دوام مراقبہ و مشاہدہ (باب دوم)

دوام مراقبہ و مشاہدہ حکمت نمبر23

دوام مراقبہ و مشاہدہ کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر23 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
ساتواں ادب۔ ہمیشہ مراقبہ کرنا، اور برا بر مشاہدے میں رہنا ہے جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے:۔
23) لا تَتَرَقَّبْ فَرَاغَ الأَغْيَارِ فَإِنَّ ذَلِكَ يَقْطَعُكَ عَنْ وُجُودِ المُراقَبَةِ لَهُ فِيمَا هُوَ مُقِيمُكَ فِيهِ.
تم اغیار سے فرصت پانے کا انتظار نہ کرو۔ کیونکہ یہ انتظارتم کو اللہ تعالیٰ کے مراقبے سے اس حال میں مشغول ہونے کی بناء پر جدا کر دے گا، جس حال میں تم کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ۔

مراقبہ قلب و روح

مراقبہ کے معنی ، حفاظت کرنی۔ اور مراقبہ قلب پر بھی صادق آتا ہے۔ یعنی دوام حضور پر قلب کی حفاظت کرنی ۔ اور روح پر بھی صادق آتا ہے۔ یعنی دوام شہود پر روح کی حفاظت کرنی ۔ اور سر پر بھی صادق آتا ہے۔ یعنی دوام ترقی وادب پر سر کی حفاظت کرنی ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں جب اللہ تعالیٰ تم کو کسی ایسے حال میں قائم کرے جس میں غلبہ جس کی وجہ سے اغیار کا وجود غالب ہو۔ مثلاً جب اللہ تعالیٰ تم کو بظاہر کسی دنیاوی شغل میں قائم کرے جس سے تمہارے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو ۔ تو تم اللہ تعالیٰ کے دوام حضور میں اپنے قلب کی حفاظت کی کوشش کرو تا کہ غفلت تم کو چرانہ لے۔ یا تم اللہ تعالیٰ کے دوام شہود میں اپنی روح کی حفاظت کی کوشش کرد ۔ تا کہ حس تم کو نہ چرائے۔ یا تم اپنے سر کو بخششوں اور علوم سے مددطلب کرنے میں مشغول رکھنے کی کوشش کرو۔ تا کہ اس میں کوئی فتور نہ واقع ہو۔ اور اغیار سے اپنے ہاتھ کے کام کے ختم ہونے تک، فارغ ہونے کا انتظار نہ کرو۔ ورنہ تمہارے ہاتھ کا کام ختم ہونے تک تمہارے قلب کا حضور ملتوی ہو جائے گا۔ لہذا اس حال میں جس میں تم کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے تمہارے اندر سے مراقبے کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اور یہ تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہوگی ۔ نیز اس حال میں اس وقت کا ضائع کرنا، اور اس کا اللہ تعالیٰ کے معاملے سے خالی ہونا ہے۔ اور گزرے ہوئے وقتوں کی قضا ممکن نہیں ہے۔
میرے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی حضرت ولائے عربی رضی اللہ عنہ جب اپنے اصحاب (مریدین) کو کسی کام میں مشغول دیکھتے تھے اور انہیں ان کی طرف سے یہ خوف ہوتا کہ حس ان کو چرانہ لے۔ تو وہ ان کو بلند آواز سے انت انت یعنی تم ہوشیار رہو پکارتے تھے اور وہ اس طرح ان کو تنبیہ کرنے اورحس کے شہود سے ہوشیار کرنے کے لئے کرتے تھے ۔ اور حضرت شعرانی رضی اللہ عنہ نے عبود میں اپنے بعض شیوخ کا حال بیان کیا ہے ، وہ لوگوں کی محفل میں بھی اللہ تعالیٰ سے غائب نہیں ہوتے تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنے والے عارفین کی یہی شان ہے اور جمع الجمع کی یہی حالت ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
تنبیہ یہ قول حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے پہلے گزرے ہوئے اس قول کے ساتھ تکرار نہیں ہے۔ فرصت کے باوجود اعمال کے بجالانے میں تمہاری غفلت اور ٹال مٹول نفس کی رعونتوں سے ہے کیونکہ وہ قول جسمانی اعمال کے بارے میں ہے۔ اور یہ قول قلبی اعمال کے بارے میں ہے۔ اور اس پر دلیل اس جگہ کی عبارت میں مراقبہ کا لفظ اور وہاں کی عبارت میں اعمال کا لفظ ہے۔ اور فائدہ پہنچانا دوہرانے سے بہتر ہے۔ وباللہ التوفیق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں