اس بیان میں کہ ولایت قرب الہی سے مراد ہے اور خوارق و کرامات ولایت کی شرط نہیں اور اس بیان میں کہ بادشاہوں کے لیےسجدہ تحیت کا کیا حکم ہے۔ میر نعمان کی طرف صادرفرمایاہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) برادرم عزیز سیادت پناه میرمحمدنعمان خوشحال ر ہیں۔ آپ کو واضح ہو کہ خوارق و کرامات کا ظاہر ہونا ولایت کی شرط نہیں۔ جس طرح علماء خوارق کے حاصل کرنے کے مکلف نہیں ہیں اسی طرح اولیا ء خوارق کے ظہور پر مکلف نہیں ہیں کیونکہ ولایت قرب الہٰی سے مراد ہے جو ماسوائے کے نسیان کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ بعض کو یہ قرب عطا فرماتے ہیں، لیکن غائبانہ حالات پر اطلاع نہیں بخشتے اور بعض کو یہ قرب بھی دیتے ہیں اور غائبانہ اشیاء کی اطلاع بھی بخشتے ہیں اور بعض کو قریب کچھ نہیں دیتے، لیکن غائبانہ حالات پر اطلاع دے دیتے ہیں۔ یہ تیسری قسم کے لوگ اہل استدراج ہیں ۔ نفس کی صفائی نے ان کو غائبانہ کشف میں مبتلا کر کے گمراہی میں ڈالا ہے۔ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( گمان کرتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں۔ خبرداریہ لوگ جھوٹے ہیں۔ ان پر شیطان نے غلبہ پا کر ان کو الله تعالیٰ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ خبردار یہ شیطان کا گروہ گھاٹا اٹھانے والا ہے) ان لوگوں کا نشان حال ہے۔ پہلی اور دوسری قسم کے لوگ جو دولت قرب سے مشرف ہیں۔ اولیاء اللہ ہیں۔ نہ غائبانہ امور کا کشف ان کی ولایت کو بڑھاتا ہے نہ عدم کشف ان کی ولایت کو گھٹاتا ہے۔ ان کے درمیان درجات قرب کے اعتبار سے فرق ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدم كشف والابباعث زیاد و قرب کے جو اس کو حاصل ہوتا ہے کشف والے شخص سے افضل و پیش قدم ہوتا ہے۔ صاحب عوارف(شیخ شہاب الدین سہروردی) جوشیخ الشیوخ ہے اور تمام گروہوں میں مقبول ہے۔ اپنی کتاب عوارف المعارف میں اس امر کی تصریح کرتا ہے۔ اگر کسی کو میری بات کا یقین نہ ہو تو اس کتاب میں دیکھ لے۔ وہاں کرامات و خوارق کے ذکر کے بعد لکھا ہے کہ کرامات وخوارق الله تعالیٰ کی بخشش ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض کو کشف و کرامات کیساتھ شرف فرماتے ہیں اور یہ دولت عطا فرماتے ہیں اورکبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک شخص زیادہ اعلی رتبہ رکھتا ہے، لیکن خوارق و کرامات اس کو کچھ حاصل نہیں ہوتے۔ کیونکہ کرامات یقین کی زیادہ تقویت کے لیے عطا فرماتے ہیں اور جب کسی کو خالص یقین حاصل ہو چکا ہو تو اس کو کرامات کی کیا حاجت ہے۔ یہ سب کرامت ذکر ذات اور اس میں قلب کے فانی ہونے کے ماسوا ہیں۔ جو اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ انتہی کلام،
شیخ اور اس گروہ کے امام خواجہ عبدالله انصاری(ہروی) نے جو شیخ الاسلام کے لقب سے ملقب ہے۔ اپنی کتاب منازل السائرین میں فرمایا ہے کہ فراست کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اہل معرفت کی فراست، دوسری اہل جوع و ریاضت کی فراست۔ اہل معرفت کی فراست طالبوں کی استعداداور ان اولیاء اللہ کو پہچاننے سے تعلق رکھتی ہے۔ جو حضرت جمع کے ساتھ واصل ہو چکے ہیں اور اہل ریاست واہل جوع کی فراست غائبانہ صورتوں اور احوال کے کشف پرمخصوص ہے جومخلوقات سے تعلق رکھتے ہیں، چونکہ اکثر لوگ جوحق تعالیٰ کی بارگاہ سے جدا ہوتے ہیں اور دنیا کے ساتھ اشتغال رکھتے ہیں اور جن کے دل صورتوں کے کشف اورمخلوقات کی غابئانہ خبروں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ امر بڑا بھاری معلوم ہوتا ہے اور گمان کرتے ہیں کہ یہی لوگ اہل اللہ اورحق تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اور اہل حقیقت کے کشف سے انکار کرتے ہیں اور اہل حقیقت کو ان احوال میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کرتے ہیں۔ تہمت لگاتے اور کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اہل حق ہوتے جیسے کہ لوگوں کا گمان ہے تو یہ لوگ بھی ہمارے اور تمام مخلوق کے غیبی احوال بتلاتے۔ جب ان کو کشف احوال پر قدرت نہیں ہے تو ان امور کے کشف پر جومخلوقات کے احوال سے اعلی ہیں کس طرح قدرت رکھیں گے اور اہل معرفت کی فراست کو جوحق تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے اس قیاس فاسد سے جھوٹا جانتے ہیں اور ان بزرگوں کے علوم و معارف صحیحہ سے محروم رہ جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ حق تعالیٰ نے ان لوگوں کو خلق کے ملا حظہ سے محفوظ رکھا ہے اور ان کو اپنی جناب پاک کے ساتھ ہی مخصوص کر لیا ہے اور ان کی حمایت و غیرت کے باعث ان کو ملاقات کی طرف سے ہٹا رکھا ہے۔ اگر یہ لوگ خلق کے احوال کے درپے ہوتے تو بارگاہ الہی کے حضور کی صلاحیت ان میں نہ رہتی۔ا نتھی کلام۔
اس قسم کی اور بھی بہت سی باتیں فرمائی ہیں اور میں نے اپنے خواجہ (باقی باللہ)قدس سرہ سے سنا ہے کہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ بعض اوليا جن سے خوارق و کرامات ظاہر ہوئے ہیں۔ آخر دم میں ان کرامات کے ظہور سے نام ہوئے ہیں اور یہ خواہش کرتے رہے ہیں کہ کاش ہم سے ہی خوارق و کرامات ظاہر نہ ہوتے۔ اگر فضيلت خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کے باعث ہوتی تو اس طرح ندامت کیوں کرتے۔
سوال:۔ جب خوارق کا ظاہر ہونا ولایت میں شرط نہیں تو پھر ولی غیر ولی سے کس طرح متمیز ہوسکتا ہے اور سچا جھوٹے سے کس طرح جدا ہو سکتا ہے۔
جواب :۔ گو تمیز نہ ہو اور جھوٹاسچے کے ہاتھ ملارہے، کیونکہ ان کا باطل کے ساتھ ملا رہنا اس جہان کے لوازم میں ہے۔ ولی کو اپنی ولایت کا علم ہونا ضروری نہیں۔ بہت سے اولیاء اللہ ایسے ہیں کہ اپنی ولایت کا علم نہیں رکھتے۔ تو پھر دوسروں کو ان کی ولایت کا علم کس طرح ہو گا۔ ہاں نبی ﷺ کے لیے خوارق کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ نبی اور غیر نبی میں تمیز ہو سکے۔ کیونکہ نبی کے لیے اپنی نبوت کا علم ہونا ضروری ہے اور ولی چونکہ اپنے نبی کی شریعت کے موافق دعوت کرتا ہے اس لیے نبی کا معجزہ اس کے لیے کافی ہے اور اگر ولی اپنے پیغمبر کی شریعت کے سوا دعوت کرتا تو اس کے لیے خوارق کا ہونا ضروری تھا، لیکن جب اس کی دعوت اپنے نبی کی شریعت مخصوص ہے تو پھر اس کے لیے خوارق کی حاجت نہیں۔ علماء صرف ظاہر شریعت کے موافق دعوت کرتے ہیں اور اولیاء شریعت کے ظاہر اور باطن کے موافق دعوت کرتے ہیں اور اول مریدوں اور طالبوں کی توبہ اور انابت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور احکام شرعیہ کے بجا لانے کی ترغیب دیتے ہیں پھر ذکر الہی بتلاتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ تمام اوقات ذکر میں مشغول رہیں تا کہ ذکر غالب آجائے اورمذکور کے سوا دل میں کچھ نہ رہے اور مذکور کے ماسوا کا نسیان یہاں تک ہو جائے کہ اگر تکلف کے ساتھ ہی اس کو یاد دلائیں تو اس کو یاد نہ آ ئے ۔ ظاہر ہے کہ ولی کو اس دعوت کے لیے جو شریعت کے ظاہر و باطن سے تعلق رکھتی ہے خواری کی کیا ضرورت ہے۔ پیری مریدی اس دعوت سے مراد ہے جس کا خوارق و کرامت سے تعلق و واسطے نہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ مرید رشید اور طالب مستعد ہرگھڑی سلوک طریق میں اپنے پیار سے خوارق و کرامات محسوس کرتا ہے اور معاملہ میں ہر دم اس سے مدد لیتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی نسبت خوارق کا ظاہر ہونا ضروری نہیں، لیکن مردوں کی نسبت کرامات ہی کرامات اور خوارق ہی خوارق ہیں۔ مریدکس طرح پیر کے خوارق کیو ں محسوس نہ کرے
۔ جبکہ پیر نے مردہ دل کو زندہ کر دیا ہے اور مشاہدہ و مکاشفہ تک پہنچا دیا ہے۔ عوام کے نزدیک بدنوں کا زندہ کرنا عظیم الشان ہے اور خواص کے نزدیک قلب و روح کا زندہ کرنا اعلی درجہ کی بر ہان ہے۔
خواب محمد پارسا قدس سرہ رسالہ قدسیہ میں فرماتے ہیں کہ جسد کا زندہ کرنا چونکہ اکثر لوگوں کے نزدیک بڑا اعتبار رکھتا تھا اس لیے اہل اللہ اس طرف سے منہ پھیر کر روح و قلب کے زندہ کرنے میں مشغول ہوئے ہیں۔ واقعی جسدی زندگی قلبی و روحانی زندگی کے مقابلہ میں راستہ میں پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہے اور اس کی طرف نظر کرنا عبث و بے فائدہ ہے، کیونکہ جسدی زندگی چند روزہ زندگی کا باعث ہے اور روحانی و قلبی زندگی دائمی حیات کا موجب ہے۔
بلکہ ہم کہتے ہیں کہ درحقیقت اہل اللہ کا وجود کرامت ہے اور خلق کوحق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے اور مردہ دلوں کا زندہ کرنا الله تعالیٰ کی آیات میں سے آیت عظمی ہے۔ یہی لوگ اہل زمین کا امن اور غنیمت روزگار ہیں بِهِمْ يُرْزَقُونَ وَبِهِمْ يُمْطَرُونَ (انہی کے طفیل لوگوں پر بارش اترتی ہے اور انہی کے طفیل ان کو رزق ملتا ہے) انہیں کی شان میں وارد ہے ان کی کلام دوام ہے اور ان کی نظر شفا یہی وہ لوگ ہیں جو الله تعالیٰ کے ہم نشین ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین بد بخت نہیں ہوتا اور ان کا دوست رحمت سے ناامید نہیں ہوتا۔
وہ علامت جس سے اس گروہ کا جھوٹا اورسچا جدا ہو سکے یہ ہے کہ جو شخص شریعت پر استقامت رکھتا ہو اور اس کی مجلس میں دل کو حق تعالیٰ کی طرف رغبت و توجہ پیدا ہو جائے اور ماسوا کی طرف سے دل سرد ہو جائے۔ وہ شخص سچا ہے اور درجات کے اختلاف کے بموجب اولیاء کے شمار میں ہے۔ مگر یہ بھی ان لوگوں کے لیے ہے جو اس گروہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور جن کو اس گروہ کے ساتھ مناسبت نہیں ۔ وہ محروم مطلق ہیں۔
ہر کراروئے بہ بہبود نداشت دیدن روئے نبی سود نداشت
ترجمہ: نہ تھی جس کی قسمت میں کچھ بہتری . تھابے سوداس کو لقائے نبیﷺ مکتوب شریف میں سلطان وقت کی خدا پرستی اور احکام شریعت کے موافق عدل و انتظام کا حال لکھا ہوا تھا۔ اس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی اور کمال ذوق پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بادشاہ وقت کو عدل و عدالت کے نور سے منور کیا ہوا ہے اسی طرح ملت محمدیہ کوبھی بادشاہ کے حسن انتظام سے نصرت و عزت بخشے ۔
۔ اےشریت کے نشان والے۔ الشرع تحت السيف شریعت تلوار کے نیچے ہے) کے موافق شریعت غرا کی ترقی و رواج شاہان بزرگ کے حسن انتظام پر موقوف ہے۔ جب سے یہ امرضعیف ہو گیا ہے اسی دن سے اسلام بھی ضعیف ہو گیا ہے۔ کفار ہند بے تحاشا مسجدوں کو گرا کر وہاں اپنے معبد ومندر تعمیر کر رہے ہیں۔ چنانچہ تھانسیر میں حوض کر کھیت کے درمیان ایک مسجد اور ایک بزرگ کا مقبرہ تھا۔ اس کو گرا کر اس کی جگہ بڑا بھاری مندر بنایا ہے۔ نیز کفار اپنی رسموں کو کھلم کھلا بجالا رہے ہیں اورمسلمان اکثر اسلامی احکام کے جاری کرنے میں عاجز ہیں۔ ایکا دشی کے دن ہندو کھانا ترک کر دیتے ہیں۔ بڑی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی شہروں میں کوئی مسلمان اس دن نہ روٹی پکائے اورنہ بیچے اور ماه مبارک رمضان میں برملا نان طعام پکاتے اوربیچتے ہیں مگر اسلام کے مغلوب ہونے کے باعث کوئی روک نہیں سکتا۔ ہائے افسوس۔ بادشاہ وقت ہم میں سے ہو اور پھر ہم فقیروں کا اس طرح خستہ اور خراب حال ہو۔ بادشاہوں کے اعزاز و اکرام ہی سے اسلام کی رونق تھی اور انہی کی بدولت علماء وصوفياء معزز محترم تھے اور انہی کی تقویت سے شریعت کے احکام کو جاری کرتے تھے۔
میں نے سنا ہے کہ ایک دن صاحب قرآن امیر تیمور علیہ الرحمتہ بخارا کی گلی سے گزر رہا تھا۔ اتفاقا اس وقت حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی خانقاہ کے درویش خانقاہ کی دریوں اور بستروں کو جھاڑو دے رہے تھے اور گرد سے پاک کر رہے تھے۔ امیر مذکور مسلمانی کے حسن خلق سے جو اس کو حاصل تھا
، اس کو چہ میں ٹھہر گیا۔ تا کہ خانقاہ کی گرد کو اپنا صندل وعنبر بنا کر درویشوں کی برکات فیض سے مشرف ہو۔ شاید اسی تواضع اور فروتنی کے باعث جو اس کو اہل اللہ کے ساتھ حاصل تھی۔ حسن خاتمہ سے مشرف ہوا۔
منقول ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ امیر کے مر جانے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ تیمور مر گیا اور ایمان لے گیا۔
آپ کو معلوم ہے کہ جمعہ کے دن خطبہ میں بادشاہوں کے نام جو ایک درجہ نیچے لا کر پڑھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اسی کی وجہ یہی تواضع ہے جو شاہان بزرگ نے آنحضرت ﷺاور خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی نسبت ظاہر کی ہے اور جائز نہیں رکھتے کہ ان کے نام دین کے بزرگواروں کے نام کے ساتھ ایک درجہ میں مذکور ہوں۔
تذییل
اے بردارسجده جو پیشانی کو زمین پر رکھنے سے مراد ہے۔ اس میں نہایت ذلت و انکسار اور کمال تواضع و عاجزی ہے۔ اسی واسطے اس قسم کی تواضع حق تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی اور کے لیے جائز نہیں۔
منقول ہے کہ ایک دن پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی راستہ میں جارہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر معجزہ طلب کیا تا کہ ایمان لائے ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اس درخت کو جا کر کہہ تجھ کو پیغمبر بلاتا ہے درخت یہ سن کر اپنی جگہ سے ہلا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اعرابی یہ حال دیکھ کر اسلام لے آیا۔ پھر عرض کی یا رسول اللہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کو سجدہ کروں ۔ فرمایا خدا کے سوا کسی کوسجدہ جائز نہیں ہے اگر تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ مردوں کو سجدہ کریں۔
بعض فقہا نے اگرچہ بادشاہوں کے لیے سجدہ تحیت یعنی سجدہ تعظیم جائز رکھا ہے لیکن بادشاہوں کے لیے بھی مناسب ہے کہ اس امر میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں تواضع کریں اور اس قسم کی ذلت و انکسارحق تعالیٰ کے سوا کسی غیر کے لیے پسند نہ کریں۔ حق تعالیٰ نے تمام جہان کو ان کے تابع اوران کامحتاج بنایا ہے۔ اس نعمت کا شکر بجالا کر اس قسم کی تواضع کو جس سے کمال عجز و انکسار ظاہر ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے ساتھ ہی مسلم رکھیں اور اس امر میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ بنائیں۔ اگر چہ بعض نے اس امر کو جائز رکھا ہے۔ مگر مناسب ہے کہ ان کا حسن تواضع اس امر کو پسند نہ کرے ۔ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (احسان کا بدلہ احسان ہی ہے)
جب بادشاہ وقت اپنے ممالک کی سیر سے دارالخلافہ میں واپس آئے گا تو امید ہے کہ فقیر بھی حق تعالیٰ کے ارادہ سے عنقریب دارالخلافہ میں حاضر ہوگا۔ وَالبَاقِى عَندَ التَّلَاقِی (باقی بوقت ملاقات)
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ293ناشر ادارہ مجددیہ کراچی