اس بیان میں کہ اہل اللہ کو باطن میں دنیا کے ساتھ رائی کے دانہ جتناتعلق بھی نہیں ہوتا۔ اگرچہ بظاہردنیا اور دنیا کے اسباب میں مشغول ہوتے ہیں۔ حاجی محمد یوسف کشمیری کی طرف سے صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالی کے لیے حمدہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)
خدا کی معرفت اس شخص پر حرام ہے جس کے باطن میں دنیا کی محبت رائی کے دانے جتنی بھی ہو یا اس کے باطن کو دنیا کے ساتھ اس قدر تعلق ہو یا دنیا کی اتنی مقدار اس کے باطن میں گزرتی ہو۔ باقی رہا ظاہر، اس کا ظاہر جو باطن سے کئی منزلیں دور پڑا ہے اور آخرت سے دنیا میں آیا ہے اور اس کے لوگوں کے ساتھ اختلاط پیدا کیا ہے تا کہ وہ مناسبت حاصل ہو جو افادہ اور استفاده میں مشروط ہے۔ اگر دنیا کی کلام کرے ،اور دنیاوی اسباب میں مشغول رہے تو گنجائش رکھتا ہے اور کچھ مذموم نہیں بلکہ محدود ہوتا ہے تا کہ بندوں کے حقوق ضائع نہ ہوں اور استفاده و افادہ کا طریق بند نہ ہو جائے۔ پس اس شخص کا باطن اس کے ظاہر سے بہتر ہوتا ہے اور جو نما گندم فروش کو حکم رکھتا ہے۔ ظاہر میں لوگ اس کو اپنی طرح گندم نما جو فروش تصور کرتے ہیں اور اس کے ظاہر کو اس کے باطن سے بہتر جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بظا ہر تعلق دکھائی دیتا ہے مگر باطن میں گرفتار ہے۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ (ياللہ تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر۔ تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے) والسلام على من اتبع الهدی و التزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلواة والتسليمات (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اور حضرت محمد مصطفی ﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔)
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ131ناشر ادارہ مجددیہ کراچی