رسالہ قدسیہ خواجہ محمد پارسا

رسالہ قدسیہ

بے حد و حساب حمدوثناء اور بے انداز وقیاس شکر و سپاس اس بادشاہ  جل ذکرہ کے لئے زیبا ہے کہ جس کے طالبانِ وصال اور مشتاقانِ جمال اس کی ذات اور وجود کی دلیل ہے اور اس کے شہود کی دلیل اسی کا شہود ہے

تو بدو بشناس او را نہ بہ خود                راه از و خیزد بدو نی از خرد

اس کی معرفت تو اس کی ذات سے ہو سکتی ہے اپنے آپ سے اس کی شناخت کرنے کی کوشش نہ کرو اس کا راستہ تو اسی سے ملتا ہے عقل خرد سے نہیں ملتا

تلطفت باولیائک  نعرفوک               ولو تلطفت باعدائک  لما سجدوک

اور بلند مرتبہ درود پاک اور تواتر کے ساتھ صلاۃ و سلام حضرت سیدیﷺ فدا ہ امی وابی کو پہنچے یہ تمام انبیاء کے سچے پیشوا اور تمام اصفیا کے رہنمائے مطلق ہیں

خواجہ کونین وسلطان ہمہ    آفتاب جان  وایمان ہمہ

وہ دو جہاں کے شہنشاہ ہیں اور تمام لوگوں کے سلطان ہیں اور ہمارے ایمان اور جان کے آفتاب ہیں ۔

آپ کے آل و اصحاب خلفاء اور احباب کے ساتھ ساتھ آپ کے محبان اور متابعان  کے لئے بھی درود ہو اجمعین الی یوم الدین۔

 اما بعد یہ چند کلمات انفاس نفیسہ اور الفاظ متبرکہ حضرت گرامی قدر جناب شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیے جا رہے ہیں آپ کی ذات والا صفات ارشاد و ہدایت کی مسند کی صدر نشین ہے ولایت کے خصائص اور تعریفات کی جامع ہے آپ زمانے کے  ملاذی(پناہ گاہ) و ماوا ہیں ۔

اہل حقیقت و عرفان کے قطب ہیں صفات ربانی کے مظہر ہیں اور اخلاق سبحانی کے مورد (وارد ہونے کی جگہ)ہیں ۔

گشت بے کبریا وریاء وکینہ   روح قدسی ازرخش آئینہ

اے لقائے تو جوابِ ہر سوال        مشکل از تو حل شود بے قیل و قال

  میرے محبوب! تیرا دیدار ہی ہر سوال کا جواب ہے اور میری ہر مشکل کا گرہ قیل و قال کے بغیر کھل جاتا ہے۔

وعلى تفنن واصفيه بحسنه  ‌يفنى ‌الزمان وفيه ما لم يوصف

اردت له قدحا  فما من فضیلۃ تاملت الا جل  عنھا و قلت

یعنی اعلیحضرت قدوۃ العارفین محققین کی آنکھوں کا نور انبیاء و مرسلین کے وارث شیخنا و سیدنا شیخ بہاؤ الحق و الدین محمد بن محمد البخاری المعروف بہ نقشبند قدس اللہ تعالی روحہ و طیب مشھدہ ونور خدیجہ  ونفعنابمحبتہ والا قتداء بسیرتہ۔

یہ آپ کے لطائف ومعارف کے بعض ارشادات ہیں جو آپ کی مجالس میں بعض اقوال کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور صحبت (علی الدوام فی اللیالی والایام )آپ کی زبان مبارک سے بیان ہوتے رہے ہیں  بندہ ضعیف (مؤلف) محمد بن محمد الحافظ البخاری (وفقہ ٰ اللہ  تعالی سبحانہ  لما یحبہ ویرضاہ۔) ان کلمات قدسیہ میں بعض اقوال کو ازراہ صدق و ارادت اور برائے  برکت وتیمن ضبط تحریر میں لا تارہا ہے آپ اپنے عزیز احباب کے حکم اور اشارہ (متعنا اللہ تعالی بلقایہم  وادام  بر کات بقایہم )پر  ان پاکیزہ کلمات میں چند ایک کو تبرکا احاطہ  تحریر میں لا رہا  ہے تاکہ مخلصانِ خاص اور طالبان صادق ان کلمات طیبات کو گوش گزار کر سکیں آپ کو یوں محسوس ہوگا گویا آپ حضرت کی مجلس میں شرف باریابی پاکر بذات خود یہ باتیں سن رہے ہیں آپ کے احوال و مقامات شریف کا اور کرامات و آثار عجیبہ کا تذکرہ اول سے آخر تک اکثر بیان  میں آچکا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر حالات نوکِ زبان خواص ہیں اگرچہ اس وقت قلب و روح اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ احوال طیبہ کے گلستان کی نسیم جانفزا طالبان صادق کے مشام دل و جاں کو معطر کرے اور دلوں اور جانوں کو اس سے راحت ملے اور موجب عندہ ذکر الصالحین تنزل الرحمہ  نیک لوگوں کے تذکرے سے رحمت خداوندی نازل ہوتی ہے اس تذکرہ سے فضل خداوندی حاصل کرنے کی امید اور رحمت الہی اور اس کے فیض نامتناہی کے نزول کی آرزو ہے لیکن اس وقت ہم نہایت اختصار سے بیان کریں گے

خموش وزیر زباں خم کن تو باقی را             کہ نیست درخور آن گشت عقل سودائی

خموش وزیر زباں ختم کن تو باقی را             که ہست بر توکل غیور لا لا ي

حقیقت ہے کہ اس طائفہ مبارکہ کی باتیں ذوق و وجد پیدا کرتی ہیں۔ اور ان کےحفظ واذ کار سے حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ اہل بصیرت فرماتے ہیں :

فقہ اللہ اکبر برہانہ الاظہر

یعنی  اہل بصیرت کو جویقین ان بزرگان دین کی باتوں میں غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ وہ نہایت قوی اور اعلی ہوتا ہے۔ یہ یقین خوارق عادات یا کرامات کے مشاہدےسے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیےفرمایا

موجب ایمان نباشد معجزات        بوئےجنسیت کند جذب صفات

معجزات از بہرقہر دشمنت          بوئے جنسیت پے دل بردن است

چونکہ اس طائفہ  عالیہ کی باتیں کلام الہی کا پرتو ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی پوری کیفیت اور صفت کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔اکابر میں سے ایک نے فرمایا : الحمدلله الذي جعل الإنسان الكامل معلم الملک و ارادتشریفاوتنزيابانفاسه الفلك

یعنی اس اللہ کو تمام تعریفیں ہیں جس نے انسان کامل کو معلم ملکوت بنایا اوراسے خلعت شرف وکمال سے نوازا۔

اس کے باوجو دبعض منکرین نے قرآن پاک کو اساطیر الاولین کہا ہے ۔ اور پھر يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا  انہیں لوگوں کے لیے کہا گیا ہے ۔ چنانچہ  اس طائفہ کی باتیں ایسی ہیں  جیسے كَالنِّيلِ مَاءً ‌لِلْمَحْبُوبِينَ وَدَمًا لِلْمَحْجُوبِينَ اہل محبت کے لیے نیل مصر کے پانی کی طرح ہیں مگر بے گانہ محبت کے لیے تو ایک مصیبت ہیں۔

ہرکس افسانه بخواند افسانه است         و انگه د یدش نقد خود مردانه است

آب نیل است و به قبطی خون نمود       قوم موسی رانہ خون بود آب بود

دشمن این صرف و این دم در نظر        شدمثل سرنگوں اندر سفر

گر تو مرد راز جوئی راز جو  جان فشان و خوں گیری و باز جو

جو شخص افسانہ پڑھتا ہے۔ اس کے سامنے ایک  قصہ نظر آتا ہے مگرجو شخص اپنی ذات میں غور کرتا ہے وہ مرد کامل بن جاتا ہے۔ دریائے نیل کا پانی فرعونیوں کو خون نظر آیا تھا لیکن یہی خونی دریا حضرت موسی کی قوم کے لیے پانی تھا۔ ان کلمات کے مخالفین ظاہری نظر آتے ہیں مگر ایسے لوگ ہی جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو را ز کی تلاش کرو ۔ جانفشانی کرو جگرسوزی کرو. اور اللہ کو پالو۔

دل کو علائق وعوائق اور مشاغل دنیا سے پاک و صاف کرنے کے بعد تھوڑا سا غور کیا جائے تو آپ کی باتوں کے ظاہری معانی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اوراسی سمجھ سے حقیقی معافی کا انکشاف ہو جاتا ہے، اور حال حقیقت حاصل ہو جاتا ہے ۔

کیونکہ اس طائفہ اہل اللہ کی باتیں علم وراثت کے عالم سے آتی ہیں۔ یہ ظاہری علوم سے حاصل نہیں ہوتیں۔ ان کا بیان اس طریقہ پر ہوتا ہے کہ جس قدر اس طریقہ پر سے علم کی زبان یا علم کی عبارت کی زبان سے کام لیاجائے ۔ یہاں تو ذوق کی زبان اور اشارات کے نشان سے کام لیا جاتا ہے جب تک حقیقت حال کی شرح اس کے کانوں تک نہ پہنچی ہو۔ وہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

وماقدر الله حق قدرہ  ومازادبیانهم عند سكرة فان الاعراب عندبغيرذ ائقةسترة والاظهاربغيرو اجدة إخفاء

کہنے والوں کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ ذوق اور شوق میں اضافہ کر لیا جائے کیونکہ اس قسم کی باتیں طالبان حق کی طلب کو قوت دیتی ہیں ۔ ادران کی ہمت میں اضاف کرتی ہیں۔ اگر کسی کے دماغ میں تکبر کی بو ہوتی ہے۔ تو اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور اپنے افلاس اور تہی دستی کو دیکھنے پر آمادہ ہوتا ہے بعض مشائخ رحمہم اللہ نے کیا خوب فرمایا۔

لا تزن الخلق بميزانك وزن نفسك بميزان الصديقين لتعلم فضلھم  وافلاسك

  مخلوق کو اپنے میزان سے نہ تولا کرو بلکہ اپنے آپ کو صدیقین کے میزان اور پیمانہ سے تولا کرو تاکہ تمہیں ان کی فضیلت اور اپنے افلاس کا علم ہوجائے ۔

شیخ شہید مجدالدین بغدادی قدس سره  دعا کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے ‘ اے اللہ تیراکوئی کام کسی علت کامحتاج نہیں مجھے اس قوم سے بنا ،یامجھے ان لوگوں کو دیکھنے والوں سے ہی بنا۔ میں کسی دوسری قسم کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا۔

گرنیم مرغان ره را ہیچ کسٍ      ذکر ایشان کرد ہ  ام اینم ز بس

گر نیم زیشان از ایشان گفته ام خوش دلم  کیں قصازجاں گفته ام

شیخ امام عارف ربانی ابو یعقوب یوسف بن ایوب صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگوں نے پوچھا یا حضرت جب اہل اللہ ہم سے روپوش ہوجاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہم سلامت رہ سکیں آپ نے فرمایا ان کی باتیں دہراتے رہو۔ صدیقوں میں سے ایک نے کہا تھا کہ کاش کوئی ایسا شخص ملے جوبندگان خدا کی باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں یا میں سناتا جاؤں اور وہ سنتار ہے۔ اگر جنت میں اہل اللہ کے متعلق گفتگو نہیں ہو گی تو تمہیں جنت سے کیا کام جذرات مواجیہ کا اقتباس تو انہیں کے انفاس طیبہ سے ہو سکتا ہے۔

وَمَنْ أَحْسَنُ ‌قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا

گر ندارم از شکر جز نام بہر ایں بسے بہتر کہ اندر کام زہر

 آخرم زان کارواں گردے رسد قسم من زاں رفتگاں در وے رسد

نطقها نسبت با وقشر است لیک پیش دیگر فکر ہا مغز است نیک

آسمان نسبت به عرش آمد فرودورنہ بس عالیست پیش خاک شود

یہ کلمات قدسیہ اگر چہ کم الفاظ میں ادا ہو رہے ہیں مگربڑے وسیع معانی کے حامل ہیں

والقليل تدل على الكثير والجرعة تنبئ عن البحر القدير

تھوڑی چیز بڑی چیز کی دلالت کرتی ہے۔ اور ایک گھونٹ بحر بے کراں کا پتہ دیتاہے ۔ قدوۃ الکبار شیخ بزرگوارشیخ ابوعبدالرحمن سلمی نیشاپوری قدس سره نے جو حقائق تفسیر اور طبقات مشائخ جیسی معروف کتابوں کے مصنف ہیں طبقات مشائخ میں ایک ایک بزرگ کے بیس بیس اقوال بیان کیے ہیں ۔ اور انہیں اقوال کو صاحب نظر اور اہل بینش و دانش حضرات نے سامنے رکھا۔ یہ اقوال ان مشائخ کی سیرت طیبہ سلسلہ طریقت اور ان کے علوم واحوال پر روشنی ڈالتے ہیں ان اقوال میں بعض علوم ومعارف ایقان (جن پران مشائخ کے سلوک اور سیرت کی اساس ہے) کا ذکر کیا ہے۔

ولنا فيه أسوة حسنة في تقليل الكلام مع الدلالة على المرام

در نیابد حال پخته ہیچ خام پس سخن کوتاه باید و السلام

اگر ان کلمات قدسیہ کی بعض مقامات پر مختصرسی شرح کی خدمت پڑے تو بہتر ہے کہ اس شرح کواہل اللہ کے پاکیزہ کلمات او رملفوظات کی استمداد و استعانت سے ہی کیا جائے فان الكلام المشائخ يفسربعضه بعضاً

اس شرح و متن کی تمیزیوں کی جائے کہ متن کو خط کشیدہ الفاظ میں بیان کیا جائے۔

 جمله معشوق است و عاشق پرده زندہ        معشوق است و عاشق مرده

یہ ضعیف اپنے اندر یہ قوت نہیں پاتا کہ بذات خود اس عمل پر اقدام کرے۔ مگر قد وہ اہل اللہ صفوت اصحاب الانتباه . سند ارباب الطریقت موضح رموز اہل حقیقت ۔ اسوہ طلاب الیقین۔ خواجہ علاؤ الحق والدین محمد بن محمد بن البخاری المشتہر بہ عطاراطال اللہ مدت الحیوۃ وافاض على المسترشدین انوار بر کاتیہ کے حکم سے اشارہ پاکر اس مختصر سے وقت میں مشرحوں کی املاکر نامناسب خیال کرتا ہے۔

اگر ان کی امداد روحانی اور نگاہ قبولیت شامل حال رہی تو کامیاب رہوں گا ۔

این سخن را چوں تومبدا بوده        گرفزوں گردد تواش افزوده

 دیده غیبت چوں غیب است اوستاد      کم مبادا از جہاں ایں دید و داد

 شرح توحیف است با اہل جہاں            ہمچوراز عشق دارم در نہاں

لیک گفتم وصف توتاره برند        پیش ازان کز فوت آن حسدت خورند

ہوسکتا ہے ۔ کہ شرح بیان کرتے وقت یا املا کے وقت اس مقصد حنیف کا وجود درمیان میں نہ آئے۔ یہ تالیف اور تصنیف ان صاحب نظر بزرگان دین کی دعوات صالحہ کا ثمرہ ہو۔ اور یہی درجات کی بلندی اور قربت کا ذریعہ ہے و بہ سبحانه الحول والقوة –

كلمات القدسيہ

مسلمانی اور احکام کا نفاذ ،تقوی کی رعایت عمل میں عزیمت ۔ اور حتی المقد ور رخصتوں (یارعایتوں سے دور رہنا تمام نور صفا اور رحمت ہیں اور ولایت کے درجات کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ان صفات کی پرورش سے ہی اولیاء اللہ کے مقامات اور منازل تک رسائی ہوسکتی ہے ۔

شرح

 ہمارے خواجہ قدس سرہ نے مندرجہ بالا کلمات میں جو کچھ فرمایا ہے۔ اس میں اس قول کی طرف اشارہ ہے۔ جو آپ کو اپنے حضرت خواجہ بزرگ خواجہ عبد الخالق غجدوانی قدس اللہ روحہ سے سنا ہے ۔ اور مشاہد ہ اور خواب میں یہ اشارات پائے ہیں ہمارے خواجہ قدس اللہ روحہ نے خواب میں یوں دیکھا کہ آپ کے احوال کے ابتدائے کار اور غلبہ جذبات کے دوران میں مزارات مقدسہ میں سے تین مزارات پر پہنچے۔ ان مزارات میں آپ نے  جذب کی کیفیت محسوس کی۔ پہلامزارتوبخارا کے نواح میں ہے جو حضرت خواجہ محمد واسع  رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے ۔ آپ تبع تابعین میں سے ایک معروف بزرگ تھے۔ آپ کا بلاد ما وراء النہر میں تشریف لانامستند روایات سے ثابت ہے۔

خواجہ بزرگ خواجہ عبدالخالق غجدوانی نے ہمارے خواجہ قدس اللہ روحہماکوخواب میں یہ حکم فرمایا کہ اہل عز یمت میں قدم رکھو  اوررخصتوں سے دور رہنے کی کوشش کرد . اور متابعت سنت نبوی کرتےر ہو۔ بدعتوں سے پرہیز کرو۔ اس کے علا وہ آپ نے وہ ارشادات فرمائے جو سلوک کی ابتدائی وسطی اور انتہائی ادوار سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ تعالی کی مہربانی سےہر عمل اور وصیت کے بہترین نتائج دیکھے ہیں۔

اگر چہ آپ عزمیت پر گامزن رہنے پر مامور تھے مگر آپ نے اس بات کو کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا تاہم آپ ان اعمال اور وصیت پر عمل کرنے کی وجہ سے اپنے باطنی احوال میں ترقی کی رفتار کو مشاہدہ کرتے رہے ۔اس واقعہ کی تشریح اور اس خواب کی تفصیل احوال عجیبہ اور کرامات کی صورت میں آپ کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوتی رہی ہے ۔ان حالات اور مشاہدات کے اثرات کو آپ کے مخلص اور عزیز احباب  نے جمع کر کے تالیف وتصنیف کی شکل میں پیش کی ہے متعنا الله بلقائهم وايدھم  واواهم انشاء اللہ یہ حالات اکمل و اجمل صورت میں سامنے آئیں گے۔ اور ان مقامات کے تذکرہ واشاعت احباب اورمخلصین کی زبانیں اور کان مشرف اور محظوظ ہوں گے۔ اوران ا ذکار سے محفلیں منور اور معطرہوتی رہیں گی۔

راہ طریقت میں ہمارے خواجہ قدس ر و حہ کوشیخ طریقت خواجہ محمد باباسماسی قدس سرہ نے فرزندی کی نظر قبولیت سے نوازا تھا ۔

آپ حضرت عزیزاں  خواجہ علی رامیتنی کے خلفاء میں سے تھے حضرت خواجہ عزیزاں  خو اجہ  محمود انجیر  فغنوی رحمہ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے خواجہ محمود خواجہ عارف  ریوگری کے خلیفہ  تھے اور وہ حضرت خواجہ  بزرگ خواجہ عبد الخالق غجد وانی کے خلفاء میں سے تھے – قدس اللہ ارواحھم۔

حضرت خواجہ عبدالخالق غجد وانی کو حضرت سیدامیر کلال رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے نسبت ارادت صحبت تعلیم آداب سلوک اورتلقین ذکر سے حاصل تھی۔ سیدامیر کلال خواجہ محمد بابا سماسی کے خلفا میں تھے۔ لیکن سلوک میں ہمارے خواجہ قدس سرہ کی نسبت تربیت حقیقت میں خواجہ بزرگ خواجہ عبدالخالق غجد وافی کی روحانیت حاصل ہوئی تھی۔ ہم اسی سلسلہ میں مختصرسی گفتگو کریں گے۔

حضرت خواجہ بزرگ خواجہ عبدالخالق امام ربانی شیخ ابویعقوب یوسف بن ایوب  ہمدانی کے خلفاءمیں تھے۔خواجہ یوسف ہمدانی کو تصوف میں شیخ طریقت شیخ ابوعلی فارمدی طوسی قدس سرہ سے نسبت تھی۔ آپ خراسان کے اکابرمشائخ میں ہیں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ سے ہی باطنی تربیت حاصل کی تھی شیخ ابوعلی فارمدی رحمہ اللہ کو تصوف میں دو نسبتوں سے فیض ملا ہے۔ ایک شیخ بزرگوار شیخ ابوالقاسم گرگانی طوسی سے جوتین واسطوں سے سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی قدس اللہ تعالی روحہ سے ملتے ہیں ۔ دوسری نسبت شیخ بزرگوار شیخ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتی ہے۔ خواجہ ابوالحسن خرقانی اپنے زمانہ کے پیشوائے مشائخ اور قطب زماں ہوئے ہیں۔ چونکہ پرانے زمانہ میں حقیقی صاحبان دل اور کاملان حقیقت اور سالکان راہ طریقت بہت تھے۔ اور آخرین زمانہ میں ان کی تعداد بہت کم رہی ہےبلکہ اعز من الكبريت الاحمر ہوگئے ہیں یقیناً ایک زمانہ تھا کہ طالبان صادق کسی کبریٰ دین اور مقتدائے اہل یقین کی محبت و متابعت سے فیض یاب ہوکر اپنے روحانی بال و پر کوبشریت کی گراں باری سے سبکسار کر کے اپنے مقتدا و رشد کے مکمل تصرفات کو پالیتا تھا ۔ وہ دوسرے کا ملان عصر کے عمر بھر زیر تربیت رہتا۔ اور ان کی مجالس فیض میں مقبولیت حاصل کر کے ان کی صحبت کی سعادت حاصل کرتا تھا۔ ان کے علوم و معارف کا اقبا سس کرتا تھا۔ اس طرح ان حضرات کے انتساب کی نسبت سے تصوف اور علم باطن میں بے پناہ مقامات حاصل کرتا تھا۔ شیخ شہید ،شیخ مجدالدین بغدادی قدس اللہ تعالی روحہ  نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے علم باطن کی سند میں جس قدربیشتر واسطے ہوں۔ اسی قدر یہ سند مستند اور عالی تر ہوتی تھی چونکہ مشائخ کرام انوارحقیقت کے پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ اور وہ انہیں انوار حقیقت مشکوۃنبوت سے ملتے ہیں جس قدران پر انوار باطن کا اجتماع ہوتا ہے۔ اسی اندازہ سے وہ اپنے طالبان کو تقسیم کرتے ہیں۔

نور على نوریهدى الله لنـور مـن يشاء به نور علی نور – اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ  اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ بہت سے مشائخ کے سلسلہ کے متبع ہیں ۔ آپ کا علم باطن میں دو طریقوں سے انتساب رکھتے ہیں۔ ایک حضرت داؤدطائی سے جو حبیب عجمی اور انہیں حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اور انہیں امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اور آپ کو حضرت رسالت مآب ﷺ سے روحانی نسبت تھی۔ دوسری نسبت امام علی بن موسی الرضار رضی اللہ عنہما اور انہیں اپنے والد مکرم امام موسی الکاظم اور انہیں اپنے والد امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم سے حاصل تھی۔ ان کا طریقہ ائمہ اہلبیت کا طریقہ تھا۔ ابا عن جدرضوان اللہ علیہم اجمعین۔ چنانچہ مشہور ہے ائمہ اہلبیت کا سلسلہ علم ظاہر و علم باطن میں امت کے علما و اکابرقدس سرہ اللہ ارواحہم کو ملا ہے ۔ اسی سلسلہ عالیہ کو بیانا ، عزتا، انفاسا تعظیما اورشانا سلسلۃ الذہب کہتے ہیں۔ شیخ ابوالحسن خرقانی قدس سرہ کو تصوف میں سلطان العارفین شیخ ابو یزیدبسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے نسبت ہے۔ آپ کو سلوک میں روحانیت کی زینت حضرت شیخ بسطامی نے ہی دی تھی شیخ ابوالحسن کی ولادت حضرت شیخ ابویزید کی وفات کے ایک مدت بعد ہوئی کی شیخ ابویزید کوحضرت امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ سے نسبت روحانی ہے۔ حضرت ابویزید کو حضرت شیخ ابوالحسن کی طرح حضرت امام سے روحانی تربیت حاصل تھی رضی اللہ عنہم حضرت امام جعفر کو علم باطن میں دو طریقوں سے نسبت حاصل ہوئی تھی۔ ایک تو اپنے والد محترم امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے اور انہیں اپنے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین سے اور انہیں اپنے والد حضرت زین العابدین علی بن الحسین سے اور انہیں اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اور انہیں اپنے والد حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے بھی امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کو حضرت رسالت مآب ﷺ سے نسبت ولایت حاصل تھی۔ حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کو دوسری طرف سے اپنے ناناقاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نسبت حاصل تھی۔ قاسم بن محمد اکابرتابعین میں سے تھے۔ تابعین میں سات فقہاء(ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث، خارجہ بن زید بن ثابت،  قاسم بن محمد،  سعید بن مسیب،  عبد الله بن عقبہ  ،عروہ بن زبیر، سلیمان بن یسار )مشہور ہیں جنہیں ظاہری اور باطنی علوم سے وافرحصہ ملا تھا۔ ان میں ایک حضرت قاسم بن محمد تھے۔ حضرت قاسم کو باطنی علوم میں حضرت سلمان فارسی سے انتساب تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کورسول ﷺ کی صحبت بہار سے بہت کچھ حاصل کر نے کا موقعہ ملا حضور نے آپ کو سلمان من اهل البیت (سلمان بھی اہلبیت میں سے ہیں کاشرف بخشا انہوں نے علم باطن کی نسبت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حاصل . کی  یہ نسبت خواجہ دو عالم حضرت رسالت مآب ﷺ سے حاصل تھی۔

اہل تحقیق اس بات پر متفق ہیں کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہ سرکار دوعالم ﷺ کے وصال کے بعد ان خلفا ئے رسول سے جو آپ سے پہلے تھے نسبت باطنی میں تربیت حاصل کی تھی شیخ ا لطریقہ شیخ ابوطالب مکی قدس سرہ اپنی کتاب ” قوت القلوب میں فرماتے ہیں کہ قیامت تک ہر زمانہ میں ایک قطب زمان موجود رہے گا۔ اور یہ قطب زماں اپنے مرتبہ اور مقام میں نائب مناب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہوگا۔ وہ تینوں اوتادجو قطب کے ماتحت ہوتے ہیں ہر زمانے میں ان تین خلفاء کے نائب مناب ہوں گے۔ امیرالمومنین حضرات عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین یہ تینوں حضرات یقین اوصاف اور احوال میں اپنے ان تینوں خلفاء کی پیروی کریں گے۔ ان کے علاوہ صدیقوں میں سے کچھ ہیں۔ جن کی صفت میں فرمایا گیا

بھم يقوم الارض وبھم يدفع البلاء عن اهلها وبھم یرزقون وبھم يمطرون (یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے زمین قائم ہے۔ مصائب کو دفع کرتے ہیں۔ لوگوں کو رزق تقسیم کرتے میں۔ اور کائنات ارضی پر بارش برسانے کا اہتمام کرتے ہیں، یہ حضرات ،ہر زمانے میں عشرہ مبشرہ کے چھ حضرات کے نائب ہیں ۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ حضرت رسالت  پناہ ﷺ نے آخری عمر میں خطبہ ارشاد فرمایا

اس خطبہ میں یوں فرمایا :

اما بعد فان الله عز وجل اتخذصاحبكم خليلا ولوكنت متخذااحـد خليلا لاتخذت ابابکرخلیلا

بے شک اللہ تعالی نے تمہارے دوست کو اپنا خلیل بنایا ہے۔ اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو حضرت ابا بکر صدیق کو بناتا ایک اور حدیث میں فرمایا :

اتخذ الله إبراهيم خليلا وموسى نجيا واتخذني حبيبا ثم قال: وعزتي وجلالي لأؤثرن حبيبي على خليلي ونجي

بے شک اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کوخلیل بنایا۔ اورموسی کونجی اور مجھےحبیب بنایا۔ پھر فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم ہے۔ میں حبیب کو خلیل، اورنجی کو اپنے قریب رکھتا ہوں

ان دونوں احادیث کا مضمون یوں ہے کہ اہل تحقیق اور ارباب بصیرت نے کہا ہے کہ خلت سے دو مقامات مراد ہیں۔ ایک تو محبت کا انتہائی مرتبہ ہے اوریہ مرا ددوسری حدیث سے لی جاتی ہے۔ دوسرے محبوبیت کے انتہائی درجات اور مراتب ہیں۔ یعنی پہلی حدیث سے مرادلیے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ میں کوئی شخص بھی حضور اکرم ﷺ سے شرکت کا دعوی دار نہیں ہوسکتے۔ مقام محمود کا لفظ اسی نہایت بلند رتبہ کا دوسرانام ہے ۔ اور اسی سے کمال کے درجات متعین ہیں ۔ اور حضور اکرم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر اس مقام خاص میں میرے ساتھ کسی کو شرکت حاصل ہوتی تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ولایت اور علم باطن جسے  علم باللہ کہا جاتا ہے۔ میں اکمل ۔ افضل – اعلم۔ اور اعظم اولیاءامت ہیں بلکہ تمام صدیقوں سے اکمل ہیں اور انبیا علیہم السلام کے بعد آپ کا ہی مقام ہے۔ سیدناصدیق رضی اللہ عنہ اکبرہیں اور اہل بصیرت کے اکابر میں سے افضل ہیں (قدس سرہم )اس بات پر اجماع ہے ۔ اور یہ بات ان لوگوں کے خیالات اور خدشات کو دور کرنے کے لیے کافی ہے جو اس نظریہ کے خلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ کی افضلیت کو دوسری

وجوہات کی بنا پر تاویل کرتے ہیں ۔

ہمارے خواجہ قدس سرہ کے احوال کے بارے میں جوکچھ ذکر کیا گیا ہے۔ اور مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کے سلسلہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کاطریقہ

اویسیہ تھا اور بہت سے مشائخ جن کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اویسی تھے ۔ اویسی کا مطلب یہ ہے۔ جسے حضرت شیخ طریقت شیخ عطارحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے ۔ اولیاء اللہ میں سے ایک ایسا طبقہ ہوا ہے جنہیں مشائخ طریقت اورکبری حقیقت اویسی کے نام سے یاد کرتے تھے۔انہیں ظاہری طور پر کسی مرشد یا رہبر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہیں حضرت رسالت مآب ﷺ اپنی نگاہ عنایت سے پرورش فرماتے رہے ہیں۔ اور اس تربیت میں کوئی واسطہ درمیان نہیں تھا جس طرح آپ نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو براہ راست تربیت دی تھی۔ یہ بہت بلند مقام ہے ۔ جو ہر ایک کومیسر نہیں آتا۔ اس مقام تک کس کی رسائی ہوسکتی ہے۔ اور اس عظیم مقام کو کون پاسکتا ہے۔ ذَلِكَ ‌فَضْلُ ‌اللَّهِ ‌يُؤْتِيهِ ‌مَنْ ‌يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ – ہمارے مشائخ طریقیت میں سے بہت سے حضرات کو سلوک کی ابتداء میں اس مقام کی طرف توجہ ملی ہے چنانچہ شیخ بزرگوار شیخ ابوالقاسم گرگانی طوسی جن سے حضرت نجم الدین کبری کے مشائخ کاسلسلہ طریقت جاملتا ہے۔ شیخ ابوسعید ابوالخیرا ور شیخ ابوالحسن خرقانی قدس اللہ ار واحھم کے طبقہ کے بزرگوار ابتدائے کار میں ہمیشہ اویس اویس  پکارا کرتے تھے۔ طریق سلوک میں ارواح مقدسہ مدد گار ہوتے ہیں ۔ اور فیض ربانی اور تجلیات روحانی کے حاصل کرنے میں ممد ہوتے ہیں لیکن طریقہ جذب جو ایک وجہ خاص کا طریقہ ہے کوئی واسطہ درمیان میں نہیں آتا۔ اور لا الہ الا اللہ کے ذکر کا مقصد خصوصی وجہ توجہ سے ہوتا ہے ۔ تمام موجودات میں التجا اور اعتصام اس کی صفت قیومی سے ہوتی ہےشیخ عطار قدس اللہ وجہ فرماتے ہیں :

 بادشاہادل بخوں آغشتہ ام پاۓتاسرچون فلک سرگشته ام

 گفته ای من با شمایم روزوشب یک نفس فارغ مباشیداز طلب

چونکہ بالطفت چنیں ہمسایہ ایم لطف تو خورشید و ما چوں سایہ ایم

چہ بودہ جاں بخشی سرمائے گاں کہ نگہ داری حق ہمسائے گان

راہبرم شوز انکه گمراه آمدم دولتم  دہ کہ چہ بے گام آمدم

 ہر کہ درکوئے تو دولت یا رشدور تو گم گشت وز خود بیزارشد

 مبتلاخویش و حیران توام گربدم گر نیک ہم زان توام

نیستم نومید وہستم بے قرار بوک در گیرد یکے از صد ہزار

صفات جلالی اور جمالی

 جب سالک کو ان دو صفات جلالی اور جمالی سے پرورش کی جاتی ہے۔ تو اس کے لیے جلال جمال بن جاتا ہے اور جمال جلال بن جاتا ہے۔ خوف کی انتہائی صورت امید وار بن جاتی ہے اور غلبہ رجا میں خوف کی کیفیت رہتی ہے۔ اس وقت جبکہ ا للہ تعالی کے جلال کی صفت کا اظہار ہوتا ہے تو جمال توجہ فرماتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت ابویزید قدس سرہ کی نگاہ جلال ابوتراب نخشبی قدس اللہ روحہ کے ایک مرید کو دیکھا۔ یہ نگاہ تجلی ذات کی نسبت لیے ہوئے تھے۔ اور وہ مر مدصرف صفت جمال کا پرورش یافتہ تھا۔ اگر وہ دونوں اوصاف کا پرورش یافتہ ہوتا۔ تو اسے سلطان العارفین کی نگاہ کی کشش برداشت کرنے کی قوت حاصل ہوتی اور وہ اس طرح بشریت کا متلاشی  نہ ہوتا۔(شیخ ابوتراب کا ایک مرید بڑاہی گرم اور صاحب وجد تھا۔ ایک دن ابوتراب نے اسے کہا کہ بایزید کو دیکھنا چاہتے ہو کہنے لگا جو ہروقت بایزید کے خدا کو دیکھتا ہو۔ اسے بایزید کے دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی ،ابو تراب نے فرمایا اللہ تعالی کواپنی آنکھوں اور اپنی قدرت سے دیکھتے  ہواور جب ان کے پاس جاؤ تو ، رب کوانکی  قدرسے  دیکھنا   کیونکہ آنکھوں میں اور نگاہوں میں فرق ہوتا ہے چنانچہ دونوں بایزید کے گھر کو روانہ ہوئے بایزید اس وقت پانی لانے کے لیے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے چنانچہ دونوں آپ کے پیچھے چلے گئے راستے میں شیخ کو دیکھا کہ مٹی کا گھڑا اٹھائے آرہے ہیں سر پرگھڑا اور پرانی پوستین پہنے دکھائی دیئے ۔ جب با یزید کی آنکھیں اس مرید پر پڑیں تومرید زمین پر گر پڑا اور تڑپ کر و اصل بحق ہوگیا شیخ ابو تراب نے کہا حضرت ایک ہی نگاہ اور موت آپ نے فرمایا، ابو تراب، اس نوجوان کے بدن میں ایک نور تھا جس کے افشاء ہونے کا ابھی تک وقت نہیں آرہا تھا ، با یزید کی نگاہ سے وہ نورافشاء ہو گیا ، اس سےجلال کی قوت برد اشت  نہ تھی اس نے دم توڑد یا)

ایک دفعہ ہم اپنے ایک مرید صادقی محمد زاہد کے ساتھ صحرا کی طرف جانکلے ۔ ہمیں ایک ضروری کا م تھا،  ہمارےپاس ایک کلہاڑی تھی ۔ اسی دوران رقت طارمی ہوئی ہم نے کلہاڑی کو تو وہیں پھینکا اور بیابان میں چل نکلے۔ اور ایک دوسرے سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے حتی کہ بات عبودیت اور فدایت پر  ہونے لگی۔ اس نے پوچھا کہ فدا کی غایت اور نہایت کیا ہے ۔ ہم نے بتایا کہ اگر درویش کوکہہ دیا جائے کہ مرجاؤ تو مرنے سے بھی دریغ نہ کرے۔ یہ بات کہتے ہوئے میرے اندر ایک ایسی حالت طاری ہوئی کہ میں نے محمد زاہد کی طرف منہ کر کے دیکھا اورکہا مرجا ؤ اسی وقت محمد زاہد زمین پرگرا – اور اس کے بدن سے روح پرواز کرگئی۔ وہ ایک عرصہ تک ایسے ہی مردہ پڑا رہا۔ اس کا جسم روح کے بغیر بلا حرکت پڑارہا۔  پشت زمین پر چہرہ آسمان کی طرف پاؤں قبلہ کی طرف چاشت سے لے کرکر دو پہر تک  وہ یونہی پڑا رہا  اس دن بے پناہ گرمی تھی سورج  پوری طرح آگ برسا رہا تھا ہمیں تو اس حالت سے سخت پریشانی ہوئی بڑے متحیر ہوئے۔ پاس ہی ایک سایہ درخت تھا۔ چند لمحے اس سایہ میں جا بیٹھے اور حیرانی کے عالم میں سو چنے لگے۔ پھر اس کی لاش پر آئے اور اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ اس کا رنگ اڑ چکا تھا چہرہ گرمی سے سیاہ ہوتا جار ہا تھا۔ ہم حیران سے حیران ہوتے جارہے تھے ناگاہ اسی حیرانی کے عالم میں ہمارے دل پر افشا (الہام) ہوا کہ کہو محمد زاہد زنده ہوجاؤ ہم  نے یہ بات تین  بار  کہی ا اوردیکھا اس جسم مردہ  میں زندگی کے آثار آنے لگے۔ اس کے اعضاہلنے لگے۔ وہ اسی وقت زندہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔ ہم اسی حالت میں روانہ ہوئے۔ اور حضرت امیر سید کلال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا ہم نے واقعہ کے دوران جب یہ کہا کہ اس کی روح بدن سے جدا ہو گئی ۔ اور ہم بے حد حیران ہوئے۔ آپ فرمانے لگے۔ بیٹا۔ اس عالم حیرت میں تم نے کیوں نہ کہا کہ زندہ ہوجاؤ ہم نے بتایا تھوڑی مدت کے بعد ہمیں الہام ہوا ۔ تو ہم نے ایسا ہی کیا۔ اور وہ اپنی حالت پر اتر آیا۔

شرح

 اہل تحقیق فرماتے ہیں کہ سالک کو جلال و جمال کے اوصاف کے ساتھ اس وقت پرورش ہوا کرتی ہے جب وہ محبت ذاتی  کی حقیقت کوپالیتا ہے محبت ذاتی پا لینے کی علامت میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے محبوب کے متقابل اوصاف ایک سے دکھائی دینے لگیں جیسے عزت و ذلت حذر و نفع یکساں دکھائی دینے لگے اہل تحقیق  نے یہ بھی کہا ہے ؛

يعطى الحق سبحانه المحبوب من أولياء بہ في الدنيااول مايعطى أهل الجنة في الاخرة. وھوقولہ كن فيكون وتلک الکلمۃ  صورۃ الارادۃالکلیہ

(اللہ تعالی اپنے اولیا ءمیں سےمحبوب کو دنیا میں ہی وہ انعامات دے دیتا ہے جو آخرت میں اہل جنت کو جنت میں نصیب ہوں گے۔ اور اس کا قول کن فیکون اور یہ بات اس کے ارادے کے ماتحت تمام تر دے دی جاتی ہے۔ ایسے ہی مقام پر کہاگیا ہے ۔

چوں چنیں خوا ہد خدا خواہد چنیں             مے دہد حق آرزوئے متقین

كان للہ  بوده درمامضے تا کہ کان اللہ پیش آ مدجزا

 لیکن کمال معرفت اور کمال ادب کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کا ایسا محبوب

اپنے تمام ارادے اور خواہشات کو اللہ تعالی کی رضا کے تابع نہ رکھے اور ایمان رکھے کہ اللہ تعالی کی ذات اس کے تابع نہیں ہے۔ اگر یہ صفت اس کے اندر پیدا ہو جاتی  ہے تو وہ چیزیں بلا اختیار ہوتی جاتی ہیں۔

چوں ولی راهست قدرت ازالہ                      تیر جسته باز گرداند زراه

ایک اور مقام پر فرمایا کہ اولیا اللہ ایسے اوصاف کے ظہور کے وقت عیسوی المشہد ہوتے ہیں لیکن کسی مردے کو زندہ کرنا حضرت عیسی علیہ السلام کی روحانیت  کے واسطے سے ہوتا ہے۔

ایک دفعہ سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے پاؤں کے نیچے ایک چیونٹی آگئی اور کچلی گئی۔ آپ بے حد مغموم اور متاثر ہوئے ۔ آپ کے دل میں الہام ہوا کہ چیونٹی پر پھونک مارو۔ آپ نے دم کیا تو چیونٹی زندہ ہو گئی۔ شیخ  ابو یزید اس حالت میں عیسوی المشہد تھے۔

ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ اولیاء کاملین کو نور حیاۃحقیقت سے نور تمام میسر ہوتا ہے۔ یہ صنعت فطرت سلیمہ انسانیہ کی ذاتی صفت ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے  میں جن کی فطرت ظلمات بشریت صفات بشریت اور طبائع بشریت سے پاک اور ظاہر ہوتی ہے۔ اور یہ صفات اس فطرت کو متاثر نہیں کر سکتیں، چونکہ انہیں حیاة  حقیقیہ کے نور سے حصہ ملا ہوتا ہے۔ اسی نور کی بدولت مخلوقات کے بواطن استوارات  خواطر ،نیات – اعمال و احوال پر مطلع ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عمل ان کے طریقہ خواست سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس بدنیہ ہیئات اور اوضاع کے مطالعہ سے ان مخفی معانی  کا اور اک حاصل ہوتا ہے پھر وہ نور حیاۃ حقیقت ہے نور الہی کہا جاتا ہے کی روشنی سے طالبان مستعد کے دلوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ زندگی جو حیاۃ حقیقیہ سے میسر آتی  ہے اس زندگی سے زیادہ بہتر ہوتی ہے جو حیات حسیہ سے میسر آتی ہے۔ ظاہر می زندگی دنیا حیاۃ حسیبہ یا الہی شان کا ظاہر کرنا اولیاء اللہ کے ہاں بڑا عظیم کام ہوتا ہے۔

تصوف کا خمدان

مخلوق خدا سے دوری کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے دور رکھے۔ اور اختیاری طور پر اپنی ذات کے لیے مشقت اور مشکلات کا اضافہ کرتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے فیض کی کمی کا شکوہ نہیں کرنا ہو گا۔ سید امیرکلال رحمتہ اللہ علیہ ایک مثال کے ذریعہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک دنیا کے تعلقات کی کمی دور نہیں ہو گی ۔ اس وقت تک کوزه وجود اس لائق نہیں ہو گا۔ کہ اسے تصوف کے خمدان میں رکھا جا سکے پھر جب ان کوزوں کو خمد ان میں رکھا جاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ بعض کوزے خمد ان سے صحیح اور درست پک کر نکلتے ہیں۔ اور یہ ارادت از لی کے ظہور کی نسبت سے ہوتی ہے۔ لیکن بعض کوزے شکتہ اور ریختہ ہو کرنا پختہ نکل آتے ہیں۔ ایسے کوزوں کی دوبارہ مرمت کی جاتی ہے تازہ مٹی سے انہیں جوڑا جاتا ہے اور اسے دوبارہ خمدان (بھٹی) میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ درست پک کر نکلیں ۔ آپ نے فرمایا میرسید کلال آخری عمر میں تین شبانه روز قبلہ رو کر بیٹھے رہے اور آپ نے کسی سے بات تک  نہ کی تین دن کے بعد آپ نے بات کرنا شروع کی۔ تشکر خداوندی کیا اور فرمایا۔ اس سہ  روز تو جہ سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ دیکھا جا سکے کہ قبولیت کا دروازہ کھلتا ہے یا بند رہتا ہے۔

شرح:

اولیاء الله الله تعالی کی طرف دنیا میں اور وقت و صال لَهُمُ ‌ٱلۡبُشۡرَىٰ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِي ٱلۡأٓخِرَةِۚ کی بشارت دی جاتی ہے۔ یہ اس کی قبولیت اورغفران کی علامت ہوتی ہے پھر آپ نے جو ( دور افتاد گیا ں)دور رہنے کا حکم فرمایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے ۔ اگر انسان کی اختیاری  صفت اور طلبی خواہشات کم ہو جاتی ہیں۔ اس سے بشریت کے وجود کی نفی ہو جاتی  ہے۔ اور اس نفی سے اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فرمایا ہے۔

قرب حق دوری تست از بود خویش                بے زیان خود نیابی سود خویش

 نفی کے اختیار کرنے کی مقدار سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے موافقت اور تدبیر اور تقدیر میں مقام حاصل  ہوتا ہے۔ اور وہ رضا اور سعادت کے مقام کے قریب تر ہوتا جاتا ہے رَضِيَ الله عَنْ وَرَضُوا عنہ اور انسان ہمیشہ اپنی طبیعت کی گوناں گوں خواہشات اور اختیارات کے ترک کے واسطے سے اور اپنے صفات بشریہ کو محو کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قربت کے درجات میں ترقی کرتا رہتا ہے۔ اور وہ بے اختیاری کے اس بلند درجہ کو پالیتا ہے۔ کہ اسے حقیقت میں کسی چیز کی خواہش با طلب نہیں رہتی۔ اس وقت وہ بشریت کی سطح سے اٹھ کر عبودیت کی بلندیوں تک ترقی کر سکتا ہے۔ اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ الوہیت کے جذ بات کے تصرف سے فنافی اللہ کا مرتبہ حاصل کرلے ۔ یہ ولایت خاصہ کے درجات میں سے پہلا درجہ ہے اس کا مبد اسیر فی اللہ ہے ۔ اس قسم کے عجائب کی کوئی انتہا نہیں ہوتی سیرالی اللہ کا سلوک سنت الہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے جذ بہ شرط ہے یہ جذبہ سیر فی اللہ سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ جس چیز کو طلب کرتا ہے پالیتا ہے اور جس  راہ پر چل نکلتا ہے منزل مقصود حاصل کر لیتا ہے۔

ن ہر صدف که فرو بر د قطره باران               درون سینہ اوگشت جائے دردانہ

صدف بباید و باران وبحر و چندین سال             هنوز نیست مقرر که می شود یا نه

خليلي قطاع ايضالي في الی حمى          كثيرة أما الواصلون قليل

غواصان را اگر چہ بیمے نبود در ہر صد فے در یتیمے نبود

در عمر به نادر آچنانی افتد               دین دولت بر سیه گلیمی نبود

سیر فی اللہ کو ہی مقام وصول کہا جاتاہے۔ سیرالی اللہ میں عاشق کی سیر جانب معشوق ہوتی ہے ۔ اور سیر فی اللہ میں معشوق کی عاشق کی طرف سیر ہوتی ہے۔ یہ اوصاف صفات بشریت کے فنا ہونے اور بے اختیاری حاصل ہونے سے میسر آتے ہیں چنانچہ دونوں جہاں میں اس کی ذات کے علاوہ نہ تو کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے اور نہ کوئی مراد حقیقی بے اختیاری اس بے اختیاری کا نام ہے جس سے شیخ کی ولایت کے تسلیم حاصل ہو جائے تسلیم احکام قضا و قدر کا زینہ ہے۔ جب یہاں تسلیم کی ذمہ داریوں کو پورا کیا جاتا ہے تو تسلیم کا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ جب تصوف ولایت میں تسلیم کی ذمہ داریوں کو قبول کر لیا جاتا ہے تو جمال حقیقت کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ اور قاصد اپنے مقصود اور مرید اپنے مراد کو پالیتے ہیں۔

روحانیت اویس قرنی

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی روحانیت پر توجہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ظاہری اور باطنی علائق سے انقطاع تام اور تجرد کلی ہو جائے۔ جس وقت قدوۃ الاولیاء خواجہ محمد بن علی حکیم ترمذی قدس الله روحہ کی روحانیت کی طرف توجہ کی جاتی ہے۔ تو اس توجہ کا اثر محض بے صفتی کے ظہور پر ہوتا ہے ۔ جس قدر اس تو جہ میں گہرائی اختیار کی جاتی ہے۔ توکسی قسم کا اثر گرد یا صفت کا اظہار نہیں ہوتا۔ جب روحانیت کا وجود انوار حقیقیہ میں محو ہو جاتا ہے۔ جس قدر انسان اپنے وجود کی تلاش کرتا ہے پھر اپنے آپ سے سرمایہ اور اک تلاش کرے سوائے بے صفتی اور بے نہایتی کے کچھ نہیں پاتا۔

شرح

حضرت نے یہ باتیں اس وقت فرمائی تھیں جب آپ سلوک کے ابتدائی منازل اور احوال سے گزر رہے تھے۔ آپ کی تمام توجہات مشائخ کبار رضی اللہ عنہم کے ارواح طیبہ کی طرف مرکوز تھیں۔ اور ہر توجہ کے اثرات کے ظاہر ہونے پر اظہار خیال فرماتے جاتے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اولیاء اللہ کی مختلف قسمیں ہیں بعض صفات سے متصف ہیں اور صفات میں واضح نشانات کے مالک ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں۔ کہ وہ اہل معرفت ہیں۔ یا اہل معاملات ہیں یا اہل محبت ہیں اور اہل توحید ہیں ۔ بایں ہمہ اولیاء اللہ کا کمال اور اعلیٰ ترین درجات تو بے صفتی اور بے نشانی میں ہی پایا جاتا ہے اور بے صفتی سے مراد ذاتی کشف ہے جو ایک بہت بلند مقام ہے۔ اور بہت ہی اعلیٰ درجہ ہے ۔ اس مقام رتبہ کی تشریح یا توصیف بیان کلام میں نہیں آسکتی۔

بر تر از علم است و بیرون از عیان  ذاتش اندر ہستی خود بے کراں

زونشاں جزبے نشانی کس نیافت    چاره جز جا نفشانی کس نیافت

گرعیاں جوئی نہاں آنکہ بود          در نہاں جوئی عیاں آنکہ بود

در بہم جوئی چوبی و تست او            آن زمان از مهر دو بیرون است او

صد ہزاراں طور از جان برتر است هر چه خواهم گفت اوزان برتر است

عجز ازاں همراه شد با معرفت        کونه در شرح آیدوے در صفت

اس بے صفتی کے مرتبہ میں کمال تو حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا۔ تمام انبیاء و اولیا ء حسب مراتب آپ کے ہی خرمن سعادت کی فصل کاشت کرنے والے ہیں اور ان کو ترقی دی جاتی ہے۔ اپنے پاک باطن کی مدد سے اس درجے کا درجہ اور مقام محمود جو آنحضرت کے لیے خاص ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ اس درجہ کا کمال ہے اور یہ درجات کی خصوصیات میں سے ہے۔ غیر پیشہ وارانہ کہ اس درجہ کے مالک صاحب تمکین   ہوتے ہیں اور دل کی  صحبت  اور مقلب القلوب کی صحبت  سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور خدا کی تمام صفات سے متصف ہو جاتے ہیں  ان اخلاق الہی کی بدولت وہ تصرف کی دولت سے مشرف ہو جاتے ہیں  ، اور وہ خالق کی حالت پر قابو رکھتا تھا، اس لیے اسے ابو الوقت کہا جاتا ہے، اور وہ ایک صفت سے دوسری صفت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کی مرضی، اور باقیات سےبشریت کا وجود مکمل طور پر ہموار ہو چکا ہے اور یہ بات انہوں نے کہی۔ :

صوفی ابن الوقت باشد در متال لیک صافی فارغ است از امرو حال

حالها موقوف عزم و رای اوست بسته بر رای جهان آرای اوست

باطنی وضو

حديث اَجْمِعُوا وُضُوءَكُمْ جَمَعَ اللهُ سُبْحَانَهُ شَمْلَكُمْ  میں اشارہ ہے

آپ کے وضو کو جمع کرنے کی حدیث جماعۃ اللہ سبحانہ و تعالٰی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ اندرونی وضو کو بیرونی وضو کے ساتھ ملاتے ہیں تاکہ باطنی قوت برداشت حاصل ہو۔ باطنی مفہوم یہ ہے کہ لفظ توحید کے آگے تمام روحانی اور دنیاوی مفہوم منفی ہیں اور ان تمام رشتوں کی نفی حالات کی استقامت ہے استقامت احوال کی دلیل استقامت افعال ہے۔ جو امر و نہی خدا وندی کو اختیار کرنے سے حاصل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تعظیم سے میسر آتی ہے۔ استقامت افعال اور استقامت احوال کے بغیر کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ سالک طریقت کو ہر حالت میں یہ کوشش کرنا چاہیے کہ جب تک اس سے ہو سکے۔ اپنی روش (اہل اللہ سے ادب سے پیش آنا )اور اپنی کوشش (اللہ تعالیٰ کے کاموں میں سختی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنا) اس بات پر لگا دینا کہ میں جن لوازمات کا ذکر کرتا ہوں۔ اس پر عمل کروں ۔

لِمْ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ( وہ چیز کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے )، یہ کام بے حد مشکل ہے ۔ فاذکرونی اذکر کم( تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا) اللہ تعالیٰ کا ذکر تو اسے یاد کرنے کی توفیق ہے، اور یہ ذکر اس طرح کیا جائے جیسا کہ کرنے کا حق ہے۔ جو کچھ دیکھا جائے اسے بھی کیا جائے حقیقت کلمہ کے سامنے تمام چیز غیر اور حجاب نہیں ۔ لا صرف غیر اللہ کی نفی کرتا ہے۔ دل کی نفی کرنا سلوک کے لیے شرط اول ہے سالک کے وجود میں عدم تصرف کے بغیر کمال نہیں کرتا ۔ عدم تصرف جذبہ الہی کے اثر اور نتیجہ سے حاصل ہوتا ہے۔

 و قوف قلبی اس لیے ضروری ہے کہ اس جذ بہ کا اثر معلوم کیا جائے یہ اثر پہلے دل میں ہوتا ہے۔ اور عدد کی رعایت سے دل ذاکر ہو جاتا ہے اور دل کی تمام متفرقات جمع ہو جاتی ہیں۔ ذکر قلبی میں جب عدد اکیس( 21) سے تجاوز کرتا ہے ۔ تو اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ اور اس عمل کی بے حاصلی پر ذکر کا اثر یہ ہوتا ہے کہ نفی کے وقت بشریت کا وجود منفی ہو جائے، اور اثبات کے وقت الوہیت کے جذبات کے تصرفات کے آثار سے اثر کا  مطالعہ   کیا جاسکے اللہ تعالی نےقر آن مجید میں فرمایا ہے ما عندكم ينفد وما عند الله باق اس آیت کریمہ کے مطالب میں یوں سمجھنا چا ہیے کہ اعمال صالحہ اور افعال حسنہ جو اہل ایمان سے رونما ہوتے ہیں۔ اس وقت عند اللہ کہلائیں گے۔ جب حضرت خداوندی جل ذکرہ کے نگاہ قبولیت میں آئیں گے۔ یہی مقام وجود بشریت کی نفی ہونے اور عمل کے قبول ہونے کی علامت ہے، اور یہی وہ مقام ہے۔ جب جذ بہ  الہی کے تصرف کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔

تمام عبادات کا مقصود

اللہ تمہیں تو فیق مزید ہے ۔ اس قسم کے فوائد کی انتہا جسے اہل بصیرت روحہ اللہ تعالی ارواحھم  کو نوازا گیا ہے ۔ یہ ہے کہ تمام عبادات کا مقصود اور منتہی ذکر خدا وندی ہے سعادت عظمی کو وہی پاتا ہے جو اس جہاں سے کوچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی انس و محبت اس پر غالب آتی ہے۔ اس کی انس و محبت کا غلبہ ذکر الہی کے دوام تعبیر نہیں ہوتا۔ مسلمان کی بنیاد حکم لا الہ الا اللہ ہے  اور یہی عین ذکر خدا وندی ہے۔ دوسری تمام عباد تیں اسی ذکر کی تائید میں  کی جاتی ہیں۔ نماز کی روح ذکر الہی کو تازہ کرنے کا ہی نام ہے ۔ ذکر الہی دل پر وارد ہو جس سے اللہ کی عظمت اور ہیبت بیٹھ جائے۔ روزہ سے مقصد یہ ہے کہ خواہشات انسانی میں کمی ہو جائے جب دل خواہشات کے اثرات سے فارغ ہو تو صاف ہو جائے گا۔ وہ ذکر الہی کی قرار گاہ بن جائے گا۔ حج سے مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کا ذکر بلند کیا جائے ۔ الغرض اس کےلیے ذوق و شوق کا اظہار اس کے دیدار کی تمنا ۔ دنیا کا ترک کرنا ۔ دنیا وی  خواہشات سے دستبردار ہونا اور گنا ہوں  سے کنارہ کشی کرنا صرف اس لیے ہوتا ہے۔ کہ انسان ذکر خدا وندی کے لیے فارغ ہو۔ امر و نواہی سے مقصود بھی  ذکر الہی ہے۔

حقیقت ذکر

ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ تمام چیزوں سے دل کو توڑ لیا جائے اور اللہ تعالی کی محبت میں آکر کسی دوسری طرف التفات نہ کیا جائے اور دوسرا کوئی معبود تصور میں بھی نہ لایا جائے۔ صرف اسی کی اطاعت کی جائے ۔ ذکر کی حقیقت کی علامت یہ ہے۔ امرو نہی کے وقت اللہ تعالیٰ کے احکام کو فراموش نہ کیا جائے۔ اور اسی کے احکام کی تعمیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی بنیاد توبتہ النصوح کی طرح مضبوط ہونی چاہیے ۔ تمام ظاہری اور باطنی گنا ہوں سے کنارہ کشی کر لی جائے ۔ اللہ تعالی کے ساتھ اس کے ذکر کی نسبت اتنی مضبوط ہونی چاہیے کہ اس کی مخالفت کا ذرہ بھر اثر ظاہر نہ ہونے پائے ۔

 ذکر کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان طلب حق میں صادق رہے طلب کا درد ہو۔ راہ سلوک میں اسے کوئی مانع نہ آئے۔ اور کوئی چیز اسے ذکر خداوندی سے مانع نہ ہو ۔ یہاں تک کہ اسے اپنے وجود سے بھی گریزاں  ہونا چاہیے ۔ جہاں تک ہو سکے تمام ماسوی اللہ سے روگردانی کرے ۔ اور صرف ذکر خدا وندی میں ہی مستغرق ہو جائے ۔

سیر آمده از خویشتن می باید            برخاسته زجان و تن مے باید

در ہر گامے ہزار بند افزونست      زیں گرم روی بند شکن می باید

شیخ عطار قدس اللہ  روحہ  فرماتے ہیں۔

یاد او مغز ہمہ  سرمایه هاست          ذکر او ارواح را پیرا یہ هاست

تو زنگ خویش نندیشی دمے            پر تہور نام او گوئی ہمی

ذکر سے مکمل فائدہ اس وقت حاصل ہوتا ہے۔ جب شیخ کامل صاحب تصرف ( اولیاء اللہ صفات الہیہ کی قوت سے خلق میں تصرفات کرتے ہیں۔مگر سب سے قابل اور سب سے وقیع تصرفات ان کے ہوتے ہیں جو قلوب عالمین میں ان سے سرزد   ہوتےہیں۔ ان تصرفات کے ذریعہ  وہ گمراہوں کو راہ راست پر لاتے ہیں ۔ بد شوقوں کو صحیح ذوق و شوق کا  فیضان دیتے ہیں۔ نا قصوں کو کامل بناتے ہیں جن پر جہل کی مردنی چھائی ہوئی ہو انہیں علم کی زندگی دے کر  زندہ جاوید کر دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے شیخ کومحی بھی کہا جاتا ہے۔ ولی در حقیقت مظہر تصرفات نبی ہوتا ہے)سے اجازت حاصل کی جائے ۔ تاکہ اس ذکر حقیقی کے بیج سے جو طالب کے مستعد دل کی زمین میں ایک صاحب ولایت کی تلقین اور تصرف سے بویا گیا تھا۔ پوری طرح ثمرہ ولایت حاصل ہو۔ کلمہ کی نورانیت دل کی نورانیت کی مناسبت سے حاصل ہوتی ہے اور دل کی نورانیت خواہشات کے زائل ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہوتی ہے۔ کہ صفات مذمومہ کو اپنے باطن سے حتی الامکان دور کیا جائے ۔ جب دل کی زمین طبیعت کے خار و خاشاک سے خالی ہو جائے ۔ اور اس کام کے قابل ہو جائے تو ذکر کا بیج اس میں بکھیرا جائے۔ اگر کسی صفت ذمیمہ میں مبتلا ہو جائے تو اُسے رفع کرنے کی پوری پوری کوشش کی جائے۔ سب سے پہلے دل کے تصفیہ کی کوشش کرنا کر چاہیے۔

اور ابتدائے کار میں ہی تبدیلی اخلاق میں مشغول نہیں ہو جانا چاہیے ۔ جب توجہ حاصل ہو جائے۔ تو مراقبہ میں وقت گزارنا شروع کرے تاکہ تصفیہ قلب حاصل ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و فیضان کی امداد سے نفس کے اخلاق کی تبدیلی سے دل کی وہ صفات میسر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ جو عمر بھر کے مجاہدے سے میسر نہیں آتیں، جب یہ کیفیت  اللہ تعالیٰ کے فیضان سے حاصل ہو جائے ۔ تو اعتدال پسندی اور ثواب کے طریقہ کو اختیار کرتا جائے۔ اس راستے میں جوچیز بھی رکاوٹ کا سبب بنے اسے ہٹاتا جائے کیونکہ دل کی فراغت کے بغیر یہ راستہ طے نہیں ہو گا ۔ جب یہ تمام امور مکمل کرلے تو ایسے  شخص کی طرح ہو جائے گا جس نے طہارت کر لی ہو۔ اب اسے امام کی اقتداء کی ضرورت ہے جس کی اقتدا کرتا ہے وہی پیر راہ طریقت ہو گا۔ اور کامل صاحب تصرف ہوگا۔ اللہ تعالی کا راستہ خفیہ ہے اور شیطانی را ہیں عام طور پر اللہ کی راہوں سے  مل جاتی ہیں مگر اللہ کا راستہ تو ایک ہی ہے۔ اور باطل کی را ہیں ہزار ہا ہیں ،

 لاتتَّبِعُو الشَّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِه

نیست ممکن دررہ عشق اے پسر    روبروں بے زاں دلیل و راہبر

رو بجو یار خدائی را تو زود                 چون چنین کردی خدا یار تو بود

گر زتنهائی چوناہیدی شوی            زیر ظل یار خورشیدی شوی

وانکه در خلوت منظر بر دو ختست   آخر آنرا هم زیاد آموختست

خلوت از اغیار باید نه زیار             پوستیں بہروی آمد نے بہار

یار آئینه است جانرا در حزن         در رخ آئینہ ا ے جاں دم مزن

تانپو شد روئے خود را از دمت       دم فرو خوردن بباید هر دمت

ترجمہ  :  بیٹاراہ عشق میں یہ ممکن نہیں کہ راہبر یا دلیل کے بغیر سفر طے کیا جائے۔ اس راستہ میں کسی ولی اللہ کی تلاش ضروری ہے ۔ جب ولی اللہ مل جائے تو تم خدا سے رسائی حاصل کر لوگے۔ اگر تم تنہا رہ جاؤ اور اپنے محبوب کے آفتاب کے سایہ  میں ہو جاؤ جس نے خلوت میں نگاہیں سی دی ہیں تو اسے دوست سے سبق بھی ملے گا۔غم واندوہ میں یار کا تصور آئینہ بن جاتا ہے۔ آئینے کے سامنے دم نہیں مارا جاتا ۔ جب  تک اپنے چہرے کو تیرے دم سے تر و تازہ نہیں کرے گا تو اپنادم ہمیشہ نیچے دیا ہوا پائے گا۔

کلام مجید میں آیا ہے اتَّقُواوَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

گرنتوانی از خود بریدن                در پہلوئے پہلوان ماباش

اسی ضمن میں ایک اور مقام پر فرمایا ہے۔ دائیں پہلو بیٹھو تا کہ دل میں جگہ پاسکو  بائیں پہلومیں بیٹھ کر کیا حاصل کر سکوگے۔ جب اس کی صحبت کی سعادت اپنا اثر ڈالتی ہے۔ تو اپنا تصرف تسلط کرتی ہے۔ اس کے باطن میں پھر کسی دوسری چیز کا تصرف نہیں رہتا۔ اپنے تمام امور اور افعال اسی پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اور وہ اس حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے کہ اس کا فائدہ خطاء میں نہیں ہوتا بلکہ ثواب  میں ہوتا ہے ۔ اگر چہ اسے اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔

ہمارے خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے۔ اہل اللہ سے مشورہ کرنے اور نیک لوگوں سے نصیحت حاصل کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے۔ کہ اگر آخر کار اس معاملہ میں وجہ صواب ظاہر ہو جائے تو کم از کم تمہارا وجود تو در میان میں نہیں ہو گا۔ اگر اس کے خلاف بھی نتیجہ برآمد ہوگا تو پھر بھی تمہارا وجو ددرمیان میں نہیں ہو گا۔

مشائخ طریقت قدس سرہ نے تمام اذ کار میں سے لا الہ الا اللہ کے ذکر کو اختیار فرمایا ہے ۔ حدیث نبوی میں بھی ایسا ہی آیا ہے افضل الذكر لا إله الا اللہ اس کلمہ پاک کی صورت نفی اور اثبات سے مرکب ہے۔ جو حقیقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور پھر حضرت حق سبحانہ کی راہ دکھاتی ہے۔ یہ راہنمائی اسی کلمے سے  ہی ملتی ہے اس راہ پر چلنے والوں کے لیے پردہ اُن کی بھول کا نتیجہ ہے۔ اور حجاب کی صورت میں دل میں کو نیہ صورتوں کا نقش ہوتا ہے ۔ اس نقش میں حق کی نفی اور غیر کے اثبات نمایاں ہوتے ہیں جس طرح المعالجة بالاضداد ایک مفید طریقہ علاج ہے کلمہ توحید نفی ماسوی اللہ ضروری ہے اور اثبات حق سبحانہ تعالیٰ اسی نفی سے واضح ہوتا ہےشرک خفی سے نجات اسی کلمہ پر ملازمت اور مداومت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ ذکر ایسا ہونا چاہے جو نفی اور وجود کی عملہ محدثات کو فنا اور نا خواستن کی نگاہ سے مطالعہ کرے ، اور ذکر کی حقیقت پر غور کرے اور نفی خواطر کرے اثبات کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے وجود قدیم کو بقا کی نظر سے اپنا مقصود مطلوب – اور محبوب جائے۔ ہر ذکر میں اول و آخر حا ضر ر ہے ۔ اور جس چیز کے ساتھ دل کو دلچسپی پیدا ہو۔ اس کی نفی کرے اورنفی سے ہی اس تعلق اور دلچسپی کو باطل کرے۔ اور اثبات محبت سے حق کو اس محبت کے قائم مقام رکھے تاکہ دل آہستہ آہستہ تمام محبوب اور مرغوب چیزوں سے فارغ ہو جائے۔ اور ذکر کی ہستی ذکر کر کے نور میں تحلیل ہوتی  جائے اور بشریت کے وجود کے تمام علائق اور عوالق اُٹھ جائیں۔

 خواجگان رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ ذکر کے وقت نفس کو دور رکھنا آثار لطیفہ کے ظہور کی علامت ہوتی ہے۔ یہ بات شرح صدر کے لیے مفید ہے اور اطمینان قلب کی دولت بخشتی ہے یعنی خواطر میں نفس کو اس کی خواہشات سے محروم کرنا حلاوت عظیم کے وجدان کا سبب ہے ۔ اور ذکر سے اس کے علاوہ بہت فوائد میسر آتے ہیں۔

ہمارے خواجہ قدس سرہ ذکر کے معاملہ میں نفس کو دور رکھنے کو ضروری خیال نہیں کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی وہ عدد کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن وقوف قلبی کی رعایت کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ اور اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے غرضیکہ ذکر سے مقصود تو وقوف قلبی ہوتا ہے اور فنا کی نظر سے تمام مکونات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ اور بقا کی نظر سے وجود قدیم حق سبحانہ تعالیٰ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس بات پر قائم رہنے سے توحید کی حقیقت ذاکر کے دل میں قائم ہوتی ہے اور اس کی چشم بصیرت کھلتی ہے اسے شرع۔ عقل اور توحید کے درمیان کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا۔ اس مقام میں ذکر دل کی لازمی صفت بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ کہ ذکر کی حقیقت دل کی گہرائی کے جوہر کے ساتھ یک جان ہو جاتی ہے ۔ اور تغیر حق کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔ ذاکر ذکر میں اور ذکر مذکور میں فانی ہو جاتا ہے۔ جو دل کی بارگاہ   اغیار کی زحمت سے خالی ہو جاتی ہے اور لا یسعنى ارضي وَلا سَمَالَى وَلَكِن يسعني قلب عبدي المؤمن کی حدیث کی روشنی میں الا اللہ کے بادشاہ کا جمال اپنی تجلی دکھاتا ہے اُذکر کم کے وعدہ کے ساتھ حرف اور صوت کے لباس سے مجرد ہو جاتا ہے۔ اور كُل شي ھالك الا وجه کی خاصیت ظاہر ہو جاتی ہے۔ روح کا ذکر ذاکر کے روح و وجود کے ساتھ اُذکر کم کے بحرنا پیدا کنار میں غرق ہو جاتا ہے ۔

ذکر گو ذکر گو ذکر تا تر ا جان است پاکی دل  زذکر یزدان است.

چون تو فانی شوی ز ذکر به ذکر        ذکر خفیه که گفته اند آن است

نقشبندیہ کی گیارہ شرائط

 یاد کرد. بازگشت – یاد داشت . ذکر لسانی اور قلبی اور نگہداشت سے مقصود یہ ہے کہ مراقبه خاطر کو قائم رکھا جائے ۔ یادداشت سے مراد مشاہدہ ہے۔ اور فانی ہونے کا دوسرا نام ہے۔ حقیقت میں یہی ذکر خفیہ ہے۔ زبانی ذکر اور قلبی ذکر تو ایک قسم کی الف با کی تعلیم کے مترادف ہے ۔ تاکہ سالک کو پڑھنے یا ذکر کرنے کا ملکہ حاصل ہو سکے اگر استاد کا مل ہو، اور طالب میں طلب صادق اور قابلیت دیکھے گا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی قدم پر اسے پڑھنے کے قابل بنادے اور اسے یادداشت کے طور پر پہنچادے۔ اور اسے الف ، با کی مشقوں کی زحمت سے محفوظ رکھے لیکن طالبعلموں کی کثرت ایسی ہے۔ کہ انہیں ذکر زبانی اور ذکر قلبی سے پہلے یادداشت کی طرف راہنمائی کرنا ایسے ہی ہے۔ جیسے کسی بے پر پرندے کواڑنے پر آمادہ کیا جائے ۔ اور اسے مجبور کیا جائے کہ اڑو۔ اور لب بام اڑ کربیٹھو۔

ما به هر می پریم سوئے فلک            زانکہ عرشیت اصل جو ہر ما

ساکنان فلک بخور کنند                   از صفات خویش و معنبر ما

دلبر ما شدست دلبر ما     گل ما بےحدست شکر ما

ما همیشه میان گل شکریم               زان دل ما قوی است در بر ما

زہره دارد حوادث طلبی                 که بگرد و بگرد لشکر ما

ذرہ ہائئے ہوا پذیرد روح                از دم عشق روح پرور ما

بزرگوں نے کہا ہے :

حقِيقَةُ الذِكرِ عِبَارَةُ عَن تَجَلِيةِ سُبْحَانَ لِذَاتِ بِذَاتِهِ مِنْ حَيْثُ الاسم المتكلم اظهار الصفات الكمالية ووصفا بالنعوت

الجمالية والجلالية

شرک خفی کے بغیر اب ذکر میسر ہوگا۔ اور شہدا اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَہ إِلَّا هُوَ  کی آیت کریمیہ کا راز اب آشکار ہو گا ۔

تاز خود بشنود  نه از از من و تو         لمن الملك واحد قهار

 اگر چہ بدایت فطرت میں ہی روز ازل سے روح نے اللہ تعالی کو یگانگت  سے جان لیا تھا۔ مگر یگانگت سے پہچان نہ سکا تھا۔ کیونکہ پہچان (معرفت) تو شہود سے پیدا ہوتی ہے اور شہود وجود سے درست نہیں ہوتا کیونکہ شہود تو وجود کی ضد ہے ۔ جب روح کا وجود ظاہر ہوا تو اس کا عین وجود کی دو رنگی ثابت ہو گئی۔ اس نکتہ کی تشریح نہایت تفصیل طلب ہے۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ ہمارے  خواجہ قدس سرہ نے جس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اسی چیز سے ظاہر ہوتا  ہے اور اذکرکم کے معانی اسی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے یاد کرنے کی توفیق ہے۔ اور وہ مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ جو ذکر کا ثمرہ ہیں۔ یعنی زباں کا ذکر دل کا ذکر ۔ روح کا ذکر راز کا ذکر ذکر خفی دل ہی روحانی اور جسمانی عالم کا واسطہ ہے۔ روح دل اور سر کے دونوں عالموں کے درمیان واسطہ ہے۔ اور اہل اللہ کی ایک جماعت کے نزدیک تو دل کے مقام سے بھی بلند تر ہے۔ لیکن روح کے مقام سے فرو تر ہے۔ حقیقت میں سرعین روح اور دل ہے ۔ اور انتہائی مقام ہے۔ روح اور دل ہر ایک جب اپنے اپنے مقام کی انتہائی بلندیوں کے متجلی ہوتے ہیں ۔ اور ان سے جو عجیب و لطیف صورت نمودار ہوتی ہے وہ سر ہے ۔ دل اور روح کی انتہائی  منزل جس کا ذکر کیا جائے کوئی بھی نہیں پہنچ سکا۔

خفی روح وہ خاص مقام ہے ، جو صرف خاصان حضرت سبحانہ کو ہی نصیب ہوتا ہے وہ اید هم بروح منہ یہ صورت عالم صفات خداوندی کے درمیان واسطہ بنتا ہے شہر کے درمیان اور اس کے واسطہ سے صفات الوہیت کے عالم  کو پایا جا سکتا ہے

رستم را هم وخش رستم کشند            لا يَعْمَلُ عطايا الملك الاعطايا الملك

حقیقت ذکر خفیہ اور مرتبہ خفی

خلفائے خانوادہ خواجہ بزرگ خواجہ عبد الخالق  قدس سرہ نے اس حقیقت کی طرف  اشاره فرمایا  ہے  که جب تک وجود روحانیت باقی ہے ، اور وہ وہ  مرتبہ فنا تک نہیں پہنچتا اس وقت تک حقیقی طور پر خفیہ ذکر نہیں ہوسکتا اکابرین کا یہ قول کہ لا  یطلع عليه فلك فيكسہ و لا نفس فتُعجب بہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ جب فنا کی حقیقت کو پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت اس کا باطن نفی میں کامل ہو جاتا ہے۔ اور اثبات کے بغیر کوئی چیز نہیں رہتی۔ اور اس کا ذکر اللہ اللہ  ہوتا ہے۔ اس وقت کلمہ کی حقیقت اور اس کا سر حاصل ہوتا ہے ۔

ہمارے حضرت خواجہ اس سلسلہ میں بہت کچھ فرمایا کرتے تھے۔ حَقِيقَةُ الذِكْرِ الْخُرُوجُ عَنْ مَيْدَانِ الْفَضْلَةِ إِلى فِضَاءِ المشاهد ۃ

ترجمہ : ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ میدان غفلت سے نکل کر فضائے مشاہدہ میں پرواز کیا جائے ، مشاہدہ تجلی ذات میں ہوتا ہے۔ اور مکاشفہ تجلی صفات میں اور محاضرہ تجلی افعال میں ہوتا ہے۔ لسانی ذکر سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام روحانی و جسمانی قوی کی توجہ مبذول ہو۔ اور نفی خاطر میسر ہو۔ اسی مکمل توجہ اور ذکر لسانی پر مداومت سے ذکر دل میں اتر جاتا ہے۔ اور زبان کے الفاظ دل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اور ذکر قلبی کی ہمیشگی سے انوار الہیہ سے ایک نور ظاہر ہوتا ہے۔ جو انسان کے باطن کو تجلیات صفاتی اور آسمانی کا مظہر بنا دیتا ہے۔ اور پھر اسے تجلیات ذات کی  طرف راہنمائی کرتا ہے۔ والله سبحانه الموفق

ذکر کے مراتب اور درجات کا کمال یہ ہے کہ مذکور دل پر طاری ہو جائے ۔ اور مذکور ہی رہ جائے ۔ اور بس۔ اور دل کے ساتھ ہی آشنائی اور دوستی ہو جائے دل کی دوستی اور دوست کے ذکر میں فرق نہ رہے، جسے دل کی دوستی میسر آجاتی ہے اسے محبت مفرطہ کا نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے ۔ اور اسی کیفیت کا نام عشق ہے۔عاشق گرم رو ہوتا ہے اور اس کی دوستی معشوق پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ معشوق میں محویت کی وجہ سے معشوق کا نام بھی فراموش ہو جاتا  ہے ۔ جب یہ مقام استغراق آجائے، تو اپنے وجود کو اور دوسری اشیاء کو جز یاد خداوندی کے فراموش کر دیتا ہے پھر وہ اس معنی کی حقیقت کو پہنچ جاتا ہے ۔

واذکر رَبَّكَ إِذا نسيت يعنى إِذا نسيت غيرة ونسيت نفسك لان تحقق المذكور و شهود يُوجِبُ نفَى الغَيرِيَّة بک تثبت الغيرية

جب وہ اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ اپنے آپ کو اور دوسری تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اس حالت کو فنا اور نیستی کہا جائے گا۔ اور یہی سرالی اللہ کا انتہائی درجہ ہو گا۔ اب وہ تصوف کی پہلی منزل عالم توحید اور وحدانیت کا پہلا قدم اور درجات خاصہ کا آغاز ہوگا  اسی لیے فرمایا گیا ہے

چیست معراج فلک این نیستی     عاشقان را مذهب و دین نیستی

هیچکس را تا نگردد اوفنا                 نیست ره در بارگاه کبریا

اس وقت عالم ملکوت کی صورت اس پر ظاہر ہوتی ہے۔ انبیاء کرام کے ارواح اور جو ملائکہ کے جواہر  پاکیزہ صورتوں میں نظر آنے لگتے ہیں، اللہ تعالی کے دربار کے خاص حضرات  پرظاہر ہونے لگتے ہیں۔ احوال عظیم ظہو ہونا شروع ہوتے ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا، ہر مقام پر ایک نئی چیز ظاہر ہونے لگتی ہے۔ اس کیفیت کو بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ راستہ چلنے  کے لیے ہےکہنے کے لیے نہیں ہے۔

اہل اللہ اس قسم کی باتوں کو تشریح اور تفصیل بیان کرنے سے یہ مقصد لیتے ہیں کہ سالک کو انتباہ اور شوق و ذوق کا سامان مہیا کیا جائے ۔ اگر کوئی شخص ذکر کے اس مقام یا درجہ کو نہ پہنچ سکے۔ تو اس کے احوال اور مکاشفات ظاہر نہیں  ہوتے لیکن اس پر ذکر کا غلبہ رہتا ہے۔ اور اس کے دل میں جانشیں ہو جاتا ہے

کلمہ توحید کے معانی

کلمہ توحید کے معانی بیان کرنے کے لیے حروف و  الفاظ نہیں ہیں۔ نہ عربی میں نہ فارسی میں یہ دل پر غالب آتے ہیں۔ اور دل اس کے ذکر اور معانی سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دل کو دوسرے کسی کام کی طرف راغب کرنے کے لیے تکلیف دینا پڑتی ہے ۔ یہ ایک سر عظیم ہے۔ جب دل ذکر کے نور سے آراستہ ہو جاتا ہے۔ تو اسے کمال سعادت حاصل ہو جاتی ہے ۔ ایسی سعادت جو اس جہاں میں میسر نہیں ہو سکتی صرف اسی جہاں میں ظاہر ہوتی ہے ۔ جب دل دنیا کےو سو اس کے کانٹوں سے خالی ہو جاتا ہے۔ ذکر کا بیج اس میں امانت رکھا جاتا ہے۔ اب ایسی کوئی قوت نہیں رہتی جو اختیار سے تعلق رکھ سکے ۔ اختیار کی حدیں تو یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں ۔ اس مقام پر انتظار کرنا چاہیے کہ کیا ظہور میں آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسابیج کبھی ضائع  نہیں ہوتا – مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِهُ لَهُ فِي حَرثہ .

ہمیشہ ذکر کرنا عجائبات ملکوت کی کنجی ہے۔ اس سے قرب الہی کے دروازے کھلتے ہیں۔ ہمیشہ ذکر سے مراد یہی نہیں جو زبان یا دل پر جاری رہے ۔ بلکہ یوں ہمیشہ لازم اور دل نشین رہے۔ دل کو عداوت خلق سے صاف کر دیا گیا ہو مخلوقات کے ذکر سے فارغ کر دیا گیا ہو ۔ ماضی اور مستقبل کے اذکار سے علیحدہ کر دیا گیا ہو محسوسا ت کے تمام مشاغل غصہ۔ بد اخلاقی دنیا کی خواہشات دنیا کی طلب غرضیکہ ہر چیز سے مبرا کر دیا گیا ہو۔ صرف حق تعالی سے تعلق رہے۔ ایک لمحہ بھی غافل نہ ر ہے۔ کیونکر حقیقت ذکر غفلت کو چھوڑ دینے کا نام ہے ۔ اور کچھ کہنا بھی نفس کی بات ہوتی ہے ہے ۔ اور  جوذکر کی حقیقت کے لیے حجاب اور پوست بن کر رہ جاتا ہے۔

مراقبہ

ہمیشہ مراقبہ میں رہنا ایک بہت بڑی دولت ہے۔ مراقبے  صحت کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے احکام کی موافقت کی جائے یہ بات نہایت مشکل ہے کہ دل کو ہمیشہ ایک ہی حالت یا ایک ہی صفت پر رکھا جائے مراقبہ پر مداومت اختیار کرنا حقائق کو پا لینا ہے۔ مراقبہ پر مداومت اس وقت تک میسر نہیں آتی جب تک قطع علائق دنیا ،مخالفت نفس پر صبر اور اغیار کی صحبت سے مکمل پرہیز نہ کیا جائے ۔

شیخ بزرگوار شیخ  شہاب الدین سہروردی قدس اللہ تعالیٰ سرہ فرماتے ہیں مبتدی کو چاہیئے کہ فرائض اور سنن کو مختصر کر ے، اور دوسرے اوقات ذکر الہی میں گزارے متوسط کے لیے ضروری ہے کہ فرائض اور سنن کی ادائیگی کے بعد تلاوت قرآن پاک کرتا رہے۔ وہ خاصیت جو مبتدیوں کو ہمیشہ ذکر سے میسر آتی ہے۔ متوسطین کو تلاوت قرآن پاک سے حاصل ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس سے زائد کئی فوائد حاصل ہوتے  ہیں، قرآن پاک کی مختلف المعانی آیات کی تلاوت سے صفات مختلفہ کی تجلیات حاصل ہوتی ہیں۔ دقائق مفہوم اور حقائق علوم نمایاں ہوتے ہیں منتہی حضرات کے لیے جن کے لیے ذکر کا نور ان کی ذاتی صفت بن چکی ہے۔ کامل تر عمل نماز ہے کیونکہ یہ  عبادت تامہ اور جامعہ ہے۔

حضرت خواجہ امام محمدبن علی حکیم ترمذی قدس الله روحہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس نقل کو اپنی سند سے مستند بناتے ہیں ۔ سمعناان قراءة راءة القران افضل من الذكر( ہم نے سنا ہے کہ تلاوت قرآن پاک ذکر سے افضل ہے) اس بات کو اور قومی کرنے کے لیے آپ نے فرمایا ہے ۔ اور کیا غواصی کی ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر اسی کی زبان سے کرنا بدرجہا افضل  ہے۔ ان الفاظ سے جن سے ہم اپنی زبان سے سے ادا کرتے ہیں۔ ہے ۔   فَإِنَّ القران لم يُخْلَى منُذَنَزَلَ إِلَى الْعِبَادِة لا يُخْلَقَ وَلَا يَتَدَنس فَهُوَ عَلَى طرواتہ طيبه وطهارته وَلَهُ كِسْوَةٌ مِنْ عِلمه برية و الذكرُ الَّذِي يَذْكُرُ الْعَبْدُ مُبْتَدِعَا مِنْ تِلْقَاءِ قَلْب برايت لہ  كسوة له إلى نُورِ عَظِيم لا يُقِ بِكِتَابِ الْمُتَكَلِّمِ وَ هُوَا اللَّهُ عَزدجل

اگر کوئی شخص قرآن کے معانی نہیں جانتا۔ اسے چاہیے کہ دل کو تلاوت کرتے وقت قرآن کی آیات پر مذ کور رکھے۔ اور کوشش کرے کہ نفس کے وسواس اسے ادھر ادھر نہ لے جائیں۔ دل نور تعظیم اور توقیر سے آراستہ رکھے ۔ اور اس کے دل میں عظمت قرآن طاری رہے۔ کیونکہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ اور اس کی صفت ہے۔ اور پھر قدیم ہے۔ اگر ان حروف کے معانی کی حقیقت ظاہر ہو جائے ۔ سات زمین اور سات آسمان اس کی تجلی کی تاب نہیں لا سکیں گے۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ میں نے خدائے تعالیٰ کو خواب میں دیکھا۔ میں نے دریافت کیا یا اللہ : یا اللہ تیرا تقرب کسی چیز سے حاصل ہوتا ہے۔

فرمایا : میرے کلام پاک قرآن سے ۔

میں نے پوچھا : اگر اس کے معانی سمجھے یا نہ ؟

فرمایا : اگر سمجھے یا نہ !!!

اکابرین میں سے ایک بزرگ نے فرمایا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص ایک دوائی پی لیتا ہے۔ اور اسے اس بات کا علم نہ ہو۔ کہ کون سی دوائی ہے۔ تاہم اس پر اس کا اثر ضرور ہو گا۔ اسی طرح قرآن کا اثر بہر حال ہوتا ہے۔ قرآن کا ایک ایک حرف ایک پہاڑ کی مانند ہے ۔ جو انسانی وجود پر گرتا ہے۔ اور اسے فنا کر کے رکھ دیتا ہے۔ بشریت کے تمام آثار مٹا دیتا ہے ۔ جب قرآن پاک کا نور دل کے نور سے ملتا ہے۔ تو نورانیت زیادہ ہوتی ہے۔ اوربشریت کا وجود زیادہ متلاشی ہوتا ہے۔

خواجه امام محمد بن علی حکیم ترمذی قدس الله روحہ فرماتے ہیں۔ کہ رات کے وقت قرآن پاک کا تمام وظیفه (1) سوره فاتحه (2) قل يا أيها الكفرون (3) قل هو الله أحد(4) ، قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (5 ) قُلْ أَعُوذُ بوت النَّاسِ (6) خاتمہ سورہ حشر (7 ) خاتمہ سورہ بقر میں ہے ۔ دن کے وقت سورہ یسین کافی ہے۔ حضرت عزیزاں خواجہ رامتنی قدس الله روح فرماتے ہیں۔ جس وقت تین دل جمع ہو جائیں تو بندہ مومن کے کام بن جاتے ہیں ۔ دل  قرآن دل بندہ مومن ۔ اور دل شب ۔

حضرت خواجہ یوسف ہمدانی امام ربانی قدس الله رو جدا کہ ہمارے خواجگان  نقشبند کا سلسلہ آپ کی ذات تک پہنچتا ہے۔ اس طرح فرماتے ہیں کہ طالب کو چاہیے۔ کہ شب و روز لا الہ الا اللہ میں مستغرق رہے۔ خواب و بیداری میں یہی کلمہ  کہتا رہے نوافل دوسرے اذکار اور تسبیحات کو بے شک ترک کر دے ۔ اور اسی کلمه پر اکتفاء اور اختصار کرے ۔ کیونکہ جہاں علم لدنی ہوتا ہے۔ حکمت الہی میسر ہوتی ہے ۔ ایسے مواقع پر نفل کی رحمت کیا معنی رکھتی ہے ۔ ہر دن ہر رات بلکہ ہر لمحہ اور  ہر لحظہ یوں محسوس کرے کہ لا الہ الا اللہ میں ہی مسلمان کا نور ہے۔ نماز فرض اور سنت کے علاوہ لا الہ الا اللہ کو ہی ضروری اور لازم جانے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کو مصیبت اور مشقت سمجھے کائنات کے تمام خطرات اور اندیشیوں سے خالی ہو جائے ۔ اور صرف ذکر لا الہ الا اللہ سے ہی تعلق رکھے ۔ ہر حالت اور ہر ساعت  میں اسی کو ورد زباں بنا ئے مخلوق کے تعلقات کے قطع کرنے کے لیے اذکار ظاہری و باطنی سے ایسا کامل تر ، شافی ترا اور موثر ہتھیار نہیں ہے جتنا کہ ذکر لا الہ الا اللہ ہے۔

شیخ شهید شیخ مجد الدین بغدادی قدس الله عالی و فرمانے ہیں

اتفق المشايخ قَدَّسَ اللهُ أَنا وَاحَهُمْ عَلَى أَنَّ الْمُرِيدَ مَا لديك طريق لا إله إلا الله مدت قَرِيبَةٌ بِالْ بِعِينَ سَنَةً لَا يَضِلُ إِلَى حقيقة لا اله الا الله

حضرت خواجہ امام محمد بن علی حکیم ترندی قدس الله روح فرماتے ہیں۔ جو شخص ہمیشہ دولت ایمان طلب کرتا ہے ۔ اسے چاہیے ہر حالت اور ہر کام میں لا الہ الا اللہ کے ذکر کی عادت ڈال لے۔ وہ شرک خفی کی سیاہیوں کو اسی کلمہ سے دور کرتا جائے گا ۔ اور نور ایمان سے دل کو تازہ کرتا جائے گا۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جددوا أيما نَكُم بِلا إِلَهَ إِلَّا الله (الحديث)

مرتبہ ندماء

اہل تلوین کا مرتبہ ندماء کا سامرتبہ ہوتا ہے ۔ جب تک انہیں بے اختیار کر کے دربار سلطنت میں نہ لایا جائے باریابی نہیں پاسکتے ۔ اہل تمکین کا مرتبہ وزراء کا سا ہوتا ہے۔ کہ دربار سلطنت میں وہ نائب مناب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ملک کے تصرف میں صاحب اختیار اور مطلق العنان ہوتے ہیں چنانچہ اہل تمکین زوال عہدہ بے خبر ہوتے ہیں ۔ وہ جس وقت چاہتے ہیں۔ اپنے اختیار ایک صفت سے دوسری صفت اور ایک حالت سے دوسری حالت پر منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ اہل تمکین کو بھی بعض اوقات تلوینی کیفیت اور احوال سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ وہ اپنے باطنی احوال پر غالب رہتے ہیں۔ اور ان کا پورا پورا تصرف ہوتاہے۔ اور ان احوال اور کیفیات کو چھپانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اہل اللہ میں سے ایک طائفہ نے کہا ہے کہ وعید سے مقصود خوف دلانا ہوتا ہے ۔ یہ بات ان سے اس وقت صادر ہوتی ہے۔ جب الطاف ربوبیت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ یا جس وقت ان کے حال پر تصرف اور غلبہ کا زور ہوتا ہے۔ مگر اہل اللہ سے وہ طائفہ جو اپنے باطنی احوال پر متصرف ہوتے ہیں۔ وہ احوال کو میزان شرع سے تولتے ہیں۔ اگر شریعت کے قانون کے مطابق ہوں تو ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور ان کا اظہار کرتے ہیں۔ ورنہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔

اکابرین میں ایک بزرگ نے فرمایا ہے : لَا أَقْبَلُ مِنْ قَلْبِي إِلَّا بِشَاهِدَینِ  عدلينِ الكِتاب والسنة(میرا دل اس وقت تک کوئی چیز قبول نہیں کرتا جب تک دوشا بد عادل گواہی نہ دیں وہ ہیں کتاب اور سنت )

جس شام کو عبد اللہ خجندی ہمارے ساتھ آملے تھے ۔ اس خواب کے بارہ سال بعد جو خواجہ محمد علی حکیم ترمذی قدس سرہ نے ترمذمیں دیکھا تھا۔ اس خواب کے وقت آپ نے انہیں فرمایا تھا کہ اپنے آپ کو تشویش میں نہ ڈالو ۔ یہ وقت ان  چہروں کے ظہور کا نہیں ہے جو تم طلب کرتے ہو ۔ یہ خواب بخارا میں بارہ سال بعد رونما ہو گا تم فلاں شخص کی صحبت میں پہنچو گے ۔ انہوں نے اپنا سارا خواب خود ہی سنا دیا ۔ اور وہ چیزس طلب کیں جو اس  خواب میں طلب کی تھیں۔

پھر اسی رات خواب میں دکھائی دیا مجھے کہیں لایا گیاہے اورایک خزانہ میں لارکھا ہے۔ اس خزانے کے کمرہ میں ایک بہت بڑا دریچہ ہے جس پر زنجیر لگی ہوئی ہے۔ اور اس پر ایک قفل لگا ہوا ہے میرے پاس ایک چابی لائی گئی اور مجھے دے کر اشارہ کیاگیاکہ  قفل کھولوں  میرے دل میں  آیا کہ   ا سے کھولوں میں نے ابھی تھوڑا سا کھولا تھا تو ایک بڑا سا شعلہ نمودارہوا میں نے دل ہی میں کہا۔ اگر میں سارا دروازہ کھول دیا تو کسی کوان شعلوں کی تاب کی مجال نہ تھی چابی تو میرے پاس ہے۔ مجھے اختیار بھی دیا گیا۔ جس وقت چاہوں گا۔ کھول لوں گا ۔

اہل تمکین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ تصرف احوال کے ملک سے آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کی بصیرت کے سامنے سے تمام حجابات اٹھ گئے ہوتے ہیں ۔ اسباب میں سے کوئی سبب بھی ان کی حالت میں تبدیلی یا کمزوری نہیں لا سکتا۔ کائنات کی کوئی چیز مشاہدہ محبوب اور محبت معشوق کے مشیر سے جدا نہیں کر سکتی ۔ وہ مخلوق سے اختلاط اور ان کے احوال کے مشاہدے سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور ان کی حالت میں کوئی تغیر یا تبدل رونما نہیں ہوتا ۔

ہم او پر اہل تلوین اور اہل تمکین کوند ما اور وزراء سے تشبیہ دے آئے ہیں۔ اب ہم  ولی عزلت اور ولی عشرت کو بھی ندیم اور وزیر سے تشبیہ دیں گے۔ ولی عزت اپنے حال کی نسبت سے اشرف ہوتا ہے۔ مگر ولی عشرت حسب حال ہونے کی وجہ سے افضل ہوتا ہے۔

ایسے ملک مقرب انسان کامل سے اشرف ہوتا ہے اور انسان کا مل اس سے افضل اور اکمل ہوتا ہے، حدیث قدسی صحیحیہ میں وارد ہے:

وَ إِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَاءِ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَاءِ خَيْرٍ مِنْهُمْ !     اسى حديث قدسی میں ولی عزلت کی تعریف میں یہ الفاظ کہے گئے ہیں

ان مِنْ اغْبَطِ أَوْلِيَائِي عِنْدِي مُؤْمِنٌ خَفِيفٌ الْحَاذِ .

ایک دوسری حدیث میں  رسول اکرم ﷺ سے یوں روایت کی گئی

ان اللهِ تَعَالَى عِبَادًا لَيْسُوا بِأَنْبِيَاءِ وَلكِنْ يَغبطھُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ بقُرْبِهِمْ وَ مَكَانَتِهِمْ مِنَ اللهِ تَعَالَى وَلَقَدْ تَمَتَّى اثْنَا عَشَرَ نَبِيًّا إِنَّهُمْ كَانُوا

مِنْ أُمَّتِي !

دوسری احادیث میں اس موضوع کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ ان احادیث میں بعض خواص ملک کی فضیلت خواص بشر پر ہے۔ اور ایسے ہی بعض اولیاء اللہ کی فضیلت نبیوں پر آئی ہے۔ اس ابہام کو دور کر نے اور اس شبہ کی تحقیق کا جواب یہی ہے کہ شرف حال اور فضیلت و کمال کے درمیان فرق کو معلوم کر لیا جائے ۔

اہل اللہ کے طریقے

اہل اللہ کے طریقے کئی قسموں پر ہوتے ہیں۔ بعض نے رخصت پر عمل کیا ہے انہیں اس رخصت سے مقصود یہ ہے کہ وہ خلق کو فائدہ پہنچائیں اور اپنی ذات کے لیے کچھ نہ کریں بعض نے عزیمت پر عمل کیا ہے۔ ان کا مقصد بھی نفع خلق ہی ہوتا ہے اور اپنی ذات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ لیکن عمل میں مخلوقات کو نفع دینا عزیمت سے زیادہ بلند رتبہ ہے۔ اس میں مکمل ظہور تمام خطرات سے دور رہتا ہے ۔ تمام کام میں مصروف ہیں۔ ہماری مراد اس درخت کی مثال ہے جو درخت بلا فائدہ نہیں ہوتا ۔یا تو میوہ  دیتا ہے۔ خواہ میوے کے مختلف مزے ہوں ، یا وہ درخت سایہ بہم پہنچائے گا لوگ اس کے سایہ میں آرام پائیں گے۔ اگر سایہ میں بھی نہ آئیں تو اس کے حسن و طراوت  سے آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوگی

ہر کس بدرت در آرزوی دیگر اند  اندریک و بوئے جست و جود دیگراند

گر چه کس راپیچ کاروبار نیست        جمله در کارند و کس بے کار نیست

اہل اللہ کے وجود کا کمال مخلوقات کی عقیدت سے بلند تر ہوتا ہے مخلوقات کی  عقیدت بسا اوقات ان کے لیے بارِ خاطر بن جاتی ہے ۔ اس عقیدت اور اظہار کمال سے  اہل اللہ کا مقصود مخلوق کے وجود کی تربیت ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بوجھ تو د دسروں  کے فائدے کے لیے اٹھائے رہتے ہیں۔ باطن میں اپنے وجود کی نفی کرتے ہیں۔ اس  تربیت اور ان کے وجود کے فائدے ظاہراً تو نقصان دہ امر ہوتے ہیں ۔ لیکن باطنی نگاہ میں انہیں فائدہ رسانی مقصود ہوتی ہے۔

دعا میں آیا ہے ۔ اللهُمَّ لَا تَحْدِثُ لِي عَزا ظَاهِراً إِلَّا أَحْدَثْتَ لِي ذِلَّةٌ بَاطِنَةً بِقَدْرِهِ وَلَا تَرفعُني عِنْدَ النَّاسِ دَرَجَةً إِلَّا خَطَطْنِي عِنْدَ نَفْسِي مِثْلُهَا

اہل اللہ کی صحبت

اگر کسی میں طلب کی خواہش پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ اہل اللہ کی صحبت طلب  کرے ۔ یہ جذ بہ طلب بھی اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے۔

ملک  طلبش بر سلیمان ندهند         منشور غمش بہر دل و جان ندهند

اس نعمت عظیم کی قدر و قیمت کو پہچاننا  چاہیے۔ اگرایسی محبت میسر آجائے تو چند لمحات گوش  دل اہل اللہ کی گفتگو کے لیے وقف کر دے ۔اور اس کی اللہ سے توفیق حاصل کرے تاکہ اسے اسی صحبت میں تقویت اور تربیت نصیب ہو۔

اہل اللہ کی نگاہ ایسے طالبان حق کے لیے  جو کسی میں بے اختیار ظاہر ہوتی ہے۔بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر ان کے اختیار سے ایسی طلب ظاہر ہوگی ۔ تو ان کے   ایسا اختیار مقام خطر ہوتا ہے ایسے اختیار کے لیے باطنی طور پر نفی نہایت ضروری ہے تاکہ ذاتی  اختیارات  کے بغیر ہی اللہ کی طرف سے انعامات  کا ظہور ہوتا ہے ۔

مبتدیوں اور اہل طلب کے لیے اللہ تعالی کے نزدیک اور اہل اللہ کے ہاں اس قول کی نفاذ اور تعظیم حاصل ہوتی ہے۔

يَا دَاوُدُ إِذَا ر أَيْتَ لِي طَالِبًا فَكُنْ لَہ خَادِمًا

 طلب کی خواہش کا ظاہر ہونا بے پناہ دولت کی علامت ہے۔ کیونکہ جب تک اللہ تعالی اپنی ارادت کی صفت کا اپنے بندے کی روح پر تجلی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کا عکس بندے کے دل میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی وہ طالب حق بن سکتا  ہے۔ اور نہ ہی اللہ کے دوستوں کی محبت کے لائق ہو سکتا ہے۔

جو ینده از اں نہ کہ جو یان تو نیست در جوانی داں کہ ترا جو یا نست

اس صفت کی تربیت اور تقویت حقیقت میں اس شخص میں آتی ہے ۔ جو ولایت کے تصرفات کو کامل اور مکمل طور پر تسلیم کر لیتا ہے۔ وہ اللہ کی مہربانی سے اپنے مقصود کو جلدی سے پالیتا ہے۔ ورنہ اس بات کا خطرہ ہوتا ہے ۔ کہ طلب کی  صفت کے اثرات زائل ہو جائیں ۔

طریقہ اہل باطن

اہل باطن کا طریقہ کم دیدن کم زدن نیستی اور اختصار ہے ۔ دید سے اعمال میں کمی آتی ہے اور مشاہدے سے احوال کا نقصان ہوتا ہے۔

بشریت کے وجود کی نفی اس قدر دوسری کسی چیز سے نہیں ہوتی جتنی کہ کم دیدنی سے ہوتی ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام پر جس قدر ابتلاء کے معاملات وارد  ہوئے ہیں ۔ اسی وجہ سے تھے۔

حقیقت استغفار

استغفار بشریت کے وجود سے ہوتی ہے کیونکہ انسان ہی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اس کے بعد جب وہ  بشریت کے وجود کو پہچان لیتا ہے۔ اور اس کی بقا کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے وہ اسی الم اور بے چارگی نہایت آہ وزاری سے بارگاہ خدا وندی میں روتا اور گڑ گڑاتا ہے۔ اس

وقت وہ ا ستغفار کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے ۔

خلق ترسد از تو ، من ترسم زه خود    کز تو نیکی دیده ام و از خویش بدا

دولت درد مسلمانیم ده                  نیستی نفسِ ظلما نیم ده

گنا ہوں کو معاف کرنا بھی اہل اللہ کے وجود بشریت کی نفی ہوتی ہے۔ حضرت  موسیٰ علیہ السلام کا خضر علیہ السلام پر اعتراض کرنا شریعت کی غیرت کی وجہ سے تھا۔ اللہ کی اور حکمتوں کے علاوہ ایک حکمت نفی وجود موسوی بھی تھی۔

مرشد على الحقيقة

مرشد على الحقيقة (الله تعالیٰ جل جلالہ) اپنے دوستوں میں ہے ہر ایک کو اس کے حال کی نسبت سے تربیت فرماتا ہے۔ ایسے ہی اولیا ئے امت سید المرسلین صلی الہ علیہ وسلم کی ولایت کی نسبت سے حصہ پاتے ہیں۔ اسی طرح انہیں دوسرے انبیاء علیہم اسلام کی ولایت کی نسبت سے حصہ ملتا رہتا ہے ۔ اولیا ئے اُمت علم لدنی کا حصہ نسبت مشرب خضر علیہ السلام سے حاصل کرتے ہیں ، اور آپ ہی کی روحانیت سے نسبت استمداد پاتے ہیں۔ اگر چہ اولیاء اللہ ظاہر جسمانیت کے واسطہ سے ایسی استعداد  سے فاضل دکھائی دیتے ہیں ۔

اولیا ئے امت کابعض انبیاء کرام کے مشکوۃ روحانیت کے انوار سے اقتباس نور کرنا ان کے روح سے استمداد با طنی کرنا حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کے منافی نہیں ہوتا کیونکہ تمام انبیاء کرام بھی مشکوہ نبوت حضرت رسالتماب صلی الله علیہ وسلم کے انوار سے اقتباس نور کرتے ہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس باطن سے استمداد کرتے ہیں ۔ ان انبیاء کرام کے ارواح مقدسہ حضور ہی کے احاطہ روحا نیت میں داخل ہیں ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)

علم لدنی

علم لدنی ایک ایسا علم ہے کہ اہل قرب کو تعلیم الہی اور   تفہیم ربانی سے بلا واسطہ حاصل ہوتا ہے ۔ ۔ اس علم کو معرفت ذات حضرت جل جلا لہ  سے تعلق خاص ہوتا ہے۔ اس علم کو اللہ تعالی عالم غیب سے ان کے دلوں میں ڈالتا ہے

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلامُ الْغُيُوبِ

یہ علم وجد وذوق کی قوت سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ دلالت عقل و نقل سے نہیں آتا ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ نور حقیقت ظاہر ہوتا ہے۔ اور دل پر اترتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ بشریت کے صفات کے حجابات کے بغیر ہی وارد ہوتا ہے۔ لوح دل سے علوم روحانی ۔عقلی۔ سمعی حسی کے نقوش صاف ہوتے جاتے ہیں ۔ اور انسان بشریت کے وجود سے خالی ہوتا جاتا ہے۔ اور اپنے لدن سے اللہ تعالیٰ کے لدن تک پہنچ جاتا ہے۔ اس مقام سے معرفت ذات اور صفات خداوندی کے معانی کا ادراک  اور کلمات کی واقفیت حاصل ہوتی جاتی ہے ۔

چوں ملائک گولا علم  لنا                   تا بگیرد دست توعلمتنا

گردریں مکتب ندانی توہجا             همچو احمد پری از نور حجا

دانشی باید که اصلش زمان سراست                زانکه ہر فرع به اصلش رہبر است

ہر پری بر عرض دریا کے پرد          تالدن علم لدنی می برد

با طنی نسبت

اس سلسلہ میں باطنی نسبت یوں نمودار ہوتی ہے کہ جمعیت دل ظاہری تفرقہ کی صورت میں خلوت سے بھی زیادہ  میسر ہوتی ہے۔ جمعیت ایسے جو ہر کی طرح ہوتی ہے جسے جس قدر چھپایا جائے ۔ اس کی حقیقت اور جو ہریت نکھرتی ہے اسی موضوع پر کہا گیا ہے

از دروں شو آشنا          وازبروں بیگانہ وش

این چنین زیبا روش     کم میفتد اندر جہاں

حقیقت نیت جو حقیقت میں کسی اختیار میں نہیں ہوتی ۔ اس سلسلہ میں یوں واقع ہوئی ہے کہ ہر عمل کی صورت کی روح تو نیت ہی ہے۔ اگر نیت نہ ہونا  اور  اچھے نتیجے کی امید رکھی جائےتو کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس میں  کتنا ہی اخلاص اور محنت کی جائے۔

مندرجہ بالا ارشاد کی تفصیل و تشریح یوں سمجھنی چاہیے کہ کوئی عمل نتیجے کی امید کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ حدیث پاک میں اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ یہ حدیث بعض صحابہ کرام سے مرفوعاً روایت کی گئی ہے

 لا اجر لمن لاحسبة له.

حسبت اور احتساب ہی ثواب کی امید پر کیے جاتے ہیں۔ نیک عمل کا نتیجہ اور اجر دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ اور عقبیٰ میں بھی حاصل ہوتا ہے۔ ابو سلیمان دارانی قدس سرہ نے اسی لیے فرمایا ہے ۔

كُلِّ عَمَل ليس له ثواب في الدنيا ليس له جزاء في الاخرة

ہر کام کا ثواب نہ تو دنیا میں ملتا ہے اور نہ ہی ہر عمل کی جزا آخرت میں میں میسرآتی ہے۔

مقام حیرت

معلوم نہیں کہ کس صفت سے آغاز کرتے ہیں، اور کسی صفت پر ختم کرتے ہیں کبھی تو بے غم ہو جاتے ہیں . اور کبھی مضطرب یہ ایک ایسا کام ہے جو بلاتدبیر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حیرت ہے جو بلا ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ بعض اوصاف کے حاصل کرنے کے بعد کمال کو پہنچے ہیں وہ آخر کار تحیر میں مبتلا ہوئے۔ اپنے آپ کو سپرد کر دیا۔ اور غیب کے تصرفات کو تسلیم کر لیا۔ اپنے وجود کو کلیتہ اللہ تعالی واجب الوجود کے ہاں تفویض کر دینا ضروری ہے۔ اس مقام کی ابتداء اور وسط تو معلوم ہوتی ہے۔ مگر انتہا معلوم نہیں ہوتی۔ اس مقام کی انتہا کب ہوتی ہے، اور کس حالت پر ہوتی ہے۔ تمام اہل اللہ اسی خیال میں ہیں حضرت شیخ عطار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

پیشوایا نے کہ راہ بیں آمدند           گاہ بے گاہ از پے این آمدند

جان خود را عین حسرت ساختند       همره جان عجز و حیرت ساختند

در تگے این بحر بے پایاں بسے          غرقہ گشت و خبر نے از کسے

تو چنان دانی که این آسان بود        بلکه کمتر چیز ترک جان بود

والہ و حیران شدم یکبارگی            می ندانم چاره جز بے چارگی

چند گویم جز خموشی راه نیست          زانکه کسی را از هره یک آه نیست

اولیا اللہ رحمہم اللہ علیہم نے اپنے وجود کو کلیتا تصرف الہی کے حوالے کر دیا ہے۔ اور اپنی ہمت کے دامن کو اس وجود کے التفات سے جس سے طالب روحانی یا جسمانی طور پر محفوظ ہو سکتا ہے یکسر سمیٹ لیا ہے۔ اس طرح ان پر حزن خوف جو ان دو اوصاف کا نتیجہ ہوتا ہے کے اثرات نہیں رہتے، وہ روحانی یا جسمانی  لطف کی طلب سے مبرا ہو جاتے ہیں کیونکہ حزن تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ماضی یا حال کے فائدوں کے گھر جانے کا خطرہ درپیش ہو۔ لیکن یہ دونوں   کیفیتیں ان پر غیر موثر ہوچکی ہوتی ہیں۔ اور اب انہیں قرآن پاک کی اس بشارت  سے نواز ا جاتا ہے :

الا ان أَوْلِيَا وَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

یاد رکھو اولیاء اللہ کو نہ تو خوف ہے۔ اور نہ ہی وہ حزن و ملال کا شکار ہوتے ہیں

حقیقت میں اس وقت ان پر ولایت کا خطاب زیب دیتا ہے۔ کیونکہ ولایت کا درجہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ سے ہی میسر ہوتا ہے ۔ فنائے مطلق کے بعد تمام انعامات اور تمام جسمانی اور روحانی تعلقات تو ختم ہو جاتے ہیں۔ بایں ہمہ اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ کی حیثیت – اس کا خوف ۔ اس کی عظمت کی ہیبت اس کی الوہیت کا جلال خوف و حزن کی جگہ حاصل کر لیتا ہے ۔ اس طرح ان کے درجات کی ترقی ہوتی رہتی ہے اسی وجہ سے سید الانبیاء و سند اولیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَنَا أَعْلَمكُمْ بِاللَّهِ وَاخْشَیكُم لِلَّهِ

حضرت خواجہ امام محمد بن علی حکیم نو منی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں :

 الانبياء والرَّسُلُ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ لَمْ يَأْمَنُوا لَمكُرَ بَعْدَ البشرى وَ لَيْسَ الْمَكْرُ عِنْدَنَا الَّذِي يَعْقِلُهُ الْعَامَّةُ فَالَّذِي يَعْقِلُهُ الْعَامَّةُ خَوْفَ التَّحْوِيلِ

فَذَلِكَ غَيْرَ مَأْمُونِ فَإِذَا أَو مِنَ وَبُشِّرَ أَمِنَ فَأَمَّا الْمَكْرُ الَّذِي لَا يَجُوزُ امْنُهُ فَاعْظَمُ شَأْنَا.

بلوغ سالک

جب سالک کو بلوغ کے بعد دل اور زبان کے درمیان تفرقہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ظاہری اشتغال باطنی اعمال کے مانع نہیں ہوتے، اور باطن کا عمل ظاہری شغل سے حجاب نہیں کرتا ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوقات کو دعوت دی جاتی ہے۔ سالک کے بلوغ سے مراد یہ ہے کہ وہ وجود کے تصرفات سے خالی ہو کر فنافی اللہ ہو جائے اور سیر فی اللہ  جوجذبہ کا مقام ہے تک پہنچ جائے۔ جب سالک الوہیت کے جذبات کے تصرفات کو اپنے اندر مشاہدہ کرتا ہے اور اس جذبہ کے آثار کی کیفیت اپنے اندر پاتا ہے اور جذبہ انہی کی صفت کا مظہر ہوتا ہے تو یقینا اس جذبہ کی صفت سے دوسروں کے باطن میں تصرف کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اس کا یہ تصرف تصرف خداوندی ہی ہوتا ہے۔

حقیقت ولایت

بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ ولایت کی حقیقت در اصل نبوت کا باطن ہے جو اللہ کی طرف سے مخلوق میں تصرف کرتا ہے۔ ولی در حقیقت نبی کے تصرف کا ہی مظہر ہوتا ہے ۔ ولی کی ولایت کی صحت کی سلامت اسی بات سے پہچانی جاتی ہے کہ وہ اپنے نبی کی متابعت

کرتا ہے۔ وہ ایک ذات کے علاوہ باقی کسی سے تصرف حاصل نہیں کرتا ۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ و اصلان اور کاملان کی دو قسمیں ہیں:

ان و اصلوں کی ایک قسم ایسی ہوتی ہے جو ذات خداوندی کے مقربین ہوتے ہیں جو وصول کے بعد درجہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ دوسروں کی تکمیل کے فرائض  سے دور رہتے ہیں۔ وہ مشاہدہ حق کے سمندر میں مستغرق رہتے ہیں۔ وہ فنا کی مچھلی کے بیٹ میں رہتے ہیں۔ وہ غیرت کے خیموں کے ستون اور حیرت کے ملک کے پشتی بان ہوتے ہیں۔ انہیں تو اپنے وجود تک کی بھی خبر نہیں ہوتی ۔ وہ دوسرے کو کسی طرح درخور اعتنا خیال نہیں کرتے ۔ ان میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی۔ کہ دوسروں کو  اس دربار میں آشنائی کراتے  رہیں۔ ان حضرات کو نبوت کے کو ہ طور کے ثمرات سے کچھ حصہ نہیں ملتا۔

کاملوں اور واصلوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے۔ جب انہیں ان کی ذات سے ہٹا لیا جاتا ہے، تو پھر جمال ازل کا تصرف انہیں اپنے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ انہیں خلعت نیا بت پہنائی جاتی ہے ۔ ان کے احکام مملکت خداوندی میں نافذ کیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و  عنایت از لی کی برکت سے مشاہدہ حق کے چشمہ میں غرق ہونے کے بعد ماہی فنا کے شکم سے توحید کے بھنور میں غوطہ زن ہونے کے بعد ساحل تفرقہ اور میدان بقا میں لاکھڑا کیا جاتا ہے ۔ وہ مخلوق خدا کو مختلف درجات اور نجات کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ لوگ کاملان مکمل کہلاتے ہیں۔ یہ اپنے کمال کے واسطے سے حضور ﷺ کی متابعت کو مرتبہ وصول تک کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد دعوت خلق کے اثرات دے کر متابعت اور اتباع رسول کے راستہ پر ماذون اور مامور کر دیا جاتا ہے۔

قُلْ هَذِهِ سَبيلِي ادْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَن اتَّبَعَنِی

 ترجمہ: کہہ دیجئے یہی میرا راستہ ہے۔ اللہ کی طرف دعوت دو۔ اور اس راستے  کی طرف بلاؤ جس پر میں ہوں اور میرے متبعین ہیں :

جہاں کہیں بھی کوئی بیابان تحیر کے  ظلمت  کدے میں شکتہ  پا ہوتا ہے۔ وہ نور  یقین  کی طلب میں کھڑا ہوتا ہے اور ان کے انفاس طیبہ کو مواجہ کے اقتباس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ایسے مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ بزرگوں نے کہا ہے ۔

عیسی منم معجزه من ایں نفس است                 ہر دل کہ شنید ایں نفسم زنده شود!

و من أحسنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا إلى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحاةِ قَالَ  انني مِنَ الْمُسلمين

ترجمہ : یہ کتنی اچھی بات ہے جو اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ نیک عمل کرتا ہے۔ اور فرمایا  میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔

 وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُو اوْ كَانُوا  بايَاتِنَا يُوقِنُونَ

ترجمہ: ہم  نےان میں سے ایسےر ہبر (آئمہ) بنائے جولوگوںکو ہمارے حکم پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے خود صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھتے ہیں۔

انہیں بزرگانِ طریقت کے بارے میں کہا گیا ہے ۔

اے بسا کوه احد کز راه دل بر کننده ای             اے بسا وصف احد اندر نظربنموده ای

اے ہمہ دعویت معنی وی ز دعوی بیشتر           وی  دو صد چنداں کہ دعوی کرده  ای بنموده ای

ایسے حضرات کو اولیائے عشرت کہا جاتا ہے۔ اور ایسے بزرگان حق کو طور نبوت کے ثمرات اپنے اپنے مراتب اور درجات کے اندازے کے مطابق حاصل ہوتے ہیں .

وجود عدم

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وجود عدم وجود بشریت کی طرف لوٹ آتا ہے۔ مگر وجو د فنا کسی صورت میں بھی وجود عدم اور وجود بشریت کی طرف نہیں لوٹ سکتا، ممکنات میں سے کوئی چیز بھی وجود فنا کو تغیر و تبدل نہیں کر سکتی ۔ وجودبشریت سے مراد وجود طبعی اصلی ہوتا ہے ۔ وجود طبعی عارضی نہیں ہوتا ۔ وجود طبعی عارضی اگر لوٹ بھی آئے ۔ تو وہ حقیقت فنا کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ ظاہری صورت ہوتی   ہے حقیقی صورت نہیں ہوتی ۔

موسی اندر درخت آتش دید         سبز تر می شد آن درخت از نار

شهوت و حرص مرد صاحب دل    این چنین دان و این چنین انگار

اس سلالہ میں حدیث صحیح کے الفاظ کچھ یوں ہیں

إِنَّمَا أَنَا بَشَرُ أَغْضَبْ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ وَ أَرْضَى كَمَا يُرْضَى الْبَشَرُ

ترجمہ بے شک میں ایسا انسان ہوں ۔ جو دوسرے انسانوں کی طرح غصہ میں آتا ہوں اور دوسرے انسانوں کی طرح دوسروں پر راضی بھی ہوتا ہوں۔

 اہل معرفت فنا فی اللہ کے مقام سے بقابا للہ کے مرتبہ کو پہنچتے ہیں تو کچھ بھی دیکھتے ہیں۔ اپنے اندر دیکھ لیتے ہیں جو کچھ پہچانتے ہیں۔ اپنے اندر سے ہی پہچان لیتے  ہیں۔ ان کی حیرت(حیرت صوفیہ کی اصطلاح میں انکشاف حقیقت پر ہکا بکا رہ جانے کی کیفیت کا نام حیرت ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ حیرت مذموم – اور حیرت محمود ، حیرت مذموم تو جہالت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مگر حیرت محمود عروج و ترقی کے حصول کی وجہ سے ہوتی ہے۔) اپنے ہی وجود میں ہوتی ہے۔

(1) وَفِي انْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ

(2) مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّ

وجود عدم سے مراد یہ صفت ہے۔ اور عدم سے مراد وہ صفت ہے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے:

ز ذوق این عدم آمد جهان و جان به وجود         زہے عدم کہ چو آمد وجود از و افزود

انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ وہ نیستی نہیں ہے جسے محرومی کا نام دیا جاتا ہے بلکہ یہ وہ نیستی ہے کہ تمام ہستیاں اسی کی غلام ہیں ۔  سب سے  پہلے جس نے فنا اور بقا کے حال کو بیان کیا تھا۔ اور ان دونوں لفظوں کو تصوف کی اصطلاح کے طور پر اپنایا۔ اور اسے اپنے طریقہ تصوف میں رائج کیا تھا وہ لسان التصوف شیخ ابو سعید احمد بن عیسیٰ الخزاز تھے۔ قدس اللہ سرہ وہ مشایخ اہل تصوف کے امام اجل تھے۔ اور مصر کے مشایخ میں شمار ہوتے تھے۔ آپ حضرت ذو النون مصری حضرت سری سقطی اور حضرت بشر حافی و غیر هم رحمهم اللہ علیہم کی مجالس سے مستفیض ہوتے رہے۔ اور آپ کی وفات 277ھ میں ہوئی ۔ اس طرح آپ سید الطائفہ حضرت جنید قدس سرہ کی وفات سے بائیس سال قبل تجرد اور انقطاع میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ علم تصوف میں آپ بڑی بڑی تصنیف کے مالک تھے۔ عالی کلام اور دقیق اسرار و رموز سے واقف تھے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ فنا سے مراد سیر فی اللہ کی انتہا ہے اور بقا سے مراد سیر فی اللہ کی ابتداء  ہے، سیر الی اللہ اس وقت انتہا کو پہنچتا ہے کہ سالک اپنے وطن مالوف سے بشریت کے تمام خصائص اورلطائف سے مبرا ہو جائے ۔ اور وہ طلب میں صرف اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ وادی ہستی (زندگی )کو اپنے قدم صدق سے  طے کرتے ہوئے کعبہ وصال تک پہنچے۔

اليک يا منتهى حجى ومعتمري            وان حج قوم الى ترب احجار

سیری اللہ اس وقت مکمل ہوتا ہے۔ جب انسان کو مطلق فنا کے بعد جس سے مراد فناء ذات اور فنا صفات ہے۔ حقانی وجود عنایت کیا جاتا ہے۔ اس حقانی  وجود کے ساتھ اوصاف الہی سے متصف ہو جاتا ہے۔ اور اخلاق ربانیہ میں ترقی  پذیر ہوتا ہے یہ مقام  

 بي يَسْمَعُ وَبِي يُبْصِرُوبي يَنْطِقُ وَبِي يَبْطِشُ   وَبِي يَعْقِلُ

  میسر آتا ہے۔بغیر سنے بغیر دیکھے ۔ بلا کلام کیے ہوئے ۔ بلا آنکھ جھپکے بغیر چلے اور بے سوچے سمجھے، اس مقام پر پہنچ کر تمام ذات و صفات فانیہ باقی کے وجود کے لباس خفا کی قبر سے نکل کر محشر ظہور میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ اللہ تعالٰی کے تصرفات اور قوتیں انسان کے باطن پر غالب ہو جاتی ہیں۔ اور اس کے باطن کو تمام وساوس اور خواہشات سے پاک کر دیتی ہیں۔ اور اپنے ہی ذاتی صفات سے بندہ کے باطن میں متصرف ہو جاتی ہیں۔ چونکہ اسے اپنی خودی میں تصرف عطا کیا جاتا ہے۔ تو بندہ کی تمام صفات معزول ہو کے رہ جاتی ہیں۔ اس مقام پر پہنچ کر بندہ کلیتا محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔ شریعیت کے فرائض کی رعایت – امر و نواہی کی اقامت ۔ اس کے فنا کے حال کی صحت کی دلیل بن جاتی ہے ۔ اگر محفوظ نہ ہو ۔ تو اللہ تعالٰی کی تمام رعایات اس کے حال فنا کی علوم صحت کی دلیل بن جاتی ہیں۔

ابو سعید خز از قدس اللہ سرہ اسی موضوع پر فرماتے ہیں:

كل با طِنْ يُخَالِفُ الظَّاهِرُ فَهُوَ بَاطِل

ترجمہ : وہ باطن جو اس کے ظاہر کے خلاف ہو باطل ہوتا ہے ۔

جو شخص ابھی مقام فنا سے آگے نہ بڑھا ہو۔ اس سے وساوس اور حوادث انسانی کی نسبت قائم ہونا ۔ شرک خفی ہے۔ لیکن جو شخص فنا کے بعد بقا کے مقام پر پہنچ چکا ہو۔ اسے انہی اوصاف کی نسبت شرک نہیں ہوتی جو شخص ابھی تک  حال فنا کے آغاز میں ہو۔ اس کے احساس سے شکر کی کیفیت غائب کر دی جاتی  ہے۔ جب وہ مشاہدہ ذات اور صفات کے مقام پر متمکن ہو چکا ہو۔ فنا کے حال کے سکر سے مقام صحو میں آتا ہے۔ احساس سے محروم ہو جانا۔ اس مقام کے لیے لازم نہیں ہوتا۔ بعض کے ہاں ایسا اتفاق ہوتا ہے۔ بعض کے ہاں نہیں ہوتا بلکہ  یہ باطن فنا کے بھنور میں غرق ہو جاتا ہے۔ اس کا ظاہر حاضر دکھائی دیتا ہے ۔ اور اس پر جو کچھ بھی گزرتا ہے  اس کےاعمال وافعال سے ہوتا ہے۔

 اہل فنا اور اہل بقاء مجاہدات اور طلب حق کے بعد طمانیت وجدان اور سرور مجاہدات سے حاصل کر لیتے ہیں ۔ عین مراد میں بھی مراد سے بے مراد ہو جاتے ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک مقامات اور کرامات بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔ ان کے دل کا چشمہ تمام جسمانی اور روحانی لذات سے محروم ہو جاتا ہے۔

 فنا کے مرتبہ کو پہنچنادر اصل محبت ذاتی کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔ اور مقام فنا تو ایک خاص عطا ہے۔ اور یہ اللہ تعالٰی سے اختصاص حاصل کرنا ہے۔ سنت الہیہ ہے کہ عطائے محض جو حقیقت تک پہنچادے، اور حقیقت میں عطاء اور عنایت نہ ہو۔ اس کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے۔

الفاني لا يرد الى اوصافہ (فانی اپنے اوصاف کو نہیں لوٹتا ) اور حضرت ذو لنون مصری قدس اللہ ، وجہ فرماتے ہیں:

مَا رَجَعَ مَنْ رَجَعَ الأَمِين  الطَّرِيقِ إِلَيْهِ أَحَدٌ فرجع عنه

ہمارے خواجہ قدس سرہ کے فرمان کا مطلب یہی ہے جو آپ نے فرمایا تھا کہ وجود فنا ہرگز وجود بشریت کی طرف واپس نہیں آتا۔

مقام فنا کے مطلق اگر چہ محض عنایت الہی ہے۔ لیکن اس مقام کا ظہور آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ اور اس کے حاصل کرنے میں بڑی شرطیں ہیں اور فنائے مطلق تک رسائی کی شرط یہ ہے جناب حق سبحانہ کی طرف مکمل توجہ کرے ۔ یہ تو جہ محبت ذاتی کے واسطے سے ہوتی ہے اور محبت ذاتی کے تقاضوں سے اجتناب نہیں کیا جا سکتا فنا سے مرادیہ  ہے کہ بشریت اورخلقیت کے تمام تقاضوں کو فنا کر دیا جائے۔ اور پوری توجہ کو ان تقاضوں سے ہٹا کر صرف ذات باری تعالی کو ہی مرکز توجہ بنایا جائے ۔ اس کی حقیقت اس مثال سے واضح ہوتی ہے کہ جو چیز بھی آگ میں گر جاتی ہے اس کی شدت اور قہر سے اسی کی صفت اختیار کر لیتی ہے۔ لیکن یہ صفت آگ کے تصرف سے پیدا ہوتی ہے جس طرح لوہا آگ میں گر کر آگ کی طرح جلانا شروع کر دیتا ہے۔ مگرلوہے کی اصلیت وہی رہتی ہے، وہ خود آگ نہیں بن سکتا۔

چندان برو این راه که دوئی بر خیزد  درمست دوئی و بره روی برخیزد

تو اونشنوی و لیکن اوجہد کنی           جائے برسی کز تو و تو کی برخیزد

علم و عقل کی رسائی دریائے فنا کے ساحل سے آگے نہیں ہے۔ اس کے بعد حیرت اور بے نشانی ہے۔ اس مقام کے عجائبات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اور اس کے احوال سلوک اور رسائی کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتے

عاشقی جز رسیده را نبود

یہ وہ مقام ہے جہاں سے عالم وحدت کے شہود کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور وھدانیت کا آغاز ہوتا ہے

فَالْحَقِّ سُبْحَانَهُ يَتَّخِذُ بِهِ الكُلَّ مِنْ حَيْثُ كَوْنِ كُلِّ شَيْء مَوْجُوداً بِهِ ، مَعْدُومًا بِنَفْسِهِ لَا مِنْ حَيْثُ أَنَّ لَهُ وُجُوداً خاصاً اِتَّخِذَ به، فَإِنَّهُ مَحال

فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے درجہ تک پہنچنے کے بعد انسان سے تعین اور تقید کے تمام احکام مطلقا منسوخ نہیں ہو جاتے بقا باللہ کے مقام پر پہنچ کر صفات ربانیہ سے متصف ہوتے ہوئے اسے حقاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔

ابراهیم شیبانی قدس سره جو مشائخ کے طبقات میں اہم مقام پر فائز ہیں ۔فرماتے ہیں:

علمُ الْفَنَاءِ وَالْبَقَاءِ يَدُورُ عَلَى اخْلَاصِ الْوَحْدَانِيَّةِ وَ صَحَةِ الْعُبُودِيَّهِ وَمَا  سواى ذلكَ فَمَغَالِيطُ وَ زَنْدَقَةٌ.

مقام فنا

یہ فنا کی اصطلاح جو اہل اللہ کے ہاں متعارف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جسمانیت کے وجود سے فانی ہوا جائے اور  روحانیت کے وجود سے بھی پاک ہوا جائے تا کہ اللہ تعالیٰ کے جلال کی رؤیت اور عظمت الہی کا کشف دل پر وارد ہو جائے۔ اس حال کے لیے دنیا و عقبی کو فراموش کر دیں ۔ احوال و مقامات اس کی نگاہ میں حقیر دکھائی دینے لگیں ۔عقل اور نفس سے فانی ہو جائے حتیٰ کہ فنا سے بھی فانی ہو جائے ۔ عین فنا میں اس کی زبان اللہ سے نا طق ہو۔ اس کا وجود اللہ کے خوف سے ڈرے اور ہیچ ہو جائے۔ اس فنا میں بجز حیرت اور بے نشانی کے کچھ نہ رہے ۔

کس مے ندهد ز تو نشانی                                 اینست نشان بے نشانی

لوگوں نے ہمارے خواجہ قدس سرہ سے سوال کیا۔ کہ فنا کتنی وجو ہات سے حاصل ہوتا ہے۔ آپ نے جواب میں فرمایا۔ اگر چہ بزرگوں نے بہت سی وجوہات بیان کی ہیں۔ مگر عام طور پر ہم اسے دو وجوہ پر مشتمل رکھتے ہیں ۔ ایک ظلمانی (طبیعی  وجود سے فنا)اور دوسرے روحانی (نورانی وجود سے فنا) حدیث نبوی علیہ الصلوة والسلام  میں بھی ان دو وجوہ  کو بیان فرمایا گیا ہے۔

إِنَّ لِلَّهِ سَبْعِينَ الفُ حِجَابَ مِنْ نُورٍ وَظَلْمِۃ

اللہ تعالٰی کے ستر ہزار نورانی اور ظلمانی حجاب ہیں۔

ہمارے اکا بر نے تو اسی حدیث کی روشنی میں فنا کی یہ دو وجہیں بیان کی ہیں :

خُطُونَانِ وَقد وَصَلَّتْ

کبھی کبھی ہمارے خواجہ بزرگوار قدس سرہ  سیر الی اللہ کے تمام حجابات کو ایک ہی حجاب سے تعبیر فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: تیرا حجاب تو تیرا وجود ہی ہے دع نفسك و تعال( اپنے آپ کو ترک کردے اور چلا آ)

از تو تا دوست رہ بسے نیست توئی     در راه تو خاشاک و خسی نیست توئی

یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر میں سے ایک اور بزرگ نے فرمایا ہے ،لاحجاب الا وجودك

وہ فرمایا کرتے تھے کہ حدیث نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام سلوٰۃ والسلام میں صحیح طریقے  پر وارد ہے۔

اميط الأذى عَنِ الطريق

اما طت اذی میں نفی وجود کی طرف اشارہ ہے۔ اور محب کا محبوب سے وصول کی علامت ہے۔ اور یہی تمام احوال شریفہ کی انتہا ہے۔ مذکورہ فنا اور بقا کے بعد یہی صورت سامنے آتی ہے ، فنا سے پہلے وصول ممکن نہیں ہے۔ جہان قدم کے انوار کی سطوت کی پرواز شروع ہوتی ہے ، تو حوادث کی ظلمات کے حدود کی کیا مجال رہتی ہے کہ  باقی رہیں۔ اسی طرح فنا کے حال میں وصول متصور نہیں ہوتا لیکن اس کے بعد محبوب سے محبت کا وصال میسر ہوتا ہے، محب کا وجود محبوب کے ساتھ جب بقا حاصل کر لیتا  ہے تو نور تجلی کی قوتوں سے مضمحل اور نا چیز ہو کر نہیں رہ جاتا بلکہ قوت حاصل کر لیتا ہے

در تو کجا رسد کسے تا نرود بپائے تو      مر تو چون شود ولے تا نپرد بہ بال تو

اسی وجہ سے اہل وصول کے تمام قوی مشاہدات کے عالم میں تلاشی سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

يحرقُ بِنَارٍ مَنْ يُحس به                  وَمَنْ هُوَ النَّارِ كَيْفَ يَحْتَرِق

اسی طرح یہ بزرگان طریقت مخلوق خدا سے ملنے جلنے کے باوجود تغیرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ ممکنات سے کوئی چیز بھی اپنے مشاہدہ محبوب اور اس کے تعلق سے لا تعلق نہیں کر سکتی۔ کیونکہ واصل تو تمام احوال میں اپنے محبوب سے ہی رجوع رکھتا ہے ان کا شہود حق حجاب خلق نہیں بنتا۔ اور نہ ہی مخلوقات سے میل جول ان کے لیے حجاب حق بنتا ہے۔ البتہ منزل فناتک رسائی نہ پانے والے حضرات اس مقام کو نہیں پاسکتے وہ ہر ایک کو اپنے اپنے مقام میں بغیر اس کے کہ دوسرے کے لیے حجاب نہیں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ہاں فنا و بقا جمع ہو جاتی ہیں۔ وہ فنا میں باقی ہوتے ہیں اور بقا میں خالی ہوتے ہیں۔ البتہ ظہور بقا کی حالت میں علم کی طرح ان میں فنا مندرج ہوتی ہے۔

مقامات وصول

وصول کے مراتب جنہیں مراتب سیرفی اللہ بھی کہا جاتا ہے۔بے حد و انتہا ہیں کیونکہ محبوب کے اوصاف اور کمالات کی تو کوئی حدو انتہا نہیں ہوتی چنانچہ وہ دنیا میں جس مقام پر فائز ہوتے ہیں مراتب وصول کے اعتبار سے وہ اول مرتبہ پر ہی ہوتے ہیں۔ ان مراتب کی انتہا کو نہیں پہنچا جا سکتا۔ اسی موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ فرید الدین عطار قدس اللہ  روحہ فرماتے ہیں

اندر ره حق ، جملہ ادب باید بود       تا جان باقیست ، در طلب باید بود

در  یکدم اگر هزار دریا بکشی            گم باید کرد و خشک لب باید بود

سیر بالله

بقا کا مقام فنا کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ سیر عن الله و باللہ تو مقام تنزل ہے مخلوقات کی عقلو ں کی انتہائی پروازان کی دعوت حق

تک بمشکل رسائی پاتی ہے ۔ یہ مقام خاص کر پیغمبران مرسل صلوات اللہ علیہم اجمعین کو ملتا ہے ۔

وَمَا رَمَيْتَ إِذا مَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى

اس مقام تنزل میں ہی وہ ہر لحظہ حق کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ استغفار کرتے ہیں۔ اولیاء اللہ انبیاء علیہم السلام کی اتباع سے یہ مقام حاصل کر  لیتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالی ہے

قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ فَ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي .و سبحانَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ .

 وَاللَّهُ الهَادِي

وصلى الله عَلَى خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اصْحَابِهِ وَ ازْوَاجِهِ أَجْمَعِينَ وَسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيرًا كَثِيراً بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ .

   اللَّهُمَّ اغْفِرْ كَاتِبِهَا وَلِقَارِئئُهَا وَلِسَامِعِهَا وَلَمَنْ نَظَرَ فِيْهَا بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الراحمين .


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں