جلاء الخواطر حصہ اول
از شیخ عبد القادر جیلانی
پہلی مجلس تا تیئسویں مجلس
بسم الله الرحمن الرحيم
حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی کے ارشاد و ملفوظات کا عظیم سرمایہ ہے جس کا نام فی الباطن والظاہر المسمی جلاء الخاطر یہ کتاب الفتح الربانی کی بہن کہلاتی ہے
سب تعریفیں اللہ کے لیے میں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ ہمارے آقا جناب محمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی آل پر اور اصحاب پر رحمت بھیجے (آمین ثم آمین)
حضرت ابو صالح جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے حضرت امام عالم – دانشور عظیم زاہد و عابدہ عارف ومتقی ، شیخ المشائخ حجت اسلام قطب الانام حامی سنت – قامع بدعت ، تاج و محبت اہل معرفت و سلوک . رکن شریعت ستون حقیقت و علم طریقت سردار اولیار و پیشوائے اصفیا، ومشعل بردار طریق ہدایت و رئیس اتقیاء و چراغ اہل تقویٰ و صفا شیخ محی الدین ابو محمد عبد القادررضی اللہ عنہ ان کی روح کو مقدس اور ان کی قبر کو روشن رکھے اور ہمیں ان کی جماعت میں اٹھائے اور ان کی محبت پر مارے اور ان کے اقوال کی برکات سے دنیا اور آخرت میں فائدہ پہنچائے ۔ اور اللہ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اور ان کے اصحاب پر رحمت بھیجے اور بہت بہت سلام کہہ کر سلامتی بھیجے ۔ والحمد للہ رب العالمین
آپ نے اپنی مجلسوں (جو 9 ماہ رجب جمعہ سے 14 رمضان المبارک 546ھ تک جاری رہیں) میں فرمایا :-
اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ ۔ وہ بر اساتھی ہے اور یہ حسد ہی تھا جس نے ابلیس کا گھر برباد کیا اور اس کو ہلاک کیا اور اس کو دوزخی بنایا اور اس کو خدائے بزرگ و برتر اور اس کے فرشتوں اور اس کے نبیوں اور اس کی مخلوق کا ملعون بنایا کسی سمجھدار آدمی کے لیے حسد کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے، جبکہ اس نے ارشاد سن لیا ۔
نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُم مَّعِيشَتَهُمۡ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۚ
” ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کی روزی ان میں بانٹ دی ہے
أَمۡ يَحۡسُدُونَ ٱلنَّاسَ عَلَىٰ مَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦۖ
یاوہ لوگوں پر اس چیز سے حسد کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنی مہربانی سے دی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-
إِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ
حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔
اے صاحبزادے حسد کے بارہ میں علماء ربانی کا فرمان کس قدر انصاف کرنے والا ہے. اپنے ساتھی ہی سے شروع کرتا ہے بس اُسی کو مارتا ہے اورحسد کرنے والا پناه بہ خدائے بزرگ و برتر، خدا کے ساتھ اس کے فعل پر اور اس کی تخلیق پر اور اس کی تقسیم پر بھی جھگڑا کرتا ہے ۔
بلاشبہ میں اپنی بات میں تم سے اور تمہارے گھروں کے مال واسباب اور تمہارے تحفوں سے بے نیاز ہوں، چنانچہ جب تک میں اس امر یہ قائم رہوں کا انشاء اللہ میری بات سے تم کو فائدہ پہنچے گا جب تک بات کرنے والے کی نظر تمہاری روٹیوں ، کپڑوں اور جیبوں پر رہے گی تمہیں اس کی بات سے فائدہ نہ ہو گا۔ جب تک تمہارے (چو لہے کے) دھواں اور تمہارے کوچہ کو تاکتا رہے گا تمہیں اس کی بات سے فائدہ نہ پہنچے گا۔ اس کی بات ایسا چھلکا ہو گی جس میں گری نہیں ایسی ہڈی ہوگی جس پر گوشت نہیں۔تلخی ہوگی۔ بلامٹھاس صورت ہوگی۔ بلا معنی طمع کرنے والے کی بات مرض اور رو رعایت سے خالی نہیں ہوتی۔ اس کو ڈر کی وجہ سے ہی مخالفت پر قدرت نہیں ہوتی طمع کرنے والا طمع کے حروف کی طرح خالی ہے ۔ طمع کے حردف ” ط اور م ، اور – ع – سب کے سب نقطوں سے خالی ہیں۔ اے اللہ کے بندو! سچے ہو یقینا فلاح پاؤ گے ۔ سچا (اللہ کی بندگی سے ) پھرا نہیں کرتا ۔ اللہ کو ایک کہنے میں سچا ہونے والا اپنے نفس جو اس کا شیطان ہے کی بات پر (اللہ کے دروازہ سے لوٹا نہیں کرتا ۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نیکیوں کی محبت میں سچا ہوتا ہے۔ سچاملامت پر کان نہیں دھرتا اور نہ ہی یہ اس کے کان میں سماتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم اور اس کے بندوں میں سے نیکیوں پکی محبت میں سچا کسی منافق ملعون د مبغوض کی بکو اس پر اپنے کام سے باز نہیں آتا ۔ سچا (اپنے دوست اور دشمن کو )پہچانتا ہے اور جھوٹا نہیں پہچانتا۔ سچے کی ہمت آسمان تک بلند ہوتی ہے کسی کی ایسی ویسی بات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بلا شبہ خدائے بزرگ و برتر کو اپنی بات پر قدرت ہے جب تجھ سے کوئی کام لینا چاہے گا تجھے اس کے قابل بنا دے گا ۔ اے عالم ! اگر تیرے پاس علم کے پھل اور اس کی برکت سے کچھ ہوتا تو نفس کے مزوں اور لذتوں کی خاطر بادشاہوں کے دروازوں کی طرف کبھی نہ دوڑتا۔ عالم کے وہ پاؤں ہی نہیں ہوتے جن سے لوگوں کے دروازوں کی طرف دوڑے اور زاہد کے وہ ہاتھ ہی نہیں ہوتے جن سے لوگوں کا ما ل لے۔ اور محب کی وہ آنکھیں ہی نہیں ہو تیں جن سے محبوب کے سوا کسی کو دیکھے سچا اگر ساری مخلوق سے بھی ملے تو اسے ان کی طرف نگاہ کرنا جائز نہیں چونکہ اس کے لیے محبوب کے سوا کسی پر نظر کرنا حلال ہی نہیں۔ نہ اس کے سر کی آنکھوں میں دنیا بڑی معلوم ہوتی ہے اور نہ اس کے سر کی آنکھوں میں آخرت ہی بڑی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے سر کی آنکھوں میں اللہ کے سوا کوئی بڑا نظر آتا ہے ۔
اے صاحبزادے ! منافق کی پہچان اس کی زبان اور سر سے ہوتی ہے اور سچے کی پہچان اس کے دل سے ہوتی ہے اور اس کے باطن کا بھید خدائے بزرگ و برتر کے دروازہ پر ہوتا ہے اور باطن اللہ کے حضور دروازہ پر کھڑا چیختا رہتا ہے حتی کہ اندر داخل ہو جاتا ہے۔ خدا کی قسم ! تم بہر حال جھوٹے ہو، خدائے بزرگ و برتر کے دروازے کی راہ تم خود نہیں جانتے دوسرے کو کس طرح بتاؤ گے ۔ اور تم خود اندھے ہو ۔ اپنے سوا کسی اور کی لاٹھی کس طرح تھامو گے ۔ تمہاری خواہش اور تمہاری طبیعت اور تمہاری اپنے نفس کی پیروی اور تمہاری اپنی دنیا ۔ اپنی ریاست اور اپنی لذتوں کی محبت نے تمہیں اندھا کر رکھا ہے تمہاری خرابی ہو تمہیں دنیا میں رہنا محبوب ہے مگر تمہارے کوئی چیز ہاتھ نہ آئے گی۔ اپنی دکان پر اپنی نماز کو کب ترجیح دو گے ۔ آخرت کو اپنی دنیا پر کب مقدم رکھو گے ۔ اپنے خالق کو ایسی مخلوق پر کب مقدم رکھو گے اور اپنے نفس کی بجائے سائل کو کب ترجیح دو گے۔ خدائے بزرگ و برتر کے حکم کو اور اس کی منع کی ہوئی چیز سے رکھنے کو اور اس پر جو مصیبتیں آتی ہیں ان پر صبر کو اپنی خواہش اور عادت پر کب ترجیح دو گے ۔ لوگوں کا کہنا ماننے کی بجائے اس کا کہا ماننے کو کب مقدم رکھو گے عمل سیکھو تم ہوس میں پھنسے ہوا ایسے باطل کی جس میں حق نہیں۔ ایسے ظاہر کی جس میں باطن نہیں. ایسے علانیہ کی جس میں سر نہیں جب تک گناہ ظاہر جسم پرہیں میری طرف قدم بڑھاؤ اس سے پہلے کہ وہ تمہارے دل تک پہنچ جائیں۔ پھر تم اصرار کرو اور اصرار میں مشغول رہو تو کافر بنو غلطی کی تلافی کر لو۔ تھوڑی (زندگی یا تکلیف) سے بڑی (زندگی یا تکلیف کو محفوظ کر لو ، جب تک رسی کے دونوں کنارے تمہارے ہاتھوں میں میں تلافی کر لو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں اگرچہ ستر مرتبہ دن میں پھر کرے ۔ جب تم نے رسول کریم سے سن لیا اور اُن کی بات پر عمل کیا اور آپ کے اصحاب کی پیروی کر کے آپ کے ساتھ بہتر برتاؤ کیا تو تمہارے دل کو تمہارے خدائے بزرگ و برتر کے سامنے کریں گے اور ان کا کلام تمہیں سنوائیں گے جس کی طاعت اور عبودیت اللہ کی خاطر ثابت ہو جاتی ہے وہ اللہ کی کلام سننے پر قادر ہو جاتا ہے۔ سید نا موسی علیہ السلام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔ ان پر اور تمام نبیوں پر درود و رحمت ہو۔ اپنی قوم کے پاس آئے۔ ان کے پاس توریت تھی جس میں امر اور نہی تھی ۔ لوگوں نے کہا ، ہم اسے قبول نہ کریں گے جب تک کہ ہم اللہ کا چہرہ نہ دیکھ لیں گے اور اس کا کلام نہ سن لیں گے ۔ آپ نے ان سے فرمایا اپنی ذات کو تو اس نے مجھے بھی نہیں دکھا یا پھر تمہیں کیسے دکھا دوں ۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ جب آپ نہ اس کا منہ دکھا ئیں اور نہ اس کا کلام سنوا ئیں ہم اس کی بات کیسے مان لیں ۔ تب خدائے بزرگ و برتر نے موسی ۔ ہمارے نبی اور ان پر درود و رحمت کے کو وحی کی کہ ان کو کہہ دیجئے کہ اگر ان کا میری کلام سننے کا ارادہ ہے تو تین دن روزے رکھیں جب چوتھا روز ہو خوب نہائیں اور پاک کپڑے پہنیں۔ پھر ان کو لے کر آجاؤ تاکہ میری کلام سنیں، موسی علیہ السلام نے ان کو اس بات کی خبر کر دی۔ پس انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر پہاڑی کے اس مقام پر آئے جہاں وہ (موسی علیہ السلام) اپنے خدائے بزرگ و برتر سے باتیں کیا کرتے تھے ۔ اور انہوں نے اپنی قوم کے عالموں اور پر ہیز گاروں میں سے ستر آدمی لیے ۔ جب حق تعالیٰ ان سے مخاطب ہوئے تو سب کے سب بے ہوش ہو کہ مرگئے موسی ہمارے نبی اور ان پر درود و رحمت ہو۔ اکیلے رہ گئے. اور رو کر عرض کی اے پروردگار : آپ نے میری امت کے بہترین لوگوں کو مار دیا۔ اللہ کو ان کے رونے پر رحم آیا تو انہیں اللہ نے زندہ کر دیا وہ اپنے پاؤں پر اٹھ کھڑے ہوتے اور کہا موسیٰ علیہ السلام ، ہمیں اللہ تعالی کا کلام سننے کی طاقت نہیں آپ ہی ہمارے اور ان کے درمیان واسطہ بنیے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے کلام کی اور موسیٰ علیہ السلام ان کو سناتے اور ان کے لیے دہراتے جاتے تھے ۔ موسی علیہ السلام محض اپنے ایمان کی قوت اور اپنی طاقت اور اپنی عبودیت کے نہایت ہونے کی بناء پر اللہ تعالی کا کلام سننے پر قادر ہوئے اور وہ لوگ محض اپنے ایمان کی کمزوری کی بناپر اللہ کا کلام سننے پر قادر نہ ہو سکے ۔ پس اگر وہ توریت میں آئے ہوئے اللہ کے احکام کو قبول کر لیتے اور امرونہی میں اطاعت کرتے اور ادب کرتے اور جو کیا اس کے کہنے کی جرات اور تحریک نہ کرتے تو خدائے بزرگ و برتر کا کلام سننے پر قادر ہو جاتے ۔ اپنے مولیٰ کی اطاعت میں ہر طرح کوشش کرو اور کوشش کرو کہ تم نہ دینے والے کو دو اور توڑنے والے سے جوڑ د . اپنے پر ظلم کرنے والے کو معاف کر دو اور کوشش کرو کہ تمہارا بدن بندوں کے ساتھ ہو اور تمہارا دل بندوں کے پروردگار کے ساتھ ہو۔ اور کوشش کرو کہ سچے بنو، جھوٹے نہ بنو ۔ اور کوشش کرو، اخلاص بر تو ، نفاق نہ برتو لقمان حکیم اپنے بیٹے سے کہا کرتے تھے اے بیٹے ! لوگوں سے دکھاوا نہ کرو کہ کہیں خدائے بزرگ و برتر سنے ایک بد کار دل سے ملو تمہاری خرابی ہو۔ دومنہ، دو زبانوں اور دو کاموں والے مت بنو کہ اس کے سامنے اور اُس کے سامنے کچھ میں مسلط ہوا ہوں ہر جھوٹے منافق دجال پر۔ مسلط ہوا ہوں خدائے بزرگ و برتر کے ہر نا فرمان پر جن کا سب سے بڑا ابلیس ہے اور سب سے چھوٹا بد اعمال ۔ میری جنگ ہے تم سے اور ہر گمراہ ہے۔ گمراہ کنندہ اور باطل کی طرف دعوت دینے والے سے۔ اس پر لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم سے مدد لیتا ہوں ۔ نفاق تمہارے دل پرجم گیا ہے۔تمہیں اسلام تو بہ اور زنار (کفر) توڑنے کی ضرورت ہے عقل سیکھو۔ جب تم سے غبار چھٹ جائے گا تو دیکھو گے اور تھوڑی دیر بعد تمہیں خبر معلوم ہو جائے گی جس نے میری بات سنی اور اس پر عمل کیا اور اخلاص برتا وہ مقربین میں سے بنا۔ اس واسطے کہ ایسی بات ہے ، گویامغز جس میں چھلکا نہیں۔ تمہاری خرابی ہو اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہو اور اپنے دلوں سے اس کے سوا اوروں کی طرف متوجہ ہوتے ہو مجنوں کو جب لیلی کی محبت سچی ہو گئی تو اس کا دل لیلی کے سوا کسی کو قبول نہ کرتا تھا۔ ایک دن لوگوں پر اس کا گزر ہوا۔ تو انہوں نے پوچھا ، کہاں سے آئے ہو ؟ ۔ کہا ، لیلی کے پاس سے ۔ پوچھا کہاں کا ارادہ ہے۔ بولا ۔ لیلی کی طرف کا ۔
پہلی مجلس
جب دل خدائے بزرگ و بر ترکی محبت میں سچا ہوتا ہے، تو موسی ۔ ہمارے نبی اور ان پر درود و سلام ہو جیسا ہو جاتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے ان کے حق میں فرمایا ،
وَحَرَّمۡنَا عَلَيۡهِ ٱلۡمَرَاضِعَ مِن قَبۡلُ
ہم نے پہلے سے ہی ان پر پستانوں کو ممنوع قرار دیا تھا
تم جھوٹ نہ بولو تمہارے دو دل نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔ جس چیز سے بھی بھر جائے گا پھر اس میں دوسری نہیں سما سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
مَّا جَعَلَ ٱللَّهُ لِرَجُلٖ مِّن قَلۡبَيۡنِ فِي جَوۡفِهِۦۚ
اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے جس دل میں خالق کی محبت ہوگی صحیح نہیں ہوگا کہ اس میں دنیا اور آخرت ہو۔ اللہ سے نا آشنا رہنا نفاق برپا کرنا ہے۔ اور اس سے آشنا ایسا نہیں کرتا ۔ اور احمق خدائے بزرگ و برتر کی نافرمانی کرتا ہے اور عاقل اس کی اطاعت کرتا ہے اور بغض رکھنے والا نا فرمانی کرتا ہے اور محبت رکھنے والا اطاعت کرتا ہے اور دنیا اکٹھی کرنے کی حرص کرنے والا دکھاوا کرتا اور نفاق برتا کرتا ہے۔ اور کو تاہ امید ایسا نہیں کرتا ۔ اور موت کو بھلا دینے والا دکھاوا کرتا ہے اور یاد رکھنے والا دکھاوا نہیں کیا کرتا ۔ اور غافل دکھاوا کرتا ہے اور بیدار دکھاوا نہیں کرتا ہے۔ اولیاء اللہ کو (غیبی فرشتہ) متنبہ کرتا اور(غیبی )معلم تعلیم دیتا رہتا ہے، اور حق تعالے وسائل علم ان کے لیے مہیا فرما دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ مومن اگر پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو گا تو اللہ اس پر (غیبی) عالم متعین فرمائے گا جو اس کو (ارضیات الہیہ کی) تعلیم دیتا رہے گا ۔ نیکوں کی باتیں مستعار لے کر ان کو اپنا دعوی کر کے باتیں نہ کیا کرو . مانگی چیز چھپا نہیں کرتی ۔ اپنے مال سے کمائی کرو۔ مانگی چیز سے نہیں۔ اپنے ہاتھ سے کپاس کاشت کرو اور اسے اپنے ہاتھ سے پانی دو۔ اور اس کی اپنی کوشش سے پر ورش کرو . پھر ا سے بن لو،سی لو اور پہن لو۔ دوسروں کی ملک اور دوسروں کے کپڑوں پر مت اتراؤ۔ جب دوسروں کا کلام لے کر بات کروگے اور اس کو اپنا بتاؤ گے تو نیکوں کے دل تمہارے سے نفرت کریں گے ۔ جب تجھے فعل نصیب نہیں تو قول بھی تیرے مناسب نہیں. ظاہر ہے حکم کا تعلق عمل سے ہے. اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ٱدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ بِمَا كُنتُمۡ تَعۡمَلُونَ اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاؤ۔
اے صاحبزادے ! فرشتے حرص اور طمع اور لایعنی قسم کی بہت سی باتوں کے لکھنے کے سوا کسی بات سے نہیں اکتاتے ۔ بلکہ جس کا دل حق تعالے سے ڈرتا ہےتو لا محالہ اس کے ہاتھ پاؤں بھی ڈرنے لگتے ہیں ۔ اُس کا دل اس کے ڈر سے بجھ جاتا ہے تو ہاتھ پاؤں بھی وہی تاثر لیتے ہیں۔ چنانچہ فرشتے راحت و اکرام میں رہتے ہیں۔ تمہاری باتیں ایک پر دوسری گناہوں کے ڈھیر ہیں جن کی عاقبت بھی عمل ہے تم یہ جانے بغیر باتیں کیے جاتے ہو کہ فائدہ مند ہوں گی یا نقصان دہ موت سے خبردار ہو تمہارے لیے موت سے فرار نہیں۔ تم جس کہنے سننے اور لایعنی کاموں میں لگے ہو انہیں چھوڑ دو۔ اپنی لمبی لمبی امیدوں کو کو تاہ کرو اور حرص کو کم کرو۔ اس واسطے کہ عنقریب تمہیں مرنا ہے. بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میں تمہیں بیٹھے بیٹھے موت آجاتی ہے، یہاں تک اپنے پاؤں پر چل کر آئے تھے۔ تمہارے گھر کی طرف جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ صحیح ایمان والا اپنی جان سے بدلہ لے کر اطمینان حاصل کرتا ہے۔ جب اس کی جان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسے کہتا ہے، میں نے تو تجھے نصیحت کی مگر تم نے قبول ہی نہ کی ۔ او نہ جاننے والی ، او نہ ماننے والی، او اللہ کی دشمن میں نے تجھے اس چیز سے ڈرایا تو تھا ۔ جو کوئی اپنے نفس سے باز پرس کھود کر پر اور خیر خواہی نہیں کرتا کبھی فلاح نہیں پاتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے نفس کا خود واعظ نہ بنے اس کو کسی واعظ کا وعظ نفع نہیں دیتا۔ جو فلاح چاہے اپنے نفس کو نصیحت کرے ۔ اس کو تو بہ سکھائے اور مجاہدہ کرائے۔
زہد یہ ہے ۔ پہلے حرام چیزوں کو چھوڑے۔ پھر شبہ والی چیزوں کو چھوڑے ، پھر مباح چیزوں کو چھوڑے۔ پھر ہر حالت میں خالص حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دے غرض کوئی چیز نہ رہے، جسے چھوڑ نہ دے حقیقی زہد یہ ہے۔ دنیا چھوڑے ، آخرت چھوڑے ، خواہشات ولذات چھوڑے ۔ غرض کوئی چیز نہ رہے جسے چھوڑ نہ دے حالات و درجات کرامات اور مقامات طلب کرنا چھوڑے اور خالق کائنات کے سوا ہر چیز کو چھوڑے حتی کہ خالق بزرگ و برتر کے سوا کوئی نہ رہے۔ جو ہماری منتہی اور غایت مقصود ہے۔ اسی کی طرف پھر جانے میں سارے کام باتیں کرنے والوں میں سے کوئی اپنے دل سے بات کرتا ہے ۔ کوئی اپنے باطن سے بات کرتا ہے اور ان میں سے کوئی اپنے نفس اور اس کی خواہش اور اس کے شیطان کی بات کرتا ہے۔ ایمان والوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ پہلے سوچتا ہے پھر بات کرتا ہے ۔ نفاق والا پہلے بات کرتا ہے پھر سوچتا ہے ۔ مومن کی زبان اس کی عقل اور دل کے پیچھے (ماتحت) ہوتی ہے ۔ اور منافق کی زبان اس کی عقل اور دل کے آگے۔ اے ہمارے اللہ ! ہمیں ایمان والوں میں کر اور نفاق والوں میں نہ کر اور ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں نیکی دے اور آگ کے عذاب سے بچا ۔
دوسری مجلس :-
جب دل کتاب وسنت پر عمل کرتا ہے تو نزدیکی حاصل ہوتی ہے جب نزدیکی حاصل ہوتی ہے تو فائدہ اور نقصان کو اور خدائے بزرگ و برتر کے لیے کئیے اور اس کے ماسوا کے لیے کیے اور حق کے لیے کیے اور باطل کے لیے کیے کام کو جان اور دیکھ لیتا ہے ۔ جب مومن کے لیے نور ہوتا ہے جس سے دیکھتا ہے تو صدیق مقرب کا کیا پوچھنا ۔ مومن کے لیے ایک نور ہوتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ڈرایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى
مومن کی فراست سے ڈرو اس واسطے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اور عارف مقرب کو بھی ایک نور عطا ہوتا ہے جس میں وہ اپنے قدرے بزرگ و برتر سے اپنے نزدیکی کو دیکھتا ہے اور خدائے بزرگ و برتر کو اپنے دل سے دیکھتا ہے، سو فرشتوں کی روحوں اور نبیوں کی روحوں صدیقین کے دلوں اور ان کی روحوں اور ان کے حالات اور مقامات کو دیکھتا ہے اور یہ سب چیزیں اس کے دل کے درمیان اور باطن کی پاکیزگی میں ہوتی ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے پروردگار کے ساتھ فرحت میں ہوتا ہے اور یہ ایک واسطہ ہے جو اس سے کہتا ہے اور مخلوق میں بکھیر دیتا ہے بعض ان دونوں میں زبان اور دل دونوں کے فصیح ہوتے ہیں اور بعض ان میں دل کے فصیح مگر زبان کے لکنت والے ہوتے ہیں اور منافق زبان کا فصیح اور دل کا گونگا ہوتا ہے ۔ اس کا سارا علم زبان میں ہوتا ہے۔ اور اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيمِ اللِّسَانِ
سب سے زیادہ جس کا مجھے اپنی امت کے بارہ میں ڈر ہے۔ زبان کا فصیح منافق ہے اے صاحبزادے ! جب تم میرے پاس آؤ تو اپنے عمل اور نفس سےنظر اٹھا کہ آیا کرو – نادار مفلس آیا کرو ، جب تم اپنے عمل اور نفس کو دیکھتے ہوئے آؤ گے تو اُس (نعمت سے محروم رہو گے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں ۔ تمہاری خرابی ہو۔ مجھ سے اس لیے بغض رکھتے ہو کہ میں حق بات کہتا ہوں اور تمہاری حقیقت کھول دیتا ہوں مجھ سے تو دشمنی میں بغض رکھتا ہے اور مجھ سے و ہی نا واقف ہے جو خدائے بزرگ و برتر سے نا واقف زیادہ بات اور تھوڑا عمل کرنے والا ہو۔ اور مجھ سے وہی محبت کرے گا جو خدائے بزرگ و برتر سے واقف بہت عمل کرنے والا اور تھوڑی بات کرنے والا ہو مخلص مجھ سے محبت کرتا ہے اور منافق مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ سنی مجھ سے محبت کرتا ہے اور بدعتی مجھ سے بغض رکھتا ہے ۔ اگر تم مجھ سے محبت کرو گے تو اس کا سارا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا اور اگر تم مجھ سے بغض رکھو گے تو اس کا سارا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا،میں تو لوگوں کی تعریف اور برائی کو کچھ بھی نہیں جانتا ہوں اور زمین کی سطح پر کوئی نہیں جس سے میں ڈروں یا کوئی امید رکھوں جنوں ۔ انسانوں حیوانوں زمین پر رینگنے والوں اور پیدا ہونے والی کسی بھی چیز سے ماسوائے اللہ تعالیٰ کےمیں نہیں ڈرتا ۔ اللہ جتنا مجھے اطمینان دلاتا ہے اتنا ہی ڈر بڑھتا ہے، کیونکہ وہ جو چاہے کرڈالے۔
لَا يُسۡـَٔلُ عَمَّا يَفۡعَلُ وَهُمۡ يُسۡـَٔلُونَ
جو کرے اس سے کوئی پوچھ نہیں اور باقی سب سے پوچھ ہونی ہے۔
اے صاحبزادے ! اپنے بدن کے کپڑے دھونے میں نہ لگے رہو۔ اورتمہارے دل کے کپڑے میلے کچیلے پڑے رہیں، پہلے دل کو دھوؤ۔ پھر کپڑوں کو دھوؤ۔ دونوں کی دھلائی اور پاکی اکٹھی کرو۔ اپنے کپڑوں کی میل دھوؤ اور اپنے دل کو گنا ہوں سے دھوؤ کسی بھی چیز سے دھوکا نہ کھاؤ اور مغرور نہ ہو چونکہ تمہارا پر ور دگار جو چاہے کر سکتا ہے کسی بزرگ سے نقل ہے کہ وہ اپنے ایک دینی بھائی سے ملنے گیا اور کہا ۔ اے بھائی آؤ ہم اپنے متعلق علم الہی پر روویں۔ (کہ نہ معلوم ہمارے خاتمہ کے متعلق کیاطے فرمایا ہے)، اس بزرگ نے کتنی اچھی بات کہی۔ اور حقیقت میں وہ عارف باللہ تھے ۔ اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا تھا کہ تم میں سے ایک جنتیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک دو ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے (یعنی مرنے میں) کہ تقدیر کا لکھا غلبہ کرتا ہے اور وہ جہنمیوں (یعنی کفر) کا عمل کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے دوزخ میں چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک جہنمیوں کے کام کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور آگ کے درمیان صرف ایک دو ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا غلبہ کرتا ہے اور وہ جنتیوں کے عمل کرتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ جنت میں چلا جاتا ہے . (الحدیث) تمہارے بارہ میں اللہ کا علم اس وقت ظاہر ہو سکتا ہے جب تم اپنے پورے دل اور اپنی پوری ہمت سے اس کی طرف رجوع کرو اور اس کی رحمت کے دروازہ کو لازم پکڑ لو اپنے اور اپنی لذتوں کے درمیان ایک لوہے کی دیوار کھڑی کر دو۔ اور قبر اور موت کو اپنے سر کی آنکھوں اور اپنے دل کے پیش نظر رکھو اور خیال رکھو کہ خدائے بزرگ و برتر کی نظریں تمہاری طرف ہیں اور وہ تمہیں جانتے ہیں اور تمہارے پاس موجود ہیں۔ اور فقر کو امارت سمجھو اور افلاس پر راضی رہو۔ اور (اللہ کی )حدود کی حفاظت کے ساتھ تھوڑے پر قناعت کرو اور یہی شریعت کے حکموں کی تعمیل ہے. اور منع کی ہوئی چیزوں سے رُک جانا ہے. جو بھی تقدیر سے تم پر وارد ہو۔ اس پر صبر کرو . جب تم اس پر قائم ہو جاؤ گے تو اپنے پروردگار سے ملو گے اور اپنے باطن سے حضوری پاؤ گے ، اس وقت تمہارے پر ایسی چیزیں کھلیں گی جن کو تم یقین کی نگاہ سے دیکھو گے اور صبر کرو گے جیسا امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اگر (غیب کا) پردہ اٹھا دیا جائے تو میرے یقین میں اضافہ ہو گا (یعنی چھپی چیزوں کا جو یقین اس وقت حاصل ہے وہ مشاہدہ کے یقین سے کم نہیں ہے ) ۔ کسی شخص نے پوچھا۔ آپ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ۔ فرمایا۔ میں ایسے پروردگارکی پرستش ہی کرنے والا نہیں ہوں جس کو میں نے دیکھا نہ ہو کسی بزرگ سے پوچھا گیا۔ کیا آپ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ۔ کہا ۔ کہ اگر اس کو نہ دیکھتا تو کبھی کا پاش پاش ہو جاتا۔ اگر کوئی کہے اس کو دیکھنے کی کیا صورت ہے تو میں لکھوں گا کہ جب بندہ کے دل سے خلق نکل جاتی ہے اور حق تعالیٰ کے سوا باقی کچھ نہیں رہتا تو جس طرح چاہتا ہے۔ دکھاتا ہے اور نزدیک کرتا ہے، باطن سے ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے ظاہر سے اور ایسے دیکھتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج میں دیکھا۔ (اگرچہ دونوں کے دیکھنے میں بہت فرق ہے مگر نوعیت ایک ہے )۔ جس طرح وہ چاہتے ہیں اپنے آپ کو اس بندہ کو دکھاتے ہیں۔ نزدیک کرتے ہیں، اس سے نیند کی حالت میں بات کرتے ہیں اور کبھی بیداری میں بھی اس کے دل اور باطن سے بات کرتے ہیں ۔کبھی اس کے وجود کو قبض کر لیتے ہیں۔ تو اللہ کو اس کی شان ظاہری (دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ پاک کو دیکھ سکنے میں علماء کا اختلاف ہے حضرت جیلانی کا مسلک جواز کا بلکہ کاملین کے لیے وقوع کا معلوم ہوتا ہے )پر دیکھتا ہے۔ اور ایک دوسرے معنی بھی دیتا ہے جس سے اس کی صفات اس کی کرامات ۔ اس کے فضل و احسان اور اس کے لطف وکرم کو دیکھتا ہے۔ اس کے حسن سلوک اور آغوش حفاظت کو دیکھتا ہے جس کی عبودیت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ مجھے خود کو دکھا، مجھے (فلاں چیز) دے۔ فنا اور مستغرق ہو جاتا ہے، اس لیے بعض بزرگ جو اس درجہ کو پہنچ گئے تھے ۔ کہتے تھے ۔ مجھ پر میری طرف سے ہے ہی کیا ۔ کیا اچھی بات کہی جس نے کہا۔ میں اس کا بندہ ہوں اور بندہ کو آقا کے سامنے اختیار اور ارادہ نہیں ہوتا ۔ ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور یہ غلام دیندار اور نیک تھا۔ پھر (گھر پہنچ کر ) پوچھا ۔ اے غلام ! کیا چیز کھانی چاہتے ہو ۔ اس نے کہا جو کھلا دو۔ پھر کہا ۔ کون سا کام کرنا پسند کرتے ہو۔ کہا جس کا آپ حکم فرما ئیں تو وہ شخص رو پڑا ۔ اور کہنے لگا ، خوش خبری ہو تمہیں اگر میں اپنے پروردگار کے ساتھ ایسے ہوتا جیسے تم میرے ساتھ ہو ۔ تو غلام نے کہا ۔ اے میرے آقا ! کیا غلام کو آقا کے سامنے ارادہ اور اختیار ہوتا ہے کہنے لگا۔ تم اللہ کے لیے آزاد ہو۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم میرے پاس رہو تا کہ میں اپنی جان اور مال سے تمہاری خدمت کروں۔ بے شک جو اللہ کو پہچان لیتا ہے اس کے لیے ارادہ اور اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہی کہتا ہے کہ مجھ پر میری طرف سے ہے ہی کیا۔ اپنے کاموں میں اور اپنے سوا اوروں کے کاموں میں تقدیر سے نہیں لڑتا ۔
اے اعتراض کرنے والو، اے لڑنے جھگڑنے والوں اے بے ادبو سنو اور مجھ سے سنو (حق تعالی کے احکام دو قسم کے ہیں۔ ایک تکوینی جس کا نام تقدیر ہے۔ اس کے خلاف کسی نہ کسی میں طاقت ہے نہ مجال . دوسرا تشریعی ۔ جس کا نام شریعت ہے اور اس کا تعلق انسان کے ارادہ اور عمل سے ہے پس دینی امور میں تو بندہ کا فرض ہے کہ اپنی ساری جد و جہد ارادہ سے خدا اور رسول کی اطاعت میں صرف کرے اور دینوی امور مثلاً حوادث – امراض اور افلاس وغیرہ میں بندگی کا متقضا یہ ہے کہ ایسا بے حس اور بغیر ارادہ ہو جائے جیسے مردہ بدست غسال ۔ اس کا نام فنا اور رضا بقضا ہے کہ بے صبری اور سنگ دلی گویا اللہ پر اعتراض ہے اور اس کے دفع کرنے کی دوڑ دھوپ تقدیر سےلڑنا ہے۔ رہا معالجہ اور طلب وغیرہ کی تدبیر کا قصہ۔ سو بعض اکابر نے تو اس کو بھی سوئےاد ب سمجھ کہ بالکل ترک کر دیا ہے ۔ اللہ کی تجویز جب اس کے علم ازلی اور شفقت بر خلق کی بناء پر اس تجویز سے یقینا بہتر ہے تو اس کو بدلنے کا ارادہ جگہ خیال کرنا بھی عبدیت کے منافی ہے۔ حضرت جیلانی قدس سرہ کا یہی مسلک ہے۔ اور اسی پر سارے مواعظ بھرے ہوئے ہیں اور بعض اکابر کا طریقہ یہ ہے کہ تدبیر کو ضرور اختیار کیا جائے توتشریعی حکم کے ماتحت صرف کی نیت سےکیونکہ جب دنیا کو اللہ نے عالم اسباب بنایا ہے تو اسباب کا اختیار کرنا بھی اس کی تجویز کی موافقت اور اپنی غلطی کا ثبوت ہے۔ خلاصہ یہ کہ اصلاح و فلاح آخرت کے متعلق تقدیر کی آڑ نہ لی جائے اور یہ نہ کہا جائے کہ جو مقدر ہے خود ہی ہو رہے گا۔ اور دینوی ترقیات کے متعلق دائرہ شریعت کے اندر رہتے ہوئے اپنا اپنا مزاج ہے کہ ہمت ہو تو مسلوب الارادہ اور تارک اسباب بنے کہ اصلاحی تو کل اسی کا نام ہے، اور چاہیئے بحسن نیت صرف بدن سے اسباب کا پابند اور تشریح پر عامل اور قلب سے تکوین کا غلام اور راضی بہ قضاء کہ تدبیر سے اگر ناکامی ہو تو طبیعت پر گرانی اور افسردگی نام کو بھی نہ آئے ۔ مگر یہ جامعیت کیونکہ مشکل ہے اور بندہ اسباب جس نے کامیابی کو اپنے ہاتھ میں سمجھ سکتا ہے ۔ اپنے آپ کو پابند اسباب بنا کر شریعت کی آڑ پکڑ لیتا ہے۔ اس لیے نائبین رسالت نے دنیوی امور میں ترک اسباب اور موجودہ حالت پر رضا اور خوشدلی کی تعلیم پر زور دیا ہے جو سید ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا رنگ تھا۔ ورنہ جامعیت کے افضل ہونے کا سب کو اعتراف ہے کہ سید الانبیاء کی شان بھی یہی تھی ۔ اس کو خوب خور کے ساتھ سمجھ لیجئے۔) کیونکہ میں اس گروہ میں سے ہوں جنہوں نے انبیاء سے ادب سیکھا ہے . ان کی پیروی کرنے والوں اور ان کی سیرت کو بلند کرنے دالوں میں سے ہوں جس کتاب اور سنت کی موافقت کا حکم کرتا ہوں ، پھر ہر اس (ولی کامل کی موافقت کا )جس کو ایسا دل ملا ہے جس کو ایسا دل ملا ہے جس کو اللہ سے نزدیکی حاصل ہے اور اس پر میرے کہے (بے ادبی اور تقدیر سے جھگڑا) کا اندیشہ نہیں۔ ایسے اللہ کے بندے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں جو مخلوق خدا سے بے رغبتی اختیار کرتے ہیں اور قرآن پڑھنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پڑھنے سے جی لگاتے ہیں۔ تو لا محالہ ان کے دل اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے اور نزدیکی والے ہو جاتے ہیں جن سے وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو دیکھتے ہیں۔ چونکہ ان کے دل صحیح ہو جاتے ہیں اس لیے ان پر تمہارے اندر کی حالت چھپی نہیں رہتی۔ تمہارے دلوں کی باتیں کرتے ہیں چونکہ ان کے دل صحیح ہو جاتے ہیں اور تمہارے گھروں کی چیزوں کی خبر دیتے ہیں۔ افسوس تمہارے پرعقل سیکھو ۔ اپنی جہالت کے ساتھ (اہل اللہ) کی جماعت میں مت گھسو تم مدرسہ سے نکلتے ہی (منبر پر) چڑھ بیٹھتے ہو۔ نیک لوگوں (اہل اللہ) کی باتیں سنانے لگے ہو۔ ابھی (دوات) کی سیاسی تمہارے بدن اور کپڑوں پر لگی ہے اور لوگوں کو نصیحتیں کرنے کے منتظر ہو بیٹھے. اس بات کے لیے ظاہر اور باطن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر سب سےبے پر واہ ہو جانے کی۔ اے غافلو ! تم کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے خصوصی قیامت اور عموی قیامت کو یاد کرو خصوصی قیامت تم میں سے ہر ایک کی علیحدہ صورت ہے اور عمومی قیامت وہ ہے جس کا خدائے بزرگ و برتر نے وعدہ فرمایا۔
یاد کرو اور سبق کو خدائے بزرگ و برتر کے اس فرمان سے۔
يَوۡمَ نَحۡشُرُ ٱلۡمُتَّقِينَ إِلَى ٱلرَّحۡمَٰنِ وَفۡدٗاوَنَسُوقُ ٱلۡمُجۡرِمِينَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرۡدٗا اس دن پر ہیز گاروں کو خدائے رحمن کا وفد بنا کہ لائیں گے اور گناہ گاروں کو دوزخ کی طرف پیاسےہانکیں گے ۔ جدا جدا جماعت اور سوار ۔ دوزخ کےگھاٹ پر اور پیاسے پر ہیز گاروں کو جمع کیا جائےگا ۔ اور گناہگاروں کو(جانوروں کی طرح مار مار کر) ہانکا جائے گا سو اللہ رحم کرے اس بندہ پر جو اس دن کو یاد کرے اور آج ہی اہل اللہ کی جماعت میں آشامل ہو۔ تا کہ اس دن انہی کے ساتھ جمع ہو۔ اے پرہیز گاری کے چھوڑنے والو ! قیامت کے دن پرہیز گار رحمن کی طرف سوار لائے جائیں گے ۔ اور فرشتے ان کے ارد گرد ہوں گے ۔ ان کے اعمال صورتیں اختیار کر لیں گے ۔ وہ اصیل گھوڑوں پر سوار ہوں گے ۔ اصیل گھوڑا ان کا عمل ہوگا اور اس کا پٹہ ان کا علم سارے اعمال اچھی اور بری صورتیں قبول کریں گے۔ پرہیز گاری کی کنجی تو بہ کرنا اور اس پر قائم رہنا ہے ۔ اور خدائے بزرگ و برتر سے نزدیکی کی کنجی ہے اور توبہ ہی ہربھلائی کی اصل اور فرع ہے اسی واسطے بزرگوں نے اس سے کسی بھی طرح کا ہلی نہیں برتی ۔ اے (خدا سے) پیٹھ پھیرنے والو تو بہ کرو۔ اے نافرمانو! اپنے پروردگار سے تو بہ کے ذریعہ صلح کرو۔ یہ دل خدائے بزرگ و برتر کے قابل نہ ہو گا جبکہ اس میں ذرہ بھر بھی دنیا اور مخلوق میں سے کسی ایک سے طمع موجود ہو۔ پس اگر تم اسے صحیح کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں چیزوں کو اپنے دلوں سے نکال باہر کرو۔ اور اس سے تمہارا نقصان نہ ہوگا۔ کیونکہ جب تم واصل باللہ ہو جاؤ گے تو تمہارے پاس دنیا اور مخلوق ( دونوں خود خادم بن کر آئیں گے اور تم اللہ کے ساتھ اس کے دروازہ پر ہوگے۔ یہ آزمودہ چیز ہے ۔ دنیا سے کنارا کرنے والے اور اسے چھوڑنے والے اور پرہیز گار سب آزما چکے ہیں ۔
اے صاحبزادے! تمہارے لیے تمہارےہر عمل نماز روزہ حج اور زکوۃ میں خدائے بزرگ و برتر کے لیے اخلاص لازم ہے۔ اس تک پہنچنے سے پہلے اس سے عہد لے لو۔ یہ عہد کیا ہے ۔ یہی اخلاص – توحید – اہل سنت و جماعت کے عقائد اور صبر و شکر تسلیم (و رضا بخدا) اور مخلوق کو چھوڑنا اور (محض ) اس کو ڈھونڈنا اور دوسروں سے منہ پھرانا اور اپنے دل اور باطن سے خدا کی طرف منہ کرنا پس (اگر تم ان باتوں کے پابند ہو جاؤ تو عہد کے مطابق حق تعالی) لا محالہ تمہیں دنیا میں نزدیکی عطا کریں گے اور سب سے بے نیازی اور اپنی محبت اور اپنا شوق اور آخرت میں تمہیں اپنی نزدیکی اور اپنی نعمت سے وہ چیزیں دیں گے جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر گزریں۔ اس لیے اپنے پروردگار سے تعلق قائم کرو۔ پھر جب شیطان تمہارے پاس آئے ، تمہیں پھرائے اورتمہیں بدلے، تو تم اللہ سے فریاد کرو. جیسے تمہارے سے پہلے لوگ فریاد کرتے رہے ۔ اپنا عمل سنوار و پھر اپنے پروردگار سے حسن ظن رکھو ۔ اس سے حسن ظن اس کا کہا ماننے کے ساتھ رکھو۔ تمہارے بہت سے کام سنوار دے گا ۔ خدائے بزرگ وہ تم سے اور اس کے نبیوں سے اور اس کے رسولوں سے اور اس کے بندوں میں سے حسن ظن رکھو اس میں بڑی بھلائی ہے ۔
اے صاحبزادے ! تو صوفی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور تو گندا ہے ۔ صوفی وہ ہے جس نے اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کر کے اپنے باطن اور ظاہر کو(ہر میل کچیل )سے صاف کر لیا ۔ ان ہی دو چیزوں سے صفائی بڑھے گی اور وہ اپنے وجود کے سمندر سے نکلے گا اور اپنے ارادہ اور اختیار کوچھوڑے گا جس کا دل صاف ہو جا تا ہے اس کے اور اس کے خدائے بزرگ و برتر کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( اس طرح ) سفیر بن جاتے ہیں جس طرح ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان) وحی حق کے سلسلہ میں جبریل علیہ السلام تھے ۔ اور یہ ہر قول اور فعل میں نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہوتی ہے جب بندہ کا دل صاف ہو جاتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے کسی بات کا اس کو حکم فرماتے ہیں اور کسی چیز سے اس کو منع کرتے ہیں۔ وہ سارے کا سارا دل بن جاتا ہے اور جسم معزول ہو جاتا ہے سر تا پا باطن ہو جاتا ہے۔ بلا ظاہر اور صفا بلا کدورت . سب کا دل سے نکال دیناگڑے پہاڑوں کا اکھاڑنا ہے۔ جس کے لیے مجاہدوں کے کدالوں مصائب آفات پر صبر و تحمل – آفات و بلیات کو زائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خبردار ! ایسی چیز نہ طلب کرو جو تمہارے ہاتھ نہ پڑے خوشخبری ہو تمہارے لیے کہ تم سیاہ سفید ( احکام شریعت) پر عمل کر لو اور (سچے مسلمان بن جاؤ، خوشخبری ہو تمہارے لیے قیامت کے دن مسلمانوں کی جماعت میں آجاؤ۔ اور کافروں کی ٹولی میں نہ رہو۔ خوشخبری ہو تمہارے لیے کہ جنت کی زمین اور اس کے دروازہ پر بیٹھنا مل جائے ۔ اور جہنم والوں میں نہ ہوں تواضع کرواور تکبر نہ کرو تواضع بلند کرتی ہے اور تکبر پست کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس نے اللہ تعالی کے لیے تواضع کی اللہ تعالیٰ اسے بلند کریں گے ۔ اللہ کے ایسے بندے (اب بھی موجود ہیں جو پہاڑوں کے برابر نیک اعمال کرتے ہیں ۔ ایسے اعمال جیسے کہ پہلوں نے کیئے اور خدائے بزرگ و برتر کے سامنے تواضع کرتے اور کہتے ، ہمارا کوئی عمل نہیں جو ہمیں جنت میں داخل کر دے۔ اگر ہمیں جنت میں داخلہ مل گیا تو خدائے بزرگ و برتر کی رحمت سے ، اور اگر ہمیں جنت میں داخل نہ فرمایا گیا تو یہ بھی اس کا عدل و انصاف (کہ فی الواقع ہم اس کے قابل نہ تھے) وہ ہر وقت اس کے سامنے اخلاص کے پاؤں پر کھڑے رہتے ہیں (نیک اعمال )سے خالی سمجھتے ہوئے اور اس کی نگاہ عفو و کرم کا انتظار کرتے ہوئے) توبہ کرو اور اپنی کوتاہی کو مان لو۔ تو بہ اللہ تعالے کی(دی ہوئی) زندگی ہے۔ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد بارش سے زندہ کرتا ہے ۔ اور دلوں کو موت کے بعد تو بہ اور بیداری کے ساتھ زندہ کرتا ہے ۔
اسے نافرمانو ! تو بہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ۔ اور اس کے فضل سے مایوس نہ ہو ۔ اے مردہ دلو ہمیشہ خدائے بزرگ و برتر کو یاد کرو ۔ اس کی کتاب کی تلاوت کرو ۔ اس کے رسول کی سنت کی پیروی کرو ۔ اور ذکر کی مجلسوں میں حاضر ہوتے رہو۔ یقینا یہ چیز تمہارے دلوں کو اس طرح زندہ کر دے گی جیسے کہ مردہ زمین کو بارش پڑنے سے زندگی مل جاتی ہے۔ ذکر کی ہمیشگی دنیا اور آخرت کی دُوری خیر کا سبب بنتی ہے۔ جب دل صحیح ہو جاتا ہے تو اس میں ذکر دائمی قائم ہو جاتا ہے۔ اس کے سارے دل اور اس کی اطراف میں لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل اپنے خدائے بزرگ و برتر کو یاد کیا کرتا ہے۔ یہ اس کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے میراث میں ملتی ہے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرتے تھے ۔ ایک بزرگ کے پاس ایک تسبیح تھی جس سے اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک رات تسبیح پڑھتے پڑھتے سوگئے ۔ اور وہ ان کے ہاتھ میں ہی تھی۔ تو اچانک (لوگوں نے دیکھا کہ ) وہ ان کے ہاتھ میں چل رہی ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ اسے چلائیں ۔ اور ان کی زبان سے سبحان اللہ سبحان اللہ نکل رہا ہے ۔ اللہ والوں کا سونا اونگھ کے غلبہ سے ہو تا ہے اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ رات کے کچھ حصہ میں بہ تکلف سوتے ہیں تاکہ اس سے رات کے بقیہ حصہ میں جاگنے کے لیے مدد ملے ، وہ نفس کو اس کا حق دیتے ہیں تاکہ اسے سکون ہو جائے ۔ اور تکلیف نہ دے ۔ ایک بزرگ کی تو یہ شان تھی کہ رات میں نیند کو بلایا کرتے اور اس کا بلا ضرورت سامان کیا کرتے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو کہا ، مجھے خدائے بزرگ و برتر اپنا دیدار کراتے ہیں ۔سچی بات کہی کیونکہ سچا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک سونے میں تھی ۔ خدائے بزرگ و برتر کے مقرب پر ہر وقت (اس کی حفاظت کے لیے ) فرشتے مقرر ہوتے ہیں۔ اگر وہ سو جاتا ہے تو اس کے سر کے قریب اور پاؤں کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور اس کی آگے اور پیچھے سے حفاظت کرتے ہیں۔ شیطان ایک طرف رہتا ہے مقرب کو اس کے پاس ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ اللہ کی حفاظت میں سوتا ہے اور اللہ کی حفاظت میں ہی جاگتا ہے۔ اس کی حرکت اور سکون سب اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے ۔ اے اللہ ! ہم کو ہر حال میں اپنی حفاظت میں رکھ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دے . اور آگ کے عذاب سے بچا۔
تیسری مجلس :-
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے۔
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ لایعنی کاموں (جن میں نہ دنیا کا فائدہ ہو نہ دین کا)کو چھوڑ دے ۔ اور لایعنی کاموں میں مشغول ہونا (دنیا) طلب کرنے والوں اور ہوس کرنے والوں کا ( پیشہ) ہے۔ محروم وہ ہے جس نے وہ نہ کیا (جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے) حکم کیا گیا تھا یہی اصل محرومی ۔ پوری بیزاری اور مکمل سقوط ہے ۔
اے صاحبزادے حکم کی تعمیل کرو منع کی ہوئی چیز سے باز رہو اور (مشیت ایزدی) کی موافقت کرو. پھر بلا چوں و چرا خود کو دست تقدیر کے حوالہ کر دو ۔ یہ جانتے ہوئے کہ تمہارے خدائے بزرگ و برتر کی نظر خود تمہاری جہالت کے لیے تمہاری اپنی نظر سے بہتر ہے۔ اس کے عطا پر قناعت کرو. اور اس پر شکر میں لگے رہو۔ اور اس سے زیادہ نہ طلب کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے لیے خیریت کس چیز میں ہے۔
زاہد زاہدوں اور فرمانبرداروں کی راحت ہے ۔ زہد کا بوجھ بدن پر ہوتا ہے اور معرفت کا بوجھ دل پر ہوتا ہے ۔ اور قرب کا بوجھ باطن پر ہوتا ہے . زہد اختیار کرو۔ قناعت کرو، شکر کرو ۔ اور اپنے خدائے بزرگ و برتر سے راضی رہو۔ اور اپنے نفس سے راضی نہ رہو۔ دوسروں کے ساتھ حسن ظن رکھو اور دوسروں کاغم چھوڑو، اور اپنے نفس کے ساتھ حسن ظن مت رکھو۔ لذتوں کو چھوڑ دو۔ کہ ان کے چھوڑنے میں دلوں کی صحت ہوتی ہے ۔ پیٹ بھر کر حلال کھانا دل کو اندھا اور مدہوش کر دیتا ہے تو حرام سے کیا کچھ نہ ہوگا ۔ اسی واسطے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ پر ہیز اصل دوا ہے اور پیٹ بھر کر کھانا اصل بیماری ہے۔ ہر بدن کو وہ چیز دو جس کی اسے عادت ہو۔ اور بلاشبہ ان تین باتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدنوں کی حفاظت کو جمع فرما دیا ۔ پیٹ بھر کر کھانا زکاوت کی روشنی کو ۔ دانائی کے دیئے کو اور ولایت کے نور کو بجھا دیتا ہے۔ جب تک تم دنیا اور مخلوق کے ساتھ ہو تمہارے لیے پر ہیز لازم ہے چو نکہ تم بیمار خانہ میں ہو ۔ البتہ جب تمہارا دل حق تعالے تک پہنچ جائے تو معاملہ اس کے حوالہ ہے تب وہ خود والی ہو گا ۔ اور تم ایک کنارے ہو گے کیسے تمہارا والی نہ ہو گا جب تم اس کے قابل ہو گئے. چنانچہ ارشاد فرمایا ،
إِنَّ وَلِـِّۧيَ ٱللَّهُ ٱلَّذِي نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى ٱلصَّٰلِحِينَ
بے شک میرا کار ساز میرا اللہ ہے جس نے کتاب حق نازل فرمائی اور وہ نیکیوں کا کار ساز ہوا کرتا ہے۔
اے صاحبزادے! تقدیر کی بات ہو جانے پر تنگدل نہ ہو، نہ اسے کوئی ٹال سکتا ہے اور نہ اسے کوئی روک سکتا ہے ۔ جو طے ہو چکا ، ہونا ہی ہے۔ کوئی راضی ہو یا ناراض تمہارا دنیا کے دھندوں میں لگنا صحیح نیت کا محتاج ہے وگر نہ تو تم مبغوض ہو۔ اپنے سب کاموں کو اللہ کے سپرد کرو کہ کوئی طاقت اور کوئی زور اللہ برتر و با عظمت کے بغیر نہیں۔ کچھ وقت دنیا کو دو (یعنی کھانے اور کھانے کے لیے ) اور کچھ وقت آخرت کو دو (شرعی فرائض کی ادائیگی کے لیے) اور کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو دو(ہنسنے بولنے کے لیے) اور ہاتی سارا وقت اپنے خدائے بزرگ و برتر کے لیے رکھو ۔ پہلے اپنے دل کی صفائی میں لگ جاؤ۔ کیونکہ یہ فرض ہے ۔ پھر معرفت کے در پے ہو۔ چونکہ اگر تم نے اصل کو ضائع کر دیا تو تمہارا فرع میں مشغول ہونا قبول نہ ہوگا ۔ دل کی ناپاکی کے ساتھ ہاتھ پاؤں کی پاکی فائدہ نہیں دیتی۔ اپنے ہاتھ پاؤں کو سنت کے ذریعہ پاک کرو اور اپنے دل کو قرآن پر عمل کے ذریعہ ہے۔ اس کی حفاظت کرو تا کہ یہ تمہارے ہاتھ پاؤں کی حفاظت کرے ۔ ہر برتن سے وہی کچھ چھلکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے ۔ جو چیز تمہارے میں ہو گی تمہارے ہاتھ پاؤں پر ٹپکے گی ۔ تواضع کرو۔ جتنا جھکو گے اتنے ہی پاک ۔ بڑے اور بلند ہو گے ۔ اگر تم نے تواضع نہ کی تو تم خدائے بزرگ و برتر اور اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں اور اس کے حکم سے اور اس کے علم سے اور اس کی تقدیر ہے اور اس کی قدرت اور اس کی دنیا اور اس کی آخرت سے ناواقف ہو گے ۔ (کتنی نصیحتیں سنتے ہو مگر سمجھتے نہیں سمجھتے ہو مگر عمل نہیں کرتے (عمل بھی کرتے ہو) تو خالص اللہ کے لیے نہیں پھر میرے پاس آتے ہی کیوں ہو۔ تمہارا وجود اور عدم دونوں برابر میں جب تم میرے پاس آؤ اور میری بات پر عمل نہ کرو تو حاضرین پر (جگہ ہی) تنگ کرتے ہو تم ہر وقت اپنی دکان پر بیٹھے اپنے بدن کو ضائع کرنے لگے رہتے ہو۔ جب تم میرے پاس آتے ہو تو محض تفریح کے لیے آتے ہو۔ ایسے سنتے ہو جیسے سنا ہی نہیں ۔ اے دولت والو ! اپنی دولت کو بھول جاؤ ۔ آؤ۔ فقیروں میں بھی بیٹھو، اللہ کے لیے اور ان کے لیےجھکو۔ اے صاحب نسب ! اپنے نسب کو بھول جاؤ اور پہلے آؤ صحیح نسب تقویٰ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی آل کون ہے ، آپ نے فرمایا جس نے تقویٰ اختیار کیا ۔
آؤ تقوی کو آگے کر کے آؤ عقل سیکھو ۔ اللہ کی نعمتیں فقط نسب کے ذریعہ تمہارے ہاتھ نہ آئیں گی جبکہ اس وقت ہاتھ آئیں گی جب تمہارے لیے تقوی کا نسب صحیح ہو گا۔ اللہ تعالے نے فرما یا ۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے بزرگ وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ۔ اے لڑکے : اے جوان ، اے بوڑھے اور اے مرید : تم میں کوئی بھلائی نہیں جب تک تمہارا لقمہ حرام سے صاف نہ ہو تم میں سے اکثر بالعموم شبہ والی یا صاف حرام غذا کھاتے ہیں جو شخص حرام کھاتا ہے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے جو شبہ والی چیزیں کھاتا ہے اس کا دل مکدر (گدلا) ہو جاتا ہے نفس اور نفسانی خواہشات تمہارے لیے حرام کھانے کو آسان بنائے ہوئے ہیں نفس اور خواہشات ہی لذتوں اور مزوں کی طرف لپکتے ہیں۔ اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی اعانت ہو گی جب نفس کو جو کی روکھی روٹی کھلاؤ جبکہ تم اس کو گندم کی روکھی روٹی کھلا رہے ہو اور وہ تم سے شہد مانگ رہا ہو ۔ یہاں تک کہ اس کی انتہائی آرزو یہ ہو کہ کاش گندم کی روکھی ہی ملتی رہے۔ جب نفس کھانے پینے میں محتاط نہیں ہوتا۔ تو اس کی مثال اس مرغی کی سی ہوتی ہے جو کوڑوں پر چلتی پھرتی ہے اور گندی اور پاک (سب چیز) کھاتی جاتی ہے۔ (تو اس کے متعلق یہ حکم ہے) جو اس کو اور اس کے انڈوں کو کھانا چاہے تو (چند روز ) اس کو گھر میں بند رکھے پاک غذا کھلائے۔ (جب شک والی غذا کا اثر گوشت سے نکل جائے) پھر اس کو کھائے ۔ اپنے آپ کو حرام کھانے سے بچاؤ اور خود کو (اتنے دنوں) حلال پاک چیز کھلاؤ ۔ کہ جتنا گوشت حرام غذا کھانے سے بڑھا تھا۔ وہ زائل ہو جائے اور (پھر آئندہ) اپنے نفس کو حرام کھانے سے بچاؤ۔ اس کے بعد اس کو نفس کی خواہشات سے حلال کھانے سے بھی باز رکھو۔ جب تمہارے میں سے کسی شخص سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم اس عمل پر مرنا پسند کرتے ہو جس کو کر رہے ہو، تو وہ جواب دیتا ہے نہیں، جب اس کو کہا جاتا ہے تو بہ کر۔ اور نیک عمل کر تو کہتا ہے ۔ اگر خدائے بزرگ و برتر نے مجھ کو توفیق بخشی کروں گا۔ تو بہ کرنے میں تقدیر کو حجت بنا تا ہے مگر مزوں اور لذتوں میں حجت نہیں ٹھہراتا غرض (توبہ کے متعلق ) آج کل عنقریب اور ہاں ہوں میں رہتا ہے کہ اچانک موت آجاتی ہے پھر اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے. اور وہ اپنے عیش و آرام اور مزہ میں لگا ہوتا ہے۔ عزو جاہ کی مسند سے پکڑ اٹھاتی ہے۔ دکان اور اس کے نفع سے بھینچ لیتی ہے۔ موت اچانک آجاتی ہے اور وصیت بھی لکھی نہیں ہوتی اور نہ ہی حساب تحریر کیا ہوتا ہے اور امیدیں اس کی لمبی چوڑی تھیں، یہی تصحیح فکر ہے کہ نیک لوگوں کو آبادی سے ویرانہ کی طرف دوڑایا اور ان کی خوشی اڑائی اور ان کے غم کو ہمیشگی بخشی۔ جو خدائے بزرگ و برتر کو پہچان لیتا ہے اس کا غم بڑھ جاتا ہے اور اس کا اندر ہی ہمکلام ہوتا ہے جس سے دل ہی دل میں اندر ہی باتیں کہتا رہتا ہے اور اس کو( رنج و فکر) کا ایک دھندا مصروف رکھتا ہے ۔ تمنا رکھتا ہے کہ مخلوق میں سے نہ کسی کی بات سنے اور نہ کسی سے ملے ۔ تمنا کرتا ہے اپنے بیوی بچوں اور مال سے چھوٹ جائے ۔ آرزو کرتا ہے کہ اس کا مقسوم دوسروں کی طرف منتقل کر دیا جائے ، چاہتا ہے اس کی طبیعت اور خلقت بدل کرفرشتہ بنا دیا جائے لیکن جونہی ان سب (بشری تقاضوں) سے خلاص پانے کا ارادہ کرتا ہے تو جو تشریعی حکم اس کے لیے ہے وہ روک دیتا ہے (کہ یہ رہبانیت ہے جو کہ حرام ہے )، اور ازلی تحریر اور علم الہی کا قید کرنے والا فرمان اس کو مقید کر دیتا ہے کہ تقدیر کے حکم کے مطابق بشریت کی تبدیلی ناممکن ہے ، پس وہ رات اور دن گونگا بنا رہتا ہے اور دنیا سے رخ پھیر کر اپنا منہ اپنے خدائے بزرگ برتر کی طرف کر لیتا ہے۔ پھر اس کی معرفت اس پر غلبہ کرتی ہے اس کے ظاہر اور باطن کو گونگا بنا دیتی ہے۔ حضرت فتح موصلی رحمتہ اللہ علیہ دعا میں یوں عرض کیا کرتے تھے ۔ مجھے دنیا میں کب تک محبوس اور مقید رکھو گے ۔ اپنی طرف کب منتقل فرماؤ گے ۔ تاکہ میں دنیا اور مخلوق سے راحت پاؤں۔ تمہاری مثال ایسی ہے ۔ جیسے نوح – ہمارے نبی اور ان پر درود سلام اور تمام نبیوں پر ہو۔ نے اپنے بیٹے سے فرمایا ۔ اے صاحبزادے- اے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ اس نے جواب دیا۔ میں پہاڑ پر جگہ لے لوں گا ۔ جو مجھے پانی (میں ڈوبنے سے) سے بچا دے گا ۔ واعظ تمہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ کشتی نجات میں سوار ہو جاؤ اور تم کہتے ہو کہ میں پہاڑ پر اپنا ٹھکانہ کر لوں گا۔ جو مجھے پانی میں ڈوبنے سے بچالے گا۔ تمہارا پہاڑ تمہاری امیدوں کی درازی اور تمہاری دنیا کی حرص ہے۔ مگر عنقریب موت کا فرشتہ آئے گا اور تم اپنے( تساہل توقع )کے پہاڑ میں غرق ہو جاؤ گے ۔ عقل کرو اللہ کے بندو اور اپنی جہالت کی حدود سے نکلو تم نے اپنے اچھے دین کی دیواروں کو بغیر بنیاد کے کھڑا کر دیا ہے اور تم نے اپنی ٹوٹی ہڈی کی بندش بے قاعدہ کی ہے تمہیں کھولنے اور پھر باندھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک دنیا تمہارے دلوں میں ہے۔ مجھے اپنے آپ پر اختیار دو۔ تا کہ میں تمہیں پاک اور صاف کر دوں۔ چند گھونٹ میں جو میں تمہیں پلاؤں گا۔ تمہیں پر ہیز گاری ، دنیا سے دوری ، تقوی و طہارت، ایمان ویقین اور علم و معرفت سب کو بھلا دینا اور سب سے فنا ہو جانا پلاؤں گا۔ اس وقت تم کو اپنے خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ ہستی اور اس سے نزدیکی اور اس کی یا دنصیب ہو گی۔ جو اللہ کے قابل بن جاتا ہے وہ مخلوق کے لیے سورج ، چاند اور رہبر بن جاتا ہے۔ اور ان کا ہاتھ پکڑ کر دنیا کے کنارے سے آخرت کے ساحل پر کھینچ لاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہر فن میں اس کے ماہرین سے مدد لیا کرو۔
اے صاحبزادے ! تم کمانے کھانے پینے اور نکاح کرنے کے لیے نہیں پیدا کیے گئے بس خیال کرو اور توبہ کرو. اور اپنے پاس موت کے فرشتہ کے آنے سے پہلے ہمارے نبی کریم ۔ اور تمام نبیوں اور فرشتوں (ان سب پر درود و سلام ہو) کی طرف رجوع کرو کہیں تمہیں آپکڑے اور تم اس بد عملی میں ہو۔ تم میں ہر شخص (شرعی امرونہی اور تقدیر سے آئی مصیبتوں) پر صبر کرنے کا مکلف ہے. لوگوں کی اور پڑوسیوں کی تکلیفوں پر صبر کرو۔ اس واسطے کہ صبر میں بڑی بھلائی ہے۔ تم میں سے ہر شخص کو صبر کرنے کا حکم ہے اور تم سے اس بارہ میں اور تمہارے زیر اثر لوگوں کے بارہ میں پوچھ ہوگی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تم میں سے ہر شخص افسر ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے زیر اثر لوگوں کے بارہ میں پرسش ہوگی ۔ تقدیر کی تلخی کو( دور سمجھ کر) برداشت کرو کہ یقیناً وہ شفا بن جائے گی صبر پر بھلائی کی بنیاد ہے۔ فرشتوں کی آزمائش ہوئی تو انہوں نے صبر کیا۔ نبیوں کی آزمائش ہوئی تو انہوں نے صبر کیا اور نیک لوگوں کی آزمائش ہوئی تو انہوں نے صبر کیا۔ تم ان لوگوں کے تابع ہو تو ان کی طرح ہی کام کرو۔ اور ان ہی جیسا صبر کرو – دل جب صحیح ہو جاتا ہے تو نہ وہ مخالفت کی پرواہ کرتا ہے نہ موافق کی نہ تعریف کرنے کی نہ برائی کرنے والے کی نہ دینے والے کی اور نہ نہ دینے والے کی ۔ نہ قریب کرنے والے کی نہ دور کرنے والے کی ۔ نہ مقبول بنانے والے کی نہ دھکے دینے والے کی ۔ کیونکہ صحیح دل تو توحید، توکل یقین، ایمان اور خدائے بزرگ و بر ترکی نزدیکی سے بھر جاتا ہے۔ وہ ساری مخلوق کو عاجزی ۔ انکساری اور محتاجی کی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ باوجود اس کے اپنے آپ کو کسی چھوٹے بچے سے بھی بڑا نہیں سمجھتا ۔ کافروں، منافقوں اور نافرمانوں سے ملنے کے وقت اللہ واسطہ کی عزت سے درندہ بن جاتا ہے۔ نیک لوگوں پرہیز گاروں اور محتاط لوگوں سے تواضع اور انکساری سے پیش آتا ہے جن کا یہ حال ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ صاحب عزو جلال نے فرمایا۔ کافروں کے لیے سخت گیرہیں اور آپس میں نرم دل ہیں اس وقت یہ بندہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالا ہو جاتا ہے ۔ اور عالم ظہور سے ما ورا اس (نرالی مخلوق سے) بن جاتا ہے جو خدائے بزرگ و برتر کے اس فرمان سے ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں پیدا کرتے ہیں جنہیں تم جانتے نہیں۔ یہ سب توحید – اخلاص اور صبر کا پھل ہوتا ہے ۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب (ہر تکلیف اور مصیبت پر صبر کیا تو ساتویں آسمان پر بلائے گئے اور انہوں نے خدائے بزرگ و برتر کو دیکھا اور اس سے نزدیک ہوئے۔ اور یہ (عالی شان )عمارت صبر کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے بعد ہی درست ہوئی۔ تمام خوبیاں صبر پر ہی مرتب ہوتی ہیں۔ اس واسطے خدائے بزرگ و برتر نے اس کو بار بار دہرایا اور اس حکم کی تاکید فرمائی ۔ اے ایمان والو ! صبر کرو صبردلا یا کرو. اور جمے رہو۔ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اے ہمارے اللہ ! ہمیں صبر کرنے والوں اور ان کا قول میں فعل میں خلوت میں جلوت میں صورت میں سیرت میں ، ہر حال میں اچھی طرح اتباع کرنے والا بنا ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دے اور آگ کے عذاب سے بچا۔
چوتھی مجلس :
مرید تو بہ کے سایہ کے نیچے کھڑا ہو تا ہے ۔ اور وہ مراد ” خدائے بزرگ و برتر کی عنایت کے سایہ تلے کھڑی ہوتی ہے ۔۔ مرید” چلا کر تا ہے ” مراد » اڑا کرتی ہے ۔ مرید دروازہ پر ہوتا ہے۔ اور ، مراد خلوت خانہ قرب کے دروازہ کے اندر ہوتی ہے ۔ مرید ، مجاہدہ کر کے ، مراد بن جاتا ہے۔ بغیر عمل کے نزدیکی چاہنے والا ہوا پرست ہوتا ہے ۔ ہم نے یہ بات شاذو نادر نہیں بلکہ اکثریت کے قاعدہ کے مطابق بیان کی ہے ۔ اے صاحبزادے ! آنحضرت موسی ۔ ہمارے نبی اور ان پر اور تمام نبیوں پر درود و سلام ہو ۔ کو کب قرب و محبت نصیب ہوئی مصیبتیں اٹھانے اور مجاہدے کرنے کے بعد جب فرعون کے گھر سے بھاگ نکلے، برسوں بکریاں چرانے کی محنت برداشت کی تب دیکھا جو کچھ دیکھا۔ یعنی کچھ مصیبتیں جھیل کر نزدیکی کے قابل ہوئے۔ جب بھوک پیاس اور غربت برداشت کی اور ان کا جو ہر کھل گیا تب حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کو ان کی بیوی بنایا ۔ ان کو بھلائی عورت کے ذریعہ ملی۔ کہ یہی ان کی مشقت اور اپنی بکریاں چرانے کا سبب بنی ۔ قصہ یہ ہوا۔ آپ بھو کے تھے اور بھوک بھی اپنا کام کر چکی تھی جب ان کی بکریوں کو پانی پلایا اور شرم نے درخت کے نیچے لا بٹھایا اور اس محنت پر اجرت طلب کرنے سے باز رکھا۔ تو ازل کے لکھے نے ان کی کمر مضبوط کی اور خدا کی حفاظت نے مدد فرمائی۔ اور خدائے بزرگ و برتر کی نظیر عنایات نے چست بنایا اور اپنے پروردگار محترم ومعظم سے سوال کے لئے گویا ہوئے ۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا۔ اے پروردگارجو اچھی چیز مجھ پر اتاریں میں اس کا محتاج ہوں۔ اس طرح (دعا) کی حالت میں تھے کہ حضرت شعیب کی بیٹی اپنے باپ کی اجازت لے کر آموجود ہوئی اور ان کو اپنے ساتھ لے گئی۔ جہاں اس کے والد تھے ۔ انہوں نے حال پوچھا تو آپ نے ان کو پورا قصہ بیان کر دیا تب انہوں نے فرمایا ۔ ڈرو نہیں ۔ تم ظالم لوگوں سے بچ گئے ہو۔ پھر اپنی بیٹی سے شادی کر دی ۔ اور (اور مہر کی رقم کے بدلہ) بکریاں چرانے کے لیے رکھ کیا ۔ تو فرعون کو بھول گئے اور اس میں دلالت محض رکھوالی اور چرانا نہیں تھا بلکہ وہ رات دن بکریوں کے ساتھ تھے ۔ پس جنگل میں اس نہ بولنے والی مخلوق کے ساتھ رہے فقر و افلاس سے زہد اور خلوت سیکھی۔ پس ان کا دل سب سے پاک ہو گیا۔ اور ان دس برسوں میں ان کا کام پکا ہو گیا ۔ فرعون کی بادشاہت ان کے دل سے نکل گئی اورجتنی دنیا اپنی تمام چیزوں کے ساتھ ان کے دل میں تھی سب نکل گئی۔ پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس مدت کو پورا کر دیا جو ان کے اور حضرت شعیب علیہ السلام ہمارے نبی اور ان پر درود وسلام ہو ۔ کے درمیان طے پائی تھی ۔ اور اس عہد سے آزاد ہو گئے جو ان کے ذمہ تھا۔ اور خدائے بزرگ و برتر کا عہد یا اس کا حق ان کے دل میں باقی رہ گیا تو حضرت شعیب علیہ السلام سے رخصت ہوئے۔ اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور مدین سے تین دن یا چند میل کی مسافت پر ان کو رات نے آلیا اور ان کی بیوی حاملہ تھی تو اسے درجہ زہ شروع ہو گئی تو اس نے ان سے آگ طلب کی کہ اس کی روشنی سے کام لیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چقماق پتھر پر رگڑا ۔ تاکہ اس سے آگ نکالیں، اس سے کوئی چیز نہ نکلی ۔ رات کافی ہوگئی اور اندھیرا زیادہ ہو گیا تو ان کو ہر جانب سے حیرت نے گھیر لیا۔ اور دنیا با وجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی۔ اس راستہ میں اجنبی اور اکیلے رہ گئے ۔ جسے وہ جانتے بھی نہیں اور ان کی بیوی اس تکلیف میں تھی تو تو سن لے ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھنے لگے کہ کوئی آواز سنیں یا کہیں آگ دیکھیں تو طور کی جانب ایک آگ دیکھی ۔ اپنی بیوی سے فرمایا، چین سے رہو۔ اس واسطے کہ میں نے ایک آگ دیکھ پائی ہے۔ شاید میں تمہارے پاس اس میں سے کچھ لے آؤں۔ اور آگ والوں سے سیدھی راہ بھی جان لوں ۔ پس جب آگ کے پاس آئے تو اپنی وادی کے کنارہ سے ایک پکارسنی ۔ جب اس کے قریب ہوئے اور اس سے ایک شعلہ لینے کا ارادہ کیا تو بات ہی بدل گئی۔ عادت رخصت ہوئی اور حقیقت کے سامان آموجود ہوئے۔ بیوی اور اس کی سب ضروریات کو بھول گئے ۔ (ادھر) ان کی بیوی کے پاس وہ (غیبی فرشتہ) آیا جس نے ان کا احترام کیا اور ان کے لیے سارا سامان تیار کر دیا اور جو درکار تھا فراہم کر دیا۔ تو ایک پکارنے والے نے ان کو پکارا۔ ایک مخاطب کرنے والے نے خطاب کیا اور ایک بات کرنے والے نے بات کی اور وہ خود اللہ تعالے تھے ۔ کہ وادی کے داہنی جانب کے کنارہ مبارک ٹکڑا سے ان کے دل کے درخت سے ان کو آواز سنائی اور فرمایا۔ اے موسی ۔ میں ہی اللہ رب العالمین ہوں ۔ فرمایا کہ میں ہوں اللہ یعنی فرشتہ نہیں ہوں ۔ نہ ہی جن ہوں نہ ہی انسان ہوں بلکہ پروردگار عالم ہوں۔ مطلب یہ کہ فرعون اپنی بات ( انا ربکم الاعلی) میں جھوٹا ہے میں تمہارا رب اکبر ہوں اور خدائی میرے ہی شایان شان ہے ۔ خدا تو فقط میں ہی ہوں جو فرعون اور اس کے علاوہ مخلوق جن انسان – فرشتوں اور سرکش سے لے کر تحت الثریٰ تک کی کائنات کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ تمہارے زمانے کو جاننے والا ہوں ۔ اور تمہارے اور قیامت تک آنے والی چیزوں کا جاننے والا ہوں ۔ میں ان کا( بغیر مثال کے) پیدا کرنے والا ہوں کس کی قدرت ہے ۔ کہے ۔ کہ میں اللہ ہوں۔ خدائے بزرگ و برتر بولنے والے میں گونگے نہیں ہیں ۔ اس واسطے خدائے بزرگ و برتر نے اپنی کلام میں تاکید فرمائی اور موسی علیہ السلام نے بول کر بات کی۔ اللہ تعالی کے لیے کلام ثابت ہے جو سنا اور سمجھا جاتا ہے جب موسی علیہ السلام نے اللہ کا کلام سنا ۔ آپ کی جان نکلنے والی ہوگئی اور ہیبت کی وجہ سے منہ کے بل گر پڑے۔ اور ایسا کلام سنا جو پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔ آپ کو بشری کمزوری ہوئی اور اس نے گرا دیا۔ حق تعالی نے ایک فرشتہ بھیجا جس نے ان کو کھڑا کیا اور اپنا ایک ہاتھ آپ کی چھاتی پر رکھا اور دوسرا پیٹھ کے نیچے رکھا تو کھڑا ہونے کے قابل ہوئے عقل حاضر ہوئی۔ یہاں تک کہ اللہ کا کلام سمجھنے پوچھنے کے قابل ہوئے مگر یہ قابلیت اس وقت ہوئی جب ان پر قیامت برپا ہوگئی اور زمین با وجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہو گئی۔ پھر ان کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس جانے کا حکم دیا۔ تاکہ ان کے لیے رسول ہوں ۔ تب عرض کیا۔ اے پروردگار میری زبان کی گرہ کھول دیجئے تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میری کمر میرے بھائی( ہارون علیہ السلام) کو میرے ساتھ رسالت عنایت کرنے سے مضبوط کیجئے۔ اور حضرت موسی علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی ۔ صاف بات کرنے پر قدرت نہ تھی۔ اس واقعہ کی بنا پر جو اُن کو فرعون کے ساتھ بچپن کی حالت میں پیش آیا تھا۔ تو یہ حال تھا۔ کہ جب کوئی لفظ بولنا چاہتے بھرتے ۔ اور اتنا عرصہ میں حروف نکالنے کی کوشش کرتے۔ جتنے میں دوسرا ستر لفظ ادا کر دے اور اس کا سبب بھی وہ واقعہ تھا جو ان کو بچپن کی حالت میں فرعون کے گود میں پیش آیا تھا۔ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے ان کو فرعون کے سامنے کیا اور اس سے کہا کہ یہ میرے تمہارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ اسے قتل مت کرو۔ تو اس نے ان کو لیا ۔ اور چھاتی سے لگا کر چومنا چاہا ۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو داڑھی سے پکڑ لیا اور اس کو خوب ہلایا۔ اس پر فرعون نے کہا یہی وہ بچہ ہے جس کے ہاتھوں پر میری سلطنت کا زوال ہوگا۔ میرے لیے اس کا قتل کرنا ضروری ہے۔ اس پر حضرت آسیہ نے کہا ، یہ ننھا سا بچہ ہے نہیں سمجھتا کہ کیا کرتا ہے ۔ (جب فرعون کو اپنی ضد پر جما دیکھا تو حضرت آسیہ نے مشورہ دیا کہ اس کے سامنے ایک موتی اور ایک انگارہ رکھ دو پس اگر دونوں میں فرق سمجھے اور اپنے ہاتھ موتی کی طرف بڑھائے اور آگ سے ڈرے تو اسے قتل کر دیجئے اور اگر دونوں میں فرق نہ سمجھے اور اپنے ہاتھ آگ کی طرف بڑھائے تو اسے قتل نہ کیجئے اور دونوں نے اس پر ایک دوسرے سے شرط لگائی۔ اور دونوں چیزیں ان کے سامنے لا رکھی گئیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ آگ کی طرف بڑھایا اور اس سے ایک چنگاری لے کر اپنے منہ میں رکھ لی جس سے (زبان میں چھالا پڑ کر گرہ لگ گئی اور صاف )بولنا جاتا رہا۔ تب حضرت آسیہ نے کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ جو کرتا ہے اس کو سمجھتا نہیں۔ اور اپنے ارادہ سے نہیں کرتا۔ چنانچہ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھوڑ دیا اور خدائے بزرگ و برتر نے ان کی پرورش اس کے گھر میں کی۔ سبحان اللہ۔ زبان کی آزمائش کی او اس سے ان کے لیے ہر قسم فکر اور تنگی کے کھلنے اور اس سے نکلنے کا سامان کر دیا ۔ اللہ کا ارشاد ہے
وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجۡعَل لَّهُۥ مَخۡرَجٗا ٢ وَيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُۚ وَمَن يَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسۡبُهُۥ
جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے راستہ کھول دیتا ہے۔ اور اس کو ایسے طریقہ سے رزق پہنچا تا ہے جہاں اس کا خیال بھی نہیں جاتا۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہوتا ہے یہ دل جب صاف اور صحیح ہو جاتا ہے تو خدائے بزرگ و برتر کی پکار کو اپنی چھ طرفوں سے سنتا ہے۔ ہر چیز کی پکار سنتا ہے ۔ اور رسول اور ولی اور صدیق اس وقت اس کے نزدیک ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی زندگی اللہ سے نزدیکی والی بن جاتی ہے ۔ اور اس کی موت اس سے دور ہو جاتی ہے ۔ اس کی خوشی اس سے راز و نیاز میں ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہر ایک چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے ۔ نہ دنیا کے جاتے رہنے کی پرواہ کرتا ہے ۔ نہ ہی بھوک ۔ پیاس بیماری اور ہر پیش آنے والی چیز کی پرواہ کرتا ہے۔ شریعت کے احکام پر جمے رہو. اس کی بدولت تمہارے لیے علم الہی سے پردہ اٹھ جائے گا ۔ خدائے بزرگ و برتر نے تمہیں صبر کا حکم دیا ہے اور تمہیں عام طور پر یہ حکم دیا۔ حکم ان کے لیے بھی ہے اور تمہارے لیے بھی۔ چنانچہ اللہ تعالے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر صبر کا حکم دیا ہے اور تمہیں عام طور پر یہ حکم دیا ہے۔ چنانچہ اللہ نے فرمایا ۔ آپ اس طرح صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا. اے محمد: (صلی اللہ علیہ وسلم) اس طرح صبر کیجئے جس طرح انہوں نے اپنے بیوی بچوں اپنے مال و اولاد اور مخلوق سے اپنی تکلیف پر میرے قضا و قدر کے فیصلوں پر صبر کیا تھا۔ چنانچہ ان سب چیزوں کا(نہایت قوت اور ) برداشت کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ تم میں کتنی کم برداشت دیکھتا ہوں تم سے کوئی اپنے کسی دوست کی بھی ایک بات برداشت نہیں کرتا۔ اور نہ ہی اس کے عذر کو مانتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی پیروی کرنے کے لیے اخلاق و افعال سیکھو اور آپ کے نقش قدم پر چلو۔ شروع کے بوجھ پر صبر کرو کہ آخر میں راحت نصیب ہو۔ شروع میں تنگی ہوا کرتی ہے مگر آخر میں سکون ۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (شروع میں نبوت سے پہلے) خلوت محبوب تھی۔ ایک دن آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ کوئی پکارتا ہے ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو آپ اس آواز سے بھاگے ۔ اور نہ جانا کہ یہ کیا ہے ۔ ایک زمانہ اس حالت میں رہے ۔ پھر جانا۔ کہ وہ کیا ہے ۔ تو جمے رہے ۔ بعد میں جب یہ آواز بند ہو گئی تو آپ کا دل تنگ ہوا ، اور (گھبرا کر پہاڑوں میں گھومنے لگے پس قریب تھا کہ آپ اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا دیں (یہ اراده خود کشی نہیں ۔ جو عصمت کے خلاف ہو۔ جبکہ وجد و غلبہ حال کی ایک غیر اختیاری حالت ہوتی ہے جو وقوع میں بھی آئے تو بدن کو ذرہ برابر نقصان نہیں دیتی۔ اقطاب و اغواث پر یہ حال گزرتا ہے اور وہ جوش محبت الہیہ میں پہاڑ سے گرتے ہیں تو زمین پر ایسے آ پڑتے ہیں جیسے ہوا میں پرند یا دریا میں مچھلی ۔)۔ پہلے بھاگا کرتے تھے اور پھر (بعد میں) اس کو خود ڈھونڈا کرتے تھے۔ ابتدا میں اضطراب تھا اور انتہا میں سکون ۔ مرید (اپنے محبوب کا) طالب ہوتا ہے ۔ اور مراد (خود محبوب کا )مطلوب بنا تا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام طالب تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مطلوب تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے وجود کے سایہ کے نیچے رہے اور طور سینا کے پہاڑ پر دیدار الہی کے طالب ہوئے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ مطلوب تھے ۔ بلا مانگے دیدار ملا۔ اور شوق اور درخواست کے بغیر نزدیک کیے گئے ۔ اور تو نگری کی استدعا کے بغیر تونگر بنا دیئے گئے ۔ اور آپ نے (دوسروں سے چھپائی چیزوں کو بلا طلب کے دیکھا، حضرت موسی ، ہمارے نبی اور ان پر درود و سلام ہو۔ نے دیدار الہی طلب کیاعطا نہ کیا گیا۔ اور سینا میں (بے ہوش ہو کر) گر پڑے ۔ شاید ایسی چیز کے مانگنے کی پاداش میں جو ان کے لیے دنیا میں مقدر نہ کی گئی تھی۔ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسن ادب برتا اور اپنی قدر کو سمجھا( کہ اللہ کا غلام ہوں ۔ آقا سے دیدار کی طلب بے ادبی ہے) تواضع اور انکساری کی اور بے تکلفی نہیں کی تو وہ چیز عطا ہوئی جو اوروں کو عطا نہ ہوئی۔ اس لیے کہ آپ نے اللہ کے سوا ہر چیز کو بھلا دیا ۔ اور موافقت اختیار کی ۔ حرص بڑی چیز ہے. خدائے بزرگ و بر تر نے جو تمہارے لیے تجویز کر دیا اس پر قناعت کرو اور راضی ہو جاؤ جس نے صبر کیا (اللہ تک )پہنچ گیا جس نے صبر کیا اس کا دل غنی ہوا اور اس کا فقر جاتا رہا ۔ خلوت اختیار کرو کہ عبادت اور اخلاص پر قدرت پاؤ گے ۔ بڑے ساتھیوں کے بجائے تنہائی بہتر ہے ۔ ایک بزرگ سے منقول ہے کہ ان کے پاس ایک کتا پلا ہوا تھا کسی نے پوچھا کہ اپنے پاس اس کتے کو کیوں رکھ چھوڑا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ برے ساتھی کی نسبت اچھا ہے ۔ نیک لوگ خلوت کیوں پسند نہ کریں جبکہ ان کے دل اپنے خدائے بزرگ برتر کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں۔ اور مخلوق سے کیوں نہ بھاگیں جبکہ ان کے دل اپنے نفع اور نقصان پر نظر کرنے سے غائب ہو چکے ہوتے ہیں اور نفع اور نقصان کو اپنے خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے سمجھنے لگتے ہیں۔ قرب الہی کی شراب ان کو زندہ کرتی ہے. اور غفلت ان کو مارتی ہے۔ شریعت ان کو گویائی دیتی ہے۔ اور بھیدوں سے واقف ہونا ان کو رلاتا ہے مخلوق کے نزدیک تم ان کو دیوانے سمجھتے ہو ۔ مگر اپنے خدائے بزرگ و برتر کی نسبت سے وہ عقل و حکمت اور علم و فہم والے ہوتے ہیں جو زاہد بننا چاہے ایسا بنے وگرنہ تو مشقت میں نہ پڑے ۔
اے تکلف و تصنع کرنے والے تم جس چیز میں ہو۔ یہ سب بکو اس ہےنفس خواہش جہالت نظر بد خلق کے ہوتے ہوئے دن کا روزہ رکھتے ۔ رات کو کھڑے ہونے اور کھانے اور پینے میں روکھا پن اختیار کرنے سے بات نہیں بنتی۔ اور یہ تو محض سب چیزوں سے بے تکلفی سے حاصل ہوتی ہے ۔ اخلاص اختیار کر ( ریا وخلق سے خلاصی پاؤ گے ۔ اصلی بات پر غور کرو۔ (کہ مالک او روہی ایک ہے، تو بے شک اخلاص نصیب ہو جائے گا۔سچے بنو پہنچ جاؤ گے۔ اور نزدیک ہو جاؤ گے ۔ اپنی ہمت بلند رکھو ۔ یقیناً بلندی پاؤ گے۔ خود کو ہر حال میں اللہ کے حوالہ کرو سلامت رہو گے ۔ (امر مقدر) کی موافقت کرو. یقینا تمہاری بھی موافقت کی جائے گی۔(یعنی جو مانگے گا۔ ملے گا) تو ( تقدیر الہی) پر راضی ہو جا۔ یقینا تمہارے سے اللہ راضی ہو جائے گا ۔ شروع تو کرو۔ یقیناً اللہ پورا کر دے گا ۔ اے اللہ ! ہمارے دنیا اور آخرت کے سب معاملات کا کفیل اور کار ساز بن جا۔ اورہمیں خود ہمارے سے بچا۔ اور نہ ہی اپنی مخلوق میں سے کسی کے حوالہ نہ فرما ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے بچا ۔
پانچویں مجلس :
اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک کلام میں فرمایا جھوٹا ہے جو میری محبت کا دعوی کرے مگر جب اس پر رات آئے تو سو جائے.(یعنی تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے کا ارادہ بھی نہ کرے). اگر تو خدائے بزرگ و برتر کے پیاروں میں سے ہو گا تو ضرور اٹھ کھڑا ہوگا ۔ اور سونا غلبہ ہی کے وقت ہو گا ۔ محب محنت میں رہتا ہے اور محبوب راحت میں محب طالب ہوتا ہے۔ (اس لیے محبوب کی طلب میں سرگرداں رہتا ہے) اور محبوب مطلوب ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالے جبرائیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ اے جبریل ! فلاں کو جو کہ محب ہے (تہجد کے لیے اٹھا دو۔ اور فلاں کو جو کہ محبوب ہے۔ سلا دو ۔ چونکہ اس نے میری محبت کا دعویٰ کیا ہے۔ ضروری ہے کہ میں اس کو آزماؤں اور اس کو اس کی جگہ کھڑا کروں تاکہ میرے سوا اوروں کے ساتھ اس کی ہستی کے تمام پتے گر جائیں۔ لہذا اس کو اٹھاؤ ۔ تاکہ اس کے دعویٰ کی دلیل ظاہر ہو جائے ۔ اور اس کی محبت ثابت ہو جائے۔ اور فلاں کو جو کہ محبوب ہے، سُلا دو۔ کہ وہ دیر تک مشقت اٹھا چکا ہے اور اس کے پاس میرے سوا کسی اور کا کوئی حصہ باقی نہیں رہا اور اس کی محبت میرے ساتھ صحیح ہو گئی ہے اور ثابت ہو گئی ہے۔ اب میری نوبت آئی ہے اور میری وعدہ وفائی کا نمبر آیا ہے۔ وہ (میرا) مہمان ہے اور مہمان سے خدمت اور محنت نہیں لی جاتی ۔ اس کو میری آغوش لطف میں سلا دو ۔ اور اس کو میرے دستر خوان فضل پر بٹھا دو. اور اس کو میرے قرب سے مانوس کرو۔ اس کی محبت صحیح ہو گئی ہے جب محبت صحیح ہو جاتی ہے تو تکلیف زائل ہو جاتی ہے ۔ دوسری طرح یہ ہے کہ فلاں کو سلا دو کہ وہ میری عبادت کر کے مخلوق کو متوجہ کرنا چاہتا ہے ۔ فلاں کو اٹھا دے. چونکہ وہ میری عبادت سے میری ذات (خوشنودی) چاہتا ہے ۔ فلاں کو سلا دو کہ میں اس کی آواز سننی نا پسند کرتا ہوں ۔ اور فلاں کو اٹھا دو کہ میں اس کی آواز سننی پسند کرتا ہوں۔محب محض اس وقت محبوب بنتا ہے جبکہ اس کا دل خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ سے پاک ہو جائے۔ پھر اللہ کو چھوڑ کر اس کے غیر کی طرف آنے کی تمنا جاتی رہتی ہے ۔ اس مقام پر دل کا پہنچنا اس وقت ہوتا ہے کہ تمام فرائض ادا کرے۔ حرام اور شبہ والی چیزوں سے رک جائے اور نفس شہوت اور وجود کے تقاضوں سے جائز اور حلال چیزوں کے کھانے کو بھی چھوڑ دے ۔ اور پوری احتیاط اور پورا زہد استعمال میں لائے اور یہ خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ سب کو چھوڑنا ہے نفس۔ شہوت اور شیطان کی مخالفت کرنا ہے اور مخلوق کو دل کو اس طرح پاک کر لینا ہے کہ تعریف اور بُرائی ملنا اور نہ ملنا اور پھر اور ڈھیلے سب برابر ہو جائیں۔ اس کی پہل یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اور اخیر یہ ہے کہ پھر اور مٹی یعنی چاندی سونا اور مٹی کنکر سب برابر ہو جائیں جس کا دل صحیح ہو جائے اور اپنے خدائے بزرگ و برتر سے واصل ہو جائے اس کے نزدیک پتھر اور مٹی تعریف اور برائی ۔ بیماری اور تندرستی نا داری اور مالداری اور دنیا کی توجہ اور بے رخی سب برابر ہو جاتی ہے اور جس کو یہ بات نصیب ہو اس کا نفس اور خواہش مرجاتی ہے ۔ اور طبیعت کی تیزی ماند ہو جاتی ہے اور اس کا شیطان مطیع ہو جاتا ہے ۔ دنیا اور اہل دنیا کو حقیر سمجھتا ہے اور اس کا دل مخلوق کے اندر رہتے اندر ہی اندر سرنگ بنا لیتا ہے جس میں چل کر خالق تک پہنچ جاتا ہے۔ دائیں بائیں سے سب مٹ جاتے ہیں۔ اور الگ ہو کر اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کی سچائی اورہیبت سے بھاگتے ہیں۔ اس وقت وہ عالم ملکوت میں سردار کے نام سے پکارا جاتا( اور افسر خلق قطب یا غوث قرار دیا جاتا )ہے ساری مخلوق اس کے دل کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے اور اس کے سایہ میں پناہ پکڑتی ہے(اے ریا کار واعظ) تم اس ہوس میں مت پڑو ۔ جو بات تمہاری نہیں اور نہ تمہارے پاس ہے اس کا دعوی مت کرو۔ تمہارا تو یہ حال ہے کہ تمہارا اپنا نفس تم پر غلبہ کیسے ہوئے ہے ۔ خدائے بزرگ و برتر کی نسبت مخلوق اور دنیا تمہارے نزدیک بڑی ہے تم اللہ والوں کی قطار اور شمار سے خارج ہو۔ اگر تمہیں اس چیز تک پہنچنے کی چاہت ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا اور تمام چیزوں سے اپنے دل کو پاک کرنے میں مشغول ہو جاؤ۔ تمہارا تو حال یہ ہے کہ اگر ایک نوالہ تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے یا تمہارا ایک دانہ ضائع ہو جائے یا ذرا آبرو کو بٹہ لگ جائے تو تمہارے لیے قیامت برپا ہو جاتی ہے اور اپنے خدائے بزرگ وبرتر پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہو اور تمہارا غصہ اپنے بیوی اور بچوں کو پیٹ کر اترتا ہے اور اپنے دین اور نبی کو بھول جاتے ہو ۔ اگر تم بیدار اور صاحب نظر لوگوں میں سے ہوتے تو تم اللہ تعالے کے سامنے گونگے بن جاتے اور اسے سارے افعال اپنے حق میں نعمت اور اپنی طرف نظر (کرم سمجھتے ۔ یاد کرو ۔ بھوکوں کی بھوک کو ننگوں کے ننگ کو بیماروں کی بیماری کو اور قیدیوں کی قید کو (کہ وہ لوگ کیسی کیسی سخت مصیبتوں میں مبتلا ہیں) تو تمہارے لیے تمہاری اپنی بلا نیکی ہو جائے گی ۔ قیامت کی ہولناکیوں اور قبروں کے مردوں کو یاد کرو اپنے بارہ میں اللہ کے علم کو اور اپنی ذات پر اس کی (فضل و کرم اور غیظ و غضب) کی نگاہوں کو اور یاد کرو از لی تحریر کو تاکہ ان باتوں کے تصور سے تمہیں شرم آنے لگے ۔ جب کسی کام میں تنگی پیش آئے تو اپنے گناہوں کو سوچا کرو اور ان سے توبہ کیا کرو. اور اپنے نفس سے کہا کرو کہ تمہارے گناہ کی وجہ سے ہی خدائے بزرگ برتر نے تمہیں تنگی دی ہے جب تم گنا ہوں سے تو بہ کرو گے اور حق تعالے سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے ان سب سے اور ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مصیبت سے چھٹکارے کی راہ نکال دیتے ہیں۔ اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتے میں جہاں اس کا گماں بھی نہیں ہوتا ۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتے میں عقلمند وہ ہے جو (محبت کے دعوی) میں سچا ہے اور چھوٹوں سے اپنی سچائی کی وجہ سے ممتاز ہو جائے ۔ اور کفر کے بدلہ سچائی کو فرار کے بدلہ قرار کو ، بے رخی کے بدلے توجہ کو ۔ بے صبری کے بدلہ صبر کو ناشکری کے بدلہ شکر کو ناراضی کی جگہ رضا کو ۔ لڑائی جھگڑے کی جگہ موافقت کو اور شک کی بجائے یقین کو اختیار کرے۔ جب تم (مقدر کی باتوں میں ) موافقت کرو گے اور چوں و چراں نہ کرو گے۔ شکر کرو گے اور نا شکری نہ کرو گے ۔ راضی رہو گے ناراض نہ ہو گئے اور مطمئن ہوگئے اور شک نہ کرو گے تو تمہاری ہر تکلیف میں) تمہیں کہا جائے گا۔ کیا اللہ اپنے بندہ کو کافی نہیں ؟
یہ سب حالات جن میں سے تم گزر رہے ہو اور قائم ہو ۔ (اللہ کی نظروں سے گرے ہوتے ہیں) اور ان میں سے کسی ایک پر بھی اللہ نگاہ نہ کریں گے ۔ یہ چیز ( کہ اللہ کی رحمت کی نظر پڑے) بدن کے اعمال سے حاصل نہیں ہوا کرتی ۔ یہ تو محض دل کے اعمال سے حاصل ہوا کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھو کہ
يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱلۡقَوۡلِ ٱلثَّابِتِ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِي ٱلۡأٓخِرَةِ
اللہ تعالے ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں سچی بات پر ثابت قدم رکھتے ہیں اور یہ ارشاد کہ
تجھے دشمنوں سے بچانے کیلئے اللہ کافی ہے اور وہ سننے جاننے والا ہے ۔ اور یہ ارشاد کہ اللہ بندہ کو کافی نہیں ہے ؟ ۔ اور کثرت سے لاحول پڑھو کہ سوائے اللہ بہتر و با عظمت کے نہ کسی میں طاقت ہے نہ زور۔ اور استغفار اور سبحان اللہ کا ورد رکھو اور خدائے بزرگ و برتر کو سچے دل سے یاد کرو. که شکر آفات نفس شہوت اور شیطان کی فوجوں سے مامون رہو۔ میں تمہیں کتنا سمجھاتا ہوں مگر تم نہیں سمجھتے جس کو اللہ ہدایت دے۔ تو اسے کوئی نہیں بھڑکا سکتا اور جس کو وہ بھٹکا دے تو اسے کوئی راہ پر نہیں لاسکتا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گمراہوں کا ہدایت پانا بہت پسند تھا۔ اور (ہر وقت) اس کی تمنا تھی پس اللہ تعالے نے ان کو وحی بھیجی ۔ جسے آپ محبوب سمجھیں ۔ آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دے چنانچہ اس وقت آپ نے فرمایا کہ میں ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہوں مگر ہدایت میرے اختیار میں نہیں ۔ اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ مگر گمراہی اس کے اختیار میں نہیں اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ تلوار بذات خود (کسی چیز کو) نہیں کاٹ سکتی بلکہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ سے) کاٹتے ہیں ۔ اور آگ بذات خود نہیں جلا سکتی۔ بلکہ اللہ تعالے اس کے (واسطہ سے) جلانے والے ہیں۔ اور کھانا بذات خود (بھو کے کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ بلکہ اللہ تعالے اس کے ذریعہ سے) پیٹ بھر دیتے ہیں۔ اور پانی بذات خود (پیاسے کو سیراب نہیں کر سکتا بلکہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ سے) سیراب کرتے ہیں۔ اور یہی حال مرفوع کی ہر چیز کا ہے اس میں اور اس سے تصرف فرمانے والے اللہ تعالی ہی ہیں اور یہ سب چیزیں ان کے سامنے ہیں۔ ان سے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہمارے نبی اور ان پر درود و سلام ہو کہ جب آگ میں پھینکا گیا اور اللہ تعالے نے چاہا کہ یہ اس سے نہ جلیں تو یہ ان پر ٹھنڈی ہوگئی اور سلامتی والی بنادی صحیح حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ۔ قیامت کے دن (پل صراط پر سے گزرنے کے وقت) دوزخ کہے گی ۔ اے ایمان والے ! جلدی گزر جاؤ کہ تمہارا نور میرے شعلوں کو بجھائے جاتا ہے. کمینہ کو لاٹھی سے پیٹنے کی ضرورت ہوتی ہے اور شریعت کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اے اللہ کے بندو! پانچ نمازوں کو ان کے وقت پر اور ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کرو. اور کسی نماز سے غافل نہ ہو ۔ کیا تم نے اللہ تعالی کا فرمان نہیں سنا کہ ان نمازیوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نمازوں سےغافل ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم- (جن کے بارہ میں یہ آیت نازل ہوئی) انہوں نے نماز کو ترک نہیں کیا تھا۔ ہاں وقت سے موخر کر دیا تھا ۔ تو بہ کرو ۔ اللہ تمہارے پر رحم فرمائے۔ اور اپنی توبہ میں تو بہ قبول کرنے والے سے ڈرو۔ گزشتہ کو تا ہی سے توبہ کرو اور نماز کو اپنے وقت سے موخر کرنے سے توبہ کرو ۔ اے شیطان کی چال اور قریب میں آنے والو، اور اے شیطان کے دھوکہ میں پھنسنے والو ۔ (کہ وقت کی تاخیر کے صلے مہمانوں پر خود کو معذور سمجھ لیتے ہو، اس کے آگ کے عذاب کو یاد کر کے نافرمانی نہ کرو اس (ذات) سے غرور نہ کرو جو دنیا میں (بطور عذاب) اندھا ، بہرا لنجا۔ بے صبر محتاج اور سخت دل مخلوق کا ضرورت مند بنا دیتی ہے اور آخروی عذاب دوزخ ہے اور یہ سب نا فرمانیوں اور لغزشوں کی شامت ہے۔ ہمیں اللہ اپنے انتقام اپنی گرفت اپنی پکڑ اپنی گرفت و غضب سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ اے اللہ ہمیں معاف فرما۔ اور ہمارے ساتھ حلم وکرم کا برتاؤ فرما۔ نہ کہ عدل کا۔ اور ہمیں اپنی موافقت نصیب فرما۔ (کہ تیری تجویز اور تقدیر پربے صبر نہ بنیں، آمین ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ حق تعالے نے جہنم میں سپاہیوں کی ایک کثیر جماعت پیدا کی ہے جن کے ذریعہ سے اپنے دشمنوں کافروں سے انتقام لے گا پس جب کسی کافر کو پکڑنا چاہے گا تو فرمائے گا۔ اسے پکڑ لو ۔ جس پر ستر ہزار سپاہی جھپٹیں گے اور جس کے ہاتھ میں وہ آ پڑے گا تو اس طرح پگھل جائے گا جیسے آگ پر چربی پگھلتی ہے تو اس کے جسم میں سوائے چکناہٹ کے کچھ باقی نہ رہے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرا جسم دے دیں گے تو وہ اس کے گلے میں طوق اور پاؤں میں آگ کی بیٹڑی ڈال دیں گے اور اس کے سر پیروں کے ساتھ ملا کر باندھ دیں گے ۔ پھر جہنم میں جھونک دیں گے ۔ کسی پوچھنے والے نے خواطر” دل میں گزرنے والی باتوں کے متعلق سوال کیا ۔ (یعنی کسی بات کو اللہ کا الہام سمجھا جائے تو آپ نے جواب دیا ۔ تم کیا سمجھے کہ خاطر حق کیا چیز ہے۔ تمہارے – خواطر، تو سب شیطان اور طبیعت اور تقاضا نفس اور دنیا کی طرف سے ہیں تمہارے دل میں وہی پڑے گا جس کا تمہیں ہر وقت دھیان رہے گا ۔ تمہارے – خواطر بھی تمہارے تفکرات ہی کی جنس سے ہیں۔ وہ کام کیا دے سکتے ہیں۔ خاطر حق تو محض اسی دل میں آتا ہے جو ماسوائے اللہ سے خالی ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے( حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کو پاس رکھنے کی تدبیر میں جب پیالہ ان کی خرجی میں رکھوا دیا۔ اور برادران یوسف کے قافلہ کو روکا گیا کرتم چور ہور تلاشی دلاؤ اور پیالہ بنیامین کے اسباب میں سے برآمد ہوا تو بھائیوں نے درخواست کی کہ ان کے بدلہ ہم میں سے کسی کو رکھ لو۔ تو اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ جس کے پاس سے ہمارا مال بر آمد ہوا ہے سزا کے طور پر اسے ہی روکا اور رکھا جائے گا۔ دوسروں کو نہیں ۔)۔ جب تمہارے پاس اللہ اور اس کی یاد ہو ، تو لا محالہ تمہارا دل اس کے قرب سے لبریز ہو جائے گا ۔ خاطر شیطان خاطر دنیا اور خاطر ہویٰ تمہارے پاس سے بھاگ جائے گا۔ جب تم خاطر نفس خاطر ہویٰ ۔ خاطر شیطان اور خاطر دنیا سے رخ پھیر لو گے تو تمہارے پاس خاطر آخرت ۔ پھر خاطر نیکی اور پھر سب سے آخر میں خاطر حق آئے گا کہ منتہا وہی ہے۔ اے لوگو ! خدائے بزرگ و برتر تمہیں نعمتیں اس لیے بخشتا ہے تاکہ دیکھے تم شکر کرتے ہو یا ناشکری آشنا بنتے ہو یا نا آشنا – اطاعت کرتے ہو یا نا فرمانی ۔ ایسے مت ہو کہ دنیا میں تعریف پھیلی ہوئی ہو ۔ اور باطن میں عیب چھپا ہوا ہو۔ اس تعریف) پر مت پھولو۔ کہ عنقریب رسوائی پیش آئے گی ۔ یا تو جلدی ہی (دنیا میں) یا بدیر( آخرت میں۔ بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ کہا کرتے تھے ۔ اے اللہ! آپ نے مجھے میری حیثیت سے زیادہ دیا ہے اور میری شہرت و تذکرہ کو لوگوں میں پھیلا دیا ہے۔ اے اللہ ! قیامت کے دن مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کیجئے گا کیونکہ مجھ میں عیب چھپا ہوا ہے اور شہرت پھیلی ہوئی ہے ۔ (اگر عیب کو ظاہر فرما دیا توثنا خوانوں میں بڑی ذلت ہو گی )۔ تمہارے نفاق ۔ تمہارے لسانیت تمہارے لهو و لعب تمہارے چہرہ کے زرد بنانے ، گدڑی میں پیوند لگانے اور تمہارے کندھے اور کپڑے سکڑنے سے حق تعالیٰ کی طرف سے کچھ ہاتھ نہ پڑے گا۔ یہ (بزرگ بننے کی باتیں) سب تمہارے نفس ، تمہارے شیطان تمہارے مخلوق سے مشترک کرنے اور ان سے دنیا طلب کرنے کی بنا پرہیں ، دوسروں کے ساتھ حسن ظن رکھو اور اپنے نفس کے ساتھ سوءظن اور اپنے آپ کو حقیر سمجھو اور اپنے حال کو چھپاؤ اور اسی پر قائم رہو یہاں تک کہ (اللہ ہی کی طرف سے تمہیں حکم دیا جائے کہ جو نعمت تمہیں اللہ نے دی ہے ، اسے ظاہر کرو ۔ دینی ارشاد و ہدایت کی کھلی مسند پر بیٹھو حضرت شمعون رحمتہ اللہ علیہ سے جب کسی کرامت کا ظہور ہوتا۔ تو فرمایا کرتے ۔ یہ دھو کا ہے۔ یہ شیطان کی طرف سے ہے ۔ تا کہ میں اپنے آپ کو بزرگ سمجھ بیٹھوں ، یہاں تک کہ ان کو ارشاد ہوا کہ تم کون تمہارا باپ کون بس ہماری نعمت کا اظہار کرو۔(یعنی اتنا انکسار اور اتنی بدظنی مت کرو) اے (اللہ کی محبت رکھنے والو۔ اے ارادت رکھنے والو ۔ ڈرو کہیں حق تعالیٰ کا دامن تمہارے ہاتھ سے چھوٹ جائے ۔ اگر یہ ہاتھ سے چھوٹا ۔ تو ہر چیز ہاتھ سے چھوٹی ۔ حضرت عیسی ۔ ہمارے نبی اور ان پر درود و سلام ہو ۔ کی طرف اللہ نے وحی فرمائی۔ اے عیسی (علیہ السلام) اس سے ڈرو کہ میں تمہارے ہاتھ سے چھوٹ جاؤں ۔ اگر میں تمہارے ہاتھ سے چھوٹا تو ہر چیز تمہارے ہاتھ سے چھوٹی۔ اور حضرت موسی اور ہمارے نبی پر درود و سلام ہو نے اپنے خدائے بزرگ و برتر سے دعا کے دوران عرض کیا۔ اے پروردگار مجھے کچھ نصیحت فرمائیے ۔ ارشاد فرمایا گیا کہ تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ میرے ہو جاؤ۔ اور مجھے ہی چا ہو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سوال کو چار مرتبہ دہرایا ۔ اور ہر مرتبہ جواب وہی فرمایا اور ان کو پہلے کی طرح جواب دیا۔ نہ ان کو یہ فرمایا کہ طالب دنیا بنو ، نہ ان کو یہ فرمایا کہ طالب آخرت بنو بلکہ یہ فرما یا کہ میں تمہیں اپنی اطاعت کی نصیحت کرتا ہوں۔ اپنی توحید کی نصیحت کرتا ہوں اور خالصتا ہر عمل اپنے لیے (کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ) اور تمہیں اپنے ماسوا سے رخ پھیر لینے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
اے فقر والو ! اپنے فقر پر صبر کرو۔ تمہیں دنیا اور آخرت میں تو نگری نصیب ہوگی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ فقر اور صبر کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے ہیں۔ فقر اور صبر والے آج اپنے دلوں سے اور کل (قیامت میں) اپنے جسموں سے اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔ فقر والے اللہ تعالیٰ کے ہو کر اس پر انحصار رکھتے ہیں، نہ کہ اس کے سوا کسی اور پے ۔ ان کے دل اس سے مطمئن اور مستفاد ہوتے ہیں کسی اور کو قبول نہیں کرتے ۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ، ہمارے نبی اور ان پر درود وسلام ہو۔ کے بارہ میں فرمایا۔ ہم نے ان پر (ان کی ماں کے سوا) دوسری چھاتیوں کو پہلے ہی سے ممنوع قرار دیا تھا۔ جب دل صحیح ہو جاتا ہے تو حق تعالے کو پہچان لیتا ہے تو اور کو اوپرا سمجھتا ہے ۔ اور اللہ ہی سے مانوس ہوتا ہے اور دوسروں سے وحشت کھاتا ہے اور اللہ کے ساتھ رہنے سے راحت پاتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ہونے میں تکلیف اٹھاتا ہے ۔ اے لوگوموت اور موت کے بعد کے واقعات یاد کرو۔ دنیا اور فنا ہونے والی چیزوں کو جمع کرنے کی حرص چھوڑ دو اپنی آرزؤوں کو کوتاه کرو . اور حرص کو کم کرو ۔ سب سے زیادہ نقصان دینے والی چیز بڑی آرزو اور زیادہ حرص ہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ جب انسان مرتا ہے اور اپنی قبر میں داخل ہو جاتا ہے تو چار فرشتے اس کی قبر کے کنارے آتے ہیں۔ ایک فرشتہ سر کی جانب کھڑا ہوتا ہے۔ اور ایک فرشتہ دائیں جانب اور ایک فرشتہ بائیں جانب اور ایک فرشتہ اس کے پیروں کے پاس۔ تو جو اس کے سر کی طرف ہوتا ہے، کہتا ہے ۔ اے انسان جاتے رہے اموال اور باقی رہ گئے اعمال ۔ اور اس کی دائیں جانب والا کہتا ہے ۔ پوری ہوگئیں مدتیں اور باقی رہ گئیں امید یں۔ اور بائیں جانب والا کہتا ہے ، گذر گئیں لذتیں باقی رہ گئیں مشقتیں۔ اور اس کے پیروں کے پاس والا کہتا ہے ۔ اے انسان! مبارک ہوتمہیں اگر تم نے کمائی کی ہے حلال اور عطا کی گئی ہےتمہیں مجال۔ اے لوگو یا ان واعظوں سے نصیحت کرو اور خصوصاً اللہ اور اس کے رسولوں علیہم الصلوۃ و السلام کے واعظوں سے۔اے میرے اللہ ! گواہ رہو، میں تمہارے بندوں کو نصیحت کرنے میں انتہا کر رہا ہوں ۔ اور ان کی اصلاح کے لیے پوری کوشش کر رہا ہوں ۔ اے عبادت خانوں اور خانقاہوں والو ! آؤ اور میری باتیں سنو ۔ چاہے ایک ہی صرف ۔ ایک دن یا ایک ہفتہ میری صحبت میں رہو ۔ کیا عجب ہے۔ کوئی بات سیکھ لو جو تم کو فائدہ بخشے تم سے اکثر ہوس میں مبتلا ہیں۔ کہ تم عبادت خانوں میں بیٹھ کر مخلوق کی پوجا کررہے ہو ۔ یہ بات محض جہالت کے ساتھ خلوتوں میں بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوتی علم اور علماء کی تلاش میں اتنا چلو کہ چلنے کی سکت نہ رہے ۔ اتنا چلو ۔ اور طاقت رفتار جواب دے بیٹھے۔ پھر جب تھک جاؤ تو پہلے اپنے ظاہر کاموں سے بیٹھ جاؤ اور پھر اپنے باطن سے اور پھر اپنے دل سے اور پھر اپنے اندر سے (کہ اپنے آپ کو عاجز پا کر اللہ کی رہبری پر نظر ڈالیں ) جب ظاہر اور باطن تھک کر بیٹھ جاؤ گے تب اللہ تعالے کا قرب اور وصول تمہارے طرف آئے گا تمہیں اذان کا حق حاصل نہیں جبکہ (ابھی) تم انڈوں میں بچوں کی (مانند) ہو۔ تمہیں بات کرنے کا حق نہیں یہاں تک کہ تمہاری پیدائش مکمل ہو جائے اور تم انڈے چھوڑ کر باہر آ جاؤ اور اپنی ماں کے پیروں کے نیچے چوزے بن کہ آؤ یعنی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کے نیچے کہ وہ تمہیں چگا دے تاکہ تمہارے ایمان کو مکمل کرے . اور جب تم میں (خود چگنے کی صلاحیت ہو جائے گی تو تم اپنے بزرگ و برتر رب کی مہربانی سے دانے چنو گے بپھر اس وقت مرغیوں کے لیے مرغ بن جاؤ گے ۔ ان کو اپنے ساتھ مانوس کر کے دانہ کے لیے ترجیح دو گے ۔ اور ان کے لیے محافظ بن جاؤ گے مصیبتوں کا سامنا کرو گے ۔ اور ان کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دو گے ۔ بندہ جب صحیح ہو جاتا ہے مخلوق کا بوجھ اٹھاتا ہے اور ان کے لیے قطب بن جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے فرمایا جس نے علم سیکھا اور اس پر عمل کیا اور دوسروں کو سکھایا۔ وہ عالم ملکوت میں عظیم کے نام سے پکا کیا گیا۔ میں وہی بات کہتا ہوں جو امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمائی کہ میرے سینے ہیں ایک علم ہے۔ اگر میں اس کے اٹھانے والے پاتا میں اس کو پھیلا دیتا ۔ اگر میں تمہارے اندرا اہلیت پاتا تو اللہ کے بھیدوں کے دروازہ کو کیوں بند کرتا ۔ اور اس کے دروازے کھول دیتا۔ اور اس کی کنجیاں ضائع کر دیتا۔ (کہ بند کرنے کی صورت ہی نہ رہتی) مگر افسوس کہ اہل نہیں ملتے اور اب بھلا اسی میں سمجھتا ہوں کہ بھید محفوظ رکھو یہاں تک کہ کوئی اہلیت والا آئے جو تمہارے پاس ہے تم (بھی) اس کی حفاظت کرو اور جب تم سے کوئی چاہے تو اسے تناسب حد تک ظاہر کرو . اور جو کچھ تمہارے پاس ہے۔ سبھی نہ کھول دو کیونکہ بعض حالات چھپائے رکھنے کے قابل ہوتے ہیں حضرت شمعون رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ایمان ہی اصل ولایت ہے ۔ اور جس کا قدم اس میں مضبوط ہو۔ وہی اضافہ ہے ۔ یہ بات کہتے بھی تھے اور اس پر یقین بھی رکھتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے تھے۔ اور جو شریعت کا خادم بنا اور اس پر عمل کیا اور اس میں مخلص ہوا ۔ اور یہ (شریعت) تو قرآن و حدیث ہی ہے ۔ وہ کام نکال لے گیا۔ خدا کی قسم جس نے ان دونوں کے مطابق پرورش پائی ۔ اور انہی کے ماتحت بڑھا پھولا ۔ اور دونوں کی حدود کو پامال نہ کیا وہ کامیاب ہوا۔ اس بات سے ڈرو کہ کہیں تمہیں ایمان اور اسلام سے عار محسوس ہو۔
اس سے تمہارے لیے خوف خدا ، نماز روزہ شب بیداری میں ترقی ہوگی۔ اور آخر کار ایمان پر تمہارا مالکانہ قبضہ ہو جائے گا ، اسی وجہ سے اللہ والے سرگرداں پھرے اور (آبادی چھوڑ کر جنگلی جانوروں میں جاگھسے ۔ اور زمین کے خود رو گھاس پات کھانے اور قدرتی تالابوں کا پانی پینے میں ان کے مقابل ہوئے اور دھوپ ان کا سایہ بنی ۔ اور چاند اور ستارے ان کے چراغ بنے ۔ کوشش کرو کہ تمہارے پہنچنے سے پہلے اللہ کے ہاں تمہاری کی ماضی اور نزدیک کرنے والی باتیں پہنچ جائیں۔ اللہ کی نافرمانی اور اس پر بے باکی کر کے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ اے ہمارے اللہ ! ہمیں اپنی اطاعت کی توفیق دے۔ اور اپنی نافرمانیوں سے بچائے اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دے ۔ اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔
چھٹی مجلس :
بیہودہ بکنا ۔ کہنا سننا اور پیسہ لٹانا چھوڑ دو ۔ اور بلا وجہ پڑوسیوں دوستوں اور آشناؤں کے پاس زیادہ نہ بیٹھو ۔ اس واسطے کہ یہ خود پرستی ہے ، جھوٹ بولنا دو کے درمیان ہی چلتا ہے اور نافرمانی بھی دو کے بغیر پوری نہیں ہوتی ، تم میں سے کسی کو اپنے گھر سے نہیں نکلنا چاہیئےسوائے کسی ایسی بات کے لیے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اور اپنی بہتری اور گھر والوں کی بہتری ضروری ہو۔ کوشش کرو ۔ کہ تم بات شروع نہ کرو بلکہ تمہاری بات جواب ہو ۔ جب کوئی پوچھنے والا کسی بات کے بارہ میں تم سے پوچھے تو اگر اس کا جواب دینا تمہارے لیے مصلحت ہو تو جواب دو۔ وگرنہ اس کو جواب مت دو جب اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملو تو یہ مت پوچھو کہاں جا رہے ہو اور کہاں سے آرہے ہو ۔ چونکہ ممکن ہے وہ تمہیں اس کی اطلاع دینا پسند نہ کرے اور جھوٹ بول دے تو تم ہی اس کو جھوٹ پر ابھارنے والے ہو – کراما کا تبین سے شرماؤ جو بات تمہارے لیے جائز نہیں وہ ان سے (اپنے نامہ اعمال میں ) مت لکھواؤ۔ صرف وہ لکھواؤ جسے تم پڑھ کر خوش ہو جاؤ تسبیح ۔ تلاوت قرآن اور اپنی ذات کی اور مخلوق کی بہتری کی باتیں ان سے لکھواؤ ۔ اپنے آنسوؤں سے ان کی روشنائی پھیکی کردو، اور اپنی توحید سے ان کے قلم بچادے ۔ اور پھر ان کو دروازہ پر بٹھا کر خود اپنے بزرگ و برتر پر وردگار کے سامنے ہو (کہ سارے اعمال نیت اور دل سے ہوں جن کی فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو)، موت کو اپنے پیش نظر رکھو جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو دیکھے تو اسے ایسا رخصتی سلام کرے جیسے رخصت ہونے والا (مسافر- آخری) سلام کیا کرتا ہے۔ اور اس طرح سے جب اپنے گھر سے نکلے تو اپنے دل سے ان کو رخصت کر کے نکلے۔ چونکہ ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ پکار بیٹھے ۔ ( اور گھر جانا نصیب نہ ہو) کیا خبر موت اسے راستہ ہی میں آلے ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کو ایسی حالت میں رات گزارنی چاہیئے کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا سر کے نیچے ہو۔ اگر کسی پر کچھ قرض ہو اور اس کے ادا کرنے پر قادر ہو تو ادا کر دینا چاہیئے۔ اور اس کو ادا کرنے میں دیر نہ لگانی چاہیئے۔ کیونکہ پتہ نہیں کہ بعد میں کوئی ادا کرے گا۔ یا نہیں ۔ اور جو کوئی با وجود ادا کرنے کے قابل ہونے کے ادا نہ کر ہے۔ وہ ظالم ہے ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تو انگر کا(ا دائے قرض میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اللہ والے تکلیفوں پر صبر کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور تمہاری طرح سے پریشان نہیں ہوا کرتے ۔ ایک بزرگ کا قصہ ہے۔ کہ وہ روزانہ ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہوا کرتے تھے ۔ اور جس دن مصیبت پیش نہ آتی تو کہتے ۔ الہی ! آج مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے کہ میری طرف مصیبت نہیں بھیجی۔ مصیبتیں مختلف قسم کی ہوتی میں بعض کا تعلق محض بدن سے ہوتا ہے اوربعض کا دل سے اور بعض کا مخلوق سے اور بعض کا خالق سے جس کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ۔ سمجھ لو) اس میں کوئی بھلائی نہیں مصیتیں خدائے بزرگ و برتر کے آنکڑے ہیں ۔ کہ ان سے خدا اپنے پیاروں کو پکڑ کر کھینچ لیتا ہے(دنیا دار اور خشک قسم کے) زاہد عابد کی تمنا تو یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں کرامتیں پاؤں اور آخرت میں جنت . اور عارف کی انتہائی آرزو یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں ایمان قائم رہے اور آخرت میں عذاب سے چھٹکا را نصیب ہو۔ وہ ہر وقت اسی تمنا اور خواہش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل سے کہا جا تا ہے تجھے کیا ہوا ہے سکون و قرار پکڑ تیرا (اپنا) ایمان سلامت ہے اور دوسرے ایمان والے تمہارے ایمان کا نور حاصل کر رہے ہیں۔ تم کل قیامت میں شفاعت کرو گے اور تمہاری شفاعت قبول اور تمہاری درخواست منظور کی جائے گی۔ تم بہت سی مخلوق کے لیے جہنم سے خلاصی کا سبب ہو گے تم اپنے نبی کے سامنے ہوگے۔ جو اہل شفاعت کے سردار ہیں ۔ لہذا کسی اور کام میں لگو۔ یہ یقین و معرفت کی بقا اور آخرت میں سلامتی اور ان نبیوں رسولوں اور سچوں کے ہمراہ چلنے کا فرمان سلطانی ہے جو مخلوق میں سے خاصان خدا ہیں۔ اے منافق ! یہ (مرتبہ) تمہیں اپنے نفاق اور ریا کاری سے کب ہاتھ آسکتا ہے۔ تم تو اپنی وجاہت اور لوگوں میں مقبولیت دیکھنا چاہتے ہو۔ اپنے ہاتھوں کو چومتے چماتے دیکھنا چاہتے ہو۔ تم اپنے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں منحوس ہو بلکہ اپنے مریدوں کے لیے بھی جو تمہارے زیر تربیت ہیں۔ اور جن کو تم اپنی اتباع کا حکم کرتے ہو ۔ تم ریا کار ہو۔ جھوٹے ہو۔ لوگوں کا مال لوٹنے والے ہو۔ آخر کار نہ تمہیں قبول ہونے والی دعا مل سکتی ہے اور نہ ہی سچوں کے دلوں میں کوئی مقام مل سکتا ہے ۔ تمہیں اللہ نے علم دے کر گمراہ کر دیا ہے ۔ جب غبار چھٹ جائے گا تو دیکھو گے کہ گھوڑے پر سوار ہو یا گدھے پر ۔ جب غبار چھٹ جائے گا (اور میدان حشر سامنے آئے گا ) تو خدائے بزرگ و برتر کے بندوں کو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار دیکھو گے۔ اور تم ان کے پیچھے کوئے پھٹے گدھے پر سوار ہو گے۔ شیطان اور ابلیس تمہیں چاروں سے پکڑتے ہوں گے ۔ اللہ والے تو (تسلیم و رضا) کی ایسی حالت پر پہنچتے ہیں کہ نہ دعا باقی رہتی ہے نہ درخواست ۔ نہ ہی نفع اٹھانے کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی نقصان کے دفع کرنے کے بارہ میں . ان کی دعا دلوں کو حکم کی بنا پر ہوتی ہے کبھی تو اپنی ذات کے لیے دعا مانگتے ہیں اور کبھی مخلوق کے لیے چنانچہ دعا ان کے منہ سے نکلتی ہے اور وہ اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اے ہمارے اللہ ! ہمیں ہر حال میں اپنی ذات سے حُسن ادب کی توفیق عطا فرما۔ (یعنی اپنے نفس کے تقاضا سے دعا مانگ کر آپ کے علم اور آپ کی شفقت پر کبھی حملہ نہ کریں) اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
ساتویں مجلس :-
خدائے بزرگ و برتر کی مخلوقات میں ایک ایسی مخلوق بھی ہے جن کو وہ عافیت میں ہی زندہ رکھتا ہے اور انہیں عافیت میں ہی مارتا ہے ۔ اور قیامت میں عافیت کے ساتھ ہی حشر فرمائے گا اور وہ رضا بر قضا والے اللہ کے وعدوں کی طرف رجوع کرنے والے اور اس کی وعیدوں سے ڈرنے والے ہیں ۔ اے اللہ ! ہمیں بھی ان میں سے کر دے ۔ آمین ۔ اللہ والے اللہ کی عبادت میں رات اور دن ایک کر دیتے ہیں۔ (اور باوجود اس ریاضت اور عبادت کے) ہر وقت خوف اور خطرہ میں رہتے ہیں ۔ اور انہیں خاتمہ کے برا ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے ۔ کیونکہ معلوم نہیں کہ اللہ کا علم ان کے بارہ میں کیا ہے۔ نہ ان کو انجام کی خبر(کہ خاتمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر ) اس لیے دن رات رنج و غم اور گریہ میں رہتے ہیں۔ ساتھ ہی نماز روزہ حج اور تمام اطاعتوں پر ہمیشگی اختیار کر کے خدائے بزرگ و برتر کو اپنے دلوں اور اپنی زبانوں سے یاد کرتے رہتے ہیں. چنانچہ جب یہ آخرت میں پہنچیں گے جنت میں داخل ہوں گے ۔ خدائے بزرگ و برتر کا دیدار اور اس کا احترام پائیں گے ۔ (تو مطمئن و مسرور ہو کر) اس پر اللہ کی تعریف کریں گے اور کہیں گے۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارا غم دور کیا جب تم ایمان پختہ کر لو گے تو خود سے اور مخلوق سے فنا ہونے کی وادی میں پہنچو گے پھر تمہاری ہستی اللہ سے ہوگی نہ کہ خود تم سے اور نہ مخلوق سے تو اس وقت تمہارا غم زائل ہو جائے گا۔ حفاظت الہیہ تمہارا پہرہ دے گی اور نگہبانی تمہارا احاطہ کرے گی ۔ اور توفیق آگے آگے ہو ، بچو کہتی چلے گی اور فرشتے (جلوس کی شکل میں) تمہارے چاروں طرف چلیں گے ۔ اور (نیک) روحیں تمہارے پاس آئیں گی تجھے سلام کریں گی اور خدائے بزرگ و برتر فرشتوں کے سامنے تمہارے پر فخر کریں گے (کہ دیکھو۔ یہ وہی ہیں جن کو تم نے خلافت کے قابل نہ سمجھا تھا) اور ان کی تو حیات تمہاری محافظ ہوں گی، اور اپنے قرب وانس اور راز و نیاز کے گھر کی طرف تمہیں کھینچیں گی ۔ اے نافرمانو ! تم اپنی نافرمانی سے تو بہ کرو ۔ کہ تمہارے خدائے بزرگ و برتر بڑے بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتے ہیں۔ گناہ بخش دیتے ہیں اور ان کو مٹا دیتے ہیں۔ اپنے دل اور زبان سے دعا کرو۔ اے ہمارے اللہ ! ہم ہر گناہ سے اور ہر غلطی سے آپ کی جناب میں تو بہ کرتے میں (اور وعدہ کرتے ہیں) کہ اب کبھی نہ کریں گے۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول یا چوک سے گناہ کر بیٹھیں تو ہمیں پکڑ نا مت ۔ اے ہمارے رب! ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو پھیر نہ دینا ۔ اے گناہوں کے بخشنے والے ہمیں بخش دے۔ اے پردہ ڈالنے والے ہم پر پردہ ڈال ۔ اور ہمارے عیبوں کو ڈھانپ لے۔ اللہ سے مغفرت مانگو۔ وہ سب گناہ بخش دے گا۔ تھوڑے عمل کی بھی قدر فرمائے گا اور اس پر اس سے کہیں بہتر بدلہ دے گا ۔ کیونکہ وہ بڑا سخی داتا ہے۔ وہ بلا عوض اور بلا سبب دیتا ہے۔ پھر عمل پر تو کیا کہنا اس سے۔ توحید اور اعمال صالحہ سے۔ دنیا چھوڑ کر اور اس سے رخ پھیر کر ۔ آخرت اختیار کر کے اور اس طرف رغبت سے توجہ کر کے گناہ اور لذتوں کو چھوڑ کر اور ان سے منہ موڑ کر معاملہ کرو. خدائے بزرگ و برتر کا چاہنے والا جنت نہیں چاہتا۔ اور دوزخ سے نہیں ڈرتا بلکہ محض اس کی ذات حق کی آرزو رکھتا ہے۔ اس کی نزدیکی چاہتا ہے اور اپنے سے اس کی دوری سے ڈرتا ہے ۔ تم شیطان ، شہرت نفس ، دنیا اور لذتوں کے قیدی بنے ہو۔ اور تمہیں لذات توحید کی خبر نہیں۔ تمہارے دل کے پاؤں میں بیٹڑی پڑی ہے اور تمہیں اس (لذت کی) کیا خبر۔ اے میرے اللہ ! اسے اس قید سے رہائی دے اور ہماری بھی خلاصی کر۔ تمہارے لیے لازم ہے کہ روزہ اور پانچوں نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنے کا خیال رکھو۔ اور شریعت کی ساری حدود کی حفاظت کرو جب تم فرض ادا کر چکو تو نوافل کی طرف منتقل ہو جاؤ عزیمت(مثلا نفل نماز کا کھڑے ہو کر پڑھنا عزیمت ہے اور بیٹھ کر پڑھنا رخصت ہے کہ جائز ہے ۔ گو ثواب آدھا ہے۔ پس حریص آخرت کو پورے اور زیادہ نفع کا اہتمام کرنا چاہیئے ۔) کو اختیار کرو اور رخصت کا خیال نہ کرو۔ جو بر خصمت کا پابند اور عزیمت کا تارک بن جاتا ہے۔ اس کے دین کی بربادی کا ڈر ہوتا ہے، عزیمت مردوں کے لیے ہے کیونکہ یہ راہ خطروں کی سواری کی ہے تکلیف دہ اور تلخ ہے اور رخصت بچوں اور عورتوں کے لیے ہے کیونکہ زیادہ سہولت بخش ہے ۔ تم پہلی صف کی پابندی کرو۔ چونکہ یہ مردوں اور بہادروں کی صف ہے۔
اور آخری صف کو چھوڑو۔ اس واسطے کہ وہ بزدلوں کی صف ہے۔ اس نفس ے خدمت لو۔ اور اس کو عزیمت کا عادی بناؤ۔ چونکہ جو بوجھ اس پر لاد دو گے یہ اس کو اٹھا لے گا ۔ اس کے اوپر سے لاٹھی نہ ہٹاؤ ۔ کہ یہ سو جائے ۔ اور اپنے اوپر سے بوجھ اٹھا کر پھینک دے۔ اس کو اپنے دانتوں اور اپنی آنکھوں کی سفیدی (یعنی مسکراہٹ اور محبت مت جتاؤ۔ بلکہ ہر وقت منہ چڑھائے نیلی پیلی آنکھیں دکھاؤ مت دکھاؤ کیونکہ یہ ایک بُرا غلام ہے اور برا غلام لاٹھی کے بغیر کام نہیں کیا کرتا۔ اس کو پیٹ بھر کر کھانا کبھی نہ دو مگر اس وقت جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ پیٹ بھر کر کھانا اس کو سرکش نہیں بناتا۔ اور یہ اپنے پیٹ بھرنے کے بعد مقابلہ کا کام کرے گا۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ عبادت بھی بہت کرتے تھے اور کھاتے بھی بہت تھے ۔ اور جب پیٹ بھر جایا کرتا۔ تو فرمایا کرتے ۔ کہ حبشی کو کھلاؤ اور خوب اس کو رگیدو کہ حبشی کی مثال گدھے کی سی ہے کہ کمہار جتنا اس کو کھلاتا ہے۔ اتنا ہی اس پر بوجھ لاد تا اور محنت لیتا ہے) پھر عبادت کے لیے کھڑے ہو جاتے تو اس سے پورا حصہ لیا کرتے(یعنی خوب عبادت کرتے) ایک بزرگ سے منقول ہے کہ میں نے سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا۔ انہوں نے اتنا کھایا کہ میں بیزار ہو گیا۔ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور اتنا روئے کہ مجھے ان پر رحم آگیا ۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ کی زیادہ کھانے میں پیروی نہ کرو اس کی کثرت دعا (لمبی نماز) میں پیروی کرو چونکہ تم سفیان رحمتہ اللہ علیہ نہیں ہوا کہ زیادہ کھا کر بھی نفس کو پھولنے نہ دو) اپنے نفس کو اس طرح پیٹ بھر کر مت کھلاؤ جس طرح وہ پیٹ بھر کر کھلاتے تھے۔ چونکہ تم اس کو اس طرح قابو نہ کر سکو گے جس طرح وہ اس کو قابو کرتے تھے ۔ جب دل درست ہو جاتا ہے تو گویا درخت بن جاتا ہے جس میں شاخیں، پھل اور پتے ہوں اور ان میں انسانوں ، جنوں اور فرشتوں کی مخلوق کے لیے فائدے ہوں جب دل درست نہ ہو تو وہ جانوروں کے دل کی طرح ہوتا ہے کہ محض صورت ہےبلا معنی، برتن ہے بغیر پانی، درخت ہےبے پھل ،نگینہ ہے بغیر انگوٹھی ،پنجرہ ہے بلا پرندہ، مکان ہے بلا مکین، خزانہ ہے جس میں جواہرات دینا رو در ہم سب کچھ ہیں مگر خرچ کرنے والا کوئی نہیں جسم ہے بلا روح جیسے وہ اجسام تھے جن کو مسخ کر دیا گیا تھا۔ کہ صرف صورت جسم کی تھی مگر حقیقت سے خالی تھے ۔ خدائے بزرگ وبرتر سے رخ پھیرنے والے اور ناشکری کرنے والے درحقیقت مسخ شدہ ہیں۔ اس لیے حق تعالیٰ نے اس کو پتھر کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ پھر اس کے بعد ان (یہودیوں) کے دل سخت ہو گئے پس وہ پتھر کی طرح ہیں بنی اسرائیل نے جب تورات پر عمل نہ کیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پتھروں کی طرح بے حس بنا دیا۔ اور اپنی بارگاہ سے راند دیا۔ اسی طرح اے مسلمانو! جب تم قرآن پر عمل نہ کرو گے ۔ اور اس کے احکام کو مضبوط نہ کرو گے۔ تمہارے دلوں کو مسخ کر دے گا اور اپنے دروازہ سے بانک دے گا ۔ ان میں سے مت بنو ۔ جو جان بوجھ کر گمراہ ہو گئے ۔ جب تم مخلوق کے لیے علم سیکھو گے تو مخلوق کے لیے ہی عمل کرو گے ۔ اور جب اللہ تعالٰے کے لیے علم سیکھو گے تو اسی کے لیے عمل کرو گے۔ اطاعت عمل ہے جنت والوں کا اور معصیت عمل ہے ۔ دوزخ والوں کا ۔ اس کے بعد معاملہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ وہ اگر چاہے تو کسی کو عمل کیے بغیر ثواب بخش دے اور اگر چاہے تو کسی کوعمل کیے بغیر سزا دے دے کہ سب اس کے قبضہ میں ہے ۔ اس واسطے کہ اللہ (با اختیار حاکم ہے) کر ڈالتا ہے ۔ جو چاہے وہ کرے ۔ اس سے پوچھ نہیں ہوسکتی، اور (باقی )سب سے پوچھ ہو گی ۔ صدیق نور الہی سے دیکھتا ہے نہ کہ آنکھ کے نور سے اور سورج اور چاند کے نور سے ۔ یہ اللہ کا نور علم ہے (علم شریعت) اور صدیق کے لیے ایک خاص نور (بھی) ہے ۔ یہ دوسرا نور (نور فراست) اس کو اللہ تعالیٰ نور علم کے مستحکم ہونے کے بعد عنایت فرماتے ہیں۔ اے ہمارے اللہ ! ہمیں اپنا حلم اپنا علم اور اپنا قرب نصیب فرما۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دے اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔
آٹھویں مجلس :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ حیا اثر ہے ایمان کا اپنے خدائے بزرگ و برتر سے تم کس قدر بے شرم اور بے باک ہو مخلوق سے شرمانا اور خالق برحق سے نہ شرمانا دیوانہ پن ہے،حقیقی حیا یہ ہے کہ اپنی خلوت اور جلوت میں خدائے بزرگ و برتر سے شرماؤ،تا کہ مخلوق سے شرمانا تابع ہو۔ کہ اصل مومن خالق سے شرماتا ہے ۔ خدا تمہیں برکت نہ دے اے منافقو کہ تم میں اکثر کی پوری مشغولیت اس تعلق کے آباد کرنے کی ہے جو تمہارے اور مخلوق کے درمیان ہے اور اس تعلق کو برباد کرنے کی ہے جو تمہارے اور خالق کے درمیان ہے، اگر تم نے میرے سے دشمنی کی تو (یہ ایسا ہے گویا) تم نے خدائے بزرگ و برتر اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی۔ چونکہ میں انہی دونوں (کے دین) کی مدد کے لیے کھڑا ہوں۔ شرارت نہ کرو، کہ اللہ کو اپنا کام پورا کرنے کی بڑی طاقت ہے۔ یوسف ہمارے نبی اور ان پر درود و سلام ہو کے بھائیوں نے ان کو مار ڈالنے کی بہتیری کوشش کی مگر قابو نہ پاسکے اور کس طرح قابو پاسکتے تھے جبکہ وہ اللہ کے نزدیک (مصر کے )بادشاہ اور اس کے نبیوں میں سے نبی اور اس کے دوستوں میں سے ایک دوست (قرار پائے ہوئے )تھے ۔ ان کو کون فنا کر سکتا تھا۔ جبکہ علم الہی ان کے متعلق یہ تھا کہ مخلوق کے فائدے ان کے ہاتھوں سے ہوں گے ۔ اسی طرح یہود نے قصد کیا کہ مریم کے بیٹے عیسی ہمارے نبی اور اُن سب پر درود و سلام ہو ۔ کو قتل کر دیں کیونکہ انہوں نے ان سے (محض) اس لیے حسد کیا کہ ان کے ہاتھ پر کھلی نشانیاں اور معجزے ظاہر ہوتے ۔ تو خدائے بزرگ و برتر نے ان کو وحی بھیجی کہ ان کا ملک چھوڑ کر مصر چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ ہجرت فرما گئے ۔ اور اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی۔ ان کے ایک رشتہ دار نے ان کو لیا۔ اور ان کے ساتھ فرار ہو گیا ۔ اور انہوں نے قوت پکڑی اور اطراف میں ان کی شہرت ہو گئی تو ( یہود) نے مل کر یہ تجویز پختہ کر لی کہ ان کو مار ڈالیں مگر قابو نہ پاسکے۔ اور اللہ تعالے اپنی تجویز پر غالب رہے۔ اور تم ہو، اے دُور حاضر کے منافقو ! چاہتے ہو ۔ کہ مجھے مار ڈالو ۔ تمہارے لیے کوئی کرامت نہ ہو ۔ تمہارے ہاتھ اس سے قاصر ر ہیں گے ۔( فرقہ معتزلہ کلام کو حق تعالے کی سبقت نہیں مانتا خلیفہ معتصم باللہ کے زمانہ میں بعض معتزلی خلیفہ کے مصاحب و مقرب بن گئے اور اچھا خاصا اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کو اسی مسئلہ پر حق گوئی کی سزا میں دُرے کھانے اور مدت تک قید رہنا پڑا۔ حضرت غوث اعظم بھی حنبلی المذہب ہیں اور آپ کے زمانہ میں بھی معتزلہ کا یہ شر و فسادچل رہا تھا۔ اور چاہتے تھے کہ امیرالمومنین کے کانوں میں حضرت ممدوح کی تکفیر پختہ کر کے ارتداد قتل کا حکم نا فذ کرائیں۔ یہ انہی کی طرف اشارہ ہے اور کلام اور رویت باری تعالے کے مسئلہ کو بلا خوف و جھجک وضاحت فرما کر خوب درست کاحق ادا کیا ہے) فرمانبرداری کے کام کرنے اور نافرمانیوں اور بُری باتوں کے چھوڑنے کے لیے اپنی طبیعت کو مجبور کرو . کہ یہی مجبوری (آخر) طبیعت بن جائے گی ۔ اپنے خدائے بزرگ و برتر کے کلام کو سمجھو ۔ اور عمل کرو اور اپنے اعمال میں اخلاص اختیار کرو، ہمارے خدا ئے بزرگ و بر تر متکلم میں اور ان کا کلام سنا اور سمجھا جاتا ہے ۔ دنیا میں ان کا کلام حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا۔ اور آخرت میں اس کے کلام کو اس کی مخلوق میں سے سب مومن سنیں گے ۔ ہمارے رب کی رویت ہو سکتی ہے، کل قیامت میں ان کو اس کو اس طرح دیکھیں گے جیسا کہ آج سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں جس طرح آج ان کے دیکھنے میں شک نہیں ہوتا اسی طرح کل (قیامت) کو اللہ کی رویت میں ہمیں کوئی شبہ نہ ہو گا ۔ خدائے بزرگی برتر کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو ایک نظارہ کے بدلے جنت اور مافیہا کو بیچ دیتے ہیں۔ جب اللہ تعالے نے اس معاملہ میں ان کی نیتوں کی سچائی کو جان لیا کہ انہوں نے ایک نظارہ کے بدلے جنت کو بیچ دیا ہے تو اپنے دیدار کے نظارے ان کے لیے دائمی کر دیئے اور اپنا قرب ان کے لیے وائمی کر دیا۔ اور جنت کی لذتوں کے معاوضہ میں اپنے قرب کا مزہ بخشا ۔
اے خدائے بزرگ و برتر اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بندوں کو نہ جاننے والو۔ افسوس تمہارے پر ۔ اپنے دلوں کے پاؤں سے فضل الہی کے کھانے کی طرف ایک قدم تو بڑھاؤ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس طرح وہ کھانا میں تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں ۔ تم میں سے جو بھی مجھے جھٹلائے گا۔ اسے خود اس کے کپڑے اور اس کا گھر اور وہ فرشتے جھٹلائیں گے جو اس کے آس پاس ہیں میں تمہارے جھٹلانے کی مطلق پرواہ نہیں کرتا ۔ جھوٹ کہتے ہو۔ اے منافق اے دجال تم مجسم نفس طبیعت اور خواہش نفس بنا ہوا ہے۔ تم نا محرم عورتوں اور بچوں کے پاس بیٹھتے ہو۔ پھر تم کہتے ہو کہ میں ان کی پرواہ نہیں کرتا جھوٹ کہتے ہو۔ نہ شرع تمہاری موافقت کرتی ہے، نہ عقل ۔ تم آگ پر آگ اور ایندھن پر ایندھن بڑھا رہے ہو۔ لامحالہ تم اپنے دین و ایمان کے گھر کو جلا ڈالو گے ۔ اس سلسلہ میں شرع کا انکار عام ہے ۔ اس میں کسی کا استثناء نہیں۔ ایمان باللہ معرفت الہی اور قوت قرب حاصل کرو پھر نہایت الہی میں مخلوق کے لیے طبیب بن کر بیٹھو۔ تمہاری خرابی ہو تم کس طرح سانپوں کو پکڑتے اور الٹ پلٹ کرتے ہو۔ حالانکہ تمہیں سپیرے کا فن معلوم نہیں ہے اور نہ تم نے تریاق کھایا ہے۔ اندھا شخص بھلا دوسروں کی آنکھوں کا علاج کیا کرے گا گونگا بھلا دوسروں کو کیسے پڑھائے گا۔ جاہل شخص بھلا دینی تعلیم کیونکر دے گا ۔ جسے دربان سے واقفیت نہیں وہ لوگوں کو بادشاہ کے دروازے تک کیسے پہنچائے گا بس بات مت کرو۔ یہاں تک کہ قیامت آئے اور تم عجیب و غریب چیزیں دیکھو۔ اپنے اعمال خالص اللہ کے لیے کرو ورنہ (ایمان کا) دعوی نہ کرو۔ جب تمام تعلقات منقطع کر دو گے اورجب دروازے بند کر دو گے تب اللہ کی جہت اور اس کی نزدیکی راہ تمہارے لیے کھلے گی ۔ اور اس تک تمہارے لیے راستہ تیار ہو جائے گا۔ اور سب چیزوں میں تمہیں بلند، بہتر اور روشن چیز حاصل ہوگی۔ یہ دنیا فنا ہونے والی، جانے والی اور نہ رہنے والی ہے ۔ یہ مصیبتوں تکلیفوں غموں اور فکروں کا ٹھکانہ ہے۔ اس میں کسی کی بھی زندگی صاف اور سیدھی نہیں ہوتی خاص کر جب کوئی عقل والا ہو جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ دنیا میں موت کو یاد رکھنے والے عقلمند کی آنکھ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی ۔ جس شخص کے سامنے درندہ منہ کھولے پاس ہی کھڑا ہو وہ قرار کیسے پکڑ سکتا ہے ۔ اور اس کی آنکھ کیسے سو سکتی ہے۔ اے غافلو! قبر بھی منہ کھولے ہے اور موت کا درندہ اور اژدہا دونوں منہ کھولے ہیں سلطان قدرت کا جلاد اپنے ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے حکم کا منتظر کھڑا ہے ۔ لاکھوں میں کوئی ایک ہوتا ہے جو اس حالت میں بیدار اور خبر دار ہوتا ہے۔ جو بیدار ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز سے پر ہیز کرتا ہے اور عرض کرتا ہے اے میرے اللہ ! آپ کو معلوم ہے جو میں چاہتا ہوں ۔ یہ (دنیا کی نعمتوں کے ہزاروں) خوان اپنی دوسری مخلوق کو دیجئے میں تو آپ کے خوان قرب سے ایک لقمہ چاہتا ہوں میں تو وہ چیز چا ہتا ہوں جو خاص آپ کی ہو ۔ اے سبب کو شریک خدا سمجھنے والے ۔ اگر تم توکل کے کھانے کا مزہ چکھ لیتے تو سب کو کبھی شریک خدا نہ بناتے ۔ اور متوکل بن کر اور اس پر پورا بھروسہ جما کر اس کے دروازے پر بیٹھ جاتے،مجھے تو کھانے کی محض دو ہی صورتیں معلوم ہیں ۔ یا تو شریعت کی پابندی کے کسب کے ذریعہ یا توکل کے ذریعہ تمہاری خرابی ہو تم خدائے بزرگ و برتر سے نہیں شرماتے ۔ اپنے کسب کو چھوڑتے ہو اور لوگوں سے بھیک مانگتے ہو۔ کسب ابتداء ہے اور توکل انتہا ہے مگر تمہارے لیے تو نہ ابتداء دیکھتا ہوں نہ انتہا۔ میں تمہارے سے حق بات کہتا ہوں ۔ اور تمہارے سے شرماتا نہیں ہوں سنو اور مانو ۔ اور جھگڑا نہ کرو۔ میرے سے جھگڑنا اللہ تعالیٰ سے جھگڑنا ہے، نماز کی پابندی کرو۔ کیونکہ یہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایک جوڑ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے. آپ نے فرمایا کہ جب مومن نماز میں داخل اور اس کا دل اپنے خدائے بزرگ برتر کے سامنے حاضر ہوتا ہے تو اس کے ارد گرد ” لا” کے بعد حول کی ضرب مار دیتے ہیں اور فرشتے اس کے چاروں طرف کھڑے ہوتے ہیں اور اس پر آسمان سے برکت نازل ہوتی ہے اور حق تعالے اس کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتے میں بعض نمازیوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ ان کا دل حق تعالے کی طرف اس طرح کھینچ جاتا ہے جیسے کہ پرندہ کو پنجرہ میں بند کر دیا جاتا ہے. جیسے بچہ کو ماں کا ہاتھ بھینچ لیتا ہے۔ چنانچہ اس کو اپنی پسندیدہ چیزوں اور معلوم باتوں سب سے اس طرح بے خبری ہو جاتی ہے کہ اگر اسے کاٹ دیا جائے ٹکڑے کر دیا جائے اسے خبر نہ ہو۔ اس قسم کی بات ایک بزرگ سے منقول ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر بن عوام رحمتہ اللہ علیہ تابعی ( اور حضرت اسما رضی الله عنها کے صاحبزادے تھے) ان کے پاؤں میں گوشت خور (پھوڑا ) ہو گیا ۔ اس پر (طبیب کی طرف سے) اُن کو حکم ہوا کہ پاؤں کا کاٹ دینا ضروری ہے ورنہ تو یہ سارا بدن کھا جائے گا ۔ آپ نے طبیب سے فرمایا ۔ جب میں نماز میں مشغول ہوں تو اسے کاٹ دو۔ چنانچہ اس نے اسے اس وقت کاٹ دیا جب وہ سجدہ کی حالت میں تھے۔ آپ کو تکلیف محسوس نہ ہوئی تم پہلوں کے مقابلہ میں دیوانے ہو۔ تم صرف بات ہو۔ بے عمل صورت ہو۔ بے معنی منظر ہو۔ بغیر اطلاع ، افسوس تم پر۔ لوگوں کی مدح سرائی پر مغرور نہ ہو جس چیز میں اور جس حال پر تم ہو تم خوب جانتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ بلکہ خود انسان اپنے نفس سے زیادہ واقف ہے تم عوام کے نزدیک کتنے اچھے ہو ۔ اور خواص کے نزدیک کتنے بڑے ہو. ایک بزرگ نے اپنے دوستوں سے فرمایا۔ جب تم پر ظلم کیا جائے تو تم ظلم نہ کرو، اور جب تمہاری مدح کی جائے تو تم خوش نہ ہو۔ اور جب تمہاری مذمت کی جائے تو غمگین نہ ہو۔ اور جب تم کو جھٹلایا جائے تو غصہ مت کرو۔ اور جب تمہارے سے خیانت کی جائے تو تم خیانت نہ کرو۔ یہ کتنی اچھی نصیحت ہے ۔ ان کونفوس و خواہشات کے ذبح کر دینے کا حکم فرمایا۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اخذ کیا گیا ہے کہ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا کہ حق تعالیٰ آپ سے فرماتے ہیں. اس کو معاف کرو جو تم پر ظلم کرے . اس سے جوڑو جو تم سے توڑے ، اور اس کو دو جو تمہیں محروم رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، کاریگریوں اور مخلوق سے اس کی کارگزاریوں پر غور کرو۔ جب تم دنیا سے پر ہیز کرو گے اور اس سے تمہاری بے رغبتی ثابت ہو جائے گی تو (دنیا) خواب میں تمہارے پاس عورت کی شکل میں آئے گی۔ تمہاری تواضع کرے گی اور تمہارے سے کہے گی۔ میں تو تمہاری لونڈی ہوں میرے پاس کچھ تمہاری امانتیں ہیں۔ تم انہیں مجھ سے لے لو۔ تمہارا مقسوم کم ہے یا زیادہ ایک ایک کرکے گنوائے گی۔ اور جب تمہاری معرفت الہیہ مضبوط ہو جائے گی تو یہ تمہارے پاس بیداری میں آئے گی حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ابتدائی حالت الہام کی بھی اور دوسری حالت سچے خواب کی جب ان کی حالت مضبوط ہو گئی تو فرشتہ ان کے پاس ظاہرا آنے لگا۔ کہتا۔ حق تعالے تمہارے سے یہ فرماتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں ۔
عقل سیکھو ، اور اپنی ریاست کا غرور چھوڑو ، اور آؤ۔ عام لوگوں کی طرح یہاں بیٹھو تاکہ تمہارے دل کی زمین میں میری باتوں کا بیج اُگے ۔ اگر تمہیں عقل ہوتی تو تم میری صحبت میں بیٹھتے ۔ اور میرے سے ایک لقمہ کھا کر قناعت کرتے ۔ اور میری سخت کلامی کو برداشت کرتے ، ہر وہ شخص جس کے پاس ایمان ہوتا ہے۔ میرے پاس جمتا ہے اور جس کے پاس ایمان نہیں ہوتا وہ مجھ سے بھاگتا ہے ۔ تمہاری خرابی ہو ۔ ارے تم دوسرے کی حالت کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہو۔ ہم کس طرح تمہیں سچا جانیں، حالا نکہ تمہیں خود اپنے حال کا پتہ نہیں ۔ یہ (صریح )جھوٹ ہے اپنے جھوٹ سے تو بہ کرو ۔ اے ہمارے اللہ !ہمیں تمام حالتوں میں سچائی نصیب فرما اورہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دے، اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔
نویں مجلس :-
نفس کو دنیا (کے دھندوں) کے لیے چھوڑو۔ اور دل کو آخرت (کے کاموں ) کے لیے ۔ اور (دل کے بھید کو مولی کے لیے دنیا سے مطمئن نہ ہو ۔ یہ سجایا ہوا سانپ ہے۔ (پہلے) اپنی سجاوٹ سے لوگوں کو بلاتا ہے ۔ پھر ان کو ہلاک کرتا ہے۔ اس سے پورے طرح سے رخ پھیر لو ۔ اپنے بزرگ و برتر خدا کی اطاعت میں۔ اپنے نیک بھائیوں کی صحبت اور ان کی خدمت میں اور مزوں سے منہ پھیرنے میں اخلاص اختیار کر و حق تعالے کے یہاں تک موحد بنو- کہ تمہارے دل میں ذرہ برابر بھی کوئی مخلوق باقی نہ رہے۔ اور جس کو توحید قبول نہ کرے ۔ ایسی چیزوں کا ارادہ بھی نہ کرو۔ ہر مرض کی دوا حق تعالے کو ایک ماننے اور دنیا کی محبت سے منہ پھیر لینے میں ہے ۔ تمہارے میں کوئی خوبی نہیں جب تک تمہیں اپنے نفس سے آگاہی نہ ہو۔ اور اس کو لذت سے باز نہ رکھو ۔ یہاں تک کہ باطن کو حق تعالے کے ساتھ اطمینان ہو۔ اپنے نفس کے سر سے مجاہدہ کی لاٹھی نہ ہٹاؤ ۔ اور اس کی عاجزی سے دھوکا نہ کھاؤ۔ اس کی تمہارے سے (کوئی بات قبول کرنے اور )لے لینے سے دھو کہ نہ کھاؤ۔ تمہاری طرف سے درندہ کے سونے پر دھوکہ نہ ہو، کیونکہ وہ تمہیں دکھاتا ہے کہ سویا ہوا ہے ۔ حالانکہ وہ شکار کا انتظار کر رہا ہے ۔ (کہ پاس آوے اور وہ ) اسے پھاڑ کھائے ۔ اس سے اس کی سونے کی حالت میں اسی طرح ڈرتے رہو جس طرح تم اس سے اس کے جاگنے کی حالت میں ڈرتے ہو ۔ اپنے نفوس سے ڈرتے رہو۔ اپنے دلوں کے کندھوں سے ہتھیار نہ اتارو۔ یہ نفس بھلائی کے معاملہ میں اطمینان – انکساری۔ عاجزی اور تابعداری کا اظہار کرتا ہے اور اس کے خلاف پیٹ میں چھپائے رکھتا ہے. اس کے بعد اس سے جو نتیجہ ظاہر ہو گا۔ اس سے ڈرتے رہو غم زیادہ کرو خوشی کم کرو چونکہ یہ بات (اللہ تک رسائی) غم اور پریشانی پر مبنی ہے۔ یہی حال تھا۔ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام اور بزرگان متقدمین علیہم الرحمہ کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غم اور بہت فکر ( میں رہنے) والے تھے ۔ ہنستے نہ تھے مگر مسکراہٹ سے خوش نہ ہوتے تھے مگر تکلیف سے ،تمہارے میں سے عقلمند وہ ہے جو نہ دنیا پرریجھے ۔ اور نہ بچوں، بیوی ، مال ، کھانے پہننے کی چیزوں سواریوں اور عورتوں پر یہ سب ہوس ہے۔ مومن کی خوشی ایمان و یقین اور اس کے دل کی اپنے خدائے بزرگ و برتر کی نزدیکی کے دروازہ تک رسائی سے ہوتی ہے۔ اپنے دل کی آنکھ کھولو ۔ اور اس سے اپنے خدائے بزرگی برتر کی طرف دیکھیں کہ تمہیں وہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ دیکھو۔ اس نے تمہارے سے پہلے بادشا ہوں اور امیروں کو کس طرح ہلاک کیا ۔ چیلوں کے بچھڑنے کو یاد کرو۔ جنہوں نے دنیا پر قبضہ کیا اور خوب اس کے مزے لوٹے ۔ پھر یہ ان کے ہاتھوں سے چھین لی گئی اور وہ دنیا سے چھین لیے گئے ۔ اور آج عذاب کے جیل خانہ میں قید میں۔ ان کے محل مسمار پڑے ہیں اور ان کے گھر برباد پڑے ہیں اور ان کے روپے پیسے تو چلے گئے مگر ان کے اعمال باقی رہ گئے ۔ مزے گئے اور خمیازے باقی رہ گئے ۔ خوش مت ہو جیل میں خوشی کا کیا موقع ۔ تمہاری بیوی ، تمہارے بچے اور تمہارے گھر کا حسن اور تمہارے مال کی کثرت تمہیں نہ لبھائے ۔ اس چیز پر خوش مت ہو جس پر گذشتہ انبیاء و مرسلین علیم الصلوۃ والسلام اور بندگان صالحین علیہم الرحمہ خوش نہیں ہوئے۔ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا ۔ خوش ہونے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا یعنی دنیا ۔ اہل دنیا اور اس کے ماسوائے پر خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور اس سے اور اس کی نزدیکی سے خوش ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ والوں کی خوشی ان کا یہ غور و فکر کرنا ہے کہ آخرت کے معاملہ میں انہیں کیا کرنا چاہئیے ۔ نہ کہ شہوات – لذات اور خرافات میں ۔ اے ہوس پرست! تمہیں اس سے سروکار ہی نہیں کہ تمہیں کیا ہونا ہے ۔ اے غافلو ! آخرت میں اس کے لیے سخت عذاب ہے جس نے اللہ کی اطاعت پر عمل نہ کیا۔ جب بندے کا دل سیدھا ہو جاتا ہے اور وہ سب کو الوداع کہہ دیتا ہے اور ہر چیز کو پس پشت پھینک دیتا ہے تو اسے مطلب دنیا اور ملک آخرت دونوں حقیر معلوم ہوتے ہیں اور غار اور درندوں کے سامنے ہوتا ہے۔ جنگلی جانوروں سے ملتا جلتا ہے۔ اور مخلوق سے بھاگتا ہے۔ اور اپنے نفس کو بیابانوں کی بھوک پیاس اور ہلاکت کے حوالے کرتا ہے ۔ اور عرض کرتا ہے کہ اسے حیران و پریشان مخلوق کے راہنما مجھے اپنی راہ بتا دے ۔
اے اللہ ! میرا غم ایک ہی بنا دے ۔ اور یہ نہیں ہوتا مگر یہ کہ حرام چھوٹے۔ آخر مطلق حلال بھی چھوٹے ۔ نہیں تو تجھے مزوں اور لذتوں ، مخلوق اور دنیا اور اسباب پر اعتماد میں مبتلا دیکھتا ہوں تم کیوں نیکیوں کے حالات کے بارہ میں گفتگو کرتے ہو اور ان کو اپنا ذاتی بنانے کا دعویٰ کرتے ہو تم ہمیں دوسروں کے حال کی خبر دے رہے ہو۔ اور ہم پر اوروں کی کمائی کو خرچ کر رہے ہو۔ کتابوں کا مطالعہ کرتے رہو اور ان سے بزرگوں کی باتیں نکال کر تقریر کرنے لگتے ہو۔ اور سننے والوں کو یہ و ہم ڈالتے ہو کہ یہ تمہارے دل سے تمہاری قوت حال سے اور تمہارے دل کے بولنے سے ہے۔ اے صاحبزادے پہلے اُس پر عمل کرو جو انہوں نے فرمایا ہے۔ پھر زبان سے نکالو۔ اس وقت تمہاری بات تمہارے دل کے درخت کا پھل ہوگی۔ یہ بات محض نیکوں کے دیدار اور ان کی باتیں محفوظ کرنے سے نہیں حاصل ہوتی بلکہ جو وہ فرمائیں اس پر عمل کرنے سے اور ان کی صحبت میں نہایت ادب سے اور ان کے بارہ میں حسن ظن سے اور تمام حالات میں اس کی پابندی سے حاصل ہوتی ہے عوام کو پاؤں سے چلنے کی مقدار پر ثواب ملتا ہے، اور خواص کو ان کے فکر کی مقدار پر ثواب ملتا ہے جس کے سارے فکر ایک ہی فکر بن جاتے ہیں۔ حق تعالے بھی اس کے لیے یکتا ہو جاتے ہیں۔ جب وہ اپنے دل سے غیر اللہ سے پیٹھ پھیر لیتا ہے حق تعالیٰ اس کے والی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالے نے اپنی (سچی اور )پکی کتاب (یعنی قرآن مجید) میں ارشاد فرمایا ہے بے شک میرا کار ساز اللہ ہے جس نے کتاب اتاری ہے وہی نیکوں کا حمایتی ہوتا ہے۔ جب اس بندے کا دل اپنے خدائے بزرگ و برتر سے مل جاتا ہے تو خدا ہی اس کا معالج اور مونس ہوتا ہے۔ نہ کوئی دوسرا اس کا علاج کرتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اسے مانوس کرتا ہے. حضرت داؤد علیہ السلام عرض کیا کرتے تھے ۔ اے میرے اللہ ! میں تیرے بندوں کے سب طبیبوں کے پاس ہو آیا ہوں تو سب نے مجھے آپ ہی کا پتہ بتایا ہے ، اے حیرت زدہ بندوں کے رہنما مجھے اپنا راستہ دکھا جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اس کا دل تو سرا پا شوق. مکمل یکسوئی اور کامل فنا بن جاتا ہے۔ اپنے آپ اس کے سارے فکر ایک ہی فکر بن جاتے ہیں کشف کی حقیقت پر دوں سے باہر نکلنے کے بعد ہی پوری ہوتی ہے۔ اگر (خدا تک )رسائی چاہتے ہو . تو دنیا ، آخرت اور زیر عرش سے لے کر ثری (نیچے کی گیلی مٹی) تک سب کو چھوڑ دو۔ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساری مخلوقات حجاب ہے. چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دروازہ ہیں ۔ خدائے بزرگ و برتر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے اور جو تم کو رسول دے اسے لے لو۔ اور جس سے تمہیں منع کرے اس سے باز آؤ۔ لہذا آپ کی پیروی پر وہ نہیں بلکہ یہ رسائی کا حیلہ ہے ۔
اے صاحبزادے ! تمہاری بات سمجھ کی کیسے ہو۔ اور تمہارا باطن کس طرح صاف ہو جب تم مخلوق کو شریک خدا بناتے ہو۔ تمہارا کام کیسے نکلے ۔ جب تم ہر رات یہی طے کرتے رہتے ہو کہ (صبح ) کس کے پاس جانا اور اس سے (اپنی مصیبت کی) شکایت کرنی اور بھیک مانگنی ہے۔ تمہارا دل کیسے صاف ہو سکتا ہے جبکہ وہ توحید سے خالی ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھی توحید نہیں۔ توحید ایک نور ہے۔ اور خالق سے شرک کرنا ظلمت ہے۔ تم کس طرح فلاح پاسکتے ہو ۔ جبکہ تمہارا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اور اس میں ذرہ برابر بھی تقویٰ نہیں۔ تم خالق سے محجوب ہو۔ اور مسبب الاسباب سے اسباب کے حجاب میں ہو ۔ مخلوق پر بھروسہ اور اعتماد کر کے محجوب ہو۔ تم خالی دعوی ہو۔ حقیر چیز – تلچھٹ کسی دعوی پر بغیر ثبوت کے کچھ نہیں دیا جاتا ۔ (رسائی وصول الی اللہ) صرف دو طرح سے ہی ہو سکتی ہے اول مجاہدہ اور ریاضت( ہر عبادت میں عزیمت اور) مشقت اور محنت والی شق کا اختیار کرنا۔ اور یہی طریقہ بزرگوں میں زیادہ اور مشہور ہے۔ اور دوسری بلا شفقت محض عطا اور یہ (طریقہ) مخلوق میں سے کسی کے لیے نادر ہے ۔ ایمان کی کمزوری کی حالت میں خاص طور پر اپنی ہی فکر کرو۔ (کہ اس حالت میں) تمہارے پر اپنے گھر والوں کی اپنے پڑوسیوں کی اور اپنے شہر اور ملک والوں کی (اصلاح کی ) ذمہ داری نہیں لیکن ہاں ۔ جب تمہارا ایمان مضبوط ہو جائے تو پھر (پہلے) اپنے اہل و عیال کی طرف اور پھر عام مخلوق کی طرف نکلو۔ (یعنی مجاہد بن کر ان کو راہ راست پر لاؤ) تم مست نکلو( مگر اس صورت میں) تم تقویٰ کی زرہ پہنے ہوئے ہو اور اپنے سر پر ایمان کا خود رکھے ہوئے ہو۔ اور تمہارے ہاتھ میں توحید کی تلوار ہو ۔ اور تمہارے ترکش میں دعا کی قبولیت کے تیر ہوں ۔ اور تم توفیق الہی کے گھوڑے پر سوار ہو۔ اور تم نے بھاگ دوڑ تلوار بازی اور تیراندازی سکھی ہوئی ہو( کہ طالبین کے مشاغل و طبائع کے واقع ہو کر جہاں جو طریق ارشاد مناسب سمجھو عمل میں لاؤ) پھر تم حق تعالے کے دشمنوں پر حملہ کرو۔ تو اس وقت تمہارے پاس (اللہ کی مدد و معاونت تمہارے چھیوں طرفوں یعنی دائیں بائیں اوپر نیچے ۔ اور آگے پیچھے سے آئے گی جس پر تم مخلوق کو شیطانوں( کے ہاتھوں ) سے چھین کر حق تعالے کے دروازہ پر لا ڈالو گے ۔ اور جو کوئی اس مقام تک پہنچ جاتا ہے اس کے دل سے سب پر دے اٹھ جاتے ہیں۔ اور اپنی چھیوں طرفوں میں جد ہر دیکھتا ہے۔ اس کی نظر پار ہو جاتی ہے۔ اور کوئی چیز اس سے چھپی نہیں رہتی۔ وہ اپنے دل کا سر اوپر اٹھاتا ہے تو سرکش اور افلاک کو دیکھ لیتا ہے اور جب نیچے گردن جھکاتا ہے تو زمین کے سارے طبق اور جتنے جن ۔ انسان اور جانور اس میں آباد ہیں سب کو دیکھ لیتا ہے ۔ جب تم اس مقام پر پہنچ جاؤ۔ تو مخلوق کو خدائے بزرگ و برتر کے دروازہ کی طرف بلاؤ ۔ اور اس سے پہلے تو تم سے کچھ بھی نہ بنے گا جب تم مخلوق کو بلاؤ اور تم خود خالق کے دروازہ پر نہ ہو تو تمہارا یہ بلاوا تمہارے پر وبال بنے گا۔ تم ہلو گے اور گرو گے۔ بلندی چاہو گے اور پست ہو گے تمہیں اللہ والوں کے حال کا پتہ ہی نہیں تم محض بک بک ہو۔ تم زبان ہو بغیر خیال تم ظاہر ہو بغیر باطن. تم جلوت ہو بغیر خلوت ، تم طاقت ہو بغیر رعب تمہاری تلوار لکڑی کی ہے تمہارے تیر (د یا سلائی کے) تیلے ہیں۔ تم بزدل ہو۔ تمہارے میں کوئی بہادری نہیں ۔ ایک معمولی تیر تمہیں مار ڈالتا ہے۔ اور تمہارے لیے قیامت بر پا کر دیتا ہے ۔ اے اللہ ! اپنے قرب سے ہمارے دین اور ایمان کو محفوظ فرمائے۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچایئے ۔
دسویں مجلس :-
بندہ جب اپنے نفس اور اپنی نفسانی خواہش سے فنا ہو جاتا ہے تو باعتبا رمعنی آخرت میں اور باعتبار صورت دنیا میں ہوتا ہے۔ علم الہی کے قبضہ میں اس کی قدرت کے سمندر میں تیرنے والا بن جاتا ہے . جب اس پر مخالف کا خوف زیادہ ہو جاتا ہے۔ اور اپنے دل کو خوف کے امن سے کٹتا دیکھتا ہے تو حق تعالی اسے قریب کرلیتے ہیں۔ اور اپنی ذات پہچا نوا دیتے ہیں ۔ اور اس کو بشارت دیتے ہیں۔ اور اس کے دل کا ڈر جاتا رہتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین سے کیا۔ اُن کی طرف دیکھا۔ کہ اس کے پیچھے جمع میں ان کو بٹھایا، ایک ہی جگہ (بیٹھے) کھا رہے تھے اور اس کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ اور اس کے ساتھ (خود) کھانا کھایا۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے۔ تو پوشیدہ طور پر اشارہ کیا۔ اس سے کہا، میں ہی یوسف ہوں پس وہ خوش ہو گیا۔ پھر اس سے کہا کہ میں تمہیں چرانا اور تہمت لگانا چاہتا ہوں۔ تو تم اس مصیبت پر صبر کرنا ۔ تو جو کیفیت اس کی یوسف علیہ السلام کے ساتھ گزری ۔ اس کے بھائیوں نے اس پر تعجب کیا اور اس سے یونہی حسد کیا جس طرح پہلے یوسف علیہ السلام سے حسد کیا تھا۔ چنانچہ جب اس کی چوری اور عیب ظاہر ہوا ۔ کرامت پیش آئی اور اس کو اپنے نزدیک کر لیا۔ اسی طرح یہ مومن جب اس کو حق تعالیٰ دوست بنا لیتے ہیں اس کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے آزماتے ہیں جب وہ ان پر صبر کرتا ہے تو بزرگی اور نزدیکی عنایت فرماتے ہیں۔ بات پہنچنے پر کوشش کی۔ بخار آنے پر بیمار بن گیا۔ تقدیر اور تکلیف کی (باتیں) پیش آنے پر خاموش رہا۔ امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ۔ اپنے سے تکلیف دور کرنے اور اپنے لیے نفع اٹھانے کے سلسلہ میں اس طرح رہو گویا تم قبر میں مردہ پڑے ہو۔ پیارا حق تعالیٰ کی نسبت سے سنتا اور دیکھتا ہے ۔ اور مخلوق کی نسبت سے وہ اندھا اور بہرہ ہوتا ہے ، شوق اس کے حو اس خمسہ کوگھیر لیتا ہے جسم اس کا مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے اور باطن خالق کے ساتھ ہوتا ہے ، اس کے پاؤں زمین پر ہوتے میں اور ہمت آسمان پر ہوتی ہے۔ اور اس کے دل میں فکر خدا ہوتا ہے اور لوگ نہیں سمجھتے ۔ اس کے پاؤں کو دیکھتے ہیں اور اس کی ہمت کو نہیں دیکھتے، اور نہ ہی اس کے فکر کو چونکہ یہ دونوں تو دل کے خزانہ میں ہوتے ہیں جو حق تعالیٰ کا خزانہ ہے۔ (اس سے اندازہ کرو کہ )تم اس سے کہاں ہو ۔ اےجھوٹے ! تم اپنے مال اولاد، وجاہت مخلوق اور اسباب کے ساتھ شرک پر ڈٹے ہو۔ اور اس پر تم حق تعا لے سے نزدیکی کا دعوی کرتے ہو۔ (دیکھو) جھوٹ ظلم ہے۔ چونکہ ظلم کی حقیقت چیز کا دوسری جگہ چھوڑنا ہے ، اپنے جھوٹ سے تو بہ کرو۔ اس سے پہلے کہ اس کی نحوست تمہاری طرف لوٹے جو اللہ والوں کے ساتھی ہوتے میں ان کی صفتوں میں سے تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شخص کی طرف نظر کرتے ہیں۔ اور اپنی توجہات اس کی طرف کرتے ہیں اس سے پیار کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ منظور( نظر) یہودی ، عیسائی یا مجوسی ہو پس اگر مسلمان ہو تو اس کے ایمان یقین اور استقلال کو (اور) زیادہ کر دیتے ہیں۔ اے حق تعالیٰ اور اس کے نیک بندوں سے غافلو ! مال اور اولادتمہیں حق تعالے سے نزدیک نہ کریں گے تمہیں اس سے محض تقویٰ اور نیک عمل قریب کرے گا ، کافر لوگ اپنے مال اور اولاد سے بادشاہوں کے نزدیک ہوا کرتے تھے ۔ پھر کہا کرتے تھے۔ اگر حق تعالے نے چاہا تو قیامت کے روز بھی ہم اپنے مال اور اولاد اور فعل سے اس کے نزدیک ہو جائیں گے۔ جس پر حق تعالے نے یہ آیت نازل فرمائی: اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں کسی درجہ میں ہم سے نزدیک کر دیں مگر جو ایمان لایا اور نیک عمل کیا۔ ان سب کے لیے ان کے کیے پر دو گنا ثواب ہے ۔ اور وہ (جنت) کے جھروکوں میں اطمینان سے (بیٹھے) ہوں گے ؟ دنیا میں رہنے اور جینے کی صورت میں اگر تم اپنے مال سے اللہ کے نزدیک ہوگے تو یہ چیز تمہیں فائدہ دے گی۔ جب تم نے اپنی اولاد کو لکھنا اور (قرآن) پڑھنا اور عبادت کرنا سکھایا اور ارادہ حق تعالے سے نزدیکی کا کیا ۔ تو یہ چیز تمہیں تمہاری موت کے بعد بھی فائدہ بخشے گی تمہیں خبر دے دی گئی ہے کہ وہ سب چیزیں تم ہو، کوئی فائدہ نہ دیں گی۔ اور محض ایمان عمل صالح اور سچائی اور رسولوں کتابوں اور فرشتوں کی تصدیق) فائدہ بخشےگی ۔ اس مومن عارف اللہ اور اس کا رسول اس سے راضی ہوں ۔ کا اس سے ہی معاملہ رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے دل کے ساتھ اللہ تعالے کے پیش ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ اس کے سامنے غلام کی طرح ہوتا ہے . جب خدمت کافی ہو جاتی ہے (تو کہتا ہے ) اے استاد، مجھے مالک کا دروازہ دکھاؤ۔ میں اس سے مشغول ہوں اور مجھے ایسی جگہ کھڑا کرو (کہ جہاں سے میں اس کو دیکھوں۔ میرا ہاتھ اس کی نزدیکی کے دروازہ کی کنڈی میں کر دو۔ تو اس کو اپنے ساتھ لیا اور قریب دروازہ کر دیا۔ پوچھا گیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم . اے پیغام دینے والے اے راہ دکھانے والے اے سکھانے والے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ تو فرمایا۔ آپ کو اس کے رتبہ کی قدر و منزلت معلوم ہے اور آپ اس کی خدمت سے راضی ہوگئے ہیں۔ یہ ہے۔ پھر اس کے دل سے فرمایا۔ لو تم ہو۔ اور تمہارا رب جیسے کہ آپ کے لیے جبریل علیہ السلام نے اس وقت کیا تھا۔ جبکہ آپ کو آسمان تک اٹھایا تھا۔ اور آپ اپنے خدائے بزرگ و برتر کے قریب ہو گئے تھے۔ لیجئے آپ ہیں ۔ اور آپ کا رب – نیک عمل لاؤ، اور پروردگار عالم کی نزدیکی اختیار کرو ۔ جو جنت والے ہیں وہ دنیا کی مصیبتوں سے اور ناداری ۔ بیوی بچوں کی پریشانیوں بیماریوں اور غموں پر صبر کرنے سے محفوظ (جنت کے جھروکوں میں (بیٹھے) ہوں گے۔ موت سے اور بعد میں ایک مرتبہ پھر اس کا پیالہ پینے اور منکر و نکیر کے سوال جواب سے نڈر ہوں گے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ ان کے (داخل ہونے کے) بعد دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔ ان کے لیے نکلنا نہ ہو گا جنت والوں کی راحت ان کے اُس میں داخل ہونے کے بعد ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوتی رہے گی لیکن پیارے۔ ان کے دلوں کے لیے کوئی راحت نہیں ۔ چاہے وہ لاکھ جنت میں داخل ہوں . جب تک وہ اپنے محبوب کو نہ دیکھیں۔ وہ مخلوق کو نہیں چاہتے ۔ وہ تو محض خالق کو چاہتے ہیں۔ وہ نعمتوں کو نہیں چاہتے ، بلکہ منعم ونعمتوں کے دینے والے) کو چاہتے ہیں ۔ اصل کو چاہتے ہیں فرع کو نہیں چاہتے ہیں ، اور وہ ان کے دل کی زمین با وجود کشادہ ہونے کے تنگ ہو جاتی ہے ۔ ان کے پاس مخلوق سے بے خبر کرنے والا شغل ہوتا ہے جب ان کے دل جنت میں ان کے کاٹنے کی چیز نہیں دیکھتے۔ ایک اشارہ کرتے ہیں جس کی تعبیر نہیں کی جا سکتی ۔ ایک طرف اس طرح نکلتے ہیں گویا درندوں بیڑیوں اور قید خانوں کو دیکھتے ہیں جو کچھ اس میں ہے، پردہ ۔ وہم۔ عذاب ہے ۔ اس سے اس طرح دوڑتے ہیں جس طرح مخلوق درندوں ۔ بیڑیوں اور قید خانوں سے بھاگتی ہے ۔ اپنی امید کو کوتاہ کرو۔ اپنی حرص کو کم کرو۔ رخصت ہونے والے ایسی نماز پڑھو۔ میرے پاس رخصت ہونے والے کی طرح حاضر ہو پس اگر تمہیں ایک اور دن کی حاضری میں موت آگئی تو یہ تمہارے حساب سے ہوگی کسی مومن کیلئے مناسب نہیں کہ وہ سوئے مگر یہ کہ لکھی ہوئی وصیت اس کے سر کے نیچے ہو. چونکہ اگر حق تعالی نے اس کو اس کی نیند میں ہی اٹھا لیا تو لوگ اس کی موت کے بعد جانیں کہ اس میں کیا ہے اور اس پر رقم کیا جائے تمہارا کھانا رخصت ہونے والے کا کھانا ہونا چاہیئے۔ تمہارا اپنے بیوی بچوں میں بیٹھنا رخصت ہونے والے کا بیٹھنا ہونا چاہیئے۔ تمہاری اپنے بھائیوں اور دوستوں سے ملاقات رخصت ہونے والے کی ملاقات ہونی چاہیئے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ تمہارا معاملہ دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ مخلوق میں ایک دو ہی فرد ہوتے ہیں جن کو معلوم ہو کہ ان سے یا ان کے لیے کیا ہونے والا ہے ۔ انہیں کس وقت مرنا ہے ، یہ بات ان کے دلوں میں ہوتی ہے۔ اس کو اس طرح سامنے دیکھتے ہیں جس طرح تم نفس کو دیکھتے ہو۔ ان کی زبانیں اس کو بیان نہیں کرتیں سب سے پہلے اس باطن کو واقفیت ہوتی ہے اور باطن قلب کو اور قلب مطمنہ کو مطلع کرتا ہے اور وہ اس کو چھپاتا ہے۔ اس پر اس کی اجازت کے بغیر اور اس کی دل کی خدمت بغیر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور اس کا قیام اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہاں تک مجاہدوں اور ریاضتوں کے بعد رسائی ہوتی ہے اور جو اس مقام تک پہنچ جائے وہ زمین میں حق تعالیٰ کا نائب اور اس میں اس کا خلیفہ ہوتا ہے۔ یہ بھیدوں کا دروازہ ہے۔ اس کے پاس دلوں کے خزانوں کی کنجیاں ہیں جو حق تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ یہ چیز مخلوق کی عقل سے بالا ہے ۔ جو اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے پہاڑ کا ایک ذرہ ہے۔ اور اس کے سمندر کا ایک قطرہ ہے اور اس کی روشنی سے ایک چراغ ہے. اے میرے اللہ ! میں آپ سے عذر کرتا ہوں۔ اور اس کی قدرت کہاں لیکن جب میں اس درجہ تک پہنچ گیا. تو تم سے غائب ہو جاتا ہوں۔ چنانچہ میرےدل کے مقابلہ میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی جو اس کی طرف عذر کرے اور اس سے محفوظ رکھے۔ یہ دل جب صحیح ہو جاتا ہے اور اللہ تعالے کے دروازہ پر اپنے پاؤں جما لیتا ہے تو تکوین کے صحرا اور اس کی وادیوں میں گر پڑتا ہے. اور اس کے سمندر میں بھی اپنے کلام سے ہوتا ہے اور کبھی اپنی ہمت سے اور کبھی اپنی نظر سے (یہ سب) اللہ تعالیٰ کا فعل ہو جاتا ہے۔ اور وہ ایک طرف علیحدہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے بقایا کو وہ باقی رکھتا ہے۔ تم میں تھوڑے ہیں جو اس کو مانیں ۔ اور تم سے اکثر اس کو ایمان سےجھٹلا تے ہیں۔ یہ ولایت ہے اور اس پر عمل کرنا منتہی ہے ۔ بزرگوں کے حالات سے بعض منافق۔ دجال اور اپنی نفسانی خواہشات کا سوار ہی انکار کرتا ہے۔ یہ بات صحیح اعتقاد پر مبنی ہے ۔ پھر (شریعت) کے حکم کے ظاہر پر عمل کرنے پر – عمل معرفت الہی کا وارث بنا دیتا ہے علم اس کے اور اس کے پروردگار کے درمیان (ذریعہ ہوتا) ہے۔ اس کے ظاہر اعمال باطنی اعمال کے پہاڑ کی نسبت سے ذرہ بھر ہوتے ہیں اس کے اعضاء کو سکون ہوتا ہے مگر دل کو سکون نہیں ہوتا ۔ اس کا سر سوتا ہےاور اس کے دل کی آنکھیں نہیں سوتیں۔ اپنا دل سے عمل اور ذکر کرتا ہے، اور وہ سویا ہوتا ہے۔ تم دنیا کو کب پہچانتے ہو کہ اس کو چھوڑ دو اور اس کو طلاق دینے والے بنو تم اپنے بھائیوں سے حسد کرنے کو اور جو چیز ان کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی تمنا کرنے کو کب چھوڑتے ہو۔ تمہاری خرابی ہو، تم اپنے مسلمان بھائی سے اس کی ہوی۔ اس کے بچے ۔ اس کے گھر پر اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں دنیا سے ہے اس پر حسد کرتے ہو۔ اور یہ تو ایک بنی بنائی چیز ہے۔ اور اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے تم اس کی بیوی کی تمنا کرتے ہو۔ اور حالانکہ وہ تو دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے ہی بنائی اور پیدا کی گئی ہے۔ تم رزق کی فراخی کی تمنا کرتے ہو۔ حالانکہ علم الہی میں اس کی تنگی پہلے ہی ہو چکی
چونکہ تم وہ چیز چاہتے ہو ۔ جو تمہارے لیے نہیں لکھی گئی ۔ دنیا کی طلب میں تم کتنی محنت اٹھاتے ہو اور کتنا لالچ کرتے ہو ۔ حالانکہ تمہارے لیے تو اس کا وہی حصہ ہے جو تمہارے لیے لکھا گیا۔ اے ہمارے اللہ ! ہمارے دلوں کو ان کی غفلتوں سے بیدار کر دیجئے ۔ ہمیں اپنے لیے بیدار کر دیجئے۔ اور ہمیں اپنی خدمت کے لیے کھڑا کر دیجئے۔ اور ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے۔
گیارھویں مجلس:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ آپ نے فرمایا۔ ہر چیز میں اس کے ماہرین سے مدد لو۔ یہ عبادت اور خوبی ہے۔ اور اس کے ماہرین اعمال کے نیک اور احکام پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں عمل کرنے والے مخلوق کو اس کی معرفت کے بعد رخصت کرنے والے ہوتے ہیں مخلوق میں رہ کر اپنے دلوں اپنے بھیدوں اور اپنے معنوں کی طرف بڑھ کر اپنی جان اپنے مال ۔ اپنی اولاد اور تمام ماسوائے اللہ سے بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ اور ان کے دل جنگلوں اور بیابانوں میں ہوتے ہیں۔ اور ان کے دل اسی حالت میں رہتے ہیں۔ کہ ان کے بازو مضبوط ہو جاتے ہیں تو اس آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں جس کی انہیں محبت ہوتی ہے۔ پھر ان کے دل اڑتے ہیں اور حق تعالے کے ہاں پہنچتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ان میں سے ہو جاتے ہیں جن کے بارہ میں حق تعالے نے فرمایا : کہ وہ سب ہمارے نزدیک چنے ہوئے نیک لوگوں میں سے ہیں ۔ مومن ڈرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے باطن کو امان تحریر کردی جاتی ہے پس اس کو اپنے دل سے چھپاتا ہے۔ اور اس کو اس سے مطلع نہیں کرتا ۔ اور یہ رکے رکے ہوتے ہیں۔ افسوس بدنصیبی تمہارے پر ۔ اے مخلوق کے ذریعہ سے شرک کرنے والے۔ تم بہت سے ایسے دروازے کھٹکھٹاتے ہو جن کے پیچھے تمہارے گھر نہیں. بہت دفعہ لوہا بغیر آگ کو ٹتے ہو ۔ نہ ہی تمہیں عقل، نہ ہی تمہیں فکر، نہ ہی تمہیں تدبیر خرابی ہو تمہاری میرے نزدیک ہو جاؤ اور میرے کھانے سے ایک لقمہ کھاؤ۔ اگر تم نے میرا کھانا چکھ لیا تو تمہارا دل اور تمہارا باطن مخلوق کے کھانے سے باز رہے گا۔ یہ ایسی چیز ہے جو کپڑوں، گوشت کی بوٹیوں اور کھالوں کے پیچھے دلوں میں ہوتی ہے ۔ اور یہ دل نہیں سنورتا ۔ جب تک مخلوق کے گھروں میں سے کوئی باقی ہو۔ اور یقین بھی صحیح نہیں ہوتا جبکہ دل میں دنیا کی محبت کا ایک ذرہ بھی ہو جب ایمان یقین اور یقین معرفت بن جاتی ہے اس وقت معرفت حق تعالے کے لیے سعی ہوتی ہے۔ اسیروں کے ہاتھ سے لیتا ہے ۔ اور فقیروں کی طرف لوٹا دیتا ہے ، باورچی خانہ کا (مالک بن جاتا ہے ۔ رزق اور روزی تمہارے دل اور باطن کے ہاتھ پربٹتی ہے۔ تمہارے لیے کوئی بزرگی نہیں۔ اے منافق کہ تم ایسے ہو جاؤ ۔ خرابی تمہاری ۔ اللہ کے حکم سے تمہاری کسی پر ہیز گار ۔ زاہد ۔ عالم بزرگ کے ہاتھ پر نہ تربیت ہوئی۔ نہ تعلیم ۔ خرابی تمہاری تم بلا کسی چیز کے کچھ چاہتے ہو۔ یہ تمہارے ہاتھ نہ پڑے گی۔ جب دنیا بھی بلا محنت و مشقت حاصل نہیں ہوتی تو کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں کس طرح کہاں تم اور کہاں وہ لوگ جن کی اللہ تعالیٰ نے کثرت عبادت کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں تعریف کی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ” رات کو بہت کم سوتے ہیں اور صبح کے وقتوں میں بخشش مانگتے تھے جب اللہ نے انہیں اپنی عبادت میں سچا جانا تو ان کے لیے اپنے فرشتوں میں سے ایک کو کھڑا کر دیا۔ جو ان کو ان کے بستروں سے اٹھاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام سے فرماتے ہیں۔ اے جبریل ! فلاں کو اٹھا دے اور فلاں کو سُلا دے ۔ اللہ والے جب بیدار ہو جاتے ہیں تو ان کے دل حق تعالے کی طرف بڑھتے ہیں۔ نیند میں دو چیزیں دیکھتے ہیں جن کو حالت بیداری میں نہیں دیکھا ہوتا۔ ان کے دل اور ان کے باطن ایسی چیز دیکھتے ہیں جس کو وہ بیداری میں نہیں دیکھتے۔ روزے رکھتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں۔ اپنی جان سے کوشش کرتے ہیں۔ (مخلوق) سے زیادہ رخ پھراتے ہیں طرح طرح کی عبادت کر کے دن کو رات کر دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کو جنت حاصل ہو جاتی ہے جب انہیں یہ حاصل ہو جاتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ایک راہ اور بھی ہے اور وہ حق تعالے کے چاہنے کی ہے۔ چنانچہ ان کے اعمال دلوں کے مطابق ہو جاتے ہیں جب حق تعالے مل جاتے ہیں تو قرار پکڑ لیتے ہیں۔ اور اس کے ہاں جم جاتے ہیں جو اپنے مطلوب کو جان لیتا ہے تو اس پر اپنی طاقت کا خرچ کرنا آسان ہو جاتا ہے اور وہ حق تعالی کی اطاعت میں کوشش کرتا ہے۔ اس واسطے مومن مشقت میں ہی رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے خدائے بزرگ وبر تر سے ملاقات کرتا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب آدمی مرجاتا ہے اور قبر میں داخل ہو جاتا ہے تو منکر نکیر اس سے سوال کرتے ہیں وہ جواب دیتا ہے۔ پھر اس کی روح کو بارگاہ خداوندی کی طرف جانے اور اس کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا ہے اور اس روح کے ساتھ فرشتوں کی ایک جماعت ہوتی ہے ۔ وہ اس کو لے لیتی ہے، اور اس کے لیے ان باتوں سے پردہ اٹھاتی ہے جو اس سے چھپی ہوئی تھیں۔ پھر اس کو نیکوں کی روحوں کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا ۔ چنانچہ اور بہت سی روحیں استقبال کریں گی۔ اور اس سے حالات اور دنیا کے دھندوں کا پوچھیں گی پس جو چیز اس کو معلوم ہو گی ان کو خبر دے گی ۔ فلاں نے کیا کیا ۔ وہ کہے گی وہ تو مجھ سے پہلے مرچکا۔ اس پر وہ کہیں گی۔ وہ ہمارے تک تو نہیں پہنچا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ اس کو اس کی ماں ہاویہ (دوزخ) کے پاس لے کہ چلے گئے تھے ۔ پھر اس نیک روح کو سبز پرندہ کی پوٹ میں ڈال دیں گے۔ وہ جنت میں کھاتی پھرا کرے گی ۔ اور آسمان کے نیچے لٹکے ہوئے پنجرہ میں پناہ لیا کرے گی ۔ اکثر مومنین علیہم السلام کی ملاقات کی یہ صورت ہوا کرے گی اے اللہ ! ہمیں ان میں سے کر دے ۔ اور ہمیں ان کے جینے کی طرح جیتا رکھ۔ اور ہمیں ان کی سی موت مار – آمین ۔
بارھویں مجلس :-
اے فقیر و ،اے مصیبتوں میں مبتلا ہونے والو ! موت اور اس کے بعد کی چیزوں کو یاد کرو تمہارا افلاس اور تمہاری مصیبتیں ہلکی ہو جائیں گی اور تمہارے لیے دنیا کو چھوڑنا آسان ہو جائے گا۔ میری یہ بات قبول کر لو۔ چونکہ میں نے اس کو آزمایا ہوا ہے۔ اور اللہ والوں کی راہ چلنے والے تو ذات خداوندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہا کرتے ۔ جنت سے اٹھتے ہیں اور جنت کے پیدا کرنے والے کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (محض) اس کی ذات اور اس کی خوشنودی کی طلب میں۔ ان کے دلوں اور ان کی امنگوں کے درمیان رکاوٹ ہوتی ہے۔ ان کے (سامنے) ان کی ہمتوں کی بات آتی ہے۔ ان کی دکانوں کو بند کر دیتی ہے ۔ اور ان کو ویرانوں اور بیابانوں میں بسا دیتی ہے۔ ان کو قرار نہیں ہوتا ۔ نہ ان کی رات رات ہوتی ہے۔ اور نہ ان کا دن دن ہوتا ہے۔ ان کے پہلو ان کے بستروں سے الگ ہو لیتے ہیں۔ ان کے دل گرم بھٹی میں دانہ کی طرح ہوتے ہیں۔ جدا ہوتا ہے اور اس سے بھاگتا ہے۔ ان کے دل محاسبہ، مناقشت اور مخافقت کی فکر کی بھٹی میں ہوتے ہیں۔ وہی ازلی عقل اور سمجھ والے ہوتے ہیں جنہوں نے دنیا اور دنیا والوں کو پہچانا ۔ اور اس کی چالبازیوں مکر و فریب – جادو گر یوں سحر آفرینی۔ بے وفائیوں اور اس کے اپنے بیٹوں کو ذبح کرنے کو خوب جانا۔ اللہ والوں کے دلوں کو پکارا گیا۔ تو ان کے پہلو ان کے بستروں سے الگ ہو گئے یعنی صورتوں کی باتیں سننے کے بعد اپنے عیبوں کی باتیں بھی سنیں، پنجروں کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ پرندوں کی بھی باتیں سنیں حق تعالے کی بعض باتوں میں سے یہ بات بھی سنی جھوٹا ہے۔ جس نے میری محبت کا دعویٰ کیا اور جب رات پڑی تو مجھ سے غافل ہو گیا، اس موافقت (گویا قول اور فعل کے تضاد سے) سے شرمندگی محسوس کرو ۔ شرم کرو .( دوسری طرف اللہ والوں کا تو یہ حال رہا) کہ رات کی تاریکی میں صدق و صفا کے ساتھ اس کے حضور کھڑے ہو گئے ۔ اور آنسوؤں کو اپنے رخساروں پر چھوڑ دیا اور اس کو اپنے آنسوؤں سے ہی مخاطب کیا اور (عبادت) کے رو سے ڈر کر اور (عبادت) کی قبولیت کی امید کر کے خوف و رجا ( ڈر اور امید) کی منزل میں داخل ہو گئے اے لوگو ! (شریعت) کے اس ظاہر حکم میں داخل ہو جاؤ ۔ خدائے بزرگ وبر ترکی کتاب اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرو۔ اور اپنے اعمال میں اخلاص اختیار کرو۔ پھر دیکھو کہ تم اس کے لطف و کرامت اور خوشگوار گفتگو سے کیا کچھ دیکھتے ہو۔ اے یقینی طور پر مجر مو – اے بدنصیبو ! آگے بڑھو. اے دوڑنے والو! لوٹو مصیبتوں کے تیروں سے مت بھا گو ۔ یہ محض اوہام ہیں (ذرا ) ڈٹو۔ اس قسم کی بات اور اس کی شہرت کے لیے تم کافی (ثابت) ہو چکے ہو۔ ڈٹے رہو تمہارے علاوہ کسی پر کوئی چیز نہ پڑے گی۔ اس کا ٹھکا نہ تو صدیقین (سچوں) کے دل میں تم اس کے اہل نہیں ہو۔ نہ ہی وہ تمہارے لیے ہیں۔ اور نہ ہی تم ان کے لیے ہو تم تو محض، نظارہ کرنے والے اور پیچھے آنے والے ہو۔ پس اللہ والوں کے عدد زیادہ کرو ۔ اور جو اللہ والوں کے عدد کو زیادہ کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا ۔ سر کی آنکھ سے دنیا کی طرف دیکھا جاتا ہے اور دل کی . آنکھ سے آخرت کی طرف دیکھا جاتا ہے ۔ اور باطن کی آنکھ سے حق تعالے کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ سر کی آنکھ سے دنیا سے بے پرواہ ہوا جاتا ہے، اور دل کی آنکھ سے آخرت سے بے پرواہ ہوا جاتا ہے ۔ اور باطن کی آنکھ دنیا اور آخرت میں حق تعالے کے ساتھ باقی رہتی ہے۔ چونکہ یہ دنیا اور آخرت میں اس کی طرف دیکھتی ہے۔ جس مومن کی یہ شان ہوتی ہے۔ جب آبادی میں ہوتا ہے تو آبادی والوں کے لیے رحمت ہوتا ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو آبادی اس طرف سے دھنس جائے۔ اور اگر آبادی والوں پر دیواریں کھڑی رہیں۔ اس کو سچا جانیں اور اس پر ایمان لائیں اور وہ بلند ہو ۔ دشمنی کرنے والے ان جاہلوں کے ساتھ ہوں گے جنہوں نے انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کو قتل کیا ۔ اور ان کے دشمن اپنے پروردگار سے دور اوٹ میں پھینکے ہوں گے ۔ اے اللہ ! ہم پر اور ان پر مہربانی کیجئے اور ہمیں اور ان کو ہدایت دیجئے۔ آمین اے دنیا کے عیش و آرام سے فائدہ اٹھانے والو عنقریب اس سے اس کا آرام و عیش علیحدہ ہو جائے گا ۔ ایک شاعر نے کیا عمدہ بات کہی سنو کہ ( آج)تمہیں (آواز) سننے کا مقدور ہے۔ تم نہیں سمجھتے ۔ وہ فوت ہونے والی ہے، بلکہ جو چاہے کھاؤ، اور اچھی طرح جیو ۔ چونکہ ان سب کے بعد آخر موت ہے۔ عنقریب تمہارا مال اور تمہاری زندگی فنا ہو جائے گی۔ اور تمہاری (آنکھوں) کی روشنی کم ہو جائے گی اور تمہاری عقل میں فتور واقع ہو جائے گا۔ اور تمہارا کھانا پینا کم ہو جائے گا اور تم مزوں کی چیزوں کو دیکھو گے لیکن ان میں سے کچھ بھی کھانے کے قابل نہ ہو گے تمہاری بیوی اور تمہارا بچہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری موت کی تمنا کرتے میں تمہیں رنج و غم کا سامنا ہوگا۔ اور دنیا چلی جائے گی اور آخرت تمہارے سامنے آئے گی. پھر اس وقت اگر تمہارے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو تمہارا استقبال کرے گی اور تمہیں اپنے سینے سے چمٹائے گی اور اگر نیک عمل نہ ہوا تو قبر تمہاری جگہ ہوگی اور آگ تمہاری سہیلی ہو گی۔ یہ ہوس نہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جینا تو آخرت کا جینا ہے اوراس کو اپنی ذات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے دہرایا کرتے مجھ سے سیکھو اے جاہلو میری پیروی کرو ، بلاشبہ میں تمہیں نیکی کی راہ کی ہدایت کروں گا۔ تمہاری خرابی ہو تم میری ارادت کا دعویٰ کرتے ہو اور اپنا مال مجھ سے چھپاتے ہو تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو۔ مرید کے پاس اپنے پیر کے مقابلہ میں نہ کرتا ہوتا ہے نہ پگڑی اور نہ سونا ہوتا ہے اور نہ ملکیت اس کے تھال پر محض وہ کھاتا ہے جس کے کھانے کا اسے حکم ہوتا ہے۔ وہ اس سے فانی ہوتا ہے. اس کے امرونہی کا منتظر ہوتا ہے. جانتا ہے کہ یہ اس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے تم اپنے پیر پر تہمت لگاتے ہو جب تم اسے ہی صحیح نہیں سمجھتے تو اس کی ارادت اور محبت تمہارے لیے صحیح نہیں ، بیمار جب اپنے معالج پر ہی تہمت لگاتا ہے تو اس کے علاج سے اچھا نہیں ہوتا ہے۔ جو کام تمہاری مدد نہیں کرتا اس میں مت لگو کہیں وہ بھی رہ جائے جو تمہاری مدد کرتا ہے ۔ دوسرے کے حالات اور ان کے عیبوں کا ذکر ایسی چیزوں میں سے ہے جو مدد نہیں کرتیں۔ اور اپنے نفس کے حالات کا ذکر ایسی چیزوں میں سے ہے جو تمہاری مدد کرتی ہیں۔ نفس خواہش نفسانی اور طبیعت سے رفاقت کرو . پیر کی ساری بات ان کے حق میں نہیں۔ خلاف ہوا کرتی ہے۔ مرید اندھیرے میں ٹٹولنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ نہیں جانتا۔ اس کے ہاتھ میں کیا ہے. جب نفس مطمئن ہو جاتا ہے تو اس سے خواہش نفسانی اور طبیعت کی آگ بجھ جاتی ہے عقل حرکت میں آتی ہے اور ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔ سکون ہوتا ہے اور حق اور باطل میں تمیز ہو جاتی ہے۔ چنانچہ باطل سے باز رہتا ہے۔ اور حق کی باتیں کرتا ہے۔ پھر اس کو حکم ہوتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے۔ اور اس کے تابع ہو جاتا ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امر اور نہی میں اتباع کرتا ہے۔ چونکہ حق تعالے کی سنتا ہے، جو ارشاد فرماتے ہیں ۔ ” اور جو تم کو رسول دے، سو وہ لے لو اور جس سے تم کو منع کرے ۔ سو باز رہو۔
یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے تمام او امر اور نواہی میں عام ہے پس جب ان کے حکم کو بجا لاتا ہے اور لغزشوں میں ان کی منع کی ہوئی چیزوں سے باز رہتا ہے تو اس وقت متقی مسلمان بن جاتا ہے، جب اس میں پختہ ہو جاتا ہے تو عارف باللہ بن جاتا ہے۔ اس کے پاس سکون اور خاموشی ہوتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ڈالا جاتا ہے . اس کی طرف کان کرتا ہے ۔ اس کے پاس دائمی گفتگو ، دائمی سماعت اور دائمی فرحت ہوتی ہے۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے نزدیکی کا مزہ – اپنی بات چیت کی خوشگواری اور اپنی ذات سے خوشی نصیب فرمائیے۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے۔
تیرھویں مجلس:-
جس کی مخلوق سے بے رغبتی صحیح ہو جاتی ہے۔ اس سے اللہ والوں کو صحیح طور پر رغبت ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بات چیت میں کمی اختیار کر لیتا ہے۔ اور اس لحاظ سے جب دل کی بے رغبتی مخلوق سے صحیح ہو جاتی ہے۔ اور سوائے قرب خدا وندی کے ماسوائے اللہ سے باطن کی بے رغبتی صحیح ہو جاتی ہے تو ۔ قرب الہی دنیا میں اس کا دوست ہوتا ہے۔ اور آخرت میں اس کا رفیق ہوتا ہے۔ جب تم مخلوق کو جان لو گے ۔ وہ اللہ کو جان لے گا ۔ اور اللہ والوں کو اور ان کی صفتوں کو تم اپنی طرف سے خوب اچھی طرح پہچان لوگے تمہارے پاس سے انسان اور جن معدوم ہو جائیں گے۔ اور فرشتہ تمہارے دل کو ایک دوسری صفت دے دے گا۔ اور اسی طرح تمہارا باطن تمہارے وجود کے اس چھلکے سے علیحدہ ہو جائے گا جو بنی آدم کی عادت ہے۔ حکم ہوگا۔ تو تمہارے پر کرتا ہو جائے گا ۔ تو تم اپنے نفس کی بات مخلوق خداوندی کی بات سے واقف ہو جاؤ گے اور علم وحی آئے گا پس وہ تمہارے دل اور باطن پر کر تا بن جائے گا ۔ اپنی خانقاہ میں جہالت کے ساتھ علیحدہ ہو کر نہ بیٹھ جاؤ۔ چونکہ جہالت کے ساتھ علیحدہ ہونا پورا فساد ہے۔ اس واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پہلے دین کی سمجھ پیدا کرو. پھر علیحدہ ہو کر بیٹھو۔ تمہارے لیے مناسب نہیں کہ اپنی خانقاہ میں علیحدہ ہو کہ بیٹھ جاؤ اور زمین کی سطح پر ایک ایسا بھی ہو جس سے تم ڈرتے ہو اور اس سےامید بھی لگائے ہوئے ہو۔ سوائے ذات واحد کے خوف کے اور ایک ہی خوف کے تمہارے لیے کوئی خوف مناسب نہیں۔ اور وہ خدائے بزرگ و برتر ہے۔ عبادت ترک عبادت ہے، نہ کہ عادت کہ عبادت کی جگہ لے لے، دنیا ، آخرت اور مخلوق سے تعلق مت چاہو اور حق تعالے سے تعلق پیدا کرو۔ چونکہ پرکھنے والا جاننے والا ہوتا ہے۔ کسوٹی (پر پرکھے )بغیر نہیں لیتا، جو تمہارے پاس ہے۔ اس کو پھینک دو۔ اسے کچھ بھی شمار نہ کرو۔ وہ تم سے نہیں لے گا۔ (لوگ) دعویٰ کرتے ہیں اخلاص کا اور ہوتے ہیں (نرے) منافق۔ اگر امتحان نہ ہوا کرتا تو دعوؤں کی تو کثرت ہو جاتی جو کوئی علم کا دعوی کرتا ہےغصہ والی باتوں سے آزمایا جاتا ہے۔ اور جو سخاوت کا دعوی کرتا ہے سوال سے آزمایا جاتا ہے اور جو کوئی بھی کسی چیز کا دعوی کرتا ہے۔ اس کی ضد سے آزمایا جاتا ہے، جب بندہ اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا اور آخرت کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے دل کو اللہ تعالیٰ کی قرب و محبت لطف واحسان کا گھر حاصل ہو جاتا ہے تو حق تعالیٰ اس کو کھانا پینا ۔ پہننا اور بہتری کی چیز کے حاصل کرنے کی تکلیف نہیں دیتے ہیں اور اس کے دل کو ان چیزوں کی لگاوٹ سے پاک کر دیتے ہیں۔ بد بختی تمہاری تم بلا کسی چیز کے کوئی چیز چاہتے ہو۔ یہ تمہارے ہاتھ نہ پڑے گی قیمت ادا کرو۔ اور قیمت کی چیز لے لو۔ مبارک بات ہے ۔ دنیا کا رنج وغم برداشت کر لو تا کہ تمہیں آخرت کی خوشی حاصل ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غم والے اور ہمیشہ فکر کرنے والے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ حالانکہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخشے گئے تھے۔ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اس کی فکر کرتے تھے کہ ان کے بعد امت سے کیا بنے گی۔ اور حسن بصریؒ جب اپنے گھر سے نکلا کرتے تھے تو آپ کے دل سے ان کے چہرہ غم واندوہ کے عمل سے غم کا اثر پھیلتا تھا۔ غم سب حالات میں مومن کی عادت ہے یہاں تک کہ اپنے خدائے بزرگ و برتر سے ملاقات کرتا ہے ۔ اللہ والے تو گونگوں کی طرح ہی رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کو بات کرنے کی اجازت مل جائے ۔ اور یہاں تک کہ انہیں اور نیکیوں کو اکٹھا کر دیا جائے۔ پھر وہ مخلوق کے سامنے بات کریں ۔ ان کی مراد کی طرف رہنمائی کریں۔ ان کے لیے سراپا نطق بن جائیں پھر جب ان کے دل مخلوق کی طرف مائل ہوتے ہیں تو غیرت (خدا وندی) کا ہاتھ ان کی طرف گرفت اور لگام (کی شکل )میں آتا ہے۔ ان کی طرف سے (رحمت خداوندی کا دروازہ بند کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ معذرت کریں اور تو بہ کریں ۔ جب ان کی تو بہ ثابت ہو جاتی ہے تو ان کے لیے دروازہ کھولتا ہے۔ اور ان کے دلوں کو قرب حاصل ہوتا ہے ۔
اے دل کے مرد ! تمہارا میرے پاس بیٹھنے کا کیا (مطلب یا فائدہ ) اے دنیا اور بادشاہوں کے بندو ۔ اے امیروں کے غلاموں ۔ اے غلہ کی مہنگائی اور ارزانی کے بندو – اگر گندم کے ایک دانہ کی قیمت ایک دینار تک ہو جائے۔ میں کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ مومن کو اس کے قوت یقین اور اپنے خدائے بزرگ و برتر پر بھروسہ کی بنا پر اس کا رزق غم میں نہیں ڈالتا ۔ تم اپنی ذات کو مومنین میں نہ شمار کرو . (جب ایمان ویقین اس قدر کم اور کمزور ہے تو) ان سے علیحدہ ہو جاؤ ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے مجھ کو تمہارے درمیان کھڑا کر دیا ہے جب کبھی میرا باز و لمبا ہو جاتا ہے تو قدرت کا ہاتھ اسے کو تاہ کر دیتا ہے، اور جب کبھی علم کا بازو لمبا ہو جاتا ہے تو حکم و شریعت کی قینچیاں اس کو کتر دیتی ہیں۔ تمہارے سامنے جو دلائل توحید اور صدیقین و اولیاء کی باتوں کی طرف کان لگانے کی بات کرتا ہوں اور جو تمہارے لیے نصیحت کرتا ہوں قبول کرو ۔ ان کی باتیں حق تعالیٰ کی وحی کی مانند ہیں ۔ حاصل جو اس سے کرتے ہیں اور وہ ان کو عالم کلام کے ماوراء مقام سے حکم کرتا ہے ۔ تم تو(نری) ہوس ہو۔ کتابوں سے باتیں جمع کرتے ہو۔ اور ان سے وعظ کہتے ہو۔ (فرض کرو) اگر تمہاری کتاب ضائع ہو جائے تو تم کیا کرو، یا (خدانخواستہ) تمہاری کتابوں میں آگ لگ جائے یا وہ چراغ جس سے تم دیکھتے ہو۔ بجھ جائے اور تمہا را مٹکا ٹوٹ جائے۔ پھر اس پانی کا پتہ چل جائے جو اس میں تھا۔ تمہارا پیالہ تمہارا مٹکا ۔ تمہاری دیا سلائی اور تمہارا مدد گار کہاں ہیں۔ جو سیکھتا اور سکھاتا ۔ اور مقررہ مقدم عبادت میں اخلاص پیدا کرتا ہے ۔ اس کے دل میں حق تعالیٰ کی طرف سے ایک نور پیدا ہو جاتا ہے جس سے وہ خود اور دوسرا روشن ہو جاتا ہے ہٹو بچو۔ ایک طرف ہو جاؤ۔ اے قلموں کے بیٹو۔ اے نفوس و امداد کے ہاتھوں جمع شدہ صحیفوں کے بیٹو۔ خرابی تمہاری تم خطوط اور تنقیص پر جھگڑے کرتے ہو اور خط کی تبدیلی کی بناء پرہلاک کر دیتے ہو۔ اور تمہاری کوشش سے پہلا خط اور علم کس طرح بدل سکتا ہے۔ تابعدار بن جاؤ۔ کیا تم نے حق تعالے کی بات نہیں سنی۔ جنہوں نے ہماری باتوں پر یقین کیا اور تابعدار ہوئے : اسلام کی حقیقت اور اللہ والوں کی تابعداری یہ ہے کہ اپنے پروردگار کے سامنے گر پڑے۔ اور کتنا کیسا کرو اور نہ کرو (سب) بھول گئے طرح طرح کی عبادت اور فرمانبرداری کرتے رہے۔ اور (پھر بھی) ڈرتے رہے۔ اور اسی واسطے حق تعالے نے ان کی تعریف فرمائی ” دیتے ہیں جو وہ دیتے ہیں۔ اور ان کے دل ڈر رہے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والے ہیں : میرے احکام بجا لاتے ہیں اور میری منع کی ہوئی باتوں سے روکتے ہیں۔ اور میری مصیبتوں کے صبر کرتے ہیں اور میری دی ہوئی چیزوں پر شکر کرتے ہیں اور اپنی جانوں اپنے مالوں اپنے بچوں اور عزتوں کو میرے ہاتھ کی لکھی (تقدیر) کے حوالہ کر دیتے میں اور ان کے دل میرے سے سہمے ہوئے ڈرتے رہتے ہیں۔ اے اللہ کی بخشش اور پاکیزگی سے دھو کہ میں پڑنے والو۔ جلد ہی تمہاری پاکیزگی کدورت سے۔ تمہاری امارت فقیری سے اور تمہاری فراخی تنگی سے بدل جائے گی جس (کام) میں تم لگے ہو۔ اس سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ اور مجالس ذکر کی پابندی اور عمل کرنے اور علم حاصل کرنے اور ان کی باتیں سننے اور ان کی کسی باتوں پر کان دھرنے کے سلسلہ میں بزرگوں سے حسن ظن کو ضروری سمجھو ۔ اور جب مرید کی شیخ سے صحبت ہوگی تو یہ صحبت شیخ کے دل کی معرفت کے کھانے پینے سے نوالہ اور کھانا دے گی۔ اے بے نصیبو ! اپنے دلوں کو مخلوق سے خالی کر لو کل قیامت کو تم عجیب و غریب چیزیں دیکھو گے جنت والوں سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اس دن جب حق تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں جھانک لیں گے۔ اور ان کو دنیا جنت اور اپنے ماسوے سے خالی پائیں گے ۔ ان سے فرمائیں گے جنت میں داخل ہو جاؤ یعنی میرے قرب کی جنت میں جلد یا بدیر ۔ خرابی تمہاری۔ اپنے دلوں سے اپنے خدائے بزرگ و برتر کی دشمنی میں موافقت نہ کرو۔ تمہارے دل جو تمہارے پہلوؤں میں ہیں تمہارے دشمن ہیں ۔ جب بھی تم انہیں پیٹ بھر کر کھلاؤ گے۔ اور ان کا خیال کرو گے اور ان کو موٹا کرو گے تمہیں کھا جائیں گے۔ کاٹنے والا درندہ بن جائیں گے۔ ان سے ان کی لذتیں اور مزے کاٹ دو او ر(ویسے) ان کےحقوق ان کو پورے دے دو۔ اور یہ چیز تو ان کے لیے لا بدی ہے۔ ایک ٹکڑا جو بھوک کو بند کرے اور (کپڑے) کا پھٹا ٹکڑا جو ستر کو ڈھانپ دے ۔ اور یہ بھی اللہ تعالے کی طاعت کی شرط پر ۔ اپنے دل کو کہو۔ میں تمہیں تمہارا حق نہ دوں گا جب تک تم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری نہ کرو . نماز روزه اور ہر وہ عبادت کا کام نہ کرو جس کا تمہیں اللہ تعالے نے حکم کیا ہے اس پر پوری نظر رکھو جب تم اس پر قائم رہو گے تو اس کی برائی مٹ جائے گی اور اس کی بھلائی باقی رہ جائے گی۔ (ہمیشہ) اس کو حلال کھلاؤ۔ (پھر بھی یہ کہ ) وہ مرچکا ۔ اس سے مامون نہ رہو۔ چونکہ نفاق اس کی عادت ہے۔ اور اپنے لیے نماز روزہ کرتا اورمشقتیں اٹھاتا ہے۔ تاکہ مخلوق سے اپنی تعریف سنے اور مجلسوں میں اس کا ذکر ہو۔ جس نے بھلائی والا نہ دیکھا۔ اس کی بھلائی نہ ہوئی جب کسی مومن بندے کا دل دیا اور نفاق سے نجاست سے پاک ہو جاتا ہے تو اس کی دو رکعتیں اس شخص کی ہزار رکعتوں سے اچھی ہوتی ہیں جس کا دل ان دونوں سے پاک نہ ہوا۔ اے منافق تیرا سارا نفاق تیرے دل سے ہے۔ اپنے دل کے مواد کو نکال دو۔ اور تم اس کے پیدا کرنے والے کے ہو جاؤ گے ۔ اور اس کی برائی ختم ہو جائے گی۔ دل کو سکھانے اور سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تمہارا کجادہ اٹھا سکے۔ اور اس کو ایسی چیز اٹھانے کی سکت ہو جیسی اس ایسے اٹھالیتے ہیں جیسے اونٹ جس کو تم نے خریدا ہو۔ اور وہ چھوٹا ہو۔ تو تمہیں اور تمہارے کجاوہ کو اٹھانے کے کب قابل ہوتا ہے۔ کیا تم اس کو پالتے۔ بڑھاتے ۔ اور ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف نہیں چلاتے یہاں تک کہ اسے اطمینان ہو جاتا ہے اور تمها را سامان اٹھاتا ہے۔ اور تمہارےنیچے جنگلوں اور بیابانوں میں چلتا ہے ۔ تم اپنے دل کے عاشق ہو تم اس کی مخالفت نہیں کر سکتے ۔ وہ دن بدن تمہیں جہاں چاہتا ہے کھینچ لے جاتا ہے. یہاں تک کہ تمہارا گلا گھٹنے اور تمہاری موت کا وقت آجاتا ہے۔ اور تم نے تو اپنی اطاعت کو گا۔ گئے ۔ گی میں رکھ چھوڑا ہے۔ تم کہتے ہو۔ آج تو بہ کرتا ہوں کل تو بہ کرتا ہوں عنقریب اپنے پاک پروردگار کی اطاعت کے لیے فارغ ہو جاؤں گا ۔ جلدی ہی اپنے گناہوں سے شرمندگی کو پہنچوں گا۔ ذرا دیکھو ! میں ایسا کروں گا۔ ویسا کروں گا۔ چنانچہ تم اسی طرح خود فریبی کی بے ہوشی میں پڑے رہتے ہو کہ اچانک تمہیں موت آن پکڑتی ہے ۔ پھر تمہیں اس سےچھوٹنے کی قدرت کہاں ۔ اور تمہارے قرض ۔ تمہارے گناہ اور تمہاری نافرمانیاں تمہارے ذمہ باقی رہ جاتی ہیں ۔ بدنصیبی تمہاری تم روپیہ پہ روپیہ جمع کیے جاتے ہو۔ اور تمہارے اس جمع کرنے کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ سب تمہارے لیے بچھو ( ثابت) ہوں گے۔ اور سانپ ہیں جو تمہیں کاٹیں گے ۔ روپیہ پیسے کا ٹھکانہ دنیا ہے ۔ دنیا مصروفیتیں ہیں اور آخرت ہولناکیاں ہیں۔ اور بندہ ان کے درمیان ہوتا ہے، یہاں تک کہ قرار پکڑے ۔ پھر (اس کی راہ) یا جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف جس کی اصل اور تفصیل تمہیں معلوم نہیں ۔ اسے نہ کھاؤ ۔ حرام کا کھانا دل کی سیاہی ہے جس شخص کو صبر نہ ہو وہ حلال کیسے کھائے حلال تو محض وہ کھاتا ہے جو اپنے دل خواہش نفسانی اور شیطان سے جنگ کرنے کے لیے ڈٹا ہوا ہو ۔ جنگ کرنے والا صابر ہوتا ہے اور حلال کھاتا ہے۔ اے اللہ ! ہمیں حلال کی روزی دیجئے ۔ اور ہمارے اور حرام کے درمیان دوری کر دیجئے ۔ اور ہمیں اپنی مہربانی اپنی بھلائی اور اپنی نزدیکی سے (کچھ) نصیب فرمائیے اور اس سے ہمارے دلوں ہمارے باطنوں اور ہمارے ہاتھ پاؤں کو روزی عطا فرمائیے۔ آمین
چودھویں مجلس : ۔
اے اللہ کے بندو عقل سیکھو ۔ اپنے معبود کو اپنی موت سے پہلے پہچاننے کی کوشش کرو . اپنی حاجات مانگو۔ تمہارا دن اور رات اس سے مانگنا اس کی عبادت ہے۔ اگر چہ دے یا نہ دے۔ اس کا اہتمام کرو اور جلدی نہ کرو۔ اور مانگنے سے اکتا نہ جاؤ۔ اس سے ذلت کے ساتھ مانگو۔ اگر چہ دیر ہو، تمہاری پکار کو پہنچے گا۔ چنانچہ اللہ تعالے پر اعتراض نہ کرو چونکہ وہ تمہاری مصلحتوں کو تمہارے سے زیادہ جانتا ہے . اس بات کو سنو اور سمجھو۔ اور اس پر عمل کرو۔ یہ سیدھی راہ کی بات ہے۔ آزمائی ہوئی بات ہے۔ افسوس تم پر تم اپنے رب جلیل کو پہچانے بغیر کیسے مرجاتے ہو حیف ہے تمہارے پر جس کی طرف نہ تم پلٹے ۔ نہ اس سے معاملہ کیا اور نہ اس کے مہمان ہوئے۔ اس کی طرف بڑھتے ہو لیکن اس کی ضیافت کے ذکر سے کھاتے ہو اس سے معاملہ کرو اور تمہارا یہ معاملہ جو تم نے اس کے ساتھ اپنے پہنچنے سے پہلے کر لیا ہے نفع بخش ہو گا ۔ فقیروں اور مسکینوں کی عزت کرو کہ ان کو اللہ پر زور ہے۔ اور ان کے ساتھ اپنے مالوں سےغمخواری کرو تمہیں بھی اللہ پر زور ہوگا ۔ اگر تم نے ایسا کیا اللہ تمہاری عزت کرے گا۔ اور تمہارے لیے تمہاری دنیا اور آخرت اچھی کر دے گا۔ یہ مال جو تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ یہ تمہارے لیے نہیں ۔ یہ تمہارے پاس امانت ہے ۔ یہ تمہارے اور فقیروں کے درمیان مشترک ہے۔ امانت والے (کی موجودگی میں) امانت کے مالک مت بنو کہ وہ اس کو تمہارے ہاتھوں سے چھڑا لے تم میں سے جب کوئی (سالن کی) ہنڈیا پکائے ۔ تو اس سے اکیلا ہی نہ کھائے۔ بلکہ اس میں سے اپنے پڑوسی کو بھی کھلائے اور اس سائل کو جو اس کی اور اس کے دروازہ کی طرف آئے ۔ اور اس مہمان کو اس سے جو مہمانی چاہے۔ ان پر اور ان کے کھلانے پر قدرت رکھنے کے با وجو د سوال کو رد نہ کرے ۔ چونکہ اس کے سوال کا رد کرنا نعمتوں کے زوال کا باعث ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس نے بغیر عذر کے سائل کو اپنے دروازے سے لوٹا دیا ۔ امان کے فرشتے چالیس روز تک اس کے دروازہ پر نہیں پھٹکتے۔ اگر فقیروں کے آنے کے وقت تم نے اپنے دلوں کو اس کی عادت ڈال لی تو اللہ تعالے تمہارے لیے تمہاری مدد میں وسعت کر دیں گے۔ دینے کی قدرت کے باوجود تم ان کو لوٹا دیتے ہو، کس چیز نے تمہیں نڈر بنا دیا۔( کہ اللہ تعالے اپنی روزی) اس (سائل) کے لیے فراخ کر دیں اور تمہارے لیے تنگ کردیں۔ کم بختی تمہاری ۔ تم فقیر تھے ۔ ایک ذرہ تمہارے پاس نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بے پر واہ کر دیا۔ اور تمہاری غربت دور کر دی اور تمہاری بھلائی اور تمہارے رزق کو اتنا زیادہ کر دیا کہ تمہارے خیال میں بھی نہ تھا۔ پھر تمہاری طرف ایک فقیر بھیجا ۔ اس کو تمہارےگر دگھمایا ۔ تاکہ تم اس کی اس چیز سےغمخواری کرو . جو اللہ نے تمہیں دی ۔ تم اس کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہو ۔ اور متوجہ نہیں ہوتے ۔ خدا کی قسم جلدی ہی اللہ تمہارے ہاتھ سے وہ سب کچھ چھین لے گا جو تمہیں دیا ہے اور تمہیں غربت اور تنگی کی طرف لوٹا دے گا۔ اور تمہارے تھوڑے صبر کے ساتھ تمہارے لیے مخلوق کے دلوں میں سختی ڈال دے گا ۔ اے اللہ ! ہمیں موت سے پہلے بیداری موت سے پہلے ہدایت موت سے پہلے معرفت موت سے پہلے اپنے سے معاملہ اور اپنے دروازہ کی طرف لوٹنا اور موت سے پہلے اپنے نزدیکی کے گھر میں داخل ہونا نصیب فرمائے۔ آمین ۔
پندرھویں مجلس :-
اے صاجزادے ! اپنے ہاتھ میں توحید کی تلوار اور تقویٰ کی ڈھال پکڑو۔ اور اپنے صدق و ارادت کے گھوڑے پر سوار ہو اور اپنے دل، نفسانی خواہش اور طبیعت اور مخلوق۔ دنیا اور شیطان کے ساتھ شرک پر حملہ اخلاص سے حملہ آور ہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نصرت آئے گی۔ اللہ والوں نے اپنے دلوں کو قید کیا ۔ تھوڑے پر تبلیغ کی یہاں تک کہ کثرت کو پہنچے۔ انہوں نے اپنے لیے تیار شدہ پوشاکوں کو تقدیر کی کیلوں پر لٹکتے دیکھا۔ تو انہوں نے مخلوق کی آسانی پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے لیے دنیا اور آخرت کے حصہ سے جو کچھ ان کے لیے تیار ہوا تھا۔ آگیا ۔ مل گیا ۔ جب دل حق تعالے کے ماسوی سے پر ہیز کرتاہے تو معرفت کے جنگلوں اور علم کے بیابانوں کی طرف بڑھتا ہے، ماسوی اللہ امان کے گھر میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اس پر نا فرمانی شیطان کی پیروی اور رحمن مخالفت غلبہ نہیں کرتی ۔ اے جلدی کرنے والو جمے رہو. اے چیزوں کا اپنے وقت سے پہلے آنا چاہنے والو! جہالت مت کرو کیا تم نے نہیں سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جلدی شیطان کی طرف سے اور دیری رحمان کی طرف سے ہوتی ہے۔ بوجہ اس کے تمہاری مصلحتوں کو جاننے کے جو اللہ تعالے سے محبت کرتا ہے اس کے لیے کوئی ارادہ باقی نہیں رہتا ۔ چونکہ محب کا محبوب کے سامنے کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ غلام کا اپنے آقا کے سامنے اپنے آقا کا عقلمند غلام کسی بھی چیز میں نہ اپنے آقا کی مخالفت کرتا ہے نہ اس سے معارضہ بدنصیبی تمہاری تم نہ محب ہو ۔ نہ محبوب ۔ اور تم نے نہ محبت کا ذائقہ چکھا۔ اور نہ محبوبیت کا ذائقہ ۔ محب پریشان دل اور ڈرتا ہوتا ہے اور محبوب سکون سے ہوتا ہے۔ محب مشقت میں ہوتا ہے اور محبوب آرام سے ہوتا ہے۔ تم محبت کا دعوی کرتے ہو اور اپنے محبوب کی طرف سے (نیند میں غافل )سو رہے ہو۔ اللہ تعالے نے اپنے کلام میں فرمایا۔ جھوٹا ہے جو میری محبت کا دعوی کرے ۔ اور جب رات آئے ، مجھ سے غافل ہو جائے۔ اللہ والوں میں ایسے بھی ہیں جن کی آنکھ نیند کے غلبہ سے نہیں (بلکہ) اونگھ سے سوتی ہے۔ اپنے سجدوں میں سوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا ۔ جب بندہ اپنے سجدوں میں سوتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے فرشتوں میں فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں تم نہیں دیکھتے۔ اس کی روح میرے پاس ہے اور اس کا جسم میری اطاعت میں میرے سامنے ہے جس شخص کو اپنی نماز میں نیند کا غلبہ ہو ۔ وہ اپنی نماز ہی میں ہوتا ہے اس واسطے کہ وہ اپنی نیت سے نماز میں ہے۔ اس پر (نیند) کا غلبہ ہوا جس نے اس کو دبا لیا۔ اور حق تعالی صورت کی طرف نہیں دیکھتے وہ تو محض نسبت اور معنی کی طرف نظر کرتے ہیں ۔ عارف جب آخرت سے پر ہیز کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے، مجھ سے ایک طرف ہٹ جا۔ کیونکہ میں تو حق تعالے کا دروازہ تلاش کر رہا ہوں۔ تم اور دنیا میرے نزدیک ایک ہی ہو ۔ دنیا مجھے تمہارے سے روکتی تھی۔ اور تم مجھے میرے رب جلیل سے روکتی ہو۔ تمہیں کوئی بزرگی نصیب نہ ہو کہ تم مجھے اللہ تعالی سے روکتی ہو۔ اس بات کو سنو، چونکہ یہ اللہ تعالے کے اپنی مخلوق سے علم اور ارادت سے ہے اور یہ حال انبیاء و مرسلین اور اولیاء و صلحا عليهم الصلوة و السلام کا ہے ۔
اے دنیا کے بندو اے آخرت کے بندو، تم حق تعالی اور اس کی دنیا اور آخرت سے جاہل ہو۔ تم خطا کا ر ہو۔ تم دنیا کی ہنسی ہوحق تعالے کے علاوہ تعریف و ستائش اور قبولیت مخلوق تمہارا بت ہے ۔ اللہ والے تو محض اس کی ذات کے طالب ہوتے ہیں ۔ بدنصیبی تمہاری۔ قیامت تمہارے لیے قریب ہے، بیشک یہ مدد جزر ہے۔ بلا شبہ یہ تقدیر کا سونا اور اس کا جاگنا ہے ۔ دراصل یہ اشیاء اور اقبال ہے۔ کیا صبح قریب نہیں ہے۔ قیامت کا دن متقین کی مدد کا دن ہے متقین کی خوشی کا دن ہے ۔ اور متقی لوگ وہی ہیں جو اللہ تعالی سے اپنی پسند اور ناپسند کی چیزوں کے بارہ میں اپنی خلوت و جلوت سختی اور تکلیف میں اللہ تعالے سے ڈرتے ہیں۔ وہی عباد اللہ اور مردان خدا ہیں۔ وہی مرد اور بہا در لوگ ہیں وہی سیادت اور ریاست کے (مالک) ہیں۔ یہی ایمان کی جڑ ہیں۔ بنیاد اس کی یہ ہے کہ کھلے اور چھپے شرک اور نفاق سے بچتے ہیں ۔ دنیا اور مخلوق سے پر ہیز کرتے ہیں اور دلوں کے مطالب ختم کر دیتے ہیں تم اللہ تعالے سے قرب کا درجہ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ ماسوی اللہ کو اور اپنی حرص کی چیز کو نہ چھوڑ دو، جب تم اس سے متفق ہو جاؤ گے تو جو بھی تمہارے پاس ہو گا اسے جان بو جھ کر خرچ کرو گے پہلے بزرگوں میں سے ایک بزرگ ( کی عادت) تھی جب ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا۔ اپنے غلام سے کہتے یہ کھانا اٹھا کر فلاں فقیر کے گھر دے آؤ ، افسوس تمہارے لیے تم نہیں شرماتے ، جب تمہارے پر زکوۃ واجب ہوتی ہے، تو جو سونا تمہارے پاس ہوتا ہے۔ اس میں سے روی نکال کر دیتے ہو، اپنی (فرض زکوۃ کی ادائیگی میں) صحیح میں سے ردی چیز نکال کر دیتے ہو۔ گوہروں میں سے چاندی ( دیتے ہو) جب تمہارے پاس روپے برا بر چیز ہوتی ہے۔ اور نصف کا اندازہ کرتے ہو۔ تو جو تمہارے پاس فقیر کے لیے ہوتی ہے۔ اس کو کم کر دیتے ہو۔ جب تمہارے سامنے کھانا ہوتا ہے، تو اس میں سے سب سے خراب کا صدقہ کرتے ہو اور سب سے اچھا آپ کھاتے ہو ۔ اپنے دل کی پوجا کرتے ہو ۔ تم سے اس کی مخالفت کا امکان نہیں۔ تم اپنی خواہش نفسانی اپنے شیطان اوراپنے برے ساتھیوں کے تابعدار ہو۔
اس کے دستر خوان پر پاک آدمی کے سوا کوئی نہیں بیٹھتا ، اس کے دسترخوان پر تو وہی چیز حاضر ہوتی ہے جو کسی پر ہیز گار کے ہاتھ پر ذبح کی گئی ہو۔ مردہ کو قبول نہیں فرماتے مخلوق کا اور دنیا کا طالب ایک مری مردہ گدھی ہوتا ہے ۔ مخلوق اور اسباب سے شرک نجاست ہوتی ہے ۔ ہمارے رب جلیل وہی چیز قبول فرماتے ہیں جس سے ان کی رضا کا ارادہ کیا گیا ہو، جو چیز تمہیں مدد نہ دے ، اس کی بات نہ کرو اس چیز میں لگو جس کا تمہیں رب جلیل نے حکم کیا ہے، اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ اپنے رب جلیل سے ڈرو اور اس کی طرف لوٹو۔ جو اس سے ڈرا اس کو اس نے بچا لیا۔ اور اپنی نزدیکی کے دروازہ تک چڑھا دیا ، جو اسے دائمی زندگی تک لے جاتا ہے ۔ اسے پستیوں سے بلندی کی طرف بڑھا دیتا ہے۔ اور اسے ساتویں آسمان تک چڑھا دیتا ہے۔ جلد ہی تم قیامت کو دیکھو گے. یہ بھی دیکھو گے کہ کس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے سے ڈرنے والے لوگوں کو اپنے عرش کے سایہ تلے اکٹھا کر لیتے ہیں اور ان کو ستونوں پر بٹھاتے میں جس پر شہید ہوں گے بعض سمندر اور اس کی غرقابی میں ڈوب رہے ہوں گے ۔ اور وہ ان ستونوں پر بیٹھے مخلوق اور اس کے حالات پر خوش ہو رہے ہوں گے کچھ لوگوں کو جنت کی طرف اٹھایا جا رہا ہوگا۔ اور کچھ لوگ دوزخ کی طرف لے جائے جا رہے ہوں گے . وہ وہاں بیٹھے ہوں گے اور جنت میں ان کے لیے اُن کے ٹھکانے ان کے برابر ہوں گے ۔ ان کے ایک طرف ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کے پہنچنے سے پہلے دیکھ رہے ہوں گے۔ کوئی مومن نہیں جس کی موت کے وقت اس کی آنکھ کا پردہ اٹھا نہ دیا جاتا ہو تا کہ جنت میں جو کچھ اس کے لیے ہے وہ اس کو دیکھے عور تیں اور بچے اس کی طرف اشارے کریں . اور اس تک جنت کی خوشگواری پہنچے ۔ تاکہ اس کے لیے موت اور موت کی سختیاں خوشگوار بن جائیں۔ حق تعالے کے اس کارنامہ سے جو کارنامہ اس نے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رحمتہ اللہ علیہا سے فرمایا۔ (پہلے) فرعون نے اس کو عذاب دیا پھر اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں لوہے کی میخیں گاڑ دیں ۔ تو ( اللہ تعالے نے ) اس کی آنکھ سے پردہ اٹھا دیا۔ اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے جس پر اس نے جنت اور اس کی چیزوں کو دیکھا ۔ فرشتوں کو دیکھا وہ اس کے لیے ایک گھر بنا رہے ہیں ۔ تو اس نے کہا ۔ اے پروردگار میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے جس پر اس سے کہا گیا ۔ یہ تمہارے لیے (ہی) ہے۔ چنانچہ وہ ہنس پڑیں جس پر فرعون نے کہا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ یہ پگلی ہے۔ تم اس کو نہیں دیکھتے۔ ہنس رہی ہے۔ حالانکہ اس عذاب میں (مبتلا) ہے۔ اور ایسا ہی مومن سے ہوتا ہے۔ (فرشتے) ان کو وہ چیزیں دکھا دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے ان کی موت کے نزدیک (مقدرو مہیا )ہوتی ہیں ۔ اور ان میں سے بعض ان کو موت سے پہلے جان لیتے ہیں۔ اور وہ تو نزدیکی والے سبقت کرنے والے اور چاہے ہوئے لوگ ہوتے ہیں. اللہ کی ذات کے لیے عمل کرو۔ اور نماز اور روزہ سے اور اخلاص کو ساتھ ملا کر نیکی کے تمام کاموں سے مت تھکو ظاہر کو مضبوط کرو چونکہ یہ تمہیں ایمان ویقین بڑھا کر تمہیں تمہارے رب جلیل کے دروازہ کے علم کی وادی تک عمل پر ابھارے گا تو اس وقت تم وہ چیزیں دیکھو گے۔ جن کو نہ آنکھ نے دیکھا۔ اور نہ کان نے سنا اور نہ وہ کسی انسان کے دل پر گزریں۔ اے دل والو سنو۔ اور خوب سنو اے عقل والو سنو حق تعالے نے بچوں کو مخاطب نہیں فرمایا۔ بلکہ بڑوں اور بالغوں کو مخاطب فرمایا صورتوں کو مخاطب نہیں فرمایا بلکہ دلوں کو مخاطب فرمایا ۔ مومنین نے اس کا فرمان سنا ۔ اور مشرکین اس کے فرمان سے بہرے بنے رہے، اے اللہ ! ہمیں ہمارے تمام حالات میں چھپائے رکھیئے۔ ہماری اچھائی اور برائی کو چھپائے رکھیئے۔ ہمارے اور اپنے سے غیر کے درمیان معاملہ نہ کرائیے ۔ نہ مدح میں نہ رسوائی ہیں۔ نہ ہی مدح کے وقت کہ ہم اپنے آپ کو کچھ سمجھیں اور نہ رسوائی کے وقت کہ ہم رسوا ہوں چنانچہ نہ یہ ہو ۔ نہ وہ ہو ۔ آمین
سولہویں مجلس :-
اور اے اللہ ! ہمیں ان سے ان کے علوم سے نفع بخش۔ آمین ۔
آپ نے فرمایا ۔ میں تم میں سے اکثر کو دیکھتا ہوں. جب برائی کو دیکھتے ہیں تو اسے پھیلا دیتے ہیں اور جب بھلائی کو دیکھتے ہیں تو اس کو چھپا دیتے ہیں (ایسا) مت کرو . تم لوگوں کے لیے وکیل نہیں ہو۔ لوگوں کو اللہ کے پردہ (تلے )ہی چھوڑو اور لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑو۔ ان کا حساب ان کے پروردگار (کے حوالہ) ہے۔ اگر تم خدائے بزرگ و برتر کو پہچان لیتے ، تو مخلوق پر رحم کرتے۔ اور ان کے لیے تم ان کے عیب چھپا دیتے۔ اگر تم نے اس کو پہچان لیا ہوتا تو غیر اللہ سے منکر ہو جاتے۔ اگر تم اس کا دروازہ پہچان لیتے تو تمہارے دل غیر اللہ کے دروازہ سے پلٹ جاتے ۔ اگر تم اس کی نعمتوں کو دیکھ لیتے تو تم اس کا شکریہ ادا کرتے اور غیر اللہ کے شکر کو بھلا دیتے ۔ اس سے مانگو۔ اس کو ایک جانو۔ ایک کو ایک جان لینے سے (سمجھو) کہ تم موحد بن گئے جس نے چاہا اور کوشش کی۔ اس نے پالیا۔ جو اسلام لایا اور اس کی تابعداری کی وہ بچ گیا۔ جس نے موافقت کی۔ توفیق دیا گیا۔ اور جس نے تقدیر سے جھگڑا کیا نہیں دیا گیا ۔ فرعون نے جب تقدیر سے لڑائی کی اور علم الہی کو بدلنا چاہا ۔ اللہ نے اس کو پیس دیا اور دریا میں غرق کر دیا (پیچھے )موسی اور ہارون علیہما الصلوۃ والسلام وارث ہوئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں ان کے بارہ میں ذبح کرنے والوں سے ڈری جن کو فرعون نے ہر بچہ کے لیے کھڑا کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو (موسی کی ماں کو) بذریعہ الہام حکم کیا ۔ کہ ان کے بارہ میں اپنے ڈر کی وجہ سے ان کو دریا میں پھینک دے، چنانچہ ان کے لیے ارشاد ہوا ” تم خطرہ محسوس نہ کرو اور نہ (ہی) غم کر و۔ ہم اس کو تمہاری طرف لوٹا دیں گے ۔ اور اس کو رسول بنائیں گے مت ڈرو. تمہارے دل میں ایمان چاہیئے ۔ اور تمہارا باطن میں سلوک ہونا چاہیئے ۔ ان کے ڈوبنے اور مرنے کے بارہ میں نہ ڈرو۔ پھر ان کو تمہاری طرف لوٹا دیں گے ۔ اور ان کے ذریعہ سے تمہیں غربت سے بے پرواہ کر دیں گے۔ چنانچہ اس نے ان کے لیے ایک صندوق تیار کیا ۔ اور ان کو اس میں رکھ چھوڑا ۔ اور اس کو دریا میں پھینک دیا ۔ وہ پانی کی سطح پر چلتا رہا۔ یہاں تک کہ فرعون کے گھر پہنچا۔ جب ذرا آگے گیا تو اس کے طرف لونڈیاں بڑھیں۔ جن کو ان کی طرف رغبت ہوئی اور صندوق کو کھولا جس پر انہوں نے ایک ننھا دیکھا۔ چنانچہ ان سب نے اس کی چاہت کی ۔ اور ان کے دلوں میں اس کی محبت پڑگئی۔ اور اس کے (سر) کو تیل لگایا ۔ اور اس کے کپڑے اور قمیض وغیرہ بدلی۔ اور وہ حضرت آسیہ رحمتہ اللہ علیہا اور ان کی لونڈیوں کو دنیا میں سب سے پیارا بن گیا۔ اور فرعون کی قوم میں سے جو کوئی بھی اس کو دیکھتا، اسے محبوب رکھتا۔ اور یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان کے ۔ ” اور میں نے تجھ پر اپنی محبت ڈال دی کہتے ہیں اس کا یہ حال تھا۔ کہ جو بھی کوئی اس کی طرف آنکھ کی طرف نظر کرتا۔ اس کو محبوب رکھتا، پھر اس کو اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا ۔ اور اس کی مخالفت کے باوجود اس کی پرورش فرعون کے گھر کرائی ۔ اور اسے اس کو مارنے کی قدرت نہ ہوئی ۔ جس کو خدا وند عز وجل نے اپنی ذات کے لیے چن لیا تھا۔ کس طرح مارتا کس طرح ذبح کرتا ۔ اور کس طرح اس کو دریا میں غرق کرتا، جبکہ وہ (خدا کی طرف سے) محفوظ تھا جس کو اللہ تعالے محبوب رکھیں۔ اس سے کون دشمنی رکھے۔ اور جس کی وہ مدد کریں . اسے شکست دینے کی قدرت کسے ہے جس کو ده مالدار کر دے ۔ اسے کون غریب بنائے جس کو وہ بلند کرے، اسے پست کرنے کی کسے مجال جس سے وہ دوستی کرے اس سے بھاگنے کا کسے یارا ، جس کو وہ قریب کرے اس کو دور کرنے کی کسے سکت ۔ اے ہمارے اللہ ! ہمارے لیے اپنی نزدیکی کا دروازہ کھول دیجئے اور ہمیں اپنی فرمانبرداری۔ اپنے عاشقوں اور اپنے لشکریوں میں سے بنائیے اور ہمیں عذاب سے بچائیے۔ اپنی مہربانی کے حلقہ میں بٹھائے اور ہمیں اپنی محبت کی شراب پلائیے اور ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔
سترھویں مجلس :-
اے اللہ کےبند و ظلم سے بچو۔ چونکہ یہ قیامت کے دن تاریکیاں ہوگاظلم سے دل اور منہ سیاہ ہو جاتا ہے مظلوم کی بددعا سے بچو مظلوم کے رونے کرلانے سے بچو۔ اور مظلوم کا دل بہلانے سے بچو مومن اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ظالم سے بچ نہ جائے ۔ اور اس کی موت اور اس کے گھر کی بربادی اور اس کی اولاد کے یتیم ہونے اور اس کا مال چھننے اور اس کی چودہرا ہٹ کو دوسرے کی طرف منتقل ہوتا دیکھ نہ لے مومن جب دل والا بن جاتا ہے۔ اس کے لیے اغلب (یہی ہوتا ہے )کہ فیصلہ اس کے خلاف نہ ہو۔ بلکہ فیصلہ اس کے حق میں ہو۔ اس کی اہانت نہ ہو بلکہ اس کے لیے (کسی دوسرے کی) اہانت ہو ۔ اس کی شان میں کمی نہ ہو۔ بلکہ اس کے لیے (کسی دوسرے) کی شان کم ہو۔ اس گھر پر( دست درازی) جائز نہ سمجھی جائے۔ اور نہ ہی ذلیل کیا جائے ۔ اور نہ ہی ظالموں کے ہاتھوں کے حوالہ کیا جائے۔ اور محض اکے دکے لوگ ہی ہوں گے جن کے ذمہ گناہ باقی ہوں ۔ اور ان کو آخرت میں تکلیفوں اور مصیبتوں سے پاک کیا جائے ۔ ان کے لیے آخرت میں ایسے درجات ہوں گے جن کو تم رضا بالقضاء کے حکم کوپکا کر کے اور اپنی پسندید اور ناپسندیدہ چیزوں میں سختی اور نرمی کے سب حالات میں نیک اعمال اختیار کر کے نہیں پہنچ سکتے۔ آپ نے فرمایا جو اللہ کی قضا پر راضی نہ ہو ۔ تو اس کی حماقت کا علاج نہیں جو اس نے فیصلہ کر دیا۔ وہ تو ہو گا (ہی) چاہے بندہ ناراض ہو کہ راضی خرابی تمہاری اے اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنے والے (جب) تم راہ نہیں پاتے تو فضول بکو اس مت کرو، قضاء کو نہ کوئی لوٹانے والا لوٹا سکتا ہے اور نہ کوئی روکنے والا روک سکتا ہے۔ (اسے )تسلیم کرو . یہ رات اور دن آرام کرتے ہیں۔ اور اسی طرح دونوں کے دونوں تمہارے خلاف کے باوجود زندہ رہتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالے نے اپنی تقدیر کا تمہارے حق میں اور تمہارے خلاف فیصلہ کیا ہے، جب فقر کی رات آئے تو اسے تسلیم کرو۔ اور امارت کے دن (کی یاد ) کو چھوڑو ۔ اور جب ایسی رات آئے جسے تم برا جانتے ہو تو اسے تسلیم کرو، اور اس دن (کی یاد) کو چھوڑو ، جسے تم پسند کرتے ہو۔ بیماریوں خرابیوں اور ناداری کی رات کا اور مرادوں کے برنہ آنے کا راحت بھرے دل سے سامنا کرو۔ اللہ تعالے کے فیصلہ اور تقدیر سے کوئی بھی چیز نہیں ٹلتی پس تم مرو گے۔ اور تمہارا ایمان جائے گا۔ اور تمہارا دل سخت پریشان ہوگا۔ اور تمہارا باطن مردہ ہو گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں فرمایا۔ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کسی کی عبادت نہیں. جس نے میرے فیصلہ کو تسلیم کر لیا۔ اور میری دی مصیبت پر صبر کیا اور میری ہمتوں پر شکر کیا۔ میں نے اس کو اپنے ہاں صدیق لکھ لیا ۔ اور صدیقوں” کے ساتھ اس کا حشر کیا۔ اور جس نے میرے فیصلہ کو تسلیم نہ کیا اور میری دی مصیبت پر صبر نہ کیا اور میری نعمتوں پر شکر نہ کیا۔ تو وہ میرے علاوہ کوئی اور پر ور دگار تلاش کرے جب تم قضا پر راضی نہ ہوئے ۔ اور مصیبت پر صبر نہ کیا۔ اور نعمتوں پر شکر نہ کیا، تو وہ تمہارے لیے پروردگار نہیں۔ تم اس کے علاوہ اور پروردگار ڈھونڈ لو اور اس کے علاوہ اور پر ور دگا ر ہے ہی نہیں۔ اگر تم چاہو ۔ تو قضا پر راضی ہو جاؤ ۔ اور اچھی ۔ بری میٹھی اور کڑوی تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اگر تمہیں پہنچے تو ڈر اور بچنے سے تمہارے سے خطا تھوڑا ہی ہو جائے گی ۔ اور تمہارا خطا ہونا بھی کیا۔ کوشش کرنے اور چاہنے سے تمہیں پہنچے گی نہیں۔ جب تمہارے لیے ایمان ثابت ہو جائے گا تو تم ولایت کے دروازہ کی طرف بڑھو گے تو اس وقت اللہ تعالے کے ان آدمیوں میں سے ہو جاؤ گے جن کی معبودیت اس سے ثابت ہو چکی ہوتی ہے۔ ولی کی علامت یہ ہے کہ اپنے سب حالات میں اپنے رب عزوجل کے موافق ہو ۔ احکام کو بجا لا کر اور منع کی ہوئی چیزوں سے رک کر بغیر کیوں اور کیسے سراپا موافقت ہو جائے۔ لامحالہ اس کی صحبت رہے۔ تم سینه بلا پشت نزدیکی بلا دوری ستھرائی بلا گندہ پن بھلائی بلا برائی نہ ہو تم نے اپنا اسلام مضبوط نہیں کیا۔ تم مومن کیسے ہو گے ۔ اور تم نےیقین مضبوط نہیں کیا تم عارف ولی وبدل کیسے ہو گئے ۔ اور تم نے معرفت، ولایت اور بدست کے علم کو مضبوط نہیں کیا ۔ تو محب فانی کیسے ہو گئے۔ تمہارا وجود ہی اس سے ہے۔ تم اپنی ذات کا مسلم کیسے نام رکھتے ہو۔ اور قرآن وحدیث نے تمہارے لیے حکم کیا ہے لیکن تم ان دونوں کے حکم پر نہ عمل کرتے ہو اور نہ دونوں کی پیروی کی جس نے اللہ تعالیٰ کی تلاش کی اس نے اس کو پایا۔ اور جس نے اس (کی راہ) میں کوشش کی اس نے اس کو راہ دکھا دی۔ اس واسطے کہ اس نے اپنی سچی کتاب میں فرمایا ہے :-
اور نہ وہ ظالم ہے اور نہ ظلم کو پسند کرتا ہے۔ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں بغیر کسی چیز کے کوئی چیز دے دیتا ہے ۔ تو کسی چیز کے ساتھ کیسے (نہدے گا)، اللہ تعالی نے فرمایا کیا بھلائی کا بدلہ بھلائی نہیں جس نے دنیا کے اندر اپنا عمل نیک کیا۔ اس سے اللہ دنیا اور آخرت میں نیکی کرے گا۔ تمہارے گنا ہ تمہاری جہالت ،تمہارے گھروں کی خرابی اور تمہاری بد نصیبی ہی تم کو اس کی اطاعت اور توحید سے باز رکھتی ہے۔ جلد ہی تمہیں ندامت ہوگی۔ قرآن کی آیات اپنے دلوں کے(کانوں) سے سنو اس کی طرف لپکو، تمام دروازے چھوڑ دو، اور اپنے رب جلیل کے دروازہ کو لازم پکڑ لو۔ وہی تکلیف رفع کرنے والا ہے۔ دہی ہے جو بے بس کی پکار کو پہنچتا ہے ۔ وہ وہ اسے پکارتا ہے۔ اس کے ساتھ صبر کرو تم نے بھلائی کو دیکھ لیا۔ جب وہ تمہاری پکار کو پہنچے، تو اس کا شکر کرو، اور تمہاری پکار پر پہنچنے میں تاخیر پر اس کے ساتھ صبر کرو ، بہادری صبر ہے ۔ اے اللہ ، آنے والی تکلیف کو رفع کرنے والے ۔ ہماری تکلیفوں اور مصیبتوں کو رفع کر دیجئے۔ اس واسطے کہ آپ بے چین کی پکار کو پہنچنے والے ہیں۔ جب وہ آپ کو پکارے کہ اے جو چاہے کر ڈالنے والے اے ہر چیز کے سننے والے – اے ہر چیز کے جاننے والے ہماری حاجتوں سے آپ واقف ہیں ۔ اور آپ ان کے پورا کرنے پر قادر ہیں۔ آپ ہمارے عیبوں سے خبردار ہیں اور ان کو مٹانے اور بخش دینے پر قادر ہیں ۔ ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کے ہاں نہ اتارو ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کے حوالہ نہ کرو۔ ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کے دروازہ کی طرف نہ دھکیلو . ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کی طرف نہ لوٹاؤ ۔ آمین
اٹھارھویں مجلس :-
اے لوگو! اپنے رب عزوجل کی عبادت میں ٹھہراؤ مانگو اس واسطے کہ اس نے اپنے سامنے ادب سے کھڑے ہونے والوں کی تعریف کی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب بھی بندہ کا قیام اس کی نماز میں اس کے رب عز و جل کے سامنے طویل ہو جاتا ہے۔ اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح سخت آندھی کے دن خشک پتے جھڑتے ہیں۔ اور جب بندہ اپنے رب عزوجل کی اطاعت میں سچا ہو جاتا ہے اور اس کے ظاہر اور باطن سے اس کے گناہ جھڑتے ہیں۔ اور روشنی ہوتی ہے اور اس کا دل روشن ہو جاتا ہے اور باطن پاک ہو جاتا ہے۔ صحیح بنو فصیح ہو۔ اپنی خلوت میں صحیح ہو جاؤ ۔ اور اپنی جلوت میں نصیح ہو جاؤ۔ جب تم دنیا میں صحیح ہوگئے۔ تو آخرت میں بھی صحیح ہوگئے۔ اور اپنے اللہ تعالے کے سامنے گفتگو میں فصیح ہو۔ شفاعت کرو۔ تمہاری شفاعت کے ساتھ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے گا اپنی اجازت اور اپنے حکم سے اس کی شفاعت فرمائے گا تمہارے سے (شفاعت )تمہاری کرامت اور اپنے ہاں تمہارا مقام ظاہر کرنے کے لیے قبول کرے گا۔ اور اپنے اور اپنے خدا کے درمیان صحیح ( معاملہ) کرو . اس کی مخلوق کی تعلیم میں فصاحت اختیار کرو، اور ان کو پڑھانے اور ادب سکھانے والے بنو۔ بدنصیبی تمہاری۔ تم اس مقام پر قابض ہو۔ لوگوں کو وعظ کرتے ہو پھر ان کے سامنے ہنستے ہو۔ اور ان کو ہنسانے والی کہانیاں سناتے ہو ۔ آخر کا ر نہ تم فلاح پاؤ گے اور نہ وہ فلاح پائیں گے۔ واعظ معلم (علم پڑھانے والا) اور مرتب (ادب سکھانے والا) ہوتا ہے۔ اور سامعین بچوں کی مانند ہوتے ہیں اور بچہ بغیر روشنی اور محرومی اور تر شروئی لازم کیے بغیر نہیں سیکھتا ۔ ان میں گنتی کے ہی افراد ہوتے میں جو بغیر اس کے (محض) اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی سیکھ جاتے ہیں۔ اے لوگو ! دنیا فانی ہے۔ دنیا جیل خانہ اور ویرانہ اور ررنج و غم ہے۔ اور حق تعالے سے (ر وکنے والا) پر دہ ہے ۔ اس کی طرف سر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھو۔ دل کی آنکھ معنی کی طرف نظر کرتی ہے اور سر کی آنکھ محض صورت کی طرف دیکھتی ہے۔ مومن سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے اس میں ایک ذرہ بھی نہیں ہوتا ۔ وہ اپنے ظاہر اور باطن سے محض اسی کے (حکم) سے حرکت کرتا ہے ۔ اور اسی کے ساتھ سکون پاتا ہے ، چنانچہ وہ اسی سے ہے۔ اور اسی کی طرف سے ہے ۔ اور پھر اسی میں ہے ۔ اس کے قدم اس کے دروازہ کو کھٹکھٹاتے ہیں. اور وہ ان کی طرف سے صحیح سالم سور ہے ہوتے ہیں۔ اور وہ اس کی خدمت میں کھڑا ہوتا ہے۔ تم نے اپنا شغل تنگی وپریشانی اپنے حصے حاصل کرنا اور ان پر حرص کرنا بنا لیا ہے۔ تم نے موت اور اس کے بعد کی چیزوں کو بھلا دیا ہے. حق تعالیٰ اور اس کے تغیر و تبدل کو بھلا دیا ہے اور اس کو اپنی پشت پیچھے ڈال دیا ہے. اس سے تم نے رو گردانی کی ہے۔ دنیا مخلوق اور اسباب پر کھڑے ہو گئے ہو تم میں سے اکثر روپے پیسے کی پوجا کرتے ہیں اور تم خالق و رازق کی عبادت کو چھوڑ دیتے ہو۔ یہ سب مصیبتیں تمہاری اپنے نفوس کی طرف سے ہیں۔ چنانچہ تمہیں لازم ہے ۔ ان کو مجاہدات کی قید میں بند کرو . اور ان کے مزوں کی چیزیں روک کر ان کی مراد کو ختم کرو ۔ کہ ان کی آرزو ئیں (محض روٹی کا ) ایک خشک ٹکڑا اور پانی کا ایک گھونٹ ہوں۔ یہ سب ان کے مزے ہو جاتے ہیں. اگر تم نے ان کو طرح طرح کے مزوں سے موٹا کیا تمہیں کھا جائیں گے۔ ایسا ہو گا جیسے ایک بزرگ نے فرمایا ۔ اگر تم نے اپنے کتے کو موٹا کیا وہ تمہیں کھا جائے گا۔ یعنی ان میں سے جرات کرنے والے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے۔ ” بے شک نفس تو برائی ہی سکھاتا ہے مگر جو میرا پروردگار رحم کرے :
اے لوگو ! نصیحت قبول کرو . اور (اللہ کا قول یاد کرو کہ عقلمند ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔ اللہ والے ہی عقلمند ہوتے ہیں جنہوں نے دنیا سے عقل برتی تو انہوں نے اس کو چھوڑ دیا ۔ پھر آخرت کے کام کی عقل کی اور اس میں لگ گئے یہاں تک کہ ان کے لیے (پھلوں کے )درخت اُگ گئے اور (پانی کی) نہریں بہہ گئیں۔ اور جاگتے اور سوتے آخرت پر ہی جمے رہے ۔ (یہاں تک کہ) ان کے پاس حق تعالے کی محبت آئی چنانچہ اس سے (بھی) اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اور اس سے (بھی) سفر اختیار کیا اور اس سے بھی نکل گئے۔ اور اپنے دلوں کی طنابوں کو باندھا اور اپنے رب عز و جل کی طرف متوجہ ہو کر ان میں سے ہو گئے ۔ جو اسی کی ذات کو چاہیں اور اس کے علاوہ (کسی کو) نہ چاہیں ۔ ان سب لوگوں کے ساتھ برکت حاصل کرو – ان کا قصد کرو . اور ان کی خدمت کرو۔ ان کے پیش ہو جاؤ۔ اور ان کی صحبت میں ادب سیکھو ۔ اے ہمارے اللہ ! ہمیں اپنے ساتھ اور اپنے بندوں میں سے نیکیوں کے ساتھ تمام حالات میں حسن ادب نصیب فرمائیے ، اورہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے اور دوزخ کے عذاب سے بچائیے۔
انیسویں مجلس :
اے دنیا کے بندے ۔ اے مخلوق کے بندے – اے قمیص ۔ دوپٹہ ۔ روپیہ پیسہ تعریف اور بندے مذمت کے افسوس تمہارے پر تم سرا پا دنیا کے لیے ہو۔ تم سارے کے سارے غیر اللہ اور اس کی عبادت کے لیے ہو جس شخص کو عقل اور سمجھ اور (علم )حاصل ہوتا ہے وہ اپنے خدائے بزرگ و بر تر کی عبادت کرتا ہے ، اور اپنے بڑے بڑے کاموں میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور جس کو عقل نہیں ہوتی۔ وہ ایسا نہیں کرتا۔ اس کا دل منسوخ ہوتا ہے اور دنیا کی محبت زیادہ ہوئی ہے۔ پس جو کوئی اپنے ظاہر میں اسلام کا دعوی کرے اور کافروں ایسی باتیں کرے : اور کچھ نہیں بس یہی ہمارا دنیا کا جینا ہے۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔ اور ہمارا مرنا سودہ زمانہ سے ہے۔ کافروں نے یہ بات کہی اور تم میں سے بہت سے یہ بات کہتے ہیں ۔ اور اس کو چھپاتے ہیں ۔ اور اپنے ان افعال سے کہتے ہیں جو ان سے صادر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی نہ میرے ہاں قدر ہے اور نہ مچھر کے پر جتنا وزن ۔ تو حق تعالے کے نزدیک کیسے ہو سکتا ہے۔ نہ ان کو عقل اور نہ ان کو تمیز ہے ، جس سے نفع اور نقصان کے درمیان فرق کریں ۔ اے اللہ کے بندو ! موت اور اس کے بعد کی چیزوں کو یاد کرو۔ اور ان پر اس وقت غور کرو ۔ جب تم اپنے گھر والوں حق تعالی اور اس کی مخلوق میں اور اس کی ربوبیت اور عظمت میں اس کے تصرفات (کارگزاریوں) کو یاد کرو . اور ان پر اس وقت غور کر دجب تم اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہوتے ہو۔ اور آنکھیں سوتی ہیں جب دل کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ تو اللہ تعالے اس کی خرید و فروخت اور اسباب کے ذریعے سے لینے کے لیے نہیں چھوڑتے۔ اس کو علیحدہ کر لیتے ہیں۔ اور خالص اپنے لیے کر لیتے ہیں۔ اور اس کو اس کی پستی سے اٹھالیتے ہیں۔ اور اس کو اپنے دروازہ پر اپنے آغوش کرم میں اٹھالیتے ہیں اور اس کو بلاتے ہیں۔ اے اپنے رب جلیل سے منہ پھیرنے والے جلدی ہی جب غبار چھٹ جائے گا تو تم اپنے گھر کی خرابی اور حق تعالی کی پکڑ کو دیکھو گے ۔ اگر تم نہ لوٹے ۔ اور متوجہ اور متنبہ نہ ہوئے۔ کم بختی تمہاری۔ تمہارے اسلام کی قمیص ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے اور تمہارے اسلام کی قمیص گندی ہے، تمہارا ایمان خالی ہے۔ تمہارا دل نا واقف ہے، تمہارا اندر تاریک ہے۔ تمہارا سینہ اسلام سے کھلا نہیں ہے۔ تمہارا باطن ویران ہے اور تمہارا ظا ہر برباد ہے۔ تمہارے نوشتے سیا ہ ہیں۔ تمہاری دنیا جس کو تم پیار کرتے ہو تمہارے سے کوچ کرنے والی ہے ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ آج ہی اور اسی گھڑی تمہاری موت ہو، تمہارے اور تمہاری امیدوں کے درمیان حائل ہو جا ئےتو اپنی چاہی چیز کو جان لیتا ہے ۔ اس پر وہ آسان ہو جاتی ہے سچا اپنی محبت میں بدلا نہیں کرتا۔ محبوب کے علاوہ کسی کے ساتھ بیٹھا نہیں کرتا ۔ جب مخلوق میں سے ایک کہے کہ میں نے جنت اور اس میں جو نعمتیں ہیں ان کی بھلائی کوسنا ہے۔ اس کو اللہ تعالے فرماتے ہیں ” اور اس جنت میں تمہارے لیےوہ چیز ہے جس کو تمہارے جی چاہیں اور تمہاری آنکھیں لطف اٹھائیں تو ہم نے اس سے کہا۔ اس کی قیمت کیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ۔ بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے کہ ان کے لیے جنت ہے : جان اور مال حوالہ کرو۔ اور وہ تمہاری ہو جائے گی ۔ دوسرے نے کہا۔ میں تو ان لوگوں میں سے ہونا چاہتا ہوں جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں۔ میرا دل قرب الہی کے دروازہ کے قابل ہو گیا ہے، اور کون سے پیارے اس میں داخل ہونے والے ہیں اور کون سے اس سے نکلنے والے ہیں۔ اور ان پر اپنی ملکیت اور مال کے چھوڑنے کا غلبہ ہو گیا۔ تو اس میں داخل ہونے کی کیا قیمت ہے ، ہم نے اس کو کہا۔ اپنا سب کچھ خرچ کر دے ، اور اپنے مزوں اور لذتوں کو چھوڑ دے اور اپنے آپ سے اس میں فنا ہو جاؤ اور جنت اور اس کی چیزوں کو چھوڑ دو ۔ اور اس کو چھوڑ دو۔ اور نفس خواہش نفسانی اور طبیعت اور دنیا اور آخرت کے مزوں کو چھوڑ دے اور سب کچھ چھوڑ دو ۔ اور اپنی پس پشت پھینک دو۔ پھر داخل ہو تا کہ تم وہ دیکھو جس کو نہ آنکھ نے دیکھا اور نہ کان نے سنا اور جو نہ ہی کسی انسان کے دل پر گذری۔ اللہ تعالے نے ارشاد فرمایا یہ پھر ان کو چھوڑ دو۔ کہو جس نے مجھے بنایا ہے وہی مجھے راہ دکھلاتا ہے ، اے دنیا سے بے رغبتی کرنے والے ! جب تیرا دل آخرت سے چاہتے ہوئے اس سے نکل جائے تو پھر کہو یہ جس نے مجھ کو بنا یا ہے۔ وہی مجھے راہ دکھاتا ہے اور تم ۔ اے حق تعالے کے چاہنے والے ۔ دنیا سے رغبت رکھتے ہو. اور اس کے علاوہ سے بے رغبتی اختیار کرتے ہو۔ جب تمہارا دل اپنے مولیٰ کو چاہتے ہوئے جنت کے دروازہ سے نکل جائے گا ۔ پھر تم کہو جس نے مجھ کو بنایا ہے ۔ وہی مجھے راہ دکھلاتا ہے ۔ راہ کی مصیبتوں سے اس کی ہدایت سے مدد مانگو۔
اے لوگو با میری پکار کو پہنچو۔ اس واسطے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہوں۔ اپنے دلوں سے اپنے خالق کی طرف رجوع کرو ، تم سب کے سب مردہ ہو ۔ دوری ہو۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اس کے سامنے معذرت کرنے کا دروازہ کھلوانا چاہو ۔ اسی کے منتظر رہو۔ (اس طرح) عمل کرو ، کہ وہ نگہبان دیکھنے والا تمہارے سے خبردار ہو ۔ تم نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں سنا کہیں تین کا مشورہ نہیں ہوتا جہاں وہ ان میں چوتھا نہیں ہوتا۔ اور پانچ کا مشورہ نہیں ہوتا جہاں وہ چھٹا نہیں ہوتا ۔ اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ۔ جہاں وہ ان کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ جہاں کہیں بھی ہوں: اس کی محبت کے کھانے سے کچھ کھاؤ اور اس کی الفت کی شراب سے کچھ پیو ۔ اور اس کی نزدیکی سے مدد چا ہو. اے مردہ دلو، اے ریا سے بیٹھے رہنے والو۔ اس سے پہلے اٹھو کہ تم سے منہ پھر ا لیا جائے . اس سے پہلے اٹھو کہ تمہیں بلاک کر دیا جائے۔ اے کئی جگہ بیٹھنے والو۔ اس سے پہلے اٹھو کہ تمہیں موت آجائے۔ اس سے پہلے اٹھو کہ پانی (بالکل تمہارے (پاؤں) کے نیچے پہنچ جائے۔ اپنی شرک کی زمین سے اپنی توحید کی زمین کی طرف اٹھو۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ایسے تجارت پر کھڑا کر دے جس سے آپ ہم پر راضی ہو جائیں ۔ اور ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد نہ پھیر یئے۔ ہمارے دلوں کو حق سے نہ اکتا ئیے۔ نہ ان کو اپنی کتاب اور اپنے رسول کی سنت کی پیروی سے (با ہر )اور ان دونوں پر عمل کرنے سے نکالیئے ۔ اور ہمیں پہلے گزرے ہوئے انبیاء و مرسلین اور شہدار و صالحین علیهم الصلوۃ والسلام کی راہ روشن سے نہ نکالیے ۔ ہماری روحوں کو ان کی روحوں کے ساتھ کر دیجئے۔ اور آخرت سے پہلے دنیا میں اپنی نزدیکی کے دروازہ میں داخل فرما ئیے۔ آمین۔
بیسویں مجلس :-
اگر قیامت کے دن پیاروں کے لیے جنت میں داخل ہونے سے بھاگنے کی راہ ہوتی کب داخل ہوتے ۔ اس واسطے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم تکوین (وجود )سے کیا چیز کریں۔ جو مکون(وجود میں لانے والا) چاہے ۔ ہم حدث سے کیا چیز کریں، جو قدیم چاہے ۔ یہ دل جب صحیح ہو جاتا ہے تو اس صفت پر ہوتا ہے۔ پھر خود بخود حق تعالیٰ سے قریب ہو جاتا ہے۔ اور دنیا اور مخلوق کا چھوڑنا فی الجملہ صحیح ہو جاتا ہے۔ اور اس کے لیے قرب بھی صحیح ہو جاتا ہے۔ خرابی تمہاری میں اپنے بچپن سے لے کر اس وقت تک حق تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑا ہوں ۔ اور تم ہو، کہ تم نے اس کو کبھی نہیں دیکھا۔ نہ میرے دل نے دروازہ دیکھا نہ اس کے ساتھ رہا، تم مشرق میں، اور یہ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ مغرب میں عقل کرو . پھر تمہاری تربیت اور پرورش ہوگی۔ میری عقل نے غفلت نہیں کی۔ چنانچہ میں اس کے بندوں میں سے خاص لوگوں کے ساتھ اس کے دروازہ پر ہوں۔ کہو- میں نے سچ کیا ۔ اور تمہاری عقل اچھی ہوئی۔ اسے یوسف کے پیالے ۔ اپنے پاس سے باتیں کرتے ہو۔ اپنے پیچھے کی خبر دے۔ اپنے دل کی بات کرو اور سچ کہو۔ پھر گونگے بن جاؤ۔ اپنے کان اور اپنے خزانہ سے اور اپنے گھر سے خرچ کرو . وگرنہ تو نہ چراؤ۔ نہ خرچ کرو لوگوں کو اپنے خوان سے کھلاؤ۔ اور ان کو اپنے چشمہ سے پلاؤ۔ مومن عارف ایسے چشمہ سے پلاتا اور پیتا ہے جس کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا۔ ایسا چشمہ جو اس کے پاس اس کے مجاہدوں اورسچ (کی وجہ) سے حاضر ہو گیا ہے۔
جنت نہیں کہو دنیا نزدیک ہے ۔ اور جنت تو بندہ کے اس دنیا کے قریب ہونے سے نزدیک نہیں ہوتی جس کو وہ چاہتا ہے پھر اس کے اوپر اس کے عیب کھل جاتے ہیں۔ پھر اس سے بے رغبتی کرتا ہے۔ اور اس سے محض ایک نوالہ اور اس سے لا بدی (ضروری)پر قناعت کرتا ہے جس کو وہ تمہارے لیے اس سے شریعت ۔ تقویٰ اور پرہیز گاری کے ہاتھ سے حاصل کرتا ہے۔ اس کے زہد کے ہاتھ سے دل کے ہاتھ سے لیتا ہے ۔ نہ کہ نفس – خواہش نفسانی اور شیطان کے ہاتھ سے جب اس کی یہ بات پوری ہو جاتی ہے ۔ تو دنیا آتی ہے ۔ چونکہ اس کی دنیا سے بے رغبتی جنت کے گوشوں کی قیمت ہے جب اس کا دل اس کو اس میں داخل کر دیتا ہے اور اس کے پاؤں اس میں جم جاتے ہیں اور اس کا باطن جگہ پکڑ لیتا ہے تو اس پر اس کے کام آسان ہو جاتے ہیں پس وہ جب اس حال میں ہوتا ہے۔ وہ حق تعالیٰ کے بندوں کو اپنی طرف چلتے دیکھتا ہے۔ اس نے ان سے پوچھا۔ کدھر کو جواب دیا۔ بادشاہ کے دروازہ کی طرف پھر انہوں نے اس کی طرف اس کو بھی شوق دلایا۔ اور اس نے متنبہ کیا۔ اور جنت سے بے رغبتی اختیار کرتے ہیں ۔ اور اس سے جس پر وہ ہے. اور کہتے ہیں۔ ہم تو ان میں سے ہیں جن کے حق میں حق تعالے نے فرمایا ہے۔ اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس پر جنت کی زمین با وجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی۔ اور اس سے واپسی چاہی ۔
یہاں تک کہ نکلوں میں تو پنجرہ میں قید پرندہ کی مانند ہو گیا ہوں۔ اور میرا دل تمہاری قید میں ہو گیا ہے ۔ اس واسطے کہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے ۔ اور تم عارف کا قید خانہ ہو۔ چنانچہ وہ اس سے نکلتا ہے۔ ان سے ملتا ہے، جو اللہ والے ہیں ۔ یہ طریقہ سالکین کا ہے لیکن مجددین کا طریقہ تو یہ ہے کہ قرب الہی کی بجلی بغیر کسی درجہ بدرجہ واسطہ کے پہلے قدم پر ہی قتل (مار کاٹ )کر چھوڑتی ہے ۔ اے اللہ: ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیجئے ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔
اکیسویں مجلس :
اللہ والوں کے تو ایسے اعمال ہوتے ہیں۔ جیسے نیکی کا پہاڑ۔ پھر ان کو کوئی عمل( شمار )بھی نہیں کرتے ، اپنے آپ کو متواضع اور حقیر(ہی سمجھتے اور رکھتے) ہیں تم اپنی عاجزی اور انکساری کے قدم پر ہی رہو تم عاجزی ۔ ڈر اور خوف کے قدموں پر رہو . ڈر کی بات ہے کہ (کہیں) باطن کی صفائی گندی اور وہ اور سینہ تنگ ہو جائے جب تم ہمیشہ اس پر ہو گے ۔ تو اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے پاس امان آئے گی اور تمہارے دل اور تمہارے باطن پر مہر کر دے گی۔ اور تمہاری خلوت کی دیواروں کو پوشاک پہنا دے گی۔ اس کے لیے اور تمہارے ہاتھ پاؤں کے لیے اشارہ زبان تسبیح اور ذکر بن جائے گی۔ تمہارا دل عجیب و غریب (باتیں )سنے گا اور تمہارے منہ کی طرف سے ایک لفظ بھی نہ نکلے گا۔ تمہارا ظاہر اور مخلوق اس سے ایک لفظ بھی نہ سنیں گے ۔ یہ چیز تمہارے لیے مشکل نہ ہوگی۔ یہ ایک ایسی نعمت ہوگی ۔ جسے جان کر تم اپنے آپ ہی میں بات کرو گے ۔ اور جو تمہارے پروردگار کا احسان ہے سو تم اس کو بیان کرو۔ اے ولی تمہیں اور تمہارے دل کو چاہیے کہ ان باطنی نعمتوں کو بیان کرو . اور تم اپنے رب جلیل کی نعمت اور تنہائی میں اپنے ساتھ اس کی کرامت کو کس چیز کے ساتھ بیان کرتے ہو ۔ اس واسطے کہ دلی ہونے کی شرط چھپانا ہے ۔ اور نبی ہونے کی شرط اظہار ہے ۔ ولی کا اظہار اللہ تعالے کی طرف سے ہوتا ہے۔ پس اگر وہ اس کی بات کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ آزمائش میں پڑتا ہے۔ اور اس کی حالت جاتی رہتی ہے۔ جب اس کی بات کو محض اللہ تعالے کے فعل سے ظاہر کرتا ہے۔ اس پر نہ گرفت ہوتی ہے اور نہ غصہ ۔ یہ اس کے علاوہ ہے۔ ۔ نہ کہ وہ – ایک کسی پوچھنے والے نے مجھ سے پوچھا۔ میں ہر ایک کو دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اس سے گزرتی ہے ۔ اس کو چھپاتا ہے اور تم ظاہر کرتے تو میں نے جواب دیا ۔ افسوس تمہارے پر۔ ہم تو کوئی چیز بھی ظاہر نہیں کرتے ۔ یہ جان بوجھ کر نہیں غلبہ سے ظاہر ہو جاتی ہے جب میرا تالاب لبالب بھر جاتا ہے۔ میں اسےحکم دیتا ہوں۔ جب اس پر رو آتی ہے اور غیر اختیاری طور پر وہ اپنے ارد گرد سے بہہ نکلتا ہے۔ تو میں کیا کروں۔ بد بختی تمہاری۔ تم علیحدگی اختیار کرتے ہو کہ( کچھ تم پر بھی) کھل جائے ۔ اور یہ تمہارے اور خانقاہوں والوں اور مخلوق کے لیے نہیں۔ تمہارے لیے تمہارا دل جنگلوں اور بیابانوں پر سے بھر گیا۔ پس جب تمہارے پاس نزدیکی کا خزانہ لائے تو پھر تم مخلوق کے درمیان بیٹھنے کے قریب ہوتواس وقت تم ان کے لیے روا ہو گئے ۔ اللہ رحم کرے ۔ اس مومن پر جو میرے کہنے کے مطابق اس کو چکھنے والا ہے۔ (جبکہ) میں کہتا ہوں۔ اپنی خلوت اور جلوت میں اس پر عمل کرنے والا ہے۔ اے لوگو ! کوشش کرو . خوب کوشش کرو . اور اس گھڑی کو دیکھ کر، فراخی کی گھڑی سے نا امید مت ہو جاؤ۔ کیا تم نے نہیں سنا۔ اللہ تعالے کس طرح فرماتے ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی اور بہتر صورت پیدا کر دیں۔ اپنے پرور دگار سے ڈرو۔ اور اس سے امید رکھو۔ تم نے ان کی نہیں سنی۔ اللہ تعالی فرماتے میں۔ اللہ تمہیں آپ ڈراتے ہیں۔ امان کو تم اپنے ڈرنے اور بچنے کے مطابق ہی دیکھو گے۔ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھو۔ اور اس سے ڈرتے رہو، کیا تم نے ان کی نہیں سنی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے ۔ اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ اے اللہ ! ہمیں مخلوق سے بے پرواہ کر دے۔ ان لوگوں سے بے پرواہ کر دے جنہوں نے بہت مال جمع کیا اور اس کو اپنے پاؤں تلے چھوڑ گئے ۔ اور اس پر غرور کیا ۔ اور وہ ان کی محبت میں (حیران و پریشان) کے میدان میں گھسے ہیں۔ اور فقیران سے مانگتے ہیں۔ اور انہیں فریاد کو پہنچنے کے لیے کہتے ہیں۔ اور وہ بہرے بن رہے ہیں ۔ اے اللہ !ہمیں ایسا کر جو اپنی حاجتیں تمہارے سامنے لاتا ہے۔ اور اپنی مشکلات میں آپ ہی سے فریاد کرتا ہے۔ آمین
بائیسویں مجلس :-
حضرت سفیان علیہ الرحمہ سے پوچھا جاہل کون ہے۔ فرمایا۔ وہ جو اپنے پروردگار کو نہیں پہچانتا تا کہ اپنی حاجتیں اس سے مانگے جو کوئی اپنی حاجتیں پر ور دگار سے مانگے۔ اس کی مثال اس مرد کی مانند ہے جو کسی بادشاہ کے گھر میں کوئی ایسا کام کرتا تھا جس کے کرنے کا بادشاہ نے اس کو حکم دیا تھا۔ پھر اس نے کام کو چھوڑا اور بادشاہ کے پڑوس میں کسی شخص کے دروازہ کی طرف چلا گیا۔ اس سے روٹی کا خشک ٹکڑا مانگتا تھا جس کو وہ کھائے، کیا ایسا نہیں جب بادشاہ کو اس کا علم ہوا ۔ اس سے بیزار ہوا۔ اور اس کو اپنے گھر میں گھسنے سے منع کر دیا ۔ اے دل کے مردو سنو. اور میں اس کوتمہارے اوپر دیکھ رہا ہوں تم کیسے مرتے ہو۔ اور تم نے اپنے رب جلیل کو(بھی)نہیں پہچانا ۔ اے اللہ ہمیں اپنی معرفت اور اپنے لیے اخلاص عمل اور اپنے غیر کے لیے عمل چھوڑنا نصیب فرمائے اور ہمیں اپنا ظاہر اور باطن کا علم عطا کیجئے۔ ہم نے صبر کیا اور ہم راضی ہو گئے۔ اور اپنی اس مصیبت جس کا علم ہمارے بارہ میں آپ کو پہلے سے ہو چکا ہے کی کمی کو ہمارے لیے خوشگوار بنا دیجئے ۔ ہمارے دلوں کے گوشت کو مردہ کر دیجئے یہاں تک کہ تیری قدرت کی قینچیاں ہمیں ملول نہ کریں تا کہ ہمارے لیے ہمیشہ آپ ہی کی صحبت ہو ۔ آمین
تیئسویں مجلس :-
اے صاحبزادے جو چیز تمہارے لیے ہے۔ تم سے فوت نہ ہو گی ۔ نہ کوئی اور اسے کھائے گا ۔ اور جو چیز دوسرے کے لیے ہے۔ وہ رغبت اور لالچ سے تمہارے پاس نہ آئے گی. وہ تو محض کل ہے جو گزرگئی اور تمہارا دن یہ ہے جس میں تم ہو اور کل جو آئے گی تمہاری (گذری ہوئی) کل تو تمہارے لئے عبرت بن چکی ہے ، اور تمہاری آج اور (آنے والی) کل ایسی مدت ہے جس میں تم ہو کہ نہ ہو ۔ اس واسطے کہ تم نہیں جانتے کہ کون سی تمہاری گذری ہوئی، کل ہے ، تب تم یاد کروگے جو میں تمہیں کہتا ہوں۔ اور شرمندہ ہوگے۔ بدنصیبی تمہاری میرے ہاں اپنی حاضری کو ایک یا چند دانوں کی خوشبو کے لیے بیچ دیتے ہو جس چیز میں میں لگا ہوں اور جو کچھ میں کہتا ہوں تمہاری اس سے جہالت۔نے تم کو میرے سے کاٹ دیا ہے۔ تم اس کی جڑ اور شاخ (دونوں) سے ناواقف ہو تم نے بات کی اور تم نے پہچانا لیکن تم باز نہیں رہے۔ کچھ وقت( گزرنے) کے بعد تم اس کو یاد کرو گے جو میں نے تمہارے لیے نصیحت کی ۔ تم مرنے کے بعد میری بات کے نتیجہ کو دیکھ لوگے ۔ پھر تم اس طرف دھیان کرو گے جو میں نے تم سے کہا ۔ میں اپنا کام اللہ کے حوالہ کرتا ہوں ۔ لاحول ولا قوة الا با للہ العلی العظیم –
مومن کے نزدیک سب سے پیاری چیز عبادت ہے ۔ اور اس کے نزدیک سب سے پیاری چیز نماز میں کھڑا ہونا ہے ۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس مؤذن کا انتظار کر رہا ہوتا ہے جو حق تعالے کی طرف بلانے والا ہوتا ہے جب اذان سنتا ہے تو اس کے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے مسجد اور جماعت کی جانب لپکتا ہے۔ اس سے مانگنے والا خوش ہو تا ہے ۔ جب اس کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس کو دیتا ہے۔ چونکہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنا ہے کہ مانگنے والے کو اللہ تعالی اپنے بندے کی طرف راہ دکھاتے ہیں کیوں خوش نہ ہو۔ اور رب جلیل نے تو اس بات کا حکم جاری کر دیا ۔ کہ اس سے فقیر کا ہاتھ طلب کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ تم نے اپنی دنیا پر اپنی آخرت کو ترجیح دی۔ اور تم نے اپنی لذتوں پر میری عبادت کو ترجیح دی۔ مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم ! میں نے جنت کو پیدا ہی تمہارے لیے کیا ہے۔ یہ آپ کا ارشاد ان سب کے لیے ہے، اور اپنے لیے محبت کرنے والوں کے لیے آپ کا ارشاد ہے ۔ تم نے مجھے دنیا کی تمام مخلوق اور آخرت پر ترجیح دی۔ تم نے مخلوق کو اپنے دلوں سے دور کر دیا ۔ اور ان سے اپنے بھیدوں کے بارہ میں بھی ان سے پر ہیز کیا۔ میری رضا تمہارے لیے ہے اور میری نزدیکی تمہارے لیے ہے۔ اور میری محبت تمہارے لیے ہے۔ تم سچ مچ میرے بندے ہو۔ اللہ والوں میں ایسا بھی ہے جو دن کے وقت جنت کے کھانوں میں سے کھاتا ہے اور اس کی شراب میں سے پیتا ہے۔ اور جو کچھ اس میں ہے. وہ سب کو دیکھتا ہے۔ ان میں ایسا بھی ہے جس کا کھانا پینا ختم ہو جاتا ہے۔ اور مخلوق سے الگ ہو جاتا ہے اور ان سے چھپ جاتا ہے۔ اور حضرت الیاس علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی طرح مرے بغیر زمین پر بستا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اللہ والوں میں بہت سے ایسے ہیں جو زمین میں چھپ جاتے ہیں لوگ نہیں دیکھتے۔ وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور لوگ ان کو نہیں دیکھتے۔ ان میں اللہ والے بہت ہیں۔ اور ان میں خواص کم میں چند لوگ تو پکے ہیں۔ اور سب ان کے پاس آتے ہیں اور ان کا قرب چاہتے ہیں جن کی وجہ سے زمین اگاتی ہے اور آسمان بارش برساتا ہے ۔ اور فرشتے مخلوق سے مصیبت دور کرتے ہیں۔ جن کا کھانا اور پینا حق تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح وتہلیل ہے۔ اور اللہ والوں میں چند لوگ ایسے ہیں جن کا یہی کھانا ہو جاتا ہے۔ اے صحت اور فراغت والے ۔ تمہارا زیادہ نقصان کا ہے سے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا. دو نعمتیں ہیں جس میں اکثر لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے صحت اور فراغت اپنی صحت اور اپنی فراغت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے استعمال کرو . اس سے پہلے کہ تمہاری صحت کو کوئی مرض لگ جائے اور کوئی کام تمہاری فراغت اڑا لے جائے اپنی تنگدستی سے پہلے اپنی امیری کو غنیمت جانو ، چونکہ امیری ہمیشہ نہیں رہتی ۔ فقیروں کی عزت کرو ۔ اور ان کو اپنے ہاتھوں کی چیزوں میں شریک کرو ۔ اس واسطے کہ اللہ ان کو دیتا ہے۔ یہی چیز ہے۔ جو تمہارے پروردگار کے ہاں کام آئے گی۔ اور تمہاری آخرت میں تمہیں فائدہ دے گی۔ کمبختو تم اپنی موت سے پہلے اپنی زندگی کو غنیمت جانو موت جیسے واعظ سے سبق سیکھو۔ اس واسطے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے موت کافی واعظ ہوتی ہے ۔ موت ہر نئی چیز کو پرانی بنا دیتی ہے اور ہر دور کو نزدیک کر دیتی ہے۔ اور ہرسچے کو جھوٹا بنا دیتی ہے، مرنا نہیں اس سے بچنا ۔ اس وقت اور اسی گھڑی اور آج ہی آجائے ۔ یہ معاملہ تو دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہر چیز جو تمہارے لیے ہے ، عارضی ہے۔ تمہاری جوانی تمہاری صحت، تمہاری فراغت ، تمہاری امیری تمہاری غریبی اور تمہاری زندگی تمہارے ہاں عارضی طور پر ہے پس اس کی تمہیں فکر ہونی چاہیئے۔ کم بختی تمہارے لیے کہ تم دوسروں کو صبر کا حکم کرتے ہو۔ اور خود تم بے صبر ہو۔ تم دوسرے کو رضا با القضا کا حکم کیسے کرتے ہیں اور خود تم ناراض ہو ۔ تم دوسرے کو دنیا سے بے رغبتی کا حکم کیسے کرتے ہو۔ جبکہ خود تم اس سے بے رغبتی اختیار کیے ہو تم دوسرے کو اللہ تعالے پر بھروسہ کرنے کا حکم کیسے کرتے ہو جبکہ خود تم غیر اللہ پر بھروسہ کیئے ہو تم ہو۔ اور اللہ کے بندوں میں سے سچوں اور نیکوں کے دلوں کی بیزاری ہے۔ کیا تم نے اللہ والوں میں سے ایک کی یہ بات نہیں سنی۔ اس بات سے لوگوں کو منع نہ کرو جس کو کہ تم خود کرتے ہو۔ تمہارے لیے (باعث شرم ہے جب تم (ایسا) کرو بری بات ہے ۔ تمہارے سارے( کارنامے) لوگوں کے لیے ہیں اور تم مجسم نفاق ہو۔ چنانچہ بلاشبہ اللہ تعالی کے ہاں تمہا را مچھر کے پر جتنا بھی وزن نہیں۔ تم منافقوں کے ساتھ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہو گے میری بات پر قائم رہنا ایمان کی نشانی ہے اور اس سے بھاگنا نفاق کی نشانی ہے ۔ اے اللہ ! ہم پر مہربانی فرمائیے ہمیں دنیا اور آخرت میں رسوا نہ کیجئے اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچایئے ۔