حقیقت نور محمدی ﷺ

Óعَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ رَجُلَیْنِ، خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی لَیْلَۃٍ مُظْلِمَۃٍ وَإِذَا نُورٌ بَیْنَ أَیْدِیہِمَا، حَتَّی تَفَرَّقَا، فَتَفَرَّقَ النُّورُ مَعَہُمَا وَقَالَ مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، إِنَّ أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ، وَرَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ، وَقَالَ حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، کَانَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم

َ(الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وسننہ وأیامہ کِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ مَنْقَبَۃِ أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ، وَعَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا)

 حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی ایک تاریک رات میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے تو ان دونوں کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا حتیٰ کہ جب وہ دونوں جدا ہوئے تو وہ نور بھی ان کے ساتھ الگ الگ ہو گیا معمر نے بواسطہ ثابت اور انس کہا ہے کہ یہ دونوں اسید بن حضیر اور ایک دوسرے انصاری تھے اور حماد نے بواسطہ ثابت و انس بیان کیا کہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تھے اور یہ ان دونوں ہی کا واقعہ ہے۔

                حضرت اسید بن حضیراور عباد بن بشررضی اﷲ تعالیٰ عنھما ایک انتہائی اندھیری رات میں جب کہ چاندنی کاکو ئی اثر موجود نہ تھا رسول اﷲﷺ کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد گھر جانے کیلئے روانہ ہوئے تو رسول اﷲﷺنے انہیں ایک چھڑی عطا فرمائی جوان کے ہاتھوں میں ایک روشن چراغ کی طرح چمک رہی تھی اور راستے کوروشن کر رہی تھی جب وہ علیحدہ ہوئے تو بعض روایات میں اسے دو حصوں میں کیا اور بعض میں ایک اور شاخ کوپہلی شاخ کے ساتھ لگا کر روشن کر لیاجیسے آگ کو دوسری چیز کے ساتھ لگایا جاتا ہے اوروہ دونوں علیحدہ علیحدہ روشن ہو گئیں حتی کہ وہ دونوں صحابی اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔

                علامہ زرقانیؒ فرماتے ہیں کہ یہ اہل ایمان کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں جنت میں عطا ہونا ہے جبکہ اس حدیث میں ان صحابہ کو یہ خصوصیت اس دنیا میں ہی عطاہوگئی۔

                اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جب ظاہری (چاند یا سورج کا) نور موجود نہ تھا تو ان صحابہ کو وہ باطنی نور عطا ہوا جو عام طور پر اہل ایمان کے قلوب، چہروں اور آنکھوں میں موجود ہوتاہے اور انہیں اس دنیا میں آقا کریمﷺ کی غلامی کی برکت کے اعزازمیں عطا فرمایا جس کا ذکر کئی دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔

                مثلاًشمائل الشریفہ اور کتاب الشفا میں ہے

                 حضرت قتادہ بن نعمان رضی اﷲ عنہ نے ایک نہایت تاریک رات میں آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جب گھر جانے لگے ایک لاٹھی عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ فرمایا یہ لاٹھی آپ کے آگے اور پیچھے دس دس گز تک روشنی دے گی تو پھر جب تم گھر میں داخل ہوگے تو اندھیرا دیکھو گے تو اسے مارنا یہاں تک کہ وہ چلا جائے وہ شیطان ہے پس وہ تشریف لے گئے اور لاٹھی نے انہیں فرمان نبوی کے مطابق روشنی دی اور اسی طرح جب وہ گھر میں داخل ہوئے اور سیاہی بھی پائی اور اسے جب اسی روشنی سے مارا تو و ہ سیاہی نکل گئی۔

                 سنن ابوداؤدمیں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھاسے روایت ہے کہ جب (شاہ حبشہ) نجاشی انتقال کر گیا تو لوگ ہم سے بیان کرتے تھے کہ اس کی قبر پر ہمیشہ نور برستا ہے ۔

                یہ نور ہے کیا؟ایک حدیث میں ہے

                إِنَّ الْحَسَدَ یُطْفِءُ نُورَ الْحَسَنَات(سنن ابوداؤد)                حسد نیکیوں کے نور کو ختم کر دیتا ہے

                بخاری میں حضرت ابن عباس کاقول نقل ہے

                 یُنْزَعُ مِنْہُ نُورُ الإِیمَانِ فِی الزِّنَا                حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ایمان کا نور زنا کی وجہ سے چھین لیا جاتا ہے

                 مسلم میں ہے وَالصَّلاَۃُ نُورٌ نماز نور ہے

                جامع ترمذی میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سفید بال نکالنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ مسلمان کا نور ہیں۔

                بھلا جو نورحسد اور زنا جیسے گناہوں سے ختم ہوتا اور نماز جیسی نیکیوں سے بڑھتا اور سفید بالوں کی صورت میں دکھائی دیتاہو اگر اسی نور کو رسول اﷲﷺ کی ذات سے منسوب کیا جائے تو نہ جانے کچھ لوگ اس پہ کیوں بھڑک اٹھتے ہیں جبکہ سیرت و احادیث نبویہ موجود ہیں ۔

                 السیرۃ الحلبیۃ إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون میں ہے

                ’’حضرت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے پوچھایارسول اﷲﷺ، اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیزکوپیداکیا آپ نے فرمایا: وہ تیرے نبی کانور ہے جسے اس نے اپنے نورسے پیداکیا،پھراس نورسے ہرخیروشر کوپیدا فرمایا، جب اس نورکوپیدافرمایاتواسے مقام قرب کے سامنے بارہ ہزارسال رکھا،پھراس کے چارحصے کئے ایک سے عرش دوسرے سے کرسی تیسرے سے حاملین عرش وخاز ن کرسی کوپیدا فرمایا، چوتھے کومقام حب میں بارہ ہزارسال رکھاپھراسے چارحصوں میں تقسیم فرمایا ایک سے قلم دوسرے سے روح اورتیسرے سے جنت کوپیدا فرمایااورچوتھے کومقام خوف میں بارہ ہزارسال رکھا پھراس کے چارحصے کئے ایک سے ملائکہ دوسرے سے سورج تیسرے سے چاندستاروں کوپیدافرمایااورچوتھے کوبارہ ہزارسال مقام رجامیں رکھاپھراس کے چارحصے کئے ایک سے عقل دوسرے سے حلم وعلم اورتیسرے عصمت وتوفیق وپیداکیا اور چوتھے کوبارہ ہزارسال مقام حیامیں رکھاالمختصر ساتوں آسمان جنت اور اسکی نعمتیں سورج چاند ستارے عقل علم اور توفیق انبیاء و رسل کی ارواح شہداء و صالحین اور سعداء سب کو میرے اس نور سے پیدافرمایا پھر جب میرے نور کو حجاب سے نکالا تو زمین مشرق و مغرب ایسے روشن ہو گئے جیسے اندھیری رات میں روشن چراغ سے روشنی پھیلتی ہے۔ جب آدمؑ میں اﷲ تعالیٰ نے روح پھونکی تومیرے نورکوآدمؑ کی پیٹھ میں رکھدیاتوفرشتے صفیں بناکرآدمؑ کے پیچھے کھڑے ہوتے اوراس نورکی زیارت سے مشرف ہوتے تھے، آدمؑ نے رب سے پوچھایہ میری پیٹھ کے پیچھے کیادیکھتے ہیں،تورب تعالیٰ نے فرمایایہ خاتم النبیین محمد ﷺ کانورہے جوتمہاری پشت میں سے ظاہرہوتاہے فرشتے اس کی زیارت کرتے ہیں،آدمؑ نے عرض کیامولیٰ اس نورکومیرے سامنے والے حصے میں رکھدے تاکہ فرشتے میرے سامنے سے اس نور کی زیارت کیاکریں تونوران کی پیشانی میں آگیا،پھرعرض کیا اسکوایسی جگہ رکھ کہ میں بھی اس کی زیارت کرسکوں تواسے آپ کی شہادت کی انگلی ظاکردیاگیا،جب آدمؑ زمین پرآئے توپھرآپ کی پیٹھ میں منتقل کردیاگیالیکن وہ نورآپ کی پیشانی میں بھی چمکتاتھا، اورایک روایت میں ہے جب وہ نورآپکی شہادت کی انگلی میں آیاتوآپ نے عرض کی اے رب کیا نورکاکچھ حصہ اورباقی ہے توفرمایاہاں وہ آپ کے اصحاب خاص کانور ہے،توعرض کی اے پروردگاراس نورکومیری باقی انگلیوں میں رکھدے توابوبکرؓکے نورکووسطیٰ(درمیان والی انگلی)میں رکھ دیا،عمرؓکے نورکوبنصرمیں ،عثمانؓ کے نورکوخنصرمیں اورعلیؓکے نورکوابھام (انگوٹھے) میں رکھ دیا،لیکن جب آدم ؑ نے ممنوعہ درخت کھالیاتووہ نور پھرپیٹھ میں چلاگیا،پھروہ نوران کی اولاد کی طرف منتقل ہوتارہا الخ)

                جبکہ ا س گروہ منکرین کے محمد انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :یہ جوبعض روایات میں( أول ما خلق اﷲ نوری)آیاہے اس سے مرادیہ ہے کہ اول المخلوقات حضورﷺ کانورمبارک ہے۔

مزید لکھتے ہیں

                اور مغیرہ بن سعید فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوق کے سائے ان کے اجساد سے پہلے پیدا فرمائے اور سایوں میں سب سے پہلا سایہ سایۂ محمدی کو پیدا فرمایا اور پھر سایۂ محمد کو تمام سایوں کی طرف بھیجا ( العرف ا لشذی)

                تفسیرروح البیان میں علامہ إسماعیل حقی فرماتے ہیں

                ’’ اﷲ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو نور بناکر مبعوث فرمایا اور اپنی ذات کو بھی نور فرمایا(اللَّہُ نُورُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ )پھریہ دونوں نورعدم کی تاریکیوں میں مخفی تھے تومخلوق کوپیدا فرماکر انکو ظاہرفرمایا،توپہلی چیز جسے رب تعالی نے اپنی قدرت کے نور سے عدم کی تاریکیوں سے ظاہر فرمایا وہ نور محمد ﷺ ہے۔حضور ﷺ فرماتے ہیں( (انا من اﷲ والمؤمنون منی) وقال تعالی قَدْ جاء َکُمْ مِنَ اللَّہِ نُورٌ)نبی کریم ﷺسے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا:میں اپنے رب کے سامنے تخلیق آدمؑ سے چودہ ہزارسال پہلے نور تھایہ نورایک تسبیح پڑھتاتھااور ملائکہ وہی تسبیح دھراتے تھے، جب اﷲ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایاتواس نور کوآدمؑ کی صلب میں رکھ کرزمین کی طرف اتارا،پھراسے نوحؑ کی پشت میں رکھاجب وہ کشتی میں تھے، اورابراہیمؑ کی پشت میں پھر ہمیشہ مجھے اصلاب کریمہ سے ارحام طاہرہ کی طرف منتقل کرتارہاحتی کہ مجھے اپنے والدین کریمین کے درمیان سے دنیا میں بھیجااور آباوٗاجداد میں سے کوئی بھی سفاح(بدکاری)کے طورپر نہیں ملے۔

 عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطیؒایک سوال کاجواب دے رہے ہیں سوال یہ ہے کہ اول توایک چیز ہوتی ہے حالانکہ دوسری احادیث میں اور چیزوں کوبھی اول المخلوقات کہا گیا ہے جیسے إنَّ أوَّل ما خلق اﷲ العقل”، “إنَّ أوَّل ما خلق اﷲ نوری”، “إنَّ أول ما خلق اﷲ الروح”، “إنَّ أول ما خلق اﷲ العرش”.)توجواب دیا کہ یہاں اولویت اموراضافیہ میں سے ہے مطلب یہ ہے کہ مما ذکر میں سے ہر ایک اپنی جنس کی کی چیزوں کے لحاظ اول تخلیق ہوئیں۔

                الہدیۃ الہادیۃ إلی الطائفۃ التجانیۃمیں صاحب الرماح، الشیخ محی الدین ابن عربی الحاتمی – رضی اﷲ تعالی عنہ کے حوالے بیان ہوا کہ

                 ’’آدم ؑ سے لیکرعیسیٰؑ تک ہرایک نبی ، مشکاۃ خاتم النبین سے علوم نبوت اخذ کرتے رہے ہیں،اگرچہ آپ وجود عنصری کے اعتبارسے آخر میں آئے ہیں مگر حقیقتا آپ سب سے پہلے موجود تھے جسکی دلیل یہ حدیث مبارک ہے(کنت نبیا وآدم بین الماء والطین)اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے روح محمدی کو پیدا فرمایاتواس روح محمدی میں جمیع انبیاء واولیاء کی ارواح کو جمع فرمادیاجسکو جمع احدی کہتے ہیں جووجود خارجی کی تفصیل قبل ہوتی ہے جومرتبہ عقل اول ہے پھر لوح محفوظ کے مرتبہ میں متعین ہوئیں یہ مرتبہ نفس کلی ہے، یہاں سے انہیں نورانی وجود ملااور متمیز ہوئیں،اب اﷲ تعالیٰ نے ا ن پرحقیقت محمدیہ نوریہ کو مبعوث فرمایاجس نے انہیں حقیقت احدیہ جمعیہ کمالیہ سے آگاہ کیا،پھرجب صورطبیعیہ علویہ یعنی عرش وکرسی وجود میں آئے تواس وقت ان ارواح کی طرف دوسری مرتبہ بعثت محمدیہ ہوئی توجو روحیں حقیقت احدیہ جمعیہ کمالیہ پرایمان کی اہل تھیں وہ آپ پر ایمان لائیں تواس ایمان کاحکم، نفس بشریہ کے کمال پرظاہرہوا تووہ حضور ﷺپرایمان لائے،توکنت نبیاًکامعنی ہے کہ آپ بالفعل نبی تھے اورآپ کواپنی نبوت کاعلم تھا۔

                ( شرح الشفا الملا علی القاری میں ہے

                یہ حضوراکرم ﷺ کے خصائص سے تھاکہ آپ نورتھے جب آپ دھوپ میں یاچاند کی روشنی میں چلتے تھے تو آپ کاسایہ ظاہر نہیں ہوتاتھا۔

                قصیدہ بردہ میں ہے

وکلُ آیٍ آتی الرَسْلُ الکرامُ بہافإنما اتصلتْ من نورہ بِہِمِ

فإنہ شمسُ فضلٍ ہم کواکبُہا یُظہِرْنَ أنوارَہا للناسِ فی الظُلمِ

                جس قدر معجزات انبیائے کرام علیھم السلام اس دنیا میں لائے در حقیقت وہ تمام آپ ہی کے نور سے ان کو حاصل ہوئے کیونکہ آپ آفتاب کمال ہیں اور باقی انبیاء کرام حضور ﷺ کے مقابلے میں ستاروں کی طرح ہیں جوعلم ہدایت کی روشنی کو جہالت کے اندھیرے میں لوگوں پر ظاہر کرتے ہیں۔

                 مواہب اللدنیہ میں علامہ قسطلانی ابن مرزوق ؒکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام میں سے ہر ایک جو معجزہ لے کر آیا اسے نور محمدی کے ذریعے حاصل ہوااور ان کا یہ قول کتنا اچھا ہے

فانما اتصلت من نورہ بھم یعنی نبی اکرم کا نور ہمیشہ قائم رہا اور اس سے کچھ بھی کم نہ ہوا اور یہ آپ کے نور کا فیضان ہے یہ وہم نہ کیا جائے کہ آپ کا نور انہیں مل گیا اور آپ کیلئے کچھ باقی نہ رہا ۔

اسی حقیقت کو نبی کریم ﷺ نے یوں آشکار فرمایا

کُنْتُ أَوَّلَ النَّبِیِّینَ فِی الْخَلْقِ وَآخِرَہُمْ فِی الْبَعْثِ دلائل نبودۃ الاصفہانی)

                میں تخلیق میں تمام انبیاء سے پہلے اور بعثت میں سب سے آخر ہوں۔

                 اس لئے کہ ہر نبی کا اسلام اپنی امت پر مقدم ہوتاہے اوراسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے (پہلی وہ چیزجسے اﷲ نے پیدا فرمایا وہ میرانور ہے ۔(حَاشِیۃُ الشِّہَابِ عَلَی تفْسیرِ البَیضَاوِی)

تفسیر نیشا پوری میں ہے ا ورمحمد ﷺ تخلیق کائنات کے تمام اولین امورکوجانتے ہیں ،جیسے نبی کریم ﷺ کے یہ ارشادات ہیں أول ما خلق نوری

                اور مخلوق کو اشباح (جو دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہوں)اور ارواح(غیر مادی شے) سے پیدا فرمایامادی تخلیق حضرت آدم سے ہوئی جبکہ روحانی تخلیق کی ابتداء روح محمدی سے ہوئی جس کے متعلق فرمایا اﷲ نے سب سے پہلے میری روح کو پیدا فرمایاتو حضور ﷺ ابوالارواح ہیں ، اور روح سے اس کا جوڑ پیدا فرمایااور وہ ’’النفس ‘‘ ہے جسے انوار محمدی کی شعاعوں میں سے ادنی شعاع سے پیدافرمایا ۔جس سے ارواح کاملین دنیا میں پھیلائیں( غرائب القرآن ورغائب الفرقان النیسابوری)

اور روح البیان میں ہے اﷲ وہ ہے جس نے تمہاری ارواح کوایک روح سے پیدافرمایااور وہ روح محمد ﷺ ہے (أول ما خلق اﷲ روحی)جسطرح تمہارے جسموں کو ایک جسم سے پیدا فرمایا اور وہ ابوالبشر آدم ؑ کاجسم اقدس ہے۔۔۔ (جس طرح حضرت آدم ابو البشر ہیں اسی طرح حضور ﷺ ابو الارواح ہیں)

تاویلات نجمیہ میں ہے یعنی محمد ﷺکو تخلیق کائنات سے قبل کے تمام امور اولیات کابھی علم ہے( ا ول ما خلق اﷲ نوری)اور پچھلے امور کا بھی علم ہے یعنی اہوال قیامت،مخلوق کی گھبراہٹ،غضب رب،انبیائکرام سے شفاعت کی درخواستیں کرنااورانکا نفسی نفسی پکارنا اورایک کے بعد دوسرے کے حوالے کرنااور مخلوقات کاپریشان ہوکرحضورﷺکی بارگاہ اقدس میں پہنچنا،کیونکہ اس دن شفاعت حضورﷺ کے ساتھ مختص ہوگی۔

حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب آدمؑ نے اپنی خطا کااقرار کر لیاتوعرض کیا(یا رب اسألک بحق محمد ان تغفر لی)ائے رب مجھے محمد ﷺ کے صدقے بخشدے،اﷲ تعالی نے فرمایا ائے آدم تونے محمد ﷺ کو کیسے پہچاناحلانکہ میں نے تو انہیں ابھی پیدا بھی نہیں کیاتو عرض کی ،جب تونے مجھے اپنے ہاتھ سے پیداکیااور روح پھونکی تومیں نے اپنا سراٹھایاتو عرش کے پائیوں پر لکھاہوادیکھا(لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ )تو میں نے جان لیا کہ تونے جسے اپنے نام کے ساتھ ملاکر لکھا ہے وہ تجھے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہے تورب تعالی نے فرمایا(صدقت یاآدم)بے شک وہ مجھے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہیں،پس میں نے تجھے بخش دیا،اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا بھی نہ کرتا۔

اور ’’ امی‘‘ کا لقب جو تمام انبیاء ورسل میں صرف آپ کیلئے مخصوص ہے کیونکہ امی کا معنی ہے ام الموجودات (تمام موجودات کی ابتداء )و اصل المکونات(ساری کائنات کی اصل )


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں