حسن اعمال اور حسن احوال حکمت نمبر46
حسن اعمال اور حسن احوال کے عنوان سے باب پنجم میں حکمت نمبر46 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
46) حُسْنُ الأَعْمَالِ نَتَائِجُ حُسْنِ الأَحْوَالِ، وَحُسْنُ الأَحْوَالِ مِنَ التَّحَقُّقِ فِى مَقَامَاتِ الإِنْزَالِ.
حسن اعمال حسن احوال کے نتیجے ہیں ۔ اور حسن احوال نزول کے مقامات میں قائم ہونے سے پیدا ہوتے ہیں ۔
اعمال ۔ احوال
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اعمال کوشش اور محنت کے ساتھ جسم کی حرکت کا نام ہے۔ اور احوال سختی اور مشقت برداشت کرنے کے ساتھ قلب کی حرکت کا نام ہے ۔ اور مقامات : اطمینان کے ساتھ قلب کے سکون کا نام ہے۔ اس کی مثال یہ ہے ۔ مثلا زہد کا مقام پہلے اس کا عمل دنیا اور اسکے اسباب کے ترک کرنے کے ساتھ مجاہدہ (یعنی کوشش ) کرنا ہوتا ہے۔ پھر فاقہ کی سختی برداشت کرنے میں صبر کے ساتھ مکا بدہ کرنا ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ مجاہد و اور مکا بدہ حال ہو جاتا ہے پھر قلب کو سکون ہوتا ہے اور اس میں لذت پاتا ہے تو وہ مقام ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح تو کل : اسباب کے ترک کرنے کے ساتھ مجاہدہ ہوتا ہے پھر قدر کی سختیوں پر صبر کے ساتھ مکابدہ اور ایسے ہی معرفت پہلے ظاہری عمل کے ساتھ مجاہدہ ہوتا ہے۔ پھر یہ حال ہو جاتا ہے، پھر جب مشاہدہ میں روح سکون پاتی اور قائم ہو جاتی ہے، تو یہ مقام ہو جاتا ہے۔ پس احوال: وہبی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی بخشش سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور مقامات: کسبی ہیں۔ یعنی مجاہدہ و مکا بدہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یعنی احوال :۔ اعمال کے ثواب کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی طرح سے بخشش اور انعام ہیں اور جب عمل ہمیشہ رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ حال شامل ہو جاتا ہے۔ تو وہ مقام ہو جاتا ہے بس احوال بدلتے رہتے ہیں جاتے اور آتے رہتے ہیں۔ اور اس حقیقت میں جب قلب ساکن اور قائم ہوجاتا تو وہ مقام ہو جاتا ہے اور یہ دوام عمل سے حاصل ہوتا ہے۔ تم کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ مقام اور حال ہر ایک کیلئے علم اور عمل ہے۔ پس مقام پہلے اس سے علم کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے عمل میں کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حال ہو جاتاہے پھر مقام ہو جاتا ہے ایسے ہی حال پہلے اس کے ساتھ علم کا تعلق پیدا ہوتا ہے، پھر عمل کا۔ پھر وہ مقام حال ہو جاتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
پس نزول کے مقامات میں قائم و ثابت ہونے کی علامت حسن حال ہے اور حسن حال کی علامت حسن عمل ہے تو اعمال کی مضبوطی اور خوبی ، احوال کی خوبی کا نتیجہ ہے۔ اور احوال کی مضبوطی اور خوبی، مقامات میں ثابت و قائم ہونے کا نتیجہ ہے۔
یا تم اس طرح کہو : حسن احوال : جن مقامات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو نازل کرتا ہے اس میں قائم و ثابت ہونے کی دلیل ہے اور حسن اعمال حسن احوال کی دلیل ہے۔ اور مقام میں حال اور سکون کے ساتھ قائم و ثابت ہونا باطنی حقیقت ہے اور اس کاا ثر جسمانی اعضا کے عمل میں ظاہرہوتا ہے۔
حاصل یہ ہے:۔ کہ جسم کی حرکت قلب کی درستی یا خرابی کی دلیل ہے حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إذَا صَلَحْت صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ
بیشک آدمی کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام جسم درست ہوتا ہے۔ اور جب وہ خراب ہوتاہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔
تو جب قلب زہد کے ساتھ قائم ہو گیا اور زہد اس کیلئے حال یا مقام ہو گیا۔ تو اس کا اثر اس کے جسم پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور یقین اور حرکت پیدا کرنے والے اسباب کیلئے حرکت کی کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
جیسا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
لَيْسَ الزُّهْدُ فِي الدُّنْيَا بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ، وَلَا إِضَاعَةِ الْمَالِ. وَلَكِنْ أَنْ تَكُونَ بِمَا فِي يَدِ اللَّهِ أَوْثَقُ مِنْكَ بِمَا فِي يَدِكَ
زہدنہ حلال کو حرام کرتا ہے نہ مال کو ضائع کر نا بلکہ حقیقتا زہد یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے اس پر اپنے ہاتھ میں ہونے والی چیزوں سے زیادہ اعتما داور یقین رکھو۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ارشاد
حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خواب میں حضرت ابوالحسن شاذلی سے فرمایا: قلب سے دنیا کی محبت خارج ہونے کی علامت اس کے پانے کے ساتھ اس کو خرچ کر دینا ہے اور ا سکے مفقود یعنی نہ ہونے کی حالت میں راحت اور خوشی پانا اور مقام تو کل میں نازل ہونے کے ساتھ قائم ہونے کی علامت حرکت دینے والے اسباب کے وقت سکون اور اطمینان ہے اور مقام معرفت میں نازل ہونے کے ساتھ قائم ہونے کی علامت ظاہری و باطنی حسن ادب اور مخلوق کے ساتھ حسن خلق ہے اسی لئے حضرت ابو حفص حداد نے فرمایا ہے :۔ ظاہری حسن ادب باطنی حسن دب کا دیبا چہ یعنی سرخی ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے
لَوْ خَشَعَ قَلْبُ هَذَا، خَشَعَتْ جَوَارِحُهُ اگر اس کا قلب جھکتا تو اس کے جسمانی اعضا بھی جھک جاتے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس مضمون کو پہلے بیان کیا ہے تَنَوَّعَتْ أَجْناسُ الأَعْمالِ لَتَنَوُّعِ وارِداتِ الأَحْوالِ احوال کے واردات بہت قسم ہونے کی وجہ سے اعمال کی قسمیں بہت ہوگئی ہیں۔ اس مقام پر دوبارہ بیان کرنے سے اس کی زیادہ تشریح ہوگئی ہے۔