خواہشوں کی لگام.Khahishon ki Lagam

Ôعَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ، الْحَسَنَۃُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا إِلَی سَبْعمِائَۃ ضِعْفٍ، قَالَ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّہُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ، یَدَعُ شَہْوَتَہُ وَطَعَامَہُ مِنْ أَجْلِی (صحیح مسلم:کتاب الصیام باب فضل الصیام)

 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابن آدم کے ہر عمل میں سے ایک نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اﷲ نے فرمایا سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کیونکہ روزہ رکھنے والا میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے سے رکا رہتا ہے ۔

                رمضان المبارک خاص تحفہ ہے اہل اسلام کیلئے جس کے ذریعے شہوات ( نفسانی خواہشات) کو مہذب بنانے میں مدد ملتی ہے شہوات انسان کی وہ خواہشات ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے قرب میں رکاوٹ ہوتی ہیں اور وہ عموما چار شہوات ہیں جن کو لگام دینے کا کام روزہ کرتا ہے (1)پیٹ کی شہوت (2)جنسی لذات (3)غصہ(4) بیہودہ کلام۔

                 روزہ ان شہوات کے خلاف ایک مدرسہ کا کام کرتا ہے یا ایک ’’دوا‘‘ کی طرح کارآمدہے جو اﷲکی طرف سے ایک تحفہ ہے ان چار نفسانی خواشات کے خلاف ایک وقت میں علاج ہے جو اس سے علاج کرانے کے خواہشمند ہوں اسی لئے کہا جاتا ہے ’’ الصیام لجام المتقین‘‘ روزہ متقیوں کیلئے لگام ہے حضرت حس بصری فرماتے ہیں۔

                ’’ جس طرح ایک سرکش چوپائے کو قابو رکھنے کیلئے سخت لگام کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اس نفس کو قابو کرنے کیلئے جو تمہارے پہلو میں ہے لگام کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔

 اسی طرف رسول اﷲ ﷺ نے راہنمائی فرماتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے

                یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاء َۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاء

                 اے نوجوانوں کے گروہ! جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے کیوں کہ نکاح پرائی عورت کو دیکھنے سے نگاہ کو نیچا کر دیتا ہے اور حرام کاری سے بچاتا ہے، البتہ جس میں قوت نہ ہو تو وہ روزہ رکھے کیوں کہ روزہ رکھنے سے شہوت کم ہوجاتی ہے۔

                حدیث میں لفظ شہوتہ کے بعد لفظ طعامہ کا ذکر کیا تو خاص (شہوات)کے بعد عام ( کھانے پینے)کو بیان کیا ہے تو گویا روزے کا خاص مقصد شہوات کو متوازن کرنا ہے یا پھر شہوت سے مراد تو جماع ہے اور طعام سے جماع کے علاوہ دوسری چیزیں مراد ہیں جو روزہ کو توڑنے والی ہوتی ہیں۔

                ” قلب سلیم” اس دل کو کہتے ہیں جو برے عقائد، کمزور خیالات اور غلط اعتقادات و نظریات سے پاک وصاف ہو اور خواہشات نفسانی کی طرف اس کا میلان نہ ہو نیز یہ کہ وہ ماسوی اﷲ سے خالی ہو۔ اور روزہ اس کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے جوایسا ماحول فراہم کرتا ہے جو عین اس کے موافق ہے۔اور برے خیالات سے محفوظ رکھتا ہے۔

                انسان جوکہ تین چیزوں سے مرکب ہے

                (1) روح جوملکوت علوی سے ہے انسان کو اﷲ کی طرف کھینچتی ہے

                 (2)جسدجو مادی اشیاء سے ہے اور اسے نیچے کی طرفٖ کھینچتی ہے أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ

                (3)عقل ان دونوں کو کبھی اعلیٰ علیین کی طرف یا جسمانی ضرورتوں کی طرف مائل کرتی ہے جسے نفس بھی کہتے ہیں یہ غذائے روح اور غذائے جسم یا ان دونوں کی طرف متوجہ رہتی ہے۔

                ان چاروں خواہشات کا تعلق حیوانی نظام سے ہے انہیں کنٹر ول کر کے زمین میں اصلاح کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے اور تقویٰ نام ہے ان حیوانی خواہشوں کو لگام دینے کا روزہ ان روحانی و حیوانی قوتوں میں توازن پیدا کرنے کیلئے بہت ہی مؤثر ہے

إمام محمد الباقر – علیہ السلام کا فرمان ذیشان ہے

ما من عبادۃ أفضل من عفۃ بطن ، أو فرج اس سے بڑھ کر کوئی افضل عبادت نہیں کہ پیٹ اور شرمگاہ کو پاک رکھا جائے۔

 تبھی تو فرمایا

                قَالَ حُجِبَتْ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ وَحُجِبَتْ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ

                دوزخ شہوتوں سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت مصیبتوں سے چھپی ہوئی ہے۔

                 مجاہد اور مہاجر کی ایک تعریف تووہ ہے جو عام طور پر ہم سنتے ہیں جبکہ (حقیقی) مجاہد وہ نہیں جو دشمنوں سے جنگ کرتا ہے بلکہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس امارہ سے جہاد کرتا ہے اور اﷲ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی خاطر نفس کی تمام خواہشات کو موت کے گھاٹ اتا دیتا ہے اورایسے ہی (اصل) حقیقی مہاجر بھی وہ ہے جس نے تمام چھوٹے اور بڑے گناہوں کو ترک کر دیا۔ جس نے ان تمام چیزوں کو ترک کر دیا ہے جن سے اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کر رکھا ہو اس لیے کہ ہجرت کی حکمت یہی ہے کہ مومن طاعت الٰہی میں بغیر کسی رکاوٹ کے مصروف رہے اور اﷲ نے جن چیزوں سے منع کر دیا ہے ان سے بچتا رہے۔ مہاجر کی حقیقی شان یہی ہے۔

                حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ’’ صالح‘‘دراصل اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کے ذاتی و نفسانی ارادے و خواہشات موت کے گھاٹ اتر جائیں اور اﷲ تعالیٰ کی مراد و مقصد پر قائم رہے (جس کی وجہ سے وہ بندہ صالح کہلانے کا مستحق ہو) لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ پروردگار کی رضا و خواہش پر اس کیفیت کے ساتھ راضی اور اپنے تمام امور کو خداوندعالم کی طرف اس طرح سوپنے والا ہو جائے جیسا کہ نومولود بچہ دایہ کے ہاتھ میں یا میت نہلانے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

                 روزہ کی وجہ سے خاطر جمعی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے نفس امارہ کی تیزی و تندی جاتی رہتی ہے، اعضاء جسمانی اور بطور خاص وہ اعضاء جن کا نیکی اور بدی سے براہ راست تعلق ہوتا ہے جیسے ہاتھ، آنکھ، زبان ، کان اور ستر وغیرہ سست ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گناہ کی خواہش کم ہو جاتی ہے اور معصیت کی طرف رجحان کم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاء سیر ہوتے ہیں یعنی انہیں اپنے کام کی رغبت نہیں ہوتی اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو تمام اعضاء بھوکے ہوتے ہیں انہیں اپنے کام کی طرف رغبت ہوتی ہے اس قول کو وضاحت کے ساتھ یوں سمجھ لیجئے کہ جسم کے جتنے اعضاء ہیں قدرت نے انہیں اپنے مخصوص کاموں کے لئے پیدا کیا ہے مثلاً آنکھ کی تخلیق دیکھنے کے لیے ہوئی ہے گویا آنکھ کا کام دیکھنا ہے لہٰذا بھوک کی حالت میں کسی بھی چیز کو دیکھنے کی طرف راغب نہیں ہوتی ہاں جب پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو آنکھ اپنا کام بڑی رغبت کے ساتھ کرتی ہے اور ہر جائز و ناجائز چیز کو دیکھنے کی خواہش کرتی ہے اسی پر بقیہ اعضاء کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔

                 روزہ کی وجہ سے دل کدورتوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے کیونکہ دل کی کدورت آنکھ، زبان اور دوسرے اعضاء کے فضول کاموں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یعنی زبان کا ضرورت و حاجت سے زیادہ کلام کرنا، آنکھوں کا بلا ضرورت دیکھنا، اسی طرح دوسرے اعضاء کا ضرورت سے زیادہ اپنے کام میں مشغول رہنا افسردگی دل اور رنجش قلب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ روزہ دار فضول گوئی اور فضول کاموں سے بچا رہتا ہے اس وجہ سے اس کا دل صاف اور مطمئن رہتا ہے اس طرح پاکیزگی دل اور اطمینان قلب اچھے و نیک کاموں کی طرف میلان و رغبت اور درجات عالیہ کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔

                دوم یہ کہ روزہ میں نفس کشی اور جسم وبدن کا ہلکان ونقصان ہے نیز روزہ کی حالت میں انتہائی کرب وتکلیف کی صورتیں بھوک و پیاس پیش آتی ہیں اور ان پر صبر کرنا پڑتا ہے جب کہ دوسری عبادتوں میں نہ اتنی تکلیف ومشقت ہوتی ہے اور نہ اپنی خواہش وطبیعت پر اتنا جبر چنانچہ باری تعالیٰ نے اپنے ارشاد یدع شہوتہ کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ روزہ دار اپنی خواہش کو چھوڑ دیتا ہے یعنی روزہ کی حالت میں جو چیزیں ممنوع ہیں وہ ان سب سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔

                حضرت بشر الحافی ؒ فرماتے ہیں

 لا تجد حلاوۃ العبادۃ ، حتی تجعل بینک وبین الشہوات حائطاً من حدید تجھے عبادت کی مٹھاس اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک تیرے اور تیری شہوات کے درمیان لوہے کی دیوار نہ حائل ہو ۔

                 حضرت عبداﷲ بن عمر راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک پورا مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز(دین و شرعیت) کی تابع نہیں ہوتیں جس کو میں (اﷲ کی جانب سے لایا ہوں یہ حدیث شرح السنتہ میں روایت کی گئی ہے۔

 حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کامل اس آدمی کا ہوتا ہے جو دین و شریعت کا پوری طرح پیروی کرنے والا اور ان کی صداقت و حقانیت کایقین و اعتقاد پورے رسوخ کے ساتھ رکھتا ہو، نیز اس کی زندگی کے ہر پہلو میں خواہ اعتقادات و عبادات ہوں یا اعمال و عادات سب میں کمال رضا و رغبت اور بخوشی دین و شریعت کار فرما ہوں اور ظاہر ہے کہ روحانی پاکیزگی و لطافت اور عرفانی عروج کا یہ مرتبہ اس آدمی کو حاصل ہو سکتا ہے جس کا قلب و دماغ خواہشات نفسانی کی تمام گندگی سے پاک و صاف ہو کر نور الہٰی کی مقدس روشنی سے جگمگا اٹھے، چنانچہ اولیاء اﷲ اور صالحین حقیقت و معرفت کے اسی عظیم مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔

ایک سبق ا ٓموز واقعہ

                منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام احمد رحمہ اﷲ بازار گئے اور وہاں سے انہوں نے کچھ سامان خریدا جسے بنان جلال اٹھا کرامام احمد کے ساتھ ان کے گھر لائے جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں روٹیاں ٹھنڈی ہونے کے لیے کھلی ہوئی رکھی تھیں ، حضرت امام احمدنے اپنے صاحبزادے کو حکم دیا کہ ایک روٹی بنان کو دے دیں، صاحبزادے نے جب بنان کو روٹی دی تو انہوں نے انکار کر دیا بنان جب گھر سے باہر نکل گئے اور واپس چل دئیے تو امام احمد نے صاحبزادے سے کہا کہ اب ان کے پاس جاؤ اور انہیں روٹی دے دو صاحبزادے نے باہر جا کر بنان کو روٹی دی تو انہوں نے فورا قبول کر لیا۔ انہیں بڑا تعجب ہوا کہ پہلے تو روٹی لینے سے صاف انکار کر دیا اور اب فورا قبول کر لیا آخر یہ ماجرا کیا ہے! انہوں نے حضرت امام احمد سے اس کا سبب پوچھا تو امام صاحب نے فرمایا کہ بنان جب گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے کھانے کی ایک عمدہ چیز دیکھی بتقاضائے طبیعت بشری انہیں اس کی خواہش ہوئی اور دل میں اس کی طمع پیدا ہو گئی اس لیے جب تم نے انہیں روٹی دی تو انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی طمع و خواہش کے تابع بن جائیں انہوں نے روٹی لینے سے انکار کر دیا مگر جب وہ باہر چلے گئے اور روٹی سے قطع نظر کر کے اپنا راستہ پکڑا اور پھر تم نے جا کر وہ روٹی دی تو اب چونکہ وہ روٹی انہیں بغیر طمع و خواہش اور غیر متوقع طریق پر حاصل ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے اسے خدا کی نعمت سمجھ کر فورا قبول کر لیا۔

                انسانی ظلم و ستم کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے قابیل کی زندگی سے شروع ہوتی ہے جس نے اپنی ایک انتہائی معمولی نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور انسانی تاریخ کا یہ سب سے پہلا خونی واقعہ تھا جس نے ناحق خون بہانے کی بنیاد ڈالی۔

                اور خواہشات نفسانی میں دلچسپی لینا معصیت کا سبب ہے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے

شکوت الی وکیع سوء حفظی

فاوصانی الی ترک المعاصی

 میں نے اپنے استاد وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزروی کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترک معصیت کی نصیحت کی۔

فان العلم فضل من الٰہ

وفضل اﷲ لا یعطی لعاص

 کیونکہ علم تو اﷲ کا ایک فضل ہے اور اﷲ کا فضل گناہ گار کے حصہ میں نہیں آتا۔

                (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی ایک روایت ہے کہ ” آدمی کی تقدیر میں زنا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے اس کو وہ ضرور عمل میں لائے گا۔ آنکھوں کا زنا (نامحرم کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں سننا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورت سے شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم عورت کو برے ارادہ سے) چھونا ہے اور پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف) جانا ہے اور دل خواہش و آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔”

                اصل زنا تو یہی ہے کہ کسی نا محرم عورت سے بدکاری میں مبتلا ہو، لیکن اصطلاح شریعت میں ان حرکات و اعمال کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے جو حقیقی زنا کے لیے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں جو اس تک پہنچاتے ہیں، مثلاً کسی نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا، یا بری نظر سے اس کی طرف دیکھنا، یا گندے خیال کے ساتھ اس کی باتیں سننا، یا برے ارادہ سے اس کا ہاتھ چھونا، یا اسی طرح گندے خیالات کے ساتھ کسی نامحرم عورت کے پاس جانا، یہ سب چیزیں چونکہ حقیقی زنا کی محرک بنتی ہیں جو آگے چل کر بدکاری میں مبتلا کرا دیتی ہیں اس لیے ان کو بھی مجازا زنا کہا جاتا ہے ، تاکہ ان حرکات و اسباب کی نفرت و کراہت دلوں میں بیٹھ جائے اور لوگ ان سے بھی بچتے رہیں۔، لیکن اﷲ جن کو ان قبیح افعال سے محفوظ رکھتا ہے وہ ان سے باز رہتے ہیں اور وہ ان چیزوں سے بھی پرہیز کرتے رہتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی معصیت و گناہ کے خیال کا بھی شائبہ پایا جاتا ہو جو گناہ و معصیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہوں۔

                ’’ شرم گاہ کی تصدیق و تکذیب‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب نفس انسانی ہوا و ہوس کا غلام بن جاتا ہے اور وہ غلط و حرام فعل کی خواہش کرتا ہے تو اگر شرم گاہ اس کے اس غلط و ناجائز خواہش پر عمل کرتی ہے اور زنا میں مبتلا ہو جاتی ہے تو یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، یا اگر کسی احساس و شعور اور ضمیر اﷲ کے عذاب سے لرزاں اور اس کے خوف سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو شرمگاہ نفس کی خواہش کی تکمیل سے انکار کر دیتی ہے اور وہ بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا یہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔

                 اور حضرت عثمان ابن مظعون رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ ! مجھ کو خصی (نامرد) ہونے کی اجازت دیجئے (تاکہ زنا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہماری سنت کے راستے سے ہٹا ہوا ہے) جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہو جائے (بلکہ) میری امت کے لیے خصی ہونا روزہ رکھنا ہے (کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت جاتی رہتی ہے) حضرت عثمان نے عرض کیا کہ پھر مجھے سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کی سیاحی یہ ہے کہ اﷲ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اچھا تو پھر مجھے راہب بننے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا راہب بننا یہی ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے۔ ” (شرح السنۃ)

                حضرت عثمان ابن مظعون رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں کہ جس سے دنیا کی لذتوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی حرکات میں نہ مبتلا ہو سکیں تاکہ اﷲ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو، چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنی قوت مردانگی کو ختم کر کے بالکل نامرد بن جائیں تاکہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے کا خدشہ نہ رہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کو انسانی فطرت اور اسلامی روح کے منافی سمجھتے ہوئے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات ختم ہو جائیں اور روحانی و عرفانی جذبات غالب رہیں تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ روزہ رکھا کرو کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے اور تعلق مع اﷲ کے جذبات کو جلا بخشتا ہے۔ پھر انہوں نے سیر و سیاحت کی اجازت طلب کی تاکہ اس مشغلے سے نفسانی خواہشات میں کمی آجائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا صرف جہاد فی سبیل اﷲ میں مطلوب و محمود ہے، محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے راہب بن جانے کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اہل کتاب میں وہ لوگ جو دیندار اور مذہبی قسم کے ہوتے ہیں دنیاوی تعلقات سے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں اور مشغولیات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور نہ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کو بھی رد کر دیا کیونکہ رہبانیت اہل کتاب کا شیوہ ہے یہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔

                آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری امت میں رہبانیت صرف اسی قدر ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے کیونکہ اس طرح تمام لوگوں اور دنیا کی تمام چیزوں سے منہ پھیر کر پروردگار کی طرف توجہ ہوتی ہے اور اس پر بے شمار اجر و انعام ملتے ہیں اس کے مقابلے میں اہل کتاب کی جو رہبانیت ہے وہ بالکل بے فائدہ اور بے کار محض ہے کہ اس کا انجام دینی اور دنیوی اعتبار سے اچھا نہیں ہوتا۔

                 منقول ہے کہ ایک شخص کو لوگوں نے ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تم اس مرتبہ پر کیونکر پہنچے؟ اس نے کہا کہ میں نے اپنی ہوا یعنی اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال دیا تو اﷲ تعالیٰ نے فضا کی ہوا کو میرے لئے مسخر کر دیا۔

                عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَی أُمَّتِی الْإِشْرَاکُ بِاللَّہِ أَمَا إِنِّی لَسْتُ أَقُولُ یَعْبُدُونَ شَمْسًا وَلَا قَمَرًا وَلَا وَثَنًا وَلَکِنْ أَعْمَالًا لِغَیْرِ اللَّہِ وَشَہْوَۃً خَفِیَّۃً

(سنن ابن ماجہ)

                 حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یا چاند یا بت کو پوجیں گے لیکن عمل کریں گے غیر کے لئے اور دوسری چیز کا ڈر ہے وہ شہوت خفیہ ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں