عَنْ حَنْظَلَۃَ الْأُسَیِّدِیِّ قَالَ وَکَانَ مِنْ کُتَّابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقِیَنِی أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ کَیْفَ أَنْتَ یَا حَنْظَلَۃُ قَالَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَۃُ قَالَ سُبْحَانَ اللَّہِ مَا تَقُولُ قَالَ قُلْتُ نَکُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُذَکِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّۃِ حَتَّی کَأَنَّا رَأْیُ عَیْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّیْعَاتِ فَنَسِینَا کَثِیرًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ فَوَاللَّہِ إِنَّا لَنَلْقَی مِثْلَ ہَذَا فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ حَتَّی دَخَلْنَا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَۃُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاکَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ نَکُونُ عِنْدَکَ تُذَکِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّۃِ حَتَّی کَأَنَّا رَأْیُ عَیْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِکَ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّیْعَاتِ نَسِینَا کَثِیرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَی مَا تَکُونُونَ عِنْدِی وَفِی الذِّکْرِ لَصَافَحَتْکُمْ الْمَلَائِکَۃُ عَلَی فُرُشِکُمْ وَفِی طُرُقِکُمْ وَلَکِنْ یَا حَنْظَلَۃُ سَاعَۃً وَسَاعَۃً ثَلَاثَ مَرَّاتٍ (صحیح مسلم: کتاب التوبۃ باب فضل دوام الذکر الفکر۔۔۔۔۔)
آداب شیخ میں سے ایک اہم کام رابطہ شیخ بھی ہے بالخصوص ذکر کیلئے مرشد کی بارگاہ میں حاضری دینا مرید اور شیخ کا رابطہ کہلاتا ہے جس کے بغیر قرب الٰہی کا حصول ممکن ہی نہیں اور سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں کتاب و سنت پہ عمل کے بعدرابطہ شیخ اہم بنیاد شمار ہوتا ہے رابطہ طریقت ایک راز ہے جس کے ذریعے سالک اﷲ تک پہنچتا ہے اوریہی راستہ اﷲ تعالیٰ نے شروع سے جاری فرمایا ہے جو بہت سارے روحانی امراض کیلئے دوا اور شفا ہے اسے سالکین کی معراج کیلئے سیڑھی کا درجہ دیا گیا ہے اور اکابرین سلسلہ نقشبندیہ بعض اوقات اس کی تاثیر ذکر سے بھی زیادہ بتاتے ہیں جیسا کہ خواجہ عبید اﷲ احرار فرماتے ہیں ظلّ المرشد أنفع للمرید من أن یشتغل المرید بذکر اﷲ.
مرشد کا سایہ مرید کیلئے اﷲتعالیٰ کے ذکر سے زیادہ نفع بخش ہے
’’سایہ راہبر بہ است ازذکر حق ‘‘
اس لفظ کا مادہ رباط ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو کسی جگہ باندھ دینا قرآن میں جنگ کیلئے گھوڑے باندھنے کو رباط کہا ہے اسی طرح سرائے یا قافلوں کے ٹھہرنے کی جگہ کو رباط کہتے رابطہ قلب کا معنی ہوگا دل کا اطمینان اور سکون خاطر حاصل کرنے کیلئے کسی جگہ تعلق قائم کر لینا اپنے آپ کو وابستہ کر لینا۔اور غالبا اسی معنی میں پیر محمد کرم شاہ نے تفسیر ضیاء القرآن میں’’نفس کو نیت حسنہ پر آمادہ رکھنا اوراور جسم کو عبادت پر کاربند رکھنا‘‘کیا ہے۔ قاضی ثنا ء اﷲ پانی پتی نے ’’نفوس ،قلوب اور بدنوں کو ذکر الٰہی،طاعات نماز کی ادائیگی کے بعدمساجد میں اگلی نماز کے انتظاراور ذکر کے حلقوں کاپابند بننے کو رباط کہا ہے‘‘
