رسالہ معارف لدنیہ
مصنف حضور امام ربانی مجددالف ثانی
اکتالیس متفرق مضامین پر مشتمل رسالہ معارف لدنیہ جس میں اسرار و رموز کا ایک جہاں آباد ہے حقائق و دقائق آنکھوں کو روشن اور دل کو معرفت خدا سے بیداری عطا کرنے والے ہیں
بسم الله الرحمن الرحيم
الحَمدُ للهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الذِينَ اصْطَفَے سِيِّمَا عَلَى نَبِيِّهِ الْمُجْتَىٰ وَرَسُولِهِ المُصطَفٰى محمد المَبْعُوثِ إِلَى كَافَّةِ الوَرىٰ وَعَلَى اٰلِهِ وَأَصْحَابه البَرَرة التقى وَالصَّلوةُ والتَحِيَّةُ عَلَيهِ وَعَلَيهِم فِي الآخِرَةِ وَالأولى اَمَّا بَعدُ . فَهَذِهِ عُلُومٌ الهَامِيَّةٌ وَمَعَارِفُ لَدُنْيَّةٌ سَوْدَهَا الفَقِير الرَّاحِي إِلَى رَحمَةِ اللهِ الغَنِيُّ الوَلِيُّ أحمدُ بن عَبدِ الأَحدِ الفَارُوقِي النَّفَشَبَندِي رَحِمَهُ اللهُ وَرَضِيَ عَنهُ وأوصله إلى غايَةِ مَا يَتَمَنَّاهُ –
ترجمہ: سب تعریف اللہ تعالی کیلئے ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو خصوصا اللہ تعالی کے برگزید ہ ر سول احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ پر صلوۃ وسلام ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور آپ کی آل اور تمام . اصحاب پر جو نیک اور پرہیز گار ہیں، دنیا اور آخرت میں صلوۃ و سلام اور تحیتہ ہو ، حمد وصلوٰۃ کے بعد واضح ہو کہ یہ وہ الہامی علوم اور علم لدنی کی معرفتیں ہیں جن کو خدائے بے نیاز و کارساز کی رحمت کے امیدوار، احمد بن عبدالاحد فاروقی نقشبندی نے تحریر کیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ورضا کے ساتھ اس کو سرفراز فرمائے اور اس کی آرزؤں کو پورا فرمائے
معرفت :نمبر 1۔
لفظ اللہ میں حروف تعریف کے اجتماع کی حکمت
“اللہ” کا مبارک لفظ الف اور لام سے منجملہ آلات و حروف کی تعریف کے ہے اور لفظ ‘ہ’ سے کہ وہ بھی منجملہ معرفوں ہی کے ہے، مرکب ہے اور یہ مجموعہ ( یعنی الف اور لام اور ہامل کر) ذات واجب الوجود عز سلطانہ کا علَم( یعنی ذاتی نام) ہے، لہذا اس اسم مبارک میں تین قسم کے معرفہ بنا دینے والے اسباب جمع ہو گئے ہیں، باوجود یکہ ان میں سے ہر سبب اسماء کو معرفہ بنانے کیلئے کافی ہوتا ہے، لیکن یہاں ان تینوں اسباب کے جمع ہو جانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس اسم اعظم کا مسمٰی ( جس کا یہ نام ہے) جل شانہ اپنی کمال بزرگی، درجہ کی بلندی اور مرتبہ کی بڑائی کی وجہ سے کسی طریقے پر بھی معرف ( جانا پہچانا) نہیں ہو سکتا اور کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر اسے معرفہ بنایا جاسکتا تو ایک آلہ تعریف (معرفہ بنانے کا ذریعہ )ہی اس کیلئے کافی ہو جاتا، کیونکہ مسبب کو موجود کرنے میں کثرت اسباب کا کوئی دخل نہیں ہوا کرتا، بلاشبہ وہ تو کسی ایک سبب کے پائے جانے ہی سے موجود ہو جاتا ہے، پس مسبب ان اسباب میں سے کسی ایک سبب کے پائے جانے سے موجود ہو سکا تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ ان دونوں (ا سم اور مسمٰی) کے درمیان سببیت کا تعلق ہی نہیں ہے، اس لئے جب اللہ تعالی کی شان میں معروف اور معلوم ہونے کا تصور ختم ہو گیا تو اس بارگاہ اقدس تک کسی عالم کا علم نہیں پہنچ سکتا اور اسے کسی معرفہ ساز کی معرفہ سازی مفید نہیں ہوسکتی لہذا حق تعالی کی ذات اس سے کہیں بزرگ تر ہے کہ اس کا ادراک کیا جائے اور اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ اسے پہچانا جاسکے اور اس سے کہیں بلند تر ہے کہ اسے جانا جا سکے۔ اس وضاحت سے سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ یہ اسم مبارک اللہ جل شانہ دوسرے اسماء سے الگ ہی ہے اور باقی تمام اسما کیلئے جو احکام ہوتے ہیں یہ ان احکام میں شریک نہیں ہے، پس لا محالہ اسی امتیاز و یکتائی کی وجہ سے یہ اسم حق تعالی و تقدس کی بارگاہ قدس کے لائق ہے۔
یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ جب یہ اسم مبارک اپنےمسمیٰ پر دلالت ہی نہیں کرتا تو یہ نام رکھنے کا فائدہ ہی کیا ہوا؟ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ نام کیلئے اس لفظ کو مقرر کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ جس ذات کا اس کے ساتھ نام رکھا گیا ہے، یہ اسم اپنے ماسوا سے ممتاز اور الگ کر دیتا ہے، تا ہم ایسا نہیں ہے کہ اس کے ذریعے سے اس ذات کا علم ہو سکے جس کا وہ نام ہے، لہذا اس مبارک اسم اور دوسرے اسماء کے درمیان ایک دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ وہ اسماء اپنے مسمیات پر دلالت کرتے ہیں اور وہ مسمیات (ان ناموں کے ذریعے سے ) معلوم ہو جاتے ہیں اور یہ علم ( شخصی نام ) اپنے ماسوا سے ممتاز کر دیتا ہے اور اس اسم مقدس میں کسی کا علم تو نہیں پایا جاتا لیکن وہ اپنےمسمٰی کو تمام ماسوا سے ممتاز اور الگ کر دیتا ہے یعنی علم مسمٰی تو نا پید ہے مگر امتیاز از جمیع ما سوا موجود ہے۔
معرفت : :نمبر2۔
معرفہ پر حروف تعریف لگانے کی وجہ
الف ولام کے داخل ہونے سے اسم نکرہ اسم معرفہ بن جاتا ہے کیونکہ اس آلہ تعریف( یعنی حرف تعریف) سے وہ معرفہ بن جاتا ہے اور اس اسم مقدس میں الف ولام خود معرفہ پر آیا ہے اور وہ معرفہ ”ہ” یعنی ضمیر غائب ہے ، جیسا کہ بعض محققین نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام صرف ”ہ” ہے جو غیب ہو یت پر دلالت کرتا ہے اور الف ولام تعریف کیلئے آیا ہے۔
گو یا اس حرف تعریف کو لانے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مشار الیہ کے تعین میں ضمیر کے ذریعے سے معرفہ ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک دوسرا آلہ تعریف ( حرف تعریف ) بھی درکار ہے جو الف اور لام ہے اور لام پر تشدید تعریف میں مبالغہ کیلئے لائی گئی ہے اور جب یہ حرف تعریف باوجود اس مبالغہ کے بھی کافی نہ ہوا اور جس کو معرفہ بنانا تھا اس کا تعین حاصل نہ ہو سکا تو لا محالہ اس پورے مجموعے کو تعریف علمی میں لے گئے( یعنی اس تمام مجموعے کو ذات حق کا نام اور علم قرار دیا )کہ شاید وہاں جا کر وہ تعین پیدا کر سکے مگر یہاں بھی کوئی ایسا تعین جو ذات حق کے معلوم ہونے کا باعث بن سکے، حاصل نہ ہو سکا، زیادہ سے زیادہ بس یہ ہو سکا کہ ماسوٰی سے ایک طرف کا امتیاز حاصل ہو گیا ، پس پاک ہے وہ ذات جس نے مخلوق کیلئے سوائے معرفت سے عاجز ہونے کے اپنی طرف سے کوئی راہ نہیں بنائی ۔
معرفت : :نمبر 3
علم کے دو حروف تعریف سے مرکب ہونے کی وجہ
اس مقدس علم ( ذاتی نام) کا دو قسم کے حروف تعریف سے مرکب ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کمال عظمت والا اور عقول و افہام کے ادراک سے بالا تر ہونے کی وجہ سے مسمٰی( جس کا وہ نام ہے ) کے تعین میں صرف علمیت اور ذاتی نام ہونا ہے ہی کافی نہیں ہے، لہذا تعریف مذکور کیلئے متعدد اسباب کی ضرورت ہوئی ، اس کے باوجود پھر بھی وہ بالکل معلوم نہ ہو سکا اور قعطا نہ پہچانا جا سکا۔
معرفت : :نمبر 4
حروف تعریف کی کثرت کی وجہ
اگر چہ معرفہ کے وجود میں آلات تعریف ( حروف تعریف) کی کثرت کوکوئی دخل نہیں ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اور صرف ایک آلہ تعریف ( حرف تعریف ) بھی کافی ہوتا ہے لیکن آلات تعریف کو کثرت کے ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کا مسمیٰ مبہم و نا معلوم ہے اور وہ سبحانہ وتعالیٰ اور اک سے بہت بعید اور بالاتر ہے۔
معرفت : :نمبر 5
ممکنات کا وجود اور ان کے حقائق
حق سبحانہ وتعالی نے اپنی ذاتی شیون( شان کی جمع ) کو جو کہ اس کی ذات کا عین ہیں ، خارج کے اندر واحدیت کے مرتبہ میں الگ الگ جان لیا اور چونکہ علم (یعنی جاننا ) اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ( معلومات) ایک دوسرے سے ممتاز ہوں، لہذا ان شیونات نے علم کے خانہ میں تمیز ( ممتاز ہونا) پیدا کیا (یعنی ہرشان ایک دوسرے سے ممتاز ہوگئی ) اور ہر ایک شان خاص امتیاز اور علیحدہ تشخص کی مقتضی ہوگئی اور خانہ علم کے اندران تمیز یافتہ شیونات نے ممکنات کا نام پایا، کیونکہ ممکن اس کو کہتے ہیں جس میں وجود اور عدم دونوں برابر ہوں اور ان شیونات کا بھی یہی حال ہے کیونکہ یہ سب بھی ، وجود اور عدم کے درمیان برزخ ہیں، اپنی ذات کی طرف نسبت رکھتے ہوئے ان کا رخ وجود کی طرف ہوتا ہے کیونکہ شیون خارج میں ذات کاعین ہیں اور تمیز اورتشخص کی طرف نسبت رکھتے ہوئے ان کا رخ عدم کی طرف ہے، کیونکہ وجود کی تمیز عدم سے ہوتی ہے و بضدها تبين الاشیاءکہ ہر شے ہے ممیز اپنی ضد سے( یعنی ہر چیز اپنی اضدادسے پہچانی جاتی ہے ) اور یہ علمی صورتیں خارج میں قطعاً کوئی وجود نہیں رکھتیں اور علم کے خانے سے باہر نہیں آئیں ، بلکہ حق سبحانہ و تعالی ان کے آثار و احکام کے ساتھ خارج میں پہچانا جاتا ہے ، لہذا یہ صورتیں محض علم میں موجود ہوتی ہیں البتہ ان کے احکام و آثار خارج میں پائے جاتے ہیں، لیکن یہ آثار و احکام خارج میں حق تعالی کی ذات کا عین ہیں، کیونکہ خارج میں احدیت مجردہ کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے لہذا عین ذات کے اعتبار سے مطلق ظہور محض وجود کیلئے اور حکمی طور پر یعنی احکام کی ترتیب کے لحاظ سے مطلق ظہور اشیاء کیلئے ہے اور وہ جو نظر آتا ہے کہ یہ صورتیں خارج میں بھی (موجود )ہیں تو محض ایک تو ہم ہے اور غلط قسم کا تصور ہے، جیسا کہ ارباب کشف و عرفان کا ذوق شہادت ( گواہی ) دیتا ہے اور اس تو ہم کا باعث یہ ہے کہ حق سبحانہ وتعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ان علمی صورتوں کو ظاہر وجود کے ساتھ ایسی نسبت عطا فرمادی ہے جس کی کیفیت نا معلوم ہے اور خلق( پیدا کرنے ) سے مراد اس نسبت کو وجود بخشا ہے اور یہ نسبت خارج میں ان کے نظر آنے کا باعث بن گئی ہے جیسا کہ ایک شخص کی صورت کو اس آئینے کے ساتھ جو اس کے سامنے ہو ایک نسبت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ اس آئینے میں اس شخص کی صورت نظر آنے کا سبب بن جاتی ہے ، حالانکہ( آئینہ تو کسی کی صورت بھی نہیں ہوتی وہ ) تو اسی طرح اپنی بے رنگی اور صفائی پر قائم ہے (جیسی کہ اس سے پہلے تھی ) پس حق تعالی سبحانہ اب بھی اسی طرح موجود ہے جیسا کہ ازل میں موجود تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز بھی نہیں ہے۔
معرفت : :نمبر 6
سالک کی سیر کے انواع و مراتب
شیون ( شان کی جمع ) نے علم کے خانہ میں ایک دوسرے سے با ہم ممتاز ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا رنگ قبول نہیں کیا اور خارج میں جو کچھ ان کے باہمی امتیاز کے علاوہ نظر آتا ہے وہ ان کے خارجی لوازم اور احکام میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ سالک جب اپنے عین ثابتہ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور وہ عین ثابت اس پر منکشف ہو جاتا ہے تو وہ اس میں خارجی شکلوں کی نوعیت کی کوئی چیز نہیں پاتا اور متمیز شے کے علاوہ کوئی دوسری شے اس پر ظاہر نہیں ہوتی ، اگر اس باہمی امتیاز کے علاوہ کوئی دوسرا رنگ بھی موجود ہوتا ہے تو وہ ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کا جو انبساط (پھیلاؤ) نظر آتا ہے تو وہ اس کی وجہ سے ہے کہ وہ متعدد شیونات پر مشتمل ہے اور اس کا کروی ( کرہ کی شکل کا گول ہونا ) اس وجہ سے ہے کہ بسیط (غیر مرکب ) کی طبیعی صورت کر وی ہی ہوا کرتی ہے۔
اور بعض مشائخ قدس الله اسرار ہم نے جو یہ فرمایا کہ سالک کی سیر کا آخری نقطہ وہی اسم ہے جو اس کے تعین کا مبدا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سیر کا آخری نقطہ اس کا عین ثابتہ ہوتا ہے اور اس کے تعین سے مراد اس کا خارجی امتیاز (یعنی خارج میں متمیز ہونا ) ہے اور اس تعین اور تمیز کا نقطہ آغاز( مبدا )اس کا یہی عین ثابتہ ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ تعین سے مراد علمی تعین ہو اور مبدا سے مرادشان الہی ہو ، چونکہ شان خارج کے اندر عین ذات ہوتی ہے اور وہ ذات سے متمیز نہیں ہوتی کہ جس سے وہ کسی چیز کا مبدا بن سکتی ہے اور سیر اس پر ختم ہو سکتی ہے۔
اور عین ثابتہ تک رسائی حاصل کر لینے کے بعد اس کی سیراسی عین ثابتہ ہی میں ہوتی ہے کیونکہ وہ شیونات پر مشتمل ہے جن کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے، اس سیر کو ( صوفیہ کی اصطلاح میں ) سیر فی اللہ کہتے ہیں ، چونکہ اس کا علمی تعین ایک ایسا تعین ہے جو مرتبہ جمع میں پایا جاتا ہے اور جن صفات پر وہ مشتمل ہے وہ صفات الہی ہیں، صفات کوئی نہیں ہیں لہذا یہ در حقیقت سیر فی اللہ ہی ہوتی ہیں، کیونکہ لفظ اللہ سے مراد ذات مع صفات کے ہے، صرف ذات احدیت نہیں ہے اور چونکہ ان شیونات الہی نے علم کے خانہ میں تعین اور تمیز کا رنگ حاصل کر لیا ہے اور اس نسبت سے وہ موجود اور معدوم کے درمیان برزخ ( درمیانی واسطہ )بن گئی ہیں ، لہذا سیر فی الاشیاء ( اشیاء میں سیر ) کو اگر سیر در عالم کہہ دیں تو یہ بھی صحیح ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے صوفیا کرام نے فرمایا کہ آخری نقطہ تک رسائی حاصل کر لینے کے بعد بھی نقطہ اول کی طرف واپسی ہوتی ہے اور اس سیر کو صوفیہ کی اصطلاح میں ہے سیر فی الاشیاء باللہ (خدا کےساتھ اشیاء کی سیر کرنا ) کہتے ہیں۔ اور جس کو صوفیہ نے سیر فی اللہ کہا ہے وہ( دراصل ) عاشق کے اندر معشوق کی سیر ہوتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عاشق کو جو کچھ بھی اوصاف اور افعال حاصل تھے چونکہ اس نے ان سب کو معشوق کے حوالے کر دیا ہے اور اپنے آپ کو بالکل خالی کر لیا ہے تو اس کے بعد جو فعل بھی اس سے واقع ہوگا وہ اس کی طرف منسوب نہیں ہوگا بلکہ اس کی نسبت معشوق ہی کی طرف ہوگی اس لئے سیر بھی اسی طرف منسوب ہوگی عاشق کا وجود تو اب بجز ایک مکان کے جس سے مراد محض خلا ہے اور کوئی چیز نہیں ہے، لہذا الا محالہ یہ عاشق کے اندر معشوق ہی کی سیر ہوگی۔
معرفت : :نمبر 7
مقام تکمیل اور جمع در تشبیه و تنزیہ
وہ تشبیہ جو تنزیہ کے بعد ظاہر ہوتی ہے ( در اصل )اس کی اپنی عین ثابتہ کا انکشاف ہی ہے اور جو تشبیہ تنزیہ کے ساتھ جمع ہو جاتی ہے وہ یہی تشبیہ ہوتی ہے جو مرتبہ جمع سے تعلق رکھتی ہے اور جو تشبیہ، ظہور تنزیہ سے پہلے پیش آتی ہے اور مرتبہ فرق و امتیاز سے تعلق رکھتی ہے وہ تنزیہ کے ظہور کے وقت محو اور معدوم ہو جاتی ہے اور تنزیہ کے ساتھ جمع ہونے کی قابلیت نہیں ہوتی ۔
اور تشبیہ و تنزیہ کے درمیان جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ادراک بسیط کا متعلق (یعنی ادراک بسیط جس سے تعلق رکھتا ہے )جو کہ تنزیہ ہی ہے صفات الہیہ کے پردہ میں( جن پر عین ثابتہ مشتمل ہے ) نزول کرنے کے بعد تشبیہ بن کر علم میں آتا ہے اور وہ ادراک مرکب کا متعلق بن جاتا ہے( یعنی ادراک مرکب اس سے متعلق ہو جاتا ہے )، لہذا تکمیل کا مقام یہی جمع بین التشبیہ والتنزیہ کا مقام ہوتا ہے، کیونکہ صرف تنزیہ والا شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ اپنی قوت مدرکہ میں ذات کو حاضر کر سکے کیونکہ ذات کا علم ان صفات الہیہ کے پردہ کے بغیر جن پر عین ثابتہ مشتمل ہے ہو ہی نہیں سکتا اور عین ثابتہ کا انکشاف اس پر ہوا ہی نہیں ، لہذا وہ شخص جسے مطلوب کا علم ہی نہیں وہ دوسروں کو کس طرح اس کی اطلاع دے سکتا ہے اور ہم مطلوب حقیقی کو صفات کو نیہ کے پردے میں نہیں جان سکتے ، کیونکہ صفات کو نیہ میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اس کا آئینہ بن سکیں ، شاہی عطیات تو شاہی سواریاں ہی اٹھا سکتی ہیں۔
فنافی اللہ اسی شخص کو میسر آتی ہے جو اپنے وجود کے ذرہ ذرہ کو تمام چیزوں کا آئینہ سمجھے اور اس میں اشیاء کا مطالعہ کرے اور اس کا ہرذرہ تمام اشیاء کے رنگ میں رنگا جائے، کیونکہ ذات الہیہ کے مرتبہ میں ہرشان، جو فنا فی اللہ میں معتبر ہے،تمام شیو بات پر مشتمل ہے، کیونکہ وہ ذات سے متمیز اور الگ نہیں ہیں لہذا جس طرح ذات ،سب پر مشتمل ہے اسی طرح اس کی شان بھی سب پر مشتمل ہے، لہذا سالک اپنے ہر ذرہ جامعہ کو ہرشان جامع میں فانی کر دیتا ہے اور وہ ہر ذرہ کی بجائے شیون الہیہ میں سے کسی ایک شان کو موجود پاتا ہے اگر چہ وہ اس کی تفصیل سے واقف نہ ہو سکے، لہذا جب تک اس کا ہر ذرہ جامعیت کی صفت پیدا نہ کر لے اس کو اس فنا کی قابلیت حاصل نہیں ہوتی اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی قدرت مدرکہ کی کمزوری کی بنا پر اپنی جامعیت کا اور اک نہیں کر سکتے ، اگر چہ ان میں در حقیقت یہ کمال موجود ہوتا ہے اور وہ فنافی اللہ کے ساتھ مشرف ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو کوئی بھی اس جامعیت کو حاصل کرلے وہ ضروری ہی فنافی اللہ ہو جائے اور یہ اللہ کا فضل و انعام ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
معرفت :نمبر 8
وحدت ذاتی وصفاتی وافعالی
حق تعالی وسبحانہ کا فضل اور صفت بھی اس کی ذات کی طرح یگانہ ہے جس میں کثرت کی گنجائش قطعا نہیں ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ چونکہ حق تعالی و تقدس کی ذات نے بہت سے ایسے امور کے ساتھ جو ایک دوسرے سےمتمیز ہیں تعلق پیدا کر لیا ہے اس لئے اس کے فعل اور صفت نے بھی ان کے ساتھ تعلق پیدا کر لیا ہے کیونکہ یہ دونوں خارج میں عین ذات ہیں ، لہذا جس طرح حق تعالی کی ذات متعد داشیاء کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے متعدد اور مکثر دکھائی دیتی ہے اس طرح اس کا فعل اور صفت بھی اسی تعلق کی بنا پر متعدداور مکثر نظر آتا ہے، مثلاحق تعالی و سبحانہ کا فعل ازل سے لیکر ابد تک ایک ہی فعل ہے وَمَآ أَمۡرُنَآ إِلَّا وَٰحِدَة كَلَمۡحِۭ بِٱلۡبَصَرِ اور ہمارا امر صرف ایک ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا لیکن چونکہ اس فعل کا تعلق متعدد اشیاء کے ساتھ ہوتا ہے، لہذا وہ فعل بھی متعد د نظر آتا ہے اور جیسا کہ حق تعالی کی ذات تمام اضداد کی جامع ہے اسی طرح اس کا فضل اور صفت بھی جامع اضداد ہیں ، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے لہذا وہی ایک فعل کسی مقام پر حیات بخشی کی صورت میں ظہور فرماتا ہے اور دوسری جگہ میں موت طاری کرنے کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور کسی مقام میں اس فعل کو اکرام و انعام کہتے ہیں اور دوسرے مقام میں الم رسانی اور انتقام کے نام سے پکارتے ہیں۔
اسی طرح کلام جو حق تعالی سبحانہ کی صفت ہے وہ بھی یگانہ ہے اور ازل سے لیکر ابد تک وہ اسی ایک کلام کے ساتھ متکلم ہے کیونکہ گونگا ہونا یا خاموش ہونا تو اس کی بارگاہ جل ذکرہ کیلئے جائز نہیں ہو سکتا اور وہی ایک کلام مختلف مواقع کی صورت میں نظر آتا ہے کبھی اسے امر کہتے ہیں اور کبھی نہی کہتے ہیں اورکبھی اسم اور کبھی حرف کہتے ہیں ، وعلی ہذا القیاس۔
اور وہ جو علما نے کہا کہ لا یجری علیہ تعالی زمان یعنی حق تعالی پر زمانے کے احکام جاری نہیں ہوتے اس صورت میں یہی ہے کہ کیونکہ حق تعالی و سبحانہ کے سامنے تو ازل سے ابد تک آن واحد ہے جو حاضر ہے اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے ماضی اور مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن چونکہ اسی ایک آن( گھڑی )میں متعدد امور کا ظہور ہوتا ہے اور لوح ہستی پر مختلف چیزیں نظر آتی ہیں لہذا اس تعلق کی وجہ سے وہی ایک آن( گھڑی) بیشمار آنوں اور متعدد زمانوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔
اسی طرح حق تعالی و سبحانہ کا وجود جو اس کی ذات کا عین ہے، بسیط حقیقی ،ہے جس میں مرکب ہونے کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہو سکتا اور نقطہ کی طرح اس میں بالکل بھی تجزی اور تقسیم جاری نہیں ہو سکتی لیکن بیشمار اشیاء کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے منبسط (پھیلاؤ والی) اور مسطح (سطح کی طرح فراخ اور وسیع )نظر آتا ہے۔
یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے جب کہ یہ علمی صورتیں اس وجہ سے کہ ان کے ساتھ ذات کی نسبت کا ثبوت ہو جاتا ہے تو اس طرح نظر آنے لگتی ہیں کہ گویا ذات کے آئینے میں مقیم اور ثابت ہیں اور اسی طرح یہ علمی صورتیں اسماء اور صفات کے آئینے بھی ہیں اور یہ اسماء اور صفات جو ان میں سے ہر ایک کے آئینے میں ظاہر ہوتی ہیں اور اسی چیز کی ایک خالص صورت ہوتی ہیں لہذ اس سے لازم آتا ہے کہ ذات میں شے کو غیر شے فرض کیا جائے اور انقسام (تقسیم ہو جانے )اور تجزی (اجزاء بن جانے )کے بھی یہی معنی ہوتے ہیں ، اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس اشکال کا جواب چند مقدمات پر مبنی ہے۔
پہلا مقدمہ: تو یہ ہے کہ نقطہ موجود ہوتا ہے اور وہ کسی طریقہ پر بھی انقسام اور تجزی (تقسیم ہو جانے اور جزو جزو بن جانے) کے قابل نہیں ہوتا ، جیسا کہ حکمائے محققین اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات نے فرمایا ہے۔
دوسرا مقدمہ:دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ دلائل سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دائرہ کا مرکز( ہمیشہ) کے نقطہ ہی ہوتا ہے جو کسی طرح بھی انقسام (تقسیم ہو جانے ) کو قبول نہیں کرتا ہے۔
تیسرا مقدمہ:تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ دائرہ کے مرکز میں ایسے خطوط کا نکالناممکن ہے جو دائرہ کے محیط تک جا کرختم ہوں ، بلکہ یوں کہئے کہ وہ محیط کے نقطوں پر جا کر ختم ہوں، کیونکہ جس طرح خط کا مبدا نقطہ ہوا کرتا ہے اسی طرح خط کا منتہا بھی نقطہ ہی ہوا کرتا ہے ۔ پس جب تینوں مقدمات معلوم ہو گئے تو اب سمجھئے کہ جب نقطہ سے بیشمار خطوط نکل سکتے اور حقیقی کثرت کا مبدا بن سکنے کے باوجود نقص نہیں آسکتا اور وہ اسی طرح اپنے غیر منقسم ہونے کی کیفیت پر باقی رہتا ہے تو اگر حق تعالی وسبحانہ کا وجود بھی کثرت وہمی کا مبدا بن جائے اور اس کی ذات کے آئینوں میں کثیر اشیا موجود اور ثابت محسوس ہوں تو اس کی بساطت (غیر مرکب) ہونے میں کوئی نقص لازم نہیں آتا اور وہ بطریق اولی اپنی وحدت محضہ پر برقرار رہتا ہے، پاک ہے وہ ذات جو اپنی ذات، صفات اور اپنے اسماء میں موجودات کے حادث ہونے کی وجہ سے کسی تغیر کو قبول نہیں کرتی ۔ حضرت شیخ اکبر نے فتوحات مکیہ میں فرمایا ہے کہ ہر وہ خط جو ہر مرکز کے کا نقطہ سے محیط کی طرف نکلتا ہے وہ اپنی طرح کے دوسرے تمام خطوط کے برابر ہوتا ہے اور محیط کے نقطہ کی طرف ہی ختم ہوتا ہے اور نقطہ( یعنی مرکز کا نقطہ جس سے یہ تمام مخطوط نکلتے ہیں) باوجود ان خطوط کی کثرت کے جو اس سے محیط کی طرف نکل رہے ہیں ، اپنی ذات میں زیادت و کثرت قبول نہیں کرتا لہذا اس سے ثابت ہو گیا کہ ایک شے سے جو واحد متعین شے اپنی ذات میں کثرت کو قبول نہیں کرتی اس سے کثرت صادر ہو سکتی ہے، پس جس کسی نے یہ بات کہی ہے کہ واحد چیز سے واحد چیز ہی صادر ہوسکتی ہے۔ وہ غلط ہے ۔
معرفت: :نمبر 9
موہوب حقانی کا وجود
موہوب حقانی کے وجود سے مراد اس کےعین ثابتہ کا منکشف ہوتا ہے۔ یعنی محض حق سبحانہ کے فضل اور مہربانی سے کوئی تعینات کے فنا ہو جانے کے بعد اس پر یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ اس کا تعین وہی بسیط ( غیرمرکب ) تعین ہے جس کا تعلق مرتبہ جمع ہے ہے۔
معرفت : :نمبر 10
حقیقت محمدی سے مراد
ذات کی تجلی سے مراد، ذات کا ظہور ہے اور کسی چیز کا ظہور بغیر تعین اور متمیز ہونے کے ناممکن ہے، لہذاذات کی تجلی اور ظہور تعین ہی کے ساتھ ہو سکتا ہے اور یہ تعین اول ہی ہے جو تمام تعینات میں سب سے وسیع تر اور عظیم تر ہے اور اس کو وحدت کہتے ہیں اور وہ اسم جو آں سرور کائناتﷺ آپ پر کامل ترین درود ہوں اور مکمل ترین سلام ہوں کا مبدا تعین ہے،وہ یہی وحدت ہے اور چونکہ سا لک کی سیر کی انتہا سے مراد ا سکا اس اسم تک رسائی حاصل کرنا ہے جو اس کا مبداتعین ہوا ، لہذا تجلی ذات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا خصوصی امتیاز ہوگی اور وہ تعین جو تمام اسماء نسبتوں اور اعتبارات کے بغیر کسی باہمی امتیاز کے اجمالی طور پر مشتمل ہے اس نے واحدنیت کے مرتبہ میں تفصیل اور تمیز پیدا کر لی ہے اور اس کی وہ اقسام پیدا ہوگئی ہیں جو تمام مخلوقات کے تعینات کا مبداء ہیں اور وہ اسکا جو تمام مخلوقات کے تعینات کا مبدا ہیں ان سے مراد وہ صفات اور اسماء ہیں جو اس تعین کے تحت مندرج رہی ہیں وہ جنہوں نے واحدیت کے مرتبہ میں تفصیل حاصل کرلی ہے لہذا دو سرے سالکوں کی سیر کی انتہا انہی اسما اور صفات تک ہوتی ہے، اس لئے دوسروں کو صفاتی اور اسمائی تجلی حاصل ہوتی ہے اور یہ بات کہ تجلی ذاتی اسی اسم کے پردے میں ہوا کرتی ہے جو صاحب تجلی کا مبدا تعین ہوا کرتا ہے، اس کا یہی مطلب ہے۔
لہذا حقیقت محمدی کل ہوگی اور باقی موجودات کے حقائق اس کے اجزا ہونگے اور جو جماعت اطاعت مصطفوی ﷺ کی سعادت سے بہرہ مند ہو چکی ہو اور اتباع کے کمال تک پہنچ چکی ہوا سے بھی اس مناسبت اور متابعت کی و جہ سے تجلی ذاتی سے کچھ حصہ نصیب ہو جاتا ہے، چونکہ ان پر یہ بات منکشف ہوگئی ہے کہ ان کی حقیقت خود تمام موجودات کی حقیقتوں کا عین ہے لہذا انہیں اقسام کے تمایز ( باہمی امتیاز ) اور تفصیل کی تنگی سے رہائی حاصل ہوگئی ہے، گویا کہ ان کا مشہود بھی اقسام کے پردہ کے بغیرہی مقسم ہے اور ان کے مبادی تعینات بھی وہی مقسم ہے اقسام نہیں ہیں ۔
مثال کے طور پر اسم کو لیجئے جو اس کے پردہ میں کہ وہ فی نفسہ ( خود بخود ) اپنے مفہوم پر دلالت کرتا ہے اور وہ کسی زمانے کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہوتا ایک خاص انداز کا کلمہ ہوتا ہے اور یہی وہ پردہ کلمہ کی باقی تمام اقسام سے اس کے تعین اور تمیز کا مبدا ہوا کرتا ہے لیکن جب اس نے اپنے آپ کو فعل اور حرف کا عین پایا اور تفصیل اقسام اور باہمی امتیاز کی تنگی سے اسے نجات حاصل ہو گئی تو اب اس نے اپنا مبداء تعین خوداسی کلمہ کو پایا نہ کہ اس کی کسی قسم کو ۔
معرفت : :نمبر 11
خارجی صورتوں اور اشکال کا علمی صورتوں کے ساتھ تعلق
اشیاء کی علمی صورتوں سے مطلب ان کا بارگاہ علم میں ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ جو متقین صوفیہ نے خدا تعالی ان کی تعداد کو بڑھائے ) فرمایا ہے کہ اشیاء کی صورتیں محض علم ہی میں ہوتی ہیں اور ان کے احکام اور آثار خارج میں پائے جاتے ہیں تو اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا باہمی امتیاز علم ہی میں ہوتا ہے اور خارج میں حضرت حق سبحانہ و تعالی اپنی وحدت ذاتیہ پر ہے، جو ان چیزوں کے احکام و آثار میں ظاہر ہوا ہے اور یہ مطلب نہیں ہے کہ علمی صورتوں سے مراد یہی صورتیں اور شکلیں ہیں جو خارج میں ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ یہ صورتیں بھی ان علمی صورتوں کے مقتضیات میں سے ہیں، ان کا عین نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ہر علمی تمیز (دوسرے سے ممتاز ہوتا ) ایک خاص شکل کا مقتضی ہوتا ہے کہ وہ چیز سیدھی ہے یا ٹیڑھی ہے، سیدھی کھڑی ہے یا کبڑی ہو کر کھڑی ہے اور یہ چیزیں ان علمی صورتوں کے آثار ہیں جیسا کہ گرم ہو نا۔ ٹھنڈا ہونا ، خشک ہونا تر ہوتا ، ہلکا ہونا ، بھاری ہونا ،لطیف ہونا اور کثیف ہونا یہ سب ان کے احکام و آثار ہیں اور چونکہ ہر شان جو علم کے اندر تمیز حاصل کرتی ہے وہ بے انتہا شیونات پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے لامحالہ علمی صورتوں میں ہرشان کے مطابق بے انتہا تمیزات پیدا ہو گئے اور ہر تمیز ایک الگ حکم اور الگ اثر کا مقتضی ہو گیا اور خارج میں ایک ایسی نا معلوم الکیفیت نسبت کی وجہ سے جو ان چیزوں کو ذات کے ساتھ حاصل ہو گئی ہے ایسا نظر آتا ہے کہ ان کا یہ باہمی امتیاز خارج میں ہے چنانچہ قوت بینائی ، قوت سماعت سے الگ ہوئی اور خارج میں ممتاز ہو گئی اور اسی طرح قوت ذائقہ چکھنے کی طاقت ، قوت شامہ سونگھنے کی طاقت سے اور اسی طرح دوسری قوتیں بھی ایک دوسرے سے ممتاز ہو گئیں۔
لہذا یہ تعین اور تمیز جو علم کے درجے میں ہے اور اس کو ممکن کی حقیقت اور اس کا عین ثابتہ کہہ دیتے ہیں اس کا تعلق مرتبہ جمع سے ہوتا ہے اور ان کے یہ احکام و آثار جو شکلوں وغیرہ کی قسم سے خارج میں پائے جاتے ہیں ان کا تعلق مرتبہ فرق سے ہے کیونکہ وہ اسی تمیز کے ذریعے سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کے ظہور کا منشا یہی فرق ہے جو کچھ مرتبہ جمع سے تعلق رکھتا ہے، وہ حقائق کونی سے متعلق ہے اگر چہ یہ دونوں مرتبے خود ذات ہی میں مندرج ہیں لیکن ان میں سے دوسرے مرتبہ کا اندراج پہلے مرتبے کے واسطے سے ہوتا ہے، بالذات نہیں ہوتا ، لہذا اول مرتبہ چیز کی قسم کے طور پر ہے اور دوسرا چیز کی قسم کی قسم کے طور پر ہے، جب سالک فرق کے تمام مراتب کو طے کر کے جمع کے مرتبہ میں یعنی اپنی عین ثابتہ کے مرتبہ میں پہنچتا ہے تو اس وقت تجلی ذاتی اس کے حق میں اس کے عین ہی کا انکشاف ہوا کرتی ہے، والله سبحانه تعالی اعلم
معرفت :نمبر 12
ذات حق میں یقین کے تین مراتب
حق سبحانہ کی ذات کے بارے میں علم الیقین حاصل ہونے سے مرادان آیات ( نشانیوں ) کا شہود ہے جو حق جل جلالہ کی ذات پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ذات کا شہود و حضور تو صرف اس نفس میں ہوتا ہے جس کیلئے تجلی ہوئی ہو اس کے سوا کہیں اور نہیں ہو سکتا سالک جو کچھ اپنے خارج میں مشاہدہ کرتا ہے وہ سب آثار اور دلائل ہی ہوتے ہیں ، کیونکہ تعینات ذات حق جل جلالہ پر دلالت کرتے ہیں لہذا وہ تجلیات جو صورتوں اور انوار کی شکل میں ہوتی ہیں متجلی لہ (جس کیلئے تجلی ہوئی ہو ) صورت کے سوا ہوتی ہیں ، وہ علم الیقین میں داخل ہیں، جو صورت بھی ہو اور جو نور بھی ظاہر ہو اور جوانوار خواہ وہ نور رنگین ہوں یا بے رنگ اس سلسلے میں سب برابر ہیں، حضرت مخدومی مولوی عبد الرحمن جامی قدس سرہ لمعات میں اس شعر کی تشریح میں فرماتے ہیں ۔
اے دوست ترابہ ہر مکاں می جستم ہر دم خبرت از این و آن می جستم
ڈھونڈتا پھرتا تھا میں اے دوست تجھے کوجابجا اور تھا ہر ایک سے تیری خبر میں پوچھتا
یہ شعر مشاہدہ آفاقی کی طرف اشارہ ہے جو علم الیقین کا فائدہ دیتا ہے اور یہ شہود آفاقی چونکہ خود مقصود سے کوئی خبر نہیں دیتا اور اس کا حضور عطا نہیں کرتا، صرف آثار و علامات ہی کے ذریعہ سے اس کا علم بخشتا ہے جیسا کہ دھواں اور حرارت استدلال اور آثار علامات ہونے کے سوا آگ کے موجود ہونے کا فائدہ نہیں دیتے تو لامحالہ یہ شہود علم کے دائرہ سے باہر نہیں ہے اور عین الیقین کا فا ئدہ نہیں دے سکتا ۔ حضرت قطب الاقطاب ناصر الدین خواجہ عبید اللہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ سیر دوطرح کی ہوتی ہے، ایک سیر مستطیل اور دوسری سیر مستد یر سیر مستطیل دوری در دوری ( بہت ہی دور کی سیر ) ہے اور سیر مستدیر قریب در قریب ہو (یعنی بہت ہی قریب کی سیر) سیر مستطیل تو یہ ہے کہ مقصود کو اپنے وائر سے باہر تلاش کیا جائے اور سیر مستد یر خود اپنے دل کے گرد گھومنا اور اپنے ہی اندر سے مقصور کو تلاش کرتا ہے۔
عین الیقین سے مراد بندہ کو اس کے اپنے تعین کا حجاب اٹھ جانے کے بعد حق سبحانہ وتعالی کا شہود حاصل ہوتا ہے اور اس بلند مرتبہ جماعت ( صوفیہ ) کے نزدیک اس شہود کو ادراک بسیط(حق تعالی کے وجود کا ادراک) سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، یہ ادراک عام لوگوں کو بھی حاصل ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ خواص کیلئے حق سبحانہ وتعالی کے غیر کا وجود انکی آگاہی میں رکاوٹ نہیں ہے اور ان کے شہود کی آنکھوں میں حق سبحانہ وتعالی کے سوا کوئی چیز مشہود نہیں ہوتی ہے عوام کی حالت اس کے بر عکس ہوتی ہے اوریہ ادر اک علم کے منافی ہے وہاں تو حیرت ہی حیرت ہے جیسا کہ علم اس شہود(عین الیقین ) کے منافی ہے، اس طرح عین الیقین اس علم الیقین کا حجاب ہے جیسا کہ شیخ اکبررضی اللہ عنہ نے کتاب الحجب میں بیان فرمایا ہے کہ علم الیقین عین الیقین کا حجاب ہے اور عین الیقین علم الیقین کا حجاب ہے اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ اس شخص کی نشانی جسے کما حقہ معرفت حاصل ہو چکی ہے کہ جب وہ اپنے سر کی طرف رجوع کرتا ہے تو اسے اس کا کوئی علم حاصل نہیں ہوتا ایساہی شخص معرفت میں کامل ہوتا ہے۔ جس کے اوپر معرفت کا کوئی وجہ نہیں ہے۔
حق الیقین سے مراد حق تعالی جل شانہ کا اس کی ذات کے ساتھ شہود ہے اور حق سبحانہ کو اپنا عین جاننا ہے اور یہ حق الیقین بقا باللہ کی صورت میں حاصل ہوتا ہے کہ فنائے حقیقی کے متحقق ہو جانے کے بعدحق سبحانہ اسے اپنے پاس سے موہوب حقانی کے وجود سے مشرف فرما دیتا ہے۔ یہاں پہنش کرعلم اورعین ایک وسرے کے حجاب نہیں رہتے وہ عین شہود میں عالم ہوتا ہے اور عین علم میں شاہد ( صاحب شہودہوتا ہے ) اور یہ تعین جسے (صوفیہ ) عین حق سمجھتے ہیں۔ اس مرتبہ میں تعین کونی نہیں ہے کیونکہ اس کا تو کوئی نشان ہی باقی نہیں رہا بلکہ تعیین حقانی ہوتا ہے جسے اکابر کے ہاں وجود موہوب حقانی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ او پر گذر چکا ہے اور جو صوری تجلیات والے حضرات اپنی صورتوں اور تعینات کو حق مانتے ہیں وہ تعینات کونی ہوتے ہیں کیونکہ ان پر کوئی فنا طاری نہیں ہوتی اور یہ فرق چونکہ بعض متوسطین راہ پر واضح نہیں ہو سکا تو انہوں نے خیال کر لیا کہ اکا بر صوفیہ حق الیقین میں بھی انہی تعینات کونی کو حق جانتے ہیں اور ان کی یہ جہالت اکا بر قدس اللہ اسرار هم پر طعن کرنے کا باعث بن گئی ہے اور انہوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی قدم میں جو تجلی صوری کا مقام ہے اور جسے کشف ملکوت سے تعبیر کرتے ہیں ، یہ حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے۔
معرفت : :نمبر 13
صوفیہ اور متکلمین میں معرفت کے متعلق اختلافات
معرفت خداوندی عز و جل صوفیا کرام اور اکثر متکلمین کے نزدیک بالاتفاق واجب ہے، خدا تعالی ان کی مساعی کو مشکور فرمائے لیکن (صوفیہ ومتکلمین کا )ہے اس طریقہ میں اختلاف ہے جو معرفت کی طرف پہنچانے والا ہے، صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ معرفت کا طریقہ ریاضت اور تصفیہ باطن ہے اور متکلمین جن کا تعلق اشاعرہ اور معتزلہ سے ہے فرماتے ہیں، اس کا طریقہ غور وفکر اور استدلال ہے۔ اور اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان جو جھگڑا ہے وہ صرف لفظی ہے یعنی اختلاف محض لفظ معرفت کی تفسیر پر مبنی ہے، صوفیا کرام تو معرفت سے ایسی بسیط ذات کی دریافت مراد لیتے ہیں جس کا تعلق وجدان سے ہے (اور ظاہر ہے) کہ یہ تصدیق ایمانی کی صورت سے مختلف چیز ہے اور متکلمین معرفت سے تصدیق ایمانی کی صورت مراد لیتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے معنی کے لحاظ سے معرفت حاصل کرنے کا طریقہ ریا ضت اور تصفیہ باطن ہی ہے اور تصدیق ایمانی کی صورت کے حاصل کرنے کا طریقہ غور و فکر اور استدلال ہی ہو سکتا ہے اور جو علما نے فرمایا ہے کہ سب سے پہلی چیز جو ایک مکلف آدمی پر واجب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے تو وہاں معرفت سے مراد دوسرے معنی کی معرفت ہی ہے پہلے معنی کی نہیں ، کیونکہ پہلے معنی کے لحاظ سے معرفت کا حصول حق الیقین میں ہوتا ہے جو اہل اللہ کے کمال کا آخری نقطہ ہے،
نیز ان دونوں معرفتوں کا فرق ایک دوسری عبارت میں بیان کرتا ہوں ۔ صوفیا کرام کی معرفت کو حق تعالیٰ وسبحانہ کے ساتھ علم حضوری سے تعبیر کرتے ہیں اور جو کہ فنا اور بقا کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے، اس معرفت کو پہچاننے اور پالینے (شناختن اور یافتن )سے تعبیر کرتے ہیں اور متکلمین کی معرفت سے مراد حق تعالی وسبحانہ کا علم حصولی ہے اور جو غور وفکر اور استدلال کا نتیجہ ہوتا ہے، اس کی توضیح یہ ہے کہ ہر وہ علم جو خارج سے حاصل ہو اس سے مراد شے معلوم کی صورت کا حصول ہوتا ہے، یوں کہئے کہ صاحب علم کی قوت مدر کہ میں اس کی جو صورت حاصل ہوتی ہے۔ اس علم کو علم حصولی کہتے ہیں اور جس علم کی یہ کیفیت نہ ہو یعنی وہ خارج سے حاصل نہ ہو بلکہ خود صاحب علم کی ذات سے متعلق ہو اس علم کو علم حضوری کہتے ہیں اور جب عارف اپنی ذات وصفات کی فنا کے بعد بقا باللہ سے مشرف ہو جاتا ہے اور اس کی انا یعنی ہستی اس کے وجود کونی سے بالکل ہی بے تعلق ہو جاتی ہے اور حقیقت پر مطلع ہو جاتی ہے تو وہ لا محالہ علم حصولی سے علم حضوری کے مرتبہ میں منتقل ہو جاتا ہے اور دانستن ( جاننے سے) یافتن( پالینے ) کے درجہ میں رسائی حاصل کر لیتا ہے، کیونکہ یافت ( پالینا ) یا بندہ (پانے والے ) کی ذات سے باہر نہیں ہوتی ۔
ازالہ و ہم:معاذ اللہ ! اس جگہ کوئی سادہ لوح آدمی حلول اور اتحاد کا مفہوم نہ کچھ لے اور اکابرین کے ساتھ کسی قسم کی بدگمانی ظاہر نہ کرے یا بد اعتقادی کے حضور میں پھنس کر ہلاک نہ ہو جائے ، معلوم ہونا چاہئے کہ ولایت کا انداز عقل اور فکر کے انداز سے بلند ہے اور اس کا طریقہ کشف صحیح ہے، غور وفکر اور استدلال کی اس مقام میں گنجائش نہیں ہے۔
پائے استدلالیاں چوبیں بود پائے چوبین سخت بے تمکیں بود
پاؤں استدلال کے ہیں چوب کے کوئی ان پر کب بھروسا کر سکے
حکما اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے حق سبحانہ وتعالی کی ذات کی معرفت کے انکار کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے تو وہ معرفت تصدیق ایمانی کی صورت میں ہے چنانچہ ان کے انکار کے دلائل سے یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ حق تعالی کی ذات کی معرفت خواہ بداہت کے ساتھ ہو یا غور وفکر کے ساتھ دونوں کی دونوں باطل ہیں ۔‘“
اس مبحث کی تفصیل علم کلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے نیز انہوں نے معرفت ذات کے انکار سے ذات کی کنہ اور حقیقت مراد لی ہے اور نہ کہ معرفت بوجہ (کسی ایک طرح کی معرفت ) کیونکہ معرفت ذات بوجہ تو سب ہی کو حاصل ہے جیسا کہ ( مثلا )ذات کی معرفت وصف خالقیت کے ساتھ یا رزاقیت کے ساتھ جانتے ہیں ، جیسا کہ ان حضرات نے کہا ہے. واضح رہے کہ کسی چیز کی ایک گونہ معرفت (معرفت بوجہ ) اور وجہ شے( حقیقت شے ) کی معرفت میں بڑا فرق ہے اور یہاں جو ہم بحث کر رہے ہیں وہ درجہ ذات کی معرفت میں کر رہے ہیں ، نہ کہ معرفت ذات بوجہ (یک گونہ معرفت) میں، اگر کوئی کہے کہ یہ توجیہ فعل خلق اور فعل رزق میں تو مسلم ہے کیونکہ کہہ سکتے ہیں کہ معلوم فعل خلق ہے نہ کہ ذات مع فعل خلق، لیکن یہ بات خالقیت میں صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ خالقیت کے معنی تو اس ذات کے ہوتے ہیں جس کے لئے فعل خلق ثابت ہے تو ذات بھی اس صفت کے ساتھ معلوم ہو گئی۔
میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ذات سے مراد یا تو ذات کا مفہوم ہے یا مصداق ، اگر مفہوم ہے تو وہ عرض عام ہے، لہذ ا معلوم ہونے والی چیز وہی وجہ ہے نہ کہ ذات، اگر مراد مصداق ہے تو اس کا علم کنہ ذات کے علم کو مستلزم ہے، کیونکہ چیز کی حقیقت اور کنہ سے مراد خود وہی چیز ہے لہذا بالفرض اگر اس علم کا تعلق حق تعالی کی ذات سے ہو تو لازمی طور پر وہ حق تعالی کی ذات کی کنہ( حقیقت )کا علم ہو گا ، کیونکہ ذات نہ متجزی ہے نہ متبعض ہے (یعنی نہ اس کے جزو ہو سکتے ہیں نہ ٹکڑے ہو سکتے ہیں ) کہ اس کا کچھ حصہ معلوم ہوا اور دوسرا کچھ حصہ معلوم نہ ہوابلکہ وہ تو بسیط حقیقی (حقیقا غیر مرکب) ہے، لہذا جب فرض کر لیا جائے کہ علم اس کی ذات سے متعلق ہے تو اس سے اس کی ذات کی کنہ ( یعنی حقیقت ) کا علم لازم آتا ہے بر خلاف مخلوقات کے کہ ان کایک گونہ علم (علم بوجہ)ان کی کنہ (حقیقت ) کے علم کو مستلزم نہیں ہے، بلکہ ان کی حقیقت میں سے کچھ اس وجہ( ایک گونہ علم )کے ضمن میں معلوم ہو جاتا ہے اور کنه و حقیقت سے مراد تو پوری حقیقت ہوا کرتی ہے مثلاً انسان کو ایسی چیز کی وجہ سے جان لینا جو اس کی حرکت ہو اس سے انسان کی حقیقت کا کچھ حصہ ہی معلوم ہوسکتا ہے نہ کہ اس کی وہ کنہ اور حقیقت جس سے مراد اس کی پوری حقیقت ہے ، ایسے ہی مثلا اس کا ہنسنا جس کا منشا اس کا تعجب ہے وہ عجیب امور کے ادر اک کر لینے پر دلالت کرتا ہے اس سے بھی انسان کی حقیقت کا ایک جزو ہی معلوم ہو سکتا ہے۔
حاصل یہ کہ جہاں کہیں حقیقت اجزا ء بننے اور حصے ہونے (تبعض وتجزی ) کے قائل ہو وہاں کسی چیز کا ایک گونہ علم کنہ (حقیقت ) کے علم کو مستلزم نہیں ہوتا اور جہاں کہیں وہ چیز بسیط حقیقی(حقیقت غیر مرکب )ہو جو کسی طرح پر بھی حصے ہونے کو قبول نہ کر سکے تو اگر علم اس سے متعلق ہوگا وہ کیسا ہی علم کیوں نہ ہواس کی کہنہ معلوم ہو جائے گی جیسا کہ ذات واجب تعالٰی ہے اور کنہ( ذات حق کی حقیقت ) کی معرفت محال ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، لہذا حق جل وعلا کی ذات کی معرفت مذکورہ معنی میں مطلقا ممنوع ہوگی ، خواہ وہ معرفت کنہ (حقیقت) کی ہو یا بوجہ ( یک گونہ ) ہو کیونکہ حقیقت تو اس بات کی مقتضی ہے کہ وہ شے معلوم کا احاطہ کر لے اور ماسوا سے اسے الگ کر کے پہچان لے، لیکن حق تعالی عز شانہ کی ذات تو کسی شخص کے بھی احاطہ میں نہیں آسکتی وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيۡءٖ مِّنۡ عِلۡمِهِۦٓ اور علم کی رو سے وہ اس کا احاطہ نہیں کر سکتے ہے کیونکہ احاطہ اور تمیز کا تقاضا یہ ہے کہ وہ چیز محدود ہو جس کا احاطہ اور تمیز حاصل ہورہی ہے اور باری تعالی کی شان میں یہ ممکن نہیں ہے ، لہذا اس کے ساتھ تو علم متعلق ہی نہیں ہو سکتا اور حق تعالی کی ذات کسی کی معلوم نہیں بن سکتی ، الغرض جب اس کی وجوہ کا علم حاصل ہوتا ہے تو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ان وجوہ کے ذریعے سے ان کو حق تعالیٰ کی ذات کا علم بھی حاصل ہو گیا ہے لیکن اس دقیق فرق کو سمجھنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔
بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ جل شانہ کی صفات بھی اس کی ذات ہی کی طرح غیر معلوم ہیں، کسی طرح سے بھی علم کے احاطہ میں نہیں آتیں اور وہ کسی مخلوق کیلئے معلوم بھی نہیں بنتیں ، مثلا حق تعالی کی صفت علم کا انداز ہ وہ نہیں ہے جو مخلوقات کے علوم کا ہوتا ہے، کیونکہ اس صفت کا علم جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے۔ معلوم کے انکشاف میں کوئی دخل نہیں ہوتا ، سوائے اس کے کہ حق تعالی وسبحانہ جیسا کہ اس کا قانون جاری ہے اس صفت کو پیدا فرمانے کے بعد اس کے موصوف میں انکشاف کو بھی خود ہی پیدا فرما دیتا ہے ، اگر اس انکشاف میں صفت علم کی اثر اندازی کے ہم کچھ قائل بھی ہو جا ئیں خواہ فی الجملہ ہی سہی جیسا کہ بعض متکلمین نے کہا ہے اور انہوں نے اس اثر اندازی کو اس میں پیدا کیا ہے، (تو یہ اثر اندازی بھی اس میں اپنی ذاتی نہیں ہے بلکہ خدا ہی کی پیدا کردہ ہے ) اسے موثر ہونے میں کوئی دخل نہیں ہے صرف اتنا ہے کہ اس نام کا اس پر اطلاق کر دیتے ہیں ، اس کے برعکس خالق تعالی شانہ میں صفت علم کی یہ کیفیت نہیں ہے بلکہ اس کو مخلوق کی صفت علم کے ساتھ سوائے نام کے اشتراک اور رسمی اطلاق کے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے ، اس طرح بارگاہ حق عز شانہ میں قدرت اور ارادہ کی صفات، تمام افعال کے صادر ہونے کا سر چشمہ (مبدا) کے اور وجود مخلوقات کا منشاء ہیں لیکن یہی قدرت اور ارادہ کی صفات جو مخلوقات میں پائی جاتی ہیں ان کی کیفیت نہیں ہے، بلکہ کسی چیز کے ساتھ اس کی قدرت اور ارادہ کے متعلق ہو جانے کے بعد حق تعالی و سبحانہ ہی قانون قدرت کے طور پر اس چیز کو پیدا کر دیتا ہے اور خود ان کی قدرت کو اس چیز کے وجود میں کوئی دخل نہیں ہوتا ، بجز اس کے کہ ان صفات کا تعلق اس چیز کے ساتھ قائم ہو جانے کے بعد خدا تعالی اس چیز کو پیدا کر دیتا ہے، یہی حال باقی تمام صفات کا ہے اور ہر معلوم جو صاحب علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اس کے علم کی قید میں نہیں آسکتا اور اسے معلوم نہیں ہو سکتا ، یہ علمائے معقول کے نزدیک ایک مسلمہ اصول ہے، لہذاس کی صفات بھی کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتیں ، جیسا کہ حق تعالی کی ذات ہے چون اور بیچگون( بے مثل و بے مثال )ہے اسی طرح اس کی صفات بھی بے چون و بیچگون ہیں، چون کو بے چون کی دنیا میں راستہ کیسے مل سکتا ہے۔
سوال:یہاں ایک زبر دست اشکال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب حق تعالی کی ذات اور صفات کا علم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو ان کی معرفت بھی محال ہو گی ، پھر معرفت کے واجب ہونے کے کیا معنی ہوں گے؟۔
جواب: میں کہتا ہوں کہ ذات اور صفات میں معرفت سے مراد ذات سے نقیضوں( اس کی ضد بالمقابل) چیزوں کا سلب کر نا نفی کرنا نہ کہ ذات کا علم حاصل کرنا ، مثلاً ذات میں معرفت سے مراد یہ ہے کہ( ہم یہ جان لیں کہ ) وہ جسم نہیں ہے وہ جو ہر نہیں ہے ، وہ عرض نہیں ہے اور مثلاً صفات میں معرفت سے مراد یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ کہ اس میں جہالت نہیں ہے، عاجزی نہیں ہے، اندھا پن نہیں ہے، گونگا پن نہیں ہے غرضیکہ ان ہی اضداد کے سلب ہونے( یعنی نفیوں )سے حق تعالی عز سلطانہ کی ذات اور صفات کا وجوب سمجھا جا سکتا ہے ۔
پیش ازیں پے نبرده اند که هست ترجمہ: اس کی ہستی سے زیادہ کچھ نہیں اس کا پتا
سوال اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ حق تعالی کی ذات پر حکم کیا جاتا ہے کہ وہ عالم ہے ، وہ قادر ہے، وغیرہ ذالک اور یہ حکم لگا نا اس بات کو مستلزم ہے کہ ذات کا تصور ہوتا ہے، کیونکہ حکم خواہ ایجابی ہو یا سلبی بغیر موضوع کے تصور کے ہو ہی نہیں سکتا ۔
جواب: تو میں (اس کے جواب میں )کہوں گا کہ ہاں اس قضیہ میں موضوع کا تصور ضروری ور متحقق ہے، لیکن جس چیز کا تصور ہوتا ہے وہ ذات نہیں ہے، حق تعالٰی عز شانہ کی ذات اس سے منزہ اور برتر ہے، لیکن چونکہ یہ متصور تنزیہی ہے جو کہ ذات سے ہی نکلا ہوا ہے، وہ غیر تنزیہی تصور کردہ چیزوں کی بہ نسبت ذات کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے، اس کے تصور کو ذات ہی کا تصورسمجھ لیا گیا ہے یہ سمجھ لینا مبنی بر ضرورت ہے، کیونکہ قوت بشریہ حق تعالی شانہ کی ذات کے ادراک سے قاصر ہے مگر اس کے باوجودلوگوں کو احکام کی معرفت کی ضرورت ہے جن کے ذریعے سے اس کی ذات سے تمیز دی جاتی ہے۔بعض محققین متکلمین نے فرمایا ہے کہ معرفت سے مراد یہ ہے کہ حادث اور قدیم کے درمیان امتیاز حاصل ہو جائے ، حضرت امام المسلمین ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا ارشاد بھی اس معنی میں ہو سکتا ہے کہ سبحانك ما عبدناك حق عبادتك ولكن عرفناك حق معرفتك( خدایا! تیری ذات پاک ہے، جیسا کہ تیری عبادت کا حق تھا ہم عبادت تو نہیں کر سکے لیکن جیسا کہ تیری معرفت کا حق تھا ہم نے معرفت حاصل کرلی ہے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی طرف مخلوق کیلئے کوئی راستہ ہی نہیں رکھا بجز اس کی معرفت سے عاجز رہ جانے کے لیکن جو معرفت اہل اللہ کے ساتھ مخصوص ہے اس کا ن تحقق (اظہار )طالب کی استعداد کے آئینے کے انداز کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
بقدر آئینه تو می نمایدرو ترجمه ترا جلوه بقدر آئینہ ہے
اور اس آئینے کی تنگی اور وسعت صاحب آئینہ کی تنگی اور وسعت کے مطابق ہی ہوتی ہے اور ہر چیز کا رب (تربیت کرنے والا )ہے اس چیز کا ایک خاص سبب اور اس کا قیوم ہوا کرتا ہے، اپنے خاص سبب کے سوا کسی اور میں معرفت نہیں ہوا کرتی اور اپنی حقیقت سے باہر حصول کی کوئی صورت نہیں بنتی
ذر و گر بس نیک و ربس بدبود گرچہ عمر سے تگ زند در خود بود
ہو نیک یا کہ بدہو کوئی ذرہ حقیر بھاگا تمام عمر رہا خود میں وہ اسیر
حضرت خواجہ خواجگان خواجہ بہاؤ الدین نقشبند ی نے اس مضمون کی طرف اشارہ فرمایا کہ فنا اور بقا کے بعد اہل اللہ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ اپنے ہی میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں وہ اپنے ہی میں پہنچانتے ہیں اور ان کی قیمت خود اپنے ہی میں موجود ہوتی وَفِيٓ أَنفُسِكُمۡۚ أَفَلَا تُبۡصِرُونَ اور تمہارے نفسوں ہی میں موجود ہے تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو
اور یہ معرفت خود حیرت ہی ہوتی ہے۔ حضرت ذوالنون مصری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ المعرفة في ذات الله حيرة ، اللہ تعالی کی ذات میں معرفت محض حیرت ہے ) ایک دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ ” اعرفهم بالله اشد تحیر فیہ یعنی اللہ تعالی کے ساتھ عارف تر وہی شخص ہے جس کا تحیر اس ذات میں شدید تر ہو اس کی صراحت فرمائی ہے لیکن اس فقیر یعنی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک معرفت صفات سے مراد بھی صفات کے اندر حیرت ہی ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔
معرفت : :نمبر 14
واجب تعالی کے وجود کی تحقیق
واجب تعالی کا وجود جمہور مسلمین کے نزدیک اس کی ذات عز شانہ پر زائد ہے اور حکماء اور شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ علیہ اور بعض صوفیا کے نزدیک یہ وجود عین ذات ہے اور اس فقیر کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ واجب تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ موجود ہے نہ کہ وجود کے ساتھ. . بر خلاف باقی موجودات کے کہ وہ سب وجود کے ساتھ موجود ہیں اور جو وجود ذات پر محمول ہے وہ عقل کی منترعات( الگ کی ہوئی اورنکالی ہوئی چیزوں )میں سے ہے یعنی عقل وجود کی ذات سے موجود کے وصف کو الگ نکال کر ذات پر محمول کر دیتی ہے اور اگر متکلمین کی مراد وجود زائد سے یہی الگ نکالا ہوا وجود ہے تو ان کی بات درست ہے اور مخالف کے لیے اس میں انکار یا نزع کی کوئی مجال نہیں رہتی اور اگر وہ ایسا وجود مراد لیتے ہیں کہ اس وجود کے ساتھ واجب تعالی موجود ہے جیسا کہ بظاہر ان کی عبارت سے مفہوم ہوتا ہے تو پھر خدشے اور تردد کا مقام ہے اور اگر حکماء اور شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ علیہ اور بعض صوفیا بھی واجب تعالی کو اپنی ذات کے ساتھ موجود کہتے ہوں ، بغیر اس کے کہ وہ وجود کے قائل ہوں اور اسے عین ذات ثابت کریں اور بغیر اس کے کہ وہ دلائل و براہین کے محتاج ہوں اور بیکار مقدمات کا ارتکاب فرما ئیں تو یہ بات زیادہ اقرب اور صحیح ہوگی۔
صوفیوں کے حال پر تعجب : اور ان صوفیوں پر تعجب ہوتا ہے کہ باوجود یکہ وہ ذات حق عز شانہ میں تمام نسبتوں اور تمام اعتبارات کو تو ساقط کر دیتے ہیں اور تنزلات کے مراتب میں انکو درج کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ وجود کو بھی ذات کے مرتبہ میں ثابت کر دیتے ہیں، یہ تو بجز تناقض کے اور کچھ بھی نہیں ہے، اس کے جواب میں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ وہ حضرات وجود کو بھی عین ذات تو کہتے ہیں لیکن اس سے وہ نسبتوں اور اعتبارات میں سے شمار نہیں کرتے ، کیونکہ اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ غیبت خارج کے اعتبار سے ہے ذہن کے اعتبار سے نہیں ہے اور ان حضرات کے نزدیک تمام صفات اسی قسم کی ہیں کہ تعقل( سمجھنے )میں تو ذات سے الگ اور مغائر ہیں لیکن خارج میں عین ذات ہیں کیونکہ سوائے ایک ذات احدیت کے ان کے نزدیک کوئی اور چیز موجود نہیں ہے لہذ الازم آتا ہے کہ وہ تمام اعتبارات کو ذات کے مرتبہ میں ہی ثابت کریں اور یہ غلط ہے اور وہ خود بھی اس کے بر عکس کے ہی معترف ہیں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
سوال: اگر یہ حضرات فرمائیں کہ ذات سے مراد و حدت ہے جو کہ تعین اول ہے اور اس مرتبہ میں انہوں نے متعین پر تعین کے زائد ہونے کا لحاظ نہیں کیا ہے ، اس مرتبہ میں وہ صرف وجود کا اثبات کرتے ہیں بر خلاف باقی تمام نسبتوں اور اعتبارات کے کیونکہ ان کا لحاظ واحدیت کے درجہ میں ہوتا ہے جو اس سے ایک قدم نیچے کا درجہ ہے۔
جواب: میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ اس تقدیر پر ان کی یہ ساری گفتگو متکلمین کے ساتھ نہیں ملتی ، کیونکہ متکلمین تو ذات سے مراد ذات محض لیتے ہیں جو تمام تعینات سے اوپر ہے اور وجود کو اس ذات پر زائدہ جانتے ہیں اور جو فرق او پر بیان کیا گیا ہے وہ زیادتی کو دور کرنے میں کوئی فائدہ نہیں بخشتا، زائد بہر حال زائد ہے خواہ مرتبہ ادلی میں یا مرتبہ ثانیہ میں، ابوالمکارم رکن الدین شیخ علاؤ الدولہ سمنانی رحمہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ فوق عالم الوجود عالم الملك الودود ” محبت فرمانے والے بادشاہ ( خدا ) کا عالم وجود کے عالم سے اوپر ہے ) اس عبارت کی تصریح یہ ہے کہ وجود ذات سے الگ ہے، مختصر یہ ہے کہ اگر واجب تعالی کو خو داپنی ذات ہی کے ساتھ موجود نہیں اور کسی نئے وجود کے قائل نہ ہوں تو یہ زیادہ بہتر اور مناسب ہے اور اگر وجود کے قائل ہوتے ہیں تو پھر یقینا ذات اور وجود دونوں میں مغایرت ماننی پڑے گی اور ذات حق عز سلطانہ پر اس کے زیادہ ہونے کا قائل ہونا پڑے گا لہذا اس تقدیر پر متکلمین کی بات اس نظریہ کے مخالفین کی بات کے مقابلہ میں صحیح اور درستگی سے زیادہ قریب ہے۔
وجود کا بدیہی اور نظری ہونا :
رہ گئی یہ بات کہ واجب تعالی کا وجود بدیہی ہے یا نظری؟ تو جمہور متکلمین اس کے نظری ہونے کے قائل ہیں اور امام غزالی اور امام رازی رحمہ اللہ علیہما اس کے بدیہی ہونے کا جزم اور یقین رکھتے ہیں ، بعض متاخرین نے ان دونوں قولوں کو جمع کرنے کے لیے کہا ہے کہ یہ بعض لوگوں کی نسبت سے بد یہی ہوتا ہے اور بعض دوسرے لوگوں کی نسبت سے نظری ہوتا ہے اور اس فقیر کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ وہ مطلقاً بدیہی ہے اور بعض لوگوں پر اس کا مخفی رہ جانا اس کے بدیہی ہونے کے منافی نہیں ہے، کیونکہ بدیہی ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ سب لوگ اسے جان لیں بلکہ بہت سے اہل عقل نے تو بعض کھلی بدیہی چیزوں کا بھی انکار کر دیا ہے اور یہ حضرات واجب تعالی کے وجود پر دلیلیں لائے ہیں، وہ سب اس کے بدیہی ہونے پر متنبہ کرتی ہیں جس طرح محسوسات کے ادراک میں یہ شرط ہے کہ حس ظاہری آفات سے صحیح سالم اور محفوظ ہو اور جس طرح ان آفات کے پائے جانے کی وجہ سے ان کا ادراک نہ کر سکتا محسوسات کے بد یہی ہونے کے منافی نہیں ہوتا بالکل اسی طرح عقلی معاملات کے ادراک میں قوت مدرکہ کا آفات معنویہ اور امراض خفیہ پوشیدہ سے سلامت اور محفوظ ہونا بھی شرط ہے اور بوجہ آفات کے ان کا ادراک نہ کر سکنا ان کے بدیہی ہونے کے منافی نہیں ہوگا، جو جماعت اس کے بدیہی ہونے پر یقین رکھتی ہے حق سبحانہ نے اس کے حال کی خبر دیتے ہوئے فرمایا قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ أَفِي ٱللَّهِ شَكّیعنی ان کے رسولوں نے کہا کہ کیا تمہیں خدا کے بارے میں شک ہے چونکہ یہ مضمون بعض کم فہم لوگوں کے لیے واضح نہیں تھا لہذا اس کے بعد ان الفاظ کے ساتھ تنبیہ فرمادی فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۖ کیا تمہیں اس خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔
معرفت : :نمبر 15
صفات کا وجود ذات پر زائد ہے
اہل حق صفات کے وجود کے قائل ہیں اور ان کے وجود کو ذات کے وجود پر زائد لکھتے ہیں، وہ حق تعالی سبحانہ کو علم کے ساتھ عالم اور قدرت کے ساتھ قادر جانتے ہیں وعلی ہذا القیاس اور معتزلہ وشیعہ اور حکما ءصفات کی نفی کے قائل ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جو چیز صفات پر مترتب ہوتی ہے وہ خود ذات پر ہی مترتب ہوتی ہے، مثلا مخلوقات میں (چیزوں کا) انکشاف کو ذات حق عز سلطانہ پر مترتب کہتے ہیں لہذا اس اعتبار سے ذات علم کی حقیقت ہے اور اس طرح قدر ت اور وحدت الوجود کے قائل بھی صفات کی نفی کے مسئلہ میں معتزلہ اور حکما ءکے ساتھ متفق ہیں۔
سوال اگر کوئی شخص یہ کہے کہ صوفیہ مذکورہ صفات کو مفہوم اور تعقل عقل اور سمجھےمیں آنے ) کے اعتبار سے غیر ذات کہتے ہیں اور تحقق یعنی وجود خارجی کے اعتبار سے عین ذات کہتے ہیں لہذا ان کا مذہب حکما اور متکلمین کے مذاہب کے درمیان ایک واسطہ ہوگا کیونکہ حکما صفات کو مطلقا عین کہتے ہیں اور متکلمین مطلقا غیر کہتے ہیں اور یہ لوگ خارج کے اعتبار سے عین کہتے ہیں اور مفہوم کے اعتبار سے غیر کہتے ہیں ۔
جواب:تو میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ حکما ء(خارج کی طرح ) تعقل اور مفہوم کے اعتبار سے بھی (صفات کو) عین ذات کہتے ہیں، بلکہ سارا جھگڑا وجود خارجی ہی میں ہے ، وجود ذہنی میں نہیں ہے، صاحب مواقف نے اس کی وضاحت فرمائی ہے، متکلمین صفات کو ذات پر ایک زائد وجود کے ساتھ خارج میں اور حکما اور معتزلہ خارج میں (صفات کو)عین سمجھتے ہیں، مذکورہ صوفیہ بھی ۔ اس مسئلہ میں حکما اور معتزلہ کے ساتھ قطعا متفق ہیں لیکن یہ حضرات اس مسئلہ کے مذکورہ فرق سے اپنے آپ کو حکما اور معتزلہ سے الگ کر لیتے ہیں اور صفات کی نفی سے انکار کر دیتے ہیں لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس فرق سے انہیں کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔
ان کے شیخ اور رئیس نے کہا ہے کہ کچھ لوگ صفات کی نفی کی طرف گئے ہیں لیکن انبیا اور اولیا کا ذوق اس کے خلاف شہادت دیتا ہے اور کچھ لوگوں نے صفات کا اثبات کیا ہے اور انہوں نے صفات کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ذات سے پوری طرح بالکل غیر ہوتی ہیں لیکن یہ کفر محض ہے اور خالص شرک ہے۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جو شخص ذات کے اثبات کا قائل ہو اور صفات کا اثبات نہ کرتا ہو وہ جاہل اور بدعتی ہے اور جو شخص ایسی صفات کے اثبات کا قائل ہو جو ذات سے بالکلیہ( پوری طرح ) مغائر ہوں تو ایسا شخص ثنوی ہے( یعنی دو خداؤں کو مانے والا) کافر ہے اور اپنے کفر کے ساتھ ساتھ جاہل بھی ہے۔
یہ گفتگو مطلق نفی اور مطلق اثبات کے درمیان واسطہ کو ثابت کرتی ہے، مطلقا نفی کرنے والوں سے مراد حکما کو لیا ہے اور مطلقاً اثبات کرنے والوں سے مراد متکلمین کو لیا ہے، حالانکہ آپ معلوم کر چکے ہیں کہ یہ مذ ہب ( ان دونوں مذ ہبوں کےدرمیان )واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ بھی نفی کرنے والوں میں داخل ہیں۔
صوفیوں کے قول کی تردید :
ان لوگوں کی جسارتوں( دلیریوں) پر تعجب ہوتا ہے کہ محض اپنے کشف پر اعتماد کرتے ہوئے ایک ایسے اعتقاد کو جس پر اہل سنت و جماعت کا اجماع ہو غلط قرار دیتے ہیں اور اس اعتقاد کے رکھنے والوں کو کافر اور ثنوی (دو خداؤں کا قائل ) کہہ دیتے ہیں ، اگر چہ انہوں نے کفر اور ثنویت (کے الفاظ ) سے حقیقی کفر اور حقیقی معنویت مراد نہ بھی لی ہو لیکن ایک درست اعتقاد کے بارے میں ایسا لفظ زبان سے نکال دینا بہت ہی ناپسندیدہ اور بڑی ہی خراب بات ہے، کشف میں یہ لوگ کتنی غلطیاں کرتے ہیں لیکن اتنا نہیں سمجھتے کہ شاید کشف بھی اس قسم کا ہو اور دو اعتقاد صحیح کے ساتھ ٹکرانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔
جدا گانہ مقالہ:
اس فقیر کا اس مسئلہ پر جدا گانہ قول ہے اور وہ یہ ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہی ان تمام امور میں جو صفات پر مترتب ہوتے ہیں کافی ہے اس معنی میں نہیں جو علما معقول نے کہا ہے کہ (چیزوں کا) انکشاف مثلا (مخلوقات میں ) صفت علم پر مترتب ہوتا ہے اور وہ ( واجب تعالی میں ) ذات ہی پر مترتب ہوتا ہے ، بلکہ اس معنی میں کہ ذات حق عز سلطانہ اس انداز پر مکمل اور مستقل ہے کہ وہی سب کا کام کر لیتی ہے، یعنی جو کام علم و دانش سے کرنا چاہیے ذات حق عز سلطانہ بغیر صفت علم ہی کے وہ کام کر لیتی ہے، ایسے ہی جو چیز صفت قدرت کی اثر اندازی سے ظہور پذیر ہوتی ہے، ذات حق تعالی اس چیز کے ظہور پذیر ہونے میں بغیر اس صفت کےبھی کافی ہے۔
ایک مثال: میں ایک مثال بیان کرتا ہوں جو جلدی سمجھ میں آنے والی ہے کہ جو پتھر خوداپنے طبیعی تقاضے سے اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اس کی ذات ہی علم ، قدرت اور ارادہ کا کام کر لیتی ہے بغیر اس کے کہ اس میں علم ، قدرت اور ارادہ کی صفتیں پائی جائیں ، یعنی علم کا تقاضا یہ ہے کہ پھر ثقل( بھاری) ہونے کی وجہ سے نیچے کی طرف متوجہ ہو اور اوپر کی طرف متوجہ نہ ہو، ارادہ علم کے تابع ہے، ارادے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نیچے کی جانب کو ترجیح دے اور حرکت مقتضائے قدرت ہے ، پس پتھر کی اپنی طبیعت خودان تینوں صفتوں کا کام بغیر ان صفات کا لحاظ کیے ہوئے کر لیتی ہے۔
لہذ او ا جب تعالی میں وَلِلَّهِ ٱلۡمَثَلُ ٱلۡأَعۡلَىٰۚ “ اور اللہ تعالی کے لیے تو بلندترین مثال ہونا ثابت ہے
اس کی ذات بھی اسی طرح تمام صفات کا کام کر لیتی ہے اور ان امور کے مترتب ہونے میں اسے صفات کی کوئی احتیاج لاحق نہیں ہوتی لیکن انکشاف، تاثیر اور تخصیص مثلا علم ، قدرت اور ارادہ کی صفت پر مترتب ہوتے ہیں، وہ دانا ہے علم کے ساتھ نہ کہ ذات کے ساتھ ، وہ موثر ہے قدرت کے ساتھ، مخصص ہے، ارادہ کے ساتھ ، اگر چہ یہ بات ہے کہ جو کچھ ان صفات کے ساتھ کیا جانا چاہیے ذات حق تعالیٰ ہی اس میں کافی ہے لیکن یہ معانی صفات پر ہی مترتب ہیں ، ذات کو بغیر معانی کے پائے جانے کے عالم قادر اور صاحب ارادہ نہیں کہہ سکتے ، مثال کے طور پر اس پتھر میں اگر علم ، قدرت اور ارادہ کی صفت کو وجود بخش دیں تو پتھر کو صاحب علم اور صاحب قدرت اور صاحب ارادہ کہہ سکتے ہیں لیکن ان زائد معانی کے وجود کے بغیر وہ ان صفات کے ساتھ متصف نہیں ہوتا اگر چہ وہ خود ہی ان صفات کا کام کر لیتا ہے اور اس میں شبہ بھی نہیں کہ اس میں ان معانی کا وجود اس کے کمال کا باعث ہے، لہذ اوا جب تعالی میں بھی اگر چہ ذات عز سلطانہ ہی ان تمام اشیا میں جو صفات پر مترتب ہوتی ہیں کافی ہے لیکن خود ان معانی کاملہ کے ثبوت میں صفات درکار ہیں اور ذات حق عز سلطانہ ان معانی کے پائے جانے سے صفات کمال کے ساتھ متصف ہو جاتی ہے۔
اعتراض:یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ اس تقدیر پر تو ان صفات کے ساتھ جو ذات کی مغائر ہیں حق کی تعمیل پذیری لازم آتی ہے اور اس بات سے ذات میں نقص ہونا اور غیر ذات کے ساتھ مل کر اس کا تکمیل پذیر ہونا لازم آتا ہے اور یہ بات نا ممکن ہے۔
جواب :میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ حق تعالیٰ کے لیے اپنے غیر سے صفت کمال کا استفادہ کرنا محال ہے اس کا بذات خود صفت کمال کے ساتھ متصف ہونا محال نہیں ہے ، اگر چہ وہ صفت (ذات کا ) غیر ہو اور متکلمین کے مذہب سے دوسری شق لازم آتی ہے پہلی شق لازم نہیں آتی ، جیسا کہ سید السند رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مواقف میں تحقیق کے ساتھ بیان فرمادیا ہے۔
معرفت : :نمبر 16
ذات وصفات کا بے چون ہونا
حق تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بالکل یگانہ ہے ،اس کی ذات اورصفات مخلوقات کی ذات اور صفات سے قطعاً مختلف ہیں اور کسی طرح بھی ان سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی ہیں، لہذ ا حق سبحانہ مثل سے یعنی مماثل موافق سے بھی منزہ و پاک ہے اور ند یعنی مماثل مخالف سے بھی حق تعالی شانہ کے معبود ہونے ، صانع ہونے اور واجب ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ بعض صوفیا جو وحدت الوجود کے قائل ہیں ، تو وہ موجود ہونے میں بھی شریک کی نفی کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کے سوا کسی چیز کو موجود نہیں مانتے ، جس چیز سے وہ اس سلسلہ میں استشہاد (دلیل ) کرتے ہیں، وہ کشف ہے اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اس قول سے بہت سے اصول دین کا انہدام لازم آتا ہےاور بعض اصول دین کو ا(س قول )سے تطبیق دینے میں انہوں نے تکلفات سے کام لیا ہے لیکن اس کی پوری پوری مطابقت میں کلام ہے، بعض دوسرے اصول ایسے بھی ہیں جو بالکل ہی تطبیق کے قابل ہی نہیں ہیں، مثلاً واجب تعالی جل و علا کی صفات کی نفی کا مبحث۔
معرفت : :نمبر 17
مکان و زمان اور ان کے لوازم سے تنزیہ
حق تعالی سبحانہ کسی جہت میں نہیں ہے، وہ مکانی اور زمانی نہیں ہے، حق تعالی کا یہ ارشاد ٱلرَّحۡمَٰنُ عَلَى ٱلۡعَرۡشِ ٱسۡتَوَىٰ ” خدائے مہربان عرش پر ممکن ہو گیا ہے اگر چہ بظاہر ثبوت جہت اور ثبوت مکان کا وہم پیدا کرنے والا ہے، لیکن در حقیقت اس سے جہت اور مکان کی نفی ہو جاتی ہے، کیونکہ آیہ کریمہ سے جہت و مکان کا اثبات ایسے مقام( عرش ) کے لیے کیا ہے جہاں نہ کوئی جہت ہے ، نہ کوئی مکان ، یہ تو خدا تعالی کی بے جہتی اور بے مکانی ہی سے کنایہ ہے اسے اچھی طرح سمجھ لیجئے اور وہ جسمانی بھی نہیں ہے ، جو ہر اور عرض بھی نہیں ہے ، وہ کسی قسم کے اشارہ کے قابل بھی نہیں (یعنی اس کی طرف بھی اشارہ نہیں کیا جا سکتا ) حرکت اور تبدیلی کے تصورات بھی اس پر درست نہیں بیٹھتے ، اس کی ذات قدیم کے ساتھ حوادث کا قیام بھی جائز نہیں ہے ، اعراض محسوسہ اور اعراض معقولہ میں سے وہ کسی عرض کے ساتھ متصف نہیں ہے ، نہ وہ عالم میں داخل ہے اور نہ ہی عالم سے خارج ہے ، نہ وہ عالم( کائنات ) کے ساتھ متصل ہے اور نہ عالم سے متصل (جدا) ہے ، عالم کے ساتھ اس کی معیت علمی ہے ، ذاتی نہیں ہے، اس کا عالم کو محیط ہو نا علم ہی کے ساتھ ہے ، ذات کے ساتھ نہیں ہے ، وہ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا ، وہ کسی چیز کے ساتھ مل کر کے متحد( یک جان ) نہیں ہوتا۔
سوال: اگر کوئی شخص دریافت کرے کہ بعض صوفیہ جو ذاتی معیت اور احاطہ کے قائل ہیں اس سے ان کی مراد کیا ہے؟
جواب:میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ان حضرات نے ذات سے مراد اس کا تعین لیا ہے جس کو وحدت کہتے ہیں کیونکہ وہ حضرات اس مرتبہ میں تعین کو حق عزسلطانہ پر زائد ہونے کا اعتبار نہیں کرتے لہذا اس مرتبہ کے ظہور کو تجلی ذاتی کہتے میں اور اس کی اسی سرایت کو وہ ذاتی معیت اور احاطہ کہہ دیتے ہیں اور حضرات متکلمین ، خدا تعالی ان کی کوششوں کو مشکور فرمائے ، ذات سے ذات محض مراد لیتے ہیں جو کہ تمام تعینات سے بالا تر ہے اور خواہ کوئی تعین بھی ہوا سے وہ ذات حق عز شانہ پر زائد لکھتے ہیں اور اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اس ذات کو عالم کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہے، کیا احاطہ کیا معیت ، کیا اتصال اور کیا انفصال (یعنی نہ نسبت احاطہ ہے۔ نہ نسبت معیت ہے۔ یہ نسبت اتصال ہے اور نہ نسبت انفصال ) حق تعالی شانہ کی ذات کسی طور پر بھی علم میں نہیں آسکتی وہ مطلق ہر لحاظ سے نا معلوم الکیفیت ہے، اسی طرح عالم کے ساتھ اس کی نسبت بھی ہر لحاظ سے نا معلوم الکیفیت ہےاسے متصل منفصل محیط اور ساری (سرایت کرنے والا ) کہنا محض جہالت کی وجہ سے ہے متکلمین اور دوسرے بزرگ اس فیصلہ سے متفق ہیں لیکن متکلمین کی نظر جو حضرت محمد مصطفی سﷺ کی پیروی کے نور کا سرمہ لگائے ہوئے ہے صوفیہ کرام کی نظر کے مقابلے میں جو کہ احاطہ ذاتی کے قائل ہیں بہت ہی باریک بین واقع ہوئی ہے اور ان لوگوں کے ادراک کا سر چشمہ کشف ہے ہر شخص نے اپنے اپنے ادراک کے انداز کے مطابق ہی فیصلہ دیا ہے، وہ تمام اختلافات جو متکلمین اور بعض متاخرین صوفیہ کے درمیان واقع ہوئے ہیں اسی طرح کے ہیں ، ان میں حق متکلمین کے ساتھ ہے اور صوفیہ کی نظر نے کوتاہی کی ہے اور متکلمین کی بات کی حقیقت کو یہ لوگ دریافت
ہی نہیں کر سکتے ۔
معرفت : :نمبر 18
معلوم کے ساتھ علم حق کا یقین
حق سبحانہ وتعالی ایک ایسے علم کے ساتھ جو اس کی ذات پر زائد ہے تمام معلومات کا عالم ہے خواہ وہ معلوم واجب ہو یا ممکن اور علم ایک حقیقی صفت ہے جو کہ ذات پر زائد ہے اور اس کا تعلق معلوم کے ساتھ ہوتا ہے، جس طرح یہ بات معلوم نہیں کہ واجب تعالیٰ میں اس کی صفت کی کیا کیفیت ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، اسی طرح یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ معلومات کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے، صرف اتنا ہی ادر اک میں آتا ہے کہ یہ تعلق معلوم کے انکشاف کا سبب ہوا ہے، بہت سے لوگ چونکہ اس حقیقت پر مطلع نہیں ہو سکے اور انہوں نے غائب کو حاضر پر قیاس کر لیا ہے اس لیے وہ اضطراب اور حیرت میں گرفتار ہو گئے ہیں
معرفت: :نمبر 18
قدرت اور ارادہ
قدرت اور ارادہ حق تعالی شانہ کی ذات پر زائد صفات ہیں، قدرت سے مراد یہ ہے کہ حق تعالی کے لیے عالم کی ایجاد(پیدا کرنا) بھی درست ہے اور اس ایجاد عالم (دنیا کے پیدا کرنے)کو چھوڑ دینا ( پیدا نہ کرنا )بھی درست ہے، اس ایجاد اور ترک ایجاد میں سے کوئی چیز بھی حق تعالیٰ کی ذات پر لازم نہیں ہے، تمام اہل مذاہب اس بات پر متفق ہیں۔ لیکن فلاسفہ کہتے ہیں کہ عالم ( کائنات ) کی اس موجودہ نظام پر ایجادجس پر اب وہ واقع ہے حق تعالٰی وسبحانہ کی ذات کے لوازم میں سے ہے، اس طرح انہوں نے قدرت کے اس معنی کا جو اوپر بیان ہو چکا ہے انکار کیا ہے، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ مذکورہ معنی کے لحاظ سے قدرت ایک شخص ہے اور انہوں نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ایجاب (یعنی خدا کے لیے عالم کی ایجاد واجب اور ضروری ہونا) ہی کمال ہے، ایجاب کو ثابت کر دیا ہے ، قدرت کے اس معنی میں قائل ہیں کہ اگر وہ چاہے تو کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے اور اس مضمون میں وہ اہل اسلام کے ساتھ متفق ہیں لیکن پہلے جملہ شرطیہ (اگر چاہے )تو نہ کرے ہے کے مقدم یعنی شرط (اگر چاہے) کو تو واجب الصدق سمجھتے ہیں (یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا صادق آنا ضروری ہے )اور دوسرے جملہ شرطیہ اگر نہ چاہے تو نہ کرے ہے کے مقدم یعنی شرط ( اگر نہ چاہے ) کو ممتنع الصدق جانتے ہیں (یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا صادق آنا محال ہے ) اور دونوں شرطیہ جملوں کو وہ واجب تعالی کے حق میں صادق کہتے ہیں، نیز یہ فلاسفہ ارادہ کو بھی علم پر زائد نہیں سمجھے وہ کہتے ہیں کہ ارادہ کامل ترین نظام کے طریق پر خود علم ہی کا نام ہے، اسے وہ( اپنی اصطلاح میں ) عنایت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
بعض متاخرین صوفیہ بھی قدرت کے اس معنی میں فلاسفہ کے ساتھ متفق ہیں اور وہ بھی دوسرے جملہ شرطیہ( اگر نہ چاہے تونہ کرے) کے مقدم( اگر نہ چاہے )ممتنع الصدق کہتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ اس کا صادق آنا محال ہے ہے اور اپنے مذہب کو فلاسفہ کے مذہب کی طرح الگ کرتے ہیں کہ فلاسفہ ارادہ کے قائل نہیں ہیں، وہ اسے نفس علم ہی سمجھتے ہیں اور یہ لوگ صوفیہ کے باوجود یکہ قدرت کو مذکورہ معنی میں لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ارادہ کا علم پر زائد ہونا بھی ثابت کرتے ہیں اور اس طرح یہ حق سبحانہ وتعالیٰ کو صاحب ارادہ تسلیم کرتے ہیں اور اسے موجب نہیں کہتے( جس پر عالم کی ایجاد واجب ہو ) برخلاف حکما کے کہ وہ ایجاب کے قائل ہیں اور ارادہ کی نفی کرتے ہیں ۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
اس فقیر کو اس مقام پر ایک شبہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دو ایسی چیزوں میں جن پر قدرت حاصل ہو کسی ایک کو وجود یا عدم کے ساتھ خاص کر لینے کا نام ارادہ ہے اور جب جز و ثانی ممتنع الصدق ہے اور جز واول واجب الصدق تو پھر ارادہ کا اثبات کس مقصد کے لیے ہوگا ، کیونکہ تخصیص اور ترجیح جو کہ ارادہ کا ماحصل ہے ،وہ برابر کی چیزوں ہی میں ہو سکتی ہے، اس لیے جب حکمانے طرفین کی برابری سے ہی انکار کر دیا تو انہوں نے ارادہ کو بھی ثابت نہیں کیا اور انہوں نے ارادہ کو لاحصل اور بے فائدہ سمجھا ہے ، اس مسئلے میں حکما حق پر ہیں، لہذا مذکورہ صوفیائے کرام جو عالم کے وجود اور عدم (دونوں پہلوؤں ) کے برابر نہ ہونے کے باوجو دارادہ کا اثبات کرتے ہیں اور اس اثبات کے ذریعے حکما سے الگ ہو جاتے ہیں اور اتنی سی بات کی وجہ سے وہ حق سبحانہ کو صاحب ارادہ اور مختار کہتے ہیں تو اس فرق کے سلسلہ میں ان کی گفتگو کا حاصل و نتیجہ کا ظاہر نہیں ہے، ان کا مذہب واجب تعالی کے اختیار کی نفی کے بارے میں بعینہ وہی ہے ، جو حکما کا مذہب ہے اور اس کے ارادہ کو ثابت کرنا محض زبردستی کی بات اور صرف منہ زوری ہی ہے اور اللہ تعالیٰ حق بات ثابت کرتا اور وہی صحیح راہ کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔
سوال: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مذکورہ صوفیا کرام عالم کے وجود کوحق سبحانہ کی ذات پر لازم نہیں سمجھتے بلکہ وہ تو عالم کا صدور ظہور کے واجب تعالی سے ارادہ ہی کے ساتھ کہتے ہیں۔
جواب: اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ جب دوسر سے جملہ شرطیہ کا مقدم یعنی وجود عالم کا ارادہ نہ کرنا ممتنع ( محال ) ہوتا ہے اور وجود عالم کا ارادہ کرنا واجب قرار پا گیا ہے تو ارادہ کے لیے جو کہ دو برابر کی جہتوں میں سے ایک جہت کو تر جیح دینے کا نام ہے ، وجود عالم میں کوئی دخل ہی باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ اس پر خواہ مخواہ کے ارادہ کے لفظ کا اطلاق کر دیا گیا ہے اور اتنے ارادہ کے تو حکما بھی قائل ہیں لہذا اس قسم کے ارادہ کا اثبات ایجاب کے دفع کرنے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا اور وجود و عدم کی دونوں جہتوں کے برابر نہ ہونے کی وجہ سے حق سبحانہ وتعالیٰ پر ایجاب لازم آتا ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
معرفت : :نمبر 20
شیون وصفات میں فرق
شیونات الہی حق سبحانہ کی ذات فرع میں اور حق سبحانہ وتعالیٰ کی صفات شیونات پر متفرع ہیں اور اسماء( الہی ) جیسے خالق اور رازق(وغیرہ ) وہ صفات پر متفرع ہیں اور افعال ان اسما پر متفرع ہیں اور تمام موجودات افعال کے نتائج ہیں اور افعال پر متفرع ہیں والله سبحانه و تعالیٰ اعلم اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے )
لہذا معلوم ہو گیا کہ شیون اور چیز ہے اور صفات اور چیز اور شیون خارج میں عین ذات ہیں اور صفات خارج میں ذات پر زائدہ ہیں۔
جو لوگ اس فرق پر مطلع نہیں ہو سکے وہ یہ خیال کر بیٹھے کہ شیون ہی صفات ہوتی ہیں ، چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کر دیا کہ جس طرح شیون خارج میں عین ذات ہوتی ہیں اسی طرح صفات بھی ذات کے ساتھ اس کا عین ہوتی ہیں، چنانچہ ان پر صفات کا انکار لازم آگیا اور جس مسئلہ پر اہل حق کا اجتماع تھا کہ صفات کا وجود خارج میں ذات پر زائد ہوتا ہے اس کا انکار بھی لازم آ گیا اور اللہ تعالی ہی حق کو ثابت کرتا ہے اور وہی صحیح راستہ کی رہنمائی فرماتا ہے۔
معرفت : :نمبر 21
ذات وصفات حق میں مماثلت کی نفی
لَيۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَيۡء وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ اس کی طرح کی سی کوئی چیز بھی نہیں ہے اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے )حق سبحانہ و تعالی نے بلیغ ترین انداز پر اپنی ذات سے مماثلت کی نفی فرمادی ہے کیونکہ اس آیت میں اپنی مشل مثل( یعنی مثل جیسی چیز ) کی نفی فرمائی گئی ہے حالانکہ مقصودا اپنے مثل کی نفی کرنا تھا، مطلب یہ ہے کہ جب اس کے مثل کا بھی مثل نہیں ہو سکتا تو اس کا مثل تو بطریق اولی نہیں ہوگا ، لہذا کنایہ کے طور اصل مثل کی نفی ہو گئی، کیونکہ یہ ( کنایہ ) صریح کے مقابلے میں بلیغ ترین ہے، جیسا کہ علمائے بیان نے اس کو ثابت کیا ہے اور اس کے متصل ہی وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ فرمایا ہے جس سے مقصود صفاتی مماثلت کی بھی نفی کر دیتا ہے جیسا کہ پہلے حصے لَيۡسَ كَمِثۡلِه شَيۡۖ سے ذاتی مماشات کی نفی کی گئی ہے۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ حق تعالی و سبحانہ ہی سمیع اور بصیر ہے، کسی دوسرے کو سمع اور بصر حاصل نہیں ہے، یہی حال باقی صفات یعنی حیات علم ، قدرت ، ارادہ اور کلام وغیرہ کا ہے، پس مخلوقات میں صفات کی صورت پائی جاتی ہے ، ان کی حقیقت نہیں پائی جاتی کیونکہ مثال کے طور پر علم ایک صفت ہے جس کی وجہ سے ( اشیا کا ) انکشاف حاصل ہو جاتا ہے اور قدرت بھی ایک صفت ہے کہ اس صفت کی وجہ سے افعال اور آثار صادر ہوتے ہیں اور مخلوقات میں یہ صفت نہیں پائی جاتی بلکہ حق سبحانہ و تعالی اپنے کمال قدرت سے ان مخلوقات میں انکشاف کو پیدا کر دیتا ہے بغیر اس کے کہ انکشاف کا اصل سرچشمہ جو صفت علم ہے خود ان کے اندر موجود ہو اور اسی طرح وہی افعال کو بھی ان کے اندر پیدا کر دیتا ہے بغیر اس کے کہ قدرت خود ان کے اندر ثابت ہو، سنے اور دیکھنے کو بھی اس پر قیاس کر لیجئے یعنی خدا ہی مخلوق کے اندر سننے اور دیکھنے کو پیدا کرتا ہے بغیر اس کے کہ خود ان کے اندر سننے اور دیکھنے کی قوتیں موجود ہوں اور اسی طرح حس و حرکت ارادی وغیرہ کی قسم کے آثار حیات بھی ان میں ظاہر ہو جاتے ہیں بغیر اس کے کہ وہ خود حیات رکھتے ہوں ، وہ مخلوقات میں کلام پیدا کرتا ہے بغیر اس کے کہ خود قوت تکلم پیدا کریں، مختصر یہ ہے کہ صفات کے آثار جو حق سبحانہ و تعالی کے پیدا کرنے کی وجہ سے ان میں ظاہر ہو گئے ہیں محض ان آثار کے پائے جانے کی وجہ سے ان پر صفات کا اطلاق کر دیا جاتا ہے، بغیر اس کے کہ ان صفات کی حقیقت ان کے اندر تحقق ہو ورنہ وہ تو چند بے حس وحرکت جمادات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہیں، آیت مبارکہ إِنَّكَ مَيِّت وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ” بے شک آپ کو مرنا ہے اور وہ بھی مرجائیں گے ، اس بات کی تصدیق کرتی ہے( گو یا مخلوق کے جملہ کمالات حق تعالی کی عطا سے ہیں، ذاتی کمالات کا مالک فقط حق تعالی ہے)
ایک مثال:یہ مبحث ایک مثال سے بالکل واضح ہو جاتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ کوئی شعبدہ باز لکڑی یا کاغذ کی کوئی تصویر (مورتی )بناتا ہے خود پس پردہ بیٹھ کر اس کی تصویر کو حرکت دیتا ہے اور عجیب و غریب حرکات اس سے ظاہر کرتا ہے، سادہ لوح لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ تصویر اپنی قدرت اور اختیار سے حرکت کر رہی ہے ، چنانچہ بظاہر حرکات اس سے صادر ہونا اس بات کا وہم پیدا کر دیتا ہے کہ خود اس میں قدرت بھی موجود ہے اور ارادہ بھی ، حالانکہ در حقیقت وہاں نہ قدرت ہوتی ہے اور نہ ارادہ ہوتا ہے، اسی طرح یہ بھی وہم ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی بھی رکھتی ہے کیونکہ اس میں زندگی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں نیز یہ و ہم بھی ہو جاتا ہے کہ وہ علم بھی رکھتی ہے کیونکہ ارادہ تو علم ہی کے تابع ہے اور اگر بالفرض وہ شعبدہ باز اس میں بولنے اور بات کرنے کو بھی ایجاد کر دے تو لوگ کہنے لگیں کہ وہ باتیں بھی کرتی ہے اور اس کا وہی حال ہو گا جو سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کا تھا جو بغیر اس کے کہ کلام کرنے کی صفت اپنے اندر رکھتا ہو، اس نے آواز نکالی تھی لیکن ایسے لوگ جن کی چشم بصیرت دو بینی ( ایک کو دو یکھنے ) کے پردہ سے چاک ہو چکی ہے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ تصویر محض ایک بے جان چیز (جماد) ہے ، ان میں سے کوئی صفت بھی اس میں موجود نہیں ہے اور اس کا ایک بنانے والا ہے، جو ان تمام حرکات و آثار کو اس میں ایجاد کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان افعال و حرکات کو اسی تصویر کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کے بنانے والے کی طرف منسوب نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ تصویر حرکت کر رہی ہے، یوں نہیں کہتے کہ بنانے والا حرکت پیدا کر رہا ہے (مگر حرکت تصویر ہی کر رہی ہے )
اس کے بعد کہنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ (خدا تعالی ہی )لذت حاصل کرتا ہے اور خدا تعالی ہی الم محسوس کرتا ہے (العیاذ باللہ ) جیسا کہ بعض صوفیہ نے کہہ دیا ہے اور انہوں نے لذت اور الم کو بھی حق سبحانہ کی طرف ہی منسوب کر دیا ہے، حاشا و کلا ( یعنی ایسا ہر گز بھی نہیں ہے )حق تعالی تو لذت والم کو پیدا کرنے والا ہے، وہ خود لذت حاصل کرنے والا اور الم محسوس کرنے والا نہیں ہے، لہذا (ظاہر ہے کہ) جب صفات کی حقیقت مخلوقات سے منتفی ہوگئی تو ذات کی حقیقت بھی ان سے منتفی ہو گئی ، کیونکہ ذات تو اس کو کہتے ہیں جو خود اپنے نفس کے ساتھ قائم ہو اور صفات اس کو کہتے ہیں جو ذات کے ساتھ قائم ہوں، ذات ہی ان صفات کے آثار کا سر چشمہ ہوا کرتی ہے اور مذکورہ بالا تحقیق سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ صفات کے واسطہ کے بغیر ان صفات کے آثار کا خالق حق تعالی شانہ ہی ہے لہذا ذات کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ان آثار کی ایجاد اور تخلیق کا مل ہوتی ہے اور بس اس بنا پر ذات کی حقیقت بھی ان سے منتفی ہوگئی أَنَّ اللَّهَ، خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ(الحدیث) یقینا خدا تعالی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے ) سے اس مضمون کی طرف اشارہ ہے یعنی خدا تعالی نے آدم کو اپنی ذات وصفات کی صورت پر پیدا فرمایا لہذا ثابت ہو گیا ہے کہ نہ خدا تعالی کی ذات کا کوئی مثل ہے اور نہ ہی اس کی صفات کا، اس لیے حق تعالی کا ارشاد ہے و هو السميع البصير تنزیہ کا پورا کرنے والا اور نفی مماثلت کی تکمیل کرنے والا ہے، یہ بات نہیں ہے کہ تنزیہ کے منافی اور تشبیہ کو ثابت کرنے والا ہو، یعنی آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو سمع و بصر (سننے اور دیکھنے کی قوتیں )مخلوقات کے لیے ثابت ہیں اسی طرح خدا تعالی کی سمع اور بصر ہوں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ مخلوقات کو نہ سمع کی قوت حاصل ہے، نہ بصر کی، بلکہ ان کا سننا اور دیکھنا محض اس وجہ سے ہے کہ حق تعالی سبحانہ ان کو مخلوقات کی صفت سمع اور بصر کے کسی واسطہ کے بغیر مخلوقات میں خودہی پیدا کرتا ہے اللہ تعالی نے صرف سمع اور بصر ہی کا ذکر فرمایا ہے، حالانکہ تمام صفات کی صورت یہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کی نفی کر دینے سے جب کہ یہ دونوں صفتیں بہت ہی ظاہر ہیں اور مخلوقات میں ان کا ثبوت واضح طور پر نظر آتا ہے، باقی صفات کی خود، خودنفی ہو جاتی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، اس سے ثابت ہو گیا کہ نہ خدا کی ذات کو پہچانا جا سکتا ہے۔ اس کی صفات کو آدمی جس طرح حق تعالی کی ذات کی معرفت میں عاجز ہے اسی طرح اس کی صفات کی معرفت میں عاجز ہے، (خاک کو رب الارباب سے کیا نسبت)چه نسبت خاک را با عالم پاک
معرفت : :نمبر 22
ولایت خاصه محمدیہ
جاننا چاہیے کہ خاص ولایت محمدیہ ( آپ ﷺ پر درود و سلام ہوں ) مجذوبوں ، سالکوں کے ساتھ مخصوص ہے جن کو “مرا دین ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مریدین کو ان کی ذاتی استعدادوں کے مطابق ولایت میں کوئی حصہ نہیں ملتا مریدین سے ہماری مراد وہ حضرات ہیں جن کا سلوک ان کے جذب پر مقدم ہو بجز اس کے کہ مراد محبوب کسی مرید محبت کی خصوصی تربیت فرمائے اور اس میں تعریف سے کام لے اور اسے اپنے کمال تصرف سے ایسا جذب عطا کر دے جو خود اس مراد کے جذب کے مثل ہو جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کا معاملہ تھا، کیونکہ بے شک وہ بھی سالک مجذوب تھے لیکن وہ آنحضرت سرکار کی تربیت اور ان میں آپ ﷺ کے کمال تصرف کی وجہ سے نیز اس وجہ سے کہ آپ ﷺ نے ان کو جذب فرمالیا تھا ، ولایت خاصہ کے درجہ تک پہنچ گئے تھے، بر خلاف خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم کے جو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے پہلے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا جذب ان کے سلوک پر مقدم ہے ، بعینہ اس طرح جیسا کہ حضرت رسالت مآب ﷺ کا حال ہے کیونکہ آپ کا جذب بھی سلوک سے مقدم ہے اور اس سے یہ و ہم نہ کیا جائے کہ ہر مجذوب سالک اس ولایت خاصہ تک پہنچ سکتا ہے ، ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ اگر ان ہزار ہا مجذوب سائلین میں سے ایک آدمی بھی کئی صدیوں کے بعد ایسا ہو جائے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے، یہ تو اللہ تعالی ہی کا فضل و انعام ہے ، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے ہی فضل والا ہے اور حق تعالیٰ ہمارے سردار حضرت محمد مصطفے ﷺ اور آپ کی آل پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرمائے۔
معرفت : :نمبر 23
سالک مجذوب اور مجذوب سالک کے مراتب میں فرق
سالک مجذوب کو معرفت میں مجذوب سالک پر فضیلت ( پیش تری)حاصل ہوتی ہے اور محبت کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ حق تعالی و سبحانہ مجذوب سالک کی تربیت اس کی ابتدائی حالت سے آخر تک اپنی خصوصی محبت سے فرماتا ہے اور اس کو اپنی عنایت کا ملہ سے اپنی بارگاہ کی طرف جذب فرمالیتا ہے۔ یہاں معرفت سے ہماری مراد وہ معرفت ہے جس کا تعلق تجلیات افعالیہ یعنی اشیا کونیہ کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی صفات اضافیہ سے ہے لیکن وہ معرفت جس کا تعلق حق سبحانہ و تعالی کی ذات سے ہے، جس کو جہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس طرح وہ معرفت جس کا تعلق صفات سلبیہ تنزیہ سے ہے جو کہ محض حیرت پر مشتمل ہوتی ہے اسی طرح وہ معرفت جس کا تعلق صفات ذاتیہ موجودہ سے ہے اور وہ معرفت جس کا تعلق شیون ذاتیہ اعتبار یہ سے ہے تو مجذوب سالک ان چاروں معرفتوں کا زیادہ مستحق ہوتا ہے اور وہ ان کی تفصیلات کے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ رہ گئیں وہ معرفتیں جن کا تعلق مقامات عشرہ یعنی زہد، توکل، صبر ورضاد غیرہ سے ہوتا ہے تو سالک مجذوب ہی ان معرفتوں اور ان کی تفصیلات کے قابل ہوا کرتا ہے کیونکہ وہ تفصیل کے ساتھ ان مقامات کو طے کرتا ہے اور درجہ بدرجہ پر سے گزرتا ہے ، وہ ہر مقام کی باریکیوں کو تفصیلی طور پر پہچانتا ہے جنہیں مجذوب سالک نہیں پہچانتا، کیونکہ اس کے حق میں یہ تمام مقام سمیٹ دئے جاتے ہیں اور ہر مقام کا جو ہر اور خلاصہ اسے حاصل ہوتا ہے جو سالک مجذوب کو حاصل نہیں ہوتا ، لہذا سالک مجذوب ان مقامات میں ظاہر اور صورت کے اعتبار سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور مجذوب سالک ان مقامات میں جواہر اور خلاصہ کے اعتبار سے زیادہ کامل ہوتا ہے۔ اس لیے عوام نے جو صورتوں کی طرف دیکھتے ہیں یہ سمجھ لیا ہے کہ مقام زہد، توکل، صبر و رضا وغیرہ میں اول یعنی سالک مجذوب کے بہ نسبت دوسرے یعنی مجذوب سالک کے زیادہ کامل ہوتا ہے ، وہ یہ بات نہیں جانتے کہ دوسرے گروہ یعنی مجذوب سالک میں رغبت کا پایا جانا اس کے کمال زہد کے منافی نہیں ہوتا اور اسی طرح اسباب کے ساتھ تعلق کمال توکل کے منافی نہیں ہوتا اور اس میں نا پسندیدگی کا پایا جانا رضا کے منافی نہیں ہوتا کیونکہ اس کی یہ رغبت بھی اللہ تعالی کی وجہ سے ہوتی ہے ، اسکا اسباب کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہوا ہے اور اس میں ناپسندیدگی کا پایا جانا بھی اللہ عزوجل ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، باوجود یکہ اس میں یہ تمام اوصاف خالص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہی ہوتے ہیں ، وہ دنیا کی طرف رغبت کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی وجہ سے کرتا ہے، کسی غیر کی وجہ سے نہیں کرتا، اگر اس کی رغبت اپنے نفس کے لیے ہو تو چونکہ اس کا نفس بھی اس کے پروردگار کا فرمانبردار ہو چکا ہے، لہذا یہ رغبت بھی در حقیقت اپنے پروردگار عز و جل ہی کے لیے ہوگی ۔
معرفت : :نمبر 24
صورت ایمان اور حقیقت ایمان
لا الہ الا اللہ کے ذکر سے مقصود باطل معبودوں کی نفی کرنا ہے، خواہ وہ آفاقی ہوں اور خواہ انفسی ، آفاقی معبودوں سے مراد کافروں اور فاجروں کے باطل معبود ہیں مثلا، لات اور عزی اور معبودان انفسی سے مراد نفسانی خواہشات ہیں جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے أَفَرَءَيۡتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ تو کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنی خواہشات کو ہی اپنا خدا بنالیا ) ایمان یعنی تصدیق قلبی جس نے ہمیں ظاہر شریعت کا مکلف بنا دیا ہے، آفاقی معبودان باطل کی نفی کے لیے کافی ہے لیکن انفسی معبودان باطل کی نفی کے لیے نفس امارہ کا تزکیہ درکار ہے جو اہل اللہ کے راستے پر چلنے( سلوک ) کا حاصل ہے، ایمان حقیقی ان دونوں قسم کے معبودان باطل کی نفی سے وابستہ ہے لیکن ایمان کے متعلق شریعت کا حکم محض معبودان آفاقی کے ابطال و نفی سے بھی ثابت ہو جاتا ہے، یہ صورت ایمان کی قسم ہے مگر حقیقت ایمان انفسی معبودوں کے ابطال سے ہی میسر آتی ہم بھی تم کا ایمان ابطال پر ہی منحصر ہے، صورت ایمان کے تو زائل ہونے کا احتمال ہے لیکن حقیقت ایمان اس احتمال سے محفوظ ہے کیونکہ صورت ایمان میں اول تو نفس امارہ ہی اپنے انکار و کفر سے باز نہیں رہتا (صورت ایمان میں ) اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ نفس امارہ کی مخالفت کے باوجود قلب میں ایک گونہ تصدیق پیدا ہو جاتی ہے، لیکن ایمان حقیقی میں خود نفس امارہ جو اپنی ذات کے اعتبار سے سرکش ہے مطیع وفرمانبردار ہو کر سرکشی سے باز آجاتا ہے اور شرف ایمان سے مشرف ہو جاتا ہے ، ان تکلیفات شرعیہ سے مقصود بھی نفس کو عاجز کرنا اور خراب کرنا ہے کیونکہ قلب تو بذات خود احکام الہی کا مطیع وفرمانبردار ہی ہوتا ہے، اگر قلب میں کسی قسم کی خباثت پیدا ہوتی ہے تو وہ نفس کی ہمسائیگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے
تواضع زگردن فرازاں نکوست گدا گر تواضع کند خوئے ادست
بہت اچھی ہے عادت سر بلندی میں تواضع کی گدا مجبور ہے عادت سے گر اس نے تواضع کی
لہذا تزکیہ نفس ضروری ٹھہرایا تا کہ ایمان کی حقیقت حاصل ہو سکے اور وہ زوال سے محفوظ ہو جائے ، تزکیہ نفس کا تعلق درجہ ولایت سے ہوتا ہے جس سے مراد فتا اور بقا ہے، جب تک کوئی آدمی درجہ ولایت تک نہ پہنچ جائے اطمینان نفس ممکن نہیں ہے اور جب تک نفس اطمینان سے وابستہ نہ ہو جائے حقیقت ایمان کی بو بھی مشام جان تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ زوال کے اندیشہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ یا درکھو جولوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں
از پئے ایں عیش و عشرت ساختن صد ہزاراں جا بیاید یا ختن
اس جہاں کے عیش وعشرت کے لیے چاہئیں تحفے ہزاروں جان کے
معرفت : :نمبر 25
طریقت اور حقیقت سے شریعت کا تعلق
حقیقت سے مراد شریعت کی حقیقت ہے، یہ نہیں کہ حقیقت شریعت سے الگ کوئی چیز ہے، طریقت سے مراد حقیقت شریعت تک پہنچنے کا طریقہ ہے شریعت اور حقیقت کوئی الگ چیز نہیں ہے، شریعت کی حقیقت صحیح طور پر حاصل ہونے سے پہلے صرف شریعت کی صورت کا حصول ہوتا ہے اور شریعت کی حقیقت کا حصول اطمینان نفس کے مقام میں ہوتا ہے، جب آدمی کو درجہ ولایت تک رسائی ہوتی ہے، درجہ ولایت میں رسائی اور اطمینان نفس حاصل ہونے سے پہلے شریعت کی صورت ہوتی ہے جیسا کہ ایمان کے سلسلے میں بیان ہوا ہے کہ اطمینان نفس سے پہلے ایمان کی صورت حاصل ہوتی ہے اور اطمینان کے بعد ایمان کی حقیقت حاصل ہوتی ہے۔ معرفت : 26مراتب فنا:
فنا سے مراد حق تعالیٰ کی ہستی کے شہود کے غلبہ کی وجہ سے ماسوائے حق سبحانہ کو بھول جانا ، اس کی وضاحت یہ ہے کہ روح انسانی مع سر خفی اور اخفیٰ کےبدن کے ساتھ تعلق پیدا ہونے سے پہلے اپنے صانع حقیقی جل سلطانہ کا یک گونہ علم رکھتی ہے اور بارگاہ قدس کے ساتھ اسے ایک طرح کی توجہ حاصل ہوتی ہے اور چونکہ اس کی فطرت میں ترقیات کی استعداد رکھدی گئی ہے اور ان استعدادوں کا ظہور بدن عنصری کے ساتھ تعلق ہونے پر منحصر تھا اس لیے لامحالہ اولاً اسے تعشق فریفتگی ہے اور محبت کی صفت عطا فرمائی گئی ، پھر اس کے بعد کے درجہ میں اس کی توجہ کو اس مادی جسم کی طرف پھیر دیا گیا اور ان دونوں ( روح اور جسم ) میں محبت کا ارتباط اور تعلق بدرجہ کمال پیدا کر دیا گیا، چنانچہ روح نے اس تعلق کی بنا پر اپنے کمال لطافت کے باوجود اپنے آپ کو محبوب ظلمانی( جسم) میں گم کر دیا اور اپنے وجود کو مع اس کے توابع (سر خفی اور اخفیٰ ) کے اس ظلمانی محبوب یعنی جسم میں فنا کر دیا یہی وجہ ہے کہ بہت سے عقل مند لوگ اپنے آپ کو جسم کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے اور جسم کے علاوہ کسی اور بات کا اثبات نہیں کرتے ۔
فنائے جسمی: حضرت حق سبحانہ جو ارحم الراحمین( سب سے زیادہ رحمت کرنے والا )ہے نے اپنے کمال رحمت سے انبیا کرام علیہم السلام کی زبانی جو کہ تمام جہانوں کی رحمت میں صلوات اللہ علىھم و تسلیماتہ علی جميعهم عموماً وعلى افضلهم و خاتمهم خصوصاً (ان سب پر اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہوں اور خصوصیت کے ساتھ ان میں سے افضل ترین اور ان کے خاتم پر )لوگوں کو اپنی بارگاہ قدس کی طرف بلایا اور اس تعلق ظلمانی سے منع فرمایا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے قُلِ ٱللَّهُۖ ثُمَّ ذَرۡهُمۡ اے پیغمبر! کہ دیجئے کہ (موسی علیہ پر کتاب) اللہ ہی نے اتاری تھی ، پھر آپ ان کو چھوڑ دیجئے ، جس کسی کو سعادت از لی حاصل ہو گئی اس نے الٹے پیروں واپس ہو کر علم سفلی کی محبت کو الوداع کہا اور عالم بالا کی طرف متوجہ ہو گیا اور آہستہ آہستہ پرانی محبت نے غلبہ کیا اور نئی پیدا شدہ دوستی نے زوال کی راہ اختیار کی، یہاں تک کہ اس محبوب ظلمانی (یعنی جسد عنصری ) کے ساتھ عمل نسیان میسر آ گیا اور اس محبت کا کوئی اثر باقی نہ رہا، اس وقت فنائے جسدی حاصل ہوگئی اور دو قدم جس کا اس راہ طریقت میں اعتبار کیا گیا جیسا کہ کہا ہے خطوتان وقد وصلت ” دو قدم ہی تو ہیں اور بس تم پہنچ گئے کہ ان دو قدموں میں سے اس نے ایک قدم کو انجام تک پہنچا دیا۔
فنائے روحی : اس کے بعد اگر محض فضل خداوندی جل سلطانہ کی بنا پر اس مقام سے ترقی حاصل ہو جائے تو آدمی خود روح کے وجود اور اس روح کے کے توابع کو بھی بھولنا شروع کر دیتا ہے اور آنا فا نا یہ بھول بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ آدمی اپنے آپ کو بالکل ہی بھلا دیتا ہے اور بجز بارگاہ واجب الوجود جل سلطانہ کے شہود کے اور کچھ باقی نہیں رہتا ، اس نسیان کو فنائے روحی سے تعبیر کرتے ہیں ، جو ان دو قدموں میں سے دوسرا قدم ہے اور روح کے عالم سفلی کی طرف نیچے اترنے کا مقصود فنا کی اسی دوسری قسم کا حاصل کرنا تھا، اس کے بغیر یہ دولت میسر نہیں آسکتی تھی ۔
ایک دقیق راز :اس میں جو دقیق راز ہے ، وہ با کمال اہل اللہ پر مخی نہیں ہے اور وہ راز یہ ہے کہ روح کے واسطے اپنے آپ کو بھول جانے کے لیے کسی غیر کے ساتھ شدید محبت اور کمال مودت حاصل ہونا ضروری ہے اور محبت کا غلبہ جیسا کہ حاضر کے حق میں ہوتا ہے اس کے مثل غائب کے حق میں نہیں ہوا کرتا ، لہذا اولاً تو روح نے حاضر میں کمال محبت کو حاصل کیا جو خو د روح کو فنا کر دینے والا تھا پھر دوسرے درجہ میں اپنے آپ کو فنا کرنے کے لیے عالم کے غیب میں اسی محبت سے کام لیا ، یہ وہ دقیق راز ہے جسے اکا بر عارفین کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے۔
فنائے قلبی :رہ گیا قلب جسے حقیقت جامعہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو وہ اس وقت روح ہی کے تابع ہوتا ہے، لہذا جب وہ ترقی کر کے اپنے مقام سے روح کے مقام میں پہنچ گیا تو اسے بھی روح کی متابعت میں یہی نسیان حاصل ہو گیا اور اس کی فنا کے ساتھ خود بھی فنا ہو گیا۔
فنائے نفس: رہ گیا نفس تو اس کا تزکیہ مقام قلب میں پہنچ جانے کے بعد ہوتا ہے اور یہ اس کے بعد پیش آتا ہے، جب قلب ترقی کر کے خود مقام روح میں پہنچ جاتا ہے، صاحب عوارف جو شیخ الشیوخ ہیں نسیان مذکورہ کو مادہ نفس میں ثابت نہیں کرتے وہ نفس کی کمال پاکیزگی اسی میں بتاتے ہیں کہ نفس مقام قلب میں رسائی حاصل کر لے لیکن یہ حقیر کہتا ہے کہ نسیان مذکور مادہ نفس میں بھی حاصل ہوتا ہے لیکن نفس کی ترقی کر کے مقام قلب اور مقام روح میں پہنچ جانے کے بعد ہوتا ہے، لہذ انفس کے لیے بھی فنا محقق ہوتی ہے جیسی کہ قلب کی ہوتی ہے، یہ نفس ہی تو ہے جو حصول اطمینان کے بعد اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتا ہے اور مقام قلب سے مقلب قلب ( دل کو پھیر نے والی ہستی یعنی خدا تعالی )کے ساتھ تعلق استوار کر کے راضی و مرضی( پسندیدہ) بن جاتا ہے، حق سبحانہ و تعالی نے اس کی شان میں فرمایا ہے: يَٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَئِنَّة ٱرۡجِعِيٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةٗ مَّرۡضِيَّةٗ (اےنفس مطمئنہ اب تو اپنے رب کی طرف راضی اور پسندیدہ بنکر واپس آجا ) البتہ جب تک وہ مقام قلب میں رہتا ہے جس کی شیخ الشیوخ نے خبر دی ہے اور جس کا نام انہوں نے مقام مطمئنہ رکھا ہے اس وقت تک نسیان مذکورہ اس کے حق میں مفقود ہوتا ہے، بلکہ اس مقام میں تو اسے اطمینان کا نام بھی زیب نہیں دیتا ہے ، وہ تزکیہ یافتہ تو ہو گیا ہے لیکن ابھی تک اطمینان کے ساتھ اسے وابستگی حاصل نہیں ہوئی ، مقام قلب تغیر و تبدل کا مقام ہے، اطمینان اس کی ضد ہے، لہذا اس مقام سے نکل جانا اطمینان کی شرط ہے، ہر آدمی کا فہم اس مقام تک نہیں پہنچتا ذَٰلِكَ فَضۡلُ ٱللَّهِ يُؤۡتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلۡفَضۡلِ ٱلۡعَظِيمِ ( تو یہ ا للہ تعالی کا فضل و انعام ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے ہی فضل والا ہے )
معامله قالب:رہ گیا وہ معاملہ جو قالب (جسم ) کے ساتھ ہے تو سوائے ان اعمال جوارح ( اعضائے بدن کے اعمال ) کے جن کو شریعت مصطفویہ نے بیان فرما دیا ہے، سب کچھ ولایت معلومہ کے دائر ہ خارج اور جذب وسلوک کے دونوں طریقوں سے باہر کی بات ہے، کیونکہ اس کا معاملہ تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کے علاوہ ہے، اکابر اولیا اللہ میں سے قلیل ترین حضرات کے سوا کسی کو اس مقام کے علوم و معارف کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی ، چونکہ کسی نے بھی اس سلسلہ میں تفصیل سے بات نہیں فرمائی اور کلام ربانی و قرآن پاک اور احادیث نبوی علیہ الصلوت میں اگر چہ ذکر آیا ہے لیکن محض اشارات ورموز میں آیا ہے لہذا یہ ضعیف بھی اس مبحث کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا اور ولایت معرفہ کے مرتبہ میں جو فنا کے مراتب ہوتےہیں انہیں کے بیان پر اکتفا کرتا ہے ، اگر اس کے بعد بھی سامعین میں اس بات کو سمجھنے کی استعداد معلوم ہوئی تو اپنی معلومات اور سامعین کےفہم کے اندازے کے مطابق اس سلسلے میں لب کشائی کروں گا، ان شاء اللہ تعالی اور حق سبحانہ و تعالی ہی توفیق عطا فرمانے والا اور درست بات دل میں ڈالنے والا ہے۔
تنبیہ:جاننا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جسے فتائے روحی میسر ہو جائے اسے فنائے قلبی بھی نصیب ہو جاتی ہے اتنی بات ضرور ہے کہ قلب کو روح کی طرف جو اس کے لیے بھی بمنزلہ باپ کے ہے، ایک طرح کا میلان پیدا ہو جاتا ہے اور نفس سے جو قلب کے بمنزلہ ماں کے ہے روگردانی اور اعراض حاصل ہوتا ہے، اگر اس کا میلان غلبہ کرے اور اسے پوری طرح باپ کی جانب کھینچ لے اور اس (روح ) کے مقام میں اسے پہنچا دے تو اس وقت وہ باپ کی صفت یعنی فنا کے ساتھ متصف ہو جاتا ہے نفس کا حال بھی اسی طرح کا ہے کہ فنائے روحی اور فنائے قلبی سے اس کی فنالازم نہیں آتی مختصر یہ ہے کہ نفس کو اپنے لڑکے یعنی قلب کی طرف ایک قسم کا میلان اور کشش پیدا ہو جاتی ہے ، اگر یہ میلان غالب آجائے تو اسے لڑکے کی مرتبہ میں جو خود صالح باپ کے مقام میں پہنچ چکا ہے، پہنچادے تو لا محالہ لڑکے کی صفت کے ساتھ جو اپنے باپ کے خلق کے ساتھ تخلق( آراستہ) ہو چکا ہے، متصف ہو جاتا ہے اور فنا کو حاصل کر لیتا ہے۔
فنائے سرو خفی و اخفی:نیز وہ تینوں مراتب جو روح سے اوپر ہیں ان کا بھی یہی حال ہے کہ روح کے فنا ہو جانے سے ان کی فنا لازم نہیں آتی ، البتہ اگر روح کے ہبوط (نیچے اترنے )کے وقت ان تینوں مرتبوں نے بھی کلی طور پر یا جزوی طور پر روح کی موافقت میں اسی وقت ہبوط کیا ہو (نیچے اتر آئے ہوں ) اور روح کی محبت کا غلبہ ان میں سرایت کر گیا ہو اور اپنی ذاتوں کے نسیان کے مرتبہ تک انہیں پہنچادیا ہو تو ہو سکتا ہے کہ واپس لوٹتے وقت ان تینوں کو بھی کلی طور پر یا جزوی طور پر فنا حاصل ہو جائے اور روح کی طرح وہ سب بھی فانی ہو جائیں۔
علامت فنائے قلب :واضح رہے کہ خطرات کا قلب سے بالکلیہ اٹھ جانا اس کے ماسوائے حق سبحانہ وتعالیٰ کو بھول جانے کی علامت ہے کیونکہ خود خطرہ قلبی سے مراد دل میں کسی چیز کا حاصل ہونا اور اس چیز کا خیال دل میں گزرنا ہے، خواہ ابتدا یعنی خود بخود وہ خیال آیا ہو یا ذکر کرنے سے آیا ہو اور یہ کسی چیز کا خیال دل میں آنا اور اس کے خیال کا دل میں گزرنا ہی علم ہے، کسی چیز کے خیال کا دل میں آنا جب بالکل منتفی (مٹ)ہو جائے یعنی اس حد تک کہ اگر اسے یہ تکلیف بھی لانا چاہیں تو نہ آئے اور اگر اسے یاد کرا ئیں تب بھی یاد نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ علم بالکلیہ زائل ہو گیا، یہ زوال علم و ہی نسیان ہے جو فنا میں معتبر ہے۔
یہ ہے وہ مقام فنا کی وضاحت کا آخری بیان ، مشائخ میں سے کسی نے بھی اس تفصیل کے ساتھ اس مقام میں گفتگو نہیں فرمائی اور حق سبحانہ و تعالی کے سوا ہر چیز کو بھول جانے سے زیادہ فنا کے کوئی اور معنی نہیں بتائے ، اب بھی اس موضوع پر مزید گفتگو کی بڑی گنجائش ہے، اگر توفیق خداوندی جل سلطانہ مددفرمائے تو یہ فقیر اس سے بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ گفتگو کرے گا، کیونکہ یہ مقام طالبین کے غلطی میں مبتلا ہونے کا مقام ہے، واللہ اعلم بالصواب
معرفت : :نمبر 27
واجب تعالی کے ساتھ روح کا اشتباہ
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالک کی نظر عالم ارواح پر پڑتی ہے اور اس وجہ سے کہ عالم ارواح کو مرتبہ وجوب کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے ، اگر چہ یہ مناسبت محض صورت کے اعتبار سے ہی ہوتی ہے تو سالک اس عالم ہی کو حق سمجھتا ہے اور اس عالم کے مشاہدہ کو حق جل سلطانہ تصور کر لیتا ہے اور اس سے محظوظ اور لذت اندوز ہونے لگتا ہے اور چونکہ عالم ارواح کو عالم اجساد کے ساتھ بھی ایک طرح کا تعلق حاصل ہوتا ہے لہذا اس عالم کے شہود کو اس عالم میں کثرت کے اندر وحدت شہود سمجھ لیتا ہے اور احاطہ ذاتیہ اور معیت ذاتیہ کا حکم لگانے لگتا ہے اور ان تخیلات کی وجہ سے ترقی اور مطلوب حقیقی تک پہنچنے کی راہ سالک پر بند ہو جاتی ہے اگر اس مرتبہ سے اسے آگے نہ بڑھا ئیں اور باطل سے حق تک نہ پہنچا ئیں تو افسوس صد افسوس ہے، بعض مشائخ اس مقام پر تیس سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتے رہے ہیں اور جب ( توفیق حق نے) انہیں اس مقام سے گزار دیا تو اس کی برائی کا انہیں علم ہوا، اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں اس کی راہنمائی فرمائی، اگر خدا تعالی نے ہماری راہنمائی نہ فرمائی ہوئی تو ہم راہ نہ پا سکتے یقیناً ہمارے پروردگار کے تمام رسول حق لے کر آئے ہیں ۔
معرفت : :نمبر 28
وجود صفات سے بعض لوگوں کے انکار کی وجہ
بعض مشائخ نے جو واجب تعالیٰ جل شانہ کی صفات کے( الگ) وجود سے ا نکار کر دیا ہے اور انہوں نے صفات کو خارج میں عین ذات کہہ دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تجلیات صفاتیہ کے مرتبہ میں ہیں ،صفات ان کے لیے ذات جل کے مشاہدے کے آئینے بن گئی ہیں اور آئینہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو دیکھنے والے کی نظر سے مخفی ہو جاتا ہے (اور وہی چیز نظر آتی ہے جو آئینے کے بالمقابل ہوتی )لہذ اصفات لا محالہ آئینہ بن جانے کے حکم کی وجہ سے ان کی نگاہوں سے پوشید ہ ہوگئیں اور چونکہ صفات انہیں نظر نہیں آتیں اس لیے وہ فیصلہ دے دیتے ہیں کہ وہ خارج میں عین ذات اور علم کے مرتبہ ہیں ، جو انہوں نے ذات تعالی و تقدس کے صفات کی مغائرت (غیر ہونا ) ثابت کی ہے تو وہ محض اس بنا پر ہے کہ تا کہ بالکلیہ صفات کی نفی لازم نہ آئے ، اگر یہ بعض حضرات اس مقام سے اوراو پر پہنچ جاتے اور ان کا شہود صفات کے ان آئینوں سے باہر نکل جاتا تو وہ حقیقت حال کو جو کچھ کہ ہے جان اور سمجھ جاتے کہ علمائے اہل سنت کا یہ فیصلہ صحیح اور واقع کے مطابق اور فانوس نبوت سے ماخوذ ہے کہ صفات الگ موجود ہیں اور وہ ذات پر زائد ہیں۔
معرفت : :نمبر 29
کفر شریعت اور کفر حقیقت
کارکنان جس کسی کو محض اپنے فضل سے ترقیات کی دولت سے مشرف فرمانا چاہتے ہیں تو ہر مقام میں اسے فنا اور بقا عطا فرما دیتے ہیں، جب تک اس کو نزول کے میں فنا اور بقا میسر نہ آجائے اس مقام سے اوپر کی طرف عروج کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، یہی اللہ کا طریقہ ہے جو اس سے پہلے بھی گزر رہا ہےاور تم اللہ تعالیٰ کے طریقے میں کسی قسم کی تبدیلی ہر گز نہیں پاؤ گے، ایک عزیز فرماتے ہیں
بکفر و با سلام یکساں نگر کہ ہر یک زدیوان او دفتری ست
کفر اور اسلام کو یوں جانتے ہیں وہ دفتر اس کے ہی دیوان کے
کفر اور اسلام کو ایک ہی نظر سے دیکھنا غلبہ توحید اور افراط سکر کے وقت ہوا کرتا ہے جو جمع محض کے مقام میں حاصل ہوتا ہے اور یہ فنا اور ہلاک ہو جانے کا مقام ہے اور یہ دیکھنا سالک کے اپنے اختیار سے نہیں ہوتا لہذا وہ قطعا معذور ہوتا ہے، جس سالک کو اس مقام سے گزرنا نصیب نہ ہو اور فرق بعد الجمع کے مقام تک اور سائی نہ حاصل کر سکے حقیقی اسلام کی بو اس کے مشام جان تک کبھی نہیں پہنچ سکے گی اور وہ تا ابد کفر حقیقی میں گرفتار رہے گا اور حق سبحانہ کی رضا مندی کو اس کی ناراضگی سے جدا نہیں کر سکے گا۔
ہر کس کہ کشته گشت ازاں خال هندوش گرچه شهید رفت مسلمان نمی رود
اس کے سیاہ تل پہ جو قربان ہو گیا ہو کر شہید بھی وہ مسلماں نہیں رہا
خال ہندوی (سیاه تل) تاریخی اور پوشیدگی کی خبر دیتا ہے جو کہ مقام کفر ہی کے مناسب ہے ، مسلمانی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا اور جس طرح مرتبہ شریعت میں اسلام اور کفر کے درمیان امتیاز نہ کرنا کفر شریعت ہے اسی طرح حقیقت کے مرتبہ میں ان دونوں کے درمیان امتیاز نہ کرنا کفر حقیقت ہے، نیز غلبہ حال کے ظہور سے پہلے اسلام اور کفر کے درمیان امتیاز نہ کرنا جس طرح اہل شریعت کے نزدیک کفر ہے اہل حقیقت کے درمیان بھی کفر اور قابل مذمت ہے، اہل شریعت اور اہل حقیقت کے درمیان اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ غلبہ حال کی صورت میں ہے، جیسا کہ منصور حلاج کا معاملہ ہوا جو کہ مغلوب الحال تھا ، اہل شریعت نے اس کے کفر کا حکم دیا ہے، اہل حقیقت نے نہیں تا ہم اہل حقیقت کے نزدیک بھی کوتا ہی اس کے دامن گیر ہے، وہ اسے کاملین میں سے شمار نہیں کرتے ، حقیقی مسلمانوں میں سے نہیں سمجھتے منصور کا یہ شعر اسی مضمون کا شاہد ہے ۔
کفرت بدين الله والكفر واجب لدى و عند المسلمين قبيح
ہوا کافر میں دین حق سے مجھ پر کفر واجب ہے اگر چہ سب مسلمانوں کے ہاں یہ کفر بد تر ہے
تنبیہ:لہذا غلبہ حال کے ظہور سے پہلے اصحاب احوال کی پیروی کرنا اور فرق نہ کرنا بد تمیزی ہے اور الحاد و زندقہ ہے اور کفر شریعت و حقیقت ہے ، اللہ سبحانہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ایسی تقلیدات سے محفوظ رکھے تقلید کے شایان شان علوم شرعیہ ہی ہیں نجات ابدی حنفی اور شافعی کی تقلید ہی میں منحصر ہے ، جنید کی اور شیلی کے اقوال دو مصلحتوں سے کار آمد ہوتے ہیں ظہور احوال سے پہلے ان اقوال کا سننا طالبین کے لیے ان احوال کی طرف شوق دلانے کا باعث بنتا ہے اور ایک قسم کا وجد پیدا کر دیتا ہے ، ظہور احوال کے بعد وہ انہی اقوال کو اپنے احوال کی کسوٹی اور مصداق بنا لیتے ہیں، ان دونوں مصلحتوں کے بغیر ان حضرات کے اقوال کو جاننا اور ان میں غور و فکر کرنا ممنوع ہے، اس میں نقصان کا احتمال ہے اور جس مقام میں ضرر کا ذرا بھی و ہم پایا جاتا ہوعقلمند لوگ اس کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکتے تو جہاں ظن غالب ہو وہاں کیسے ممکن ہے۔
معرفت : :نمبر 30
کفار کے واصل ہونے کی تحقیق
بعض مشائخ طریقت نے سکر اور غلبہ حال میں فرمایا ہے کہ کافر بھی مومن کی طرح مقصود سے واصل ہو جاتا ہے ، اگر چہ اس کے وصل کی راہ مختلف اور جدا واقع ہوئی ہے، کیونکہ کفار خدا کے نام المضل ( راہ سے گمراہ کر دینے والا ہے ) راہ سے واصل ہوتے ہیں اور اہل اسلام خدا کے نام الھادی ( راہنمائی دیتے والا ہے )کی راہ سے ، ان حضرات نے اس مقام میں اس جیسی بہت سی باتیں کہی ہیں کچھ دوسرے لوگوں نے بھی جو اس بلند مرتبہ جماعت کے ساتھ تشبیہ اختیار کیے ہوئے ہیں اس بارے میں محض تقلید کے طور پر یا تو حید صوری کے انوار کے ظہور کے وقت بہت کی باتیں کہہ ڈالی ہیں اور سادہ دل لوگوں کو راہ سے بھٹکا گئے ہیں۔ اس بات کی حقیقت ایک دوسرے انداز پر ہے جسے اکابر اہل اللہ پر جو استقامت حال سے مشرف ہیں منکشف فرمایا گیا ہے، اس میں سے مختصر کچھ یہاں تحریر کر دیا جاتا ہے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :جاننا چاہیے کہ سالک پر اثنائے راہ میں قرب اور معیت حق سبحانہ کو چیزوں کے ساتھ خواہ وہ چیز کوئی سی اور کیسی بھی ہو ظاہر کیا جاتا ہے اور سالک اس وقت ذات حق سبحانہ کو ہر چیز کے ساتھ موجود پاتا ہے اور معیت ذاتی ، قرب ذاتی احاطہ اور سریان ذاتی کا حکم لگاتا ہے ، وہ اس قرب ومعیت میں ساری چیزوں کو یکساں جانتا ہے ، وہ چیز خواہ مومن ہو یا کافر، قرب اور معیت کا شہود اس جماعت کے لیے سابقہ حکم لگانے کا باعث ہوا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ارباب صحو( ہوش والے ) اور اصحاب تمیز جانتے ہیں کہ اس بارگاہ حق سبحانہ و تعالیٰ سے قرب اور معیت فرض کر لینے کے باوجود یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس سے قریب ہیں اور اس کے ساتھ ہیں کیونکہ قرب اور فصل تو علم کے اعتبار ہے ہوتا ہے اور علم کافر میں مفقود ہے بلکہ عام مومن کے بارے میں بھی لفظ وصل کا اطلاق نہیں کرتے ، جب تک کہ وہ درجہ ولایت تک نہ پہنچ جائے اور اس کو بقا باللہ کا مقام حاصل نہ ہو جائے وہ و اصل نہیں ہے، اکا بر اولیاء اللہ کا یہی مذہب ہے ، ایک بزرگ فرماتے ہیں
دوست نزدیک تر از من نزدیک تر دین ست مشکل که من از وے دورم
دوست مجھ سے بھی زیادہ ہے مرے نزدیک تر پر یہ مشکل ہے کہ میں ہی خود ہوں اس سے دور تر
یہ دوری حق تعالیٰ کے قرب کو ذوقی طور پر نہ جاننے کے اعتبار سے ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ گمراہی کا منشا اور غباوت (کند ذہنی ) کا سر چشمہ خود یہی بندہ ہے اور بس ، بارگا و حق تعالی و تقدس سے تو تمام خیر و ہدایت ہی کی فیض رسانی ہو رہی ہے، لیکن وہی ہدایت محل خباثت کی وجہ سے گمراہی اور ضلالت کے معنی پیدا کر لیتی ہے اگر چہ یہ معنی بھی حق سبحانہ وتعالی کے پیدا کرنے سے ہی پیدا ہوئے ہیں ، اس کی مثال صالح غذا کی طرح ہے کہ بیماروں میں بوجہ ردی اغلاط اور فاسد مواد کے وہی صالح غذا فساد مزاج کا سبب اور بدن کی خرابی کا باعث بن جاتی ہے لہذا اس بارگاہ حق جل وعلی پر المصیل نام کا اطلاق اس اعتبار سے ہے کہ وہی ان میں گمراہی کو پیدا کرتا ہے مگر یہ گمراہی خودان ہی کی ذاتوں کا تقاضا ہوتی ہے جو حق سبحانہ و تعالیٰ کے پیدا کرنے سے وجود میں آگئی ہے، اس لیے کہ لوگوں کو خدا کے نام المضل سے بجز اس کے اور کوئی مناسبت نہیں ہے کہ اس نے ان میں گمراہی کو پیدا فرما دیا ہے۔ اس نام کو بھی مذکورہ فعل پیدائش سے قطع نظر کرتے ہوئے حق سبحانہ کی بارگاہ سے کوئی مناسبت نہیں ہے بر خلاف خدا تعالی کے نام الھادی کے باوجود اس سے قطع نظر کرنے کے وہی ان میں ہدایت کو پیدا کرتا ہے، اس نام کو ذات تعالیٰ و تقدس کے ساتھ مناسبت ہے کیونکہ ہدایت کا منشا خیر اور کمال ہوتا ہے اور ضلالت گمراہی کا منشا شر اور نقصان ہوا کرتا ہے اور اول یعنی ہدایت حق تعالی کی بارگاہ قدس کے لائق ہے اور دوسری یعنی ضلالت اس کے لائق نہیں ہے، کیونکہ حق تعالیٰ تو خیر محض ہے، نیز ضلالت( گمراہی ) کو فضل کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ حق تعالی کی پیدا کردہ ہے کیونکہ وہ شرارت محض ہے اور اس کے برعکس حق تعالی کی ذات کمال محض ہے۔
ہدایت کو ھادی کے ساتھ مخلوق ہونے کی مناسبت کے علاوہ ایک دوسری مناسبت بھی ہے اور وہ ان دنوں میں خیریت (خیر ہونا ) اور کمال کا پایا جاتا ہے جیسا کہ ابھی ابھی اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے، لہذا گمراہ آدمی کے لیے تو مضل تک راہ ہی نہیں ہے اور ہدایت پانے والے آدمی کے لیے الھادی تک راہ ہے، کیونکہ اول یعنی ضلالت و گمراہی کے میں اس جہت کی مناسبت نہیں پائی جاتی جو ان دونوں کے درمیان مشترک ہو اور دوسری یعنی ہدایت میں جہت مشترک کی مناسبت پائی جاتی ہے لہذا ہدایت پانے والا آدمی تو ہدایت کے واسطے سے ہی ہادی تک پہنچ جاتا ہے اور گمراہ آدمی ضلالت کے واسطے مضل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ، جیسا کہ ظاہر ہے۔
پہلی مثال: یہ بات ایک مثال سے واضح ہو جاتی ہے، صفرا کے مریض کے لیے اس کے فساد مزاج کی وجہ سے شرینی تلخ ہوتی ہے چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صفرا کا مریض اس تلخی کے ذریعہ سے شرینی سے واصل ہوا ہے کیونکہ شرینی میں تلخی تو بالکل بھی موجود نہیں ہے وہی شرینی بوجہ اس کے کہ صفرا کے مریض کا مزاج بگڑا ہوا ہے تلخی کے معنی پیدا کر لیتی ہے اور یہ تلخی اگر چہ ایک عارض کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لیکن صفرا کے مریض کے لیے شرینی تک وصول سے مانع بن گئی ہے لہذا گمراہی درحقیقت گمراہ آدمی کے لیے مضل تک رسائی کی مانع ہے ، رسائی کا باعث نہیں ہے۔
دوسری مثال:دوسری مثال یہ ہے کہ آدمی قلبی بیماری اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کے غلبے کی وجہ سے دریائے نیل کے پانی کو خون پاتا تھا، کوئی عقل مند آدمی نہیں کہتا کہ وہ قبطی خون کے واسطے سے پانی سے واصل تھا، یہ خون اس کے لیے پانی تک واصل ہونے سے مانع بن گیا تھا، پانی میں خون ہونے کی بالکل کوئی بات نہیں تھی وہ تو اس قبطی کے مزاج کے فساد کی وجہ سے حادث ہوا تھا اور اس کے لیے پانی تک پہنچنے کا مانع بن گیا تھا اسے خود سمجھ لو ،
لہذا اس جماعت نے حق سبحانہ وتعالی کے قریب ہونے کا تو لحاظ کیا اور بندہ کی جہت کا کوئی لحاظ نہ کرتے ہوئے حق سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ بندہ کے قرب کا فیصلہ دے دیا ، انہوں نے غائب اور حاضر میں کوئی فرق نہیں کیا ہے لیکن ارباب صحوو تمیز (ہوش اور تمیز والے)حضرات فرق کرنے والے لوگ نہیں ، انہوں نے ایسا فیصلہ دیا ہے جو واقعہ کے مطابق ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم اور وہی حق کو ثابت کرتا ہے اور راستہ کی راہنمائی فرماتا ہے۔
تنبیہ:اور وہ جو ہم نے کہا تھا کہ اثنائے راہ میں سالک پر حق سبحانہ وتعالیٰ کا قرب ظاہر ہوتا ہے اور وہ اس لیے کہا تھا کہ منتہی حضرات اشیا کے ساتھ حق سبحانہ و تعالیٰ کے قرب کو قرب علمی سمجھتے ہیں اور معیت اور احاطہ اور سریان بھی علمی ہوتا ہے اور وہ اس مسئلہ میں علمائے اہل حق کے موافق ہیں اور علم سابق سے استغفار کرتے ہیں ، وہ حق تعالی و تقدس کی ذات کو عالم (کائنات) کے ساتھ کوئی نسبت بھی نہیں دیتے اور ہر وہ نسبت جو واقع ہوتی ہے اسے حق سبحانہ کی صفات کے ساتھ نیچے لے آتے ہیں ، وہ ذات حق کو بے چون و چگون جانتے ہیں، کسی نسبت کو ثابت کرنا اس مقصد کے منافی و خلاف کا ہے ،لہذا وہ قرب اور معیت جو ذات کے اعتبار سے ہو، اسے وہ دونوں طرف سے مسلوب (منفی)سمجھتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
معرفت : :نمبر 31
سیر کی حقیقت اور اس کی اقسام
سیر اور سلوک سے مراد وہ حرکت ہے جو علم میں ہوتی ہے اور مقولہ کیف سے تعلق رکھتی ہے ، حرکت اَینَ کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ سیر اول:لہذا سیر الی اللہ ( خدا کی طرف سیر) سے مراد حرکت علمیہ ہے ، جو اسفل سے اعلیٰ تک جاتی ہے اور اس اعلیٰ سے دوسرے اعلیٰ تک یہاں تک سالک آخر تمام علوم ممکنات کو طے کر لینے اور ان کے بالکلیہ زوال پذیر ہو جانے کے بعد علم واجب تک پہنچ جاتا ہے، اس حالت کو فنا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سیر دوم:اور سیر فی اللہ ( اللہ میں سیر ) سے مراد وہ حرکت علمیہ ہے جو مراتب و جوب میں ہوتی ہے اور جس کا تعلق اسم وصفات اور شیون و اعتبارات اور تقدیسات و تنزیہات سے ہوتا ہے ، یہاں تک کہ آخر میں وہ اس مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے ، جسے کسی عبارت سے تعبیر کرنا اور کسی اشارہ سے اس کی طرف اشارت کر نا ممکن نہیں ہے ، نہ کوئی جاننے والا اسے جان سکتا ہے اور نہ کوئی ادراک کرنے والا اس کا ادر اک کر سکتا ہے، اس سیر کو بقا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
سیر سوم:اور سیر عن الله باللہ( اللہ کی طرف سے اللہ کے ساتھ سیر) جو تیسری سیر ہوئی ہے، اس سے مراد وہ حرکت علمیہ ہے جو علم اعلی سے علم اسفل کی طرف نیچے اترتی ہے اور اسفل سے پھر اسفل کی طرف، یہاں تک کہ سالک ممکنات کی طرف واپس لوٹ آتا ہے اور مراتب وجوب کے تمام علوم سے نیچے اتر آتا ہے، یہی سالک ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو فراموش کرتا ہے (یعنی اس کے ساتھ ہو کر بھی اس کا اور اک نہیں کر سکتا ) اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واپس آجاتا ہے، یہی پانے والا اور گم کرنے والا ہے، یہی واصل ومہجور ہے اور یہی قریب و بعید ہے۔
سیر چہارم:اور چوتھی سیر جسے سیر در اشیا کہتے ہیں ، اس سے مراد علم اشیا کا حصول ۔ جو علوم اشیا کے زوال کے بعد درجہ بدرجہ ہر ایک چیز کے متعلق حاصل ہوتا ہے (یعنی سیر اول میں تمام اشیا کے علوم زوال پذیر ہو جاتے ہیں پھر اس کے بعد چوتھی سیر میں درجہ بدرجہ ایک ایک چیز کا علم حاصل ہوتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ تمام اشیا کا علم حاصل ہو جاتا ہے) لہذا چوتھی سیر سیر اول کے مقابلے میں اور تیسری سیر سیر دوم کے مقابلے میں ہے، جیسا کہ تم دیکھ چکے ہو۔
حاصل کلام :اور سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ خود ولایت کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس سے مراد فنا اور بقا ہے اور تیسری اور چوتھی سیر مقام دعوت کے حصول کے لیے ہوتی ہے جو انبیا اور مرسلین کے ساتھ مخصوص ہے ، خدا تعالی کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں ان سب پر عموماً اور ان کے افضل ترین پر خصوصاً اور انبیا کرام ﷺ کے کامل ترین متبعین کا بھی مقام دعوت میں کچھ حصہ ہوتا ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے قُلۡ هَٰذِهِۦ سَبِيلِيٓ أَدۡعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِياے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ یہی میری راہ ہے کہ میں خدا کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دیتا ہوں اور میرے متبعین بھی یہی دعوت دیتے ہیں ۔
معرفت : :نمبر 32
کسی توجہ کی برتری طبعی وجہ پر
کچھ لوگ جو فطری طور پر ہی حضور اور توجہ کا ملکہ رکھتے ہیں اور ان کی اس توجہ میں کسب کو کوئی دخل نہیں ہوتا تو اس کا راز یہ ہے کہ روح کو بدن کے ساتھ تعلق پیدا ہونے سے پہلے ایک قسم کی توجہ اور حضور حاصل ہوتا ہے، جب اسے بدن عنصری کے ساتھ تعلق کر دیا جاتا ہے اور عشق و محبت کی نسبت درمیان میں آجاتی ہے تو پوری طرح سے بدن کی طرف ایسے متوجہ ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے گزشتہ احوال کو بالکل فراموش کر دیتی ہے، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کی دوسرے امر کی طرف توجہ غالب ہونے کی وجہ سے سابقہ توجہ بالکل فراموش نہیں ہوتی اور بدن کے ساتھ تعلق ہو جانے کے باوجود اس کا اثر باقی رہ جاتا ہے،لہذا لامحالہ ان کی یہ توجہ عمل اور کسب کی محتاج نہیں ہوتی لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو لوگ( احوال سابق ) پوری طرح سے فراموش کر چکے ہوں اگر بدن کے ساتھ تعلق قائم ہو جانے کے بعد انہیں کوئی عروج نصیب ہوتا ہے تو وہ پہلی جماعت سے سبقت لے جاتے میں اگر چہ پہلی جماعت بھی ترقی کرتی ہے، کیونکہ ان کا (احوال سابق کو ) بالکل فراموش کر دینا اور پھر اپنے معشوق یعنی بدن کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جانا ان کی لطافت استعداد کو بتاتا ہے کہ وہ جس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں وہی بن جاتے ہیں اور اس کے سوا کو بالکلیہ فراموش کر دیتے ہیں بر خلاف اس صورت کے جس میں آدمی احوال سابقہ کو نہیں بھولتا کیونکہ اس سے معشوق کی طرف متوجہ ہونے میں نقص سمجھا جاتا ہے، والله سبحانه وتعالى اعلم
معرفت: :نمبر 33
سابقین اور محبوبین میں فرق
سابقین میں چونکہ حضور اول ہی سے حاصل ہے اس لیے ممکن ہے کہ یہ حضور ان کی کلیت (ظاہر و باطن ) میں سرایت کر جائے اور ان کی بصارت اور بصیرت کا حکم اختیار کرلے اور ان کا ظاہر باطن کے رنگ میں رنگ جائے لیکن وہ سرایت جو محبوبوں میں ہوتی ہے وہ دوسری چیز ہے، کیونکہ محبوب حضرات بالکلیہ اپنے آپ سے نکل کر اس کے ساتھ باقی ہو گئے ہیں اور ان کے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرہ اسی کے ساتھ باقی بن گیا ہے، برخلاف سابقین کے کہ ان کے وجود کا بقایا اپنے حال پر ہے ،وہ خود اپنے ساتھ باقی ہیں اس کے ساتھ باقی نہیں ہیں ،زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔
معرفت : :نمبر 34
بندہ کی قدرت و اختیار اور اس پر جزا کا مرتب ہوتا
حق تعالی و سبحانہ سے زیادہ کچی بات کہنے والا اور کون ہو سکتا ہے کہ وَمَا ظَلَمَهُمُ ٱللَّهُ وَلَٰكِنۡ أَنفُسَهُمۡ يَظۡلِمُونَ اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا وہ تو خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے ) اس آیت کریمہ میں حق سبحانہ وتعالی سے ظلم کی نفی اور ان لوگوں کے لیے ظلم کا ثابت ہونا ظاہر ہے، کیونکہ (خدا کی جانب سے)ظلم کی تخلیق ان کے ارادہ کے بعد ہوئی ہے اور ان کا ارادہ اس علم کے بعد صادر ہوا ہے جو انہیں بھلائی اور برائی کے متعلق حاصل ہے اور بھلائی اور برائی دونوں کا شریعت میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے اور یہ بھلائی اور برائی دونوں یکساں طور پر ان کی قدرت میں ہوتی ہیں، لہذا پہلے( بندے) خود ہی اس برائی کا ارادہ کرتے ہیں، جس کا برا ہونا شریعت میں واضح کر دیا گیا ہے، اس کے بعد جیسا کہ وہ ارادہ کرتے ہیں، حق تعالی اس برائی کو پیدا کر دیتا ہے اور وہ خود ہی اس خیر اور بھلائی کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان کی قدرت میں ہوتی ہے اور جس کا بھلا ہونا شریعت کی رو سے انہیں معلوم ہے، لہذا خدا نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے ہیں ۔
اب یہ بات باقی رہ گئی ہے کہ ان کی قدرت اور ارادہ بھی تو اللہ سبحانہ و تعالی کا ہی پیدا کیا ہوا ہے تو یہ بات بھی ان بندوں سے ظلم کی نفی نہیں کرتی کیونکہ حق سبحانہ و تعالی نے جو قدرت پیدا فرمائی ہے اس کی نسبت بھلائی اور برائی دونوں کی طرف ہے، یہ بات نہیں ہے کہ خدا نے ان میں برائی ہی کی قدرت پیدا کی ہو اور بھلائی کی قدرت پیدا نہ فرمائی ہو جس سے وہ برائی کے کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں، یہی حال تخلیق کردہ ارادہ کا ہے کہ جب اسے خیر اور شر دونوں کا علم ہو چکا ہے تو اب وہ ان دونوں میں سے جس جہت کو چاہے ترجیح دے سکتا ہے ، پس بندہ شریعت کی رو سے بھلائی اور شر کو جانتے ہوئے بھی شر ہی کو اختیار کرتا ہے حالانکہ اس کی قدرت کی نسبت بھلائی اور برائی دونوں کی طرف یکساں طور پر تھی ، اس طرح ارادہ کے اعتبار سے بھی دونوں زیر قدرت صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو دوسری کی بجائے مخصوص کر لینا اس کے لیے درست تھا، اس سے ظاہر ہے کہ اس پر جو کچھ ظلم ہوا ہے وہ خود اس کے نفس ہی نے کیا ہے اور حق سبحانہ نے اس پر کوئی ظلم نہیں کیا ۔ یہی حال از لی علم اور ازلی قضا ( تقدیر ) کا بھی ہے کہ وہ دونوں بھی بندوں سے ظلم کی نفی نہیں کرتے کیونکہ حق سبحانہ وتعالی نے جان لیا اور ازل میں فیصلہ کر دیا کہ فلاں بندہ عمل کرنے میں اس کے شر کے پہلو کو اختیار کرے گا اور خیر کو چھوڑ دے گا اور وہ سب کچھ اپنے اختیار سے کرے گا لہذا علم اور قضا( تقدیر فیصلہ ) بندے کے مختار ہونے کو مضبوط کرتے ہیں ، اس کی نفی نہیں کرتے ، یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو بذریعہ کشف کے بعض غیب کی باتوں کا علم حاصل ہو جائے ، وہ معلوم کر لے اور فیصلہ کر لے کہ فلاں آدمی عنقریب اپنے اختیار سے یہ کام کرے گا ( تو اس شخص کا ) یہ علم اور فیصلہ بندہ کے اختیار کی نفی نہیں کرتے ، اسی طرح علم الہی اور قضائے الہی جل شانہ بھی اس کی نفی نہیں کرتے ، والله سبحانه اعلم بحقيقة الحال وصلى الله تعالى على سيدنا محمد و آله وسلم اور یہ مسئلہ علم کلام کے پیچیدہ ترین مسائل میں سے ہے، اس پر کچھ راسخ علما کے سوا دوسرے لوگ واقف نہیں ہو سکتے اور اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق عطا فرمانے والا ہے ۔
معرفت : :نمبر 35
قطب ابدال اور قطب ارشاد کا فیض
قطب ابدال ان فیوض و برکات کے پہنچنے کا واسطہ ہوتا ہے جو عالم کے وجود اور بقا سے تعلق رکھتے ہیں اور قطب ارشادان فیوض و برکات کے پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے جو دنیا کے ارشاد و ہدایت سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا پیدائش ، رزق سانی ازالہ بلیات ( مصائب کو دور کرنا)بیماریوں کو دور کرنا اور صحت و عافیت کا حصول قطب ابدال کے مخصوص فیوض سے تعلق رکھتے ہیں اور ایمان و ہدایت توفیق حسنات اور گناہوں سے رجوع اور تو بہ قطب ارشاد کے فیوض کا نتیجہ ہوتا ہے، قطب ابدال ہمہ وقت کام میں مشغول رہتا ہے اور اس سے دنیا کے خالی ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دنیا کا انتظام اس سے وابستہ ہے، اگر اس قسم کے قطب میں سے کوئی قطب چلا جائے (فوت ہو جائے ) تو دوسرا آدمی اس کی جگہ پر مقرر کر دیا تا ہے، لیکن قطب ارشاد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمہ وقت موجود ہو ایک وقت ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا ایمان و ہدایت سے بالکل خالی ہی ہو جائے ۔
کمال کے اعتبار سے ان قطبوں کے افراد میں بڑا فرق ہے لیکن یہ فرق ان سب کے درجہ ولایت تک واصل ہونے کے بعد ہے ، اقطاب ارشاد میں سے جو شخص کامل ترین ہوتا ہے وہ حضرت خاتم الرسل ﷺ قدم پر ہوتا ہے اور فرد (شخص ) کمال حضور اکرم ﷺکے کمال کے مطابق ہوتا ہے، ان دونوں میں فرق اصل ہونے اور تابع ہونے کا ہی ہوتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں ہوتااور حضوراکرم ﷺ قطب ارشاد ہی تھے اور اس وقت میں قطب ابدال حضرت عمر حضرت اویس قرنی تھے ۔
قطب ارشاد سے فیض پہنچنے کا طریقہ، قطب سے دنیا کو فیض پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ قطب بوجہ اپنی حاصل کردہ جامعیت کے مبداء فیاض کے لیے مثل صورت اور محل سایہ کے بن گیا ہے اور دنیا تمام کی تمام خود اس قطب جامع کی تفصیل ہے، چنانچہ بغیر کسی تکلیف کے حقیقت سے صورت تک فیض پہنچتا ہے اور صورت جامعہ ( قلب ) سے عالم تک بغیر کسی رکاوٹ کے فیض پہنچتا ہے جو کہ اس کی تفصیل کے مثل ہے لہذ افیاض مطلق تو حق تعالی ہی ہے اور خود واسطہ ( یعنی قطب ) کی اس فیض رسانی میں کوئی کاری گری نہیں ہے بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ واسطہ کو اس فیض رسانی کی اطلاع بھی نہیں ہوتی
از ما و شما بہانہ برساتہ اند ہمارا اور تمہارا درمیاں میں ایک بہانہ ہے
سوال:اگر کوئی شخص کہے کہ ایمان و ہدایت کی نسبت تو عام خلائق کے ساتھ نہیں ہے لہذا قطب ارشاد کے فیوض عام نہیں ہوں گے بلکہ اہل ایمان و ہدایت کے ساتھ مخصوص ہوں گے اور حضرت رسالت مآب ﷺ رحمت عالمیان ہیں اور اس کے ساتھ ہی( جیسا کہ آپ نے کہا ہے وہ )قطب ارشاد بھی ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوگا ؟
جواب: میں اس کا جواب یہ دوں گا کہ مبداء فیاض سے جو کچھ بھی فیض پہنچتا ہے اور تحصیل پاتا ہے وہ تو سب خیر و برکت اور ایمان و ہدایت ہی ہے شر اور نقص کی تو اس مقام میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، خواہ وہ فیض اہل سعادت تک پہنچے یا اہل شقاوت تک لیکن وہی ہدایت و ارشاد بوجہ محل کی خباثت کے فساد پیشہ لوگوں میں گمراہی اور شرارت کے معنی پیدا کر لیتا ہے اس انداز پر جس طرح غذا صالح بیمار آدمی میں مکمل خراب ہونے کی بنا پر اخلاط ردئیہ اور امراض مہلکہ کا باعث بن جاتی ہے، الہذا فساد پیشہ لوگوں میں وہی ہدایت ان کے قلبی امراض کی وجہ سے گمراہی کے معنی پیدا کر لیتی ہے جیسا کہ دریائے نیل کا پانی پسندیدہ اور محبوب لوگوں کے لیے پانی ہوتا ہے اور محجو بین (مخالفین) کے لیے ایک مصیبت اور آزمائش بن جاتا ہے۔ حقیقت میں وہ پانی ہے لیکن قبطی اسے خون پاتا ہے اور اس کا اسے خون پانا بوجہ اس کی اپنی خباثت کے ہے نہ کہ پانی کی کسی خرابی کے باعث سے صفراء کا مریض جسے شرینی بھی تلخ محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے اپنے مزاج میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے، شرینی کی ذات میں کوئی تلخی پیدا نہیں ہوتی بلکہ محل کے فساد کی وجہ ہی تلخی کے معنی اس محل میں پیدا ہو گئے ہیں جیسا کہ پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے ، لہذا ثابت ہو گیا کہ جو کچھ حق تعالی و تقدس کی جانب سے پہنچتا ہے وہ خیر و برکت اور اصلاح ور شدہی ہے لیکن وہی خیریت ( بھلائی ) فساد کی جگہ فساد کے معنی پیدا کر لیتی ہے لہذا حق سبحانہ پر مفصل کا اطلاق اس معنی میں ہوتا ہے کہ خباثت کا محل جس فساد کا مقتضی ہوتا ہے وہ حق سبحانہ و تعالی کے پیدا کرنے سے وجود میں آجاتا ہے۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہو وَمَا ظَلَمَهُمُ ٱللَّهُ وَلَٰكِنۡ أَنفُسَهُمۡ يَظۡلِمُونَ خداتعالی نے ان پر کوئی ظلم نہیں فرمایا وہ تو خودہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے ) قضا اور قدر کاازالہ : اگر لوگ یہ کہیں کہ خباثت محل کہاں سے آگئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی بدن مثلاً عناصر اربعہ سے مرکب ہے اور ہر عضو جو جسم انسانی کا جزو ہے وہ ایک قسم کی خصوصیت کا مقتضی ہے، مثلاً جزو ناری بلندی اور سرکشی چاہتا ہے اور جزو خا کی پستی اور نیچائی چاہتا ہے ، وعلی ہذا القیاس ، لہذا ان عناصر کے اجماع میں ہر وہ شخص جو اعتدال سے زیادہ نزدیک ہے اسے بسیط حقیقی (ذات حق تعالی )سے زیادہ مناسب ہوتی ہے اور اس مناسبت کی بنا پر ایسا آدمی خیر و برکت اور رشد و ہدایت کے زیادہ لائق ہوتا ہے اور جو شخص اعتدال سے زیادہ دور ہے اس میں بعض اجزا کی خصوصیات زیادہ غالب ہوتی ہیں اور بعض دوسری( اجزائی خصوصیات )زیادہ مغلوب ہو جاتی ہیں اور اس اختلال کی وجہ سے اسے بسیط حقیقی (ذات حق تعالی ) سے مناسبت بھی کم رہ جاتی ہے لہذا لامحالہ خیر و برکت اور ان جیسی باتوں سے اسے بہت کم حصہ نصیب ہوتا ہے ، فساد محل سے مراد اس نظام (جسم ) کا خلل آجانا اور اسی اعتدال کا بگڑ جانا ہے اور جو روح ان اجزائے مجتمعہ پر فائض ہوتی ہے اگر چہ اپنی ذات کے اعتبار سے اس قسم کے اختلال سے خالی ہوتی ہے کیونکہ وہ بسیط ہے اور یہ اختلال مرکب ہی میں صورت پذیر ہوتا ہے لیکن حق تعالی نے اسے اس انداز پر پیدا فرمایا ہے کہ وہ اپنی انتہائی لطافت کی وجہ سے اپنے پڑوسی کا اثر قبول کر لیتی ہے بلکہ اپنے آپ کو اس میں کم کر کے خود کو اس کا عین بنا لیتی ہے لہذا وہ خباثت ہمسائیگی کی وجہ سے (جسم سے) روح میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ فرشتے اپنے بسیط (یعنی غیر مرکب ) ہونے کی وجہ سے شرارت اور اس جیسی چیزوں سے منزہ و پاک ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ انہیں ایسے مرکبات سے جن کے انتظام میں خلل آگیا ہو کوئی مناسبت نہیں ہے اور اگر بالفرض بعض فرشتوں میں شر کا وجود صحیح مان لیا جائے تو اس کے جواز کی وجہ سے بعض اُن افراد ملائکہ میں بعض مرکبات کے ساتھ ان کی مناسبت ہو سکتی ہے اگر چہ وہ مناسبت فی الجملہ بہت کم ہی کیوں نہ ہوں اور اس مناسبت کا مطلق طور پر انکار کر دینا محض ضد اور ہٹ دھرمی ہے، اس کے بعد میں کہتا ہوں کہ حق سبحانہ و تعالی نے پیدا کردہ یعنی غیر حقیقی بسیط چیزوں میں ترکیب اجتماع کو بھی پیدا فرما دیا ہے اگر چہ اس ترکیب و اجتماع کے درجے مختلف ہیں اور جس طرح سے کہ ان بسائط میں سے ہر بسیط کسی نہ کسی امر کا مقتضی تھا ، ہر اجتماع بھی کسی نہ کسی امر کا مقتضی ہو گیا ، اس کے بعد حق تعالی نے اس اجتماع کا جو تقاضا تھا اس کو پیدا فرمایا لہذا وہ فساد اس مرکب کی ذات کو لازم آتا ہے اور اس لازم کا پیدا کرنا بھی حق تعالی ہی کی طرف سے ہے اور اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے اور حق تعالی کی ذات کی طرف کسی قسم کا کوئی شریا نقص منسوب نہیں ہو سکتا بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حق تعالی اس شر اور نقص کا خالق اور موجد ہے اور کسی بری چیز کو پیدا کر دینا برائی نہیں ہے، لہذ ا شرارت اور فساد خود ان چیزوں کی طرف لوٹتا ہے اور خیر و اصلاح حق سبحانہ و تعالی کی طرف یہ ہے قضاء قدر کے مسئلہ کا راز اور اس بات کے مان لینے اور اس فیصلہ کو (پہچان لینے ) پر کوئی برائی لازم نہیں آتی اور یہ فیصلہ شائبہ ایجاب سے جو حق تعالی و سبحانہ کے اختیار کے منافی ہے پاک ہے( یعنی اس بات کی آمیزش سے پاک ہے کہ حق تعالی کے ذمہ کوئی بات ضروری قرار دی جاۓ )
لہذا اس پر غور کرنا تمہارے لیے ضروری ہے تا کہ تم پر اس کا راز واضح ہوجائے اور تمہیں اہل بدعت اور ضلالت کے بہت سے اعتقادات سے نجات حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہی حق کو ثابت کرتا ہے اور وہی صحیح راستہ کی راہنمائی فرماتا ہے، یہ راز ان رازوں میں سے ہے جن کے متعلق حق تعالیٰ نے مجھے الہام فرمایا بلکہ مجھے اس کے ساتھ مخصوص فرمایا، سوحق سبحانہ کے لیے حمد ہے اور اس کا احسان ہے اس انعام پر بھی اور باقی تمام انعامات پر بھی ۔
سوال:اگر لوگ دریافت کریں کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کو اپنے قدیم علم میں یہ معلوم تھا کہ اس انداز کی ترکیب فساد اور خباثت کا باعث ہوگی تو اس نے اس ترکیب کو پیدا ہی کیوں فرمایا ؟
جواب:اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس گروہ پر وارد ہوتا ہے جو حق سبحانہ و تعالی پر اس بات کو واجب سمجھتے ہیں کہ وہ صالح ترین چیز ہی پیدا فرمائے لیکن ہم تو حق سبحانہ و تعالی پرکسی چیز کو بھی واجب اور لازم نہیں سمجھتے، اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، جو کچھ کرتا ہے وہ اس کا جواب دہ نہیں ہے ، البتہ سب لوگ جواب دہ ہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ مرکب ہی اس قسم کے خبث اور فساد کو مستلزم ہوگا اور اس لازم آنے والی چیز کو بھی حق سبحانہ وتعالی نے ہی خود اپنے ارادہ سے پیدا فرمایا ہے، بطور ایجاب اور محکومیت کے نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر پورا غلبہ اور تسلط رکھتا ہے، لہذا بندوں کا اس پر کوئی حکم نہیں چلتا جس سے و ہ ان کا محکوم ہو جائے اور بندہ محکوم اس کا حاکم بن جائے ، حاصل یہ ہے کہ سر چشمہ فساد صرف مخلوق ہی ہے اور بس ، اس کا پیدا کرنے والا حق تعالیٰ جس کی شان بہت ہی بلند ہے، وہ ظلم کی آمیزشوں ، ایجاب کے لوازم اور محکومیت کے نقائص سے منزہ اور مبراء ہے ، جو کچھ عام لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک اور بہت ہی بلند ہے، واللــه ســـــبحـانــه اعـلـم بحقيقة الحال
(یہاں واضح ہو جانا چاہے کہ واقعی حق تعالی کو معلوم تھا کہ اس انداز کی ترکیب فسادو خباثت کا باعث ہو گی تو اس نے انسان کو نور عقل عطا کیا اور ہدایت کی راہنمائی فرمائی ، انبیا کرام بھیجے اور کتا ہیں ارسال کیں ، اچھے انجام اور برے انجام سے خبر دار کیا اور کفر و اسلام میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا تو اس اہتمام کے ہوتے ہوئے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس نے ظلم کیا ہے ۔
معرفت : :نمبر 36
ولایت ، شہادت اور صد یقیت
جاننا چاہیے کہ ولایت ، شہادت اور صدیقیت کے مقامات میں سے ہر مقام کے علوم و معارف الگ الگ ہیں جو اسی مقام سے مناسبت رکھتے ہیں، مرتبہ ولایت میں علوم زیادہ تر سکر آمیز ہوتے ہیں کیونکہ اس مرتبہ میں سکر غالب ہے اور ہوش مغلوب اور مرتبہ شہادت میں جو درجات ولایت کا دوسرا درجہ ہے، سکر مغلوب ہو جاتا ہے اور درجہ صدیقیت جو مراتب ولایت میں تیسرا درجہ ہے اور درجات ولایت کی آخری حد ہے کہ اس کے اوپر ولایت کا کوئی درجہ نہیں بلکہ اس سے اوپر نبوت کا مرتبہ ہے، اس درجہ کے علوم سکر سے بالکل آزاد ہوتے ہیں اور علوم شریعت کے مطابق ہو جاتے ہیں ، صدیق انہی علوم شرعیہ کو الہام کے ذریعے حاصل کرتا ہے جیسا کہ نبی وحی کے ذریعے حاصل فرماتے ہیں ،صدیق اور نبی کا فرق حاصل کرنے کے طریقے میں ہے، ماخذ میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں حق تعالی سے ہی حاصل کرتے ہیں لیکن صدیق نبی کی پیروی کی وجہ سے اس درجہ تک پہنچتا ہے کہ نبی اصل ہے اور صدیق اس کی فرع ہے، نیز یہ کہ نبی کے علوم قطعی ہوتے ہیں اور صدیق کے علوم ظنی ہوتے ہیں، نیز یہ بھی کہ نبی کے علوم دوسروں پر حجت ہوتے ہیں اور صدیق کے علوم دوسروں پر حجت نہیں ہوتے ۔
در قافله که ادست دانم نرسم این بس که رسد زدور بانگ جرسم
وہ ہے جس قافلہ میں جانتا ہوں میں نہ پہنچوں گا غنیمت ہے کہ آواز جرس تو مجھ تک آتی ہے
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہوں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفے ﷺ پر اور تمام انبیاء مرسلین پر اور ملائکہ مقربین پر اور تمام فرمابردار بندوں پر ۔
لہذا اگر اس رسالہ میں کچھ علوم و معارف بطور تنافی یا تعارض کے آگئے ہوں تو ان علوم کے اختلاف کو درجات ولایت کے اختلاف پر محمول کرنا چاہیے کیونکہ ہر درجہ کے علوم الگ ہوتے ہیں جیسا کہ میں نے تحقیق کے ساتھ بیان کر دیا ہے، علوم توحید درجہ ولایت سے مناسبت رکھتے ہیں اور درجہ شہادت کے علوم و معارف کو اگر معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس معرفت کو جو آیت کریمہ لَيۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَيۡء میں مذکور ہوئی ہے، اچھی طرح حاصل کر لو کیونکہ اس مقام کے علوم مرتبہ شہادت کے علوم میں سے ہیں، چونکہ سالک اس مقام میں اپنے آپ کو اور اپنی صفات کو بالکل مردہ پاتا ہے اس لیے البتہ اس مقام کو شہادت کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے اور علوم صدیقیہ خود بعینہ علوم شرعیہ ہیں جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے اورصحیح اور قابل اعتبار علوم وہی ہیں جو علوم شرعیہ کے مطابق ہوں، حق تعالی و سبحانہ ہمیں روشن شریعت پر ، صاحب شریعت عليه وعلى آله الصلواة والسلام کے طفیل میں ثابت قدم رکھے۔
معرفت : :نمبر 37
ما سوی سے قطع تعلق
جو کچھ ہم پر واجب ہے وہ ما سوائے حق سبحانہ کی گرفتاری سے اپنے دل سلامت اور محفوظ رکھنا ہے اور یہ سلامتی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ غیر حق سبحانہ کا دل پر کوئی گزر نہ رہے، اگر بالفرض ہزار سال تک بھی زندگی وفا کرے تو اس نسیان کے باعث جو دل کو ماسوا سے حاصل ہو گیا ہے غیر کا دل پر گزر نہ ہو سکے ۔
کا را ین ست غیر ایں ہمہ ہیچ کام یہ ہے اور سب کچھ ہیچ ہے
معرفت : :نمبر 38
مقام صدیقیت کا منتہی
بعض اکا بر مشائخ نے فرمایا ہے کہ صدیقین کے دماغوں سے جو چیز سب سے آخر میں نکلتی ہے وہ حب جاہ اور حب ریاست ہے، بعض لوگوں نے اس جاہ و ریاست کے متعارف و مشہور معنی کے خلاف معنی مراد لیتے ہیں اور کہا ہے کہ حب جاہ و ریاست کا نکل جانا صدیقیت کے پہلے قدم میں ہوا کرتا ہے لیکن اس حقیر کے نزدیک جو بات تحقیق کو پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ حب جاہ اور حب ریاست کی ایک قسم ایسی ہے کہ اس کا تعلق نفس سے ہوتا ہے۔ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ جب تک یہ برائی نفس سے دور نہ ہو جائے وہ تزکیہ یافتہ نہیں ہو سکتا اور جب تک وہ تزکیہ حاصل نہ کرلے مقام ولایت تک نہیں پہنچ سکتا مقام صدیق تک پہنچنا تو بڑی بات ہے، کہنے والے سے مراد اس قسم کی جاہ وریاست نہیں ہے، جاہ کی ایک اور قسم بھی ہے جس کا تعلق لطیفہ قالب سے ہوتا ہے اور اس کی فطرت سے أَنَا۠ خَيۡر مِّنۡهُ میں اس سے بہتر ہوں ) کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں، اس قسم کی جاہ( کا دماغ سے نکل جانا) اطمینان نفس کے حاصل ہو جانے اور مرتبہ ولایت تک پہنچ جانے بلکہ صدیقیت کے حاصل ہو جانے کے بعدمتحقق ( ثابت ) ہوا کرتا ہے اور کہنے والے کی مراد جاہ و ریاست کی یہی قسم ہوگی کہ اس کا ( ماغ سے) نکل جانا صدیقیت کے مقام کی آخری حد ہے اور محمدی المشرب اولیا کرام کے ساتھ مخصوص ہے۔
جس شیطان کے اسلام کے متعلق سید الا نبیاء نے اپنے اس ارشاد میں خبر دی ہے کہ اسلم شیطانی میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے کے اس کا تعلق اسی بلند مقام سے ہے جیسا کہ ارباب سلوک پر مخفی نہیں ہے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ تعالی بڑے فضل والا ہے اور اللہ تعالی کی برکتیں اور سلامتیاں نازل ہوں ، ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی سلام پر اور آپ کے تمام آل و اصحاب پر۔
معرفت: :نمبر 39
حضرت مجدد کا جذب و سلوک
جذبه وسلوک
جذبہ به سیرانفسی کانام ہےاللہ تعالی کے فضل اور مرشد کامل کی تو جہات سے سیر انفسی میں عالم امر کے لطائف کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور لطائف اپنی اصل میں فنا ہو جاتے ہیں یہ کیفیت جذب ہے اور اس تربیت کے حاصل کرنے والے کو مجذوب کہتے ہیں ۔
سلوک سلوک سیر آفاقی کا نام ہے۔ مرشد کامل کی ہدایت کے مطابق، اتباع سنت و شریعت اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے طہارت نفس عناصر حاصل کرنا سیر آفاقی ہے۔ اس کو سلوک کہتے ہیں اور اس کی قسم کی تربیت حاصل کرنے والے کو سالک کہا جاتا ہے
معلوم ہونا چاہیے کہ عنایت الہی جل سلطانہ نے اولا مجھے اپنی طرف کھینچا جیسا کہ مقام مراد پر فائز لوگوں کو کھینچا جاتا ہے ، اس کے بعد دوسرے درجہ میں میرے لیے اس جذبہ نے سلوک کی منزلوں کو طے کرنا نہایت ہی آسان کر دیا چنانچہ میں نے شروع شروع میں حق تعالی کی ذات کو اشیا کا عین پایا جیسا کہ متاخرین صوفیہ میں سے تو حید وجودی کے مقام پر فائز حضرات نے ارشاد فرمایا ہے ، پھر میں نے حق تعالی کو تمام چیزوں میں پایا بغیر اس کے کہ وہ ان اشیا میں حلول دسرایت کیے ہوئے ہو ، پھر میں نے حق تعالٰی کو معیت ذاتیہ کے طور پر تمام چیزوں کے ساتھ مخصوص ( مشاہدہ ) کیا ، اس کے بعد حق تعالی وسبحانہ کو تمام چیزوں کے بعد پایا ، پھر تمام چیزوں سے پہلے پایا ، پھر میں نے حق سبحانہ وتعالیٰ کو دیکھا اور کوئی ایک چیز بھی مجھے وہاں نظر نہیں آئی ، توحید شہودی کا سب یہی مطلب ہے جسے فنا سے تعبیر کرتے ہیں، یہ پہلا قدم ہوتا ہے جو ولایت کے درجات میں رکھا جاتا ہے اور یہی وہ سابق ترین کمال ہے جو ابتدا میں حاصل ہوتا ہے اور یہ رویت مراتب مذکورہ میں سے کسی مرتبہ میں بھی کیوں نہ پیش آئے اولاً آفاق میں ہوا کرتی ہے اور دوسرے درجہ میں انفس میں ہوا کرتی ہے، پھر اس کے بعد میں نے بقا کی طرف ترقی کی جو ولایت میں دوسرا قدم ہوا کرتا ہے پس میں نے ان اشیا کو دوبارہ دیکھا اور میں نے حق تعالی و سبحانہ کو ان اشیا کا عین پایا بلکہ خود اپنا عین پایا۔
اس کے بعد میں نے اللہ تعالی کو تمام اشیا میں دیکھا بلکہ خود اپنے نفس میں دیکھا اس کے بعد اشیا کے ساتھ بلکہ خود اپنے ساتھ دیکھا، پھر اشیا سے پہلے بلکہ اپنے سے بھی پہلے دیکھا ، پھر میں نے حق سبحانہ کو اشیا کے بعد بلکہ خود اپنے بھی بعد دیکھا، پھر میں نے اشیا کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ کو بالکل نہیں دیکھا اوریہ وہ آخری قدم تھا جس میں ابتدائی قدم کی طرف لوٹنا ہوتا ہے اور مرتبہ عوام کی طرف واپس آ جانا ہوتا ہے اور یہ مقام مخلوق کو حق سبحانہ وتعالی کی طرف دعوت اور بلانے کا کامل ترین مقام ہوا کرتا ہے اور یہی منزل تکمیل وارشاد کی کامل ترین منزل ہوا کرتی ہے، تا کہ مخلوق کی طرف مناسبت مکمل ترین طریقے پر حاصل ہو سکے ، کیونکہ کمال درجہ کا فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کا یہی تقاضا ہوتا ہے، یہ اللہ تعالی کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالی بڑے ہی فضل والا ہے اور یہ تمام مذکورہ احوال اور تحریر کردہ کمالات مجھے حاصل ہوئے ہیں بلکہ ہر اس شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو افضل الانبیا اور اکمل البشر ﷺکے طفیل سے واصل ہوتا ہے، اے اللہ ہمیں آپ کی پیروی پر ثابت قدم رکھ اور ہمارا حشر آپ ہی کے زمرہ میں فرما اور اللہ سبحانہ و تعالٰی اس بندہ پر رحم فرمائے جو میری اس دعا میں آمین کہے اور سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے ۔
معرفت : :نمبر 40
فضائل سلسلہ نقشبندیہ
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ چند فضیلتوں کے اعتبار سے باقی تمام سلسلوں سے ممتاز ہے اور اس طریقہ عالیہ کو باقی تمام طریقوں پر ترجیح ہونا ظاہر ہے، یہ سلسلہ عالیہ بر خلاف دوسرے سلاسل کے حضرت ابو بکر صدیق پر ختم ہوتا ہے جو انبیا ء علیہم السلام کے بعد تمام بنی آدم میں سے سب سے افضل ہیں اس طریقے میں ہر خلاف باقی طریقوں کے آغاز ہی میں انجام مندرج ہوتا ہے (اندراج نہایت در ہدایت )علاوہ ازیں بر خلاف دوسرے سلسلوں کے ان بزرگوں کے نزدیک جو شہود معتبر ہے وہ شہود دائمی ہے جسے ان حضرات نے یاداشت سے تعبیر فرمایا ہے اور جو شہود دوام پذیر نہ ہو وہ ان حضرات کے نزدیک نا قابل اعتبار ہے اور اس طریق کی منزلوں کو طے کرنا صاحب شریعت ﷺکی مکمل پیروی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا بر خلاف دوسرے سلسلوں اور طریقوں کے کہ کسی قدر پیروی کے ساتھ لوگ ریاضتوں اور مجاہدوں کی مدد سے انقطاع( دنیا سے بے تعلقی )کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں، اس دعوے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور دلیل یہ ہے کہ یہ بزرگ محض جذبہ کی مدد سے راہ کو طے کرتے ہیں اور دوسرے طریقوں میں یہ مشقت ریاضتوں اور شدید مجاہدوں کے ذریعے سے منزلیں قطع کرتے ہیں اور جذبہ محبوبیت کی صفت کو چاہتا ہے ، جب تک آدمی محبوب نہ بن جائے اسے جذب نہیں کرتے اور محبوبیت کی حقیقت محبوب رب العالمین ﷺ کی متابعت اور پیروی سے وابستہ ہے، آیت کریمہ فَٱتَّبِعُونِي يُحۡبِبۡكُمُ ٱللَّهُ لہذا میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت فرمائے گا )اس مضمون پر شاہد ہے، لہذا جس قدر متابعت کامل تر ہو گی اسی قدر جذ بہ زیادہ ہوگا، لہذا کامل متابعت اور پیروی ان بزرگوں کے طریقہ کی شرط ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو سکا ان حضرات نے عزیمت ہی پر عمل فرمایاحتی کہ ذکر بالجھر سے بھی جو اس راہ میں بڑی عمدہ چیز ہے ان حضرات نے منع کر دیا اور سماع اور رقص سے بھی جوار باب احوال کا مرغوب ترین خلاصہ ہے ان حضرات نے اجتناب فرمایا ہے ، نیز ظاہر ہے کہ جو کمال متابعت پر مرتب ہو گا وہ تمام دوسرے کمالات سے بلند درجہ پر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ ان بزرگوں نے فرمایا ہے ، ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بلند ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے ہی فضل والا ہے، لہذا طالبان حق کے لیے اس طریق کو اختیار کرنا زیادہ بہتر اور زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ راستہ انتہائی نزدیک تر ہے اور مطلوب انتہائی طور پر بلند ہے اور اللہ سجا نہ ہی توفیق عطا فرمانے والا ہے ۔
معرفت : :نمبر 41
حضور انور ﷺ کے فضائل
حضرت محمد مصطفےﷺ اولاد آدم کے سردار اور آقاہیں اور قیامت کے دن سب سے زیادہ تعداد آپ ﷺ کے پیروکاروں کی ہوگی ، آپ ﷺ اللہ کے نزدیک اولین و آخرین میں سب سے زیادہ معزز ہیں، (قیامت کے روز ) آپ ﷺ سب سے پہلے قبر شریف سے باہر تشریف لائیں گے ، آپ ﷺسب سے پہلے شفاعت فرمانے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپ ﷺ کی شفاعت قبول ہو گی ، سب سے پہلے آپ ہی جنت کا درواز کھنکھنا ئیں گے اور دروازہ آپ کیلئے کھول دیا جائے گا، قیامت کے دن حمد کا جھنڈا آپ ﷺکے ہاتھ میں ہو گا اور اس جھنڈے کے نیچے آدم اور تمام انبیاء علیہم السلام ہوں گے اور تمام لوگ ہوں گے، آپ سﷺ کی وہ ہستی مبارک ہے جس کے متعلق آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ ہم( دنیا میں ) سب سے بعد میں آنے والے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہتا ہوں کہ میں اللہ کا حبیب ہوں، میں رسولوں کا امام و پیشوا ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے، میں خاتم النہین ہوں ، مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں ہے، میں محمد ابن عبد اللہ ابن عبد المطلب ہوں، (یعنی انسانوں )میں بنایا گیا ہوں پھر ان (انسانوں ) کی دو جماعتیں بنا ئیں تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں سے بنایا ، پھر ان کے خاندان اور قبیلے بنائے گئے تو مجھے ان میں سے بہترین خاندان سے بنایا ، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانے میں سے بہترین انسان بنایا ، لہذا میں ان کے گھرانوں کے اعتبار سے بہترین اور اپنی ذات کے اعتبار سے بہترین ہوں ، جب لوگ (قیامت میں )اٹھائے جائیں گے تو میں سب سے پہلا (قبر مبارک سے ) باہر آنے والا ہوں گا ، جب وہ ( حق تعالی حضوری میں )وفد کے طور پر جائیں گے تو میں ان کا پیشوا ہوں گا ، جب دو سب خاموش رہیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا ، جب وہ سب روک دیئے جائیں گے تو میری ہی سفارش قبول کی جائے گی ، جب وہ سب مایوس ہو جائیں گے تو میں ہی ان کو بشارت دینے والا ہوں گا، عظمت و بزرگی اور نجات کی کنجیاں اس روز میرے ہی ہاتھ میں ہوں گی ، حمد کا جھنڈا (لوائے حمد ) اس دن میرے ہی ہاتھ میں ہو گا، میں اپنے پروردگار کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے زیادہ معزز و محترم ہوں گا ، میرے گرد ایک ہزار خادم طواف کر رہے ہوں گے جو روشن موتیوں کی طرح ہوں گے ، جب قیامت کا دن ہوگا تو میں ہی انبیا کرام کا امام اور خطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نا ز نہیں ہے، (واقعی ) اگر آپ نہ ہوتے تو حق تعالی و سبحانہ مخلوق کو پیدا نہ کرتا اور نہ اپنی ربوبیت کا اظہار فرماتا اور آپ اس وقت بھی نبی تھے جب کہ حضرت آدم ہنوز مٹی اور پانی کے درمیان تھے ۔
نما ند بعصیاں کسے در گرو که و ارد چنیں سید پیشرو
کب گناہوں میں رہے وہ مبتلا جس کے رہبر ہوں محمد مصطفے ﷺ
خسران مخالفین :لہذا اس روشن شریعت والی ہستی( حضور پر نور ﷺ) کے منکر اور اس ملت زہرا کے بانی رسول اکرم ﷺکے مخالف ساری مخلوقات میں بد بخت ترین لوگ ہیں ‘ ٱلۡأَعۡرَابُ أَشَدُّ كُفۡرٗا وَنِفَاقٗا ( بدوی لوگ کفر ونفاق کے اعتبار سے سخت ترین آدمی ہیں) یہ فرمان الہی ان کی حالت کا پتا دیتا ہے، تعجب ہے کہ بعض پختہ اور ناقص در ویش جو اپنے خیالی کشف کو معتبر سمجھتے ہیں اور اس روشن شریعت کی مخالفت اور انکار میں پیش قدمی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس کلیمی اور قرب کے باوجود دنیا میں زندہ ہوتے تو اس شریعت کی متابعت کے بغیر عمل نہ کرتے اس فقیر بے برگ و سر کو ان کی مخالفت سے کیا غرض ؟ وہ خود پنے آپ کو خراب کرتے ہیں اور الحاد و زندقہ سے متہم ہیں ، یہ بھی عجیب تر ہے کہ اہل عقل اور اہل تمیز حضرات بھی ان کی پیروی کرتے ہیں اور شریعت کی جانب اصلا نہیں دیکھتے حالانکہ وہ ان( صوفیا خام ) کا نقصان مکمل طور پر جانتے ہیں یاپھر ان کی نظر میں وہ باتیں شریعت کی مخالف نہیں ہیں تو کیا جس کے لیے اس کا برا عمل اچھا ظاہر کیا گیا ہے وہ اسے اچھا ہی گمان کرتا ہے یا پھر وہ ان کی باتوں کو شریعت کے مخالف سمجھتے ہیں لیکن خیال کرتے ہیں کہ حقیقت شریعت کے مخالف ہے اور یہ عین الحاد اور زندقہ ہے ، ہر وہ حقیقت جسے شریعت رد کر دے زندقہ ہی ہوتی ہے۔ یہ فقیر اس جماعت کے بعض کشفی عقائد کا یہاں ذکر کرتا ہے ، انصاف کرنا چاہئے کہ آیا وہ اس قدر شریعت کے مخالف ہیں یا کسی صحیح تاویل کے قابل بھی نہیں ہیں یا مخالف نہیں ہیں ، اس جماعت کا شیخ اور رئیس اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ روح انسانی خصوصیت کے ساتھ حق تعالی وتقدس کی عین ذات ہے اور ان دو آیات کریمہ کو اس پر بطور استدلال کے پیش کرتا ہے۔
وَجَآءَ رَبُّكَ وَٱلۡمَلَكُ صَفّٗا صَفّٗا ، اور تیرا پروردگار آئے گا اور فرشتے صف بستہ آئیں گے۔
يَوۡمَ يَقُومُ ٱلرُّوحُ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ صَفّٗاۖ ، جس دن روح کھڑی ہوگی اور فرشتے صف بستہ ہوں گے ۔
ان میں سے ایک آیت میں فرشتوں کے ساتھ کے رب( کا آنا ) فرمایا ہے اور دوسری آیت میں روح( کا آنا ) فرمایا ہے، لہذا رب اور روح ایک ہی چیز ہوں گے اور یہ اتحاد تو حید وجودی کی قسم سے نہیں ہوا کیونکہ وہ روح کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام عالم اس میں برابر کا حصہ دار ہے۔
اس کتاب میں وہ دوسری جگہ کہتا ہے کہ ابدال میں سے کچھ لوگ جو غاروں میں رہتے ہیں اور وہ کل ستر فرد ہوتے ہیں، قیامت قائم ہونے تک رہیں گے اور انہیں موت نہیں آتی ، وہ طبائعی وجو در کھتے ہیں اور یہ بات نص قرآنی كُلُّ نَفۡسٖ ذَآئِقَةُ ٱلۡمَوۡتِۗ ، ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے کچھ کے خلاف ہے، ایک دوسری جگہ آخرت کے حالات میں لکھتا ہے کہ مبداء سے معاد تک دو عالم ہیں، دنیا اور آخرت اور ان دونوں عالموں میں ہر ایک نے چھ مرتبہ تر تیب پائی ہے، دنیا میں نزول کے انداز پر اور آخرت میں ترقی کے انداز پر ۔
اور ترقی کی ترتیب کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ زمین پارہ پارہ ہو کر اس کے اجزا پانی میں منتشر ہو جائیں گے ، اس کے بعد تمام مخلوقات پانی میں غرق ہو جائے گی اور یہ جو صاحب شریعت فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن تمام مخلوق پیسنے میں غرق ہو جائے گی پیسنے سے مراد یہی طوفان ہے، وہ وقت ترقی کا وقت ہوگا کہ سب کے سب ذات احدیت کی جانب جو حیات دنیوی کے مراتب کا سر چشمہ اور عزت الہی جل شانہ کا سرا (پردہ ) بارگاہ کی ہے متوجہ ہو جائیں گے لیکن ہر شخص اپنی اپنی شناخت اور دریافت کی مقدار کے مطابق ان تمام مراتب میں سے ہر مرتبہ میں ہوگا اور تمام مخلوق کی تین جماعتیں بن جائیں گی سابقین ، اصحاب یمین ، اصحاب شمال۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ پانی بھی جو آگ کی حرارت کی وجہ سے آیا ہوا ہو گا خشک ہو جائے گا اور سب کا سب ہو ا بن جائے گا اور قیامت کی ہولنا کی سے یہی مرتبہ مراد ہے کہ اکثر خلائق تشنہ لب اور پیاسی ہو گی ، اس کے بعد وہ ہوا بھی کرہ آتشی کی حرارت سے آگ بن جائے گی اور سب کو اسی آگ پر سے گزرنا ہوگا ، دوزخ سے مراد یہی عالم عنصری ہے جو سب کا سب آگ بن جائے گا، یہ دوزخ قمر( چاند ) آسمان کے نیچے واقع ہوگی ، دوزخ کے درجات میں سے ہر درجہ میں اپنے عمل اور حجاب کی مقدار کے مطابق ایک گروہ عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گا ، باقی لوگ جو اس مقام سے گزر گئے ہوں گے وہ عالم نور میں رہیں گے اور بہشت سے مراد یہی عالم نور ہے کہ افلاک کے طبقات میں سے ہر طبقہ مراتب بہشت ہی کا ایک مرتبہ ہوگا اور یہ بہشت فلک قمر سے لیکر عرش کے نیچے تک آٹھ آسمانوں پر مشتمل ہوگی ، لہذا آٹھ بہشتیں ہوں گی، کچھ لوگ اس مرتبہ میں سکونت رکھیں گے اور ان کی راحتوں میں وہ راضی ، خوش اور خرم ہوں گے، یہ ان کے عمل کی مقدار کے مطابق ہو گا اور کچھ دوسرے حضرات جو انبیا عظام اور اولیا کرام کے گروہ سے ہوں گے وہ اس مرتبہ سے بھی آگے نکل جائیں گے اور لقا (دیدار ) الہی کی طرف متوجہ اور وصال کے منتظر ہوں گے، ان حضرات پر نہ آگ کی گرمی کا کوئی اثر ہوگا اور نہ راحت نور کی کوئی تاثیر ہوگی ، یہ حضرات دیدار حق میں مستغرق ہوں گے ، مقام محمود ان کا مقام ہوگا قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ پھر رہ گیا فرق دو کمانوں کے برابر یا اس سے زیادہ قریب تر ) سے اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہے، یہ مقام عرش کے اوپر ہو گا ، ان ہی حضرات کی شان میں یہ حدیث وارد ہوتی ہے ان لله تعالى جنة ليس فيها حور ولا قصور وفيها يتجلى ربنا ضاحكا (یعنی اللہ تعالیٰ کی ایک جنت ایسی بھی ہے جس میں حوریں ہوں گی نہ محلات ہوں گے اس میں ہمارا پروردگار ہنستا ہوا تجلی فرمائے گا )
ہر اس شخص پر جو ادنی سی تمیز بھی رکھتا ہو یہ بات پوشید ہ نہیں رہتی کہ یہ تمام باتیں شریعت کے خلاف ہیں یا نہیں ہے دوزخ کو اس نے ایک آتشی کرہ سے تعبیر کیا اور زمین ، پانی اور ہوا کو اس میں گم کر دیا، بہشت سے عالم نور مرا دلیا جو فلک قمر سے لیکر عرش کے نیچے تک ہوگا ، انبیا اور اولیا کیلئے عرش سے اوپر جگہ ثابت کر دی نہ کہ بہشت میں، یہ ساری باتیں شریعت کی کا صریح مخالفت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہیں ، اہل سنت و جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ دوزخ اس وقت موجود ہے اور جنت بھی اور انبیا و اولیا اور تمام مومنین اپنے درجوں اور مرتبوں کے تفاوت کے مطابق جنت میں ہی ہوں گے، یہ نہیں کہ وہ جنت سے گزر کر عرش کے اوپر چلے جائیں گے اور وہیں قیام کریں گے ، یہ سب خیالی ڈھکوسلے ہیں ، کنایہ سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ، ان باتوں میں بہشت کے اندر دیدار الہی کے وجود کا انکار ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ عرش کے اوپر پہنچ کر لقا ہوگا اور عرش کے اوپر اس نے ایک الگ جنت دیدار بنائی جس میں نہ حور یں ہوں گی نہ محلات ہوں گے ، لہذا عام مومنین( لقاء دیدار الہی) سے بے نصیب ہوں گے، اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اس قسم کے تخیلات فاسدہ سے محفوظ رکھے ۔ مقام محمود کو جو حضرت محمد مصطفے ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی طرح اوادنی کے مقام کو اس شخص نے تمام انبیا اور اولیا کا حصہ قرار دیا ہے، یہ بلا شبہ ایک بہتان کے سوا کچھ نہیں ہے، اس کی ان مذکورہ باتوں سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ وہ کفار کیلئے عذاب کو بھی ابدی نہیں سمجھتا ، اسی طرح جنت کی نعمتوں کو بھی دائمی اور ابدی نہیں مانتا اور یہ خود صریح کفر ہے اور جو چیز اس معنی پر دلالت کرتی ہے خود اس کی عبارت ہے جو عذاب وثواب کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے کہ وہ عمل کی مقدار کے مطابق ہوگا، سیاق (آگے آنے والی عبارت) میں بھی اس کی تصریح ہے، اسے خوب سمجھ لو ، صاحب فصوص نے جو عذاب ابدی کے بارے میں کلام کیا ہے وہ اس کی وجہ سے مطعون خلائق ہو گیا ہے تو وہ لوگ مطعون کیوں نہیں ہوں گے جو ثواب ابدی ہی کا انکار کرتے ہیں ۔
اور آخر میں وہ یہ بات لکھتا ہے کہ اس کے بعد جب ہائے ہویت سے ذات احدیت کے دریچہ سے ان کے اوپر آفتاب ذات چھلکے گا تو اولین و آخرین تمام مخلوقات یعنی جو مراتب نار میں محجوب ہوں گے وہ بھی اور جو مقام نور میں مستور ہوں گے وہ بھی اور جن لوگوں کی نشیمن گاہ مقام محمود و گا وہ بھی سب کے سب اس جمال کے پرتو میں گم ہو جائیں گے اور دریائے لاہوت میں فنا ہو جائیں گے، نہ بہشت کا کوئی اثر باقی رہے گا اور نہ دوزخ کا کوئی شرارہ، اس مقام پر نہ جلنا ہو گا نہ کسی طرح کا بناؤ سنوار ہوگا، نہ حیرانی ہوگی نہ انتظار ہوگا، نہ زندگی ہو گی نہ موت ہو گی ، کیونکہ سب کے سب ذات بن جائیں گے اور جیسا کہ ازل میں تھا اسی طرح ابدی ہو جائیگا، اس کے بعد وہی دونوں عالم یعنی ایک عالم نور جس میں بہشت کے طبقات ہیں اور دوسرا عالم نار جس میں دوزخ کے درجات میں جمال و جلال کی تجلی سے ظہور میں آئیں گے، کیونکہ ابتدائے عالم میں بھی ان ہی دونوں صفتوں کی تجلی سے ظہور میں آئے تھے، لیکن وہ وہاں بالا مکان ممکن ہونے کے ساتھ کم تھے اور یہاں بالوجوب ( واجب ہونے کے ساتھ) ہوں گے ، اہل بہشت اپنے مرتبہ میں سکونت کریں گے اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اہل دوزخ اپنے او پر محجوب رہیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، ان دو تجلیوں کے بعد کوئی اور تجلی محمود نہیں اور ذات کسی تعین کے ساتھ منسوب نہیں تھی۔ ان باتوں سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جنت اور دوزخ با وجود یکہ آخرت میں داخل ہیں فنا ہو جائیں گے غور کرنا چاہئے کہ یہ بات کفر تک پہنچا دیتی ہے یا نہیں، جو ظہور ان کے زوال کے بعد حاصل ہوا اس ظہور کو وہ بالوجوب (و اجب الوجود ) کہتا ہے اورظہور دنیا کو بالا مکان ( ممکن الوجود) سجھتا ہے کا غور کرنا چاہئے کہ اہل بہشت اور اہل دوزخ کو واجب کہنا کفر ہے یا نہیں؟ نیز اسی عبارت سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ انبیا اور اولیا ہمیشہ ذات( احدیت ) میں عدم کے اندر زوال پذیر اور مضمحل رہیں گے اور انہیں ہرگز وجود حاصل نہیں ہوگا۔ یہ بھی صریح کفر ہے۔ انبیاء اور اولیا ہمیشہ بہشت میں رہیں گے بغیر عدم اور بغیر زوال کے اور اس کی عبارت سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ انبیا کرام گروہ سابقین میں سے ہیں اور سابقین عرش کے اوپر رہیں گے جہاں نہ حوریں ہیں نہ محلات نہ تنعم ہے نہ راحت یہ بات بھی نص قطعی کے خلاف ہے، حق سبحانہ و تعالی سابقین کے بارے میں تنعمات کا اثبات فرماتا ہے اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا بھی اثبات فرما ہے ہے تو اس کا یہ قول نص کی مخالفت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس شخص نے ان تمام نعمتوں کو جو قرآن مجید میں سابقین کے بارے میں واقع ہوئی ہیں اہل یمین کے بارے میں ثابت کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، آیت کریمہ عَلَىٰ سُرُرٖ مَّوۡضُونَةٖ ١٥ مُّتَّكِـِٔينَ وہ جڑاؤ تختوں پر بیٹھے ہوں گے تکیہ لگائے ہوئے سابقین کے بارے میں ہے اور یہ شخص اس آیت کریمہ کو بھی اہل یمین کے بارے میں بیان کرتا ہے اور سابقین کو نعمتوں سے محروم کرتا ہے کیونکہ یہ شخص قرآن مجید سے بالکل جاہل ہے اور اس کتاب کے آخر میں ایک اور اضافہ کرتا ہے اور تو حید وجودی میں شیخ عطار اور مولوی رومی کی تقلید کرتا ہے اور اضافہ میں لکھتا ہے کہ وہ خود بھی شیطان ہوگا ( نعوذ باللہ من ذالک کے اس کلمہ کی قباحت سے ہم حق سبحانہ و تعالی کی پناہ مانگتے ہیں حق سبحانہ و تعالی کو اس کلمہ سے یاد کر نا صحیح ترین قباحت ہے اور شدید ترین کفر ہے۔
ارباب توحید اگر چہ ہمہ اوست کہتے ہیں لیکن اس قسم کے قبیح الفاظ کے اطلاق کو وہ بھی جائز نہیں رکھتے ، حق سبحانہ وتعالی کو شریعت میں خالق کل شی ء ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے کہتے ہیں لیکن ‘ خالق النجس والقاذور، ناپاک اور گندی چیزوں کو پیدا کرنے والا )کہنا جائز قرار نہیں دیتے ، اس عبارت میں اس قسم کی باتیں اگر کوئی شخص تلاش کرے تو بہت سی باتیں ظاہر ہوں گی لیکن ان تھوڑی سی باتوں ہی سے بہت سی باتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،
سالے کہ نکوست از بهارش پیداست وه سال اچھا ہے جس کی بہار اچھی ہے
اس فقیر نے اس کی بیہودہ باتوں میں سے چند باتیں اس رسالے میں بیان کی ہیں تاکہ لوگ اس کے کام کی برائی ( برے عقائد ) سے واقف ہوئیں اور اس کی تقلید کر کے اہل الحاد کے گروہ میں شامل نہ ہوں ، اگر وہ اس کے باوجود بھی اس جماعت کی تقلید ہی کو اختیار کریں گے تو حجت ان لوگوں پر ہو چکی ہوگی۔
الحمد لله اولا و آخر أو الصلوة والسلام على رسوله محمد واله دائماً سرمداً و السلام على من اتبع الهدى اور اول و آخر اللہ تعالیٰ کی حمد اور محمد رسول اللہ ﷺ پر دائمی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں اور سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