سلوک کی ابتداء اور انتہاء کے عنوان سے پہلے مراسلے کا پہلا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مراسلہ کے معنی مکتوب مراسلات مکتوبات حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کے کل مکتوبات کا حاصل ، تین مکتوبات ہیں۔ جو اس کتاب میں شامل ہیں۔
پہلا مکتوب اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف سلوک اور اس کی ابتدا ء اور انتہا کے بیان میں ارسال کیا گیا۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض اصحاب کو یہ مکتوب تحریر فرمائی۔
أمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ الْبَدَ آيَاتِ مُجَلَّاتُ النِّهَایَاتِ
اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد تم یہ معلوم کرو کہ ابتداء انتہا کا مظہر ہوتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ ابتداء اس مجاہدہ اور مکابدہ اور صدق اور تصدیق کا نام ہے، جو طریقت میں داخل ہونے کے شروع ہی میں مرید پر ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ انتہا ءکا مظہر اور تجلی گاہ ہے۔ یعنی جو انتہا میں ہوتا ہے، وہ ابتداء میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا جس شخص کی ابتدا ء روشن ہوتی ہے اور اس کی انتہا بھی روشن ہوتی ہے۔
لہذا جس شخص کو ہم دیکھتے ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طلب میں کوشش کرتا ہے اور اپنانفس، جان و مال اور عزت و مرتبہ عبودیت کے حقوق اور ربوبیت کے وظائف کے ساتھ قائم رہنے کے مقام پر پہنچنے کیلئے خرچ کرتا ہے۔ تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ اس کی انتہا ءروشن ہوگی اور وہ اپنے محبوب حقیقی تک پہنچ جائے گا۔ اور جب کسی شخص کو ہم نے مذکورہ بالا امور میں کو تاہی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں
کہ وہ وہاں تک پہنچنے میں ناکام رہے گا۔ اس بارے میں ایک عارف کے اشعار ہیں:۔
بِقَدْرِ الْكَدِ تُكْتَسَبُ الْمَعَالِي وَمَنْ طَلَبَ الْعُلَى سَهَرَ اللَّيَالِي
محنت اور کوشش کے مطابق بلند مرتبے حاصل ہوتے ہیں ۔ اور جو شخص بلند مرتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے ، وہ شب بیداری کرتا ہے ۔
تُرِيدُ الْعِزَّ ثُمَّ تَنَامُ لَيْلًا يَغُوصُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ اللَّا ٰلِي
تم عزت اور مرتبہ چاہتے ہو پھر رات کو سوتے ہو۔ حالانکہ جو شخص موتیاں(موتی) حاصل کرنا چاہتا ہے ، وہ سمندر میں غوطہ لگاتا ہے ۔
لہذا جس شخص کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ عزم وارادے کا سچا ہے تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ وہ اہل عنایت میں سے ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی عنایت اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے) اور جو شخص اپنے سلوک میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے سلوک کی انتہا میں اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس سے آگاہ فرمایا ہے۔
ومَنْ كَانَتْ بِاللَّهِ بِدَایَتُهُ كَانَتْ إِلَيْهِ نِهَا يَتُهُ
جس شخص کی ابتدا ءاللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے اس کی انتہا اس کی طرف ہوتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ کے ساتھ ابتداء یہ ہے کہ کسی عمل اور حال اور مجاہدہ اور مکابدہ میں اپنے نفس کیلئے کوئی اختیار اور قوت نہ دیکھے۔ بلکہ اس سے جو بھی عمل اور حال ظاہر ہو اس کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا احسان ، اور اپنی طرف اللہ تعالیٰ کو ہدیہ سمجھے ۔ لہذا اگر کسی شخص کی حالت اس طرح ہو ، تو بیشک اس کی ابتدا ء اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست ہے اور اس کی انتہا اسی کی طرف ہوگی ۔ اور ان شیاء میں سے جو ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی طرف نظر ( توجہ )رکھنے کو مضبوط کرتی ہیں۔ اور طریقت کے اس علم کو درست کرتا ہے۔ جس کی حاجت اس کو اپنے سلوک میں ہوتی ہے۔
کیو نکہ بغیر علم کے عمل گناہ ہے اور بغیر عمل کے علم بے مقصد وسیلہ ہے۔ اس کے بارے میں ایک عارف کے یہ اشعار ہیں:۔
إِذَا كُنْتَ ذَا عَمَلٍ وَلَم تَكُ عَالِمًا فَاَنْتَ كَذِي رِجْلٍ وَلَيسَ لَهُ نَعْلٌ
اگر تم اہل عمل ہو لیکن اہل علم نہیں ہو، تو تم اس پاؤس والے کی طرح ہو جس کے پاس جو تا نہیں ہوتا
وَإِن كُنتَ ذَا عِلْمٍ وَلَمْ تَكُ عَامِلاً فَاَنْتَ كَذِي نَعْلٍ وَلَيْسَ لَهُ رِجْلٌ
اگر تم اہل علم ہو لیکن عمل نہیں کرتے ہو، تو تم اس جوتے والے کی طرح ہو جس کے پاس پاؤں نہیں ہیں۔۔
جَوَادُكَ مَسْبُوقٌ إلى كَلَّ غَايَةٍ وَهَلْ ذُو جَوَادٍ رِئَ يَسْبُقُهُ الْبَغْلُ
تمہارا تیز رفتارگھوڑا ہر مقصد تک پہنچ جاتا ہے، اور کیا کسی گھوڑے سوار سے خچر آگے بڑھ جاتاہے۔
میں نے ان اشعار کو مکمل کرنے کیلئے ایک شعر ان میں شامل کیا ہے :-
وَإِن كُنتَ ذَا عِلْمٍ وحِالٍ وَھِمَّةٍ جَوَادُكَ سَبَّاقٌ يَصِحُ لَهُ الْوَصْلُ
اور اگر تم اہل علم اور اہل حال اور اہل ہمت ہو، تو تمہارا گھوڑا آگے بڑھ جائے گا اور اس کیلئے پہنچنا یقینی ہو جائے گا۔
لہذا جب مرید کو اپنی طہارت اور نماز اور روزے کی وہ مضبوطی حاصل ہو جائے جس کی اس کو ابتداء میں حاجت ہوتی ہے تو اس کو اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہنا چاہیئے اور جو اشیاء اس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل کر دیتی ہیں، ان سے منہ پھیر لینا چاہیئے ۔