روح کی نعمتیں (چوبیسواں باب)

روح کی نعمتیں کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 223 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

چوبیسواں باب

دوامی نعمت اور نعمت کو ختم کرنے والی اشیاء کے بیان میں
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری )  فرماتے ہے :-
223)النَّعِيمَ وَإِنْ تَنَوَّعَتْ مَظَاهِرُهُ إِنَّمَا هُوَ بِشُهُودِهِ وَاقْتِرَابِهِ ، وَالْعَذَابَ وَإِنْ تَنَوَّعَتْ مَظَاهِرُهُ إِنَّمَا هُوَ بِوُجُودِ حِجَابِهِ ، فَسَبَبُ الْعَذَابِ وُجُودُ الْحِجَابِ ، وَإِتْمَامُ النَّعِيمِ بِالنَّظَرِ إِلَى وَجْهِهِ الْكَرِيمِ.
نعمت ، اگر چہ اس کے مظاہر مختلف قسم کے ہیں ، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے قرب اور شہود کی بنا پر ہے۔ اور عذاب ،اگر چہ اس کے مظاہر مختلف قسم کے ہیں۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ سے حجاب کی بنا پر ہے ۔ لہذا عذاب کا سبب – اللہ تعالیٰ سے حجاب کا ہونا ہے اور نعمت کا کمال :- اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہونا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ روح کی نعمت اور اس کا عذاب صرف اس کے رب کے شہود اور حجاب سے ہے ۔ اور یہ حالت روح کے عالم اجسام سے نکل جانے اور عالم ارواح کی طرف اس کی ترقی کرنے کے بعد ہوتی ہے۔ لہذا اس وقت اس کی نعمت :- وصال اور جمال کی خوشبو ہے اور اس کاعذاب – جمال کے مشاہدہ سے اس کا محجوب ہونا اور اللہ بزرگ و برتر سے اس کا دور ہونا ہے۔ اور یہ تمام مخلوقات ( جن وانس ) کو آخرت میں حاصل ہوگی۔ اس لئے کہ آخرت میں حق باطل سے جدا ہو جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنا ٹھکانا پہچان لے گا۔ اہل جنت :- اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی لذت محسوس کریں گے ۔ اور اپنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا قرب معلوم کریں گے۔ لیکن ان لوگوں کے علم میں ایک دوسرے سے فرق ہوگا ۔ ان میں سے کچھ تو لوگ ایسے ہوں گے جن کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار چادر کے پیچھے سے کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو یہ معلوم ہوگا۔ کہ وہ چادر کے اندر داخل ہو کر اس کا دیدار کر رہے ہیں ۔
بخاری شریف میں یہ حدیث شریف روایت کی گئی ہے۔
وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا ‌رِدَاءُ ‌الْكِبْرِيَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ
لوگوں کے اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کے درمیان ، جنت عدن میں کبریائی کی چادر حائل ہوگی ۔
اور اس چادر کو صرف اہل ذوق ہی سمجھیں گے۔
اور اہل دوزخ – اللہ تعالیٰ سے دوری محسوس کریں گے۔ اس لئے ان کا عذاب دوگنا ہو جائیگا اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اپنے جمال کی صفت کے ساتھ تجلی کرتا تو وہ اس دن عذاب کی تکلیف بھول جاتے اور اگر اہل جنت سے اس دن اللہ تعالیٰ محجوب ہو جاتا تو جنت کی وسعت ان کے اوپر تنگ ہو جاتی ۔ اور ان کی نعمت عذاب بن جاتی ۔
لیکن جو لوگ دنیا میں عارف باللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان سے محجوب نہ ہو گا۔ جس طرح یہاں وہ اس کو اس کے انوار کے واسطہ سے دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح وہاں وہ اس کو اس کے اسرار کے لطائف سے دیکھیں گے ۔ بلکہ اس سے بہتر طریقے پر دیکھیں گے۔ کیونکہ باطن ظاہر پر اور قدرت حکمت پر غالب ہو گی ۔ اور جو شخص یہاں محجوب ہے، وہ وہاں بھی محجوب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے:۔
وَ مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى اور جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے، وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا ۔
اس آیہ کریمہ کی دو تفسیریں ہیں: ایک ظاہری ۔ دوسری ، باطنی ۔ لیکن آخرت میں بدن کی لطافت کی بنا پر حجاب بھی لطیف ہو گا۔ اس لئے ان کی نعمت قرب کے دیکھنے ہی سے مکمل ہوگی ۔ لیکن جب وہ قرب ان سے کم ہو جائے گا ، تو ان کی نعمت تلخ ہو جائے گی۔ کیونکہ آخرت میں علم ارواح کے لئے جاری ہو گا۔ اور اس دنیا میں حکم اجسام کے لئے جاری ہے۔ لیکن جو لوگ اس دنیا میں ترقی کر کے عالم ارواح تک پہنچ جاتے ہیں، وہ اہل جنت میں سے ہیں۔ لہذا ان کی نعمت ارواح کی نعمت ہے اور وہ وصال کی خوشبو اور کمال کا مشہود ہے۔ لہذا ان کی نعمت :- اللہ تعالیٰ کے قرب اور رضامندی کا دیکھنا ہے۔ اس لئے اگر ان سے قرب کا شہودزائل ہو جائے یا رضامندی کی مدد منقطع ہو جائے تو جنت کی وسعت ان کے لئے تنگ ہو جائے گی۔
لیکن اجسام کی نعمت اور ان کا عذاب۔ یعنی جو لوگ اجسام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے محجوب ہیں۔ ان کی نعمت اور عذاب ۔ اس چیز کی موافقت یا مخالفت کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو ان میں طبیعت کے مناسب ہے۔ لہذا جب تندرستی اور آرام اور محسوس ظاہری خوبصورتی ، جو ان کی طبیعت کے موافق ہوتی ہے، ان کو حاصل ہوتی ہے۔ تو وہ ان کے حق میں نعمت ثابت ہوتی ہے ۔ اور جب ان کی طبیعت کے مخالف کسی طرح کا در دیا کچھ گم ہو جانا کچھ رک جانا یا کوئی فتنہ ان کو لاحق ہوتا ہے تو وہ ان کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ اس لئے ان کے لئے نہ قرب کی لذت میں کچھ لطف ہے۔ نہ دوری کی تلخی میں کچھ خرابی ہے۔ لہذادر حقیقت نعمت میں ان کا حصہ جانوروں کے حصے کی طرح ہے ۔ ہاں اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ان کی عادتیں ختم ہو جائیں ۔ اور ان کے محسوس عذاب کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان کے سامنے جمال کی صفت کے ساتھ تجلی کرے تو وہ اس عذاب کو بھول جا ئیں گے۔ حاصل یہ ہے ۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا کلام اہل قرب یا اہل شہود کے لئے ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ قرب اور شہود کی لذت کو حاصل کرتے ہیں۔ اور دوری اور حجاب کی سختی کو محسوس کرتے ہیں۔ خواہ وہ اس دنیا میں ہوں خواہ آخرت میں۔ جو کچھ میرے او پر منکشف ہوا وہ میں نے بیان کر دیا ہے۔ اور جو کچھ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بیان کیا ہے اہل عشق اس کو چکھ چکے ہیں۔
چنانچہ بہت سے عاشق ایسے ہوئے ہیں۔ جن کے اوپر ان کے محبوب کے سامنے مار پڑی۔ لیکن انہوں نے چوٹ کے درد کو محسوس نہیں کیا لیکن جب محبوب ان سا منے سےغائب ہو گیا، تو وہ رونے اور فریاد کرنے لگے۔ اور جب ان سے اس کیفیت کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے جواب دیا ۔ جب وہ حاضر تھا اور دیکھ رہا تھا، جس کے لئے میرے او پر مار پڑ رہی تھی ۔ تو میں مارنے کے درد سے بے حس اور بے خبر تھا۔ لیکن جب وہ میرے سامنے سے غائب ہو گیا ۔ تو مارنے کا درد مجھ کو محسوس ہوا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اس حقیقت کی بنا پر عارفین نے فاقوں اور ہر قسم کی مصیبتوں اور آفتوں کو لذیذ سمجھا۔ کیونکہ ان میں انہوں نے اپنے محبوب کے سامنے ہونے اور اس کے راضی ہونے کا مزہ چکھا۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے تھے ۔ سنو ! تین نا پسند اشیاء ، سب اشیاء سے زیادہ مجھ کو پسند اور عزیز ہیں ۔ فقر اور مرض اور موت ۔
حضرت بلال کی زوجہ محترمہ موت کے وقت شیخ کو کہہ رہی تھیں ( واکر باہ ) ہائے اے تکلیف ۔ اور حضرت بلال موت کے وقت فرمار ہے تھے ۔ و اطر باہ واہ ر سے خوشی کل میں اپنے دوستوں حضرت محمدﷺ اور ان کے اصحاب کرام سے ملاقات کروں گا۔ حضرت عامر بن فہیر ہ رضی اللہ عنہ کو جب پیٹھ میں نیز ہ مارا گیا۔ اور وہ سینہ پار کر کے نکل گیا۔ تو انہوں نے فرمایا ۔ فُزتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا ۔ اور ایک ولی اللہ کوڑھی تھے ۔ وہ بیماروں کے لئے دعا کرتے تھے ۔ تو وہ لوگ فور اشفایاب ہو جاتے تھے ۔ ان سے لوگوں نے کہا:- آپ اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے ، کہ وہ آپ کو شفا عطا فرمائے ۔ انہوں نے فرمایا ۔ میں نے اللہ رب العزت کو خواب میں دیکھا، کہ وہ مجھ سے کہہ رہا ہے۔ کیا تم اس پر راضی ہو کہ میں تم کو ایک مصیبت میں مبتلا کروں ۔ اور اس کے ذریعے میں تم کو اعلے سے بھی اعلے درجہ پر پہنچا دو؟ میں نے کہا: ہاں، میں راضی ہوں۔ لہذا میں کوڑھی ہو گیا۔ اس لئے تم کو چاہیئے کہ ان بزرگان دین کے حالات میں غور کرو ۔ جب وہ عالم اجسام سے ترقی کر کے عالم ارواح تک پہنچ گئے ، تو ان کے لئے نہ کوئی جسمانی نعمت باقی تھی ، نہ جسمانی عذاب ۔ بلکہ ارواح کی نعمت اور ارواح کا عذاب باقی تھا۔ جسمانی نعمت اور عذاب سے وہ لوگ غائب تھے ۔ لہذا ان لوگوں کی نعمت اور ان کی ارواح کی غذا – ان کے رب تعالیٰ کا ذکر اور اس کے نوریا قرب کا شہود ہوتی تھی۔ اور وہ ان کے لئے ایسی غذا بن گئی تھی ، کہ وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ اور اس سے وہ بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے ۔ اگر وہ اس کو چھوڑ دیتے۔ تو ان کی روحیں ان کے جسموں سے جدا ہو جاتیں ۔ اسی حقیقت کے بارے میں ایک عارف کے یہ اشعار ہیں ۔
بِالْقَوتِ إِحْيَاءُ الْجُسُومِ وَذِكْرُهُ تَحْيَا بِهُ الْأَلْبَابُ وَالْأَرْوَاحُ
جسموں کی زندگی غذا سے ہوتی ہے اور عقلوں اور روحوں کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہوتی ہے۔
هُوَ عَيْشُهُمْ وَوُجُودُهُمْ وَ حَيَاتُهُمْ حَقًّا وَ رُوحُ نُفُوسِهِمْ وَالرَّاحُ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ان کاعیش اور ان کا وجود اور ان کی زندگی اور ان کے نفوس کی روح اور راحت ہے۔
اور میں نے اپنے قصیدہ عینیہ میں کہا ہے ۔
وَلِي لَوْعَةٌ بِالرَّاحِ إِذْ فِيهِ رَاحَتِي وَ رُوحِي وَرَیْحَانِي وَ خَيْرٌ وَاسِعٌ
مجھے کو وحدت کے شراب سے عشق ہے۔ کیونکہ اسی میں میرے لئے راحت اور خوشبودار ہوائیں اور وسیع بھلائی ہے۔
سَكِرْنَا فَهِمْنَا فِي بَهَاءِ جَمَالِهِ فَغِبْنَا عَنِ الْإِحْسَاسِ وَالنُّورُ سَاطِعُ
ہم مست ہو گئے ، پھر اس کے جمال کی رونق میں کھو گئے ۔ پھر احساس سے گم ہو گئے ۔ حالانکہ نور روشن ہے۔
تَبَدَّتْ لَنَا شَمْسُ النَّهَارِ وَأَشْرَقَتْ فلَمْ بَيْقَ ضَوْءُ النَّجْمِ وَالشَّمْسُ طَالِعُ
ہمارے سامنے دن کا سورج ظاہر ہوا اور روشن ہے۔ لہذا ستاروں کی روشنی باقی نہیں رہی۔ اور سورج نکلا ہی رہتا ہے۔ حاصل یہ ہے – ارواح کی نعمت ، یعنی وہ جو اپنے محبوب کا مشاہدہ کرتی ہیں۔ ان سے جدانہیں ہوتی ہے۔ لہذا عارفین کی نعمت ان سے جدا نہیں ہوتی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قرب ختم نہیں ہوتا ہے۔ اور جس شخص کا نفس قرب الہٰی سے دور ہو جاتا ہے، وہ عذاب کو محسوس کرتا ہے اور اس کوغم وفکر اور پریشانیاں اورتکلیفیں لازم ہوتی ہیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں