رسالہ ابدالیہ ازحضرت مولانا یعقوب چرخی

رسالہ ابدالیہ ازحضرت مولانا یعقوب چرخی

بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد لله الذي زين السماء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلَهَا رُجُومًا للشياطين، وزينَ الأَرْضَ بِالرُّسل والأنبياءِ وَالأَوْلِيَاءِ وَالْعُلَمَاءِ وَجَعَلَهُمْ حُجَجًا وبراهين، يَرْفَعُ بِهِمُ الظُّلُمَاتِ وَالشُّكُرُكَ مِنَ الْعَلَمِينَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سيد الْمُرْسَلِينَ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَاصْحَابِهِ وَالتَّابِعِينَ أَجْمَعِينَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ ورحمة الله تَعَالَى عَلَى اسْتَاذِنَا وَمَشَائِخِنَا وَأَسْلَائِنَا وَأَوْلَادِنَا وَأَصْحَابِنَا وَجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ
أما بعد، بنده ضعیف، امید وار رحمت رحمن یعقوب بن عثمان بن محمود بن محمد بن محمود الغزنوی ثم الچرخى ثم السررزى غَفَرَ اللهُ تَعَالَى لَهُ وَ لَهُمْ وَلَجَمِيعُ الْمُؤْمِنِينَ الله تعالى اسے دوسروں اور سب مومنوں کو معاف فرمائے ، کہتا ہے کہ رسولوں اور نبیوں کے بعد لوگوں کے راہنما اولیاء اللہ ہیں۔ جو رب العالمین اور سید المرسلین علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بعض ( لوگوں ) کو حکمت الوہیت سے بعض کو وعظ ونصیحت اور بعض کو قطعی دلائل کے ذریعے راہ حق کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ والموعظة الحسنة وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۔ وہی (یعنی اولیاء اللہ ) ہیں ، جو انس و جن اور روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں اور کافروں پر شفقت کرتے ہیں۔ نظم

برہمہ کفار مارا رحمتست گرچه جان جملہ کا فر زحمتت
زان بیاورد اولیاء را بر زمین تا کند شان رحمة للعالمین
رحمت جزوی بود مر عام را رحمت کلی بود همام را

ترجمہ: سب کافروں پر ہم رحمت ہیں، اگر چہ عام کافروں کا وجود ( سب ) زحمت ہے۔ ( اللہ ) اس لئے اولیاء کو زمین پر لایا، تا کہ حضرت ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنائے۔
عام (لوگوں) کے لئے رحمت جزوی ہے اور خاص ( بزرگوں ) کے لئے رحمت کلی ہے۔
بالا طلاق نصوص یہ اولیاء اللہ ہی تھے۔ اب بھی ہیں اور آئندہ بھی ہونگے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يحزنون ۔ نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: ” الا ان اوليَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمُ يحزنون الله تعالى فرماتے ہیں: ” وعباد الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا – لہذا اس فقیر نے چاہا کہ اپنی استعداد کے مطابق اس رسالہ میں اولیاء اللہ کی صفات بیان کرے۔ اس امید پر کہ حق سبحانہ وتعالی اسے بھی ان میں سے بنائے ۔ چونکہ اس نے ان کی محبت عطا فر مارکھی ہے۔ بیت:

گرنیم مردان ره را هیچ کس وصف ایشان کرده ام اینم نه بس
گرنیم از ایشان از ایشان گفته ام خوش دلم کین قصه از جان گفته ام

ترجمہ اگر میں راہ (حق) کے مردوں میں سے نہیں ہوں ( تو بھی ) میں نے ان کے اوصاف بیان کرنے نہیں چھوڑے۔ اگر میں ان میں سے نہیں ہوں (تو بھی) ان کی باتیں کی ہیں۔ میرا دل خوش ہے کہ میں نے جان ( محبوب ) کا یہ قصہ بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “من أحبَّ قَوْمًا فَهُوَ مِنْهُمْ ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” الْمَرْء مع من أحب ۔ اللهم اجعلنا من أوليا نك توفى مُسْلِمًا وَ الْحَقْنِي بِالصَّالِحِينَ برحمتک یا ارحم الراحمين

فصل

جاننا چاہیے کہ شیخ عالم عارف مجاہد ، قد وہ اہل طریقت کا شف اسرار الحقیقت ابوالحسن علی بن عثمان الغزنوی جو شیخ ابوسعید ابی الخیر قدس سرہ کے برادر طریقت تھے اور اپنی کرامات و مقامات کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ کتاب کشف المجوب لا رباب القلوب میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالی جل جلالہ کے کچھ ایسے دوست ہیں، جو ملک کے والی ہیں ۔ ان کی طاقت اللہ کے سوا کچھ نہیں اور ان کی محبت بھی صرف خدا تعالیٰ سے ہے ۔ خدا کے یہ دوست ہم سے پہلے گزرے ہیں ۔ اب بھی ہیں اور قیامت تک ہوں گے۔ معتزلیوں اور حشویوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے تو ہو گزرے ہیں لیکن اب نہیں ہیں ۔ لیکن یہ عقیدہ درست نہیں، کیونکہ برہان نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان اولیا کے ساتھ ہے۔ یہ اس لئے بھی کہ ولی کی کرامت نبی کا معجزہ ہے اور اس پر نہ صرف نقلی و عقلی دلیل ، بلکہ عینی شہادت بھی پائی جاتی ہے۔

فصل

یہ فقیر کہتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف زمان و مکان میں علماء کے پاس اس چیز کے متعلق ایسے عقلی ونقلی دلائل رہے ہیں جنہیں دشمن بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں لیکن وہ عینی دلیل جو کی معین شخص کے معائینہ اور مشاہدہ کے بعد صادر ہوئی ہو اور شرعی لحاظ سے بھی قوی ہو، اس کے مظہر اولیاء اللہ ہیں، جن سے کرامات اور خوراق عادات کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ صفات حق کے مظاہر ۔ ہوتے ہیں، جیسا کہ عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ مثنوی میں فرماتے ہیں:

گفت بہلول آں یکے درویش را چونی اے درویش واقف کن مرا
گفت چون باشد کسی که جاودان بر مراد او رود کارجهان
سیل و جوها بر مراد اورود اختران زان سانکه خواهد آن شود
زندگی و مرگ سر هنگان او بر مراد او روانه کوبکو
هر کجا خواهد فرستد تهنیت هر کجا خواهد فرستد تعزیت
سالکان راه هم برگام او ماندگان از راه هم بردام او
گفت ای شه راست گفتی همچنین ٍ در فروسیمای تو پیداست این

ترجمہ: (حضرت ) بہلول نے اس درویش سے کہا، اے درویش ! تو کیسا ہے مجھے بتا دے۔
اس نے کہا ، وہ شخص کیسا ہو گا کہ ہمیشہ جس کے ارادے کے مطابق دنیا کے کام چلتے ہیں۔ سیلاب اور نہریں اس کے مطابق جاری ہوں ، ستارے جس طرح وہ چاہے ہو جا ئیں۔ زندگی اور موت اس کے سپاہی ہوں ، جو اس کے ارادہ کے مطابق کوچہ بہ کوچہ روانہ ہوں۔وہ جہاں چاہے مبارک بادی بخش دے، وہ جہاں چاہے تعزیت کو روانہ کر دے۔
راہ کے سالک بھی اس کے نقش قدم پر ہوں ، راہ سے عاجز بھی اس کے جال میں ہوں۔ ( حضرت بہلول نے ) کہا ، اے شاہ ! تم نے سچ کہا ، ایسا ہی ، آپ کے چہرہ اور شان سے یہ ظاہر ہے۔ جیسا کہ انہی بزرگ ( شیخ ابو حسن علی غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ) سے منقول ہے کہ سلطان محمود غازی ( غزنوی ) رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں ہندوستان کی فتح کا سبب وہی تھے ۔ ہندوستان سے ایک دانشمند، سلاطین ہند کا پیغام لے کر غزنی میں آیا اور کہنے لگا کہ اہل ہند کا دین برحق ہے۔ کوئی ایسا آدمی ہے جس سے اس کے متعلق مباحثہ و مکالمہ کیا جائے ، تا کہ اسلام پر ہمارے دین کی حقیقت واضح ہو جائے اور پھر عقلی ونقلی دلائل کی غیر موجودگی میں حق کو قبول کر لیا جائے ۔ سلطان محمود ( غزنوی ) اور اس کے تمام درباری علما ، ، امراء اور شرفا ، حاضر ہوئے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی اس مسئلہ پر ہندوستانی دانشمند سے بحث کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ شیخ ابوالحسن غزنوی رحمۃ اللہ علیہ الہام ربانی سے اس مجلس میں حاضر ہوئے اور اس محفل میں ہندوستانی دانشمند کے ساتھ کچھ مدت خاموش بیٹھے رہے ۔ پھر اس دانشمند نے شیخ سے پوچھا:” میری سیر کہاں تک تھی؟ شیخ نے فرمایا: ” سراندیپ تک ! اس نے کہا: ” کوئی نشانی لائیں ۔ شیخ نے فرمایا: سراندیپ کے ایک گاؤں میں کچھ لوگ سبز مرچیں چُن رہے تھے اور ان کے نزدیک ہاتھی تھے۔“
دانشمند نے کہا ” آپ سچ کہتے ہیں ۔ “ شیخ نے فرمایا ” مجھے اور تجھے تو سچائی معلوم ہوگئی۔ اب سلطان اور دیگرا کا بر پر بھی حقیقت روشن ہو جانی چاہیے۔ لیکن دانشمند ایسا نہ کر سکا ۔ شیخ نے خرقہ سے ہاتھ نکالا تو کچھ سبز مرچیں ان کے ہاتھ میں تھیں ۔ انہوں نے دانشمند سے کہا:”” کھائیے کہ میں یہ سراندیپ کے لوگوں سے مانگ کر لایا ہوں ۔ دانش مند حیران رہ گیا اور بولا: ” مجھے اس قسم کے تصرف کی مجال نہیں ۔ پھر شیخ نے فرمایا کہ تم نے عالم سفلی میں سیر کی تو میں تمہارے ساتھ رہا۔ آؤ عالم علوی کی سیر کریں۔ دانشمند نے کہا مجھے اس کی تاب نہیں ! یہ تو اسلام ہی سے میسر آتی ہے۔ وہ دانش مند مسلمان ہو گیا اور ہندوستان لوٹ گیا، جس سے وہاں اسلام کو بڑی کامیابیاں ملیں ۔ اس قسم کے واقعات کا مشائخ کبار، بالخصوص ہمارے شیخ قطب الواصلین حضرت خواجہ بہا الحق والدین البخاری نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خلیفہ حضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے بکثرت ظہور ہوا ہے ۔ جسے ہم نے اور ان کے زمانے کے لوگوں نے دیکھا ہے۔ مثلاً خواجہ نقشبند کا حال جاننے کے لئے علمائے بخارا کا اجتماع ۔ مولانا حمید الدین شاشی جو عظیم عالم تھے ان پر خواجہ نقشبند کا توجہ کرنا۔ ان کے زانو پر ہاتھ رکھنا اور انہیں مشاہدہ افلاک کرانا، جسے علماء کا کسی محبت کے بغیر تسلیم کر لینا۔ خوارزم میں معتزلی کا ایک سنی سے مناظرہ کرنا اور اس معتزلی کا حضرت خواجہ علاءالدین والدین ( نقشبند ) کی مجلس میں کسی قیل وقال کے بغیرسُنی ہو جانا۔

فصل

جاننا چاہئے کہ شیخ ابوالحسن غزنوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ جو عالم کے والی ہیں ، آسمان سے بارش ان کے وجود کی برکت سے برستی ہے اور زمین پر نباتات انہی کے احوال کی پاکیزگی سے اگتی ہے، ان میں چار ہزار پوشیدہ ہیں ۔ ( ان کے احوال مخفی ہیں) اور وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے ، بلکہ خود کو بھی نہیں پہچانتے ۔ اس امر پر روایات موجود ہیں اور ملفوظات اولیاء اللہ گواہ ہیں اور یہ بات ظاہر ہے لیکن جو اہل حل و عقد میں سے ہیں اور دنیا کی تدبیران کے سپرد ہے، ان کی تعداد تین سو ہے جن کو اختیار کہتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے چالیس ہیں جن کو ابدال کہتے ہیں اور سات کو ابرار اور پانچ کو اوتاد اور تین کو نقبا کہتے ہیں ۔ ( یہ سب ) خدا کے خاص بندے ہیں۔ ایک اور ہیں جن کو قطب کہتے ہیں اور ان کو غوث بھی کہا جاتا ہے۔ ان سب کو ایک دوسرے کی خبر ہوتی ہے اور انہیں اپنے امور میں ایک دوسرے کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پر روایات گواہ ہیں اور اولیاء اللہ بھی متفق ہیں ۔

فصل

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ” إِنَّ لِلَّهِ ثلثمائَةِ نَفْسٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ صَلَوَاتِ الرَّحْمَنِ علَيْهِ وَلَهُ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ لَهُ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قلب ابراهيم عَلَيْهِ السَّلام وَ لَهُ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِئِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وله ثلاثةَ قُلُوبُهُمْ على قلب ميكائيل عَلَيْهِ السَّلَامُ وَلَهُ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ اسرافيل عليه السلام یعنی خدا تعالی کے تین سوایسے برگزیدہ بندے ہیں، جن کے دل حضرت آدم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں۔ چالیس کے دل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں اور سات دوسرے ہیں جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح اور پانچ دوسرے ہیں جن کے دل حضرت جبرئیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں اور تین اور ہیں جن کے دل حضرت میکائیل علیہ السلام کے دل کی مانند ہیں اور ایک دوسرے ہیں جن کا دل حضرت اسرافیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہے ۔ جب وہ ایک انتقال کر جائے تو اس کا بدل تین میں سے بچتا جاتا ہے اور اگر تین میں سے ایک فوت ہو جائے تو اس کی جگہ پانچ میں سے کسی ایک کو لیا جاتا ہے اور اگر پانچ میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اس کی جگہ سات میں سے پُر کی جاتی ہے اور اگر سات میں سے ایک وفات پا جائے تو اس کا بدل چالیس میں سے لیا جاتا ہے اور اگر چالیس میں سے ایک کا انتقال ہو جائے تو اس کا بدل تین سو میں سے لیا جاتا ہے اور اگر تین سو میں سے ایک فوت ہو جائے تو اس کا بدل عام لوگوں میں سے لیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ ان کی برکت سے اس امت کو آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔
مجھے ان کے وجود کا عین الیقین ہے اور میں نے ان کی طی ارض، بغیر پل اور کشتی کے دریا کو عبور کر لینے اور لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو جانے جیسی کرامات ملاحظہ کی ہیں۔ ان کی تمام روش صوفیہ کے صاف دل کی مانند ہے اور وہ اس امت کے کسی ایک فرد سے صحبت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں وہ حاضر خدمت ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت رکھتے تھے، نماز جمعہ باجماعت ادا کرتے اور علم شریعت سیکھتے تھے اور انہیں رسول اللہ ﷺ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا شخص نہیں جانتا تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے راز دان تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف ان کو منافقوں کے حالات بتایا کرتے تھے۔ ان (صوفیہ ) کے سات مرتبے ہیں، جن میں سے ساتواں مرتبہ قطب کا ہے اور اسے قطب الا بدال ” کہتے ہیں اور ان (صوفیہ ) کو عزلتی ( گوشہ نشین ) کہتے ہیں۔ والله تعالى اعلم

فصل

اکابر طریقت میں سے شیخ المشائخ حضرت علاء الدولہ (سمنانی ) قدس سره نے فرمایا ہے کہ میں نے عالم غیب میں پاک لوگوں کی ایک جماعت دیکھی اور انہیں سلام کیا، جس کا انہوں نے احسن جواب دیا۔ میں نے ان سے پوچھا: ” آپ کی نسبت کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم صوفیہ ہیں اور ہمارے سات درجے ہیں۔ طالبین، مُریدین، سالکین،سائرین، طاہرین، واصلین اور ان میں ساتواں درجہ قطب کا ہے۔ ایک وقت میں وہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس کا دل حضرت محمد رسول ﷺ کے دل کی طرح ہے اور اسے قطب الارشاد“ کہتے ہیں ۔ ”قطب الابدال کا دل حضرت اسرافیل علیہ السّلام کے دل کی طرح ہے۔ ان صوفیہ کو عشرتی “ ( خوش باش ) کہا جاتا ہے اور ان کے بیوی بچے ہوتے ہیں۔ وہ صاحب جائیداد ہوتے ہیں اور دشمن اور دوست بھی رکھتے ہیں۔ وہ انبیاء کے خلفاء ہوتے ہیں اور دعوت حق کا کام ان کے سپرد ہوتا ہے۔ انہیں اللہ جانتا ہے یا وہ آدمی جسے خدا کے نور کی تائید حاصل ہو اور وہ طبقہ مریدین میں سے ہوتا ہے جو قطب الارشاد” یا اس کے خلفاء کو جانتا ہو وہ بھی طبقہ مریدین میں سے ہوتا ہے۔

فصل

یہ فقیر کہتا ہے کہ اس قول کی تشریح کہ ایک وقت میں ایک قطب ہوتا ہے، یوں ہے جیسے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں

نظم از برائے صوفیان پاک بزم آراستہ و انگهان آن صوفیان را الصلا آموخته
از میان صوفیان آن صوفی محبوب را سر محبوبی مطلق در خلا آموخته
پس امام حی قایم آن ولی است خواه از نسل عمر خواه از علی است
مهدی و هادی وی است ای نیک خوی هم نهان و هم نشسته روبروی
خاک شد جان و نشانیهای او هست بر خاکش نشان پای او
خاکپایش شو برای این نشان تاشوی تاج سرگردن کشان
جمله عالم زین سبب گمراه شد کم کسی را ابدال حق آگاه شد
ای بساکس را که صورت راه زد قصد صورت کرد و بر الله زد
تا که نفریبد شما را شکل او نقل او شاید به پیش از نقل او

ترجمہ: پاکیزہ صوفیوں کے لئے مجلس آراستہ کی، بعد ازاں ان صوفیہ کو ” الصلا“ کی رمز سکھائی۔
صوفیہ میں سے اس محبوب صوفی کو خلوت میں محبوبی مطلق کا راز سکھایا۔
پس حی قائم امام وہ ولی ہے، خواہ وہ حضرت عمرؓ کی اولاد سے ہو ( اور ) خواہ حضرت علیؓ کی اولاد ہے۔
اے نیک خوا وہ مہدی اور ہادی ہے، وہ پوشیدہ بھی ہے اور سامنے بیٹھا ہوا ہوا ( ( حاضر حاضر باش ) بھی ہے۔
ہماری جان خاک ہوگئی اور اس کی نشانیاں اس ( جان ) کی خاک پر اس کے پاؤں کے نشان ہو گئے ۔
اس نشان کے لئے اس کے پاؤں کی خاک بن جا، تا کہ تو عالی شان لوگوں کے سر کا تاج بن جائے
سارا جہاں اس وجہ سے گمراہ ہو گیا ، بہت کم کوئی ابدال حق سے آگاہ ہوا ۔ اے ( مخاطب ) بہت سے لوگوں کو صورت نے گمراہ کیا، اس نے صورت کو ستانے کا ارادہ کیا ( اور ) اللہ پر حملہ کیا۔
ہرگز اس کی (ظاہری ) شکل تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے، اس کی نقل چاہیے اس کی موت سے پہلے۔
پہلے گروہ کو عزلتی ( گوشہ نشین ) اور دوسرے گروہ کو عشرتی “ ( خوش باش ) کہتے ہیں اور قطب الارشاد عشرتوں میں سے ہوتا ہے اور اس کا درجہ قطب الا بدال سے بلند تر ہے۔ صاحب وقوف قرآن شمس العارفین غزنوی سجاوندی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عین المعانی میں فرماتے ہیں کہ ” عزلتی ایک وجہ سے عشرتیوں سے افضل ہیں اور عشرتی “ دوسری وجہ سے یعنی ان دونوں کے درمیان جو عمومیت اور خصوصیت ہے، اس کی ایک وجہ ہے۔ عزلتی بادشاہ کے ندیموں کے درجہ پر ہیں اور عشرتی وزیروں کے مرتبہ پر ہیں۔ ان کا ظاہر لوگوں کے ساتھ ہے اور باطن خدا کے ساتھ ۔ اگر “عزلتیوں میں سے کوئی آدمی گناہ کرے تو اس کی معافی ” قطب عشرتی مانگ سکتا ہے، اور وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ مرشدین کی راہنمائی ” عزلتیوں کے سپرد ہوتی ہے اور وہ طبقہ طالبین کی دلیل ہیں۔ جہاں کہیں بھی کوئی سچا طالب ہو اس کی ہدایت کا کام ان کے سپرد ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے. لأن يَهْدِى اللَّهُ بِيَدِكَ وَاحِدًا خَيْرٌ مِّمَّا طَلَعتُ عَلَيْهِ الشَّمْسِ ۔( اگر اللہ تمہارے ہاتھ سے کسی کو ہدایت کرے تو یہ ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج چمکتا ہے۔) جو یہ کہا گیا ہے کہ ہر آدمی انہیں نہیں پہچانتا الی آخرہ۔ وہ یوں ہی ہے جیسے نبی ﷺ نے فرمایا: “خَبَرَ عَنِ اللهِ تَعَالَى أَوْلِيَانِي تَحْتَ قُبَابِي لَا يَعْرِفُهُمُ غَيْرِي أَي لَا يَعْرِفُهُمْ أَحَدَ إِلَّا بِتَائِيدِ إِلهِي ۔( اللہ نے خبر دی ہے کہ میری قبا کے نیچے میرےایسے دوست ہیں، جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا، یعنی انہیں کوئی نہیں جانتا مگر تائید الہی سے۔)
یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ مریدوں میں سے ہو، یعنی طالب حق ہو، تو یہ سعادت ہر کسی کو نہیں دیتے، نظم

جو ینده از آن نہ کہ جویائے تو نیستٍ ور جو یانی دان که تر اجویان است
منشور غمش بهر دل و جان ندهند ملک طلبش بہر سلیمان ندهند

ترجمہ: وہ اس لئے جو یندہ نہیں کہ تیراامتلاشی نہیں، تو جویندہ اسے سمجھ جو تیرا متلاشی ہو۔ اس کے غم کا پروانہ ہر دل و جان کو نصیب نہیں ہوتا ، اس کی سلطنت کی طلب ہر سلیمان کو عطا نہیں ہوتی۔
بعض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر وحی آئی ہے کہ ہم جسے دنیا اور آخرت ( کی بھلائی ) دیتے ہیں، اس پر احسان نہیں کرتے ، کیونکہ میں جسے دروازے کی چابی دیتا ہوں، اسے ہم اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔
یہ فقیر کہتا ہے کہ الحمد اللہ کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ” قطب الارشاد کو پہچاننے کی توفیق بخشی اور ہم نے ان کی نظر مبارک کو پایا۔ وہ ” قطب الارشاد حضرت مخدومی خواجہ بہاء الحق والدین البخاری المعروف نقشبند رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ بیس سال سے خدا تعالیٰ نے بغیر سبب کے مجھے یہ مرتبہ عطا فر مارکھا ہے۔ (اس کی اس عطا کے ) چار سو طالب تھے، لیکن محض فضل باری تعالی سے یہ عنائت مجھ پر ہوئی۔ خواجہ نقشبند کے بعد ان کے خلیفہ علاء الدین عطار رحمہ اللہ علیه قطب الوقت تھے۔ اس دعوی کی دلیل یہ ہے کہ قطب کی جو علامات ہوتی ہیں وہ ان میں موجود تھیں ۔ ” عزلتی انکے پاس آیا کرتے تھے، جس کی ہمارے احباب رحمۃ اللہ علیہم کو اطلاع تھی ، وہ عزلتی ان سے ہدایت حاصل کرتے تھے۔ جب ” عزلتی سے خطا ہو جائے تو قطب عزلتی اس کے لئے معذرت طلب نہیں کر سکتا ، ہاں اگر قطب عشرتی “ چاہے تو یہ خطا سبب معاف ہو جاتی ہے۔
اس فقیر کو تر دو تھا کہ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ قطب ہیں یا نہیں اور ہمارے خواجہ کا مرتبہ ان کو پہنچا ہے یا نہیں؟ ایک روز صبح کی نماز ادا کی گئی۔ نماز میں تلک الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ “ کی قرأت کرنے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم مسجد سے جماعت خانہ میں واپس آئے تو حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اس فقیر سے پوچھا کہ یہ فضیلت جو بعض انبیاء کو بعض انبیاء پر ہوتی ہے کیا طبقہ اولیا اللہ میں بھی پائی جاتی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا کہ “اگر کوئی اس درگاہ کا کتا ہو تو مبارک ہوگا اور تم جو گمان کرتے ہو وہ درست ہے۔
الْحَمْدُ للهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِيَهْتَدِي لَوْلَا أَنْ هَدْنَا اللَّهُ

فصل

بزرگوں میں سے ایک نے فرمایا ہے کہ آسمان کے دو قطب ہیں ۔ ”قطب جنوبی و قطب شمالی ۔ زمین کے بھی دو قطب ہیں ۔ “قطب الابدال اور قطب الارشاد عزلتی اولیاء اللہ ہمیشہ رہے ہیں۔ اب بھی ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے، بلکہ بعثت مصطفوی ﷺ سے پہلے بھی تھے لیکن ان کی قبر زمین کے برابر ہموار ہے اور ان کے نشان ناپید ہیں۔حضرت مصطفی ﷺ کے زمانے میں حضرت اعتصام قرنی رحمۃ اللہ علیہ قطب الا بدال‘ اور مظہر رحمان تھے جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چچا تھے۔ ان کے متعلق حضرت مصطفیٰ ﷺ نے نے فرمایا: اني لاجد نفْسِي الرَّحْمَنِ مِنْ قِبَلِ الْيَمُنِ وہ ابدال ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں، بیت الخلا میں جاتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں اور معالجہ کرتے ہیں، نیز بیمار ہونے کے بعد حضرت مصطفیٰ ﷺ کی سنتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر گھر پرنہیں رہتے، بشرطیکہ وہ بیمارنہ پڑ جائیں۔ وہ حمام میں بھی جاتے ہیں۔ غسل کی اُجرت دیتے ہیں لیکن ان کا قطب اپنے مقام پر موجود ہے۔ اس کی عمر لمبی ہوتی ہے۔ خواجہ خضر علیہ السلام اور خواجہ الیاس علیہ السّلام اس “قطب” کے مصاحب ہیں، جو مختلف اوقات میں کثرت سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور نماز میں اس کی اقتداء کرتے ہیں ۔
فصل
اکابر میں سے ایک فرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑی جہالت ہے کہ کوئی خواجہ خضر علیہ السلام اور خواجہ الیاس علیہ السلام کے وجود کا انکار کرے۔ اس لئے کہ وہ عشرتی اولیاء کے ساتھ ہوتے ہیں اور بیشتر مشائخ و علماء نے انہیں دیکھا ہے۔ یہ فقیر کہتا ہے کہ میں ابتدائے حال میں چرخ میں اپنے گھر میں ہوتا تھا اور مجھے کسب علم کے لئے سفر کا ذوق ہوا، لیکن میرے پاس اس کے لئے وسائل نہ تھے۔ میں نے توجہ سے خواجہ خضر علیہ السلام کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے مجھے فرمایا کہ تحصیل علم کے لئے جاؤ اور جہاں کہیں اور جس وقت بھی کوئی مشکل پیش آئے ہمیں یاد کرنا، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور مجھے تجربہ سے یقین ہو گیا کہ وہ خواب رحمانی تھا۔
خواجه خضر علیہ السلام اور خواجہ الیاس علیہ السّلام کے دس دس گہرے اور معمر دوست ہیں، جنہوں نے بڑی طویل عمریں پائی ہیں ۔ وہ سب خواجہ خضر علیہ السلام کی خدمت کرتے ہیں۔ بالخصوص جب وہ بیمار ہوتے ہیں۔ خواجہ الیاس (علیہ السلام) خواجہ خضر (علیہ السّلام) کے چچا ہیں ۔ خواجہ خضر ( علیہ السلام) کا قد لمبا، جسم بھاری اور سر باریک ہے۔ ان کا شجرہ نسب تین واسطوں سے حضرت نوح علیہ السلام سے جاملتا ہے اور وہ اس طرح ہے: ملکان بن بلیان بن سمعان بن سام بن نوح علیہ السلام ۔ خواجہ خضر ( علیه السلام) کثیر المراقبہ، با وقار و تمکین، صاحب علوم کثیرہ اور شریعت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شریعت مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ( دنیا کے تمام خزانے ان پر ظاہر ہیں اور وہ مخلوق خدا کو بڑا نان و نفقہ دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے غزوہ تبوک، جو ایک مقام کا نام ہے میں نماز عصر کے بعد دو شعر سنے اور صحابہ نے کسی آدمی کو نہ دیکھا۔ حضرت مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے بھائی خضر ہیں جو تمہاری مدح کر رہے ہیں اور وہ دو شعر یہ ہیں:

فَوَارِسُ هَيْجَاءِ ادامِ الْيَوْمَ الْيَوْمِ رهابينَ ظُلُمَا إِذَا اللَّيْلِ اللَّيْل
رِجَالُ مَحَارِيبُ حَرْبٍ مَكْسَبِهُم لَدَى رَبُّهُمْ أَنْفَالَهُمُ الثَّقْلَ
آج جنگجو سپاہی برافروختہ تھے۔ دشمن کی فوج اپنے ظلم کے ہاتھوں اس اونٹ کی طرح گرپڑی ، جو اٹھ نہ سکے وہ جنگجو سور مے جن کا پیشہ ہی جنگ ہے خدا ان کے ساتھ ہے اور انہیں اجر عظیم ملے گا۔
بزرگوں میں سے ایک فرماتے ہیں کہ میں نے یہ دونوں شعر ایک کتاب کی پشت پر لکھ دیئے ۔ ایک روز حضرت خواجہ خضر ( علیہ السلام) کی نظر ان پر پڑی تو فرمایا: ”لوگوں کے درمیان کیسے بات باقی رہ جاتی ہے؟ اور مسکرا پڑے۔ خواجہ خضر ( علیہ السلام ) عبد یہ عندیہ اور لدنیہ جیسی چند فضیلتوں سے مشرف ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق: فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عباد مَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً “ ( سو وہاں پہنچ کر ) انہوں نےہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا ، جن کو ہم نے اپنی خاص رحمت ( یعنی مقبولیت ) دی تھی اور ہم نے ان کو اپنے پاس سے ایک خاص طور کا علم سکھایا تھا۔)۔ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس بندے سے مراد میرے بھائی خضر ہیں۔ وہ اکثر بیمار رہتے ہیں۔۔ اپنا علاج خود کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہر پانچ سوسال کے بعد ان کے نئے دانت مبارک نکلتے تھے اور خاتم انبیاء ﷺ کے بعد ہر ایک سو میں سال کے بعد نئے دانت نکلتے ہیں۔ خواجہ خضر ( علیہ السلام) نے کئی شادیاں کی ہیں اور ان کی کثیر اولاد ہے، لیکن اب ازدواج کرنا ترک کر دیا ہے اور کوئی اولاد نہیں۔ خواجہ خضر علیہ السّلام کو ان کے بیوی بچے نہیں پہچانتے۔ خواجه خضر علیہ السلام بازار میں آتے ہیں اور چیزیں خریدتے، بیچتے اور سودا کراتے ہیں۔ وہ منی اور عرفات میں بھی آتے ہیں اور اچھی آواز کو پسند فرماتے ہیں ۔ کلام اللہ کو سنتے ہیں اور سماع سننے جاتے ہیں۔ ان پر وجد غالب ہوتا ہے اور وہ ایک رات یا اس سے زیادہ اس حالت میں رہتے ہیں۔ نیک لوگوں کی زیارت اور نماز جمعہ پڑھنے کے لئے جاتے ہیں اور اولیاء اللہ کے ساتھ بیٹھتے ہیں ۔ ہر سال دو مرتبہ، ایک مرتبہ حج کے موقع پر عرفات میں اور دوسری بار رجب کے مہینے میں جہاں بھی فرمائیں حاضر ہو جاتے ہیں۔ بخارا کے مشائخ سے منقول ہے کہ ماہ ر جب کے پہلے جمعہ کو حضرت خواجہ خضر ( علیہ السلام ) بخارا میں ہوتے ہیں۔اسی لئے بخارا کے مشائخ رجب کے پہلے جمعہ کے روز بخارا اور سمرقند میں عید مناتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں۔ اس امید پر کہ حضرت خواجہ خضر ( علیہ السلام) کو پائیں ۔ زمانہ وحی سے پہلے وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے صحبت رکھتے تھے، مگر رسول اللہ ﷺ ان کو نہیں پہچانتے تھے۔ اس زمانے میں خواجہ خضر علیہ السّلام نے رسول اللہ ﷺ سے کثیر تعداد میں احادیث نقل کی ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ( یعنی خضر علیہ السلام ) رسول ﷺ کے پاس انصار کے گھروں میں سے کسی گھر میں تھے کہ اس وقت بہت سے صحابہ افسردہ تھے اور دشمنوں سے ڈر رہے تھے۔ رسول ﷺ نے فرمایا: ما من مُؤْمِنٍ يَقُولَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ إِلَّا نَصَّرَ اللَّهُ قَلْبُهُ وَنَوَّرَهُ ۔(نہیں کوئی مؤمن جو کہے صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ اس کی دل کی مددفرماتا ہے اور اسے روشن کر دیتا ہے۔) خواجہ خضر ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں اور خواجہ الیاس شموئیل علیہ السلام کے پاس تھے کہ دشمنوں نے ان پر غلبہ ڈال لیا۔ شموئیل علیہ السلام نے اپنے دوستوں سے کہا کہ صَلَّى اللهُ تَعَالٰی عَلَی مُحمَّد “ کہہ کر دشمنوں پر ہلا بول دو۔ انہوں نے ایک حملہ کیا اور کہا ” صَلَّی اللہ تعالٰی علی مُحَمَّدٍ “ ۔ (پس) ان کے دشمنوں نے شکست کھائی اور دریا میں غرق ہو گئے ۔ خواجہ خضر علیہ السلام اس دعا کو کثرت سے پڑھتے ہیں: “يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ يَا لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتِ اسْئَالُكَ أَنْ تُحْيِي قُلُوبَنَا بِنُورِ مَعْرِفَتِكَ أَبَدًا (اے زندہ، اے ( کارخانہ عالم کو ) قائم رکھنے والے ( اور ) اے ( وہ ذات پاک ) کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو اپنے نور معرفت سے ہمارے دلوں کو ہمیشہ زندہ رکھ۔)واضح ہو کہ خواجہ خضر علیہ السلام، خواجہ الیاس علیہ السلام اور سب اولیاء اللہ غائب و حاضر اہل سنت و جماعت کے مذہب پر ہیں اور کتاب وسنت کے متبع ہیں۔ اللهم ثبت على ذالك (اے اللہ ! تو ہمیں اس کے ساتھ استقامت عطا فرما)۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف مذکور کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہماری اس ادنی کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں ،اور سب مسلمانوں کے لئے اس کو دنیاو آخرت کی صلاح وفلاح کا ذریعہ بنائیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں