حواس قلبی
اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں بہت سے حواس ظاہری اورحواس باطنی ودیعت فرمائے ہیں
حواس دو قسم کے ہیں ایک حواس دماغی دوسرے حواس قلبی
حواسِ ظاہری اور حواس باطنی سے جو امور بالاتر ہے ان کی دریافت قلبی حواس کے ذریعے ہوتی ہے ہے وہ پانچ ہیں
نور
عقل
روح
سر
خفی
یہ حواس قلبی تزکیہ نفس تصفیہ قلب تجلیہ روح کےبعد کھلتے ہیں
راہ طریقت پر چل کر انہی کے ذریعہ سالک رموز معرفت سے آشنا و اسرار حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے۔ نیز تمام افعال جسمانی میں بھی آلات جسمانی کا محتاج نہیں رہتا ۔وہ جیسا آنکھ کھول کر دیکھتا ہے ویسا ہی بند آنکھ سے بھی دیکھتا ہے، جیسا قریب سے سنتا ہے ویسے ہی دور سے سنتا ہے۔ حوا س دماغی سے تو صرف اشکال، الوان ،مزے، اصوات وغیرہ اوصاف مادیات و ظاہری خواص عالم اجسام و جسمیات معلوم ہو سکتے ہیں،اور ان حواس قلبی سے حقائق اشیاء معلوم ہوتی ہیں اور اسرار عالم، مثال و عالم ارواح منکشف ہوتے ہیں، اور عالم قدس و عالم غیب کی اطلاع ہوتی ہے اور رموز معرفت کی تکمیل ہوتی ہے دماغی حواس کی لذات سے جہت سفلی کی طرف میلان ہوتا ہے ،اور حضرت حق سے دوری ہوتی ہے اور حواس قلبی سے عالم بالا کی طرف میلان ہوتا ہے اور حضرت حق کی ۔حضوری وقرب میسر ہوتا ہے
چنانچہ درجات کی معرفت کی بنا پر ان حوا س قلبی کی لذت پر ہے ان کو ابواب معرفت کہتے ہیں وہ یہ ہیں خبر، اثر، نظر ،لذت نظر، استغراق بالمنظور اس کی تشریح یہ ہے کہ
1: حاسہ قلب
سمع لذت و حظ پاتا ہے معشوق و مطلوب حقیقی کی خبر سے اگر وہ غیب میں ہے یا اس کے اثر و نشان سے وقت حضوری کے یہ مقام معرفت کلیمی کا ہے حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام اس کے ممتاز فرد ہیں اس حاسہ سمع قلب گوش دل سے آواز بسیط صوت سرمدی کلام بے جہت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ مظہر عالم غیب کا ہے
2:حاسہ شم قلبی
معشوق و مطلوب حقیقی کے اثر و نشان سے حظ پاتا ہے یعنی بلا حجاب خبر کے اثر و نشان معشوق کی لذت حاصل ہوتی ہے جو حضوری حضرت حق ہے اس میں حاسہ سمع قلبی سے زیادہ حضوری ہے یہ مقام معرفت عیسوی ہے اس کے ممتاز فرد حضرت عیسی علیہ السلام ہیں اور قوت شامہ دماغی سے صرف خوشبو یا بدبو معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں شے مشموم کا قرب زیادہ ہے ہے اس قرب سے جو قوت سامعہ دماغی میں اپنے مسموع سے ہے کیونکہ بوکا احترام اتنی دور سے نہیں ہو سکتا جتنی دور سے آواز سنی جاتی ہے اور شے مشموم کے اجزاء لطیفہ اس قوت تک پہنچتے ہیں بخلاف اس کے آواز کے ساتھ کوئی جزء اس ذی آواز کا کان تک نہیں جاتا لہذا اس میں قرب زیادہ ہے اور یہ مظہر ہے عالم ارواح کا
3:حاسہ بصر
قلبی سے معشوق دکھائی دیتا ہے اس میں نظر و دیدار معشوق کی لذت ہے یہاں حجاب اثر و نشان بھی مرتفع ہے یہ معرفت بلا حجاب مقام خلیلی اس کے ممتاز فرد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں اور اسی کے مطابق حاسہ باصرہ دماغی میں شے مرئی کا قرب زیادہ ہے اور حضوری کامل ہے شامہ وسامعہ کی حضوری وقرب ہے یہ مظہر ہے عالم شہادت کا
4:حاسہ ذوق
قلبی اس میں لذت نظر ہے اس کا قرب حاسہ بصر قلبی کے قرب سے زیادہ ہے اس میں عاشق کو ذات معشوق میں ایسی محویت ہوتی ہے کہ حسن معشوق سے بھی بے خبر ہو جاتا ہے انظر فی الوجہ الحسن یزید النور البصر
ترجمہ خوبصورت چہرہ کا دیکھنا نور بصر کو زیادہ کرتا ہے اس قول سے اس طرف اشارہ ہے یہ مقام معرفت یعقوبی ہے اس کے ممتاز فرد حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں اس کے مطابق دماغی قوت ذائقہ شئی مذوق کا قرب زیادہ ہے اس قرب سے جو آنکھ کو سامنے کی شے سے قرب ہے اور یہ مظہر ہے عالم مثال کا
5:حاسہ لمس
قلبی کاحظ اور لذت یہ ہے کہ ذات حق سبحانہ سے پورا وصل ہو کسی قسم کا حجاب درمیان نہ ہو یہ معرفت کشف معیت حقیقی سے حاصل ہوتی ہے اس کی معرفت ارفع و اعلٰی ہے معرفت خبر ،اثر، نظر، لذت نظر سے یہ معرفت حضرت خاتم الانبیاء علیہ السلام کی ہے اس میں سب سے زیادہ حضوری ہے اسی کے مطابق قوت لامسہ دماغی کی لذت اور قرب تمام حواس ظاہری کے قرب و لذت سے بہت زیادہ ہے لامس وہ ملموس بالکل متصل ہوتے ہیں جب اس کی لذت و ادراک پورا ہوتا ہے اسی وجہ سے وہ تمام جسم میں محیط ہے باقی حواس ایک ایک عضو سے مخصوص ہیں جیسے آنکھ ،ناک ،کان، زبان یہ مظہر عین جامعہ کا ہے
یہ پانچوں حواس قلبی ابواب معرفت ہیں اور پانچوں حواس دماغی ظاہری ان کا نمونہ ہیں جس سالک کے یہ ابواب معرفت بہت کھل جاتے ہیں وہ ظاہری حواس کی لذت سے بے پرواہ ہو جاتا ہے بلکہ اس کو ان حواس کی لذت بھی ذات حق سبحانہ کی طرف کھینچتی ہے اور جس کے یہ حواس قلبی مفتوح نہیں ہوئے ہیں وہ حواس ظاہری کی لذت جسمانی میں منہمک رہتا ہے اور حضرت حق سے دور ہو جاتا ہے