سواء السبیل کلیمی

سواء السبیل کلیمی

تخلق بخلاق اللہ متصف اوصاف اللہ فناء فی اللہ باقی باللہ حضرت خواجہ شیخ کلیم اللہ شاہجہان آبادی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآراءتصنیف ذات وصفات کی جامع تفصیل مسمی بہ سواء السبیل کلیمی اردو ترجمہ جس میں سلوک و تصوف اسرار و عرفان کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دیباچہ

 صفات باری تعالی کی عین ہیں غیر نہیں

اور بیان اس کا کہ باری تعالی کے صفات اس کی عین ہیں غیر نہیں۔
تمام محامد اللہ کے لیے ثابت ہیں جو فہم غیر سے برتر اور پاک ہے اور اس سے برتر ہے کہ اس کے شر اور خیر کا راز کوئی دریافت کرے بس اس کی صفات مثل اس کی ذات کے ہیں عقل دونوں کے ادراک سے قاصر ہے حاصل یہ کہ دونوں یعنی ذات و صفات علوم نقلیہ سے سمجھی جاتی ہیں اور رحمت کاملہ نازل ہو ان پر جو فعل اور انفعال کے سبب دو مرتبہ کے جمع کرنے والے ہیں اور جو دائرہ کمال کی دونوں قوسوں کے وتر ہیں اور نیز رحمت ہو ان کی آل اور ان کے اصحاب پر جو تمام کون اور وجوب کے تفاصیل ہیں اور ظاہر امور اور باطن امور کے متون شرح ہیں بعد حمد و صلاۃ کے معلوم ہو کہ یہ کلیم اللہ کی سوا ءالسبیل ہے جو تجھ کو راہ دکھاتی ہے اس طرف کہ مخاطب و مکلف ارواح ہیں اجسام نہیں ہیں کیونکہ جب موت آ جاتی ہے اجسام کی کچھ قدر نہیں بجز اس کے کہ اجسام آلات ترقی میں متصرف روح ہی ہے اور جب متصرف فیہ ہے پس انسان وہ شے ہے کہ جس کی لفظ “میں” سے اشارہ کیا جاتا ہے پس جب وہ بدن کے متعلق ہوتی ہے تو یہی حیات ہیں اور جب وہ بدن سے مسلوب ہوتی ہے یہی ممات ہے اور بزرگی جو معتبر ہے وہ روح ہی کی بزرگی ہے اور صفات بھی اسی کی ہیں اور وہ لطیف ہے اور جسم کثیف ہے پس جن لوگوں کے اندر کثافت لطافت پر غالب ہو گئی وہ ارذل ہیں اور جن لوگوں کے اندر لطافت کثافت پر غالب آگئی وہ اشرف و اعلی ہیں اور جو اوسط درجہ کے لوگ ہیں ان کو مجاہدات سے ترقی ممکن ہے کیونکہ نزاہت ( پاکی سے) ان کی ذات میں پائی جاتی ہے اور مجاہدہ حق تعالی کی معرفت کی طرف توجہ کرنے کا نام ہے پھر اس کے در پر ہمیشہ حاضر رہنا ہے اور یہ کام قلب کا ہے نفس کا نہیں کیونکہ نفس کا مقام توجہ تو صرف جسم ہی ہے اور قلب دو طرح سے ہدایت پاتا ہے اور آیات انفسیہ وآ فاقیہ(آیات انفسیہ تو وہ علامات ہیں جو قدرت اور وحدانیت اور ذات پر دلالت کرتی ہیں اور آدمی کی ذات میں موجود ہیں اور آفاقیہ جو ذات انسان سے خارج ہیں کما قال اللہ تعالی سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ) سے استدلال کر کے ہدایت پاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے کہ ہمارا وجود بالذات نہیں ہے ورنہ ہم محتاج اور عاجز نہ ہوتے پس ضرور کوئی موجد ہوگا کہ جو ہم میں سے نہیں ہے۔اور وہ ازلی و ابدی واحد ہے وجود اس کا بالذات ہے اپنے وجود میں غیر کا محتاج نہیں ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسی ذات جو ان صفات مذکورہ سے متصف ہو وجود ہی میں متحقق ہوگی نہ غیر وجود میں پس وہ ذات وجود ہی ہے اور یہ قلب کا ہدایت پانا بھی اس کے فضل ہی سے ہوتا ہے کیونکہ اگر اس کا نور نہ ہوتا تو اس کی طرف عقل راہ یاب نہ ہوتی پس اس کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کما حقہ اس کی عنایت اور ہدایت سے ہوتی ہے پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ دلیل اللہ کی ذات پر اس کی ذات پاک ہے اور عقل عاجز ہے عقل اس کے مثل کی طرف راہ بتلاتی ہے دیکھو معرفت اکثر اوقات غیر عاقل کو حاصل ہو جاتی ہے اور عقل کو حاصل نہیں ہوتی پس اس کے ذات پاک کا اس بات اور پھر اس کی وحدانیت کا اثبات اس کی ہی تائید اور مدد سے حاصل ہونا ہے علماء نے کہا ہے کہ وجود حقیقت واحد ہے اور اس کے مقابلہ میں عدم محض ہے کہ اس کا ثبوت کسی طرح نہیں نہ عینا ًنہ علماًنہ خارجاً نہ وہماً پس موجودات یا تو عدم محض ہیں لیکن احکام اور آثار کا ثابت ہونا اس کو رد کرتا ہے اور باوجود محض ہے کہ جو امثال موجودات میں متمثل ہو اور وہ وجود اسی طرح ہے جیسا کہ تھا اور وہ وجود ہی اس کثرت میں مع اس کے لوازم کے متمثل ہے پس جس شخص نے مرتبہ اطلاق کو محفوظ نہ رکھا اس نے خطا کی کیونکہ منزل یعنی مقید موصوف بالصفت ہے پس اطلاق کہاں رہا دیکھو حق تعالی فرماتے ہیں یعنی وہ تمہارے ساتھ ہے جس جگہ تم ہو اور فرماتے ہیں یعنی نہیں ہوتی سرگوشی تین آدمیوں کی مگر حق تعالی چوتھے ان کے ہیں پس دونوں مرتبوں کو محفوظ رکھ اور دونوں کو ان کا حق دے پس معلوم ہوا کہ وجود ایک ہے اور اگر اس طرح نہ ہو تو انسان اللہ کی طرف میلان نہ رکھتا اور دونوں طرف کا تجاذب نہ ہوتا اور یہ الحاد کو جنم دیتا ہے اور ہجر و جدائی اور معارف نفیسہ کی یہی اصل ہے اور ظاہر بین اور رسمی لوگ کہتے ہیں کہ واجب الوجود ایک ذات ہے جو اپنے وجود زائد ازذات سے موجود ہے اور صفات غیر متناہیہ کے ساتھ موصوف ہے پس ہم کہتے ہیں کہ موجود موثر یا تو مجموعہ ذات اور وجود کا ہے تو اس وقت موجد میں ترکیب لازم آتی ہے اور یا موثر ذات ہے بغیر اعتبار ووجود کے پس ذات بغیر اعتبار موجود کے کیونکر ممکن کو وجود عطا کر سکتی ہے کیونکہ علت کے لیے وجود ضروری ہے تاکہ وہ موثر اور مفید ہو اور یا موثر وجود ہو بغیر اعتبار ذات کے پاس اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ موجد اپنی ذات کے ساتھ قائم نہ ہو کیونکہ وجود بذاتہ قائم نہیں ہے اور نیز واجب کا وجود زائد از ذات ماننے میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ علت وجود کی یا تو ذات ہوگی یا غیر ذات پس اگر محض ذات ہی علت ہو تو وہ کیسے مؤثر ہو سکتی ہے اور اگر غیر ذات ہو پس ذات اپنے تحقق اور وجود میں اس غیر کی محتاج ہوگی اور محتاج واجب نہیں ہوتا اور وجود کے زائد از ذات کے قائل ہونے میں دور (دہرائی)بھی لازم آتا ہے پس معلوم ہوا کہ واجب الوجود خود وجود ہی ہے کوئی دوسری شے نہیں لیکن وجود بمعنی حصول و ثبوت و کون نہیں کیونکہ وجود اس معنی پر تو معقولات ثانیہ (وہ امور کلی جو عقل میں آئیں جن کا ذہن میں وجود ہو خارج میں نہ موجود ہو جس کی طرف نفس کی توجہ دوسرے درجے میں ہوتی ہے)سے ہے پس وجود اس معنی پر واجب نہیں ہو سکتا بلکہ بمعنی ذات مستقلہ جو بذاتہ قائم ہے واجب ہے اور ماسوا اسکے سب اعراض ان کی ہیں اور رہا اتصاف بوجود سو اگر سنت اس کے شاہد نہ ہوتے تو کاملین کا مذاق اس کو نفی کرتا ہے کیونکہ صفت غیر موصوف ہے امیر المومنین ویعسوب موحدین علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اول دین معرفت حق تعالی کی ہے اور کمال معرفت تصدیق اس کے ہے اور کمال تصدیق توحید ہے اور کمال توجہ اخلاص اس کے لیے ہے اور کمال اخلاص صفات اس سے نفی کرتا ہے کیونکہ یہ صفت اس کی ثابت ہے کہ وہ غیر موصوف ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ غیر صفت ہے پس جو شخص صفت ثابت کرے وہ اس کو قریب کرتا ہے اور جو قریب کرتا ہے اس کو دو قرار دیتا ہے اور جو دو قرار دیتا ہے پس وہ اس کو ذی اجزاء کرتا ہے اور جو اسے ذی اجزاء کرتا ہے پس وہ اس سے جاہل ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام ختم ہوا
اور یہ کہنا متکلمین کے صفات باری تعالی نہ عین باری ہیں اور نہ غیر ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ صفات مفہوم کے اعتبار سے عین نہیں ہے اور انفکاک(جدائی) کے اعتبار سے غیر نہیں ہے تو اس قول کا حاصل بھی یہی ہے کہ صفات غیر ہیں کیونکہ جو شے لفظ ذات سے سمجھی جاتی ہے وہ بعینہٖ صفت سے نہیں سمجھی جاتی اور جو صفت کا مفہوم ہے وہی بعینہ ذات کا مفہوم نہیں ہے پس اتحاد کہاں رہا کیونکہ ذات و صفت میں تمائر(فخر و ناز) من وجہ بھی عنوان غیریت کا ہے اور لا عین و لا غیر کا قائل ہونا اس کو مستلزم ہے کہ صفات غیر ذات ہیں کیونکہ کسی شے کو اس کی ذات کے اعتبار سے یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ اس کا عین نہیں پس ثابت ہوا کہ صفات غیر ذات ہیں۔

پہلا مرحلہ

اثبات  واجب الوجود اور ابطال مسلک حکماء

اثبات اس کا کہ واجب وجود یعنی ذات ہے اور ابطال مسلک حکماء کا
وجود بمعنی ذات عین واجب ہے اور وجود بمعنی کون اور تحقق اور حصول کہ جو معنی مصدریہ ہیں پس با اتفاق تمام اہل ملت کے عرض اعتباری اور معقولات ثانیہ سے ہے خارج میں کوئی شے اس کے مقابلہ میں نہیں ہے پس وجود اس معنی کہ با اعتبار ذہن کے کل حقائق پر زائد ہے یعنی عقل کی ماہیت کو وجود سے خالی کر کے ادراک کر سکتی ہے پھر اس کے بعد عقل حکم کرتی ہے کہ وہ ماہیت موجود ہے اور یہ حکم با اعتبار خارج کے نہیں ہے یعنی عقل کی ماہیت مجرد کو اور ایک دوسری شے کو جو وجود ہو خارج میں ادراک نہیں کر سکتی اس ماہیت پر ایسے وجود کا حکم نہیں کر سکتی اور حکماء کا مسلک یہ ہے کہ واجب ایک فرد خاص وجود مطلق کا ہے جو اپنی ذات سے قائم ہے اور تمام ممکنات کا مبدا ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ وجود مطلق معقولات ثانیہ سے ہے پس واجب اس کا فرد کیسے ہو سکتا ہے اور یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وجود بذاتہ قائم ہے۔ کیونکہ وجود ان کے نزدیک بمعنی ذات نہیں ہے اور نیز فرد نام حقیقت مع تعین و التشخص کا ہے پس اگر تعین حقیقت ہو تو فرد اور حقیقت میں فرق نہ رہا پس واجب حقیقت کلیہ ہو گیا حالانکہ یہ ان کا مذہب نہیں ہے اور نیز مسلک حکماء پر ایک محذور(پرہیز) لازم آتا ہے تقریر اس کی یہ ہے کہ اگر واجب وجود خاص ہو تو اس کی ترکیب وجود میں یا عقل میں لازم آتی ہے کیونکہ وہ شے جس سے خصوصیت پیدا ہوئی ہے اگر امر وجودی ہو تو وجود میں ترکیب لازم آتی ہے اور اگر امر عدمی ہو تو عقل میں ترکیب لازم آتی ہے اور ترکیب وجوب کے منافی ہے اور نیز ایک اشکال اور لازم آتا ہے وہ یہ کہ دو حال سے خالی نہیں یا تو واجب حقیقت ایسے وجود کی ہو کہ جو مقید ہو قید اعتباری آدمی کے ساتھ اور یا حقیقت ایسے وجود کی ہوگا جو مقید ہو قید وجودی کے ساتھ پس تقدیر اول پر تو وجود کا عدم کے ساتھ موصوف ہونا لازم آتا ہے کیونکہ جو شے اس میں جز و وجودی ہے وہ حقیقت وجود کی طرف راجع ہوگا پس دو نقیضوں میں سے ایک نقیض کا دوسرے کے ساتھ موصوف ہونا لازم آتا ہے اور یہ جائز نہیں اور تقدیر ثانی پر اگر وہ قید وجودی فصل ہے تو ترکیب لازم آتی ہے اور اگر عرض ہو تو مبدا عروج یا تو نفس حقیقت ہوگا یا جزو حقیقت ہوگا یا کوئی امر خارج اور حقیقت ہوگا اور اول تو ظاہر البطلان ہے کیونکہ قید کا کام تو اخراج ہے اور حقیقت اس معنی کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ اس کا تعلق تمام افراد سے برابر ہے اور دوسری شق پر ترکیب لازم آتی ہے اور تیسری شق احتیاج کو مستلزم ہے اور نیز حکماء کہتے ہیں کہ وجود واجب کا اس کا عین ہے پس ہم دریافت کرتے ہیں کہ وجود سے ان کی کیا مراد ہے اگر حصول و کون مراد ہے تو یہ تو سب میں بالاتفاق زائد ہے اور اگر وجود خاص مراد ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ تمام اشیاء حقائق مختلفہ ہیں اور ہر حقیقت کا وجود خاص ہو تو اس تقدیر جزوی وزائد ماہیت اور حقیقت پر خارج میں زائد ہیں اور رہا عقل میں تو کچھ شک نہیں کہ جو عین ہونے کا قائل ہے اس کے نزدیک وجود زائد ہے۔ نیز اس تقدیر پر ایک اور محذور(پرہیز) لازم آتا ہے تقریر اس کی یہ ہے کہ منشا خصوصیت کا یا تو ذات ہے یا اور کوئی امر خارج از ذات ہے اور ذات بغیر اعتبار کے معنی کے منشا نہیں ہو سکتی پس منشا خصوصیت کا امر خارج ہے یہ بس اس تقدیر پر واجب کا محتاج ہونا لازم آیا اور یہ باطل ہے۔

دوسرا مرحلہ

اثبات حقیقت حق سبحانہ و تعالی کی عین وجود مطلق اور اقسام وجود

: اثبات اس کا کہ حقیقت حق سبحانہ و تعالی کی عین وجود مطلق ہے اور اقسام وجود
حقیقت حق سبحانہ تعالی کی عین وجود مطلق ہے حتی کہ اس وجود کا حقیقت سے تصور انفکاک (جدائی) متصور نہیں ہے کیونکہ کسی شے سے اس کی ذات منفک نہیں ہو سکتی اور جو سوائے حق سبحانہ و تعالی کے ہے اس میں تصور انفکاک کی گنجائش ہے پس ممکن وجود کا محتاج ہے اور وجود اپنے وجود میں وجود کا محتاج نہیں ہے پس وہ واجب ہے پس وہ وجود مطلق ہے اصلا قید اس میں نہیں ہے یعنی بلا شرط شے ہے پس وہ عدم اعتبار کے ساتھ ہے اعتبار عدم کے ساتھ نہیں پس معلوم ہوا کہ جب وجود کو کہا جائے کہ وہ موجود ہے معنی اس کے یہ ہیں کہ اس پر وجود بمعنی مصدری واقع ہے اور یہ یعنی وجود بمعنی مصدری حقیقتا وجود کے لیے عرض عام ہے اور وجود کی کئی قسم ہیں کیونکہ وجود یا تو با اعتبار فرض کے فارض کرنے والے کے ہو جیسے نسب اور اضافیات اعتباریہ جیسے قرب و بعد اور یہ فقط قوت دراکہ(بڑی سمجھ) میں متحقق ہو سکتا ہے اور یا فرض فارض اور اعتبار معتبر سے خارج ہو اس وقت اس کی دو قسمیں ہیں اول یہ کہ صرف قوت دراکہ اور مشاعر(حواس خمسہ) میں متحقق ہو دوسری یہ کہ قوت درا کہ میں بھی متحقق ہو اور خارج از قوت در ا کہ بھی متحقق ہو پس قسم اول وجود کے یعنی جو با اعتبار فرض فارض کے ہو موجودذہنی ہے جس کا متکلمین نے انکار کیا ہے جیسے نسب اور اضافات حقیقیہ اور الوان اور اس کے سوا جو شے ادراک کے درجہ ثانیہ میں واقع ہو اور تجھ کو یہ شک نہ ہونا چاہیے کہ ذہنی اور فرضی برابر ہے کیونکہ دونوں مدراک اور مشاعر میں حاصل ہوتے ہیں اس واسطے کے اول امور حقیقیہ میں سے ہے اور ثانی امور فرضیہ اعتباریہ سے اور دوسری قسم یعنی وہ وجود قوت مدرکہ سے خارج ہو وجود خارجی کہلاتی ہے پس حاصل تقسیم کا یہ ہوا کہ تحقق اور ثبوت اپنی حد ذات میں یا تو موجود کے لیے ثابت ہوں گے یا موجود کے لیے ثابت نہ ہوں گے پس قسم ثانی تو فرضی ہے اور ان کی دو قسمیں ہیں اول وہ جو مشاعر اور مدارک میں حاصل ہو اور دوسرے وہ خارج میں ہو اول کو ذہنی کہتے ہیں اور دوسری کو خارجی پس یہ دونوں اخیر کی قسمیں نفس الامری ہیں بخلاف اول کے پس بے شک انسانیت زید معدوم کی ذہنی ہے اور نفس الامری ہے اور خارجی نہیں ہے لیکن جب خارج سے اور معنی مراد لیے جائیں یعنی جو نفس امر میں واقع ہو وہ مراد لیا جائے تو انسانیت وہ اس وقت خارجی فرضی کا مرادف ہو گا پس وجود فرضی اور حقیقی متبائن ہیں اور وجود حقیقی اور نفس امری متساوی ہیں اور خارجی حقیقی سے اخص مطلق ہے جیسا کہ ذہنی حقیقی سے اخص مطلق ہے اسی طرح اور خارجی نفس امری سے اخص مطلق ہے اور خارجی ذہنی سے اعم من وجہ ہے۔

تیسرا مرحلہ

  وجود  پراحکام اور آثار مرتب ہونا

بیان اس وجود کا جس پر احکام اور آثار مرتب ہوتے ہیں۔
وہ وجود کہ اس کی ماہیت کے ساتھ مقترن ہونے سے آثار اور احکام مرتب ہوتے ہیں یا تو فرضی ہیں یا ذہنی یا خارجی فرضی ہونا تو جائز نہیں ہے کیونکہ وہ قوت مدرکہ کے ساتھ خاص ہے اور بعد وجود کسی عقل کے جو تعقل کرے اور بعد اس کے قوی کے ثابت ہوگا پس اگر خود عقل اس پر موقوف ہو تو دور لازم آئے گا اور ذہنی بھی اسی وجہ سے نہیں ہو سکتا پس وجود حقیقی خارجی ہے جو نفس امر میں ثابت ہے اور اعراض کی قسم سے بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ عرض محتاج محل کا ہوتا ہے اور محل محتاج وجود کا ہے کیونکہ محل ایک موجود شے کا نام ہے پس وہ وجود کا محتاج ہوگا پس دور لازم آگیا پس لامحالہ ایک ذات قائم بنفسہٖ ہوگا پس اس تقریر سابق سے معلوم ہوا کہ وجود کی کئی قسمیں ہیں اول عین قائم بذات جیسے موجودات مستقلہ مثل جواہر و ذات کے دوسرے وہ جو عین ہو اور کسی دوسری عین میں ہو جیسے اعراض وجود بمثل رنگ اور اشکال وغیرہ کے تیسری وجود نہ خود عین ہو اور نہ کسی دوسرے عین میں ہو جیسے نسب فرضیہ اور اضافات اعتباریہ (وہ اضافات جن کومضبوط اور پختہ وجود کے بغیر عقل مان لے)مثل قرب وبعد اور دائیں اور بائیں کے پس وہ وجود کے مدار آثار اور احکام کا ہے اور جس کی ماہیت کے ساتھ ملنے سے مبتدا ماہیات ان آثار کو جو ان کے ساتھ خاص ہیں قبول کرتی ہیں وجود مستقل خارجی قائم بالذات ہے نہ وہ عین فی عین ہے اور نہ لا عین فی عین ہے پس نہ اعراض وجودیہ سے ہیں اور نہ نسب فرضیہ سے کیونکہ یہ دونوں قسمیں وجود کی محل کے محتاج ہیں اور محل محتاج ہے وجود کا پس دور لازم آئے گا اور دور سے کل ماہیات کا معدوم ہونا لازم آئے گا ۔
تنبیہ: جو شخص انصاف کرے وہ جانے کہ اقتران خارج میں دو معدوم کے درمیان جب ہی آجاتا ہے کہ جب دونوں موجود باوجود خارجی ہوں یا ایک ان میں سے موجود باوجود خارجی ہو پس اگر وہ وجود کہ جو مدار آثار اور احکام کا ہے خارج میں معدوم ہو تو اقتران اور انضمام ہی نہ حاصل ہوگا۔

چوتھا مرحلہ

واحد سے واحد اور کثیر سے کثیر کا صدور

: تحقیق اس قول کی کہ واحد سے واحد صادر ہوتا ہے اور کثیر سے کثیر
واحد اس حیثیت سے کہ وہ واحد ہے اس سے ایک ہی صادر ہوگا جیسا کہ کثیر اس حیثیت سے کہ وہ کثیر ہے اس سے کثیر ہی صادر ہوں گے کیونکہ کثرت ضد وحدت کی ہے پس دونوں ضدوں میں سے ایک کا دوسری ضد سے صدور نہیں ہو سکتا لیکن نہ مطلقا بلکہ بحیثیت اس کے ضد ہونے کے البتہ اگر واحد میں نسب کثیرہ کا اعتبار کر لیا جائے تو اس وقت واحد با اعتبار ان نسب کے کثیر ہو جائے گا پس ممکن ہوگا کہ اس سے کثیر صادر ہوں اور اسی طرح اس کا عکس پس ممکن ہوگا کہ اس سے کثیر صادر ہوں اور اسی طرح اس کا عکس یعنی کثیر کے لیے ایک احدیت ہے جو ثابت ہے پس صدور واحد کا بحیثیت اس احدیت کے ممکن ہے کیونکہ تاثیر اور ارتباط ایسے سبب سے ہے جو مشترک ہے اور بحیثیت تنافی کے نہ تاثیر ہے نہ اثر پس اگر وجود مطلق کی ذات کا اعتبار کیا جائے اور اس میں جو معنی پائے جانے ہیں ان کو نہ دیکھا جائے پس وہ واحد ہے لیکن نہ اس حیثیت سے کہ وہ وحدت اس کی صفات میں سے ایک صفت یا یہ کہ اس کے احکام میں سے ایک حکم ہے بلکہ محض ذات کے اعتبار سے واحد ہے یعنی عدم اعتبار ہے نہ اعتبار عدم پس وہ کثرت کی علت نہ ہوگا اور جب اس کے ساتھ صفات اور اسماء کا اعتبار کیا جائے تو وہ کثرت کا موجد ہو جائے گا اور کوئی کثرت ایسے نہیں ہے کہ اس کو وحدت نے ضبط نہ کیا ہو پس وحدت صادر ہوگی وحدت سے اور کثرت کثرت سے اور کثرت کی دو قسمیں ہیں اول کثرت ان اجزاء کے جو ماہیت و حقیقت میں داخل ہیں جیسے جنس اور فصل باعتبار نوع کے اور دوسرے کثرت لوازم کے اور اس کثرت کی دو قسم ہیں اول یہ کہ لوازم کثیر ہوں لیکن ملزوم اپنی ذات کے اعتبار سے واحد ہو یہ کثرت ذات واحد میں نہ ہوگی اور دوسرے یہ کہ لوازم میں بھی کثرت ہو اور خود اس شے یعنی لزوم میں بھی کثرت ہو اور لوازم تصور اور وجود کے اعتبار سے تابع ذات کے ہوتے ہیں اور تعقل یعنی سمجھے جانے میں بھی ذات سے علیحدہ نہیں ہوتے جیسے چھ کی نصف ہوئے اور تہائی ہونے اور چھٹا ہونے کے تصور کے زوجیہ تابع ہے پس یہ کثرت عینیہ اور حکمیہ عالم میں با اعتبار وحدت اطلاقیہ کہ مثل کثرت لوازم کے ہے نہ مثل کثرت اجزاء کے پس وہ وحدت صرفہ ان نسبتوں سے پاک ہے پس وہ وحدت اسی طرح ہے جس طرح کے پہلے ظہور کثرت کی تھی صرف اتنی بات ہے کہ جب اس کثرت کا ظہور ہوا تو نسبتیں اور اضافات اور لوازم پیدا ہو گئے لیکن اپنی ذات کا علم اس کو اولی ہے اور ماسوا کےساتھ لازم بوسیلہ ہے۔

پانچواں مرحلہ

ماہیات کا وجود مطلق سے ملنا

: ماہیات کے وجود مطلق سے ملنے کے معنی
اگر تو یہ کہے کہ ماہیات کے وجود مطلق سے ملنے کے کیا معنی ہیں یا یہ کہ وجود مطلق کے ماہیات سے ملنے کے کیا معنی ہیں کیونکہ نہ تو وجود ماہیات کے مرتبہ میں ہے اور نہ ماہیات وجود مطلق کے مرتبہ میں ہے میں کہتا ہوں کہ معنی ملنے کے ماہیت ممکنہ کا مشروط بشرائط ہونا ہے پس جب ماہیت ممکنہ کے تحقق اور وجود کی شرائط پائی جاتی ہیں اس وقت ایک نسبت خاصہ وجود مطلق سے پیدا ہوتی ہے کہ دلیل اس کی معلوم ہے اور کیفیت اس کی مجہول ہے پس بواسطہ اس نسبت کے نور وجود کا اس ماہیت پرآتا ہے پس اس پر حکم کیا جاتا ہے کہ وہ ماہیت موجود ہے اور اس کا کوئی نام رکھ دیا جاتا ہے اور وجود مطلق اپنی عزت اور پاکی میں اسی طرح رہتا ہے نہ اس ماہیت کی طرف اس کو نزول ہوتا ہے اور نہ وصول اور نہ ماہیت کو اس کی پاک بارگاہ کی طرف انتقال اور ارتفاع ہوتا ہے پس کل آثار اور احکام اس نسبت سے کہ دلیل اس کی معلوم ہے اور کیفیت اس کی مجہول ہے پیدا ہوتے ہیں خلاصہ یہ کہ وجود ثبوتی بدون اس کے کہ وجود حقیقی اس کا باطن ہو اور بغیر اس کے مظاہر ممکنہ میں وجود حقیقی متجلی ہو حاصل نہیں ہو سکتا پس منشا وجود حصولی ثبوتی کا ممکنات میں وجود حقیقی ہی ہے

چھٹا مرحلہ

وجود مطلق کے تنزلات

وجود مطلق بحیثیت اطلاق کے نہ معلوم ہو سکتا ہے اور نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ اس کے اوپر کچھ حکم کیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ موجود ہے اور اس وجود مطلق کے لیے تنزلات ہیں کہ ان تنزلات ہیں اور ان کے ہی سبب سے اور ان کے اعتبار سے معلوم ہو سکتا ہے اور مشاہدہ کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہےاور تمام اشیاء اس اعتبار سے برابر ہیں کچھ ترتیب اور تعقیب نہیں بس وجود مطلق کی نسبت آخر موجودات کے ساتھ اسی طرح ہے جیسے کہ وہ اول موجودات کے ساتھ ہے پس وجود مطلق پر حدوث کا توہم نہیں ہو سکتا البتہ بعض موجودات ظہور کے اعتبار سے بنسبت بعض موجودات کی حدوث ہے پس تقدم اور تاخر طبعی اور وضعی بعض موجودات کے لیے باعتبار بعض کے ہے جیسے کہ تقدم حیات کا علم پر اور وجود علمی کا وجود عینی پر اور اجمالی علم کا تفصیلی علم پر پس اول حضرت اطلاق کے لیے جو تعینات ہیں وہ علم اپنی ذات کا ہے مع نسبتوں کے اور اعتبارات الہیہ کونیہ ازلیہ ابدیہ کے مجملا بغیر تفصیل اور تمیز کے پس کچھ بعد اور تکثر نہیں بسبب عدم امتیاز کے اور باوجود اس کے کہ کوئی نسبت نسبتوں میں سے اور کوئی حکم احکام میں سے ان کے احاطہ علم اجمالی سے خارج نہیں ہے پس یہ اول پر وہ ہے جو اطلاق کے منہ پر لگایا گیا ہے اور اسی واسطے اس کو تعلق اولی کہتے ہیں اور حقیقت محمدیہ اور وحدت ازلیہ اور مقام اولی بھی اس کا نام ہے اور جو کثرت اس اجمال میں پوشیدہ ہے ان کو شیون ذاتیہ اور حروف عالیہ کہتے ہیں پس وحدت کثرت پر غالب اور متولی ہے پس تمیز معدوم ہو گئی لیکن اس وحدت نے کل کا احاطہ کر لیا ہے اور کوئی نسبت اور حکم اس کے نیچے سے خارج نہیں ہے لیکن احاطہ کا اعتبار نہیں کیا گیا پس کل بغیر اعتبار کلیت کے معدوم ہے پس اس وحدت محضہ کے لیے دو وجہیں ہیں ایک وجہ تجرد کی جانب ہے اور ایک جانب تلبس کے پس پہلے جہت کے رخ کو مرتبہ احدیت ذاتیہ کہتے ہیں اور دوسرے جہت کے رخ کو مرتبہ واحدیہ کہتے ہیں اور وحدت احدیہ اپنی خاصہ کے اعتبار سے اپنی کثرت کے منافی نہیں کیونکہ وہ کثرت اصل احدیت ہے بلکہ وہ عین احدیت ہے پس با لضرور احدیت اپنی اپنی عین وحدت سے کثرت کی عالم ہے اور ثانی میں یعنی مرتبہ واحدیہ میں چار نسبتیں حاصل ہوئیں علم، وجود، نور ،شہود و بغیر تقدم ان کے اضداد کے جو جہل اور فقد اور غیبت ہیں یعنی ان چاروں سے جو کشف تام حاصل ہوتا ہے وہ ان کو حاصل ہے۔

ساتواں مرحلہ

وحدت حقیقت کے اجمالی و تفصیلی اعتبار

وحدت حقیقت کے لیے دو اعتبار اول اجمالی دوم تفصیلی
وحدت حق تعالی کہ جو حقیقت محمدیہ ہے تعلق اجمالی کے ساتھ متعین ہونے اور متجلی ہونے کے بعد تعین تفصیلی کے ساتھ متنزل اور متجلی ہوئے ہیں کیونکہ تمام موجودات اگرچہ ذات پر علی وجہ الکمال اجمال کے ظاہر ہیں مگر باعتبار اپنی خصوصیات متمیزہ کی غیر ظاہر ہیں پس تمیز ضروری ہے تاکہ با اعتبار خصوصیات کے ظاہر ہو پس ذات نے تمام نسبتوں اور اضافات الہیہ کونیہ ازلیہ ابدیہ کو خود اپنی ذات میں ادراک تفصیلی متعدد سے ادراک کیا اور ایسے طریق پر ادراک کیا کہ ہر نسبت دوسری سے مع احکام اور آثار مخصوصہ کے متمیز ہو گئی پر ہر نسبت کمالات الہیہ کتابیہ میں سے علم تفصیلی میں حقیقت متمائزہ ہو گئی پس اس تقریر سے تجھ کو معلوم ہو گیا کہ وحدت کے لیے دو اعتبار ہیں ایک اعتبار اجمال کا اور دوسرا تفصیل کے حقائق اس میں متمیز ہیں پس قہر اور غلبہ کثرت کو ثابت ہے۔

آٹھواں مرحلہ

 واحدیت کے کمالات کی تفصیل

واحدیت مفصلہ دو کمال والے ہیں کیونکہ واحدیت دو حال سے خالی نہیں یا تو کمالات اور نسبتیں اور اعتبارات ہیں کہ جس کی شان یہ ہے کہ ذات اس کے ساتھ تعدد وجود ی اور تکثر شہودی کے ساتھ متصف ہونا نہیں ہے اور یا یہ کہ ان کی شان متصف ہونے کی ہو پس اول کمالات فعلیہ وجوبیہ ہیں اور ان کا کام فعل اور تاثیر ہے یعنی غیر میں فیضان وجود پیدا کرتے ہیں یعنی واحدیت فی نفسہا اپنے غیر میں یعنی کمالات انفعالیہ میں ظاہر ہوتی ہے پس وہ اسماء اور صفات کے ساتھ نامزد ہوتی ہے اور صورۃ علمیہ جو ان اسماء اور صفات کے سبب سے حاصل ہوتی ہے یعنی ان کمالات کے ساتھ جو اس کو علم ہوتا ہے اس کو حقائق اسماء و صفات کہتے ہیں پس وہ کمالات فعلیہ جبکہ ایسے شے کے یقین میں اعتبار کیے جائیں کہ جو تمام تعینات فعلیہ کو بالاجمال جمع کرنے والی ہو پس یہ الوہیت ہے اور اگر تفصیل اور فرق میں اعتبار کیے جائیں پس اس وقت دو حال ہیں اگر ظہور آثار کا اعیان میں اعتبار کیا جائے پس وہ اسمائے الہیہ ،ربوبیت ا ور صفات ربوبییت ہیں اور اگر عدم ظہور آثار اعتبار کیا جائے تو وہ حقائق الوہیت ور ربوبیت ہیں اور اس کی دو قسم ہیں اگر ان کا تحقق بعض حقائق کونیہ کے ظہور پر موقوف ہوں جیسے خالقیت رازقیت پس یہ حقائق ربوبیت ہیں اور اگر موقوف نہ ہو تو حقائق الوہیت ہیں اور دوسرا کمال واحدیہ کا کمالات انفعالیہ امکانیہ ہیں کہ اول کے شان انفعال اور اثر فعول کرنا فیض وجودی کا فاعل سے ہے جو پس وہ کمال فصول اور خواص اور تعینات متمیزہ ہیں اور یہ کمالات انفعالیہ کے تعین میں اعتبار کیے جائیں کہ جو اجمالا تمام تعینات انفعالیہ کو جامع ہو پس یہ حقیقت امکانیہ ہے اور اگر فرق اور تفصیل میں اعتبار کیے جائیں تو اس وقت دو حال ہیں اگر علم میں عدم ظہور آثار اور احکام کا اعتبار کیا جائے تو وہ حقائق اور اعیان ہیں اور اگر عین میں احکام اور آثار کے ظاہر ہونے کا اعتبار کیا جائے تو وہ موجودات خارجیہ روحانیت سے ہیں اور جسمانیات اور مثالیات اور ان دو کمالوں کے ثابت کرنے میں راز یہ ہے کہ ذات وحدہ کا بحیثیت اپنی وحدت کے با اعتبار وجود کے ایک وقت میں دو کمالوں کے ساتھ متصف ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ تقدم فاعل کا اور تاخر منفعل کا ضروری ہے ورنہ تقدم شے کا اپنی ذات پر لازم آئے گا اور یہ باطل ہے پس ضروری ہوا کہ کمالات انفعالیہ ذات فاعل سے خارج ہوں پس کمالات انفعالیہ کے ساتھ جو انصاف ہے وہ فرق میں ہے اور کمالات فعلیہ کے ساتھ انصاف جمع میں ہے۔

نواں مرحلہ

 ذات باری تعالی کے مظاہر

ذات اجمالا و تفصیلا دونوں طرح متجلی ہوئے ہیں مگر پھر بھی وہ عین میں نہیں بلکہ علم میں ہے اور عین میں وجود و ادراک کی بو تک نہیں بس وہ وجود اور ادراک کے مقتضی ہوئی پس اول موجودات بسیطہ میں جو فرق اور التیام(جڑنا) اور تجزی اور تعیض() سے بری ہیں متجلی ہوئی کیونکہ ایسے موجودات اپنے تمام ماتحت پر شرف رکھتے تھے کیونکہ مادہ اور مدت وغیرہ کہ شرائط پر موقوف نہ تھے اور وہ موجودات ارواح ہیں اور پھر موجودات لطیفہ ہیں کہ وہ بھی فرق و التیام و تجزی و تعیض سے بری تھے متجلی ہوئے اور وہ موجودات مثال کہلاتے ہیں اور پھر تیسری مرتبہ موجودات نے مرکبہ لطیفہ کثیفہ میں کہ جو خیر و التیام و تجزی کو چاہتے ہیں متجلی ہوئی اور وہ عالم شہادت و عالم حس ہے پھر ذات ایک ایسا مظہر چاہا کہ جو تمام مراتب علمیہ عینیہ روحانیہ و جسمانیہ کو جامع ہوتا ہے کہ اور مواضع میں جو مظہریت متفرق تھی اس کی جمع کر لے پھر ایسا مظہر اس کا اجمال اور عین ہے اور یہ احدیت جمیع کا مظہر ہے اور وہ صورۃ انسان کامل کی ہے جو تمام مراتب فوقانیہ کو گھیرنے والا ہے پس جیسے کہ ذات احدیہ کل پر مشتمل ہے اور عین کل ہے اور ہر شان شیون ذات احدیہ کی اور شیون کے حکم پر مشتمل ہے اسی طرح یہ صورۃ عنصرییہ عجیبہ کل پر مشتمل ہے اور عین کل ہے اور ہر شان اس کے شیون سے تمام شیون کے حکم پر مشتمل ہے پس جیسے ذات احدیہ سنتی ہے ساتھ اس شے کے جس سے دیکھتی ہے اور پکڑتی ہے ساتھ اس چیز کے جس سے بولتی ہے اس طرح انسان کامل بھی ہے اس کا نام اتحاد ہے اور حکم اس کا ایجاد ہے۔

دسواں مرحلہ

 انسانی صفات اور اسمائے الہیہ کے مظہر کے معنی

: انسان کے صفات اور اسمائے الہیہ کے مظہر ہونے کے معنی
جامعیت تامہ جو انسان کی صورت میں ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ صورت اسماء اور لطائف اسماء کا اثر اور بو پر مشتمل ہے تاکہ وہ صفات اور اسماء الہیہ قدیمہ ازلیہ ابدیہ واجبیہ کے تصور کے لیے نمونہ ذات کا ہے یہ معنی نہیں کہ ان اسماء و صفات نے اس صورت میں حلول کیا ہے کیونکہ صفات اس کیفیت کے ساتھ یعنی حلول کے ساتھ ذات اقدس حق تعالی کے ساتھ خاص ہے کہ جو اس سے بری ہے کہ اس کی کوئی صفت کسی مخلوق میں حلول کرے اور اسی طرح صورۃ انسانیہ کے تمام موجودات امکانیہ پر مشتمل ہوئے کہ معنی یہ ہیں کہ وہ ان کلیات پر جو امکان کے نمونے ہیں شامل ہے یہ معنی نہیں کہ ممکنات اپنی صورتوں اور اشخاص سے اس میں مرکب ہیں جیسا کہ انہوں نے تشریح انسان میں ذکر کیا ہے پس انسان ایسے اسم سے مستفیض ہے کہ جو لطائف اسمائے الہیہ اور دقائق حقائق امکانیہ کو جامع ہے اور موجودات غیبیہ پر مفیض ہے پس انسان بحیثیت کلیت و جمیعت کے بجز وجوب اور امکان کے درمیان برزخ ہےاور وجوب و حقائق کے درمیان بحیثیت مظہریہ کے برزخ ہے اور اسی سے دائرہ تمام ہوتا ہے اور اسی سے خلافت کا منتظم ہوتا ہے اور اسی سے علت ایجاد کی منتہی ہوتی ہے اور حکم اس کا ظہور ہے۔

گیارھواں مرحلہ

صفات کے متجلی ہونے پرشبہ اورجواب

صفات کے متجلی ہونے پر ایک شبہ اور اس کا جواب
اگر تو یوں کہے کہ حکیم اگر کسی باعث سے متجلی ہو عجز و نقصان آتا ہے ورنہ سفہ و عبث ثابت ہوتا ہے اور ذات حق دونوں سے برتر ہے اس کے جواب میں میں کہوں گا کہ یہ اعتراض اس حکیم میں وارد ہو سکتا ہے کہ جس کا کمال صفات سے ہو اور ہمارا کلام اس حکیم میں ہے کہ جس کا کمال ذات سے ہے کسی صفت سے نہیں ہے پس افعال اس کے کامل ہیں اور جو اس پر مترتب ہو وہ حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اپنی ذات کے کمال حاصل کرنے کے اسباب نہیں ہیں پس اس کا فعل کسی شے کے واسطے نہیں ہے پس ایجاد اس کے کمال کا ثمرہ ہے یہ بات نہیں کہ ایجاد اس میں کمال کو پیدا کرتا ہے پس اس میں کسی وجہ سے نقصان نہیں ہے تاکہ کسی فعل سے کمال حاصل کریں۔

بارہواں مرحلہ

ذات کا مظاہر سے تعلق

ذات کا اپنے مظاہر سے کیا تعلق ہے؟
وجود حقیقت واحد مستقلہ ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ عدم خالص اور لاشے محض ہے پس جو کچھ عالم کون میں ہے وہ اس حقیقت وحدت کا عین نہیں ہے کیونکہ یہ عالم کون میں ہے وہ کثیر ہے اور حقیقت واحد ہے اور نہ عالم کون عدم محض ہے کیونکہ آثار اور احکام اس کے ثابت ہیں پس اب عمدہ مشرب اور مذہب وسیع اس بارے میں یہ ہے کہ جو عالم کون میں ہے وہ حقیقتا تو اس حقیقت وحدت کا عین ہے اور اعتبارا اس کا غیر ہے یعنی بحیثیت تعین اور خصوصیت کے غیر ہے جیسا کہ حقیقت جبرائیلیہ کا بشر کی صورت میں متمثل ہونا پس وہ حقیقت جبرائیلیہ بحیثیت اس کے کہ وہ حقیقت جبرائیلیہ ہے او بحیثیت تشخیص اور تعین کے غیر ہیں پس مخلوق یعنی ظاہر بحیثیت حقیقت کے مجرد ہے اور بحیثیت ظہور کے ملبس یعنی غیر مجرد ہے پس وہ عین تجرد میں ملبس ہے اور عین تعین میں مجرد ہے پس اس کا اطلاق تقید کے ساتھ ہے اور اس کے تقید ایک اطلاق کے ساتھ ہے شیخ نے کہا ہے کہ اگر تو حق کو دیکھے تو خلق کو نہ دیکھے گا اور اگر خلق کو دیکھے گا تو حق کو نہ دیکھے گا پس دونوں اعتباروں کے احکام کے محافظ کو لازم پکڑو۔
فالبحر بحر على ما كان قدم وان الحوادث امواج فانهار
یعنی پس بحر بحر ہے جیسا کہ قدم میں تھا اور حوادث موجیں اور نہری ہیں
پس متمثل بنسبت اپنی تمثلات کی ملبس و مجرد دونوں ہیں یعنی بحیثیت بطون کے مجرد ہے اور بحیثیت ظہور کے ملبس ہے پس وہ بحیثیت دو حکموں کا محکوم علیہ ہے تجرد کا اور تلبس کا اطلاق اور تقید کا پس دحیہ کلبی کی صورت جبرائیل کی عین حقیقت جبرائیلیہ نہیں ہے کہ وہ صورت انسانیہ ہے مگر حقیقت دحیہ جبرائیلیہ ہے کیونکہ اگر حقیقت جبرائیلیہ نہ ہوتی تو غیر حقیقت جبرائیلیہ ہوگی پس اس صورت میں وحی کے پہنچانے کا حال متقلب ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں وہ غیر جبرائیل ہے پس ثابت ہوا کہ حقیقت وہ حقیقت جبرائیلیہ ہے اگرچہ صورت اس کی صورت جبرائیل کی نہ تھی پس معلوم ہوا کہ عینیت بحیثیت حقیقتت کے ہے اور غیریت بحیثیت صورت کے ہے پس انسانیت اور جسمیہ کے احکام صورت بشریہ کی طرف راجع ہیں اور تقدس اور وحی کے پہنچانے کے احکام حقیقت ملکیہ جبرئیلیہ کی طرف راجع ہیں پس اس بات کو جان کے احکام بشریہ حقیقیہ ملکیہ کے ساتھ قائم نہیں ہے بخلاف لطافت وبساطت اور تقدس کے کہ یہ اس کے ساتھ قائم ہے مگر حقیقت ملکیہ کو صورت بشریہ کے ساتھ ایک نسبت خاصہ اور مدد اور توجہ خاص ہے کہ اس نسبت کے واسطہ سے اس صورۃ بشریہ کا اور اس کے احکام ولوازم کا قیام ہے اگر وہ مدد اور توجہ نہ ہوتی تو صورتا معدوم ہو جاتی اور اس نسبت کے ہی نتائج میں سے ہے کہ اس صورت پر یہ حکم کیا جاتا ہے کہ وہ حقیقت جبرائیلیہ ہے اسی طرح موجودات وجود جن کے تمثلات ہیں پس حقائق امکانیہ کے اور اس کے آثار صورت مثالیہ کی طرف بحیثیت اس کے کہ وہ اس کے غیر ہیں راجع ہیں چونکہ وہ بحیثیت عینیت کے وجود محض ہے اور غیر کا کچھ حصہ نہیں بس حلول ثابت نہیں ہوتا اور نہ صورت کا قیام اس کے ساتھ ہے کیونکہ اس تقدیر پر لازم آتا ہے کہ متناہی محل غیر متناہی کا ہو اور ذات قدیمہ محل حوادث ہو اور حق سبحانہ و تعالی نہ حال ہے نہ محل ہے پس اگر حال و محل ہونے کے طور پر ظہور ہو تو یہ لازم آتا ہے کہ جیسا ازل میں ذات تھی اس کے خلاف ظاہر ہو اور یہ تغیر اور حوادث نہیں تو اور کیا ہے بلکہ ذات تمام صورتوں کے ساتھ متمثل ہے باوجود اس کے کہ جس طرح پروہ اپنی ذات میں ہے اسی طرح باقی ہے پس صور امکانیہ میں سے ہر ایک کے لیے ایک نسبت مخصوص ذات سے ہے پس جو توجہ ایک اسم سے ہے وہ غیر ہے اس توجہ کے جو دوسرے اسم سے ہے پس متمثل ایک ہے اور تماثیل مختلف ہیں پس ان صورتوں کو ذات سے ایسی نسبت ہے جیسے کہ لازم کو ملزوم کے ساتھ ہے نہ ایسی نسبت جیسی جزو کو کل کے ساتھ ہے پس تدبیر کر اورشکر کرنے والوں سے ہو۔

تیرہواں مرحلہ

  صفات اور اسماء کے ظہور کی تمثیل

انسان کی مثلاً چند صورتیں ہیں لڑکپن جوانی بڑھاپا اور باوجود ان صورتوں کے ذات واحد ہے اور ہر صورت مخصوصہ کے لیے ذات سے ایک نسبت مخصوصہ ہے تو با اعتبار اس نسبت کے ذات ان اوصاف کے ساتھ کہ جن کو وہ مقتضی ہے متصف ہے پس ان مظاہر میں نہیں ہے عین ظاہر واحد پس صور اپنے وجود میں ذات کے محتاج ہیں اسی کے ساتھ قائم ہیں اور ذات کے لیے با اعتبار ہر صورت کے ایک فعل خاص اور علیحدہ تاثیر ہے اور یہ فعل اور تاثیر حق تعالی کے اسماء میں اسم سے ہے کہ وہ اس مظہر میں ظاہر ہوا ہے پس ہر صورت اسماء حق میں سے ایک اسم کا مظہر ہے پس انسان صورت لڑکپن میں باعتبار اس نسبت کے کہ وجود کو اپنے نفس سے قبول کرنے والا ہے اور اسی نسبت کے اعتبار سے اس کے لیے صفات ہیں اور اسی طرح جوانی اور بڑھاپے کی صورتوں میں سمجھنا چاہیے پس جو فعل اور تاثیر ایک صورت میں ہے وہ اس فعل اور تاثیر کے مغائر سے جو دوسری صورت میں ہے اور فعل حیات اور علم اور قدرت اور ارادہ کو چاہتا ہے کیونکہ فعل و تاثیر بغیر ان صفات کے نہیں ہو سکتا اور ہر صفت کے ساتھ جو ظہور سے وہ مغائر ہے اس ظہور کے جو دوسری صفت سے ہے اور جو ایک صفت سے تعین ہے اور دوسری صفت کے تعین سے علیحدہ ہے پس کثرت کا منتشر ہونا عین وحدت حقیقیہ میں ہے جو جامع ہے اور صلاحیت کے ساتھ ناعت ہے پھر منتشر ہونا کثرت کا باعتبار تجرد فی العلم کے پھر تعین میں ہے پس کثرت یا تو عین میں ہے یا علم میں اور جو علم میں ہے یا تو بالاجمال ہے یا بالتفصیل یہ تینوں محل ہیں کثرت کی جو وحدت ذاتیہ مطلقہ قاہرہ کے تحت میں ضبط کی گئی ہے پس انسان کی ذات بمنزلہ غیب ہویت کے ہے اور اپنے نفس کو اور اپنے تمام کمالات کو اپنی ذات سے ادراک کرتا ہے مگر ادراک اجمالی ہے بغیر ایسے امتیاز کے جو قابلیات سلبیہ اور ایجابیہ و انفعالیہ کو جامع ہو بمنزلہ تعین اول کے اور اس کی قابلیات بمنزلہ شیون ذاتیہ کے ہے پس وہ مدرکات مجملہ بحیثیت تمام نسبتوں اور اضافات سے مجرد ہونے کے ہے پس وہ بمنزلہ احدیت محضہ کے ہے اور یا قابلیت بحیثیت تلبس کے ہے ساتھ نسبتوں اور اضافتوں کے پس وہ بمنزلہ وحدیت تفصیلیہ کے ہے اور اپنے نفس کو اور تمام کمالات کو خود اپنی ذات سے ادراک کرتا ہے اور ادراک تفصیلی ہوتا ہے اور جو قابلیات ایجابیہ اور سلبیہ اور فعلیہ اور انفعالیہ کے درمیان امتیاز کے ساتھ علی وجہ الفرق ہے اسی طرح پر کہ اس کے لیے خود ہر ایک کی نسبت قابلیت ظہور خاص کے علم میں ہو بمنزلہ تعین ثانی کے اور قابلیت جو اس میں ہیں یا تو ان کی شان فعل ہے یا انفعال ہے اور فعلیات اور انفعالیات کے لیے اجمال اور تفصیل ہے پس فعلیات کا اجمال بمنزلہ الوہیت کے ہیں اور تفصیل اس کی بمنزلہ اسماء اور صفات کی ہے اور اجمال ثانی کا بمنزلہ حقیقت امکانیہ کے ہے اور اس کی تفصیل علم میں بمنزلہ اعیان ثانیہ کے ہے اور عین میں بمنزلہ عالم کے ہیں اور تمام قابلیات انسان کی ذات سے ظاہر ہیں اور اسی کے ساتھ قائم ہیں لیکن قابلیت فعلیہ کے ساتھ اس کا ظہور تعدد وجودی کو واجب نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی وحدت صوریہ میں قابلیات فعلیہ کے ساتھ عین ظہور میں ہے بخلاف قابلیت انفعالیہ کے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ظاہر ہونے کے وقت تعدد وجودی کو واجب کرتا ہے۔

چودھواں مرحلہ

    قرب و بعد کےاعتبار سے خلق کی تقسیم

با اعتبار قرب و بعد کے خلق کی تقسیم
لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو محجوب و محروم ہیں پس سوا کثرت اور غیریت کے اور کچھ نہیں دیکھتے اور یا مجذوب ہیں کہ سوائے وحدت اور عینیت کے اور کچھ نہیں دیکھتے بس یہ دونوں اقتداء کے لائق نہیں ہیں کیونکہ دونوں محجوب ہیں پہلا تو کثرت کی ظلمت سے اور دوسرا وحدت کے نور سے، اقتدا کے لائق وہ عارف ہے جو دونوں طریق کا جامع ہو پس اشیاء کے باطن میں تو وحدت کو ثابت کسی اور اور اورونکے ظاہر میں کثرت کو پس اس کی وحدت کی آنکھ کثرت کی آنکھ کے ساتھ کھلی ہے اور کثرت کی آنکھ وحدت کی آنکھ کے ساتھ کھلی ہے پس ربوبیت وعبودیت و عینیت کو جو باطن کے اشیاء میں ثابت کرتا ہے وہ غیریت کو ظاہر اشیاء میں اور ہر دو کے احکام کو محو نہیں کرتا ہے پس ممکنات حقیقیہ اس کے عین ہیں اور اعتبار اس کے غیر ہیں پس بحیثیت تعینات غیریہ کے تو ممکنات مسلمہ ہی ہیں اور بحیثیت حقیقت عینیہ کے محققہ ہیں پس ممکنات تمام وجہات سے اس کے عین نہیں ہیں اور نہ تمام وجوہات سے اس کے غیر ہیں بلکہ باعتبار ذات کے اس کے عین ہیں اور با اعتبار تعین کے غیر جیسا کہ زید عین انسان ہے حقیقتا اور غیر انسان ہے با اعتبار تعین اور تشخص کے کیونکہ امتیاز اور تعین ہونا اطلاق کو مخل ہے شیخ ابو الحسن شاذلی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ فرق تیری زبان پر ہو اور جمع تیرے قلب میں ہو اور یہی کمال ہے پس مقید مطلق کا وجود میں محتاج ہے اور مطلق مقید کا ظہور میں مشتاق ہے اور کچھ کلام اس بحث کے متعلق آگے بھی آئے گا پس ممکنات بحیثیت اطلاق کے متحد ہیں اور بحیثیت تقیدات کے متعدد ہیں پس اطلاق کے احکام تقیدات کے نزدیک باقی ہیں اور تقیدات کے احکام اطلاق کے نزدیک ناقد ہیں اور دونوں کے احکام میں کچھ تعارض و تزاحم اور تناکر نہیں ہے بخلاف ان احکام کے جو ایک ہر ایک کے ساتھ مختص ہیں کیونکہ وہ آپس میں متعارض ہیں جیسا کہ انسان جب زید کی نسبت پر قیاس کیا جائے تو کلیتا کا حکم جزیت کے حکم کے جو زید میں ہے مزاحم و معارض ہے مگر انسان کے جسم و متحرک وبالارادہ ہونے کو زیدیت مزاحم و معارض نہیں ہے اسی طرح وجوب اور امکان اور قدم اور حدوث پس ہر ایک بحیثیت تلبس کے دوسرے سے معارض ہے اور بحیثیت تجرد کے معارض نہیں ہے اور معارضہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ احکام عین تجرد میں ڈوبنے والے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ حضرت موسی علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام کا عصا سانپ دکھائی دیتا تھا لیکن فی الواقع میں وہ عصا ہی تھا پس وہ عصا تھا سانپ نہ تھا اور سانپ تھا اور عصا نہ تھا اور عصا عین سانپ تھا اور سانپ عین عصا تھا اور عصا غیر سانپ تھا اور سانپ غیر عصا تھا اور اسی طرح ساحرین کے درمیان اور ان کے عصا ہمارے نظر میں سانپ تھے اور سانپ رسیاں اور عصا یہ سب تخیل میں ہے پس حقیقت میں سوائے ایک ذات کے اور کچھ نہیں ہے جو ایسے احکام کے ساتھ متلبس ہے کہ ان احکام کے سبب سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے غیر ہے۔

پندرھواں مرحلہ

  وجود حقیقی کے ممکنات میں ظہورپر سوالات و جوابات

: وجود حقیقی کے ممکنات میں ظہور کرنے پر سوالات اور ان کے جوابات
جاننا چاہیے کہ یہ مسئلہ با سبب مشکل ہونے جائے لغز ش اور افہام کا ہے اور جگہ پریشان ہونے خیالات کی ہے جو اس میں مشغول ہونے والا ہے اس کو بہت سے اعتراضات ایسے پیش آتے ہیں کہ مطلب کو عقل میں مستقل وراسخ ہونے سے روک دیتے ہیں پھر جو پوری طرح غور کرنے والا ہے تو اس کو جوابات بھی ان اعتراضات کے منکشف ہو جاتے ہیں کہ جس سے دروازہ بستہ کھل جاتا ہے اور قلب مطمئن ہو جاتا ہے پس اب ہم کو چاہیئے کہ کچھ سوالات و جوابات ذکر کریں تاکہ تو بصیرت حاصل کرے اور تحقیقات تیرے سے ذخیرہ ہوں ۔
سوال:۔ وجود حقیقی واجب ہے اور جب کہ تمام ممکنات میں ساری ہوگا تو لازم آئے گا کہ تمام ممکنات واجب ہوں کیونکہ مقید مطلق کا عین ہوا کرتا ہے حالانکہ ایسا نہیں۔
جواب:۔ کسی شے کے وجود سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے لوازم بھی واجب ہوں پس ممکنات وجود کے لوازم ہیں اور نیز وجود کے لیے مختلف حیثیتیں ہیں ورنہ واحد سے کثرت کا صدور نہ ہوتا پس وہ بحیثیت اس کے کہ حقائق ممکنات میں ساری ہے وجوب کے ساتھ متصف نہیں کیونکہ وجوب تجرد کا وصف ہے نہ تلبس کا پس وجود بحیثیت واجب ہونے کے ممکن نہ ہوگا اور بحیثیت ممکن ہونے کے واجب نہ ہوگا پس ہر حیثیت کا ایک حکم ہے جو دوسری حیثیت کے حکم کے مغائر ہے۔
سوال:۔ وجود کے اندر محل کی کثرت سے کثرت آجاتی ہے اور واجب کے اندر تکثر نہیں ہے۔
جواب :۔تکثر اس میں نہیں ہے تکثر اس کے شیون میں ہے اور وہ و ہی ہے تعین وجوبی اور امکانی کے ساتھ مکتسب ہونے سے پہلے بھی اور بعد بھی ورنہ تغیر اور انقلاب ضد کے ساتھ اس میں لازم آئے گا مگر وہ با اعتبار ظہور کے حصص متعینہ کے ساتھ نام رکھ دیا گیا ہے پس وہ ازل و ابد میں اسی صفت بساطت پر ہے جیسا کہ تھا اور نیز تکثر تو وجود کی امداد اور توجہ اور تعلق جو اس کو موجودات سے ہے اس میں ہے اور ان میں سے ہر ایک کا تکثر ممد اور متوجہ میں تکثر کو پیدا نہیں کرتا پس واجب میں کچھ بھی تکثر نہیں۔
سوال:۔ وجود یا تو واجب ہوگا یا ممکن اور نیز یا قدیم ہوگا یا حادث پس لازم آتا ہے کہ وجود نہ واجب ہو اور نہ قدیم ہو ورنہ انقسام شی کا اپنی طرف اور اپنے غیر کی طرف لازم آتا ہے اور یہ باطل ہے۔
جواب:۔ وجوب اور امکان اور ایسے ہی قدم اور حدوث وجود کی نسبتوں کے اسماء میں سے ہیں اور ان اسماء ذاتیہ میں سے نہیں ہیں کہ کل متقابلات اس کی نسبت برابر ہیں پس تقسیم نسبت وجود کی ہے وجود بحیثیت وحدت اور اطلاق کے نہیں ہیں کیونکہ وہاں تو کوئی نسبت ہی نہیں ہے اور نیز وہاں کسی طرح کی تقسیم ہے تقسیم وہاں کیسے ہو سکتی ہے حالانکہ تقسیم تام ایک مخصص کو ایک مشترک کے ساتھ ضم کرنے کا ہے اور مخصص مشترک کے غیر ہے تاکہ تمیز اور امتیاز کو مفید ہو پس مطلق جو منقسم ہوا ہے ضم مخصص کے ساتھ اپنے نفس کا غیر ہے تاکہ تقسیم شے اپنے نفس کی طرف اور اپنے غیر کی طرف نہ لازم آئے اور جس امر میں ہم کلام کر رہے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ان موجودات کے ساتھ وجود کا ظہور تمثل کی قسم سے ہے جیسے حقیقت ملکیہ کا صورت بشر یہ میں ظاہر ہونا پس یہ نہیں کہا جاتا کہ صورۃ بشریہ حقیقیہ ملکیہ کے غیر ہے پس حقیقت اور ظہور کے اعتبار سے وجود واحد ہے مگر نسبتوں اعتباریہ نے تمیز اور کثرت کو پیدا کر دیا ورنہ تمیز اور کثرت وہمیہ ہے بزرگوں نے اس مقام کو اسی طرح لکھا ہے اور اس میں جو کچھ خدشات ہیں وہ ہیں۔
سوال:۔ مطلق کا وجود صرف ذہن ہی میں ہوتا ہے اور واجب الوجود خارج میں موجود ہے پس مطلق واجب الوجود نہ ہوگا ۔
جواب:۔ مطلق سے مراد وہ معنی نہیں ہے جو عقل کے فہم میں متبادر ہوتے ہیں بلکہ مطلق سے مراد ایسی ذات ہے کہ اس کا تعین اور تعینات کے منافی نہیں ہے بلکہ تمام تعینات کے ساتھ اسی طرح جمع ہو سکتا ہے کہ کوئی تعین تعینات میں سے اس سے نکلتا نہیں پس واجب ایسے تعینات سے متعین ہے کہ وہ تعین اس کا عین ذات ہے پس وہ موجود خارجی ہے اور اطلاق حقیقی سے مطلق ہیں اور ایسے تعین سے متعین ہے کہ وہ تعین عین ذات ہے ۔
سوال :۔مطلق کا وجود مقید کے ہی ضمن میں ہوتا ہے اور ایسے ہی عام کا وجود خاص ہی میں ہوتا ہے بس یہ لازم آتا ہے کہ واجب کا وجود ضمن غیر ہی میں ہو اور یہ محال ہے کیونکہ وہ پہلے ہر موجود کے موجود ہے ۔
جواب:۔ موجود کی دو قسمیں ہیں اول یہ کہ وہ یا تو وجود مقارنت کے ساتھ موجود ہوگا یا نفس وجود ہوگا پس وہ ہیت کہ وجود کی مقارنت کے ساتھ پائی جاتی ہے اول متعین ہوگی اس کی وجوہ کے ساتھ مقترن ہو کر موجود ہوگی اور مطلق اور عام ہی بات سے ہے بخلاف اس ماہیت کے جو خود نفس وجود ہے پس وہ اپنی ذات سے موجود ہے پس وہ موجود ہونے میں غیر کی محتاج نہیں ہے پس واجب ضمن غیر میں موجود نہ ہوگا ۔
سوال:۔ وجود ہر ایک کو معلوم حتی کہ کہا گیا کہ وجود بدیہی ہے پس اگر واجب تعالی عین وجود ہوتا تو ہر ایک کو معلوم ہوتا بلکہ بداہتا معلوم ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہے پس معلوم ہوا کہ واجب عین وجود نہیں ہے ۔
جواب:۔ وجود کی کنہ کسی کو معلوم نہیں ہے اگرچہ با اعتبار تحقق ذاتی بدیہی ہو پس معلوم ہوا کہ وجود باعتبار تحقق کے سب اشیاء سے زیادہ ظاہر ہے اور با اعتبار کنہ کے بہت زیادہ مخفی ہے۔
سوال:۔ وجود اگر عین واجب ہو پس تو دو حال سے خالی نہیں یا تو اپنے اطلاق سے عین واجب ہوگا اور یا اپنی تقیید سے تقدیر اول پر لازم آتا ہے کہ وجود تخلیق یعنی پیدا کرنے کی صفت اور ایجاد کے ساتھ متصف ہو اس واسطے کہ وا جب ان دونوں صفتوں کے ساتھ متصف ہے کیونکہ جب کوئی شے کسی شے کے ساتھ متحد ہوتی ہے تو یہ ضروری ہے کہ شے اول دوسری شے کے اوصاف کے ساتھ بھی متصف ہو اور جو شے اوصاف کے ساتھ متصف ہوا کرتی ہے وہ مقید ہوتی ہے مطلق نہیں ہوتی اور تقدیر ثانی پر یہ لازم آتا ہے کہ واجب مرکب ہو جیسا کہ تمام مقیدات کی شان ہے کیونکہ جو لوازم کسی شے کے ہوتے ہیں وہ اس شے میں ضرور متحقق ہوتے ہیں جو کہ پہلی شے کے ساتھ متحد ہو۔
جواب :۔اطلاق کی دو قسم ہیں اور اسی طرح وجوب کی دو قسم ہیں اول وہ اطلاق کے تمام نسبتوں سے جیسے فعل اور انفعال اور وجوب و امکان سے خالی ہو اور دوسرا اطلاق کہ وہ تمام نقائص امکانیہ سے مثل تعینات جسمانیہ مثالیہ وروحیہ کے خالی ہو اول اطلاق تو محض ذات ہے اور دوسرا ذات مع اسما و صفات کے ہیں اور واجب کے دو حال ہیں تو ذات محضہ ہو کہ اس میں تعین اور تقید بالکل نہ ہو اور دوسرے ذات جو اسماء و صفات کے ساتھ لی گئی پس واجب حقیقی اول ہے اور وہ عین اولی ہے بمعنی اول ہے اور دوسرا دوسرے کا عین ہے اور اطلاق حقیقی اور اس اطلاق کے درمیان جوخلق اور ایجاد کے ساتھ متصف ہے کچھ منافات نہیں بس اگر تو یہ کہے کہ کسی شے کا خالق اس شے پر محمول نہیں ہوا کرتا اور مطلق مقید پرمحمول ہوتا ہے بس وجود بحیثیت اطلاق کے واجب نہ ہوگا میں کہتا ہوں کہ حمل اتحاد من وجہ اور تغائر من وجہ کو مقتضی ہے اور یہ دو صورتوں میں متحقق ہوگا اول اتحاد با اعتبار صورت کے اور تغایر با اعتبار معنی کے جیسا کہ قول تیرا زید انسان ہے کیونکہ زید و انسان خارج میں ایک ہیں اور ذہن میں متغائر ہیں بسبب اس جزہیئت کے جو تشخص سے پیدا ہو اور کلیت اس تشخص کو اٹھاتا ہے اور دوسرے صورت یہ ہے کہ با اعتبار ظاہر کے تغائر ہو اور با اعتبار باطن کے اتحاد ہو جیسی جبرائیل اور صورت دحیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اور اگر اتحاد نہ ہوتا تو صورت دحیہ جو ظاہر ہوئی ہے وہ جبرائیل سے ظاہر نہ ہوتی پس جس بات میں ہم کلام کررہے ہیں تغائر با اعتبار صورت کے ہے اور اتحاد با اعتبار معنی کے پس اس معنی کا ظاہر ہونا ایسی صورت میں ہے کہ وہ صورت اس کے لیے کمال ہے نہ نقصان بلکہ اگر ظاہر نہ ہو تو اس میں نقصان لازم آتا ہے کیونکہ ظہور میں اس کی ذات میں اس حالت سے کہ جس پر وہ ہے تغیر تو لازم آتا ہی نہیں پس موجد اور موجد اور فاعل اور قابل کے درمیان حمل جو ممتنع ہوگا تو بحیثیت اسی نسب کی ہے جو اپنی ذات سے متمیز ہیں جیسا کہ ہم نے دحیہ کلبی اور حقیقت ملکیہ میں ذکر کیا ہے پس جب موجد کی طرف اس حیثیت سے نظر کی جائے کہ وہ موجد ہے اور موجد پر وجود کے اعتبار سے متقدم ہے توحمل ممتنع ہے اور جب اس حیثیت سے نظر کی جائے کہ وہ مطلق اس کو یہ بات پہنچتی ہے کہ وہ جس صورت میں چاہے خواہ وہ صور علویہ میں سے خواہ صور سفلیہ میں سے متمثل ہو جائے۔ اور باوجود تمثل کے پھر بھی وہ جیسا کہ پہلے تمثل کے تھا اسی طرح رہے تو اس نظر کے اعتبار سے صحیح ہے جیسا کہ حیوان با عتبار اس کے کہ وہ جزو اور مادہ ہے اور بالذات متقدم ہے حمل اس کا انسان پر ممتنع ہے اورباعتبار اس کے اطلاق کے اس پر محمول ہوتا ہے پس معلوم ہوا کہ ایجاد اور اطلاق جمع نہیں ہوتے کیونکہ ان کے لوازم مختلف ہیں پس اول میں نے اطلاق کے تو اس کو مقتضی ہیں کہ موجد موجد پر محمول نہ ہو اور معنی ثانی اس کو مقتضی کہ مطلق مقیدات محمول ہو پس اس صورت میں لازم آتا ہے کہ وجود اور واجب عین دوسرے کا نہ ہو کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ وجود اگر واجب ہوتا تو اس کا موجد ہونا ممکن نہ تھا کیونکہ مانع اطلاق سے متحقق ہےپس حاصل یہ ہے کہ وجوب ذاتی اور اطلاق حقیقی میں کسی نسبت کی گنجائش نہیں پس وہ ہی وہ ہے کیونکہ اس حیثیت سے وجود میں کوئی غیر نہیں اور رہے وجوب وصفی اور اطلاق غیر حقیقی یعنی وہ اطلاق کہ جو صرف تعینات امکانیہ سے ہے اطلاق ہو تمام اعتبارات سے اطلاق نہ ہو تو ان کے لیے دو اعتبار ہیں اول صفت وجوبیہ کے ساتھ مقید ہونے کا لحاظ پس اس اعتبار سے تو مقید ات امکانیہ پر حمل صحیح نہیں ہے کیونکہ واجب اور ممکن میں سے ہر ایک ایسی خصوصیت کے ساتھ مختص ہے کہ وہ خصوصیت حمل کو مانع ہے اور دوسرا اعتبار اطلاق کا یعنی ذات کا لحاظ کرنا ہے تو اگرچہ اس اطلاق کے لیے بھی ایک تعین خاص ہے مگر وہ ایسا تعین نہیں ہے جو تعینات امکانیہ کے منافی ہو بلکہ ایسا تعین ہے جو تمام تعینات امکانیہ کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور ہر ایک تعین کے ساتھ بھی جمع ہو سکتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ متمثل ہو سکتا ہے باوجود اس کے کہ وہ اپنے اطلاق اور کمال پر رہتا ہے اس کے اطلاق اور کمال میں کچھ فرق نہیں آتا پس اس صورت میں حمل صحیح ہے ۔
سوال:۔ وجود اپنے افراد پر تشکیک کے طور پر محمول ہوتا ہے پس بے شک علت کا وجود معلول پر مقدم ہوتا ہے اور جوہر کا وجود عرض کے وجود سے اولیٰ ہوتا ہے اور وجود قار بالذات کا غیر قار بالذات کے وجود سے اشد ہوتا ہے اور جو شے اپنے اثرات پر تشکیک کے طور پر محمول ہوتی ہے وہ اپنے افراد کے نہ تو عین ماہیت ہوتی ہے اور نہ جز ماہیت بلکہ وہ ماہئیت کو عارض ہوتی ہے پس اس کا واجب ہونا بھی ممتنع ہوگا کیونکہ واجب کسی شے کو عارض نہیں ہوا کرتا اور نہ غیر پر محمول ہوتا ہے خصوصا تشکیک کے ساتھ تو ہوتا ہی نہیں۔
جواب:۔ وجود میں بحیثیت اس کے وجود وجود ہے تفاوت نہیں پس تقدم اور اولیت اور شدت اور ان کے جو مقابل ہیں امور اضافیہ ہیں اور وجود میں بحیثیت اس کے کہ وجود وجود ہے کوئی نسبت نہیں ہے اور نیز تشکیک تو با اعتبار کلیت اور عمومیت کے عارض ہوتی ہے اور وجود بحیثیت اس کے کہ وہ وجود ہے نہ عام ہے نہ خاص نہ کلی نہ جزئی بلکہ یہ امور اس کو بحیثیت ماہیات کے عارض ہوتے ہیں اور یہ عارض ہونا اس کے بحیثیت وجود ہونے کے بطور تشکیک کے محمول ہونے کو مستلزم نہیں ہے پس تشکیک با عتبار اس کے ہے کہ وجود ظاہر میں ظہور کر رہا ہے نہ بے اعتبار حقیقت وجود کے پس اختلاف ظہور کی طرف راجع ہے نہ حقیقت کے پس جو حقیقت افراد کی ہے وہی حقیقت وجود ہے نہ وہ حقیقت جو نسب اور اضافات کے ساتھ مجتمع ہے۔
سوال:۔ وجود اگر ممکنات میں ساری ہوتا اور حالانکہ وجود ذات باری تعالی ہے تو یہ لازم آتا کہ ذات الہیہ قاذو رات(گندگیاں) کے ساتھ متلطخ (آلودہ ) ہو اور یہ ایسی بات ہے کہ کوئی عاقل آپ کے کہنے کی جرات کر نہیں کر سکتا اورنیز وجود میں بعض ایسے قبا ئح ظاہر ہوئے ہیں کہ جو عقلا ًاور شرعاً قبیح ہیں پس ان کا وجود وجود حق تعالی کی جانب کیسے منسوب ہوگا ؟۔
جواب :۔بے شک ساری ذات ہی ہے تلطخ (آلودہ ہونا)بسبب نہائت لطافت کے لازم نہیں آتا دیکھتے نہیں ہو کہ آفتاب کی دھوپ گندگیوں پر محیط ہوتی ہے اور ان سے بالکل آلودہ نہیں ہوتی اور آنکھ کا نور گندگیوں پر پڑتا ہے لیکن ان میں مخلوط نہیں ہوتا پس کیا خالق کے نور کے ساتھ تیرا گمان ایسا ہو سکتا ہے تلطخ اور اختلاط تو جسم کے جسم کے ساتھ قریب ہونے میں لازم آتا ہے اور موجد تو وہ موجود خالص بمعنی ذات ہےماہیت امکانیہ کے ساتھ اس کو اقتران نہیں ہوتا اور فضلہ اورگندگیاں وغیرہ ایسے ماہیت امکانیہ ہے کہ وجود خالص کے ساتھ مقترن ہے پس اس ماہیت کے لیے اتحاد نہیں ہے جاننا چاہیئے کہ خیر بالذات وجود ہے اور شر بالذات عدم ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شر کی کوئی حقیقت ذوات نہیں ہے کہ شر ایک عدم ہے جو کمال غیر کو مانع ہے کیونکہ وجود کسی شے کا کسی شے کو باطل نہیں کرتا مثلا برد اور ابر پھلوں کو باطل کرنے والے ہیں اور تامل کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برد فی نفسہ شر نہیں بلکہ وہ کمالات میں سے ایک کمال ہے اور اگر شر ہے تو پھلوں کے اعتبار سے ہے مطلقا ًشر نہیں ہے بلکہ اس حیثیت سے شر ہے کہ اس نے پھلوں کے مزاج کو فاسد کر دیا ہے بس شربذات پھلوں کا معدوم ہونا ہے اور جو کمالات اس کے لائق ہیں ان کا معدوم ہونا اور لفظ شر کا اطلاق اسکے اسباب پر بالغرض ہوتا ہے ورنہ وہ شر نہیں ہے شر واقعی عدم ہے بس خوب غور کر لے کیونکہ یہ بحث بہت ہی مشکلات کے لیے مفتاح ہے ۔

سولہواں مرحلہ

  وجود بمعنی کون ووجود بمعنی ذات فرق

فرق درمیان وجود بمعنی کون ووجود بمعنی ذات
جو شے خارج میں موجود ہے اس کی دو قسم ہیں اول ممکن دوم واجب کیونکہ وجود اگر کسی ضمیمہ منضمہ کا محتاج ہو اور اس کے بعد اس پر آثار مرتب ہو تو وہ ممکن ہے اور ضمیمہ یہاں وجود بمعنی ذات ہےاور اگر طرف ترتب آثار میں ضمیمہ کی احتیاج نہ ہو بلکہ اس کی ذات مستقل ہو وہ واجب ہے اور یہی واجب ممکن میں ضمیمہ ہے اور جو وجود معقولات ثانیہ سے ہے یعنی وہ جوبمعنی اصول وکون ہے ممکن اور واجب کے لیے عرض عام ہے مگر فرق یہ ہے کہ وجود بمعنی حصول کا عمل واجب پر حمل مواطات (متفق)نہیں ہے بلکہ حمل اشتقاق ہے یعنی واجب موجود ہے حمل واجب پر اس وجود کا کہ جو معنی میں ذات کے ہے تو وہ اشتقاق کا محتاج نہیں ہے بلکہ وجود بمعنی ذات اس پر حمل مواطات سے محمول ہوگا اور اگر اس موجود اس وجود سے جو بمعنی ذات ہے اشتقاق کیا جائے تو اس وقت اس کے معنی ذو وجود یعنی وجود والے کے ہوں گے کیونکہ واجب ذو ذوات ہے اور اسی طرح ممکن بھی ذو ذوات ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ واجب ترتب آثار میں وجود بمعنی حصول کا محتاج نہیں ہے کیونکہ آثار ذات پر مترتب ہیں بلکہ وجود بمعنی کون و حصول ہی منجملہ آثار کے ہے۔
سوال:۔ لفظ وجود تقریر بالا کے موافق ذات اور کون اور حصول کے درمیان مشترک ہے پس جو وجود اور واجب کے عین ہونے کا قائل ہے اس نے وجود سے مراد ذات لی ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ عین ذات نہیں ہے اس نے وجود کے معنی کون اور حصول لیے ہیں پس نزاع لفظی ہوا اور نزا ع لفظی میں مشغول ہونا مخلصین کا طریق نہیں ہے۔
جواب ہم کہتے ہیں کہ اختلاف اس میں ہے کہ جو شے ماہیات سے مقترن ہوتی ہے اور اس کے اقتران سے آثار اور احکام اس پر مرتب ہوتے ہیں اور اس کو وجود سے تعبیر کرتے ہیں آیا وہ کوئی امر حقیقی ہے یعنی بمعنی ذات ہے یا امر اعتباری ہے یعنی وجود بمعنی کون ہے پس معلوم ہوا کہ نزا ع حقیقی ہی لفظی نہیں ہے ۔

سترھواں مرحلہ

وجود کا حمل ، تفصیل اور سوال و جواب

وجود کا حمل اور اس کی تفصیل معہ سوال و جواب
وجود کو جو بمعنی ذات ہے بحیثیت وجود کے بغیر ملاحظہ کسی نسبت اور اعتبار کے خواہ وہ نسبت تجرد کی ہو یا تلبس کی وجود مطلق کہتے ہیں اور ذات خالص اور غیبت ہویت اور احدیت مطلقہ اور احدیت ذاتیہ کے کنہ علم کسی کو نہیں اور نہ کشف کسی مخلوق کا اس کے متعلق ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے ظہور اور تنزل اور تمثل باعتبارعلم اور عین کے ہے پس انہیں اعتبارات سے اس کے ادراک کے متعلق ہو سکتا ہے اول ان اعتبارات میں سے تنزل علمی جو متعلق ایک شان کلی کی ہے جو تمام شیون الہیہ وکیانیہ و ازلیہ و ابدیہ کو جامع ہے یعنی وہ اپنے نفس کو شان کلی جملی کے ساتھ جانتے ہیں بغیر امتیاز کے درمیان شیون ذاتیہ کے اور وہ کثرت ہے جو وحدت کے تحت میں مندرج ہے اور ہر شان کے لیے بنسبت اس کے ان احکام اور آثار کے جو نشاۃ آخرہ میں ظاہر ہوں گے خفا ہے کیونکہ مرتبہ تفصیل کا اجمال میں مختص ہے بلکہ ہر شان کے لیے بہ نسبت دوسری شان خفا ہے باوجود اس کے کہ حضرت وجود پر کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے اور شیون اور ان کے احکام وآثار کے ظہور کی نسبت باعتبارعلم کے ایک مرتبہ میں ہے اور یہ وحدت حقیقیہ کے خواص سے ہے پس تعین اول وحدت خالص ہے اور نیز وہ قابلیت مختصیہ کہ جس سے صفات اور اعتبارات سے تجرد کی قابلیت اور ان سے تلبس کی قابلیت پیدا ہوتی ہے اور وہ حقیقت محمدیہ ﷺکے ساتھ موسوم کی جاتی ہے پس ہر صفت سے مجرد کا اعتبار حتی کہ قابلیت تجرد سے بھی تجرد مرتبہ احدیت کا ہے اور اس مرتبہ کی شان بطون اور اولیت اور ازلیت ہے اور تمام صفات واعتبارات کے ساتھ تلبس کا اعتبار مرتبہ واحدیت کا ہے اور اس کی شان ظہور اور آخریت اور ابدیت ہے اور اس مرتبہ کے اعتبارات میں سے بعض اعتبار ایسے ہیں کہ بہ اعتبار مرتبہ جمع کے ذات ان کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور وہ اتصاف حقائق کونیہ پر موقوف نہیں ہے جیسے حیات اور علم اور ارادہ پس یہ الوہیت اور ربوبیت کے اسماء اور صفات ہیں اور ذات کو معلوم ہونے کی صورتیں اسماء اور صفات ہیں اور ذات کے معلوم ہونے کی صورتیں اسماء و صفات کے ساتھ جو حقائق الہیہ میں متلبس ہیں اور بعض صفات کے ساتھ اتصاف حقائق کونیہ پر موقوف ہے جیسے خالقیت اور رازقیت اور ظاہر وجود ان دونوں کے سبب سے متعدد نہ ہوگا اور بعض صفات وہ ہیں کہ ذات ان کے ساتھ باعتبار مرتبہ فرق کے موصوف ہوتی ہے جیسے اجناس اور فصول اور خواص اور وہ تعینات جزئیہ کہ جن کے سبب سے اعیان خارجیہ ایک دوسرے سے متمیز ہیں اور ذات کے معدوم ہونے کی صورتیں ان اعتبارات کے ساتھ کہ جو حقائق کونیہ میں متلبس ہیں اور ظاہر وجود ان صورتوں کی وجہ سے متعدد ہوتا ہے۔
اور جاننا چاہیے کہ بعض حقائق کونیہ بعض ایسی حقیقتیں ہیں کہ جب وجود ان میں ساری ہوتا ہے وہ تمام اسمائے الہیہ کا غالبیت اور مغلوبیت کے ساتھ مظہر ہو جاتی ہیں جیسے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء قدست اسرارھم کے حقائق بخلاف مظہر اتم کی حقیقت کے کیونکہ وہ اعتدال تام پر ہوتی ہیں اور بعض حقائق حقائق کونیہ میں سے کسی حقیقت میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتا اور ذات احدیت جو تمام شیون الہیہ اور کونیہ کو شامل ہے ان تمام حقائق میں ساری ہے کہ وہ تفاصیل مرتبہ واحدیت کا ہے اور وہ حقائق عالم ارواح اور عالم مثال اورعالم حس ہیں کہ جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے اور دنیا اور عقبی
سوال:. تقریر مذکور کے موافق یہ لازم آتا ہے کہ ایک حصہ تو حقیقت کا ایک فرد میں ہو اور ایک حصہ ایک دوسرے فرد میں ہو پس اس صورت میں حقیقت منفصل اور متعدد ہو گئی
جواب:. ہم دریافت کرتے ہیں کہ حصہ سے تمہاری کیا مراد ہے اگر حصہ سے مراد جزء اور بعض ہے تو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ بعض اور جزء کل کے غیر ہوتا ہے پس حقیقت نے میں افراد میں سے کسی فرد نے کہیں بھی سرایت نہیں کی بلکہ ایک جزء اور بعض حقیقت نے سرائیت کی پس زید حقیقت انسان نہ ہوگا کیونکہ اس میں انسان کی حقیقت نے سرایت نہیں کی اور گر حصہ ہے مراد یہ ہے کہ حقیقت کو کچھ تعینات و تشخصات مخصوصہ عارض ہو گئے پس ان کے عروج سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ دوسرے فرد میں اور ہے تو یہ مسلم ہے لیکن اس قدر سے تعدد اور تجزی نفس حقیقت میں لازم نہیں آتی
سوال:۔ عالم ارواح اور عالم مثال اور عالم حس میں ذات کی ساری ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ تینوں عالم ازلی اور ابدی ہوں کیونکہ سریان ایک نسبت کا نام ہے کہ جو ساری اور مسری فیہ کو مقتضیٰ ہے اور ساری تو ازلی ہی ہے پس مسری فی کا بھی ازلی ہونا ضروری ہے اور عالم تمام خصوصا یہ نشاۃ دنیاویہ نہ ازلی ہیں نہ ابدی ہیں
جواب:۔ عالم ازلی ہے اس میں کچھ کلام نہیں کلام اس میں ہے کہ جو امتداد مفیض یعنی حق تعالی اور مستفیض یعنی اس عالم کے درمیان متوہم ہے یہ واجب ہے یا ممکن واجب ہونا توجائز نہیں ورنہ واجب متعدد ہوجائیں گے پس متعین ہو گیا کہ ممکن ہے بس اس صورت میں اس کے درمیان اور حق سبحانہ و تعالی کے درمیان کوئی مسافت نہیں ہے یا یہ کہا جائے گا کہ وہ امتداد جو ان کے درمیان میں متوہم ہے ازلی نہ ہو تو تعطیل اسماء اور صفات کے ظہور عالم تک لازم آتی ہے اور تعطیل محال ہے اور اس مقام کی تحقیق یہ ہے کہ واجب تعالی زمانی نہیں ہیں کیونکہ زمان جیسے کہ حکماء نے کہا ہے فلک الافلاک کی حرکت کا نام ہے پس جیسا کہ واجب زمانی نہیں ہے اسی طرح اول عالم بھی زمانی نہیں ہے پس اگر قبلیت اور بعدت عالم اور واجب میں ہوتی تو زمانی ہوتی کیونکہ ہم جو مثلا کہتے ہیں کہ زید عمر کے قبل ہے اور عمر بعد زید کے ہے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ زید ایسے زمانہ میں ہے کہ وہ زمانہ عمر کے زمانہ سے پہلے ہے اور عمر ایسے زمانہ میں ہے کہ وہ زمانہ بعد زمانہ زید کے ہے پس جب قبلیت اوربعدیت کے یہ معنی ہوئے تو لازم آتا ہے کہ واجب اور عالم زمانی ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ واجب اور عالم دونوں ایک ساتھ موجود ہیں مگر اتنا فرق ہے کہ واجب عالم کی علت ہے اور عالم معلول ہے اور واجب معلول پر متقدم بالذات ہے پرسائل پہ نہیں سوال کر سکتا کہ اللہ تعالی نے کیسا ایجاد کیا کیونکہ یہ سوال عالم کے زمانہ دریافت کرنے کے متعلق ہے اور اس کے لیے زمانہ نہیں ہے
سوال:۔ تعطیل کا ارتفاع اس طرح بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ ممکنات میں سے کوئی ممکن ثابت کر دیا جائے اور حالانکہ بعض کا مسلک یہ ہے کہ روح ازلی ہے جیسے کہ ابدی ہے اور تمہاری دلیل کا مقتضی سے تمام عالم کی ازلیت ثابت ہوتی ہے خوا عالم روح ہو یا مثال ہو یا عالم حس ہو اور اس میں شک نہیں ہے کہ یہ نشاۃ دنیاویہ ازلی نہیں ہے جیسا کہ ابدی بھی نہیں ہے
جواب:۔ موجودات کی ذات کا مقتضی عدم ہے اور اس کا وجود اور لقاء فیض الہی سے ہے اگر فیضی الہی ذرا سی دیر بھی نہ ہو تو اپنے وطن اصلی یعنی عدم میں چلی جائیں اور یہ فیض جو ایک تجلی واحد کا نام ہے کہ جو قوابل (بالمقابل)کے لیے موافق ان کی استعداد کے تعینات متعدد اور صفات متکثرہ متعددہ کو پیدا کرتی ہے اور بات یہ نہیں ہے کہ تجلی متعدد ہے بلکہ اس کا حال تو ایک ہی ہے اور مثل آنکھ کے جھپکنے کی ہوتی ہے پس جیسا کہ موجود اول اس سے امداد حاصل کرتا ہے اسی طرح موجود آخر بھی اسی سے امداد حاصل کرتا ہے اور تجلی اس کے ساتھ قائم ہے اور جو اس کے ساتھ قائم ہے اس میں تعدد نہیں ہے کیونکہ وہ تو ایک ذات اور صفت اور ایک فعل ہے اگرچہ تعلقات کے متعدد ہونے سے اس میں تقدم اور تاخر کا توہم ہوتا ہے دیکھتے نہیں کہ حق تعالی کا علم حقیقت واحد ہے کہ اس سے تمام معلومات ایک مرتبہ معلوم ہو جاتے ہیں پس علم اور اس کا تعلق دونوں قدیم ہے اور اسی طرح ارادہ اور باقی صفات اور ان کے تعلقات کو سمجھنا چاہیے کہ صفات بھی قدیم ہے اور تعلقات بھی قدیم ہیں موجودات کے وجود اور عدم سے ان میں کچھ تفاوت نہیں کیونکہ علم باری تعالی کا وجود میں ہے اور عدم واحد ہے بس اس فیض وجودی میں بھی اگرچہ قابلیات اور استعدادات کے تعدد سے ایک دوسرے کے تقدم اور تاخر سے تعدد اور تجدد متوہم ہوتا ہے لیکن وہ باعتبار ذات اور حقیقت کے واحد مطلق وسیع ہے اور سب کو جامع ہے اور ازل و ابد کو دفعتا شامل ہے موجودات کا تعدد تجدد وحدت کے مخالف و منافی نہیں اور اطلاق میں قادح نہیں ہے اوراس سے مراتب موجودات کی ازلیت لازم نہیں آتی کیونکہ موجودات عدم ذاتی اور حدوث اصلی کے ساتھ مسبوق ہیں کیونکہ وہ خود اپنی ذات سے موجود نہیں ہیں ذات مطلقہ کے محتاج ہیں بلکہ وہاں تو ازل اور ابد ہی نہیں ہے ازلیت اورابدیت تو تیرے میرے اعتبار سے ہے کیونکہ تعدد تیرے میرے لوازم سے ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کے علم کے نزدیک توکون کے ازلی اور ابدی ہونے سے کوئی مانع نہیں ہے تیرے اعتبار سے اور تیری نسبت سے مانع ہے بس اب تو نے جان لیا کہ ذات احدیت علی السواء تینوں عالم میں ساری ہے اور اسی واسطے صوفیہ نے کہا ہے کہ ہر شے ہر شے میں ہے تاکہ اس سے معنی استجلاء کے تمام ہوں یعنی شہود اس کا اپنی ذات کے لیے ان اعتبارات سے ہے جیسا کہ جلاء یعنی ظہور اس کا انہی اعتبارات سے تام ہوا ہے پس جلاء کمال ذاتی ہے جوعلم اور غیب کے اعتبار سے مفصل ہے کہ جو مجمل میں موجود ہے اور غیریت سے مجرد ہے اور استجلاء کمال اسمائی اور عین اور معائنہ میں ایک مجمل ہے کہ جو مفصل میں موجود ہے اور غیریت کے ساتھ متصل و متلبس ہے پس جو کثرت مراتب وجود اور امکان میں یعنی شیون میں متصور ہے وہ سب حضرت ذات میں مندرج ہیں پس وہ بالذات جہان والوں سے غنی ہیں پس وہ علم واحد سے علی وجہ الکمال ہر شے کو جانتے ہیں اور ان کے معلومات کے درمیان کچھ تفاوت نہیں ہے نہ علم میں نہ عین میں نہ بطون میں نہ ظہور میں نہ تقدم میں نہ تاخر میں اور تفاوت تیرے ہی اعتبار سے ہے پس ماضی تیرا اور مستقبل تیرا اور حال تیرا سب اس زمانے الہی سے مستہلک ہے کہ اس میں ماضی عین مستقبل عین ماضی بلکہ ازل اور ابد تمام متقابلات اس کی ذات میں مضمحل اور ہالک ہیں کیونکہ وہ ہر تقید سے مطلق ہے پس ہرمقید کی ذات ان کے ذات کے اعتبار سے معدوم ہے پس اس زمان الہی میں جو شان ظاہر ہے وہ تمام شیون الہیہ کو شامل ہے کیونکہ مظہر کی وسعت ظاہر کی وسعت کو پیدا کر دیتی ہے پس جو کچھ کہ ان عالموں متعددہ میں ہے کہ جو ذات اور صفت اور ثبوت اور تغیر کے اعتبار سے مختلف ہیں ان پر وہ شان شامل ہے اور زمانہ حق تعالی میں کسی طرح تغیر نہیں ہے اور زمانہ کو جو اللہ تعالی کی طرف مضاف کرتے ہیں وہ شرف کی وجہ سے کرتے ہیں جیسا کہ بیت اللہ پس گویا کہ زمانہ کلی میں اللہ نے علم قدیم میں سے ایک آمیزش ہے
سوال:. حق سبحانہ و تعالی کلیات و جزئیات کو علی وجہ الکلی اور علی وجہ الخبرئی جانتے ہیں اور معلومات حق سبحانہ و تعالی کے سب قدیم ہیں ورنہ حق سبحانہ و تعالی کا محل حوادث ہونا لازم اتا ہے اور ممکنات کا ظہور اپنے نفس کے لیے جو حق تعالی کے علم میں ثابت ہے وہ ظہور یا تو قدیم ہے یا حادث ہے قدیم تو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ قدم میں اپنے نفس کے اعتبار سے ممکنات کا ظہور نہیں ہے ورنہ وجود علمی و قدیم اور علم عینی حادث میں کچھ فرق نہ ہوتا اور فرق کیونکر نہیں ہے حالانکہ وجود علم عینی کلہ یہی ہے کہ ممکنات کا اپنے نفس کے لیے ظاہر ہوں اور اپنے ذوات اور احوال کے ساتھ اطلاع ہو اور اس کا تحقق حوادث ہی میں ہو سکتا ہے اور حادث بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ حدوث کی دو صورتیں ہیں یا تو حدوث علم قدیم کے متعلق ہو تو اس صورت میں تو تمام موجودات عینیہ کا قدم لازم ازل میں آتا ہے اورعلم حادث کا متعلق ہو تو اللہ تعالی کے علم کا حدوث لازم اتا ہے اور یہ دونوں باطل ہیں
جواب:۔ جو علم الہی کو ذات باری تعالی کی عین ذات ہے غیر متناہیہ ہے اس نے تمام موجودات کو استہلاک عدمی سے دفعتاً ظاہر کردیا ہے نوبت بہ نوبت اور ایک دوسرے کے بعد ظاہر نہیں کیا ذات اور قائمہ میں کوئی تغیر نہیں ہوا پس موجودات علمیہ وعینیہ خواہ زمانیہ ہوں یا غیرزمانی حضرت ذات کے نزدیک سب برابر ہیں پس موجودات کے لیے حق تعالی کے نزدیک نہ تقدم ہے نہ تاخر بخلاف موجودات کے کہ ان کے نزدیک تقدم و تاخر ہے پس وہاں نہ ماضی ہے نہ مستقبل ہے ماضی و مستقبل ہمارے نزدیک ہے پس بعض کا بعض کے لیے ظاہر ہونا حادث ہے اور حق تعالی کے نزدیک ظہور قدیم ہے اورحق سبحانہ و تعالی زمانہ کے پیدا کرنے سے پہلے ہیں کیونکہ جیسی اور مخلوقات ہے یہ بھی ایک مخلوق ہے اور اس کے پیدا کرنے سے زمانہ کو اس پر جاری نہ تھا اور بعد پیدا کرنے کے وہ اسی طرح ہے جیسا کہ پہلے تھا زمانہ اور زمانیات شہود کے اعتبار سے مثل غیر زمانیات کے ہیں ان کے نزدیک سب ہمیشہ سے دفعتاً ظاہر میں اس تقدیر پر حق تعالی کے نزدیک اشیاء حادثہ کا قدم لازم آتا ہے اور اس میں کچھ حرج نہیں کہ اشیاء قدیم کے نزدیک قدیم ہوں اور حادث کے نزدیک حادث ہوں پس معلوم ہوا کہ حق تعالی واحد بوحدت حقیقیہ ہیں اور یہ صفت حق تعالی کی ذاتی ہے کوئی امر زائد ان کی ذات پر نہیں ہے بلکہ صفات عین ذات ہیں اور وہ اس صفت پر ازل سے و ابد تک ہیں موجودات کی صورتوں میں ظاہر ہونے سے پہلے بھی وہ ایسے ہی تھے اور بعدظہو کے بھی وہ ایسے ہی ہیں پس وجود ظہور اور بطون میں منحصر ہے پس وحدت حقیقیہ ہے اور کثرت اعتباریہ ہے پس وہ ذوات میں عین ذات ہے اور صفات میں عین صفات ہے اور افعال میں عین افعال ہے اورآثار میں عین آثار ہے اور کل میں عین کل ہے اور بعض میں عین بعض ہے پس کثرت میں اس کا تمثل مثل تمثل حقیقت جبرائیلیہ کی ہے صورۃ بشریہ میں مریم علیہا السلام کے لیے پس امر عرضی اعتباری یعنی کثرت وحدت اصلیہ حقیقیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا پس اللہ تعالی کا اپنی ذات کا علم بعینہ وہی عالم کا علم ہے اور عالم کا علم بعینہ ذات کا علم ہے

اٹھارہواں مرحلہ

مطلق حقیقی اور مطلق اضافی

مطلق حقیقی اور مطلق اضافی کی تفصیل
مطلق کے مقید سے منفک نہیں ہوتا ہے اور ہر مقید مطلق سے علیحدہ نہیں ہوتا اور باوجود اس تلازم کے مطلق اپنے غنا ذاتی میں ہے مقید اپنے احتیاج ذاتی میں ہے پس مقید مطلق کا وجود میں محتاج ہے اور مطلق مقید کا ظہور میں مشتاق ہے اور وجود میں احتجاج ایک طرف سے ہونا ضروری ہے تاکہ تقدم شی کا اپنی ذات پر لازم نہ آئے اور اشتیاق طرفین سے ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایسے امور سے ہے جو کہ وجود پر زائد ہے پس مطلق حقیقی وہ ہے کہ جس میں کسی وجہ سے کوئی قید نہ ہو پس مطلق حقیقی میں نہ کلیت ہے نہ جزئیت ہے نہ نسبت ہے نہ خصوصیت اور نہ فاعلیت ہے نہ قابلیت ہے اور نہ عالمیت ہے نہ معلومیت ہے اور نہ اس کا اسم ہے نہ رسم ہے اور نہ تنزیہہ ہے نہ تشبیہ اور اس کے جانب نہ جمال مضاف ہوتا ہے نہ جلال پس صفات متقابلہ اس کے دروازہ سے علیحدہ ہیں یہاں تک کہ صفت اطلاق بھی وہاں نہیں ہے جیسے کہ تقید ان کے درگاہ سے علیحدہ ہے بس تعاند اس کے مرتبہ میں صورۃ توافق میں ہے اور تغائر لباس تطابق میں ہےاور وحدت اور کثرت دونوں ان کے درمیان دربار سے مسلوب ہیں اور ذات اور صفت دونوں مطرود ہیں اور کبھی مطلق کا اطلاق اس پر بھی آتا ہے کہ جو نسبتوں امکانیہ اور اضافات جسمانیہ و روحانیہ سے متجرد ہو پس اس صورت میں مطلق کا وجود مراتب کونیہ اور تعلقات خلقیہ پر موقوف نہیں ہے اور مطلق بمعنی اول کا حضرت غیب اور غیب ہویت اور احدیت ذاتیہ کہتے ہیں اور بمعنی ثانی کو حضرت الوہیت کہتے ہیں پس دونوں معنی میں عموم مطلق ہے اورمقید وہ ہے جو متعین ہو اور محدود اور متناہی ہو پس اگر اس کا تعین تمام تعینات سے زیادہ وسیع ہو تو وہ اپنے مافوق کے لیے محاط(گھیرا گیا) ہوگا کیونکہ اس کا کوئی مبدا ہونا ضرور ہوگا اور اپنے ماتحت کے لیے محیط ہوگا اور اگر تمام تعینات میں خاص ہو بس محاط ہوگا محیط نہ ہوگا اور ان دونوں کے درمیان میں مختلف مراتب ہیں کہ جو ایک حیثیت سے وسیع ہیں اور ایک دوسری حیثیت سے تنگ ہیں اور جو مقید خواہ کسی قید سے مقید ہو کسی مطلق کے بعد ہوگا وہ مطلق اس سے پہلے ہوگا اور مطلق حقیقی احدیت ذاتیہ ہی ہے اور مقید اس کے مقابل ہے کہ تمام مراتب تنزلات پر تعین اول سے اخیر مراتب تنزلات تک شامل ہے اور مطلق اضافی حضرت الوہیت ہے کیونکہ وہ اپنی ذات سے اگرچہ مقید ہے کیونکہ حضرت الوہیت اس ذات کو کہتے ہیں کہ جو صفات فعلیہ کے ساتھ متصف ہو وہ ذات اپنے ماسوا سے اس تعین سے جو ذات پر زائد ہے ممتاز ہے لیکن وہ بہ نسبت مراتب امکانیہ اور موجودات عینیہ روحانیہ اور مثالیہ اور جسمانیہ کے مطلق ہے اور اس کا مقابل وہ مقید ہے کہ جس کو عالم کہتے ہیں پس مطلق مثل مقید کے اظہار کمالات اور مراتب اور درجات میں دوسرے کا محتاج ہے پس جو تقریر ہم نے بیان کی ہے اس سے تو نے جان لیا کہ مطلق حقیقی اور مطلق اضافی مقید اضافی اور مقید حقیقی سے منفک نہیں ہوتے پس جس جگہ غیب ہویت ہی وہاں تمام مراتب وتنزلات ہیں اور جس جگہ الوہیت ہے وہاں عالم ہے اور کبھی یہ توہم ہوتا ہے کہ الوہیت اور عالم میں جدائی اور مسافت ہے لیکن باعتبار تحقیق کے نہ ان کے درمیان میں جدائی ہے نہ مسافت ہے کیونکہ عالم کمال اسمائی کے ظہور کا نام ہے حق تعالی کے اسماء نے عالم کو چاہا اور مقتضیٰ کا مقتضی سے انفکاک محال ہے اور اگر حضرت الوہیت اورعالم میں جدائی و مفارقت فرض کی جائے تو صفات کو معطل و بیکار کرنا لازم آتا ہے اور نیز یہ لازم آتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کے لیے کوئی حالت منتظرہ بالقوۃ ایسی ہو کہ جس کو قوت سے فعل میں لائیں گے اور یہ بھی لازم آتا ہے کہ حق سبحانہ میں بعد وجود عالم کے ایسی صفت پیدا ہو جائے کہ جو پہلے نہ تھی
سوال:۔ تقریرپر توعالم کے وجود کی ازلیت لازم آتی ہے بس اس صورت میں حق تعالی کے قول واللہ غنی عن العالمین کے کیا معنی ہوں گے اور نیز یہ جو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تھے اور کچھ نہ تھا اس کے کیا معنی ہوں گے شیخ نے قص نودی میں کہا ہے اللہ تعالی اول ہے کیونکہ وہ تھے اور اس وقت مخلوقات نہ تھی اور وہ ہی آخر ہے کیونکہ ظہور موجودات کے وقت اللہ تعالی عین موجودات ہیں اور اہل اختصاص کے اعتقاد کی فصل میں کہا ہے کہ عالم کا ارتباط اللہ تعالی کے ساتھ ایسا ہے جیسے کہ واجب کا ارتباط ممکن کے ساتھ ہے اور جیسا کہ مصنوع کا صانع کے ساتھ ہے بس عالم کے ازل میں کوئی مرتبہ وجودیہ ایسا نہیں کہ وہ مرتبہ واجب بالذات کا نہ ہو پس وہ اللہ ہے کوئی شے اس کے ساتھ نہیں ہے خواہ عالم موجود ہو یا معدوم ہو اور فتوحات کی اڑتالیسویں باب میں کہا ہے پس بے شک حق تعالی ہی تھے اور عالم نہیں تھا اور وہ ان اسماء کے ساتھ مسمیٰ ہے
جواب:۔ ربوبیت اور اسماء کے ظہور عالم سے ہے اور ذات حق تعالی کے بے شک عالم سے غنی ہے بس ذات کی طرف اگر نظر کی جائے تو عالم کا وجود اورعدم برابر ہے اور یہ قول شیخ کا ہے کہ حق تعالی اول ہیں کیونکہ وہ ہی تھے اور کوئی نہ تھا اس سے مراد اولیت ذاتیہ ہے اور اسی طرح ارتباط ممکن کا یعنی مظاہر کا اور مصنوع کا واجب کے ساتھ یعنی ذات کے ساتھ بحیثیت ذات کے ہے پس عالم کے لیے وہ شرح اسماء کے ازل میں ہے یعنی مرتبہ ذات میں جو مرتبہ وجودیہ ہے وہ مرتبہ واجب کا یعنی ذات کا ہے پس بے شک حق تعالی مرتبہ ذات میں تھے اور وہاں عالم نہ تھا کیونکہ عالم نام اس ذات کا ہے کہ کوئی ان اسماء کے ساتھ مسمیٰ ہے اور حضرت غیب الہویت باوجود عدم مراتب تنزلات کے متحقق نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالی نہایت جمیل ہیں اور نہایت کامل ہیں پس نہایت جمال اور نہایت کمال تکمیل اور تفضیل کو مقتضی ہوئی اور تکمیل اور تفضیل مراتب تنزلات ہی میں متحقق ہو سکتے ہیں پس تکمیل اور تفضیل کو بغیر مفارت اور مسافت کے اپنے ایجاب اور اختیار سےظاہر کیا پس اگر مفارقت اور مسافت ہوتے تو یہ دونوں کمال یعنی تکمیل اور تفصیل ظاہر اور متحقق نہ ہوتے .

انیسواں مرحلہ

مطلق حقیقی اور مطلق اضافی کے مراتب

مطلق حقیقی اور مطلق اضافی کے مراتب بدون دو مطلق کے متحقق نہیں ہوتے کیونکہ اگر مطلق سے قطع نظر کر لی جائے تو مقید معدوم محض ہے اور نہ مراتب مطلق حقیقی اور اضافی کے بدون دو مقید معدوم محض ہے اور نہ مراتب مطلق حقیقی اور اضافی کے بدون دو مقید کے ظاہر ہو سکتے ہیں مگر احتیاط مقید کی طرف راجع ہے اورغنا مطلق کی طرف راجع ہے پس اسلتزام طرفین سے ہے اور احتیاج ایک طرف ہے جیسا کہ گزر چکا ہے پس عین استلزام میں غنا اور احتیاج بغیر انقطاع کے باقی ہے اور مطلق مقید سے باعتبار اکملیت کے زائد ہے اور مقید مطلق سے ہمیشہ باعتبار کمالیت کے ناقص ہے
سوال:۔ جبکہ اللہ اور مالوہ میں کچھ انفکاک نہیں ہے تو مناسب یہ ہے کہ عالم بھی قدیم اور ازلی مثل اللہ کے ہو اور جب عالم قدیم اور ازلی ہوا تو عالم اللہ کا محتاج نہ ہوگا
جواب:۔ جبکہ عالم اور اللہ کے درمیان میں مفارقت فرض کی گئی پس وہ مفارقت اور مسافت یا تو اپنی ذات سے موجودات ہے پس اس صورت میں توعالم واجب ہوگا حالانکہ ایسا نہیں ہے پس موجود بالغیر ہونا ضروری ہے اور واجب موجود بالغیر ہے تو لامحالہ عالم میں سے ہوگی پس یہ بات صحیح ثابت ہوگی کہ عالم اورمبدا میں کوئی مفارقت نہیں اوریہ لازم نہیں آتا کہ قدیم بمعنی مستغنی عن الموثر ہو کیونکہ عالم اپنے وجود میں موثر کا محتاج ہے بس اس معنی کے قدیم نہیں ہے اور شرح شیخ میں ہے کہ ازل اس امتداد کو کہتے ہیں کہ جو مقدم بالزماں ہو خواہ مسبوق بالعدم ہو یا نہ ہو اور قدم اس امتداد کا نام ہے کہ جو غیر مسبوق بالقدم ہو پس ازل قدم سے عام ہے اور عوام کا کام تو یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جس وقت متاثر مسبوق بالعدم ہو اسی وقت محتاج موثر کا ہوگا لیکن جس کا قلب اللہ تعالی نے منور کر دیا ہے وہ جانتا ہے کہ متاثر محتاج موثر کا ہے اگرچہ متاثر وجود اعتبار کے اعتبار سے موثر کے ساتھ ہو مثل جیسے حرکت کنجی کی اور حرکت ہاتھ کی
سوال:۔ اگرمبدا سے عالم متاخر ہو تو تم کہتے ہو کہ تعطیل یعنی صفات کا بیکار کرنا لازم آتا ہے جیسا کہ گزر چکا ہے پس ہم کہتے ہیں کہ تعطیل لازم نہیں آتی کیونکہ عدم مفارقت اورعدم مسافت بھی اسماء اور صفات کی تاثیرات میں سے ہیں کیونکہ اسماء اور صفات کی تاثیر کی دو قسمیں ہیں اول تاثیر ایجاد دوسرے اعدام یعنی معدوم کرنا تاکہ ممکنات کی ماہیات کے لیے خود اپنی ذات سے نہ وجود ہے نہ عدم بلکہ جو کچھ ان میں وجود اور عدم ہے مدبر متصرف کی تاثیر سے ہے پس دونوں صورتوں میں تعطیل لازم نہیں آتی
جواب :۔اسماء الہیہ خواہ جمالی ہوں یا جلالی لطیفہ ہوں یا قہریہ دونوں اگرچہ اپنے موصوف کے اعتبار سے متحد ہیں لیکن ان میں آپس میں ایک باعتبار اپنے معنی مخصوصہ کے تقابل تضاد ہے کیونکہ اسماء لطیفہ کا مقتضی اسماء قہریہ کے مقتضی کے خلاف اور ضد ہیں پس جب اسماء قہریہ اور لطیفہ ایک امر کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے اور دونوں اسم اس امر کے تکوین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو لطف قہر پر سابق ہوتا ہے حق سبحانہ و تعالی نے فرمایا کہ میری رحمت میرے غضب پر بڑھی ہوئی ہے کیونکہ جلال اور قہر اور غضب علم میں بطون کو مقتضی ہیں اور عین میں عدم ظہور کو مقتضی ہیں اور جمال اور لطف اور رحمت عین میں ظہور کو چاہتے ہیں اور عدم بطون کو علم میں پس رحمت کے غضب پر بڑھنے کے سبب سے ظہور کے نوبت بطون کی نوبت سے اجلی ہے اور بعد ظہور کے اگر موثر بطون مزاحمت کرے تو تاثیر ظہور کی مدت کے ختم ہونے سے جلال جمال پرغالب نہ ہوگا کیونکہ غلبہ جمال کا جلال پر یعنی رحمت کا غضب پر ثابت و متحقق ہے اور غلبہ رحمت کے منعمات میں سے یہ امر ہے کہ رحمت اور بطف اور جمال کا اثر تاثیر میں بغیر تاخیر زمانی کے سریع ہو کیونکہ رحمت کے آثار کا تحقق اس کے تحقق و مقابل یعنی غضب کے آثار سے زیادہ سریع ہے
سوال:۔ اللہ تعالی فاعل مختار ہیں اور مختار کا فعل مسبوق با ارادہ ایجاد ہوتا ہے یعنی ارادہ ایجادہ فعل سے پہلے ہوتا ہے اور ایجاد کا اقتران عدم کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ موجود کا ایجاد محال ہے
جواب:۔ اللہ سبحانہ تعالی کے لیے اس کے حد ذات میں اختیار ہے کیونکہ بحیثیت ذات کے اس کو نہ وجود کی ضرورت ہے نہ عدم کی اوران دونوں کی نسبتیں ذات کے اعتبار سے برابر ہیں اور باعتبار صفات ہر صفت مخصوصہ مقتضی ہے کہ وہ معانی اس صفت سے متخلف نہیں ہوتے اور نیز علم الہی ذاتی جوہر معلوم کے متعلق ہیں اور ایک تعلق ہے اس کے لیے اقتضا نہیں ہے نہ ایجاب کے ساتھ اور نہ سلب کے ساتھ اور مقتضی صفت کا دو امروں میں سے اس کے نزدیک ایک کے متعین ہم نے سے متحقق ہو جائے گا پس باعتبار صفات کے ایک قسم کا ایجاب اختیار ذاتی کے ساتھ متحقق ہوتا اور اللہ تعالی کی قدرت محض توجہ سے شے کو ایجاد کرتی ہے بخلاف اور قادرین کے قدرت کے کیونکہ وہ شے کو اسباب اور آلات اور زمانوں سے حاصل کرتے ہیں اور موانع کے دفع اور شروط کے متحقق ہونے سے حاصل کرتے ہیں پس غائب کو حاضر پر قیاس نہیں کر سکتے پس اس کے ذات اور ارادہ اور قدرت اور مراد اور مقدور سب ازل نہیں ہیں اور باوجود اس کے پھر مقید با سبب اپنی حدوث اصل کے محتاج ہیں اور مطلق باعتبار ذات کے غنی ہیں پس تقدم زمانی کا معدوم ہونا تقدم ذاتی کے معدوم کو واجب نہیں کرتا کیونکہ استغنا اور احتیاج ان کی ذات کا مقتضی ہے اور ذات کا مقتضی ذات سے علیحدہ نہیں ہوا کرتا

بیسواں مرحلہ

مطلق کا ظہور مقید غیر معین کو مقتضی اور مقید مطلق معین کا حقیقی ہے

مطلق کاظہور کسی مقید کا بغیر تعین کے مقتضی ہے کیونکہ اگر متعین ہو تا تو یہ متعین مطلق کے لیے پہلے ہوتا بس اس صورت میں مطلق کا استغناس ذاتی باطل ہوتا ہے اور مطلق کے مقید کے طرف احتیاج لازم آتی ہے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ استغنا وصف ذاتی ہے استلزام عارضی ہے پس مطلق علی سبیل بدلیت کسی مقید کو مستلزم ہےاور مفید کو پہلے سے ایک امر معین کی احتیاج ہے اور وہ امر معین مطلق ہے اور وجہ اس کی ایک قاعدہ کلیہ ہے یہ مطلق بسیط حقیقی ہے اور مقید مرکب حقیقی ہے اور ترکیب عنوان کثرت کا ہے اور کثرت میں مماثلہ اور ہم شکل ہونا اور مشابہ ہونا پایا جاتا ہے ہر ایک اس کثرت سے دوسرے کا نائب ہو سکتا ہے اور ہر کثرت وحدت کی محتاج ہے بس قبل کثرت کے ایسے وحدت ہے کہ نہ اس کے کوئی ضد ہے نہ کوئی مثل ہے پس کوئی شے اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی بس وحدت کا قبل کثرت ہونا ضروری ہے اور اس کا عکس نہیں ہو سکتا کیونکہ کثرت ترکیبہ میں نیابت پائی جاتی ہے اور وحدت بسیطہ میں نیابت نہیں ہے اور تیرے لیے ایک اور باب کھو لا گیا ہے وہ یہ کہ ظہور مطلق کے لیے باوجود کسی مقید کی طرف احتیاج کے مقید خاص سے استغنا ہے پس وہ عین تشبیہ میں تنزیہ کا بیان ہے۔

اکیسواں مرحلہ

  وحدت اور کثرت کی حقیقت اور تفصیل

وحدت کے ساتھ وجود متصف ہوتا ہے اور کثرت کا ذکر بھی ضروری ہے تاکہ وحدت اپنی ضد سے ظاہر ہو جائے پس جاننا چاہیے کہ وحدت اور کثرت دونوں امور عامہ میں سے ہیں اور وہ دونوں عقلی ہیں جو اشیاء کے خارج میں موجود ہے ان دونوں سے خالی نہیں ہے اور یہ دونوں یعنی وحدت اور کثرت امر وجودی ہیں پس وحدت ایک ایسے معنی ہیں کہ خارج میں وہ معروض ہو کر حاصل ہوتے ہیں اور ایسی حیثیت سے ہے کہ اس میں تعدد داخل نہیں ہوتا اور کثرت ایسی معنی ہے کہ خارج میں معروض ہو کر حاصل ہوتے ہیں اور اس میں تعدد داخل ہوتا ہے پس وحدت اور کثرت دونوں متضاد ہیں ایک وجہ سے دونوں ایک موضع میں مجتمع نہیں ہو سکتے اگرچہ دو جہت مختلف کہ وحدت و کثرت عدمی میں یہ قول اس بنا پر ہے کہ تعریف وحدت کے اس طرح کی جائے کہ وحدت نفی کرنا کثرت کی ہے اس شے سے کہ وہ اس کے صفت ہے اور کثرت اس کے برعکس ہے تو اگرچہ یہ قول قریب حق ہے لیکن اس نفی کا معنی وجودی کے لیے لازم ہونے کا جواز اس قول کے مزاحم ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ہر ایک ہم میں سے اپنے نفس میں اس کا ذوق پاتا ہے کہ وحدت شخصیہ اور کثرت اجزائیہ دونوں امر عدمی نہیں ہیں بلکہ امر ثبوتی وجودی ہیں اور نیز کثرت تو وجودیہ ہی ہے وہ چند وحدات سے مرکب ہے پس جزء وجودی کا بھی وجودی ہی ہوگا۔
سوال:۔ وحدت ضد کثرت کی ہے اور دو ضدوں میں سے ایک کا دوسرے سے تقوم بدیہی البطلان ہے جیسا کہ دو ضدوں کا ایک جہت سے ایک محل میں جمع ہونا باطل ہے۔
جواب:۔ وحدت کے اندر دو اعتبار ہیں ایک اعتبار تو یہ ہے کہ وہ موجب کثرت ہے اور دوسرا اعتبار انقسام کا منع ہونا پس دوسرے اعتبار سے تو وحدت ضد کثرت کی ہے اور پہلے اعتبار سے وحدت جز کثرت کی ہے بلکہ فاعل کثرت ہے اور وحدت اور کثرت دونوں کے ساتھ وجود متصف ہوتا ہے جیسا کہ عدم دونوں کے ساتھ متصف ہوتا ہے لیکن وجود عدم کے ساتھ متصف نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح عدم وجود کے ساتھ متصف نہیں ہوتا ہے اور جو کچھ یہ ہم نے ذکر کیا ہے یہ وجود کونیہ میں جاری ہو سکتا ہے اور وحدت ذاتیہ الہیہ میں کہ جس کو ہم بیان کر رہے ہیں یہ تقریر جاری نہیں ہو سکتی اور کثرت کبھی ذات میں ہوتی ہے اور کبھی لوازم میں پہلی کثرت عالم کے ساتھ مختص ہے کیونکہ ذات حق میں تو کسی وجہ سے بھی کثرت نہیں ہے اور ذاتی اور دوسری قسم کثرت کی یعنی کثرت جو لوازم میں ہے علم اور حق تعالی ان میں مشترک ہے کیونکہ حق تعالی کے لیے شیون اور اسماء اور صفات اور افعال اور آثار وغیرہ کہ کوئی کثرت ایسی نہیں ہے جس کو وحدت نے ضبط نہ کیا ہو پس بہت سے کثیر ہیں کہ با اعتبار اشخاص کے ان کے لیے وحدت نوعیہ ہے اور بہت سے انواع کو وحدت جنسیہ ضبط کرتی ہے اور اجناس عالی میں یعنی جوہر میں متحد ہیں اور تمام جواہر حقیقت جو ہریہ کی طرف راجع ہیں اور اسی طرح اعراض باوجود اختلاف انواع اور اجناس حقیقت عرضیہ کی طرف راجع اور وہ دونوں یعنی جواہر اور اعراض حقیقت ممکن کی طرف راجع ہیں اور ممکن واجب کے ساتھ وجوب کی طرف راجع ہے کہ جو تجدید اقسام میں محفوظ ہے پس تمام مبتدا ماہیات امکانیہ صور علمیہ ہیں کہ جو حضرت امکان میں ثابت ہیں اور اس وجود مطلق کے تجلی سے کہ وہ حق لذاتہ اور بذاتہ ہیں اسی کے حضرت علم میں کہ وہ عین ذات ہے حاصل جز ہیں پس تمام ماہیات امکانیات امور متکثرہ جو وجود کے متغائر ہوں کہ حقیقت میں نہیں ہیں تاکہ حق تعالی کا محل کثرت ہونا لازم آئے ۔

بائیسواں مرحلہ

وحدت کی اقسام

وحدت کبھی تمام وجود سے عین شے ہوتی ہے اور کبھی غیر شے ایک وجہ سے اور عین دوسری وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی تمام وجود سے غیر ہی ہوتی ہے پس اول یعنی وہ وحدت جو تمام وجود سے عین ہی ہو حضرت وجود بحیثیت ذات کے ہے کیونکہ وحدت ذات کے عین ذات ہے اور اس وحدت سے لفظ احد کا مشتق ہے اور دوسری قسم یعنی وہ وحدت جو غیر ہو اور ایک درجہ سے اور ایک وجہ سے اور عین ہو دوسری وجہ سے وحدت حضرت وجود کی ہے بحیثیت اس کے کہ وہ ایک صفت ہے صفات میں سے اور صفات ایک وجہ سے عین ہیں اور ایک وجہ سے غیر ہیں اور تیسری وحدت یعنی جو تمام وجوہ سے غیر ہو وحدت انواع اعداد کے ہے کیونکہ مثلا دو اعداد کے ایک نوع ہے اور اسی طرح تین بھی پس ہر ایک ایک نوع جو غیر سے ایک ایسی خصوصیت سے جو اس کو لاحق ہوتی ہے ممتاز ہے اور کبھی قسم ثالث وحدت کی اجناس کو عارض ہوتی ہے پس وہ اجناس جنس عالی واحد تک راجع ہوتی ہے اور کبھی یہ وحدت انواع کو عارض ہوتی ہے تو انواع جنس واحد تک راجع ہوتی ہیں اور کبھی اشخاص کو عارض ہوتی ہے تو اشخاص نوع واحد تک راجع ہوتے ہیں پس محمولات متغائرہ ہیں سافلہ حقیقہ عالیہ متحد ہیں جیسا کہ اسم کہتے ہیں کہ انسان کاتب ہے اور ضاحک ہے اور اسی طرح موضوعات متغائرہ سافلہ موضوع عالی میں متحد ہیں مثلا کہا جائے کہ عاج اور ثلج ابیض ہے تقریر سابق سے تو نے معلوم کیا ہوگا کہ جو وحدت واحد سے حاصل کی گئی وہ حضرت اسماء کی طرف منسوب ہے اور جو احد سے حاصل ہے وہ ذات الہیہ کی طرف منسوب ہے کہ جو تمام صفات کو جامع ہے۔

تیئسواں مرحلہ

واجب الوجود اور خالق اورکموں کے وحدت کے اسباب

واجب الوجود اور خالق اورکموں کے وحدت کے اسباب دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے
وجوب وجود ایک ہی شے میں منحصر ہے کیونکہ اگر دو شے وجوب وجود کے ساتھ موصوف ہوتی تو وجوب دونوں کے درمیان میں ایک امر مشترک ہوگا اور جب وجود دونوں کے درمیان مشترک ہوا تو کوئی امر جو دونوں کے درمیان میں فرق کرنے والا ہونا چاہیے بس دونوں کا وجود اس امر فارق پر موقوف ہوگا کیونکہ امر مشترک ہر ایک کے خصوصیت کے ساتھ تحصیل میں کافی نہیں ہے پس کوئی امر ایسا ہونا چاہیے کہ دونوں کے درمیان میں فرق کرنے والا ہو خواہ وہ امر وجود ہی وجودی ہو یا عدمی پس دونوں اس امر فارق کے محتاج ہوں گے اور جو شے محتاج ہوتی ہے وہ وجوب وجود کے ساتھ موصوف نہیں ہو سکتی اور معبودیت بھی ایک ہی میں منحصر ہے کیونکہ اگر دو معبود ہوں تو دونوں معبود اگر واجب ہوں تو وجوب وجود ایک میں منحصر نہ رہا اور اگر ممکن ہوں تو لازم آتا ہے کہ عابد اور معبود ایک مرتبہ میں ہوں اور وہ امکان ہے بس وہ شے کہ جس کی عبادت کی ہے معبودیت کی صلاحیت نہیں رکھتی اور دلائل نقلیہ اس پر دال ہیں کہ معبودیت ایک ہی میں منحصر ہے اور اجماع انبیاء علیہم السلام کا بھی اس پر منعقد ہے اور خالقیت بھی ایک ہی میں منحصر ہے کیونکہ حق تعالی نے فرمایا ہے کہ لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا یعنی اگر زمین و آسمان میں سوائے اللہ کے کئی معبود ہوں تو زمین و آسمان دونوں فاسد ہو جاتے کیونکہ اللہ یہاں بمعنی غیر ہے پس الہہ اللہ تعالی کے غیر ہونے کے ساتھ موصوف ہیں پس آسمان اور زمین میں الہہ جو اللہ تعالی کے غیر ہونے کے ساتھ متصف ہوں نہیں ہیں اور اگر الہہ ہوتے تو زمین و آسمان فاسد ہو جاتے اور فساد مرفوع ہے پس ایسے الہہ کا عدم جو غیر اللہ کے ساتھ متصف ہوں متحقق ہیں اور کلمہ اللہ کا رفع بنا بر بدلیت کے الہہ سے جائز نہیں ہے کیونکہ لو کلام کے موجب ہونے میں ان شرطیہ کے مثل ہے اور بدل کلام غیر موجب میں ہوتا ہے جیسا کہ حق تعالی کے قول و لا یلتفت منکم احد الا امراتک میں امراتک احد سے بدل ہے اور یہ جو مبتدا بعض نے کہا کہ لو حرف امتناع ہے اور امتناع معنی میں نفی کے ہے پس کلام اس صرف کے ہوتے ہوئے موجب نہ ہوگی یہ خبر وہم ہے اور لفظ اللہ کا بنا پر استثناء کے نصب بھی جائز نہیں ہے کیونکہ جمع منکور عموم سے علیحدہ ہے پس استثنا بلوا اور استثناءمنہ میں نہ داخل ہوگی اور نہ خارج ہوگی اور الا بمعنی غیر ہوگا اور معنی یہ ہیں کہ اگر آسمان اور زمین کا مدبر چند معبود سوا اس واحد کے وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے ہوتے تو زمین و آسمان میں انتظام نہ رہتا توضیح اس کے یہ ہے کہ جمع منکر کلام موجب میں بعض افراد غیر معین کو شامل ہوتی ہے پس اس تقدیر پر استثناء جائز نہ ہوگا استثناء منفصل تو اس واسطے جائز نہ ہوگا کہ جمع کا اس فرد معین کو شامل ہونا یقین نہیں ہے اور استثناء منقطع اس واسطے جائز نہیں ہے کہ عدم دخول یقینی نہیں ہے پس الا بمعنی غیر ہونا متعین ہو گیا کیونکہ استثناء کے تو دونوں قسمیں نہیں ہو سکتی اور الہہ اسم کان ہے اور الا کے اعراب اپنے ما بعد میں ظاہر ہوئی ہے اور فیہا جز کان کے ہے اور کان اپنے اسم اور جز سے مل کر شرط ہے اور لفسدتا جزا ہے اور ملازمہ کا حاصل ظاہر ہے پس جب الا کو صفت پر محمول کریں تو معنی یہ ہوں گے کہ اگر چند ایسے معبود جو غیر اللہ ہیں موجود ہوتے تو زمین نہ آسمان فاسد ہو جاتے اور یہ معنی تین صورتوں میں متصور ہو سکتے ہیں اول یہ کہ اللہ پائے جاتے اور ان کے ساتھ اللہ سبحانہ نہ ہوتے جیسا کہ استثناء کے صورت میں ہے دوسری صورت یہ ہے کہ الہہ موجود ہوتے اور اللہ سبحانہ ان کے ساتھ موجود ہوں اور حق سبحانہ الہہ مفروضہ کے جز ہوں پس فساد کا انتفاء ان تمام صورتوں کے انتفاء سے ہے یہی منطوق اور موافق دعوی کے ہے اور تیسری صورت کہ اللہ واحد اللہ کےسوائے پایا جائے اور یہ احتمال بھی مردود ہے کیونکہ کلام توحید میں بعد حفظ وجود اللہ تعالی کے ہے پس اس صورت میں جبکہ وجود اللہ غیر اللہ کا مانا گیا تو وجود الہ کا بھی لازم آتا ہے کیونکہ جب دو پائے جاتے ہیں تو تین بھی پائے جائیں گے کیونکہ پہلے سے تحقق ہے کہ جو شے دو ہوتی ہیں وہ تین بھی ہو سکتی ہیں یا یہ کہ جمع سے مافوق احد مراد لے لیا جائے اور مقیدات میں محط فائدہ قید ہوتا ہے اس قاعدہ کے موافق حاصل معنی بر تقدیر الا کے صفت ہونے کے یہ ہونگے کہ اگر غیر اللہ موجود ہو تو زمین و آسمان کا انتظام خراب ہو جائے پس وجود الہہ کا اعتماد نہ تو اللہ کے ساتھ رہا اور نہ بدون اللہ کے اور اس توجیہ میں تامل ہے اس کے بعد جاننا چاہیے کہ دو سے ایجاد اس طرح ہوگا کہ ہر ایک ان میں سے ایسی طرح سے تصرف کرے کہ دوسرے سے ممتاز ہو جائے اور اگر امتیاز نہ ہوگا بلکہ اتحاد ہوگا تو اس وقت ایجاد اور تصرف کو ایک کی طرف بغیر دوسرے کی نسبت کرنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ ترجیح اور تحکم لازم آتا ہے اور نہ دونوں کی طرف نسبت کرنا ممکن ہے کیونکہ اس صورت میں دو حال ہیں اول یہ کہ ہر ایک ایجاد میں مستقل ہوں تو اس صورت میں تو اجتماع دو علت مستقلہ کا ایک معلول پر لازم آتا ہے اور دوسرے یہ کہ ہر ایک ایجاد میں مستقل نہ ہو بلکہ جمع ہو کر ایجاد کریں ہو تو اس صورت میں نقصان اور عجز لازم آتا ہے
سوال:۔ ہم یہ صورت لیتے ہیں کہ ہر ایک ان میں سے مستقل ہے لیکن قضا ایجاد پر مشترک ہے پس نقصان لازم نہیں آتا
جواب :۔ اتفاق تاثیر میں ہر ایک کے تنقیص کا موجب ہے کیونکہ اگر قدرت تامہ کے ساتھ تاثیر کریں تو تاثیر با سبب تعارض مطلقا ممتنع ہوگی پس ہر ایک دوسرے سے ممتنع ہو جائے گا پس معلول معدوم رہے گا اور اگر قدرت ناقصہ سے تاثیر ہو تو ہر ایک کی احتیاج دوسرے کی طرف لازم آتی ہے حالانکہ ہم نے تاثیر مستقل فرض کی ہے ۔

چوبیسواں مرحلہ

ایجاد بلاواسطہ عقل اولی

ایجاد بلاواسطہ عقل اولی کا ہے اور بواسطہ اور اشیاء کے
ایجاد بلا واسطہ عقل اول میں ہے بس ہر ایک سبب اور زمانہ کے ساتھ مسبوق ہے اور مادہ اور مدت سے بھی مراد ہے پس ہر ایک حقیقت اللہ سبحانہ کی مشیت کا معلول ہے باعتبار توہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ علت متقدمہ سے متاثر ہے پس اسباب کی طرف نسبت مجازی ہے جیسے کہ انبت الربیع البقل اگایا ربیع نے سبزی کو میں اسناد مجازی ہے ۔

پچیسواں مرحلہ

 ظہور اور تقید اور تعین کے مراتب

عالم وجود میں ایک حقیقت مطلقہ مخفیہ ہی ہے کہ جو ان تعینات میں سے کسی تعین کے ساتھ متعین نہیں ہے اور اس حقیقت کے لیے مراتب ظہور اور تعین اور تقید کے ہیں کہ جو غیر بے شمار ہیں مگر باعتبار کلیت کے پانچ مرتبے ہیں دو ان میں سے حق سبحانہ و تعالی کی طرف منسوب ہیں اور تین خلق کی طرف اور ایک مرتبہ ایسا ہے کہ جو سب کا جامع ہے اور مراتب کے با اعتبار کلیت کے پانچ میں منحصر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مظہر یا تو اس شے کا مظہر ہوگا جو حق تعالی کی طرف منسوب ہے یا اس شے کا کہ جو حق تعالی اور خلق دونوں کی طرف مضاف ہے اول تو مرتبہ غیب کا ہے بسبب اس کے کہ خلق اس میں غیب ہیں اور اس مرتبہ غیب کی دو قسمیں ہیں کیونکہ یا تو ایسا غیب کہ اکوان کے عین میں ظاہر ہونے کے ساتھ متلبس اور متصل ہیں اورنیز علم میں بھی اکوان کے ظہور کے ساتھ متلبس ہے بس علم میں تمائز نہیں ہے جیسا کہ عین میں نہیں ہے اور یہ غیب تعین اول اور محضہ اور غیب اول ہے اور یا ایسا غیب ہے کہ اقوام کے اپنی ذات کے لیے ظہور کے ساتھ متلبس ہے باوجود اس کے کہ ان کے ذوات اور ان کا ثبوت علم میں ہے اور اس غیب کو تعین ثانی اور واحدانیہ اور عالم معانی اور حروف عالیات اور غیب ثانی بولتے ہیں اس غیب ثانی میں اکوان ان کے جاننے والے کے لیے ظاہر ہیں اور خود اپنی ذات کے لیے اور انکے مثال کے لیے ظاہر نہیں ہے اور قسم ثانی مرتبہ شہادت کا ہے بسبب اس کے خلق اس میں حاضر ہیں اور اس مرتبہ شہادت کی تین قسمیں ہیں کیونکہ مظاہر بسائط کا ہوگا تو وہ مرتبہ ارواح کا ہوگا اور مرتبہ عالم حسن کا ہے اور عالم اجزاء عرش سے مرکز تک ہے اور مرتبہ جامعہ حضرت انسان کامل ہے اور حقیقت مطلقہ مخفیہ غیر منقویہ غیب الغیب ہے مخلوق کا علم اس کو مفید نہیں ہو سکتا پس بعض نے تو تمام مراتب کی طرف نظر کی ہے تو ان کو سات قرار دیے ہیں کیونکہ لا تعین بھی ایک مرتبہ ہے مگر یہ مرتبہ ہمیشہ غیر منزلہ ہے اور نزول وحدت ہی سے ہے اور بعض نے تنزل کی رعایت کی ہے پس چھ مرتبہ قرار دیے ہیں اور بعض نے اس طرف نظر کی کہ تعین اول اور ثانی اس بات میں مشترک ہیں کہ خلق اس میں اپنے نفس سے اور اپنے مثل سے غیب ہے یا اس طرف نظر کی کہ انسان کامل عالم اجسام سے ہے پس اسے پانچ مراتب قرار دیے اور یہ محل کسی قدر اضطراب سے خالی نہیں

چھبیسواں مرحلہ

 نسبت ذات پر زائد نہیں

وجود ایسے حقیقت وحدہ ہے جو ہر معنی اور نسبت کو جمع کرنے والا ہے اور معنی اور نسبت تعقل ہے میں زائد ہیں وجود ہیں زائد نہیں ہیں جیسے کہ ذات مطلقہ معنی اور نسبت مطلق ہو کر مدرک ہو سکتی ہے اور ان سے مجرد ہو کر وجود میں نہیں ہے پس ذات اعتبارات پر زائد نہیں ہےاور نہ وہ شے جو ذات میں اعتبار کی گئی ہے ذات پر زائد ہے لیکن عقل کو پہنچتا ہے کہ اعتبارات کو علیحدہ اخذ کریں اور ان اعتبار پر حکم کرے کہ وہ ذات پر زائد ہیں اور یہی ممکن ہے کہ عقل ان کو ذات کے ساتھ کثرت کو ذات میں ہلاک کر کے ادراک کرے پس تمائز وجود میں نہیں ہیں بلکہ تعقل میں ہیں اور کبھی عقل ضعیف نحیف غلطی کرتی ہے پس غیریت کا حکم کرتی ہے

ستائیسواں مرحلہ

  فعل اور افعال کی مراتب

اور اس قطر کو برزخ اکبر اور یقین اول اور مقام اوادنی بھی کہتے ہیں برزخ اکبر تو اس واسطے کہتے ہیں کہ وہ مقام قاب قوسین (احدیت واحدیت )کا باطن ہے تعین اول اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ وحدت اور کثرت کے دوقوس کے باطن کا مقام ہے اور مقام او ادنی اس واسطے کہتے ہیں کہ وہ وجوب اور امکان کے دو قوسوں کے مقام کا باطن ہے اور اس کو بسبب اعتدال کے حقیقت تعدیہ کہتے ہیں کیونکہ کسی اسم یا صفت کا حکم اس کی مثل پر بالکل غالب نہیں ہے اور یہ مقام ان دونوں قرب سے زیادہ قریب ہے کہ اس میں تمیز بالکل ہی محو ہے اور تعین ثانی پہلی کی تفصیل اور اس کی صورت ہے اور وہی حضرت عمائت ہے بسبب اس کے وحدت اور کثرت کے درمیان حائل ہوئے کہ پس اسی حضرت عمائت میں صفات خلق کے حق تعالی کی طرف باعتبار علم کے مضاف ہوتے ہیں رسول اللہ ﷺسے سوال کیا گیا کہ حق تعالی خلق کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھے فرمایا عماء میں تھے نہ اس کے اوپر ہوا تھی اور یہ نیچے ہوا تھی مراد سائل کے یہ تھی کہ بعد پیدا کرنے خلق کے تو حق تعالی وہ ہی ہے لیکن قبل پیدا کرنے کے کہاں تھے تو آپ نے جواب میں جو ارشاد فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت مرتبہ اس علم میں تھے جو تمام حقائق کے تفصیل کے متعلق تھا اور اس تعین جامع میں مراتب فعل اور انفعال کے مجملا اور تفصیلا ہیں پس فعل اجمالی مرتبہ الوہیت کا ہے اور پھر تفصیلی مرتبہ اسماء و صفات کا ہے اور انفعال اجمالی مرتبہ عبودیت یعنی کون کا ہے اور انفعالی تفصیل مرتبہ عالم کا مع اس کے اجناس اور انواع اور صفات اور اشخاص کے ہے اور مختلف اعتبارات کی وجہ سے یہ تعین اور اسماء کے ساتھ نام رکھا جاتا ہے بس اس اعتبار سے کہ وہ کلیت اور جزئت کے معنی کو محیط ہے اور معنی کلیہ اور جزئیہ کہ اس میں متمیز ہےاس کا نام عالم معانی رکھا جاتا ہے اور اس اعتبار سے کہ اس میں دونوں کثرتیں یعنی کثرت اسماء کے اور کثرت کون کے مرتسم اور نقش پذیر ہوتے ہیں اس کا نام حضرت ارتسام رکھا جاتا ہے اور اعتبار سے کہ علم ازلی اس کے تمام صفات اور متعلقات کے ساتھ متعلق ہوتا ہے اس کا نام حضرت علم ازلی رکھا جاتا ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ پہلے تعین کی صورت ہے اس کا نام مرتبہ ثانیہ رکھا جاتا ہے اور اس مقام میں ذات کا صفات سے تمیز متحقق ہوتا ہے اور بعض صفات کا بعض سے بھی تمیز متحقق ہوتا ہے اور اصول و صفات وہ ہیں کہ جو ائمہ سبعیہ کے نام سے مشہور ہیں اور وہ حیات، علم ،ارادہ، قدرت ،سماع ، بصر اور کلام اور بعض نے کہا کہ حی اور عالم اور مرید اور قابل اور قادر اور جواد اور مقسط ہیں امام الائمہ شیخین اور اکثر محققین کے نزدیک حیات سے باسبب اس کے تقدم کے اور شیخ کاشی کے نزدیک امام الائمہ علم ہے کیونکہ وہ نسبت ہے اور اس کی شان کے معلوم کا اقتضاء ہے اور وہ ماموم ہے اور اس میں جو کچھ خدشات ہیں وہ معلوم ہیں خلاصہ یہ کہ امر ایجاد ہے ان اسماء کے متعلق ہے ۔

اٹھائیسواں مرحلہ

ایجاد کی طرف توجہ الہی  کی دو قسمیں

ایجاد کی طرف جو توجہ الہی ہوتی ہے اس کی دو قسمیں
ظہور کی طرف جو توجہ الہی ہے اور اس کا فیض ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں اقدس اور مقدس کیونکہ ایک اعتبار ان اعتبارات میں سے جو غیب ذات میں ہیں اور جن کو شیون ذاتیہ کہتے ہیں کبھی وجود کے ساتھ متجلی ہوجاتا ہے پس وہ متعین ہو جاتا ہے اور دوسرے اسے اعتبار سے متمیز ہو جاتا ہے کہ وجوہ بھی وجود کے ساتھ متجلی ہے پس حقائق اسمائیہ میں سے ایک حقیقت ہو جاتی ہے پس وہ بہت ہے اور وہ ہے عین ثابتہ یعنی صورت اسمائیہ صورۃ ذات سے باعتبار علم کے علم فیض اقدس سے کہ جو خلا کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے فائض ہوتی ہے اور اس صورت کو وجوہ کی بو تک بھی نہیں لگے پھر اس کے بعد موافق اس صورت میں کہ معہ اپنے لوازم خارجییہ فیض مقدس سے کہ جس کو استجلاء کہتے ہیں وہ شے خارج میں سے حاصل ہوجاتی ہے

انتیسواں مرحلہ

 ماہیات ممکنہ غیر مجعول یا مجہول

ماہیات ممکنہ غیر مجعول ہیں یا مجہول ہیں
تمام ماہیات غیر مجعولہ بجعل جاعل ہیں حکماء اور اشراقی بھی اس طرف گئے ہیں اور تحقیق اس بات میں یہ ہے کہ جعل دو شے کے ہی درمیان ہوتا ہے پس بعظ تواثبات جعل کی طرف گئے ہیں اور بعض نے جعل کی بالکل نفی کی ہے لیکن نہ مطلقا بلکہ اس وقت نفی کی ہے کہ جب جعل سے جاعل موجب یا مختار کی طرف احتیاج مرادلی جائے پس اتنی احتیاج ماہیت ممکنہ کے لوازم میں سے ہے پس وہ لوازم خواہ علم میں پائے جائیں یا خارج میں صفت احتیاج ان میں پائی جاتی ہے پس ماہیت علی الاطلاق مجعول ہیں خواہ اتصاف احتیاج کے ساتھ میں ہو یا غیر میں ہو اور اگر جعل فاعل کے احتیاط کے ساتھ وجود خارجی میں مخصوص ہو تو کوئی وجہ تخصیص کی نہیں ہے یہ بیان تو مثبت جعل کا ہے اور جو جعل کی نفی کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ ماہیت کے اندر فی نفسہ مجال جعل کی نہیں ہے اور اسی طرح وجود کے اندر بھی جعل کی مجال نہیں ہے کیونکہ اول گزر چکا کہ جعل دو شے کے درمیان ہوتا ہے پس کوئی کسی ماہیت کو ماہیت نہیں بنا سکتا اور نہ وجود کو وجود بنا سکتا ہے پس فاعل کی مطلقا تاثیر نہیں ہے کیونکہ ماہیت اور اس کے ذات میں کچھ کچھ مغائرت نہیں ہے تاکہ جعل ان کے درمیان متصور ہو اور اسی طرح وجود اور اس کے ذات میں جعل کا واسطہ نہیں ہو سکتا بلکہ جعل( کےمعنی صرف یہ ہے کہ ماہیت وجود کے ساتھ متصف ہے) اگرچہ وہ اتصاف خارج میں موجود نہ ہو پس خارج وجود ماہیات کا ظرف ہے وجود کے ساتھ اتصاف کا ظرف نہیں ہے مثل کپڑے رنگے ہوئے کی پس یہ ہے بیان ان کے اس قول کا کہ ماہیت غیر مجعول ہیں اور شیخ صدر الدین قونوی اور ان کے متبعین کا کلام بھی اعیان ثابتہ کے نفی مجعولیت کی طرف باعتبار انتفاء جعل خارجی کے مشیر ہے یعنی ارادہ اور قدرت خارج میں اعیان کے اثبات کے ساتھ متعلق نہیں ہوا اور ہر ایک شخص کو یہ پہنچتا ہے کہ جیسی چاہے اپنی اصطلاح مقرر کرے

تیسواں مرحلہ

 تعینات الہیہ کی تقسیم و تفصیل اور تعین کی تعریف

تعینات الہیہ کی تقسیم اور تفصیل اور تعین کی تعریف
مبتدا خبر نہ ہونا ظہور وجود کا ہے ایک وجہ معین سے لیکن نہ مطلقا بلکہ باعتبار اقتضاء کے شان کے اس کے شیون ذاتیہ سے پس ممکن وجود متعین ہے پس اس کا امکان بحیثیت اس کے تعین کے ہے اور اس کا وجوب بحیثیت اس کے حقیقت کے ہے اور تعین متعین کے لیے سبب مرجح کے واجب ہے اور ذات وجود کے لیے ایک تعین غیر معین ضروری ہے نہ تعین خاص پس خصوصیت تعین کی تعین کے ان موجبات میں سے ایک موجب کے سبب ہے کہ جو ذات میں پوشیدہ ہیں پس جائز ہے کہ وجود ایک تعین کو چھوڑے اور دوسرے تعین کو بسبب دوسرے موجب کے اختیار کرے کیونکہ وجود عدم سے بدل سکتا ہے اور اس تقریر سے تجھ کو تعین کا امکان معلوم ہوگیا کیونکہ باعتبار ذات وجود کے تعین کا وجود اور عدم برابر ہے پس تعین وجود کے اندر ایک نسبت عقلیہ ہے پس جب تجلی وجودی ترجیح دیتی ہے تعین موجود ہوجاتا ہے اور اگر تجلی وجودی اس سے اعراض کرتی ہے تعین معدوم ہو جاتا ہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع ہو جاتا ہے پس وجود کی نسبت اشخاص تعینات کی طرف مثل نسبت واحد عددی کی ہے اور مراتب اعداد کی طرف پس ہر عدد کہ جو ایک اکائی ہے ایسے تعین کا ساتھ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ذات اس تعین کی مقتضی ہے پس ایک جب دو مرتبہ ظاہر ہوگا اس کو دو کہا جاتا ہے اور جب تین مرتبہ ظاہر ہوگا تو اس کو تین کہا جائے گا پس دو مرتبہ یا چند مرتبہ کے ساتھ جو صفت ظہور کے ہے وہ واحد عددی کی ذات میں پوشیدہ ہے پس خارج میں واحد عددی کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور باقی مراتب اعداد کے واحد کے شیون ہیں پس دو اور تین اعتبارً ایک کے غیر ہیں لیکن جب حقیقتا امر کی طرف نظر کی جاتی ہے تو وہ دونوں عین واحد ہیں پس معلوم ہوا کہ عینیت حقیقیہ ہے اور غیریت اعتباریہ ہے اور ہر ظہور ایسے احکام کا مقتضی ہے کہ وہ احکام مرتبہ ظہور کے ساتھ خاص ہوں پس اعیان خارجیہ کے احکام اعیان ثابتہ کے مسخر ہیں اور اعیان ثابتہ اسماء اور صفات کے مسخر ہیں اور اسماء صفات شیون ذاتیہ کے مسخر ہیں کہ جو ذات میں پوشیدہ ہیں پس احدیت ذاتیہ ہر وحدت اور کثرت اور ظہور اور بطون اور ترکیب اور بساطت اور تقدم اور تاخر کو اور جو اشیاء باہم متقابل ہوں ان کو مقتضی ہے پس وہ احدیت مطلقہ جیسا کہ حقیقت واحدہ ہے اسی طرح وہ صورت واحد مصمتہ ہے اور فوصل کثیرہ متعدہ معنی مجرد ہیں کہ ان کے آثار اور احکام تبعیض اور تجزی سے متمائز ہو کر ظاہر ہوتے ہیں اور ان فواصل کی مثال ان دو ابر کی سی ہے جو فلک اطلس میں نقش پذیر ہیں اور یہ دوائر باعتبار تقاسیم فرضیہ کے ہیں غیر منقسم میں ہیں اور باعتبار ہر قسم کے آثار و خواص کے ظہور کے ہیں اور وہ فواصل شیون ہیں جو صورت خواصہ میں پوشیدہ ہیں خواہ وہ ایسے شیون ہوں کہ جن کا احاطہ تام ہو یا ایسے شیون نہ ہوں یا تابع ہوں پس شیون تابعہ اعیان عالم ہیں اور وہ شیون متبوعہ غیر تامہ ہے اجناس عالم اور اس کے اصول وارکان ہیں اور شیون متبوعہ تامہ اسماء اور صفات الہیہ ہیں پس وہ احوال جو حق سبحانہ و تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے اگر ذات سے ان کو علیحدہ ہونا اعتبار کیا جائے تو وہ ذات ہے اور اگر اس کے شان میں کہ جو ان شیون پر غالب ہیں کہ وہ اس سے پیش آنے والے ہیں احکام اور آثار کا اعتبار کیا جائے تو اس کا نام اللہ ہے اور اگر اس کے وجود مطلق کا انسباط اس کے ان شیون پر اعتبار کیا جائے کہ اس کے ظہور سے ظاہر ہیں تو وہ رحمن ہے اور اس کا اعتبار کیا جائے کہ عالم کو اپنی رحمت کے ساتھ خاص کیا ہے تو رحیم ہے اور اگر اس کے تعین اول کا بغیر اعتبار کے اور شان کے اعتبار کیا جائے تو وہ واحد ہے اور اگر اس میں کسی شے کے اس کے کمال تک بتدریج پہنچانے کا اعتبار کیا کیا جائے تو وہ رب ہے اور اس پر باقی اسماء اور صفات کو قیاس کرے چنانچہ ظاہر ہونا حق سبحانہ و تعالی کا اطلاع پانے کے ساتھ ان احکام پر کہ جو بعض بعض کے ساتھ متصل ہیں علم ہے اور وہ جو اطلاع پانے والا ہے عالم ہے اور ظاہر ہونا اس کے اس کا ساتھ دوام ادراک کے بغیر غائب ہونے کے اور پوشیدہ ہونے کے تمام شیون سے حیات ہے اور مدرک حی ہے اور بعض شیون کو بعض پر ظہور میں باعتبار مناسبت اور ملاعہ کے ترجیح دینے کے ساتھ ظاہر ہونا ارادہ ہے اور مرجح مرید ہے اور حجالت کو ترجیح دی ہے اس کے ظہور میں تاثیر کرنے کے ساتھ ظاہر ہونا قدرت ہے اور موثر قدیر اور قادر ہے اور شیون مسموعات کے احاطہ کرنے کے ساتھ ظاہر ہونا سمع اور احاطہ کرنے والا سمیع ہے اور شیون مبصرات کے ادراک کے احاطہ کرنے کے ساتھ ظاہر ہونا بصر ہے اور وہ احاطہ کرنے والا بصیر ہے اور جو بات نفس میں ہے اس کو مخاطب کے سامنے بیان کرنے کے ساتھ ظاہر ہونا کلام ہے اور وہ بیان کرنے والا متکلم ہے اور اسی پر اور صفات و اسماء وہ قیاس کرے ۔

اکتیسواں مرحلہ

 ظہوراور بطون کس کا

ظہور کس کس شے کا ہے اور بطون کس کا
وجود حقیقی بحیثیت اس کے کہ وجود حقیقی ہے اور اعیان ثابتہ یہ دونوں ظاہر نہیں ہوئی اور نہ کبھی ازل میں ظاہر ہوئی اور نہ ابد میں ظاہر ہو پس بطون اعیان ثابتہ اور وجود حقیقی کے صفت ذاتیہ ہے ظاہر تو صرف یا تو اعیان کے احکام اور آثار ہیں اور یا اسماء اور صفات شیون اور تجلیات وجود جو ان امور کے سبب سے متعین ہے ظاہر ہیں اور وجہ حصریہ ہے کہ وجود مصمت اطلس کو اگر تو چند مرتبہ اعتبار کرے تو اس میں اعیان ثابتہ کے احکام اور آثار ظاہر ہیں اور اگر اعیان کو چند مرتبہ اعتبار کرے تو شیون اور اسماء اور صفات اور تجلیات وجودی ظاہر ہیں اور یا وجود ہے کہ جو اسماء اور صفات اور تجلیات سے متعین ہے ظاہر ہے۔

بتیسواں مرحلہ

تعینات امکانیہ اور روح کے اقسام

تعینات امکانیہ اور روح کے اقسام، روح کی حقیقت اور اس میں اختلاف
ان تعینات امکانیہ میں سے تعین اول حضرت ارواح ہے اس کو عالم امر اور عالم ملکوت اور عالم غیب اور عالم علوی بھی کہتے ہیں اور وہ اشارہ حسیہ کو قبول نہیں کرتا جیسے کہ عالم خلق اور عالم ملک اور عالم شہادت اور عالم سفلی جو تعین ثالث ہے اشارہ حسیہ کو قبول کرتا ہے اور یہی دونوں حق تعالی کے قول فلا اقسم بما تبصرون ومالا تبصرون قسم کھاتا ہوں اس شے کی جس کو تم دیکھتے ہو اور جس کو تم نہیں دیکھتے سے مراد ہیں اور عالم غیب میں سے بعض تو وہ ہیں کہ ان کو ملک تدبیر اور تصرف سے کچھ تعلق نہیں ہے اور وہ کروبی ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ ان کو فنا فی اللہ حاصل ہو گئی ہے پس ان کو عالم اور اہل عالم اور آدم علیہ السلام اور ابلیس اور جنت اور نار اور طاعت اور معصیت کے پیدا ہونے کا کچھ علم نہیں ہے ان کو بہ سبب ان کے ہیمان یعنی جمال اور جلال میں حیران ہونے کے مہیمہ بولتے ہیں اور بعض ان میں سے اس کے بندوں اور اس کے درمیان میں قاصد اور رسول ہیں اور فیض ربوبیت کے وسائط ہیں اور ان میں باعتبار پیداش کے جو عظیم تر ہے وہ روح اعظم ہے اس کو عقل اول کہتے ہیں اور وہی قلم اعلی ہے اور وہ صف اول میں ہے جیسا کہ جبرائیل ان میں سے صف اخیر میں ہے حق تعالی فرماتے ہیں وما منا الا لہ مقام معلوم یعنی ہم میں سے (فرشتے) ہر ایک کا ایک مرتبہ معلوم ہے اور بعض ایسے ہیں کہ ان کو تدبیر اور تصرف سے تعلق ہے پھر ان کے بھی دو قسم ہیں اول وہ کہ جن کو علویات کے ساتھ تعلق ہے ان کو ملکوت اعلی کہتے ہیں اور دوسری وہ کہ جنکو سفلیات سے تعلق ہے ان کو ملکوت اسفل کہتے ہیں ہر شے پر خواہ وہ علویات میں سے ہو یا سفلیات میں سے ایک ملک مسلط ہے کہ جو اس شے کو قائم رکھتا ہے اور حق تعالی کا قول بیدہ ملکوت کل شیئ اسی طرف مشیر ہے اور میرے نزدیک یہ ہے کہ ملک میں جو موجود ہے اس کے لیے ایک ملکوت ہے کہ وہ اس کا رب ہے اور اگر وہ شے عام ہے تو وہ بھی عام ہے اگر وہ شے خاص ہے تو وہ رب اسکے خواص ہے اور خصائص کا حفاظت کرنے والا ہے اور کبھی وہ رب مجسم بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ بعض اجسام کبھی روح بن جاتے ہیں اور مراد ہماری روح سے وہ شے ہے کہ جو ملائکہ اور قوی اور معالی اور نفس ناطقہ اور روح حیوانی اور نباتاتی اور جمادی اور ارواح ناریہ یعنی جن اور شیاطین سب کو شامل ہو اور ارواح ناریہ میں سے بعض تو انسان پر مسلط ہیں جیسے کہ ابلیس اور اس کا لشکر اور بعض کھیتوں اور دفینوں اور خزانوں پر مسلط ہیں اور بعض ان میں سے شرائع اور احکام کے مکلف ( اپنے اعمال کا جوابدہ )و مخاطب ہیں تو بعض تو ان میں سے مومن ہیں اور بعض کافر ہیں جاننا چاہیے کہ روح کے بیان میں علماء کے دو فریق ہیں ایک فریق نے تو سکوت کیا ہے انہوں نے نبی ﷺکی اقتداء اور پیروی کی کیونکہ جس وقت نضر ابن الحارث جو کفار قریش سے تھا حضور سے روح کے بارے میں سوال کیا تھا تو اپ نے سکوت فرمایا تھا پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی تھی و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی یعنی اے محمد ﷺآپ سے روح کے بارے میں کفار سوال کرتے ہیں اپ کہہ دیں کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے جنید رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا ہے کہ روح ایک ایسی شے ہے کہ جس کو اللہ تعالی نے اپنے علم کے ساتھ خاص کیا ہے اور کسی کو مخلوق میں سے اس پر مطلع نہیں کیا اور اس سے زیادہ اس کے بارے میں نہیں کہیں گے کہ وہ موجود ہے اور ایک فریق نے روح کے بارے میں کلام کیا ہے پس جمہور متکلمین اور قاضی باقلانی اور نظام معتزلی کا تومسلک یہ ہے کہ روح ایک جسم نورانی ،علوی، خفیف حی، تحرک ہے کہ جوہر اعضا میں نفوذ کرتی ہے اور جیسا کہ گلاب کا پانی گلاب میں سرایت کرتا ہے اسی طرح وہ سرائت کرتی ہے اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ روح ایک عرض ہے اور وہ حیات ہے کہ جس کے سبب سے بدن زندہ ہو گیا ہے اور اہل تحقیق اس طرف گئے ہیں کہ روح ایک جوہر ہے جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے اور غیر متخیر ہے اور مادہ سے مجرد ہے نہ تو ایسا جسم ہے کہ جو بدن سے مقارن ہو اور اس کے لیے تخیر بھی ہو اور نہ عرض ہے کہ جو بدن کے ساتھ قائم ہو اور اس کے لیے تخیر بھی ہو پس وہ نہ بدن میں داخل ہے اور نہ خارج ہے اور نہ متصل ہے اور نہ منفصل ہے نہ جسم ہے نہ جسمانی ہے ہاں بدن سے تعلق تدبیر اور تصرف ہے اور اسی طرف امام حجۃ الاسلام اور ابو زید دبوسی گئے ہیں اور یہاں تک ہی کشف اہل مشاہدہ کا ختم ہوتا ہے ولکل وجہۃ ھو مولیھا ہر ایک کیلئے ایک جہت ہے کہ وہ اس طرف منہ پھینے والا ہے اور اہل تحقیق کہتے ہیں کہ روح انسانی بعد خراب ہونے بدن کے خراب نہیں ہوتی اور بعض معدوم ہونے بدن کے وہ معدوم ہی ہوتی ہے اس کے بعد اہل تحقیق نے ازلیت و ابدیت روح میں اختلاف کیا ہے پس صوفیا کی ایک جماعت تو اس طرف گئی ہے کہ روح سرمدی ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کو رہے گی اور ایک گروہ صوفیا کا اور فقہاء اور امام حجۃ الاسلام اور اشراقین اور مشائین کا مسلک یہ ہے کہ روح ابدی ہے اور ازلی نہیں ہے اس کے بعد اس میں اختلاف و علماء کا ہے کہ آیا روح ماہیت نوعیہ ہے یا ماہیت جفتیہ تو ارسطو اور ابو علی اس کے نوعیت کی طرف گئے ہیں اور حکماء کا ایک گروہ اور ابو البرکات بغدادی اور امام رازی متکلمین میں سے روح کی جنسیت کے قائل ہیں خلاصہ یہ ہے کہ روح کا عروج اور معاد بعد بدن کے خراب ہونے کے مختلف فیہ ہے اہل شرع کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ارواح کو اجساد سے ہزاروں برس پہلے پیدا کیا ہے یا چالیس روز پہلے پیدا کیا ہے جیسا کہ احادیث میں واقع ہوا اور ہر روح کے لیے ایک مقام معین کیا ہے کہ بعد بدن کے علیحدہ ہونے کے وہ روح اس مقام تک پہنچ جاتی ہے وما منا الا لہ مقام معلوم پس جو شخص مرتبہ ایمان ہی میں بستیہ ہیں اس کے باز گشت سماء دنیا تک ہے اور جو مرتبہ عبادت میں ہے وہ دوسرے آسمان تک عروج کرتا ہے اور جو زہد میں ہے وہ تیسرے آسمان تک عروج کرتا ہے اور جو معرفت میں ہے وہ چوتھے آسمان تک اور جو ولایت میں ہے وہ پانچویں آسمان تک عروج کرتا ہے اور جو نبوت میں ہے وہ چھٹے آسمان تک اور جو عزم میں ہے ساتویں آسمان تک اور جو ختمیت میں ہے وہ عرش عظیم تک پرواز کرتا ہے صوفیا نے کہا ہے کہ ان مقامات تک اس واسطے ان کو عروج ہوتا ہے کہ انہی مقامات سے نزول بھی ہوتا ہے اور نزول کے دونوں قوسوں سے دائرہ تام ہو جاتا ہے اور جو درجہ ایمان پر نہیں پہنچا اس کا مقام آسمانوں کے نیچے ہے اور ان مدارج اور مہابط کی تعین میں کسب کو کچھ دخل نہیں یہ سب مدارج و مہابط خلقی ہیں کسبیہ نہیں ہے لا تبدیل لخلق اللہ پس اگر اس پر تو یہ کہے کہ جس صورت میں یہ مدارج مہابط خلقیہ ٹھہرے تو سلوک سے کیا حاصل و نفع ہے میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ نفع یہ ہے کہ قبل از موت اس مرتبہ کا علم ہو جائے گا پس پہلے سے تو علم یقین ہے اب عین الیقین ہو جائے گا اور انبیاء کا عروج روح اور جسد دونوں کے ساتھ ہے اور غیر انبیاء کا عروج صرف روح ہی کے ساتھ ہے حکماء نے کہا ہے کہ یہاں محالات سے ہے کہ روح جسم پہلے پیدا ہو کیونکہ اگر اروا ح اجسام سے پہلے پیدا ہوں تو دو حال سے خالی نہیں ہے یا تو ان ارواح میں باہم تمائز ہوگا یا نہیں اگر تمائز نہیں تو ارواح متعددہ ایک روح ہو جائیں گی اور اگر تمائز ہو تو جس شے کے ساتھ تمائز ہے اس شے کے غیر ہے کہ جس کے سبب سے مشارکہ ہے پس ارواح اس صورت میں مرکبہ ہوں گی اور حالانکہ وہ بالاتفاق بسیط ہیں پس معلوم ہوا کہ ارواح اجساد کے ساتھ پیدا ہوئی ہیں اور بعد خراب ہونے بدن کے ابدالاباد تک باقی رہیں گی پھر اگر دنیا میں ارواح کے لیے طہارت اور علم حاصل ہو تو وہ عقول اور نفوس کی طرف رجوع کرتی ہیں اس واسطے عقول اور نفوس ان کو اقتضا جنسی سے جذب کرتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک معنی شفاعت کے ہیں پس جو شخص فلک قمر کے نفس سے مناسبت رکھتا ہے پس وہ اس کی طرف لوٹتا ہے اور اسی طرح فلک الافلاک تک عروج ہوتا ہے اور ہر استعداد والس ریاضت شاقہ سے ایسے معارج پر عروج کرتا ہے کہ وہ معرج پہلے معرج سے اعلی ہوتا ہے اور عروج ایک معراج میں معین ہے منحصر نہیں ہے پس ان کے نزدیک معارج کسبیہ ہیں حقیقیہ نہیں ہے اور جس شخص کے لیے طہارت اور علم حاصل نہیں اس کا جائے قیام فلک قمر کے نیچے ہے اور وہ ہی اس کا جہنم ہے اور جس کا نفس فلک اعظم کے نفس سے مناسبت رکھتا ہے وہ خلیفۃ اللہ ہے اور بواسطہ عقل اول کے حق کے ساتھ کلام کرتا اور کبھی بلا واسطہ بھی کلام کرتا ہے پس ابد الاباد اللہ جل جلالہ کے جوار میں مسرور و محفوظ ہے اور یہ مقام اس کے لیے جنت ہے نہ اس میں حور ہے نہ قصور ہے صوفیا نے کہا ہے کہ عروج کی کوئی حد نہیں کیونکہ سالک اللہ تعالی کی میدان علم اور حکمت میں چلتا ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے پس ممکن ہے کہ بتدریج علوم میں ابد الاباد تک صعود کرتا رہے اور بعض صوفیا نے کہا ہے کہ روح کی دو قسمیں ہیں سراجی اور زجاجی روح سراجی تو مخلوق ہے قائم بذات ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ جسم کے متعلق ہوتی ہے اس کو اور اس کے قوی کو روشن کرتی ہے پس اس کے لیے فی نفسہ اطلاق ہے اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے روشنی سورج کے ہے جرم سورج میں اور زجاجی مخلوق ہے قائم بالغیر ہے پیدا ہونا افعال قلبیہ اور قالبیہ کا اس کی شان سے ہے پس اس کے لیے تقید ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے سورج کی روشنی لوگوں کے گھروں میں پس اول کے لیے صفت ذاتیہ وحدت ہے اور ثانی کے لیے کثرت صفت عارضہ ہے پس نفس ناطقہ ہر انسان کا اس سراج کے لیے زجاج ہے پس وہ بدن کا امیر ہے اور جوارح اس کے خدم و حشم ہیں اور بدن میں وہ جس طرح چاہے تدبیر و تصرف کرتی ہے اور روح حیوانی جو انسان اور باقی حیوانات مشترک ہیں وہ روح جسمانی ہے قلب کے بائیں حصہ مجوف میں ہے اس میں کسی قدر بلغ ہے کہ وہ روح حیوانی کو ترکیب دینے والا ہے اور کسی قدر اس کے اوپر بخار خالص ہے کہ اس کو فارسی میں جان کہتے ہیں اور بعض صوفیا کہتے ہیں کہ نفس ناطقہ روح حیوانی پر ایسے عاشق ہے جیسے زوج زوجہ پر عاشق ہوتا ہے اور اس ایک پسر اور ایک دختر پیدا ہوتے ہیں پس پسر تو قلب ہے اور اس کے لیے بسبب اللہ تعالی کے مقدر فرمانے کے تین خصلتیں ہیں تقوی اور فجور کا الہام اور جس شے سے اللہ تعالی راضی نہیں ہے اس پر ملامت اور اس کے قضا اور قدر کے جاری ہونے کے نیچے مطمئن ہونا اور دختر وہ نفس امارہ بالسو ہے پسر یعنی قلب تو ان اشیاء پر مجبول ہوا ہے کہ جو اللہ کی طرف قریب کرنے والی ہیں اور دختر یعنی نفس امارہ بالسو ان اشیاء پر مجبول ہوا ہے کہ جو بارگاہ الہی سے دور کرنے والے ہیں لیکن اکثر اوقات پسر دختر سے اور دختر پسر سے وارث ہوتے ہیں چنانچہ قلب تو نفس کے افعال کو کرتا ہے اور نفس قلب کے افعال کرتا ہے چنانچہ اسی طرف رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا چنانچہ فرمایا کہ وہ یعنی نفس مجھ پر ایمان لے آیا ہے جاننا چاہیے کہ جو ارواح ابدان کے متعلق ہیں ان کا برزخ اور ہے اور ان ارواح کا برزخ اور ہے جو غیر بدن سے متعلق ہیں اور دوسرے کا کشف پہلے کے کشف سہل تر ہے کیونکہ برزخوں کا تفاوت مکاسب کے تفاوت سے ہے پس مکاسد کے تعدد سے برزخ بھی متعدد ہوں گے بخلاف ان ارواح کے برزخ کے جو بدن سے متعلق نہیں ہے کیونکہ ان کی نسبت برابر ہے ۔

تینتیسواں مرحلہ

 تعینات میں عالم مثال بھی ہے

تعینات میں سے عالم مثال بھی ہے۔
تعینات کیانیہ میں سے تعین ثانی حضرت مثال ہیے اور اصطلاح شرح میں اس کو برزخ کہتے ہیں اور وہ اشارہ حسیہ کو کسی حال میں سوائے نزول کے قبول نہیں کرتا ہے اور عالم مثال کو جو برزخ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عالم اعلی یعنی عالم ارواح اور عالم اسفل یعنی عالم اشباح میں واسطہ ہے اور عالم مثال ایک عالم روحانی ہے جوہر نورانی سے کہ جو بعض اعراض کے قبول کرنے میں وہ جو ہر وہ جوہر جسمانی کے مشابہ ہے اور نورانی ہونے میں جوہر مجرد عقلی کے مشابہ ہے اور وہ ایک خیال ہے متصل بھی ہے اور منفصل بھی متصل تو وہ ہے کہ جو خواب قوی دماغیہ سے دکھائی دیتا ہے جیسے صورتیں اور شکلیں اور الوان اور روشنیاں کیونکہ کمیت اور کیفیت اور تمام اعراض عالم اسفل سے اکتساب کیے گئے ہیں اور مادہ کا ہونا اور تجردیہ عالم اعلی سے اکتساب کیا گیا ہے اور منفصل وہ ہے کہ اس کو خوابوں سے کچھ تعلق نہیں اور قوی دماغیہ کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ اس عالم میں ہر شے کی خواہ کوئی شے ہو ایک صورت ہے اور مثل افلاطونیہ سے یہی عالم مثال کی صورتیں مراد ہیں اور مشائین نے اس عالم کا انکار کیا ہے اور ارواح کا مجسم ہونا اور اجسام کا ذی روح ہونا اور اعمال اور اخلاق کا مشخص ہونا بھی اسی عالم میں ہے اور اسی عالم میں معانی تناسب کی صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں کہ وہ ان کی مناسب ہیں اور نبی ﷺکا جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام کو دحیہ کلبی کی صورت میں دیکھنا اسی عالم میں واقع ہوا ہے اور اسی طرح اولیاء کا خضر علیہم السلام کو دیکھنا بھی اسی عالم میں ہے اور صورتوں کا عالم میں منعکس ہونا اور ایک شخص کو بہت سی صورتوں لطیفہ وقبیحہ انسیہ و مہیبہ و عظیمہ و حقیرہ میں دیکھنا بھی اسی مقام میں ہے اور اسی طرح ایک پر ایک شے ظاہر ہونا اور دوسرے سے اس شے کا مخفی رہنا بھی اسی عالم میں ہے اور ابدال جو اپنے بدنوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں وہ بھی اسی عالم میں ہوتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ یہ عالم ارواح سے اجسام کی طرف رسول فیض کا واسطہ ہے اور بلاواسطہ فیض اس وجہ سے نہیں ہو سکتا کہ مجرد اپنی وساطت کی وجہ سے اور جسمانیت اپنی ترکیب کی وجہ سے متباین ہیں ۔

چونتیسواں مرحلہ

 عالم شہادت کی تفصیل

عالم شہادت اور عالم شہادت کی تفصیل ۔
تعینات کیانیہ میں سے عالم شہادت و اجسام وحس بھی ہیں کہ جو اشارہ حسیہ کو قبول کرتا ہے اور اس عالم میں بعض تو وہ ہیں کہ جو کون اور فساد کو قبول نہیں کرتے جیسے کہ عرش اور کرسی پس عرش مقعر جنت کی جہت ہے اور کرسی کا محدب جنت کا بچھونا ہے پس عرش و کرسی جنت کا احاطہ کیے ہوئے رہتے ہیں اور عرش و کرسی اہل کشف کے نزدیک طبعی ہیں عنصری نہیں ہیں اور اس عالم میں بعض وہ اشیاء ہیں کہ جو کون و فساد کو قبول کرتی ہیں جیسا کہ سات آسمان اور ثوابت اور سیارہ اور زمینیں اور کائنات جوّ کیونکہ یہ سب عنصری ہیں خواہ تو وہ بسیط ہوں جیسے عناصر ہیں اور رعد اور برق اور سحاب ہیں یا مرکب ہوں جیسے کہ معادن اورنباتات اور حیوان ہیں اور ہر ملک کا ایک ملکوت ہے کہ وہ اس کے روح ہے اور اس پر کسی کو سوائے بعض خواص کے اطلاع نہیں ہے اور اجسام انسان کامل کا بدن ہے کیونکہ وہ عالم صغیر ہے کہ جو شے ان عوالم میں ہے ہر ایک کی مثال اس میں ہے اور شرح اس کی ان اوراق میں نہیں آ سکتی بلکہ صوفیا نے کہا ہے کہ انسان بسبب اپنے مراتب وجوبیہ و امکانیہ پر صورۃ وحدانیہ میں شامل ہونے کے عالم کبیر ہے پس گویا کہ وہ بسبب اپنی امکانیت کے ایک اچھا خاصا جسم ہے اور بسبب اپنی وجوبیت کے ذی روح ہے پس انسان کامل ہو گیا جیسا کہ عالم قبل آدم کے پیدا کرنے کے جسد کامل تھا اور آدم علیہ السلام سے تمام ہو گیا اور یہ عالم یعنی عالم انسان سب مظاہر میں اتم ہیں کیونکہ جیش جوش ہے مراتب عالیہ اور حضرت متقدمہ میں اجمالا ادراک کے جاتے ہیں وہ یہاں تفصیلا ادراک کے جاتے ہیں پس معلوم ہوا کہ عالم اروا عالم معانی یعنی تعین ثانی سے ظہور کے اعتبار سے اتم ہے اور عالم مثال عالم ارواح سے ظہور کے اعتبار سے اتم ہے اور اجسام مثال سے ظہور کے اعتبار سے اتم ہے اور یہ تفصیل کیسے نہ ہوگی کیونکہ لا تعین کا تابع اجمال میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اسی طرح جس قدر تعین بڑھتا جائے گا اجمال کم ہوتا جائے گا پس اعلی اجمال میں اسفل سے زیادہ ہے اور اسفل تفصیل میں اعلی سے زیادہ ہے اور اسی طرح صاحب سلوک کے لیے مدارج صعود کے ہیں کیونکہ وہ کثرت چھوڑتا ہے اور وحدت خالصہ میں غائب ہوتا ہے پس مراتب عالیہ میں جس قدر ادراکات کے ملکات ہیں سب کو پوری طور سے حاصل کرتا ہے اور انسان کا حس ظاہری سے جو تعلق ہے یہ تعلق مراتب عالیہ کے ادراک سے مانع نہیں ہے پس انسان ایسی شے ہے کہ اس میں احکام کثرت کے تمام ہوتے ہیں اور وہ احکام کثرت کے جمع معنوی کے مقام میں قہر احادی کے سبب سے محوتھے پس بسط نے چاہا کہ مراتب ظہور موافق ان کے استعدادات کے ظاہر ہوں چنانچہ ایسا ہی ہوا حتی کہ انسان کامل بن گیا پس وہ مرتبہ جمع اور تفریق دونوں کو جامع ہے اور جو شے خزانہ وجود میں ہے اس کا احاطہ کرنے والا تاکہ وہ ایسے مجموعہ کو ادراک کرے کہ جو پارہ پارہ متفرق تھا پس انسان کامل حقائق الہیہ اور حقائق کیانیہ محیط ہے پس عالم کبیر تو اگرچہ وجود متفرق پر شامل اور حاوی ہے لیکن اس کے لیے کوئی اور شے وحدت ذات مثل انسان کامل کے نہیں ہے پس اس کی مثال احدیث حقیقہ میں اور جمعیت میں کہ جو اسم منترج ہے حضرت وجود کی سی ہے پس حق تعالی سبحانہ و تعالی اور انسان کا مل میں کوئی واسطہ نہیں ہے اور دلیل کے لیے تجھ کو لولاک لما خلقت الافلاک کافی ہے کیونکہ حضور ﷺباتفاق اہل کشف کے اکمل کاملین ہیں پس سبب عدالت کاملہ کے آپ ہی رب العالمین کے خلیفہ ہیں بخلاف اور انبیاء کے ان میں غالبیت اور مغلوبیت ہے ۔

پینتیسواں مرحلہ

واجب اور ممکن معہ صفت مخصوصہ

واجب اور ممکن معہ صفت مخصوصہ اور بیاں اس کا کہ ہر ایک واجب اور ممکن میں سے ایک دوسرے کے صفات کو بالعرض اکتساب کرتا ہے
حقیقت واحدہ مطلقہ میں وجوب اور امکان برابر ہیں پس جب وجوب کے ساتھ ساتھ مقید ہو تو وہ رب اور الہ ہو جاتی ہے اور جب امکان کے ساتھ مقید ہو عبد اور مالوہ ہو جاتی ہے پس وہ دونوں یعنی واجب اور ممکن اپنے مرتبہ میں ایسی اوصاف ذاتیہ مخصوصہ کے ساتھ متصف ہیں کہ وہ اوصاف دوسرے کی طرف متعدی نہیں ہوتے اور نیز ایسے اوصاف عرضیہ کے ساتھ متصف ہیں کہ جو دوسرے سے اکتساب کیے گئے ہیں اور مناسب یہ ہے کہ دونوں کے محل میں ہر ایک وصف حقوق کی رعایت رکھی جائے پس واجب تو سب سے غنی ہے اور ممکن بالذات کل کی طرف فقیر و محتاج ہے یعنی ذات اور صفات ممکن کے محتاج اور فقیر ہے یہ یعنی احتیاج عبد ممکن میں سب مرتبوں میں بزرگ تر ہے کیونکہ مقام عبد کا عدم ہے اور اسی وجہ سے تو نے سنا ہوگا کہ اعیان نے وجود کی بو تک نہیں سونگھی پس اول ارتفاع ممکن کا یہ ہے کہ اس نے وجود علمی کو حضرت واجب سے حاصل کیا پھر ان اوصاف کے ساتھ رنگین ہو گیا کہ وہ عین میں اس کے تابع ہیں اسی واسطے نبی ﷺنے فرمایا ہے کہ کاش رب محمد محمد کو پیدا نہ کرتے کیونکہ امکان کی حیثیت سے مرکزہ اس کا عدم ہے پس ربوبیت تمام اوصاف عبودیت سے تنزہ کا نام ہے اور عبودیت تمام اوصاف ربوبیت سے متنزہ ہونے کو کہتے ہیں پس وہ عبد کہ جو اوصاف ربوبیت سے مقدس ہو وہ حقیقت مالوہ ہے اور اسی طرح رب جو اوصاف عبودیت سے مقدس ہے حقیقت الہ ہے اور عبد کے لیے کوئی مرتبہ عبودیت میں اس سے زیادہ اعلی نہیں ہے اور اسی واسطے جب ابو یزید قدس مرکز عبودیت میں نازل ہوئے ہیں تو فرمایا سبحانی ما اعظم شانی
پھر جاننا چاہیے کہ ان دونوں صفت ذاتیہ یعنی افتقار اور غنی سے غیب مطلق عین مقید کے اوصاف تک نزول کرتا ہے پس یہاں دو سفر ہیں ایک سفر اطلاق سے تقید کی طرف اور دوسرا تقید سے اطلاق کی طرف اور ہر سفر ایک ایسے معنی کے لیے کیا جاتا ہے کہ وہ معنی اس سفر ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں پس سفر غیب مطلق کا عین مقید تک تو احدیت مطلقہ میں جو صفات پوشیدہ ہیں ان کے اظہار کے لیے ہے پس یہ سفر سفر لیس کا ہے اور سفر عین مقید کا غیب مطلق تک صفات کے پوشیدہ کرنے کے لیے ہے بس اور وہ صفات وہ ہیں کہ جو منفعلہ متاثرہ حاضرہ ہیں اور ان صفات سے منفعل ہیں کہ جو ان میں موثر ہیں اور حقیقت واحدہ میں حاصل ہیں اور یہ پوشیدہ کرنا اس وجہ سے ہے تاکہ حق اور خلق کے تمام صفات کا احاطہ کامل ہو جائے اور وہ حق تعالی کا خلیفہ ہو جائے اور حضور کے قول خلق ادم علی صورتہ ( پیداکیااللہ نے آدم کو اپنی صورت پر)میں یہی مضمون مراد ہے بس یہ سفر سفر خلع یعنی اپنی صفات سے جدا ہونے کا ہے کیونکہ وہ دونوں یعنی واجب اور ممکن اپنی دونوں صفتوں ذاتی اولی یعنی غنی اور افتقار سے علیحدہ ہو گئے اور بالعرض اور دوسرے مرتبہ میں ہر ایک نے ایک دوسرے اوصاف کو اکتساب کیا ہے اور اس اکتساب میں غیب کو عین کے ساتھ اور عین کو غیب کے ساتھ ملانے کا ایک شائبہ ہے اور یہ غیب کو عین کے ساتھ ملانا اور عین کو غیب کے ساتھ اس واسطے ہیں تاکہ خلع اور لبس سے ان اعمال کی شرح ہو جائے جو غیب الغیب میں پوشیدہ ہیں پس معلوم ہوا کہ وحدت وجود میں اصل ہے اور کثرت جو دکھائی دیتی ہے یہ وہمی ہے یہ توہم ہوتا ہے کہ اعیان ثابتہ عالم وجود میں وجود کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے اور حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اعیان تو ہمیشہ بطون کو مقتضی ہیں جیسے کہ وجود ساذج یعنی خالص بطون کو چاہتا ہے اعیان ثابتہ کے نہ صرف آثا اور احکام ظاہر ہوتے ہیں اور احکام اور آثار سے مراد اعیان ثابتہ کی صورتیں امکانیہ اور اعیان ثابتہ کے وہ لوازم مراد ہیں کہ جن کے سبب سے وجود حقائق وجوبیہ یعنی صفات اور اسماء فعلیہ کے ساتھ ظاہر ہوا ہے پس معلوم ہوا کہ وجود کا ظہور کسی تعین کے وجود کے ساتھ مشروط ہیں اور عالم ظاہر میں جو کمی ہے وہ باطن میں مندرج ہے اور جو عالم باطن میں کمی ہے وہ ظاہر میں مندرج ہے

چھتیسواں مرحلہ

وجود پر اثر کے خفی معنی

موجودہ بحیثیت وجود کے کسی اثر کو مقتضی نہیں پس اثر اسی معنی خفی کی وجہ سے ہے۔
ممکن وہ شے ہے کہ جس کا وجود اور عدم برابر ہوں یعنی اپنی ذات سے نہ وجود کو چاہیے نہ عدم ورنہ واجب یا ممتنع ہو جاتا محققین نے کہا ہے کہ عدم سابق اور عدم لاحق اور ان دونوں کے درمیان میں وجود یہ تینوں کے مزاج اورباعث کے سبب سے ہیں کیونکہ ممکن عدم کے وقت بھی ایسے موثر کا محتاج ہے کہ جو اس کے عدم کو وجود پر ترجیح دے جیسے کہ وجود کا کوئی مرجح ہوتا ہے شیخ رئیس نے اشارات میں کہا ہے کہ اگر ممکن کی ذات کی طرف نظر کی جائے اور مرجح سے قطع نظر کر لی جائے تو اس پر حکم معدوم ہونے کا کیا جائے گا کیونکہ اس کا وجود اس میں کسی فاعل کی تاثیر کا محتاج ہے اور اس کا عدم بسبب عدم تاثیر کے ہے پس معلوم ہوا کہ ممکن کا وجود غیر سے خاص ہوتا ہے اور عدم غیر سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ عدم تو بسبب عدم تاثیر غیر کے ہے جو شے بالذات ہوتی ہے وہ اس شے سے اولی ہوتی ہے جو بالغیر ہو بعض محققین نے کہا ہے کہ یہ جو شیخ نے کہا ہے کہ جو شے بالذات ہوتی ہے وہ اس شے سے اولی ہوتی ہے جو بالغیر ہے معنی اس قول کے یہ ہے کہ اس کا عدم کسی شے کا مثل موجد اورایجاد وغیرہ کا محتاج نہیں بلکہ عدم کے لیے وجود کی علت کا عدم کافی ہے اوریہ معنی نہیں ہے کہ عدم اس کی ذات کے لیے اولی ہے کیونکہ اولیت ذاتیہ تو وہاں موجود ہی نہیں ہے اور شیخ نے اشارات میں یہ بھی لکھا ہے کہ عدم بھی کسی امر خارجی کے اعتبار کا محتاج ہے کچھ بھی نہیں تو یہ ہو ہی گا اسکو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عدم ہی وجود نہیں ہے پس معلوم ہوا کہ ممکن کے لیے کسی قسم کی اولیت نہیں ہے اور علامہ شیرزی نے تصریح کی ہے کہ ممکن میں وجود اور عدم کے درمیان مساوات اس کے ذات کے اعتبار سے البتہ وجود کے مرجح ہونے کے لیے ایسی شے کی ضرورت ہے کہ جو وجود کوعدم پر ترجیح دے پس بقا کے وقت وجود کا رجحان عدم پر متحقق ہوگا اور اسی طرح وجود کی ترجح عدم پر متحقق ہوگا اور تاثیر کے معنی ترجیح ہی میں ختم ہو ہوئی کلام علامہ شیرازی کی پس معلوم ہوا کہ عدم اور وجود دونوں کے مرجح کے سبب ہیں ۔

سینتیسواں مرحلہ

تعینات میں عالم مثال بھی ہے

تعینات میں سے عالم مثال بھی ہے۔
ا ثر کا ظاہر ہونا ایک ایسے معنی خفی کی وجہ سے ہے کہ وہ معنی وجود میں اعتبا کیے گئے ہیں کیونکہ وجود بحیثیت وجود کے بغیر اس کے کہ کوئی معنی اس میں اعتبار کیے جائیں اس کو کسی قسم کا اثر نہیں ہے پس وہ معنی خفی مراتبے ہوئے وجود میں سے ایک مرتبہ ہے جب پس جب کسی موجود کے موجدیت وجود کی طرفباعتبار علت یا شرط یا سبب وغیرہ کے مستند نہ ہو سکے تو وہ موجودیت مراتب وجود میں سے کسی مرتبہ کی طرف مستند ہوگی اور ان مراتب میں سے ایک مرتبہ الوہیت ہے پس اس الوہیت اور اس کی نسبتوں یعنی اسماء کی طرف آثار مستند ہوتے ہیں اور مراتب سب کے سب امور عقلی ہیں امور عینیہ نہیں ہیں پس معلوم ہوا کہ کے جب کسی اثر کا ظاہر ہونا کسی ظاہر کی طرف مضاف ہو تو وہ واقع میں باطن کی طرف مضاف ہے ظاہر کی طرف نسبت اسی وجہ سے کر دی گئی ہے کہ باطن کا ادراک مشکل ہے پس ہر صورت کے ایک معنی ہیں کہ وہ معنی اس صورت میں موثر ہے اور ہر صورت اس معنی کے مسخر ہیں بس معلوم ہوا کہ ہر عین کی صورت اپنے معنی کے مسخر اور اثر کا ثبوت اور تحقق واجب اور ممکن کے لیے اور اسی طرح نفی اس اثر کی دوسرے کی طرف مضاف نہیں ہوتی بلکہ واجب کے آثار ہمیشہ سے یا تو مثبت ہیں یا منفی ہیں اور اسی طرح ممکن کے آثار بھی ہمیشہ سے مثبت یا منفی ہیں کیونکہ واجب اور ممکن میں سے ہر ایک ایک دوسرے کا مرآۃ ہے کیونکہ ایک کے احکام دوسرے میں منعکس ہوتے ہیں اور شرح اس مقام کی یہ ہے کہ جو اسم یا صفت حق تعالی کی طرف منسوب ہے اس کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے اضافت حق تعالی کی طرف جائز ہے یا نہیں اگر جائز ہے تو وہ ایسا امر ہوگا کہ واجب اس کو ہمیشہ سے بذاتہ مقتضی ہے لیکن اس کا حکم ممکن کے لیے اب تک ظاہر نہیں ہوا بعد میں ظاہر ہوتا ہے اور اگر اضافت حق تعالی کی طرف جائز نہ ہو تو وہ ایسا امر ہے کہ حق تعالی اس کو بذاتہ مقتضی نہیں ہے اور بعض ممکنات میں اس کے ہونے کو بعض ممکنات مقتضی ہیں لیکن ظہور اس کا حق تعالی سے ہی ہے بس اس تمام تر تقریر سے معلوم کہ ممکن کے لیے علم حادث ہوا ہے اور نفس ممکن اور مثل ممکن کے لیے اس علم کا ظہورحادث ہواہے اور خارج میں اس کے ثابت ہونے نے حق کے لیے یا ممکن کے لیے حکم حادث نہیں ہے بلکہ جو حق کے لیے ہے وہ ہمیشہ سے اس کے ہی لیے ہے صفات اور احکام اور نسبت اور مراتب کی معرفت جس وقت کے وہ ممکنات کے لیے ظاہر ہوں بسبب ممکنات کے حدوث کی حادث ہے اور ان صفات اور احکام اور نسب اور مراتب کا ثبوت اور انتفاء جس کے لیے یہ ثابت ہیں یا جس سے یہ منتفی ہیں حادث نہیں ہے کیونکہ یہ ثبوت اور انتفاء تو ازلی ہے ۔

اڑتیسواں مرحلہ

 وجود بطون کا مقتضی ہیں

وجود ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی شان بطون ہے بس اس پر اور جو اس میں متضمن ہے اس پر کوئی مطلع نہیں ہو سکتا لیکن جب وہ مراتب تنزلات میں ہو اسوقت البتہ اطلاع ممکن ہے بس جو تنزل اس کے خواص اور احکام کو زیادہ شامل ہیں وہ اس کے انیت کے لئےزیادہ ظاہر ہوگا پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ عالم اجسام عالم مثال سے ظہور کے اعتبار سے اتم ہے عالم مثال عالم ارواح سے اتم ہے کیونکہ عالم اجمال بھی ہے اور تفصیل بھی اور اس کے مدرکات حواس ظاہرہ سے بھی مدرک ہیں اور حواس باطنہ سے بھی اور سب مدرکات اادراکات کے ملکات ہیں جو اپنے مراتب میں ہیں پس وحدت حقیقت کے احکام کثرت کے احکام پر غالب ہیں اور کثرت وحدت میں ہالک اور مضمحل ہے اور جب ظاہر متفرقہ میں وحدت ظاہر ہوتی ہے تو کثرت کے احکام سے مغلوب و مقہور ہو جاتی ہے پس حق سبحانہ کی ذات مقام وحدت میں وحدت سے مدرک ہوتی ہے اور مقام کثرت میں کثرت ہی سے مدرک ہوتی ہے اس کے بعد ذات نے ایک حرکت ارادی ایک مظہر کلی کی طرف کہ جو مقام وحدت و کثرت دونوں کو جامع ہو چنانچہ انسان کامل کی صورت میں ظہورہوا کیونکہ انسان کامل وحدت ذاتیہ اور کثرت اسمائیہ اور فعل اور انفعال اور تاثیر اور تاثر سب کو شامل ہیں پس ظہور انسان کامل میں بنسبت دونوں جز متقابل کے تام ہو گیا بس جو شے لا تعین میں باعث ظہور بطون ہے وہ اس تعین میں باعث ظہور ہے اور دونوں کے درمیان میں صرف رب اور مربوب کا فرق ہے ۔

انتالیسواں مرحلہ

مظہر کی خصوصیات

ہر مظہر کے اندر ایک خصوصیت کے باعتبار اس کے وہ مظہر احکام کو مقتضی ہے۔
جاننا چاہیے کہ ہر مظہر کی خصوصیت کے لیے چند احکام کا اقتضا ہے کہ وہ اقتضا بالتفصیل اور بالفعل اسی مظہر میں ظاہر ہوتا ہے اگرچہ وہ اقتضاء بتدریج ہو اور باعتبار اجمال اور قوت کے ہرمظہر میں احکام ہر مظہر کے ہیں اور اس واسطے تو نے سنا ہوگا کہ صوفیاء کہتے ہیں کہ ہر شے ہر شے میں ہے بس تیرا اس طرف وہم نہ جائے کہ جامیعت انسان کامل کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ جامعیت تو باعتبار اس مقدمہ کے کہ ہر شے ہر شے میں ہے ہر ذرے کو ذرات میں سے شامل ہے کیونکہ ہر شے کی وجودیت ہر شے میں ہے کیونکہ حقیقت واحدہ اجمالا تمام موجودات میں ساری ہیں اور مظاہر کی خصوصیات احکام مفصلہ بالفعل کو مقتضی ہے پس جامعیت جو حضرت انسان کامل کے لیے ثابت ہے بالفعل جامعیت مفصلہ ہے پس وہ اجمال میں مثل تمام اکوان کی ہے اور تفصیل میں تمام اکوان کو جامع تراور شامل تر ہے پس کوئی شے اس کے شریک نہیں ہے
جاننا چاہیے کہ صورۃ کاملہ الہیہ کو باعتبار ان تمام مظاہر کے ظاہر ہے اس کاظہور اس حیثیت میں کہ وہ صورت الہیہ صورۃ الہیہ ہے انسان کامل کے مظہر میں ہو سکتا ہے پس عالم کبیر کو جس کا موضوع اور ہیئت صوریہ اجتماعیہ ایک ہے مثل انسان کامل کے جو لفظ مجردہ اور قوی حساسہ اور بدن اسی سے مرکب نہیں کہا جا سکتا اور اس مقام کی تقریر کسی قدر پہلے بھی گزر چکی ہے ۔

چالیسواں مرحلہ

انسان تمام مظاہر کا جامع اور تمام مخلوق سے افضل

انسان تمام مظاہر کا جامع ہے اور تمام مخلوق سے افضل
انسان کامل کی حقیقت میں ذات اور صفات اور ماہیات اور تعینات کا علم اجمالی پایا جاتا ہے علم تفصیلی کا اس میں نشان نہیں ہے اور یہی شان تعین اول کے ہیں اور یہ علوم اس میں تفصیلا بھی پائے جاتے ہیں کہ ان میں نشان اجمال کا نہیں اور یہی شان تعین ثانی کی ہے اور انسان کا مل کی حقیقت میں مرتبہ ارواح کا اور مرتبہ مثال کا اور مرتبہ شہادت کا بھی پایا جاتا ہے پس حقیقت انسان کامل میں جو مراتب خمسہ میں ہے معنی مخزونہ ہیں سب جمع ہیں اور ان کے سوا ایک اور معنی ہے اور وہ احدیت جمیعت حقیقیہ ہے پس انسان کامل کے حقیقت ہر اس شہر پر شامل ہے کہ جس پر صورۃ کاملہ الہیہ کے جو ان مراتب خمسہ کے اعتبار سے ظاہر ہے شامل ہیں پس عالم اگرچہ ان اشیاء کو شامل ہے کہ جو مظاہر خمسہ میں ہیں لیکن جمیعت کمالیہ کی صورت نہیں پس عالم اگرچہ اس اعتبار سے تو بڑا ہے کہ اس میں اصول کے فروع و بسط کیا گیا ہے لیکن اس اعتبار سے چھوٹا ہے کہ اس میں احدیت جمعیت حقیقہ کے یہ مفقود ہے پس اس کو عالم صغیر کہنا لائق ہے اور انسان عالم کو عالم کبیر کہنا لائق ہے پس دونوں جہاں میں انسان کے سوا کوئی شے مرتبہ میں بڑی نہیں ہے اور انسان ہی اللہ کا برحق خلیفہ ہے
سوال:۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے وفضلناہ علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا یعنی ہم نے انسان کو اکثر مخلوق پر فضیلت دی ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اکثر مخلوق سے افضل ہے کل سے افضل نہیں ہے
جواب:۔ اکثر کبھی بمعنی میں کل کے بھی آتا ہے تفسیر مدارک والے نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جو یہ فرمایا ہے اکثرھم کاذبون یعنی اکثر ان میں جھوٹے ہیں اس آیت میں مراد یہ ہے کہ سب جھوٹے ہیں اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے وما یتبع اکثرھم الا ظنا یعنی اکثر ان میں سے وہم ہی کا اتباع کرتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ اکثر سے مراد اس آیت میں جمع ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ مومن بندہ اللہ کے نزدیک ملائکہ سے افضل اور وجہ اس افضلیت کی یہ ہے کہ ملائکہ ہیں تو اطاعت ہی پر مجبور و مخلوق ہوئے پس ان میں عقل ہی شہوت نہیں ہے اور بہائم میں شہوت ہے عقل نہیں ہے اور آدمی میں دونوں چیزیں ہیں عقل بھی ہے شہوت بھی ہے بس جس کی عقل شہوت پر غالب آگئی وہ ملائکہ سے افضل ہے اور جس کے شہوت عقل پر غالب آگئی وہ بہائم سے بدتر ہے اور دوسری وجہ افضلیت کی یہ ہے کہ اللہ نے ہر شے کو انسان کے لیے پیدا کیا انسان کو اپنے لیے پیدا کیا ہے ایسا ہی مدارک میں لیکن بعض محققین نے ذکر کیا ہے کہ ملا اعلی کے مقربین اس حکم سے مستثنی ہیں وہ ان انسانوں سے افضل ہیں جو ملاء اعلی کے مقربین کے سوا ہیں اور شیخ صدر ملت قدس سرہ کے تبصرہ میں ہے کہ شیخ اکبر نے فتح مکیہ میں لکھا ہے کہ میں نے نبی ﷺسے خواب میں پوچھا کہ لوگ بشر پر ملائکہ کو فضیلت دینے میں اختلاف کرتے ہیں اور اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ خواص بشر خواص ملائکہ سے افضل ہیں اور خواص ملائکہ عوام بشر سے افضل ہیں اور عوام بشر عوام ملائکہ سے افضل ہیں یا رسول اللہ آپ کے نزدیک حق کیا ہے حضور نے فرمایا کہ ملائکہ بشر سے افضل ہیں میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے اس پر کوئی طلب کرے تو میں کیا کہوں گا پس حضور نے اشارہ فرمایا کہ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں افضل البشر ہوں اور تمہارے نزدیک یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ میں نے حق تعالی کی طرف سے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو شخص مجھ کو اپنے جی میں یاد کرے میں بھی اس کو اپنے جی بندوں کو یاد کیا ہوگا کہ وہ جماعت بہتر ہے اس جماعت سے کہ جس میں میں ہوں اور یہ ثابت ہو چکا کہ میں افضل البشر ہوں بس ثابت ہوا کہ ملائکہ بشر سے افضل ہیں بس جس قدر میں اس مسئلہ سے خوش ہوا اس قدر کسی شے سے خوش نہیں ہوا ختم ہوئی کلام شیخ کی
جان تو خدا تعالی تجھ کو اس خدشہ کی بصیرت دے کہ جو کچھ اس تقریر میں ہے کہ مقصود یہ ہے کہ افراد ملائکہ افراد انسان سے افضل ہیں اور دلیل اس کے اثبات کے لئے بیان کی گئی ہے حالانکہ یہ مدعا اس دلیل سے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس دلیل سے زیادہ سے زیادہ یہ لازم آتا ہے کہ جماعت ملائکہ جماعت انسان سے افضل ہے افراد کا افراد پر افضل ہونا نہیں نکلتا کیونکہ جائز ہے کہ جس جماعت میں نبی کریم ﷺنے اس کے لیے بیس حصہ ثواب اور جو جماعت اللہ کی بارگاہ میں ہے اس کے لیے پچیس حصہ ثواب ہو کیوں نہیں جائز ہے کہ دس حصہ ثواب تو نبی کریم ﷺکے لیے ایا اور باقی دس حصہ ثواب اس محفل کے باقی لوگوں کے لیے ہو اور جو جماعت ان سے بہتر ہے یعنی جماعت ملائکہ کی ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک حصہ ثواب ہو پس جماعت کی فضیلت جماعت پر مسلم ہے لیکن اس سے مقصود تام نہیں ہوتا بلکہ اس میں کوئی مقدمہ اس دلیل میں ایسا زیادہ ہونا چاہیے کہ جس سے معلوم ہو کہ ملاء اعلی کا ہر فرد اس جماعت کے ہر فرد سے افضل ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺہیں تاکہ ملا اعلی کے ہر فرد کی افضلیت ذات نبی ﷺپر ثابت ہو اور پھر اس سے افراد ملائکہ کا افضل تمام افراد بشر پر لازم آئے
اور جاننا چاہیے کہ تمام اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ محمد ﷺتمام مخلوقات سے افضل ہیں پھر اہل بدعت و اہل ہوا کا ظہور ہوا انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور اس مقام میں افضلیت سے مراد اللہ کے نزدیک ثواب میں زیادتی ہے مادہ کی افضلیت مراد نہیں ہے کہ بعض کا مادہ وہ نور ہے اور بعض کا نار ہے بعض کے مٹی ہے اور ثواب کی زیادتی عمل کی جزا ہے اور محل جزا جنت ہے اور ملائکہ کو جنت میں عمل کے جزا میں ثواب ملنا محل اختلاف ہے حتی کہعلماء نے کہا ہےکہ اہل جنت جو ثواب دئے جائیں گے یا تو انسان ہوں گے یا جن ہوں گے ملائکہ نہ ہونگے یہی یدو قسم ہوں گے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ افضلیت سے مراد شرافت ذاتیہ اور مبدہا سے زیادت مناسبت ہے تو البتہ ہو سکتا ہے اور افضلیت سے مراد ایسے معنی لیے جائیں کہ جو ہر دو اطلاق سے عام ہوں یعنی خواہ اکثریہ ثواب ہوں خواہ اکثریہ ثواب مبدا کے ساتھ ہوں
جاننا چاہیے کہ تمام اشاعرہ کا اس پر اجماع ہے کہ خواص بشر یعنی انبیاء ملائکہ سے مطلقا افضل ہیںخواہ ملائکہ علویہ ہوں یا سفلیہ قاضی ابوبکر باقلانی اورابو عبد اللہ ہ حلیمی اور استاد ابو اسحاق اسفرائینی اور ابو عبداللہ حاکم اور تمام حکماء اسلامین تمام معتزلہ اس طرف گئے ہیں کہ ملائکہ علویہ انبیاء پر افضل ہیں قاضی عز الدین سے شرح موقف میں کہا ہے کہاکثر اہل مذاہب انبیاء ملائکہ پر مطلقا افضل کہتے ہیں امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرمایا کہ اس پر اجماع ہو گیا محمد ﷺتمام ملائکہ سے افضل ہیں اور خلاف اور نزاع اور انبیاء میں ہیں
جاننا چاہیے کہ انسانی کامل وہ شخص کہلاتا ہے کہ تمام مراتب الہیہ کونیہ کو جسے کے عقول اور نفوس ہیں خواہ کلیہ ہوں یا جزئیہ سب کو اور مراتب طبیعہ کو آخرتنزلات وجود تک جامع ہو اور اس مرتبہ کو مرتبہ عمائیہ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ مرتبہ کونیہ مرتبہ الہیہ یعنی تعین ثانی یعنی وحدیت کے متشابہ ہے اس کو عمائیہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مرتبہ وحدت اور کثرت کے مابین برزخ اور حائل ہے اور اس مرتبہ میں حق نے باعتبار علم کے صفات خلق کے ساتھ ظہور کیا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت و جوب سے جو مرتبہ خاص حق کا ہے تنزل ہوتا ہے پس اس وقت اللہ تعالی کی طرف دو اشیاء مضاف کی جاتی ہیں کہ جو خلق کی طرف مضاف ہوتی ہیں جیسے تعجب اورضحک وغیرہانقائص اس کی طرف حال میں اور کسی صورت سے بھی مضاف نہ کی جائے گی اسی طرح یہ مرتبہ یعنی انسان کامل مرتبہ عمائیہ ہے کیونکہ وہ حق اور عالم کے درمیان پرزخ ہے اور اس مرتبہ میں حق سبحانہ و تعالی واقع میں صفات خلق کے ساتھ متصف ہے لیکن فرق اتنا ہے کہ پہلےعمائیت مرتبہ ربوبیت کا ہے اور دوسرے عمائیت مرتبہ مربوبیت کا ہے۔

اکتالیسواں مرحلہ

 صفات باری تعالی میں حکماء کا اختلاف

جاننا چاہیے کہ تمام اہل مذہب نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اللہ تعالی کے لیے صفات ثبوتیہ ہیں بعض صفات تو ایسی ہیں کہ ان پر باری تعالی کے افعال موقوف نہیں ہیں اور حکماء نے صفات کی نفی کی ہے اور حکماء صفات کے بارے میں دو قسم پر منقسم ہیں ایک فرقہ تو قدماء فلاسفہ کا ہے کہ جو قابل شمار بھی نہیں وہ تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کو عالم کے موجود بہ ہونے میں کچھ اور خبر نہیں بس وجود اور لوازم وجود کا عطا کرنا یہ اس کا لازم ذاتی ہے جیسا کہ روشنی آفتاب کو لازم ہے کیونکہ اس کو بھی کچھ شعور اور علم اس روشنی کا نہیں اورنہ وہ روشنی سے منفک ہو سکتی ہے اور وہ اس سے آگاہ نہ ہوئے کہ اس سے جہل لازم آتا ہے رب تعالی اس سے بہت برتر ہیں اور ایک گروہ نے ان کی طرف سے یہ عذر کیا ہے کہ انہوں نے اس علم کی نفی کی ہے جو اس کے ذات میں تکثر کو مستلزم ہو اور بعض نے اس نفی علم پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ اگر باری تعالی کسی شے کا علم ہونا تو تو اپنی ذات کو ضرور علم ہوتا اور اس کا بھی علم ہوتا کہ تجھ کو علم ہے اور علم اس نسبت کو کہتے ہیں جو دو شے کے درمیان میں متصور ہو اور علم باری تعالی میں تعدد کسی طرح بھی نہیں ہے اور جواب اس کا یہ ہے کہ علم نسبت نہیں ہے بلکہ صفت ذات نسبت ہے اور درستی اس نسبت کے لیے ثابت ہوں تاکہ جو عالم اور معلوم کے درمیان ہے اور اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ علم نسبت ہی ہے تو تغائر اعتباری طرفین میں کافی ہے اس جواب پر ایک اعتراض واقع ہوتا ہے وہ یہ کہ اس تقدیر پہ لازم آتا ہے کہ باری تعالی ان دونوں اعتباروں کے عالم نہ ہوں کیونکہ یہ دونوں اعتبار علم پر مقدم ہیں اور متاخرین کے ایک گروہ اور اکثر قدماء نے کہا ہے کہ صفت صفات زائدہ ازذات میں سے مخلوق پر مرتب ہوتی ہے وہ ہی صفت ذات باری تعالی پر بغیر اعتبار کسی صفت کے مرتب ہوتی ہے بس حق تعالی کی ذات باعتبار ظاہر ہونے حیات اور علم اورقدرت ، ارادہ اور سمع اور بصر اور تکلم کے حی علیم قدیر مرید سمیع بصیر متکلم ہے پس ذات واحد کو باعتبار تعلقات مختلفہ کے حی علیم وغیرہ کہتے ہیں اور نہ کوئی صفت وغیرہ تھییں اور تجھ کو یہ وہم نہ ہو کہ انبیاء علیہم السلام کا مذاق اس کے خلاف کی شہادت دیتا ہے کیونکہ صفات کو ثابت کرتے ہیں نفی نہیں کرتے ۔

بیالیسواں مرحلہ

 صفات کے بارے میں تحقیق زائد

صفات باری تعالی کے باب میں علماء بہت اضطراب میں واقع ہوئے ہیں پس تو خوب سن تاکہ کچھ تحقیقات اس باب میں ہم بیان کر دیں تاکہ بصیرت حاصل ہو جائے پس جاننا چاہیے کہ اس میں تو کچھ شبہ نہیں ہے کہ ذات کا مفہوم مفہوم صفات کے مغائر ہے پس جو صفات کا باری تعالی سے غیر ہونے کا قائل ہے اس نے مفہوم کا اعتبار کیا ہے اور اس میں شک نہیں کہ مفہوم صفات اور مفہوم ذات میں سے ایک دوسرے سے منفک نہیں اور اس واسطے متکلمین دونوں اعتباروں کی طرف نظر کر کے کہتے ہیں کہ صفات نہ عین ذات ہیں نہ غیر ذات بس ذات اور صفت زائدہ کو حقیقت ثابت کرتے ہیں جیسا کہ وہ قوی جو ہمارے اندر قائم ہے قوت نحاویہ عاذیہ جو مادہ غذا ہے تصرف کرتی ہے یعنی غذا کھانے والے کے اجزاء کے مشابہ بدل متحلل بناتی ہے اور دوسری قوت نامیہ یعنی وہ قوت جو اجزا پر زیادتی کو بقدر مناسب تمام اطراف میں واجب کرتی ہے کمل مقدر تک پہنچ جاتا ہے اور تیسری قوت تولدہ یعنی وہ قوت جو مادہ کے فضلہ کو اس سے متعد کر دے تاکہ وہ علت بقاء ونسل کے لیے جوہر بن جائے اور چوتھی قوت جاذبہ جو غذا کی مدد کے لیے ہے اور پانچویں قوت ہاضمہ جو غذا میں تصرف کرتی ہے اور چھٹی قوت ماسکہ یعنی وہ قوت جو غذا کو تاثیر کے تمام ہونے تک حفاظت کرتی ہے اور ساتویں قوت جو ثقل کو دفع کرتی ہے اور یہ قوت دافعہ غاذیہ کی خادم ہے وہ قوت نامیہ کے خادم ہے اور نامیہ مولدہ کی خادم ہے بس مولدہ تمام قوی کی مخدوم ہے یہ مذہب بعض صفات میں سوا ابو الحسن اشعری کے تمام اشاعرہ کا ہے اور ابو حامد غزالی اور تمام اہل کشف تمام صفات کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ صفات عین ذات ہیں یعسوب موحدین امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا اللہ تعالی کے لیے کمال اخلاص بھی ہے اور ایک روایت میں کمال توحید کے لفظ آتا ہے صفات کو کہ باری تعالے سے نفی کیا جائے یعنی بحیثیت وجود کے تمام صفات انسان ہیں صفات موجودات متغائرہ ازذات نہیں ہے جیسے کہ ہماری صفات اور ہمارے قوی بحیثیت وجود اور مفہوم کے حقیقت متغائر ہیں بلکہ ہمارے صفات ذات واجب الوجود کے لیے حالات انتزاعی ہیں کسی صفت کا وجود وجود علیحدہ متغائر ذات کے نہیں ہے بلکہ وجود ذات کے لیے موجودات ہیں صفات بحیثیت وجود کے عین ذات ہے اور وہ باعتبار مفہوم کے مغائر ذات ہیں اور اسی طرح آپس میں بھی ایک دوسرے کے مغائر ہیں شیخ نے فتوحات میں کہا ہے کہ باری تعالی کا حی ،عالم ،قادر ہونا اسی طرح تمام صفات باری تعالی کہ نسب اور اضافات ہے اشیائے مستقل زائد ازذات نہیں ہیں کیونکہ اگر زائد ہوں تو یہ لازم آتا ہے کہ ذات نقص کے ساتھ موصوف ہو کیونکہ جو شے کسی زائد شے سے کمال حاصل کرتی ہے وہ اپنی ذات سے اس کمال سے ناقص ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالی اپنی ذات سے کامل ہیں پس زائد از ذات بزیادت حقیقت محال ہے اور زائد بالاعتبار وبالاضافت محال نہیں ہے اور صفات کے بارے میں بعض کا جو یہ قول ہے کہ صفات نہ ذات ہیں اور نہ صفات ذات کے غیر ہیں تو یہ کلام نہایت بعید ہے کیونکہ یہ کلام زائد کا اثبات کر رہی ہے اور زائد حقیقتاً بلاشک غیر ہے مگر اس پر صرف غیر کے اطلاق کرنے کا اس قابل نے انکار کیا ہے اس کے بعد غیر کی تعریف میں تحکم کہا ہےچنانچہ غیر کی تعریف اس طور سے کی ہے کہ غیریت میں وہ دو شے ہیں کہ ایک کی مفارقت دوسرے سے نہ باعتبار زمانہ کے اور نہ باعتبار مکان کے اورنہ باعتبار وجود کے اور نہ باعتبار عدم ہو سکے بس اس معنی کے صفات سے غیریت کی نفی کی ہے اور تمام علماء کے نزدیک یہ تعریف غیر پن کی نہیں ختم ہوئی کلام کی قائل کی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ غیریت ایک شے کے دوسرے شے سے اسی طرح ممتاز ہونے کو کہتے ہیں کہ ان کو دو کہا جا سکے شرح مواقف میں کہا ہے اللہ تعالی کے صفات اضافات ہیں اور اضافہ جیسا کہ نسبت متکررہ کو کہتے ہیں اسی طرح اس نسبت متکررہ کے معروض کو بھی کہتے ہیں اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حق تعالی کے لیے کوئی صفت زائد از ذات نہیں کیونکہ اگر صفت زائد از ذات مانی جائے تو یا تو وجود باری تعالی کا اس صفت سے متقوم ہوگا حتی کہ اگر اس صفت کا عدم فرض کیا جائے تو اس کو وجود باطل ہو جائے تو اس صورت میں تو باری تعالی اجزاء سے مرکب ہونگے ذات بغیر ان اجزاء کے تمام نہ ہو گی اور ہر مرکب معلول ہوتا ہے اور اگر اس صفت کا عدم فرض کرنے سے اس کا عدم نہ لازم آئے تو وہ صفت اس میں عرضی ہوگی جیسے کہ انسان میں علم ہوتا ہے اور یہ محال ہے کیونکہ ہر عرض معلول ہوتی ہے اور ہر دو پر اگر علت اس معلول کی ذات واجب ہوگی یہ لازم آتا ہے کہ ذات فاعل بھی ہو اور قابل بھی ہو اور اس کا فاعل ہونا قابل ہونے کے غیر ہوگا کیونکہ وہ بحیثیت فعل کے قابل نہ ہو نگے اور بحیثیت قبول کے فاعل نہ ہونگے پس اس صورت میں ذات مرکب ہوگی کہ اس میں ایک سے کثرت ہوگی اور پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ ذات واجب میں کثرت ہر طرح سے محال ہے کیونکہ اللہ سبحانہ ہر طرح سے واحد ہے اور اگر وہ علت غیر واجب ہے تو اس کا بطلان تو بدیہی ہے ۔

تینتالیسواں مرحلہ

 اللہ تعالی کا علم عین ذات ہے یا غیر ذات

بعض علماء نے علم یا تو عین ذات ہے یا خارج از ذات ہے خارج ہونے کی صورت میں یا تو علم اپنی ذات سے قائم ہے اور یا ذات باری تعالی کے ساتھ قائم ہے اور یا کسی اور شے کے ساتھ قائم ہے اور اس مسئلہ کے اشکال کی وجہ سے ہر احتمال ایک جماعت کا مسلک ہے چنانچہ افلاطون نے کہا کہ اللہ تعالی کا علم ایک صورت ہے جو اپنی ذات سے قائم ہے بس اس تقدیر پر اللہ تعالی کے عالم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی کو اس صورت سے ایک نسبت اور تعلق ہے اور صورت سے مراد وہ امر مجرد ہے کہ جو مشاہدہ کا آلہ ہو اور اپنی ذات سے قائم ہو جیسے کہ آئینہ اپنی ذات سے قائم ہوتا ہے اور مشاہدہ کا آلہ ہوتا ہے پس جو امر اس سے مشاہدہ کیا جاتا ہے وہ ذات کے اعتبار سے تو اس صورت کے ساتھ متحد ہوتا ہے اور اعتباراً دوبارہ وہ غائب ہوتا ہے اور صورۃ کا اپنی ذات کے ساتھ قائم ہونا اس کے عرض ہونے کے منافی نہیں ہے یا یہ کہ اپنی ذات سے ایک عالم میں قائم ہو اور غیر کے ساتھ دوسرے عالم میں قائم ہو جیسا کہ انسان اپنی ذات سے خارج میں قائم ہے اور غیر کے ساتھ ذہن میں اور جیسے کہ افعال دنیا ہے اعراض ہیں اور دوسرے عالم میں یہ جواہر ہے مثلا وزن میں اور جنت میں اور اسی طرح معدومات ممکنہ کی صورتیں بلکہ ممتنعات کی صورتوں کا اپنی ذات سے عالم انوار میں قائم ہونا جائز ہے اگرچہ خارج میں نہ پائے جائیں بلکہ یہاں تک جائز ہے کہ خارج اور ذہن دونوں میں کوئی شے نہ پائی جائے اور عالم انوار میں وہ شے اپنی ذات سے پائی جائے جیسے کہ معدوم مطلق کا عالم انوار میں ثابت ہونا جائز ہے اور خارج اور ذہن میں جو اس سے آثار مطلوب ہیں جائز ہے کہ وہ مرتب نہ ہو اور اسی مذہب کے مؤید وہ ہے جو کہا گیا کہ شیئۃ کی دو قسمیں ہیں شیئۃ الثبوت اور شیئۃ الوجود شیئۃ الوجودیہ تو ظاہر ہونا ہے نہ کسی امر کا ہے اور وجود عینی میں خوا کسی عالم میں ہو عالموں میں سے اور شیئۃ ثبوتیہ ثابت ہونا کسی امر کا علم میں نہ ہے خارج میں اور معتزلہ بھی شیئۃ ثبوتیہ کے قائل ہیں مگر اتنا فرق ہے ثبوت معتزلہ مذہب پر مبنی ہے اور اس تقریر کے موافق علمی ہے اور معدومات کی تمیز مطلقا معتزلہ کے نزدیک خارج میں ہے اور افلاطون کے نزدیک موجودہت خارجیہ کی تمیز عالم انوار میں ہے پس افلاطون کا مذہب اعیان ثابتہ کے قائل ہونے کے قریب ہے جو مسلک صوفیا کا ہے اور اس کے اثبات کا طریق مشاہدہ ہے اور یہ بات ریاضات شاقہ اور ایسے ہیں جن مجاہدات کاملہ کے کہ ان کے سبب سے مزاج بہت کم باقی رہتا ہے حاصل ہوتا ہے ۔

چوالیسواں مرحلہ

علم باری تعالی میں فلاسفہ کے مذاہب

جمہور فلاسفہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالی کا علم عین ذات ہے اور محل نزاع علم بمعنی دانش ہے نہ بمعنی دانستن پس علم ایک نور ہے کہ اشیاء اس سے متکشف ہوتی ہیں اور بعض اشیاء بعض سے متمیز ہوتی ہیں پس اللہ تعالی کی ذات نور الانوار ہے اس کی ذات اپنی ذات سے مراتب ظہور میں نہایت جلی تر ہے اور خفا اور غیبت کو اس کی طرف بالکل راہ نہیں ہے پس اس کی ذات ہی عالم ہے اور معلوم ہے اور علم ہے اور اس میں نہ بالذات تکثر ہے اور نہ بالاعتبار شفا میں ہے کہ واجب الوجود عقل محض ہے اس کی ذات ہی عقل بھی ہے اور معقول بھی اور عاقل بھی ہے اور اس کے یہ معنی نہیں کہ وہاں اشیاء متکثرہ ہیں کیونکہ باری تعالی بحیثیت ذات کے مجرد ہے اورعاقل بالذات ہےاور اس اعتبار سے کہ اس کی ہویت مجردہ لذاتہ ہے تو وہ معقول بالذات ہے اور اس اعتبار سے کہ اس کی ذات کے لیے ہویت مجردہ ہے عاقل ہے حتی کہ آخر میں کہا کہ صرف اس کا عقل اور معقول ہونا اس کی ذات میں دو ہونے کو مستلزم نہیں اور نہ اعتبار میں دو ہونا مستلزم ہے بس یہ دو دونوں امر اس کو حاصل نہیں کیونکہ یہ اعتبار کیا گیا ہے کہ ماہیت اس کے لذاتہ مجرد ہے اور نیز اس کے ہیت لیے ذات مجرد ہے اور اس مقام پر ترتیب تقریر میںاور تقریر میں تقدیم و تام ہو گئی ہے لیکن اصل مقصود ایک ہی شے ہے ختم ہوئی کلام شیخ کی
جو عبارات ذکر کیے گئے ہیں یہ اس کے ذات کی عقل اور عقل اور معقول ہونے کی محض تصویر و تفہیم ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اعتبارات واسطہ فی الثبوت ہے یعنی ترتیب کے بارے میں جو اعتبارات ذکر کیے ہیں یہ اس کے عاقل اور معقول اور عقل ہونے کی تفہیم و تصویر ہے یہ نہیں کہ یہ اعتبارات واسطہ فی الثبوت ہیں پس اعتبار معتبر پر موقوف اور کسبی علم کو تجرد اور عدم غیبت سے تعبیر کرتے ہیں تو اس تعبیر سے یہ وہم ہوتا ہے کہ علم امر عدمی ہے اور کبھی علم کو حضور اور حصول سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس سے وہم ہوتا ہے کہ علم اضافت ہے اور کبھی ارتسام اور تمثیل سے تعبیر کرتے ہیں اس سے وہم ہوتا ہے کہ علم انفعال ہے اور کبھی صورۃ حاصلہ سے تعبیر کرتے ہیں اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ علم صفت ذات کی ہے اور اضافت ہے بس یہ تمام تعریفیں اعتبارکے ساتھ ہیں اور باعتبار مقامات مناسبہ کے بغیر ثابت ہیں پس اللہ تعالی کا علم ایسا نور ہے کہ سلسلہ مبدیت میں ہے خواہ کلی ہو یا جزئی اور اس میں ظاہراور متجلی ہے پس اللہ تعالی کے علم بسیط ہے جو تمام اشیاء کو مشتمل ہے جیسا کہ علم بسیط ہوتا ہے کہ جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے کہ وہ یہ علم تفصیلا سامنے آ جاتا ہے اور وہ علم اس ملکہ کے سوا ہے کہ جس کے سبب سے جواب پر قادر ہے کیونکہ وہ ملکہ تو سوال سے پہلے بھی حاصل ہے اور یہ حالت بسیط جو سوال کے وقت آتی ہے نہ اس میں ترکیب ہے اور نہ تعدد ہے اور اس تفصیل کا مبدا ہے جو اس کے بعد واقع ہوتی ہے اس قدر تقریر علم کے متعلق طاقت بشریہ کے موافق ہے اور یہ کنہ علم پر اطلاق کا تو کوئی طریق ہی نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی کنہ ذات کے جاننے پر موقوف ہے اور اس کا بالکل کوئی طریق نہیں اور ابن سینا اور شیخ مقتول نے جو کہا ہے کہ اللہ تعالی علم پر ایسے مشتمل ہے جیسے گٹھلی درخت پر تو اس عبارت کے بھی معنی یہی ہیں اور اسی طرف بہناء نےتحصیل میں اشارہ کیا ہے کیونکہ اس نے کہا کہ اللہ تعالی کا علم ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس سے موجودات کی تفصیل صادر ہوتی ہے جیسا کہ عقول سے بسیط ہمارے نزدیک تفصیل معقولات کےلیکن معقول بسیط ہمارے نزدیک ہمارے عقول میں موجود ہے اور اللہ تعالی نے اعتبار سے معقول اس کا نفس وجود اور بسیط کے معنی یہ ہیں کہ جیسے کہ تیرے درمیان اور اس شخص کے درمیان جو تجھ سے مناظرہ کرے تیرے قلب میں جواب منعکس ہوتا ہے چنانچہ جب مقابل اپنا کلام کرتا ہے تو تیرے قلب میں اس کا جواب آتا ہے اور پھر اس کی تفصیل تھوڑی تھوڑی آ جاتی ہے ختم ہوئی کلام اور فارابی نے کہا کہ واجب الوجود مبدہ فیض کا ہے اور یہ ظاہر ہے پس تمام اشیاء واجب الوجود کے لیے اس حقیقت سے کہ ان میں کثرت نہیں ثابت ہیں پس ذات بحیثیت ذات کے ظاہر ہے پس واجب الوجود کو تمام اشیاء کا علم بعد ذات کے ہیں اور خود اس کو اپنی ذات کا علم نفس ذات اور نام اشیاء کے ساتھ اس کے علم کی کثرت بعد ذات کی ہے اعتبار ذات واجب الوجود کے تمام متحد ہیں پھر چونکہ یہ علم اسباب اور مسببات کے علم کا بحیثیت سبب اور مسببیت کے ہے یہ علم حواس علم بسیط پر مرتب ہے علم فعلی ہوگا اس لیے کہ تمام موجودات جو سلسلہ میں واقع ہیں ایسے طریق پر ہیں کہ جس طرح عنایت ازلی کا مقتضی ہے بس اللہ تعالی کے علم سلسلہ مبتدعیت میں علم حضور پس معلومات کا علم مع ان صفات اور اعتبار کے جو مرتبہ میں اس پر مشتمل ہیں علم تفصیلی حضوری ہے جو اس علم بسیط کا حصہ ہے اور ان مراتب میں سوائے اضافات کوئی شے متجدد نہیں ہوئی اور اضافات کا تعدد اس کی وحدانیت میں مخل نہیں ہے ۔

پینتالیسواں مرحلہ

علم تفصیلی کے مراتب اور تحقیق کے علم باری حضوری و حصولی ہے

جاننا چاہیے کہ علم تفصیلی کے مراتب چار ہیں اول وہ کہ جو شریعت میں قلم اور نور اور عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے اول قلم پیدا کیا ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے میرے نور کو پیدا کیا اور ایک حدیث میں کہ اول اللہ تعالی نے عقل کو پیدا کیا اور اصطلاح صوفیا میں عقل کل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اصطلاح حکماء میں اسی کو عقل اول سے تعبیر کرتی ہے پس قلم جو اول مخلوقات ہے اپنی ذات سے معہ اپنی اس شے کے جو اس میں پوشیدہ ہے اللہ تعالی کے نزدیک حاضر ہے پس وہ قلم باعتبار اس علم اجمالی کے جو اس کی عین ذات ہے علم تفصیلی ہے اور باعتبار اس شے کے جو مراتب میں ہے بسیط ہے اور دوسرا مرتبہ علم تفصیلی کا وہ ہے کہ جس کو شریعت میں لوح محفوظ سے تعبیر کرتے ہیں اور اصطلاح صوفیا میں نفس کلی کہتے ہیں اور اصطلاح حکماء میں نفوس کلیہ مجردہ سے تعبیر کرتے ہیں پس شریعت میں اور اصطلاح صوفیہ میں لوح محفوظ اپنی ذات سے معہ ان کی صورتوں کے جو اس میں نقش پذیر ہوتی ہیں اللہ تعالی نزدیک حاضر ہیں پس وہ یہ نسبت ان دو مرتبہ کے جو اس کے اوپر ہے علم تفصیلی ہے اور تیسرا مرتبہ علم تفصیلی کا کتاب محو اور اثبات ہیں اور وہ قوت جسمانیہ ہے کہ اسمیں جزئیات مادیہ کی صورتیں نقش پذیر ہوتی ہیں اور وہ قوت اجسام علویہ اور سفلیہ میں نقش پذیر ہے پس یہ قوی معہ ان کے نقوش کے اللہ تعالی کے نزدیک اپنی ذات سے مرتبہ ایجاد میں حاضر ہیں پس اس تقریر سے تو نے جان لیا کہ یہ تفاصیل امور کی کلیہ ہوں یا جزئیہ صور ادراکیہ ہوں یا عینیہ اپنی ذوات اور لوازم اور اعتبارات سے مرتبہ ایجاد میں اللہ تعالی کے نزدیک حاضر ہیں پس یہ تفاصیل ایک اعتبار سے علوم ہیں اور ایک اعتبار سے معلومات ہیں کیونکہ ان تفاصیل کا وجود اپنی ذات میں ان کا وجود اللہ تعالی کے لیے ہے جیسے کہ کہتے ہیں کہ وہ وجود عرض کا فی نفسہ وہ وجود اس کا ہے جو محل کے لیے ہے مگر فرق اتنا ہے کہ عرض کا وجود محل کے لیے قبول کے ساتھ ہے اور ان تفاصیل کاوجود اللہ تعالی کے لیے باعتبار فعل کے ہے اور یہ معنی ہیں اس قول مشائین کے کہ اللہ تعالی کو اپنی ذات کا علم اپنی معلولات کا علم ہے جان تو کہ جو کچھ ہم نے تحقیقات فائقہ اور تدقیقات نفیسہ ذکر کیے ہیں جب تو نے ان کو خوب سمجھ لیا تو یہ ظاہر ہو گیا کہ اللہ تعالی کا علم باعتبار صدق کے عین ذات ہے اور باعتبار مفہوم کے مغائر ہے اور اس علم کے موافق معلومات کے اعتبارات غیر متناہیہ ہیں پس یہ کہنا صحیح ہے کہ علم ایک صفت ہے یعنی ایک امر ہے جو اس کی ذات کے ساتھ بقیام انتزاعی قائم ہے یا ایک ایسا امر ہے جو ذات پر باعتبار تغائر مفہوم کے محمول ہوتا ہے اور جب وہ اشیاء کے متعلق ہوتا ہے اشیاء منکشف ہو جاتی ہیں یا ایک تعلق ہے جو انکشاف کو واجب کرتا ہے پس بحیثیت اس کے کہ وہ تجلی اور انکشاف کا سبب ہے اور اس کو علم کہتے ہیں اور عالم انوار میں صورۃ مجردہ کے لیے جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے مبدا ہے اور اس صورۃ مجردہ کا وجود فی نفسہ اس کا وہی وجود ہے فعلاً جو واجب کے لیے ہے جیسا کہ وجود اعراض کافی نفسہ وہی وجود ہے جو ان کے محل میں باعتبار قبول کے ہے پس اس تقریر کے بعد یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالی کا علم صورتیں ہے جو مرتبہ تفصیل میں اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ بھی کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالی کا علم حضوری ہے یعنی اشیاء اللہ تعالی کے ذات کے لیے بغیر نقش پذیر ہونے کے کسی شے کے منکشف ہیں کیونکہ کے ذات مقدسہ اور جواہر مجردہ معہ ان کے صفات اور اعتبارات کے مرتبہ تفصیل میں اپنی ذات سے حاضر ہیں اور وہ علم حصولی ہے کیونکہ تمام معلومات معہ ان کے اعتبارات اور لواحق کے بذریعہ علم بسیط کے جو مبد تفصیل کا ہے اللہ تعالی کو حاصل ہیں اور نیز یہ کہنا صحیح ہے کہ علم باری تعالی باعتبار صدق کے عین ذات اور باعتبار مفہوم کے غیر ذات ہے اور نیز یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ نہ عین ذات باری تعالی ہے یعنی باعتبار مفہوم کے اور نہ غیر ہے یعنی باعتبار صدق کے ۔

چھیالیسواں مرحلہ

علم الہی اور صفات میں اشاعرہ کا مذہب

علم اللہ تعالی و دیگر صفات میں اشاعرہ کا مذہب
اشاعرہ نے کہا ہے کہ علم اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے چنانچہ تمام فلاسفہ نے کہا ہے کہ علم ایک صفت حقیقت تعلق والی ہے اور ان میں سے محققین نے کہا ہے کہ علم نفس کا تعلق نام ہے اور ہر دو تقدیر پر ان کو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا علم معدوم کے متعلق ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ انہوں نے وجود ذہنی کی نفی کی ہے اور علم کے تعلقات کے ازلی ہونے کے قائل ہوئے ہیں اور چونکہ یہ امر نہایت دشوار ہے اسی واسطے امام تو وجود ذہنی کے علم میں قائل ہونے ہیں ہوئے ہیں اور یہ علم نہیں ہے لیکن حصول علم کی شرط ہے اور جواب یہ ہے کہ علم جب معدوم خارجی کے متعلق ہوتا ہے تو معدوم کا ثبوت علمی ہے پس تعلق علم کا معدوم محض کے ساتھ لازم نہیں اتا بلکہ لازم اتا ہے کہ علم معدوم خارجی اور موجود علمی کے متعلق ہو اس میں کچھ استحالہ نہیں اور اس جواب پر یہ اعتراض دور ہوتا ہے کہ ثبوت علمی پر مقدم ہے پس علم کا تعلق معدوم محض کے ساتھ ہے نہ معدوم خارجی اور موجود علمی کے ساتھ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ تعلق پر مقدم معلوم کی ذات ہے کیونکہ علم اس کے متعلق ہوا ہے اور تعلق اور ثبوت علمی دونوں بالذات ایک زمانہ میں ہیں ایک کو دوسرے پر تقدم نہیں ہے اور ایک اعتراض ان پر یہ واقع ہوتا ہے کہ اگر صفات واجب ممکن ہوں تو صفات کا حدوث لازم آتا ہے کیونکہ ہر ممکن ان کے نزدیک حادث ہے اور اگر واجب ہو تو واجب کا تعدد لازم اتا ہے اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ جو ممکن اختیار سے صادر ہو وہ حادث ہے اور اللہ تعالی صفات باری تعالی کے موجب ہیں اور ایجاب صفات کمال سے ہے نقص نہیں ہے ۔

سینتالیسواں مرحلہ

 صفات کے عین ذات یا غیر ذات اورمذہب صوفیہ

صفات کے عین ذات ہونے یا غیر ذات ہونے میں صوفیہ کا مذہب
صوفیا نے کہا ہے کہ تمام صفات کمالیہ بحیثیت وجود کے عین ذات ہیں پس اس مذہب کے موافق صفات امور عقلیہ انتزاعیہ ہیں اور جس شے کا وجود عینی ہے اس میں ان کے آثار اوراحکام ہیں اور جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ذات بھی قدیم ہے اور صفات بھی قدیم ہے اور صفات معطل بھی نہیں ہیں تو اس لیے وہ عالم کے قدم کے اللہ کے نزدیک قائل ہو گئے ہیں اور حدوث کو کہتے ہیں کہ وہ باعتبار ظہور بعض کی ہیں بعض کے لیے پس اس تقدیر پر صفت کو معدوم مطلق سے کچھ تعلق نہیں ہے اور اللہ کے نزدیک جبکہ عالم حدودث ہے تو اس تقدیر میں بھی لازم آتا ہے کہ اللہ سبحانہ وقت حدوث عالم کے علم محدثات کو حاصل کرے بس اس علم سے کمال حاصل کریں اس پر لازم آتا ہے کہ ان کے لیے ایسی صفت حاصل ہو جو پہلے سے نہ تھی اور یہ ذات و صفات سے صریح جہل ہے

اڑتالیسواں مرحلہ

 صوفیا اور اشاعرہ کے مذہب میں فرق

پہلی تقریرات سے تو نے اس بات کو جان لیا ہے کہ صوفیاء صفات کو ثابت کرتے ہیں اور اسی طرح اشاعرہ بھی ثابت کرتے ہیں اور وہ حکما اور متقدمین فلاسفہ کا ایک گروہ صفات کا بالکل انکار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ذات ہی ذات ہے صفات کوئی شے نہیں اور ان منکرین صفات کا کچھ اعتبار نہیں ہے لیکن صوفیا اور دیگر مثبتین صفات میں تقریر اثبات کے اعتبار سے فرق ہے صوفیہ تو یہ کہتے ہیں کہ تمام صفات کمالیہ بحیثیت وجود کے عین ذات ہیں اور صفات متغائر بالذات نہیں ہیں یعنی ایسے موجود بالذات نہیں ہیں کہ ان کو علم اور قدرت وغیرہ کہا جائے جیسے کہ ہمارے صفات اور ہمارے قوی جو ہمارے ساتھ قائم ہیں اور بحیثیت وجود اور مفہوم کے مختلف ہیں موجود بالذات ہیں بلکہ اس کی صفات ایسی حالات میں جو ذات واجب کے لیے منتزع کیے گئے ہیں ہر ایک کے لیے مستقل وجود ذات کے لیے مغائر نہیں ہے بلکہ ذات کے ہی موجود ہونے سے موجود ہیں پس معلوم ہوا کہ صفات باعتبار وجود کے عین ذات ہیں اور بحیثیت مفہوم کے ذات کے بھی مغائر ہیں اورآپس میں ایک دوسرے کو بھی مغائر ہیں پس وہ موجودات عقلیہ ہیں عینیہ نہیں ہیں اور باعتبار وجود خارجی کے ذات کا تعدد اور تکثر لازم نہیں آتا اور جس شے کا وجود عینی ہے اس میں ان صفات کے احکام اور آثار ثابت ہیں محقق دوانی نے کہا ہے کہ کسی شے کے کسی شے کے صفت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خود بھی موجود مستقل ہو مثلا قدم ذاتی اور وجوب ذاتی ذات کے لیے ثابت ہیں مگر ان کا مستقل وجود نہیں ہے ختم ہوئی کلام محقق مذکور کی
اور اس مقام پر ایک دقیقہ ہے وہ یہ ہے کہ انتزاع کی دو قسمیں ہیں اول تو انتزاع معقولات ثانیہ کا جیسے کہ وجود اور وجوب اور دیگر امور عامہ اور دوسرے وہ انتزاع جو ایسا نہیں ہے جیسے انتزاع نابینا ہونے کا جملہ زید نابینا ہے سے تو یہ دونوں یعنی وجود وغیرہ اور نابینا ہونا اور خارجیہ سے انتزاع کیے گئے ہیں اور حالانکہ امور خارجیہ سے نہیں یں لیکن دونوں قسموں میں بھی فرق ہے کہ وجود وغیرہ تو محمولات عقلیہ اور قضایا ذہنیہ سے ہیں اور نابینا ہونا محمولات خارجہ میں سے ہے پس محض انتزاع امر خارجی سے اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ قضیہ خارجیہ ہو جائے بلکہ قضیہ کے خارجیہ ہونے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ محمول جانب انتزاع میں موضوع سے مخلوط نہ ہو بلکہ بعد محمول کے انتزاع کے بعد موضوع اپنے حال پر رہے مثلا نابینا کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر اس کو امر خارجی سے منتزع کریں تو انتزاع اس امر خارجی کے موجود خارج ہونے میں مضر نہیں پس جس شے سے نابینا انتزاع کیا جاتا ہے وہ شے بعد انتزاع اپنے حال پر باقی اور موجود ہے بخلاف امور عامہ کے کہ وہ موضوع موجود کے ساتھ مخلوط ہیں پس اللہ تعالی کی صفات اور شیون انتزاع میں مثل امور عامہ کے نہیں ہیں تاکہ قضیہ ذہنیہ ہو اور خارجیہ ہونے سے خارج ہو جائے ۔

انچاسواں مرحلہ

 وجوب ذاتی اور صفاتی میں قصور فہم

وجوب ذاتی اور صفاتی کے ادراک سے لوگوں کے فہم قاصر ہیں کیونکہ فیض ذاتی اور فیض صفاتی ذات اور صفات سے فائض ان دونوں کا اثر اپنے نفس میں دیکھتا ہے پس اس پر ذات اور صفات کا ادراک سہل ہے بخلاف وجوب کے کہ اس کا فیض فائز نہیں ہوتا بس وجوب کا اثر بھی اپنے اندر نہیں دیکھتا ہے پس اسی واسطے وجوب کے بارے میں اشکال میں پڑتا ہے اور اصول صفات سات ہیں حیات، علم ،ارادہ، قوت سمع، بصر کلام اور بعض علماء نے بدلہ سمع اور بصر کے جواد اور مقسط کو ذکر کیا ہے یہ صفات آئمہ سبع کہلاتی ہیں اور امام الائمہ شیخ محی الدین عربی کے نزدیک حیات ہے کیونکہ اور صفات اسی پر موقوف ہیں اور اسی واسطے بعض نے کہا ہے کہ اسم اعظم الحی القیوم ہے اور شیخ کمال الدین عبدالرزاق کاشی کے نزدیک امام الائمہ علم ہے کیونکہ اور صفات پر علم شرف رکھتا ہے اور قیصری کی شرح فصوص میں ہے کہ اللہ تعالی کو اپنی ذات کا علم عین ذات ہے اور عالم کے متعلق جو اس کا علم ہے وہ اشیاء کی صورتیں ہیں جو کلیہ ہوں یا جزئیہ ایک ذرہ کے برابر بھی زمین اور آسمان میں اس سے غائب نہیں ہے اور اس میں کچھ اشکال نہیں کہ ذات باری امور متکثرہ کا محل ہو بس یہ امور متکثرہ بحیثیت وجوب کے عین ذات ہیں اگرچہ بحیثیت تقید اور تعین غیر ہیں پس ذات نہ حال ہے اور نہ محل ہے بلکہ ایک شے ہے صورتوں حالیہ اور محلیہ سے ظاہر ہوئی ہیں پس یہ علم محیط وہ امر ہے کہ علماء کے فہم اس میں حیران ہیں۔

پچاسواں مرحلہ

  علم کی تجدید کر سکتے ہیں یا نہیں

امام رازی نے محصل میں کہا ہے کہ علم کی حد بیان نہیں کر سکتے کیونکہ علم ایک بدیہی شے ہے اس واسطے کے ماسوا علم کے علم ہی سے منکشف ہوتے ہیں پس یہ محال ہے کہ غیر اس کا کاشف ہو اور امام غزالی اور امام حرمین نے کہا ہے کہ علم نظری ہے اس کی بیان کرنا مشکل ہے علماء کا ایک گروہ اس طرف کیا ہے کہ علم نظری ہے مگر اس کی حد کو بیان کرنا ممکن ہے اور صوفیا نے کہا کہ شدت ظہور کی وجہ سے اس کی تحدید ممکن نہیں ہے کیونکہ معرف کی شرط یہ ہے کہ وہ معرف سے اجلی ہو اور اس پر سابق ہو اور علم سے زیادہ کوئی شے اجلی اور کوئی شے ثابت نہیں ہے سوائے غیب ذات کے کہ کسی کا علم سوائے حق سبحانہ کے اس کو مفید نہیں ہے اور حیات کا تقدم علم پر اس تقدیر پر کہ صفت حیات صفت علم کے مغائر ہو ایسا ہے جیسے کہ شرط کا تقدم مشروط پر ہے تقدم مطلقا نہیں ہے اور باوجود اس کے یہ تقدم بھی علم سے ہی حاصل ہوتا ہے پس علم ایک حقیقت مجردہ کلیہ ہے کہ اس کے لیے نسبت ہیں اور خواص ہیں اور احکام اورعوارض اور لوازم ہیں اور مراتب ہیں اور اس کی حد تمام بیان نہیں ہو سکتی یعسوب العارفین علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا ہے کہ علم ایک نقطہ ہے اس کی جاہلوں نے تکثیر کر دی ہے یعنی علم ان صفات ذاتیہ میں سے ہے کہ جو اپنے موصوف سے بحیثیت تعین کے ممتاز نہیں ہے بلکہ تعقل مستقل سے ممتاز ہے جیسا کہ نقطہ کا خارج میں وجود نہیں ہے بلکہ وہ اس طور سے مستقل ہوتا ہے کہ خط کے ساتھ قائم ہے اور سطح جسم کے ساتھ قائم ہے اور نقطہ سے خط کی انتہا ہوتی ہے اور علم بسیط ہے یعنی حقیقت مجردہ ہے اور جو شخص علم کی حقیقت سے جاہل ہے وہ معلومات کی تعدد سے اس کو متعدد مانتا معلومات کے تکثر سے اس کو متکثر سمجھاہے حالانکہ واحد بسیط ہے فی نفسہ تکثر کا احتمال نہیں کہتا ہے کیونکہ علم صفات ذاتیہ سے ہے متعلقات علم میں البتہ احتمال تکثر کا ہے ۔

اکیانواں مرحلہ

  علم کی تعریفات اور اس کی تحقیق

جو شخص علم کی تعریف کرتا ہے وہ یا تو اس کے راز کو جانتا ہے اور اس کے مرتبہ پر اس کے لوازم سے تنبیہ کرنا چاہتا ہے اور یا یہ کہ اس سے جاہل ہے کیونکہ علم کی کوئی حد جامع مانع نہیں ہے کیونکہ تعریف اورحد کے اجزاء سے اول علم متعلق ہوتا ہے اور یہ علم اب تک متحقق نہیں ہوا پس اس تحدید میں تقدم اپنے نفس پرلازم آتا ہے اور اہل نظر نے علم کی مختلف تعریفات کی ہیں اور ہرایک پر ان میں سے اعتراض وارد ہوتا ہے اور مختار ان تعریفات میں وہ ہیں جو مواقف میں ہے وہ یہ کہ علم ایک صفت ہے جو معانی کے درمیان تمیز واجب کرتی ہے یعنی وہ صفت اس کے محل میں قائم ہے اور وہ صفت بایجاب عادی اس کو واجب کرتا ہے کہ اس کا محل شے متعلق کو ایسی تمیز دے کہ اس کے سبب سے وہ متعلق اس متمیز کے نقیض کا احتمال نہ رکھیں پس اس تعریف میں محل کا اعتبار ضروری ہے ورنہ تعریف تام نہ ہوگی سید السند نے کہا ہے کہ سب سے عمدہ تعریف یہ ہے کہ علم ایک صفت ہے کہ اس کے سبب سے مذکور اس شخص کے لیے کہ جس میں بھی صفت روشن ہو جائے پس لفظ مذکوراس تعریف میں موجود اور معدوم اور ممکن مستحیل اورمفرد اور مرکب اور کلی اور جزئی سب کو شامل ہے اور معنی اس تعریف کے یہ ہیں کہ علم ایسی صفت ہے کہ اس کے سبب سے ایسی شے کوجسکی شان یہ ہو کہ ذکر کی جائے اس شخص کے لیے جس میں یہ صفت ہے منکشف بانکشاف تام کہ جس میں بالکل اشتباہ نہ ہو جائے پس اس تعریف کے موافق علم سے ظن اور جہل مرکب اور اعتقاد مقلد مصیب کا سب نکل جائے گے اور تعریف جامع مانع ہو جائے گی کیونکہ ان سب میں انکشاف تام اور انشراح کاامل نہیں ہے اور حکماء نے کہا ہے کہ علم عقل میں کسی شے کا حاصل ہونا ہے مراد یہ ہے کہ عقل کے نزدیک حاصل ہو جائے تاکہ ادراک جزئیات کو بھی تعریف علم کی شامل ہو جائے کیونکہ علم جزئیات کا علم عقل کو آلات کے ذریعے سے ہوتا ہے کیونکہ نفس ناطقہ ہی مدرک ہے آلہ ادرک نہیں ہے اور اہل کشف تحقیق کے نزدیک علم کو معلوم کے ساتھ متعلق ہونے سے معلوم کا حاصل ہونا نفس عالم میں اور نہ مثال نفس میں یعنی اس کی صورت میں لازم نہیں آتا پس قوم کے نزدیک تو مسمی علم کا تعلق خاص ہے وہ نسبت ہے جو ذات کے لیے معلوم سے حادث ہو اور یہ ظاہر ہے کہ وہ نسبت معلوم تعقل اور ملاحظہ میں متاخر ہو کیونکہ وہ نسبت تو تابع ہے اور بعض علماء کا قول بھی اس طرف راجع ہے وہ یہ کہ علم کی دو اضافتیں ہیں ایک نسبت تو عالم کی طرف ہے اور دوسری معلوم کی طرف پس جس صورت میں کہ کوئی شے حاضر ہواس وقت علم اور معلوم میں صرف اعتباری مغائرت ہے بلکہ ان مقام پر ان دو اضافتوں کے علاوہ ایک اور اضافت ہے اور وہ اضافت عالم کی معلوم کی طرف ہے اور شاید کہ علماء نے اسی کی طرف اپنے اس قول سے اشارہ کیا ہے کہ علم ایک صفت اضافت والی ہے پس صفت تو علم ہے اور اضافت عالمیت ہے جیسا کہ مقاصد میں اس کی تصریح کی ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ علم اضافت محضہ ہے وہ کہتا ہے کہ علم ایک نسبت علم اور معلوم کے درمیان ہے اور عالم کو معلوم میں بالکل کچھ اثر نہیں ہے پس اگر تجھے پوچھا جائے کہ علم کی حقیقت کیا ہے تو جواب میں کہہ کہ علم دریافت کرنا مدرکات کا ہے جس طرح پر کہ وہ واقع میں ہے جبکہ دریافت کرنا اس کا غیر ممتنع ہو اور جو شے اس قسم کی ہے کہ وہ دریافت نہ ہو سکے تو اس کا علم یہی علم ہے کہ اس کا دریافت کرنا یعنی علم اس بات کا کہ علم اس کے متعلق نہیں ہو سکتا یہی اس کا علم بھی ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی عقول سے حجاب میں ہیں جیسے کہ وہ سے مستتر آنکھوں سےاور ملاء اعلی بھی اللہ تعالی کو اس طرح طلب کرتے ہیں جیسا کہ تم طلب کرتے ہو پس عقول اور افہام اس کی صفت دریافت کرنے سے عاجز ہیں جیسے کہ ابصار عاجز ہیں اور فرمایا کہ اللہ تعالی کی بڑی رحمت ہے اور رافت ہے ویحذرکم اللہ نفسہ واللہ رؤوف بالعباد اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ درک ادراک سے عاجز ادراک ہیں اور مصباح التوحید علی کرم اللہ وجہ الکریم سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اپنے رب کو کس شے سے پہچانا فرمایا کہ جس شے سے میرے نفس نے بتلایا اسی سے پہچانا وہ قیاس سے مدرک نہیں ہے اور نہ آدمی پر ان کو قیاس کر سکتے ہیں اپنے بعد میں قریب ہیں اور اپنے قرب میں بعید ہیں اور ہر شے سے عالی ہیں ختم ہوئی کلام علی کرم اللہ وجہ الکریم کی
ابو القاسم قشیری نے اپنے رسالہ میں کہا ہے کہ صدیق اکبر کی مراد یہ نہیں کہ ذات باری پہچانی نہیں جاتی کیونکہ محققین کے نزدیک عجز اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص موجود سے عاجز ہو نہ یہ کہ معدوم سے عاجز مثلاً اپاہج بیٹھنے سے عاجز ہے کیونکہ اس کے اختیار میں نہیں اور بیٹھنا اس میں موجود ہے اسی طرح عارف اس کی معرفت سے عاجز ہے لیکن معرفت اس میں موجود ہے کیونکہ معرفت تو ضروری ہے اور اس گروہ کے نزدیک معرفت اللہ سبحانہ کے انتہا میں ضروری ہے پر معرفت کسبیہ ابتدا میں اگرچہ مذہب صحیح کے موافق معرفت ہے لیکن صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے معرفت ضروریہ کے مقابلے میں اس معرفت کو شمار نہیں کیا جیسے کہ چراغ کا سورج کے نکلنے اور اس کے شعا ع کے پھیلنے کے وقت کچھ اعتبار نہیں ہوتا ختم ہوئی کلام ابوالقاسم قشیری کی پس معلوم ہوا کہ ہمارا اپنی معرفت کے علم سے عاجز ہونا یہی معرفت ہوتا ہے اور یہ علم بغیر حجابات کے اٹھے حاصل نہیں ہوتا اور ان سب حجابوں میں سخت حجاب تیرا نفس ہے ۔

باونواں مرحلہ

اللہ تعالی کا علم جزئی اور کلی

اللہ تعالی کا علم جزئی اور کلی دونوں کو شامل ہے یا نہیں
نصوص اس بات پر دلالت کرتی کہ حق تعالی کا علم ہر شے کو شامل ہے خواہ وہ شے موجود ہو یا معدوم جزئی ہو یا کلی اور نصوص ہی پر ایسے امور میں اعتماد ہے اور حق تعالی کےقبول علم پر جو یہ دلیل نے لکھی ہے کہ علم کا مقتضی اللہ تعالی کی ذات ہے اور معلومیت کا مصحح معلومیت کی ذات ہے اور علم سے کوئی مانع نہیں تو علم ضروری ہوگا تو اس دلیل پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ نفس امر میں عدم کا معنی ممنوع ہے اور اس کا عدم ہمارے نزدیک نفع نہیں دیتا اور حکماء نے اللہ تعالی کے علم کی کیفیت میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی کہ جس سے عموم علم معلوم ہو اور اس واسطے انہوں نے اس سے کچھ تعرض نہیں کیا لیکن امام حجۃ الاسلام اور شیخ ابوالبرکات بغدادی نے کہا کہ اکثر متقدمین اور متاخرین فلاسفہ نے جزیات کے علم کا انکار کیا ہے اور متاخرین نے بھی ان کا اتباع کیا ہے اب ہم ان کے مذہب کو ان کے اصول کے مطابق تفصیلا بیان کرتے ہیں تاکہ مسئلہ خوب واضح ہو جائے پس جاننا چاہیے کہ امر معلوم یا تو مادی متغیر ہوگا لا مادی لامتمیز ہوگا اور یا مادی لامتغیر ہوگا اور یا متغیر لا ما ہوگا قسم ثانی کو خواہ کلی ہو خواہ جزی ہو اللہ تعالی جانتے ہیں چنانچہ اپنی ذات کو اور عقول کو جانتے ہیں اور قسم ثالث یعنی مادی اجرام علویہ ہیں کیونکہ ان کے مقادیر اور اشکال باقی رہنے والے ہیں تغیرات سے محفوظ ہیں اور اللہ تعالی کو بقول ان سب اشخاص کا علم معلوم نہیں کیونکہ جسمانیات کا بغیر ادراک آلہ جسمانیہ کے نہیں ہیں اورقسم رابع یعنی متغیر لام ما دی مثل صور اور اعراض حادث نفوس ناطقہ ہیں اور اللہ تعالی نے بقول ان کے یہ سب اشیاء معلوم نہیں ہیں کیونکہ یہ سب اشیاء متغیر ہیں اور تغیر سے علم کا تغیر لازم آتا ہے حالانکہ اس کی ذات ان صفات میں کوئی تغیر نہیں ہے اور قسم اول یعنی مادی اجسام کائنہ اور فاصلہ ہیں یہ بھی ان کے نزدیک اللہ کو معلوم نہیں بس تو پہلی دو وجہ ہے اور متاخرین فلاسفہ نے کہا کہ اللہ تعالی نے مادی اور متغیر بحیثیت اس کے کہ وہ مادی اور مادی ہیں متغیر متغیر ہی نہیں جانتے کیونکہ جزئیات مادیہ کا ادراک بحیثیت ان کے مادے کے ساتھ مقترن ہونے کے احساس اور تخئیل(خیال) ہے اور احساس اور تخئیل بغیر آلہ جسمانیہ متجزیہ کے نہیں ہو سکتا اور اسی طرح جزئیات متغیرہ کا علم بحیثیت ان کے ماضی وحال اور مستقبل میں واقع ہونے کے تغیر علم کو واجب کرتا ہے اور جزئیات متغیرہ کا ادراک بغیر اعتبار حیثیت اقتران بالمادہ کے جیسے علم منجم کا کسوف جزئی کے ساتھ اور ایسے ہی ادراک جزئیات بحیثیت ان کے ازمنہ میں واقع ہونے کے بلکہ معہ از منہ کہ اللہ تعالی کے لیے ثابت ہے اور کوئی اشکال ہر دو اشکال میں سے لازم نہیں آتا اور یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ ادراک جزئیات کا بحیثیت ان کے مادہ سے مقترن ہونے کے احساس ہے یا تخئیل ہے اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ حصر ممنوع ہے اور نیز قیاس کرنا غائب کا شاہد پر مفید نہیں ہے اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ جزئیات متغیرہ کا علم بحیثیت ان کے ازمنہ معینہ میں واقع ہونے کے تغیر علم کو بحیثیت اس کے کہ وہ متغیرہے واجب کرتا ہے تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جزئی کی کیا تخصیص ہے جزئی ہو یا کلی تغیر علم تو ہر صورت میں لازم آئے گا اور اس واسطے شقامیں اس حکم کی تعمیم کی ہے اور تحقیق اس بارے میں یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات چونکہ زمانی یعنی زمانہ میں حادث نہیں ہے اگرچہ ان کے نزدیک زمانہ کے مقارن ہے تمام زمانے ان کے نزدیک حاضر ہیں جیسا کہ خط جو ممتداد ہو اور اپنے تمام اجزاء سے حاضر ہو پس اللہ تعالی اس بات کو جانتے ہیں کہ ہر متغیر اپنے زمانہ میں بغیر اس بات کے کہ تغیر اس کی ذات میں لازم آئے واقع ہے جیسا کہ ہر شے کو اس کے مقام میں جانتے ہیں اور کوئی تغیر اس کی ذات میں لازم نہیں آتا تغیر اور قدم اور تاخر تو حوادث میں بنسبت بعض کے بعض کی طرف ہے اور اللہ تعالی کے اعتبار سے قدم اور تاخر اور تغیر وغیرہ کچھ نہیں اور کہا گیا کہ اللہ تعالی کے علم کے لیے ہر اس شے کے ساتھ جومعلوم ہو سکے تعلقات ازلیہ ہیں اور متجددات کے ساتھ بحیثیت ان کے ازمنہ معینہ میں واقع ہونے کے تعلقات متجددہ ہیں اور متعلقات اور اضافات میں تغیر اس کے کمال کا تغیر نہیں ہے کیونکہ تغیر اور تجدد اس کی ذات میں نقصان نہیں ہے کیونکہ اس کا کمال تام اس کا مقتضی ہے کہ متجدد ازل میں بہ سبب نقصان اس متجدد کے حاصل نہیں ہے جیسا کہ ممتنع کے ساتھ یہ بہ سبب نقصان ممتنع کے قدرت متعلق نہیں ہوتی نہ بہ سبب اس کے ذات قدرت میں نقصان ہے اور اسی طرح تمام محالات عقلیہ ہیں۔

ترپنواں مرحلہ

قلوب کی کیفیت با عتبار ذکر اللہ

قلوب کی کیفیت با عتبار ذکر اللہ کے
بعض اہل اللہ نے کہا کہ قلب ایک آئینہ سےصیقل کیا ہوا ہے اس میں زنگ بالکل نہیں ہے لیکن کبھی کبھی زنگ آلود ہو جاتا ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے قلوب کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لو ہے کو زنگ لگ جاتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ دلوں کو اللہ کا ذکرصیقل ہے اور دل کا زنگ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر علم غیر کے متعلق ہو ۔بس یہ غیر کا علم قلوب کا زنگ ہے کیونکہ یہی تجلی حق کو قلب تک آنے سے روکتا ہے کیونکہ اس طرف سے تو کوئی مانع موجود نہیں ہے وہ تو ہمیشہ متجلی رہتے ہیں حجاب ان کے حق میں ہو ہی نہیں سکتا بس یہ غیر کا تعلق کن اور غفل اور عماء اوررین کہلاتا ہے لیکن جس شے کے ساتھ کہ قلب مشغول ہوتا ہے وہ واقع میں علماء کے نزدیک حق ہے لیکن اس کا آئینہ قلب میں چمکنا اس نسبت سے نہیں ہے یعنی واقع میں تو وہ شے حق تعالی ہی ہیں مگر اس کا ادراک نہیں ہے اس وجہ سے اس کو غیر اللہ سمجھتے ہیں اور اللہ کے علم سے دور اور مردود ہو کر اپنے علم میں لگ گئے چنانچہ حق تعالی نے فرمایا کہ قلوبنا اکنۃ مما تدعونا الیہ کفار کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس شے سے جس کی طرف آپ بلاتے ہیں پردہ میں ہیں یعنی اس امر خاص سے پردہ میں ہیں دوسری اشیاء سے پردوں میں نہیں ہے بس اور اشیاءآئینہ سے صیقل پردہ قلب پر روشن ہے پس قلب ہمیشہ صفائی اور روشنی پر ہی مخلوق ہوئے ہیں اور اس طرح مخلوق ہونا قلوب کا یا تو تجلی ذاتی ہے یا صفاتی ہے یا افعالی سے ہے یا آثار ہی سے پس اگر صاحب دل اس کو جانتا ہے کہ یہ جملہ مراتب اللہ تعالی کی طرف منسوب ہیں تو وہ اپنے تمام احوال میں عارف باللہ ہے اور اگر نہ سمجھا اور نہ جانا تو وہ مردود و مطرود ہے ۔
غزالی قدس روح نے اپنی کتاب المغنون بہ عن غیر اھلہ میں فرمایا ہے کہ اللہ پاک کی ذات مادہ سے مجرد ہے نہ جسم ہے نہ جسمانی اور جو شے ایسی ہوتی ہے وہ ذات سالم ہوتی ہے کیونکہ ہر مجرد کی ہویت مجردہ اس کے نزدیک حاضر ہے پس معلوم ہوا اللہ تعالی عالم بذات ہی ہیں کیونکہ علم ماہیت مجردہ عن اللواحق کے حضور کا نام ہے اور اس مقام میں یہ امر متحقق ہے تو اللہ تعالی عالم بذاتہ بھی ہوں گے اورظاہر ہے کہ اللہ تعالی تمام موجودات کے مبدا ہیں تو علم بھی ان کا تمام موجودات کے متعلق ہوگا کیونکہ جس کو اپنی ذات کا علم ہوگا اس کو غیر کے لیے مبدا ہونے کا بھی علم ہوگا کیونکہ علم بالمبدا علم بذاتہ کا تتمہ ہے اور علم بالمبدا علم با لغیر کو متضمن ہے پس اگر تو یہ کہے کہ جب علم نام حضور کا ہوا اور حضور مغائرہ کو مقتضی ہے کیونکہ شے اپنی ذات کے نزدیک تو حاضر ہو ہی نہیں سکتی باری تعالی کو اپنی ذات کا علم کیسے ہو سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حضور کے معنے غائب نہ ہونے کے ہیں اور غائب نہ ہونا نسبت کو مقتضی نہیں ہے بلکہ نفی نسبت کو مقتضی ہے اور نسبت کی نفی کبھی اس طرح بھی ہوتی ہے کہ وہ شے واحد ہو اور اس میں تعدد نہ ہو پس معلوم ہوا کہ علم مغائرت کو مستدعی نہیں ہے بلکہ باوجود عینیت کے بھی صادق ہے بلکہ یہ تو حضور کا اعلی مرتبہ ہے کہ علم اور معلوم ایک ہی شے ہو اور عالم و معلوم میں کوئی امر متغائر نہ ہو بلکہ خاص اس حضور سے اور اضافت ماخوذ کی جاتی ہے اسی کو علم کہتے ہیں اور اللہ کا علم اس کے عین ہونے پر دلائل بہت ہیں اول تو یہ ہی ہے و فوق کل ذی علم علیم یعنی ہر ذی علم کے اوپر ایک بڑا جاننے والا ہے پس یہ آیت کریمہ اس پر دال ہے کہ علیم ذی علم میں مندرج نہیں ہے اور اس پر بھی دال ہے کہ علیم وہ ہے کہ اس کا علم عین ذات ہے ورنہ علم کا کسی حد پر توقف نہ ہوگا اور تسلسل لازم آئے گا برخلاف ذی علم کے کہ اس کا علم ذات کے مغائر ہے۔

چونواں مرحلہ

علم باری تعالی کی تحقیق کے اقسام

علم باری تعالی کی تحقیق کے اقسام سے ہے یا کس طریقے سے
امام غزالی کی کتاب لواقع اسرار میں ہے کہ علم ایک صفت ہے کہ اس سے تمام معلومات کا ادراک کیا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر معلوم کے لیے علم کا علم ہے بلکہ علم نام عالم کے تعلق کا ہے جو کسی شے مغائر کے ساتھ ہو اور خواہ مغائرت بالذات ہو یا بالاعتبار ہو تعلق ایک نسبت عدمیہ ہے کہ اس کا وجود نہیں ہے اور سب معلومات اللہ سبحانہ کے نزدیک حاضر ہیں اللہ تعالی ان کو من کل الوجود جانتے ہیں اور اختلافات معلومات میں ہیں اللہ سبحانہ میں نعوذ باللہ کوئی اختلاف نہیں ہے اور محدث کا علم ایسا نہیں کیونکہ مقید بالزمان نہیں ہے یعنی ماضی یا حال یا مستقبل سے مقید نہیں ہے بلکہ احکام زمانہ کے ساتھ مفید ہے اسی واسطے اکثر علم محدث میں قصور واقع ہو جاتا ہے پس اللہ تعالی کا انکشاف علوم کے حصول یا مثال کے حصول سے نہیں ہے بلکہ معلومات کے ذوات اور لوازم سے ہے اور لوازم سے مراد صفات حقیقت یا اعتباریہ ہیں
سوال:۔ اس معنی کو تو اللہ تعالی کا علم ممتنعات کے بھی متعلق ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے ذوات نہیں ہیں بلکہ وہ تو عدم محض ہے تو اس صورت میں انکشاف کے کیا معنی ہوں گے اور حالانکہ اہل حق نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اللہ تعالی کا علم قدرت سے عام ہے کیونکہ علم تو واجب اور ممکن اور ممتنع سب کے متعلق ہوتا ہے بخلاف قدرت کے کہ وہ ممکن کے ہی متعلق ہوتی ہے
جواب :۔ ممتنعات خارجیہ یہ ہیں شریک باری اور اجتماعی نقیضین اور اسی طرح اللہ سبحانہ کی روایت ایسی صورت کے ساتھ کہ اس کے لیے سوائے قوت متخیلہ کے جس کو خیال متصل کہتے ہیں کوئی مقام نہ ہو یہی محققین کے نزدیک ممتنعات خارجیہ میں سے ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہقوی ا جو بدن میں ہیں اور صورۃ جو ان میں نقش پذیر ہیں یہ سب حق تعالی کو معلوم ہے باوجود اس کے کہ صورتیں فی نفسہ ہیں کیونکہ ان کا کوئی ثبوت نفسی جیسا کہ ممکن معدوم عدم کے وقت ہے نہیں ہے پس اس تقریر سے واضح ہو گیا کہ خیال میں ایسی صورتیں نقش پذیر ہوتی ہیں کہ جن کا نہ خارج میں موجود ہے اور نہ عقل میں کیونکہ عقل شے محال کو اسی وقت کے قوت کے ذریعے سے ادراک کرتی ہے پس یہ قوت محال صورتوں کا مقام ہے پس ان کو عقل قوت خیال کے ذریعے سے ادراک کرتی ہے اس طور سے ادراک نہیں کرتی کہ محال کی کوئی صورت معقولہ ہے یا یہ کہ معقولات کی واقع میں کوئی صورت ثبوتیہ ہے اگرچہ وہ خارج ہے خارج میں ادراک کے وقت موجود نہیں ہے .

پچپنواں مرحلہ

علم ذات باری تعالی اور مخلوق  غیر متناہی ہونے کے معنی

باری تعالی کا علم مخلوق کا سانہیں اور اللہ کی ذات کے غیر متناہی ہونے کے معنی مع دیگر فوائد
علم ایک نسبت ہے جو عالم اور معلوم کے درمیان ہوتی ہے اور علم اس معنی سے باری تعالی میں متحقق نہیں ہے کیونکہ وہاں تو سوائے ذات کے کوئی شے نہیں ہے اور یہ نسبت باری تعالی کا عین وجود ہے اور باری تعالی کے وجود کی نہ انتہا ہے نہ ابتدا ہے پس اس کے کوئی طرف اور حد بھی نہیں ہے پس جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات غیر منتہائی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے کوئی حد اور طرف نہیں ہے پس علم ایک صفت سلبیہ ہے اور معلومات اس کے وجود کے متعلقات ہیں پس جو ذات کے وجود کے اعتبار سے منتہائی نہیں ہے وہ ایسی شے کے متعلق ہے کہ جو باعتبار معلوم اور مقدور اور مراد کے غیر منتہی ہے پس اللہ تعالی کا وجود دخول نے الوجود کے ساتھ متصف ہی ہیں ہے کیونکہ جو شے وجود میں داخل ہے وہ منتہا ہی ہے اور اللہ تعالی عین وجود ہے پس وہ غیر منتہی ہی ہے پس اس سے تو نے یہ بھی سمجھ لیا ہوگا کہ عالم کے موجد کا تقدم عالم پر زمانی نہیں ہے یعنی عالم اور موجد کے درمیان کوئی زمانہ نہیں ہے کہ موجد اس پر متقدم ہو اور عالم متاخر ہو پس عالم کا عدم اور حق کا وجود کسی وقت میں نہیں ہے لیکن وہم اس طرف جاتا ہے کہ عالم اور حق میں فرق اور دوری ہے اور اصلی وجہ اس خیال کی یہ ہے کہ آدمی نے ہمیشہ سے تقدم اور تاخر زمانی کو سمجھا ہے اسی پر سب کو قیاس کرتا ہے اور اس تقریر سے یہ وہم نہ ہو کہ عالم قدیم ہے کیونکہ قدیم اس کو کہتے ہیں کہ جس کی کوئی ابتدا نہ ہو حالانکہ عالم اپنی ذات سے موجود نہ تھا اس کا وجود واحد احد سے ظاہر ہوا ہے اور حدوث عالم کا مطلب یہ ہے کہ بعض اشیاء بعض کے لیے ظاہر ہوئی ہیں جاننا چاہیے کہ عالم کے انتقالات اور حوادث کا متجدد ہونا اور اوصاف کا حادث ہونا علم الہی میں حدوث اور تجدد اور انتقال کو لازم نہیں کرتا کیونکہ جو لوگ راسخ فی العلم ہیں وہ کہتے ہیں کہ عالم مع اپنے تصرفات و تغیرات کے اللہ تعالی کے نزدیک حاضر ہے پس تمام اشیاء اور ان کے احوال جس صورت اور ہیئت پر ہیں اللہ تعالی کو معلوم اور شاہد ہیں پس جب اللہ سبحانہ کسی شے یا اس کے حال کو ایجاد کرتے ہیں تو اس کو اس شے کے اعتبار سے ایجاد کرتے ہیں نہ کہ اپنے اعتبار سے بلکہ اشیاء تو اپنے حال اور زمانہ اور مکان اور اعتبار سے اعتبارات سے اللہ تعالی کو منکشف ہیں اور ایک شے کو بعد دوسری شے کے پے در پے ایجاد کرتے ہیں پس حدوث آپس میں اشیاء کے اعتبار سے ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ آدمی کی ایک صورت لڑکپن میں ہوتی ہے اور ایک صورت جوانی میں اور ایک صورت بڑھاپے میں اور ہر ایک ان صورتوں میں سے ایک دوسرے سے غائب ہے اور ان صورتوں کو ہم فرض کرتے ہیں کہ پردے کے پیچھے ہیں تیری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں پس جب حجاب و نقاب اٹھایا تو سب صورتوں کو ایک نگاہ سے ادراک کر لیا پس ماضی اور مستقبل اور حال سب ان کے نزدیک حاضر ہیں پس اللہ تعالی کا علم ان زمانوں میں سے کسی زمانہ کے ساتھ متصف نہ ہوگا اور علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ تعلقات حادث ہیں علامہ دوانی نےزوراء میں لکھا ہے کہ متکلم اور حکماء کے علم باری کے بارے میں جس قدر مذاہب ہیں سب قاصر اور کوتاہ ہیں کیونکہ ان کو حقیقت پر اطلاع نہیں ہے کیونکہ جیسا اللہ تعالی کا علم قرآن سے ثابت ہوتا ہے اسی طرح برہان اور دلیل سے ثابت ہوتا ہے حتی کہ یہ صفت یعنی علم اور دیگر صفات عالم میں ہر موجود میں اس کی استعداد کی موافق ساری ہیں دیکھتے نہیں کہ شہد کی مکھی کیسا گھر مسدس بناتی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے پس اس کو یہ علم اللہ تعالی کا ہی عطا کیا ہوا ہے اور اسی طرح تمام حیوانات بلکہ جمادات کو ان کی استعداد کے موافق علم دیا گیا ہے کیونکہ ہر شے تسبیح کرتی ہے اور تسبیح علم سے ہی ممکن ہے

چھپنواں مرحلہ

  معنی علم ظہوراور رفع  اشکال

رفع ایک اشکال کا اور معنی علم ظہور کے
حق تعالی نے فرمایا ولنبونکم حتی نعلم المجاھدین منکم یعنی ہم تم کو ضرور آزمائیں گے تاکہ تم سے مجاہدہ کرنے والے کو جانیں اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم اللہ تعالی کا وعدہ بعد آزمائش کے ہے حالانکہ دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالی سے قبل پیدا کرنے کے اور بعد پیدا ہونے کے کوئی شے ذرہ برابر کے بھی غائب نہیں تو علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جو علم بعد آزمائش ہے اس کو خبر اور اختیار کہتے ہیں اور اس کے عالم کو خبیر کہتے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ یہ اسم یعنی خبیر مرتبہ ابتلا سے متاخر ہو اور اس سے پہلے جو علم تھا وہ محیط تھا قبل اس آزمائش کے ہی تھا اور بعد کو بھی ہے مگر ظہور اس اسم کا یعنی خبیر کا عالم کے لیے اور مخبر کا معلوم کے لیے اور اختیار کا اس آزمائش کے لیے بعد اس آزمائش کے ہی ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ علم کی صفت حقیقتا مخلوق کی طرف مضاف نہیں کی جائے اضافہ حقیقت اللہ تعالی سبحانہ کی ہی طرف ہے مظاہر خلقیہ میں اس صفت کا صرف ظہور ہوا ہے اور اسی علاقہ سے مخلوق کی طرف علم منسوب کیا جاتا ہے اور اسی بنا پر مفسرین نے اس علم کو علم ظہور سے تفسیر کیا ہے ۔

ستاونواں مرحلہ

خدا کا فعل صادراور متکلمین و حکماء

خدا کا فعل صادر ہونے میں متکلمین اور حکماء کے قول
متکلمین کے نزدیک اللہ تعالی کا فعل اسی ارادہ سے جو اختیار کے ساتھ ہے صادر ہوتا ہے اور اختیار کے معنی یہ ہیں کہ اگر چاہے کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے اور حکماء کے نزدیک ایسے ارادے سے صادر ہوتا ہے کہ جو ایجاب کے ساتھ ہو اور ایجاب کے معنی یہ ہیں کہ اگر چاہے کرے اور نہ چاہے تب بھی کرے فعل خیر اس کی ذات کو لازم ہے فرق یہ ہے کہ پہلے شرطیہ کے مقدم کا وقوع ضروری ہے اور دوسرے شرطیہ کا مقدم ممتنع ہے پس ایجاب کے معنی یہ ہیں اور یہ معنی نہیں کہ وہ ارادہ کی نفی کرتے ہیں اور جو افعال ان سے صادر ہوتے ہیں اس کو ایسا کہنے میں جیسے کہ جلانا آگ کا اور روشن ہونا شمس کا یہ دونوں امر آگ اور شمس سے بلا اختیار صادر ہوتے ہیں پس متکلمین تو ارادے کو اسباب کا منتہیٰ قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ترجیح بلا مرجح محال نہیں ہے بلکہ ترجح بلا مرجح محال ہے اور حکماء کہتے ہیں کہ ترجیح بلا مرجح بھی محال ہے اور اسباب کے سلسلہ کا منتہی ذات واجب و تعالی کی ہے جو منشا ارادہ کی ہے امام حجت الاسلام غزالی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جملہ اشیاء کے فیضان کا مبدا علم اللہ تعالی کا ہے جووجہ نظام کے متعلق ہے پس اس کا علم ہی وجود معلوم کا سبب ہے پس اس صورت میں اللہ تعالی کا ارادہ علم ہے جو اس نظام محکم کے متعلق ہے پس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بھی حکماء کے مذہب کی طرف مائل ہیں اور اپنے بعض رسائل میں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ حکماء کا ہر ایک مقولہ باطل نہیں بلکہ اگر حق کے موافق ہو تو ہم قبول کر لیں گے اور اگر مخالف ہے تو چھوڑ دیں گے۔
سوال:۔ علم کیسے وجود معلوم کا سبب بن سکتا ہے حالانکہ علم تابع معلوم کے ہوتا ہے یعنی دونوں مطابق ہوتے ہیں اور اصل یہاں یہی ہے کہ دونوں مطابق ہوں مثلا کسی خاص وقت میں کسی شے کے وقوع کا علم اس کے تابع ہے کہ وہ اس وقت خاص میں واقع بھی ہو کیونکہ وہ علم تو اسی کا ظل اور حکایہ ہے مثلا دیوار پر جو گھوڑے کی تصویر کھینچی ہوئی ہے اس کو جو گھوڑے کی تصویر کہتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ گھوڑا واقعی ایسا ہوتا ہے اور اگر اس کا عکس متصور نہیں ہو سکتا یعنی یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھوڑا حقیقی ایک خاص ہیت پر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دیوار پر اس کی ہیئت ایسی ہے اور مثلا زید کے کل آئندہ میں کھڑے ہونے کا علم جب ہی ہو سکتا ہے جب وہ کل کو کھڑا بھی ہو پس معلوم ہوا کہ علم کو کسی فعل کے وجود میں کوئی دخل نہیں اور نہ امتناع میں کوئی دخل ہے بلکہ دونوں سے نسبت برابر ہے
جواب:۔ تبعیت کے جو معنی بیان کیے ہیں یہ علم انفعالی حصولی میں ہو سکتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالی کا علم حضوری اور فعلی ہے اور علم حضوری یہ ہے کہ معلوم بعینہ اپنی ذات اور تمام لوازم وجودیہ اورعدمیہ سے منکشف ہو جائے اور یہ انکشاف ایک نسبت بین العالم والمعلوم نہ ہو توظاہر ہے کہ ایسے علم میں تبعیت بمعنی مذکور متحقق نہیں ہو سکتی ہاں ہمارے علم کو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ علم ہے کیونکہ علم حکم اذعانی کو کہتے ہیں پس حق تعالی کی شان میں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کا علم مثل تصور کے ہے اور اس کا قائل ہونا اس کو مستلزم ہے کہ حق تعالی کو ممکنات کا قبل از وقوع علم نہ ہو جیسا کہ معتزلہ کا مسلک ہے مگر جمہور معتزلہ اس کے قائل نہیں ہیں ہاں ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ علم تابع معلوم کے ہے لیکن معنی اس کے یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہر شے کو جس طرح پر وہ واقع میں ہے جانتے ہیں اور اس پر موافق اپنے علم کےحالت عدم میں حکم کرتے ہیں ۔ پس ان کے نزدیک شے کے تمام احوال وجود وعدم وغیرہ متعین ہے پس جو شخص کہتا ہے علم باری تعالی سبب وجود معلوم کا ہے یعنی باعتبار اس کے کہ سب اسی کی طرف راجع ہیں صادق ہے اور امام غزالی نے اس کی مثال میں کہا ہے کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ وہ نقاش کہ جو صورت کو اپنی طرف سے تراشتا ہے اور ایجاد کرتا ہے اس کا علم اسی صورت کے متعلق قبل از وجود ہے اور اس کا علم سبب اس کے وجود کا ہے اور اس تقریر سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ صفت قدرت کی معطل ہے جیسا کہ دفعیہ اس اشکال کا ظاہر ہے کچھ اس میں شک نہیں ۔

اٹھاونواں مرحلہ

 علم اور یقین کے اقسام

وہم اور شک اورظن اور علم یہ اقسام شعور کی ہیں اگر وقوع کسی شے کااور عدم وقوع برابر ہوں تو یہ تو شک ہے اور اگر ایک غالب ہو تو ظن ہے اور جانب مغلوب وہم ہے اور اگر ایک کا وقوع یقینی ہو تو یہ علم ہے اور یقین تین قسم پر ہے علم الیقین عین الیقین اور حق الیقین
علم الیقین تو اس علم کو کہتے ہیں جو برہان اور دلیل سے حاصل ہو اور عین الیقین وہ جو بیان سے حاصل ہو اورحق الیقین وہ ہے جو معائنہ سے حاصل ہو اس مضمون کو قشیری نے اپنا رسالہ میں لکھا ہے اور لفظ یقین یقین الماء سے مشتق ہے یقین الماء جب بولتے ہیں جبکہ پانی برتن میں ٹھہر جائے پس معلوم ہوا کہ یقین استقرار اور اطمینان کو کہتے ہیں اور اس مثال سے تجھ پر یہ خوب واضح ہو جائے گا اس کی مثال کوئلے کی سی ہے کہ کوئلے نے مثلا سنا کہ عالم میں آگ بھی ہے حتی کہ تواتر اخبار سے یہ مضمون اس نے سنا تو یہ تو علم الیقین ہے پھر اگر آگ اس کے سامنے لائی جائے تو یہ عین الیقین ہے اور جب اس کو آگ میں گرا دیا جائے حتی کہ مشتعل ہو گیا تو یہ حق الیقین ہے بس اول یعنی علم الیقین والے تو اہل معقول ہیں اور دوسرے یعنی عین الیقین والے اہل علوم ہیں اور تیسرے یعنی حق الیقین والے اہل معرفت ہیں شیخ نے فتوحات میں کہا ہے کہ یقین کے چار مرتبے ہیں اول مرتبہ علم کا پھر مرتبہ عین کا پھر مرتبہ حق کا پھر مرتبہ حقیقت کا پس علم اور عین حق تو کتابی ہیں یعنی کلام باری تعالی میں وارد ہیں اور حقیقت نبوی ہے یعنی حدیث میں وارد ہے ختم نہیں کلام شیخ کی
اور ایمان علم تصدیقی یعنی اذعان کو کہتے ہیں اور ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اگر کم ہوگا قصور ہو جائے گا وہ کافی نہیں اور اگر بڑھے گا تو اس کے صرف صفت بڑھے گی اور وہ صفت تو طمانیت اور استقرار ہے پس معلوم ہوا کہ نفس تصدیق میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے اور نہ کمی پس مرتبہ یقین کو تو لوگ نہیں پہنچ سکتے مگر جو اچھے لوگ ہیں اور وہ بہت کم ہیں ان کی دسترس ہو سکتی ہے اور اسی واسطے ایسی شے میں کہ جس کی نسبت حق تعالی نے قسم کھائی ہے شک کرتے ہیں یعنی رزق میں پس نفس میں نہ یقین کی حقیقت حاصل ہے اور نہ حق اور نہ عین کی اور نہ علم کی انا للہ وانا الیہ راجعون حق تعالی فرماتے ہیں یعنی نہیں ایمان لاتے ہیں اللہ کے ساتھ اکثر ان میں مگر اس حالت میں شریک کرتے ہیں۔ شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ لفظ عین اور علم اور حق مشترک ہیں یقین کی طرف مضاف کر دیئے گئے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ شک خواہ حال ہی سے پیدا ہو یعنی قلب اس کا خواہ ایمان کے ساتھ مطمئن ہو مگر ایمان کی ضد ضرور ہے اور حال اس کا ابھی تک بہ سبب شرارت نفس حیوانیہ اور وسواس شیطانیہ کے مستقیم نہیں ہوا اور اس حالت کو شرک خفی کہتے ہیں اور یہ حالت ایمان شرعی کے منافی نہیں اگرچہ ایمان حقیقی کے منافی ہو حاصل یہ ہے کہ یقین علم سے برتر ہے اور اس کے بہت مراتب ہیں سب سے اعلی مرتبہ حق الیقین ہے اور اوسط عین الیقین ہے جو شخص علم اور یقین میں فرق نہیں کرتا اور دونوں کو ایک سمجھتا ہے اس کے نزدیک اضافت علم کی یقین کی طرف جائز نہ ہوگی اور اس میں وہ تاویل کرے گا اور اللہ تعالی کے قول واعبد ربک حتی یاتیک الیقین میں لفظ یقین میں اختلاف ہے مفسرین تو یقین کی تفسیر موت سے کرتے ہیں اور اصل قلوب دیگر توجیہات کرتے ہیں ۔

انسٹھواں مرحلہ

کلام الہی حادث یا قدیم؟

اللہ تعالی کے کلام میں اختلاف کی حادث ہے یا قدیم
متکلمین نے اللہ تعالی کے کلام میں اختلاف کیا ہے کہ حادث ہے یا قدیم پس متاخرین نے تو یہ فیصلہ کیا کہ کلام لفظی حادث ہے اور نفسی قدیم ہے اور قاضی عضد الدین کہتے ہیں کہ کلام باری میں دو قیاس ہیں کہ ان دونوں کے نتیجے آپس میں مناقض و منافی ہیں اول تو یہ ہے کہ کلام اللہ کی صفت ہے اورجو اللہ کی صفت ہے وہ قدیم ہے لہذا کلام قدیم ہے اور دوسرا قیاس یہ ہے کہ کلام مترتب الاجزاء ہے بعض اجزاء بعض پر مقدم ہیں اور جو شے ایسی ہوتی ہے وہ حادث ہوتی ہے پس اس اجتماع متنافیین ہی کی وجہ سے ہر ایک گروہ نے ان قیاسوں میں سے ایک ایک مقدمہ پر منع وارد کیا ہے چنانچہ معتزلہ تو پہلے قیاس کی صغری کو تسلیم نہیں کرتے اور کرامیہ پہلے قیاس کی کبری پر منع وارد کرتے ہیں اور اشاعرہ دوسرے قیاس کی صغری کو نہیں مانتے اور حنابلہ دوسرے قیاس کی کبری سے انکار کرتے ہیں اور اکابر حنابلہ سے منقول ہے کہ حروف مبانی یعنی حروف ہجاء قدیم ہیں اور شیخ بازی اشہب سید محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے کلام اصوات اور حروف سے مرکب ہیں اور کلام قائم بالغیر ہے اور اللہ تعالی کے متکلم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ان حروف اور اصوات کے کسی خاص جسم میں موجد ہیں خواہ وہ جسم لوح محفوظ ہو خواہ جبریل ہو یا نبی ہوں یا اس کے سوا کوئی شے ہو مثلا شجرہ موسی علیہ السلام اور بعض نے کہا ہے کہ کلام کا اطلاق کلام نفسی پر آتا ہے اس کی ضد و نسیان ہے اور کلام لسانی پر بھی کہ جو متکلم کو ایک خاص قوت کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کی ضد خرس یعنی گنگ ہے اور معنی کا اطلاق کبھی تو لفظ کے مدلول پر آتا ہے اور کبھی قائم بالغیر پرآتا ہے اور شیخ اشعری نے جو فرمایا کہ کلام سے معنی نفسی مراد ہے تو اس سے بھی مراد وہ کلام ہے جو قائم بالغیر ہو خواہ وہ غیر معنی ہوں یا لفظ بس یہ دونوں یعنی معنی اور لفظ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور یہی کلام مصاحف میں لکھی ہوئی اور زبان سے پڑھی جاتی ہے اور سینوں میں محفوظ ہے اور یہ کلام اس قرات اور کتابت اور حفظ حادث کے سوا ہے چنانچہ مشہور ہے کہ قرات مقرو کے غیر ہے تو اس کلام میں نہ ترتیب ہے اور نہ تقدیم اور نہ تاخیر ہے جیسے کہ حافظ کے نفس میں قائم ہے اور اس میں کچھ ترتیب نہیں ہے لیکن ترتیب وقت تکلم اور ادا کے اس سبب سے حاصل ہو جاتی ہے کہ آلہ ادا حادث ہے اور اس میں لیاقت اور ادا کی نہیں ہے اور اگر شیخ کے مراد معنی سے مدلول لفظ معجز ہو تو اس سے مابین کلامیت کے منکر کی عدم تکفیر لازم آتی ہے لیکن قطعا وبداہتا معلوم ہے کہ بین الدفتین کلام اللہ ہے اور اس کا منکر کافر ہے اور نیز یہ بھی لازم آتا ہے کہ معارضہ اور تحری کلام اللہ سے نہ ہو حالانکہ وہ ایک سورت بھی لانے سے عاجز ہو گئے تھے

ساٹھواں مرحلہ

مسئلہ کلام میں متکلمین کی غلطی

مسئلہ کلام میں متکلمین کی غلطی اور کلام کے متعلق تحقیقات
جاننا چاہیے کہ کلام باری تعالی کا مسئلہ اس قسم کا ہے کہ اس میں اہل کلام نے بہت ٹھوکریں کھائیں ہیں اس پر تو سب کا اجماع ہے کہ اللہ تعالی متکلم ہیں مگر کلام میں اختلاف ہے کہ حادث ہے یا قدیم اور رسول اللہ ﷺسے مروی ہے کہ قران اللہ کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کا کلام حادث ہے کیونکہ وہ اصوات اور حروف سے مرکب ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے متکلم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی جسم میں ان حروف اور اسباب کی ایجاد کرتے ہیں خواہ وہ جسم لوح محفوظ ہو یا انبیاء ہوں یا کوئی اور شے ہو جیسے کہ شجرہ موسی علیہ السلام جیسا کہ یہ مضمون اوپر بھی گزر چکا اور اشاعرہ کہتے ہیں کہ اس کلام لفظی کے حدوث کے ہم بھی قائل ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کلام کو ثابت کرتے ہیں کہ وہ کلام نفسی ہے اور وہ ہی اللہ تعالی کی صفت ہے اور وہ قدیم ہے اور معنی قدیم ہونے کا جو مضمون نفس متکلم میں ہے کہ عبارات مختلفہ متغیرہ سے ادا کیے جاتا ہے وہ قدیم ہے اور یہ کلام لفظی جو حروف سے مرکب ہے اس کو جو قرآن اور کلام اللہ کہا جاتا ہے وہ بطریق اشتراک ہے قراء اور اصولین اور فقہاء اور دیگر علماء کے نزدیک یہی متعارف و مشہور ہے اور اللہ تعالی نے جو فرمایا ہے یریدون ان یبدلوا کلام اللہ یعنی ارادہ کرتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کر دیں تو اس آیت تبدیل سے مراد تبدیل لفظ ہے اور اسی طرح جو یہ فرمایا ہے یحرفون الکلم عن مواضعہ یعنی کلموں کو ان کے معانی اصلیہ سے تبدیل کرتے ہیں اس میں بھی تحریف سے مراد لفظ کا ہی تحریف کرنا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ معنی کلام کے تابع ہیں لفظ میں جبکہ تحریف و تبدیل ہوگی تو معنی اصلیہ مفہوم نہ ہوں گے پس معنی بھی لفظ کی تبدیل تحریف کرنے سے مبدل اور منحرف ہو جائیں گے ۔اس کے بعد جاننا چاہیے کہ لفظ قرآن اور کلام اللہ کو کلام لفظی پر اطلاق کرنا محض اسی وجہ سے ہی نہیں ہے کہ یہ کلام کلام نفسی برداال ہے تاکہ یہ لازم ئے کہ اگر ان الفاظ کو کوئی سوائے اللہ تعالی کے گھڑے تب بھی اس کو کلام اللہ اور قرآن کہنا درست ہو بلکہ وجہ اس اطلاق کی یہ ہے کہ اس کلام میں ایک اختصاص ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اول لوح محفوظ میں اشکال پیدا فرمائے چنانچہ فرمایا ہے بل ھو قران مجید فی لوح محفوظ یعنی بلکہ وہ قرآن بزرگ ہے کہ جو لوح میں محفوظ ہے پھر اصوات کو فرشتہ یا رسول کی زبان پر پیدا کیا چنانچہ فرمایا انہ لقول رسول کریم یعنی بے شک وہ قول رسول بزرگ کا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ یہ دونوں اسم یعنی قرآن اور کلام اللہ اس مرکب کلام مخصوص کا نام ہے کہ سب سے اول میں جس زبان پر اللہ تعالی نے اس کو پیدا کیا اگر اور کوئی اپنی زبان سے پڑھے گا تو وہ کلام اس کے مثل ہوگا عین نہ ہوگا اور صحیح تر یہ ہے کہ کلام اللہ اور قرآن اس مرکب کے بغیر محل کی تعین کے نام ہے پس اس تقدیر پر کلام اللہ واحد بالنوع ہوگی اور جو قاری بھی پڑھے گا وہ خود کلام اللہ ہی ہوگی اس کا مثل نہ ہوگا اور پہلے قول کے موافق واحد بالشخص ہے اور اس تقدیر پر قاری اول کے غیر میں رعایت جمیع احکام قرآنیہ کی مماثلت کی وجہ سے ہے اور اسی طرح قاری اول کے سوا اور قاریوں میں یہ بھی اختلاف ہوگا کہ ان کا کلام واحد بالشخص ہے یا بالنوع اگر تجھ کو اس تقدیر پر یہ شبہ ہو کہ جب کلام سے مراد الفاظ مرکبہ لے لیے اور اس میں تعین محل کی نہیں ہے کہ جیسا کہ اصح یہی ہے تو یہ لازم آتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ کے کلام کو سنتا ہے اور اسی طرح اگر کلام سے مراد معنی ازلی ہوں اور اس کے سننے سے مراد اس کا حرف اور اصوات سے سمجھنا ہو تو اس وقت بھی ہر ایک کا اللہ کے کلام کو سننا لازم آتا ہے پس اس صورت میں موسی علیہ السلام کا کلیم اللہ ہونا کس وجہ سے ہوگا تو جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ ان کو ہی کلیم اللہ کہنے کی چند وجہ ہیں اول وہ ہے جس کو امام غزالی نے پسند کیا ہے وہ یہ کہ موسی علیہ السلام نے بلا صوت و حرف کے کلام باری تعالی کو سنا ہے جیسے کہ ہر مومن بطریق خرق عادت کے اخرت میں سنے گا جیسے چیونٹی کے افعال ہیں کہ وہ سب قوت شامہ سے صادر ہوتے ہیں اور جیسے اس کا اپنی غرض و مقصود کی طرف چلنا اور اپنے سوراخ کی طرف لوٹنا اور اسی طرح معدہ کے افعال مثل ہضم اور جذب اور مسک وغیرہ اسی کے متعلق ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے جس کو شیخ ابو منصور ماتریدی نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ موسی علیہ السلام نے کلام باری تعالی بغیر جہت اور طرف کے سنی ہے اور ایسی آواز سے سنی جو بندوں کی آواز سے علیحدہ ہے اور ایسی کیفیت سے سنی ہے کہ ہمارے سننے کی کیفیت سے علیحدہ اور غیر ہے اور حاصل اس وجہ کا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کا اکرام فرمایا
پس ان کو اپنا کلام ایک نئی آواز سے سنا دیا اور اس آواز میں کسی کے کسب کو دخل نہیں ہے اور تیسری وجہ کلیم اللہ کہنے کی یہ ہے کہ موسی علیہ السلام نے کلام باری کو ہر طرف سے سنا اور تمام بدن سے سنا فقط قوت سامعہ ہی سے نہیں سنا پس ہر جز موسی علیہ السلام کا اس وقت کان بن گیا تھا اور ابو اسحاق اسفرائینی اور اکثر مفسرین کا یہی مسلک ہے کلام یہ ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام ہر مصحف میں لکھی ہوئی ہے اور ہر زبان سے پڑھی جاتی ہے یہ وحدت نوعیہ کے اعتبار سے ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کی کلام کی حکایت ہے اور اس کی مثل ہے تو یہ باعتبار وحدت شخصیہ کے ہے کیونکہ کلام تو وہی ہے جو فرشتہ کی زبان پر پیدا کی گئی ہے اور جو کہتے ہیں کہ کلام اللہ کی زبان کے ساتھ قائم نہیں ہے اور نہ کسی مصحف ولوح کی لکھی ہوئی ہے تو اس وقت کلام سے مراد کلام حقیقی نفسی ہے جو صفت ازلیہ ہے پھر جاننا چاہیے کہ معنی سے مراد معنی ازلی ہیں جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور وہ معانی جو الفاظ سے وضع لغوی یا شرعی سے نکلتے ہیں مراد نہیں ہیں کیونکہ اس اعتبار سے معنی اور لفظ دال ہمارے ذہنوں اور ہماری زبانوں کے ساتھ قائم ہیں اور پھر دونوں سے دونوں شے حادث ہیں اور اللہ تعالی کی صفت ازلیہ علامات حدوث سے پاک ہیں اور اللہ تعالی کا اپنے کلام کو اتارنے کے معنی یہ ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام کلام باری تعالی کو اپنے مقام میں ادراک کرتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں زبان عربی میں معنی کو ادا کرتے ہیں اور لفظ مرادف سے اور یا کسی اور طریق ادا نہ کرتے تھے اور اسی قید کے سبب سے نظم قرآن معجزہ ہے محقق تفتازانی نے مقاصد میں اسی طرح اس کی تحقیق کی ہے اور بعض مجتہدین نے زبان فارسی سے جو قرآن کے مرادف ہو اور معنی قدیم پر دال ہو نماز جائز قرار دی ہے پس کلام حقیقی تو کلام نفسی ہی ہے اور الفاظ اور نقوش اس کے دلائل اور علامات ہیں پس کلام لفظی مترجم با اور کلام نفسی مترجم عنہ ہے اور مترجم پیغمبروں کی زبانی خواہ وہ فرشتہ ہو یا آدمی اللہ تعالی ہیں پس جو یہ وہم کرتا ہے کہ یہ مابین جلد کے اور جو سینہ کے درمیان میں محفوظ ہے اور جو زبان سے پڑھا جاتا ہے یہ کلام اللہ نہیں ہے وہ طریق سنت سے منحرف ہے اور طریق خلاف سنت کا درپے ہے اس کو خبر نہیں کہ بعینہ اللہ ہی کی کلام ہے فرق اتنا ہے کہ یہ مظاہر میں ظاہر ہو گیا ہے اور مرتبہ وجوبیہ محضہ سے اتر کر الفاظ اور حروف کے رنگ میں رنگین ہو گیا ہے پس جو اللہ کے کلام پر ایمان نہیں لاتا ہے وہ تو اللہ کی رویت پر بحیثیت ذات اللہ کے ایمان نہ لائے تو عجیب نہیں ہے کیونکہ ان ظاہری آنکھوں سے وہی شے دکھائی دیتی ہے جو خود رنگ ہو اور یا رنگین ہو اور باری تعالی نہ رنگ ہیں اور نہ رنگین ہیں پس رویت باری تعالی کی محال ہوئی ارے بے وقوف تجھ کو یہ سبھی خبر ہے کہ تو خود بارہا اپنے نفس سے باتیں کرتا ہے اور نہ اس میں صوت ہوتی ہے اور نہ حرف پھر اور وہ تیری مراد نہیں ہوتی اور پھر الفاظ اور حروف سے اور کچھ تعبیر کرتا ہے اور کلام نفسی کے کلام ہونے کے لیے یہ قول شاعر کا کافی ہے
ان الکلام نفی الفواد وانما جعل اللسان علی الفواد دلیل
یعنی بے شک کلام تو دل میں ہے اور زبان محض علامت اور دلیل ہے۔

اکسٹھواں مرحلہ

وحی کس طریقے

وحی کس طریقے سے ہوتی ہے ؟
بعض محققین نے کہا ہے کہ لاہوت جبروت میں ظاہر ہے اور جبروت ملکوت میں اور ملکوت ناسوت میں پس ہر ایک شخص میں یہ چاروں عالم مندرج ہے بس انسان کا ناسوت اس کے ملکوت سے خارج نہیں اورنہ ملکوت جبروت سے خارج ہے اور جبروت لاہوت سے خارج نہیں ہے پس ایک شے میں یہ چاروں عالم مجتمع ہیں اور یہ معلوم ہے کہ عالم ارواح عالم معنی کی اقسام سے ہے اسی واسطے جب سالک خواب میں یا بیداری میں فرشتہ کو دیکھتا ہے کسی امر خارجی کو نہیں دیکھتا بس انبیاء علیہم السلام میں حضرت لاہوت سے معانی موافق ان کے قلوب کی وسعت کے نازل ہوتے ہیں پھر وہ معانی حضرت مثال سے لباس روح کا پہن لیتے ہیں اور پیغمبر اس لباس مصور کے ادا کرنے کو تلقین کیے جاتے ہیں کیونکہ عالم معانی ارواح میں نہایت جدی نفوذ کرتا ہے کیونکہ ارواح پیغمبروں کی بہت لطیف ہوتی ہیں پس عارف تو یہ کہتا ہے کہ اس نبی کی لاہوتیت نے بواسطہ اس کے اس ملکوتیت کے کہ وہ معانی ہیں جو حضرت مثال سے اکتساب کیے گئے ہیں اس نبی کی زبان سے خطاب اور تکلم کیا ہے اور پھر کلام وہی اور واسطہ دونوں رسول سے خارج نہیں اور محجوب یعنی جو عارف نہیں ہے وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی اس زبان سے جو اس کے لیے شایان ہے اپنے فرشتہ جبرائیل پر وحی کی اور جبرائیل نے پیغمبر کی طرف اپنی زبان سے وحی کی اور پیغمبر نے اپنی زبان سے لوگوں کو سنایا مثنوی معنی میں مولانا روم فرماتے ہیں
گرچہ قران از لب پیغمبر ست ہر کہ گویا حق نہ گفت او کافر ست
اور اسی طرح انی انا اللہ لا الہ الا انا موسی علیہ السلام کے قلب لا ہوتی نے کہا تھا اور موسی علیہ السلام کے کان ناسوتی نے سنا تھا بس حاکی اور محکی علیہ اور محکی جملہ مراتب کا ایک امر ہے

باسٹھواں مرحلہ

الفاظ قرآنیہ اور مصاحف حقیقت کلام اللہ ہیں؟

تحقیق اس کی کے الفاظ قرآنیہ اور مصاحف حقیقت کلام اللہ ہیں یا نہیں
حروف منقوشہ حروف ملفوظہ کے اشباح یعنی نقش ہیں اورحروف ملفوظہ ان معانی کے جو الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں نقش ہیں اور معانی اس صفت ازلیہ کے جو اللہ تعالی کے ساتھ قائم ہے اشباح و عکس ہیں پس الفاظ روح ارواح الارواح ہے پس اسی سبب الفاظ کا احترام اور الفاظ کی تعظیم کی جاتی ہے اور اسی واسطے دارالحرب میں قرآن شریف لے جانا منع ہے کیونکہ نقوش اس صفت ازلیہ پر بواسطہ دلالت کرتے ہیں پس مسمی ایک ہے اورتکثر اسماء میں ہے پس لغات کا اختلاف اسماء الاسماء میں اختلاف ہے مثلاً ذات کو جو صفات کی جامع ہے عربی میں اللہ کہتے ہیں اور فارسی میں خدا اور حبشہ میں واق اور افرنجی میں کریطور اور ہندی میں نرسنجن کہتے ہیں
سوال:۔ جس صورت میں کہ یہ جلد کے درمیان میں مصحف اللہ کے کلام حقیقتا نہیں بلکہ کلام حقیقی پر دال ہے تو جو اس مصحف کے کلام اللہ ہونے سے انکار کرے اس کی کیوں تکفیر کی جاتی ہے حالانکہ اس کے کلام اللہ ہونے کا اقرار ضروریات دین سے ہے اور منکر کی تکفیر کی جاتی ہے۔
جواب:۔ تکفیر منکر کی اس وقت کی جاتی ہے جب یہ اعتقاد رکھے کہ یہ کلام آدمی کا گھڑا ہوا ہے اور جب یہ اعتقاد ہو کہ یہ اللہ تعالی کی صفت حقیقت نہیں ہے بلکہ اس پر دال ہے تو ایسے شخص کی تکفیر جائز نہیں ہے اور تکفیر کیسے ہو سکتی ہے حالانکہ یہ ہی اکثر اشاعرہ کا مذہب ہے اور شرع سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ جامہ میں جو مصحف ہے یہ صفت پر دال ہے عین صفت نہیں ہے امام رازی نے تفسیر کبیر میں کہا ہے کہ جب یہ کہتے ہیں کہ یہ حروف جو ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور یہ آوازیں جو پے در پے سنائی دیتی ہیں اللہ کے کلام ہے تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ الفاظ ہیں جو صفت ازلیہ خداوندی پردال ہیں پس معلوم ہوا کہ ان الفاظ کو کلام کہنا مجاز ہے ختم ہوئی کلام انام کی
اور مجاز سے مراد امام کے کلام میں مجاز لغوی ہے اور یہ اس کے حقیقت شرعیہ ہونے کے منافی نہیں اور حاصل کلام یہ ہے کہ جس کلام نفسی کے ساتھ حق سبحانہ و تعالی موصوف ہیں وہ حدوث کے لوازم سے ہے جیسے کہ تالیف اور اخبار ہونا اور انشاء ہونا اور ماضی اور حال اور استقبال ہونا سب سے منزہ و بری ہے یہ سب مخاطب کے سمجھانے کے لیے ہے پس کلام نفسی اور لفظی کو کلام اللہ کہنا لفظی اشتراک کی وجہ سے ہے پس معلوم ہوا کہ کلام نفسی اور کلام لفظی کو کلام اللہ کہنا حقیقتا ہے مجاز نہیں ہے محققین نے اس مقام کی اس طرح تحقیق کی ہے واللہ اعلم بحقیقت الحال پس پاک ہے وہ ذات کہ عقول اس کی صفات میں حیران ہے جیسا کہ ذات میں حیران ہیں

تریسٹھواں مرحلہ

 صفت تکوین کی تحقیق

تکوین صفت ازلیہ ہے حنفیہ کے نزدیک قدرت کے مغائر ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہم کسی شے کی ایجاد کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو کہہ دیتے ہیں کہ ہو پس وہ شے ہو جاتی ہے پس اللہ تعالی کا کن فرمانا امر ہے جو اس شے کے وجود پر مقدم ہے مقاصد میں کہا ہے کہ یہ قول شیخ ابو منصور ماتریدی اور ان کے متبعین سے مشہور ہوا ہے اور ابو منصور اور ان کے متبعین اس قول کو اپنے متقدمین کی طرف جو شیخ ابوالحسن اشعری سے پہلے ہوئے ہیں نسبت کرتے ہیں ابو جعفر طحاوی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کے لیے ربوبیت ہے اور مربوب نہیں ہے اور خالقیت ہے مخلوق نہیں ہے اور تکوین ہے اور مکون نہیں ہے پس تکوین معدوم کو عدم سے وجود کی طرف نکالنے کو کہتے ہیں اور باری تعالی کیلئےاس صفت کا ہونا ضروری ہے اور یہ صفت ازلیہ ہے کیونکہ ذات باری تعالی میں حادث کا وجود تو محال ہے خلق کو تکوین کرنا تخلیق ہے اور رزق کی تکوین ترزیق ہے اور صورت کی تکوین تصویر ہے اور حیات کی تکوین احیا ہے اور موت کی تکوین اماتت ہے پس صفت تکوین کی اسمائے آثار کے مختلف ہونے کے سبب سے مختلف ہیں علماء نے کہا ہے کہ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ امر صفات حقیقت میں ہے جیسے علم اور قدرت اور ارادہ ہیں ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ تاثیر اور ایجاد بھی ایسا ہی ہے بلکہ ایجاد اور تاثیر تو ایک معنی میں جو موثر کے اثر کی طرف مضاف کرنے سے سمجھے جاتے ہیں یہ معنی اس شے میں تحقق ہوں گے جو ازلی ہو امام رازی نے کہا ہے کہ جس صفت کا نام تکوین رکھا ہے اس کی تاثیر بذات خود ہی کسی ارادہ کی جود و جانب میں سے فعل کو یا ترک کو ترجیح دے ضرورت نہیں ہے اب وہ تاثیر دو حال سے خالی نہیں یا تو علی سبیل الجواز اثر کرے گی اور یا علی سبیل الوجوب پہلی صورت میں تو وہ عین قدرت ہے اور دوسری صورت میں باری تعالی کا غیر مختار ہونا لازم اتا ہے جمع الجوامع میں کہا ہے کہ افعال کی صفات جیسے کہ خلق اور رزق اور احیا اور اما تت یہ سب ازلی نہیں ہیں اور یہ حنفیہ کے خلاف ہے بلکہ یہ سب حادث ہیں اور متجدد ہیں کیونکہ یہ جملہ صفات محض اضافات ہیں جو قدرت کو عارض ہوتی ہیں اور وہ قدرت وجود مقدور کے ساتھ ان کی اوقات میں قدرت کا تعلق ہے اور اس میں کچھ اشکال نہیں کہ باری تعالی اضافات کے ساتھ موصوف ہو کیونکہ وہ عالم ہے پہلے بھی ہیں اور ساتھ بھی ہیں اور بعد بھی ہیں
سوال:۔ قرآن میں اسماء افعال وارد ہوئے ہیں چنانچہ حق تعالی فرماتے ہیں کہ ھو اللہ الخالق البای المصوراور فرمایا ہے ھو الرزق ذوالقوۃ المتین پس باری تعالی کا موصوف ہونا صفات ازلیہ ہی کے ساتھ کیسے درست ہو جیسا کہ قران اور جو اسماء اس میں واقع ہیں قدیم ہیں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ تخلیق اور تصویر اور ترزیق سب قدیم ہوں امام غزالی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کے خالق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ عنقریب پیدا کرنے والے ہیں.
جواب:۔ مصنف جمع الجوامع کا مسلک یہ ہے کہ جن اسماء کا صفات افعال کی طرف مرجع ہے تو ان کی ازلیت اس حیثیت سے ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے راجع ہیں نہ کہ فعل کی طرف پس خالق وہ ہے کہ جس کو قدرت ہے نہ کہ وہ کہ فعل خلق کے ساتھ متصف ہے اور قدرت ظاہر ہے کہ ازلی ہے اسی طرح خلق بھی ازلی ہوگی جیسا کہ اس پانی کو جو پیالہ میں رکھا ہے سیراب کرنے والا کہا جاتا ہے تو معنی اس کے یہ ہیں کہ وہ ایسی حالت کے ساتھ موصوف ہے کہ پیاسے کے پیٹ میں جائے تو اس کو سیرابی حاصل ہو جائے اور جیسا کہ تلوار کو کاٹ کرنے والی کہا جاتا ہے پس محققین نے کہا ہے کہ ضارب اس کو کہتے ہیں جو صفت ضرب کے ساتھ بالفعل متصف ہو اور ان اسماء کی ازلیت صحیح نہیں ہے پس مناسب یہ ہے کہ خالق اسمائے حسنی سے نہ شمار کیا جائے کیونکہ اسماء حسنی سب ازلی ہیں اور کسی شے کی ابتدا نہ ہونے کو ازلیت کہتے ہیں اور ہمارا قول کہ عنقریب پیدا کریں گے مستقبل کو واجب کرتا ہے پس اس کو ازل سے مقابلہ نہیں ہے کیونکہ ماضی وہ حال وہ مستقبل یہ سب زمانہ کی قسمیں ہیں اور ازل زمانہ پر مقدم ہے کیونکہ زمانہ کی طرف اولیت مضاف کی جاتی ہے اور ازل اول کی نفی اور عدم ہے
سوال:. وہ فرق جو خالق اور مخلوق کے درمیان متوہم ہوتا ہے اس کا وجود وہم میں ہوا ہے پس باری خالقیت کے ساتھ ازل میں موصوف ہے اور یہی مقصود ہے
جواب :.کے نزدیک زمانہ ایسا متجدد اور معلوم ہے کہ جسے دوسرا تجدد و مبہم ابہام کی ازالہ کے لیے اندازہ کیا جاتا ہے اور کبھی یہ انداز کرنا برعکس بھی ہوتا ہے پس کبھی یہ اس کے ساتھ انداز کیا جاتا ہے اور کبھی وہ اس کے ساتھ انداز کیے جاتے ہیں پس جب ہم کہتے ہیں کہ زید کب آیا تو جواب میں مثلا جس وقت مخاطب آفتاب نکلنے سے واقف ہو اور زید کے آنے سے واقف نہ ہو کہتے ہیں کہ آفتاب نکلنے کے وقت اور پھر اگر یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ آفتاب کب نکلا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ جب زید آیا تھا اور یہ جواب اس وقت دیا جائے گا جبکہ مخاطب زید کے آنے کو جانتا ہو اورآفتاب نکلنے کو نہ جانتا ہو اور اسی واسطے زمانہ ہر قوم کے نزدیک مختلف ہے ہر شخص شے معلوم سے شے مبہم کا اندازہ کرتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ خالق کی زمانہ اور زمانیات سب سے تنزیہہ کی جاتی ہے پس خالق اور مخلوق میں کیسے استعداد ہو سکتا ہے اور اسی واسطے امام حجت الاسلام کا مسلک یہ ہے کہ صفات اور افعال کی ازلیت صفت قدرت کی طرف راجع ہے بس ہمارا یہ کہنا کہ وہ خالق ہے مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ خلق پر قادر ہے اور اس تقدیر پر یہ لازم آتا ہے کہ لفظ خالق کا اطلاق اللہ تعالی پر قبل از خلق مجاز ہو حالانکہ خالق اسماء حسنی سے ہے اور اسماء سب حقیقتا اور بالفعل ثابت ہیں کیونکہ اللہ تعالی اس سے بری ہیں کہ کوئی شے ان کو بالقوت اور بالامکان ثابت ہو اور جس شے کو وجود بالفعل ہے وہ اس شے سے اتم ہیں جس کا وجود بالقوہ اور بالامکان ہے اور اللہ تعالی کی کوئی حالت منتظرہ جس سے وہ تمامی حاصل کرے نہیں ہے اور امام نے اس شکل سے بچنے کے لیے کہا ہے کہ قدرت ازل میں بالفعل اثر کرتی ہے لیکن مقدورات اس وقت ظاہر نہ ہوئے تھے کیونکہ ہر مقدور ایک وقت میں اور اپنی رتبہ میں ظاہر ہوتا ہے پس مقدورات کا ازل میں نہ ہونا اس سبب سے ہے کہ ارادہ ان کے متعلق نہیں ہوا نہ اس سبب سے کہ قدرت نے تاثیر نہیں کی اور بعض نے کہا ہے کہ خلق کی دو قسم ہیں اول خلق تقدیر اور وہ امر پر مقدم ہے جیسا کہ حق تعالی کے قول میں بھی اول ذکر کیا ہے فرماتے ہیں الا لہ الخلق والامر اور دوسرے قسم خلق ایجاد اور وہ امر کے پیچھے ہے اور امر اس سے رتبۃ مقدم ہے پس خالق اسمائے حسنہ میں سے ایک اسم ہے اور ازلی ہے کیونکہ وہ اس خلق سے مشتق ہے جو امر سے مقدم ہے پس اس تقریر سے واضح ہو گیا کہ تکوین کو اکثر متکلمین نے تو قدرت ہی کی طرف رد کیا ہے اور محققین صوفیا نے اس کو صفت کلام کی طرف لوٹایا ہے شیخ نے فصل میں کہا ہے کہ جب باری تعالی نے کسی شے کی تکمیل کا امر کرتے ہیں تو اس شے کا مکون ہونا اپنی ذات سے ہے پس تکوین شے کے لیے ہے حق کے لیے نہیں اور حق کا اس میں صرف امر ہے اور اسی واسطے فرمایا ہے انما قولنا لشی اذا اردناہ پس تقوین کی نسبت نفس شے کی طرف اللہ کے امر سے ہے اور یہ بات خاص باری تعالی کے ہی امر میں ان نقول لہ کن فیکون بس تقوین کی نسبت نفس شے کی طرف اللہ کے امر سے ہے اور یہ بات خاص باری تعالی کے ہی امر میں صادق ہے اور اسی واسطے اپنی طرف نسبت کر کے فرمایا اور یہ بات واقع میں معقول ہے جیسا کہ وہ شخص کہ اس کا خوف کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی نافرمانی نہیں کرتا اپنے غلام سے کہے کہ کھڑا ہو پس وہ اپنے آقا کا حکم بجا لانے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور خود آقا کو اس غلام کے کھڑے ہونے میں سوائے امر کرنے کی کوئی دخل نہیں ہے اور کھڑا ہونا خود اس غلام کا فیل ہے نہ کہ آقا کا

چونسٹھواں مرحلہ

رؤیت باری تعالی ممکن یا ناممکن

تحقیق اس کی کہ باری تعالی کی رؤیت ہو سکتی ہے یا نہیں
اللہ سبحانہ و تعالی کی رویت اشاعرہ کے نزدیک تو متحقق ہے اور اکثروں نے اس کو ممتنع کہا ہے سید شریف جرجانی نے کہا ہے کہ رویت سے اگر مراد کشف تام ہے تو اس کا امکان مسلم ہے کیونکہ اس طرف کا پردہ کھلنے اور تعلقات کے قطع ہونے کے وقت اور ملا اعلی میں جا ملنے کے وقت تمام معارف یقینیات مثل مشاہدات کے ہو جاتے ہیں اور اگر رویت سے مراد وہ حالت ہو جو اجسام کے دیکھنے کے وقت مدرک ہوتی ہے تو ایسی رویت کا امکان مسلم نہیں ہے کیونکہ ایسی حالت تو جب ہی متصور ہو سکتی ہے جب کہ اس شے دیکھی ہوئی کی صورت نقش پذیر ہو اور یا شعاع جو آنکھ سے نکلتی ہے وہ اس شے سے ملے اور یہ امر اللہ تعالی کے حق میں محال ہے اور اگر رویت سے مراد وہ حالت ہے وہ جو انسان کسی شے کے دیکھنے کے بعد علم کے پاتا ہے پس ہم کہتے ہیں کہ یہ حالت دوسری ہے جو اس حالت کے جو علم کے وقت حاصل ہوتی ہے مغائر ہے چنانچہ ہم دونوں میں فرق پاتے ہیں اور اس فرق کا مرجع صورت کے نقش پذیر ہونے اور شعاع کے نکلنے کی طرف نہیں ہے کیونکہ باوجود نقش پذیر ہونے کے اور شعاع کے نکلنے کے بھی اس حالت کا حاصل ہونا ممکن ہے پس کچھ بعید نہیں ہے کہ اللہ کی رویت اسی طریق سے ہو لیکن اس کا ثابت ہونا اس پر موقوف ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ یہ کشف تام بہ معنی مذکور کے مغائر ہے محقق دوانی نے کہا ہے کہ دیکھنے سے مراد ادراک تمام اور انکشاف بلیغ ہے جو دنیا میں تو آنکھ کھولنے اور دیکھنے والے میں اور اس شے میں محاذات اور قرب اور شعاع کے نکلنے اور یا نقش پذیر ہونے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے حق میں یہ ادراک آخرت میں بغیر ان شرائط کے حاصل ہو جائے گا اور ان شرائط کے اس دنیا میں ہماری ادراک کے شرط ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہی شرائط آخرت میں بھی شرائط ہوں کیونکہ اللہ تعالی کو قدرت ہے کہ آنکھ میں ایسی قدرت پیدا کر دیں کہ جو بغیر ان شرائط کے بھی حق کا ادراک ہو سکے یا یہ کہا جائے کہ یہ اسباب عادیہ ہیں دیکھنا بدون ان کے بھی ممکن ہے اور اہل حق نے کہا ہے کہ آخرت کی زندگی کا مزاج دنیا کی زندگی کے مزاج کے خلاف ہے ورنہ وجود ہمیشہ ابدالآباد تک کیسے باقی رہ سکتا ہے کیونکہ یہ مزاج ہمیشہ رہنے کے قابل نہیں اور دارآخرت میں محض حیات ہی حیات ہے بس ممکن ہے کہ آنکھ کے دیکھنے کا مزاج متغیر ہو جائے ختم ہوئی کلام اہل حق کی
اور اہل کشف و معائنہ کے نزدیک رویت اپنی حد ذات میں صحیح ہے لیکن رویت بغیر نورانی پردوں یا ظلمانی پردوں کے واقع نہیں ہوتی رسول اللہ ﷺنے فرمایا بے شک اللہ کے لیے ستر پردے نور کے ہیں اور ستر ظلمت کے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے جنت کی رویت کو بیان فرمایا کہ وہ مشابہ رویت چاند اور سورج کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کو دیکھیں گے اس کے درمیان اور لوگوں کے درمیان صرف رداء کبریائی ہوگی پس حجاب وہاں بھی باقی رہے گا اور وہ مرتبہ مظہر کا ہے عارف باللہ نے فرمایا ہے کہ انسان ذات بغیر مظہر کے ادراک نہیں کر سکتا اگرچہ انسان شدت سے ہلاک ہو جائے نبی ﷺسے دریافت کیا گیا کہ حضرت آپ نے اپنے پروردگار کو شب معراج میں دیکھا ہے فرمایا ہے کہ کیا نورانی بھی دیکھا جا سکتا ہے یعنی نور حقیقی مجرد کی رویت ممکن نہیں ہے حق تعالی اپنے نور کے ظہور کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے اور تمثیل کے مراتب جب ذکر کیے تو فرمایا کہ نور پر نور ہے تو ان میں سے ایک نور تو مقید ہے اور دوسرا مطلق ہے اور فرمایا کہ اللہ اپنے نور کی جس کو چاہیں ہدایت کریں یعنی اپنے اس نور سے جو مظاہر میں متعین ہے نور مطلق احادیث کی طرف جس کو چاہے ہدایت کریں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا نے رسول اللہ ﷺکی نسبت دریافت کیا کہ آپ نے پروردگار کو دیکھا یا نہیں فرمایا کہ دیکھا ہے اس سائل سے کسی نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا تھا تو فرمایا کہ نورانی کو دیکھ سکتا ہوں سائل نے پھر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے دریافت کیا فرمایا کہ حضور کا یہ فرمانا اس نور کی نسبت ہے کہ جس کا ادراک اس اعتبار سے مظاہر اور نسبت اور اضافات سے تجرد ہو ممکن نہیں ہے اور مظاہر میں اور پردوں کے پیچھے تو ادراک ممکن ہے کیونکہ ہماری بینائی نور حقیقی کی رویت پر قادر نہیں ہے اور کسی شے کو سوائے اللہ تعالی کے نور کہنا مجاز ہے اور نور حقیقی دیکھا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کا وصف خاص تو پوشیدگی ہے پس اس کو سوائے اس کے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور باطن بہ سبب غایت ظہور کے ہے جیسے کہ سورج کہ اس کی روشنی آنکھ کو چوندھیاتی ہے بس دیکھی نہیں اور باعتبار مظاہر کے بلاشبہ دیکھ سکتی ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میں نے اپنے رب کو نہایت اچھی صورت میں دیکھا اور میں نے اپنے رب کو امرد گھنگریالے بال والے کی صورت میں دیکھا اور حدیث میں صورۃ کا اثبات حق تعالی کے لیے وارد ہے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے مظاہر میں ظاہر ہوئے ہیں جیسا کہ حقیقت جبرئیلیہ بشر کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی اور جب کہ یہ امر فرشتہ کے اندر استحالہ اور انقلاب نہیں ہے بلکہ جبرائیل اپنی حقیقت پر باقی رہے اور اسی طرح دحیہ اپنی صورت پر رہے تو اللہ سبحانہ و تعالی کے حق میں سونا یا جاگنا محال نہیں ہے اور صحیح مسلم میں وارد ہوا ہے کہ حق تعالی نے دن قیامت کے ہرایک کے عقیدے کی صورت میں تجلی فرمائیں گے اور اس کی قدرت ظہور اور بطون میں برابر ہے اور جب امیر المومنین یعسوب الموحدین علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی نسبت سوال کیا تو فرمایا کہ میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھا نہیں ہے تو یہ مظاہر پر تجلی فرمانے پر محمول ہے

پینسٹھواں مرحلہ

اسمائے متضادہ اور صفات متقابلہ

اسماء الہی میں اسمائے متضادہ اور صفات متقابلہ کا بیان
جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی کی بے شمار اسماء ہیں بعض تو ان میں سے متقابل و متضاد ہیں جیسے کہ لطیفہ جمالیہ اور قہریہ جلالیہ پس ایک کا تعین دوسرے کے تعین کے متضاد ہے چنانچہ باطن کا مقتضی ظاہر کے مقتضی کے خلاف ہے اور اسماء متضادہ اور صفات متقابلہ ازل سے ابد تک ان میں سے ایک کا مقتضی ثابت ہوتا ہے اور دوسرے کا منفی ہوتا ہے اور کچھ اس میں تعطیل و تمہیل لازم نہیں آتی کیونکہ تعطیل تو ایک قسم کا عجز اور لغو اور عبث ہے اور صفت قدرت کے منافی ہے اور تعطیل کے نہ ہونے کی صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ عالم ہر آن میں معدوم ہوتا رہے اور نیا پیدا ہوتا ر ہے کیونکہ ایک آن میں دو تجلی متضاد نہیں سما سکتی اور اگر تمام اسماء کی تجلی ہر اسم کی تجلی میں ہو تو یہ لازم آتا ہے کہ ایک ہی آن میں تجلی لطفی ہو اور اسی آن میں تجلی قہری ہو مثلا پس ہر حقیقت امکانیہ کے جب شرائط وجود کے حاصل ہو جائیں تو اس کو رحمت الہیہ کہ جس کا فیض وجود ہے ادراک کرتی ہے پس وجود اس پر بقدر اس استعداد کے جس کو وہ مقتضی ہے فائز ہوتا ہے پس ظاہر وجود کہ جو باطن وجود کا ائینہ ہے عین سابقہ کے احکام کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے پس ایک تعین خاص سے کہ جو اور تعینات سے ممتاز ہے متعین ہو جاتا ہے اور وہ تعین اطلاقی نہیں ہوتا کیونکہ وہ کل مظاہر میں ظہور کی مجال نہیں رکھتا ہے پس یہ تجلی لطفی کا حاصل ہے اس کے بعد صفت قہریہ اس تعین کے اضمحلال کو اور اس کے تمام آثار کے ہلاک کرنے کو مقتضی ہوتی ہے اور لطف کے مقتضی کو اور جمال کے جاتے رہنے کو مقتضی ہوتی ہے اور اسی آن میں رحمت رحمانیہ ایک اور یقین جو پہلے کا مناسب ہے متعین ہو جاتا ہے اور اسی طرح لطف اور جمال سے تعین مقرر ہوتا رہتا ہے اور انعدام بھی ہوتا رہتا ہے جب تک اللہ چاہتے ہیں اور اسی طرف اللہ تعالی نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا کل یوم ھو فی شان یعنی وہ ہر دن ایک حال میں ہے اور فرمایا ہے بل ھم فی لبس من خلق جدید یعنی بلکہ وہ التباس میں ہے پیدائش نئی سے پس دونوں صفات متضاد میں سے ہر ایک نوبت بنوبت فعل اور اعدام میں ہے اور تعطیل لازم نہیں آتی بس بطون تو اثر جلال کا ہے اور ظہور علامت جمال کی ہے یا عرض و اعتبار ذات کے عرض ہے کیونکہ جس شے کو ظاہر بین اور کوتا ہ نظر جواہر خیال کرتے ہیں اگر اس میں نظر تدقیق سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ عرض ہے کیونکہ جس شے کو جوہر سمجھتے ہیں اگر اس کی حد میں غور کیا جائے تو سوائے عرض کے کوئی شے ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ ہر شے مرتبہ ذات میں ایسی اوصاف والی ہے کہ اس سے ماہیت دوسرے ماہیت سے ممتاز ہوتی ہے دیکھتے نہیں کہ جب یہ کہا جائے کہ انسان کیا ہے اور جواب میں حیوان ناطق کہا جاتا ہے تو نطق عرض ہے کہ جس سے انسان تمام حیوانات سے ممتاز ہو جاتا ہے اور جب یہ پوچھا جائے کہ حیوان کیا ہے اور جواب میں کہا جاتا ہے کہ ایک جسم نامی حساس متحرک بالارادہ ہے تو اس حد میں ظاہر ہے کہ نمو اور حس اور تحرک سب کے سب عرض ہیں ان سے ہی اور اجسام سے حیوان ممتاز ہوتا ہے اور جب پوچھا جاتا ہے کہ جسم کیا ہے اور جواب میں کہا جاتا ہے کہ جسم ایک جوہر ہے جو ابعاد ثلاثہ کو قبول کرے پس یہ قبول ایک عرض ہے کہ جس سے جسم اور جواہر سے ممتاز ہوتا ہے اور جب یہ پوچھا جائے کہ جوہر کیا ہے اور جواب میں کہا جاتا ہے کہ ایک ایسا موجود ہے جس کا وجود اور عدم برابر ہو پس اس کا اس برابری کے ساتھ موصوف ہونا عرض ہے پس ان مراتب میں سوائے ذات مبہم کے یعنی وجود مطلقہ کے کچھ نہیں ہے اس ذات ہی پر عرض ماہیات میں تمیز دینے کے لیے طاری ہوئے ہیں پس ذات مبہمہ وہ ہی جوہر حقیقی ہے کیونکہ وہی غیر کا مقوم ہے اور ممکن اور جواہر اور جسم اور جسم نامی اور حیوان اور انسان یہ سب اعراض ہیں جو ظاہر وجود کے ساتھ افراد معینہ اور احکام مخصوصہ کے ساتھ اس کو خاص کرنے کے لیے قائم ہے اور اس بات کا قائل ہونا بھی کہ اصحاب کشف اور مشاہدہ کے مشاہدات ہمارے قول کے مؤید ہیں اور بعض اہل نظر کہتے ہیں کہ اعراض دو زمانوں میں باقی نہیں رہ سکتی مگر یہ قائل جواہر کے حال سے غافل رہا کہ ان کی بھی یہی حالت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عالم اپنے تمام اجزاء سے یہ خیال ہے جو دو نامعلوم زمانوں میں باقی نہیں رہ سکتا لیکن یہ قائل ذات مبہمہ مطلقہ سے جو صورت عالم کی مقومہ ہے غافل رہا اور اہل کشف و مشاہدہ نے یہ ادراک کر لیا ہے کہ اللہ تعالی ہر ان میں ایک تجلی خاص میں تجلی فرماتے ہیں تجلیات میں تکرار نہیں پس ہر آن میں اس کا ایک جمال ہے جو پہلے جمال کا غیر ہے کیونکہ تکرار اگر ہو تو اس میں ایک قسم کا نقصان ہے پس دو آن میں ایک تعین کے ساتھ ہونا یا ایک آن میں دو تعین کے ساتھ ہونا دونوں نازیبا ہیں کیونکہ یہ دونوں سبب نقصان ہیں خواہ فاعلیت میں نقصان ہو یا قابلیت میں اور حالانکہ دونوں میں نقصان نہیں ہے اور اب اس کا وقت پہنچ گیا کہ قوت عاقلہ ترتیب امور سے سانس لے اور انگلیاں سطور کے لکھنے سے راحت پائیں اور کاغذ کا چہرہ قلم کی تیزی کی خراش سے متغیر ہو اور قلم اور قلم چاقو کی ضرب سے سر سے قدم تک فنا ہو جائے بس یہ آخر اس مضمون کا ہے جس کو قلم نے لکھا ہے اور میں اس کی تعریف سے 1134 ہجری نبوی ﷺنے فارغ ہوا ختم اللہ لنا بالحسنی آمین۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں