اس بیان میں کہ محبوب محب کی نظر میں ہر حال میں محبوب ہے، خواہ انعام فرمائے خواه دردپہنچائے بلکہ اقل، وبعض کے نزدیک رنج کا پہنچانا انعام کی نسبت زیادہ محبت بخشتا ہے اور شکر پرحمد کی زیادتی کے بیان میں مولانا محمد صالح کو لابی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔) و برادر عزیز مولانا محمد صالح کو واضح ہو کہ محبوب محب کی نظر میں ہر حال میں بلکہ نفس الامر میں ہر وقت و ہر حال میں محبوب ہے، خواہ رنج پہنچائے اور خواہ انعام فرمائے۔ اکثرلوگوں کے نزدیک جو دولت محبت سے مشرف ہوئے ہیں، ایلام (تکلیف)کی نسبت انعام میں محبوب کی زیادہ محبت ہے یا دونوں حالتوں میں محبت برابر و یکساں ہے اور اقل وبعض کے نزدیک اس کے برعکس ہے اور ایلام انعام کی نسبت زیادہ محبت بخش ہیں۔ اس دولت عظمی کا مقد مہ محبوب پرحسن ظن ہے حتی کہ اگر محبوب محب کے حلقوم پر خنجر چلا دے اور اس کے اعضاء کو ایک دوسرے سے الگ کر دے تو محب اس کو اپنی عین صلاح جانے اور اپنی بہتری تصور کرے۔ جب اس کے حسن ظن کے حاصل ہونے سے محبوب کے فعل کی کراہت محب کی نظر سے دور ہو جائے تو محبت ذاتی کی دولت سے جو حبیب رب العالمین ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور تمام نسبتوں اور اعتباروں سے معرا ہے۔ مشرف ہو جاتا ہے اور محبوب کے ایلام میں اس کے انعام کی نسبت زیادہ لذت و خوشی پاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ مقام مقام رضاسے برتر و بلند ہے کیونکہ رضا میں محبوب کے فعل ایلام کی کراہت کا دفع کرنا مقصود ہوتا ہے اور یہاں اس فعل سے لذت حاصل ہوتی ہے کیونکہ محبوب کی جانب سے جس قدر جفا زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدرمحب کی جانب سے فرح وسرور زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ چونکہ محبوب محب کی نظر میں بلکہ نفس الامر میں ہر وقت و ہر حال میں محبوب ہے، اس لیے محبوب ہروقت وہر حال میں بالکل نفس الامر میں محمود اور ممدوح بھی ہوگا اور محب اس کے ایلام و انعام کے وقت اس کی ثناء و مدح کرے گا۔ اسم وقت اس محب کو واجب ہے کہ صادق و مصدق ہو کر کہے۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ عَلَى كُلِّ حَالٍ اور اس وقت محب حقیقی طور پر رنج و خوشی میں الله تعالی کا حمد کرنے والا ہوتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ شکر پرحمد کی زیادتی اسی سبب سے ہے کہ شکر میں منعم کا انعام ملحوظ ہوتا ہے جو صفت بلکہ فعل کی طرف راجع ہے اور حمد میں محمود کا حسن و جمال ملحوظ ہوتا ہے۔ خواہ ذاتی ہو یا فعلی اور خواہ انعام ہو یا ایلام کیونکہ حق تعالی کا ایلام اس کے انعام کی طرح حسن ہے۔
پس حمد ثناء میں زیادہ بلیغ اور حسن و جمال کے مرتبوں کا زیادہ جامع اور رنج و خوشی کی دونوں حالتوں میں دیر تک باقی رہنے والا ہے۔ برخلاف شکر کے کہ بسبب اپنے تصور کے سریع الزوال ہے اور انعام و احسان کے دور ہونے سے دور ہو جاتا ہے۔
سوال: تو نے اپنے بعض مکتوبات(مکتوب 2دفتردوم ) میں لکھا ہے کہ مقام رضا مقام محبت و مقام حب کے اوپر ہے اور یہاں تو لکھتا ہے کہ یہ مقام محبت مقام رضاسے برتر ہے۔ ان دونوں باتوں کے درمیان موافقت کس طرح ہے؟
. جواب: یہ مقام محبت اس مقام محبت وحب کے ماسوا ہے کیونکہ وہ مقام اجمالی اورتفصیلی طور پر نسبتوں اور اعتباروں پرمشتمل ہے۔ اگر چہ محبت کو محبت ذاتیہ کہتے ہیں اور اس حب کو حب ذاتی تصور کرتے ہیں کیونکہ وہاں شیون و اعتبارات کے ملاحظہ سے نظر قطع نہیں ہوتی۔ برخلاف اس مقام کے جوتمام نسبتوں اور اعتباروں سے مبرا ہے۔ جیسے کہ گزر چکا اور یہ جو بعض مکتوبات(مکتوب 7دفتردوم ) میں درج ہو چکا ہے کہ مقام رضا سے اوپر حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کے سوا اور کسی کو رسائی نہیں۔ شاید اسی مقام سے مراد ہے جو حضرت علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے۔ والله سبحانه أعلم بحقائق الأمور امور کی حقیقت کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ ظاہر کی کراہت باطنی رضا کے منافی نہیں اور ظاہری کڑواہٹ حقیقی حلاوت کے برخلاف نہیں کیونکہ عارف کامل کے ظاہر وصورت کوصفات بشریت پر مقرر کیا ہے تا کہ اس کے کمالات کا پردہ ہوں اور آزمائش و امتحان کامحل بنے اورحق باطل کے ساتھ ملا رہے۔ عارف کامل کے اس ظاہر و صورت کو اس کے باطن و حقیقت کے ساتھ وہی نسبت ہے جو کپڑے کو پہننے والے شخص کے ساتھ نسبت ہے اور معلوم ہے کہ کپڑے کوشخص کے ساتھ کیا نسبت ہے۔ یہی حال عارف کی صورت کا اس کی حقیقت کے مقابلہ میں ہے۔ عارف کی اس صورت کو نادان اور بے بصر لوگ اپنی طرح خیال کرتے ہیں اور اپنی بے حقیقت صورتوں کی مانند سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کا انکار کر دیتے ہیں اور ان کے کمالات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ97ناشر ادارہ مجددیہ کراچی