رسالہ اُنسیہ از حضرت مولانا یعقوب چرخی

رسالہ اُنسیہ از حضرت مولانا یعقوب چرخی

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
حمد اور ثنا زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کی ، جس نے بنی نوع انسان کو گونا گوں کمالات کا مظہر بنایا۔ رسولوں ، نبیوں اور ولیوں کو تکمیل کا وسیلہ بنایا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺکواس سلسلے میں مزید ارشاد کے ساتھ ان سب پر فضیلت بخشی ، اس وجہ سے آپ ﷺکی اُمت کو بھی بہترین اُمت بنایا۔ آپ ﷺکی اُمت میں سے بعض کو ولایت خاصہ کے ساتھ محفوظ رکھا اور آپ ﷺکی ظاہری اور باطنی پیروی کی دلیل ( یہ ) بنائی کہ
قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
( آپ فرمادیں کہ اگر تم خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میر ا اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دیں گے اور اللہ تعالی بڑے معاف کرنے والے اور بڑی عنایت فرمانے والے ہیں۔ )اور جس شخص نے آپ (ﷺ) کی متابعت کی سعادت سے روگردانی کی ، وہ ابدی بدبختی کے ذریعے ہلاک ہو گیا ( جس طرح ارشاد باری تعالی ہے :
قل أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولُ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ ۔
آپ یہ بھی فرمادیں کہ تم اطاعت کیا کر واللہ کی اور اس کےرسول کی ۔ پھر ( اس پر بھی ) اگر وہ لوگ اعراض کریں سو ( سن رکھیں ) کہ اللہ تعالیٰ کا فروں سےمحبت نہیں کرتے ۔
پس جو کوئی ولایت خاصہ کی خلعت سے مشرف ہونا چاہے، اسے آپ (ﷺ) کی پیروی کے سوا کوئی
چارہ نہیں ہے۔
اس مطلب کی بنا پر فقیر حقیر یعقوب بن عثمان بن محمود بن محمود الغزنوی ثم الچرخی ( ثم السرزری ) لازال جده كجده محموداً (اللہ ان کا نصیب بھی ان کے دادا کی طرح محمود بنائے ) نے چاہا کہ سیرت مصطفویہ (ﷺ) اور طریق مستقیمہ سے جو تھوڑی سی خوشبو اسے حضرت مخدومی اسلام و مسلمانوں کے شیخ ، جہانوں میں مشائخ و اولیاء کے قطب خواجہ بہاء الحق والدین المعروف بہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچی ہے، اسے قید تحریر میں لائے ، تا کہ اس کے فوائد زمانے میں باقی رہیں اور احباب کی محبت کا ذریعہ نہیں ۔ ان کے سلسلہ اور احوال عجیبہ کا ذکر بزرگ بھائیوں شرفنا اللہ ، ایا هم نبیل الرضوان ( اللہ ہمیں اور انہیں اپنی خوشنودی کے حصول کی سعادت عطا فرمائے ) میں سے بعض نے پہلے بھی انتہائی بلند درجات میں کیا ہے اور یہاں ان کے سلسلہ کا ذکر مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے ، تاہم جو نسبت جذبہ سے ترتیب دیئے گئے تھے، وہ قلم کے ذریعے بیان نہیں کیے جاسکتے۔
جب عنایت بے علت اس فقیر کے لئے طلب کا سبب بنی اور فضل الہی کا راہنما ان ( حضرت خواجہ نقشبند) کی خدمت میں لے گیا تو میں بخارا میں ان کی خدمت کیا کرتا تھا اور لطف عام کی وجہ سے ان کی نظر عنایت پاتا تھا، یہاں تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے یقین ہو گیا کہ وہ خاص اولیاء اللہ میں سے ہیں اور کامل و مکمل ہیں۔ بہت سے غیبی اشاروں اور واقعات کے بعد میں نے کلام اللہ سے فال نکالی، یہ آیت سامنے آئی: اولئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبهُدَهُمُ اقْتَدِه
دن کے آخری حصے میں مَیں فتح آباد میں ، جو اس فقیر کا مسکن تھا، شیخ عالم سیف الحق والدین الباخرزی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا تھا کہ اچانک قبول الہی کا ایک قاصد آ پہنچا اور مجھ میں بیقراری پیدا ہوئی۔ میں نے ان کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ جب میں موضع قصر ہندوان ( قصر عارفان ) جوان کی منزل تھی، پہنچا تو ان کو سر راہ منتظر پایا۔ وہ میرے ساتھ بڑے لطف و احسان سے پیش آئے۔
مغرب کی نماز کے بعد میں ان کی صحبت میں تھا اور ان کی ہیبت مجھ پر غالب آچکی تھی اور مجھے بات کرنے کی مجال نہیں تھی ۔ انہوں نے فرمایا کہ حدیث میں آیا ہے ”
الْعِلْمُ عِلْمَانِ ، عِلم القلبِ فَذَالِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ للانبياء وَالْمُرْسَلِينَ وَعِلْمُ اللَّسَانِ فَذَالِكَ حُجَّةً الله على ابن آدم ۔
علم دو ہیں ایک قلب کا علم جو نفع بخش ہے اور یہ نبیوں اور رسولوں کا علم ہے دوسرا زبان کا علم ہے جو بنی آدم پر حجت ہے
امید ہے کہ علم باطن سے کچھ تجھے ملے گا۔ (پھر ) فرمایا کہ حدیث میں ہے ”
اذا جَالَستُمُ أَهْلَ الصِّدْقِ فَاجْلِسُوهُمْ بِالصَّدْقِ، فَإِنَّهُمْ جَوَاسِيسُ الْقُلُوبِ يدْخُلُونَ فِي قُلُوبِكُمْ وَيَنظُرُونَ إِلى هممكُمْ وَبَياتِكُم ۔
ترجمہ: جب تم اہل صدق کی صحبت میں بیٹھو تو ان کے پاس صدق سے بیٹھو، کیونکہ وہ دلوں کےبھید جانتے ہیں۔ وہ تمھارے دلوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور تمھارے ارادوں اور نیتوں کو دیکھ لیتے ہیں ۔
اور ہم مامور ہیں آج رات دیکھیں گے کہ اشارہ کس کا ہوتا ہے، اس پر عمل کریں گے ۔ جب صبح کی نماز ادا کر چکے تو
فرمایا مبارک ہو کہ اشارہ قبول کرنے کا ہوا ہے ، ہم کسی کو قبول نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو دیر سے قبول کرتے ہیں لیکن جس طرح کوئی آئے اور وقت جیسا ہو ۔” ( پھر انہوں نے ) اپنے مشائخ کا سلسلہ خواجہ عبد الخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ تک بیان فرمایا اور اس فقیر کو وقوف عددی میں مشغول کیا اور فرمایا کہ یہ علم لدنی کا پہلا سبق ہے جو خواجہ عبد الخالق غجد وانی کو پہنچا ہے اور وہ اس طرح کہ خواب کہ عبد الخالق کبرا میں سے مولانا صدر الدین کے پاس تفسیر پڑھ رہے تھے ۔ جب اس آیت پر پہنچے
اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً و خُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
پکار اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے ۔ بیشک وہ حدسے گزارنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
تو ان سے پوچھا کہ یہ خفیہ جس کا حق سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کو حکم فرمایا ہے، کونسا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر تجھے حق سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ارادت ہوئی تو معلوم ہو جائے گا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ایک خواجہ عبد الخالق کے پاس پہنچے اور ان کو اس سبق کی تلقین کی ۔ مشہور ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے وہ بزرگ آدمی خضر زادہ اللہ تعالی علما وحکمتہ ( اللہ تعالی ان کا علم و حکمت زیادہ فرمائے) تھے۔
اس کے بعد میں کچھ عرصہ ان کی خدمت میں تھا۔ پھر اس فقیر کو بخارا سے کوچ کرنے کی اجازت ملی۔ وقت رخصت انہوں نے فرمایا کہ ہم سے جو کچھ تجھے پہنچا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کے بندوں تک پہنچاؤ، تا کہ سعادت کا سبب بنے۔ نیز پھر انہوں نے تین بار فرمایا کہ ہم نے تجھے خدا کے سپرد کیا۔ ان کی اس سپردگی سے بڑی امید ہے، کیونکہ حدیث میں ہے ”
إِنَّ اللهَ تَعَالَى اِذَااسْتَوْدَعَ شَيْا حَفِظَهُ
بے شک جب کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے سپرد کی جائے تو و ئے تو وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔
میں بخارا سے چل کر کش کے شہر میں پہنچا اور کچھ عرصہ وہاں مقیم رہا۔ یہیں ان ( خواجہ نقشبند ) کی وفات کی خبر ملی۔ طبیعت غمگین اور دکھی ہوئی اور بڑا خوف غالب ہوا کہ نعوذ باللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوبارہ عالم مادی کی طرف میلان ہو جائے اور طلب کا ذریعہ نہ رہے ۔ حضرت خواجہ نقشبند کی روحانیت کو دیکھا کہ انہوں نے (حضرت) زید بن الحارث کا نام لیا اور یہ آیت پڑھی
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُم۔
(حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف رسول ہی ہیں اس سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے۔
چونکہ میں ان کی صحبت سے محروم ہو چکا تھا لہذا خیال آیا کہ ایک دوسرے گروہ میں ، جو ان کے درویشوں میں سے نہ تھے، شامل ہو جاؤں اور ان کے طریقے کو اپنا ؤں۔
دوباره خواجہ نقشبند کی روحانیت کو دیکھا کہ فرماتے ہیں ”
قال زيد بن الحارثة الدين واحد ۔
میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں اور انہوں نے صحابہ میں سے حضرت زیدبن حارثہ کو اس لیے مخصوص کیا، کیونکہ وہ حضرت رسول ﷺکے متبنّٰی تھے۔
یعنی رسول اللہ ﷺکے منہ بولے بیٹے تھے، اور ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحھم طالبوں کو فرزندی میں قبول کرتے ہیں۔ جس ان کے اصحاب ان کے متبنّٰی ہیں ۔ واللہ اعلم
میں نے دوباره خواجہ نقشبند کو خواب میں دیکھا ان سے پوچھا کہ میں کل قیامت کے روز آپ کو کسی ذریعے سے پاؤں گا انہوں نے فرمان التشرع یعنی شریعت پرعمل کرنے سے ۔
ان تین بشارتوں سے اس کی طرف اشارہ تھا جو اپنی زندگی میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا وہ فضل الہی ، آیات قرآن اور حدیث مصطفیٰ (ﷺ) پر عمل کرنے کی برکت ، اس عمل کا نتیجہ طلب کرنے ، تقویٰ اور حدود شریعت کی پابندی عزیمت میں قدم رکھنے، سنت و جماعت پر عمل پیرا ہونے اور بدعت سے باز رہنے سے تھا۔ جب خواجہ نقشبند مجھے بخارا سے جانے کی اجازت دے رہے تھے تو اس وقت مجھے خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ من الملک الجبار سے کسب فیض کے لئے بھیجا اور اشارہ سے ان کی متابعت کرنے کا حکم فرمایا۔ اس سپردگی کی وجہ سے چند سال میں خواجہ عطار کی خدمت میں رہا۔ ہر آدمی پر ان کے لطف وکرم کی انتہانہ تھی ، بالخصوص اس فقیر پر ۔ جب میں ان کی صحبت پاک سے بھی محروم ہو گیا تو خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے حکم کی تعمیل بقد رحال کرنا چاہی ، جو انہوں نے فرمایا تھا کہ جو کچھ ہم سے تجھے پہنچا ہے دوسروں کو پہنچاؤ ، حاضرین کو تقریر اور غائبین کو تحریر کے ذریعہ ۔ یہ فقیر خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا ، مگر عقیدہ یہ ہے کہ اشارہ بے حکمت نہ ہوا ہوگا:
تو چشم خویش را دیدن میاموز فلک را راست گردیدن میاموز
ترجمہ تو اپنی آنکھ کو دیکھنا سکھا ، آسمان کو صحیح بننامت سکھا۔
میں ان ( خواجہ نقشبند ) کے روح مقدس سے مستفید ہوتا تھا۔ ان امور سے جو فرمایا کرتےتھے، ایک بڑا کام ہمیشہ باوضور ہنا تھا۔ دوسر اوقوف عددی اور وقوف قلبی کی ہمیشگی تھا۔ تیسر اصبح سے پہلے اور نماز مغرب کے بعد سبق باطن کے درس میں مشغول رہتا تھا اور چوتھا مبارک اوقات میں نفلی نمازوں کی طرف اشارہ تھا۔ کائنات کے پیدا کرنے والے کی مدد سے اس رسالے میں ان وصیتوں اور ان کے فوائد کو بیان کیا گیا ہے اور (اس کے علاوہ ) بعضی فوائد جو اس فقیر کو حضرت خواجہ نقشبند اور ان کے خلیفہ خواجہ علاءالدین عطار سے پہنچے ہیں، ان کا ذکر کیا گیا ہے۔
جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے خواجہ ( نقشبند ) قدس اللہ تعالی کو طریقت میں شیخ طریقت خواجہ بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ کا فرزند ہونے کا شرف حاصل تھا۔ ان کو حضرت خواجہ عزیز ان علی رامتینی کا ، ان کو حضرت خواجہ محمود انجیر فغنوی کا ، ان کو حضرت عارف ریوگری کا ، ان کو حضرت خواجہ عبدالخالق غجد وانی کا ، ان کو حضرت شیخ ابو یعقوب یوسف ہمدانی کا، ان کو حضرت شیخ ابوعلی فارمدی کا ، جو شیخ امام غزالی کے پیرو مرشد تھے اور ان کو حضرت ابوالقاسم گرگانی کا ، شیخ ابوالقاسم گرگانی کی تصوف میں نسبت تین واسطوں سے شیخ جنید بغدادی تک پہنچتی ہے۔ شیخ ابو علی فارمدی کو دوسری نسبت شیخ ابوالحسن خرقانی سے تھی ، ان کو سلطان العارفین بایزید بسطامی سے ، ان کو امام جعفر صادق سے ان کو اپنے والد محترم امام محمد باقر سے ، ان کو اپنے والد امام زین العابدین سے ، ان کو اپنے والد سید الشہدا (امیر المومنین حسین سے ، ان کو اپنے والد امیر المومنین امام المتقین علی بن ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے اور ان کو حضرت مصطفیٰ ﷺہے۔ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم باطن میں دوسری نسبت اپنی والدہ ( ماجدہ) کے باپ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہے ، جو کبار تابعین میں سے ہوئے ہیں۔ حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کو علم باطن میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے نسبت ہے اور حضرت سلمان کور سالت پناہ ﷺکو پانے کے باوجود علم باطن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی نسبت تھی ۔ پس ہمارے خواجہ ( نقشبند ) قدس اللہ تعالیٰ روحہ کو تصوف میں چار طرح کی نسبت ہے۔ ایک حضرت خواجہ خضر زادہ اللہ تعالی علما و حکمت سے ۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، دوسری حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے، تیسری سلطان العارفین سلطان بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اور چوتھی امام جعفر صادق رضی اللہ علیہ سے حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک۔ اس مطلب کی بنا پر ان ( خواجہ نقشبند ) کو نمک مشائخ کہتے ہیں۔

فصل: ہمیشہ باوضو رہنے کی فضلیت

ہمارے خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیشہ باوضور ہنا چاہیے، کیونکہ حضرت رسول اللہ ﷺفرمایا ہے: ”
لا يُحافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ “
یعنی ہمیشہ باوضو نہیں رہ سکتا مگر وہ آدمی جو کہ مومن ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فيه رِجَالَ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُ وَا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ “۔
یعنی رسول اللہ ﷺکی مسجد میں یا مسجد قبا میں ایسے آدمی ہیں جو دوست رکھتے ہیں کہ نجاست کو ڈھیلے سے صاف کر کے خود کو پاک کریں اور پھر پانی ہے ( بھی ) دھوتے ہیں ۔
بعض نے کہا ہے کہ وہ آدمی دوست رکھتے ہیں کہ غسل کے ذریعے خود کو جنابت اور نجاست سے پاک کریں اور وہ رات کو ( بحالت جنابت )سوتے نہیں اور خدا تعالی دوست رکھتا ہے ان لوگوں کو جو خود کو نجاست سے پاک کرتے ہیں۔ (اس طرح) معلوم ہوا کہ طہارت کرنے اور خود کو پاکیزہ رکھنے سے خدا تعالیٰ کی دوستی حاصل ہوتی ہے اور اس سےبڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے کہ بندہ خدا تعالی کا دوست ہو!
قَالَ رَسُولُ اللهِ : إِذَا تَوَضًا الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَ مِنْ وجهه كل خطيئة نظر اليها بعينيهِ مَعَ الْمَاءِ وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ حطينة عملت يداه مع المَاءِ وَإِذَا غَسَلَ رِجَلِيهِ خَرَجَ كُلُّ خَطِيئَةٍ مِشْيُهَارِ جُلَاهُ مع الماء حتى يخرج نقيا مِنَ الذُّنُوبِ. ۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺفرمایا: ایماندار آدمی وضو کرتے وقت جب اپنے چہرے کو دھوئے تو جن گناہوں کی طرف آنکھوں سے نظر کی ( وہ سب ) وضو کے پانی کے ساتھ اس کے چہرے سے زائل ہو جاتے ہیں اور جب اپنے ہاتھوں کو دھوئے تو ہاتھوں سے کئے گئے گناہ پانی کے ساتھ ہی خارج ہو جاتے ہیں ۔ پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو وہ تمام گناہ پانی کے ساتھ ہی بہہ جاتے ہیں جن کی طرف وہ اپنے پاؤں سے چل کر گیا حتی کہ (وضو سے فارغ ہونے پر ) وہ تمام گناہوں سے پاک وصاف ہو جاتا ہے۔ (پس وہ ) ظاہری طہارت کے ذریعے باطنی طہارت طلب کرے ۔ ہر عضو کو دھوتے وقت کلمہ شہادت پڑھے، مسواک کو بلا وجہ ترک نہ کرے، کیونکہ اس کا بڑا ثواب ہے۔ جب وضو ختم کرے تو پڑھے :
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينِ وَاجْعَلْنِي من المتطهرين واجْعَلْنِي مِنْ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ۔
رسول اللہ ﷺفرمایا کہ جو کوئی طہارت کرنے کے بعد یہ پڑھے، اس کے لئے بہشت کے آٹھ دروازے کھولے جاتے ہیں، تاکہ وہ جس دروازے سے چاہے اندر آئے۔
جب ( وضو ختم کرنے کے بعد ) کھڑا ہو تو وضو کے پانی سے تھوڑا سا پی لے اور پڑھے ”
اللهم دوانی بدو ایک واشْفِنِي بِشَفَائِكَ وَاعْصِمُنِي مِنَ الْوَهْلِ وَالْأَوْجَاعِ والأمراض “۔
اس کے بعد دو رکعت نماز تحیت وضو پڑھے اور اس سے پہلے داڑھی کوکنگھی کرے اور اسے چہرے کے دائیں طرف سے شروع کرے۔ مفسرین میں سے بعض نے اس آیت کہ
يا بني آدم خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلَّ . مَسْجِدٍ
کے بارے میں کہا ہے کہ اس آرائش (زینت ) سے مراد داڑھی کو کنگھی کرنا ہے۔ ان دو رکعت نماز میں اپنے ارادوں کی نفی کرے اور ظاہر و باطن میں اس نماز میں متوجہ رہے۔ رسول اللہ ﷺفرمایا: ”
ما من مسلم يتوضاء فَيُحْسِنُ وَضُوءَهُ ثُمَّ يَقَوْمُ فَيُصِلَى رَكَعَتَيْنِ مُقْبِلا عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ ووجهه إلا وجبت لهُ الْجَنَّةُ
یعنی : جو مسلمان وضو کا ارادہ کرے، پس اپنا و ضوا چھی طرح کرے، یعنی فرائض ، سنن اور آداب بجا لائے۔ پھر کھڑا ہو جائے اور دو رکعت نماز اپنی ظاہری وقلبی توجہ سے ادا کرے، اس کی جزا نہیں ہے مگر بہشت اس کے لئے واجب ہو گئی ہے ۔ ہمارے خواجہ بہاءالدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس نماز میں خود کو ارکان و احکام نماز اور اذکار میں مشغول رکھے اور یہ مبتدی کی طرح ہو۔ نماز تحیت وضو میں بڑا ثواب ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ تمام اوقات میں پڑھے۔ شیخ محی الدین عربی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اوقات مکروہ میں نہ پڑھے اور یہی ہمارے علماء کے مذہب کے موافق ہے۔ نماز کے بعد گناہوں سے تو بہ کرنے کی نیت سے تین مرتبہ پڑھے:
اسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا اله الا هو الحيُّ الْقَيُّومُ وَاتُوبُ إِلَيْهِ ۔
(پھر ) دعا مانگے ، رات دن با وضور ہے اور با وضو ہی سوئے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺفرمایا کہ
مَا مِنْ مَؤْمِنِ بَاتَ طَاهِراً فِي شعار طاهر إلا بات فى شعاره ملك ، فَلا ي الملك اللهُمَّ اغْفِرْ عَبْدَكَ فَلَانَا فَإِنَّهُ قَدْ بَاتَ طَاهِراً “ ۔
یعنی کوئی مومن پاک لباس میں ظاہر و پاک نہیں سوتا جب تک کہ اس کے لباس میں فرشتہ نہ سوئے اور نہ رات کو کسی وقت بیدارہوتا ہے جب تک فرشتہ نہ کہے کہ اے خداوندا اپنے فلاں بندے کو بخش دے جو کہ پاک سویا ہے۔
نیز رسول اللہ ﷺفرمایا :
النَّائِمُ الطَّاهِرُ كَالْقَائِمُ الصَّائِمُ ۔
یعنی جو آدمی با طہارت سوتا ہے اس کا ثواب اس طرح ہوتا ہے جس طرح روزہ دار اور رات کو عبادت کرنے والے کا ہوتا ہے۔
بلا وجہ حالت جنب میں نہ سوئے، کیونکہ رسول اللہ ﷺفرمايا
لا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ الصُّورَةُ وَالْكَلْبُ وَالْجُنُب ۔
یعنی رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا کتا یا جنبی ہو ۔
جب سونا چاہے تو بستر پر قبلے کی جانب متوجہ ہو کر بیٹھے اور آیت الکرسی اور امن الرَّسُولُ پڑھے۔ پھر تین بار
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسُ پڑھے اور ہر بار پڑھنے کے بعد دونوں ہتھیلیوں پر دم کرے اور اپنے تمام اعضاء پر ملے، کیونکہ رسول اللہ ﷺاس طرح کیا ہے ۔اس کے بعد تین بار یہ پڑھے:
اسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَاتُوبُ إِلَيْهِ ۔
حدیث میں ہے کہ جو کوئی سونے کے وقت تین مرتبہ استغفار کرے حق سبحانہ و تعالی اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ذکر میں مشغول رہے، یہاں تک کہ نیند اس پر غلبہ کرے۔اس کے بعد دائیں پہلو پر قبلہ رو ہوکر لیٹ جائے اور دا ئیں ہتھیلی کو دائیں رخسار کے نیچے رکھے اور تین بار پڑھے:
اللهم قنى عذابك يوم تبعث عبادک
اور پھر یہ پڑھے:
اللَّهُمَّ اسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ و وجهت وجهي اليك وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَيْكَ وَالْجَاتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَ رهبة إِلَيْكَ لا مَلْجَاءَ وَلَا مَنْجَا إِلَّا إِلَيْكَ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي انْزَلْتَ وَ نیک الَّذِي أَرْسَلْت
اللَّهُمَّ أَيْقَطَنِي فَي أَحَبُّ السَّاعَاتِ إِلَيْكَ وَاسْتَعْمَلَنِي بِأَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَيْكَ الَّتِي تَقَرَّبَنِي إِلَيْكَ زُلْفَى وَ تَبْعَدُنِي مِنْ سخطک بعدا
اللَّهُمَّ لَا تُؤْمِنِى مَكْرَكَ وَلَا تَوَلَّنِي غَيْرَكَ وَلَا تَنْسِی ذكرك ولا تَجْعَلْنِي م فتوضا وضوئک لِلصَّلوةِ ثُمَّ اضطجع عَلَى شَقِّكِ الْأَيْمَنِ ) فَقُلْ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ إِلَى قَوْلِهِ اَرْسَلْت وَقَالَ فَان مِتُّ مِنْ لَيْلَتَكَ مِتُّ عَلَى الْفِطْرَةِ ، أَي عَلَى الدِّينِ الْحَقَّ وَإِنْ اَصْبَحْتُ اَصْبَحْتُ خَيْرًا
هَذَا حَدِيث أَخْرَجَهِ الْبُخَارِي وَغَيْرَهَ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
( یہ دعا پڑھنے کے بعد ) ذکر میں مشغول ہو جائے ، یہاں تک کہ سو جائے ۔ جب بیدار ہو تو ذکر میں مشغول ہو جائے ، یہاں تک کہ پھر سو جائے اور نَوْمُ الْعَالِمِ عِبَادَةٌ اسی طرح کی نیند کی جانب اشارہ ہے، وَاللَّهُ هُوَ الْمَوْفِقُ ۔

فصل: مخصوص کیفیت میں ذکر خفی کی فضلیت

اس سبق کو ہمارے خواجہ ( نقشبند ) وقوف عدی کہتے تھے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں اجمعوا وَضُوءَ كُمْ جَمَعَ اللهُ شَمْلَكُمْ ۔ یعنی اپنے وضو کو جمع کرو، تاکہ حق تعالی تمھاری پریشانیوں کو جمع کرے ( یعنی دور کرے ) اور وضو کے جمع کرنے سے مراد یہ ہے کہ ظاہر و باطن کی پاکیزگی حاصل کرے۔ اس کے کرنے سے تمام بری صفات مثلاً : بغض، حسد، کینہ، خلقت سے عداوت ، بخل سے پر ہیز کرے اور مولی تعالی کی محبت کے سوا جس چیز کی محبت میں دل آرام پاتا ہے ان سے دور ہو جائے ۔ جب دل بُری صفات سے پاک ہو جائے اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائے تو سالم ہو جاتا ہے۔ اس دنیا کی آفتوں سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا، مگر سالم دل کے ساتھ ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
يَوْمَ لا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ آتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سليم ۔
یعنی قیامت کے دن مال اور بیٹے کسی کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے ،مگر جو آدمی قیامت میں سالم دل لے کر آئے گا ، وہ اس قلب سلیم کے سبب رحمت حق کو پائے گا۔ سالم دل کی صفت یہ ہے جو کسی نے کہا ہے:

زغیرت خانه دل را زغیرت کرده ام خالی که غیر ، رائی شاید در این خلوت سرا رفتن
ترجمہ: غیرت کی بنا پر میں نے خانہ دل کو تیرے غیر سے خالی کر دیا ہے، کیونکہ تیرے سوا کسی اور کو اس خلوت سرا میں جا نا زیب نہیں دیتا۔
کبرا نے کہا کہ تمام عبادتوں سے مقصود ذکر ہے ۔ ذکر جان کی طرح ہے اور تمام عبادتیں دل کی مانند ہیں ۔ اگر عبادتوں میں اللہ تعالی سے غافل رہے تو ان سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا ۔ ہمارے خواجہ نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس رہائی کا تعویذ لکھیں تو بیمار صحت پاتا ہے:
تا روئے ترا بدیدم شمع طراز نے کارکنم نه روزه دارم نه نماز
تا با تو بوم مجاز بوم مجاز من جمله مجاز چون بے تو ہے تو بوم نماز من جمله مجاز
ترجمہ اے محبوب ! جب تک تیرا چہرہ دیکھتا ہوں، میں نہ کام کرتا ہوں نہ روزہ رکھتا ہوں، نہ نماز پڑھتا ہوں ۔ جب تیرے ساتھ ہوتا ہوں تو میرا مجاز سب نماز ہوتا ہے۔ جب تیرے بغیر ہوتا ہوں تو میری نماز سب مجاز ہوتی ہے۔
جاننا چاہیے کہ اگر ذکر میں اخلاص نہ ہو تو اتنا فائدہ نہیں دیتا۔ رسول اللہ ﷺفرمایا ”
مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ خَالِصًا مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّةَ. قيل و ما اخلا صَهَا قَالَ أَنْ يَحْجُزَهُ عَنِ الْمَحَارِمَ “
یعنی جو آدمی اخلاص کے ساتھ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ” پڑھے ، وہ بہشت میں داخل ہوگا۔ پوچھا گیا کہ اس کلمے کا اخلاص کیا ہے؟ تو ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ) فرمایا کہ اس کا اخلاص یہ کہ پڑھنے والا خود کو حراموں سے باز رکھے۔
اس کلمہ کے پڑھنے کی برکت سے اس کا دل درست ہو جائے اور اس کے اقوال وافعال اور احوال میں استقامت ظاہر ہو جائے ۔ جب ظاہری اور باطنی استقامت نصیب ہوتی ہے تو تمام سعادت ابدی حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا
یعنی یقینا وہ لوگ جنھوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور لا إِلهَ إِلَّا الله “ پڑھنے کے بعد اس کی شرائط کے ساتھ ایمان لائے، پس وہ ظاہراً اور باطنا درست ہو گئے اور ان کو اس کلمہ کے پڑ ھنے کا نتیجہ حاصل ہو گیا۔ یہ ظاہری استقامت ہے، یعنی حدود شرعیہ کی رعایت ، اور باطنی استقامت ایمان حقیقی سے عبارت ہے ۔ ہمارے خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح کرتے تھے کہ اس سے مراد دل کا تمام ان فوائد اور نقصانات سے پاک کرنا ہے، جن سے وہ مشغول ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی جزا یہ ہوتی ہے کہ تتنزلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ ۔ یعنی ان کے اس جہان سے جاتے وقت ان پر رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ رحمت کے فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تحزنوا ، یعنی عذاب سے مت ڈرو اور اس جہاں کی آسائشوں کے فوت ہونے پر غم مت کھاؤ – وابشر وا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ یعنی اور بشارت پائیے اس بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ فرشتے ان مومنوں سے کہتے ہیں : نَحْنُ أَوْلِيا كُمْ فِي الحيوة الدنيا وفي الآخرة یعنی اس جہاں اور اُس جہاں میں ہم تمھارے دوست ہیں فرشتے ان مومنوں کو کہتے ہیں کہ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسَكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَاتَدَّ عون نزلاً مِنْ غَفُورٌ رَّحِيمٍ ۔ یعنی تمھارے لئے وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہتے ہیں اور جس کی تم نے آرزو کی ۔ یہ تمام نعمتیں تمھارے لئے اس بڑے بخشنے والے اور بڑے رحم کرنے والے نے نازل کیں اور تمھارے لئے موجود چیزوں کے نازل کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ مہمان کے سامنے لا کر رکھیں اور اس کے بعد دوسرا تکلف کریں۔ جنت کی سب نعمتیں حاضر ہوں گی، جیسے کہ حضرت باری تعالی کا دیدار۔
اگر ذکر اخلاص سے نہ کیا جائے تو اتنا فائدہ نہیں دیتا، بلکہ بہت بڑا خوف ہوتا ہے ( کیونکہ روایت ہے ) کہ مَنْ قَالَ اللهُ وَقَلْبَهُ غَافِلٍ عَنِ اللَّهِ فَخَصْمُهُ فِي الدَّارَيْنِ اللَّهُ یعنی جو شخص اللہ کہے اور اس کا دل احکام اللہ کی رعایت سے غافل ہو، پس دونوں جہانوں میں اس کا دشمن اللہ تعالی ہے۔ ذکر کی فضلیت میں بہت سی آیات واحادیث موجود ہیں اور سب کا خلاصہ یہی ہے جو بیان کیا گیا ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔
ذکر کا ہمہ وقت فائدہ تب حاصل ہوتا ہے، جب کسی آدمی سے اس کی تلقین لی جائے۔ ہمارے خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ ارشاد و تلقین میں مشغول ہیں۔ تین قسم کے ہیں۔ کامل مکمل، کامل اور مقلد ۔ کامل مکمل کے بارے میں خواجہ محمد بن علی حکیم ترمذی کی بعض تصنیفات میں آیا ہے کہ اسے ولایت نبی (ﷺ) سے چار دانگ نصیب ہیں اور کامل مکمل نورانی اور نور بخش ہے ۔ کامل نورانی تو ہے، مگر نور بخش نہیں اور مقلد وہ ہے جو شیخ کی تلقین سے کام کرتا ہے۔

اگر (ذکر کی تلقین ) شیخ کامل کے اذن سے ہو تو بھی اُمید ہوتی ہے، لیکن زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ کامل مکمل سے تلقین ہو اور اس کا اتفاق کم ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کہا گیا کہ مرشد قطب یا خلیفہ قطب ہونا چاہیے، جس حال میں بھی ہو، جیسے انہوں ( مرشدوں ) نے تلقین کی ہے اسی طرح ہمیشہ ذکر میں مشغول رہے۔ تمام اوقات میں خود کو ذکر میں مشغول رکھے، خاص کر صبح سے پہلے اور شام کے بعد جس طرح ہمارے خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ نے اس فقیر کو فرمایا ہے۔ عارف رومی فرماتے ہیں، رہائی:
از ذکر همی نور فزاید مہ را در راه حقیقت آورد گمره را
هر صبح و نماز شام ورد خود ساز خوش گفتن لا إِلهَ إِلَّا الله را
ترجمہ: ذکر کرنا چاند کے نور کو بڑھاتا ہے (اور ) گمراہ کو سیدھے راستہ پر لے آتا ہے۔ تو صبح اور شام کی نماز میں اپنا ورد بنالے لَا إِله إِلَّا الله کو خوب پڑھنا۔ جو آدمی صبح اور رات کے وقت ذکر میں مشغول رہے، وہ اس آیت کے حکم سے یقینا غافلین میں سے نہیں، بلکہ ذاکرین میں سے ہے ( آیت یہ ہے ):
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنُ مِنَ الْغَافِلِينَ “
(اے ) یعنی اے محمد ﷺاپنے پروردگار کو گڑ گڑاتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے ، دل میں یاد کیجئے اور صبح و شام کے وقت ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو اور آپ بے خبر نہ رہیں۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ غدو اور آصال سے مراد رات اور دن ہے، یعنی صبح سویرے ذکر خفی میں مشغول رہے اور بے خبر نہ رہے۔
جاننا چاہیے کہ کسی آیت اور حدیث میں ذکر جہر کا حکم نہیں آیا ہے، بلکہ ذکر خفی کا حکم ہوا ہے ۔ جس طرح کہ اس دوسری آیت میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وخُفْيَة ، یعنی یاد کرو اپنے پروردگار کو عاجزی اور تضرع اور نیچی آواز سے
إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ۔ یقینا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو حد سے تجاوز کریں اور آواز بلند کریں ۔
تفسیر میں امام نجم الدین عمر صاحب اس آیت کے معنی میں ایک نظم لکھتے ہیں کہ ( حضرت ) ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ صحابہ (کرام ) رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر میں تھے۔ جب ایک اونچی جگہ پر آئے تو انہوں نے تکبیر اور تہلیل کہی اور آواز بلند کی ۔ رسول اللہ ﷺفرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا عَلَى انفُسِكُم لنتُمْ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِباً إِنَّكُمْ لَتَدْعُونَ سَمِيعاً قَرِيباً وَهُوَ معكم
یعنی اے لوگو! اپنی جانوں پر نگاہ رکھو ، نعرہ نہ لگاؤ اور اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کو یاد کرو تم بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے ہو، بلکہ تم اس کو پکارتے ہو جو علم قدیم سے سننے والا اور تمھارے قریب ہے
اس کے علاوہ بہت سے دلائل ہیں۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ ذکر جہر خلاف دلیل ہے اور مشائخ نے کہا ” ذکر خفی اولی ہے ۔ عارف رومی فرماتے ہیں:
نعره کم زن زانکه نزد یک ست یار که از نزد یکی گمان آید حصول
ترجمہ: نعرہ کم لگا کہ دوست نزدیک ہے، کیونکہ نزدیکی سے حصول ( مراد ) کا گمان ہوتا ہے
ہمیشہ وقوف عددی میں مشغول رہنے سے دل جلدی ذاکر ہو جاتا ہے اور میں نے حضرت خواجہ( نقشبند ) سے سنا ہے کہ فرمایا کرتے تھے۔
دل چو ماهی و ذکر چون آبست زندگی دل بذکر وہاب ست
دل مچھلی کی طرح اور ذکر پانی کی مانند ہے، دل کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے

جب دل ذاکر ہو جائے اور اس کی علامات ظاہر ہو جائیں تو اس کے بعد وقوف قلبی میں مشغول ہو جانا چاہیے۔
اب ہم اس کے فوائد بیان کرتے ہیں۔

فصل: فوائد وقوف قلبی و صحبت شیخ

جان لے کہ میں نے اپنے حضرت خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے :
الذِّكْرُ ارْتِفَاعُ الْغَفْلَةِ فَإِذَا ارْتَفَعَ الْغَفُلَةُ فَأَنْتَ ذَاكِرٌ وَإِنْ سکت “۔
یعنی ذکر سے مراد غفلت سے دور ہونا ہے، جب غفلت دور ہو جائے تو آدمی ذاکر ہو جا تا ہے ، خواہ وہ خاموش ہو اور حضرت خواجہ فرمایا کرتے تھے کہ وقوف قلبی کی رعایت تمام حالتوں میں نہایت ضروری ہے۔ یعنی کھاتے سوتے ، بولتے ، چلتے ، بیچتے خریدتے ، وضو کرتے نماز پڑھتے ، قرآن پڑھتے ، کتابت کرتے ، درس دیتے اور وعظ و نصیحت کرتے وقت ۔ پلک جھپکنے کی دیر بھی غافل نہیں رہنا چاہیے، تا کہ مقصود مل جائے ۔ کبرا نے کہا ہے :
مَنْ غَمَّضَ عَيْنَهُ عَنِ اللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنِ لَا يَصِلُ إِلَيْهِ طُولُ عُمُرِهِ
یعنی جو شخص پلک جھپکنے کی دیر بھی اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتا ہے وہ لمبی عمر میں بھی مقصود کو نہیں پہنچتا۔
باطن کو محفوظ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن اللہ تعالی کی عنایت اور اس کے خاص بندوں کی تربیت سے جلدی میسر ہو جاتا ہے، شعر:
بے عنایات حق و خاصان حق گر ملک باشد سیاهستش ورق
ترجمہ اللہ تعالی اور اس کے خاص بندوں کی عنایتوں کے بغیر ، اگر فرشتہ (بھی) ہے تو اس کا نامہ اعمال سیاہ ہے۔
(باطن کی حفاظت ) خدا تعالیٰ کے دوستوں کی صحبت میں جو ہم سبق ہوں اور ایک دوسرے کے منکر نہ ہوں اور صحبت کی شرائط کے پابند ہوں، جلدی میسر ہوتی ہے۔ شیخ کامل مکمل کی ایک باطنی نگاہ سے باطن کی وہ صفائی حاصل ہو جاتی ہے، جو زیادہ ریاضتوں سے بھی میسر نہیں آتی۔ جیسا کہ عارف رومی کہتے ہیں:
آنکه به تبریز دید یک نظر شمس دین طعنه زند بر دهه سخره کند بر چلہ
ترجمہ: جس نے شمس دین ( مرشد کامل ) کی زیارت کا شرف تبریز میں حاصل کیا ہے، وہ دس روزہ ( خلوت گزینی ) پر طعنہ زنی کرتا ہے اور چالیس روزہ چلہ کشی کا مذاق اڑاتا ہے۔
شیخ ابو یوسف ہمدانی قدس سرہ العزیز کا قول ہے :
أَصْبِحُوا مَعَ اللَّهِ، فَإِنْ لَّمْ تُطِيقُوا فَاصْبَحُوا مَعَ مَنْ يَصْحَبُ مَعَ اللهِ
یعنی خدا تعالی کے ساتھ صحبت رکھو اور اگر تم کو خدا تعالیٰ کی صحبت میسر نہ آئے تو اس شخص کے ساتھ صحبت رکھو، جو خدا تعالیٰ کا مصاحب ہو۔
خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ صحبت مع اللہ فنا کے بعد ہاتھ آتی ہے۔ اور اگر خدا تعالی کے ساتھ صحبت نہ رکھ سکو تو اہل فنا کے ساتھ صحبت رکھو۔ وہ اس حدیث :
إِذَا تَحَيَّرُ تُم فِي الْأَمُورِ فَاسْتَعِينُوا مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اس میں اہلِ فنا کی صحبت کی جانب اشارہ ہے لیکن اگر ( یہ ) ملامت کو دفع کرنے ،اغراض فاسدہ، دنیا کو اکٹھا کرنے اور اہل دنیا کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ہو تو ایسی صحبت سے ڈرنا چاہیے۔
خواجہ عبد الخالق غجد وانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ تو بیگانوں کی صحبت سے یوں گریز کر، جس طرح کہ شیر سے گریز کرتا ہے۔ اگر صحبت کرتے وقت باطن میں مشغول رہیں تو ظاہر میں بیہودہ چیزوں سے بھی ڈریں۔ جو صحبت مفید ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں بندے کے دل کو فیض حقانی پہنچتا ہے اور وہ ماسوی اللہ سے نجات پاتا ہے، جس طرح کہ اس رباعی میں کہا گیا ہے:
باہر که نشستی و نشد جمع دلت وز تو نرهید زحمت آب و گلت
زنهار ازان قوم گریزان می باش ور نہ نکند روح عزیزان بحلت
ترجمہ: تو جس آدمی کے ساتھ بیٹھا اور (اس کی ہم نشینی سے ) تیرے دل کو جمعیت ( سکون ) میسر نہ آئی اور تجھ سے دنیا کی محبت اور ( بری) بشری صفات زائل نہ ہوئیں ۔ خبردار! ایسے لوگوں ( کی صحبت ) سے دور ہو جا، ورنہ (خواجہ ) عزیزان کی روح تجھے معاف نہیں کرے گی۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ایک دوسرے کو کہا کرتے تھے:
تَعَالَوْا نَجْلِسُ فَنُؤْمِنُ ساعة
یعنی آؤ تا کہ ہم بیٹھیں اور ایک گھڑی ایمان حقیقی جونفی ماسوی ہے، سے مشرف ہوں ۔
خدا تعالیٰ کے دوستوں کی صحبت میں بڑے فائدے ہیں:
ابر گریان باغ را خندان کند صحبت مرد انت از مردان کند
ترجمہ: روتا ہوا با دل باغ کو ہنسا دیتا ہے، مردوں کی صحبت تجھے مر د بنادے گی ۔
جب ( ذاکر ) وقوف قلبی میں مشغول رہے تو ذکر میں جو خلاصہ ہے وہ حاصل ہو جاتا ہے، بصیرت کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ دل کی بارگاہ غیروں کے کانٹوں سے خالی ہو جاتی ہے ۔ ذاکر بحر فنا میں محو ہو جاتا ہے ۔ فَاذْكُرُونِي اذْكُرُكُمْ کے مطلب کی بناء پر مذکورہ شرف سے مشرف ہو جاتا ہے اورلا يسعنى أرْضى وَلا سَمَانِي وَلَكِنْ يَسْعَنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنُ “ کے حکم سے سلطان الا اللہ کے جمال کی تجلی پاتا ہے ۔ ذاکر سالم اسم سے مسمی میں مشغول ہو جاتا ہے اور اہم سے بطریق رسم مشغول ہونا غفلت کا مقام ہے ۔ ایک دن ہمارے خواجہ ( نقشبند ) قدس سرہ کی صحبت میں اصحاب سلوک میں سے ایک نے بلند آواز میں اللہ کہا، خواجہ نے فرمایا: ” یہ کیسی غفلت ہے؟ علم من فهم و فهم من علم ۔
حقائق التفسیر میں آیا ہے کہ کبرا میں سے ایک کو پوچھا گیا کہ کیا بہشت میں ذکر ہو گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ غفلت نہ رہے، چونکہ بہشت میں غفلت نہیں ہوگی لہذا سب کچھ ذکر ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اہل تحقیق کا قول ہے:
کفاني حوبا إِنْ أَنَا جَيْكَ ذَائِباً كَانَي بَعِيدًا وَكَانَكَ غَائِبُ
ترجمہ: گناہ ہے کہ میں ذکر اور مناجات کے وقت تجھے زبان پر لاؤں (یعنی بے حضور رہوں ) ، کیونکہ میں تیری ذات کے علم سے دور نہیں ہوں اور تو غائب نہیں ہے۔ یہ اس آیت وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔
وقوف عددی اور وقوف قلبی میں جان بوجھ کر آنکھیں او پر نہ اٹھائے اور سر اور گردن کو نیچے نہ کرے کہ اس سے لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے اور ہمارے خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا، جس نے اپنا سر اور گردن نیچے جھکا رکھی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: يارجل ارفع عنقک ” یعنی اے مرد اپنی گردن او پر اُٹھاؤ۔ ذکر میں اس طرح رہنا چاہیے کہ اہل مجلس میں سے کوئی آدمی ( ذاکر ) کے حال کو نہ پائے ۔ کبرا میں سے بعض کا کہنا ہے ” الصوفي هو الكائن البائن ۔ یعنی صوفی وہ آدمی ہے جو پنہاں اور ظاہر ہو، یعنی باطن میں حق سبحانہ و تعالی اور ظاہر میں لوگوں سے مشغول رہے اور ہمارے خواجہ رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے۔
از دورن شو آشنا و از برون بیگانه باش این چنین زیبا روش کم می بود اندر جهان
ترجمہ تو اندر سے واقف رہ اور باہر سے ناواقف بن ( یعنی دل میں خدا کی یاد رکھ اور ظاہر میں بیگانہ رہ ) ، اس طرح کی خوبصورت مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔
مردان رھش بهمت و دیده روند زان در ره عشق هیچ اثر پیدا نیست
ترجمہ: اس کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمت و ہوش سے چلتے ہیں، کیونکہ اس کے راستے میں اس کے نقش ( پا) کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔
نیز ( خواجہ نقشبند ) فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک مدت دو دقیق النظر دانشمندوں کی صحبت میں رہا۔ انہوں نے باوجود کمال محبت مجھے نہ پہچانا، کیونکہ جب بندہ مقام بے صفتی پر پہنچتا ہے تو اس کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے، خاص طور پر اہل رسم کے لئے ۔ اور ذکر خفی کی حقیقت وقوف قلبی سے میسر ہوتی ہے ( وقوف قلبی میں مشغول رہنے والا ) ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ (اس کا ) دل بھی نہیں جانتا کہ وہ ذکر میں مشغول ہے۔ کبرا کا قول ہے: إِذَا عَلَمَ الْقَلْبُ أَنَّهُ ذَاكِرٌ فَاعْلَمُ أَنَّهُ غافل – حقائق التفسیر میں اس آیت وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً و خيفة کے بارے میں آیا ہے:
قَالَ الْحَسَنَ عَلَيْهِ لَا يَظْهَرُ ذِكْرُكَ لِنَفْسِكَ فتطلب به عوضًا وَافْضَلُ الذِّكْرِ مَالَا يُشْرِفُ عَلَيْهِ إِلَّا الْحَقُّ ۔ بعض کبرانے کہا: ذكر اللسان هَذْيَانَ وَذِكْرُ الْقَلْبِ وَسُوَسَةً ۔ اور یہ منتہوں (انتہا کو پہنچے ہوئے )کے بارے میں ہے
دلرا گفتم بیاد او شاد کنم چومن همه او شدم کرا یاد کنم
ترجمہ: میں نے دل سے کہا کہ اس کی یاد سے راحت پاؤں ، جب میں سب وہی بن گیا تو پھر کس کو یاد کروں۔
ہمارے خواجہ ( نقشبند ( رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب میں کعبہ کے مبارک سفر سے واپس ہوا تو طوس کے ملک میں پہنچا ، خواجہ علاء الدین عطار اپنے اصحاب اور احباب کے ہمراہ بخارا سےمیرے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہرات کے والی ملک معز الدین حسین کی جانب سے ایک قاصد کے ذریعے ہمیں ایک مکتوب ملا، جس کا مضمون یہ تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی ملاقات کے شرف سے مشرف ہوں اور ہمارا آنا مشکل ہے ۔ اگر عنان کرم ہماری طرف متوجہ فرمائیں تو سراسر بنده نوازی ہوگی وأَما السَّائِلَ فَلا تَنْهَرُ کے باعث اور يَا دَاءُ وُدُ إِذَا رَأَيْتُ لِى طَالِبًا فَكُنْ لَهُ خَادِمًا کے مطلب کی بناء پر ہم ہرات کی طرف چل پڑے۔ جب ہم ملک معز الدین کے پاس پہنچے تو اس نے ہم سے پوچھا کہ پیری ( ولایت ) آپ کو اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں ! اس نے پوچھا کہ کیا آپ سماع سنتے ہیں اور ذکر جہر کرتے ہیں اور خلوت میں بیٹھتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں! ملک معزالدین بولا : در ویش تو یہ کام کرتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ آپ ایسا نہیں کرتے؟“ میں نے کہا:” حق سبحانہ تعالیٰ کا جذ بہ مجھے ملا اور اس نے اپنے فضل سے مجھے کسی مجاہدہ کے بغیر قبول کیا۔اس کے بعد میں خدا تعالی کے اشارے سے خواجہ عبدالخالق غجد وانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا سے منسلک ہو گیا اور انہیں ایسی چیزوں سے بالکل شغف نہ تھا۔ ملک معز الدین نے کہا:’ان کا کیا معمول تھا؟“‘ میں نے کہا: وہ ظاہر میں لوگوں سے میل جول رکھتے تھے اور باطن میں اللہ تعالی سے مشغول رہتے تھے۔“ ملک معز الدین بولا ” ایسا ممکن ہے؟“ میں نے کہا: ہاں! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جــــــــال لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله ۔
ہمارے خواجہ ( نقشبند ) رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ”خلوت شہر ہے اور شہرت آفت ہے۔‘ نیز ہمارے خواجگان قدس سرہم کا قول ہے: ” خلوت در انجمن، سفر در وطن، ہوش در دم ، نظر در قدم (ہمارے خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ) فرمایا کرتے تھے کہ ذکر جہرا اور سماع سے جو حضوری اور ذوق حاصل ہوتا ہے، وہ ہمیشہ باقی نہیں رہتا ۔ وقوف قلبی میں ہمیشہ مشغول رہنے سے جذبہ حاصل ہوتا ہے اور جذبہ سے مقصودمل جاتا ہے۔ مصرع:
گرمی مجوئی الا ز آتش درونی
ترجمه: گرمی مت ڈھونڈ سوائے اندر کی آگ کے۔
وَاللَّهُ تَعَالَى هُوَ الْمَوْفِقُ

فصل: نفلی نمازوں کا بیان

ہمارے خواجہ حضرت نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے بندہ سے فرمایا تھا کہ صبح سے پہلے سبق باطن میں مشغول رہو اور یہ نماز تہجد کی طرف اشارہ تھا۔ کبرا میں سے بعض نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺہر حال میں صبح سے بیدار رہتے تھے اور نماز پڑھتے تھے۔ شروع میں تہجد کی نماز آپ ﷺپر فرض تھی اور بعض کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺپر آخری عمر میں نماز تہجد فرض نہ رہی تھی اور آپ ﷺاسے نفل کر کے پڑھتے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ آخری عمر میں بھی آپ ﷺپر فرض تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ به ناقلة لك عَسَى أَن يُبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُوداً یعنی اے محمد (ﷺ) کچھ رات جاگتے رہیں۔ نماز میں قرآن پڑھنے سے جو آپ پر فرض ہے یا آپ کے لئے نفل ہے ۔ شاید آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود میں کھڑا کر دے۔
جو تجلی ذاتی ہے یا اولین اور آخرین کی شفاعت کا مقام ہے۔ پس مقام محمود کا وعدہ معبود نے حضرت محمد ﷺسے رات کو جاگنے اور سجدے کرنے کی بناء پر کیا ہے۔ نیز دوسری آیت میں فرمایا ہے : يَا أَيُّهَا الْمُزْمِلُ قم الليل ۔ یعنی اسے کپڑے میں لپٹنے والے، رب قدیم کی عبادت کے لئے رات کو کھڑا رہ۔ رات کو جاگنے والوں کی قرآن میں بہت زیادہ تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ان المتقين فِي جَنَّاتٍ وَعُيُون ، یعنی یقینا تمام پر ہیز گار اس جہان میں ہوں گے کہ وہاں باغات اور چشمے جاری ہیں آخِذِينَ مَا أَتَهُمْ رَبُّهُمْ اس چیز کو پانے والے ہوں گے جو ان کو ان کا پروردگار دے گا ۔ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ۔ یقینا یہ لوگ دنیا میں خدا ترس اور نیکی کرنے والے تھے اور بیان کیا ( اللہ تعالیٰ نے ) یہ کہ : كَانُوا قَلِيلاً مِّنَ اللَّيْلِ ما يهجعون ۔ یعنی یہ ( لوگ ایسے تھے کہ ) کہ رات کا تھوڑا حصہ ہوتے اور زیادہ وقت بیدار رہے تھے۔ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ اور سحر کے وقت گناہوں کی بخشش طلب کرتے تھے۔ حدیث میں آیا ہے کہ سحر کے وقت زیادہ ( یہ ) پڑھنا چاہیے۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔ اللہ تبارک و تعالی نے دوسری آیت میں فرمایا ہے. تتجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ دْعُونَ رَبَّهُمْ یعنی خدا ترس مومنوں کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں،یعنی رات کو بیدار رہتے ہیں۔ پکارتے ہیں اپنے پروردگار کو ، خَوْفًا وَ طَمْعًا اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے ، وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے انہیں دی ہیں راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں، فَلا تَعْلَمُ نفْسٌ مَا أُخْفِى لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ پس لوگوں میں سے کوئی نہیں جانتا، ان چیزوں کو جو چھپادھری ہیں ان کے لئے ، جو آنکھ کی روشنی میں سے ہیں، جَزَاءُ بِمَا كَانُو يَعْمَلُونَ اور یہ ان کے اعمال کی جزا کے درجے اور نعمتیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺصحابہ کرام سے فرمایا:
عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَابُالصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَهُوَ قُرْبَةٌ لَّكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ وَمُكَفِّرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمِنْهَاةٌ عَنِ الألم
یعنی تم پر لازم ہے کہ رات کو بیدار رہو۔ یعنی عبادت کرو اس لئے کہ یہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ ہے۔ یعنی انبیاء ورسل اور اولیاء رات کو بیدار رہتے تھے،لہذاتم بھی شب بیداری اختیار کرو۔ یہ اللہ کی قربت اور رحمت ( کا ذریعہ ) ہے۔ گناہوں کے کفارہ کا سبب اور گناہوں سے روکنے والی ( عبادت ) ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺفرمایا: اقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّن يَذْكُرُ اللَّهِ فِي تَلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ “۔ یعنی لوگوں کا رحمت خدا کے نزدیک ہونے کا وقت نصف شب ( یعنی رات کے آخری حصے کے درمیان ) ہوتا ہے ۔ جو صبح کے قریب ہے۔ اگر تو ان لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہے جو خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں تو اس وقت ان میں شامل ہو جا۔ رات کو بیدار رہنے والوں کی فضلیت میں بہت سی حدیثیں ہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کے آداب کو بیان کرتے ہیں۔
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجب رات کو بیدار ہوتے تو پہلے مسواک کرتے، پھر وضو بناتے اور اس کے بعد اس آیت : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ اختلاف الليل والنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ سے لے کر سورۃ الم اللہ کے آخر تک پڑھتے ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھتے : اللهمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَ والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الحمد انت ملك السمواتِ وَالأَرْضِ وَ مَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنتَ الْحَقُّ وَ وعدك الحق ولقاء ك حَقٌّ وَ قَوْلُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ و محمد حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقَّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ و الیک اثبت و یک خاصَمْتُ وَ إِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرُ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتْ ومَا اسْرِرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنى أنتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤْخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا انت ولا إله غيرك

پھر بارہ رکعت نماز چھ سلاموں کے ذریعے پڑھے اور اگر سورۃ یسین یاد ہو تو اُسے تہجد میں پڑھے۔ حضرت خواجہ عزیزان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جب تین دل جمع ہو جائیں تو مؤمن آدمی اپنے مقصد کو پالیتا ہے۔ یعنی رات کا دل ، قرآن کا دل اور مومن کا دل ۔ اگر وقت کم ہو تو آٹھ رکعت یا چار رکعت یا دو رکعت نماز تہجد پڑھے اور اس نماز کے بعد دعا مانگے ۔ پھر سبق باطن میں مشغول ہو جائے ، یہاں تک کو صبح ہو جائے۔ نماز فجر کی سنتیں گھر پر پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد قُلْ هُوَا الله احد پڑھے۔ اس کے بعد ستر بار اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَاتُوبُ إِلَيْهِ پڑھے۔ اگر رات سحری کے نزدیک ہو تو نماز تہجد اور سبق باطن میں مشغول رہنے کے بعد تھوڑی دیردا ئیں پہلو پر قبلہ رخ ہو کر لیٹ جائے۔ اس کے بعد صبح کی نماز سنت اور فرض کے لئے نیا وضو کرے اور مسجد کے راستے میں پڑھے: اسْتَغْفِرُ اللَّهِ مِنْ جَمِيعَ مَا كَرَة الله قَوْلاً وَ فِعلاً و خَاطِراً و ناظراً ۔
جب مسجد میں داخل ہو تو دایاں پاؤں پہلے اندر رکھے اور پڑھے: السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ بيت اللهِ اللَّهُمَّ افْتَحُ لِى أَبْوَابِ رَحْمَتِكَ‘‘ اور اپنے سلام کا جواب یہ کہے: السلام علينا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ ۔ جب صبح کی نماز ادا کر چکے تو اپنی جگہ پر بیٹھا ر ہے اور سبق باطن میں مشغول ہو جائے، یہاں تک کہ سورج نکل آئے ۔ اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے۔ رسول اللہ ﷺفرمایا: من صَلَّى الْفَجْرَ بِجَمَاعَةِ ثُمَّ قَعَد ركعتين كانت له كاجر حجة وعمرة تامة تامة “ ۔ یعنی جو شخص صبح کی نماز یا جماعت ادا کر کے بیٹھ جائے اور یاد خدا میں مصروف رہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے ۔ پھر دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کا ثواب حج اور عمرے کی مانند ہے۔ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ( تاکیدا ) فرمایا پورے حج و عمرے کا ، پورے حج و عمرے کا ، پورے حج و عمرے کا ثواب ۔ رسول اللہ ﷺفرمایا ” عن اللَّهِ تَعَالَى: يَا ابْنِ آدَمَ إِرْكَعُ لِي أَرْبَعَ ركعات من أول النهار الفك آخره ۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اولاد آدم ! میرے لئے دن کے اول حصہ میں چار رکعتیں ادا کر لے، تیرے لئے دن کے آخری حصہ تک کافی ہو جائیں گی اور قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَعَدَ فِي مُصَلَّاهُ حِيْنَ ينصرف من صلاة الصبح حتى يُسبّح ركعتى الضُّحَى لَا يَقُولُ إِلَّا خَيْرًا غُفِرَ لَهُ خطاياه وإن كانت أكثر من زيد الْبَحْرِ ۔ یعنی نبی ﷺفرمایا کہ جو شخص صبح کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے مصلی پر ہی بیٹھ جائے ہستی کہ دو رکعت نماز اشراق ادا کرے۔ اس اور ان نیر ( یعنی اچھی بات ) کے سوا کچھ نہ کہے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں ۔ مفسرین میں سے بعض نے اس آیت : وإبراهيم الذى وفی یعنی ابراهیم پیغمبر علیہ السلام نے وفا کی کی تفسیر میں کہا ہےکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے نماز اشراق کو ترک نہ کیا۔ جب دورکعت نماز ادا کر چکے تو دس مرتبہ پڑھے لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الملك وله الحمد وهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اس ذکر کی تلقین فقیر کو حضرت سیف الدین باخرزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس وقت کی ، جب میں ان کے مزار کی طرف متوجہ رہتا تھا۔ اس کے بعد دعا مانگے اور حق تعالی سے نیکی کی توفیق مانگے۔ جب مسجدسے باہر آئے تو یہ دعا پڑھے اللهمَّ إِنِّي اسْئلْكَ مِنْ فَضْلِكَ اور گھر پہنچنے تک اسے پڑھتا جائے۔ اس کے بعد اگر قرآن پڑھتا ہو تو مصحف کو اپنے سامنے رکھے اور جتنا ہو سکے ، تلاوت کرے۔ پھر اگر طالب علم ہو تو اپنے سبق میں مشغول ہو جائے ، اگر کا سب کام کرنے والا) ہو تو اپنے کام میں مشغول ہو جائے اور اگر سالک ہو تو ذکر و مراقبہ میں مشغول ہوجائے ، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے۔
جب زمین گرم ہو جائے تو نماز چاشت پڑھے ۔ نماز چاشت بارہ رکعت آئی ہے۔ قال النبيُّ مَنْ صَلَّى الضُّحَى اثْنَتَى عَشَرَةَ رَكَعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْراً مِنَ الذَّهَبِ فِي الجنة ۔ یعنی رسول اللہ ﷺفرمایا کہ جو شخص بارہ رکعتیں نماز چاشت پڑھے، حق تعالی بہشت میں اس کے لئے سونے کا محل تعمیر کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ( نماز چاشت) آٹھ رکعتیں) بھی آئی ہیں۔ چار رکعتیں اور دور رکعتیں بھی آئی ہیں۔ مفسرین میں سے بعض نے اس آیت فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً – یعنی یقینا خدا تعالیٰ نے اوابین کو یعنی وہ لوگ جنہوں نے گناہوں سے توبہ کر لی ہے، اچھی طرح بخش دیا ہے، کے بارے میں کہا ہے کہ او ابین سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز چاشت ادا کریں۔ حدیث میں ہے: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلوةُ الأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ – یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اوابین اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں) کی نماز (یعنی نماز چاشت اس وقت تک پڑھی جاسکتی ہے ) اس وقت ( تک ) ہے جب سنگریزہ سورج کی گرمی سے گرم ہو جائے اور اُونٹ کے بچے کے پاؤں زمین پر لگیں تو گرمی سے جلنے لگیں (یعنی ڈیڑھ پہر تک اس کا وقت ہے کیونکہ عرب کی ریت جلد گرم ہو جاتی ہے ) ۔ مفسرین میں سے بعض نے کہا ہے کہ چھ رکعت نماز اوابین کا وقت مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان ہے، لہذا اگر ممکن ہو تو مغرب کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک مسجد میں بیٹھا رہے اور سبق باطن میں مشغول رہے، کیونکہ اس کا بڑا ثواب ہے۔ حضرت خواجہ ( نقشبند ) نے اس فقیر کو اسی طرح فرمایا ہے، وَاللَّهُ تَعَالَى الْمُؤْفِقُ ۔

خاتمہ خواجہ نقشبند اور خواجہ علاء الدین عطار کے فوائد

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بعض فوائد جو اس فقیر کو حضرت خواجہ ( نقشبند ) اور آپ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار سے پہنچے ہیں، وہ بیان کیے جاتے ہیں ۔ حضرت خواجہ ( نقشبند ) نے فرمایا ہے کہ میرے ( شیخ ) امیر ( کلال) نے ایک مرتبہ مجھے کہا کہ جب تک رزق حلال نہ ہو، مقصود حاصل نہیں ہوتا ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہم دریا ہو چکے ہیں، لہذا ہمارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے۔ انہوں نے جھوٹ کہا ہے، بلکہ وہ نجاست کا دریا ہو گئے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺپر ہیز فرمایا اور غضب کی ہوئی بھیٹر کا بھنا ہوا گوشت نہیں کھایا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امنوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ۔ یعنی اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ، یعنی اس طریقے سے جس کا شریعت نے حکم نہیں دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز اور روزے میں اس طرح زیادتی کا اہتمام نہیں کیا جس طرح کہ رزق حلال میں کیا ہے ۔ ہمارے خواجہ ( نقشبند) فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں ہے ” العِبَادَةَ عَشْرَةَ اجْزَاء تِسْعَةٌ مِنْهَا طَلَبُ الْحِلَالِ “ یعنی خدا تعالی کی عبادت کے دس حصے ہیں ، ان میں سے نو رزق حلال طلب کرنا ہے۔ ( خواجه نقشبند ) فرمایا کرتے تھے، درویش کو عالی ہمت ہونا چاہیے۔ اسے ماسوائے خدا
تعالی سے محبت نہیں رکھنی چاہیے اور واقعات سے مغرور نہ ہو، کیونکہ یہ قبولیت اطاعت کی دلیل نہیں ہے
چو غلام آفتایم همه از آفتاب گویم نه شبم نه شب پرستم که حدیث خواب گویم
ترجمہ جب میں سورج کا غلام ہوں (تو ) سب کچھ سورج سے کہتا ہوں ، نہ رات ہوں اور نہ ہی رات کا پچاری ہوں کہ خواب کی بات کروں۔
اسے قبض اور بسط کا مظہر بننے کی کوشش کرنی چاہیے، ۔ تاکہ اسے وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلا تبصرون کا راز معلوم ہو جائے اور وہ الْقَبْصُ وَالْبَسَطُ فِي الْوَلِيُّ كَالْوَجِي للنبی کے نقطہ کو پالے۔
ہمارے خواجہ ( نقشبند ) فرمایا کرتے تھے ” ہم نے جو کچھ پایا وہ ہمت کی بلندی سے پایا۔ جس وقت انہوں نے اس فقیر کو اپنی کلاہ مبارک دی تو اس وقت فرمایا: اسے محفوظ رکھو اور جس جگہ اسے دیکھوہمیں یاد کرنا اور جب ہمیں یاد کرو گے تو ہمیں پاؤ گے اور اس کی برکت تمھارے خاندان میں رہے گی ۔ ایک دن خواجہ علاء الدین عطار باہر آئے اور میں غمگین تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ افسردہ کیوں ہو؟ میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں ! انہوں نے فرمایا ” اس بات کا کیا مطلب ہے؟“

ما ذات نهاده در صفا تیم همه موصوف صفت سخرہ و ذاتیم همه
تا درصفتیم جمله ما تیم ہمہ چون رفت صفت عین حیا تیم همه
ترجمہ: ہم نے ذات کو مکمل طور پر صفات میں رکھا ہے، ہم موصوف صفت بن کر ذات کے فرمانبردار ہو گئے ہیں ۔ جب تک ہم صفت ہیں، بالکل مردہ ہیں، جب صفت جاتی رہی تو ہم عین حیات ہو گئے
یہ حکیم غزنوی سنائی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ ( حاضرین مجلس میں سے ) ہر آدمی نے اس کے معنی بیان کئے ۔ آخر آپ (خواجہ عطار ) نے بندہ سے پوچھا کہ تم اس بارے میں کیاکہتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ تجلی ذات کی طرف اشارہ ہے، جیسے ( آیت) وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ روحی میں بیان ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے فرمایا: پھر غم کس کا ہے؟“‘ مصرع
جانا تو کجا و ما کجا نیم
ترجمہ: اے محبوب ا تو کہاں اور ہم کہاں ہیں ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے بندہ کوفرمایا: ” جہاں تک ہو سکے اس حدیث پر عمل کرو صل من قطعك واغط من حَرَمَكَ وَاعْفُ عَمَّن ظَلَمَكَ ، کیونکہ اس میں بڑی سعادت ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جو تجھ سے قطع تعلقی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر اور جو تجھے محروم کرے، تو اسے عطا کر اور ظلم کرنے والے سے تو درگزر کر ۔ یہ سب خواہشات نفس کے خلاف ہے اور اس حدیث میں بڑے فائدے ہیں۔
( حضرت خواجہ ) فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں ہے الْفُقْرَاءِ الصُّبْرَهُمْ جُلَسَاءَ الله تعالى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، أَى الْمُقَرَّبُونَ غَايَةَ الْقُرب ” یعنی: صبر کرنے والے فقیر قیامت میں اللہ تبارک و تعالی کے ہمنشین ہیں ، یعنی اس کی رحمت کے انتہائی قریب ہیں ۔ ( حضرت خواجہ ) نے فرمایا ہے کہ فقر دو قسم کا ہے، اختیاری اور اضطراری ۔ اضطراری افضل ہے، کیونکہ اختیاری بندے کی نسبت حق ہے ۔ ( حضرت خواجہ ) فرمایا کرتے تھے کہ ظاہری اور باطنی فقر کے بغیر مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔

حضرت خواجہ علاء الدین رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تمام قرآن مجید نفی وجود کی طرف اشارہ ہے اور متابعت سنت کی حقیقت مخالفت طبیعت ہے۔ جب تک بندہ مقام فنا کو نہ پہنچے ، طبیعت سے چھٹکار ہ مشکل ہے ۔ اس شعر میں اس طرف اشارہ ہے؟
از ان مادر که من زادم دگر باره شدم جفتش ازانم گبر میخوانند که با ما در زنا کر دم
یعنی جس ماں تے میں جنا گیا ہوں ، دوبارہ اس سے جفت ہوا ہوں ، اس وجہ سے مجھے گبر کہتے ہیں کہ میں نے ماں سے زنا کیا ہے۔
اس ماں سے مراد طبیعت ہے۔ بندہ اپنے اختیار کے ترک کر دینے اور جزئیات و کلیات کو خدا کے سپرد کرنے سے مقام بی يَنطِقُ وَبِي يَنصُرُ کو پالیتا ہے۔ اس قول: حَسَنَاتُ الابرار سباتُ المُقربين سے مراد دید طاعت ہے جو ابرار کے نزدیک نیکی اور مقربین کے نزدیک گناہ ہے۔ نظم :
مذہب زاہد غرور اندر غرور مذہب عارف خراب اندر خراب
ترجمہ زاہد کا مذهب غرور ہی غرور ( اور ) عارف کا مذہب خراب ہی خراب ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ راہ چلنے والے (مالک) دو قسم کے ہیں۔ بعض ریاضتیں اور مجاہدے کرتے ہیں اور ان کے نتائج کو طلب کرتے ہیں۔ انہیں یہ نتائج ملتے ہیں اور وہ مقصد کو پالیتے ، ہیں ۔ بعض فضلی ہیں، خدا تعالی کے فضل کے سوا کوئی چیز نہیں دیکھتے اور اطاعت و مجاہدات کی توفیق کو بھی اس کے فضل سے دیکھتے ہیں۔ وہ عمل کو ملاحظہ نہیں کرتے اور اس کے باوجود اسے ترک بھی نہیں کرتے ۔ یہ گروہ بہت جلد مقصود کو پہنچتا ہے الْحَقِيقَةُ تَرَكُ مَلَاحِظَةُ الْعَمَلِ لَا تَرْكُ العمل ۔ پیر ھروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عمل کو مت چھوڑ ، بلکہ اس کو گراں بہا کر ۔
ہمارے خواجہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم فضلی ہیں۔ ہم دوسو آدمی تھے جنھوں نے کوئے طلب میں قدم رکھا۔ حق تعالیٰ کا فضل مجھ پر ہوا۔ یعنی مقام قطب مجھے نصیب ہوا، فرمایا کرتے تھے کہ میں بیس سال سے بفضل الہی مقام بے صفتی سے مشرف ہوا ہوں ۔ جس طرح کہ اس شعر میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے:
ما ذات نهاده در صفاتیم همه موصوف صفت کرہ ذاتیم همه
تا در صفتیم جمله ما تیم همه چون رفت صفت عین حیا تیم همه

ترجمہ: ہم نے ذات کو مکمل طور پر صفات میں رکھا ہے، ہم موصوف صفت بن کر ذات کے فرمانبردار ہو گئے ہیں۔
جب تک ہم صفت ہیں، بالکل مردہ ہیں، جب صفت جاتی رہی تو ہم عین حیات ہو گئے
میں نے خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ سے سنا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خواجہ نقشبند نے فرمایا ہے کہ اس مجذوب سے مراد، جس کا ذکر حضرت خواجہ محمد بن علی حکیم ترمذی نے اپنی بعض تصانیف میں کیا کہ بخارا میں ایک مجذوب پیدا ہوگا ، جسے ولایت نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم سےچار دانگ نصیب ہوگی ۔ وہ میں ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ میں دو مرتبہ حجاز تک گیا، ایسا آدمی نہیں پایا ، جس میں میرے مرتبہ کی قابلیت ہو۔ نیز فرمایا کرتے تھے کہ پہلی آیت میں جو ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ : رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتِي قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنُ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ ليطمئن قلبی ، اس اطمینان قلب سے مراد یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام صفات احیائی کے مظہر ہو جائیں ۔ نیز فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیات الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوااورالا ان أولياء الله لا خوفَ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اس آیت : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الذين إذا ذكر الله وجلتْ قُلُوبُهُمْ کے مخالف نہیں ہیں، کیونکہ ان آیات میں اولیاء اللہ سے خوف و حزن کا دور کرنا وعدہ الوہیت اور حق کی صفت جمالی کی وجہ سے ہے اور اس آیت میں ان کے دلوں کا ڈر جانا ، بشریت اور جلال حق کی وجہ سے ہے اور آیت فَمَن يَكْفُرْ با الطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ میں طاغوت سے مراد ماسوائے حق سبحانہ و تعالی ہے۔ نیز فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا روزہ ماسوا کی نفی ہے اور ہماری نماز کانک تَرَاهُ ہے۔ یہ شعر اس فقیر کو ان سے پہنچے ہیں:
تا روئے تو دیدہ ام اے شمع طراز نے کار کنم نه روزه دارم نہ نماز
تا با تو بوم مجاز من جمله نماز چون بے تو بوم نماز من جملہ مجاز
ترجمہ: اے محبوب! جب تک تیرا چہرہ دیکھتا ہوں، میں نہ کام کرتا ہوں ، نہ روزہ رکھتا ہوں ، نہ نماز پڑھتا ہوں ۔
جب تیرے بغیر ہوتا ہوں تو میری نماز مجاز ہوتی ہے۔ جب تیرے ساتھ ہوتا ہوں تو میرا مجاز سب نماز ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حصول شہود اور مقصد کو پانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جو اطاعت حق سبحانہ وتعالی کے لائق ہے، وہ نہیں بجالائی جاسکتی ، جیسا کہ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ أَيْ مَا عَظَمُوا اللَّهَ حَقَّ عَظْمِةِ سے ظاہر ہے۔ نیز فرمایا کرتے تھے کہ اگر تو بے عیب یار چاہتا ہے تو بے یار رہ اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
بنده حلقه بگوش از ننوازی برود لطف کن لطف که بیگانه شو د حلقه بگوش
ترجمہ: اگر تو نہ نوازے تو حلقہ بگوش غلام بھی ( تجھ سے ) بھاگ جائے گا۔ مہربانی کر،نوازش کر کہ ( یوں ) بیگا نہ بھی تیرا غلام ہو جائے گا۔
نیز فرمایا کرتے تھے کہ اخلاص کی حقیقت فنا کے بعد ہاتھ آتی ہے ۔ جب تک بشریت غالب ہے وہ میسر نہیں ہوتی اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
ساقی قدحی که نیم هستیم مخمورصبوحی الستیم
مارا تو بماممان که تاما با خویشتنیم بت پرستیم
ترجمہ: اے ساقی ایک پیالہ کہ ہم نیم مست ہیں ، ہم الست کی صراحی کے (نشہ میں ) مخمور ہیں تو ہمیں اپنے ساتھ (ہی ) رکھ کہ جب تک ہم اپنے تن کے ساتھ ہیں ( اس وقت تک ) ہم بت پرست ہیں
لك الحمد يا ذا الجلال والإكرام على التوفيق للا تمام وصلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ رَسُولُ الله وعلى آله وأصحابه الكرام وكان زمان اتمامه وقت الظهر يوم الاثنين عاشر شهر رمضان المبارك سنة تسع وتسعمائة
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف مذکور کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہماری اس ادنی کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں ،اور سب مسلمانوں کے لئے اس کو دنیاو آخرت کی صلاح وفلاح کا ذریعہ بنائیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں