اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کا ذکر حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام پر درود بھیجنے سے اولی و افضل ہے لیکن وہ ذکر جوقبولیت کا مرتبہ رکھتا ہو یا وہ ذکر جو شیخ طالب نے مقتداسے اخذ کیا ہو اور اس کے مناسب بیان میں ملا غازی نائب کی طرف صادرفرمایا ہے۔
کچھ مدت تک میں حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صلوت میں مشغول رہا اورقسم قسم کے درود و صلوة بھیجتا رہا اور بہت سے دنیاوی فائدے اور نتیجے پاتا رہا اور ولایت خاصہ محمد علی صاحبہا الصلوة والسلام کے اسرار ودقائق کا مجھ پر فیضان ہوتا رہا۔ کچھ مدت تک اسی طرح کرتا رہا۔ اتفاقا اس التزام میں فرق آ گیا اور اس اشتغال کی تو فیق نہ رہی۔ صرف صلوة موقتہ پر کفایت کی۔ اس وقت بھی یہی اچھا معلوم ہوتا تھا کہ صلوة کی بجائے تسبیح و تہلیل تقدیس میں مشغول رہوں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ شاید اس میں کوئی حکمت ہوگی۔ دیکھیں کیا ظاہر ہوتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی عنایت سے معلوم ہوا کہ اس وقت ذکرکرنا صلوۃ و درود بھیجنے سے بہتر ہے۔ درود بھیجنے والے کے لیے بھی اور جس کی طرف درود بھیجا جاتا ہے اس کے لیے بھی دو وجہ سے۔
وجہ اول: یہ ہے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے مَنْ شَغَلَهُ ذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ فَوْقَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ جس کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے روک رکھا تو میں اس کو تمام سائلین سے بڑھ کر دیتا ہوں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ذکر پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے تو اس کا ثواب جس قدر ذاکر کو پہنچتا ہے اسی قد رثواب آنحضرت کو بھی پہنچتا ہے۔ رسول الله ﷺنے فرمایا ہے۔مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَاجس شخص نے کسی نیک سنت کو جاری کیا، اس کو اس کا اپنا اجر بھی ملے گا اور اس شخص کا بھی جو اس پر عمل کرے گا۔
اسی طرح جو نیک عمل امتوں سے وجود میں آتا ہے، اس عمل کا اجر جس طرح عامل کو پہنچتا ہے، اسی طرح پیغمبرکوبھی جو اس عمل کا واضع ہے، پہنچتا ہے۔ بغیر اس کے کہ عامل کے اجرکو کچھ کم کریں۔ اس بات کی ضرورت نہیں کہ عمل کرنے والا پیمبر علیہ السلام کی نیت پر عمل کرے کیونکہ وہ حق تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ عامل کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ ہاں اگر عامل سے پیغمبر علیہ السلام کی نیت بھی ظاہر ہو جائے توعامل کے لیے زیادہ اجر کا باعث ہے اور یہ زیادتی بھی پیغمبر کی طرف عائد ہوگی۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)
کچھ شک نہیں کہ ذکر سے اصلی مقصودحق تعالیٰ کی یاد ہے اور اس پراجر کا طلب کرنا اس کا طفیلی اور تابع ہے اور درود میں اصلی مقصد طلب حاجت ہے۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ) پس وہ فیض جو ذکرقلبی کی راہ سے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کوپہنچتے ہیں۔ ان برکات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جو درود کی راہ سے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کوپہنچتے ہیں۔ .
جاننا چاہے کہ ہرذکر مرتبہ نہیں رکھتا۔ وہ ذکر جوقبولیت کے لائق ہے، وہی اس زیادتی کے ساتھ مخصوص ہے لیکن جوذ کر ایسانہیں درود کو اس پر زیادتی اور فضیلت ہے اور درودے زیادہ برکتیں حاصل ہونے کی امید ہے۔ ہاں وہ ذکر جو طالب کسی شیخ کا مل مکمل سے اخذ کرتا ہے اور طریقت کے آداب و شرائط کو مدنظر رکھ کر اس پر مداومت کرتا ہے، درود پڑھنے سےا فضل ہے کیونکہ یہ ذ کر اس ذکر کا وسیلہ ہے جب تک یہ ذکر نہ ہو، اس ذکر تک نہیں پہنچ سکتے۔
یہی باعث ہے کہ مشائخ طریقت قدس سرہم مبتدی کے لیے سوائے ذکر کرنے کے اور کچھ جائز نہیں سمجھتے اور اس کے حق میں صرف فرضوں اور سنتوں پر کفایت کرتے ہیں اور امور نافلہ سے منع کرتے ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوا کہ امت میں سے کوئی شخص خواہ وہ کمالات میں کتنا ہی بلند درجہ حاصل کر لے۔ اپنے پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ برابری نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سب کمالات اس کو اس پیغمبر کی شریعت کی متابعت کے باعث حاصل ہوئے ہیں۔ پس اس پیغمبر کو یہ سب کمالات بھی اور دوسرے تابعداروں کے کمالات بھی اور اپنے مخصوصہ کمالات بھی ثابت و حاصل ہوں گے۔ اسی طرح وہ شخص کامل اپنے پیغمبر کے سوا کسی دوسرے پیغمبر کے مرتبہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اگر چہ کسی نے اس پیغمبر کی متابعت نہ کی ہو اور اس کی دعوت کو کسی نے قبول نہ کیا ہو کیونکہ ہر ایک پیغمبرا صلی اور مستقل طور پر صاحب دعوت دشریعت کی تبلیغ پر مامور ہے۔ امتوں کا انکار اس کی دعوت وتبلیغ میں قصور پیدا نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ کوئی کمال دعوت وتبلیغ کے مرتبہ تک نہیں پہنچتا۔فان أحب عباد الله إلى الله من حبب الله إلى عباده و حبب عباد الله إلى الله وهو الداعى والمبلغ ( کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پیارا وہ شخص ہے جو الله تعالیٰ کو اپنے بندوں کے نزدیک اور بندوں کو الله تعالیٰ کےنزدیک پیارا اور محبوب بنائے اور وہ شخص دعوت وتبلیغ کرنے والا ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ خبر میں آیا ہے کہ قیامت کے دن علماء کی سیاہی کو فی سبیل اللہ شہیدوں کے خون کے ساتھ وزن کریں گے اور اس سیاسی والا پلہ اس خون والے پلے پر راجح اور غالب آجائے گا۔ باقی امت کے لوگوں کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی جو کچھ رکھتے ہیں ۔ طفیلی اور ضمنی ہے۔ اصل اصل سے ہے اور فرع اصل سے مستنبط ہے۔ اس بیان سے اس امت کے داعیان اور مبلغین کی فضیلت معلوم کرنی چاہیئے۔ اگرچہ دعوت وتبلیغ میں بہت سے درجات ہیں اور داعيان مبلغین اپنے اپنے درجات میں متفاوت ہیں۔ علماء تبلیغ ظاہری کے ساتھ مخصوص ہیں اور صوفیاء باطن کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں اور جو کوئی عالم صوفی ہے، وہ کبریت احمریعنی اکسیر ہے اور ظاہری و باطنی دعوت وتبلیغ کے لائق ہے اور پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کانائب و وارث ہے اور بعض لوگ اس امت کے محدثین کو جو احادیث نبوی ﷺ کی تبلیغ کرتے ہیں، تمام امت سے افضل جانتے ہیں۔ اگر مطلق اور عام طور پر افضل جاتے ہیں تو محل خدشہ ہے اور اگر ظاہری مبلغین کی نسبت کہا ہے تو ہوسکتا ہے کیونکہ مطلق فضیلت اس جامع مبلغ کے لیے ہے جو ظاہری باطنی تبلیغ کرتا ہے لیکن ظاہر میں بھی دعوت کرتا ہے اور باطن میں بھی۔ لان في الاقتصار قصور ينا في إطلاق الفضل فافهم فلا تكن من القاصرين ( کیونکہ اقتصار میں قصور ہے جو فضل کے اطلاق کرنے کے منافی ہے۔ پس سمجھ اور کوتاہ نظروں میں سے نہ ہو) ہاں ظاہر يقينا عمدہ اور نجات کا مدار اور بڑی برکت والا اور عام نفع والا ہے لیکن اس کا کمال باطن پر موقوف ہے۔ ظاہر بغیر باطن کے ناتمام ہے اور باطن بغیر ظاہر کے نافرجام اور وہ شخص جو باطن کو ظاہر کے ساتھ جمع کرے، کبریت احمریعنی سرخ گندھک ( کیمیا و اکسیر ہے۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يا الله تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش۔ تو ہر چیز پر قادر ہے) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ207ناشر ادارہ مجددیہ کراچی