رباعیات ابو سعید ابو الخیر
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
رباعی نمبر 1
مردان خدا زخاکدان د گرند
مرغان هوا ز آشیان د گرند
منگر تو ازین چشم پدیشان کایشان
فارغ زدو کون و در مکان د گرند
ترجمه: خدا کے نیک بندے کسی اور ہی مٹی سے بنے ہیں۔ ہوا میں اُڑنے والے پرندے کسی اور گھونسلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تو ان آنکھوں سے انہیں مت دیکھ کیوں کہ وہ دونوں جہانوں سے آزاد ہیں اور ایک دوسری جگہ پر ہیں۔
رباعی نمبر 2
ای خالق ذوالجلال ای بار خدای
تا چند روم در بدر و جای به جای
یا خانه امید مرا در بر بند
یا قفل مهمات ترا در بگشای
ترجمہ: اے خالق ذو الجلال ! اور اے باری تعالی ! میں کب تک در بدر ٹھوکریں کھاؤں اور مارا مارا پھروں یا تو میری اُمیدوں کے گھر کے دروازے کو بند کر دے یاپھر تو اپنی مہمات کے دروازے کا قفل کھول دے۔
رباعی نمبر 3
یا من بک حاجتی و روحی بید یک
من غيرك اعر ضت واقبلت الیک
مالی عمل صالح استظهر به
قد جئتک را جیا توكلت عليك
ترجمہ: اے وہ کہ جس کے پاس میں اپنی حاجت لے کر آیا ہوں ۔ تیرے ہی دست قدرت میں میری جان ہے غیر سے میں نے رو گردانی کی ہے اور تیری طرف رجوع کیا ہے۔ میرے پاس نیک عمل نہیں جن سے میں مدد طلب کروں میں تیری طرف امید وار بن کر آیا ہوں اور تجھی پر میں نے بھروسا کیا۔
رباعی نمبر 4
الله به فریاد من میکس رس
لطف و کرمت یار من بیکس بس
هر کس به کسی و حضرتی می نازد
جز حضرت تو ندارد این بیکس کس
ترجمہ : اے اللہ مجھ جیسے بے یار و مددگار کی فریاد سُن لے ۔ تیر الطف و کرم مجھ بیکس کے لیے کافی ہے۔ ہر ایک کسی نہ کسی شخص یا بزرگ شخصیت پر ناز کرتا ہے،مگر یہ بیکس سوائے تیری ہستی کے کسی اور کو نہیں رکھتا۔
رباعی نمبر 5
افعال بدم ز خلق پنهان می کن
دشوار جهان بر دلم آسان می کن
امروز خوشم بدار و فردا با من
آنچه از کرم تو می سزد آن می کن
ترجمہ: اے اللہ ! میرے برے اعمال کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ کر دے اور دنیاوی مشکلات کو میرے دل پر آسان بنادے۔ مجھے آج خوش رکھ اور کل میرے ساتھ وہ کر جو تیرے کرم کے شایان شان ہو۔
رباعی نمبر 6
یا رب بکشا گره زكار من زار
رحمی که ز خلق عاجزم در همه کار
جز درگہ تو کی بودم در گاهی
محروم ازین در نکنم یا غفار
ترجمہ : اے خدا! مجھ ناچار کے کاموں سے گرہ کھول دے۔ اے خدا! مجھ پر رحم کر کیونکہ میں ہر کام میں مخلوق سے عاجز ہوں ۔ میرے لیے سوائے تیری بارگاہ کے اور کون سی بارگاہ ہے۔ اے غفار ! مجھے اس دروازے سے محروم نہ کر۔
رباعی نمبر 7
ای در صفت ذات تو حیران که ومه
از جمله جهان خدمت درگاه تو به
علت تو ستانی و شفا ہم تو دہی
یا رب تو به فضل خویش بستان و بده
ترجمہ: چھوٹے اور بڑے سب تیری ذات کی صفات میں حیران ہیں ۔ تیری درگاہ کی خدمت پوری دُنیا سے بہتر ہے۔ بیماری بھی تو واپس لیتا ہے اور شفا بھی تو ہی دیتا ہے ، اے اللہ ! تو اپنے فضل سے بیماری دور کر دے اور شفا عطا کر دے۔
رباعی نمبر 8
یا رب سبب حیات حیوان بفرست
از خوان کرم نعمت الوان بفرست
از بهر لب تشنه حیوان و نبات
از دایه ابر شیر باران بفرست
ترجمہ : اے اللہ جانداروں کی زندگی کے اسباب بھیج۔ تو اپنے کرم کے دستر خوان سے رنگارنگ نعمتیں بھیج نباتات اور جانداروں کے پیاسے ہونٹوں کے لیے ابر کی دایہ سے بارش کا دودھ بھیج دے۔
رباعی نمبر 9
گر من گنه جمله جهان کردستم
عفو تو امید است که گیرد دستم
گفتی که به روز عجز دستت گیرم
عاجز تر ازین مخواه کا کنون هستم –
ترجمہ : اگر میں نے تمام دُنیا کے گناہ کیے ہیں مجھے اُمید ہے کہ تیرا عفو میرا ہاتھ تھامے گا۔ تو نے کہا تھا کہ میں عاجزی کے دن تیرا ہاتھ تھام لوں گا ، اے اللہ ! میں اس وقت جس عاجزی میں ہوں تو مجھے اس سے بڑھ کر عاجز نہ بنا۔
رباعی نمبر 10
بستم دم مار و دم عقرب بستم
نیش و دم شان بیکد گر پیوستم
سبح قرنیا قرنیا قرنی
بر نوح نبی سلام کردم رستم
ترجمہ : میں نے سانپ اور بچھو کی دُم کو باندھ دیا۔ میں نے ان کے ڈنگ اور دُم کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دیا ہے۔ اسے قرنی، اسے قرنی، میرے قرنی مجھےنرم گفتار بنادے۔ میں نے نوح نبی پر سلام بھیجا اور میں نجات پا گیا۔
رباعی نمبر 11
یا رب زدو کون بی نیازم گردان
و ز ا فسر فقر سرفرازم گردان
در راه طلب محرم رازم گردان
راهی که نه سوی تست بازم گردان
ترجمہ: اے اللہ مجھے دونوں جہانوں سے بے نیاز کر دے۔ اور فقر کی افسری سےمجھے سر فراز کر دے۔ راہ طلب میں مجھے محرم راز بنادے ، وہ راستہ جو تیری طرف نہیں جاتا وہاں سے مجھے پلٹادے۔
رباعی نمبر 12
دارم گنہی از قطره باران بیش
از شرم گنه فکننده ام سر در پیش
آواز آمد که غم مخور ای درویش
تو در خور خود کنی و مادر خور خویش
ترجمہ: میرے گناہ بارش کے قطروں سے بھی زیادہ ہیں، گناہ کے شرم سے میں نے اپنا سر جھکادیا ہے ۔ آواز آئی کہ اے درویش ! غم مت کھا تو اپنی بساط کے مطابق کر اور میں اپنے شایان شان کروں گا۔
رباعی نمبر 13
یا رب زگناه زشت خود منفعلم
از فعل بد و خوبی بد خود خجلم
فیضی به دلم زعالم قدس رسان
تا محو شود خیال باطل از دلم
ترجمہ: اے اللہ ! میں اپنے بُرے گناہ سے شرمندہ ہوں، میں اپنے بُرے کام اور ہے بری عادت سے شرمندہ ہوں۔ میرے دل کی طرف عالم قدس سے فیض بھیج تاکہ تمام باطل خیالات میرے دل سے مٹ جائیں۔
رباعی نمبر 14
يارب زقنا عتم توانگر گردان
وز نور یقین دلم منور گردان
اموال من سوخته سرگردان
بی منت خلق میسر گردان
ترجمه یارب ! مجھے قناعت سے مالا مال کر دے، یقین کے نور سے میرا دل منور کر دے۔ مجھ جیسے پریشان اور دل جلے کے حالات کو مخلوقات کا احسان اُٹھائے بغیرہی میسر کردے۔
رباعی نمبر 15
ای آنکه به ملک خویش پائنده تویی
از ظلمت شب صبح نما ئنده تویی
کار من بیچاره قوی بسته شده
بگشای خدایا که گشاینده تویی
ترجمہ : اے وہ کہ تو ہی اپنی سلطنت میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اور رات کی تاریکی سے صبح کا نمائندہ تو ہی ہے۔ مجھ بیچارے کا کام مضبوط بندش میں جکڑا ہو ہے۔ تو ہی کھول دے اے اللہ ! کیوں کہ تو ہی کھولنے والا ہے۔
رباعی نمبر 16
ای جمله بیکسان عالم را کس
یک جو کرمت تمام عالم را بس
من بیکسم و تو بیکسان را یاری
یا رب تو به فریاد من بیکس رس
ترجمہ : اے دُنیا کے تمام بیکسوں کے والی تیرا جَو برابر کرم تمام دُنیا کے لیے کافی ہے۔ میں بیکس ہوں اور تو بیکسوں کا مدد گار ہے۔ اے خدا! تو مجھ بیکس کی فریاد کو پہنچ۔
رباعی نمبر 17
شب خیز که عاشقان به شب را ز کنند
گرد در و بام دوست پرواز کنند
هر جا که دری بود به شب در بندند
الا در دوست را که شب باز کنند
ترجمہ: رات کو اُٹھا کر کیوں کہ عاشق رات ہی کو راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں اور دوست کے گھر اور دروازے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ جہاں کہیں دروازہ ہوتا ہے لوگ رات کو دروازہ بند کر دیتے ہیں۔ سوائے دوست کے دروازے کے جسے رات کے وقت ہی کھولتے ہیں۔
رباعی نمبر 18
هنگام سپیده دم خروس سحری
دانی که چرا همی کند توجه گری
یعنی که نمودند در آئینه صبح
کز عمر شبی گذشت تو بی خبری
ترجمہ: پو پھٹتے وقت مرغ سحر تم جانتے ہو کہ وہ نوحہ کیوں کرتا ہے ؟ اس لیے کہ صبح کے آئینے میں دکھایا گیا ہے کہ زندگی کی ایک رات گزر گئی اور تو اب بھی بے خبر ہے۔
رباعی نمبر 19
یا رب به محمد و علی و زهرا
یارب به حسین و حسن آل عبا
کز لطف برار حاجتم در دوسرا
بی منت خلق یا علی الاعلیٰ
ترجمه: یا اللہ ! بب طفیل حضرت محمد ، حضرت علی اور حضرت زہرا، یا اللہ بہ حق حسین و حسن اور آل عبا اپنے لطف و کرم سے دونوں جہانوں میں میری حاجتیں پوری کر ، مخلوقات کا احسان اُٹھائے بغیر اے سب سے بلند و بالا ۔
رباعی نمبر 20
ای خالق خلق رہنمائی بفرست
ای رازق رزق درگشائی بفرست
کار من بیچاره گره در گره است
رحمی بکن و گره گشائی بفرست
ترجمہ: اے مخلوق کے پالنے والے تو کوئی رہنما بھیج ، اے رزق کے پہنچانے والے مشکل حل کرنے والے کو بھیج ، اے رزق بہم پہنچانے والے دروازہ رزق کھولنے والے کو بھیج ، بے حد الجھ گیا ہوں، مجھ پر رحم کر اور کسی گرہ کشا کو بھیج۔
رباعی نمبر 21
من کیستم آتش به دل افروخته ای
بر خرمن عشق چشم خود دوخته ای
در راه وفا چوسنگ و آتش گردم
شاید که رسم به صحبت سوخته ای
ترجمہ: میں کون ہوں کہ تو نے میرے دل میں آگ بھڑکائی ہے ۔ تو نے عشق کے خرمن میں اپنی آنکھیں گاڑ دی ہیں میں وفا کے راستے میں پتھر اور آگ کی مانند بن جاتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں کسی دل جلے کی صحبت میں پہنچ جاؤں۔
رباعی نمبر 22
حق تعالی که مالک الملک است
لیس فی الملک غیره مالک
برساند به یکدگر ما را
انه قادر علی ذالک
ترجمہ : اللہ تعالی جو اس دنیا کا مالک ہے، سوائے اس کے دُنیا کا کوئی اور مالک نہیں۔ وہ ہمیں ایک دوسرے تک پہنچاتا ہے، وہی اس بات پر قدرت رکھنے والا ہے۔
ای دل بر ما مباش بی دلبر ما
رباعی نمبر 23
یک دلبر ما به که دو صد دل بر ما
نه دل بر مانه دلیر اندر برما
یا دل بر ما فرست یا دلبر ما
ترجمہ: اے دل تم ہمارے پہلو میں بغیر دلبر کے نہ رہو ، ہمارا ایک دلبر دو سو دلوں سے بہتر ہے ، نہ تو دل ہمارے پہلو میں ہے اور نہ ہی دلبر ، یا تو ہمارے پہلو میں دل بھیجو یا ہمار ادلبر ۔
رباعی نمبر 24
گر دست تضرع به دعا بردارم
بیخ و بن کوه ها از جا بردارم
لیکن از تفضلات معبود احد
ناصر صبراً جميلا از بر دارم
ترجمہ: اگر عاجزی کا ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھاؤں تو پہاڑ تک کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دوں۔ لیکن خدائے واحد کی مہر بانیوں سے ہر وقت صبر کرو، صبر جمیل کی تلقین، از بر رکھتا ہوں۔
رباعی نمبر 25
گر در یمنی چو با منی پیش منی
گر پیش منی و بی معنی در یمنی
من بی تو چنانم ای نگار یمنی
خود در غلطم که من توام یا تو منی
ترجمہ: چاہے تو یمن میں ہو یا میرے ساتھ ہو ، تو میرے پاس ہی ہے ۔ اگر تو میرے پاس ہے مگر مجھ سے جدا ہے تو گویا تو یمن میں ہی ہے۔ اے میرے پیارے محبوب میں تیرے بغیر اس طرح ہوں کہ خود میں دھوکے میں ہوں کہ یہ میں ہوں یا تو ہے۔
رباعی نمبر 26
آنکس که به کوی ظلم خرگاه زند
خود را به دام آه سحر گاه زند
ای راهزن از روز مکافات بترس
راهی که زنی ترا همان راه زند
ترجمہ: ہر وہ شخص جو ظلم کی گلی میں خیمہ لگاتا ہے ، وہ اپنے آپ کو آہ سحری کے دام میں پھنساتا ہے ۔ اے راہزن مکافات کے دن سے ڈر تو جس راستے پہ لوٹے گا تجھے بھی اسی راستے پر لوٹایا جائے گا۔
رباعی نمبر 27
عقرب سر زلف یار مه چنبر اوست
شیرین دهنی که شهد در شکر اوست
با این همه کبر و ناز کاندر سر اوست
فرمانبر روزگار فرمانبر اوست
ترجمہ : یار کی زلف گویا بچھو ہے اور اس کا گول مکھڑا چاند ہے ۔ وہ ایک شیریں سخن ہے جس کے منہ میں شہد گھلا ہوا ہے باوجود اس قدر غرور اور تکبر کے جو اس کے سر میں بھرا ہوا ہے۔ جو زمانے کا حاکم ہے وہی اس کا بھی فرماں بردار ہے۔
رباعی نمبر 28
از هجر تو ای نگار اندر نارم
می سوزم و می سازم و دم در نارم
تا دست به گردن اندر نارم
آغشته به خون چو دانه اندر نارم
ترجمہ : اے محبوب میں تیرے ہجر کے سبب آگ میں جل رہا ہوں۔ میں جل رہا ہوں اور نبھا رہا ہوں مگر دم تک نہیں مارتا ۔ جب تک تیری گردن میں بانہیں نہ ڈالوں گا، انار کے دانوں کی طرح خون میں لتھڑا ہوار ہوں گا۔
رباعی نمبر 29
ای ناله گرت هست دست اظهاری کن
وان غافل مست را خبر داری کن
ای دست ولایت و محبت به داری
ای باطن مغز دوستی کاری کن
ترجمہ : اگر تیری کوئی فریاد ہے تو اس کا اظہار کر ، اور اس مست غافل کو خبر دار کر اے ولایت و محبت کے ہاتھ باہر آ اے دوستی کے چھپے ہوئے دماغ کوئی کام کر۔
رباعی نمبر 30
مشهور و خفی چو گنج دقیانوسم
پیدا و نہاں چو شعله در فانوسم
القصه در ین چمن چو بید مجنون
می بالم و در ترقی معکوسم
ترجمه دقیانوس کے خزانے کی طرح مشہور اور پوشیدہ ہوں ، فانوس کے شعلے کی طرح ظاہر اور پوشیدہ ہوں۔ القصہ اس باغ میں بید مجنوں کی طرح بڑھتا تو ہوں لیکن میری ترقی بر عکس ہے۔
رباعی نمبر 31
طالع سر عاقبت فروشی دارد
ہمت ہوس پلاس پوشی دارد
این جانه به [ یک سوال بخشند دو کون
استغنایم سر خموشی دارد
ترجمہ : میرا بخت عاقبت بیچنے کا ارادہ رکھتا ہے ، ہمت ٹاٹ پہننے کی خواہش رکھتی ہے ، اس گھر میں ایک سوال پر دونوں جہان بخشتے ہیں۔ میر ا استغنا خاموشی چاہتا ہے۔
رباعی نمبر 32
ای شیر خدا، امیر حیدر فتحی
ای قلعه کشای در خیبر فتحی
در های امید بر رخم بسته شد
ای صاحب ذوالفقار و قنبر فتحی
ترجمہ : اے شیر خدا اے امیر حیدر فتح نصیب کر اور اے در خیبر کے قلعہ کشافتح نصیب کر ، اُمید کے دروازے میرے چہرے پر بند ہو چکے ہیں ، اے صاحب ذو الفقار اور قنبر کے مالک فتح نصیب کر۔
رباعی نمبر 33
صد شکر که گلشن وفا گشت تنت
صحت گل عیش ریخت در پیرهنت
تب را به غلط بر تنت افتاد گذار
مشتی عرقی شد و چکید از بدنت
ترجمه: خدا کا ہزار شکر ہے کہ تیرا بدن باغ وفا بن گیا ، صحت نے تیرے پیراہن میں عیش و آرام کے پھول بکھیر دئیے ۔ بخار غلطی سے تیرے جسم پر آپڑا، وہ ایک مٹھی پسینہ بن کر تیرے بدن سے ٹپک پڑا۔
رباعی نمبر 34
حوران به نظاره نگارم صف زد
رضوان از تعجب کف خود بر کف زد
آن خال سیاه بر آن ر خان مطرف زد
ابدال ز بیم چنگ در مصحف زد
ترجمہ: حوروں نے میرے معشوق کے دیدار کے لیے صف بندی کر لی ، اور داروغہ ء بہشت نے تعجب سے ہاتھ پر ہاتھ مارا، اس سیاہ تل کو ایسے خوشنما چہروں پر لگایا ۔ابدال نے ڈر سے قرآن کو تھام لیا۔
رباعی نمبر 35
من دوش دعا کردم بادا مینا
تا به شود آن روش بادا مینا
از چشم بد اندیش ترا چشم رسید
بر چشم بد اندیش تو بادا مینا
ترجمہ : میں نے کل رات دُعا مانگی کہ وہ قبول ہو جائے تاکہ تیری وہ دونوں بادامی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں۔ دشمن کی بد خواہ آنکھوں سے تجھے نظر لگ گئی، تیری بُرائی چاہنے والی آنکھوں میں شیشے پڑے رہیں۔
رباعی نمبر 36
یارب به دو نور دیده پیغمبر
یعنی به دو شمع دودمان حیدر
بر حال من از عین عنایت بنگر
دارم نظر آنکه نیفتم ز نظر
ترجمہ: اے خدا ! پیغمبر کے دونوں نور چشم ( حسن و حسین ) کے صدقے میں یعنی حیدر کے خانوادے کی دو شمعوں (حسن و حسین) کے صدقے میں میرے حال پر مکمل عنایت کی نظر کر۔ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ کسی کی نظروں سے نہ گروں۔
رباعی نمبر 37
فریاد ز شبگردی شب زنگی شان
و زجسم سیاه و صورت زنگی شان
از اول شب تا به دم آخر شب
اینہا همه در رقص و منم چنگی شان
ترجمه : ان کے رات بھر گھومنے اور گھنٹی بجانے سے فریاد ہے۔ ان کے سیاہ جسم اور کالی صورت سے فریاد ہے۔ اوّل شب سے شب کے آخری حصے تک یہ سب ناچنے میں اور میں انہیں پکڑنے میں مصروف ہوں۔
رباعی نمبر 38
من صرفه برم چو بر صفم اعدازد
مشتی خاشاک لطمه بر در یازد
ما تیغ برهنه ایم در دست قضا
شد کشته هر انکه خویش بر مازد
ترجمہ : میں فائدہ اٹھاؤں کہ دشمن نے میری صف پر حملہ کیا۔ مٹھی بھر خس و خاشاک نے دریا کو تھپڑ مارا۔ ہم قضا و قدر کے ہاتھ میں برہنہ تلوار کی طرح ہیں۔ ہر وہ شخص مارا گیا جس نے ہم پر حملہ کیا۔
رباعی نمبر 39
این گیدی گیر از کجا پیدا شد
این صورت قبر از کجا پیدا شد
خورشید مرا ز چشم من پنہاں کرد
این لکه ابر از کجا پیدا شد
ترجمہ: یہ بد ذات زرتشتی کہاں سے آنکلا۔ یہ مردہ صورت کہاں سے آنکلا ۔ میرے سورج کو میری آنکھوں سے چھپا دیا۔ یہ بادل کا ٹکڑا کہاں سے آنکلا۔
رباعی نمبر 40
برو ای باد بر بستان گذر کن
بگو آن سرو قد شمشاد مارا
به تشریف قدوم خود زمانی
منور کن خراب آباد مارا
ترجمہ : اے ہوا جا اور باغ کے پاس سے گزر ، ہمارے اس سر و قد شمشاد – (معشوق) سے کہہ دے کبھی قدم رنجہ فرما کر ہمارے اس ویرانے کو روشن کرو۔
رباعی نمبر 41
ای باری خدایا به حق هستی
شش چیز مرا عطا فرستی
فتح و فرح و فراغ دستی
ایمان و امان و تندرستی
ترجمہ : اے بار الہا ! اپنے وجود کے صدقے میں مجھے چھے چیزیں عطا فر مادے ۔فتح، فرح، فراخ دستی، ایمان، امان اور تندرستی۔
رباعی نمبر 42
از اهل زمانه عارمی باید داشت
وز صحبت شان کنار می باید داشت
از پیش کسی کار کسی نگشاید
امید به کردگار می باید داشت
ترجمہ: اہل زمانہ سے عار رکھنا چاہیئے اور ان کی صحبت سے کنارہ کشی کرنی چاہیئے ،کسی شخص کے پاس کسی کا کام حل نہ ہوا اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
رباعی نمبر 43
ہدہ تو بار خدایا درین خجسته سفر
هزار نصرت و شادی ہزار فتح و ظفر
به حق چار محمد به حق چار علی
به دو حسن به حسین به موسی و جعفر
ترجمہ: اے خدایا ! تو اس مبارک سفر میں ہزاروں خوشیاں اور کامیابیاں دے اور ہزار ہا فتوحات ، چار محمد اور چار علی کے صدقے میں ، دو حسن کے صدقے اور ایک حسین اور موسیٰ و جعفر کے صدقے میں۔
چار محمد) -1 – محمد مصطفے – 2- امام محمد باقر – 3۔ امام محمد تقی 4- امام محمد مہدی چار علی – 1- امام علی مرتضی – 2- امام علی زین العابدین۔ 3۔ امام علی رضا۔ 4۔ امام علی نقی )۔ اور پھر دو امام حسن و امام حسن عسکری امام حسین امام موسی کاظم امام جعفر صادق ( حضرت رسول اکرم اور بارہ امامین علیہم السلام )
رباعی نمبر 44
غمناکم و از کوئے تو با غم نروم
جز شاد و اُمیدوار و خرم نروم
از درگہِ ہمچو تو کریمے ہرگز
نومید کسے نرفت و من ہم نروم
میں غمناک ہوں لیکن تیرے کوچے سے غموں کو ساتھ لے کر نہیں جاؤنگا، بلکہ امید لیے، شاد اور خوش خوش جاؤں گا۔ تیرے جیسے کریم کے در سے (آج تک) کوئی بھی ہرگز ہرگز ناامید ہو کر نہیں گیا اور میں بھی نہیں جاؤنگا۔
رباعی نمبر 45
تا روی تو دیده ام اے شمع طراز
نه خواب روم نه روزه گیرم نه نماز
گر با تو بود دمی زمن جمله نماز
در بی تو بود نماز من، جمله نماز
ترجمہ : اے شمع طراز جب سے میں نے تیرا چہرہ دیکھا ہے ، نہ میں کوئی کام کرتا ہوں ، نہ روزہ رکھتا ہوں اور نہ نماز پڑھتا ہوں ، اگر تیرے ساتھ میرا ایک لمحہ بھی بسر ہو جائے تو وہ میری مکمل نماز ہے ۔ اگر وہ تیرے بغیر ہو تو میری نماز مکمل مجازبن جائے۔
رباعی نمبر 46
دارم گله از چرخ چندان چندان
با گریه توان گفت نه خندان خندان
دُر و گہرم جمله به تاراج برفت
آن در و گہر چه بود دندان دندان
ترجمہ: مجھے آسمان سے اس قدر گلہ ہے جو آنسوؤں کی زبانی بیان کیا جاسکتا ہے مسکراتے ہوئے نہیں۔ میرے تمام دُر اور گوہر لوٹ لیے گئے وہ دُر و گوہر کیا تھے ؟دانت تھے دانت تھے۔
رباعی نمبر 47
مہمان تو خواهم آمدن مہمانا
منشان تو یکی را ازحسد مہمانا –
خانه خالی کن از کس مہمانا
تا کس را به خانه در منشانا
ترجمہ : اے مہمان تیرے مہمان آنے والے ہیں ، تم حسد کی وجہ سے کسی کو بھی مہمان مت بناؤ۔ ہر مہمان سے اپنے دل کو خالی کر لو تا کہ کسی اور کو گھر میں مہمان کی حیثیت سے نہ بٹھاؤ۔
رباعی نمبر 48
يارب ! تو مرا به یار و دمساز رسان
آوازه دردم به هم آواز رسان
آنکس که من از فراق او غم گینم
او را به من و مرا به او باز رسان
ترجمہ : اے خدا! تو مجھے میرے محبوب اور میرے دم ساز تک پہنچادے ، اور میرے درد کی آواز کو میرے ہم نوا کو پہنچادے ۔ وہ شخص کہ جس کے فراق میں ،میں غمگین ہوں اُسے میرے پاس اور مجھے اُس کے پاس دوبارہ پہنچادے۔
رباعی نمبر 49
ای دوست کسی با خبر از دروم نیست
آگاه زحال و چہره زردم نیست
اے دوست ز راہ دوستی ہا کہ مرا
دریاب که چون در نگری گردم نیست
ترجمہ : اے دوست کوئی بھی میرے درد سے واقف نہیں ہے ۔ وہ میرے زرد چہرے اور میرے حال سے آگاہ نہیں ہے۔اے دوست دوستانہ طریقوں سے کبھی مجھے پالو ، کیونکہ جب دیکھو گے تو میری خاک بھی نہ ہو گی۔
رباعی نمبر 50
ای زلف مسلسلات و بھر دل من
لعل لب تو کرہ مشائی دل من
من دل ندهم به کس برای دل تو
تو دل مر ہی مگر برای دل من
ترجمہ : اے وہ کہ تیری زلف مسلسل صرف میرے دل کے لیے ہے۔ تیرے سرخ ہونٹ میرے دل کی گرہ کھولنے والے ہیں۔ تیری دل جوئی کی خاطر کسی کودل نہیں دوں گا اور تو میرے سوا اپنا دل کسی اور کو نہیں دے گا۔
رباعی نمبر 51
یا پست و بلند وهر را سر کوبی
یا خار و خس زمانه را جاروبی
تا چند توان وضع مکرر کردن
عزلی نصبی قیامتی آشوبی
ترجمه : یا زمانے کے پست اور بلند کی سرکوبی کر، یا زمانے کے کوڑے کرکٹ کو صاف کر دے، یہ حالت کب تک مکرر رکھی جاسکتی ہے ۔ معزول کرنا، مقرر کرنا،قیامت بر پا کرنا اور آشوب زمانہ ۔
رباعی نمبر 52
یا رب تو زمانه را دلیلی بفرست
نمرودان را پشه چو فیلی بفرست
فرعون صفتان دست بر آوره به ظلم
موسی و عصا و رود نیلی بفرست
ترجمہ : یا اللہ تو زمانے کے لیے کوئی رہنما بھیج، اور نمرودوں کے لیے ہاتھی کے برابر مچھر بھیج ، فرعون صفت لوگوں نے ظلم کی جانب ہاتھ بڑھایا ہے ۔ موسیٰ اور عصا اور دریائے نیل بھیج۔
رباعی نمبر 53
دنیا جسم را و قیصر و خاقان را
فردوس ملک را و صفا رضوان را
دوزخ بد را بهشت مرنیکان را
جانان ما را و جان ما جا نان را
ترجمہ: دنیا تو جمشید (جم)، و قیصر اور خاقان کے لیے ہے، جنت فرشتوں کے لیے اور پاکیزگی جنت دربان جنت کے لیے ہے۔ دوزخ بروں کے لیے اور جنت نیکوکاروں کے لیے ہے۔ معشوق لوگ ہمارے لیے انوار ہماری جان معشوقوں کے لیے ہے۔
رباعی نمبر 54
می رست به دشت خاوران لاله ء آل
چون دانه اشک عاشقان در مہ و سال
چون صورت حال من شدش صورت حال
بنموده چو حسن دوست از پرده جمال
ترجمہ : دشت خاوران میں سرخ لالہ کے پھول ایسے اُگتے تھے جیسے مہینے اور سال بھر میں عاشقوں کے آنسوؤں کے قطرے ۔ جب اس کی صورت حال میری صورت حال جیسی ہو گئی تو اُس نے پردۂ جمال سے دوست کے حُسن کی طرح جمال کےدکھایا۔
رباعی نمبر 55
چون دایره ماز پوست پوشان توایم
در دایره حلقه به گوشان تو ایم
گر بنوازی زجا نخر و شان توایم
ور ننوازی از خموشان توایم
ترجمہ : ہمارا تعلق تیرے گدڑی پوش فقیروں کے حلقے سے ہے ۔ ہم تیرے حلقہ بہ گوش غلاموں کے حلقے میں ہیں۔ اگر تو ہمیں نوازے گا تو ہم تیرے جاں شاروں میں سے ہوں گے اور اگر تو نہیں نوازے گا تو پھر بھی ہم تیرے خاموش ے رہنے والوں میں سے ہیں۔
رباعی نمبر 56
ہا تو به حضور بی حضور افتادم
صبرم بایست ناصبور افتادم
از دهشت و صل خویش را گم کردم
نزدیک شدم چنانکه دور افتادم
ترجمہ: تیرے ساتھ حاضر رہ کر غیر حاضر رہا۔ مجھے صبر کرنا چاہیے تھا، مگر میں بے صبر رہا، وصل کی دہشت سے میں نے اپنے آپ کو کھو دیا۔ ایسا نزدیک ہوا کہ میں دور چلا گیا۔
رباعی نمبر 57
چون عود نبود چوب بید آوردم
روی سیه و موی سفید آوردم
خود فرمودی که نا امیدی کفر است
فرمان تو بردیم و امید آوردم
ترجمه عود نہ تھا اس لیے بید کی لکڑی لایا ہوں، سیاہ چہرہ اور سفید بال لایا ہوں۔ تو نے خود ہی فرمایا ہے کہ نا امیدی کفر ہے، ہم نے تیرا حکم مانا اور میں اُمید لے کر آیا ہوں۔
رباعی نمبر 58
بر گوش دلم زغیب آواز رسان
مرغ دل خسته ام به پرواز رسان
یا رب به دوستی مردان رهت
این گم شده مرا به من باز رسان
ترجمہ : اے خدا، میرے گوش دل میں غیب کی آواز پہنچا، اور میرے زخمی دل کے پرندے کو قوت پرواز عنایت کر ۔ اے اللہ اپنے مردان راہ کی دوستی کی بدولت میرے اس گم شدہ سر مائے کو مجھ تک واپس پہنچا۔
رباعی نمبر 59
ای آنکه تویی محرم راز همه کس
شرمنده ناز تو نیاز همه کس
چون دشمن و دوست مظهر ذات تواند
از بهر تو می کشیم ناز همه کس
ترجمہ: اے کہ تو ہر ایک کا محرم راز ہے، تمام لوگوں کا عجز وانکسار تیرے ناز کے آگے شرمندہ ہے۔ جب دوست اور دشمن دونوں تیری ذات کے مظہر ہیں ، ہم تیری وجہ سے ہر ایک کے ناز اٹھا رہے ہیں۔
رباعی نمبر 60
گر طاعت خود نقش کنم بر نانی
وان را بنم پیش سگی بر خوانی
وان سگ سالی گرسنه در زندانی
از سنگ بران نان نزند دندانی
ترجمہ : اگر میں اپنی اطاعت ایک روٹی پر نقش کروں اور اس روٹی کو ایک طباق میں ڈال کر کتے کے سامنے رکھ دوں ، اور وہ کتا جو ایک سال تک قید میں بھوکا پیاسا رہاہو، تو وہ بھی شرم کے مارے اس روٹی کو منہ نہیں لگائے گا۔
رباعی نمبر 61
جانم به لب از لب خموش تو رسید
از لعل خموش باده نوش تو رسید
گوش تو شنیده ام که دردی دارد
درد دل من مگر به گوش تو رسید
ترجمہ: میری جان ہونٹوں تک تیرے خاموش ہو نٹوں کی وجہ سے پہنچی اور لعل خاموش سے تیرے بادہ نوش ہونٹوں تک جا پہنچی۔ میں نے سنا ہے کہ تیرے کان میں درد ہے، کیا کہیں میر ادر ددل تو تیرے کانوں تک نہیں پہنچا۔
رباعی نمبر 62
دل وصل تو ای مہر گسل می خواهد
ایام وصال متصل می خواهد
مقصود من از خدای باشد وصلت
اُمید چنان شود که دل می خواهد
ترجمہ : اے محبت توڑنے والے ، دل تیر اوصل چاہتا ہے اور ایام وصال متصل چاہتا ہے ۔ میرا مقصود و مدعا خداوند عالم سے بس تیرا وصل ہے ۔ میری اُمید اسی طرح بر آئے جیسا کہ میرا دل چاہ رہا ہے۔
رباعی نمبر 63
سودا به سرم همچو پلنگ اندر کوه
غم بر سر غم بسان سنگ اندر کوه
دور از وطن خویش به غربت خوارم
چون شیر به دریا و نهنگ اندر کوه
ترجمہ: میرے سر میں سودا اس طرح ہے جیسے چیتا پہاڑ پر۔ غم بالائے غم اس طرح پڑے ہیں جیسے پتھر پہاڑ پر۔ میں اپنے وطن سے دور غریب الوطنی میں خوار ہو رہا ہوں، جیسے شیر سمندر میں اور وھیل مچھلی پہاڑ پر ۔
رباعی نمبر 64
ای دیده مرا عاشق یاری کردی
حیران رخ لاله عذاری کردی
کاری کردی که هیچ نتوان گفتن
الله الله چه خوب کاری کردی
ترجمہ : اے آنکھ ، تو نے مجھے دوست کا عاشق بنادیا ، اس لالہ عذار کے چہرے کے لیے حیران و ششدر بنادیا، تو نے ایسا کام کیا ہے کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اللہ اللہ ! تو نے کیا خوب کام کیا ہے۔
رباعی نمبر 65
دنیا چه برای او مشوش بودن
از بهر دو روزه عمر نا خوش بودن
ماہیچ و جهان ہیچ و غم و شادی ہیچ
خوش نیست برای ہیچ ناخوش بودن
ترجمہ : دنیا کی حقیقت کیا ہے جس کے لیے اتنی تشویش کی جائے ، دو روزہ زندگی کے لیے غمگین رہیں۔ ہم ہیچ ہیں اور دُنیا ہیچ ہے اور غم اور خوشی بھی ہیچ ہے۔ یہ اچھی بات نہیں کہ اس ہیچ کے لیے غمگین رہا جائے۔
رباعی نمبر 66
ای قادر ذو الجلال وی رحمن تو
سامانده کارهای بی سامان تو
خصمان مرا مطیع من گردان تو
بی رحمان را رحیم من گردان تو
ترجمہ: اے قادرِ ذوالجلال اور اے رحمن، تو بے سہارا لوگوں کو ساز و سامان دینے والا ہے۔ تو میرے دشمنوں کو میرا فرماں بردار بنادے اور بے رحموں کو مجھ پر رحم کرنے والا بنادے۔
رباعی نمبر 67
ای دردت دو افرست هر بیماران
روزی ده انس و جن و مور و ماران
ما تشنه لباں وادی حرمانیم
بر کشت امید ما بباران باران
ترجمہ: اے درد دینے والے مریضوں کے لیے دوا بھیج ۔ انسانوں ، جنوں ، چیونٹیوں اور سانپوں کو روزی دینے والے ہم وادی حرماں کے تشنہ لب لوگ ہیں،ہماری اُمید کے کھیت میں، بارش بر سادے۔
رباعی نمبر 68
نسیما جانب بستان گذر کن
بگو آن نازنین شمشاد قد را
به تشریف قدوم خود زمانی
مشرف کن خراب آباد مارا
که جز پابوس تو اسباب دیگر
نخواهد خاطر ناشاد مارا
ترجمہ : اے باد نسیم باغ سے گزر کر اس شمشاد قد نازنین سے کہہ دے کہ کبھی اپنی تشریف آوری سے ہمارے اس ویرانے کو مشرف کرو، کیونکہ تیری قدم بوسی کے علاوہ ہمار انا شاد دل اور کچھ نہیں چاہتا۔
رباعی نمبر 69
تب لرزه بر اندام تو ای سرو قبا پوش
یا رب که مبینادد گر عاشق مدهوش
بستم تب لرزه تو به فرمان الهی
تا باز رہی از الم درد بر و دوش
ترجمہ : اے سرو قبا پوش تیرے جسم پر لرزشی بخار خدا کرے کہ مدہوش عاشق کبھی نہ دیکھے۔ اللہ کے حکم سے میں نے تیرے بخار کی لرزش کو باندھ دیا ہے تا کہ تو جسم اور کندھوں کے درد سے نجات پالے۔
رباعی نمبر 70
رفتم به کلیسای ترسا و جہود
ترسا و یہود همه رخ به تو نمود
بر یاد وصال تو به بتخانه شدم
تسبیح بتاں زمزمه عشق تو بود
ترجمہ: میں مسیحیوں اور یہودیوں کے کلیساؤں میں گیا، مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہر ایک کا رخ تیری ہی طرف تھا۔ میں تیری یاد میں بت خانے بھی گیا،بتوں کی تسبیح تیرے عشق کا زمزمہ تھا۔
رباعی نمبر 71
سر تا سر به دشت خاوران سنگی نیست
کز بار غمت تشنه و دلتنگی نیست
در هیچ زمین و هیچ فرسنگی نیست
کز خون دل و دیده وران سنگی نیست
ترجمه: دشت خاوراں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی ایسا پتھر نہیں جو تیرے غم کے بوجھ کی وجہ سے پیاسا اور افسردہ نہ ہو، کوئی ایسی زمین اور ایسافرسنگ نہیں جہاں دل اور آنکھ کے خون کا پتھر نہ ہو۔
رباعی نمبر 72
دل عادت و خوی جنگجوی تو گرفت
جان کرده عزیمت و سر کوی تو گرفت
گفتم خط تو جانب من را گیرد
آن هم طرف روی کوی تو گرفت
ترجمہ : دل نے تیری ہی جنگجوئی کی عادت اور خصلت اختیار کر لی ہے۔ جان نے عزم کیا اور تیری گلی کاراستہ روک لیا ہے۔ میں نے کہا کہ تیراخط میرے پہلو پر قبضہ کرلے گا۔ اس نے بھی تیرے خوبصورت چہرے کا رخ کیا۔
رباعی نمبر 73
ای آنکه بر آرنده حاجات تویی
هم قاضی و کافی المہمات تویی
سر ّدل خویش را چه گویم با تو
چون عالم سر و الخفیات تویی
ترجمہ : اے کہ تو حاجتوں کا بر لانے والا ہے ، تو ہی حاجتوں کو پورا کرنے والا اور مہمات کے لیے کافی ہے۔ میں اپنے دل کا راز تجھ سے کیا کہوں ، جب کہ تو دنیا کےرازوں اور پوشیدہ باتوں سے واقف ہے۔
رباعی نمبر 74
ما بامی و مستی سر تقوی داریم
دنیا طلبیم و میل حقی داریم
دنیا و دین به ہمد گر جمع شوند
این است که مانه دین نه دنیا داریم
ترجمہ : ہم شراب اور مستی کے ساتھ تقویٰ بھی رکھتے ہیں ہم دنیا کے طلبگار ہیں اور عقبیٰ کی طرف رغبت بھی رکھتے ہیں دنیا اور دین کب آپس میں ایک ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم نہ دین رکھتے ہیں اور نہ دنیا۔
رباعی نمبر 75
یارب مکن از لطف پریشان مارا
هر چند که هست جرم و عصیان مارا
ذات تو بود غنی و من محتاجم
محتاج به غیر خود مگردان مارا
ترجمہ : اے اللہ اپنے لطف و کرم سے ہمیں پریشان نہ ہونے دینا۔ اگرچہ ہمارے گناہ اور جرم موجود ہیں تیری ذات غنی ہے اور میں محتاج ہوں۔ تو اپنی ذات کے علاوہ مجھے کسی اور کا محتاج نہ کرنا۔
رباعی نمبر 76
اے سر ّتو در سینه هر محرم راز
پیوسته در رحمت تو بر همه باز
هر کس که به درگاه تو آید به نیاز
محروم زورگاه تو کی گردد باز
ترجمہ : اے کہ تیرا راز ہر محرم راز کے سینے میں ہے ۔ تیری رحمت کا دروازہ سب پر ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ تیری بارگاہ میں جو کوئی بھی نیاز مندی سے حاضر ہو گا تو وہ تیری بارگاہ سے کب محروم لوٹے گا۔
رباعی نمبر 77
ای گشته جهان تشنه سیراب از تو
ای رنگ گل و لاله خوش آب از تو
محتاج به کیمیای اکسیر تو ایم
بیش از همه عقد سیماب از تو
ترجمہ : اے وہ کہ پیاسی دنیا کی کھیتی تجھی سے سیراب ہو رہی ہے ،اے وہ ذات کہ پھول اور لالۂ خوش آب کا رنگ تیری بدولت ہے۔ ہم تیری اکسیر کی کیمیا کے محتاج ہیں۔ سب سے پہلے سیماب کا ملاپ تجھی سے ممکن تھا۔
رباعی نمبر 78
در هر سحری با تو همی گویم راز
در حضرت تو همی کنم عرض نیاز
بی منت بندگانت ای بنده نواز
کار من بیچاره در مانده بساز
ترجمہ : میں ہر روز وقت سحر یہ راز کی بات کہتا ہوں، اور تیری جناب میں عرض نیاز کرتا ہوں۔ اے بندہ نواز ، تو اپنے بندوں کا احسان لیے بغیر مجھ بے چارے اور پریشاں حال کے کام کو بنادے۔
رباعی نمبر 79
یارب نظری بر من سر گردان کن
رحمی بمن دلشده حیران کن
بر من مکن آنچه من سزای آنم
آنچه از کرم و لطف تو آید آن کن
ترجمہ: اے پروردگار مجھ پریشاں حال پر نظر کرم کر اور دل فگار اور حیران پر رحم کر۔ تو میرے ساتھ وہ سلوک نہ کر جس کا میں سزاوار ہوں بلکہ جو تیرے لطف و کرم کا تقاضاہے مجھ سے وہ برتاؤ کر۔
رباعی نمبر 80
يارب به علی ابن ابی طالب و آل
آن شیر خدا وند جهان جل جلال
کاندر سه محل رسی به فریاد همه
اندر دم نزع و قبر و هنگام سوال
ترجمہ : اے رب مجھے علی ابن ابی طالب اور اُن کی اولاد کا واسطہ ، وہ علی جو شیر خدا ئے ذوالجلال ہے ، کہ ان تین مقامات پر تو ہر ایک کی فریاد رسی کر ، عالم نزع ، قبر میں اور سوال جواب کے وقت ۔
رباعی نمبر 81
گر در سفرم توئی رفیق سفرم
در در حضرم توئی رفیق حضرم
القصه به هر کجا که باشد گذرم
جز تو نبود هیچ مراد و گرم
ترجمہ : اگر میں سفر میں ہوں تو تو ہی میرا رفیق سفر ہے ، اگر میں اپنے شہر میں قیام پذیر ہوں تو تو ہی میرا ساتھی ہے۔ القصہ میرا جہاں کہیں سے بھی گزر ہوتا ہے ، ۔پس تیرے سوا میری اور کوئی مراد نہیں۔
رباعی نمبر 82
یا رب به دلم غیر خودت جامگذار
در دیده من گرد تمنا مگذار
گفتم گفتم زمن نمی آید کار
رحمی رحمی مرا به من وا مگذار
ترجمہ : یا اللہ ! میرے دل میں اپنے سوا کسی اور کے لیے جگہ نہ چھوڑ ، میری آنکھوں میں تمنا کی خاک کو باقی نہ رہنے دے۔ میں نے کہا ہے ، کہا ہے کہ کام کرنا میرے بس میں نہیں۔ رحم کر رحم کر، مجھے اپنے حال پر مت چھوڑ۔
رباعی نمبر 83
حمد الك رب نجني مِنكَ فَلاح
شكراً لك في كُل مَسَاءِ وَصَباح
من عندك فتح كل باب و فتوح
افتح لی فتح كل باب مفتاح
ترجمہ: حمد ہے تیرے لیے اے میرے رب ! مجھے نجات دے ، فلاح تجھی سے ہے۔ ہر شام اور ہر صبح تیرا ہی شکر گزار ہوں، تیری ہی طرف سے ہے ہر دروازے کا کھلنا اور کشایش ہے۔ اے کھولنے والے ، میرے لیے تمام دروازے کھول دے۔
رباعی نمبر 84
ای دوست ابو تراب و مساز منست
حیدر به جهان همدم و همر از منست
این هر دو جگر گوشه دو بالند مرا
مشکن بالم که وقت پرواز منست
ترجمہ: اے دوست، ابو تراب میر اد مساز ہے ، اور دنیا میں حیدر میر اہمدم و ہمراز ہے، یہ دونوں جگر گوشے ( حسن و حسین ) میرے دو پر ہیں۔ میرے پروں کو مت توڑ، کیونکہ اب میری پرواز کا وقت ہے۔
رباعی نمبر 85
الله تویی از دلم آگاه تویی
در مانده منم دلیل هر راه تویی
گر مورچه دم زند اندر تک چاه
از دم زدن مورچه آگاه تویی
ترجمہ: تو ہی اللہ ہے اور تو ہی میرے دل سے آگاہ ہے ، میں مصیبت زدہ ہوں اور تو ہی ہر راستے کارہنما ہے۔ اگر کنویں کی گہرائی میں ایک چیونٹی بھی سانس لیتی ہے تو تو اس چیونٹی کے سانس لینے سے آگاہ ہے۔
رباعی نمبر 86
با شیر و پلنگ هر که آمیز کند
از تیر دعای فقر پرهیز کند
آه دل درویش به سوهان ماند
گر خود نبرد برنده را تیز کند
ترجمہ : جو کوئی بھی شیر اور چیتے کے ساتھ مقابلہ کرے گا، وہ دعائے فقر کے تیر سے پر ہیز کرے گا درویش کے دل کی آہ سوہان کی طرح ہے ۔ اگر وہ خود نہیں کاٹتاتو کاٹنے والی چیز کو تیز کرتا ہے۔
رباعی نمبر 87
آنی که زجانم آرزوی تو نرفت
از دل هوس روی سکوی تو نرفت
از کوی تو هر که رفت دل را بگذاشت
کس با دل خویشتن ز کوی تو نرفت
ترجمہ: تو وہ ہے کہ میرا دل تیری چاہت میں اب بھی بے قرار ہے ، میرے دل سے تیری چاہت نہیں گئی، دل سے تیرے خوبصورت چہرے کی ہوس نہیں گئی۔ تیری گلی سے جو بھی گزرا، اس نے اپنا دل یہیں چھوڑ دیا۔ تیری گلی سے کوئی بھی اپنے دل کے ساتھ واپس نہ گیا۔
رباعی نمبر 88
یا رب من اگر گناه بی حد کردم
دانم به یقین که جور بر تن خود کردم
چیزی که رضایی تو نبود است دران
برگشتم و توبه کردم و بد کردم
ترجمہ : اے اللہ ، اگرچہ میں نے بے حد و حساب گناہ کیے ہیں ، مجھے یقین ہے کہ میں نے اپنے جسم پر خود ظلم ڈھایا ہے ۔ وہ چیز جس میں تیری رضا نہیں ہے۔ میں لوٹا، میں نے توبہ کی اور پھر برائی کی۔
رباعی نمبر 89
من بی تو دمی قرار نتوانم کرد
احسان ترا شمار نتوانم کرد
گر بر تن من زبان شود هر موی
احسان ترا شمار نتوانم کرد
ترجمہ : میں تیرے بغیر ایک لمحہ بھی قرار نہیں پاسکتا، میں تیرے احسانات گن نہیں سکتا۔ اگر میرے جسم کے تمام بال زبان بن جائیں (تب بھی) میں تیرے احسانات کا شمار نہیں کر سکتا۔
رباعی نمبر 90
ای آنکه دوای درد مندان دانی
در میان علاج مستمندان رودانی
حال دل خویش را چه گویم با تو
نا گفته تو هزار چندان دانی
ترجمہ : اے وہ جو درد مندوں کی دوا کو جانتا ہے، جو محتاجوں کے علاج معالجے سے واقف ہے ، میں اپنے دل کا حال تجھ سے کیا بیان کروں۔ نہ کہنے کے باوجود بھی تو ہزار ہا ہزار جانتا ہے۔
رباعی نمبر 91
چون باز سفید در شکاریم همه
با نفس و هوای خویش یاریم همه
چون پرده از روی کارها بردارند
معلوم شود که در چه کاریم همه
ترجمہ : ہم سفید باز کی طرح شکار میں مصروف ہیں، ہم سب اپنے نفس اور خواہشات نفسانی کے ساتھی ہیں، جب ہمارے کاموں سے پردہ اُٹھایا جائے گا، تب معلوم ہو گا کہ ہم کس کام میں مشغول رہے ہیں۔
رباعی نمبر 92
ای در سر هر کس از خیالت هوسی
بی یاد تو بر نیاید از دل نفسی
مخروش و مرا مبخش و آزاد مکن
من خواجه یکی دارم و تو بنده بسی
ترجمہ : ہر ایک کو تیرے ہی خیال کی ہوس ہے ۔ تیری یاد کے بغیر میرے دل سے ایک سانس بھی نہیں آتی۔ تو غضب کی بجلی نہ گرا، اور مجھے نہ بخش اور آزاد مت کر۔ میرا ایک ہی مالک ہے اور تیرے بے شمار بندے ہیں۔
رباعی نمبر 93
هر چند که یار سر گرانست به تو
غمگین نشوی که مهر بانست به تو
دلدار مثال صورت آمینه است
تا تو نگرانی نگرانست به تو
ترجمہ : اگرچہ محبوب تجھ سے روٹھا ہوا ہے ، تو غم مت کر، کیونکہ وہ تجھ پر مہربان ہے۔ معشوق آئینے کی طرح ہے۔ جب تک تو اسے دیکھے گا وہ تجھے دیکھتا رہے گا۔
رباعی نمبر 94
یارب غم آنچه غیر تو در دل ماست
بردار که بی حاصلی از حاصل ماست
الحمد که چون تو رہنمائی دارم
از گم شدگانیم غمت منزل ماست
ترجمہ : اے اللہ ، تیرے غم کے علاوہ ہمارے دل میں جو غم ہے اسے اُٹھا لے، کیونکہ بے حاصلی ہی ہمارا حاصل ہے۔ خدا کا شکر کہ ہمارے پاس تجھ جیسار ہنما موجود ہے۔ ہم گم شدہ لوگوں میں سے ہیں اور تیرا غم ہی ہماری منزل ہے۔
رباعی نمبر 95
ای آنکه به کنهت نرسد ادرا کی
کونین به پیش کرمت خاشاکی
از روی کرم تو ببخشا همه را
بخشنده بود لطف تو مشت خاکی
ترجمہ : اے وہ کہ تیری ذات کی گہرائی کو عقل و فہم نہیں پہنچ سکتے ۔ تیرے کرم کے آگے یہ دونوں جہاں خس و خاشاک کی مانند ہیں۔ اے بخشنے والے تیر الطف و کرم ایک مشت خاک (انسان) پر ہو گا۔
رباعی نمبر 96
یارب تو در کرم به رویم بگشا
راهی که برو نجات باشد بنما
مستغنیم از هر دو جهان کن زکرم
جز یاد تو هر چه هست از دل بر نما
ترجمہ: اے اللہ تو کرم کے دروازے مجھ پر کھول دے ، وہ راستہ جہاں نجات ہو وہ مجھے دکھادے ۔ میں دونوں جہانوں سے مستغنی ہوں۔ تو اپنے کرم سے سوائے اپنی یاد کے میرے دل سے اور سب کچھ چھین لے۔
رباعی نمبر 97
با محنت و درد و غم قرینم کردی
بی مونس و یار هم نشینیم کردی
این مرتبه مقربان در تست
یارب به چه خدمت این چنینم کردی
ترجمہ: تو نے مجھے مشکلات اور دردو غم کا ہم جلیس بنادیا، یا تو نے بے یار و مددگار کا ساتھی بنادیا۔ کیا یہ تیرے دروازے کے مقربین کا مرتبہ ہے؟ خدایا، تو نے مجھے کس خدمتگاری کا یہ صلہ دیا ہے ؟
رباعی نمبر 98
اے واقفِ اسرارِ ضمیرِ ھمہ کَس
در حالتِ عجز دستگیرِ ھمہ کس
یا رب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر
اے توبہ دہ و عذر پذیرِ ھمہ کس
اے سب کے دلوں کے حال جاننے والے، ناتوانی اور عاجزی میں سب کی مدد کرنے والے، یا رب تو مجھے توبہ (کی توفیق) دے اور میرے عذر کو قبول کر، اے سب کو توبہ کو توفیق دینے والے اور سب کے عذر قبول کرنے والے۔
رباعی نمبر 99
خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد
اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
رباعی نمبر 100
در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا
کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
رباعی نمبر 101
وصلِ تو کجا و مَنِ مَہجُور کجا
دُردانہ کجا، حوصلۂ مُور کجا
ہرچند ز سوختَن ندارَم باکی
پروانہ کجا و آتشِ طُور کجا
تیرا وصال کہاں اور ہجر کا مارا کہاں، گوہرِ نایاب کہاں اور چیونٹی کہاں، ہر چند کہ میں جل جانے سے نہیں ڈرتا لیکن پروانہ کہاں اور آتشِ طور کہاں۔
رباعی نمبر 102
مجنونِ تو کوہ را، ز صحرا نَشَناخت
دیوانۂ عشقِ تو سر از پا نَشَناخت
ہر کس بہ تو رہ یافت ز خود گم گردید
آں کس کہ ترا شناخت خود را نَشَناخت
تیرے مجنوں کو پہاڑ و صحرا کی پہچان نہیں ہے (اس کیلیے دونوں ایک برابر ہیں)، تیرے عشق کا دیوانہ سر اور پاؤں میں فرق نہیں جانتا، ہر کوئی جسے تیری راہ ملی اسنے خود کو گم کر دیا، ہر کوئی جس نے تجھے پہچان لیا وہ اپنی شناخت بھول گیا۔
رباعی نمبر 103
باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ
(اے میرے بندے) واپس آ، واپس آ، توجو کوئی بھی ہے، لوٹ آ، چاہے تو کافر ہے، یہودی ہے یا بت پرست ہے، لوٹ آ، یہ ہماری بارگاہ ناامید و مایوس ہونے کی جگہ نہیں ہے، تُو نے اگر سو بار بھی توبہ توڑی ہے پھر بھی لوٹ آ۔
رباعی نمبر 104
گفتَم، چشمَم، گفت، بہ راہَش می دار
گفتم، جگرم، گفت، پُر آہَش می دار
گفتم، کہ دِلَم، گفت، چہ داری در دل
گفتم، غمِ تو، گفت، نگاہَش می دار
میں نے کہا کہ میری آنکھیں، اس نے کہا انہیں راہ پر لگائے رکھ، میں نے کہا کہ میرا جگر، اس نے کہا اسے آہوں سے بھرا ہوا رکھ، میں نے کہا کہ میرا دل، اس نے کہا دل میں کیا ہے، میں نے کہا کہ تیرا غم، اس نے کہا کہ اس کی (غم کی) دیکھ بھال کر۔