رحمت سے محرومی(مناجات 05)

یہ پانچویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پانچویں مناجات

إِلٰهِيْ وَصَفْتَ نَفْسَكَ بِاللُّطْفِ وَالرَّافَةِ بِي قَبْلَ وُجُودِ ضُعْفِي اَفَتَمْنَعُنِي مِنْهُمَا بَعْدَ وُجُودِ ضُعْفِى
اے میرے اللہ ! جب میری کمزوری ظاہر ہونے سے پہلے تو نے میرے او پر مہربانی اور رحمت کے ساتھ اپنی ذات اقدس کو موصوف کیا۔ تو کیا میری کمزوری ظاہر ہونے کے بعد تو مجھ کو اس مہربانی اور رحمت سے محروم کر دے گا ؟
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) اللہ تعالیٰ سے اپنی کمزوری اور محتاجی کی شکایت ، اور اپنے مولائے حقیقی سے اس کی مہربانی اور رحمت کی مدد مانگتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
اے میرے اللہ ! تو نے اپنی بزرگ کتاب میں جس کو تو نے ہماری طرف نازل فرمایا ہے یعنی قرآن مجید میں اپنی ذات اقدس کو مہربانی اور رحمت کے ساتھ موصوف فرمایا ہے ، جیسا کہ تو نے فرمایا ہے۔
اللهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِه اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے
اور تو نے فرمایا ہے:۔
إِنَّ اللَّهَ بِكُمُ لَرَؤُفٌ رَّحِيمٌ بیشک اللہ تعالیٰ تم لوگوں پر رافت اور رحمت کرنے والا ہے
اور مہربانی اور رحمت کے ساتھ تیرا موصوف ہونا قدیم ہے ۔ تو ، جب تو ہمارے او پر ہماری کمزوری ظاہر ہونے سے پہلے مہربان اور رحیم تھا ۔ تو ہماری کمزوری ظاہر ہونے کے بعد ، تو اپنی مہربانی اور رحمت ہم کو کیوں نہ عطا فرمائے گا؟ جب تو نے ہمارے او پر اس وقت مہربانی فرمائی جبکہ ہم کسی مہربانی کے محتاج نہ تھے۔ تو کیا تو اب ہم کو اپنی مہربانی سے محروم کر دے گا جبکہ ہم اس کے محتاج ہیں، حالانکہ تو ارحم الرحمین ہے؟ جب تو نے ہم کو اپنے گھر میں ظاہر کرنے سے پہلے ہمارے اوپر اپنی رحمت جاری فرمائی۔ تو کیا ہمارے ظاہر ہونے کے بعد اپنے عظیم احسان کے باوجود تو ہم کو اپنی رحمت سے مایوس کر دے گا؟ اور جس شخص نے انسان کی صنعت ، اور اس کی خلقت اور مضبوطی کی اس خصوصیت کے عجائب میں جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو مخصوص کیا ہے اور ان قسم قسم کے انعامات واحسانات میں جو اس کو حاصل ہوتی ہیں، غور وفکر کیا۔ اس نے اپنی ذات کو اپنے مولائے حقیقی کے لطف اوررحمت میں ڈوبا ہوا پایا ، اور اپنی ابتداء اور انتہا میں اس کو اپنی ذات کا رفیق دیکھا۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ انسان کے اندر جتنی حکمتیں امانت رکھی گئی ہیں ان میں سے عقلوں نے بارہ ہزار حکمتوں کو سمجھا ہے اور جن حکمتوں کو عقلیں نہیں سمجھ سکی ہیں۔ ان کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور یہ حکمتیں خاص اس کی ذات کے اندر ہیں لیکن اس کے کھانے اور پینے اور لباس اور تمام لوازمات میں تو اس سے بہت زیادہ ہیں،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ہم نے انسان کو بہترین صورت میں بنایا ہے
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
فَلْيَنظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ پس انسان کو چاہیئے کہ اپنے کھانے میں غور کرے
لہذا پاک ہے وہ ذات اقدس جس کے بے مثل الطاف کے سمجھنے سے عقلیں عاجز ہو گئیں اور اس کے عظیم اوصاف میں غور کرنے سے فکریں قاصر ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبيْرُ اور اللہ تعالیٰ مہربان اور خبر رکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیاں مبتدیوں کیلئے کتنی زیادہ کی ہیں اور بیدار ہونے والوں کیلئے ان کو کتنا واضح کیا ہے اور تمام مخلوقات میں ان کو کتنا عظیم بنایا ہے اس کا لطف تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے اور اس کی حکمت نے انسان اور جن کی فکروں کو روشن کر دیا ہے۔
اسی حقیقت کو ایک عارف نے نظم میں فرمایا ہے۔
أَحَاطَ بِتَفْصِيلِ دَقَائِقِ عِلْمُهُ فَأَتْقَنَهَا صُنْعا وَأَحْكَمَهَا فِعْلَا
اللہ تعالیٰ کے علم نے باریکیوں کی تفصیل کا احاطہ کر لیا ہے۔ پس صنعت اور محل کے اعتبار سےان کو مضبوط کر دیا ہے
فَمِنْ لُطْفِهِ حِفظُ الْجَنِينِ وَصَوْنُهُ بِمُسْتَوْدَعٍ قَدْ مَرَّفِيهِ وَقَدْ حَلَّا
پس اس کے من جملہ لطف وکرم سے جنین (ماں کے شکم میں رہنے والا بچہ ) کی شکم میں حفاظت اور نگہداشت بھی ہے وہ اسی میں چلتا پھرتا ہے اور اس میں مقیم رہتا ہے
تَكَنَّفهُ باللُّطْفِ في ظُلُمَاتِهِ وَلَا مَالَ يُغْنيهِ هُنَاكَ وَلَا أَهْلَا
اللہ تعالیٰ اس کو اس کی تاریکیوں میں اپنے لطف وکرم سے ڈھانپے رہتا ہے حالانکہ وہاں نہ کوئی مال اس کے کام آسکتا ہے نہ کوئی اہل
وَيَأْتِيهِ رِزْقٌ سَابِغُ مِنْهُ سَائِغ یَرُوحُ لَهُ طَوْلاً وَيَغْدُو لَهُ فَضْلَا
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس کافی اور خوش مزہ روزی آتی رہتی ہے ، وہ شام کو اس کیلئے احسان اور صبح کو اس کیلئے فضل ہوتا ہے
وَمَا هُوَ يَسْتَدْعَى غِذاءً بِقِيمَةٍ وَلَا هُوَ مَن يُحْسِنُ الشُّرْب وَالأكْلَا
اور وہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی غذا قیمت سے منگائے اور نہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو کھانا اورپینا بہتر بناتے ہیں
جَرَى فِي مَجَارِي عِرْقِهِ بِتَلَطَّفٍ بِلا طَلَبٍ جَرْيًا عَلَى قَدْرِهِ سَهْلَا
وہ روزی اس کی رگ کی نالیوں میں لطافت کے ساتھ جاری ہوکر بغیر طلب کے اس کے اندازے کے مطابق آسانی سے پہنچتی ہے
وَأَجْرَى لَهُ في الثَّدَى لُطْفَ غِذَائِهِ شَرَابًا هَنيئاً مَا أَلذَّ وَمَا أَحَلِّىْ
اور اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے پستان میں ایسی لطیف غذا جاری کی ، جو خوش گوار اور بہت مزے دار اور بہت شیریں مشروب ہے
وَأَلْهَمَهُ مَصَّا بِحِكْمَةِ فَاطِرٍ تَجَلّٰى لأَرْبَابِ الْعُقُول بِمَا أَوْلَى
اور اللہ تعالیٰ نے اس کو چوسنے کا الہام کیا ، اہل عقل کیلئے پیدا کرنے والی کی یہ حکمت بہتر طریقے پر ظاہر ہے
وَأَخَّرَ خَلْقَ السِّنِّ عَنْهُ لِوَقْتِهَا فَابْرَزَهَا عَوْنًا وَجَاءَ بِهَا طَوْلًا
اور دانت کے پیدا ہونے کو اس کے مقررہ وقت کیلئے مؤخر کیا۔ پھر اس کو کھانے میں مدد کیلئے نکالا اور لمبا کیا
وَقَسَّمَهَا لِلْقَطْعِ وَالْكَسْرِ قِسْمَةٌ وَلِلطَّحْنِ أَعْطَى كُلَّ قِسْمٍ لَهَا شَكْلا
اور اللہ تعالیٰ نے دانتوں کو کاٹنے اور توڑنے اور چبانے کیلئے مختلف قسموں میں تقسیم کیا اور ہر قسم کیلئے ایک خاص شکل عطا فرمائی
وَصَرَّفَ فِي لَوْكِ الطَّعَامِ لِسَانَهُ يُصَرِّفُهُ عُلُوا إِذَا شَاءَ أَوْ سُفْلَا
اور کھانے کے چبانے میں اس کی زبان کو پھرنے والی بنایا وہ جب چاہتی ہے کھانے کو او پر یا نیچے پھراتی ہے۔
وَلَوْ رَام حَصْرًا فِي تَیَسَّرٍ لُقَمَةٍ وَاَلْطَافَہٗ فِيمَا تَكَفَّنَهَا كَلَّا
اور اگر وہ لقمہ کے آسان ہونے میں اور ان تمام اشیاء میں جن میں اللہ تعالیٰ کی لطفوں نے اس کو ڈھانپ رکھا ہے اس کےلطفوں کو گھیر لینے ( شمار کر لینے ) کا ارادہ کرے تو وہ ہر گز نہیں کر سکتاہے
فَكَمْ خَادِمٍ فِيهَا وَكَمْ صَانِعٍ لَهَا كَذَلِكَ مَشْرُوبٌ وَمَلْبَسُهُ كُلا
پس اس کی غذا کے معاملے میں اس کیلئے بہت سے خادم ہیں اور بہت سے صانع ہیں اور اس کے پینے اور لباس سب کا یہی حال ہے
وَكَمْ لُطَفٍ مِنْ حَيْثُ تَحْذَرُ اُکْرِمَتْ وَمَا كُنتَ تَدْرِي الفَرْعَ مِنْهَا وَلَا الأَصْلَا
اور بہت سی مہربانیاں اس حیثیت سے ہیں کہ تم نقصان دہ اشیاء سے بچتے ہو اور تمہارے اوپراس وقت لطف و کرم کیا گیا جبکہ تم نہ کرم کی فرع کو جانتے تھے نہ اصل کو ۔
و مِنْ لُطْفِهٖ تكليفُہٗ لِعِبَادِه یَسِيرًا وَأَعْطَاهُمُ مِنَ النَّعَمِ الْجَزْلَا
اور اس کے لطف و کرم میں سے یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو آسان تکلیف (یعنی اس کی طاقت کے موافق عمل کی تکلیف دی ہے اور ان کو نعمتیں بہت زیادہ عطا فرمائیں ہیں۔
وَمِنْ لُطْفِهِ تَوْفِيْقُهُم لإنَابَةٍ تُوَصِّلُ لِلْخَيْرَاتِ مِنْ حَبْلِهِمْ حَبْلا
اور اس کے من جملہ لطف و کرم میں سے بندوں کو تو بہ اور رجوع کرنے کی توفیق بھی ہے جونیکیوں کیلئے ان کی رسی سے اللہ تعالیٰ کی رسی ملادیتی ہے
وَمِنْ لُطْفِهِ بَعْثُ النَّبِي مُحَمَّدٍ لِيَشْفَعَ فِي قَوْمٍ وَلَيْسُوْا لَهَا أَهلا
اور اس کے لطف و کرم میں سے حضرت محمد ﷺ کا معبوث فرمانا ہے تا کہ وہ لوگوں کی شفاعت فرما ئیں ۔ حالانکہ لوگ شفاعت کے اہل نہیں ہیں
وَمِنْ لُطْفِهِ حِفْظُ الْعَقَائِدِ مِنْهُمْ وَلَو خَالَفَ الْعَاصِي الْمُسِيئ وَإِنْ زَلَا
اور اس کے لطف و کرم میں سے ان کے عقائد کی حفاظت کرنی ہے اگر چہ نافرمان بدکارمخالف عمل کرے اور ا گر چہ وہ لغزش کرے
وَمِنْ لُطْفِهِ إِخْرَاجُهُ عَسَلاً كَمَا نُشَاهِدُ مِمَّا كَانَ أَوْدَعَهُ النَّحْلَا
اور اس کے لطف و کرم میں اس کا شہد پیدا کرنا ہے جیسا کہ تم وہ حکمت دیکھتے ہو جو اس نے شہد کی مکھی کو سپرد کی ہے
وَاخْرَاجُهُ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ مُجَاوِرٍ دَما لَبَنَا صَرِفًا بِلَا شَائِبٍ رِسْلَا
اور اس کے لطف وکرم میں سے خون کے قریب رہنے والے گوبر کے درمیان سے ( خون اور گوبر کے درمیان سے بغیر آمیزش کے صاف و شفاف خالص دودھ پیدا کرنا ہے
وَاخْرَاجُهُ مِنْ دُوْدَةٍ مُلْبِسًالَهُ رِوَاقًا عَجِيبًا أَحْكَمَتُهُ لَنَا غَزْلَا
اور اس کے لطف و کرم میں سے ریشم کے کیڑے سے اس کو پہنانے کیلئے صاف اور خوبصورت لباس پیدا کرنا ہے جس کو وہ کیڑا ہمارے لیے مضبوط دھاگہ کی شکل میں بناتا ہے
وَأَعْجَبُ مِنْ ذَا خَلْقُهُ الْقَلْبَ عَارِفًا بِهِ شَاهِدًا بِلَا شَبِيْهِ وَلَا مِثْلَا
اور ان سب سے زیادہ عجیب لطف و کرم یہ ہے کہ اس نے قلب کو اپنا عارف بنایا کہ وہ بلا شبیہ اور مثل کے اس کا مشاہدہ کرتا ہے
وَاَلْطَافُہُ لِلْبَحْرِ الْمُحِيطِ فَخُذْ بِمَا بَدَالَكَ وَاشْهَدْهَا وَإِيَّاكَ وَالْجَهْلا
اور اس کے الطاف احاطہ کرنے والے سمندر کیلئے ہیں پس تم اس کو اختیار کرو جو تمہارےظاہر ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ کرو اور جہالت سے بچو
وَصَلَّ عَلَى الْمُخْتَارِ أَفْضَلِ مُرْسَلٍ عَلَى خَالِصِ الْعِرْفَانِ بِاللَّهِ قَدْ دَلاً
اور تم تمام رسولوں سے افضل نبی مختار حضرت محمد ﷺ پر درود و سلام پڑھو، کیونکہ انہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے خالص عرفان کی طرف رہنمائی فرمائی
پس یہ اللہ تعالیٰ کے وہ الطاف و اکرام ہیں جو ہم تک برابر پہنچتے رہتے ہیں اور یہ اس کےاحسانات ہیں جو ہمارے اوپر جاری رہتے ہیں۔ لہذا اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ بہترین افعال و اقوال کے ساتھ ہم کو ان کا شکر ادا کرنے کی توفیق فرمائے تو یہ اس کا فضل و کرم ہے۔ اور اگر وہ ہماری بد افعالی کی وجہ سے ہم کو ان شکر ادا کرنے سے پھیر دے تو یہ اس کا قہراور انصاف ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں