بد فعلی (لواطت)کا وبال

بد فعلی (لواطت)کا وبال

حالات مصنف
مصنف: “ذم اللواط“ ایک مختصرتعارف
نام ونسب:محمد بن حسین بن عبد اللہ البغدادی الا جری۔
ولادت:- آپ بغداد کے ایک آجرہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے جو بغداد کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپ کی تاریخ ولادت تلاش بسیار کے باوجود ملی۔
علم وفضل:- آپ نے بغداد کے علما ومشائخ اور اپنے زمانہ کے متعددعلمی ہستیوں سے بڑی توجہ اور اخلاص کے ساتھ علم دین حاصل کی آپ فقہ وحدیث میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے، اور ان علوم میں مسلمانوں کے مرجع اور طالبان علم کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے، آپ کی جلالت علم ، شان تقوی اور حدیث وفقہ کے اندر مرتبہ بلند اور علم وفضل کا اعتراف ملت اسلامیہ کے برگزیده علمی شخصیتوں نے کیا ہے، اور سارے محدثین و مورخین کا آپ کی توثیق وتعدیل پراجماع ہے۔
خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں فرمایا: آجری ثقہ صدوق، دیانت دار اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔( تاریخ بغداد ص:239، ج:2، دارالکتب العلمية، بیروت۔)
امام ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں فرمایا: امام، محدث، مصنف کتاب الشريعة والاربعین، عالم باعمل اور صاحب سنت تھے۔ (تذکرة الحفاظ ص:19، ج: 3، دارالکتب العلمیہ، بیروت۔ )
حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں فرمایا: آپ ثقہ اور صدوق تھے آپ کی بہت زیادہ نفع بخش کتابیں ہیں۔( البدایہ والنہایہ ص:21،ج:8، دار الفکر، بیروت)
اور ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں فرمایا: فقیہ، شافعی محدث، بہت بڑے عبادت گزار اور نیک تھے۔
ہجرت:- آپ بغداد سے مکہ تشریف لے گئے اور اسے اپنا وطن بنالیا، اور اپنی عمر کے باقی تیس سال وہیں گزارے۔ (تاریخ بغداد۔ص:239، ج:2، دارالکتب العلمیہ، بیروت۔)
تصنيفات:- آپ ایک عظیم المرتبت مصنف تھے آپ نے مختلف علوم وفنون پرگراں قدر یادگارچھوڑی ہیں ان میں چند اہم تصنیفات یہ ہیں: ۔
(1)- الاربعین فی الحدیث۔ (2)- اخبار عمر بن عبدالعزیز۔ (3)- اخلاق حملة القرآن۔ (۴)- احکام النسا۔ (۵)- اخلاق العلما۔ (۹)- التصديق بالنظر الى الله عز وجل وما اعده لا ولیا ۔ (2) – الشریعہ۔ (۸)- الغرباءمن المومنین (۹)- ادب النفوس (۱۰)۔ذم اللواط وغیرہ۔
آپ کے اہم شيوخ: ابو سلم کجی محمد بن یحی مروزی، ابوشعيب حرانی، احمد بن یحی حلوانی حسن بن علی بن علويہ قطان ، جعفر بن محمد فریابی، موسی بن ہارون ، خلف بن عمروعکبری ، عبداللہ بن ناجیہ محمد بن صالح عکبری، جعفر بن احمد بن عاصم دمشقی ، عبد اللہ بن عباس طیالسی، حامد بن شعیب بلخی، احمد بن سہیل اشنانی مقری، احمد بن موسی بن زنجویہ قطان عیسی بن سلیمان، وراق داؤد بن رشید، ابوعلی حسن بن حباب مقری، ابوالقاسم بغوی، ابن ابی داؤد وغیرہ۔
آپکے اہم تلامذه:- آپ کی ذات طالبان علوم کی مرجع تھی آپ سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد کثیرہے چنداہم تلامذہ یہ ہیں: ۔
عبد الرحمن بن عمر بن نحاس، ابو الحسین بن بشران اور قاسم بن بشران، مقری ابو الحسن حماسی ، حافظ ابونعیم ،حجاج اور قرب و جوار کے بہت سارے علما نے آپ سے سیرابی حاصل کی۔
وفات:- آپ نے طویل عمر پا 320ھ میں مکہ مکرمہ کے اندر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور وہیں مدفون ہوئے۔(سیراعلام النبلاء : ص 273 ج 12، دار الفکر، بیروت۔ )

مقدمہ
مصنف محمد بن حسین آجری نے فرمایا:
ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم پر بے شمارنعمتوں کا فیضان فرما کر مہربانی فرمائی، دین اسلام کی ہدایت فرما کر احسان عظیم فرمایا، اپنے نبی محمدﷺ کی امت میں پیدا کیا۔ قرآنی علوم عطا کیا، اپنے نبی ﷺ کی کثیر سنتوں سے آگاہ فرمایا، جن کی مدد سے ہم نے دین کے طریقوں کو جانا، اور قرآن وحدیث میں ہمارے فائدے کی خاطر حلال کو حرام سےحق کو باطل سے نقصان کونفع سے حسن کوقبیح سے نفع بخش چیزوں کو ضرر رساں چیزوں سے واضح فرمایا ہمیں مکمل جاہل نہ بنایا تو ہم اس پر الله کی حمد بجالاتے ہیں، اور ہم اللہ سے زیادتی فضل کے خواستگار اور اس کا شکر گزار بندہ ہونے پر اعانت و مدد کے طلب گار ہیں۔
اور اللہ تعالی کی طرف سے خوش خبری سنانے والے، ڈر سنانے والے منور اور روشن ذات کے مالک، حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام) کی اولاد کے سردار محمد ﷺ پر آپ کی تمام آل و اولاد، اصحاب اور چننده آل اور ازواج مطہرات پر رحمتیں نازل فرمائے۔ حمد و صلاۃ کے بعد! ۔
اے مسلمانو! جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے اچھے اخلاق اور بہترین عادت کو پسند فرمایا، اور تمہیں اس کی ہدایت فرمائی، اور پسندیدہ خصلتوں پر کثیر ثواب کا وعدہ فرمایا ہے، اور تمہارے برے اخلاق الله تعالی کو نا پسند ہیں، اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہے، برے اخلاق کوحرام فرمایا اور انہیں بروئے کار لانے پر بڑے عذاب کی وعید ہے، تمام امور کتاب وسنت میں واقع اور روشن ہیں۔
الله تبارک وتعالی نے مجھے ان میں سے جن کے ذکر کی توفیق سے نوازا اور اپنے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی میں اس کتاب میں جس کے لیے میرا سینہ کشادہ فرمایا وہ ان برے اخلاق اور خسیس عادتوں میں سے ایک حرام عادت کا بیان جوان پرسخت حرام ہے، جن کے خوگر اشخاص دنیا میں سخت عذاب اور ذلت ورسوائی میں گرفتار ہوئے، اگر وہ توبہ نہ کریں تو آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ہیں، اور وہ قوم لوط کاعمل ہے یعنی ایک مرد دوسرے مرد کے پاس بدفعلی کے ارادے سے آئے، حالاں کہ تمہارے مولی اللہ رب العزت نے قوم لوط اور ان کے فعل کی قباحت و شناعت حضرت لوط علیہ السلام کا انہیں اس سے روکنے اور اللہ تعالی کی طرف سے نزول عذاب سے ڈرانے سے باخبر کر دیا ہے، پھر بھی جب وہ نہ مانے اور حرام کردہ چیز یعنی بدفعلی کے در پے ہو گئے تو اللہ نے انہیں بہت بری موت دی، خوفناک اور بدترین عذاب میں گرفتار کیا، اللہ نے ان کی بینائی سلب فرمائی تو سب اندھے ہو گئے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنے بازو کے ذریعہ ان کے شہروں اور اس میں جو کچھ تھا سب کو آسمان کی طرف اٹھا یا پھر اوندھا کر کے پلٹ دیا اور ان پرنشان زده پتھر برسائے گئے،ہر ایک کو اس کے نام کا پتھر لگا، اس عذاب سے مقیم و مسافر یہاں تک کہ کوئی نہ بچ سکا، سب ہلاک ہو گئے۔ کہا گیا کہ وہ چار ہزار تھے، اللہ نے اس واقعہ کوتمہارے عبرت کے لیے متعددسورتوں میں بیان فرمایا ہے، جب تم قرآن شریف کی تلاوت کرو گے تو ان کا ذکر اور ان پر اتارے گئے عذاب کا تذکرہ پاؤگے ۔
قوم لوط کا ذکر مندرجہ ذیل سورتوں میں آیا ہے۔ سورة الحجر سورة الانبیاء ، سورة الشعراء سورة النمل سورة العنكبوت سورة الصافات سورة اقتربت الساعة۔
الله تعالی نے تمہیں امت محمدیہ اور خیر امت کے عظیم لقب سے سرفراز فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ تم کو ان کے جیسا ہونے سے ڈرایا، چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا: وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ‎‏ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ (سورة ھود82،83)
اور اس پر کنکر کے پتھر لگاتار برسائے جو نشان کیے ہوئے تیرے رب کے پاس ہیں اور وہ پتھر کچھ ظالموں سے دور نہیں۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ظالمین سے اس امت کے ظالمین مراد ہیں۔
اور اللہ نے سورة الحجر میں فرمایا:
لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ‎‏ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ ‎‏ فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ ‎‏ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ‎‏ وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُّقِيمٍ ‎‏ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ (سورة الحجر:72 تا77)
اے محبوب تمہاری جان کی قسم بے شک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں ، تو دن نکلتے انہیں چنگھاڑ نے آلیا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچےکاحصہ کر دیا، اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے بے شک اس میں نشانیاں ہیں فراست والوں کے لیے، اور بیشک وہ بستی اس راہ پر ہے جو اب تک چلتی ہے، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کو۔
اور سورۃ الاعراف میں قوم لوط کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فر مایا:
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (سورة الاعراف:84)
اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیا انجام ہوا مجرموں کا۔
اور سورة العنكبوت میں ارشاد باری تعالی ہے
‏ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ‎‏ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ( سورة العنكبوت:28،29)
اور لوط کونجات دی جب اسے اپنی قوم سے فرمایاتم بیشک بے حیائی کا کام کرتے ہو تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا، کیاتم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو۔
اور اسی سورہ میں دوسری جگہ فرمایا:
وَلَمَّا أَن جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ ‎‏ إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَىٰ أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ‎‏ وَلَقَد تَّرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(سورة العنكبوت:33تا 35)
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے ان کا آنا اسے ناگوار ہوا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اور انہوں نے کہانہ ڈریئے اور نہ غم کیجئے، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر آپ کی عورت وہ رہ جانے والوں میں سے ہے، بیشک ہم اس شہر والوں پر آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں، بدلہ ان کی نافرمانیوں کا اور بیشک ہم نے اس سے روشن نشانی باقی رکھی عقل والوں کے لیے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
گراں قدر اوراہم نصيحت
محمد بن حسین نے فرمایا:”اے مسلمانوں کی جماعت اس خطاب کوسمجھو، کس مقصد کے تحت اللہ تعالی (عزوجل) نے تمہارے سامنے قوم لوط کی حالت اور ان کی اس قباحت وشناعت کو بیان کیا جس سے وہ متصف تھے، یعنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بدفعلی کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے ان کے لیے عورتوں کو بیوی بنانا اور خرید کر باندی بنانا حلال ومباح کیا تھا۔
اللہ تعالی (عزوجل) کے اس فرمان میں غور کرو:
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ ‏ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ ‏ نِّعْمَةً مِّنْ عِندِنَا كَذَٰلِكَ نَجْزِي مَن شَكَرَ ‎ وَلَقَدْ أَنذَرَهُم بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ ‎‏ وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ ‎‏ وَلَقَدْ صَبَّحَهُم بُكْرَةً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ ‎فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ ‎‏ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ “(سورة القمر: 33 تا40)
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا بیشک ہم نے ان پر پتھراؤ بھیجا سوائے لوط علیہ السلام کے گھر والوں کے ہم نے انہیں پچھلے پہر بچالیا اپنے پاس کی نعمت فرما کر ہم یوں ہی صلہ دیتے ہیں اسے جو شکر کرے اور بیشک اس نے انہیں ہماری گرفت سے ڈرایا تو انہوں نے ڈر کے فرمانوں میں شک کیا، انہوں نے اسے اس کے مہمانوں سے پھسلا نا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں میٹ دیں، فرمایا چکھو میرا عذاب اور ڈر کے فرمان اور بیشک صبح تڑ کے ان پرٹھہر نے والا عذاب آیا تو چکھو میرا عذاب اور ڈر کے فرمان، اور بیشک تم نے آسان کیا قرآن یاد کرنے کے لیے توہے کوئی یاد کرنے والا
اس آیت میں تم غور کرو۔ الله تعالی (عزوجل) تم پر رحم فرمائے اور اس بات سے فہم حاصل کرو کہ الله تعالی (عزوجل) نے تمہیں اس سے ڈرایا کہ کہیں ان کی طرح نہ ہوجاؤ، کیا تم نے الله تعالى (عزوجل) کا فرمان نہیں سنا:
” ‎‏ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ (سورة الحجر:77)
بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کو۔ اے اللہ تعالی (عزوجل) پر ایمان رکھنے والو اس میں غور کرو اور جان لو کہ تمہارے حقیقی مولی رب کریم نے تمہیں قوم لوط کے عمل سے خوف دلایا اور متنبہ فرمایا، اور باخبر کیا کہ قوم لوط پر عذاب کا آنا تمہارے لیے عبرت کا مقام ہے۔ لہذا قوم لوط کے عمل سے خود کو بچاؤ۔ خدا (عزوجل) تم پر رحم فرمائے۔
کیا تم نے یہ سنا کہ الله تبارک و تعالی تمہیں بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے خبردار کر رہا ہے جنہوں نے ہفتہ کے دن شکار کر کے جوان پرحرام تھا خدا کی نافرمانی کی، جب لوگوں نے حرام کردہ چیز کا ارتکاب کیا تو اللہ تبارک وتعالی نے انہیں بندر کی صورت میں کردیا اور ارشادفرمایا:
فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ(سورة البقرة: 66)
تو ہم نے اس بستی کایہ واقعہ اس کے آگے اور پیچھے والوں کے لیے عبرت کر دیا اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت اور ایک دوسری جگہ الله تعالی نے ارشاد فرمایا: ۔
وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا ‎‏ فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا ‎‏ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا
اس کے بعد فرمایا:
فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ‎‏ رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ” (سورة الطلاق؛8تا11)
اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انہیں بری مار دی تو انہوں نے اپنے کیے کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام گھاٹا ہوا ، الله نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللہ سے ڈرواے عقل والو! وہ جو ایمان لائے ہیں، بیشک اللہ نے تمہارے لیے عزت اتاری ہے، وہ رسول کہ تم پر اللہ کی روشن آیتیں پڑھتا ہے تا کہ انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کے اندھیریوں سے اجالے کی طرف لے جائے۔
محمد بن حسین نے فرمایا: اے نماز پڑھنے والی ز کوۃ دینے والی روزہ رکھنے والی، حج کرنے والی مسلمانوں کی جماعت اور اے وہ جماعت جس پر الله تعالی نے بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے واجب کردیا ہے۔ قوم لوط کے عمل سے بچو اور خدا کا حکم مانوکامیاب رہو گے اور ہم بستری صرف اپنی بیوی با اپنی مملوکہ باندی سے کرو، کیا تم نے الله تعالی کا یہ فرمان نہ سنا؟:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ‎‏ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‎‏ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ‎‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ‎‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ( سورۃ المومنون؛ 1 تا 7)
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جواپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جوکسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکوة دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جوان کے ہاتھ کی ملک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں تو جوان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حدسےبڑھنے والے ہیں۔
اور الله تعالى (عزوجل) نے سورہ “ (سوره المعارج) میں جب نمازیوں کے اخلاق کو فاسقوں کے اخلاق سے ممتاز کرنا چاہا تو ارشادفرمایا:
إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ‎‏ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ‎‏ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ‎‏ إِلَّا الْمُصَلِّينَ ‎﴾‏ الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (سورة المعارج؛19 تا23)بیشک آدمی بنایا گیا ہے بڑا بے صبراحریص جب اسے برائی پہنچے تو سخت گھبرانے والا اور جب بھلائی پہنچے تو روک رکھنے والامگر نمازی جو اپنی نماز کے پابند ہیں۔
پھر ان کے بلند اوصاف و اخلاق کو ذکر فرمایا تو ارشاد فر مایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (سورة المعارج؛29 تا 31)
اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا اپنے ہاتھ کے مالک کنیزوں سے کہ ان پر کچھ ملامت نہیں تو جوان دو کے سوا اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔
لوطی پرالله تعالی کی لعنت ہوتی ہے
محمد بن حسین نے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی فرجوں (شرم گاہوں )کوحرام جگہوں میں استعال کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، اور خوب جان لو کہ اس شخص پر جوقوم لوط جیسا عمل کرے الله عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے لعنت ہوتی ہے ساتھ ہی ساتھ دنیا میں سخت عذاب اور ذلت و رسوائی ہوتی ہے اور اگر وہ تو نہیں کرتا ہے تو اس کے لیے آخرت میں عذاب عظیم تیار کیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جوشخص قوم لوط جیسا عمل کرے اس پر الله تعالی کی لعنت ہے، جوشخص قوم لوط جیسا عمل کرے اس پر الله تعالی کی لعنت ہے جوشخص قوم لوط جیسا عمل کرے اس پر الله تعالی کی لعنت ہے ۔
آپ نے اس جملہ کو تین مرتبہ فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث کو روایت کیا۔ (المعجم الکبیر، باب العین عکر مہ عن ابن عباس، ج: 11ص 218 مکتبہ القاہرہ، مصر۔)
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب ایک مرد دوسرے مرد کے پاس بدفعلی کے
ارادے سے آئے تو وہ دونوں زانی ہیں۔
نیز فرمایا: بدفعلی کرنے اور کرانے والے کو قتل کر دو۔
اور فرمایا: تم جس کو قوم لوط جیساعمل کرتے ہوئے پاؤ تو بدفعلی کرنے اور کرانے والے دونوں کو قتل کر دو حضرت ابوبکر صدیق سے مروی ہے کہ آپ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایا گیا اور آپ کی طرف ایک ایسے شخص کے متعلق تحریرلکھی گئی جس کوعرب کے جس علاقے میں دیکھا گیا کہ وہ مردوں سے ایسے ہی بد فعلی کرتا ہے جیسے عورتوں سے، اور حضرت ابوبکر صدیق نے اس شخص کی حد کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے صحابہ کرام کو جمع فرمایا، ان صحابہ میں حضرت علی بھی جلوہ بار تھے اس وقت انہوں نے اس کے متعلق سب سے سخت موقف اختیار کیا اور بڑی سختی کے ساتھ ارشاد فرمایا: سوائے ایک امت کے کسی نے بھی اس طرح کا عمل نہ
کیا اور اس امت کے ساتھ اللہ تعالی نے کیا معاملہ فرمایا تم بخوبی جانتے ہو۔ میری رائے یہ ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے تو حضرت ابوبکر صدیق نے اس کو آگ میں جلادیا۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: جوشخص قوم لوط جیسا عمل کرے اسے قتل کر دو۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے کہا: لوطی پر خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ پتھراؤ کیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان سے لوطی کی حد کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ایسے شخص کو شہر کی بلند عمارت پر منہ کے بل اوندھا کر کے گرا دیا جائے پھر اس پر پتھراؤ کیا جائے، حضرت علی سے مروی ہے کہ انہوں نے لوطی کو سنگسارفرمایا۔
حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر کسی کے لیے دو بار سنگسار کرنا
ضروری ہو تو ضرور لوطی کو دوبارہ سنگسار کیا جائے۔
حضرت زہری سے مروی ہے کہ انہوں نے لوطی کے متعلق فرمایا کہ گزشتہ طریقے کے
مطابق سنگسار کیا جائے۔ خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شده؟
حضرت جابر بن زید سے مروی ہے کہ آپ نے مرد سے بدفعلی کرنے والے شخص کے متعلق فرمایا: مردکی شرم گاہ کی حرمت زیادہ سخت ہے بنسبت عورت کی شرم گاہ کے لہذا ایسے شخص کو سنگسار کیا جائے خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔
حضرت شعبی نے فرمایا: لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ بہرحال قتل کیا جائے گا۔
حضرت عطا اور ابن المسيب فرماتے تھے کہ بدفعلی کرنے اور کرانے والے زانی کی منزل میں ہیں لہذا خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ سنگسار کیے جائیں گے۔
حضرت عطا بن ابو رباح سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: میں ابن زبیر کے پاس حاضر تھا کہ سات ایسے افراد کو لایا گیا جولواطت میں پکڑے گئے تھے ان میں چار شادی شدہ تھے اور تین غیر شادی شدہ تو حضرت ابن زبیر نے چار شادی شدہ شخصوں کے متعلق سنگسار کرنے کا حکم فرمایا تو ان کولوگوں نے مسجد حرام سے نکالا اور ان پر پتھراؤ کیا اور تین غیر شادی شدہ کےمتعلق حدکا علم فرمایا تو لوگوں نے ان پرحدیں قائم کیں، اس وقت حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم مسجد ہی میں تھے۔ حضرت محمد بن حسین نے کہا : امام مالک بن انس اور احمد بن حنبل کامذہب لوطی کے بارے میں یہ ہے کہ وہ چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اسے سنگسار کیا جائے۔
حضرت امام شافعی اور علما کی ایک جماعت نے کہا: شادی شدہ لوطی کو سنگسار کیا جائے اور غیر شادی شدہ کوکوڑے لگائے جائیں اور زانی کی طرح شہر بدر کر دیا جائے۔
اگر کہنے والا یہ کہے کہ جب ہم نے اس شخص کو پہچان لیا جو قوم لوط جیسا عمل کرے اوفسق وفجور کے ارادے سے بچوں کی صحبت اختیار کرے اور جو فاسقوں، شرابیوں اور ان جیسے لوگوں کے سامنے بناؤ سنگار کرے تو ہمارے نزدیک ایسے شخص کا کیا حکم ہوگا؟
تو اس سے کہا جائے گا کہ جب تم ایسے لوگوں سے اس طرح کاعمل دیکھوتو ان کے ساتھ زندگی گزارنے سے بچو اور ان کا ہمنشیں نہ بنونہ ہی ان کی صحبت اختیار کرو تو اگر وہ تمہارا رشتہ دار یاپڑوسی ہےتواسے نصیحت کرو اور اس فعل کی قباحت و شناعت سے آگاہ کراؤ اور اگر وہ تمہاری نصیحت قبول نہ کرے تو اسے چھوڑ دو، اور اسے سلام مت کرو اگر وہ مریض ہو، اور اگر ان میں سے ہو جس کی عیادت ضروری ہے تو عیادت کے لیے جاؤ اور اسے نصیحت کرو اورحکم شرع سے باخبر کر اؤ کہ اگرتم نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ نہ کی اور اس بری عادت پر قائم رہے تو ہم تمہاری عیادت کے لیے دوبار نہیں آئیں گے اور نہ ہی تم سے سلام کریں گے اور تمہیں چھوڑ دیں گے اور تم سے بچیں گے اور ہم اپنے بھائیوں کو تم سے بچنے کے لیے تنبیہ کریں گے اور تمہاری صحبت سے روکیں گے تو شاید تمہاری نصیحت سن کر وہ توبہ کرلے۔ (ان شاء اللہ تعالی)
اگر کوئی یہ کہے کہ آپ قوم لوط کےمتعلق رسول اللہ ﷺ کی سنن اور صحابہ و تابعین کے آثار اور ائمہ مسلمین کے اقوال ذکر کردیں اور اس کے ساتھ اسانید کوبھی ذکر کردیں، تا کہ ہم ان
کے ذریعہ اس شخص پر دلیل قائم کر سکیں جوحق سے جاہل اور نابلد ہے، اور جو اپنے مولی کریم کی حلم و بردباری سے دھوکہ کھارہا ہے تو وہ اپنے مولی کی نعمتوں کے سبب معاصی پرمددطلب کرتا ہے اور اس کی توجہ ان چیزوں پر ہے جن سے دنیا اور آخرت میں ضرر پہنچتا ہے اور اس کی لذت میں مشغول ہے اور خود کو ترجیح دیتا ہے، اللہ رب العزت سے بہت کم شرم و حیا کرتا ہے۔ اور وہ شخص اللہ تعالی فرشتے اور تمام مومنین کے نزدیک مبغوض و ناپسندیدہ ہے۔
تواس قائل سے کہا جائے گا:عنقریب ہم اس تعلق سے ایسی چیزیں ذکر کریں گے جن کی علمائے کرام تائید کریں گے۔ لیکن میں قوم لوط کے تعلق سے ہم تک پہنچنے والی معلومات، ان پر نازل ہونے والے عذاب اور بعد والوں کے لیے ان کے عبرت ہونے کا بیان شروع کرتا ہوں، اس لیے کہ اس فعل کو ان کے علاوہ کسی نے بھی انجام نہ دیا۔
لواطت میں قوم لوط کی سبقت
حدیث نمبر(1):
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن خالد بن خداش نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے اسماعیل نے حدیث بیان کی انہوں نے ابن ابو نجیح سے روایت کی انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کی حضرت عمرو بن دینار نے الله تعالی کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا: إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ(سورة العنكبوت :28)
سب سے پہلے حضرت لوط علیہ السلام ہی کی قوم نے مرد کے ساتھ بدفعلی کی ۔ (التفسير الطبری ص:155، ج:1 ، دار الفکر۔)
حدیث نمبر:(2)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: مجھ سے ابوعبد الله بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا میں نے عباس دوری سے کہتے ہوئے سنا مجھ تک ہی روایت کی ہے کہ:
جب مردمرد کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو زمین اس پر چلاتی ہے۔
حدیث نمبر (3)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عیسی بن محمد ابوعمیر الرملی نے حدیث بیان کی وہ ضرمۃ سے روایت کرتے ہیں وہ ابن شوذب سے روایت کرتے ہیں کہ ابن شوذب نے فرمایا:
قوم لوط کی تعداد چار ہزارتھی۔ ( الدر المنثور، ج:4 ص:461، دار الفکر۔ )
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پرعذاب کا نازل ہونا
حديث نمبر (4)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہمیں ابوبکر عمر بن سعد قراطی نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن عبيد قریشی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھ سے ازہر بن مروان رقاشی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے جعفر بن سلیمان نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوعمران نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: یہ روایت مجھے صرف عبداللہ بن رباح سے معلوم ہوئی اور عبد اللہ بن رباح حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں حضرت کعب نے فرمایا:
حضرت ابراہیم علیہ السلام روزانہ سدوم (ایک جگہ کا نام ہے) پر تشریف لے جاتے اور ارشادفرماتے:اے سدوم کے باشندو! ایک نہ ایک روز تمہارے لیے ہلاکت و بربادی ہے۔
حضرت کعب نے کہا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے جیسا کہ قرآن خود بیان فرمارہا ہے:
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا (سورة الهود:69)
اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے سلام۔
) آپ نے واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے قوم لوط کے بارے میں گفتگو فرمائی اس پر فرشتوں نے کہا:
” يَاإِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا »(سورة الھود:76) اے ابراہیم اس خیال میں نہ پڑئیے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ (سورة الھود:77)
اور جب لوط کے پاس ہمارے فرشتے آئے اسے ان کا غم ہوا۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے سبب دل تنگ ہوا توحضرت لوط علیہ السلام ا نہیں لے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور آپ کی بی بی آپ کی قوم کو مبارک باد دینے چل پڑی۔
الله تعالی فرماتا ہے:
وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ (سورة الھود:78)
اور اس کے پاس کی قوم دوڑتی آئی۔
قَالَ يَاقَوْمِ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ “(سورة الھود:78)
حضرت لوط علیہ السلام نے کہا: اے قوم یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں ، تمہارے لیے ستھری ہیں ان سے شادی کرلو)۔
أَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ )سورة الھود:78،79)
کیاتم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں، بولنے تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کی بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں اور تم ضرور جانتے ہو جو ہماری خواہش ہے۔
ابوعمران نے کہا: حضرت لوط علیہ السلام نے مہمانوں کو گھر کے اندر کر لیا اور خود دروازے پر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:
لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ (سورة الھود:80)
اے کاش مجھے تمہارے مقابل زور ہوتا یاکسی مضبوط پائے کی پناہ لیتا۔
ابوعمران نے فرمایا:
ایسے قبیلہ کی پناہ لوں جو مجھ سے ان کے شرکو روکے۔ انہوں نے کہا: تو مجھے خبرپہنچی کہ
حضرت لوط علیہ السلام کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوئے مگر وہ اپنی قوم میں باعزت رہے۔( الدرالمنثور، ج:4 ص: 459، دار الفکر۔)
نیز فرمایا:
جب فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری وجہ سے سیدنا لوط کو پریشانی ہورہی ہے تو بولے: ”
يَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ(سورة الھود:81)
اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جاؤ اورتم میں کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے سوائے تمہاری عورت کے اسے بھی وہی پہنچنا ہے جو انہیں پہنچےگا بیشک ان کا وعد صبح کے وقت ہے کیا صبح قریب نہیں۔
حضرت جبریل علیہ السلام ان کی طرف نکلے اور بحکم الہی اپنا بازوان کے منہ پر مارا سب اندھے ہو گئے۔
ابوعمران نے کہا: طمس کا معنی ہے: آنکھ کی بینائی کاختم ہو جانا ساتھ ہی آنکھ کا بھی ختم
ہو جانا اس طرح کہ چہرہ برابر ہوجائے اور آنکھ کا نشان تک باقی نہ ر ہے۔
نیز فرمایا: حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کے شہروں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ وہاں کے کتوں اور مرغوں کی آوازیں آسمانوں تک پہنچنے لگیں، پھر زمین کو پلٹ دیا اورکنکر کے پتھر برسائے، اور اس عذاب سے نہ ہی بادیہ نشین اور ان کے مبلغین اور مسافر بچ سکے غرضیکہ کوئی بھی انسان نہ بش سکا۔ ( الدرالمنثور، ج:4 ص: 447، دار الفکر۔)
حديث نمبر(5)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہمیں ابوعبیدعلی بن حسین بن حرب قاضی نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوالاشعث احمد بن مقدام نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے فضیل بن سلیمان نے حدیث بیان کی وہ اعمش سے روایت کرتے ہیں وہ مجاہد سے روایت کرتے ہیں حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور قوم لوط کے شہروں کے نیچے اپنے پر کو داخل فرمایا اور اتنا اوپر اٹھایا کہ وہاں کے کتوں، مرغوں کی آوازیں آسمانوں تک سنائی دینے لگیں، پھر اس کو اس طرح پلٹ دیا کہ نیچے کا حصہ اوپر اور اوپر کا حصہ نیچے ہو گیا، پھر ان پر پتھر برسائے گئے ۔ ( الدرالمنثور، ج:4 ص: 461، دار الفکر۔)
حديث نمبر (6)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا:ہمیں ابوبکر عمر بن سعد قراطیسی نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن محمد بن عبید نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبدالرحمن بن صالح نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن عیاش نے حدیث بیان کی وہ محمد بن سائب سے روایت کرتے ہیں وہ ابوصا لح سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں حضرت ابن عباس نے فرمایا: حضرت لوط علیہ السلام نے مہمانوں کو گھر کے اندر کر کے دروازہ بند کر لیا، لوگ دروازہ توڑ کر گھر میں گھس آئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سب کو نابینا کر دیا تو لوگ گھر سے یہ کہہ کر نکلے کہ لوط علیہ السلام نے ہمارے لیے جادوگروں کو اکٹھا کیا ہے اور لوگوں نے انہیں دھمکایا، تو حضرت لوط علیہ السلام (تقاضائے بشری جی ہی جی میں ڈرنے لگے اور کہنے لگے یہ لوگ جا کر آ ئیں گے اور مجھے اذیت دیں گے، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا آپ ڈرئیے مت ہم آپ کے رب کی طرف سے آئے ہیں، بیشک ان کے عذاب کا وعدہ صبح کے وقت ہے تو حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا عذاب آنے کا کیا وقت ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کیا صبح قریب نہیں ہے۔
تو حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کیا ابھی وقت ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
شہروں کو بہت اونچااٹھا یا گیا یہاں تک کہ کتوں کی آوازیں آسمانوں تک پہنچنےلگیں پھر اسے اوندها کر کے گرادیا گیا پھر ان پر پتھر برسائے گئے ۔ (المستدرک للحاکم ص : 437، ج: 3، دار المعرف، بیروت۔)
فرشتوں کاعذاب لانا
حديث نمبر(7):
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہمیں ابوبکر عمر بن سعد نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے عبد اللہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھ سے سعید بن سلیمان نے حدیث بیان کی وہ سلیمان بن مغیرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ حمید بن بلال سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: جندب نے کہا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:
جب فرشتوں کو قوم لوط کی طرف انہیں ہلاک کرنے کے لیے بھیجا گیا تو ان سے یہ کہا گیا کہ انہیں اس وقت تک ہلاک نہ کرنا جب تک حضرت لوط تین مرتبہ ان کی بد چلنی کی شہادت نہ دے دیں، حضرت لوط علیہ السلام کے پاس ان فرشتوں کے جانے کا راستہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہو کر تھا۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا: فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور انہیں جو بھی خوش خبری سنائی تھی سنائی تو اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا:
” فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ” (سورة الھود:74)
پھر جب ابراہیم علیہ السلام کاخوف زائل ہوا اور اسے خوش خبری ملی ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا۔
حضرت حذیفہ نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فرشتوں سے مجادلہ یہ تھا کہ انہوں نے فرشتوں سے فرمایا: اگر ان میں پچاس ایمان دار ہوں تب بھی ہلاک کروگے؟ کہا: نہیں! فرمایا: اگر چالیس ہوں؟ کہا: نہیں ! فرمایا: اگر تیس ہوں؟ کہا: نہیں!حتی کہ دس تک فرمایا تو کہا نہیں!، اور سلیمان کو پانچ کے متعلق شک واقع ہوا ہے۔ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس اس وقت آئے جب آپ کھیتی کر رہے تھے تو آپ انہیں مہمان گمان کر کے شام کے وقت ان کو لے کر گھر کی طرف چل دیئے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرشتوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: آپ کا ان لوگوں کے عمل سےتعلق سے کیا گمان ہے۔ فرشتوں نے کہا: یہ لوگ کیا کرتے ہیں، فرمایا: لوگوں میں ہی سب سے زیادہ شریر اور برے لوگ ہیں جب آپ گھر پہنچ گئے تو آپ کی بوڑھی بیوی نے لوگوں کو جا کر خبر دی کہ لوط علیہ السلام نے ایسے حسین و جمیل اور خوب رونوجوانوں کو مہمان بنایا ہے جن کو میں نے
کبھی نہیں دیکھا یہ سن کر لوگ دوڑ پڑے اور دروازے کو دھکے دینے لگےقریب تھا کہ وہ لوگ حضرت لوط علیہ السلام پر غالب آجاتے اتنے میں ایک فرشتے نے اپنے باز کو جھکایا اور دروازے کوان کے سامنے سے بند کر دیا، پھر لوط علیہ السلام اور فرشتے ایک بلند مقام پر تشریف لے گئے، اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ میری بیٹیاں ہیں تمہارے لیے مباح و حلال ہیں آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ قَالُوا يَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ (سورة الھود:80،81)
اے کاش مجھے تمہارے مقابل زور ہوتا یا کسی مضبوط پائے کی پناہ لیتا۔ فرشتے بولے اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں وہ تم تک نہیں سکتے۔
) جب حضرت لوط علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہ اللہ تعالی کے فرشتے ہیں تو فرمایا: ان میں سے اس رات کوئی بھی شخص باقی نہ رہے مگر اندھا ہو جائے، ان لوگوں نے اندھے ہو کر عذاب کا انتظار کرتے کرتے ایک بدتر رات گزاری۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں کو لے کر نکل پڑے ، حضرت جبریل علیہ السلام نے ہلاکت کی اجازت چاہی انہیں اجازت مل گئی اور زمین کو بہت بلندی پر لے گئے کہ وہاں کے کتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، اور اس کے نیچے آگ جلا دی گئی پھر اوندھا کر کے پلٹ دی گئی، حضرت حذیفہ نے فرمایا:
حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے حکم کو سنا جب کہ وہ آپ ہی کے ساتھ تھی، جیسے ہی اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے عذاب نے آلیا۔( الدرالمنثور، ج:4 ص: 460، دار الفکر۔)
حديث نمبر (8)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبد الله محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوجعفر محمد بن سعد بن حسن نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد محترم نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھ سے میرے چچاحسین بن حسن نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد گرامی نے حدیث بیان کی وہ اپنے دادا عطیہ عوفی سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے الله تعالی کے اس فرمان: وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا(سورة العنكبوت 31،32)
کی تفسیر میں فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم لوط کے متعلق فرشتوں سے مجادلہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو (ابھی عذاب نازل نہ کرو) مزید فرمایا : تمہاری کیا رائے ہے اگر ان میں مسلمانوں کے دس گھر ہوں؟ کیا تم ا نہیں چھوڑ دو گے؟ فرشتوں نے کہا : دس گھر بھی مسلمانوں کے نہیں ہیں اور نہ پانچ چار تین اور دو گھر مسلمانوں کے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوط علیہ السلام اور ان کے اہل بیت پر خدشہ لاحق ہوا تو آپ نے فرمایا: ” قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (سورة العنكبوت ،32)
اس بستی میں تو اللہ کے نبی (حضرت لوط علیہ السلام ) ہیں فرشتے بولے ہمیں خوب معلوم ہے کہ اس میں کون ہے ضرور ہم حضرت لوط علیہ السلام اور اس کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر اس کی عورت کو وہ عذاب میں مبتلا کی جانے والی ہے۔
يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ‎‏ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ(سورة الھود:75،74)
آپ ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں بیشک ابراہیم علیہ السلام تو بڑے بردبار گریہ وز اری کرنے والے اور رجوع لانے والے تھے۔
پھر فرشتوں نے کہا:
يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَاۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ(سورة الھود:76)
اے ابراہیم آپ ان کے چکر میں نہ پڑیئے تو تمہارے رب کا حکم ہے اور یہ عذاب ان پرآ کرہی رہے گا واپس نہیں ہوگا۔
الغرض الله تبارک وتعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کوان کی طرف بھیجا انہوں نے شہر اور اس میں رکھی ہوئی چیزوں کو اپنے ایک پر سے اٹھالیا اور زمین کو پلٹ دیا اور اس کے فورا بعد پتھر برسائے گئے۔
حضرت لوط علیہ السلام کی پوری قوم کی بلاکت وبربادی کا بیان
محمد بن حسین نے فرمایا: ان روایات میں غور و خوض کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی ساری قوم بدفعلی کی بنیاد پر ہلاک ہوئی، ان میں سے کچھ لوگ شادی شدہ اور کچھ غیر شادہ شدہ تھے، اور وہ عورتیں بھی ہلاک کی گئیں جو مردوں کی بد فعلی سے خوش تھیں جتنا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے فسق کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ الله تعالی نے اسے اس وجہ سے ہلاک کیا کہ اس نے لوگوں تک مہمانوں کی خبر پہنچائی تھی۔
حضرت لوط اور حضرت نوح علیہما السلام (اس کے ساتھ ان کی بیویوں کی خیانت کابیان
حديث نمبر (9)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن سعد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد گرامی نے حدیث بیان کی وہ حسین بن حسن بن عطیہ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں وہ عطیہ عوفی سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، حضرت ابن عباس نے الله تعالی کے اس فرمان ” ‌فَخَانَتَاهُمَا“ کی تفسیر میں فرمایا: حضرت نوح اور حضرت لوط عليہما السلام کی بیویوں کی دغابازی اور خیانت یہ تھی کہ وہ ان کے دین پر نہ تھیں: حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی ان کے راز پر مطلع ہوتی رہی جب حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ایک شخص خدا پر ایمان لایا تو ان کی بیوی نے ایک جابر وفاجر شخص کو اس کی خبر دی تھی یہ اس کی خیانت اور دغابازی تھی رہی حضرت لوط کی بیوی تو اس کی خیانت یہ تھی کہ اس نے لوگوں کی مہمانوں کے آنے کی خبر پہنچائی تھی۔ (التفسير الطبری:ص190، ج:14 )
تو اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:
فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا “ تو وہ اللہ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ آئے۔ (سورة التحریم: 10)
حدیث نمبر(10)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے عمر بن حسن بکاری نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابو مالک نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے ابوموسی نے حدیث بیان کی وہ ابو الیاس سے روایت کرتے ہیں وہ وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہب بن منبہ نے فرمایا:
جب فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس تشریف لائے تو آپ نے انہیں مہمان گمان کر کے مہمان نوازی کی، اچھی طرح انتظام فرمایا اور ضیافت میں دریا دلی دکھائی اور ان کی تعظیم وتوقیرکی لیکن آپ کی بیوی نے آپ کے خلاف سازش کے لیے آپ کی قوم کے فاسقوں کے پاس جا کر یہ خبر پہنچائی کہ حضرت لوط علیہ السلام نے ایسے لوگوں کی مہمان نوازی کی ہے جوخوب رو حسن و جمال کے پیکر، پاکیزہ اور خوشبو سے معطر ہیں، تو یہ اس کی خیانت تھی جس کو الله تعالی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا۔ (التفسير الطبری:ص190، ج:14 )
حدیث نمبر(11)
محمد بن حسین نےہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے علی بن خرم نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہمیں عیسی بن یونس نے خبر دی۔ ابن داؤد نے کہا: ہم سے ہارون بن اسحاق نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے حدیث بیان کی ۔ ابن ابوداؤد نے کہا: ہم سے احمد بن سفیان نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمن ابن مہدی نے حدیث بیان کی ، حضرت وکیع اور عبد الرحمان دونوں حضرت سفیان ثوری سے روایت کرتے ہیں وہ موسی بن ابو عائشہ سے روایت کرتے ہیں وہ سلیمان بن قتہ سے روایت کرتے ہیں سلیمان بن قتہ نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا جس وقت ان کے سامنے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی خیانت کا ذکر ہوا کہ آپ نے فرمایا:
قسم خدا کی ان دونوں نےکبھی بھی زنانہ کیا اور نہ ہی کسی نبی کی بیوی نے نبی کی نافرمانی کی ، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ حضرت نوح اور لوط علیہما السلام کی بیوی سے کون سی خیانت صادر ہوئی ؟ فرمایا: حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی آپ کو مجنون کہتی تھی اور رہی حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی تو اس نے مہمانوں کی خبر رسانی کی تھی ،یہ علی بن خشرم کے الفاظ ہیں۔(التفسير الطبری:ص190، ج:14 )
یہ باب ان سنن وآثارکے بیان میں ہے جن میں اس امت پر قوم لوط جیسا فعل کو حرام قراردیاگیاہے۔
حديث نمبر (12)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: میں ابو سلم ابراہیم بن عبد الله الکجی نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن داؤد الشاذکونی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبد الوارث نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے قاسم بن عبد الواحد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن محمد بن عقیل نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: | اپنی امت پر سب سے زیادہ جس چیز کا مجھے خوف ہے وہ قوم لوط کاعمل ہے (جامع الترمذی، ج:1 ص:179، باب ماجاء فی حد اللوطی، ابواب الحدود)
حديث نمبر (13)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبداللہ بن محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن خلاد ابوالخلا نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سےیعلی بن عباد بن یعلی ابومحمد کلابی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی، وہ قاسم بن عبد الواحد سے روایت کرتے ہیں وہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ وہ جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ۔
مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف قوم لوط کےعمل کا ہے۔(جامع الترمذی، ج:1 ص:179، باب ماجاء فی حد اللوطی، ابواب الحدود)
حديث نمبر(14)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن ابوحسان انماطی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن عمار دمشقی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز در اوردی نے حدیث بیان کی وہ عمرو بن ابوعمرو سے روایت کرتے ہیں وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
جس نے چوپائے کے ساتھ بدفعلی کی اور قوم لوط جیساعمل کیا اس پر الله تعالی کی لعنت
ہے۔( الجامع الترمذی، ج1: ص:176، باب ماجاء فیمن یقع عمل البھیمۃ)
حديث نمبر (15)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ہمارے چچا محمد بن اشعث نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سےقعنی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: کہ ہم سے عبد العزیز در اوردی نے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں عمرو بن ابوعمرو سے جو مطلب بن عبد اللہ بن حنطب مخزومی کے آزاد کردہ غلام ہیں وہ حضرت عکرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے فرمایا:
. اس شخص پر اللہ تعالی عزوجل کی لعنت ہو جو اپنے موالی کے علاوہ کسی اور کا ذمہ لے اور اس پر اللہ کی لعنت ہو جس نے زمین کی سرحدوں کو بدل دیا اور جس نے اندھےشخص کو راستے سے بھٹکا دیا اور جس نے اپنے والدین پرلعنت بھیجی اور جس نے قوم لوط جیسا عمل کیا اس پر الله تعالی کی لعنت ہو، جس نے قوم لوط جیساعمل کیا اس پر الله تعالی کی لعنت ہو، جس نے قوم لوط جیسا عمل کیا اس پر الله تعالی کی لعنت ہو، آپ نے اس کو تین مرتبہ فرمایا اور اس شخص پر الله تعالی کی لعنت ہو جس نے جانور کوغیر الله کے نام پرذبح کیا اور جس نے چوپائے کے ساتھ بدفعلی کی اس پر اللہ عزوجل کی لعنت ہو۔( معجم الکبیر للطبرانی ،ص:340، ج:5 ، حدیث: 1381، دارالکتب العلمیة بیروت)
یہ باب ان حدیثوں کے بیان میں ہے کہ ایک مرد دوسرے مرد کے پاس بدفعلی کے ارادے سے آئے تووہ زانی ہے اور مرد سے بدفعلی کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر (16)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے یحی بن نصیر اصبہانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ابو داؤد عباسی نے حدیث بیان کی وہ بشر بن فضل بجلی سے روایت کرتے ہیں وہ خالد حذاء سے روایت کرتے ہیں وہ انس بن سیرین سے روایت کرتے ہیں وہ ابویحی معرقب سے روایت کرتے ہیں وہ ابوموی اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب ایک مرد دوسرے مرد کے پاس بدفعلی کے ارادہ سے آۓ تو دونوں زانی ہیں۔( سنن بیہقی ص: 233، ج:8، باب ماجاء فی حد اللوطی ، دار الفکر)
حديث نمبر (17)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابو عبد الله محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ابولحسن علی بن حسین بن ابراہیم نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابو بدر شجاع بن ولید نے حدیث بیان کی وہ عمر بن عبد الرحمن قریشی سے روایت کرتے ہیں وہ خالد حذاء سے روایت کرتے ہیں وہ ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں وہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب ایک مرد دوسرے مرد کے پاس بدفعلی کے ارادے سے آئے تو وہ دونوں زانی
ہیں۔ ۔( سنن بیہقی ص: 233، ج:8، باب ماجاء فی حد اللوطی ، دار الفکر)
شرمگاہ کی طرف دیکھنا ممنوع ہے
حدیث نمبر(18):
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہمیں ابوعبدالحسین بن عفیر انصاری نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوہمام ولید بن شجاع نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے زید بن حباب نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا مجھ سے ضحاک بن عثمان نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا مجھ سے زید بن اسلم نے حدیث بیان کی وہ عبدالرحمن بن ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد گرامی ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺنے فرمایا:
مرد، دوسرے مردکی ستر کی جگہ (شرم گاہ) نہ دیکھے اور نہ ایک مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ سوئے۔ (مسلم ص: 154، ج:1، باب تحریم النظر الى العورات)
دومردوں کا پردہ حائل کیے بغیرسونا ممنوع ہے
حديث نمبر (19)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوحفص عمر بن ایوب سقطی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے عبید اللہ بن عمر قواریری نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے یوسف بن خالد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے جعفر بن سعد نے حدیث بیان کی وہ حبیب بن سلیمان بن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے داداسمرہ بن جندب ان سے روایت کرتے ہیں کہ:
رسول اللہ ﷺ نے دو مردوں کو ایک کپڑے میں سونے سے منع فرمایا۔ (معجم الکبیر للطبرانی،ص:149، ج:2، حدیث :9899، دار الکتب العلمیة، بیروت)
حديث نمبر (20)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوسعید حسن بن علی جصاص نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ربیع بن سلیمان نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا ہم سے اسد بن موسی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ابومعاویہ نے حدیث بیان کی وہ ابواسحاق شیبانی سے روایت کرتے ہیں وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منع فرمایا:
ایک مرددوسرے مرد کے ساتھ اور ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ استمتاع (لذت حاصل کرنا) کرے۔( معجم الکبیر للطبرانی،:ص372، ج:5 ، حدیث :11563دار الکتب العلمیة، بیروت)
حديث نمبر (21)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبداللہ بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے احمد بن منصور مادی نے حدیث بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے احمد بن عبد اللہ بن یونس نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے حدیث بیان کی وہ ہشام بن حسان سے روایت کرتے ہیں وہ ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں وہ حضرت ابو ہر یره رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
عورت، عورت سے، اور ایک مرددوسرے مرد سے استمتاع نہ کرے۔((صحیح البخاری ص:788،ج:1، کتاب النکاح)
محمد بن حسین نے فرمایا: جب حضور ﷺ نے ایک مرد کو دوسرے مرد سے استمتاع کرنے کو منع فرمادیا اور یہ بھی منع فرما دیا کہ ایک مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ دیکھے تو تمہارا قوم لوط کے عمل کے تعلق سے کیا خیال ہے؟ (یعنی قوم لوط کاعمل تو اور بھی شنیع ہے!)
عورتوں کا آپس میں شرم گاہ رگڑنازناکے درجہ میں ہے
محمد بن حسین نے فرمایا: نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ عورتوں کا اپنی شرم گاہ کوبعض عورتوں کی شرم گاہ سے رگڑنا زنا ہے اور یہ ثابت ہے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے ایک عورتوں کو سو سو کوڑے لگائے ہیں۔
حديث نمبر (23)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی انہوں نے کہا ہم سے ابو عبد الله احمد بن حسن بن عبدالجبار صوفی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے عمار بن نصر خراسانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہمیں عثمان بن عبدالرحمن حرانی نے خبر دی وہ عقبہ بن عبد الرحمن قریشی سے روایت کرتے ہیں وہ علاء سے روایت کرتے ہیں وہ مکحول سے روایت کرتے ہیں وہ واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کا آپس میں شرم گاہ کارگڑ نازنا ہے۔( المعجم الكبير للطبرانی ،ص:170،ج:9،حدیث:17619، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
حديث نمبر (23)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی انہوں نے کہا ہم سے ابوالقاسم بن محمد بن عبدالعزیز بغوی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ابوابرا ہیم اسماعیل بن ابراہیم ترجمان نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ایوب بن مدرک نے حدیث بیان کی وہ مکحول سے روایت کرتے ہیں وہ واثلہ بن اسقع اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان دونوں سے روایت کرتے ہیں، ان دونوں نے کہا حضور ﷺ نے فرمایا:
دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مردمرد سے بدفعلی کریں گے اور عورتیں عورتوں سے بدفعلی کریں گی اور عورتوں کا آپس میں شرم گاہ رگڑ نازنا ہے (تاریخ ابن عساکر، ج:9 ص :30)
حديث نمبر (24)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی انہوں نے کہا ہم سے ابو عبد الله محمد بن مخلد عطار نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے اسحاق بن یعقوب عطار نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ولید بن شجاع نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا مجھ سے سعید بن ابوسعید زبیدی نے حدیث بیان کی وہ سلیمان بن بلال سے روایت کرتے ہیں وہ جعفر بن محمد سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس دو ایسی عورتوں کو لایا گیا جو آپس میں شرم گاہ رگڑتی تھیں تو آپ نے دونوں کو سو سوکوڑے لگوائے۔ (تاریخ ابن عساکر، ج:9 ص :30)
یہ باب ہے لوطی کی سزا کے بیان میں اور وہ یہ بے کہ فاعل اورمفعول دونوں کوقتل کیاجائے۔
حديث نمبر(25)
ہمیں خبر دی محمد بن حسین نے ، انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا:ہارون بن سلیمان اور حسن بن محمد بن صباح دونوں نے کہا: ہم سے عبد الوہاب ابن عطا نے حدیث بیان کی وہ عباد بن منصور سے روایت کرتے ہیں وہ عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فاعل اور مفعول دونوں قتل کر دو۔ (مسند امام احمد بن حنبلی:ص300، ج:1، دار الفکر)
حديث نمبر (26)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوداؤدنے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن داؤد بن ناجیہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن وہب نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن بلال نے حدیث بیان کی وہ عمرو (مطلب کے آزاد کردہ غلام ) سے روایت کرتے ہیں وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کوقتل کر دو۔ (جامع الترمذی :ص176 ج:1، کتاب الحدود، باب ماجاء فی حد اللوطی)
حديث نمبر( 27)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں ابراہیم بن ہیثم ناقد نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن صباح نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے در اور دی نے حدیث بیان کی وہ عمرو بن ابوعمرو سے روایت کرتے ہیں وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس کو قوم لوط جیساعمل کرتے ہوئے پاو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔ (جامع الترمذی :ص176 ج:1، کتاب الحدود، باب ماجاء فی حد اللوطی)
حدیث نمبر(28)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں ابوبکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن زید نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے یعقوب بن محمد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبدالرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن حفص نے حدیث بیان کی وہ سہیل بن ابوصالح سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
جس کوم قوم لوط جیساعمل کرتے ہوئے پاؤ تو اس پر پتھراؤ کرو یا فرمایا: فاعل او رمفعول
دونوں کو قتل کر دو۔ (جامع الترمذی :ص176 ج:1، کتاب الحدود، باب ماجاء فی حد اللوطی)
کیا حضرت ابوبکرصدیق نے لوطی کوجلایاہے؟
حديث نمبر (29)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابو حسن بن علویہ قطان نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبید اللہ بن عمر قواریری نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبدالعزیز بن ابوحازم نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھ سے داؤد بن بکر نے حدیث بیان کی وہ محمد بن منکد ر سے روایت کرتے ہیں کہ خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف ایک خط لکھا جس میں لکھا تھا:
عرب کے بعض علاقے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مرد آپس میں بدفعلی کرتے ہیں جیسا کہ وہ عورتوں سے جماع کرتے ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ کوحل کرنے کے لیے صحابہ کرام کو جمع فرمایا، ان میں حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ نے بہت سختی سے فرمایا کہ یہ ایسا گناہ ہے جس کو صرف ایک امت نے کیا تھا، اور اس کے ساتھ الله تعالی نے کیا معاملہ کیاتم بخوبی جانتے ہو، میری رائے یہ ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف یہ خط لکھا کہ اسے جلا دیا جائے پھر ان لوگوں نے انہیں جلادیا اور ابن زبیر بن ہشام بن عبدالملک نے بھی ایسے لوگوں کو جلایا ۔ (سنن بیہقی، ج:2 ص:232، باب ماجاء فی حد اللوطی ، دار الفکر)
حدیث نمبر(30)
ہمیں خبر دی محمد بن حسین نے ، انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبدالله محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن اسحاق صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ہارون بن معروف نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے غسان بن مضرنے حدیث بیان کی وہ سعید بن یزید سے روایت کرتے ہیں وہ ابونضرہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے لوطی کی حد کے تعلق سے سوال ہوا آپ نے فرمایا:
گاؤں کے اندر بلند مکان دیکھا جائے پھر وہاں سے اسے اوندھا کر کے پھینکا جائے پھر
اس پر پتھر برسائے جائیں ۔(سنن بیہقی، ج:2 ص:232، باب ماجاء فی حد اللوطی ، دار الفکر)
حديث نمبر (31)
ہمیں خبر دی محمد بن حسین نے ، انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبد الله نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے علی بن سہیل بن مغیرہ بزار نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے یعقوب بن محمد بن عیسی بن عبد الملک بن حميد بن عبد الرحمن بن عوف زہری نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عمر بن حفص نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے سہیل بن ابوصالح نے حدیث بیان کی وہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں وہ حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس کو قوم لوط جیساعمل کرتے ہوئے پاؤ اسے سنگسار کرودیا فرمایا: اوپر والے اور نیچے
والے کوقتل کر دو۔ (کنز العمال ص:188، ج:5، کتاب الحدود، النوع الخامس، في حد الواطۃ مجلس دائرة المعارف)
یہ باب ان حضرات کے بیان میں جنہوں نے کہا کہ لوطی کوسنگسار کیاجائے۔
حديث نمبر (32)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابوجعفر بن یحی طولانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے یحی بن عبد الحمیدحمانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے شریک نے حدیث بیان کی وہ قاسم بن ولید بدانی سے روایت کرتے ہیں وہ ہمدان کے شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے لوطی کو سنگسار کیا۔ (سنن بیہقی، ج:2 ص:232، باب ماجاء فی حد اللوطی ، دار الفکر)
حديث نمبر (33)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابوعبداللہ بن عمر بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن اسحاق صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوبکر بن ابوشیبہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سےو کیع نے حدیث بیان کی وہ ابن ابویعلی سے روایت کرتے ہیں وہ قاسم بن ولید سے روایت کرتے ہیں وہ یزید بن قیس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوطی کو سنگسار کیا۔ ( سنن بیہقی ،ج:8 ص:433، باب ما جاء في حد اللوطی ، دار الفکر۔)
حديث نمبر(34)
محمد بن حسین نے ہمیں خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عباس بن محمد دوری نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے یزید بن ہارون نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہمیں یمان بن مغیرہ نے خبر دی وہ عطا بن ابورباح سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطا بن ابور باح نے فرمایا:
میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ان کی بارگاہ میں ایسے سات اشخاص کو لایا گیا جو لواطت میں ملوث تھے ان میں چار شادی شدہ اور تین شخص غیرشادی شدہ تھے تو ابن زبیرنے چار شادی شدہ کے متعلق حکم دیا کہ انہیں مسجد حرام سے باہرکر کے پتھر برساؤ ، اور تین غیر شادی شدہ کےمتعلق حکم دیا کہ انہیں حد لگائی جائے اور اس وقت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عباس رضی اللہ عنہما مسجد میں موجود تھے۔ ( سنن بیہقی ،ج:8 ص:433، باب ما جاء في حد اللوطی ، دار الفکر۔)
لوطی کے متعلق اقوال تابعين
حديث نمبر (35)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابو بکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن وہب نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے یزید بن ہارون نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے خبر دی وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں وہ خلاس سے روایت کرتے ہیں وہ عبید اللہ بن معمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: لوطی کوقتل کیا جائے گا۔
حديث نمبر (36)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابو بکر بن ابوداؤد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن زیاد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حجاج بن محمد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی وہ حمادبن ابوسلیمان سے روایت کرتے ہیں وہ ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ:
حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر کسی شخص کے لیے دو مرتبہ رجم کیا جانا ضروری ہے تو ضرور لوطی کو دو مرتبہ رجم کیا جائے۔ (تفسیر الطبری،ص:190، ج: 14)
حديث نمبر (37)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوخلادسلیمان بن خلاد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے علی بن عباد کلانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی وہ حماد سے روایت کرتے ہیں وہ ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا:
اگرکسی کے لیے دو مرتبہ رجم کیا جانا ضروری ہوتو ضرور لوطی کو دو مرتبہ ر جم کیا جائے۔ (تاریخ ابن عساکر، ج:6ص:376۔)
حدیث نمبر(38)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عباس بند دوری نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حبان بن موی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: میں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہوں نے کہا ہمیں سفیان نے خبر دی وہ حماد سے روایت کرتے ہیں وہ ابراہیم سے روایت کرتے ہیں وہ ابن ابو بجیح سے روایت کرتے ہیں وہ عطا سے روایت کرتے ہیں وہ خالد حذاء سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے لوطی کی حد کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا: اس کے لیے زانی کی حد ہے۔( سنن بیہقی، ج:1ص:233، باب ما جاء في حد اللوطی، دارالفکر۔)
حديث نمبر (39)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن اسحاق صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن عیسی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں وہ جابر بن زید سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا:
جو قوم لوط جیسا عمل کرے گا اسے سنگسار کیا جائے گا۔
حديث نمبر(40)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن ایوب مخرمی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے روح بن عبادہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابن جریح نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: میں نے عطا سے کہا:
اس مرد پر کیا ہے جس نے کسی مرد کے ساتھ بدفعلی کی ہے؟ فرمایا: اگر وہ شادی شدہ ہے تو سنگسار کیا جائے اور غیر شادی شدہ ہے تو کوڑے لگائے جائیں اور شہر بدر کیا جائے۔( مصنف عبدالرزاق ص: 363، ج:7، باب من عمل عمل قول لوط ، مكتبة الاسلای، بیروت)
محمد بن حسین نے فرمایا ابن زبیر اور عطا کی حدیث کے مطابق لوطی اگر شادی شدہ ہے تو اس کی سزاسنگسار ہے، اگر غیر شادی شدہ ہے تو اس کے لیے کوڑے اور شہر بدر کرنا ہے اور حضرت علی، جابر بن یزید جسن، ابراہیم کے اقوال کے مطابق لوطی کورجم کیا جائے گا خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اسی مذہب کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے جس کو ہم ان شاء الله تعالی ابھی ذکر کریں گے۔
یہ باب ان حضرات کے بارے میں ہے جنہوں نے کہا:لوطی خواه شادی شدہ بویاغیرشادی شدہ رجم کیاجائےگا۔
حديث نمبر (41)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابوحفص عمر بن ایوب سقطی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم قطیعی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے صا لح بن کیسان نے حدیث بیان کی وہ زہری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری نے لوطی کے بارے میں فرمایا:
خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ گز شتہ طریقہ کے مطابق رجم کیا جائے گا۔
حديث نمبر(42)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہم سے ابو عبد الله محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن اسحاق ابو بکر صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: میں اسحاق بن عیسی نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے ابراہیم بن سعد نے حدیث بیان کی وہ صالح بن کیسان سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: میں نے ابن شہاب سے کہتے ہوئے سنا:
لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ گزشت طریقہ کے مطابق رجم کیا جائے۔
حديث نمبر (43)
میں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حماد بن مومل کلبی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن وہب واسطی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عثمان بن نصر نے حدیث بیان کی وہ ابن مبارک سے روایت کرتے ہیں وہ اسماعیل بن ابوخالد سے روایت کرتے ہیں وہ قیس بن ابوحازم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے قوم لوط جیسا عمل کیا اسے قتل کر دو۔ (کنز العمال ص:188، ج:5، کتاب الحدود )
حديث نمبر(44)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن اسحاق صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے روح بن عبادہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابن جریج نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: میں عبد اللہ بن عثمان بن میثم نے خبر دی وہ سعید بن جبیر اور مجاہد دونوں سے روایت کرتے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ:
حضرت ابن عباس سے سوال ہوا کہ اگر شادی شدہ لواطت میں پایا گیا تو اس کا کیا حکم ہے فرمایا: رجم کیا جائے گا۔ (سنن ابی داؤد، ص: 1913، ج:2، باب فیمن عمل عمل قوم لوط)
حديث نمبر(45)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابو بکر صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبد اللہ بن بکرنے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے سعید نے حدیث بیان کی وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں وہ جابر بن زید سے کہ حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے اس مرد کے متعلق سوال ہوا جو کسی مرد کے پیچھے کے مقام میں آئے فرمایا:
مرد کا پیچھے کا مقام عورت کی آگے کی شرم گاہ کی بنسبت زیادہ حرام ہے۔ لہذا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ دونوں کو سنگسار کیا جائے۔ ( سنن بیہقی: 233،ج:8، کتاب الحدود، دار الفکر۔)
حدیث نمبر (46)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عمرو بن ربیع بن طارق ہلالی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے یحی بن ایوب نے حدیث بیان کی وہ ابن جریج سے روایت کرتے ہیں وہ عطا اور ابن المسيب دونوں سے روایت کرتے ہیں کہ ان دونوں نے فرمایا: فاعل اور مفعول زنا کے درجہ میں ہیں لہذا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کو سنگسارکیا جائے گا۔ (السنن بیہقی ص: 233،ج:8، کتاب الحدود، دار الفکر)
حديث نمبر (47)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبید اللہ بن موسی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے اسرائیل نے حدیث بیان کی وہ جابر سے روایت کرتے ہیں وہ عامر شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر شبعی نے فرمایا: لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ دونوں کوقتل کیا جائے گا۔
حديث نمبر (48)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے صاغانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابو الأسود مصری نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابن لہیعہ نے حدیث بیان کی وہ اس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت یونس نے ابن شاب اور ربیعہ بن ابوعبدالرحمن دونوں سے لوطی کے بارے میں پوچھا تو دونوں نے فرمایا: اس کی سزاسنگساری ہے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔
حديث نمبر (49)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوجعفر احمد بن منصور( بنی ہاشم کے آزاد کردہ غلام) نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن اسحاق المسیبی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبد الله بن نافع نے حدیث بیان کی وہ مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن شاهب، ربیعہ اور ابن ہرمز کا مذہب یہی تھا کہ جو قوم لوط جیسا عمل کرے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ سنگسار کیا جائے گا۔ (تاریخ ابن عساکر، ج:5 ص:145)
حدیث نمبر(50)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابوخلادسلیمان بن خلاد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے یونس بن محمد مودب نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے ابراہیم بن سعد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے صالح بن کیسان نے حدیث بیان کی وہ زہری سے روایت کرتے ہیں وہ سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: میرے نزدیک لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اسے گزشتہ طریقہ پر رجم کیا جائے گا۔
حضرت امام زہری اورابن مسیب کے قول کی توضيح
محمد بن حسین نے فرمایا: حضرت امام زہری اور حضرت سعید بن مسیب کا یہ کہنا کہ لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ گز شتہ طریقہ پرسنگسار کیا جائے گا، یہ اس وجہ سے تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو حضور ﷺنے اس کومطلق رکھا محصن اور غیرمحصن کی قید نہ لگائی تو ظاہریہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ لینے کے بعد اسے آگ میں جلا دیا اور حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے اسی کا مشورہ دیا (یعنی آگ میں جلانے کا) اورمحصن وغيرمحصن کا ذکر نہ کیا، کیونکہ حضرت علی نے لوطی کو سنگسار فرمایامحصن اور غیرمحصن کی قید نہ لگائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ سنگسار کیا جائے گا،
حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: جو قوم لوط جیسا عمل کرے اسے قتل کر دو۔
یہ ساری روایتیں حضرت امام زہری کے قول کے مطابق ہیں کہ اسے گزشتہ طریقہ پر رجم کیا جائے، اور بہت سے فقہا حتی کہ امام مالک بن انس، امام احمد بن حنبل کا یہی مذہب ہے یعنی لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ دونوں کو سنگسار کیا جائے۔
یہ باب ان کے رد میں ہے جنھوں نے محصن اورغیرمحصن میں فرق کیا ہے۔
حديث نمبر(51)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن منصور کوسج نے حدیث
بیان کی انہوں نے کہا: میں نے احمد بن حنبل سے کہا: لوطی خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ دونوں کو سنگسار کیا جائے گا؟ فرمایا ہاں! دونوں کو سنگسار کیا جائے گا۔
حضرت اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں جو قوم لوط جیساعمل کرے سنت جاریہ یہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، کیوں کہ حضور ﷺنے فرمایا جوقوم لوط جیساعمل کرے اسے قتل کر دو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے روایت کیا ہے۔( کنز العمال ص:188، ج:5، کتاب الحد و دمجلس دائرة المعارف)
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوطی خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ سنگسار کیا جائے گا، اور اللہ تعالی نے قوم لوط کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے لوطی کو آگ میں جلادیا۔( سنن بیہقی ص:234، ج:8، باب ما جاء في حد اللوطی ، دار الفکر۔)
حديث نمبر (52)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبداللہ محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے احمد بن علی بن مسلم خراسانی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہمیں ابویحی بلخی عیسی بن احمد نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے عبد الله بن وہب نے حدیث بیان کی وہ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن شہاب سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جو قوم لوط جیسا عمل کرتا ہے، فرمایا:
اسے سنگسار کیا جائے گا خواہ وہ شادی شدہ ہو یا نہ ہو۔ (سنن بیہقی ص:232، ج:8، باب ماجاء فی حد اللوطی ، دار الفکر۔ )
ابن وہب نے کہا کہ حضرت مالک بن انس نے فرمایا:
جب فاعل اور مفعول پر چار لوگ گواہی پیش کردیں تو ان دونوں کو سنگسار کیا جائے گا، خواہ دونوں شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں اور سنگساری کاحکم اس وقت تک نافذ نہ ہوگا جب تک کہ گواہ انہیں اس طرح نہ دیکھ لیں جس طرح سرمہ کی سلائی سرمہ دانی میں دیکھی جاتی ہے اور جب تک دونوں بالغ نہ ہوں۔
محمد بن حسین نے فرمایا: اگر کہنے والا کہے کہ ہر وہ شخص جو بدفعلی کے ارادے سے کسی لڑکے یا مرد کے پاس آئے تو وہ لوطی ہے اور اس پرسنگساری واجب ہے تو میں کہوں گا کہ وہ شخص جس پرسنگساری واجب ہوتی ہے وہ ہے جو پیچھے کے مقام میں بدفعلی کے ارادے سے آئے تو ایسے کولوطی کہا جائے گا، پس اگروہ پیچھے کے مقام کے علاوہ چیزوں میں آتا ہے تو ایساشخص فاسق ہے۔ امام پر واجب ہے کہ ایسے شخص کو سخت عذاب اور سزا دے ، یہ حکم اس وقت ہے جب دونوں بالغ ہوں، مگر دونوں میں سے ایک بالغ ہے اور دوسرا نابالغ تو بالغ کوسخت مار لگائی جائے اور ایسے شخص کی اقتدا میں نماز نہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اس کی شہادت مقبول ہوگی نہ ہی اس کے پاس امانت رکھی جائے گی اور نہ اس کی ہم نشینی اختیار کی جائے اور نہ ہی سلام کیا جائے یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے اور اگر دوسرانا سمجھ بچہ ہے تو ایسے فعل سے روکا جائے اور ڈانٹتا دھمکا تار ہے اور کہا جائے کہ یہ فعل حرام و ناجائز ہے، اور اگر وہ جوانی کے قریب پہنچنے والا ہے تو امام اس پر تادیبی کاروائی کرے ، اور بڑے عذاب کا ڈر سنائے،
اگر وہ اس حالت کی طرف دوبارہ پلٹ آئے اسے ان فاسقوں کی صحبت سے منع کرے جو لڑکوں کے استحصال کی خواہش رکھتے ہیں اور امام پر واجب ہے کہ بچوں کو فاسقوں کا لباس اپنانے سے روکے، اور کچھ ایسے فاسق کی صحبت اختیار نہ کریں جس کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ بچوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔
اسی طرح والدین پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کو فاسقوں کا طرز اپنانے سے اور ان کی صحبت سے بھی روکیں، اسی طرح ضروری ہے کہ مرد کو بے ریش بچے کے پاس بیٹھنے نہ دیا جائے دین کا خوف کرتے ہوئے اور عنقریب میں کتاب “غض الطرف“ میں باب من کرہ النظر إلى الغلام الامردومن کره مجالسته بیان کروں گا۔ ان شاء الله تعالی۔
سات ایسے لوگ ہیں جن کی طرف الله تعالى نظرکرم نہیں فرمائے گا
حديث نمبر (53)
ہمیں خبر دی محمد بن حسین نے ، انہوں نے کہا: ہم سے فریابی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے قتیبہ بن سعید نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے عبد اللہ بن لہیعہ نے حدیث بیان کی وہ عبد الرحمن بن زیاد بن انعم سے روایت کرتے ہیں وہ ابوعبد الرحمن حبلی سے روایت کرتے ہیں وہ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سات شخص ایسے ہیں جن کی طرف الله تعالی قیامت کے روز نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ ہی انہیں ستھرا اور پاک فرمائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔
(1) – فاعل اور مفعول( لواطت /ز نامیں) (2) مشت زنی کرنے والا۔ (3) چو پائے کے ساتھ بدفعلی کرنے والا۔ (4) عورتوں کے پیچھے کے مقام میں مجامعت کرنے والا۔(5) عورت اور اس کی بیٹی کو نکاح میں جمع کرنے والا۔ (6) اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا۔ (7) اپنے پڑوسی کو ایذا دینے والا حتی کہ اللہ تعالی اس پرلعنت بھیجے گا۔ ( شعب الایمان تحریم الفروج ومایجب من التعفف عنھا ، ج:7 ص:329، الررشد ریاض۔)
حدیث نمبر(54)
ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم سے ابوعبدالله محمد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہم سے حسن بن عرفہ نے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا: مجھ سے علی بن ثابت جزری نے حدیث بیان کی وہ سلمہ بن جعفر سے روایت کرتے ہیں وہ حسان بن حمید سے روایت کرتے ہیں وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ان سات لوگوں کی طرف اللہ تعالی قیامت کے روز نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ ہی انہیں ستھرا فرمائے گا، اور نہ ہی انہیں دنیا والوں کے ساتھ جمع فرمائے گا اور انہیں جہنم میں سب سے پہلے داخل فرمائے گا۔ مگر یہ کہ وہ توبہ کرلیں مگر یہ کہ وہ توبہ کرلیں مگر یہ کہ وہ توبہ کر لیں تو جس نے توبہ کرلی، الله تعالی اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔
(1) مشت زنی کرنے والا۔ (2) فاعل (لواطت/زنا میں )۔ (3) مفعول( لواطت ز نامیں )۔ (4) شراب پینے والا۔ (5) اپنے والدین کو مارنے والا یہاں تک کہ وہ فریاد کر یں۔ (6) اپنے پڑوسی کو تکلیف دینے والا یہاں تک کہ لعنت بھیجیں۔ (7) اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا ۔( شعب الایمان تحریم الفروج ومایجب من التعفف عنھا ، ج:7 ص:329، الرشد ریاض۔)
خاتمہ:
محمد بن حسین نے فرمایا: میں نے اس کتاب میں مسلمانوں کو بھر پورنصیحت کی ہے تو جس نے میری اس نصیحت کو قبول کیا اس نے اپنا حصہ ( آخرت میں پالیا، اور جس نے انکار کیا اس نے اپنا حصہ کھو دیا۔ اور حقیقی ڈر سنانے والا اللہ عزوجل ہی ہے۔ اخیر میں ساری تعریفیں ثابت ہیں اس اللہ کے لیے جو سارے جہان کا رب ہے اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ﷺ اور ان کی آل پر درود وسلام نازل فرمائے، اور الله عز وجل ہمارے لیے کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں