تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر

تہنیت

از سخی مادھو لعل حسین قلندر

یہ رسالہ تہنیت بزبان فارسی تصنیف لطیف حضرت مقصود الحسین شاه حسین لاہوری المعروف سخی مادھو لعل حسین قلندر رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1008 ہجری بمطابق 1600 عیسوی
تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور درود حضرت محمدﷺ پر جواللہ کے برگزیدہ ہیں اور آپ کی آل پر جن کی شان میں آیت
قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰى تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر اپنے قرابت کی محبت (حب علی ، فاطمہ ، حسن و حسین ) – ( سورة الشوری، آیت نمبر 23)
آئی ہے اور آپ کے اصحاب پر جو تَخَلَّقُوا بِأَخْلاَقِ اللهِ (اخلاق خداوندی کو اپنا لو۔) کے معیار پر صحیح اور پورے اُترے ہیں اور باقی تمام تابعین پر۔ اس (حمد وصلوٰۃ) کے بعد حسین لاہوری کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ چند فوائد سات فصلوں (ابواب ) میں جمع کروں تاکہ خدا کے بندے آسانی سے ان کا مطالعہ کر سکیں اور اس کا نام “تہنیت” رکھا تا کہ سب کے لئے مبارک ثابت ہو۔

پہلی فصل

اقرباء سے دوری اور ان سے دوستی کے بیان میں

جان لو کہ طالب کو اپنے اقرباء سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیئے اس صورت میں کہ وہ محبت اور مودت کے سوا کسی اور چیز میں مبتلا کریں اور دوری کی تلقین کریں، غیریت اور بیگانگی کا باعث ہوں، غیر کی نجاست میں ملوث کریں (یعنی خدا سے توڑ کر غیر سے جوڑنے کی کوشش کریں ) وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ (کاٹتے ہیں اُس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا۔) ، پس اس وجہ سے ان سے ہے۔ میل ملاپ ترک کر دے اور ان کی باتوں میں نہ آئے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا یعنی اگر وه دونوں ( والدین) تجھے میرے ساتھ ایسی چیز شریک کرنے پر مجبور کریں جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی بات نہ مان ۔ اور اگر وہ مزاحمت کے درپے ہوں تو مبتدی کو چاہیے کہ انہیں رو کے بلکہ ان سے جھگڑا کرے، اللہ کا ارشاد ہے اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِیعنی بیزار ہوں میں تم سے اور جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوا۔ وعلی ہذا القیاس اور دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ہے۔ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًاِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ آزر کو، کیا تو پکڑتا ہے مورتوں کو خدا؟ میں دیکھتا ہوں تو اور تیری قوم صریح بہکے ہو) اور اگر ان کی یہ کوشش ہو کہ طالب مکتب عشق میں قیام پذیر ہو تو ان کی خدمت میں موجود رہے اور ان کی اطاعت سے انکار نہ کرے ، قوله تعالى اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاحکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور جو اختیار والے ہیں تم میں اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے، اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور آخری دن پر، یہ خوب ہے اور بہتر تحقیق کرنا ہے۔ اور دوسرے مقام پر بھی فرمایا ہے، وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اور حکم دیا تیرے رب نے کہ نہ پوجو اس کے سوا اور ماں باپ سے بھلائی کرو ۔۔۔ کہ اس کا نتیجہ پالے گا اور اس کی زندگی کا درخت برخورداری کا پھل دے گا۔

دوسری فصل

مال کی طلب اور اس کے ترک کے بیان میں

جان لو کہ طالب کو یکدم تارک المال ہو جانا اچھا نہیں ہے، اس وجہ سے کہ اس نے اپنے رب کو یا عزیز کے نام سے یاد کیا ہے، پس ضرورت کے مطابق مال سے دوستی نیکی اور ثواب ہے مگر اس قدر بھی دوستی نہ ہو کہ مبتدی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور مکھیوں کی طرح اس کو پھنسا لے اور بہت سی کئی دوسری ضرورتوں کا انحصار بھی اسی پر ہے اور یہ (مال) ایک بدرقہ اور وسیلہ کا درجہ رکھتا ہے اور ترک کی یہ صورت ہو کہ اس کے نفع و نقصان کو برابر سمجھے یعنی نفع پر خوشی نہ ہو اور نقصان پر افسوس نہ کرے ، قوله تعالیٰ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ یعنی تا کہ تم غم نہ کھایا کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ نہ آیا اور نہ اچھا کرو اس پر جو تم کو اس نے دیا۔ اور جتنی روزی کی ضرورت سمجھے قوت بازو سے حاصل کر لى قوله تعالى وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ اور اپنے مہر بانی سے بنادی تم کو رات اور دن کہ اس میں چین بھی پکڑو اور تلاش کرو کچھ اس کا فضل، اور دوسری جگہ فرمایا ہے وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ اور تلاش کرو کچھ اللہ کا فضل ، تا کہ اس سے عزت و آبرو قائم رہے اور میسر آسکے تو ذکر کی وجہ سے فقر و فاقہ اختیار کرے اور کوئی چیز لوگوں سے مانگ لے مگر استغنا کے انداز میں، عاجزانہ انداز میں نہیں قوله تعالى – لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا یعنی نہیں مانگتے لوگوں سے لپٹ کر، جب فقیر کا توشہ باندھا ہے پس اس ہادی کو تلاش کرو کیونکہ اس کے بغیر بات نہیں بنتی۔

تیسری فصل

ہادی پکڑنے میں

جان لو کہ طالب کو کوئی بادی تلاش کرنا چاہیے جب قرآن مجید میں مذکور ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ اے ایمان والو! ڈرے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ اور دوسرے مقام پر بھی مذکور ہے۔ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اور جب تک طلب صادق نہیں ہوگی ہادی نہیں ملے گا، پس مبتدی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی خدا یار آدمی سے بد اعتقاد نہ ہو اور محبت کا دام لگائے جیسے شکاری دام لگتا ہے، ہو سکتا ہے کسی روز ہمادام میں آجائے ۔
خورش ده بہ كنجشك و كبك و حمام كه يك روزت افتدهمانی به دام
(یعنی چڑیوں ، ہنسوں اور کبوتروں کو خوراک دیتا رہ تاکہ کسی دن ہما تیرے دام میں پھنس جائے) اور جس کسی پر اعتقاد درست ٹھہرے اس کو اپنا مقتدائی بنالے اور چونکہ دل خدا کا گھر ہے اور ممکن نہیں کہ اس میں کسی وسوسہ شیطانی کو راہ ملے۔ جب کہ درویش کا کام خدا سے دوستی ہے اور مراسم آداب سیکھے یہاں تک کہ اپنے ہادی کا نام لے کر نہ بلائے اور اس کی خدمت میں قیام پذیر رہے اور اپنے آپ کو اس پر قیاس نہ کرے کیونکہ وہ (ہادی) دریا ہے اور یہ ( طالب ) حقیر ہے پس حقیر کو دریا سے کیا نسبت ہے اور ہر قسم کے آداب بزرگوں کی کتابوں سے رسالوں سے مثلاً (فتوحات) مکیہ وغیرہ سے مطالعہ کرے اور ان کو عمل میں لائے کہ کلی نتیجہ ہے اور اس عزیز کی محبت کا دعوی کرنے والوں سے کٹ کر رہے کہ اس کے کام آئے گا۔ ہو الطالب ۔

چوتھی فصل

فوائد کے بیان میں

جان لو کہ اگر طالب کو ایسا مطلوب مل گیا جو رہبری کے کام میں لگا ہوا ہے تو پھر اس سے کچھ پوچھنے یا معترض کی صورت میں پیش آنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بدنصیبی ہے جیسا کہ خضر اور حضرت موسیٰ کا قصہ ہے۔ اور اگر اس نے مطلوب کو پالیا جو درویشی کے لباس میں ملبوس ہے اور علم و ہدایت سے کورا ہے اس کے لئے یہی محبت کافی ہے اگر چہ اسے ارادت تو حاصل نہیں ہو گی تا آنکہ خداوند ودود واجب العطیہ والجود، مطلوب کی صورت پر کوئی فرشتہ ظاہر فرما دیں تا کہ وہ بھی رہبری کرے اگر یہ بزرگوں کی راہ و روش اور طور طرز کے فنون کتابوں سے دیکھ کر پڑھے یا کسی سے سیکھ لے تو مطلوب مانع نہیں ہوگا کیونکہ مقصود سامان کو منزل پر پہنچانا ہے وھو المبلغ ۔

فصل پنجم

تلقین ذکر کے لئے

جان لو کہ مرشد کو چاہیے کہ وہ طالب کے اطوار و افعال پر نظر رکھے متوجہ کرائے ) اور اس کے دل کے جامہ کو غیریت یعنی شرکت کی گندگی سے پاک کرے چنانچہ اگر وہ کافر ہو تو اس کو شریعت محمدی اور اسلام کے اصول و قواعد سے آگاہ کرے اور اگر وہ فاسق ہو تو اس کو تعریہ کے پانی سے پاک کرے اور بارہ کبیرہ گناہوں سے روکے (بچائے) مرید کے مکارانہ رونے اورفریب کا رانہ اخلاق پر اکتفا نہ کرے۔ چنانچہ بیان کرتے ہیں کہ کثرة التواضع علامة اطلاق بہت تواضع و انکساری منافقت کی علامت ہے) اور اس کی وجہ معلوم کرے اور جب یقین حاصل ہو جائے تو فورا اس طالب کو ذکر جلی میں مشغول کر دے پہلے اسے خاص بھٹوں کی محبت کے جام سے ایک گھونٹ چکھا دے کہ وہ منظور ہو جائے اور جب خدمت کے لئے پسند کیا جائے تو کلمہ طیب کے ورد میں اس کو مشغول کر دے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے- اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ، اس کی طرف چڑھتا ہے کلام ستھرا اور نیک کام اس کو اٹھا لیتا ہے، تاکہ اس کا شیشہ صاف اور شفاف ہو جائے اور اطمینان کی دولت حاصل کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ اس کے بعد ذکر خفی کا حکم دے تا کہ فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ ، تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، کا نتیجہ اس کو مل جائے اور عشق کا شور اور آگ اس کی روح میں بھڑک اٹھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں تاکہ عشق کی جلانے والی آگ سے اس کی ہڈیاں خشک لکڑی کی طرح اور اس کا دل کباب کی طرح بریان ہو جائے۔ جب طالب یہ منزل طے کرنے اور مکتب محبت میں مشق کی تختی قائم کرلے تو محب بن گیا۔

فصل ششم و هفتم

اختتام

انسانی وجود ایک عمدہ زمین کی مانند ہے اور عشق پھلدار درخت کے بیچ کی طرح جب وہ بیچ زمین میں اُگنے لگتا ہے اور محبت کے پانی سے پرورش پاتا ہے اور محبت کا مواد پیدا کرتا ہے، آخر اس پھلدار درخت کا بیچ بار آور ہوتا ہے اور اس کے تین مراتب ہیں،
مرتبہ اول: آخات، اور اس کا منشانیت ہے کیونکہ إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور نیت کا منشا وسوسہ کا کھٹکاہے اور ہر شے کی اصل وسوسہ ہے اور وسوسہ والی چیز کو قرار آتا ہے اور وہ خطرہ بن جاتی ہے اور جب اسے قرار آتا ہے تو اس سے نیت حاصل آتی ہے اور نیت خطرہ میں ترقی کرتی ہے تو آفات بن جاتی ہے، اور آخات، کہ : ہر ایک کو دین میں مشفق بھائی سمجھے کیونکہ قرآن مجید میں ہے، اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور یہ بھی قرآن مجید میں مذکور ہے، وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں اور اس کے رنج و راحت کو محسوس کرے اور ضرورت کے وقت اس کی ضرورت اور حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم جانے اور محبوب دوستوں کی دوستی کا لباس پہن کر محبت میں قیام کرے ،
۔ مرتبہ محبت : وہ ہے کہ محبوب کو اس کے متعلقین سمیت دوست رکھے اور ان کی دوستی کا حق بجا لائے کہ کلب الحبيب حبيب ( دوست کا کتا بھی پیارا لگتا ہے )
ہوا خاہان کویش را چو جان خویشن دارم
یعنی اس کی گلی کے پیار کرنے والے مجھے اپنی جان کی طرح عزیز ہیں حتی کہ غربت اس کی ہم سفر ہو جائے ان کے بعد خلت حاصل ہو گی اور خلت یہ ہے کہ اپنے دل میں دوست کے سوا کسی کو جگہ نہ دے چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا اب اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہے اور تمہارے ساتھی نے اللہ ہی کو خلیل بنایا اور جب یگانگت کا عقد پختہ اور بیگانگی دور ہو گئی تو واصل ہو گیا اس کے بعد معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں نے دنیا کے اصطبل میں خیال آمرانہ سے قدم رکھا سب کو عشق کی آواز پہنچی پس عشق کے خلل سے کوئی بھی خالی نہیں ۔۔۔۔ آخر اسے جس چیز سے بھی خلت کا ربط ہو اس شے میں محو ہو جائے چنانچہ شیخ نے فرمایا ہے لوگ اپنے خلیل کے دین ( طور طریقے ) پر چلتے ہیں ، اس پر انہوں نے ایک حکایت بھی بیان کی ہے کہ کسی نے آخری وقت وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد دیناروں کے دولوٹے میری قبر میں دفن کر دینا چونکہ دولت کی فراوانی تھی اس کی وصیت کو عملی جامہ پہنایا گیا جب کچھ عرصہ بعد ان کے بیٹے افلاس کا شکار ہوئے تو انہوں نے باپ کی قبر سے وہ دنا نیر نکالنے چاہے۔ جا کر قبر کھو دی تو وہاں سے مال غائب تھا۔ بہت حیران ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ جیسے مچھلی کے بدن پر چھوٹے چھوٹے فلوس چسپاں ہوتے ہیں اسی طرح وہ دنا نیر اس کے بدن پر بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ بدن سے علیحدہ کریں مگر وہ فلوس جدا نہ ہوئے انتہائی حرص کی وجہ سے انہوں نے میت کو جلا کر وہ زر علیحدہ کرنے کی سعی کی جب لاش جل گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کا تمام بدن زر بن چکا ہے۔ سب کو وہ اپنے تصرف میں لائے چونکہ وہ اس زر کا ہو چکا تھابالاخر وہی بن گیا۔
اس کے بعد من کی طرف کوشش کی ہے من کا معنی ہے کہ ازل سے ابد تک اسے کسی چیز کی خبر نہ ہو جس نام سے بھی اسے منسوب کریں اسی نام سے پکارا جا سکے اور اس راز کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکو گے جب تک مردود نہ ہو جاؤ یا مستغرق یا اس معاملہ میں مخلوق یا ممدوث نہ ہو جاؤ، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

تمت الرسالة


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں