رجوع الی اللہ (باب دوم)

رجوع الی اللہ حکمت نمبر26

رجوع الی اللہ کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر26 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جس شخص کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے، وہ ہرشے میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور ہر حال میں اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایاہے
26) مِنْ عَلاماتِ النُّجْاحِ في النِّهاياتِ، الرُّجوعُ إلى اللهِ في البِداياتِ.
انتہا میں کامیاب ہونے والوں کی علامات میں سے ، ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرناہے۔

انتہا بہتر اور قابل تعر

س شخص کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے، وہ ہرشے میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور ہر حال میں اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایاہے
26) مِنْ عَلاماتِ النُّجْاحِ في النِّهاياتِ، الرُّجوعُ إلى اللهِ في البِداياتِ.
انتہا میں کامیاب ہونے والوں کی علامات میں سے ، ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرناہے۔

یف

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں اے مرید جب تم اپنی ہمت کی شے کی طرف متوجہ کرو ۔ خواہ وہ کوئی شے ہو ۔ اور تمہاری یہ خواہش ہو کہ اس کا معاملہ کامیاب ہو۔ اور اس کے بارے میں تم اپنے مقصد کو پہنچ جاؤ ۔ اور اس کی انتہا بہتر اور قابل تعریف ہو۔ تو اس شے کی طلب کی ابتداء میں تم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ اور اپنے اختیار اور قوت کو ترک کر دو ۔ اور جس طرح حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے اسی طرح تم بھی پورے یقین کے ساتھ کہو ۔:
إِنْ يَكُنْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ، فَلَا تَحْرِصُ عَلَيْهِ وَلَا تَهْتَمُ بِشَانِهِ ، فَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ ، وَمَا لَمْ يَشَا رَبُّنَا لَمْ يَكُن فلوِ اجْتَمَعَتِ الإِنسِ وَالْجِنَّ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيءٍ لَمْ يُقَدِّرُهُ اللَّهُ لَكَ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى ذَلِكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيءٍ لَّمْ يُقَدِّرُهُ اللَّهُ عَلَيْكَ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى ذَالِكَ، جَفتِ الأقلام وطُویَتِ الصُّحُفُ
اگر وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہے تو وہ اس کو جاری کرے گا۔ لہذا تم اس کی حرص نہ کرو۔ نہ اس کی شان میں اہتمام کرو۔ کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا ، وہ ہوا۔ اور جو کچھ ہمارے رب نے نہیں چاہا، وہ نہیں ہوا۔ پس اگر انسان اور جن سب مل کر تمہیں کچھ ایسا فائدہ پہنچانا چاہیں جواللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر نہیں کیا ہے تو وہ سب تمہیں فائدہ نہ پہنچا سکیں گے ۔ اور اگر سب مل کر تمہیں کوئی ایسا نقصان پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر مقدر نہیں کیا ہے تو وہ سب تمہیں نقصان نہ پہنچائیں گے۔ قلم خشک ہو گئے، اور صحیفے ( نوشتہ تقدیر ) لپیٹ دیئے گئے۔
لہذا اگر تم کوئی شے طلب کرتے ہو، اور اس میں تمہارا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہے۔ اور تم نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے۔ اور تمہاری نظر اس تقدیر پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے ہے۔ تو یہ تمہاری انتہا کی کامیابی کی علامت ہے۔ ظاہر میں تمہارا مقصد پورا ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ تمہارا مقصد اللہ تعالیٰ کے مقصد کے ساتھ وابستہ ہے۔ اپنے نفس کے مقصد کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ تمہارے حصے حقوق بن گئے ہیں۔ تم وہی چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے۔ اور تمہاری نظر اس پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس سے ظاہر ہوتا ہے۔ تم اپنے نفس کے حصے اور خواہشات سے فنا ہو چکے ہو۔
اور اگر تم کوئی بھی اپنے نفس کے ساتھ طلب کرتے ہو۔ اور تمہارا بھروسہ اپنے اختیار اور قوت پر ہے۔ اور تم اس کے پورا ہونے کی حرص رکھتے ہو۔ اور اس کی طلب میں کوشش کرتے ہو ۔ تو یہ اس کے پورا نہ ہونے کی ، اور مایوسی کی ، اور اس کی انتہا کی ناکامی کی علامت ہے۔ اور اگر ظاہر میں وہ پوری ہوگئی۔ لیکن تم اس کے سپرد کر دیئے جاؤ گے۔ اور تم اس کی وجہ سے تکلیف پاؤ گے ۔ اور اس کی حالات اور ضروریات میں تمہاری مدد نہ کی جائے گی ۔۔ یہ سب مجرب ہے۔ اور خاص و عام کے نزدیک مسلم اور صحیح ہے اور جو کچھ پہلے بیان ہو چکاہے۔ یہ حکمت اس کاتکملہ (مکمل کرنا) اور شرح ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں