یاد رکھیئے مذکوره مراتب سچی توبہ اور تلقین مرشد کے بغیر ہاتھ نہیں آتے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى (الفتح:26)اور انہیں استقامت بخش دی تقوی کے کلمہ پر۔
اس سے مراد یہ ہے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کسی ایسے مرشد کامل سےلے جس کا دل پاک و صاف ہو اور اس دل میں اللہ کے سواء کسی اور کابسیرا نہ ہو۔ اس سے مراد وہ کلمہ نہیں جو عوام الناس کی زبان پر جاری ہو تا ہے۔ اگر چہ عوام اور خواص کے کلمے کے الفاظ تو ایک جیسے ہیں لیکن ان کے معانی میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ دل توحید کا بیج جب کسی زندہ دل سے اخذ کر تا ہے تواس کا دل بھی زندہ ہو جاتا ہے اور ایسابیج کامل بيج بن جاتا ہے۔ ایک نامکمل بیج کبھی نہیں اگ سکتا۔ اس لیے کلمہ توحید کے بیج کا تذکرہ قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے۔
ایک تو ظاہر ی قول(زبان سے اقرار) کے ساتھ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (الصافات:35)جب انہیں کہا جاتا ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود اللہ کے سوا ۔ یہ کلمات عوام کے حق میں نازل ہوئے۔
اور دوسرے علم حقیقی (اللہ کی معرفت کا علم حاصل کرنےکے بعد توحید کا زقرارتصدیق بالقلب )کے ساتھ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے :
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (محمد:19) پس آپ جان لیں کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور دعامانگا کریں کہ اللہ آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے نیز مغفرت طلب کریں مومن مردوں اور عورتوں کیلئے۔
یہ آیت اپنے شان نزول کے سبب خواص کی تلقین کے لیے نازل کی گئی ہے۔
تلقین ذکر
بستان شریعت میں ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے بارگاہ نبوت میں قریب ترین، آسان اور افضل راستے کی تمنا ظاہر کی وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں نبی کریم ﷺنے وحی کا انتظار فرمایا حتی کہ جبرائیل امین حاضر ہوئے اور کلمہ طیبہ لا الہ الا للہ کی تین بار تلقین کی ۔ حضور ﷺنے اس کلمے کو دھرایا اور پھر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو اس کی تلقین فرمائی ، پھر آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لے گئے انہیں بھی تلقین کی اور فرمایا :
رَجَعْنَا مِنْ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے“
یہاں جہاد اکبر سے مراد نفس کے خلاف جہاد ہے۔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں فرمایا :
أَعْدَى أَعْدَائِك نَفْسُك الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيْك تیر اسب سے بڑا دشمن تیر اپنانفس ہے جو تیرے پہلو میں ہے“
تو اس وقت تک اللہ تعالی کی کامل محبت حاصل نہیں کر سکتا جب تک اپنے اندر نفس امارہ،( جو نفس بشری شہوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے) نفس لوامہ اور نفس ملہمہ(ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں) کو شکست فاش نہیں دے لیتا۔ نفس شکست کھا گیا توگویا تو اخلاق ذمیمہ سے پاک صاف ہو گیا۔ میری مراد اخلاق حیوانیہ مثلا کھانے پینے اور سونے میں زیادتی، لغو و بیہودہ گفتگو اخلاق شنیعہ مثلا غصہ ، گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا۔
اخلاق شیطانیہ مثل کبر و نخوت، حسد و کینہ وغیرہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اخلاق ذمیمہ ہیں۔ یہ تمام نفس سے تعلق رکھتے ہیں خواہ بدنی ہو یا قلبی ۔ جب انسان ان اخلاق ذمیمہ سے پاک ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ گناہوں سے واقعی پاک ہو چکا ہوتا ہے۔ اور اس کا شمارمتطہرین اورتوابین میں ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ .
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرہ:222)
بیشک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرارہنے والوں کو“
ظاہری گناہوں سے توبہ کرنے والے اس آیت کا مصداق نہیں ہیں۔ اگر چہ وہ تائب ہیں لیکن وہ توٗ اب نہیں ہیں۔ کیونکہ تواب مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس
سے مراد خواص کی توبہ ہے۔
ظاہری گناہوں سے توبہ کرنے والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جو گھاس کو کاٹ دیتا ہے جڑ سے اکھیٹر تا نہیں۔ ظاہر ہے یہ گھاس دوبارہ اگے گی اور پہلے سے زیادہ اگے گی۔
تواب کی مثال گھاس کو جڑ سے اکھیڑنے والے کی ہے۔ یہ گھاس دوباره نہیں اُگے گی اگر اُگ بھی آئی تو معمولی سی ہو گی جسے بہ آسانی اکھیٹرا جا سکتا ہے۔ تلقین ایک ایسا آلہ ہے جو مرید کے دل سے غیر اللہ کو کاٹ ڈالتا ہے کیونکہ کڑوا درخت کاٹ کر ہی اس کی جگہ میٹھے پھل کا درخت لگایا جا سکتا ہے۔ اس بات میں غور و فکر کرو اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (شوری:25)
اور وہی ہے جو توبہ قبول کر تا ہے اپنے بندوں کی اور درگزر کر تا ہے ان کی غلطیوں سے۔
ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان:70 )
وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کئے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا الله تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔
اقسام توبہ
توبہ کی دو قسمیں ہیں۔ توبہ عام اور توبہ خاص ۔
توبہ عام تویہ ہے کہ انسان گناہ کو چھوڑ کر اطاعت کی طرف آجائے۔ اخلاق ذمیمہ کو ترک کر کے اخلاق حمیدہ کو اپنائے۔ جہنم کی راہ سے ہٹ کر جنت کے راستے پر چل دے۔ آرام و آسائش کی عادت کو چھوڑ کر ذکر و فکر اور مجاہدہ و ریاضت(دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا) کے ذریعے نفس کو مطیع کرنے کی کو شش کرے۔ (یہ عوام الناس کی توبہ ہے)
توبہ خاص یہ ہے کہ انسان عوام کی توبہ کو حاصل کر لینے کے بعد حسنات سے معارف کی طرف، معارف سے درجات کی طرف ،درجات سے قربت (اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کی طرف، قربت و لذات نفسانیہ سے لذات روحانیہ کی طرف لوٹے۔ خواص کی توبہ گویا تر ک ماسوا اس سے انس اور اس کی طرف یقین کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔
یہ تمام چیزیں وجود کے کسب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور وجود کاکسب گناہ ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ وُجُودُكَ ذَنْبٌ لَا يُقَاسُ بِهِ ذَنْبُ تیر اوجود گناہ (حجاب)ہے اس(بشریت) سے بڑے گناہ کا قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا ۔( دیکھنے والوں کی نظر کے لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بشریت آپ ﷺ کی حقیقت کے لیے حجاب بن گئی دیکھنے والے اس بشریت کے پیچھے آپ کی حقیقت کو نہ دیکھ سکے جیساکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہےوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ اور آپ کو ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، حالانکہ وہ بصارت سے محروم ہیں) عرفاء کہتے ہیں کہ ابرار کی حسنات مقربین کی سیئات ہیں اور مقربین کی سیئات ابرار کی حسنات ہیں اسی لیے حضورﷺروزانہ سو بار استغفار کرتے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ .
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ (محمد: 19 )اور استغفار کیا کریں کہ اللہ تعالی آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے“
یہاں گناہ سے مراد وجود کا گناہ ہے۔ اسی کا نام انابت ہے کیونکہ انابت ماسوا اللہ کو چھوڑ کر اللہ کا ہو جانا آخرت میں قربت کے واسطے میں داخل ہو نا اور اللہ تعالی کی ذات گرامی کا دیدار حاصل کرنا ہے جیسا کہ حضور ﷺنے فرمایا:
إن لله عبادا أبدانهم في الدُّنْيَا وَقُلُوبُهُمْ تحت العرش اللہ تعالی کے ایسے بندے بھی ہیں جن کے بدن تو دنیا میں ہیں لیکن ان کے دل تحت العرش ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا دیدار اس دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ ہاں صفات خداوندی کے عکس کودل کے آئینے میں دیکھناممکن ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے۔
: ”میرے دل نے اپنے رب کا دیدار کیا یعنی میرے رب کے نور کے ساتھ ۔ پس دل جمال خداوندی کے عکس کو دیکھنے کا آئینہ ہے۔ یہ مشاہدہ مرشد کامل کی تلقین کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔ مگر ضروری ہے کہ شیخ واصل بحق ہو اور اس کا سلسلہ طریقت آخر تک متصل ہو۔ وہ حضورﷺکے واسطہ سے اور اللہ تعالی کے حکم سے ناقصوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا گیا ہو (صاحب خلافت ہو)
اولیاء خواص کے لیے بھیجے جاتے ہیں عوام کے لیے نہیں۔یہی فرق ہے ولی اورنبی میں نبی عام و خاص ہر ایک کے لیے مستقل بنفسہ مبعوث ہوتا ہے یعنی ولی مرشد صرف خواص کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ مستقل بنفسہ نہیں ہو تا۔ ولی کو ہر حال میں اپنے نبی کی اتباع کرنا ہوتی ہے۔ اگر وہ استقلال بنفسہ کا دعوی کرے تو کافر ہو جاتا ہے۔ حضور ﷺنے اپنی امت کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل جیسا فرمایا ہے۔ کیو نکہ انبیاءبنی اسرائیل حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کی شریعت کی اتباع کرتے تھے۔ یعنی ان کے علماء دین کی تجدید کرتے اور نئی شریعت لائے بغیر اسی شریعت کے احکام کی تاکید کرتے۔ اسی طرح اس امت کے علماء جنہیں منصب ولایت پر فائز کیا گیا ہے خواص کے لیے بھیجے گئے ہیں تاکہ وہ امر و نہی کی تجدید کریں۔ اور تاکید و تبلیغ، اصل شریعت کے تزکیہ کے ذریعے عمل میں استحکام پیدا کریں۔ تصفیہ اور تزکیہ سے مراد دل کی پاکیزگی ہے۔ دل معرفت کا محل ہے۔ یہ لوگ حضور (کے علم کے ذریعے خبر دیتے ہیں۔ جیسا کہ اصحاب صفہ(وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے اسلامی تعلیمات کا بہت سا حصہ انہیں کے ذریعے روایت ہوا) معراج سے پہلے اسرار معراج بتایا کرتے تھے۔ امت محمدیہ کا کامل ولی وہی ہے جس کو یہ نور عطا کیا گیا ہو۔ یہ نور نبوت کا ایک جزو ہے اور ولی اللہ کے دل میں اللہ تعالی کی امانت ۔ عالم وہ نہیں جس کے پاس صرف ظاہری علم ہو۔ اگر چہ ظاہر کی عالم بھی وراثت نبوت کا حقدار ہے یعنی اس کی حیثیت ذوی الارحام(بہن بھائی جن کی ماں مشترک باپ مختلف ہوصرف ظاہری علم کے وارث) کی سی ہے۔ کامل وارث وہ ہے جو بیٹے(ماں باپ ایک ہوںظاہری وباطنی علم کے وارث) کی جگہ ہو۔بچہ اپنے والد کا ظاہر و باطن میں راز ہو تا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا
إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ كَهَيْئَةِ الْمَكْنُونِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ، فَإِذَا نَطَقُوا بِهِ أَنْكَرَهُ أَهْلُ الْغِرَّةِ بِاللَّهِعلم ایک چھپی ہوئی چیز کی مانند ہے جسے صرف علماء باللہ ہی جانتے ہیں۔ جب وہ اس علم کو زبان پر لاتے ہیں تو غافل لوگوں کے سواء کوئی انکار نہیں کرتا ۔
یہی وہ راز ہے جو معراج کی رات اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺکے قلب اطہر میں ودیعت فرمایا تھا۔ علم کے جو تیس ہزار باطن ہیں۔ ان میں سے یہ آخری باطن ہے۔ نبی کریم نے اس راز سے اپنے مقربین صحابہ اور اپنے اصحاب صفہ (وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے اسلامی تعلیمات کا بہت سا حصہ انہیں کے ذریعے روایت ہوا) علیہم الرضوان کے علاوہ کسی عامی کو آگاہ نہیں فرمایا۔ اللہ تعالی ان مقربین بارگاہ کی برکتوں سے ہمیں مستفیض فرمائے اور ان کی نیکیوں اور احسانات کی بارش سےہمیں سیراب کرے۔ آمین یارب العالمین۔
علم باطن اسی راز کی طرف رہنمائی کر تا ہے۔ تمام علوم و معارف اسی راز کا چھلکا ہیں۔ جو علمائے ظاہر ہیں وہ بھی اس راز کے وارث ہیں۔ بعض کی حیثیت صاحب الفروض کیا ہے۔ بعض کی عصبات اور بعض کی ذوی الارحام کیا۔ یہ لوگ علم کے چھلکے کو دعوت الی سبیل اللہ کے ذریعے پھیلا رہے ہیں یہ مواعظ حسنہ سے کام لیتے ہیں یعنی مشائخ اہل سنت جن کا سلسلہ طریقت مولا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے وہ علم کے مغز کے وارث ہیں۔ انہیں باب مدينۃ العلم کی وساطت سے یہی علم ارزانی ہوا ہے یہ لوگ حکمت کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل:125)اے محبوب بلایئےلوگوں کو اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت سے اور عمدہ نصیحت سے اور ان سے بحث (ومناظرہ) اس انداز سے مجھے جو بڑا پسندیدہ اور شائستہ ہو“
علماء ظاہر اور علماء باطن کی گفتگو تو ایک جیسی ہوتی ہے یعنی فروعات میں فرق ہوتا ہے۔ یہ تینوں معانی حضورﷺمیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر کسی اور کو عطا نہیں کیے گئے۔ ان معانی کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1۔ پہلی قسم :۔ علم کا مغز ہے۔ یہ علم حال ہے۔ یہ علم صرف مردان با صفا کو عطا ہوتا ہے جن کی ہمت کی تعریف حضور ﷺنے فرمائی ہے۔
هِمَّةُ الرِّجالِ تَقْلَعُ الجِبالَ مردوں کی ہمت پہاڑوں کو اکھیڑپھینکتی ہے
یہاں پہاڑوں سے مراد قساوت قلبی ہے جو بندگان خدا کی دعا اور تضرع سے محو ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (البقرہ:269)
”اور جسے عطاکی گئی دانائی تو یقیناً اسے دے دی گئی بہت بھلائی
2۔ دوسری قسم :۔ اس مغز کا چھلکا ۔ یہ علماء ظاہر کا حصہ ہے اور اس سے مراد موعظت حسنہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔
الْعَالِمُ يَعِظُ بِالْعِلْمِ وَالْأَدَبِ وَالْجَاهِلُ يَعِظُ بِالضَّرْبِ وَالْغَضَبِعالم علم اور ادب کے ذریعے سمجھاتا ہے جبکہ جاہل مار پیٹ اور ناراضگی سے۔
3۔ تیسری قسم :۔ یہ چھلکے کا بھی چھلکا ہے۔ یہ حصہ امراء کو دیا جاتا ہے۔ وہ عدل ظاہر کی اور سیاست ہے جس کی طرف قرآن نے بایں الفاظ اشارہ کیا ہے۔
وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل:125) یہ لوگ اللہ تعالی کی صفت قہر کے مظاہر ہیں۔
یہ نظام دین کی حفاظت کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح کہ سفید چھلکا اخروٹ کی حفاظت کرتا ہے۔ ظاہری علماء کا مقام سرخ اور سخت چھلکے کی مانند ہے اور فقرائے صوفياء عار فین مغز ہیں جو درخت اگانے کا اصل مقصود ہو تا ہے۔ یہی لب لباب ہے۔ اسی لیے حضور ﷺنے ارشاد فرمایا :
يَا بُنَيَّ عَلَيْكَ بِمَجَالِسِ الْعُلَمَاءِ، وَاسْتَمِعْ كَلَامَ الْحُكَمَاءِ، فَإِنَّ اللهَ يُحْيِي الْقَلْبَ الْمَيِّتَ بِنُورِ الْحِكْمَةِ كَمَا يُحْيِي الْأَرْضَ الْمَيْتَةَ بِوَابِلِ الْمَطَرِعلماء کی مجلسوں میں بیٹھو اور علماء کا کلام سنو۔ کیونکہ اللہ تعالی نور حکمت سے مردہ دلوں کو زندگی بخشتا ہے جس طرح مردہ زمین کو بارش کے پانی سے زندہ کر دیتا ہے۔
ایک اور حدیث پاک میں ہے۔ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ كُلِّ حَكِيمٍ، وَإِذَا وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا”دانائی کی بات عقلمند آدمی کی گویاگمشدہ چیز ہے وہ اسے جہاں ملتی ہے حاصل کر لیتا ہے“
لوگوں کی زبانوں پر جاری کلمہ (لا الہ الا الله محمد رسول الله) لوح محفوظ سے نازل ہوا ہے۔ لوح محفوظ عالم الجبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) کے درجات سے ہے۔ اور جو کلمہ واصلین کی زبانوں پر جاری ہے وہ لوح اکبر سے بلا واسطہ زبان قدرت کے ذریعے قربت میں نازل ہوا ہے۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ اسی لیے اہل تلقین (مرشد کامل) کی تلاش فرض ہے جیسا کہ حضور ﷺنے فرمایا
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍعلم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے“
حدیث پاک میں علم سے مراد علم معرفت و قربت ہے۔ باقی علوم ظاہرہ کی ضرورت اتنی ہے کہ انسان فرائض کوبجالا سکے جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
حياةُ القلبِ علمٌ فادَّخرهُ وموت القلب جهلٌ فاجتَنِبْهُ
وخيرُ مراددِكَ التَّقوَى فَزِدْهُ كفاكَ بماوَعَظتُكَ فاتَّعِظْهُ
دل کی زندگی علم ہے۔ اسے ذخیرہ کرلے۔ اور دل کی موت جہالت ہے اس سے دامن بچالے۔
تیری بہترین مراد تقوی ہے اس میں اور اضافہ کر۔ میری یہ نصیحت تیرے لیے کافی ہے پس اسے پلےباندھ لے۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى (البقرہ: 197)
اور سفر کا توشہ تیار کرو اور سب سے بہتر توشہ تو پرہیز گاری ہے“
اللہ تعالی کی رضا اس میں ہے کہ بندہ قربت کی طرف سفر کرے اور
در جات (ثواب( کی طرف ملتفت نہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (الکہف :30) بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے“ اور فرمایا :
قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (الشوری:23) آپ فرمائیے میں نہیں مانگتا اس(دعوت حق پر) کوئی معاوضہ بجز قرابت کی محبت کے
ایک قول کے مطابق المودة فی القربی کا معنی عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) ہے۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ46 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور