خلوت و گوشہ نشینی کا بیان فصل20

خلوت و گوشہ نشینی کی دو قسمیں ہیں۔ ظاہر ی اور باطنی۔ 

ظاہر ی خلوت :۔

 ظاہر ی خلوت یہ ہے کہ کوئی شخص گوشہ نشینی اختیار کرلے اور اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کر لے تاکہ دوسرے اس کے اخلاق ذمیمہ سے محفوظ رہیں نفس سے اس کی مالوفات(عادات) چھڑوا کر اور ظاہری حواس کو قابو میں رکھ کر اخلاص نیت کے ساتھ اپنے ارادہ کو قتل کرے اور اسے در گور کر دے تا کہ باطنی خواص پر فتح حاصل ہو جائے۔ اس ساری تگ و دو میں پیش نظر اللہ کی رضا اور دوسرے مسلمانوں سے دفع شر ہو جیسا کہ رسول الله ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ : وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ ‌مِنْ ‌لِسَانِهِ وَيَدِهِ

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“ . فضول باتوں سے زبان کور و کے جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ سَلاَمَةُ الإنسانِ مِنْ قِبَلِ اللِّسَانِ انسان کی سلامتی زبان کی طرف سے ہے“ 

آنکھوں کو خیانت، حرام کی طرف دیکھنے سے روکے اور اسی طرح کانوں، ہاتھوں اور پاؤں کو حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنے دے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

الْعَيْنَانِ ‌تَزْنِيَانِ آنکھیں زنا کرتی ہیں ۔

جوشخص،(ہاتھ پاؤں، کان، زبان، آنکھ وغیرہ) اعضاء سے زنا کر تا ہے قیامت کے روز قبر سے اس کے ساتھ ایک قبیح صورت شخص اٹھے گا۔ یہ شخص زناکار کے خلاف گواہی دے گا کہ یہ زنا کرتارہا ہے اور میں اس کے اعمال کی مثالی صورت ہوں ۔ الله تعالی اس گواہی پر زنا کار کامؤاخذه فرمائے گا اور اسے جہنم رسید کر دے گا۔ ہاں جو انسان توبہ کرے اور اپنے آپ کو اس قبیح حرکت سے روک لے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى  فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (النازعات:40،41 ( اور اپنے نفس کو روکتا رہا ہو گا (ہربری) خواہش۔ یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گا“ 

تو قبیح صورت وہ شخص خوبصورت بے ریش نوجوان کی صورت میں ظاہر ہو گا اور توبہ کرنے والے شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جائے گا۔ اس توبہ کی وجہ سے وہ برے اعمال کے شر سے بچ جائے گا۔ گویا خلوت نے اسے اپنے حصار میں لیے رکھا اور وہ لوگوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے گناہوں سےبچ گیا۔ اس کے عمل صالح قرار پائے۔ وہ احسان کرنے والوں میں شمار ہونے لگا جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبہ : 120)بیشک اللہ تعالی ضائع نہیں کر تا نیکوں کا اجر“ 

رب قدوس کا ارشاد ہے: إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف :56 ( 

بیشک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکو کاروں سے فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الکہف:110( پس جو شخص امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملنے کی تواسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے“ 

باطنی خلوت :۔

باطنی خلوت یہ ہے کہ انسان نفسانی اور شیطانی تفکرات کو دل میں جگہ نہ دے۔ مثلا کھانے پینے کی محبت، اہل و عیال کا پیار، حیوانات سے دل لگی ، ریاء کاری ، ناموری اور شہرت جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لشُّهْرَةُ ‌آفَةٌ، وَكُلٌّ يَتَحَرَّاهَا، وَالْخُمُولُ رَاحَةٌ وَكُلٌّ يَتَوَقَّاهَاشہرت آفت ہے اور ہر آدمی اس کا متمنی ہے گمنامی راحت ہے اور ہر ایک اس سےبچتا ہے“ 

اور اپنے دل میں بالاختیار تکبر ، خود پسندی بخل و غیرہ جیسی برائیوں کو در نہ آنے دے۔ خلوتی کے دل میں ان برائیوں کا خیال تک بھی گزر گیا تو اس کے عزلت گزینی فاسد قرار پائی دل برباد ہو گیا۔ اعمال صالحہ اور احسان کا قلع قمع ہوا۔ ایسادل بے فائدہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔ 

إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (یونس:81( بیشک اللہ تعالی نہیں سنوارتاشریروں کے کام کو

جس شخص میں یہ برائیاں ہوں گی وہ مفسد ہے اگر چہ اس نے صالحین کا لبادہ کیوں نہ اوڑھ رکھا ہو۔ حضور ﷺکا ارشاد پاک ہے۔ 

إِنَّ ‌الْغَضَبَ لِيُفْسِدُ الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الْخَلُّ ‌الْعَسَلَ غصہ ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو“ 

اسی طرح حضور ﷺکی ایک اور حدیث ہے۔ إِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ ‌النَّارُ ‌الْحَطَبَ

”حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ ایندھن کو پھر فرمایا : الْغِيبَةُ ‌أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا

غیبت زنا سے بڑی برائی ہے“ الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ ‌مَنْ ‌أَيْقَظَهَا»یہ سویا ہوا فتنہ ہے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہو جو اس کو بیدار کرے“ 

‌الْبَخِيلُ ‌لَا ‌يَدْخُلُ ‌الْجَنَّةَ وَلَوْ كَانَ عَابِدًابخیل عابد و زاهد ہو تو بھی جنت میں نہیں جائے گا االرِّيَاءَ ‌شِرْكٌ ‌خَفِيٌّ دکھاوا شرک خفی ہے“ اور ریاء کو ترک کرنا اس گناہ( ریاء) کا کفارہ بن جاتا ہے ؟لا ‌يَدْخُلُ ‌الجنَّة نَمَّامٌ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا“ 

اس کے علاوہ اور کئی احادیث اخلاق ذمیمہ پر پیش کی جا سکتی ہیں ان اخلاق سے بچنا بہت ضروری ہے۔ تعلیمات تصوف کا پہلا مقصود تصفیہ قلب ہے۔ ایک خلوت گزیں صوفی چاہتا ہے کہ وہ خلوت، ریاضت(دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا) ، خاموشی، مسلسل ذکر، محبت، اخلاص ، توبہ سلف صالحین صحابہ اور تابعین جیسا اہل سنت کاصحیح اعتقادا پنا کر ہوائے نفس کو جڑ سے اکھیڑپھینکے۔ جب توحید پر کامل یقین رکھنے والا مؤمن توبہ و تلقین اور اس کی دوسری تمام شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے خلوت نشین ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے عمل میں خلوص پیدا فرمادیتا ہے۔ اس کے دل میں نور پیدا کر دیتا ہے۔ اس کی شخصیت نرم و ملائم ہو جاتی ہے۔ زبان میں پاکیزگی آجاتی ہے ظاہری و باطنی حواس مجتمع ہو جاتے ہیں۔ اس کاعمل حضور باری میں پہنچ جاتا ہے اور جب وہ دعا کرتا ہے تو قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ وہ نماز میں کہتا ہے سَمِعَ ‌اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، یعنی اللہ نے اس کی دعا سن لی۔ اس کی آہ و زاری کو شرف قبولیت بخش دیا۔ثناگستری کے الفاظ کو نظر رحمت سے دیکھا اور قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کی صورت میں اپنے بندے کو اجر سے نوازا۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ إِلَيْهِ ‌يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر:10( اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور نیک عمل پاکیزہ کلام کو بلند کرتا ہے ۔

پاکیزہ کلام سے مراد زبان کا لغویات سے محفوظ ہو تا ہے۔ کیونکہ زبان اللہ تعالی کے ذکر اور توحید کو بیان کرنے کا آلہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون:1تا3( 

بیشک دونوں جہان میں بامراد ہو گئے ایمان والے۔ وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں اور وہ جو ہر بیہودہ امر سے منہ پھیرے ہوتے ہیں۔ 

اللہ تعالی علم، عمل اور عامل کو اپنی قربت ، رحمت کی طرف بلند کرتا ہے اور مغفرت اوررضوان سے اس کے درجہ کو بڑھاتا ہے۔ 

خلوتی کو جب یہ مقامات( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا)حاصل ہو جائیں تو اس کا دل سمندر کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ اور وہ لوگوں کی ایذاء رسانی سے گدلا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ حضورﷺکارشاد گرامی ہے۔ 

کن بحرا لا تتغیر اے انسان تو سمندر بن جا پھر تجھے کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا۔

سمندر کی صورت اختیار کر لے۔ اس میں جانیں کتنی بری جانیں غرق ہوتی ہیں۔ جیسے فرعون اور اس کے حواری غرق ہوئے(باطنی خلوت نشینی  کے وسیع قلب میں وسیع بیمایاں فنا ہو جاتی ہیں) لیکن اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔تبھی شریعت کی کشتی صحیح سالم اس سمندر(بحر قلب) میں تیرے گی۔ اور روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) اس کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر درحقیقت تک پہنچے گی۔ اور اس سے معرفت کے موتی، لطائف مکنونہ کے مرجان بر آمد ہوں گے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (الرحمن:22) نکلتے ہیں ان سے موتی اور مرجان“ 

کیونکہ یہ سمندر صرف اسے نصیب ہو سکتا ہے جس نے ظاہر اور باطن(بحر شریعت اور بحر حقیقت) دونوں دریاؤں کو جمع کر رکھا ہو۔ اس مقام کے حصول کے بعد قلب میں کوئی فساد بر پا نہیں ہو سکتا۔ ایسے شخص کی توبہ خالص توبہ ہے اور اس کا عمل نافع ہے۔ ایسا شخص جان بوجھ کر گناہوں کی طرف مائل نہیں ہو گا۔ اس کا سہو اور نسیان استغفار اور ندامت سے انشاء اللہ معاف ہو جائے گا۔ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ112 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں