حضور پر نور
انتساب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے غلام صاحب علم اولین و آخرین صحابہ کرام میں ہر دلعزیز اور جنت جن کی مشتاق حضرت سید نا سلمان فارسی رضی الله تعالی عنہ
کے نام
شاہ گر بنواز د گدارا
سید نا صر چشتی
حمد باری تعالی
خدایا حمد کردے نے تری موسم نظارے وی
ترے در تے جھکے رہندے ایہہ سورج چن ستارے وی
فلک دے کل سپاہی وی زمین دے مرغ و ماہی وی
ترے حکماں دے قیدی نے سمندر وی کنارے وی
تری وحدت دے وچ ڈبے ہوئے نیں دوجہاں مولا
تری حکمت توں خالی نئیں کنائے استعارے وی
توں مالک ایں دو عالم دا توں خالق وی توں رازق دی
ترے بن کون دے سکدا اے منافے وی خسارے وی
تری قدرت دی ہر ذرہ گواہی روز دیندا اے
ترے ناچیز بندے نے مرے جئے درواں مارے وی
کوئی مٹے کے ناں منے فرق تینوں نئیں کچھ پیندا
تری رحمت دے نغمے نے ایہہ قرآن دے سپارے وی
تو خود سوہنا ایں یا مولا ترا ہر کم سوہنا ایں
تری قدرت دے شہہ پارے حسیں تر ماہ پارے وی
تری اک ذات دا مولا جے ہووے ناں کرم ناؔصر
نہ کوئی ساہ لے سکدائے نئیں ہو سکدے گزارے وی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو جاتے ہیں دل جاکر مسرور مدینے میں
بر آن برستا ہے اک نور مدینے میں
رحمت کے گھنے سائے انوار کے وہ لمحے
ہوتی ہے دعا فورا منظور مدینے میں
اس پیار کے دریا میں جب غوطہ زنی ہو گی
ہو جائیں گے دکھ میرے کافور مدینے میں
اغیار کے دامن سے کیوں ہوتے ہو وابستہ
ملتا ہے محبت کا دستور مدینے میں
ہر قطرہ چمکتا ہے طیبہ میں گہر صورت
ہر ذرہ بنا دیکھا کوہ طور مدینے میں
رہتا ہے طبیب ایسا جسمانی و روحانی
ہو جاتے ہیں کتنے ہی دکھ دور مدینے میں
پرکار دوعالم کا مرکز ہے در آقا
بنتا ہے دو عالم کا منشور مدینے میں
انسان و ملائک ہیں خدام محمد کے
مدہوش کئی دیکھے منصور مدینے میں
صدیق و عمر حیدر عثمان غنی ناؔصر
ہیں عشق محمد سے معمور مدینے میں
دامن میں چھپا لینا غم خوار کا شیوہ ہے
پھر جائیں نہ کیوں سارے مجبور مدینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاروں کو ضیا دیتا ہے دلدار کا چہرہ
خورشید کو شرماتا ہے سرکار کا چہرہ
مجرم کو کہا جائے گا جا تجھ کو اماں ہے
غم ناک ہے تیرے لئے غم خوار کا چہرہ
چہرے پر مرے مل دو ذرا خاک مدینہ
ہو جائے گا اچھا ابھی بیمار کا چہرہ
محبوب کی سنت کا رہا اس پہ جو غازہ
نکھرے گا نہ کیوں سیرت و کردار کا چہرہ
خود عرش کرے فرش پر آنے کی تمنا
گر دیکھ لے وہ آپ کے دربار کا چہرہ
چوسے گی اسے رحمت یزدان بھی جس دم
دامن میں چھپا لیں گے گنہ گار کا چہرہ
جو عشق محمد میں گیا ہار وہ جیتا
تا عمر نہ دیکھے گا کبھی ہار کا چہرہ
دھندلائے گا ناؔصر نہ کبھی گرد جہاں سے
نعتوں سے سجا رکھا ہے اشعار کا چہرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طیبہ میں بتاؤں کیا دربار کا عالم ہے
دربار پر مولا کے انوار کا عالم ہے
ہیں پیش نظر جس کے سب لوح و قلم کرسی
یہ چشم محمد کی رفتار کا عالم ہے
حیوان بجا لائیں فرمان محمد کا
اس پیکر رحمت کے یہ پیار کا عالم ہے
جو چیز جسے چاہیں فرمائیں عنایت وہ
بخشش کا یہی مرے مختار کا عالم ہے
اے جان مسیحا پھر فرمائیں مسیحائی
اب جان بلب ترے بیمار کا عالم ہے
خورشید سے بڑھ کر ہیں ذرات مدینے کے
واللہ یہی ساری اس بار کا عالم ہے
وہ میرے تصور میں میں ان کی نظر میں ہوں
ہر وقت ہی ناؔصر پر دیدار کا عالم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمت دی تصویر مدینہ عاشق دی جاگیر مدینہ
ہر عاشق دا قبلہ کعبہ عشق دی ہے زنجیر مدینہ
روز نکل کے اکھ دی جوہ چوں لبھ دے میرے نیر مدینہ
مر جاواں تے کر چھڈیا جے کفن اتے تحریر مدینہ
پیار دا پہلا باب ہے طیبہ کل شہراں دا پیر مدینہ
تخت ہزارے دل نہ ویہندی جے تک لیندی ہیر مدینہ
دین دی خاطر چھڈیا ہے سی رو رو کے شبیر مدینہ
ہر شے ناؔصر مٹ جانی اے رہنا فقط اخیر مدینہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی کی نعت پڑھتے ہیں عبادت ہوتی جاتی ہے
محمد کا کرم اللہ کی رحمت ہوتی جاتی ہے
بحمد اللہ محمد کی غلامی کا نتیجہ ہے
خدا کے نیک بندوں سے محبت ہوتی جاتی ہے
برستی ہیں چھماچھم رحمتیں اس پر گھٹا بن کر
جسے اپنے گناہوں پر ندامت ہوتی جاتی ہے
نظام مصطفی آکر رہے گا اب زمانے میں
عیاں اس کی زمانے پر ضرورت ہوتی جاتی ہے
نبی کا شہر تو شہر نبی ہے اس کے کیا کہنے
ہمیں طیبہ کے زائر سے عقیدت ہوتی جاتی ہے
زمانہ جا رہا ہے جس قدر راہ ترقی پر
ترے معراج کی ظاہر حقیقت ہوتی جاتی ہے
بصارت نے جہاں حیرت سے اپنی موند لیں آنکھیں
وہاں سے رہنما دل کی بصیرت ہوتی جاتی ہے
سنا کچھ اور بھی باتیں مدینہ کی ہمیں زائر
ہمیں شہر رسالت کی زیارت ہوتی جاتی ہے
خدا کے شہر سے مجرم سزا سن کر وہاں پہنچے
نبی کے شہر میں ان کی ضمانت ہوتی جاتی ہے
روئے تاباں محمد کا ہے مرے روبرو ناؔصر
کلام اللہ کی جیسے تلاوت ہوتی جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترا مرہون منت ہے یہاں جو بھی سخن ور ہے
سبق تری محبت کا مگر جس جس کو ازبر ہے
سکوں پایا مرے دل نے غم دوراں کی تلخی سے
تمہاری یاد کا مرہم لگایا میں نے اس پر ہے
کرم کی اک نظر سرکار ہم ایسے غریبوں پر
برے میں لاج رکھ لینا اٹا عیبوں سے دفتر ہے
تجھے زیبا خدا کے بعد ہے لاریب یکتائی
تری تمثیل ہے کوئی نہ کوئی ترا ہمسر ہے
بڑی ہے قابل تحسین تمہاری نعت گوئی بھی
تمہارے پیار میں سرشار ہر شاعر قلندر ہے
مبارک ہے مرے آقا لحد میں آپ کا آنا
سر محشر شفیع ہونا مگر اس سے بھی خوش تر ہے
ترے دربار اقدس کی گدائی یا نبی اللہ
کرم ہے اک سعادت ہے زمانے بھر سے بہتر ہے
ترا فیضان جاری ہے ازل سے تا ابد آقا
ملا کوثر تھجے لیکن ترا دشمن ہی ابتر ہے
بڑا پر عیب ہوں مانا مگر یہ ناز ہے مجھ کو
رسول پاک کی مدحت مرا ناؔصر مقدر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے در پر سر جھکا کر بات کر کیوں کھڑا ہے منہ بنا کر بات کر
ان کی رحمت کہہ رہی ہے وقت ہے اے سوالی التجا کر بات کر
گر نہیں کشکول تیرے پاس تو دل کے دامن کو بچھا کر بات کر
مصطفى يا مصطفى يا مصطفی یہ وظیفہ گنگنا کر بات کر
گر تری اوقات چھوٹی ہے تو کیا چل مدینے دل بڑا کر بات کر
آپ کی سب آل کا اولاد کا پیش ان کو واسطہ کر بات کر
وہ نوازیں گے تجھے ناؔصر ضرور اب نہ دل میں غم ذرا کر بات کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہکار سے پر صبحیں خوشبو میں بسی راتیں
سرکار کی جانب سے سوغاتیں ہی سوغاتیں
لب پر بھی ہوتی ہے مدحت کی حسیں سرگم
دل میں کبھی لیتی ہیں انگڑائی مناجاتیں
میں ایک سلگتا سا صحرا تھا ندامت کا
برسا گئے وہ مجھ پر انوار کی برساتیں
کشکول عطا کر کے پھر دے دیا در اپنا
پھر خود ہی لگے دینے خیرات پر خیراتیں
دنیا میں اگر کوئی تکریم کے لائق ہے
اک خود ہیں نبی میرے اک آپ کی ہیں باتیں
مسکاؤ گنہ گارو رحمت پر رکھو نظریں
وہ کھولنے کب دیں گے دوزخ کی حوالاتیں
وہ مجھ پہ تصور میں کرتے ہیں کرم ناؔصر
ہوتی ہیں سر محفل اب ان سے ملاقاتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کملی والے توں ہو جائے نثار بندہ قسم رب دی فیر تے لاس کوئی نئیں
شامل ہو جا حضور دے نوکراں وچ وڈی ایس توں ہور کلاس کوئی نئیں
دامن ہتھیں نہ ہونا حضوردا جے پل صراط وی ہوناکر اس کوئی نئیں
ناؔصر جے نہ حضور نے مہرلائی کسے شخص دی ہوونا پاس کوئی نئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدی مرشدی یا نبی یا نبی انبیاء ہیں ترے مقتدی یا نبی
تیری زلف معتبر کا فیضان ہے یہ چمن در چمن تازگی یا نبی
آپ آئے تو جینے کی ہمت ہوئی ورنہ بے کیف تھی زندگی یا نبی
کس زباں سے ادا ہم کریں شکریہ مل گئی ہے تری رہبری یا نبی
بت پرستوں کو تو نے کیا بت شکن بخشی ایمان کی روشنی یا نبی
ابن آدم کو سکھلائی ہے آپ نے دوستی آشتی دوستی بندگی یا نبی
آپ آئے تو حسن شعور آ گیا رشک جنت زمین بن گئی یا نبی
سارے کم خواب و اطلس تصدق ہوئے آپ کی دیکھ کر سادگی یا نبی
بحر رحمت سے ناؔصر کو حصہ ملا نعت خوانی ملی آپ کی یا نبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ کوئی پھول پھر ایسا کھلے گا مرا محبوب یکتا ہی رہے گا
مدینے میں ہی تو کٹیا بنا لے ارے جنت میں جا کر کیا کرے گا
ستارے دینے آئیں گے سلامی کرم سے جب روئے عصیاں ڈھلے گا
محمد ہی پناہ بے کساں ہیں عقده تو سر محشر محشر کھلے گا
پناہیں موت بھی مانگے گی اس سے نبی کے پیار میں جو مرمٹے گا
قیامت میں بھی سب جھنڈوں سے اونچا مرے سرکار کا جھنڈا رہے گا
جسے عشق محمد نے جلایا جنہم میں بھلا کیسے جلے گا
اسے چومیں گے ناؔصر آ کے قدسی جو چہرہ آپ کی جانب رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے منگتوں نے کب آہ و بقا پر بات چھوڑی ہے
تری نظر کرم لطف و عطا پر بات چھوڑی ہے
گنہ گارو اس کے دامن رحمت میں چھپ جانا
کہ خود اللہ نے جس کی رضا پر بات چھوڑی ہے
گلستاں کے تصور میں بھی پت جھڑ آ نہیں سکتی
تمہارے شہر کی مہکی ہوا پر بات چھوڑی ہے
دلوں کا درد کب جاتا حکیموں نے طبیبوں نے
ترے درباری خاک شفا پر بات چھوڑی ہے
جسے چاہے سر محشر بنا دے صاحب جنت
خدائے مصطفی نے مصطفی پر بات چھوڑی ہے
وہ خود دامن عطا فرمائیں گے خیرات بھی دیں گے
فقیروں نے انہیں کی ہی سخا پر بات چھوڑی ہے
تو جتنا مانگ لے ناؔصر اجازت ہے اجازت
کریم آقا نے یہ اپنے گدا پر بات چھوڑی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو جاؤ قریب ان کے ذرا اور زیادہ
ہو جائے گا نزدیک خدا اور زیادہ
جی بھر کے محمد کی کروں مدح و ثنا میں
یا رب تو مری عمر بڑھا اور زیادہ
پھونکوں سے نہ بجھ پائیں گے اس نور کے شعلے
چمکے گا رسالت کا دیا اور زیادہ
جنت کو مدینہ پہ میں قربان کروں گا
گھر ہو گا قریب ان کے مرا اور زیادہ
اللہ سے مانگو گے اگر ان کے وسیلے
وہ اپنی بڑھا دے گا عطا اور زیادہ
ہم جوں جوں خطاؤں پر کریں اور خطائیں
ماریں گے جو درمان کہ جالی کو نہ چومو
آئے گا غلاموں کو مزہ اور زیادہ
دوڑیں گے فرشتے ہمیں دینے کو سزائیں
سینے سے لگا لیں گے پیا اور زیادہ
طیبہ کے یہ کانٹے ہیں تری آنکھ کے قابل
مستانے انہیں تلیوں میں چبھا اور زیادہ
آنسو یہ محبت کے زمین پر نہ گرانا
ہے دل کی غذا دل کو پلا اور زیادہ
سنتے ہیں حقیقت میں وہ پردرد صدائیں
اس در پہ کرو رو رو کے صدا اور زیادہ
ناؔصر کا مدینے میں ہو مدفن مرے مولا
وہاں خلد کی لگتی ہے ہوا اور زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادا والو اداؤں کو ادائیں کون دیتا ہے
کسی دشمن کو جینے کی دعائیں کون دیتا ہے
بجز جان رسالت کے سیہ کاروں کو محشر میں
بھلا فردوس اعلی کی جزائیں کون دیتا ہے
گنہ گارو گناہوں کی گھٹن میں جب نہ چین آئے
بھلا اس وقت رحمت کی ہوائیں کون دیتا ہے
بتا سو رج تو کس کے نور کا مرہون منت ہے
بتا ماه فلک تجھ کو شعائیں کون دیتا ہے
سیہ راتوں میں رنگت گھول کر زلف معنبر کی
فلک کے ان ستاروں کو ضیائیں کون دیتا ہے
جنہیں اپنا زمانے میں کئے کوئی نہ ان کو بھی
ہو تم مرے ہو تم مرے صدائیں کون دیتا ہے
دلوں کی سرز میں جب ہانپنے لگ جائے حد ت سے
چھما چھم جو برستی ہیں گھٹائیں کون دیتا ہے
یہ ہے ان کا کرم ناؔصر وگرنہ اے جہاں والو
عدو کو حوصلے دے کر قبائیں کون دیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی نام نبی لب پر سجا کر چوم لیتا ہوں
کبھی آنکھوں کی چلمن سے لگا کر چوم لیتا ہوں
مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں چشم تصور میں
مدینہ پاک کے ذرے اٹھا کر چوم لیتا ہوں
دیار مصطفی سے رابطہ ہے اس طرح میرا خیالوں میں
دراقدس کو جاکر چوم لیتا ہوں
جو دل چاہے کہ میں عرش بر یں کا دیکھ لوں منظر
تری نعلین کا نقشہ بنا کر چوم لیتا ہوں
سکوں درکار ہو جس دم جو یاد مصطفی آئے
دیئے آنکھوں میں اشکوں کے جلا کر چوم لیتا ہوں
سنا کر اہل محفل کو تیرے انوار کے قصے
ستاروں کو زمیں پر میں بلا کر چوم لیتا ہوں
تری الفت کا آئینہ سجا کر دل کی بستی میں
تری صورت کو سینے میں بساکر چوم لیتا ہوں
کبھی ہونٹوں پر ہوتا ہے سلاموں کا حسین نغمہ
درودوں سے بھی محفل سجا کر چوم لیتا ہوں
پڑے جب واسطہ ناؔصر مجھے مایوس لمحوں سے
تمہارا نام اقدس گنگنا کر چوم لیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں تو جو بھی ملا ہے ملا ہے مدینے سے
وظیفے جاری ہوئے ہیں ترے خزینے سے
نبی کی یاد سے غافل جو ایک پل گزرے
الہی موت بھلی ہے پھر ایسے جینے سے
سراپا نور بنا کے جسے یہاں بھیجا
تمام چمکے نگینے اس نگینے سے
رضا خدا کی لگا لے گی پھر گلے تم کو
لگے رہو گے اگر تم نبی کے سینے سے
زہے نصیب مہینہ کہ جس میں آپ آئے
ہمیں خدا بھی ملا ہے اس مہینے سے
خزاں بھی آئی تو ان پر نکھار آئے گا
جو فیض یاب ہوئے ہیں ترے سینے سے
تمہاری نعت کا صدقہ ہے یا رسول اللہ
کہ لوگ جھک کے ہیں ملتے ترے کمینے سے
اسے بچائے گا طوفاں سے کون پھر ناؔصر
جو دور دور رہا ہے ترے سفینے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے ملک آپ کی گلستان گلستان
آپ کی ہمتیں بیکراں بیکراں
ترے دربار سا پر سکوں نہ ملا
ڈھونڈتے ہم رہے آستاں آستاں
آپ کے ہیں پھر میرے خدا کی قسم
اس زمیں پر تو کیا آسماں آسماں
میں نے دل سے جو پوچھا مقام نبی
اس نے آواز دی ہر مکاں لامکاں
کوچے کوچے میں ترے ہی اذکار ہیں
نور پھیلا ترا کارواں کارواں
اس گھڑی آپ دیں گے سہارا ہمیں
ہوگا ہر لب پر جب الامان الاماں
ان کی ناؔصر نگاہیں کرم ہی کرم
مصطفی خود بڑے مہرباں مہرباں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینہ جس دا وی عشق توں ہے خالی صاحب جنت اوہ مین نئیں ہو سکدا
دیندے جس نوں درد نئیں داد آ کے ہرگز جنٹلمین نئیں ہو سکدا
ہر اک عرض مدینے وچ پہنچ دی اے عرضاں آہوں تے بین نئیں ہو سکدا
ناؔصر دور مدینے توں رہن والا کملی والے وا فین نئیں ہو سکدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا محمد تمہارے کرم سے سب زمانے ہمارے ہوئے ہیں
خود خدا ناز اٹھائے ہمارے جب سے خادم تمہارے ہوئے ہیں
آپ ہی ہیں دعائے خلیلی آپ ہی کے ہیں سارے اجالے
آپ ہی ہیں نوید مسیحا آپ ہی ہیں پیغمبر نرالے
آپ کے نور کی روشنی سے کتنے روشن ستارے ہوئے ہیں
پھر تصور میں آیا مدینہ پھر بہاروں کی محفل جمی ہے
پھر نظر ہے پریشاں پریشاں پھر مدینے کی جانب لگی ہے
کاش پیغام آئے کہ آؤ حاضری کے اشارے ہوئے ہیں
کیا بتاؤں مدینے کی عظمت ہے مدینہ تو آخر مدینہ
وہ مدینہ کہ جس کو بنایا رحمت دوجہاں نے خزینہ
رشک جنت ہے وہ بار ساری جس پہ قرباں نظارے ہوئے ہیں
دشمنی میں جو تھے سب سے بڑھ کر اور پتھر جنہوں نے تھے مارے
پھروہی تیرے قدموں میں دیکھے ڈھونڈتے تھے وہ تیرے سہارے
اور کہتے تھے آقا کرم ہو ہم بھی دردوں کے مارے ہوئے ہیں
آپ ہی ہیں میرے غم کے چارہ میں نے مانگی ہے خیرات آقا
جو لگائے غریبوں کو سینے سے تمہاری فقط ذات آقا
تیرا صدقہ ہی مجھ سے گدا کے دن بھی وارے نیارے ہوئے ہیں
تیرے طیبہ کی مٹی نرالی تیرے طیبہ کی رنگیں فضائیں
جس کی ناؔصر فضا دیکھنے کو عرش اعلی کےباسی بھی آئیں
ایسے لگتا ہے طیبہ کے ذرے آسمان سے اتارے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد ان کی ہمیشہ ہمیشہ منائیں دیتے آئے جو ہم کو دعائیں
جب مصیبت میں ان کو پکارا بڑھ کے رحمت نے لی ہیں بلائیں
ان کے ہوتے ہوئے روز محشر کیسے دیں گے فرشتے سزائیں
اپنا حق ہے سجا لیں دلوں کو ان کی مرضی وہ آئیں نہ آئیں
ایسے محسن اور ایسے نبی کو کس طرح امتی بھول جائیں
مانگ لو مانگنے کی گھڑی ہےخوب رو رو کریں التجائیں
کیسے اپنوں کو چھوڑے گا تنہا جس نے دیں دشمنوں کو قبائیں
کاش لے جائے قسمت مدینے آنکھ سے جالیوں کو لگائیں
ترا ناؔصر ہے جنت مقدر ہو گی رحمت ترے دائیں بائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبیب کبریا آئے نظارے مسکرا اٹھے
سہارا مل گیا ہے بے سہارے مسکرا اٹھے
ہیں آئی وجد میں حو ریں فرشتوں کو سرور آیا
جناب آمنہ کے ماہ پارے مسکرا اٹھے
رخ تابان احمد کی ضیا پاشی کو دیکھو تو
فلک پر ماه و خورشید و ستارے مسکرا اٹھے
رسول پاک کی فرقت میں جو نکلے مرے آنسو
سماں دیکھو کہ پلکوں کے کنارے مسکرا اٹھے
امام اولین آئے شفیع المذنبین آئے
سکون ایسا ملا ہے غم کے مارے مسکرا اٹھے
بنانے آ گیا بگڑی زمانے کی وہ اے ناؔصر
بحمد الله مقدر اب ہمارے مسکرا اٹھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر چرخ رسل نازش حسن کل تو بڑا خوبرو میں تو کچھ بھی نہیں
تو ہے نور ازل شارع بے بدل شان حق ہو بہو میں توکچھ بھی نہیں
فخر کون و مکان عظمت دو جہاں بے اماں کی اماں بے نشاں کے نشاں
موجب کن فکاں دونوں عالم کی جاں روح قرآن تو میں توکچھ بھی نہیں
خاتم الانبیاء رہنما مصطفی پیشوا ناخدا جلوۂ حق نما
نعمت کبریا اے شہ دوسرا تو بڑا نیک خو میں تو کچھ بھی نہیں
رحمت عالمیں شافع مذنبیں راحت العاشقیں اولیں آخریں
تجھ سا کوئی نہیں بالیقیں نازنیں تو مرے روبرو میں تو کچھ بھی نہیں
اے نبی محتشم اے سراپا کرم تاجدار حرم سید کیف و کم
شان تیری رقم کیا کریگا قلم سب کی تو آبرو میں تو کچھ بھی نہیں
تو ہے شمس الضحی تو ہے بدرالد جی تو ہے صدر العلی خوش ادا مہ لقا
خوب انداز ہے یہ بھی اک راز ہے عبدہ عبدہ میں تو کچھ بھی نہیں
تیری گرد سفر مہر و نجم و قمر ہے تو اصل جہاں ہم ہیں جس کاثمر
مسکرانے سے ترے طلوع ہو سحر تو ہی تو چار سو میں تو کچھ بھی نہیں
سب سے اول بھی سب سے آخر بھی تو مرحبا مرحبا اللہ ھو اللہ ہو
میں ہوں ناؔصر حز یں جس کا ناؔصر بھی تو تو میری آرزو میں تو کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئے کرم فرمانے والے سب کی لاج نبھانے والے
جنت تیرا رستہ دیکھے اے میلاد منانے والے
لے جائیں گے بازی سب سے شہر مدینے جانے والے
پڑھتے رہیں گے آپ کی نعتیں آپ کا صدقہ کھانے والے
میرے پاس نہیں گر کچھ بھی ہیں سرکار خزانے والے
چھوڑ آتے ہیں جان مدینے شہر نبی سے آنے والے
رب ھب لی کہتے آئے امت کو بخشانے والے
محفل کا اعلان کرو تم آ جائیں گے آنے والے
ناؔصر کیا کیا لطف اٹھائیں ان کا ذکر سنانے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے صدقے ترے قربان مدینے ترے سینے میں ہیں کتنے خزینے
حرم سے کم نہیں رتبہ تمہارا تجھے مسکن بنایا ہے نبی نے
گیا ترا مکیں تھا لامکان پرجہاں پرہیں نہ دروازے نہ زینے
جو ترے راستے میں پھوٹتے ہیں وہ کستوری سے بڑھ کر ہیں پسینے
بیاں کی ہے ترے کوچوں کی عظمت کلام پاک میں رب جلی نے
طفیل مصطفی دل ہے منور چھوا اس کو نہیں ہے تیرگی نے
فرشتوں نے کہا لہروں سے ٹھہرو چلے ہیں جانب طیبہ سفینے
صہیب و بوذر و سلمان جیسے تری کانوں میں ہیں لاکھوں نگینے
میں نہ گر دیکھتا ان کو لحد میں مجھے تو مار ڈالا زندگی نے
یہ ناؔصر پوچھ تو اہل جنوں سے محبت ہی سکھاتی ہے قرینے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیت آقا کے جو بھی گائیں گے ان شاء اللہ مدیئے جائیں گے
نوری جالی لگا کے سینے سےحال دل آپ کو سنائیں گے
ہم بھی جالی کو چومنے کے لئے پہرے داروں سے مار کھائیں گے
میں تو زندہ ہوں اس سہارے پر میرے آقا مجھے بلائیں گے
ان کی یادوں کی پاس ہے مرہم زخم دل پریہی لگائیں گے
جھوم اٹھے گی رحمت باری جب وہ محشر میں مسکرائیں گے
اب ارادہ ہے گر بلائیں وہ جا کے طیبہ میں پھر نہ آئیں گے
ان کے قدموں کی خاک کا ناؔصر سرمہ آنکھوں میں ہم لگائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ آئے بزم عالم میں شرافت بڑھ گئی
ذلتیں رسوا ہوئی ہیں سب کی عزت بڑھ گئی
پیشتر سرکار کے تھی زندگی بے کیف سی
آپ آئے زندگی کی قدر و قیمت بڑھ گئی
آپ پر قربان کر کے یوں کہا صدیق نے
آپ کے قدموں میں آ کے میری دولت بڑھ گئی
ایک نیکی اور اس پر دس گنا اجر و ثواب
ان کے دم سے کام تھوڑا اور اجرت بڑھ گئی ہے
ہے سناجب سے کہ دیں گے آپ مدحت کا صلہ
نعت گو حضرات کی ہے اور ہمت بڑھ گئی
چوم لی ہے جب سے جنت نے تمہاری خاک پا
جنت الفردوس کی ہے زیب و زینت بڑھ گئی
دیکھ آیا ہے جو ناؔصر کوئے دلبر کی گلی
پھر مدینہ دیکھنے کی اس کی حسرت بڑھ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لب مرے ترا نام آیا سکون جاوداں پایا
بیاض زندگانی کا تمہارا عشق سرمایہ
تمہاری یاد نے آقا گلستان دل کا مہکایا
اداسی کے بیاباں میں تمہی نے دل کو بہلایا
خطاؤں پر مری تو نے چھما چھم نور برسایا
غلامی بخش دی مجھ کوکرم کتنا ہے فرمایا
محمد ماہ کامل ہے کبھی بھی جو نہ گہنایا
بلا لو یا رسول الله بہت یادوں نے تڑپایا
بڑا اعزاز ہے ناؔصر گدائے طیبہ کہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں اپنا وہ کہتے ہیں محبت ہو تو ایسی ہو
ہمیں رکھتے ہیں نظروں میں عنایت ہو تو ایسی ہو
وہ پتھر مارنے والوں کو دیتے ہیں دعا اکثر
کوئی لاؤ مثال ایسی شرافت ہو تو ایسی ہو
اشارہ جب وہ فرمائیں تو پتھر بول اٹھتے ہیں
نبوت ہو تو ایسی ہو رسالت ہو تو ایسی ہو
وہاں مجرم کو ملتی ہیں پناہیں بھی جزائیں بھی
مدینے میں جو لگتی ہے عدالت ہو تو ایسی ہو
بنا دیتے ہیں سائل کو سکندر وہ زمانے کا
کریمی ہو تو ایسی ہو سخاوت ہو تو ایسی ہو
نماز عصر کو قربان کر کے ان کی ہستی پر
علی نے یہ بتایا ہے عبادت ہو تو ایسی ہو
حسین ابن علی نے کربلا میں یہ کیا ثابت
رہے جاری جو نیزے پر تلاوت ہو تو ایسی ہو
محمد کی ولادت پر ہوئے سب کو عطا بیٹے
اسے میلاد کہتے ہیں ولادت ہو تو ایسی ہو
زمین و آسماں والے بھی آتے ہیں غلامانہ
حقیقت ہے میں ناؔصر حکومت ہو تو ایسی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سدا بیٹھے رہیں بستر لگا کر ان کے کوچے میں
نہ سوچیں واپسی کی راہ جا کر ان کے کوچے میں
نہ کوئی آرزو آئے گی لب پر پھر دعا بن کر
ہمیں چھوٹا سا گھر مولا عطا کر ان کے کوچے میں
خدا انوار و رحمت کے خزینے کھول دیتا ہے
خطا کیشوں فقیروں کو بلا کر ان کے کوچے میں
صدا کرنی در محبوب پر اچھی نہیں لگتی
فقط مانگو نظر اپنی جھکا کر ان کے کوچے میں
ہزاروں تاجور لاکھوں سکندر ہم نے دیکھے ہیں
پڑے ہیں دل کے دامن کو بچھا کر ان کے کوچے میں
درمحبوب سے انوار کی خیرات لینے کو
نگاہوں کےچلو کاسے بنا کر ان کے کوچے میں
مری بے تاب حسرت کو قرار آ جائے گا ناؔصر
ہوا لے جائے گر مجھ کو اٹھا کر ان کے کوچےمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر اللہ دے پاک کلام اندر کملی والے دی کملی دی جھم وا اے
رہے شان حضور دی دیکھ کے تے عقل ہوش دناواں دا گم دا اے
زخم جہڑا دی ہو دے اوہ ٹھیک ہندا مٹی جس دم مدینے دی چم دا ے
روز ناؔصر فقیراں دے وچ رل کے جبرائیل مدینے وچ گھم دا اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تری ہیں کس قدر پیاری ادائیں یارسول الله
خدا کرتا ہے خود تیری ثنائیں یا رسول اللہ
بکھیریں آپ جب زلفیں تو یوں معلوم ہوتا ہے
جہاں پر چھا گئیں کالی گھٹائیں یا رسول الله
مرے جیسے ہزاروں دل فگاروں کو قرار آیا
جو آئیں چھو کے روضے کو ہوائیں یا رسول اللہ
یہ جاں زخمی یہ دل زخمی تمہاری یاد میں آقا
انھیں دیدار کا مرہم لگائیں یا رسول اللہ
در اقدس پہ جب آئیں زیارت کا شرف پانے
ہمیں بخشش کی خوش خبری سنائیں یا رسول اللہ
نزع کے وقت لب پر ہوں تری چاہت کے افسانے
مدینہ میرے سینے کو بنائیں یا رسول اللہ
ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے پاس ناؔصر کے
مجھے دامان رحمت میں چھپائیں یا رسول اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلوں میں تیری محبتوں کا فسانہ تحریر ہو رہا ہے
تری ثنا کا ہر اک زباں پر ترانہ تحریر ہو رہا ہے
یہ بزم کون و مکاں تمہاری ہی داستاں کا ہے باب اول
تمہی سے منسوب ہو کے سارا زمانہ تحریر ہو رہا ہے
کبھی غلاموں کو نار دوزخ سے رستگاری کی ہیں نویدیں
کبھی غلاموں کا باغ جنت ٹھکانہ تحریر ہو رہا ہے
کبھی ہے لوح و قلم پہ قبضہ کبھی ہے عرش علی پہ تلوا
تمہاری نظروں کا لمحہ لمحہ نشانہ تحریر ہو رہا ہے
حیا کو دیکھیں ادا کو دیکھیں دعا کو دیکھیں عطا کو دیکھیں
کرم کے قرطاس پر کرم کا خزانہ تحریر ہو رہا ہے
ترے فضائل عجب تر ہیں ترے شمائل حسین تر ہیں
تو ہر محبت کے زاوئیے سے یگانہ تحریر ہو رہا ہے
کبھی وہ ناؔصر سلام پڑھنا کبھی خدا کا کلام پڑھنا
ہماری بخشش کا اس بہانے بہانہ تحریر ہو رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہان رنگ و بو سارا ترا ممنون و شاکر ہے
تمہارا نام یا احمدنبی تسکین خاطر ہے
فقط توحید ہی شرط مسلمانی نہیں والله
رسالت کا جو منکر ہے یقینا وہ بھی کافر ہے
تری چوکھٹ پہ سر رکھ دوں اگر اذن زیارت ہو
کہیں قدسی کوئی بندہ در آقا پہ حاضر ہے
زمین و آسمان کرسی قلم عاجز ہیں مدحت سے
خدا کے بعد جو کوئی بیان کرتا ہے قاصر ہے
ہے اس کی منتظر جنت بلائیں اس کی لے رحمت
تمہاری ذات جس مجہور کی حامی و ناؔصر ہے
سبھی نے آبرو پائی تمہارے آستانے سے
محقق ہو محدث ہو مفکر ہو کہ شاعر ہے
خدا اول و آخر سے منزہ ہے ارے ناؔصر
نبی کی ذات ہی اول نبی کی ذات آخر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا جبینوں نے تمہارا درشن قرار ان کے نصیب میں ہے
چمن مدینے میں جو کھلیں گے بہار ان کے نصیب میں ہے
تمہاری الفت میں مرنے والے سعید بھی ہیں شہید بھی ہیں
ہوئے جو ترے تمہارا واللہ پیار ان کے نصیب میں ہے
تمہاری نعتوں کے پھول لے کر میں اپنی محفل سجا رہا ہوں
چنا ہے مدحت میں جن گلوں کو نکھار ان کے نصیب میں ہے
مدینے والے کے میکدے سے مدینے والے سے پینے والو
جنہوں نے پی لی وہاں سےکیف و شمار ان کے نصیب میں ہے
جنوں نے ساری محبتوں کا تمہی کومحور بنا لیا ہے
ضرور دیکھیں گے جا کے ترا دیار ان کے نصیب میں ہے
کبھی ہیں غاروں میں انکے ساتھی کبھی وہ ہجرت میں سب سے اول
وہی ہیں سوئے وہاں تمہارا مزار ان کے نصیب میں ہے
جنہوں نے نعلین مصطفی سے بڑھالی اپنے سروں کی زینت
وہی زمانے کے تاجور ہیں وقار ان کے نصیب میں ہے
ہزاروں غم بھی اگر ہوں ناؔصر تو فکر مجھ کو نہیں ہے کوئی
تمہارے آنے کی دیر ہے بس فرار ان کے نصیب میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے نبی دے گداؤ چلو مدینے چلو مدینے
مدینے ڈیرے ای لاؤ چلو مدینے چلو مدینے
مدینے جا کے نرالی ایہ بات دیکھو گے
کدی نصیب دے اندر نہ رات دیکھو گے
ہنے نصیب جگاؤ چلو مدینے چلو مدینے
مرے حضور دے جا کے قریب ہو جاؤ
حبیب رب دے تسی وی حبیب ہو جاؤ
کسے وی در تے نہ جاؤ چلو مدینے چلو مدینے
تراوے سوہنیا جنہاں نوں او بیڑے تردے نیں
سدا حضور دے ناں وا جو ورد کردے نیں
انہاں نوں نال ملاؤ چلو مدینے چلو مدینے
جو اوہدے بوہے تے جاندے کمال بن دے نیں
اوناں دے عشق ہی جگ وچ مثال بن دے نیں
نبی دا عشق کماؤ چلو مدینے چلو مدینے
حضور کہن جے دن نوں تے رات ہو جاوے
خداوی خوش اے جے راضی اوہ ذات ہو جاوے
کرو نہ دیر بهراؤ چلو مدینے چلو مدینے
جو خیر منگدے نیں جا کے مدینے والے توں
خزانے ملدے نیں ناؔصر خزینے والے توں
مراداں ساریاں پاؤ چلو مدینے چلو مدینے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرشاں اتے جاون والا آ گیا امت نوں بخشاون والا آ گیا
پتھرجھل کے طائف دے میداناں وچ دیکھو پھل ورتاون والا آ گیا
کہندے پئے نے سارے لوگ مدینے دے انصاری ول جاون والا آ گیا
محلال والے رستے تک دے رہ گئے جھگیاں نوں رنگ لاون والا آ گیا
ساڈی وی اوقات بدل گئی دنیا تے ساڈھے مان ودھاون والا آ گیا
آگیاں کے بہاراں خوشیوواں دیاں ڈالیاں لوڑ سی جس وی اسانوں اون والا آ گیا
آپ دے دست کرم دیاں بر کتاں اج ویکھیاں پندرہ سو نوں پانی دا کم ایک پیالہ آ گیا
من رآنی کمہ کے سوہنے ایہو عقدہ کھولیا آپ دی صورت دے اوہلے حق تعالی آ گیا
ہر دا کاسہ بھر کے ناؔصر بھیجیا سرکار نےبھاویں درتے کوئی گورا بھاویں کالا آ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایں میرے دم دم نال
مینوں کلیاں رہن نہ دیندے تیرے خواب خیال
ہر عاشق وی ایہو کہندا
سوہنیا تینوں جو تک لیندا
اس دے دل وچ فیر نہ آوے دوجا ہور خیال
اپنیاں ہتھاں نال بنا کے
اپنی ذات دے کول بٹھا کے
اپنے نور دے اندر تینوں رب نے دتا ڈھال
عزتاں والے آناں والے
یار نبی دے شاناں والے
تو تے توں اے جگ تے اونا نئیں کوئی ہور بلال
غوث جلی وی تیری
تیرا جانی پیر اجمیری
پیر مجدد داتا بابا اپنی آپ مثال
توں ہوئیوں جے ساڈے ولے
ہو جاوے گی بلے بلے
محشر وچ گنہ گاراں کہنا اوہ آیا لج پال
دائیاں پچھ دیاں کر تعظیماں
کون آیا مهمان حلیماں
جس دن تو اوہ آیا تیری بدل گئی اے چال
ناؔصر حسن حسین سخی توں
صدقے تیرے ویر علی توں
سوہنیا تیری آل دے ورگی نہیں کوئی جگ تے آل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدوں بوہے اتے سوہنے نے بلالیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
اساں سینے نوں مدینہ ایں بنالیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
اکھ سوہنے دی غلاماں نوں سیان دی
لوڑ سانوں کیہٹری ہن بوہے بوہے جان دی
سانوں بو ہے بو ہے جان توں بچا لیا اسمیں سارے مدینے جاواں گے
آقا دے مدینے چوں پیام جدوں آن گے
رل کے غلام سارے گیت ایہو گان گے
ساڈی عرضی نوں سوہنے نئیں ٹالیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
جھلی اک پل دی دی ہن دوری جاندی نئیں
دن دا آرام گیا راتیں نیند آندی نئیں
سینہ فکراں نے درداں نے کھالیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
سوہنے فرمایا جہڑا روضے اُتے آوے گا
نال میرے باغ فردوس وچ جاوے گا
جہڑا اوہنے فرمایا اوہ پکا لیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
جا کے اسیں سوہنے دیاں گلیاں چ گھماں گے
رج رج روضے دیاں جالیاں نوں چماں گے
ہاڑے سن لے توں سب توں نرالیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
ناؔصر اوہدے بوہے اتے گل بن جاندی اے
گل اوہدی مرضاں دا حل بن جاندی اے
سکھاں ساریاں دا راز ہن پالیا اسیں سارے مدینے جاواں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے مکی مدنی ڈھول جے توں سامنے ہوویں
پھر میں نہیں سکدا ڈول جے توں سامنے ہوویں
مینوں بھلی پا نہیں سکدا
میری کنڈ کوئی لا نہیں سکدا
مینوں کوئی نہیں سکدا رول جے توں سامنے ہووہیں
دو جگ اتے شاہی تیری
دین درخت گواہی تیری
نالے پتھر پیندے بول جے توں سامنے ہوویں
سونیا یاد تری جد آوے
مینوں ہور نہ کوئی بھاوے
اودوں رب وی دسدا کول جے توں سامنے ہوویں
نظر کرم جے تیری ہووے
جنی رات ہنیری ہووے
ہیں رستہ لینا ٹول جے توں سامنے ہوویں
صدقے تیریاں قدماں اتوں
جی کردا اے زخماں اتوں
دیاں ساریاں پٹیاں کھول جے توں سامنے ہوویں
ناؔصر گاوے نغمے تیرے
لکھ لکھ واری صدقے تیرے
میں جندڑی دیواں گھول جے توں سامنے ہودیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج اس محفل چوں اللہ دے دلدار دی خوشبو اوندی اے
سرکار نے اونا اس تائیوں سرکار دی خوشبو اوندی اے
رحمت نے ماریاں چھلاں نے سوبنے دیاں سوہنیاں گلاں نیں
جتھے ذکر حضور دا چھڑ جاوے اوتھوں پیاردی خوشبو اوندی اے
اوندی سی قرن چوں وا جس دم خوش ہو کے آقا کہندے سن
مینوں ایس ہوا چوں ایک اپنے بیمار دی خوشبو اوندی اے
کربل دی خاک نوں ایویں تے ہر کوئی جا کےچم وا نئیں
اس پاک زمین چون سید دی للکار دی خوشبو اوندی اے
بھاویں خواجہ بھاویں بابا دا بھادی روضہ ہودے داتادا
سانوں ہر دربار چون آقا دے دربار دی خوشبو اوندی اے
قرآن شریف نوں تائیوں تے اسیں پڑھنے آں اسیں چم نے آں
قرآن چوں کملی والے دے کردار دی خوشبو اوندی اے
سرکار دے ذکر دی محفل وچ کدی بہہ کے دیکھ تے سی جھلیا
ایتھے نفرت ونڈی جاندی نہیں ایتھوں پیار دی خوشبو اوندی اے
تاہیوں تے شہر مدینے نوں ہر کوئی دیکھن جاندا اے
اس شہرچوں کملی والے دے گھر بار دی خوشبو اوندی اے
اس دل دی عظمت وکھری اے اوہ دل وی عرش معلی اے
او تھے غم نہیں رہندے جس دل چوں غم خوار دی خوشبو اوندی اے
جہڑا سید ہووے اے ناؔصر اوہدے قدمیں لگ کے رویا کر
ہر سید کولوں آقا دے دیدار دی خوشبو اوندی اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توں خیر الوری ایں توں خیر الوری ایں
توں آقا توں مولا تو سب توں جدا ایں
میں ادنی سوالی توں سلطان میرا
توں مشکل کشا توں نگہبان میرا
توں ای کشتی میری توں ای ناخدا ایں
تیرے ورگا سوہنا نہ تکیا نہ سنیاں
خدا نے رسولاں چوں تینوں ایں چنیاں
توں رب دی پسند ایں توں ای مصطفی ایں
تری گھر خدا دا وی تعظیم کردا
توں دھپاں دے وچ چھاواں تقسیم کر دا
توں رحمت ای رحمت عطا ای عطا ایں
خدا نے بنایا جو آدم خلیفہ
تیرا نام نامی سی اس دا وظیفہ
خلیل و ذبیح دی توں آقا دعا ایں
توں موسی دی حسرت توں نوح دا وسیلہ
تیرا ساری دنیا چوں وکھرا قبیلہ
توں زہرا دا والد علی دا بھرا ایں
کسے پھیر پچھنا نہیں مینوں دوبارا
توں کیہ دیویں سوہنا حشر وچ خدارا
کہ ناؔصر نہ گھبرا توں میرا گدا ایں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہندا وچ خیال مدینہ ویکھاں میں ہر سال مدینہ
ان شاء الله جنت وچ وی جانا سوہنے نال مدینہ
جیویں دل سینے وچ دھڑ کے ہے بس ایہو مثال مدینہ
نبی لج پال دا صدقہ بن گیا اے لج پال مدینہ
جہڑے جان نبی دے در تے کردا استقبال مدینہ
دل تے جنے ہوں پرانے لا چھڈ دا زنگال مدینہ
محشر تیکر دیکھ نہیں سکدا کوئی وی دجال مدینہ
ناؔصر ہر دم جپدا رہندا میرا ہر ہر وال مدینہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرا صدقہ ای بخشش تے عطاواں دی گھڑی آئی
ہنیرے چیر دی ہوئی زمیں تے روشنی آئی
مدینے جان لئی مجبوریاں راہ وچ جدوں آئیاں
تیری رحمت کئی واری تسلی دین لئی آئی
فقر تیرا بنایا اے جدوں توں میں امام اپنا
کسے وی موڑ تے مینوں نہ کوئی گھاٹا کمی آئی
ترے توں پیشتر ایہہ موت دی کتنی ڈراؤٹی سی
ترے دربار چوں ایہہ موت وی بن زندگی آئی
سکندر پھیر دے دیکھے تیرے دربار تے جھاڑو
ترے دربار دا پانی بھرن لئی خسروی آئی
جدوں قرآن نوں پڑھیا بنا کے عشق نوں رہبر
اودوں میری سمجھ دے وچ حقیقت نعت دی آئی
جہدے دیدار لئی ناؔصر خدا جبریل نوں بھیجے
اہدی رحمت میرے جیہاں دے بوہے خود چلی آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڈے نال آپ کتنا پیار کر دے ایس گل دا سانوں احساس کوئی نہیں
عیب والے منہ کالیاں چہریاں لئی رحم ورگا ہور لباس کوئی نہیں
جہنوں چاہندے حضور نواز دے نے اوس بوہے تے عام تے خاص کوئی نہیں
جناں مٹھا اے سوہنے دا نام ناؔصر مصری اندر وی اینی مٹھاس کوئی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانوں دسدا اے نور خزینہ مدینہ مدینے والے دا
جہدے نال وا شہر کوئی نہ مدینہ مدینے والے دا
اوہدے در تے نت پے جاندے نصیباں والے ہزاراں
اوتھے آن کے دین سلامی فرشتے بنھ کے قطاراں
ہے عرش فرش دا سینہ مدینہ مدینے والے دا
سانوں دسدے چار چوفیرے نور اجالے نبی دے
جند جان حوالے کیتی کرماں والے نبی دے
اوہ دسدا پیا سفینہ مدینہ مدینے والے دا
میرے پاک نبی دا ڈیرا عرش توں ارفع تے اعلی
انج دھرتی اتے سجدا اے روضہ سب توں نرالا
جیویں مندری دے وچ نگینہ مدینہ مدینے والے دا
سرکار دی سوہنی نگری دے کنڈے وانگ نے کلیاں
جہڑا اک واری جا ویکھے میرے لج پال دیاں گلیاں
اوہنوں بھلے فیر کدی نہ مدینہ مدینے والے دا
ہتھیں کاسہ ہووے میرے تے بن کے منگتا میں جاواں
کدی جیندیاں جیندیاں ناؔصر ویکھاں جا کے اوہ تھاواں
رہا ویکھ کے مرے کمینہ مدینہ مدینے والے دا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذب نہ جاوے کتے ساہواں دا سفینہ آقا
ہن بلا لے رہوی آباد مدینہ آقا
پھل گلاباں دے گھڑے ایویں نہیں گلشن اندر
ونڈیا ہووے گا تساں اپنا پسینہ آقا
موت میری وی پئی میتھوں لکاوے چہرہ
عشق تیرے نے سکھا چھڈیا اے جینا آقا
ہر گھڑی آ کے نوازیں ایسہ کریمی ہے تیری
نہیں تے منگن دا کدوں مینوں ایں قرینہ آقا
ساری دنیا اس تیرے بو ہے توں کھاندی پئی اے
ودھدا جاندا اے عطاواں دا خزینہ آقا
لے گئے میرے مقدر جے کدی روضے تے
میں جدا ہوواں گا قدماں توں کدی نہ آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے در دیاں سوہنیاں فضاواں سوہنیا
اللہ کرے میں وی اوتھے ٹر جاواں سوہنیا
چم رخسار تیرے دیندی اوہ تعظیماں سی
واری واری جاندی تے ایہہ آکھدی حلیماں سی
تیرے چہرے اتوں اکھاں نہ ہٹاواں سوہنیا
ہویا سی نصیب ساتھ صاحب لولاک دا
کہندا سی صدیق چہرہ ویکھ نبی پاک دا
دل کرد اے تنہوں دیکھی جاواں سوہنیا
دھرتی سینے وچ نور وا خزینہ ایں
ساریاں توں سوہنا تیرا سوہنیا مدینہ ایں
میں وی سگ تیرے شہر دا سداواں سوہنیا
نبی جیویں اک وی نہیں کوئی تیرے نال دا
کوئی وی گھرانہ نہیں ثانی تیری آل دا
گیت تیرے اس گھرانے دے میں گاواں سوہنیا
ناؔصر اے فقیر تیرے پاک آستانے دا
تیرے باہجھوں آسرا نہیں کوئی وی دیوانے دا
تیرے باہجھوں کنوں دکھڑے سناواں سوہنیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولا سوہنے نال اکھیاں توں لا لے تے پندھ سارے مک جان گے
کعبہ یار دے دوارے نوں بنا لے تے پندھ سارے مک جان گے
عشق وی راه را بن جا راہی
لوں لوں بولے ماہی ماہی
ایہو اکو ای توں سبق پکا لے تے پندھ سارے مک جان گے
در در دے کیوں تھیڈے کھانائیں
کیوں توں غیر دے بوہے جانائیں
ایسے بوہے اتے جھگی اک پالے تے پندھ سارے مک جان گے
گل مالا پا یار دے ناں دی
پڑھ تسبیح دلدار دے نال دی
ویوا دل دے مکان را جلا لے تے پندھ سارے مک جان گے
ایه در دسدا عرش معلی
یار دی اکھ وچ وسدائے اللہ
ایہدے جوڑیاں نوں تاج توں بنا لے تے پندھ سارے مک جان گے
ناؔصر کرے رو رو عرضاں
چھڈ جاسن سب تینوں مرضاں
چونڈھی اکو اس خاک دی توں کھالے تے پندھ سارے مک جان گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب توں ارفع سب توں اعلی سب تو بالا آ گیا
عاشقو خوشیاں مناؤ کملی والا آ گیا
ہن حلیمہ تینوں دیوا بالنے دی لوڑ نہیں
تری کلی وچ دو عالم دا اجالا آ گیا
جھک گئے دیوانیاں دے سر عقید ت نال اودوں
جس گھڑی سرکار دے ناں دا حوالہ گیا
پیش کیتے نیں کسے نے آپ نوں پڑھ کے درود
کوئی ہنجواں دی پروکے در تے مالا آ گیا
ان شاء اللہ جان گے ہن سد ھے جنت وچ غلام
لا کے سوہنا دوزخاں نوں ہتھیں تالا آ گیا
سورج نوں وی پیچھے ہٹنا پے گیا
چن نوں کول بلاون والا آ گیا
اوگنہارو رب دا شکر بجاندے رہو
جنت وچ لے جاون والا آ گیا
اجڑی کلی اج دائی وی وس پی اے
اجڑے نگر وساون والا آ گیا
ناؔصر ختم اڈیکاں سبھے ہوئیاں نے
محفل دے وچ آون والا آ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ دے گھر آون والا سب توں سوہنا ایں
بھاگ فرش نوں لاون والا سب توں سوہنا ایں
منزل آتے بڈھڑی مائی پہنچ کے بولی سی
میرا بھار اٹھاون والا سب توں سوہنا ایں
ذکر حضور دا رل مل کرنا عین عبادت جے
گمیت حضور دے گاون والا سب توں سوہنا ایں
مولی علی نے پھردا سورج دیکھ کے فرمایا
سورج موڑ لیاوان والا سب توں سوہنا ایں
پاک نبی دے نام دے اتوں وچ مدینے دے
سارا مال لٹاون والا سب توں سوہنا ایں
ست کھجوراں دسترخوان تے رکھ کے رب دی سونہہ
ساری فوج رجاون والا سب توں سوہنا ایں
چنگیاں نوں تے ہر کوئی اپنا بیلی کہندا اے
مندیاں نوں گل لاون والا سب توں سوہنا ایں
کیر کے اتھروں غاراں اندر دوزخ نوں
چھٹے مار بجھاون والا سب توں سوہنا ایں
انج تے لکھاں سوہنے نے پرناؔصر دنیا تے
رحمت بن کے آون والا سب توں سوہنا ایں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرم دی اک نظر ہووے مدینے والیا شاہا
جے آویں تے سحر ہووے مدینے والیا شاہا
میں سوں جاواں تے کھولاں جس گھڑی اکھیاں
تیرا موجود در ہووے مدینے والیا شاہا
تیرے دربار چوں منگنا تیرے حسنین دا صدقہ
میری ہاہ وچ اثر ہووے مدینے والیا شاہا
مدینے وچ تیری چوکھٹ تیرے دربار تے جا کے
عمر ساری بسر ہووے مدینے والیا شاہا
میں تیرے حجر دے اندر سدا رونواں تے کرلانواں
نہ جی ہووے نہ مر ہووے مدینے والیا شاہا
غلامی دی سند سانوں وی مل جاوے مدینے چوں
نہ پھیر دوزخ دا ڈر ہووے مدینے والیا شاہا
کدی تشریف لے آویں جے محشر وچ مزا آوے
جدوں پل توں گزر ہووے مدینے والیا شاہا
ایہو ناؔصر سوالی دی گزارش ہے میرے آقا
حشر وچ ناں نشر ہووے مدینے والیا شاہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہڑا سوہنیا کریما تیرے در جاوے گا
بھانویں ہویا منتارا اوه وی تر جاوے گا
جنہیں اکھاں نال نور دا خزینه ویکھیا
جنہیں جامی وانگوں سوہنے دا مدینہ ویکھیا
جدوں وچھڑے کا روضے کولوں مر جاوے گا
ہوئی رب نال جتھے تیری بات سوہنیا
جنہاں گھاٹیاں چوں لنگھی تیری ذات سوہنیا
جبریل تے اوہ سوچے وی تے ڈر جاوے گا
بازی پیار وی توں سوچ لئیں لان لگیاں
سوہنے نال توں محبتاں جتان لگیاں
پہلے دل جاوے گا مڑ سر جاوے گا
اوتھے اللہ دی سوہنہ بڑا ای سرور آونا
جدوں قبر اچ چل کے حضور آونا
جدوں ویکھاں گے تے سینہ اوتھے ٹھر جاوے گا
جتنی دیر تک آ کے نہ قرار دین گے
جتنی دیر تک آپ نہ دیدار دین گے
حوض اکھیاں دا ہنجواں تھیں بھر جاوے گا
توں وی ناؔصر حضور کولوں نور منگ لے
میں نے کہواں گا حضور توں حضور منگ لے
چنگا ویلا تیرا جگ تے گزر جاوے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکار دے بوہے تے سرکار دی گل چھیڑو
اوہدی زلف دی بات کرو رخسار دی گل چھیڑو
تک لینا کیویں رحمت پھر جوش اچ اوندی اے
غم خوار دی محفل وچ گنہ گار دی گل چھیڑو
محبوب دے مہمانو محبوب دے روضے تے
جیڑا دور تڑپ وا اے بیمار دی گل چھیڑو
قربان کیویں ہویا مظلوم مدینے دا
عثمان غنی ورگے سردار وی گل چھیڑو
سرکار نوںمنگتے تے آ جاندا اے رحم اکثر
اے اکھیو رو رو کے دیدار دی گل چھیڑو
جتھے کملی والے تے سی پہلی وحی اتری
ایمان کرو تازه اس غار دی گل چھیڑو
سرکار دے قدماں تے ہر چیز فدا کیتی
صدیق پیارے دے ایثار دی گل چھیڑو
اسلام دے منکر نوں لگ جاوے پتہ ناؔصر
اوہدے سامنے آقا دے کردار دی گل چھیڑو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آساں اکھیاں نوں درشن دیاں رہندیاں میرے لب تے ، عاداں مدینے دیاں
دل مدینہ مدینہ پکارے مرا ویکھاں جا کے فضاواں مدینے دیاں
جی کسے وہی نظارے نے بھردا نئیں ویلہ جس ویلے کلیاں گذردا نئیں
کھٹا کر کے نبی دے غلاماں نوں میں گلاں رو رو سناواں مدینے دیاں
وسدی سوچاں دے وچ نوری جالی رہوے جھیل اکھ دی نہ ہنجواں توں خالی رہوے
ہووے بھلن دی شے تے بھلا دیواں میں کیویں گلیاں بھلاواں مدینے دیاں
تینوں قرآن جہان دا سبب آکھدا سوہنیاں تینوں محبوب رب آکهدا
تینوں اپنا بنا کے بھلا جانیاں کیویں قسماں نہ کھااوں مدینے دیاں
یا نبی ہے مرے نے عطا عشق دی ابتدا ہے کہ یا انتہاء عشق دی
دل دے ورقے تے تصویراں دن رات میں خبرے کنیاں بناواں مدینے دیاں
میرے لئی سارے سنگی کرو چا دعا جاواں ہر سال طیبہ چ بن کے گدا
تہاڈے لئی دوستو سال دے سال میں پھر کھجوراں لیاواں مدینے دیاں
ودھ گئیاں دل دیاں ہن تے بے تابیاں زندگی موت دا بن گیا اے سماں
تیرے سوہنے مدینے توں قربان جاں ہن تے گھل دے ہواواں مدینے دیاں
میرا مہمان سوہنے دا غم ہو گیا کنال ناؔصر نبی دا کرم ہو گیا
اپنے شعراں دے وچ ساری محفل نوں میں جھلکیاں نت وکھاواں مدینے دیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فرش تے اس عرش تے اوہدے نال دا کوئی ہور نئیں
ہے خلیل دی ہے کلیم وی پر مصطفی کوئی ہور نئیں
میری بات نہیں میری ذات نہیں میری کوئی وی اوقات نئیں
اوہدی ذات بن اوہدی بات بن مرا آسرا کوئی ہور نئیں
تیرا راستہ یا مصطفی بخدا خدا دا ہے راستہ
تیرے باہجھ جس تے خدا ملے اوہ رستہ کوئی ہور نئیں
رب آپ اوہنوں آکھدا جنہوں چاہنا ایں اوہنوں کر عطا
تیری ہر عطا ہے میری عطا تیتھوں وکھ عطا کوئی ہور نئیں
تیرا واسطہ میرا واسطہ میرا واسطہ تیرا واسطہ
تیرا فیصلہ میرا فیصلہ میرا فیصلہ کوئی ہور نئیں
توں ایں ابتدا توں اخیر وی توں سراج وی توں منیروی
ترے باہجھ میرے دلربا میرا دلربا کوئی ہور نئیں
اوه حسین وی او جمیل وی اوہ وکیل وی اوه اپیل وی
اوہدے باہجھ ناؔصر شاہ جہے گنہ گار دا کوئی ہور نئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنگا اوہو رہ جاوے گا جہڑا قدمیں ڈھیہ جاوے گا
قبراچ آپ دے ہر دشمن نوں نواں سیاپا پے جاوے گا
رب دے ڈر توں حشر دے اندر ہر پھنے خان چھیہ جاوے گا
یک دم سوہنا آ جاوے گا جھگڑے کروا طے جاوے گا
پچھے لا کے ساری امت سوہنا جنت لے جاوے گا
نال منکر نوں دیویں یاریں گھر تائیں کردا قے جاوے گا
ناں منکر نوں نہ چاہڑیں بیڑے نئیں تے بیڑا بہہ جاوے گا
دیکھ کے رب دی کاوڑ ولے ہر کوئی یار تریہہ جاوے گا
سوہنے ول مڑ دیکھ کے ناؔصر رب سائیں دی ٹھر جاوے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہنے دی ادا ورگی نہیں ویکھی ادا کوئی
اوہدے باہجھ نہیں ہو سکدا محبوب خدا کوئی
نہیں سوہنے جہیا ہونا کوئی ہور زمانے تے
سونے جہیا اک سوہنا نہیں سکدا وکھا کوئی
محبوب دی چوکھٹ تے سر رکھ کے تے مرجاواں
اللہ واسطے دکھئے لئی کر چھوڑے دعا کوئی
جیویں نبیاں وچ کوئی محبوب دے ورگا نہیں
سوہنے دے گدا ورگا نہیں ہور گدا کوئی
ترے ہجرچ بلدا اے جہا سینه محبوبا
دیدار سوا اسدی نہیں ہور دوا کوئی
میرے دل دی تختی تے ناں لکھیا اے ماہی دا
مرا دعوی اے ہن اسنوں نہیں سگدا مٹا کوئی
جے محشر وچ آقا توں نال رہویں میرے
دے سکدا نہیں اوتھے پھر مینوں سزا کوئی
وحشی جئے قاتل نیں تسلیم ایہہ کیتا سی
اوہدے باہجھ انج دشمن تے نہیں کر دا بھلا کوئی
غم خوار دی نگری توں جند وار دیاں اپنی
جہدی خاک شفا ورگی نہیں خاک شفا کوئی
نا صراد ہدی رحمت نے کج لینی اے سونہہ رب دی
مرے دفتر چوں نکلی بھاویں جیڈی خطا کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہناں دے حمایتی جناب بن جاندے نے
اوہناں دے تے کنڈے وی گلاب بن جاندے نے
جاندے نے مدینے جدوں ردے ہوئے جہان دے
الله دی سونہہ عزت ماب بن جاندے نے
وگدے ای رہندے نیں ہمیشہ تیری یاد وچ
کدی کدی اتھرو سیلاب بن جاندے نے
دنے جہڑے اوندے نے خیال تیرے سوہنیا
راتیں جدوں سواں تے اوہ خواب بن جاندے نے
جہناں نوں توں ردیں ابوجہل کہلاوندے
جہاں نوں توں چاہویں اصحاب بن جاندے نے
رویا کر سوہنے دی تو یاد وچ بیلیا
برے اعمال وی ثواب بن جاندے نے
جہناں ولے ہوندیاں نے سوہنے دیاں نظراں
اوہناں دے وسیلے بے حساب بن جاندے نے
ناؔصر اوہنا کولوں آ کے شہنشاہ وی منگدے
منگتے حضور دے نواب بن جاندے نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل چھڑی جس وقت تیری شان دی
ہو گئی تازه کلی ایمان وی
کافران نوں متلکم اس آکھیا
آیت پڑھ کے دیکھ لوؤ قرآن دی
ایکم مثلی غلاماں واسطے
دل دی آکھ اس راز نوں پہچان دی
واسطے پا کے نبی دے نام دے
خیر منگیا کر توں پاکستان دی
آؤ رل کے نعت پڑھئے آپدی
ہے ایہہ سنت حضرت حسان دی
آپ نوں نہ سمجھیا بو جہل نے
بولی اوہنے رٹ لئی شیطان دی
جھک گئے صدیق عثمان تے علی
دیکھ صورت یار چوں رحمن دی
مری گشتی دا اے منہ طیبہ دے ول
کیہ مجال اے ہن بھلا طوفان دی
وار دے ناؔصر نبی توں وار دے
خیر چاہتا ایس جے اپنی جان دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب توں مٹھا ناں سوہنے دا رب نے رکھیا ناں سوہنے دا
چن تارے وی سکدے رہ گئے ایسا چمکیا ناں سوہنے دا
اوہدے ہونٹ فرشتے چم دے جہڑا چمدا ناں سوہنے دا
وج اذان دے جدوی آوے کنان سجدا ناں سوہنے دا
حضرت نوح نے بیڑے اتے خود ہی لکھا ناں سوہنے دا
رب نے حضرت آدم تائیں آپ سکھایا ناں سوہنے دا
جبرائیل نوں عرش تے لکھیا نظری آیا ناں سوہنے دا
لکھیا ہویا وچ مسیتاں کنان سجدا ناں سوہنے دا
جناں سوہنا آپ اوہ ناؔصر اناں سوہنا ناں سوہنے دا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسے شہر مدینے والا ساری امت دا رکھوالا
اوہ تے جھولے نور دا جھولا
اوہ تے عرش فرش دا دولہا
صدیق اوہدا سربالا ساری امت دا رکھوالا
اس پایا کرم دا پھیرا
گیا کردا کوچ ہنیرا
آیا ونڈدا نور اجالا ساری امت کا رکھوالا
رب اوہنوں خود وڈیاوے
سونہہ اوہدے شہر دی کھاوے
ہے وچ قرآن حواالہ ساری امت کا رکھوالا
نعتاں دے لعل جڑان گا
میں رج کے سلام پڑھاں گا
جے آ گیا کملی والا ساری امت کا رکھوالا
اوہدے، آئیاں دفتر دھل گئے
جنت دے بوہے کھل گئے
دوزخ نوں وج گیا تالا ساری امت دا رکھوالا
اس ہر دا عیب لکویا
اوہدے آئیاں پیدا ہویا
حیدر جہیا شیر جیالا ساری امت دا رکھوالا
جدوں ناؔصر قبر اچ جاواں
میں جس ویلے گھبراواں
آ جاوے ماہی شالا ساری امت دا رکھوالا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہنے رب نے نصیب جگائے مدینے دیاں گلیاں دے
سارے جگ نالوں رتبے ودھائے مدینے دیاں گلیاں دے
سرور دا خزینہ مدینہ ایں مدینہ
وسدا اے نور جتھے رہندے نے حضور
جھنڈے ہر پاسے یارو لہرائے مدینے دیاں گلیاں دے
کرم دیاں چھلاں مدینے دیاں گلاں
اٹھے دل چوں آواز چھیٹرے عشقے دا ساز
گیت رل کے دیوانیاں نے گائے مدینے دیاں گلیاں دے
نہ رہن کدی خالی مدینے دے سوالی
سدا و سن اوہ تھاواں ایہو کرئیے دعاواں
اللہ کرے رہن سراں اتے سائے مدینے دیاں گلیاں وے
مدینے دیاں راتاں نے جیویں شبراتاں
کدی سجناں توں ویکھ تیرے جاگ پین لیکھ
تینوں رب کدی جلوے وکھائے مدینے دیاں گلیاں دے
جے چبھے اوتھے کنڈا کلیجہ ہووے ٹھنڈا
کوئی لبھدی نہیں حد یا رو ہیریاں توں ودھ
سانوں پتھر وی نظری آئے مدینے دیاں گلیاں دے
ہے مصری توں مٹھی مدینے والی مٹی
رکھیں ناؔصر توں یاد اودوں ہویں گا توں شاد
جدوں دل اتے نقشے بنائے مدینے دیاں گلیاں دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توں میں ولی گناہ گاراں دا مدیے دیا چن سوہنیا
دے صدقہ توں یاران دا مدینے دیا چن سوہنیا
تری جلوہ گری ہوئی ساری کھیتی ہری ہوئی
رخ پھیریا بہاراں دا مدینے دیا چن سوہنیا
تشریف توں لے آویں اک جھلک دکھا جاویں
کم بن جائے بیماراں دا مدینے دیا چن سوہنیا
رحمت دا زینہ ایں ہکو ٹیک مدینہ ایں
مرے ورگے بے کاراں دا مدینے دیا چن سوہنیا
جدوں رب دا حبیب اٹھیا پھر جاگ نصیب اٹھیا
سارے عرب دے غاراں دا مدینے دیا چن سوہنیا
لواں ناں تے دل ٹھردا نالے ذکر خدا کردا
خود میرے سرکاراں دا مدینے دیا چن سوہنیا
تیرا نام صھیفہ اے ناؔصر ایہہ وظیفہ اے
مرے دل دیاں تاراں دا مدینے دیا چن سوہنیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق مہکدا سدا حضور دا اے رہندا سینے وچ بن کے سن وی اے
پیار نبی کریم دا سونہہ رب دی باطل واسطے ٹینک تے گن وی اے
کملی والے دے قدماں وچ رہ کے ہر اک کم ہندا اے ون وی اے
ناؔصر نعت دیاں برکتاں نے ساڈی جنت وچ رہائش ڈن وی اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہا کر منظور دعاواں آوے موت مدینے
میں ہر دم ایہو چاہواں آوے موت مدینے
ہووے نظر کرم ہے تیری
بن جائے موت مثالی میری
میں ہس ہس جھولی پاواں آوے موت مدینے
سونیا جلد بلا لے مینوں
جالی کول بٹھا لے مینوں
کتے سکدا نہ مر جاواں آوے موت مدینے
سوہنے دے دربار تے جا کے
دل دیاں ساریاں سکاں لاہ کے
پھر کر دا پھراں صداواں آوے موت مدینے
دو گز کفن خریداں اوتھے
فیر مناواں عیداں اوتھے
اوتھے اپنی قبر سجاواں آوے موت مدینے
جیکر عین یقین ہو جاوے
جینا ہور حسین ہو جاوے
میں رج کے جشن مناواں آوے موت مدینے
بن جانی ایں بگڑی میری
مل کے بہہ جاتی چوکھٹ تیری
اوتھوں واپس فیرنہ آواں آوے موت مدینے
جس دم موت مدینے آوے
سوہنا مینوں خود دفناوے
میں ناؔصر بخشیا جاواں آوے موت مدینے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری عمری تیرے کوچے تیری چوکھٹ نال پیار
کائنات اچ ہے ایہو ای کامیابی دا مدار
لب تے آہواں سینے یاداں تے تڑپدا دل رہوے
دید دے مشتاق رہندے نے ہمیشہ بے قرار
آنا جانا شہر طیبہ وچ رہوے تا زندگی
جاواں آواں آواں جاواں میں مدینے بار بار
زندگی نوں موت توں قربان ہونا پئے گیا
آ گئے مہکان اوہ خود جد غلاماں دے مزار
وچ تصور گنبد خضری نوں میں چمدا رہواں
چل ریا اے زندگی دا اس بہانے کاروبار
سینے لا کے راں کھڑا بس میں سنہری جالیاں
آب کوثر دی میں ویکھاں وچ مدینے آبشار
اک نظر دے نال بھریاں جان خالی جھولیاں
لب تے عرضاں تھوڑیاں نے تے عطاواں بے شمار
اوس اکھ دا موت دی نئیں نورکھوہ سکدی کدی
جہڑی اکھ نوں رہندا ناؔصر مصطفی دا انتظار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڑے لیکھاں نوں سنوار دے مدینے والیا
بیڑی ڈبدی توں تار دے مدینے والیا
یاداں جس ویلے آئیاں اساں دتیاں دوہائیاں
کدی پھیرا اک پا جا گنہ گاراں دیا سائیاں
ساڈے باغاں نوں بہار دے مدینے والیا
یاد آیا اے مدینہ کرے عرضاں کمینہ
گلی لکڑی دے وانگوں مرا دھخدا اے سینہ
مینوں چین دے قرار دے مدینے والیا
توں ایں عرشاں دا راہی توں ایں رب دا وی ماہی
توں نے ساری کائنات اتے کرناں ایں شاہی
سن ہاڑے گناہگار دے مدینے والیا
کدوں آس ہونی پوری کدوں مکے گی ایہہ دوری
تیرے در اتے ہو گئی ہن حاضری ضروری
کول سد کے دیدار دے مدینے والیا
توں ایں بڑا لج پال رکھیں سب دا خیال
لگے ناؔصر ہن جینا دور تیرے توں محال
ہاڑے سن لے بیمار دے مدینے والیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چس آ جائے جینے دی
حاضری ہو جاوے ہن شہر مدینے دی
اگ نور خزانہ ایں
تکنا ایں روضے نوں حج دا تے بہانہ ایں
اوه ویلہ سچ دا سی
سوہنے دے اشارے تک کے چن فلک دا نچ دا سی
قوسین دا واسطه ای
ہن نے بلا مینوں حسنین دا واسطہ ای
تیری شان بیان کرے
آقا تیرے خلق دیاں گلاں خود قرآن کرے
نئیں پل وی جدا کردا
سوہنا کدوں بولدا اے گلاں آپ خدا کروا
سورج وی کھلو جاندا
آقا میرا جو کہندا اوسے ویلے ہو جاندا
اید حدیث اچ آیا اے
سوہنے توں پچھ پچھ کے خالق نے بنایا ہے
ویکھن نوں جھکدا اے
خورشید حکم اوہدا کدی ٹال نہ سکدا اے
تیری نعت جو لکھدا اے
جو کچھ ہے ناؔصر تیرے کرم وا صدقہ اے