یاد رہے کہ لوگ ان دو صورتوں سے خالی نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ دونوں (سعادت اور شقاوت) ایک انسان میں بھی پائی جا سکتی ہیں۔ جب انسان کی نیکیاں اور اخلاص غالب آجاتا ہے تو اس کی بدبختی خوش بختی میں بدل جاتی ہے، نفسانیت کی جگہ روحانیت لے لیتی ہے۔ یعنی جب انسان خواہشات نفسانی کی اتباع شروع کر دیتا ہے تو معاملہ اس کے بر عکس ہو جاتا ہے۔ اگر (نیکی اور برائی کی( دو جہتیں مساوی ہو جائیں تو ایسے میں رجاء اور خیر کی توقع رکھنی چاہیئے کیونکہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (انعام:160)
جو کوئی لائے گا ایک نیکی تو اس کے لیے دس ہونگی اور(نیکیاں) اس کی مانند ۔
وضع میزان انہیں دونوں کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ جب خواہشات نفسانیہ مکمل روحانیت کا روپ دھار لیتی ہے تو میزان کی ضرورت نہیں پڑتی اور انسان بغیر حساب کے بار گاہ قدس میں حاضر ہو جاتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جنت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جس شخص میں صرف برائی اور بدبختی ہو وہ بلا حساب و کتاب جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ایک انسان کی برائیاں اور نیکیاں دونوں نامہ اعمال میں درج ہیں۔ اگر نیکیاں زیادہ ہیں تو ایساشخص بلا عذاب جنت میں جائے گا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (القارعہ:6،7)
پس جس کے (نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ دل پسندعیش (ومسرت)میں ہونگے
اور جس شخص کی بر ائیاں زیادہ ہوں گی تو اسے برائیوں کے مطابق عذاب دیا جائے گا۔ پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچایا جائے گا یعنی ایمان شرط ہے۔ (کفار کے لیے دوزخ کا دائمی عذاب ہے)
سعادت و شقاوت سے ہماری مراد نیکیوں اور برائیوں کا ایک دوسرے کی جگہ لینا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا۔
أَنَّ السَّعِيدَ قَدْ يَشْقَى وَأَنَّ الشَّقِيَّ قَدْ يَسْعَدُسعادت مندکبھی بد بخت بن جاتا ہے اور بد بخت سعادت مند ہو جاتا ہے ۔
جب نیکیاں غالب آجاتی ہیں تو انسان سعادت مند شمار ہونے لگتا ہے اور جب برائیاں غالب آجاتی ہیں سعادت مند شقی کہلانے لگتا ہے۔ انسان اگر توبہ کر کے ایمان لائے اور نیک روش اختیار کر لے تو الله تعالی اس کی بدبختی کو خوش بختی میں بدل دیتا ہے۔ رہی ازلی سعادت و شقاوت جو ہر انسان کی تدبیر میں لکھی جا چکی ہے جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔
الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَالسَّعِيدُ مَنْ سَعِدَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ سعید اپنی ماں کے پیٹ میں سعید ہو تا ہے اور شقی اپنی ماں کے پیٹ میں شقی ہو تا ہے۔
تو اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں ۔ کیونکہ یہ راز تقدیر سے تعلق رکھتا ہے اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا۔
صاحب تفسیر البخاری فرماتے ہیں : بہت سے راز ایسے ہیں جنہیں سمجھا تو جاسکتا ہے یعنی ان کے متعلق گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ جیسا کہ تقدیر کاراز۔ ابلیس نے اپنی سرکشی کو تقدیر کے سر تھوپ دیا۔ اسی لیے اس پر لعنت کی گئی جبکہ آدم علیہ السلام نے اپنی خطا کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا۔ اسی وجہ سے وہ کامیاب ہوئے اور ان پر رحم کیا گیا۔
عارف کی حکایت
روایات میں آتا ہے کہ کسی عارف کامل نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : تو نے فیصلہ فرمایا، تونے ارادہ فرمایا۔ تونے ہی میرےنفس میں معصیت کو پیدا کیا غیب سے آواز آئی۔ اے میرے بندے! یہ تو شرط وحدانیت ہے۔ شرط عبودیت تو یہ نہیں(یعنی تجھے یہ بات زیب نہیں دیتی) اس عارف نے پھر التجا کی۔ اور عرض کیا : (مولا!( میں نے خطا کی۔ میں گناہوں میں مبتلا ہوا، میں نے اپنی جان پر ظلم کیے۔ غیب سے پھر آواز آئی : میں نے تیرے گناہ معاف کر دیئے۔ تیری خطاؤں سے در گزر کیا اور تجھ پر رحم و کرم فرمایا :
کچھ لوگوں نے مذکورہ حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ لفظ ام (ماں)سے مراد مجمع العناصر(عناصر اربعہ ہوا، پانی، مٹی اور آگ) ہے جس سے قویٰ بشری تولد ہوتے ہیں۔ مٹی اور پانی سعادت کے مظہر ہیں کیونکہ یہ دونوں حیات بخش ہیں اور دل میں علم، ایمان اور تواضع پیدا کرنے والے ہیں۔ مگر آگ اور ہوا ان کے بر عکس جلانے والی اور موت کا پیغام ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ان دو متضاد خصوصیات کے مادوں کو ایک جسم میں جمع فرمادیا جس طرح کہ بادل میں پانی اور آگ، نور اور ظلمت اکٹھے کر رکھے ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔
هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ (الرعد:12(
وہی ہے جو تمہیں دکھاتا ہے (کبھی) ڈرانے کے لیے اور (کبھی) امید دلانے کے لیے اور اٹھاتا ہے (دوش ہواپر) بھاری بادل“ (بارش برسانے کیلئے پانی سے بھرے ہوئے)
معرفت خداوندی کیسے؟
یحی بن معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا : اللہ تعالی کی پہچان کاذر یعہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا متضاد چیزوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہے اسی لیے انسان ام الکتاب کا نسخہ، اللہ تعالی کے جلال و جمال کا آئینہ اور پوری کائنات کا مجموعہ ہے۔ انسان پوری کائنات اور عالم کبریٰ(سب سے بڑا عالم) کہلاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں یعنی صفت قہر و لطف سے پیدا فرمایا ہے۔ قہر و لطف کی دو متضاد صفات کی وجہ یہ ہے کہ آئینے کی دو جہتیں ہوتی ہیں ایک کثیف اور دوسری لطیف۔ پس انسان دوسرے تمام اشیاء کے برعکس اسم جامع کا مظہر ہے۔ کیونکہ باقی تمام اشیاء کی تخلیق ایک ہاتھ یعنی ایک صفت سے ہوئی ہے۔ رہی صرف صفت لطف تو اس سے صرف ملائکہ جیسی مخلوق کی پیدائش عمل میں آئی ہے۔ اور فرشتے اسم سبوح و قدوس کاہی مظہر ہیں۔
ابلیس اور اس کی ذریت کی پیدائش صفت قہر سے ہے جو کہ اسم الجبار کا مظہر ہے۔ اسی لیے اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ سے انکار کیا اور تکبر میں مبتلا ہو گیا۔
جب انسان پوری کائنات ، علوی(اعلی ترین) و سفلی(پست ترین) کے تمام خواص کا جامع ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ انبیاء و اولیاءلغزش سے خالی ہوں۔پس انبیاء نبوت ورسالت کے بعد کبائر سے معصوم ہوتے ہیں صغائر سے نہیں۔ جبکہ اولیاء معصوم نہیں ہیں۔ ہاں یہ عموما کہا گیا ہے کہ کمال ولایت کے بعد اولیاء کبائر سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
علامات سعادت
حضرت شقيق بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سعادت کی پانچ علامتیں ہیں دل کی نرمی، کثرت بکاء ، دنیا سے بے رغبتی، امیدوں کا کم ہونا اور حیاء کی کثرت۔
اور شقاوت کی پانچ نشانیاں ہیں۔ دل کا سخت ہو نا۔ آنکھوں کا آنسوؤں سے خالی ہو تا، دنیا میں رغبت ،لمبی امیدیں اور حیاء کی کمی۔
حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : علامة السعيد أربعةً : إذا اؤتمن عَدَلَ، وإذا عاهدَ وفَّى، وإذا تكلَّمَ صَدَقَ، وإذا خاصمَ لمْ يشتُمْ. وعلامة الشّقيِّ أربعةٌ : إذا اؤتمن خانَ، وإذا عاهدَ أخلَفَ، وإذا تكلّمَ كذَبَ، وإذا خاصمَ يشتمُ النّاسَ ولا يعفو عنهم
سعادت مند کی چار نشانیاں ہیں۔ جب کوئی امانت سپرد ہو تو عدل کرے گا۔ وعدہ کرے گا تو پورا کرے گا۔ بولے گا تو سچ کہے گا۔ جھگڑے گا تو گالی نہ دے گا ۔ اور بدبخت کی بھی چار نشانیاں ہیں۔ جب اسے امین بنایا جائے گا تو خیانت کرے گا۔ وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کرے گا۔ بولے گا تو جھوٹ بولے گا۔ کسی سے لڑے گا تو گالیاں دے گا اور لوگوں کو معاف نہیں کرے گا۔
حالانکہ معاف کرنا دین اسلام کی عظیم ترین خوبیوں میں سے ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ سے فرمایا
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ(الاعراف:199)
میرے حبیب معاف کرنے کو اپنائیے نیکی کا حکم فرمایئے اور جہلاء سے اعراض کیجیے
اس آیہ کریمہ میں نبی کریم ﷺ سے معاف کرنے کا حکم ہی نہیں فرمایا بلکہ آپ کی امت کے لئے اس پر عمل کا ارشاد ہے کہ یہ حکم عام ہے اس لئے کہ جب بادشاہ کی طرف سے کسی کو حاکم کے کے نام حکم صادر ہوتا ہے تو اس کی ماتحت تمام رعا یا بھی شامل ہوتی ہے گو مخاطب صرف حاکم شہر یاناظم ہوتا ہے
سیدنا غوث اعظم فرماتے ہیں فقیر نے خُذِ الْعَفْوَ کی جویہ تشریح کی ہے اس سے مراد یہ لی گئی ہے کہ اپنے اندرعفو کی صفت ہمیشہ ہمیشہ پیدا کر لیں چنانچہ لوگوں کی کوتاہیوں اور لغزشوں پر جسے در گذر کی عادت پڑ گئی گی حقیقتاً اس پر اللہ تعالی کے وصف گرامی عفو کا رنگ کا غالب آگیا۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ،( شوریٰ: 40)
پس جو معاف کر دے اور اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ تعالی پر ہے“
یاد رکھیئے ! شقاوت کا سعادت میں تبدیل ہونا اور سعادت کا شقاوت کی جگہ لینا تربیت کی تاثیرکے بغیر ممکن نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ
ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں، نصرانی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔
اس حدیث سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر ایک انسان میں سعادت اور شقاوت دونوں کی قابلیت ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ یہ شخص سعیدازلی ہے یاشقی ابدی ہے۔ ہاں یوں کہنا جائز ہے کہ فلاں شخص خوش نصیب ہے جب کہ دیکھ رہا ہو کہ اس کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہیں۔ اسی طرح کسی کو اعمال کی وجہ سے بد بخت بھی کہہ سکتا ہے۔ جو شخص اس اصول کو توڑے گا گمراہ ہو جائے گا کیونکہ اس نے گویا یہ عقیدہ اپنالیا کہ کچھ لوگ نیک عمل اور توبہ کے بغیر بھی جنت میں جا سکتے ہیں یا کچھ لوگ برائیوں کے بغیر جنہم میں جا سکتے ہیں۔ ایسا کہنا قرآن و سنت کے منافی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا نیک لوگوں سے جنت کا وعدہ ہے اور شرک و کفر میں مبتلا برے لوگوں کو جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا (فصلت :46( جو نیک عمل کرتا ہے تو وہ اپنے بھلے کے لیے اور جو برائی کرتا ہے تو اس کا وبال اس پر ہے
“ الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ (غافر:17 ( آج بدلہ دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا تھا۔ ذرا ظلم نہیں ہو گا آج
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (النجم:39،40)
اور نہیں ملتا انسان کو مگر وہی کچھ جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور اس کی کو شش کا نتیجہ جلد نظر آجائے گا
وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ (البقرہ:110( اور جو کچھ آگے بھیجو گے اپنے لیے نیکیوں سے ضرور پاؤ گے اس کا ثمر اللہ کے ہاں“
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ76 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور