توحید خاص از سید محمد حسینی گیسو دراز خواجہ بندہ نواز

توحید خاص

توحید برائے خواص

تصنیف
حضرت سید محمد حسینی خواجہ گیسو دراز بندہ نواز رحمه الله علیه
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ وَالصَّلٰوةُ عَلٰى رَسُولِهٖ مُحَمَّدٍ وَ آلِهٖ أَجْمَعِينَ
( سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
درود و سلام اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی سب آل پر ) اما بعد (خدائے تعالی کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثناء کے بعد ) رسالہ توحید خاص مقام اہل اختصاص (خصوصیت پائے ہوئے مرتبہ میں آئے ہوئے حضرات کے لئے لکھا جا رہا ہے۔ جو بھی تعریف ہو سکتی ہے یا کی جاسکتی ہے وہ اللہ ہی کے لئے ہے کہ اس کے سوا کوئی موجود یعنی ” ہے ہی نہیں ۔ درود و سلام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ آپ کے سوائے کوئی مقصود نہیں۔ تمہاری درخواست انتہائی عاجزانہ عرض جو اصرار کے ساتھ تھی پہنچی۔ اس کے جواب میں یہ چند باتیں توحید خاص کی لکھنے کے لئے جب قلم اٹھایا گیا تو تائید ربانی ( پروردگار کی مد د امداد ) سے یہ لکھنے میں آ گئے ۔ تاکہ تمہارے شک و شبہ کو جو یقین کے دامن پر بچے کھچے ہوں، تحقیق کے پانی سے دھل دھلا کر صاف کر دے۔ زمانہ و وقت سے جیسا بھی لکھایا جا رہا ہے لکھ رہا ہوں۔ انتہائی توجہ انصاف کو پیش نظر رکھتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے سنوإِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌاس میں نصیحت اس کے لئے ہے جس کے دل ہو )(سمجھ بوجھ ہو ) والمَوَفِقُ هُوَ الله توفیق دینے والا وہی اللہ ہے) عالم میں دو طرح کے موجودات پائے جاتے ہیں ایک کو عالم صورت دوسرے کو عالم معنی کہتے ہیں جس کو عالم صورت کہتے ہیں وہ کھلا اور ظاہر ہے اور جس کو عالم معنی کہتے ہیں ۔ وہ بالکل چھپا اور باطن ہے۔ عالم صورت میں بعض وہ ہیں جو ظاہری آنکھوں سے دکھائی دیتے۔ دیکھنے دکھنے میں آتے ہیں جیسے کہ عالم ملکی (دنیا کی چیزیں دنیا ) بعض وہ ہیں جو باطنی آنکھوں سے دیکھے جاتے دکھائی دیتے ہیں جیسے کہ مَلَکُوتِی (روحانی عالم ۔ دوسری آنے والی دنیا کی چیزیں) عالم معنی (باطن) ہے وہ دیکھنے میں نہیں آتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر دکھائی دیتا ہے یا دیکھنے میں آتا ہے تو اس عالم صورت میں یعنی عالم ظاہر میں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظاہر و باطن اس کی صورت ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس صورت کے ساتھ ظاہر میں دکھلاتا۔ دکھائی دیتا۔ دیکھنے دکھنے میں آتا ہے
ہر نقش که بر تخته هستی پیداست آن صورت آن کسی است کی نقش آراست
( جو نقش بھی کہ ہستی کی تختی پر ظاہر ہے وہ اس کی صورت ہے جس نے یہ نقش بنائے )
دریائے کہن چو بر زند موجے تو موجش خوانند در حقیقت دریا است
(پرانا دریا جب نئی موج مارتا ہے تو اس کو موج کہتے ہیں وہ حقیقت میں دریا ہے)
موحد یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک نور ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ساری صورتوں میں نمودار کیا۔ دکھلایا ۔ سب لباس میں اپنے آپ کو ظاہر کیا وہی وہ ہے جو لیلی مجنون کی صورت میں وامق عذرا کی شکل میں تجلی کئے ہوئے ہے۔ وہی وہ ہے کہ مجنون کی آنکھ سے اپنے ہی جمال کو آپ ہی اپنی نظر میں لاکر لیلی میں دیکھا۔ اپنے آپ کو آپ ہی چاہا محبوب و معشوق بنایا۔ یہ ظاہر ہے کہ تم جس کسی کو دوست بناؤ محبوب مطلوب ٹھہراؤ۔ جس کی طرف رخ کرو ۔ متوجہ ہو جاؤ ۔ تمہارا رخ تمہاری توجہ تم چاہو یا نہ چاہو اسی کی طرف ہے اس کو تم نے اپنا دوست محبوب و مطلوب بنایا ۔
میل جمله خلق عالم تا ابد گر بباشد ور نباشد سوئے تست
ساری مخلوق ساری کائنات کی توجہ آخر تک چاہے ہو یا نہ ہو وہ تیری ہی طرف ہے )
جز ترا چون دوست نتوان داشتن دوستی دیگراں بربوئے تست
( جب کہ تیرے سوائے کسی کو دوست نہیں بنا سکتے دوسروں کی دوستی تیری خوشبو سے ہے)
مجنون کی نظر صرف لیلی ہی کے حسن و جمال (اچھائی خوبصورتی ) پر ہے۔ لیلی کے حسن و جمال کے سوائے جو کچھ بھی ہے جو کچھ بھی اس کی نظر میں آتا ہے وہ اس کے پاس قبیح ( برا۔ بد صورت) ہے مجنون اس کو جانے یا نہ جائے۔
اِنَّ اللَّهَ جَمِيلَ وَ يُحِبُّ الجمال اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو دوست رکھتا ہے )
مطلب یہ ہے کہ اس کے غیر میں جمال ہی نہیں۔ جب یہ حقیقت ہو کہ اس کے سوا ظہور میں کوئی نہیں تو پھر کسی میں جمال کیسے ہو سکتا ہے۔ کسی کو جمیل کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جو کچھ ہے اس کا جمال ہے بلکہ وہی وہ جمال لیا ہوا ہے۔
یارے دارم که جسم و جان صورت اوست چه جسم چہ جاں جملہ جہاں صورت اوست
( ایک دوست رکھتا ہوں کہ جسم اور جان اس کی صورت ہے جسم و جان ہی کیا سارا جہان اس کی صورت ہے )
ہر معنی خوب و صورت پاکیزہ اندر نظر تو آید آن صورت اوست
(ہر اچھا معنی اور پاکیزہ صورت جو تیری نظر میں آئے وہ اس کی صورت ہے)
کہتے ہیں کہ خواجہ شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کوئی شخص آیا۔ کہا کہ اسے شیخ مجھ کو توحید سمجھائیے۔ زبان مبارک سے کچھ فرمائیے ۔ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے شکر منگوائی جب وہ لے کر آیا تو اس کو شکر بتلا کر آپ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے اس نے کہا یہ شکر ہے۔ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے کہا کہ اس شکر سے گھوڑا، بیل، آدمی کی شکل بنا۔ آپ کے فرمانے پر اس نے شکر کی مختلف صورتیں بنائیں۔ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو وہ شکلیں ایک ایک بلا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ یہ بیل ہے۔ یہ آدمی ہے۔ یہ گھوڑا ہے۔ پھر خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے ان سب کو توڑ کر ایک کر دیا۔ جب ایک کر دیا تو اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے۔ جواب دیا شکر ہے۔ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ
نے اس سے کہا۔ چلا جا۔ میں نے توحید کو تجھ سے پورے طور پر بیان کر دیا ہے۔
یک عین متفق که جز او ذره نبود چون گشت ظاہر ایں ہمہ اغیار آمده
(ایک وہ جو اپنے آپ میں آپ ہی تھا کوئی اس کے سوا نہ تھا جب ظاہر ہو گیا تو یہ سب اور ہی نکل آئے )
اے ظاہر تو عاشق و معشوق باطنت مطلوب را که دید طلبگار آمده
(تیرا ظاہر عشق تیرا باطن معشوق ہے مطلوب کو کس نے دیکھا جو طالب بن کر آیا )
موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے اس بات نے ارنی (دکھلا مجھ کو) کہلایا۔ لن تَرَانِي ( مجھے نہیں دیکھ سکتا) کا جواب سنا۔ درخت کی زبان سے اسی بات نے انی آنا الله ( میں ہی ہوں اللہ ) کہا۔ موسیٰ کے کان سے اس نے سنا۔
چون جمالش صد ہزار اس روئے داشت بود در هر ذره دیدارے دگر
(چونکہ اس کا جمال ہزار ہا صورتیں رکھتا تھا ہر ذرہ میں ایک اور ہی دکھلاوا تھا)
لا جرم ہر ذرہ بنمود یار تا بود هر دم گرفتاری دگر
(لازما ہر ذرہ کو یار نے دکھلایا تاکہ ہر وقت ایک نیا گرفتار ہو جائے)
اس کی تجلیات کی انتہا نہیں۔ ہر عاشق اس کا اور ہی پتہ دیتا ہے۔ ہر عارف اس سے اور ہی مراد لیتا ہے اور ہی الفاظ وعبارت میں لاتا ہے۔ ہر محقق اس سے اور ہی اشارہ فرماتا ہے۔ اس سرّ عزیز (نادر راز) کی اطلاع و خبر کس کو دی جاتی ہے کیونکر دی جاتی ہے وہ کون ہوتا ہے کیسا ہوتا ہے جس کو اس سے واقف (خبردار ) کیا جاتا ہے۔ سنو ۔ یاد رکھو۔ صرف اس کو دی جاتی ہے جو دل کے مقام میں پہنچ گیا ہو۔ سراپا دل ہو گیا ہو۔ اس کے دل کا حظ (مزہ ولذت ) وہی ہو گیا ہو۔ جیسے کہ بھوکا ہوتا ہے۔ اس کے دل میں ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کا تقاضا ہوتا رہتا ہے۔ ہمیشہ اس کے دل میں یہی رہتا ہے کہ کچھ کھالوں۔ ایک بزرگ کا فرمانا ہے کہ محبت و معرفت ہاتھ آنے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی محبت عارف کا عیش ( جان پہچان والے عاشق کی زندگی) اس کی لذت و غذا (کھانا پینا ) ہو جائے۔ اس کا کھانا اس کے خیال میں اس کا کہنا اس کے خیال میں اس کا رہنا بسنا اس کے خیال میں ہو جائے ۔ جب سب حرکات و سکنات اس سے اس کے بغیر نہ ہوں تو ایسا شخص اہل دل ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے کوئی شخص ایسا ہو کہ تھوڑی دیر کے لئے محبوب کے حضور میں اس کا دل لگ جائے ۔ تھوڑی دیر میں بھاگ کھڑا ہو جائے۔ جیسے کہ ہرن جب اس کو باندھ دیا جائے تو کھڑا رہتا ہے۔ جب چھوٹ جاتا ہے۔ پھندا کھل جاتا ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے ایسے کو اہل دل نہیں کہتے بلکہ اہل نفس کہتے ہیں۔ سالک کہہ سکتے ہیں۔ صوفی نہیں کہہ سکتے۔ متصوف کہہ سکتے ہیں ( تکلف سے صوفی بنا ہوا کہہ سکتے ہیں ) صوفیوں کا راستہ چلنے والا ۔ ان کا راستہ اختیار کیا ہوا نہیں کہہ سکتے اس کو صوفی ہرگز نہیں کہہ سکتے وہ صوفی نہیں۔ سنو۔ صوفی وہ ہے جو حقیقت کی کان میں گر کر حقیقتا ًحقیقت ہو گیا ہو۔ باقی انعام ( بیل بکری) سب بے خبر جاندار ہیں۔ صرف علماء ہی علم سے باخبر ہیں۔ متصوف – صوفیوں کے راستے کے چلنے والے کو کہتے ہیں۔ صوفیا حق کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ ”حق“ ہوتے ہیں۔
تابہ کے عطار این حرف مجاز برسر اسرار توحید آئی باز
اے عطار کب تک یہ ظاہری باتیں توحید کے راز کی طرف آ جاؤ)
ہمارا قلم وحدت کے میدان میں چل رہا ہے جہاں فرق و تمیز کفر ہے ایک نور ہے جو ساری صورتوں میں محیط ہے ساری صورتوں کو لئے ہوئے ہے اس مرتبہ میں اس کو نور مطلق کہتے ہیں۔ توحید مطلق کی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کو کسی چیز سے کسی راہ کو کسی راہ سے کسی کام کو کسی کام سے کسی صحبت کو کسی صحبت سے جدا علیحدہ نہ کیا جائے کسی چیز سے پیٹھ نہ پھیری جائے کسی چیز کی طرف رخ نہ کیا جائے ۔ اگر یہ نہ ہو تو توحید مطلق سے نکل جاتے ہیں کیونکہ اگر کسی مقید چیز کی طرف رخ کرو گے تو اس کی طرف پیٹھ کرنی ضروری ہو جائے گی یہی توحید مطلق سے نکل جانا ہے۔ حقیقی مسلمان وہی ہے جو تو حیدمطلق میں پہنچ گیا ہو۔ توحید مطلق جس کے ہاتھ آگئی ہو جو کوئی توحید مقید میں رہ گیا وہ تقید میں پھنس گیا، وہ مسلمان مجازی ہے مسلمان حقیقی نہیں۔ یہ سمجھ رہا ہوں کہ تم نہیں جانتے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں ۔ جاننا دیکھنا ہوتو میری آنکھوں میں آجاؤ اور دیکھو تو تم پر کھل جائے کہ واقعی معاملہ یہی ہے جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، وہی بات ہے۔
آفتابے در ہزاراں آبگینه تافته پس برنگے ہر یکے تابے عیاں انداختہ
(ایک آفتاب ہزاروں آئینوں شیشوں میں چمکا ہر رنگ کے لحاظ سے ہر ایک پر ایک شعاع ڈالا)
جمله یک نور است لیکن رنگ ہائے مختلف اختلاف این و آن را در میان انداخته
(سب ایک نور ہے رنگ مختلف ہیں یہ اور وہ کے اختلاف کو درمیان ڈالا)
جس پر اس حقیقت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تو “میں اور تو “ کی اضافت نسبت اس سے جاتی رہتی ہے۔ ساری اضافتیں نسبتیں جو کچھ ہیں وہ میں تو کی ہیں وہ اس سے الگ ہو جاتی ہیں۔ ستر ہزار حجاب (پردے۔ روک) نور و ظلمت (روشنی اندھیرے) کے جو سالک کے سامنے ہوتے ہیں ان سب کو ایک نقطہ میں تمہیں دکھلا رہا ہوں۔ سو سال کا راستہ ایک گھڑی میں طے کرا رہا ہوں۔ تمہیں اس میں گم کر رہا ہوں۔ تمہارا محبوب سے غافل رہنا ہی پردہ اور روک ہے۔ جب غفلت نکل جاتی چلی جاتی ہے تو پردہ اٹھ جاتا ہے، روک باقی نہیں رہتی کوئی پردہ باقی نہیں رہتا۔ وہی پر دے رہ جاتے ہیں جن کو نورانی حجاب ظلمانی کہہ چکا ہوں۔ اگر نماز روزہ۔ تلاوت قرآن۔ عبادتوں کی حلاوتیں لذتیں تمہیں محبوب کے دیکھنے اس کے یاد کرنے سے روک رکھیں تو سمجھو کہ یہ نورانی پر دے ہیں۔ اندھیرے پر دے، وہ مشغولیتیں ہیں جو خواہشات نفس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
ہم بتلا چکے ہیں کہ وہ ایک نور ہے تو پھر نور و ظلمت کے پردے کہنے کے کیا معنی ہوئے ہاں ٹھیک ہے۔ سنو ۔ تم نور کے ساتھ رہو ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے غافل نہ ہو تو تمہارے لئے کوئی پردہ نہیں۔ جیسے ہی تم اس سے غافل ہو گئے ۔ پردہ میں آ گئے اس غفلت کے پردے سے باہر آنا پڑتا ہے۔ محبوب سے غافل رہنا تمہارا گناہ ہے۔ اگر تمہارا تم ہونا تم میں ہے۔ تو یہ تمہارا تم ہی تو تمہارا غیر ہے۔ یہی پردہ ہو جاتا ہے۔” سب ایک نور ہے۔“ جس کی کوئی انتہا نہیں لہذا جو کچھ عالم صورت و عالم معنی میں ہے وہ اس کی صورت ہوئی ۔ لیکن یادر ہے کہ وہ کسی صورت میں مقید نہیں۔ تمہاری توبہ۔ تمہارا رجوع لوٹ آنا یہی ہے کہ تم اس قید سے نکل کر تو حید مطلق میں آ جاؤ۔
حجاب روے تو ہم روئے تست در ہمہ حال نهانی از همه عالم زبس کہ پیدائی
(تیرے منہ کا پردہ تیرا ہی منہ ہر حال میں ہے سارے عالم سے چھپا ہوا یوں ہے کہ انتہائی طور سے ظاہر ہے)
بات یہ ہے کہ تمہارے دل کے میدان میں غیر کی سمجھ بوجھ آتے ہی دو کا ہوناآ جاتا ۔ دوئی ظاہر ہو جاتی ہے۔ سامنے پردہ آ جاتا ہے۔
دوئی را نیست ره در حضرت تو ہمہ عالم توئی و قدرت تو
(تیری بارگاہ میں دو کی گنجائش نہیں سارا علم تو ہے اور تری قدرت ہے)
جب پندار غیر (غیر سمجھنے کی سوجھ بوجھ۔ غیر سمجھنا) اور دوئی (دو کا ہونا ۔ من و تو)دل کی سرزمین سے اٹھ جاتے ہیں تو زبان حال سے یہ کہتا ہے۔۔
روزان بتو بودم و نمی دانستم شب با تو غنودیم و نمی دانستم
(دن میں تیرے ساتھ رہا اور نہ جانا رات میں تیرے ساتھ سویا اور نہ جانا )
ظن برده بودم که من بودم من من جمله تو بودم و نمی دانستم
(گمان کیا ہوا تھا کہ میں تھا میں، میں سب تو ہی تھا اور نہ جانا)
اے اللہ ۔ ہم کو ہمارے سامنے سے اٹھا لے۔ خود کو خود خود کی آنکھ کے سامنے دائم قائم رکھ۔ یہ چند باتیں درویش کی یادگار ہیں ان کو جان کے برابر رکھنا۔ ہر شخص کو نہ بتلانا ۔ ہاں جو کوئی اس کی طلب میں ہو اس کو بتلایا جا سکتا ہے۔ ہفتہ میں ایک دفعہ اس رسالہ کو دیکھنا ناغہ نہ کرنا ۔ بہت فائدہ مند ہوگا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
تَمْتُ الرساله


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں