شریعت اور طریقت کی نماز فصل14

شریعت کی نماز :۔ اس نماز کی فرضیت اس آیت کریمہ سے عیاں ہے۔ ارشادالہٰی ہے۔ 

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (البقرہ :238( پابندی کرو سب نمازوں کی“ 

اس نماز سے مراد ظاہر کی جوارح سے ادا ہونے والے ارکان ہیں جس میں جسم حرکت پذیر ہو تا ہے۔ انسان قیام کر تا ہے۔ قرأت کر تا ہے۔ رکوع وسجود میں جاتا ہے۔ قعدہ کرتا ہے۔ تلاوت میں آواز ہوتی ہیں ۔ الفاظ ہوتے ہیں۔ اسی لیے حافظوا کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

طریقت کی نماز :۔ یہ دل کی نماز ہے۔ یہ نماز ابدی ہے اور اس کا ثبوت اللہ کریم کا یہ فرمان عالی شان ہے۔ 

وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ(البقرہ :238) ”اور خصوصا درمیانی نماز کی“ 

در میانی نماز سے مراد قلبی نماز ہے کیونکہ دل کو دائیں بائیں اور اوپر نیچے کے اعتبار سے جسم کے درمیان میں پیدا کیا گیا ہے۔ اسی طرح دل سعادت و شقاوت کے بھی در میان تخلیق ہوا ہے جیسا کہ رسول خداﷺکا ارشاد گرامی ہے۔

اَلْقَلبُ بينَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصابعِ الرّحمنِ يُقَلِّبُها كيْفَ يشَاء دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ اسے جیسے چاہتا ہے پھیر دیتاہے“ 

دو انگلیوں سے مراد صفت قہر(جلال) ولطف(جمال) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی انگلیوں سے پاک ہے۔ اس آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کو دلیل بنا کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اصلی نماز دل کی نماز ہے۔ 

جب کوئی شخص دل کی نماز سے غافل ہو جاتا ہے تو اس کی دونوں نمازیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یعنی دل کی نماز بھی اور جوارح(اعضاء و ظاہر) کی نماز بھی۔ جیسا کہ حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لا صَلاَةَ إلّا بِحُضُورِ القَلْبِ حضور قلب کے بغیر کوئی نماز نہیں“ 

وجہ یہ ہے کہ نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہو تا ہے۔ کلام کامحل(مقام) دل ہے۔ جب دل غافل رہاتو(باطنی) نماز باطل ٹھہری اور جوارح کی نماز بھی ٹوٹ گئی۔ کیونکہ دل اصل ہے اور باقی اعضاء اس کے تابع ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا فرمان مبارک ہے۔ 

أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ ہاں ہاں! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑاایسا بھی ہے کہ اگر صحیح ہو جائے تو سار بدن صحیح ہو جائے اور اگر بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جائے۔ یاد رہے گوشت کاوہ ٹکڑادل ہے“ 

شریعت کی نماز :۔

 اس نماز کے لیے وقت مقرر ہے۔ یہ دن رات میں پانچ مرتبہ ادا ہوتی ہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ یہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کی جائے۔ رخ کعبۃ اللہ شریف کی طرف ہو اور انسان بلا ریاء و نمود امام کی اتباع کر رہا ہو۔

طریقت کی نماز :۔

 یہ نماز پوری زندگی کو محیط ہوتی ہے۔ اس کی مسجد دل ہے۔ اور جماعت یہ ہے کہ باطن کی ساری طاقتیں اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کے ورد میں مشغول ہوں اور یہ ورد ظاہر کی زبان سے نہیں باطن کی زبان سے کیا جائے۔ اس نماز میں امام عشق ہوتا ہے جو جان کے محراب میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس نماز کا قبلہ حضرت احدیت( اللہ تعالی کی ذات یکتا) اور جمال صمدیت ہے اور یہی اصلی کعبہ ہے۔ دل اور روح على الدوام اس نماز کو ادا کرتے ہیں۔ دل نہ تو سوتا ہے اور نہ مرتا ہے وہ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں حیات قلبی کے ساتھ بلا صوت، قیام اورقعود اس نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے۔ اور بارگاہ خداوندی میں عرض کناں رہے۔ 

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُّ (الفاتحہ:5( تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں“ 

یہ درخواست حضور ﷺکی اتباع میں ہوتی ہے۔ حضرت قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں عارف کے حال کی طرف اشارہ ہے۔ وہ حال ( کیفیت قلبی) غیبت سے حضور کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس خطاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے۔ 

الأنبياءُ والأولياءُ يُصَلّونَ في قُبورِهِمْ كَما يُصلّون في بُيوتهِمْ انبیاء اور اولیاء اپنی قبروں میں بھی اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرتے ہیں“ 

مطلب یہ ہے کہ ان کے دل زندہ ہیں اس لیے وہ اللہ تعالی کی ذات اور اس کی مناجات میں مشغول رہتے ہیں۔ جب شریعت اور طریقت کی نماز جمع ہو جائے تو نماز مکمل ہو گئی۔ یعنی ایسے آدمی کی نماز ادا ہو چکی۔ ایسے آدمی کو اللہ تعالی روحانی طور پرا پنا قرب بخشتا ہے اور ثواب بھی عطا کرتا ہے۔ ایساشخص ظاہر میں عابد اور باطن میں عارف ہو تا ہے ۔ اور جب طریقت کی نماز حيات قلب کے ذریعے ادا نہیں ہوتی تو اجر ثواب کی صورت میں ملتا ہے قربت کی صورت میں نہیں۔ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ93 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں