ذلت نفس سے نجات(مناجات 25)

یہ پچیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پچیسویں مناجات

  إِلٰهِي أَخْرِجْنِي مِنْ ذُلِّ نَفْسِيْ وَطَهَّرْنِي مِنْ شَكِّي وَشِرْكِي قَبْلَ حُلُولِ رَمْسِي ،بِكَ اسْتَنْصِرُ فَانْصُرْنِي وَعَلَيْكَ اَتَوَكَّلُ فلا تَكِلْنِي وَإِيَّاكَ أَسْأَلُ فَلَا تُخَيِّبْنِيْ وَفِي فَضْلِكَ اَرْغَبُ فَلَا تَحْرِمْنِي وَلِجَنَابِكَ أَنْتَسِبُ فَلَا تُبَعِّدْنِي وَبِبَابِكَ أَقِفُ فَلَاتَطْرُدُنِي

اے میرے اللہ ! مجھ کو میرے نفس کی ذلت سے نکال اور مجھ کو میرے شک اور شرک سے میرے قبر میں داخل ہونے سے پہلے پاک کر میں تجھی سے مدد چاہتا ہوں لہذا تو میری مدد کر اور میں تیرے ہی او پر بھروسہ کرتا ہوں۔ لہذا تو مجھ کو سپرد نہ کر۔ اور میں تجھی سے مانگتا ہوں ۔ پس تو مجھے کو نا کام نہ کر اور میں تیرے فضل کی خواہش رکھتا ہوں لہذا تو مجھ کو محروم نہ کر اور تیری بارگاہ سے میں اپنی نسبت کرتا ہوں لہذا تو مجھ کو دور نہ کر اور میں تیرے دروازے پر کھڑا ہوں لہذا تو مجھ کو نہ بھگا۔

الٰهِىْ اَخْرِجْنِي مِنْ ذُلِّ نَفْسِىْ اے میرے اللہ! مجھ کو میرے نفس کی ذلت سے نکال ۔

اور نفس کی ذلت: طمع اور حرص کے ساتھ غیر اللہ کے سامنے اس کا ذلیل ہوتا ہے۔ کیونکہ حرص ہی ذلت کے درخت کا بیج ہے: وَطَهِّرْنِي مِنْ شَکِي وَشِرْكِي ، قَبْلَ حُلُولِ رَمْسِي اور مجھ کو میرے شک اور شرک سے میرے قبر میں داخل ہونے سے پہلے پاک کر۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: شاید اس مقام پر شک سے مراد: ظلمانی دشمن کا زیادہ ہوتا ہے۔ یا رزق کے وسو سے مراد ہیں۔ جو قائم نہیں رہتے ہیں ۔ حضرت شیخ ابن عباد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: شک نفس کے کسی ناگوار معاملے کے محسوس کرنے پر جو اس کو لاحق ہوئی سینے کا تنگ ہونا ہے۔ تو جب اس کا سینہ تنگ ہوتا ہے تو اس کے سبب سے اس کا قلب تاریک ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے اس کو فکر اور غم لاحق ہوتا ہے۔ اور اس تاریکی سے قلب کی پاکیزگی اس کی ضد کے وجود سے ہوتی ہے۔ اور شک کی ضد: یقین ہے۔ لہذا یقین ہی سے سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اسی سے اس کی تنگی دور ہوتی ہے۔ اور یقین کے نور سے جتنا حصہ قلب کو ملتاہے اتناہی سینہ کشادہ ہوتا ہے۔ اور سینہ کشادہ ہونے پر اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فضل سے قلب کو راحت اور فرحت حاصل ہوتی ہے۔

حدیث شریف میں حضرت رسول اکرم ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔

إِنَّ اللَّهَ بِقِسْطِهِ وَعَدْلِهِ جَعَلَ الرَّوْحَ وَالْفَرَحَ بِالرِّضَى وَالْيَقِينِ، وَجَعَلَ الْهَمَّ وَالْحُزْنَ فِي السُّخْطِ وَالشَّكِّ

اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و انصاف سے رضا اور یقین میں راحت اور فرحت رکھی ۔ اورنا راضی اور شک میں فکر اور غم رکھا ہے۔

اور شرک قلب کا مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر اسباب میں اس طرح متعلق ہونا اور پھنس جانا ہے۔ جس طرح شکار جال میں پھنس جاتا ہے۔

اور شرک کا پیدا کرنے والا : قلب پر شک کی ظلمت غالب ہونے کے وقت شہوت کا ہیجان ہے۔ پھر خواہش اس کے لئے مزیدار اور شیریں ہو جاتی ہیں پھر وہ ان اسباب کی پناہ لیتا ہے جن کی وجہ سے وہ اپنی اس سرکشی اور نافرمانی تک پہنچتا ہے۔ کہ وہ ان کے سوا کسی کو نہیں دیکھتا ہے لہذاو ہ  اس کی وجہ سے شرک کی جال میں پھنس جاتا ہے۔

اور شرک سے بندے کی پاکیزگی اس کی ضد سے ہوتی ہے۔

اور شرک کی ضد: توحید کا وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ بندے کے قلب میں ڈالتا ہے۔ لہذا اس کا نفس اس سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس حرص اور خفت اور بے عقلی سے جو اس کو لاحق ہوئی تھی سکون حاصل کر لیتا ہے۔ اور اس کے قلب میں جیسے جیسے توحید مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ ویسے ویسے شرک سے اس کی رہائی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے قلب سے اسباب مٹ جاتے ہیں۔ اور اس میں خالص توحید قائم ہو جاتی ہے۔ لہذا جب بندہ شرک اور شرک سے پاک ہو جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہدایت اور اصلاح اور معاونت اور تائید کے ساتھ اس کا سر پرست ہو جاتا ہے۔ سیدنا حضرت داؤد علیہ السلام کے اخبار میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی

اسے داؤد! کیا تم جانتے ہو کہ میں کب لوگوں کا سر پرست ہوتا ہوں، جب وہ اپنے قلوب کو شرک سے پاک کر لیتے ہیں۔ اور اپنے قلوب سے شک دور کر دیتے ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے حوادث اور مصائب کے نازل ہونے پر شک اورشرکسے اپنی پاکیزگی طلب کی ہو۔ کیونکہ حوادث مصائب تک اور وہم کا مقام ہیں۔ لہذا بندے کو چاہیئے  کہ اللہ تعالیٰ کے قدر کے نازل ہونے پراللہ تعالیٰ کے لطف وکر م میں شک نہ کرے۔ نہ کسی سبب سے نہ غیر اللہ سے تعلق پیدا کرے۔ بلکہ وہ خالص ابرا ہیمی ہو جائے ۔ جب وہ جلال کی آگ میں ڈال دیا جائے اور مخلوق اس سے کہے: کیا تمہاری   کچھ حاجت ہے؟ تو وہ اپنی زبان حال یا زبان قال سے جواب دے لیکن تم سے تو میری کچھ حاجت نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تو ہاں ، میری حاجت ہے۔ پھر جب مخلوق کہے: اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرو۔ تو وہ اس کو جواب دے۔ اللہ تعالیٰ کو میرے حال کا علم ہونا، میرے سوال سے مجھ کو بے نیاز کرتا ہے (یعنی اس کو میرے حال کا علم ہونا ہی میرے لئے کافی ہے )

تو یہ ضروری اور یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ جلال کی آگ سے کہے گا میرے ولی پر ٹھنڈی اور سلامتی پر ہو جا۔ لہذادہ جلال خالص جمال ہو جائے گا۔

پس جب بندہ ایسے وقت شک اور شرک سے پاک ہو جاتا ہے تو وہ حقیقی موحد اور خالص ابراہیمی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا ہے۔ اور اس کے سوا کسی سے مدد نہیں چاہتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

بِكَ اسْتَنْصِرُ میں تجھی سے مدد چاہتا ہوں تیرے غیر سے نہیں ۔

فَانْصُرْنِي وَعَلَيْكَ اَتَوَكَّلُ لہذا تو میری مدد کر ۔ اور میں تیرے ہی اوپربھروسہ کرتا ہوں  ۔ یعنی اپنے کل معاملات تیرے حوالے کرتا ہوں۔    فلا تَكِلْنِي لہذا تم مجھ کو سپرد نہ کر

یعنی مجھ کو اپنے سواد دسرے کا محتاج نہ کر ۔

وَإِيَّاكَ أَسْأَلُ اور میں تجھی سے مانگتا ہوں

یعنی اپنی کل حاجتیں تجھی سے مانگتا ہوں۔ تیرے سوا کسی سے نہیں مانگتا ہوں ۔

فَلَا تُخَيِّبْنِيْ پس تو مجھ کونا کام و مایوس نہ کر اس سے جو میں نے تجھ سے امید کی ہے۔ کیونکہ تو کریم ہے۔ تو اس بات سے شرم کرتا ہے کہ تو اس شخص کو خالی ہاتھ اور مایوس واپس کرے،جس نے اپنے دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلائے ۔

وَفِي فَضْلِكَ اَرْغَبُ فَلَا تَحْرِمْنِي اور میں تیرے فضل کی خواہش رکھتا ہوں۔ لہذا تو مجھ کو محروم نہ کرے۔

یعنی اپنے فضل عظیم سے محروم نہ کرے۔ وَلِجَنَابِكَ    اور تیری بارگاہ سے   یعنی تیری حمایت اور حرمت کی جگہ ہے۔

أَنْتَسِبُ فَلَا تُبَعِّدْنِي میں اپنی نسبت کرتا ہوں۔ لہذا تو مجھ کو دور نہ کر یعنی اپنی حمایت کی جگہ اور اپنی ہمسائیگی سے، اپنے ساتھ میری بے ادبی کی وجہ سے مجھ کو دور نہ کر ۔کیونکہ تو غفوروحلیم ہے۔

وَبِبَابِكَ أَقِفُ اور میں تیرے دروازے پر کھڑا ہوں اور گریہ وزاری کر رہا ہوں ۔ اور اسی دروازے کو ثابت قدمی سے پکڑے ہوئے ، اس کو کھٹکھٹا رہا ہوں۔

فَلَاتَطْرُدُنِي ، لہذا تو مجھ کو نہ بھگا اس لئے کہ کریم کی شان یہ نہیں ہے کہ اپنے عظیم الشان دروازے سے بھگائے یا اپنے فضل عام کے سمندر کے صدر مقام سے لوٹا دے۔

وَنَحْنُ كِلابُ النَّارِ طَبَعًا وَلَمْ تَزَلْ      نُحِبُّ مَوَالِيهَا وَتَحْرُسُ بَابِهَا

اور ہم طبعا ( پیدائشی طور پر ) اس گھر کے کتے ہیں اور ہم برابر اس گھر کے آقاؤں سے محبت کرتے اور اس گھر کے دروازے کی پاسبانی کرتے ہیں۔

إِذَا طُرِدَتْ يَوْمًا كِلَابُ قَبِیْلَةٍ                        فَقَومِي كِرَامٌ لَا تُهِينُ كِلَابِهَا

جب کسی دن کسی قبیلے کے کتے بھگا دئیے جائیں تو میری قوم شریف و بزرگ ہے وہ اپنے کتوں کو ذلیل نہیں کرتی ہے۔ حضرت علی بن ہند فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ تم اس کی کوشش کرو کہ کسی حال میں اپنے آقا کے دروازے سے جدا نہ ہو۔ کیونکہ وہ کل حقوق کی پناہ گاہ ہے لہذا جس شخص نے اس دروازے کو چھوڑ دیا پھر وہ کسی دروازے پر قرار اور مقام نہ پائے گا۔ اور جب تم ہمیشہ دروازے پر پڑے رہو گے تو وہ تم کو ماننے سے پہلے عطا فرمائے گا اور بغیر کسی  سبب کے تمہارے اوپر بخشش کرے گا ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں