رسالہ تہلیلیہ مجدد الف ثانی

رسالہ تہلیلیہ

تعارف

 “حامداً ومصليا على رسول الله”

یہ ر سالہ عربی زبان میں ہے جس کا نام تہلیلیہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا الله محمد رسول اللہ “ کے بارے میں عظیم اور جلیل اسرار کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے، ان حقائق و اسرار سے مصنف شہیر کے فکری وعلمی ، روحانی و وجدانی کمال کا اظہار ہوتا ہے ، اس کا تاریخی نام معارف” لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ ” (1010ھ  ہے یہ اکبراعظم کا دور تھا جب دین اسلام پر “دین الہی‘‘ کے کلہاڑے چل رہے تھے،متعد وعقائدو نظریات کو تبدیل کیا جا رہا تھا جہاں تک کہ اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ کو بھی بدلنے کیا سازش کی گئی محمد رسول اللہ کی جگہ معاذ اللہ اکبر خلیفۃ اللہ کے الفاظ کا حکم نا فذ کیا گیا ۔ ان حالات میں حضور امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ  علیہ نے فاروقی غیرت و حمیت کا ثبوت دیا اور لوگوں کو کلمہ طیبہ کے فضائل ولطائف ،تو حید باری کے دلائل اور وجود باری سے متعلق صوفیہ وفلاسفہ کے افکار و آراء سے آ گاہ فر ما یا اور آخر میں اپنے اہم موضوع یعنی حضور ختم نبوت ﷺکے محامد ومحاسن کو نہایت دلآو یز پیرائے میں تحریر کیا ، نیز قرآن عظیم کے معجزہ نبوت ہونے پر شواہد پیش کئے ،اس رسالہ کی تحقیق و تحریر کے موقع پر آپ کی عمر مبارک چھتیس سال تھی ، جس سے آپ کے علمی رتبہ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ، اس میں آپ کا صوفیا نہ رنگ خوب نکھرا ہے ،حضرت ابوالحسن زید فاروقی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ رسالہ نسبت نقشبندی حاصل ہونے سے پہلے لکھا گیا‘‘ کیونکہ اس میں صوفیہ وجود یہ کے احوال و آثار سے استفادہ کیا گیا ہے، یہ بات زبدة المقامات میں بھی ہے، اگر یہ درست ہے تو اس کا سال تصنیف 1008ھ سے پہلے ہونا چاہئے ،( واللہ علم الصواب) رسالہ تہلیلیہ کے بہت سے مباحث معارف لدنیہ اور مکتوبات شریفہ میں بھی مذکور ہیں ، اس میں آپ نے اپنے رسالہ اثبات النبوۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالہ تہلیلیہ رسالہ اثباۃ النبوۃ  کے بعد تحریر  فرمایا گیا ہے ، ان دونوں رسالوں کی بہت سی چیزیں مشترک بھی ہیں ، مثلادونوں میں حضور سید المرسلین ﷺ کے فضائل و کمالات کا خوبصورت جہان آباد ہے ۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالِمِيْنَ ‌وَالْعَاقِبَةُ ‌لِلْمُتَّقِيْنَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ‌عَلَى ‌رَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْعَالَمِيْنَ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ

  یہ رسالہ کلمہ شریفہ

لااله الا الله محمد رسول الله کی تحقیق میں رقم ہے۔

تقدیر” خبر  لا”کی بحث

 سوال: اگر آپ کہیں کہ خبر لا سے پہلے تقدیر  (کسی لفظ یا کلمہ کا کسی کلام سے محذوف ہونا ، عبارت میں کسی لفظ کے نہ ہونے کے باوجود اس کے معنی لئے جانا)کا مانناضروری ہے تو ایسے عبارت لاالہ موجود الا اللہ ہوگی ، جو دوسرے معبود کے” عدم امکان” کو مفید نہیں ،اگر عبارت ایسے ہولا الہ ممكن الا اللہ تو یہ وجود مستثنی پر دلیل نہیں لہذا یہ دونوںصورتیں ہی غلط ہیں ۔

 جواب: ہم کہتے ہیں کہ ہم صورت اول کو اختیار کرتے ہیں جیسا کہ خبرلا کی تقدیر میں مشہور ہے اور اس کے غلط نتیجے کو باطل قرار دیتے ہیں ، کیونکہ دوسرے خدا کا موجود ہو ناممکن نہیں اور یہ ضروری ہے کہ ہم یہ عقید رکھیں لیکن یہ لازم نہیں  کر کلمہ توحید ہی اس طرح کی ہر بات پر دلالت کرے ، البتہ اتنا جائز ہے کہ یہ اس پر کافی ہے ،اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں ، یہی اس کا مقصد ہے اور یہ اس مطلب میں نہایت عمدہ ہے ۔

سوال: اگر آپ کہیں بنو تمیم کی زبان کے مطابق لاکوخبر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ابن الحاجب سے منقول ہے ، وہ اس کوخبر نہیں مانتے ۔

 جواب: ہم کہتے ہیں کہ یہ بات محققین کے نزد یک ’’غیر معتمد“ ہے حتی کہ اندلسی نے کہا’’ لا ادري من اين نقله ولعل مقالته ‘‘  ’’میں نہیں جانتا کہ یہ کہاں سے لی گئی ہے، ہوسکتا ہے یہ اس کا قیاس ہو“

حق یہ ہے کہ بنو تمیم اس کو اس وقت چھوڑ تے ہیں جب یہ کسی سوال کا جواب ہواور جب کوئی قرینہ اس پر دلالت کرتا ہو، جب کوئی قرینہ نہ ہو تو اس کے خلاف قطعاً جائز نہیں ، پھر اس صورت میں تو بالکل جائز نہیں ہوسکتا جب اس پر دلیل بھی نہ ہو، (واللہ اعلم )

  لفظ اللہ کی تحقیق میں تحیر عقلاء کا راز :

السید السند نے الکشاف کے حواشی میں فرمایا:

’’ جس طرح عقلاء اللہ تعالی کی ذات وصفات میں عظمت و جبروت کے انوار کی بدولت حیرت زدہ ہیں اس طرح لفظ اللہ میں حیرت زدہ ہیں ، گو یا اس کی طرف بھی ان انوار کی کر نیں عکس اندازہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہیں ، چنانچہ ان میں اختلاف ہوا کہ لفظ اللہ عبری (سریانی)ہے ، کہ عربی ، اسم ہے کہ صفت ، یہ کسی اصل سے مشتق ہے اور غیر مشتق ہے تو کیا ہے عَلَم  ہے یا غیر  عَلَم ؟

 اس میں کئی اقوال میں ہے کہا گیا ہے کہ اس کی اصل الہ ہے ، ہمزہ محذوف ہے ، اس کی جگہ الف اور لام آ گئے ،اس لئے قطع کر کے یآاللہ کہا گیا ہے اگر آپ کا موقف ہو کہ کیا وجہ ہے کہ صورت ندا میں ہمزہ قطعی ہوگا اوربصورت دیگر اصلی ، ہم کہتے ہیں کہ صورت ندا میں ہمزہ ، الف لام معرفہ کے عوض قطعی ہوگا ، اور بصورت دیگر یہ مفہوم اس سے بالکلیہ خارج نہیں ہوتا لہذ امعنا معرفہ ہوگا اس کو خوب جانئے ، لفظ اللہ بالحق معبود ساتھ مخصوص ہے ، کیونکہ اللہ اصل میں ہر معبود کو کہا جا سکتا ہے ، وہ حق ہو یا یاطل ، پھر یہ غالب طور پر معبود برحق کے لئے بولا جانے لگا۔

 اور کہا گیا ہے کہ اس کی اصل اَلْاِ لٰہَ ہے، ہمزہ اپنی ثقالت کی وجہ سے محذوف ہوا اور لام شامل ہوا۔

 اور کہا گیا ہے کہ اس کی اصل الاهیۃ والوهية واُلوهية ہے یعنی ، عبد بمعنی تعبد اور تاله و استاله، بھی اسی سے مشتق ہیں( یعنی اس نے عبادت کی ہے )

 اور کہا گیا ہے،اَلِہَ سے ہے، جب حیران رہ جاۓ ، گو یا عقول اس کی معرفت  میں حیران ہیں ، یا اَلْھِتُ الی فلان سے ہے، اس کا مطلب ہے کے اس کی جانب سے سکون نصیب ہوا،تو بے شک ارواح اس کی معرفت سے تسکین لیتی ہیں ۔

 اور کہا گیا ہے کہ وہ اس کی ذات مخصوصہ کیلئے عَلَم ہے، گو یا جامد ہے ،اس کیلئے کوئی اشتقاق نہیں کہ اس کی توصیف کی جاتی ہے ، اس کے ساتھ تعریف نہیں تو یہ ضروری ہوا کہ اس کا کوئی اسم گرامی ہو جو اس کی صفات کا ملہ کی پہچان ہو کہ اس کے علاوہ کسی اور لفظ کا اطلاق اس پر صحیح  نہ ہو ، اگر اسے صفت مانا جائے تو قول لَا ‌إِلٰهَ ‌إِلَّا ‌اللہ ، تو حید نہیں جیسا کہ لا اله الا الرحمن نہیں ہے کہ اس سے شرک نہیں رکتا۔

 یہ بات محل نظر ہے کہ دلائل مذکورہ ثبوت مطلب پر دلالت نہیں کر تے کیونکہ دلیل اول’’ نفی وصفیت‘‘ پر دلالت کرتی ہے نہ کہ ثبوت علمیہ پر ، جبکہ اجناس کے اسمااور لفظ ’’ الشی‘‘ ایک طرح ہیں اور دلیل ثانی ثبوت علمیہ پر دلالت نہیں کرتی جیسا کہ پوشیدہ نہیں اور دلیل ثالث اس لئے درست نہیں کہ ممکن ہے ’’ اوصاف غالبہ‘‘ میں سے ہو ، دوسرے کیلئے مستعمل نہ ہو اور شرکت غیر کو مانع ہولیکن اس کے باوجو دعلم بھی نہ ہو اور لا الہ الا الرحمن تو حید کیلئے کیوں مفید نہیں ، لفظ رحمن کا اطلاق بھی غیر خدا پر نہیں ہوتا اور خدا کے سوا کسی کی اس کے ساتھ تعریف نہیں کی جاتی ، یہ عَلَم کی مانند ہے جو’’ شرک‘‘ کو روکتا ہے ، جیسا کہ تم دیکھتے ہولہذ ااس پر غور کر نا چا ہئے ۔

قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی ذات مخصوصہ کیلئے علم سے روکا ہے کہ اس کی ذات ایسی ہے جو ہر اعتبار سے حقیقی اور انسان کی عقل سے بالا ہے ، لہذا ایک لفظ کا اس پر دلالت کرنا ناممکن ہے، یہ بھی محل نظر ہے کیونکہ  محض یہ وجہ قابل قبول نہیں کہ اس لفظ اللہ کو مقرر کر نے والا وہ خود سبحانہ وتعالی ہے ، جیسا کہ پوشیدہ نہیں ۔ اگر آپ کہیں کہ بے شک کسی شے کا علم ایک طریقے سے حاصل ہو تو اس علم سے مغائر ہوگا جو دوسرے طریقے سے حاصل ہو، یہ علماۓ کثیر کا قول مختار ہے ،پھر اس طرح جائز ہے کہ اس کی ذات مشخصہ‘‘ کوکسی طریقے سے جانا جائے جیسا کہ واجب بالذات اور معبود بالحق ، وہ لفظ اللہ ذات معلومہ کیلئے اس لئے مقرر فرماتا ہے کہ یہ لفظ اس پر دلالت کرتا ہے ۔

ہم کہتے ہیں کہ اس جگہ خصوصیت ذات کی وجہ سے علم ضروری ہے کہ وہ لفظ مانع شرک ہو ،ورنہ کسی چیز کا عام علم اورکلی مفہوم اس مطلب کیلئے کفایت نہیں کرتا یہاں تامل ضروری ہے کہ یہ پیچیدہ مسئلہ ہے۔ واللہ المستعان

لفظ جلالت میں لطائف عجیبہ

 بعض محققین نے لفظ اللہ کے لطائف میں فرمایا ہے اگر اس کا تلفظ ہمزہ کے ساتھ نہ ہو، یعنی للہ ہو،  تو بھی بامعنی ہے لِلَّهِ ‌جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ، اللہ کیلئےہیں زمینوں اور آسمانوں کے لشکر ،اگر لام باقیہ چھوڑ دیا جاۓ تو باقی’’ ہاۓ مضمومہ ہوگی جوھو سے ہے، ( تو بھی با معنی ہے) لا الـه الاهـو ، اس میں واو زائدہ ہے، اس کی سقوط میں ھما اور ہم رہ جاتے ہیں ، اس میں تامل ہے جیسا کہ عربی میں ادنی درایت رکھنے والے پر بھی پوشیدہ نہیں ، اب رہا معنی کے حساب سے تو آپ اس کو لفظ ’اللہ کے ساتھ پکاریں گے تو ایسے ہے جیسے آپ نے اسے تمام صفات کے ساتھ پکارا ، بخلاف دوسرے تمام اسماء کے ،لہذ ا فقط اس لفظ سے کلمہ کی شہادت زیادہ درست ہے۔

وحدانیت کی دلیل :

اس ذات سبحانہ کے واحد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر دو قدرت والے خدا ہوتے تو مقدورات کی نسبت دونوں کی طرف یکساں ہوتی ، کیونکہ علت قدرت اور علت مقدوریت دونوں میں پائی جاتی ہیں اس سے لازم ہوا کہ وہ مقد ور معین دونوں کی قدرت سے ہوتا اور یہ محال ہے کیونکہ مقدور واحد پر دومستقل قد رتوں کا وارد ہو نا ممکن نہیں اور دونوں میں سے ایک ایسا کرے تو بھی محال ہے کہ اس سے ترجیح بلا مرجع لازم آتی ہے، پس حاصل ہوا کہ متعدد خداؤں کو تسلیم کرنے سے ممکنات کی کسی چیز کا وجود صحیح نہیں رہتا کیونکہ مذکورہ دونوں محالات میں سے ایک محال کو اختیار کرنا ہوگا اور محال کا التزام بھی محال ہوتا ہے، جیسا کہ پوشیدہ نہیں اس پر یہ بر ہان حق دلیل کافی ہے، لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ ‌لَفَسَدَتَا اگرز مین و آسمان میں اللہ کے سوا اور معبود ہو تے تو فساد بر پا ہوتا ، اس مطلب کے اثبات کیلئے یہ دلیل مشہور ہے جو بیان سے بے نیاز ہے ۔

حکما نے کہا ہے کہ اگر واجب الوجود دو ہوتے تو ان کے نزدیک ثابت ہوسکتا ہے کہ وجوب کے نفس ماہیت میں تمایز ہے، اس سے ان کا مرکب ہونا لازم آتا ہے اور یہ محال ہے، کیونکہ مرکب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی واجب الوجود نہ ہو،ترکیب ، وجوب کے منافی ہے، جبکہ فرض اس کے خلاف کیا تھا ،شرح مواقف میں درج ہے کہ اس مسئلہ میں وثنیہ اور ثنو یہ(دو خالق کا عقیدہ رکھنے والے) کے علاوہ کوئی مخالف نہیں ، وہ دوالہٰوں کے وجود کو واجبی نہیں کہتے اور نہ بتوں کو صفات الہیہ سے متصف کرتے ہیں ، اگرچہ ان پر’’اسم الہ‘‘ کا اطلاق کر تے ہیں ، بلکہ انہوں نے نبیوں ، زاہدوں ،فرشتوں اور ستاروں کی تماثیل تراش لیں اور عبادت کی غرض سے ان کی تنظیم میں مشغول ہو گئے تا کہ ان تماثیل کے ذریعے وہ معبود حقیقی تک رسائی حاصل کر سکیں ۔

کلمہ طیبہ کے فضائل :

اور لیجئے اب اس کلمہ شریفہ کے فضائل جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں

 بخاری ومسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ  عنہ  سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے بھی صدق دل سے گواہی دی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ اس پر اللہ نے آگ حرام کر دی ۔

. بخاری ومسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ  عنہ   سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس بندے نے کہا لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌الله اور اسی پر فوت ہوا، وہ جنت میں داخل ہوا، میں نے عرض کیا ، اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے؟ فر ما یا : اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے، میں نے عرض کیا ، اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے؟ فرمایا اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے، میں نے عرض کیا ، اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے؟ فرمایا ابوذر کی ناک خاک آلودہ ہوا ، گر چہ وہ زنا اور چوری کرے ۔

وہ عطا پر عطا ہی کرتے ہیں                  گوخطا پر خطا کرے کوئی

  مسلم نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ  عنہ   سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا جس نے گواہی  دی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ وانَّ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ، اللہ نے اس پرآگ کو حرام کر دیا ۔ مسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ  عنہ   سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوفوت ہوا اور جا نتا تھا کہ لا اله الا الله وہ جنت میں داخل ہوا۔

احمد نے حضرت معاذ رضی اللہ  عنہ   سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت کی چابیاں یہ شہادت ہے لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللہ ۔

 ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت جابر رضی اللہ  عنہ    سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: افضل الذكر لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللہ ہے اور افضل الدعاالحمد اللہ ہے۔

 شرح السنہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ  عنہ    سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت موسی علیہ نے عرض کی ، مولا مجھے ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ تیرا ذکر کروں اور جس کے ساتھ تیرے حضور دعا کروں ،فرمایا: اے موسی لاا اله الا اللہ کہا کر و، عرض کیا مولا یہ تو ہر بندہ کہتا ہے ، میں کوئی مخصوص چیز چاہتا ہوں ، فرمایا: اے موسی ! اگر ساتوں آسمان اور ان میں میرے سوا تمام بسنے والے اور ساتوں زمینیں ایک طرف ہوں اور لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللہ ایک طرف تو لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللہ والا پلڑ ا وزنی ر ہے گا ۔

 مفسرین نے قول سبحانه إِلَيْهِ ‌يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد کلمات تو حید لا اله الا اللہ ہیں اور وہ لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ ‌صَوَابًاکے ضمن میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد درست قول ہے اور وہ ہے شفاعت کر نےوالاقول لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللہ جو دنیا میں کہا تھا ۔

عوام کی توحید اور خواص کی توحید :

 جان لو کہ اہل اسلام میں عوام کی توحید یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کا انکارکیا جاۓ کہ واجب لذاتہ وہی ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، اس پر نجات اخروی اور سعادت ابدی کا مدار ہے اور ظاہر میں تمام انبیاء کرام نے یہی تبلیغ فرمائی اور صوفیہ جو کہ اللہ والے ، کشف والے ،مشکوۃ نبوت سے اقتباس کر نے والے ، جو زمین کے اوتاد ہیں ، جن کی برکات سے اہل زمین کی طرف رحمت نازل ہوتی ہے اور جن کے صدقے ان کو بارش دی جاتی ہے ، رزق دیا جا تا ہے، جووہ قوم ہیں جن کا ساتھی کبھی شقی نہیں ہوتا ،ان کی تو حید اس سے عبارت ہے کہ وجود میں اس کے شریک کی نفی کی جاۓ کہ ان کے نزدیک اس کے سوا کوئی موجود نہیں ، وہ مطلق تھا اور اس کے ساتھ کوئی کون وقید نہیں تھی اور وہ اب بھی مطلق ہے اور جس کو عالم ، غیر و ماسوایا مقید کہا جا تا ہے ، وہ محض دکھاوا ہے ،انتقاش (نقش ،شکل)ہے ، جیسا کہ عارف نے کہا ۔

دوئی را نیست رہ  در حضرت تو        ہمہ عالم توئی و قدرت تو

حضرت شیخ صدر الدین قونوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے النصوص میں فرمایا کہ وجود واحد میں بڑے شبہات وحجابات اور تعد دات واقعہ وہی ہیں جن کو اعیان ثابتہ کے آثار کہتے ہیں ،ان سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اعیان ثابت بھی وجود میں بالوجود ظاہر ہیں ، جو آثار اس میں ظاہر ہوۓ تو وہ ظاہر نہیں ہوئے اور کبھی نہیں ہو سکتے کہ ان کی ذات میں ظہور کا حوصلہ نہیں ۔

 ہمارے شیخ والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ نے رسالہ کنز الحقاق میں فرمایا کہ یہ قید عالم محض دکھاوا ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی صناعی سے جس نے ہر چیز کو ٹھہرایا ہے لہذایہ موجود حقیقی کے نمائندہ کا حکم رکھتا ہے اور اس پر دنیوی و اخروی احکام کا ترتب ہے، جیسا کہ کتاب وسنت سے منطوق ہے ، پس یہ ابدی بن گیا ہے کہ کسی کے زوال دینے سے زوال پذیر نہ ہو گا ماسوا اس کے جس نے اسے اثر بقا دیا ہے، اس لئے اس کو مراتب وجود عطا کئے اور ہرگز یہ قید عالم نفس الامر(اعیان ثابتہ یعنی صور علمیہ) میں موجود حقیقی نہیں ، بلکہ معدوم محض ہے الا عيـان مـاشـمـت رائحة الوجود اعیان نے وجود کی بو تک نہیں سونگھی اور موجودحقیقی اللہ واحد قہار کے سوا کوئی نہیں ، اس لئے وجودمرتبت تنزل سے موسوم ہے، اللہ سبحانہ کے لیے نہ تنزل ہے اور نہ ترقی ، و وتو ہر قید سے پاک ہےحتی کہ ا طلاق کی قید سے بھی متعلق الوجودمراتب احکام کے لیےجامع ہے لیکن ہر مرتبہ  کیلئے احکام مختص ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ جو ان کی حفاظت نہیں کرتا ۔ زندیق ہے ، لہذا اس نے ان کے بیان و حفاظت کیلئے کتابوں کو نازل فرما یا ااور رسولوں کو ارسال کیا ،اس مطلب شریف کے ادراک کے لیے صوفیہ کرام کے پاس وجدان صحیح اور مکاشفات حقانی کی شان ہے ،انہوں نے فرمایا کہ ہمارے لئے کشف وعیان سے ظاہر ہوا کہ اللہ سبحانہ کا وجود عین ذات ہے اور اسی کےسواحققیتاکوئی موجود نہیں اور تمام اشیاء شیون و اعتبارات سے اس کی ذات کے ساتھ لاحق ہیں۔ حقیقی وجود اللہ سبحانہ کا ہے جو اپنی ذات سے قائم ہے ، وجود اور موجود ایک ساتھ۔ ہیں ،لان مـعـنـى الـمـوجود ما قام به الوجود ، کہ موجود کا معنی ہے تو وجود کے ساتھ قائم ہو، یہ برابر ہے کہ یہ قیام صفت بالموصوف کی قبیل سے ہوشے کا قیام بنفسہ ہو، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت و جو دوہی ہے جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہونہ کہ جو غیر کے وصف سے قائم ہو، پس مناسب نہیں کہ اس کا غیر اصلا موجود ہو لہذا مرتبہ وجود میں نہج کمال پر ممکن اور واجب میں تفاوت اور تباعدہ ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ ذات سبحانہ عین وجودہ ہے اور ذات ممکن عین وجودہ نہیں، وواپنے وجود سے متصف اور اپنے وجود کیلئے معروض نہیں، بلکہ ممکن تو وجود کیساتھ نسبت حاصلہ کے سبب نظر آتا ہے، گویا وجود ممکنات کا موجود ہونا اس نسبت خاص سے عبارت ہے جو اسے اس قائم بالذات وجود سے ہے ، ہاں یہ نہیں ہوسکتا اس کا وجودان ممکنات سے قائم ہو مثلا لوہار اس شخص کو کہتے کہ لوہا جس کی صنعت کا مصنوع ہو ، اس کولو ہے سے نسبت خاص ہو نہ کہ لوہا اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو، یا شمس کی طرح کہ اس پانی کو کہتے ہیں جس نے سورج کے ساتھ نسبت خاص حاصل کی اور اس کے محاذات سےوہ تپش لیتاہے ، پس عالم مر تبہ وجود میں مرتبہ وجود حق  سے بہت ہی نیچے ہے، تراب کا رب ا لارباب سے کیا مقابلہ مطلق بے نیازی اور کمالات صوری ومعنوی حق سبحانہ کیئے ثابت ہیں وہی عین  وجود اور اصل کمالات ہے ۔

ولو وجهها من وجهها قمر               ولعینها من عینھا کحل

چاند اس کے رخ روشن سے روشن ہے اور آنکھ اس کی آنکھ سے سرمگیں ہے۔

مخلوق میں ذاتی طور پر ذلت اور احتیاج ہے کہ حقیقت میں اس کا وجود و نمودنہیں ، بلکہ وہ تو وجو دحق سبحانہ کا عکس ہے جو اعیان کے شیشوں میں اور اس کی جلوہ گاہوں میں ظاہر ہوا ، وہ ان کے معدوم پر باقی ہے ، جیسے پانی ، برتن کے رنگ کے ظہور کے سامنے ، اس میں عدم رنگ پر بقا ہے ، وہ اس کے غیر کا رنگ ہے،اس کا اپنا کوئی رنگ نہیں ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  سے توحید کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: لون السماء لون اناء ه ، پانی کا رنگ اس کے برتن کا رنگ ہے ، یعنی بے شک وجوداور کمالات جواعیان میں ظاہر ہوۓ ، وہ نہیں مگر حق کیلئے اور اصلا اعیان نے تو وجود کی بو تک نہیں سوکھی ، پس عالم ان اعیان سے عبارت ہے جو حق سبحانہ کی تجلی کا واسطہ تصور کی جاتی ہیں ، جن میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے ،سوتمام نظام عالم اس وجود ظاہر اور اس اعدام کے ساتھ ہے، كما قال العراقي

روز وشب با هم آشتی کردند                کار عالم ازاں گرفت نظام

دن رات میں جو باہم رابطہ ہے اس سے کار عالم کا نظام قائم ہے ، یعنی وجود و عدم کے اختلاط کے واسطہ اور امتزاج سے نظام ہستی ہے ، شیخ العارف عبدالقدوس حنفی اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں

 حقیقت میں ہستی مطلق کی سبحانہ ہے ، مگر حجاب والوں کی آنکھ میں لباس کونی نے خاک ڈال دی ہے اور ان کو دور اور مہجور کر دیا ہے گویا اس سبحانہ کا اعیان ثابتہ کی صفات کے ساتھ ظہور اور عارضی احکام کے ساتھ انصباغ(رنگا ہوا) ہی حجاب والوں کے ادراک کے انتخاب کا سبب ہواور نہ حق سبحانہ کے سوا ظاہر،مرئی اور مشہو دکوئی نہیں ۔

 شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ  نے فرمایا

ان صوفیہ میں سے کسی نے کہا”الحق محسوس والخلق معقول “حق تعالی محسوس ہے اور خلق معقول ہے ۔ وہ سبحان ہے کہ شدت ظہور سے پوشیدہ ہوا۔ غایت قرب سے دور ہوا، اور  ادراک  کا ادراک بھی مفقود ہے اس لئے نہ پہچانا گیا۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ معمولی ادراک بھی نہ ہو، وہ تو ہر فرد کو ہے اور ان سے اس کا اصلا عدم افکاک ہے، پس انبیاء کرام علیہم السلام  کی بعثت اور تکالیف شاقہ اس ادراک الادراک کی تحصیل کیلئے ہیں ۔

فلاسفہ کا مذہب

 یادر ہے کہ حکما ءصوفیہ کے ساتھ اس میں موافق ہیں کہ وجـود الـحـق سبحانه عین ذاته حق تعالیٰ کا وجودعین ذات ہے اور وجود غیر اس قائم وواجب بالذات کے وجود کی نسبت خاص سے عبارت ہے ، یہ نہیں کہ وجود اس کا وصف ہو اور اس سے قائم ہو، جیسا کہ لوہار اور شمس کی مثا لیں دی گئیں فلاسفہ نے واجب تعالی کے وجود کے عین ذات ہونے  پردووجہوں سے استدلال کیا ہے۔

پہلی وجہ

اگر اس کا وجود اس کی ذات پر زائد ہوتو اسے اتصاف وجود کیلئے کسی علت کی احتیاج ہوگی ا گراتصاف کیلئے علت ہوا گر چہ اس کی ذات ہوتو اتصاف ذات کا وجود سے تقدم لازم آئے گا اور اتصاف بالوجود میں اس کی تا ثیر ہو گی کہ یہ ضرورت عقل کا محاکمہ ہے ، بان الا یجا دفرع الوجود یعنی ایجا دو جودکی  فرع ہے اور اگر وجود سابق ہو اورعین وجود لاحق ہو تو اپنے نفس پر شے کا تقد م لا زم آئے گا اگر لاحق ہونے والا غیر ہوتو ہم ا s غیر سے اس کے اتصاف پر کلام کریں گے، جہاں تک کہ وجود میں تسلسل لازم آئے گاپس  انتہاء اس  وجود پر ہوگی جو عین ذات ہے لیکن شے واحد کے وجود میں تعدد کا ہونامحال ہے جیسا کہ فطرت سلیم بھی اس پر گواہ ہے۔

دوسری وجہ

جو چیز وجود میں آتی ہے تو وجوداسی کی ذات کی طرف دیکھنے سے مسلوب عنہ ہے۔ یعنی پوشیدہ ہے، یہ بات جمہور میں مشہور ہے، اس کی ماہیت ایک ہی جیسی ہوتی ہے ، امور عارضہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور اس کے وجود کا ثبوت اس کی ذات سے نہیں ہوا جیسا کہ گزرا الایجـاد فرع الوجود  پس یہ  صحیح نہیں کہ  ذات جیسی کہ وہ ہے ، بغیر شرط وجود کے موجد ہو، یہ ایک ہی بات ہے کہ وہ اپنے آپ موجد ہے یا اپنے غیر کی موجد لہذا یہی ہے کہ واجب تعالی  کی حقیقت  ایک وجود  متا کد( ضروری) ہے، جو اپنی ذات کے ساتھ قائم  ہو  اس کا وجود ہونا اور موجودہونا ایک ساتھ ہے، جیسا کہ بیان کیا گیا۔

کلمہ طیبہ کا دوسرا حصہ

محمد اللہ کے رسول ہیں اولا دآدم کےسردارہیں قیامت کے دن آپ کی اتباع کرنے والے دوسرے نبیوں کے تابعداروں سے زیادہ ہوں گے ، اور اللہ تعالی کے ہاں آپ اولین و آخرین سے افضل ہیں سب سے پہلے آپ کامزار پر انوار شق ہوگا اور پہلے شفاعت کریں گے، آپ کی شفاعت قبول ہوگی۔ آپ سب سے پہلے جنت کے دروازہ پر دستک دیں گے، آپ کیلئے اللہ اس کو کھول دے گا قیامت کے دن پرچم حمد کواٹھا ئیں گے جس کے نیچے آدم  اور سب انبیا کرام علیہم  ہوں گے، آپ نے فرمایا ہم آخری ہیں اور ہم  قیامت کے پہلے ہونگے، میرا یہ قول فخریہ نہیں میں  رسولوں کا سالار ہوں   کوئی فخر نہیں ، میں نبیوں کا خاتم ہوں ، کوئی فخر نہیں ، میں لوگوں کا اول ہوں جب وہ اٹھیں گے ، میں لوگوں کا قائد ہوں ، جب وہ وفد بنیں گے، میں لوگوں کا خطیب ہوں ، جب وہ خاموش ہوں گے ، میں لوگوں کا شفیع ہوں ، جب وہ روک دیئے جائیں گے، میں لوگوں کا مبشر ہوں ، جب وہ مایوس ہوں گے ، بزرگی اور چابیاں اس دن میرے ہاتھ میں ہوں گی ، میں اپنے رب کے ہاں اولادآدم کا بزرگ ہوں ،میرے گرد ہزار خادم طواف کر رہے ہوں گے ، جیسے سفید انڈے یا بکھرے موتی ، جب روز قیامت ہوگا میں نبیوں کا امام ، خطیب اور ان کی شفاعت والا ہوں گا ، اس پر کوئی فخر نہیں ، اگر حضور سر اپا نور ﷺنہ ہوتے تو اللہ تعالی مخلوق کو پیدا نہ کرتا اور نہ اپنی ربوبیت کو ظاہر کرتا اور وہ اس وقت بھی نبی تھے جب آدم علیہ السلام  مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔

نبوت کی دلیل :

حضور سراپا نور ﷺ کی نبوت کے اثبات کیلئے جمہور کے نزدیک یہ دلیل معول ہے کہ حضور ﷺ نے نبوت کا دعوی فرمایا اور ان کے ہاتھ پرمعجزات کا ظہور ہوا ، جویہ خصوصیت رکھتا ہو وہ نبی ہے اور آپ کا دعوی نبوت کر نا تواتر سے ثابت ہے اور ایسے ہی آپ سے صدور معجزات ہوا اور قرآن پاک بھی آپ کا معجزہ ہے، قرآن پاک اس لئے معجزہ ہے کہ حضور ﷺ نے اس کے مقابلہ کی دعوت دی اور عرب کے فصحا ءو بلغاء کو کہا کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنالاؤ ، وہ کثیر التعداد تھے اور غایت عصبیت اور حمیت و جہالیت کے باوجود بھی اس جیسی ایک چھوٹی سورت بنانے سے بھی عاجز آ گئے ، جہاں تک کہ انہوں نے قلمی معارضت کی بجائے سیفی مقارعت(تلوار کی گونج) کو ترجیح دی ، اگر وہ قلمی مقابلہ کر سکتے تو ضرور کرتے اور اگر کر تے تو ہم تک تواتر سے منقول ہوتا ،اس کونقل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جیسا کہ خطیب منبر پر بیان کرتا ہے اور اس طریقے سے ضرورت عادیہ کے مطابق علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ حس کی طرح عادت بھی حصول علم کا طریقہ ہے۔

 جو شخص نبوت کا دعوی کرے اور معجزے ظاہر کرے وہ نبی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ عادت جاری کی کہ مخلوق میں مدعی نبوت کی سچائی کاعلم پیدا کیا جب اس کے ہاتھ پر معجزے کا ظہور ہو، کیونکہ کاذب کے ہاتھ پر معجزے کا ظہور نہیں ہوسکتا ، مثلا کوئی کہے کہ میں نبی ہوں ، پھر پہاڑ کوا ٹھا کر لوگوں کے سروں پر کھڑا کر دے اور کہے اگر تم مجھے جھٹلاؤ گے تو یہ تم پر گر پڑے گا ، اگر میری تصدیق کرو گے تو یہ تم سےہٹ جاۓ گا ، پھر جب وہ تصدیق کرنا چاہیں تو ان سے ہٹ جاۓ اور جب تکذیب کر نا چاہیں تو ان کے قریب آ جاۓ ، اس سے ضروری علم حاصل ہوگا کہ وہ صادق ہے اور عادت بھی یہی فیصلہ دیتی ہے کہ کا ذب یہ کام نہیں کر سکتا۔ لوگوں نے یہ مثال بھی دی ہے کہ جب کوئی آدمی بادشاہ کے دربار میں ہجوم غفیر کے سامنے کہے کہ وہ اس بادشاہ کا تمہاری طرف رسول ہے، وہ دلیل مانگیں تو کہے کہ اگر بادشاہ اپنی عادت کے خلاف اٹھ کر ایسے مقام پر جا بیٹھے جہاں بیٹھنے کی اسے عادت نہیں ، تو یہ اس کی تصدیق ہو گی اور اس کی سچائی کے علم ضروری کیلئے فائدہ مند ہو گی ، اس مثال کا یہ مطلب نہیں کہ غائب کو موجود پر قیاس کر لیا ہے، ہمارا دعوی تو یہ ہے کہ بے شک ظہور معجزہ ،علم ضروری کوسچائی کے ساتھ مفید ہے اور اس کا علم اس کیلئے مفید ہے ،ضرورت عادی کے ساتھ معلوم ہے ، یہ مثال تفہیم کیلئے اور زیادت تقریر کیلئے ہے ، اس پر جوسوالات وارد ہوۓ اور ان کے جوابات دیئے گئے وہ سب( کتابوں میں) مذکور ہیں، ہم نے اپنے رسالہ اثباۃ النبوةمیں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے۔

اس کے سوا جو معجزات ہیں وہ اپنی تفاصیل کے ساتھ متواتر نہیں لیکن ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان کا ثبوت معجزہ متواتر ہے، بلاشبہ جیسا کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ  کی شجاعت اور حاتم کی سخاوت ، وہ ہمیں اثبات مطلب کیلئے کافی ہے، اس پر حضور پرنور ﷺ کے احوال سے استدلال ہوسکتا ہے خواہ وہ اعلان نبوت سے   پہلے اور بعد میں کبھی کسی فعل قبیح  کی طرف قدم نہ اٹھانا ، امی ہونے کے باوجود کمال فصاحت کا اظہار کرنا تبلیغ رسالت میں مختلف مشقتوں کا برداشت کر ناحتی کہ فرمایا ، کسی نبی کو اتنی تکلیفیں نہیں دی گئیں جتنی مجھے اور عز یمت میں کوئی لغزش نہ آنا ، پھر جب دونوں پر غلبہ حاصل کیا اور ان کی جانوں اور مالوں میں حکم نافذ کرنے کا رتبہ ملا تو بھی پہلی حالت میں تبد یلی نہ آ نا بلکہ آپ شروع سے آخر تک ایک ہی طریقہ مرضیہ پر گامزن رہے ، امت پر بے حد درجہ شفقت فرمانا ، یہاں تک کہ خدا تعالی نے فرمایا

فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ ‌حَسَرَاتٍ محبوب! ان کی پریشانیوں میں تمہاری جان نہ چلی جاۓ اور آپ کا انتہائی سخی ہونا کہ آپ کو یوں فرمایا گیا’ وَلَا ‌تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ ان ہاتھوں کو اس طرح نہ کھول دو اور دنیوی زیبائشوں کی طرف عدم التفات ، فقراء مساکین کے ساتھ غایت تواضع ، اغنیا کے ساتھ غایت ترفع ، دونوں کے مقابلہ میں استقلال اور ہرگز خوفزدہ نہ ہونا، جیسا کہ یوم احد و احزاب کے موقع پر دیکھا گیا ، یہ آپ کی قوت قلبی اور اولوالعزمی کی دلیل ہے ،ایسا ہرگز نہ ہوتا اگر آپ کو اللہ تعالی کی عصمت پر یقین نہ ہوتا ،جیسا کہ اس نے آپ سے دعد وفر مایا وَاللَّهُ ‌يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچاتا ہے، یہ بطور عادت نہ ہوتا حضور سراپا نور ﷺ کےحال میں تلوین  نہیں  جبکہ دوسروں کے حال میں تلوین آگئی، یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضور سراپا نور ﷺ نبوت کے اعلی درجات پر فائز ہیں ،

یہ کسی مصنف مزاج عقلمند سے پوشیدہ نہیں۔

رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا ‌رَشَدًا رسالہ اختتام کو پہنچتا ہے ، اللہ تعالی کیلئے ہی تعریف ہے اول و آخراوراسی کیلئے حکم اور تم اس کی طرف لوٹ جاؤ گے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں