوهُ مِنْهُ أَوْ لِيَدْفَعَ بِطاعَتِهِ وُرودَ العُقوبَةِ عَنْهُ، فَما قامَ بِحَقِّ أَوْصافِهِ.
جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کسی ایسی چیز کے لئے کرتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے۔(مثلاً جنت ) یا اس لئے عبادت کرتا ہے۔ کہ اس کی عبادت کے صلے میں اس سے عذاب دور ہو جائے ۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف کے حق پر قائم نہیں ہوا۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں اپنے اخلاص کے اعتبار سے آدمیوں کی تین قسمیں ہیں:۔
پہلی قسم: وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کے عذاب کے خوف سے کرتے ہیں۔ خواه وہ عذاب فورا ہو، یا دیر میں ۔ یا اس کی رحمت ، اور حفاظت کی طمع میں کرتے ہیں۔ خواہ وہ رحمت اور حفاظت فوراً ہو یا دیر میں۔ اور یہ لوگ عام مسلمین ہیں اور ان کے بارے میں حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:
لوْلَا النَّارُ مَا سَجَدَ لِلَّهِ سَاجِدٌ اگر دوزخ کی آگ نہ ہوتی تو کوئی سجدہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہ کرتا ۔
دوسری قسم:۔ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی ذات سے محبت اور اس کی ملاقات کے شوق میں کرتے ہیں۔ نہ کہ اس کی جنت اور حفاظت کی طمع سے ، اور نہ اس کے دوزخ اور عذاب کے خوف سے۔ اور وہ لوگ سائرین میں سے محبین عاشقین ہیں ۔
تیسری قسم: وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت عبودیت کے وظائف قائم کرنے کیلئے ، اور ربوبیت کی عظمت کے ساتھ ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ یا تم اس طرح کہو: ۔ عبودیت میں سچائی ، اور ربوبیت کے وظیفوں کے قائم کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ محبین و عاشقین ہیں۔
تو پہلی قسم کے لوگوں کی عبادت:۔ ان کے نفس کے ساتھ ، ان کے نفس کے لئے ہے۔
اور دوسری قسم کے لوگوں کی عبادت ان کےنفس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیلئے ہے
اور تیسری قسم کے لوگوں کی عبادت: اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔
تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کسی ایسی چیز کے لئے کرتا ہے ، جس کی وہ اس سے دنیا میں یا آخرت میں امید رکھتا ہے۔ یا اس لئے کرتا ہے کہ اس کی طاعت کے صلے میں دنیا میں یا آخرت میں اس سے عذاب دور ہو۔ تو وہ ربوبیت کے اوصاف کے حق کے ساتھ قائم نہیں ہوتا ہے۔ (یعنی ربوبیت کا حق ادا نہیں کرتا ہے ) اور ربوبیت کے اوصاف: عظمت و کبریائی اور عزت و غنا اور کمال کے تمام اوصاف، اور جلال و جمال کی تمام صفات ہیں۔ اور بوبیت کی صفات عظمت وجلال کا تقاضا ہے۔ عاجزی، اور ذلت کے ساتھ عبودیت کا خضوع۔
کیا تم نے غور کیا ہے؟ کیا اگر جنت اور دوزخ نہ ہوتی ۔ تو اللہ واحد قہار عبادت کے لائق نہ ہوتا ؟
کیا تم نے غور کیا ہے؟ وہ ذات جس نے ایجاد پیدا کرنا ) اور امداد ( زندگی قائم رکھنے اور آرام کے لئے ضروری تمام چیزیں) کی نعمتوں سے نوازا۔ کیا وہ اس کا مستحق نہیں ہے کہ تمام بندے اس کا شکر بجالائیں؟
تو جو شخص اپنے آقا کا زرخرید غلام ہوتا ہے۔ وہ اپنے آقا کی خدمت ، اس کے احسان اور بخشش کے بدلے میں نہیں کرتا ہے۔ بلکہ اس کی بندگی اور غلامی کی وجہ سے کرتا ہے اور اس کا آقا لا محالہ اس کی ضرورتوں اور روزی کا انتظام کرتا ہے۔
کیا اس اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ذات کے لئے پیدا کیا۔ پھر تم کو اپنی بخشش سے محروم کر دے گا؟ اور کیا وہ تم کو اپنے گھر میں داخل کرے گا تو تم کو اپنے احسان سے محروم کر دے گا ؟ اگر تم یہ اعتقاد ر کھتے ہو کہ اگر تم اس کی عبادت نہ کرو گے، تو وہ اپنی عظیم بخشش سے تم کو محروم کر دے گا۔ تو تم اللہ رب کریم کے ساتھ بد گمانی اور بے ادبی کر رہے ہو ۔ بے شک جب تم ماں کے شکم میں جھلیوں کی تاریکی میں تھے۔ تو اس وقت اس نے اپنا احسان اور روزی تمہارے اوپر جاری کیا۔ تو پھر اب جب کہ اس نے تم کو اپنا وجود ظاہر کرنے کے لئے ظاہر کیا۔ اور اپنی نعمتیں تمہارے سامنے پھیلا دیں اور اس میں تم کو اختیار دے دیا ۔ تم جس طرح چاہو اس میں تصرف کرو۔ اور ان کے ساتھ جو معاملہ چاہوکرو۔ (یعنی بناؤ یا بگاڑو )خانہ کعبہ کے ایک پتھر پر قدرت کے قسم سے جو مکتوب لکھا ہوا ہے اس میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں:
تَذَكَّرُ جَمِيلی فِيكَ إِذْ كُنتَ نُطْفَةٌ وَلَاتنْسَ تَصْوِيرِی لِشخْصِكَ فِي الْحَشَا
تو اپنے بارے میں میرے احسان کو یاد کر جب کہ تو صرف نطفہ ( نا پاک قطرہ ) تھا اور تو ماں کے شکم میں اپنی ذات کے لئے میری تصویر سازی کو نہ بھول ۔
وَكُن وَاثقَابِي فِي أُمُورِكَ كُلَّهَا سَاكْفِيكَ مِنْهَا مَا يُخَافُ وَيُخْتَشَى
اور اپنے کل معاملوں میں میرے اوپر بھروسہ کر۔ میں ان تمام چیزوں میں تیرے لئے کافی ہوں گاجن سے خوف کی وجہ سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے
وَسَلَّمَ إِلَى الْأَمْرَ وَاعْلَمُ بِانَّنِي أَصْرِفُ أَحْكَامِي وَأَفْعَلُ مَا أَشَا
اور تو اپنا معاملہ میرے سپرد کر دے۔ اور جان لے ! کہ بے شک میں اپنے احکام میں الٹ پھیر کرتارہتا ہوں۔ اور جو کچھ میں چاہتا ہوں کرتا ہوں ۔
پس اے انسان! تو اللہ تعالیٰ سے اس بات پر شرم کر کہ تو اس سے اس عبادت پر اجر طلب کرے۔ جس کو اللہ واحد منان نے تیرے اوپر فرض کیا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد کر ۔۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِتَهْتَدِى لَو لَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ جس نے ہمیں اس کی طرف ہدایت فرمائی ۔ اور ہم ہدایت نہ پاتے اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت نہ دیتا۔
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کو یاد کر:
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُاور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اختیار کرتا ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کو یاد کر: (وَمَا تَشَاءُ وَنَ إِلَّا آن یشَاءَ الله تم لوگ نہیں چاہتے ہو مگروہی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے
حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے
لا يَكُنْ اَحَدُكُمْ كَالْعَبْدِ السُّوءِ ، إِنْ خَافَ عَمِلَ ، وَلَا كَالا جِبْرِ السُّوءِ ، إِنْ لَمْ يُعْطَ الْأجْرَةَ لَمْ يَعْمَلُ
تم میں کوئی شخص برے غلام کی طرح نہ ہونا چاہیئے کہ اگر خوف کا سامنا ہو تو عمل کرے اور نہ برے مزدور کی طرح ہونا چاہیئے کہ اگر اس کو اجرت نہ دی جائے تو کام نہ کرے۔
سید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نِعْمَ الْعَبْدُ صُهَيْبٌ لَو لَمْ يَخِفِ اللَّهَ لَم يعصہ) حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بہترین بندے ہیں اگر چہ اب ان کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خوف نہیں ہے لیکن وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے زبور میں فرمایا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ عَبَدَنِي لِجَنَّةٍ أَوْ نَارٍ، لَولَمْ أَخْلُقُ جَنَّةٌ وَّلَا نَارًا، أَلَمْ أَكُنْ أَهْلاً أن أطاع
اس سے بڑا ظالم کون ہے جو میری عبادت جنت کی طمع ، یا دوزخ کے خوف سے کرتا ہے۔ اگر میں جنت اور دوزخ کو نہ پیدا کرتا ۔ تو کیا میں عبادت کے لائق نہ ہوتا؟
نیز حضرت داؤد علیہ السلام کی حدیث میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی ان اود الا وداءِ إِلَى مَنْ عَبَدَنِي لِغَيْرِ نِوَالٍ لكِن لِيُعْطِي الرَّبُوبِيَّةِ حَقَّهَا
سب دوستوں سےزیادہ دوست میرے نزدیک وہ شخص ہے جو میری عبادت بغیر کسی بخشش کے کرتا ہے بلکہ وہ صرف اس لئے عبادت کرتا ہے تا کہ ربوبیت کا حق ادا کرے۔ پھر اگر تم اپنی ہمت کو فوائد کی طلب سے اٹھا لو گے تو تمہارے او پر فوائد کی بارش ہوگی۔
بعض حدیث میں وارد ہوا ہے: إِنَّ اللَّهَ يَحْفِظُ الأَوْلَادَ وَأَوْلَادَ الْأَوْلَادِ بِطَاعَةِ الْأَجْدَادِ اللہ تعالیٰ اولاد کی ، اور اولاد کے اولاد کی حفاظت باپ داداؤں کی طاعت کے صلے میں کرتاہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق: (وَكَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا) ان دونوں لڑکوں کےباپ صالح تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے خزانے کی حفاظت ان کے باپ کی نیکی کے صلے میں کی۔ تو فوائد کی بارش اولاد پر ہوئی۔ اور ان کے باپ داداؤں کے فوائد کو ترک کرنے کی وجہ سےان کے فوائد کی حفاظت ہوئی۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے سے فرماتے تھے: (اتى لا طیل الصَّلوةَ لأجلك) میں نماز کو تمہارے لئے لمبی کرتا ہوں اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرتا ہوں تا کہ وہ تمہاری حفاظت کرے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں