مولانا احمد برکی مرحوم کی ماتم پرسی میں اوریاروں کو نصیحت کرنے اور مولانا حسن کو ان کا سرحلقہ بنانے کے بیان میں بعض دوستوں کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
حمد وصلوة اورتبلیغ ودعوات کے بعد عرض کرتا ہے اور مغفرت پناه مولانا احمد علیہ الرحمتہ کی ماتم پرسی بجالاتا ہے۔ مولانا کا وجود شریف اس وقت کے مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت اور اس کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھا۔ اللَّهُمَّ لَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ، وَلَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ (يااللہ تو اس کے اجر سے ہم کو محروم نہ کر اور اس کے بعد ہم کوفتنے میں نہ ڈال)
اس کے بعد دوستوں اوریاروں سے التجا ہے کہ گزشتہ لوگوں کی امداد و اعانت کریں اور مولانا مرحوم کے فرزندوں اور متعلقین کی خدمت اور دلجوئی محبوں اور مخلصوں پر لازم ہے۔
خاص کر اس امر میں بہت کوشش کریں کہ مولانا مرحوم کے فرزندوں کو پڑھائیں اور علوم شرعیہ سے آراستہ کریں اور مولانامرحوم کے احسان کا بدلہ ان کے بیٹوں پر احسان کر کے ادا کریں۔ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔)
مولانا مرحوم کے اوضاع و اطوار اور احوال و مقامات کو مدنظر رکھیں اور طریقہ ذکر اور حلقہ مشغول میں کسی قسم کا قصور واقع نہ ہو اور سب یارجمع ہوکر بیٹھیں اور ایک دوسرے میں فانی ہوں تا کہ صحبت کا اثر ظاہر نہ ہو۔
اس فقیر نے اس سے پہلے اتفاق کے طور پرلکھا تھا کہ اگر مولانا(احمد برکی) سفر اختیار کریں تو ان کو چاہیئے کہ شیخ حسن کو اپنی جگہ پر مقرر کریں شاید یہی سفرمراد ہوگا۔ اب بھی جو بار بار ملاحظہ کرتا ہوں توشیخ حسن کو اس امر پرمتعین اور مقرر پاتا ہوں۔ یہ بات کسی کو ناگوار معلوم نہ ہو کیونکہ ہمارا اور تمہارا اختیار نہیں۔ بہرصورت انقیاد(اطاعت) اور فرمانبرداری لازم ہے۔ احسن کا طریق مولانا کے طریق کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور مولانا نے آخر میں جو نسبت اس طرف سے حاصل کی تھی، شیخ حسن سے نسبت میں شریک ہے اور دوسرے یار اس مطلب سے بے بہرہ ہیں۔ اگر چہ کشف و شہودحاصل کر لیں اور توحید واتحاد سے متحد ہوجائیں لیکن یہ دولت اور ہے اور یہ کاروبار الگ ہے۔ کشوف کویہاں جو کے برابربھی نہیں لیتے اور اس توحید و اتحاد سے پناہ مانگتے ہیں۔
غرض یاروں کو لازم ہے کہ شیخ حسن کی تقدیم(قائم مقام بنانے) میں توقف نہ کریں اور اس کو سرحلقہ بنا کر اپنے کام میں مشغول ہو جائیں۔ برادرم خواجہ اویس یہ بات یاروں کو سمجھا کر حلقہ مشغول کی طرف رہنمائی کرے اور برادری کےحقوق بجا لائے اور فقہ کی کتابوں کا مطالعہ نہ چھوڑے۔ احکام شریعت کو پھیلانے اور سنت سنیہ کی متابعت کی ترغیب دے اور بدعت سے ڈرائے اورہٹائے اور ہمیشہ التجا وتضرع و زاری کرتا رہے ایسا نہ ہو کرنفس اماره دوستوں پر پیشوائی اور ریاست حاصل ہونے کے باعث ہلاکت میں ڈال دے اور خراب و ابتر کر دے۔ ہر وقت اپنے آپ کو قاصر وناقص جان کر کمال کا طالب رہے۔ نفس و شیطان دو بڑے زبردست دشمن گھات میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ راستہ سے بہکا دیں اور محروم ونا امید کر دیں۔ بیت
ہمہ اندرز من بتو این است که تو طفلی و خانه نشین است
ترجمہ نصیحت میری تجھ سے ہے بس یہی کہ رنگین ہے گھر تو ابھی طفلی
ہندوستان تم سے دور ہے دو سال میں ایک قافلہ آتا ہے اور خبر لاتا ہے اور لے جاتا ہے۔ احوال کو لکھتے رہا کرو۔ اگر تم نہیں پہنچ سکتے تو حال لکھنے میں غفلت نہ کرنی چاہیئے۔ میاں شیخ یوسف ہمارے نزدیک ہے۔ مدت تک یہاں رہا اور اس نے بہت سے فائدے حاصل کیے اور حقیقت فنا پر اطلاع پالی۔ اب واپس آنے کا وعدہ کر کے گھر کو گیا ہے۔ مستعد اور صادق الاخلاص آدمی
ہے۔ والله سبحانه الموفق (اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے) چونکہ تم دور ہوں اس لیے نصیحت میں مبالغہ کیا جاتا ہے اور ریاست کو اپنی بلاء جان کر ڈرتے اور کا نپتے رہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس ریاست میں لذت پیدا ہو جائے اور ہلاکت ابدی اور دائمی موت تک لے جائے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (اللہ تو ہمارے گناہوں اور فضول کارگزاریوں کو معاف کر اور ہم کو ثابت قدم رکھا اور کافروں پر ہم کو غلبہ ہے۔ تیرا رب پاک ہے اس وصف سے جولوگ کرتے ہیں۔ برتر ہے اور مرسلوں پر سلام ہو اور اللہ رب العالمین کے لیے حمدہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ222ناشر ادارہ مجددیہ کراچی