شیخ احمد الدوسری فرماتے ہیں ’’رابطہ کسی کے قلب کا کسی اور کے قلب سے محبت کے ساتھ جڑے رہنے کو کہتے ہیں‘‘
انہی معانی کے مطابق سالک اور شیخ کا عشق و محبت کے رشتے میں بندھ جانا جسے نسبت کہتے ہیں رابطہ بھی کہلاتا ہے جس سے روحانی ارتباط ملتا ہے رابطہ قلب محبت واطاعت کے ساتھ علم باطنی کے حصول کیلئے اور اسکا نہ ہونا حصول برکات و فیض روحانی کا منقطع ہونا ہے۔
رابطہ شیخ غفلت کو دور کرنے ،حجاب کو دور کرنے اور اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کا اکسیر نسخہ ہے کیونکہ رابطہ صرف حاضر ہونے کا تعلق ہی نہیں بلکہ یہ قلبی تعلق کا نام ہے جس سے شیطانی وساوس اور دلی امراض دور ہوتے ہیں شیخ کی محبت زینہ ہے جو اﷲ اور اس کے رسول کی محبت و اطاعت پر ختم ہوتا ہے۔
اسی طرح (رَابِطُوْا) میں جہاد کے لیے تیار رہنا، کسی چوکی پر پہرہ دینا، مورچے پر رہنا اور اپنی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا سب کچھ شامل ہے اوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’ایک دن رات پہرہ دینا، ایک ماہ کے روزے اور قیام سے بہتر ہے۔ اگر وہ پہرہ دیتے ہوئے شہید ہوگیا تو اس کا یہ عمل برابر جاری رہے گا اور اس کو اس پر اجر دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے امن میں رہے گا” (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اﷲ عزوجل)
بعض فقہاء رباط کو جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جہاد غیر مسلموں سے کیا جاتا ہے اور رباط خود مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔
اور بعض لوگوں نے رَابِطُوْا سے باہمی روابط اور معاشرتی آداب کو ملحوظ رکھنا مراد لیا ہے۔ یعنی صلہ رحمی،رشتوں ناطوں کا پورا پورا لحاظ رکھو اور ہر شخص دوسرے کے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر معاشرہ میں ہمدردی، مروت اور اخوت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
سلوک میں رابطہ کی تین اقسام ہیں رابطہ صوری رابطہ خیالی اور رابطہ معنوی
رابطے کی پہلی صورت یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ سے ایسا قلبی لگاؤ رکھے کہ اسے یقین ہو کہ میرا شیخ مجھے اﷲ سے واصل کر سکتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے شیخ کی صورت کو اپنے سامنے تصور کرے اور اس سے روحانی امداد طلب کرے اپنے قلب کو شیخ کے قلب کے سامنے باطنی طور پر خیال کرے ۔
تیسری صورت یہ کہ اپنے شیخ کی صورت خیالی طور پر اس طرح حفظ کر لے کہ ہر لمحہ اس حدیث کے مطابق المرء مع من احب اس کے ساتھ رہے اس کی افادیت یہ ہے کہ مرید میں بھی وہ اوصاف پیدا ہوتے ہیں جو اس کے مرشد میں موجود ہوں جس کا مرتبہ کمال فنا فی الشیخ ہے ۔کیونکہ شیخ کا قلب مختلف واسطوں سے رسول اﷲ کے قلب کے ساتھ ہوتا ہے ایسا کرنے سے اﷲکے فیوضات کا نزول ہوتا ہے اور اسے نور ذکر اور نور رسول کی برکت حاصل ہوتی ہے ۔
اور ان تینوں اقسام کا مجموعہ یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ کی ظاہری مجلس میں ان تمام اوصاف کے ساتھ حاضر ہو۔
محبت کا دوسرا نام رابطہ بھی ہے ایسی محبت کے ساتھ رابطہ کبھی محمود کبھی مذموم اور کبھی مباح ہوتا ہے محمود یہ ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی محبت کیلئے رابطہ قائم ہو یا اس محبت کو قرب دینے والی شے ہو۔مذموم یہ ہے کہ حرام اور مکروہ چیزوں کی محبت کے حصول کیلئے رابطہ کیا جائے اور ایسا رابطہ مباح ہے کہ اپنے گھر والوں یااولاد کے ساتھ طبیعت کی جبلت کی وجہ سے محبت کی جائے جس میں شرعی رکاوٹ نہ ہو۔
تاج الدین بن زکریا ہندی شیخ احمد سرہندی کے ہم عصر “آداب المشیخۃ والمریدین”فرماتے ہیں
فطریق الرابطۃ -وہی رابطۃ القلب مع الشیخ-: فرؤیتہ بمقتضی -الّذین إذا ذُکر اﷲ- تحصل لہم الفائدۃ کما تحصل الفائدۃ من الذکر بموجب -ہم جلساء اﷲ- لأنّ الشیخ کالمیزاب، ینزل الفیض من بحرہ المحیط. وإنْ وجد الفتور فی الرابطۃ، فیحفظ صورۃ شیخہ فی خیالہ بموجب -المرء مع من أحب
طریقہ رابطہ یہ رابطہ قلب کا شیخ سے قائم ہوتا ہے اور شیخ کی زیارت تقاضا ہے اس حدیث مبارکہ کا کہ ُاسے دیکھنے سے اﷲ کی یاد آتی ہے تو مرشد کی زیارت ذکر کا فائدہ دیتی ہے اور اس حدیث کا موجب کہ شیخ اﷲ کاہم مجلس ہوتا ہے اور شیخ گویا پرنالہ کی مانند ہے اﷲ کے بحر محیط سے فیض اس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے لیکن جب رابطہ میں نقص پیدا ہوتا ہے تو تصور شیخ سے اپنے خیال کو مضبوط کرے اس حدیث مبارکہ کے مطابق کہ ’’آدمی جس سے محبت رکھتا ہے اس کے ساتھ ہو گا ‘‘
الشیخ إبراہیم بن مصطفی الموصلی فرماتے ہیں:
الرابطۃ : ہی رؤیۃ وجہ الشیخ ، فإنہا تثمر ما یثمر الذکر ، بل ہی أشد تأثیراً لمن عرف شروطہا وآدابہا ، وذلک إنما یکون للشیخ الکامل الفانی المتشرف بالتجلیات الذاتیۃ
شیخ کے چہرے کی زیارت کرنا رابطہ ہے اس کا ثمرہ بھی وہی ہے جو ذکر کا ثمرہ ہے بلکہ اگر شروط اور آداب کے ساتھ ہو تو اس کی تاثیر اس سے زیادہ ہے کیونکہ شیخ کامل اﷲتعالیٰ کی تجلیات ذاتیہ سے مشرف ہوتا ہے۔
اسی لئے قرآن میں فرمایاکونوا مع الصادقین
جس کی مزید وضاحت رسول اﷲ انے یوں فرمائی کونوا مع أبی بکر وعمر أو مع النبی
ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنھما اور رسول اکرم اکے ساتھ رہو۔
اور صاحب نور الہدایۃفرماتے ہیں
رؤیۃ الشیخ تثمر ما یثمرہ الذکر، بل ہی أشد تأثیرا من الذکر، وقد کانت تربیۃ النبی لأصحابہ کذلک فکانوا یشتغلون برؤیۃ طلعتہ السعیدۃ وینتفعون بہا أکثر مما ینتفعون بالاذکار .(نور الہدایۃ والعرفان فی سر الرابطۃ والتوجہ وختم الخواجکان از صاحبزادہ محمد اسعد )
شیخ کی زیارت کا نتیجہ وہی ہے جو ذکر کا نتیجہ ہے بلکہ اس کی تاثیر ذکر سے بڑھ کر ہے اور یہ صحابہ کرام ثکی رسول اﷲ انے جو تربیت فرمائی کا خاصہ ہے کیونکہ وہ صحابہ کرام ث اس چہرہ والضحیٰ کی زیارت میں ہی مشغول رہتے اور یہ زیارت انہیں ذکر سے بڑھ کر فائدہ دیتی تھی۔
اور رابطہ کن لوگوں سے کرنا چاہیئے ان کی شرائط کیا ہیں ؟
الرابطۃ تفید إن کانت مع الانسان الکامل المتصرف بقوۃ الولایۃ لأن الانسان الکامل مرآۃ الحق سبحانہ وتعالی فمن ینظر الی روحانیتہ بعین البصیرۃ یشاہد الحق فیہا(البہجۃ السنیۃ فی آداب الطریقۃ النقشبندیۃ)
رابطہ اس وقت مفید ہوتا ہے جب کسی انسان کامل کے ساتھ ہو جو قوتولایت کا تصرف بھی رکھتا ہو کیونکہ انسان کامل آئینہ حق ہوتا ہے پس جو شیخ کامل کی روحانیت طرف نظر بصیرت سے دیکھے اسے اس میں حق کا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔
اور معلوم کرنا ہو کہ بہترین چہرہ کونسا ہے تو از روئے حدیث بہترین چہرہ وہی ہے جسے دیکھ تجھے اﷲ کی یادنصیب ہوجائے۔
شاہ ولی اﷲ المحدث الدہلوی فرماتے ہیں والرکن الأعظم ربط القلب بالشیخ علی وصف المحبۃ والتعظیم وملاحظۃ صورتہ( الطریقۃ النقشبندیہ)
اپنے شیخ سے رابطہ قلب کا سب سے بڑا رکن یہ ہے کہ وصف محبت اور تعظیم کے ساتھ اس کی صورت کی زیارت کی جائے۔
الشیخ ابو سعید نقشبندی اسی لئے فرماتے ہیں
کَمَا قِیلَ کُنْ مَعَ اللَّہِ وَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ کُنْ مَعَ مَنْ کَانَ مَعَ اللَّہِ کَمَا فِی قَوْلہ تَعَالَی ( کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ )(بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ)
اسی طرح کہا گیا ہے کہ اﷲ کے ساتھ ہو جا اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ان لوگوں کے ساتھ ہوجا جو اﷲ کے ساتھ ہیں جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایاان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو سچے ہیں ۔
زوال الغفلۃ مطلوب وہو مفتاح السعادۃ أن الحضور روح العبادۃ وزال الغفلۃ لا یکون إلا بنزول رحمۃ اﷲ تعالی علی عبدہ ومن أسباب نزول الرحمۃ: ذکر الصالحین قال سفیان بن عینیۃ (عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ( الموسوعۃ الیوسفیہ)
اس رابطہ کا مقصد غفلت کو دور کرنا ہے جو کہ تما م سعادتوں کی کنجی ہے کیونکہ حضور قلب عبادت کی روح ہے اور غفلت اس وقت دور ہو گی جب بندے پر اﷲ کی رحمت کا نزول ہو گا اور اسباب نزول کا ایک سبب ذکر الصالحین ہے جیسا کہ حضرت سفیان بن عیےنہ ؒنے فرمایاصالحین کے ذکر سے اﷲ کی رحمت کا نزول ہوگا ( لازم بات ہے اگر ذکر سے رحمتوں کا نزول ہوتا تو ان کی موجودگی اعلیٰ درجے کی رحمتوں کا سبب بنتی ہے)
الفناء فی الشیخ مقدمۃ الفناء فی اﷲ (نور الہدایۃ والعرفان فی سر الرابطۃ والتوجہ ص 38 مکتوبات الامام الربانی 73.)
اسی لئے کہا گیافنا فی الشیخ فنا فی اﷲکا مقدمہ ہے۔
رابطہ سلوک کا اہم باب اور آداب میں میں ایک لازمی ادب ہے۔
اما م ابو نعیم الاصفہانی فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲبن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ رباط کیا ہے ؟تو فرمایا
رابط بنفسک علی الحق حتی تقیہا علی الحق، فذلک أفضل الرباط.(حلیۃ الاولیاء)
اپنے نفس کو حق سے اس طرح باندھ دے حتیٰ کہ وہ حق ہی ہو جائے یہ سب سے افضل رباط ہے۔
بدیع الزمان النورسی اپنی کتاب ’’الکلمات‘‘میں اچھے اور برے رابطہ کے اثرات کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’جب کسی دوست اور قریبی سے تیری محبت اﷲ تعالیٰ کیلئے تو اس کی جدائی اور موت بھی اس صحبت میں حائل نہیں ہوتی جب اﷲ کیلئے دوستی اور محبت و اخوت ہو جائے تو یہ دائمی روحانی رابطہ اور خالص معنوی محبت کا نام ہے جس سے لذت ملاقات اور فائدہ وصال میسر آتا ہے لیکن جب یہی محبت اﷲ کے علاوہ ہو تو ایک دن ملاقات کی لذت اسے سو دن المِ فراق دیتی ہے‘‘
محبت و اخلاص کے مقابلے میں قرب و بعد رابطے میں حائل نہیں ہوتے جیسا کہ رسول اﷲ ا نے غزوہ تبوک سے واپسی پر فرمایاتمہارے بھائی ایسے بھی ہی جنہوں نے نہ وادیوں کا سفر کیانہ پہاڑوں کی صعوبتیں سہیں مگر ہر جگہ تمہارے ساتھ تھے ۔ صحیح بخاری میں ہے
إِنَّ بِالْمَدِینَۃِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوا مَعَکُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ قَالَ وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ حَبَسَہُمْ الْعُذْرُ
’’ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مدینہ میں رہ کر بھی ہر جگہ تمہارے ساتھ رہے لوگوں نے تعجب سے عرض کیا یا رسول اﷲ مدینہ میں رہ کر؟ فرمایا ہاں! وہ اپنے )سچے( عذر کی وجہ سے رہ گئے تھے )گویا ان کے دل تمہارے ساتھ تھے‘‘۔
الشیخ نجم الدین الکبری فرماتے ہیں
لا یتصفی … مرآۃ القلب بدون ربط القلب مع الشیخ … وأکثر المریدین إذا انقطعوا عن الفیض والترقی لا ینقطعون إلا من ہذہ الجہۃ (نور الہدایۃ والعرفان فی سر الرابطۃ )
آئینہ قلب صاف نہیں ہوسکتا بغیر شیخ سے رابطہ قلب قائم کئے اور اکثر مریدین کی ترقی اور فیض کی رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
الشیخ محمد بن أحمد البسطامی فرماتے ہیں
الذاکر إذا تصور صورۃ شیخہ واستمد من ولایتہ ، تفیض الإمدادات القدسیۃ من الحضرۃ الإلہیۃ إلی قلب سید المرسلین محمد علی قلوب المشایخ علی الترتیب حتی ینتہی إلی شیخہ ، ومن قلب شیخہ علی قلبہ . فالنبی قبلۃ الأرواح ومنبع الأنوار و الکمالات ، فینبغی إذاً للمرید أن یعتقد أن استمدادہ من شیخہ ہو استمداہ من النبی (مخطوطۃ تذکرۃ المرید الطالب المزید)
ذاکر جب اپنے شیخ کی صورت کا تصور اور اس کی ولایت سے مدد حاصل کرتا ہے حضرت الٰہیہ سے امدادقدسی کا فیض سید المرسلینا کے قلب کے ذریعے بالترتیب مشائخ کے قلوب سے ہوتا ہوا سالک کے شیخ کے قلب پر منتہی ہوتا ہے۔تو سید المرسلین اتمام اراوح کے قبلہ اور منبع انوارو کمالات ہیں پس جب مرید یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اپنے شیخ سے امداد حاصل کرتا ہے تو اصل میں یہ مدد سید المرسلینا سے ہی ہوتی ہے۔
اورتقریبا یہی مضمون الشیخ عمر بن سعید الفوتی بیان فرماتے ہیں
إذا ابتدأ بالذکر یحضر صورۃ شیخہ فی قلبہ ویستمد منہ ، إذ قلب شیخہ یحاذی قلب شیخ الشیخ إلی الحضرۃ النبویۃ ، وقلب النبی دائم یتوجہ إلی الحضرۃ الإلہیۃ (جواہر المعانی وبلوغ الأمانی)
جب سالک ذکرکی ابتداء اپنے دل میں شیخ کا تصور اور اس کی ولایت سے مدد حاصل کرتے ہواکرتا ہے جب اس کے شیخ کا قلب اپنے شیخ کے مقابل ہوتا ہوا سید المرسلین اکے قلب سامنے ہوتا ہے اور قلب نبی ہمیشہ حضرت الٰہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
شاہ ولی اﷲ نے قول الجمیل میں اشغال مشائخ نقشبندیہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہم میں تصور شیخ کی ترکیب لکھی کہ:
الرابطۃ بشیخۃ فاذا صحبہ خلی نفسہ من کل شیء الامحبتہ وینتظر لمایفیض منہ واذا غاب الشیخ عنہ یخیل صورتہ بین عینیہ بوصف المحبۃ والتعظیم فتفید صورتہ ماتفید صحبتہ۔
وصول الی اﷲ کا ایک طریقہ رابطہ شیخ ہے جب شیخ کی صحبت میں ہو تو اپنادل اس کی محبت کے سواہرچیزسے خالی کرے اور فیض کامنتظر ہو اور جب شیخ غائب ہوتواس کی صورت اپنے پیش نظر محبت وتعظیم کے ساتھ تصور کرے جوفائدے اس کی صحبت دیتی تھی اب یہ صورت دے گی( القول الجمیل مع شفاء العلیل )
خواجہ محمد اشرف نے رابطہ (تصور شیخ) کی نسبت لکھا ہے کہ
’’ اس کا اس حدتک غلبہ ہے کہ نمازوں میں اپنا مسجود جانتے اور دیکھتے ہیں اگر اس رابطہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو بھی ختم نہیں ہوتا (تو اس پر آپ نے فرمایا) اس دولت کے حصول کی خواہش ہزاروں طالبوں کی تمنا ہے مگر کسی ایک کو عطاہوتی ہے،اس کیفیت والا شیخ سے مکمل مناسبت کے لئے مستعد ہوتاہے وہ امید کرتاہے کہ اپنے مقتداء شیخ کی صحبت کی کمی اس کے تمام کمالات کو جذب کردے گی، لوگ رابطہ (تصور شیخ) کی نفی کیوں کرتے ہیں حالانکہ وہ مسجود الیہ(سجدے کی سمت) ہے مسجودلہ(جس کو سجدہ کیا جائے) نہیں ہے یہ لوگ محرابوں اور مسجدوں کی نفی کیوں نہیں کرتے (حالانکہ وہ مسجودالیہ ہیں) اس قسم کی دولت کا ظہور سعادت مندوں کو نصیب ہوتاہے حتی کہ تمام احوال میں وہ صاحب رابطہ (شیخ)کو اپنا وسیلہ جانتے ہیں اور ہمہ وقت اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں اس بے دولت جماعت کی طرح نہیں ہوتے جو اپنے آپ کو شیخ سے مستغنی جانتے ہیں، اور اپنی توجہ کا قبلہ شیخ سے پھیر کر خود سر ہوجاتے ہیں‘‘۔ ( مکتوبات امام ربانی حصہ دوم مکتوب نمبر 30)
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا
’’بناوٹ اور تکلف کے بغیرشیخ سے رابطے کا حصول پیرو مرید کے درمیان مناسبت تام کی نشانی ہے وصول کے طریقوں میں سے اقرب ترین طریقہ رابطہ ہے کہ بہت سے ابدی دولت والے اس سے بہرہ ور ہوئے ہیں۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی جلد اول 187)
’’آپ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ جب رابطہ والی نسبت میں فتور ہوجائے تمام عبادات کی لذت میں فتور پیدا ہوجاتاہے تو فرمایا یاد رکھو کہ جس وجہ سے رابطہ میں فتور آتا ہے وہی لذت سے مانع ہوجاتی ہے اور (بعد میں یہاں تک فرمایا) اس موقعہ پر استغفار کرنی ضروری ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ اپنے کرم سے اس مانع اثر کو اٹھادے (مکتوبات امام ربانی جلد سوم107)
فتاویٰ رضویہ جلد 21میں اسی رابطہ کے بارے سوال کیا گیا جس کے جواب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے یوں دیا کہ
کیا فرماتے ہیں علمائے شریعت وطریقت اس مسئلہ میں کہ زید کہتاہے کہ رابطہ شیخ بدعت اور شرک ہے اور نماز میں کفر ہے۔ اور مکتوبات امام ربانی صاحب کی یہ تاویل کرتاہے کہ وہ حالت بے اختیار کی تھی اور بے اختیاری خیال نماز میں جائز ہے۔ عمرو کہتاہے کہ یہ مذہب فرقہ اسمعیلیہ کا ہے۔
الجواب :دربارہ رابطہ قول عمرو حق ہے اور قول زید سراسر باطل۔ را بطہ شیخ بلا شبہ جائز ومستحسن وسنت اکابر ہے فقیر کا رسالہ”الیاقوتۃ الواسطۃ فی قلب عقد الرابطۃ”اسی مسئلہ کے بیان میں ہے عبارت مکتوبات کی تاویل کہ زید نے کی، تاویل نہیں، تحویل وتبدیل ہے۔ اور اسے شرک وکفر کہنا مسئلہ وہابیت ہے۔ اور وہابیہ خود مشرک وکافر ہیں، کسی شخص مسلم پر بلا وجہ شرعی حکم تکفیر بحسب ظواہر احادیث صحیحہ و نصوص صریحہ جمہورفقہاء خود قائل کے لئے مستلزم کفر ہے۔