دنیا کی آزمائش کے عنوان سےچوبیسویں باب میں حکمت نمبر 235 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اوریہی حالت آپ ﷺ کے اصحاب عظام رضی اللہ عنہم کی تھی۔ ان کو کچھ آرام بھی نہ ملا۔ اور ان میں سے اکثر حضرات نے شہید ہو کر وفات پائی۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ زہر سے شہید ہوئے ۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قتل ہو کر شہید ہوئے ۔ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ذبح ہو کر شہید ہوئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ زہر میں بجھائی ہوئی تلوار سے شہید ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلا کر شہید کیا گیا۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوقتل کر کے شہید کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے سرمبارک کے ساتھ ملک شام میں کھیل کر کے بے حرمتی کی گئی۔ پھر سر مبارک مصر میں دفن کیا گیا۔ ایک بادشاہ نے فدیہ دے کر مصر میں دفن کیا اور مصر والوں کے نزدیک و ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک ہے۔ پھر بے شمار اولیاء اللہ گزرے ہیں۔ جن کے ساتھ اہل دنیا نےیہی سلوک کیا۔
اور حضرت جنید رضی اللہ عنہ اور ان کے مریدین کی شکایت بادشاہ سے کی گئی۔ اور وہ سب تلوار کے سامنے لائے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بچایا اور ایک جگہ جمع کر دیا۔
حضرت جنید اور ان کے مریدین کا واقعہ یہ ہے :۔ بغداد کے علما نے خلیفہ متوکل سے کہا ۔ جنید اور ان کے مریدین زندیق یعنی بے دین ہو گئے ہیں۔ خلیفہ نے ، جو حضرت جنید سے حسن عقیدت رکھتا تھا ، ان علما سے کہا : اے اللہ تعالیٰ کے دشمنو ! تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ اولیاء اللہ کو ایک ایک کر کے زمین سے ختم کر دو۔ تم لوگوں نے حضرت منصور حلاج کوقتل کر دیا۔ حالانکہ تم ہر روز ان کا ایک بیان سنتے تھے لیکن ان کو روکتے نہیں تھے۔ لہذا جب تک تم لوگ دلیل میں حضرت جنید پر غالب نہ آ جاؤ۔ اور ان کو شکست نہ دیدو۔ تم کو ان کےقتل کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ لہذا تم لوگ ان سے مقابلہ کرنے کے لئے علما کو جمع کرو ۔ اور ان سے بحث کرنے کے لئے ایک مجلس منعقد کرو۔ اگر تو لوگ ان کے اوپر غالب ہو گئے۔ اور لوگوں نے یہ گواہی دی ، کہ تم لوگ ان پر غالب ہو گئے ہو۔ اور ان کو شکست ہوگئی ہے۔ تو میں ان کو قتل کر دوں گا۔ اور اگر حضرت جنید تم لوگوں پر غالب ہو گئے ۔ اور تم لوگوں کو بحث میں شکست ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کی قسم ، میں تم لوگوں پر تلوار لے آؤں گا۔ او را تناقتل کرو ں گا، کہ تم لوگوں میں کسی ایک عالم کو زمین پر باقی نہ چھوڑوں گا۔ علما نے کہا : ہاں ، ہم تیار ہیں۔ پھر ان علما نے حضرت جنید سے مقابلہ کرنے کے لئے شام اور یمن اور عراق اور دوسرے علاقوں کے علماء کو جمع کیا۔ تو جب اس مقصد کے لئے سب علماء جمع ہو گئے ۔ یہاں تک کہ ہر چہار جانب سے جو شخص دین کا ایک مسئلہ بھی جانتا تھا وہ بھی حاضر ہوا۔ جب علما مقررہ مجلس میں جمع ہو گئے ۔ تو خلیفہ نے حضرت جنید کو بلانے کے لئے ایک قاصد روانہ کیا۔ حضرت جنید اپنے مریدین کے ساتھ شاہی محل کے دروازے پر آئے۔ پھر وہ خود تو خلیفہ کے دربار میں تشریف لے گئے اور اپنے مریدین کو باہر چھوڑ دیا۔ اور خلیفہ کو سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ایک عالم کسی مسئلے میں حضرت جنید سے سوال کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ۔ قاضی علی بن ابی ثور نے اس عالم کی بات سنی۔ تو قاضی نے علما سے دریافت کیا ۔ کیا آپ لوگ حضرت جنید سے سوال کریں گے۔ علما نے جواب دیا ۔ ہاں پھر قاضی نے دریافت کیا کیا آپ لوگوں میں کوئی ایسا شخص ہے، جو جنید سے زیادہ عالم ہو؟ علما نے جواب دیا ۔ نہیں۔ ہم میں جنید سے زیادہ علم جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ قاضی نے کہا ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جنید آپ سے زیادہ عالم ہیں۔ تو ان کو ایک ایسا علم حاصل ہے جس سے آپ لوگ نا واقف ہیں اور آپ لوگ ایک ایسے علم میں ان کے اوپر اعتراض کر رہے ہیں۔ جس کو آپ لوگ نہیں جانتے ہیں۔ لہذا آپ لوگ ایسے شخص سے کیسے سوال کر سکتے ہیں، جس کی بات آپ نہیں سمجھتے ہیں۔ کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ سارے علماء مبہوت ( ہکا بکا ) ہو گئے اور کچھ دیر تک خاموش رہے پھر علما نے کہا اے مسلمانوں کے قاضی اب کیا کرنا چاہیئے آپ جو مناسب مشورہ دیں گے ، ہم لوگ اس پر عمل کریں گے۔ کیونکہ آپ کا حکم قابل اطاعت ہے۔ راوی نے بیان کیا ہے ۔ پھر قاضی علی نے اپنا منہ خلیفہ متوکل کی طرف کیا اور خلیفہ سے کہا ۔ آپ حضرت جنید کو چھوڑ دیجئے ۔ اور ان کے مریدین کے پاس چلئے ۔ آپ کا جلا د ولید بن ربیعہ ان کے سامنے یہ اعلان کرے ۔ تم میں کون شخص تلوار کے سامنے کھڑا ہونے کے لئے تیار ہے۔ یہ اعلان سننے کے بعد جو شخص سب سے پہلے سامنے آئے گا۔ ہم اس سے سوال کریں گے ۔ خلیفہ نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کے اوپر رحم فرمائے ۔ ایسا کیوں کیا جائے۔ کیا آپ ان کے مریدین کو دھمکانا اور مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ آپ کے سامنے ان کے خلاف کوئی دلیل ظاہر نہیں ہوئی ہے؟ ایسا کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے ۔ قاضی نے کہا: اے امیر المومنین! صوفیائے کرام اپنے اوپر ایثار کو پسند کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ لہذا آپ ولید بن ربیعہ کو حکم دیجئے کہ وہ یہ اعلان کرے : تم میں سے کون شخص تلوار کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہے؟ پھر جو شخص جلدی سے آ کر تلوار کے سامنے کھڑا ہو گا ۔ دو ان لوگوں میں سب سے زیادہ جاہل اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ سچا ہوگا۔ تو وہ اپنے بعد زندہ رہنے کے لئے اپنے ساتھیوں کو اپنے اوپر ترجیح دے گا۔ اور خود تلوار کے سامنے کھڑا ہو جائے گا۔ تو جب ان میں سب سے جاہل شخص ہمارے سامنے آئے گا۔ تو عالما جس مسئلے میں چا ہیں گے ، اس سے مناظرہ کریں گے تو یہ یقینی بات ہے کہ نہ علما اس پر غالب ہوں گے ۔ نہ وہ علما پر غالب ہوگا۔ لہذا ہمارے اور ان کے درمیان صلح ہو جائے گی ۔ کیونکہ یہ واقعہ بڑی مصیبت بن گیا ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہے، کہ کس کو اس مصیبت سے نجات ملے گی ۔ اور کون اس کا شکار ہوگا ؟ کیونکہ اگر حضرت جنید قتل کر دیے جائیں، تو یہ اسلام میں بہت بڑا حادثہ ہو گا۔ کیونکہ بلا شبہ وہ ہمارے زمانے میں ایمان کے قطب ہیں۔ اور اگر علم و فقہا قتل کر دئیے جائیں تو یہ بھی بہت بڑی مصیبت ہو گی۔ خلیفہ نے قاضی سے فرمایا :- اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ نے درست سوچا ہے۔ پھر خلیفہ نے ولید کی طرف متوجہ ہو کر اس سے کہا :- قاضی صاحب تم کو جو حکم دیں ۔ اس پر عمل کرو۔ لہذا اولید تلوارلٹکائے ہوئے نکلا اور مریدین کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ کل مرید ین دوسوستر تھے ۔ سب اپنے سروں کو جھکائے بیٹھے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے ۔ ولید نے ان لوگوں کے سامنے پکار کر کہا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو تلوار کے سامنے آئے؟
یہ آواز سن کر اس کے سامنے ایک صاحب آکر کھڑے ہو گئے ۔ جن کا نام حضرت ابوالحسن نوری رضی اللہ عنہ تھا۔
ولید کا بیان ہے :۔ میں نے کسی پرندے کو بھی ان سے زیادہ تیز رفتار نہیں دیکھا۔ وہ اتنی جلدی دوڑ کر میرے سامنے کھڑے ہوئے۔ ان کے اتنی جلدی آ کر کھڑے ہونے سے مجھ کو تعجب ہوا۔
میں نے کہا: کیا تم کو معلوم ہے کہ تم کیوں میرے سامنے کھڑے ہوئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں، کیا تم نے یہ نہیں کہا ہے :۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے ، جوتلوار کے سامنے کھڑا ہو؟
میں نے ان سے کہا: ہاں، میں نے کہا ہے۔
پھر ولید نے ان سے کہا:۔ تم کیوں کھڑے ہوئے؟ حضرت نوری نے جواب دیا :۔ مجھ کو معلوم ہوا ہے، کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکل کر کامیابی کے گھر آخرت کی طرف چلا جاؤں ۔ اور یہ بھی چاہتا ہوں کہ اپنے ساتھیوں کی زندگی کو اپنی زندگی پرترجیح دوں اگر چہ وہ میرے بعد ایک گھڑی زندہ ر ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ میرے قتل ہو جانے کے ساتھ فتنہ ختم ہو جائے۔ اور سب لوگ بچ جا ئیں ۔اور میرے سوا کوئی قتل نہ ہو۔ ولید کہتا ہے :۔ مجھ کو ان کے اس فصاحت کے ساتھ گفتگو کرنے پر بہت تعجب ہوا۔ پھر میں نے اس سے کہا: ۔ تم قاضی صاحب کے سوال کا جواب دو۔
یہ سن کر ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ان کے رخسار پر آنسو جاری ہو گئے ۔ پھر انہوں نے دریافت کیا :- کیا مجھ کو قاضی صاحب نے بلایا ہے؟
میں نے کہا: ہاں ہم کو قاضی صاحب نے بلایا ہے۔ انہوں نے کہا ۔ تب مجھ کو واقعی ان کے سوال کا جواب دینا ہوگا۔ پھر میں ان کو ساتھ لے کر دربار میں گیا۔ اور بادشاہ اور قاضی کو ان کا سارا قصہ بتایا۔
دونوں کو بہت تعجب ہوا ۔
پھر قاضی علی نے ان سے پیچیدہ سوالات کئے چنانچہ قاضی نے ان سے سوال کیا ۔ تم کون اور تم کس لئے پیدا کئے گئے ہو؟ اور تم کو پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے؟ اور تمہارا رب تم سے کہاں ہے۔
حضرت نوری نے فرمایا :۔ پہلے آپ یہ بتائے ، کہ آپ کون ہیں، جو مجھ سے سوال کر رہے ہیں؟
قاضی نے جواب دیا : میں قاضی القضاۃ ہوں ۔ حضرت نوری نے قاضی صاحب کو جواب دیا :۔ تب تو آپ کے سوا کوئی رب نہیں ہے اور آپ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ آپ قاضی القضاۃ ہیں اور آج فیصلہ اور انصاف کا دن ہے اور لوگ دو پہر کے وقت جمع کئے گئے ہیں۔ تو پھر صور کی وہ آواز کہاں ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے؟:۔
وَ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ اور صور پھونکا جائے گا۔ تو جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں ، سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جس کواللہ تعالیٰ چاہے گا ۔ کیا میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بے ہوش ہو جائیں گے۔ یا کیا میں ان میں سے ہوں ۔ جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا ۔ کیونکہ میں نے صور کا پھونکنا نہیں دیکھا اور اس کی آواز نہیں سنی۔
قاضی صاحب تھوڑی دیر مبہوت رہے۔ پھر کہا :-
اے شخص کیا آپ نے مجھ کو معبود بنا دیا ؟
حضرت نوری نے جواب دیا :- معاذ اللہ ۔ اللہ کی پناہ ۔ میں نے آپ کو معبود نہیں بنایا ہے۔ بلکہ آپ نے اپنا نام قاضی القضاۃ رکھ کر اپنے آپ کو معبود بنایا ہے اور اس قاضی کے سوا کوئی قاضی القضاۃ نہیں ہے۔ جو فیصلہ کرتا ہے اور اس کے اوپر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیا سب نام آپ کے لئے تنگ ہو گئے تھے۔ آپ کو کوئی دوسرا نام نہیں ملا تھا؟ کیا آپ کے لئے قاضی المسلمین یا ایک عالم یا ایک اللہ کا بندہ وغیرہ کافی نہیں ہوا۔ جو آپ نے اپنا نام قاضی القضاۃ رکھا ؟ آپ نے یہ نہ کہہ کر کہ میں علی بن ثور ہوں، تکبر کیا۔ پھر وہ برابر قاضی صاحب پر اعتراض کرتے رہے۔ یہاں تک که قاضی علی رونے لگے۔ اور ان کو خیال ہوا۔ ان کی زندگی ختم ہو جائے گی ۔ اور قاضی علی کے رونے کے ساتھ بادشاہ اور حضرت جنید بھی رونے لگے۔
حضرت جنید نے اپنے مرید حضرت ابوالحسن نوری سے فرمایا: ۔ تم قاضی کے لئے اپنی ملامت بند کرو۔ تم نے ان کو مارڈالا۔ اب ان کو چھوڑ دو۔
پھر جب قاضی علی کو افاقہ ہوا اور ان کے ہوش و حواس درست ہوئے ۔ تو انہوں نے کہا ۔ اے ابو الحسن ! آپ میرے سوالوں کا جواب دیجئے۔ میں آپ کے سامنے تو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جاؤں گا۔
حضرت ابوالحسن نوری نے فرمایا ۔ آپ اپنے سوالوں کو پھر بیان کیجئے ۔ کیونکہ میں انہیں بھول گیا۔ قاضی علی نے ان کے سامنے اپنے سوالوں کو دہرایا۔ حضرت نوری نے اپنی دائیں طرف دیکھ کر فرمایا:۔ کیا آپ اس سوال کا جواب دے سکتےہیں؟ پھر انہوں نے کہا:- حسبی اللہ اللہ تعالیٰ میرے لئے کافی ہے۔ پھر انہوں نے بائیں طرف دیکھ کر اسی طرح فرمایا:۔ پھر انہوں نے اپنے سامنے سینے کی طرف دیکھ کر اسی طرح فرمایا ۔ پھر فرمایا: الحمد للہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنا سر اٹھا کر قاضی علی کی طرف دیکھا اور ان سے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اوپر رحمت نازل فرمائے ۔ آپ کا پہلا سوال یہ ہے۔ تم کون ہو؟
اس کا جواب یہ ہے – میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نےإن كُلُّ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا أَبي الرَّحْمَنِ عَبْدًا جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ سب رحم کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پاس بندہ کی حیثیت سے آئیں گے۔
اور آپ کا دوسرا سوال یہ ہے:۔ تم کس لئے پیدا کئے گئے ہو؟ اس کا جواب یہ ہے :- اللہ تعالیٰ ایک ایسا خزانہ تھا۔ جو پہچانا نہیں جاتا تھا۔ لہذا اس نےمجھ کو اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ ) أَيْ لِيَعْرِفُونَ میں نے جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔ یعنی مجھ کو پہچانیں۔
حضرت ابن عباس اور دوسرے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں اسی طرح فرمایا ہے:۔
اور آپ کا تیسرا سوال یہ ہے:۔ میرے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے :- میرے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا مقصد، مجھ کو بزرگی عطا فرمانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي ادم ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا کی ۔
اور آپ کا چوتھا سوال یہ ہے ۔ مجھ سے میرا رب کہاں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے :۔ میرا رب مجھ سے وہیں ہے، جہاں میں اس سے ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُم تم لوگ جہاں بھی رہو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔
قاضی علی نے اس پر یہ سوال کیا ۔ آپ مجھے یہ بتائیے ۔ اس آیہ کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اور ہمارے ساتھ کس طرح ہے؟ حضرت نوری نے جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ اسی طرح ہے، جس طرح ہم اس کے ساتھ ہیں۔ لہذا اگر ہم اس کے ساتھ ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ ہیں۔ تو وہ ہمارے ساتھ اطاعت اور عبادت کی طرف مدد اور ہدایت کے ساتھ ہے۔ اور اگر ہم اس کے ساتھ غفلت کے ساتھ ہیں۔ تو وہ ہمارے ساتھ مشیت کے ساتھ ہے۔ اور اگر ہم اس کے ساتھ معصیت اور نافرمانی کے ساتھ ہیں۔ تو وہ ہمارے ساتھ مہلت یعنی ڈھیل دینے کے ساتھ ہے اور اگر ہم اس کے ساتھ تو بہ کے ساتھ ہیں۔ تو وہ ہمارے ساتھ توبہ قبول کرنے کے ساتھ ہے۔ اور اگر ہم اس کے ساتھ اس کو چھوڑ دینے کے ساتھ ہیں۔ تو وہ ہمارے ساتھ سزا دینے کے ساتھ ہیں۔
قاضی علی نے کہا :- آپ نے سچ فرمایا ۔ لیکن آپ مجھے یہ بتائیے ۔ اللہ تعالیٰ مجھ سے کہاں ہے؟
حضرت نوری نے جواب دیا :- آپ مجھے یہ بتائیے :۔ آپ اللہ تعالیٰ سے کہاں ہیں؟ تب میں بتاوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے کہاں ہے؟ قاضی علی نے کہا:- آپ نے جو کچھ فرمایا۔ وہ سچ فرمایا۔ لیکن آپ میرے ایک دوسرے سوال کا جواب دیجئے ۔
حضرت نوری نے فرمایا:- وہ کون سا سوال ہے؟ قاضی علی نے کہا :- جب میں نے آپ سے سوال کیا ۔ تو آپ اپنی دائیں طرف کیوں مڑے؟
حضرت نوری نے جواب دیا :- اللہ تعالیٰ آپ کو عزت عطا فرمائے ۔ آپ نے جو سوالات مجھ سے دریافت کئے۔ ان کے متعلق مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا۔ کیونکہ میں نے ان کے بارے میں نہ کبھی کسی سے دریافت کیا تھا، نہ کسی سے سنا تھا ۔ لہذا جب آپ نے ان مسئلوں کے بارے میں سوال کیا۔ تو میرے پاس ان کا جواب نہیں تھا۔ جو میں آپ کو بتا تا ۔ تو میں نے اس بزرگ فرشتے سے جو میری دائیں طرف اعمال لکھتا ہے، سوال کیا اور ان سے کہا :- کیا آپ اس سوال کا جوب دے سکتے ہیں؟ انہوں نے مجھ سے فرمایا:-
مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ تب میں نے کہا :- حَسْبِيَ اللَّهُ وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَى اللَّهِ میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ اور میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا۔
پھر قاضی نے سوال کیا :۔ اور آپ بائیں طرف کیوں مڑے؟ حضرت نوری نے جواب دیا :- جس طرح میں نے دا ئیں طرف کے فرشتے سے سوال کیا۔ اسی طرح بائیں طرف کے فرشتے سے سوال کیا۔ انہوں نے بھی وہی جواب دیا، جو دا ئیں طرف کے فرشتے نے جواب دیا تھا۔ پھر قاضی علی نے سوال کیا:- آپ اپنے آگے کیوں جھکے؟ حضرت نوری نے جواب دیا :۔ میں اپنے قلب سے دریافت کیا :۔ تو قلب نے اپنے سر سے اور سرنے اپنے رب سے دریافت کر کے مجھ کو وہ جواب بتایا ، جو میں نے آپ کو دیا ۔ لہذا میں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر شکر ادا کرنے اور انتہا کو پانے اورسمجھنے سے عاجزی کا اقرار کرنے کے لئے الحمد اللہ کہا۔ قاضی علی نے کہا ۔ اے شخص! کیا فرشتے آپ سے بات کرتے ہیں؟ حضرت نوری نے قاضی صاحب سے فرمایا:- اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ۔ کیا آپ کے سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ کہ فرشتوں کے رب نے مجھ سے بات کی ۔ جبکہ اس نے جواب کی طرف میری رہنمائی فرمائی ۔ حالانکہ میں جواب سے نا واقف تھا۔ قاضی علی نے کہا : اے ابو الحسن ! اب میرے اوپر آپ کی بے وقوفی ظاہر ہوگئی اور آپ کی کفر اور آپ کی بے دینی ثابت ہو گئی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ میں آپ کے ساتھ کیا سلوک کروں اور کس طریقے سے آپ کو قتل کروں۔ حضرت نوری نے قاضی علی سے کہا :- آپ ہی بتائے کہ آپ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں اور آپ تو قاضی القضاۃ ہیں ۔ اگر آپ فیصلہ صادر کرتے ہیں اور آپ کے اوپر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تو جو آپ کے جی میں آئے فیصلہ کیجئے ۔ آپ کے ساتھ کیا اختیار ہے؟ قاضی علی نے حضرت نوری سے کہا :- میں ایسا قاضی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کےمطابق فیصلہ کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں ۔ حضرت نوری نے قاضی علی سے کہا :- کیا آپ نے اس کو سمجھا۔ جو میں نے آپ کو ایسے قاضی کا خطاب دیا ہے۔ جو فیصلہ کرتا ہے اور اس پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے؟ قاضی نے دریافت کیا ۔
اس کا مفہوم کیا ہے؟ حضرت نوری نے فرمایا:- اس کا مفہوم وہ ہے ، جواللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْرُونَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ آج کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا۔ اور تم لوگوں کوصرف انہیں اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ، جو تم دنیا میں کرتے تھے ۔ پھر حضرت نوری نے قاضی علی سے کہا:۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ اب آپ جو چاہیں ، فیصلہ کریں۔ اپنے رب سے ملنے کے لئے میں بھی راضی ہوں ۔ اور میر انفس بھی راضی ہے۔ اتنی گفتگو کے بعد قاضی علی نے اپنا منہ خلیفہ متوکل کی طرف کر کے کہا ۔ اے امیر المومنین ! آپ ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے۔ کیونکہ اگر یہ لوگ زندیق اور بے دین ہیں تو پھر روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں ہے۔ یہ حضرات دین کے چراغ اور اسلام کے ستون ہیں۔ اور یہی لوگ سچے مومن ، اور اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں۔
تب خلیفہ نے حضرت جنید رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر ان سے کہا : اے ابوالقاسم ! ان علما وفقہا نے آپ سے مقابلہ کرنے کے لئے یہ عظیم الشان مجلس اس لئے منعقد کی تھی ۔ اور آپ سے مناظرہ کرنے کی تیاری اس مقصد سے کی تھی کہ اگر وہ لوگ آپ کو شکست دے دیں اور آپ پر غالب آجائیں ۔ تو آپ کو قتل کر دیں۔ لیکن اب آپ ان سب پر غالب ہیں۔ اور وہ سب شکست کھا چکے ہیں ۔ اور میں نے اپنے اوپرقسم کھائی تھی ۔ کہ اگر آپ ان کے اوپر غالب آجا ئیں گے اور یہ لوگ آپ کے مقابلے میں شکست کھا جائیں گے ۔ تو میں ان سب کو قتل کر دوں گا ۔ لہذا اب اگر آپ چاہیں تو ان لوگوں کو معاف فرمادیں۔ اور اگر آپ چاہیں تو یہ لوگ قتل کر دیئے جائیں۔ حضرت جنید نے فرمایا ۔ اے امیر المومنین ! میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے سبب سے ان میں سے کوئی شخص بھی قتل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور ان لوگوں کو معاف فرمائے ۔ اور ہماے او پر ان لوگوں کے اعتراض اور انکار کرنے میں ان کے اوپر کوئی گرفت نہیں ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو میرے قتل پر جہالت اور علم کی کمی نے آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور ان سب کو معاف فرمائے ۔ لہذا مجلس عافیت اور سلامتی کے ساتھ برخاست ہو گئی۔ اور ان میں سے کوئی شخص بھی قتل نہیں کیا گیا۔وَالْحَمْدُ للهِ
پھر قاضی علی ، حضرت ابوالحسن نوری کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اور ان سے کہا اے ابوالحسن مجھ کو آپ کے حال سے خوشی ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ لیکن میں آپ سے ایک ہدایت چاہنے والے شخص کی طرح کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اوپر رحمت نازل فرمائے ۔ آپ میری رہنمائی فرما ئیں ۔ حضرت ابوالحسن نوری نے فرمایا :- آپ کے دل میں جو بات پیدا ہوئی ہے آپ سوال کیجئے اگر مجھ کو اس کا جواب معلوم ہو گا تو ضرور آپ کو بتاؤں گا ۔ ورنہ میں آپ سے کہدوں گا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ اور اپنی بے سمجھی ظاہر کرنا میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پھر قاضی علی نے ان سے متعدد مسائل دریافت کئے ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی