توحید و عین الیقین کی وضاحت مکتوب نمبر 35دفتر دوم

 بعض ان استفساروں کے جواب میں جو توحید و عین الیقین کے بارہ میں کیے گئے  تھے، پیرزادہ خواجہ عبداللہ سلمہ اللہ تعالی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

حمدصلوة اورتبلیغ ودعوات کے بعد مخدوم زادہ کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ آپ کاصحیفہ شریفہ پہنچا۔ اس کے مطالعہ سے بڑی خوشی ہوئی۔ نسبت حضور کے شمول (شامل ہونا)اور غلبہ کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ نیک و مبارک ہے۔ یہ دولت جو آپ کو تین مہینوں میں میسر ہوئی ہے۔ دوسرے سلسلوں میں اگر دس سالوں میں بھی میسر ہو جائے تو بڑی نعمت گنتے ہیں اور امرعظیم تصور کرتے اس قسم کے احوال کی تعریف و تحسین کرنے سے عجب و تکبر کے پیدا ہونے کا گمان نہیں ہے۔ اس لیے اس نعمت کا اظہار کیا گیا۔ لَئِنْ ‌شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (اگرتم شکر کرو گے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا )نص قاطع ہے۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ  توحید  کی ابتداکا ظہور شروع ہو گیا ہے۔ یہ دولت بھی مبارک ہو۔ ادب کے ساتھ اس واردہ(نئی نعمت) کو قبول کریں لیکن اس حال کے غلبہ میں آداب شرعی کو بخوبی مدنظر تھیں اور بندگی کے حقوق کو کماحقہ بجالائیں۔ 

جاننا چاہیئے کہ یہ شعبده صدق و صحت کی تقدیر پرمجبوب کی محبت کے غلبہ کے باعث ہے کہ محب جو کچھ دیکھتا اور جانتا ہے محبوب کے سوا نہ کچھ دیکھتا ہے۔ نہ جانتا ہے اور جو لذت و ذوق حاصل کرتا ہے، اس کو محبوب کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اس صورت میں کثرت وحدت کے طور پرمحب کا مشہود(مشاہدہ)  ہوتی ہے۔ پس فنا اس مقام میں متحقق نہیں ہوتا۔ کیونکہ فنا میں واحد کے مشاہدہ کے غلبہ کے باعث کثرت کا مشاہدہ بالکل رفع ہوتا ہے۔ کثرت ممکنات کے اس عدم شہود کو بھی فنا کہتے ہیں مگرفنا کی حقیقت اس وقت متحقق ہوتی ہے جب کہ اسماء و صفات و شیون و اعتبارات کی کثرت بھی سب کی سب نظر سے مخفی ہو جائے اور ذات مجردہ (غیر مادی)  کی احدیت کے سوا کچھ ملحوظ و منظور نہ ہو۔ سیر الی اللہ کے تمام ہونے کی حقیقت اس جگہ جلوہ گر ہوتی ہے اور ظلال کی گرفتاری سے پوری پوری خلاصی اس مقام میں حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت معاملہ اصل اصول سے پڑتا ہے اور دال سے مدلول تک پہنچ جاتا ہے اور علم سے عین تک اور گوش سے آغوش تک عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  حاصل ہوتا اور وصل عریانی متحقق ہوتا ہے۔ اس کے آگے وہ مقام ہے جس کو کسی رمزرو اشارہ سے بیان نہیں کر سکتے بلکہ سرا سرمبہم اور سرمکتوم ہے۔ اس مقام کی نسبت لب نہیں ہلا سکتے۔ 

 حضرت مخدوم زادہ ہم سے اس عین  الیقین کا بیان طلب کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ عین الیقین علم میں سمو دیا جائے ، مشکل کام ہے۔ فقیر کیا کرے اور کیا کہے اور کس طرح آپ کو . سمجھائے۔ امید ہے کہ مخدوم زاده مہربانی سے معذور فرمائیں گے اور طلب علم نے طلب حال کی طرف میلان کریں گے۔ دونوں سوال جومخدوم زادہ نے کیے ہیں، بلند فطرتی کی خبر دیتے ہیں۔ 

ایک سوال تو خاص طرز پر عین الیقین کے بارہ میں تھا جو گزر چکا۔ 

دوسرا سوال متشابهات قرآنی کی تاویل کے بیان میں تھا جن کا علم علماء راسخین کے نصیب ہے۔ دوسرے سوال کا جواب پہلے سوال کے جواب سے بھی زیادہ دقیق اور پوشیده اور چھپانے کے لائق اور ظہور و اظہار کے منافی ہے۔ تاویل متشابہات کا علم ان معاملات سے مراد ہے جو پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ امتوں میں سے بہت ہی کم کسی کو تبعیت و وراثت کے طور پر اس علم کا حصہ بخشتے ہیں اور اس جہان میں ان کے جمال کا برقعہ ان پر کھولتے ہیں مگر امید ہے کہ عالم آخرت میں امتوں سے بکثرت لوگ تبعیت کے طور پر اس دولت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس جہان میں بھی ان اقل اور بعض کے سوا اوروں کو بھی اس دولت سے مشرف فرمائیں لیکن معاملہ کی حقیقت کا علم نہ دیں اور تاویل کو منکشف نہ کریں۔ غرض جائز ہے کہ متشابہات کی تاویل بعض کو حاصل ہولیکن نہ جانے کہ کیا حاصل ہے کیونکہ متشابهات معاملات سے مراد ہیں تو روا ہے کہ معاملہ حاصل ہو اور اس کا عمل میسر نہ ہو۔ یہ بات میں نے اپنے متبعین اورمتعلقین میں سے ایک فرد میں مشاہدہ کی ہے۔ پھر دوسروں کا کیا حال ہے۔ آپ کے سوال نے اس معاملہ سے امیدوار کردیا ہے۔ رَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يا الله ہمارے نور کو پورا کر اور ہم کو خوش تو سب چیزوں پر قادر ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ100ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں