سنت سنیہ کی تابعداری کرنے اور بدعت نامرضیہ سے اپنے اور اس کے مناسب بیان میں میرمحب الله کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد برادر عزیز میر محب اللہ کی خدمت میں فقیر عرض کرتا ہے کہ اس طرف کے فقراء کے احوال واوضاع حمد کے لائق ہیں اور آپ کی سلامتی اور استقامت اللہ تعالی سے مطلوب و مسئول ہے۔ سب سے اعلی نصیحت یہی ہے کہ حضرت سید المرسلین ﷺ کا دین اور متابعت اختیار کریں۔ سنت سنیہ کو بجالائیں اور بدعت نامرضیہ سے پرہیز کریں۔ اگر چہ بدعت صبح کی سفیدی کی مانند روشن ہولیکن درحقیقت اس میں کوئی روشنی اور نور نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی بیماری کی دوا اوربیمار کی شفاء ہے کیونکہ بدعت دو حال سے خالی نہیں یا سنت کی رافع ہوگی یا رفع سنت سے ساکت ہوگی ۔ ساکت ہونے کی صورت میں بالضرور سنت پر زائد ہوگی جو درحقیقت اس کو منسوخ کرنے والی ہے کیونکہ نص پر زیادتی نص کی ناسخ ہے۔
پس معلوم ہوا کہ بدعت خواه کسی قسم کی ہون سنت کی رافع اور اس کی نقیض ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی خیر اور حسن نہیں۔ ہائے افسوس انہوں نے دین کامل اور اسلام پسندیده میں جب کہ نعمت تمام ہو چکی ۔ بدعت محدثہ کے حسن ہونے کا کس طرح حکم دیا۔ یہ نہیں جانتے کہ اکمال و اتمام اور رضا کے حاصل ہونے کے بعد دین میں کوئی نیا کام پیدا کرنا حسن سے کوسوں دور ہے۔ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ حق کے بعد گمراہی ہی ہےاگر یہ لوگ جانتے کہ دین میں محدث امر کو حسن کہنا دین کے کامل نہ ہونے کو مستلزم ہے اور نعمت کے ناتمام رہنے پر دلالت کرتا ہے تو ہرگز اس قسم کےحکم پر دلیری نہ کرتے رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (یا اللہ تو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ فرمانا) والسلام عليکم وعلی من لدیکم
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ69 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی