حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت

حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت

منة الجليل لبيان إسقاط ما على الذمة من كثير وقليل

تصنیف:محمد علاءالدین ابن عابدین المعروف علامہ شامی

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔

تمام تعریفیں اس قدیم (ازل سے) اور وارث (جو سب کا وارث ہے) اللہ کے لیے ہیں، جو موت دینے والا اور دوبارہ زندہ کرنے والا ہے، جو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جسے حالات تبدیل نہیں کر سکتے۔ میں اسے ہر حال میں پاتا ہوں، اور اپنے اعمال اور اقوال میں لغزش  کے ساتھ  اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اور میں اس سے ان خوفناک مشکلات سے پناہ مانگتا ہوں جو دل کو بے چین کرتی ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ قوموں کو ان کے اعمال کی آزمائش کے لیے مٹاتا ہے، ان کی عمریں پوری ہونے پر انہیں موت دیتا ہے، اور انہیں پہلی بار کی طرح دوبارہ زندہ کرے گا۔ اور وہ انہیں ان کے اعمال کے مطابق جزا دے گا، چاہے وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے حدود مقرر کیں اور ایسے فرائض فرض کیے جو ناقابل تردید حکم کے ساتھ ہیں۔ اور جو کوئی ان میں سے کسی میں کوتاہی کرتا ہے، اس کے لیے ایک تلافی کرنے والا مقرر کیا، چاہے وہ تقصیر میں مشغول ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اور وہ اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور اسے قضا یا فدیہ کے ذریعے پورا کرے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور اس کے محبوب و دوست ہیں۔ انہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا، اور قیامت کے دن شفاعت کرنے والے اور مقبول شفاعت کرنے والے ہوں گے، اور وہ نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں۔ وہ ہمارے پاس صحیح، برحق دین اور نرم و آسان دین، عربی فصیح زبان میں لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے آل و اصحاب پر درود و سلام بھیجے، ایسا درود جو صاحب درود کے لیے عظیم ثواب کا ضامن ہو، اور اس کو رضا کی بہترین پوشاک پہنائے۔

(اما بعد) پس اپنے رب کی مدد کا محتاج، محمد علاء الدین ابن عابدین کہتا ہے کہ یہ رسالہ میں نے اپنے والد محترم کے رسالہ کے ساتھ بطور ذیل(حاشیہ) لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے فوائد کو بہتر بنائے، اور ان کی روح پر رحم کرے، اور ان کی قبر کو ٹھنڈا کرے۔ ان کا رسالہ جس کا نام “شفاء العلیل و بل الغلیل” ہے، جس میں ختمات(ختم کی جمع) اور تہالیل (تہلیل کی جمع)کی وصیت کے احکام پر بحث کی گئی ہے۔ میں اس میں خوبصورت فوائد ذکر کروں گا جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہیں، جن کا ذکر اس رسالہ میں نہیں کیا گیا تھا، اور میں نے ان کو اختصار میں قلمبند کیا ہے۔ اس کا زیادہ تر ماخذ میرے والد محترم کی باتوں سے ہے، جو ان کی رائے اور مقاصد کے مطابق ہے۔ میں نے جہاں تک مجھے علم ہے، ان مسائل پر کسی نے کوئی کتاب مخصوص نہیں کی، اور نہ ہی ان احکام میں کوئی مؤلف پہلے گزرا ہے، حالانکہ یہ دینی اہم مسائل اور فرض عینی ہیں۔ مجھے اس کے جمع کرنے پر جس شے نے مجبور کیا وہ  جب جاہل اماموں کو دیکھا اور سنا کہ وہ ان مسائل میں غفلت برتتے ہیں جو حیلہ اسقاط کے متعلق ہیں۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں، جو خیر و جود کا فیاض ہے، کہ وہ اسے ہر حاسد کے شر سے محفوظ رکھے۔ اور میں اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں جس کی محبت میں ہم فخر کرتے ہیں، اور جس کی نعمتیں ہم پر ہر لمحہ نازل ہوتی رہتی ہیں، کہ وہ اس سے اسی طرح نفع دے جیسے اس کے اصل سے نفع پہنچا، بے شک وہ جو چاہے کرنے پر قادر ہے، اور دعا کا مستحق ہے۔

(اور میں نے اس کا نام رکھا ہے) “منة الجليل” ذیل شفاء العليل وبل الغليل، تاکہ بیان کیا جائے کہ حیلہ سے زیادہ اور کم کیا چیز ساقط ہوتی ہے۔ یہ اس عظیم سلطان حضرت مولانا سلطان عبدالحمید خان ثانی کے مبارک دور کی یادگاروں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں سبع مثانی کی برکتوں سے نوازے، اور ان کی سلطنت کے تخت کوزمانے کے اختتام تک قائم رکھے، جتنا دن اور رات آتے جاتے رہیں۔ آمین، اے اللہ آمین۔

(اور اب) مقصد کو شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے، اس بادشاہ معبود کی مدد کے ساتھ۔ تو میں کہتا ہوں کہ شیخین (امام بخاری اور امام مسلم) اور عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

“کسی مسلمان کے لیے یہ حق نہیں ہے کہ اس پر تین راتیں گزر جائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس نہ ہو۔”

حضرت ابن عمر نے کہا: “تو مجھ پر کبھی تین راتیں نہیں گزرتیں مگر یہ کہ میری وصیت میرے پاس ہوتی ہے۔”

طحاوی نے اپنی حاشیہ میں “مراقی الفلاح” پر لکھا: “جان لو کہ نص (قرآن و حدیث) میں روزے کے بارے میں یہ بات وارد ہوئی ہے کہ اسے فدیہ کے ذریعے ساقط کیا جا سکتا ہے، اور مشائخ کا اتفاق ہے کہ نماز بھی روزے کی طرح ساقط ہو سکتی ہے، استحساناً (یعنی بہتر خیال کرتے ہوئے) کیونکہ وہ (نماز) روزے سے زیادہ اہم ہے۔”

اصل اختلاف مشائخ کے درمیان یہ ہے کہ کیا ایک دن کی نماز ایک دن کے روزے کے برابر ہے یا ہر فرض نماز ایک دن کے روزے کے برابر ہے؟ اور یہی معتمد (قابل اعتماد) ہے۔ جب تمہیں یہ معلوم ہو گیا تو تمہیں اس شخص کی جہالت کا علم ہوگیا جو کہتا ہے کہ نماز کی اسقاط کی کوئی بنیاد نہیں ہے، کیونکہ یہ اس بات کو باطل قرار دینا ہے جو اہلِ مذہب کے درمیان متفق علیہ ہے، اور یہ کہ روزے سے مراد رمضان کا روزہ، کفارے کا روزہ (قسم توڑنے، قتل کرنے، یا ظہار کی صورت میں) اور حج کے دوران شکار کرنے کا کفارہ ہے۔

(میں کہتا ہوں) جہاں تک “استحسان” کا تعلق ہے، تو یہاں اس سے مراد مشائخ کا استحسان ہے، جیسا کہ ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے اور “مستصفى” (نامی کتاب) میں آنے والا کلام اس کی وضاحت کرتا ہے، نہ کہ مطلق استحسان جو جلی قیاس کے مقابل ہو، کیونکہ یہاں ایسا نہیں ہے، بلکہ مراد پہلا مفہوم ہے۔ جہاں تک اس کے قول کا تعلق ہے کہ “اس کی کوئی اصل نہیں ہے” یا مطلق طور پر، چاہے اس کی اصل مشائخ کے استحسان میں ہو یا نص (قرآن و حدیث) یا دلیل میں، تو یہ جہالت ہے جیسا کہ تم نے جانا، اور اگر اس سے دوسرا مفہوم مراد ہو تو یہ علم ہے نہ کہ جہالت۔

اور اس پہلے مفہوم پر اس قول کو محمول کیا جاتا ہے کہ “نماز کی اسقاط کی کوئی اصل نہیں ہے” کیونکہ نماز کے بدلے میں کھانا کھلانے کی کوئی اصل کتاب، سنت، اجماع یا قیاس میں نہیں ہے، بلکہ یہ مشائخ کے استحسان کا محتاط حکم ہے، جیسا کہ معتبر کتب میں اس کے اصول و فروع میں ذکر ہوا ہے، جیسا کہ تم نے جانا اور اس کا نص آتا ہے، حتیٰ کہ “المبسوط” سے نقل کیا گیا ہے کہ “نماز کا معاملہ فدیہ کے بدلے میں کسی بھی کتاب میں کھول کر بیان نہیں ہوا۔” اور اس سے یہ معلوم ہوا کہ علامہ طحطاوی کا کلام اسی مطلق پر محمول ہے جسے ہم نے بیان کیا تاکہ اس قائل کی جہالت ثابت ہو۔

امام فخر الاسلام البزدوی نے اپنی اصول کی کتاب میں قضا کے بارے میں بحث کرتے ہوئے فرمایا: “پھر ہم نے نماز میں فدیہ کے جواز کا حکم ویسا نہیں کیا جیسا کہ ہم نے روزے میں کیا ہے، کیونکہ ہم نے روزے میں قطعی طور پر اس کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ سے نماز میں اس کے قبول ہونے کی امید رکھی۔” تو امام محمد رحمہ اللہ نے “زیادات” میں فرمایا: “فدیہ نماز میں اسے ان شاء اللہ تعالیٰ کافی ہو جائے گا، جیسا کہ اگر وارث نے روزے میں یہ کیا ہو۔”

اور امام جلال الدین الخبازي الخجندی نے اپنی اصول فقہ کی کتاب “المغنی” میں فرمایا: “نماز میں فدیہ کا حکم غیر معقول ہے، جیسے کہ روزے کا فدیہ اور احجاج (حج) کا نفقہ، یہ غیر معقول نص سے ثابت ہوئے ہیں، اور نماز میں فدیہ کا حکم معلولیت کے احتمال کی وجہ سے اور اس کے زیادہ اہم ہونے کی وجہ سے ہم نے اس کا جواز قطعی طور پر نہیں کیا جیسا کہ ہم نے روزے میں کیا۔”

تو امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا: “ان شاء اللہ تعالیٰ یہ اسے کافی ہوگا، جیسا کہ اگر وارث نے روزے میں یہ کیا ہو۔”

تو اس کے شارح ابو منصور الفاغانی نے کلام کے بعد فرمایا: “اسی لیے ہم نماز کے فدیہ میں نہیں کہتے کہ یہ قطعی طور پر جائز ہے، جیسا کہ ہم نے روزے میں حکم دیا، اگر اس نے خود ادا کیا ہو، لیکن ہم اللہ تعالیٰ سے قبول ہونے کی امید رکھتے ہیں۔”

امام محمد نے “زیادات” میں فرمایا: “نماز کا فدیہ ادا کرنا ان شاء اللہ تعالیٰ کافی ہو جائے گا، جیسا کہ انہوں نے فرمایا کہ جب وارث نے اپنے مورث کے حکم کے بغیر فدیہ ادا کیا تو وہ ان شاء اللہ تعالیٰ کافی ہوگا۔ اور اگر یہ قیاس سے ثابت ہوتا تو اسے استثناء کے اضافے کی ضرورت نہ ہوتی، جیسا کہ دیگر احکام میں ہوتا ہے جو قیاس سے ثابت ہیں۔” اور اسی طرح کی بات سیدی والد نے “شرح المنار” للعلائی کے حاشیے میں بھی کہی ہے۔ لیکن جب اس مسئلے کے حوالے سے زیادات کے تین نسخوں کا معائنہ کیا گیا اور باریکی سے تحقیق کی گئی، تو امام محمد سے نماز کے فدیے کے بارے میں کوئی بات ثابت نہ ہو سکی، سوائے اس کے کہ یہ مسئلہ مشائخ کے استحسان سے جاری ہوا، جیسا کہ آپ نے جانا اور آگے آئے گا۔ اور دیگر معتبر نسخوں کا بھی معائنہ کیا جائے، کیونکہ ایسے معتمد ائمہ، جو اسلام کے ناصر ہیں، ان سے یہ بعید ہے کہ وہ کوئی بات بغیر تحقیق اور غور و فکر کے نقل کریں، کیونکہ وہ پاکیزہ شریعت کے امین ہیں، خاص طور پر جبکہ وہ محققین کے ختمہ (مکمل گروہ) ہیں اور ان کے رئیس ابن الہمام ہیں، جنہوں نے مجتہدین کی درجات تک پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روحوں پر رحم فرمائے، ان کی قبروں اور آرام گاہوں کو منور کرے۔ آمین۔

(پھر) میں کہتا ہوں کہ اسقاط، کفارہ، اور فدیہ کے بیان میں یہ واضح کیا جائے کہ شخص کی وصیت سے اسے ادا کرنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ اس کا وارث اسے اپنی مرضی سے ادا کرے۔ یہ مسئلہ نماز میں بھی چلتا ہے اور اس میں واجب یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بدلے میں فقیر کو آدھا صاع(پیمان) گندم، یا اس کا آٹا، یا ستو، یا ایک صاع کھجور، یا منقی، یا جو، یا اس کا آٹا، وغیرہ دیا جائے، جیسا کہ باب الفطرہ میں ذکر ہوا ہے۔

پھر یہ جان لیں کہ شرعی درہم چودہ قیراط کا ہوتا ہے، جبکہ موجودہ دور کا درہم سولہ قیراط کا ہے۔ شرعی قیراط پانچ جو کے دانے یا چار گیہوں کے دانے کے برابر ہوتا ہے، اس لحاظ سے شرعی درہم ستر جو کے دانوں کے برابر ہوتا ہے، اور مثقال سو جو کے دانے کے برابر ہے، جو ایک درہم اور تین ساتویں درہم کے برابر ہے۔ ہمارے عرف میں موجودہ قیراط شرعی قیراط کے مطابق ہے، جو “خرنوب” (پھلی)کے دانے کے برابر ہے۔ شرعی اور عرفی درہم کے درمیان دو قیراط کا فرق ہے، اور شرعی اور عرفی مثقال کے درمیان چار قیراط کا فرق ہے۔ اور پانچ جو کے دانے اور چار گیہوں کے دانے کا وزن برابر ہے۔ اور ہر دس درہم چاندی کے وزن میں سات مثقال سونے کے برابر ہوتے ہیں۔ پس اگر ایک صاع ایک ہزار چالیس شرعی درہم ہو، تو موجودہ دور کے درہموں میں یہ نو سو دس درہم ہوگا۔ اور نصف صاع کی مقدار 1296 ہجری میں تقریباً “مسیح ثمنیہ” کی گئی، بغیر تکمیل کے۔

یہ اس بات کے خلاف نہیں ہے جو مد کی مقدار کے بارے میں ذکر کیا گیا، کیونکہ ہمارے زمانے کا مد پرانے مد سے بڑا ہے۔ مد آٹھ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور ہر حصہ کو “ثمنیہ” کہا جاتا ہے۔ ثمنیہ مد دمشقی کا ایک آٹھواں حصہ ہے، اور مد نصف جفت ہے، جو ” استنبول کی پیمائش ” سے دو مٹھیوں کے برابر بڑا ہے۔ اسی طرح ہمارے زمانے میں رطل بھی اب آٹھ سو درہم کا ہوتا ہے۔ یہ سب ماش یا مسور سے صاع کی مقدار کے حساب پر مبنی ہے، لیکن اگر اس کی مقدار گندم یا جو سے کی جائے، جو زیادہ احتیاطی ہے، تو نصف صاع اس مقدار سے بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ مکمل دمشقی ثمنیہ گندم سے دی جائے، جو چھنی ہوئی اور صاف ہو، یا اس کی قیمت دی جائے، کیونکہ گندم میں کچھ نہ کچھ پتھر، مٹی، خراب دانے، اور جو شامل ہوتے ہیں۔

“اور گندم کو اصل ماننا چاہیئے اور قیمت دینا بہتر ہے کیونکہ یہ فقراء کے لیے زیادہ مفید ہے، سوائے قحط اور فاقہ کے زمانے میں، اللہ تعالیٰ کی پناہ۔ روز و شب میں نمازوں کی تعداد چھ ہوتی ہے، وتر کو پانچ فرض نمازوں کے علاوہ فرض عملی مانا جاتا ہے امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک۔ لہٰذا ایک دن اور رات کی نمازوں کا کفارہ چھ ثمنیات(چھ فطرہ برابر)، یعنی تین چوتھائی مد دمشقی بنتا ہے۔ ایک ماہ کی نمازوں کا کفارہ بائیس مد اور نصف مد بنتا ہے۔ اور ایک شمسی سال جو کہ تین سو پینسٹھ دن، پانچ گھنٹے، اور پچپن منٹ یا انچاس منٹ پر مشتمل ہوتا ہے، اس کا کفارہ دو سو تہتر مد، نصف مد اور ایک چوتھائی مد، یعنی ایک سو سینتیس جفتوں کے برابر ہوگا، سوائے دو ثمنیات کے، یعنی ایک چوتھائی مد۔ یہ تین غرائر اور نصف کے برابر ہوگا، سوائے بارہ مد اور ایک چوتھائی مد گندم کے۔ اور اگر ہم چھ گھنٹے کم کرنے کے لیے ایک چوتھائی مد شامل کریں تو یہ سال کے لیے تین غرائر اور نصف غرائر گندم کے برابر ہوگا، سوائے بارہ مد کے، کیونکہ ایک غرارہ اسی مد کے برابر ہوتا ہے۔ اور ہر سال کے روزوں کے لیے چار مد اور ایک چوتھائی مد ہوں گے۔(ایک نماز کا فدیہ ایک فطرانہ برابر ہوگا )

ولی اس کی قیمت قرض لے کر فقیر کو دے گا، پھر فقیر سے وہ رقم بطور ہبہ لے گا، اور پھر اسے فقیر کو یا کسی دوسرے فقیر کو دے گا۔ اس طرح ہر بار ایک سال کا کفارہ ادا ہو جائے گا۔ اگر ولی زیادہ قرض لیتا ہے تو اس کے مطابق کفارہ ادا ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کفارے کی صورت میں شروع کرے گا، پھر قربانی، پھر قسموں کے کفارے کے لیے۔ لیکن قسموں کے کفارے کے لیے دس مسکینوں کا ہونا ضروری ہے، اور ایک دن میں ایک مسکین کو آدھے صاع سے زیادہ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں عدد پر زور دیا گیا ہے۔ جبکہ نماز کے فدیے میں ایک شخص کو تمام نمازوں کا فدیہ دینا جائز ہے، اور اسی طرح زکوٰۃ میں بھی بغیر وصیت کے یہ جائز ہے۔ حج کا بھی یہی حکم ہے۔

ہر سجدہ تلاوت کا فدیہ نماز کے فرض کی طرح ادا کرنا احتیاطی طور پر لازم ہے، اور نوافل جنہیں اس نے خراب کر دیا اور ان کی قضا نہیں کی، نیز نذر اور قربانی کا فدیہ بھی دینا چاہیئے۔ زکوٰۃ اور فطرہ جو اس پر واجب ہے اور ان پر جن کی فطرہ اس پر واجب ہے، اور عشر و خراج کا فدیہ دینا چاہیئے۔ حرم یا احرام کی توہین کا کفارہ، قتل خطا کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، واجب نفقہ اور مالی کفارات اور نذر کی ہوئی صدقات، اور نذر کا اعتکاف جس کا کفارہ روزے سے ہے، مسجد میں قیام کے لیے نہیں، ہر دن کے لیے گندم کا نصف صاع دینا چاہیئے۔ اور ایسے حقوق العباد جن کے مالکان نامعلوم ہیں، ان کے کفارے کے لیے بھی فدیہ دینا چاہیئے۔

اس کے بعد تمام جسمانی حقوق کے کفارے ادا کیے جائیں، پھر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کیے جائیں تاکہ نیکیوں کی زیادتی ہو جائے اور مخالف راضی ہوں۔ اس کے لیے مزید وضاحت بھی آئے گی۔

(اور جو چیز) مذہب میں موجود ہے اور جس پر عمل ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ وارث دس ایسے مردوں کو جمع کرے جن میں کوئی امیر، غلام، بچہ، یا دیوانہ نہ ہو۔ پھر میت کی عمر کا تخمینہ لگائے اور اس میں سے بارہ سال نکال دے اگر میت مرد ہو، یا نو سال نکال دے اگر عورت ہو۔ اگر عمر معلوم نہ ہو، تو اندازے کے طور پر عمر کا تعین کیا جائے۔ اگر عمر کا اندازہ نہ ہو سکے تو زیادہ عمر کا اندازہ لگایا جائے کیونکہ یہ زیادہ احتیاطی ہے۔ پھر عمر کے اندازے کے بعد جو باقی بچتی ہے، اس کے لیے کفارہ ادا کیا جائے کیونکہ مرد کم از کم بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوتا ہے اور عورت نو سال کی عمر میں۔ یہ احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیئے، حتیٰ کہ اگر شخص اپنی نمازوں کی پابندی کرتا ہو تو بھی، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہو اور اسے خبر نہ ہو۔

(اور جو چیز) لوگوں میں معروف ہے اور اہل مذہب نے اسے بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب واجب کی مقدار زیادہ ہو، تو وہ ایک تھیلی جس میں پیسے یا کچھ اور جیسے جواہرات یا زیور یا گھڑی وغیرہ شامل ہو، گردش کرواتے ہیں، اور قیمت کا اعتبار کرتے ہیں۔”

اور “صرة” (یعنی تھیلی) کو منتقل کرنے کے مختلف طریقے ہیں، اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ وصی (یعنی وصیت پر عمل کرنے والا) اس “صرة” کو فقیر کے حوالے کرے اور کہے کہ یہ فلاں بن فلاں کی نمازوں کا کفارہ ہے، مثلاً ایک سال یا دس سال کی نمازوں کا کفارہ، اور فقیر اسے قبول کرے اور اسے اپنا مالک بنائے۔ فقیر کہے کہ میں نے اسے قبول کیا اور اپنے قبضے میں لیا۔ پھر فقیر اس “صرة” کو وصی کو ہبہ کے طور پر واپس دے، اور وصی اسے قبضے میں لے کر دوسرے فقیر کو دے دے اور اسی طرح کرتا جائے جب تک کہ تمام فقراء کو شامل نہ کر لے اور جتنی نمازیں میت کے ذمہ ہیں، ان کا کفارہ پورا نہ ہو جائے۔ پھر اسی طرح روزے، قربانی اور دیگر امور کے لیے بھی کیا جائے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔

جب یہ سب مکمل ہو جائے تو بہتر ہے کہ وصی اس مال میں سے یا جو میت نے وصیت کی ہے، اس میں سے کچھ فقراء پر صدقہ کرے۔ ان کی کتب اور حواشی میں بیان کیا گیا ہے کہ جو اس کام کو انجام دے گا، وہ ولی ہو گا، اور ولی سے مراد وہ شخص ہے جو وصیت یا وراثت کے ذریعے میت کے مال میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ اگر میت کے پاس کوئی مال نہ ہو تو وارث اپنے مال سے یہ عمل کر سکتا ہے اگر وہ چاہے۔ اگر وارث کے پاس بھی مال نہ ہو تو وہ کسی دوسرے سے ہبہ یا قرض لے کر فقیر کو دے سکتا ہے اور پھر فقیر سے وہ مال واپس لے سکتا ہے اور اس عمل کو دہراتا رہے جب تک مقصد پورا نہ ہو جائے۔

“الدر” اور اس کی حاشیہ میں سیدی الوالد رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:

“میت کے ولی کو جو وصیت یا وراثت کے ذریعے اس کے مال میں تصرف کا اختیار رکھتا ہو، چاہیئے کہ وہ اس کے فوت شدہ روزوں کا کفارہ ادا کرے، اگر وہ وصیت کر چکا ہو کہ سفر یا بیماری کی وجہ سے روزے قضا ہو گئے اور وقت قضا پایا گیا لیکن وہ ان کو پورا نہیں کر سکا۔ اگر وصیت نہ کی ہو اور ولی نے تبرعاً کفارہ دیا تو یہ میت کے ذمہ جو کچھ ہے، اس کے لیے جائز ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور اگر وارثوں نے اس کے لیے کفارہ ادا نہ کیا، تو ان پر یہ واجب نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور بغیر میت کی اجازت کے انجام نہیں دی جا سکتی۔ تاہم اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ جائز ہوگا اور اس کے لیے ثواب ہوگا جیسا کہ “الاختیار” میں ہے۔ اگر ولی نے اس کی طرف سے روزہ یا نماز قضا کی، تو یہ میت کے ذمہ واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر وہ ان کا ثواب میت کو دیتا ہے، تو یہ جائز ہوگا۔

اس پر، وصی کی طرف سے میت کے روزوں کے فدیے کی مقدار فطرہ کے برابر ہوگی، مقدار اور جنس کے لحاظ سے، اور قیمت کی ادائیگی بھی جائز ہوگی، چاہے وہ فقیر کو مجموعی طور پر دی جائے یا قیمت کے حساب سے۔ تعداد اور مقدار کی کوئی شرط نہیں ہے، لیکن اگر فقیر کو نصف صاع گندم یا اس کی قیمت سے کم دیا جائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، جبکہ فطرہ کے بارے میں ایک قول کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح، ولی اگر قسم کے کفارے کے لیے کپڑے یا کھانے کا تبرع کرے تو یہ جائز ہے، لیکن غلام آزاد کرنے کے لیے نہیں، اور قتل کے کفارے کے لیے بھی نہیں۔ اگر میت نے وصیت کی ہو تو فدیہ کے معاملے میں قسم اور قتل دونوں کا فدیہ دینا درست ہوگا۔

اگر وارث نے زکوٰة، حج، اور کفارہ میں میت کی طرف سے تبرع (اختیاری طور پر) کیا تو یہ بلا اختلاف جائز ہوگا۔ اور اگر میت نے ظہار یا رمضان کے روزے کے کفارے میں، اس کی عمر کے بڑھاپے یا افلاس کے سبب غلام آزاد کرنے یا روزہ رکھنے سے معذور ہونے کی وجہ سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا، تو یہ کفایت کرے گا اور مشہور قول کے مطابق اس فدیہ میں اباحت (اجازت) کافی ہوگی۔ اور اگر میت کے ورثاء نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی نمازوں کا کفارہ ادا کیا تو یہ جائز نہ ہوگا، اسی طرح روزوں کا کفارہ بھی جائز نہیں ہوگا، لیکن حج کے معاملے میں یہ مختلف ہے۔ ہاں، اگر کوئی روزہ یا نماز میت کی طرف سے رکھے اور اس کا ثواب میت کو دے دے، تو یہ جائز ہوگا، چاہے وہ غیر ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ نسائی کے حدیث کے مطابق کسی کو دوسرے کی طرف سے روزہ نہیں رکھنا چاہیئے اور نہ ہی کسی کو دوسرے کی طرف سے نماز پڑھنی چاہیئے، بلکہ اس کے ولی کو اس کی طرف سے کھانا کھلانا چاہیئے۔”

“لیکن یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ اور بخاری و مسلم میں بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: ‘میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے باقی ہیں، کیا میں ان کی قضا کروں؟’ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘اگر تمہاری ماں کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟’ اس شخص نے کہا: ‘جی ہاں’، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔’ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ راوی کا فتویٰ اس کے مروی کے خلاف ہے، اور یہ ناسخ روایت کے درجے میں آتی ہے۔”

“امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘میں نے مدینہ کے کسی صحابی یا تابعی سے نہیں سنا کہ انہوں نے کسی کو دوسرے کی طرف سے روزہ رکھنے یا نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو۔’ یہ بات نسخ کی تائید کرتی ہے اور یہ حکم شریعت میں مستقر ہو چکا ہے۔”

“اور محمد رحمہ اللہ نے فدیہ کی ادائیگی کے بارے میں کہا کہ ‘یہ ان شاء اللہ کافی ہوگا’۔ بعض نے کہا کہ ‘ان شاء اللہ’ کا لفظ جواز کے لیے نہیں بلکہ قبولیت کے لیے استعمال ہوا ہے جیسے دیگر عبادات میں ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ محمد رحمہ اللہ نے بڑے شیخ کے فدیہ میں جزم کے ساتھ کہا ہے اور اس کے برعکس عذر یا بغیر عذر کے روزہ نہ رکھنے والے کے لیے مشیئت کو معلق کیا ہے۔ اور اسی طرح اس نے نماز کے فدیہ کو بھی اسی وجہ سے معلق کیا ہے۔”

“فتح القدیر میں کہا گیا ہے کہ نماز کا معاملہ روزے کی طرح ہے، کیونکہ مشائخ کا استحسان یہی ہے کہ روزے اور کھانا کھلانے کے درمیان شرعی طور پر مماثلت ثابت ہے اور نماز اور روزے کے درمیان بھی یہی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اور جب کسی چیز کی مماثلت ثابت ہو جائے تو اس کے لیے بھی وہی حکم ہوتا ہے، لہذا احتیاط کے طور پر فدیہ واجب ہوگا۔ اگر حقیقت میں یہ مماثلت ثابت ہو جائے تو مقصد حاصل ہو جائے گا جو کہ فریضہ ساقط ہونا ہے، ورنہ یہ ایک ابتدائی نیکی ہوگی جو گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔”

“اور اسی لیے محمد رحمہ اللہ نے کہا: ‘یہ ان شاء اللہ کافی ہوگا’ بغیر جزم کے، جیسا کہ اس نے وارث کے تبرع کے بارے میں کہا کہ ‘کھانا کھلانے میں کوئی شک نہیں’۔ اور اسی لیے وصیت کی ادائیگی میں جزم کے ساتھ کہا۔”

“یہ کہنا کہ ‘جائز ہے’ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ صدقہ ہے اور اپنے مقام پر واقع ہو رہا ہے تو یہ درست ہے، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ میت کے ذمہ واجب وصیت کا خاتمہ ہو گیا ہے، جبکہ وہ اپنی موت کے وقت اس میں کوتاہی پر مصر تھا، تو اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اور جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ مؤول( کئی معانی میں سے ایک معنی کا ترجیح دی جائے) ہیں۔”

“اسماعیل نے ‘المجتبى’ سے کہا: ‘میں یہ نہیں مانع (رکاوٹ)دیکھتا کہ اس سے مراد آخرت میں میت کے ذمہ سے روزے کی مطالبہ کی معافی ہے، اگرچہ اس پر تاخیر کا گناہ باقی رہے گا، جیسا کہ اگر کسی شخص کے ذمہ کسی دوسرے کا قرض ہو اور وہ اسے تاخیر میں ڈالے رکھے یہاں تک کہ وہ مر جائے، پھر اس کا وصی یا کوئی اور اس کا قرض ادا کرے، تو اس کی تاخیر کا گناہ باقی رہے گا، اور جواز کی شرط مشیئت کے ساتھ معلق کی جائے گی، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔”

“اور اسی طرح علامہ تمرتاشی نے کہا ہے کہ اگر کسی نے میت کی طرف سے روزہ یا نماز ادا کی، تو یہ جائز نہیں ہے کہ میت کے ذمہ واجب روزہ یا نماز کو ادا کیا جائے، البتہ اگر اس نے روزے یا نماز کا ثواب میت کو ہدیہ کیا، تو یہ جائز ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ‘جائز ہے’ کا مطلب میت کے ذمہ سے فرض کا ساقط ہونا ہے تاکہ تقابل بہتر ہو سکے۔

بحر میں ہے کہ ولی میت یا ولی مریض اور مسافر ہر دن کے روزے کی طرف سے فدیہ کے طور پر صدقہ فطر کی طرح کھانا کھلائے، بشرطیکہ انہوں نے وصیت کی ہو، کیونکہ وہ اس وقت روزہ رکھنے سے عاجز تھے اور اسی لیے وہ شیخ فانی کی طرح شمار کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان پر واجب ہے کہ جتنے دنوں کا روزہ ان پر باقی تھا، اتنے دنوں کے فدیہ کی وصیت کریں۔

اگر کہا جائے کہ ‘ولی اس شخص کے لیے کھانا کھلائے جو رمضان کے روزے کی قضا کا ذمہ دار ہو کر مر گیا ہو’، تو یہ زیادہ جامع ہوگا، کیونکہ یہ حکم مریض اور مسافر تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جو بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑ دے اور اس پر قضا واجب ہو۔

ولی سے مراد وہ شخص ہے جو میت کے مال کی تقسیم کے بعد اس کی طرف سے تصرف کا حق رکھتا ہو، اور اس میں اس کا وصی بھی شامل ہے۔ صدقہ فطر کے ساتھ اس کی مشابہت فدیہ کے مقدار کے اعتبار سے ہے، یعنی ہر دن کے روزے کے فدیہ کے طور پر آدھا صاع گیہوں کھلایا جائے، نہ کہ ہر اعتبار سے مشابہت ہو۔ کیونکہ یہاں اباحت (اجازت) کافی ہے، اسی لیے ‘کھلانا’ کا لفظ استعمال کیا گیا، نہ کہ ‘دینا’، کیونکہ صدقہ فطر میں تمیلک (ملکیت) شرط ہے اور اباحت کافی نہیں ہے۔

وصیت کا قید اس لیے لگایا گیا ہے کیونکہ اگر میت نے حکم نہ دیا ہو تو ورثاء پر کوئی چیز لازم نہیں آتی، جیسے زکوٰة میں، کیونکہ یہ حقوق اللہ میں سے ہے اور اس میں وصیت کی ضرورت ہے تاکہ اختیار کی تصدیق ہو سکے، سوائے اس کے کہ میت عشر (فصل کی پیداوار کا دسواں حصہ) ادا کرنے سے پہلے فوت ہو جائے، تو یہ میت کے ترکہ سے بغیر وصیت کے نکالا جائے گا، کیونکہ عشر کی شدت سے تعلق مال کے ساتھ ہوتا ہے، جیسا کہ بدائع میں ہے۔

اس کے باوجود، اگر ورثاء تبرع (اختیاری طور پر) کریں، تو یہ ان شاء اللہ کافی ہوگا۔ اسی طرح کفارہ قسم اور قتل کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر ورثاء کھانا کھلانے یا کپڑے دینے کا تبرع کریں، تو جائز ہے، لیکن غلام آزاد کرنے کا تبرع جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس میں میت کی رضامندی کے بغیر اس کے لیے ولایت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اور وصیت کی طرف اشارہ کیا کہ یہ تہائی مال سے معتبر ہے ، اور یہ کہ نماز بھی روزے کی طرح ہے، کیونکہ دونوں حقوق اللہ میں شامل ہیں، بلکہ نماز زیادہ اہم ہے۔ اور یہ کہ حقوق اللہ میں بھی اسی طرح کا معاملہ ہوگا، چاہے وہ مالی ہو یا بدنی، یا محض عبادت ہو، یا اس میں مؤنہ (خرچ) کا معنی شامل ہو، جیسے صدقہ فطر، یا اس کے برعکس، جیسے عشر، یا محض مؤنہ ہو، جیسے نفقات، یا اس میں سزا کا معنی شامل ہو، جیسے کفارات۔

اور یہ کہ ولی نہ میت کی طرف سے روزہ رکھے گا اور نہ نماز پڑھے گا۔ اور ہم نے اس بات کو قید لگائی ہے کہ وہ دونوں نے کچھ دن گزارے ہوں، کیونکہ اگر وہ اس سے پہلے مر گئے تو ان پر وصیت واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر وہ وصیت کریں تو ان کی وصیت صحیح ہوگی، کیونکہ اس کی صحت واجب ہونے پر موقوف نہیں ہے۔

یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے اعتکاف کو اپنے اوپر واجب کیا، پھر مر گیا، تو اس کی طرف سے ہر دن کے لیے آدھا صاع گیہوں کھلایا جائے گا، کیونکہ اس کی ادائیگی کا امکان ختم ہو گیا، لہٰذا روزے کے فدیہ کی طرح اس کا فدیہ بھی کھانا کھلانا ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ جو عبادت بدنی ہے، اس کا ولی میت کے بعد اس کی طرف سے ہر واجب کی قضا کے طور پر کھانا کھلائے گا، جیسے صدقہ فطر، اور جو عبادت مالی ہے، جیسے زکوٰة، اس کا ولی میت کی طرف سے واجب مقدار ادا کرے گا، اور جو عبادت دونوں کا مرکب ہے، جیسے حج، اس کا ولی میت کی طرف سے کسی شخص کو حج کے لیے بھیجے گا اور یہ سب کچھ میت کے مال سے ہوگا۔

“اور اسی میں علامہ تمرتاشی نے اشارہ کیا ہے کہ اگر مسافر نے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور موت سے قبل ان کی قضا نہیں کی، تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہے، کیونکہ شیخ فانی (بوڑھا شخص) اگر مسافر ہو اور اقامت سے پہلے مر جائے تو اس پر فدیہ کی وصیت واجب نہیں ہے، کیونکہ وہ اس معاملے میں دوسروں سے مختلف ہے کہ اس کے لیے تخفیف (آسانی) ہے، نہ کہ تغلیظ (سختی)۔

لیکن شارحین نے اس کو قیل (کہا گیا) کے صیغے میں ذکر کیا ہے، اور یہ کہنا چاہیئے کہ فدیہ واجب نہیں ہے، حالانکہ پہلی بات یہی ہے کہ اس پر جزم کیا جائے، کیونکہ یہ بات پہلے ذکر کی گئی ہے اور یہ فقہاء کے کلام میں صریح نہیں ہے، اس لیے انہوں نے اس پر جزم نہیں کیا۔

اور اس وجہ سے بھی کہ فدیہ صرف اس روزے کا ہو سکتا ہے جو خود واجب ہو، نہ کہ کسی اور چیز کا بدل ہو۔ لہٰذا رمضان اور اس کی قضا کا فدیہ ہو سکتا ہے۔ اور نذر کا بھی فدیہ ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی نے ہمیشہ کے روزے کی نذر کی اور وہ روزے رکھنے سے عاجز ہو گیا، تو اسے اجازت ہے کہ وہ کھانا کھلائے اور روزہ چھوڑ دے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ اس کی قضا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اگر وہ اپنی مفلسی کی وجہ سے کھانا کھلانے پر قادر نہیں ہے، تو اسے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیئے۔ اور اگر شدید گرمی کی وجہ سے روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے، تو اسے اجازت ہے کہ وہ افطار کرے اور اسے سردی کے موسم میں پورا کرے، بشرطیکہ اس نے ہمیشہ کے روزے کی نذر نہ کی ہو۔ اور اگر کسی نے کسی خاص دن کے روزے کی نذر کی اور وہ روزہ نہ رکھ سکا یہاں تک کہ بوڑھا ہو گیا، تو اس کے لیے فدیہ دینا جائز ہے۔

اور اگر اس پر قسم کا کفارہ یا قتل کا کفارہ واجب ہوا اور وہ اس کفارہ کو ادا کرنے کے قابل نہ ہو اور وہ بوڑھا شخص ہو گیا جو روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، یا وہ روزہ نہ رکھ سکا اور بوڑھا ہو گیا، تو اس کے لیے فدیہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہاں روزہ ایک بدل کے طور پر ہے۔ اور اسی وجہ سے فدیہ دینے کا اختیار نہیں ہے، جب تک کہ مال کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کی عاجزی نہ ہو۔

فتح القدیر میں بھی اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ اور قاضی خان کے فتاویٰ میں اور غایۃ البیان میں بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگر کوئی محرم (احرام باندھے ہوئے شخص) کسی تکلیف کی وجہ سے اپنا سر منڈوائے اور اس کے پاس قربانی کے لیے جانور نہ ہو یا تین صاع گیہوں نہ ہوں تاکہ وہ چھ مسکینوں میں تقسیم کر سکے اور وہ بوڑھا ہو جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو روزے کے بدلے کھانا کھلانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک بدل ہے۔

فتاویٰ ظہیریہ میں بھی یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بدل کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ اور صدر شہید نے ذکر کیا ہے کہ اگر کسی کے سارے سر میں زخم ہو اور اس نے پٹی باندھی ہو، تو اس پر پٹی پر مسح کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ یہاں اصل حکم موجود ہے، نہ کہ کسی اور چیز کا بدل۔

یہ عبارت بحر الرائق سے ختم ہوتی ہے، اور یہی بات زیلعی، درر، نہر، اور در مختار میں بھی ہے۔ شرنبلالیہ میں کہا گیا ہے: ‘میرا کہنا یہ ہے کہ ورثاء کا قتل کے کفارہ میں کوئی چیز تبرع کے طور پر دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں ابتداءً مومن غلام کو آزاد کرنا واجب ہے، اور ورثاء کا غلام آزاد کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، اور قتل کے کفارہ میں روزہ ایک بدل ہے، اس میں فدیہ جائز نہیں ہے، جیسا کہ بعد میں آئے گا۔ اور قتل کے کفارہ میں کھانا کھلانا اور کپڑے دینا شامل نہیں ہے، لہذا اسے قسم کے کفارہ کے ساتھ شامل کرنا سہو (غلط)ہے۔’

علامہ اقصراوی نے اس کا جواب دیا، جیسا کہ ابو السعود نے مسکین کی حاشیہ میں نقل کیا ہے، کہ ان کی مراد شکار کے قتل سے ہے، نہ کہ انسان کے قتل سے، کیونکہ اس میں کھانا کھلانا شامل نہیں ہے۔

میری رائے ہے کہ اس پر یہ بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ شکار کے قتل میں روزہ اصل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بدل ہے، کیونکہ اس میں واجب یہ ہے کہ اس کی قیمت سے حرم میں قربانی کے لیے جانور خریدے، یا ہر فقیر کو آدھا صاع گیہوں دے، یا ہر آدھے صاع کے بدلے ایک دن کا روزہ رکھے۔ تو سمجھو۔

میں نے کہا کہ زندگی اور موت کے بعد کفارہ ادا کرنے میں فرق ہے، جیسا کہ “کافی نسفی” میں مذکور ہے: اگر کوئی شخص قسم توڑنے یا قتل کی کفارہ کے لیے مجبور ہو اور روزہ رکھنے سے عاجز ہو تو فدیہ جائز نہیں، جیسے کہ جو شخص قربانی یا روزے سے عاجز ہو، کیونکہ یہاں روزہ ایک بدل ہے اور بدل کے لیے کوئی دوسرا بدل نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ مر جائے اور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرے تو وہ اس کے مال کے ایک تہائی سے ادا کیا جا سکتا ہے، اور کپڑے یا کھانے میں صدقہ دینا بھی جائز ہے، کیونکہ غلام آزاد کرنے کی وصیت کے بغیر میت پر غلامی کی پابندی عائد ہو جائے گی، جبکہ کپڑے یا کھانے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ لہذا، اگر وہ مر جائے اور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرے تو یہ صحیح ہے، اور یہ حکم قسم اور قتل کی کفارہ دونوں کے لیے شامل ہے، کیونکہ غلام آزاد کرنے کی وصیت جائز ہے، لیکن صدقہ دینے کی صحت کپڑے یا کھانے کے ساتھ مقید ہے اور غلام آزاد کرنے کی عدم صحت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کفارہ دینے کا مطلب صرف قسم کی کفارہ ہے، کیونکہ قتل کی کفارہ میں کپڑے یا کھانے کا ذکر نہیں ہے۔

کافی کے کلام سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص روزہ رکھنے سے عاجز ہو، جو کہ قسم یا قتل کی کفارہ کے طور پر بدل ہو، اس کے لیے زندگی میں فدیہ جائز نہیں، لیکن اگر وصیت کرے تو جائز ہے، اور اگر اس کے ولی نے اس کے بدلے فدیہ دیا تو وہ قتل کی کفارہ میں جائز نہیں کیونکہ اس میں غلام آزاد کرنا واجب ہے، اور ولی کی طرف سے غلام آزاد کرنے کا فدیہ جائز نہیں، لیکن قسم کے کفارہ میں کپڑے یا کھانے میں فدیہ دینا جائز ہے، نہ کہ غلام آزاد کرنے میں۔

علامہ شیخ اسماعیل نے “درر” کی شرح میں کہا ہے کہ اگر ولی نے فدیہ دیا تو یہ جائز ہے، کیونکہ قتل کی کفارہ میں بھی کھانا شامل ہو سکتا ہے، اور اگر وہ مر جائے اور وصیت نہ کرے اور اس کے ولی نے کھانے میں فدیہ دیا تو یہ جائز ہے۔ مزید یہ کہ ضعیف اور روزہ رکھنے سے عاجز شخص کے لیے روزہ توڑنا واجب ہے اور فدیہ دینا بھی واجب ہے، چاہے مہینے کے آغاز میں ہی کیوں نہ ہو، اور فدیہ میں فقیر کو دینے کی کوئی قید نہیں، اگر وہ مالدار ہو تو فدیہ واجب ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ اگر روزہ خود ایک فرض ہو اور اس کے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہو، تو اگر وہ قسم یا قتل کی کفارہ کے لیے روزہ رکھنے سے عاجز ہو جائے تو فدیہ جائز نہیں، کیونکہ یہاں روزہ ایک بدل ہے۔ اور اگر مسافر ہو اور موت واقع ہو جائے تو وصیت واجب نہیں، اور جب تک وہ عاجز ہے، فدیہ دینے کا حکم برقرار ہے۔

“کنز” کی عبارت “وہ فدیہ دے گا” اشارہ کرتی ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور پر فدیہ لازم نہیں، کیونکہ بیماری یا سفر میں قضا کی گنجائش ہوتی ہے، اور موت کے بعد فدیہ کی وصیت واجب ہو جاتی ہے۔

قوله “ولو في أول الشهر” (یعنی مہینے کے آغاز میں فدیہ دینا) کا مطلب یہ ہے کہ اسے اختیار ہے کہ فدیہ مہینے کے شروع میں دے یا آخر میں، جیسا کہ “البحر” میں ہے۔ قوله “وبلا تعدد فقير” (یعنی فدیہ ایک فقیر کو دینا ہوگا) کے برعکس، جیسے قسم کے کفارے میں تعدد کا ذکر کیا گیا ہے، اس صورت میں اگر کسی نے یہاں ایک مسکین کو دو دنوں کا فدیہ دیا تو جائز ہے، لیکن “البحر” میں “القنية” سے منقول ہے کہ امام ابو یوسف سے اس بارے میں دو روایات ہیں، اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، جیسے کہ قسم کے کفارے میں۔ اور امام ابو یوسف سے یہ روایت ہے کہ اگر کسی نے ایک دن کا نصف صاع گندم ایک مسکین کو دیا تو جائز ہے۔ حسن نے کہا کہ ہم اسی پر عمل کرتے ہیں، اور اسی طرح “القهستانی” میں بھی ہے۔

قوله “لو موسرا” (اگر مالدار ہو) یہ اس بات کی قید ہے کہ فدیہ واجب ہوگا۔ قوله “وإلا يستغفر الله تعالى” (اور اگر مالدار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے) یہ بات “الفتح” اور “البحر” میں ذکر کی گئی ہے، نذر کی اس صورت کے بعد جب کوئی شخص روزے کے بجائے اپنی معاش میں مشغول ہو جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ بات نذر کے مسئلے کی طرف راجع ہے نہ کہ ضعیف اور روزہ نہ رکھ سکنے والے شیخ کے مسئلے کی طرف، کیونکہ اس نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی، برعکس نذر کرنے والے کے، کیونکہ اس نے روزے کے بجائے اپنی معاش میں مشغول ہو کر کچھ حد تک کوتاہی کی ہے، حالانکہ اس کا مشغول ہونا واجب تھا، کیونکہ اس میں اس نے اپنی ذات کے فائدے کو ترجیح دی ہے، لہذا اس پر غور کرنا چاہیئے۔

قوله “هذا” (یعنی ضعیف شیخ پر فدیہ واجب ہے)۔ قوله “أصلا بنفسه” (یعنی بذات خود واجب روزہ، جیسے رمضان اور اس کی قضا اور نذر کے روزے)۔ جیسا کہ اس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جس نے ہمیشہ روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، اور اسی طرح اگر کسی نے مخصوص روزہ نذر کیا اور اسے پورا نہ کیا یہاں تک کہ وہ ضعیف ہو گیا، تو اس کے لیے فدیہ دینا جائز ہے، جیسا کہ “البحر” میں ہے۔

قوله “حتى لو لزمه الصوم” (یہاں تک کہ اگر اس پر روزہ لازم ہو) یہ ایک فرعی مسئلہ ہے جو مذکورہ قاعدے پر مبنی ہے۔ قوله “أصلا بنفسه” (بذات خود واجب روزہ) اور اس میں قسم اور قتل کی کفارہ کی قید لگائی گئی ہے تاکہ وہ کفارہ ظہار اور افطار سے ممتاز ہو سکے، اگر وہ غلام آزاد کرنے سے عاجز ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو تو وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتا ہے، کیونکہ یہ روزہ کا بدل بن گیا ہے، اور قسم کی کفارہ میں کھانا کھلانا روزہ کا بدل نہیں ہوتا، بلکہ روزہ کھانے کا بدل ہے، جیسا کہ “سراج” میں ہے۔

قوله “لم تجز الفدية” (زندگی میں فدیہ جائز نہیں) بخلاف اس کے کہ اگر وصیت کرے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔ قوله “ولو كان” (اور اگر وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو) یہ بات اس پر مبنی ہے جو پہلے بیان ہوا کہ روزہ اس پر لازم تھا۔

قوله “لم يجب الإيصاء” (وصیت واجب نہیں) شارحین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ بعض نے کہا کہ وصیت واجب نہیں، کیونکہ ضعیف شخص میں کمی کی گنجائش ہے نہ کہ سختی کی، اور “البحر” میں ذکر کیا گیا ہے کہ وصیت کا وجوب اس بات پر مبنی ہے کہ مسافر اگر دوران سفر مر جائے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں۔ لہذا، اگر فقہاء کے کلام میں یہ بات صریح نہ ہو تو وہ اس پر یقین نہیں کرتے۔

قوله “ومتى قدر” (اور جب بھی وہ طاقتور ہو جائے) یعنی ضعیف شخص فدیہ دے گا اور روزہ چھوڑے گا۔

قوله “شرط الخلفية” (روزہ کا بدل ہونا)۔ قوله “المشهور نعم” (مشہور قول ہے کہ ہاں) یعنی جو حکم کھانا کھلانے کے بارے میں وارد ہوا ہے، اس میں اباحت اور ملکیت دونوں جائز ہیں، بخلاف اس کے جو ادا کرنے اور دینے کے لفظ سے وارد ہوا ہے، کیونکہ وہ ملکیت کے لیے مخصوص ہے، جیسا کہ “القهستاني” اور دیگر کتب میں ہے۔

“اور اگر کسی نے اپنی نمازوں کے بدلے میں مرض کی حالت میں فدیہ دیا تو یہ درست نہیں، بخلاف روزے کے۔ یہ “التاتارخانية” میں “التتمة” سے منقول ہے۔ حسن بن علی سے سوال کیا گیا کہ کیا مرض الموت میں نمازوں کا فدیہ دیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ اور امام ابو یوسف سے سوال کیا گیا کہ کیا ضعیف بوڑھے پر زندگی میں نمازوں کا فدیہ دینا واجب ہے جیسے کہ روزے کا فدیہ واجب ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: نہیں۔

“القنية” میں ہے کہ زندگی میں نماز کا فدیہ نہیں ہے، بخلاف روزے کے۔ میں (مصنف) کہتا ہوں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نص (شرعی حکم) میں ضعیف بوڑھے کے بارے میں آیا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور زندگی میں فدیہ دے۔ حتیٰ کہ اگر مریض یا مسافر روزہ نہ رکھے تو ان پر قضا واجب ہوگی اگر انہوں نے دوسرے دن پائے، ورنہ ان پر کچھ واجب نہیں۔ اگر وہ دن پائیں اور روزہ نہ رکھیں تو ان پر فدیہ کی وصیت واجب ہوگی۔

اس کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیف بوڑھے کے علاوہ کسی کے لیے زندگی میں روزے کا فدیہ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے کوئی نص موجود نہیں ہے، اور اسی طرح نماز کا بھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ روزے کی قضا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان پر قضا واجب ہوتی ہے، اور ان پر فدیہ واجب نہیں ہوتا جب تک کہ موت کی حالت میں ان کی عاجزی ثابت نہ ہو، اور پھر ان پر وصیت واجب ہوگی۔ بخلاف ضعیف بوڑھے کے کہ ان کی عاجزی موت سے پہلے ہی ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ نہ تو روزہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی قضا کر سکتے ہیں، لہذا ان کے لیے زندگی میں فدیہ دینا جائز ہے۔ لیکن نماز کے بارے میں ان کی عاجزی ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں اس کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں، چاہے وہ صرف سر کے اشارے سے ہو۔ اگر وہ اس سے بھی عاجز ہوں، اور اگر چھ یا زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو ان پر قضا واجب نہیں ہوگی، اگرچہ وہ بعد میں اس کی استطاعت حاصل کرلیں۔

“التنویر” اور “الدر” میں ہے کہ اگر کسی کی موت واقع ہو جائے اور اس پر فوت شدہ نمازیں باقی ہوں، اور اس نے کفارہ کی وصیت کی ہو، تو ہر نماز کے لیے آدھا صاع گندم دیا جائے گا، جیسے فطرہ میں دیا جاتا ہے۔ وتر اور روزے کا بھی یہی حکم ہے، اور یہ مال کے ایک تہائی سے دیا جائے گا۔ اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو، تو اس کا وارث نصف صاع قرض لے اور اسے فقیر کو دے، پھر وہ فقیر اسے وارث کو واپس کرے، اور اسی طرح سلسلہ جاری رہے یہاں تک کہ مکمل ہو جائے۔ اور اگر ورثاء نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے نمازوں کی قضا کی تو یہ جائز نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بدنی عبادت ہے، بخلاف حج کے کہ اس میں نیابت (کسی اور کی طرف سے ادا کرنا) جائز ہے۔ اگر فقیر کو نصف صاع سے کم دیا گیا تو یہ جائز نہیں ہوگا، اور اگر پورا دے دیا تو جائز ہوگا، برخلاف قسم، ظہار، اور افطار کے کفارے کے۔

“متن الملتقى” اور اس کی شرح “مجمع الأنهر” میں شیخ زادہ نے فرمایا کہ “قضا واجب ہے جتنی نمازیں فوت ہوئی ہوں، اگر مریض ٹھیک ہو جائے، چاہے کم ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ شرط قدرت ہے نہ کہ صحت، اور صحت کا ہونا قدرت کے لیے ضروری نہیں ہے، جیسا کہ “الاصلاح” میں ہے۔” اور اگر مسافر واپس آ جائے تو بھی جتنی نمازیں فوت ہوئیں ہوں اتنی ہی قضا واجب ہوگی، بشرطیکہ اس نے بیماری یا سفر کی مدت کے برابر وقت پایا ہو۔ اور اگر مریض صحت یاب نہ ہو یا مسافر واپس نہ آئے اور اس مدت سے کم وقت پایا اور پھر مر گیا، تو جتنی نمازیں فوت ہوئیں ہوں اتنی ہی قضا واجب ہوگی، اور اس کے وارث کو چاہیئے کہ وہ فدیہ ادا کرے، جیسے فطرہ دیا جاتا ہے، چاہے وہ عین مال ہو یا اس کی قیمت۔ اگر کسی کو بیماری یا سفر کی وجہ سے پانچ دن کے روزے فوت ہو جائیں اور وہ پانچ دن زندہ رہے بغیر قضا کے، پھر مر جائے، تو اس پر پانچ دن کا فدیہ واجب ہوگا۔ اور اگر پانچ دن کے روزے فوت ہوئے اور وہ تین دن زندہ رہا، تو اس پر صرف تین دن کا فدیہ واجب ہوگا۔”

“اور (ورثاء کے لیے لازم ہے) یعنی ورثاء پر واجب ہے کہ وہ (فدیہ دیں) مورث کے (مال کے ایک تہائی سے) اگر اس کا کوئی وارث ہو، اور اگر وارث نہ ہو تو پورے مال سے (جبکہ مورث نے) وصیت کی ہو۔ اس میں یہ ہے کہ وصیت کرنا واجب ہے اگر اس کے پاس مال ہو، جیسا کہ “المنية” میں ذکر ہے۔ یہ حکم خاص طور پر مریض اور مسافر کے لیے نہیں بلکہ اس میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے عمداً روزہ چھوڑا ہو اور ان پر قضا واجب ہو یا کسی عذر کی بنا پر۔ اسی طرح ہر جسمانی عبادت کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔

اور اگر وصیت نہ کرے (تو ورثاء پر فدیہ لازم نہیں ہے) کیونکہ یہ عبادت ہے، اور اس کے لیے وصیت کا حکم ضروری ہے۔ امام شافعی کے برخلاف، ہمارے نزدیک (اگر وصی) بغیر وصیت کے (فدیہ ادا کرے) تو یہ درست ہے اور اس کو اس کا ثواب ملے گا۔ اس اختلاف کا اطلاق زکوٰۃ اور نماز پر بھی ہوتا ہے۔

فرض نماز ہو یا واجب جیسے وتر، اس میں امام صاحب کا قول ہے اور دونوں شاگردوں (یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد) کے نزدیک وتر سنن کی مانند ہے، اس لیے اس کی وصیت واجب نہیں۔ “الجوهرة” میں بھی اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔

(روزہ اور ہر نماز کا فدیہ ایک دن کے روزے کی مانند ہے) یعنی جیسے روزے کا فدیہ دیا جاتا ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ (یہ درست ہے)۔ اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ بعض نے کہا کہ ایک دن اور رات کی نماز کا فدیہ اس دن کے روزے کے برابر ہے، اگر معسر (تنگدست)ہو۔ محمد بن مقاتل نے پہلے بغیر اعسار (تنگی)کے قید کے کہا، پھر رجوع کیا۔ قیاس یہی ہے کہ نماز کا فدیہ جائز نہیں، اور اسی طرف البلخي نے بھی رجوع کیا ہے۔

اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کسی نے نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کی، نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور شیطان کے دھوکے میں آ گیا، پھر اپنی عمر کے آخری حصے میں نادم ہوا اور فدیہ کی وصیت کی، تو یہ کافی نہیں ہوگا۔ لیکن “المستصفى” میں اس کے جواز کی دلیل ملتی ہے، اور یہ بھی کہ اگر اس نے فدیہ کی وصیت نہ کی ہو اور اس کے وارث نے فدیہ دیا ہو، تو یہ جائز ہے۔

اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ یہ ایک مستحسن عمل ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا، اور فدیہ دفن سے پہلے دینا بہتر ہے، اگرچہ دفن کے بعد بھی جائز ہے، جیسا کہ “القہستانى” میں ہے۔

اور اس کے ولی پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس کی طرف سے روزہ رکھے یا نماز ادا کرے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: “کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی کوئی کسی کی طرف سے نماز ادا کر سکتا ہے، لیکن وہ کھانا کھلا سکتا ہے۔” امام شافعی کے برخلاف یہ حکم ہے۔

جب تم یہ جان چکے تو معلوم ہو کہ اگر کوئی غیر شخص میت کی طرف سے تبرعاً فدیہ دے تو یہ کافی نہیں ہوگا، کیونکہ ان کی عبارات میں “ولی” کا لفظ آیا ہے۔ اور “ولی” سے مراد وہ شخص ہے جو وصی ہو یا وراثت کی وجہ سے میت کے مال کا تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ یہ بات “سيدي الوالد” نے “الدر” کے حاشیہ میں اور “شفاء العليل” میں واضح کی ہے۔

میں نے کسی اور کے بارے میں نہیں پڑھا جو کہ غیر شخص کے تبرع کو جائز قرار دیتا ہو، سوائے علامہ شرنبلالی کے، اور ان کی پیروی علامہ شیخ اسماعیل نے “شرح الدرر” میں کی، لیکن انہوں نے اس کی نسبت کسی اور کے ساتھ نہیں کی۔ لیکن دیگر کتب میں، متون، شروح، اور حواشی میں، “ولی” کی شرط ذکر کی گئی ہے اور یہ شرط ضروری ہے۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ شرط اتفاقی ہے کیونکہ اس طرح کی بات کو رائے سے بیان نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب سیدنا امام محمد نے صراحت کی ہو کہ اگر کسی پر رمضان کی قضا ہو اور وہ بڑھاپے کی وجہ سے ادا نہ کر سکے، تو اس کے ورثاء اس کی وصیت کے بغیر بھی فدیہ دے سکتے ہیں، جیسا کہ اس کا نص آنے والا ہے۔

البتہ، اگر غیر شخص کے تبرع کو جائز مانا جائے، اور وہ بھی ان علماء میں سے ہو جن پر متأخرین نے اعتماد کیا ہے، تو بھی یہ ظاہر ہے کہ یہ مذهب کی عبارات کے ظاہر کے برخلاف ہے، جنہیں مذهب کی کتابوں میں دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر جب نص میں ورثاء کی قید ہے، جیسا کہ تم نے دیکھا اور سنا۔ لہذا احتیاط یہی ہے کہ اس عمل کو “ولی” کے ذریعے انجام دیا جائے تاکہ ذمہ بری ہو جائے۔ اور اگر “ولی” اس عمل کو درست طریقے سے نہیں کر سکتا، تو اس کے سامنے کسی ایسے شخص کو بٹھایا جائے جو اس عمل کو اچھی طرح جانتا ہو، تاکہ “ولی” خود اس عمل کو انجام دے سکے۔

سیدنا امام محمد نے الزیادات میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جس شخص پر رمضان کی قضا واجب ہو اور وہ بڑھاپے کی وجہ سے قضا ادا کرنے سے قاصر ہو، تو اس کے لیے فدیہ دینا جائز ہے کیونکہ یہ بذاتِ خود ایک اصل (یعنی بنیاد) ہے۔ اور اگر وہ فوت ہو جائے اور وصیت کرے کہ اس کی طرف سے فدیہ دیا جائے، یا اس کے ورثاء بغیر وصیت کے اس کی طرف سے فدیہ دیں، تو یہ ان شاء اللہ تعالیٰ کافی ہوگا۔ اور عتابی نے وضاحت کی ہے کہ اس میں “ان شاء اللہ” کی شرط دو باتوں پر منحصر ہے۔

فقہاء نے “ان شاء اللہ” کی شرط لگائی ہے کیونکہ اس بارے میں کوئی واضح نص نہیں ہے۔ اسی طرح، فقہاء نے اگر کوئی شخص نماز کے فدیہ کی وصیت کرے، تو اس کی قبولیت کو بھی “ان شاء اللہ” کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے احتیاطاً نماز کو روزے کے ساتھ ملحق کیا ہے، اس احتمال کے پیش نظر کہ شاید اس نص کا تعلق بھی عجز سے ہو، جو کہ نماز کو بھی شامل کر لے، اگرچہ یہ عجز کے ساتھ مشروط نہ ہو، پھر بھی فدیہ ایک نیکی ہوگی جو گناہوں کو مٹانے کے قابل ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص روزے کے فدیہ کی وصیت نہ کرے اور اس کا ولی تبرعاً اس کی طرف سے فدیہ دے، تو یہ جائز ہے، جیسا کہ ہمارے علمائے کرام نے اس کی نص کی ہے۔

میرے والد صاحب کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ “ولی” کی قید کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر کے مال سے فدیہ دینا جائز نہیں ہوگا۔ اس کی مثال اس قول سے بھی ملتی ہے کہ اگر کسی شخص نے فرض حج کی وصیت کی ہو، اور وارث اس کی طرف سے حج کرے، تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر اس نے وصیت نہ کی ہو اور وارث نے خود حج کیا ہو یا کسی دوسرے کو حج کروایا ہو، تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ یہ جائز ہوگا، کیونکہ حدیث خثعمیہ میں اس کا موازنہ لوگوں کے قرض کے ساتھ کیا گیا ہے۔

اس میں یہ بھی ہے کہ اگر وارث بغیر وصیت کے قضا کرے، تو یہ بھی کافی ہوگا۔ اسی طرح المبسوط میں ہے کہ اگر وارثوں کے ذریعے حجة الاسلام ادا ہو جائے، تو یہ مکتبہ فقہاء کے نزدیک جائز ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان ایک معاملہ ہے۔ اس لیے جواز کو “ان شاء اللہ” کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔

ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی غیر وارث تبرعاً فدیہ دے، تو یہ کافی نہیں ہوگا، اگرچہ اس کا ثواب میت کو پہنچ جائے گا، جیسا کہ شفاء العليل میں بھی ذکر ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ حدیث میں دین کے ساتھ تشبیہ دینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وارث کی قید لازمی نہیں ہے، کیونکہ دین کو اگر کوئی غیر ادا کرے، تو یہ جائز ہوتا ہے۔

تو میں کہوں گا کہ اللہ بہتر جانتا ہے، اس میں صرف اصل جواز کی تشبیہ دی گئی ہے نہ کہ ہر پہلو سے۔ ورنہ دین کو پورے مال سے ادا کرنا واجب ہوتا ہے، چاہے وصیت نہ کی گئی ہو، جبکہ حج ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ صرف وصیت کے ساتھ واجب ہوتا ہے اور صرف تہائی مال سے ہی ادا کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور اس میں اختیار ضروری ہے، برخلاف حقوق العباد کے، جن میں ضروری ہے کہ وہ حق دار کو پہنچے، اس لیے یہاں ہر پہلو سے تشبیہ نہیں دی گئی، اور تمہاری بات لازم نہیں ہوگی۔

ہاں، بعض متأخرین کے کلام میں آیا ہے کہ “وارث یا اس کا وکیل” اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، اس کے مطابق یہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ وکیل جب فقیر سے مال ہبہ طلب کرے گا، تو یہ اس کا ملک ہو جائے گا نہ کہ وارث کا، اور جب وہ فقیر کو دوبارہ دے گا تو وہ خود ایک غیر ہو جائے گا جو اپنے مال سے دے رہا ہے، جب تک کہ وہ ہر بار اسے ہبہ کرنے اور واپس طلب کرنے کا وکیل نہ ہو۔

اور اگر کوئی شخص کہے “میں نے آپ کو اپنے والد کے روزے یا نماز کے فدیہ کے اخراج کا وکیل بنایا ہے” تو یہ کافی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہبہ اور استہاب(فقیر سے مال مانگنا) کو دہرایا جائے، حتیٰ کہ کام مکمل ہو جائے، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی صراحت نہ کی جائے، کیونکہ عام طور پر وارث نہیں جانتا کہ یہ مال اس کا ہونا چاہیئے، اور اس کو علم نہیں ہوتا کہ وہ اس کے لیے استہاب کے لیے بھی وکیل ہے۔

بلکہ بعض عوام تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وکیل کو کیا کرنا ہوتا ہے، خصوصاً خواتین۔

ہاں، اگر یہ کہا جائے کہ “ولی” کی قید لازمی نہیں ہے، اور یہ ان کے کلام سے ظاہر نہیں ہوتا بلکہ مراد یہ ہے کہ مال اس کے مال یا دوسرے کے مال سے اس کی اجازت سے دیا جائے، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔

“مجھے اپنے زمانے کے بعض مشائخ سے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ (فدیہ کی) لزومیت کے قائل تھے، اور بعض دوسرے لوگوں نے ان پر اعتراض کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص نے ان دلائل کو اپنی نظر سے دیکھا جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ وارث خود اس عمل کو انجام دے یا کسی اور سے یہ کہے کہ ‘میں نے تمہیں وکیل بنایا کہ تم ان فقراء کو یہ مال دو تاکہ فلاں شخص کی طرف سے فدیہ ادا ہو سکے، اور پھر ہر فقیر سے مال واپس لے کر اس عمل کو مکمل کرو۔’

میں کہتا ہوں کہ ان کے اس قول کا مطلب جو کہا ‘اگر آپ کہیں گے…’، تو جو کچھ ان کے عبارات سے ظاہر ہوتا ہے، اور جو ولی کی قید سے متبادر(ذہن میں آنا) ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص وصی یا وارث ہو، اس کے علاوہ کسی دوسرے کی اجازت نہیں ہے، جیسا کہ وہ لوگ جو مذہب کی کتب کو غور سے دیکھتے ہیں، سوائے ان دو عظیم اماموں کے جنہوں نے اس کی تائید کی، اور ان کی پیروی الطحطاوی نے اپنی حاشیہ میں کی۔ اگرچہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا، اس کا حوالہ مذہب کی کتب سے نہیں دیا، لیکن شاید یہ مذہب کا ایک اور قول یا روایت ہو۔ تو جو شخص اس مسئلے میں کچھ دیکھے، وہ اسے واضح کرے، اور اسے اللہ کی طرف سے انعام ملے۔

اور ان کے اس قول کا مطلب ‘ہاں، بعض متاخرین کے کلام میں یہ مسئلہ آیا ہے…’، یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوسرے مرحلے میں جب وہ مال جو اس کے پاس تھا، وہ اس فقیر کو دے چکا ہو اور مال واپس لے چکا ہو، تو وکالت ختم ہو چکی ہوتی ہے، اور وہ اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد، وہ غیر بن جاتا ہے، اور مال جو فقیر سے لیا تھا، وہ اس کا اپنا مال ہو جاتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ وکیل کو مسلسل وکالت دے، تاکہ وہ ہر بار جب وکالت ختم ہو جائے، وکیل بنا رہے، اور یہ اسقاط اور وکالت کے لئے نہ ہو، بلکہ استہاب(فقیر سے مال مانگنا)  کے لئے ہو، جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا۔

اور ان کا قول ‘البتہ، اگر وہ اسے ہبہ کرنے اور واپس لینے کا وکیل بنائے…’، اس میں جو سیدھی بات ہے، وہ سیدھی بات وہ ہے جو میرے والد صاحب نے رحمہ اللہ تعالیٰ نے رد المحتار میں ذکر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرض کے قبضے کی وکالت جائز ہے، لیکن استقراض (قرض طلب)کی نہیں۔”

“اور اسی بنا پر ان کا کہنا کہ استقراض کی وکالت باطل ہے، کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں یہ رسالت ہے نہ کہ وکالت۔ لہذا اگر بات کو وکالت کے طور پر بیان کیا جائے تو یہ درست نہیں ہوگا، بلکہ اسے رسالت کے طور پر بیان کرنا ضروری ہے جیسا کہ ہم نے کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ صرف استقراض کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر وہ معاملہ جو تملیک (ملکیت کی منتقلی) کا ہو، اگر وکیل طالبِ تملیک کی طرف سے ہو نہ کہ مملک کی طرف سے، تو قرض دینے اور عاریہ (عارضی طور پر کوئی چیز دینے) کی وکالت درست ہے، لیکن استقراض اور استعارت (عارضی طور پر مانگنے) کی نہیں، بلکہ یہ رسالت ہے۔ یہی مجھے سمجھ آیا ہے، اس پر غور کرو۔

جب آپ کو یہ بات معلوم ہوگئی، تو آپ کو یہ بھی واضح ہوگا کہ استیہاب (فقیر سے مال مانگنا) میں وکالت کی صحت نہیں ہے، اور جو کچھ انہوں نے استیهاب کی وکالت کا ذکر کیا ہے، وہ رسالت پر مبنی ہے یا اس شرط پر کہ وکیل اپنی بات کو رسالت کے طور پر بیان کرے۔ پس اگر اس نے اپنی بات کو رسالت کے طور پر بیان نہیں کیا تو اس نے مال کو اپنی طرف ملکیت میں لے لیا، اور جب اس نے اسے فقیر کو دیا تو یہ ایسا ہوا جیسے کسی اجنبی نے میت کے حق میں مال دیا ہو، اور ہم اسی چیز سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اور ان کا کہنا ‘میں نے تمہیں اپنے والد کی طرف سے روزہ یا نماز کا فدیہ دینے کے لیے وکیل بنایا…’، اس پر میں کہتا ہوں کہ وکالت کی اس صفت کے بدلے میں ہم نے جو بات پہلے بیان کی ہے، وہی کافی ہے کہ ایک دائرے میں وکالت کی جائے۔

اور جہاں تک استيهاب کی بات ہے، تو تم جان چکے ہو کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وکیل اپنی بات کو رسالت کے طور پر بیان کرے تاکہ وہ درست ہو یا اسے رسول بنا دے، یہی اس کا مطلب ہے۔ اور ان کا کہنا ‘یہ کافی نہیں ہوگا…’، یعنی احتیاط اسی میں ہے، خاص طور پر ایسے معاملات میں، خصوصاً جب آپ نے سنا کہ احتیاط اسی میں ہے کہ وارث خود یہ کام انجام دے، اگرچہ عمومی وکالت کافی ہوگی، اگر وہ اسے دائرے کی وکالت دے کہ میت کے ذمے جتنے بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں، انہیں مال کے ذریعے ادا کرے جو اس نے اسے دیا ہے اور اسے ہبہ وصول کرنے کے لیے رسول بنا دے۔

ہاں، اگر وارث جاہل ہو تو اس صورت میں ایسے علم اور تقویٰ رکھنے والے شخص کو وکیل بنانا ضروری ہے جو اس کام کو سمجھتا ہو، تاکہ وہ میت کے ذمے جو کچھ ہے، اس سے نجات دلائے اور اللہ کی مدد سے ذمہ داری سے بری ہو جائے۔ اور ان کا کہنا ‘ہاں، اگر ہم کہیں کہ ولی کی شرط ضروری نہیں…’، یہ مخالف کے ساتھ ایک فرضی صورت کے طور پر نزول ہے، جیسے کہ اگر کوئی دلیل موجود ہو جو اس کے دعوے کی تائید کرتی ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مال کی ادائیگی اس کے مال یا کسی اور کے مال سے اس کی اجازت کے ساتھ ہو، تو ان میں سے کوئی بھی ذکر شدہ امور ضروری نہیں ہوں گے، بشرطیکہ کہ ولی کی شرط ضروری نہ ہو، ورنہ جب کہ یہ واضح ہے کہ یہ خلافِ متبادر اور عبارات کے منطوق کے خلاف ہے، تو معاملہ ظاہر ہوگیا۔

اور ان کا کہنا ‘مجھے اپنے زمانے کے بعض مشائخ سے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ اس کے لزوم کے قائل تھے…’، یہ وہ چیز ہے جسے مضبوطی سے پکڑنا چاہیئے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ اور ان کا کہنا ‘اور بعض نے اس پر اعتراض کیا…’، غالباً ان بعض نے علامہ شرنبلالی کی بات کو دیکھا ہے، اور اس کی دلیل ان کا کہنا ہے ‘اور گویا ہر ایک نے ہماری ذکر کردہ چیزوں میں سے کچھ دیکھا ہے’۔ اور انہوں نے شرح اللباب میں ملّا علی قاری کی شرح میں اس کی تعمیم دیکھی ہوگی، جب کہ متن میں اس کو وارث کے ساتھ مقید کیا گیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ وارث اور دیگر اہلِ خیر دونوں شامل ہیں۔ اور شاید بعض لوگوں نے نماز کو حج پر قیاس کیا، حالانکہ یہ قیاس چار سو سال کے بعد منقطع ہوچکا تھا، اور اگرچہ مساوات کے ساتھ تھا لیکن اس میں کوئی فرق نہیں تھا، اور اسی طرح اس شرط کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا لازم آتا ہے۔

میرے والد سید صاحب نے رحمہ اللہ تعالیٰ نے حج کے بارے میں کہا کہ بظاہر اس شرط میں روایت کا اختلاف ہے۔ پس اگر حج نماز کے مشابہ ہوتا تو یہ واضح نہیں ہوگا کہ احتیاط لازم ہے، اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔”

“اور جہاں تک ان کے قول کا تعلق ہے کہ ‘احوط یہ ہے…’، تو یہ سب کچھ اس وقت ہے جب اس (معاملے) کو اچھی طرح جانتا ہو، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، اور اگر وہ اس معاملے کو اچھی طرح نہیں جانتا تو اسے کوئی ایسا شخص سکھائے جو اس کو جانتا ہو، یعنی علم والے لوگ، اگر ممکن ہو تو، ورنہ وکالت اس معاملے کے جاننے والے علم والوں میں سے کسی کو دے دی جائے۔ اس معاملے میں کوئی سستی نہیں ہونی چاہیئے، کیونکہ اس سے انسان اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غضب سے نجات پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “پس علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو” (النحل: 43)۔

اور جہاں تک ان کے قول ‘وتستوهب لی من کل واحد منهم’ کا تعلق ہے، تو تم نے طریقہ کار اور مراد کو جان لیا ہے، لہٰذا اس سے غافل نہ ہونا۔ پھر یہ جان لو کہ نماز کا فدیہ ان چیزوں میں سے ہے جن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مذہب منفرد ہے، جس کو ان کے مذہب کے مشائخ نے روزے پر قیاس کیا اور اسے مستحسن سمجھا اور اس کا حکم دیا۔ لہٰذا اگر کوئی شافعی، مالکی، یا حنبلی شخص ہماری تقلید کرتا ہے اور نماز کا فدیہ نکالتا ہے، تو اسے چاہیئے کہ اس بات کا لحاظ رکھے اور اس کے مطابق احتیاط کرے، جس کی وہ تقلید کر رہا ہے، اور ان کے مقلدین رحمہم اللہ تعالیٰ کا بھی خیال رکھے، خصوصاً جب کہ اکثر اوقات عین چیز نکالنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ قیمت نکالی جاتی ہے، اور تمام اصناف بھی پوری نہیں ہوتیں، اس لیے اس معاملے کا خیال رکھنا چاہیئے۔

اور جہاں تک ان کے قول ‘إلى أن يتم العمل’ کا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر موجودہ درہم یا وہ رقم جو مستوهب یا مستقرض (مانگی یا قرض لی گئی) ہو، اس مال کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہو جو میت پر واجب ہے، جیسے درہم، دینار، گندم وغیرہ، تو اسے فقیر سے استیہاب (مانگنا) کیا جائے، پھر اس سے وصول کرکے ہبہ مکمل کیا جائے، پھر اسے اس فقیر یا کسی دوسرے فقیر کو دے دیا جائے، تو ہر بار مثلاً ایک سال کی کفارہ ساقط ہوجائے گی، اور اسی طرح یہ سلسلہ میت کی عمر کے مطابق بارہ سال کی مدت کو ختم کرنے تک جاری رہے گا، مرد کے لیے اور عورت کے لیے نو سال کی مدت کے بعد۔ اس کے بعد فدیہ کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا، پھر قربانی کا، پھر قسموں کا، لیکن قسموں کے کفارہ کے لیے دس مسکین ہونا ضروری ہیں، اور ایک ہی دن میں ایک مسکین کو نصف صاع سے زیادہ دینا درست نہیں، کیونکہ ان میں عدد کی پابندی ہے، برخلاف نماز کے فدیہ کے کہ اس کا فدیہ ایک ہی شخص کو دیا جا سکتا ہے۔

زکوۃ کی ادائیگی بغیر وصیت کے بھی دی جا سکتی ہے، اور اگر ان کی کثرت کی وجہ سے ادائیگی مشکل ہو، تو مذکورہ دور کو اختیار کریں، اگرچہ ان کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ وصیت کے بغیر یہ ساقط نہیں ہوتی، کیونکہ نیت اس میں شرط ہے، لیکن سراج میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ وارث کے لیے زکوۃ ادا کرنا جائز ہے۔ قتل کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، روزے کے افطار کا کفارہ، اور نذر کا کفارہ، اگر ان کی کثرت ہو اور ادائیگی مشکل ہو تو مذکورہ دور کو اختیار کیا جائے۔

اگر کسی شخص نے درہم کی نذر مانی ہو اور اس کے پاس درہم کی رقم ہو، تو اسے نذر کی عین رقم ادا کرنے کا ارادہ کرنا چاہیئے۔ اور اگر نذر دیناروں کی تھی اور رقم درہم کی ہو، تو اس کا ارادہ نذر کی قیمت ادا کرنے کا ہونا چاہیئے۔ اسی طرح اگر اس نے نذر مانی ہو کہ وہ ایک بکری ذبح کرے گا اور اس کا گوشت صدقہ کرے گا، تو یہی معاملہ ہوگا۔ اور اگر نذر روزے یا نماز کی ہو، تو ہر روزے یا نماز کے بدلے نصف صاع نکالنا واجب ہے۔

فطرہ دینا ضروری ہے، اور احتیاطاً اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیئے۔ اسی طرح قربانی کا ارادہ کریں اور اس کی قیمت ادا کریں، اگرچہ واجب میں خون بہانا ہوتا ہے، لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب قربانی کے ایام ہوں، اور وہ گزر چکے ہوں۔ سجدہ تلاوت کے بارے میں بھی فطرہ کی طرح نصف صاع گندم احتیاطاً دینا چاہیئے، اگرچہ صحیح بات یہ ہے کہ سجدہ تلاوت پر واجب نہیں ہے، جیسا کہ تاتارخانیہ میں صراحت ہے۔”

“عشر کی زمینوں میں عشر اور خراجی زمینوں میں خراج دیا جائے، جیسا کہ اس کی جگہ میں وضاحت کی گئی ہے۔ اور حرم یا احرام کی بے حرمتی کے بدلے میں، جو خون یا صدقہ کا متقاضی ہو، نصف صاع یا اس سے کم دیا جائے گا، لہٰذا اسے نکالنے کا اہتمام کرنا چاہیئے، یہ کہتے ہوئے کہ ‘یہ حرم یا احرام کی بے حرمتی کے بدلے میں ہے’۔ اور جو حقوق جن کے مالک معلوم نہ ہوں، ان کے بدلے میں اتنی مقدار صدقہ دی جائے جتنی کہ ان کے حقوق کی قیمت ہو۔ پھر اس کے بعد باقی مالی حقوق کی ادائیگی کی جائے، اور پھر باقی جسمانی حقوق کی ادائیگی کی جائے۔ اس کے بعد نفل عبادات کو زیادہ کیا جائے تاکہ نیکیاں بڑھ جائیں جو مخالفین کو راضی کر سکیں۔ پھر اس مال میں سے کچھ نکالا جائے تاکہ ہر فقیر کو اتنا دیا جائے کہ اس کی طبیعت خوش ہو، اور یہ فقراء اور ان لوگوں کی منازل کے مطابق مختلف ہوتا ہے جن کے لیے اسقاط کیا جاتا ہے۔

یہ بات معلوم ہے کہ جس شخص کے وارث ہوتے ہیں، اس کی وصیت کا نفاذ صرف تہائی مال سے ہوتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کی تمام نمازوں کا کفارہ ایک ہی فقیر کو دیا جائے تو جائز ہے۔ اور یہی کفارہ وہ ہے جو ‘اسقاطِ نماز’ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سب کچھ نماز کے بارے میں ہے، اور روزے کا معاملہ بھی نماز کی طرح ہے، سوائے اس کے کہ ایک دن کے روزے کا کفارہ ایک فرض نماز کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے ہر دن کے روزے کے بدلے میں نصف صاع گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو یا ایک صاع جو یا کھجور یا کشمش دی جاتی ہے۔ اس طرح روزے کا کفارہ نماز کے کفارے سے بہت کم ہوتا ہے۔

ایک اور فرق یہ ہے کہ شخص کو خود اپنی نمازوں کا کفارہ نکالنے کی اجازت نہیں، جیسا کہ پہلے بیان ہوا، بلکہ اسے اپنی وفات کے بعد وصیت کے ذریعے نکالنے کی اجازت ہوتی ہے، برخلاف روزے کے کہ اگر وہ بیمار ہو اور صحت یابی کی امید نہ ہو، تو اسے خود روزے کا کفارہ نکالنے کی اجازت ہے، چاہے وہ فانی نہ ہو، یا اگر اس نے ہمیشہ کے روزے کی نذر مانی ہو اور پھر اس کے لیے روزے رکھنا ممکن نہ ہو۔

کہا گیا ہے کہ اصل میں بوڑھے شخص کو ہر سال کا فدیہ نکالنے کی اجازت ہے، اور جب وہ روزے رکھنے کے قابل ہو جائے تو اس کی ادا کی ہوئی رقم باطل ہو جاتی ہے۔ اور یہ معاملہ روزے اور نماز میں مختلف نہیں ہے، جیسا کہ ‘مستصفی’ کے مصنف اور دیگر نے بیان کیا ہے کہ اگر کسی نے بغیر عذر کے روزہ توڑا ہو، تو اس کے لیے وصیت کی جاتی ہے کہ فدیہ نکال دیا جائے اور امید کی جاتی ہے کہ اس کو معاف کر دیا جائے گا۔ اسی طرح نماز کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔

کہا گیا ہے کہ کفارہ اور فدیہ میں، جیسے کہ قسم کا کفارہ، روزے کا فدیہ، اور حج کی غلطیوں کا کفارہ، اس بات کی اجازت ہے کہ فقیر کو اس شرط پر کھانا کھلایا جائے کہ وہ سیر ہو جائے۔ اس کے برعکس زکوٰۃ، فطرہ، اور عشر میں یہ اجازت نہیں۔ اس طرح اگر کوئی شخص کھانا پکائے اور فقیروں کو اس میں مدعو کرے تاکہ اسے قسم کے کفارے، روزے کے فدیہ یا حج کی غلطیوں کے بدلے میں شمار کیا جائے، تو یہ جائز ہے۔ اور تملیک کی شرط نہیں ہے کہ فقیر کو اس کی ملکیت میں کچھ دیا جائے۔

ہاں، شرط یہ ہے کہ ہر فقیر کو دو کھانے ملیں جو اسے سیر کر دیں، اور ان تمام امور میں ایک ہی فقیر کافی ہوتا ہے، سوائے قسم کے کفارے کے، جس کی ادائیگی دس مسکینوں کو کرنی ضروری ہے یا اس کا تکرار دس دن تک کیا جائے۔ اور ایک اہم بات جس پر توجہ دینی چاہیئے، یہ ہے کہ زندگی بھر کی قسمیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا جب کفارے کی ادائیگی کا وقت آئے، تو ان قسموں کو بہت زیادہ کیا جائے، اور پھر ایک ہی کفارہ ان باقی ماندہ زندگی کی قسموں کے بدلے میں ادا کیا جائے، جیسا کہ محمدؒ نے کہا ہے کہ یہ کفارے ایک دوسرے میں شامل ہو جاتے ہیں، جیسا کہ سید الوالد نے ‘بغیہ’ سے شهاب الأئمة کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ اور اصل کے مصنف نے کہا ہے کہ یہ قول مختار ہے، اور میرے نزدیک بھی یہی ہے، اور یہی قہستانی نے ‘منیة’ سے نقل کیا ہے، اور یہی امام احمد بن حنبل کا مذہب ہے۔”

“وصیت کی صورت اور اس کی جائز اور ناجائز صورتیں سیدنا والد نے ‘شفاء العليل’ میں تفصیل سے بیان کی ہیں۔ اس میں سے کچھ چیزوں پر احتیاط کرنا ضروری ہے:

  1. استفسار سے بچنا: فقیر سے یہ نہ کہیں کہ ‘یہ فلاں کی نماز کا کفارہ ہے’ کیونکہ یہ سوال کی صورت میں ہے اور سوال کرنے کا مقصد تصدیق ہوتا ہے، جو کہ غیر موزوں ہے۔ وصیت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ فقیر سے کہے ‘یہ فلاں بن فلاں کی نماز کا کفارہ ہے’ یا ‘یہ فلاں بن فلاں کی نماز کا کفارہ ہے’۔
  2. قبول کرنے میں جلدی سے بچنا: فقیر کو چاہئے کہ وہ قبول کرنے سے پہلے وصیت کرنے والے کے تمام کلام کا انتظار کرے، اور وصیت کرنے والے کو بھی فقیر کے تمام کلام کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔
  3. تھیلی کے دینے میں احتیاط: ہر بار، جب بھی تسلیم کی جائے، اسے مکمل طور پر وصول کرنا ضروری ہے، تاکہ دینے اور لینے کا عمل مکمل ہو جائے۔
  4. قاصر، معتوه، یا غلام کی موجودگی سے پرہیز: اگر وصیت کرنے والا قاصر، غیر بالغ، مجنون، یا غلام کو کچھ دے تو وہ تحفہ درست نہیں ہوگا۔ اس لیے قاصر، مجنون، یا غلام کو کوئی چیز نہ دی جائے۔
  5. غنی یا کافر کی موجودگی سے پرہیز: کسی امیر یا کافر کو اس معاملے میں شامل نہ کریں۔
  6. تھیلی کو غیر مالک یا بغیر اجازت شریک سے استیہاب سے پرہیز: یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کسی ایسے شخص سے نہ قرض لیں یا نہ ہی استیہاب کریں جو مال کا مالک نہ ہو یا بغیر اجازت کے شریک ہو۔
  7. توكيل میں احتیاط: استیهاب یا قرض کے لیے توکیل کرنا چاہئے، لیکن صرف پیغام رسانی کی صورت میں۔ اسے اصل توکیل کے طریقے سے نہیں کرنا چاہیئے۔
  8. غیر کی طرف سے عمل سے پرہیز: اگر کوئی غیر شخص ان معاملات کو بغیر توکیل کے سنبھالے، تو یہ غیر موزوں ہے۔ توکیل یا وصیت کرنے والا ہی ان معاملات کا ذمہ دار ہونا چاہئے۔
  9. سنجیدگی کے ساتھ عمل: وصیت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ فقیر کو ہنسنے یا دھوکہ دینے کی نیت سے کچھ نہ دے، بلکہ اس کو حقیقت میں مالک بنانے کی نیت سے دے۔ اگر فقیر اس چیز کو قبول کرنے سے انکار کرے، تو اس پر زبردستی نہ کی جائے۔
  10. فقیر کی دل شکنی سے بچنا: بعد میں فقیر کی دل شکنی سے بچنا چاہئے، اور اسے اس طرح خوش کرنا چاہئے کہ وہ خوش ہو جائے۔

سیدنا والد نے ‘شفاء العليل’ میں مزید احتیاطی نکات ذکر کیے ہیں جنہیں آپ کو ذہن میں رکھنا چاہیئے۔ ان میں کئی اہم فوائد ہیں جو عام کتب میں شامل نہیں ہیں، اس لیے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا۔

اور لوگوں کے درمیان معروف عتاق، یعنی ‘قل هو الله أحد’ پڑھنے کی اہمیت کو نہ بھولیں، کیونکہ اس کے بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ‘جو شخص ‘قل هو الله أحد’ کو گیارہ بار پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا’۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ‘ہم اس کا کثرت کریں گے، یا رسول اللہ!’ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے بہتر ہے’۔”

“اور اس میں سے ایک روایت ہے جو طبرانی نے فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ‘جو شخص نماز میں یا کسی اور موقع پر سو بار ‘قل هو الله أحد’ پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دیتا ہے’۔ اس حدیث کا ایک شاہد بھی ہے۔

بزار نے انس بن مالک سے مرفوعاً روایت کی ہے: ‘جو شخص ایک لاکھ بار ‘قل هو الله أحد’ پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کی جان خرید لیتا ہے، اور اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ فلاں شخص اللہ کا آزاد کردہ ہے، جس کے پاس اس پر کوئی حق ہو، وہ اسے اللہ تعالیٰ سے لے لے’۔ یہ حدیث اس پر محمول کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے اپنی عمر بھر میں یہ تعداد پڑھی ہو یا یہ نیت خالص ہو۔

علماء اور صوفیاء کا کہنا ہے کہ ایسی حدیثوں میں استناب (کہ دوسرے کو کیا جائے) اور براہ راست عمل دونوں شامل ہیں، اور ہم نے اس کو دونوں جماعتوں کے عمل سے سمجھا ہے، جیسا کہ حدیث استخارہ میں ہے۔ اسی طرح لوگوں کا عمل ‘لا إله إلا الله’ کے ساتھ ستر ہزار مرتبہ پڑھنے پر بھی ہے، اور علماء نے اس کی تعریف کی ہے۔

شیخ الیافعی اور السنوسی کے اقوال بھی اس کے حق میں ہیں، اور قرآن کے فضائل تو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے اعمال بر بھی معروف ہیں۔ اگر یہ اعمال صالحہ اپنے اصل مستحقین تک نہ پہنچیں، تو ان میں خرابی کا اندیشہ ہے، چاہے یہ اعمال اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوں، ریاء اور اجرت سے پاک ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف وہی قبول کرتا ہے جو خالص ہو۔

اجرت لینے کی حرمت پر دلائل موجود ہیں جیسے کہ تلاوت، ذکر، تہلیل، تسبیح، نماز، روزہ وغیرہ پر اجرت لینے کی ممانعت ہے اور اس کی اجرت کا ثواب قاری تک نہیں پہنچتا، صرف تعویذ کی صورت میں اجرت جائز ہے۔ متأخرین نے تعلیمی، اذان اور امامت کو استثنیٰ دیا ہے، اور اس پر دلائل بھی موجود ہیں۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو دے سکتا ہے، اور ثواب صرف اخلاص کے ساتھ ہی ملتا ہے، جسے ‘شفاء العليل’ اور ‘بل الغليل’ میں بیان کیا گیا ہے۔

یاد رکھیں کہ ذکر اور ذاکرین کی فضیلت میں بہت سی احادیث ہیں۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:

  • يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
  • وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُنَّ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
  • وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
  • الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ

صحیحین میں ہے: ‘اللہ تعالیٰ کے فرشتے سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں، اور اہل ذکر کو تلاش کرتے ہیں، جب وہ لوگوں کو ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو کہتے ہیں، آؤ اپنی حاجت پوری کرو، پھر وہ ان کے گرد اپنے پر پھیلادیتے ہیں۔’ آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘میں نے ان کو معاف کر دیا ہے’۔ ایک فرشتہ کہتا ہے، ان میں فلاں بھی ہے جو ان میں شامل نہیں، وہ تو صرف ضرورت کے لیے آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘یہ لوگ ہیں، ان کے ساتھ بیٹھنے والے بھی محروم نہیں رہیں گے۔’

حاکم نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ ایک جماعت کے ساتھ اللہ کا ذکر کر رہے تھے، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: ‘تم کیا کہہ رہے تھے، میں نے رحمت کو تمہارے ساتھ نازل ہوتے دیکھا، میں نے بھی شامل ہونے کی کوشش کی۔’

بزار نے بھی روایت کی ہے کہ اللہ کے ملائکہ اس ذکر کی مجالس کو تلاش کرتے ہیں، اور جب وہ ان کے پاس پہنچتے ہیں تو ان کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں۔”

“پھر وہ کہتے ہیں: ‘اے ہمارے رب، ہمارے بندوں میں سے بعض کو انعامات دینے والا، جو تیری نعمتوں کو عظیم سمجھتے ہیں، تیرا کتاب پڑھتے ہیں، تیرے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اور آخرت اور دنیا کے لیے تجھ سے سوال کرتے ہیں’۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘انہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ دو’۔ وہ کہتے ہیں: ‘ان میں فلاں شخص بھی ہے جو خطا کرتا ہے’۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘انہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ دو’۔

ترمذی نے روایت کی ہے: ‘اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بہتر عبادت کون سی ہے؟’ جواب میں کہا: ‘کثرت سے ذکر کرنے والے’۔ میں نے کہا: ‘یا رسول اللہ، کیا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے، وہ بھی اس میں شامل ہے؟’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘اگر وہ کافروں اور مشرکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی تلوار ٹوٹ جائے اور خون سے رنگین ہو جائے، پھر بھی ذکر کرنے والے افضل ہیں’۔

طبرانی نے روایت کی ہے: ‘اگر ایک شخص درہم تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا اللہ کا ذکر کر رہا ہو، تو اللہ کا ذکر کرنے والا افضل ہے’۔ نسائی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام ہانی کو کہا: ‘سو بار سبحان اللہ کہو، یہ سو نسلوں سے آزاد کرنے کے برابر ہے، اور سو بار الحمدللہ کہو، یہ سو گھوڑوں کے برابر ہے جن پر سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اور سو بار تکبیر کہو، یہ سو قربانیوں کے برابر ہے جو قبول ہوئی ہوں، اور سو بار لا الہ الا اللہ کہو، یہ آسمان اور زمین کے درمیان جگہ کو بھر دیتی ہے، اور کوئی بھی تمہارے عمل کی مانند عمل لے کر نہ آئے گا، سوائے اس کے کہ وہ بھی ویسا ہی کرے’۔

احمد اور ترمذی نے روایت کی ہے: ‘کیا تمہیں تمہارے بہترین اعمال کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ، تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلند، سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بہتر، اور دشمن کا سامنا کرنے اور ان کے سر اتارنے سے بھی بہتر ہیں؟’ لوگوں نے کہا: ‘ہاں، یا رسول اللہ’۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘اللہ کا ذکر’۔

حدیث میں ہے: ‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے، تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے، تو میں اسے ایک بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں’۔

ایک حدیث میں ہے: ‘اے لوگوں، جنت کے باغات میں چراؤ’۔ صحابہ نے پوچھا: ‘جنت کے باغات کیا ہیں، یا رسول اللہ؟’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘مجالس الذکر’ (اللہ کے ذکر کی مجالس)۔

ایک خبر میں ہے: ‘اچھا مجلس مؤمن کو ایک لاکھ برے مجالس سے محفوظ کر دیتی ہے’۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے: ‘جب اللہ چاہتا ہے کہ اپنے بندے کو ولی بنائے، تو اسے ذکر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پھر ذکر کے ذریعے قرب کا دروازہ کھلتا ہے، پھر اسے انس کی مجالس میں بٹھاتا ہے، پھر توحید کی کرسی پر بٹھاتا ہے، اور پھر پردے اٹھا دیتا ہے اور قرب کی جگہ میں داخل کرتا ہے، اور جلال و عظمت کو ظاہر کرتا ہے، اور اس وقت اسے مقام علم حاصل ہوتا ہے’۔

ایک شیخ نے کہا: ‘جب صالحین کا ذکر مجلس میں ہوتا ہے، تو رحمت نازل ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس سے ایک بادل پیدا کرتا ہے جو صرف کافروں کی زمین پر بارش کرتا ہے، اور جو بھی اس پانی پیتا ہے، وہ مسلمان ہو جاتا ہے’۔”

“معروف کرخی اکثر کہا کرتے تھے کہ صالحین کا ذکر کرتے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔ ایک دن کسی مرید نے ان سے سوال کیا، ‘اے میرے سردار، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے پر کیا نازل ہوتا ہے؟’ تو وہ بے ہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آ کر کہا: ‘اللہ کا ذکر کرنے پر سکون نازل ہوتا ہے’۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: {آگاہ رہو! اللہ کے ذکر سے دل سکون پاتے ہیں}۔ یہ عمومی ذکر اللہ کے متعلق ہے۔

جہاں تک خاص طور پر لا الہ الا اللہ کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {پہچان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں}۔ اور فرمایا: {جو شخص دیا اور پرہیزگاری کی، اور اچھے وعدے کو سچ مانا، یعنی کلمہ توحید، تو ہم اسے آسانی کی طرف لے جائیں گے، یعنی جنت کی طرف}، اور فرمایا: {اور جو بخل کرے، اور خود کو بے نیاز سمجھے، اور اچھے وعدے کو جھٹلائے، یعنی کلمہ توحید، تو ہم اسے دشواری کی طرف لے جائیں گے، یعنی دوزخ کی طرف}۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘میں اور مجھ سے پہلے تمام پیغمبروں نے سب سے بہتر کلمہ یہ کہا: لا الہ الا اللہ’۔ ترمذی اور نسائی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘سب سے بہترین ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے بہترین دعا الحمدللہ ہے’۔ نسائی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے رب! مجھے ایسا ذکر سکھا جو میں تجھے یاد کر سکوں اور تجھے دعا دے سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘کہو لا الہ الا اللہ’۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے رب! تمام بندے یہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘کہو لا الہ الا اللہ’۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے رب! میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کچھ خاص ملے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمان اور ان میں موجود سب کچھ ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور لا الہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو لا الہ الا اللہ کا پلڑا بھاری ہو جائے گا’۔

ترمذی نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘سبحان اللہ نصف ایمان ہے، الحمدللہ ترازوں کو بھر دیتی ہے، اور لا الہ الا اللہ کے لیے کوئی پردہ نہیں، یہاں تک کہ یہ اللہ کے قریب پہنچ جاتی ہے’۔ اور حدیث میں ہے: ‘میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ جو شخص موت کے وقت لا الہ الا اللہ کی گواہی دے گا، وہ جنت میں جائے گا’۔ اور کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہوگا جو لا الہ الا اللہ خالص دل سے کہے’۔ حدیث میں ہے: ‘لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے’۔ اور کہا گیا: ‘مردوں کو لا الہ الا اللہ سکھاؤ، کیونکہ یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے’۔ صحابہ نے پوچھا: ‘اگر کوئی زندگی میں یہ کہے تو؟’ فرمایا: ‘زندگی میں بھی یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے’۔ احیاء میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہے اور اس کے پاس زمین بھر گناہ ہو، تو اللہ اسے معاف کر دے گا’۔ اور حدیث میں ہے: ‘لا الہ الا اللہ کہنے والوں کو قبروں میں یا قیامت کے دن وحشت نہیں ہوگی، میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پکار اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں: ‘الحمدللہ جس نے ہم سے غم دور کیا، ہمارا رب بہت معاف کرنے والا، شکر گزار ہے’۔

اور فرمایا: ‘تم سب جنت میں داخل ہو گے، سوائے اس کے جو انکار کرے’۔ صحابہ نے پوچھا: ‘یا رسول اللہ، انکار کون کرے گا؟’ فرمایا: ‘جو لا الہ الا اللہ نہ کہے’۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {کیا نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوگا؟}۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ دنیا میں نیکی کہنے کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے اور آخرت میں نیکی کا بدلہ جنت ہے۔ اور فرمایا: {جن لوگوں نے اچھائی کی، ان کے لیے خوبصورتی اور زیادہ}۔ کہا گیا ہے کہ ‘زیادہ’ کا مطلب جنت میں اللہ کے چہرے کا مشاہدہ ہے۔

اور حدیث میں ہے: ‘جب بندہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے، تو اس کی صحیفے کے پاس آتی ہے، اور کوئی بھی گناہ اس کے اوپر سے گزر نہیں پاتا، جب تک کہ کوئی نیکی نہ ملے، پھر وہ نیکی بیٹھ جاتی ہے’۔”

“ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کے سامنے نور کا ایک ستون رکھا ہے۔ جب کوئی بندہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے، تو وہ ستون جھوم اٹھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ‘اسے سکونت دو’۔ پوچھا جاتا ہے: ‘کیسے سکونت دوں، جبکہ کہاں نہیں بخشا گیا؟’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے’، تو پھر سکونت دی جاتی ہے۔

کعب الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ اگر لا الہ الا اللہ کہنے والے نہ ہوتے تو میں دنیا والوں پر جہنم کو مسلط کر دیتا۔

ابو الفضل نے کہا کہ جب اہل جنت داخل ہوں گے، تو وہ اپنے باغات، نہروں اور سب چیزوں کو سنیں گے جو کہ ‘لا الہ الا اللہ’ کہہ رہی ہیں، اور وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: ‘یہ وہ کلمہ ہے جسے ہم دنیا میں غفلت کی حالت میں چھوڑ بیٹھے تھے’۔

آثار میں ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اور اسے تعظیم کے ساتھ طول دے، اس کے چار ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ کہا گیا کہ اگر اس پر یہ گناہ نہ ہوں، تو یہ گناہ اس کے والدین، اہل خانہ اور ہمسایوں کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کلمہ ستر ہزار بار کہے، تو وہ دوزخ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ شیخ ابو محمد الیافعی الیمنی الشافعی رحمہ اللہ نے کتاب “ارشاد والتطریز” میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے امام ابو زید القرطبی سے سنا تھا کہ جو شخص لا الہ الا اللہ ستر ہزار بار کہے، تو وہ دوزخ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ انہوں نے خود یہ عمل کیا اور اپنے اہل خانہ کے لیے بھی کیا۔ ایک بار ایک نوجوان ہمارے ساتھ تھا، جو کبھی کبھار جنت اور دوزخ کے مشاہدات کا دعویٰ کرتا تھا۔ اس کے دل میں کچھ اعتراض تھا، تو ایک دن ہم ایک دوست کے گھر دعوت پر گئے، نوجوان ہمارے ساتھ تھا۔ اچانک اس نے زبردست چیخ ماری اور کہا: ‘چچا، یہ میری ماں دوزخ میں ہے’۔ جب میں نے اس کی حالت دیکھی تو میں نے دل ہی دل میں یہ ارادہ کیا کہ میں ستر ہزار لا الہ الا اللہ اس کی ماں کے لیے کہوں، اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ: ‘اے اللہ، اگر یہ اثر سچ ہے اور جنہوں نے ہمیں یہ روایت دی ہے، وہ سچے ہیں، تو یہ ستر ہزار لا الہ الا اللہ اس نوجوان کی ماں کو دوزخ سے آزاد کر دے’۔ ابھی یہ خیال میرے دل میں تھا کہ نوجوان نے کہا: ‘چچا، میری ماں دوزخ سے نکال دی گئی ہے، کیونکہ میں نے جو کہا تھا، اس کی برکت سے’۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے دو فائدے حاصل ہوئے: اثر کی صداقت پر ایمان اور نوجوان کی حالت سے نجات۔

سہل التستری رحمہ اللہ نے فرمایا: ‘لا الہ الا اللہ کا کوئی انعام نہیں، سوائے اللہ کے چہرے کو دیکھنے کے، جبکہ جنت اعمال کا انعام ہے’۔

خبر میں ہے کہ جب بندہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے ہر کافر اور کافرہ کی گنتی کے برابر انعام دیتا ہے، کیونکہ یہ کلمہ ہر کافر اور کافرہ کے جواب میں ہے، اس لیے وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے۔

اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول {اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو  } کا مطلب یہ ہے کہ ‘لا الہ الا اللہ’ کہو، تو عقل مند کو چاہیئے کہ وہ اس ذکر کو کثرت سے کہے۔”
“اور اپنے اہل خانہ کے لیے بھی اس عمل کو کرنے کی ترغیب دی جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خصوصی توجہ اور رحمت عطا کی جن کی برکتوں سے مشکلات دور ہوئیں اور تاریکیاں ختم ہوئیں۔ کیونکہ یہ کلمہ توحید، اخلاص، تقویٰ، اور اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ یہ جنت کی قیمت، عابدین کی مشق، سالکین کی بنیاد، سیر کرنے والوں  کی تعداد، اور آگے بڑھنے والوں کا تحفہ ہے۔ یہ علوم اور معارف کی چابی ہے۔ جو شخص اس کے مفہوم پر عمل پیرا ہوتا ہے، اسے بڑی جزا ملتی ہے، اور جو زیادہ اس کا ذکر کرتا ہے، وہ اپنی تمام امیدوں کو پاتا ہے۔ یہ اسے قبولیت اور اقبال کی نشانیاں عطا کرتا ہے۔ اس کلمے کو ہر وقت اور ہر حال میں اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے}۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قول و عمل میں اخلاص عطا فرمائے، اور ہمارے وقت کے اختتام پر بہترین خاتمہ عطا فرمائے۔ یہ بیان، جو اس مشکل اور پیچیدہ مسئلے کی وضاحت ہے، اسی پر عمل کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مکمل معافی، حسن خاتمہ اور اس کی تمام نعمتوں سے نوازے۔ اور درود و سلام ہو ہمارے سید محمد ﷺ پر اور ان کی آل، صحابہ اور تابعین پر، جب تک زمین و آسمان قائم ہیں۔ یہ عبارت، جو مطلوب و پسندیدہ ہے، مکمل کی گئی ہے، پیر کے دن، آٹھویں جمادی الثانی، جو سنہ 999 ہجری کے مہینوں میں ہے، جس نے اختلاف اور نزاع کو ختم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر ہزار بار درود و سلام بھیجے۔”


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں